رُسومات

توہمات کی حقیقت

س… جہالت کی وجہ سے برِصغیر میں بعض مسلمان گھرانوں کے لوگ مندرجہ ذیل عقیدوں پر یقین رکھتے ہیں، مثلاً: گائے کا اپنی سینگ پر دُنیا کو اُٹھانا، پہلے بچے کی پیدائش سے پہلے کوئی کپڑا نہیں سیا جائے، بچے کے کپڑے کسی کو نہ دئیے جائیں، کیونکہ بانجھ عورتیں جادُو کرکے بچے کو نقصان پہنچاسکتی ہیں، بچے کو بارہ بجے کے وقت پالنے یا جھولے میں نہ لٹایا جائے کیونکہ بھوت پریت کا سایہ ہوجاتا ہے، بچے کو زوال کے وقت دُودھ نہ پلایا جائے اور اگر بچے کو کوئی پیچیدہ بیماری ہوجائے تو اس کو بھی بھوت پریت کا سایہ کہہ کر جھاڑ پھونک اور جادُو ٹونا کرتی ہیں، اور دُوسرے مسائل وغیرہ۔ میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اسلام میں ان باتوں کا کوئی وجود ہے؟ کیا یہ ایمان کی کمزوری کی باتیں نہیں ہیں؟ اگر ہمارا ایمان پختہ ہو تو ان توہمات سے چھٹکارا حاصل کرنا کوئی مشکل نہیں۔ شاید آپ کے جواب سے لاکھوں گھروں کی جہالت دُور ہوجائے اور لوگ فضول توہمات پر یقین رکھنے کی بجائے اپنا ایمان پختہ کریں۔

ج… آپ نے جو باتیں لکھی ہیں، وہ واقعةً توہم پرستی کے ذیل میں آتی ہیں۔ جنات کا سایہ ہونا ممکن ہے اور بعض کو ہوتا بھی ہے، لیکن بات بات پر سائے کا بھوت سوار کرلینا غلط ہے۔

بچوں کو کالے رنگ کا ڈورا باندھنا یا کاجل کا ٹکا لگانا

س… لوگ عموماً چھوٹے بچوں کو نظرِبد سے بچانے کے لئے کالے رنگ کا ڈورا یا پھر کالا کاجل کا ٹکا نما لگادیتے ہیں کیا یہ عمل شرعی لحاظ سے دُرست ہے؟

ج… اگر اعتقاد کی خرابی نہ ہو تو جائز ہے، مقصد یہ ہوتا ہے کہ بدنما کردیا جائے تاکہ نظر نہ لگے۔

سورج گرہن اور حاملہ عورت

س… ہمارے معاشرے میں یہ بات بہت مشہور ہے اور اکثر لوگ اسے صحیح سمجھتے ہیں کہ جب چاند کو گرہن لگتا ہے یا سورج کو گرہن لگتا ہے تو حاملہ عورت یا اس کا خاوند (اس دن یا رات کو جب سورج یا چاند کو گرہن لگتا ہے) آرام کے سوا کوئی کام بھی نہ کریں، مثلاً: اگر خاوند دن کو لکڑیاں کاٹے یا رات کو وہ اُلٹا سوجائے تو جب بچہ پیدا ہوگا تو اس کے جسم کا کوئی نہ کوئی حصہ کٹا ہوا ہوگا یا وہ لنگڑا ہوگا یا اس کا ہاتھ نہیں ہوگا، وغیرہ۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کا جواب عنایت فرمائیں اور یہ بھی بتائیں کہ اس دن یا رات کو کیا کرنا چاہئے؟

ج… حدیث میں اس موقع پر صدقہ و خیرات، توبہ و اِستغفار، نماز اور دُعا کا حکم ہے، دُوسری باتوں کا ذکر نہیں، اس لئے ان کو شرعی چیز سمجھ کر نہ کیا جائے۔

سورج اور چاند گرہن کے وقت حاملہ جانوروں کے گلے سے رسیاں نکالنا

س… چاند اور سورج گرہن کی کتاب و سنت کی نظر میں کیا حقیقت ہے؟ قرآن اور سنت کی روشنی میں بتائیں کہ یہ دُرست ہے یا کہ غلط کہ جب سورج یا چاند کو گرہن لگتا ہے تو حاملہ گائے، بھینس، بکری اور دیگر جانوروں کے گلے سے رسے یا سنگل کھول دینے چاہئیں یا یہ صرف توہمات ہی ہیں؟

ج… چاند گرہن اور سورج گرہن کو حدیث میں قدرتِ خداوندی کے ایسے نشان فرمایا گیا ہے، جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈرانا چاہتے ہیں، اور اس موقع پر نماز، صدقہ خیرات اور توبہ و اِستغفار کا حکم دیا گیا ہے۔ باقی سوال میں جس رسم کا تذکرہ ہے اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔

ہمارے خیال میں یہ توہم پرستی ہے جو ہندو معاشرے سے ہمارے یہاں منتقل ہوئی ہے، والله اعلم!

عیدی مانگنے کی شرعی حیثیت

س… عید کے دنوں میں جس کو دیکھو عیدی لینے پر تلا ہوا ہوتا ہے، خیر بچوں کا تو کیا کہنا، گوشت والے کو دیکھو، سبزی والے کو دیکھو۔ میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس طرح جو عیدی لوگ لیتے ہیں وہ حرام ہے یا اس کی کوئی شرعی حیثیت بھی ہے؟

ج… عیدی مانگنا تو جائز نہیں، البتہ خوشی سے بچوں کو، ماتحتوں کو، ملازموں کو ہدیہ دے دیا جائے تو بہت اچھا ہے، مگر اس کو لازم اور ضروری نہ سمجھا جائے، نہ اس کو سنت تصوّر کیا جائے۔

سالگرہ کی رسم انگریزوں کی ایجاد ہے

س… بڑے گھرانوں اور عموماً متوسط گھرانوں میں بھی بچوں کی سالگرہ منائی جاتی ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ جائز ہے؟ رشتہ داروں اور دوست احباب کو مدعو کرلیا جاتا ہے جو اپنے ساتھ بچے کے لئے تحفے تحائف لے کر آتے ہیں، خواتین و حضرات بلاتمیز محرَم و غیرمحرَم کے ایک ہی ہال میں کرسیوں پر براجمان ہوجاتے ہیں، یا ایک بڑی میز کے گرد کھڑے ہوجاتے ہیں، بچہ ایک بڑا سا کیک کاٹتا ہے اور پھر تالیوں کی گونج میں “سالگرہ مبارک ہو” کی آوازیں آتی ہیں، اور جناب تحفے تحائف کے ساتھ ساتھ پُرتکلف چائے اور دیگر لوازمات کا دور چلتا ہے۔

ج… سالگرہ منانے کی رسم انگریزوں کی جاری کی ہوئی ہے، اور جو صورت آپ نے لکھی ہے وہ بہت سے ناجائز اُمور کا مجموعہ ہے۔

سالگرہ کی رسم میں شرکت کرنا

س… ایک شخص خود سالگرہ نہیں مناتا، لیکن اس کا کوئی بہت ہی قریبی عزیز اسے سالگرہ میں شرکت کی دعوت دیتا ہے، کیا اسے شرکت کرنی چاہئے؟ کیونکہ اسلام یوں تو دُوسروں کی خوشیوں میں شرکت اور دعوتوں میں جانے کو ترجیح دیتا ہے۔

ج… فضول چیزوں میں شرکت بھی فضول ہے۔

س… میں ڈی ایم سی کی طالبہ ہوں، کالج میں جس لڑکی کی سالگرہ ہوتی ہے وہ کالج ہی میں ٹریٹ (دعوت) دیتی ہے، کیا ٹریٹ میں شرکت کرنی چاہئے؟

ج… فضول چیزوں میں شرکت بھی فضول ہے۔

س… اگر شرکت نہ کریں اور وہ خود جس کی سالگرہ ہو آکر ہمیں کیک اور دُوسری اشیاء دے تو کھالینی چاہئے یا انکار کردینا چاہئے؟

ج… اگر اس فضول میں شرکت مطلوب ہو تو کھالیا جائے، ورنہ انکار کردیا جائے۔

س… اگر سالگرہ میں جانا مناسب نہیں ہے تو صرف سالگرہ کا تحفہ اس دعوت کے بعد یا پہلے دے دینا کیسا ہے؟ کیونکہ لوگ پھر یہ کہیں گے کہ تحفہ نہ دینا پڑے اس لئے نہ آئے، حالانکہ اسلام تو خود اجازت دیتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بھی ہے کہ ایک دُوسرے کو تحائف دیا کرو اس سے محبت بڑھتی ہے۔

ج… تحفہ دینا اچھی بات ہے، لیکن سالگرہ کی بنا پر دینا بدعت ہے۔

س… ہم خود سالگرہ نہ منائیں، لیکن کوئی دُوسرا ہمیں کارڈ یا تحفہ دے (سالگرہ کا) تو اسے قبول کرنا چاہئے یا انکار کردینا چاہئے؟ حالانکہ انکار کرنا کچھ عجیب سا لگے گا۔

ج… اُوپر لکھ چکا ہوں، انکار کرنا عجیب اس لئے لگتا ہے کہ دِل و دِماغ میں انگریزیت رچ بس گئی ہے، اسلام اور اسلامی تمدن نکل چکا ہے۔

س… کالج میں عموماً سالگرہ کی مبارک باد دینے کے لئے سالگرہ کے کارڈز دئیے جاتے ہیں، کیا وہ دینا دُرست ہے؟ ایک صاحب کا کہنا ہے کہ دُرست ہے کیونکہ یہ ایک دُوسرے کی خوشیوں میں شرکت کا اظہار ہے۔

ج… یہ بھی اسی فضول رسم کی شاخ ہے، جب سالگرہ کی خوشی بے معنی ہے، تو اس میں شرکت بھی بے معنی ہے۔

مکان کی بنیاد میں خون ڈالنا

س… میں نے ایک عدد پلاٹ خریدا ہے اور میں اس کو بنوانا چاہتا ہوں، میں نے اس کی بنیاد رکھنے کا ارادہ کیا تو ہمارے بہت سے رشتہ دار کہنے لگے کہ: “اس کی بنیادوں میں بکرے کو کاٹ کر اس کا خون ڈالنا اور گوشت غریبوں میں تقسیم کردینا اچھا ہے” اور بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ: “بنیادوں میں تھوڑا سا سونا یا چاندی ڈالو، ورنہ آئے دن بیمار رہوگے” میں نے جہاں پلاٹ لیا ہے وہاں بہت سے مکان بنے ہیں اور زیادہ تر لوگوں نے بکرے وغیرہ کا خون بنیادوں میں ڈالا ہے، میں نے اس سلسلے میں اپنے اُستاد سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ: “میاں! خون اور سونا یا چاندی بنیادوں میں ڈالنا سب ہندوانی رسمیں ہیں” اس سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

ج… آپ کے اُستاد صاحب نے صحیح فرمایا ہے، مکان کی بنیاد پر بکرے کا خون یا سونا چاندی ڈالنے کی کوئی شرعی اصل نہیں۔

نئے عیسوی سال کی آمد پر خوشی

س… کیا نئے عیسوی سال کی آمد پر خوشی منانا جائز ہے؟

ج… عیسائیوں کی رسم ہے، اور مسلمان جہالت کی وجہ سے مناتے ہیں۔

دریا میں صدقے کی نیت سے پیسے گرانا موجبِ وبال ہے

س… دریا کے پلوں سے گزرتے ہوئے اکثر مسافر پانی میں روپے پیسے بہادیتے ہیں، کیا یہ عمل صدقے کی طرح دافعِ بلا ہے؟

ج… یہ صدقہ نہیں، بلکہ مال کو ضائع کرنا ہے، اس لئے کارِ ثواب نہیں، بلکہ موجبِ وبال ہے۔

مخصوص راتوں میں روشنی کرنا اور جھنڈیاں لگانا

س… کیا ستائیسویں رمضان کی شب اور بارہ ربیع الاوّل کی شب کو روشنیوں اور جھنڈیوں کا انتظام کرنا باعثِ ثواب ہے؟

ج… خاص راتوں میں ضرورت سے زیادہ روشنی کے انتظام کو فقہاء نے بدعت اور اِسراف (فضول خرچی) کہا ہے۔

غلط رُسومات کا گناہ

س… ہم لوگ مسلمانوں کے فرقے سے ہیں، ہماری برادری کی اکثریت کاٹھیاوار (گجراتی) بولنے والوں کی ہے، ہم لوگوں پر اپنے آباء و اجداد کے رائج رُسوم، طریقہ و رواج کے اثرات ہیں، جن کے مطابق ہم لوگ بڑی پابندی سے ذکر کردہ رُسوم و طریقے پر عمل کرتے ہیں، جن کی بنا پر ہم لوگ (بہت مصروف ہوتے ہیں) ہم لوگ نماز نہیں پڑھتے، بعض ہماری رُسوم ایسی ہوتی ہیں کہ رات کافی دیر تک ہوتی ہیں۔ رمضان میں ہم روزہ نہیں رکھتے، زکوٰة کو ہم “وسوند” کہتے ہیں، فرق یہ ہے کہ روپیہ پر ہم دو آنہ دیتے ہیں، ذکر کردہ تمام رُسوم، طریقے کو ہم گجراتی میں الگ الگ نام سے پکارتے ہیں، جن میں خاص خاص کے نام یہ ہیں: مجلس دُعا، نادی چاند رات کی مجلس، گھٹ پاٹ، جرا، بول اسم اعظم نورانی، فدائی، بخشونی، ستارے جی تسبیحات، پھاڑا نیچے بھائیوں کی مجلس وغیرہ وغیرہ، (یہ سب نام گجراتی میں لکھے گئے ہیں)، آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ چونکہ مسلمان ہم سب ہیں، کیا ہمیں ان رُسوم، طریقہ و رواج کو اپنائے رکھنا چاہئے یا ترک کردیں؟ کیونکہ ان کی بنا پر ہماری عبادات مخل ہوتی ہیں، اور کیا ہم لوگ ان رُسومات کی بنا پر کہیں گناہگار تو نہیں ہو رہے؟

ج… چند باتیں اچھی طرح سمجھ لیجئے:

ا:… دِینِ اسلام کے ارکان کا ادا کرنا اور ان کو ضروری سمجھنا ہر مسلمان پر فرض ہے، اور ان کو چھوڑنے کی کسی حالت میں بھی اجازت نہیں، اس لئے آپ یا آپ کی برادری کے جو لوگ اسلامی ارکان کے تارک ہیں وہ اس کی وجہ سے سخت گناہگار ہیں، اس سے توبہ کرنی چاہئے۔

۲:… آپ نے جن رُسومات کا ذکر کیا ہے، ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے، ان کو شرعی عبادت سمجھ کر ادا کرنا بہت ہی غلط بات ہے۔

۳:… جس مشغولی کی وجہ سے فرائض ترک ہوجائیں، ایسی مشغولی بھی ناجائز ہے۔

ان تین نکات میں آپ کے تمام سوالوں کا جواب آگیا۔

مایوں اور مہندی کی رسمیں غلط ہیں

س… آج کل شادی کی تقریبات میں طرح طرح کی رُسومات کی قید لگائی جاتی ہے، معلوم نہیں کہ یہ کہاں سے آئی ہیں؟ لیکن اگر ان سے منع کرو تو جواب ملتا ہے کہ: “نئے نئے مولوی، نئے نئے فتوے” جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دُلہن کو شادی سے چند دن پہلے پیلے رنگ کا جوڑا پہناکر گھر کے ایک کونے میں بٹھادیا جاتا ہے، اس حصے میں جہاں دُلہن ہو اسے پردے میں کردیا جاتا ہے (چادر وغیرہ سے) حتیٰ کہ باپ، بھائی وغیرہ یعنی محارِمِ شرعی سے بھی اسے پردہ کرایا جاتا ہے، اور باپ، بھائی وغیرہ (یعنی محارِم) سے پردہ نہ کرانے کو انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے (چاہے شادی کے دنوں سے پہلے وہ لڑکی بے پردہ ہوکر کالج ہی کیوں نہ جاتی ہو)۔ اس رسم کا خواتین بہت زیادہ اہتمام کرتی ہیں اور اسے “مایوں بٹھانا” کے نام سے یاد کرتی ہیں، اگر کم دن بٹھایا جائے تو بھی بہت زیادہ اعتراض کرتی ہیں کہ: “صرف دو دن پہلے مایوں بٹھایا؟” اس کی شرعی حیثیت کیا ہے اور کیا اس کا کسی بھی طرح سے اہتمام کرنا چاہئے یا کہ اسے بالکل ہی ترک کردینا صحیح ہے؟

ج… “مایوں بٹھانے” کی رسم کی کوئی شرعی اصل نہیں، ممکن ہے جس شخص نے یہ رسم ایجاد کی ہے، اس کا مقصد یہ ہو کہ لڑکی کو تنہا بیٹھنے، کم کھانے اور کم بولنے، بلکہ نہ بولنے کی عادت ہوجائے اور اسے سسرال جاکر پریشانی نہ ہو۔ بہرحال اس کو ضروری سمجھنا اور محارِمِ شرعی تک سے پردہ کرادینا نہایت بے ہودہ بات ہے، اگر غور کیا جائے تو یہ رسم لڑکی کے حق میں “قیدِ تنہائی” بلکہ زندہ درگور کرنے سے کم نہیں۔ تعجب ہے کہ روشنی کے زمانے میں تاریک دور کی یہ رسم خواتین اب تک سینے سے لگائے ہوئے ہیں اور کسی کو اس کی قباحت کا احساس نہیں ہوتا․․․!

س… اسی طرح سے ایک رسم “مہندی” کے نام سے موسوم کی جاتی ہے، ہوتا کچھ اس طرح ہے کہ ایک دن دُولہا کے گھر والے مہندی لے کر دُلہن کے گھر آتے ہیں اور دُوسرے دن دُلہن والے، دُولہا کے گھر مہندی لے کر جاتے ہیں، اس رسم میں عورتوں اور مردوں کا جو اختلاط ہوتا ہے اور جس طرح کے حالات اس وقت ہوتے ہیں وہ ناقابلِ بیان ہیں، یعنی حد درجے کی بے حیائی وہاں برتی جاتی ہے، اور اگر کہا جائے کہ یہ رسم ہندووٴں کی ہے اسے نہ کرو تو بعض لوگ تو اس رسم کو اپنے ہی گھر منعقد کرلیتے ہیں (یعنی ایک دُوسرے کے گھر جانے کی ضرورت نہیں رہتی)، مگر کرتے ضرور ہیں، جوان لڑکیاں بے پردہ ہوکر گانے گاتی ہیں اور بڑے بڑے حضرات جو اپنے آپ کو بہت زیادہ دِین دار کہتے ہیں، ان کے گھروں میں بھی اس رسم کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔

ج… مہندی کی رسم جن لوازمات کے ساتھ ادا کی جاتی ہے، یہ بھی دورِ جاہلیت کی یادگار ہے، جس کی طرف اُوپر اشارہ کرچکا ہوں، اور یہ تقریب جو بظاہر بڑی معصوم نظر آتی ہے بہت سے محرّمات کا مجموعہ ہے، اس لئے پڑھی لکھی خصوصاً دِین دار خواتین کو اس کے خلاف احتجاج کرنا چاہئے اور اس کو یکسر بند کردینا چاہئے، بچی کے مہندی لگانا تو بُرائی نہیں، لیکن اس کے لئے تقریبات منعقد کرنا اور لوگوں کو دعوتیں دینا، جوان لڑکوں اور لڑکیوں کا شوخ رنگ اور بھڑکیلے لباس پہن کر بے محابا ایک دُوسرے کے سامنے جانا بے شرمی و بے حیائی کا مرقع ہے۔

شادی کی رُسومات کو قدرت کے باوجود نہ روکنا شرعاً کیسا ہے؟

س… شادی کی رُسومات کو اگر روکنے کی قدرت ہو تو بھی ان کو اپنے گھروں میں ہونے دینا کیسا ہے؟ یعنی ان رُسومات سے روکا نہ جائے بلکہ ناجائز سمجھتے ہوئے بھی کرایا جائے تو اس شخص کے لئے کیا حکم ہے؟ نیز ان رُسومات کو کس حد تک روکا جائے؟ آیا کہ بالکل ہونے ہی نہ دیا جائے یا صرف یہ کہہ دینا: “بھئی یہ کام نہیں ہوگا اس گھر میں” بھی کافی ہے؟

ج… ایمان کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ بُرائی کو ہاتھ سے روکا جائے، درمیانہ درجہ یہ ہے کہ زبان سے روکا جائے، اور سب سے کمزور درجہ یہ ہے کہ اگر ہاتھ سے یا زبان سے منع کرنے کی قدرت نہ ہو تو کم سے کم دِل سے بُرا سمجھے۔ جو لوگ قدرت کے باوجود ایسے حرام کاموں سے نہیں روکتے، نہ دِل سے بُرا جانتے ہیں ان میں آخری درجے کا بھی ایمان نہیں۔

شادی کی مووی بنانا اور فوٹو کھنچواکر محفوظ رکھنا

س… شادی میں فوٹوگرافی کی رسم بھی انتہائی ضروری ہے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ تصویرکشی حرام ہے، لوگ اس کے کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا جو تصویریں کم علمی کے باعث پہلے بنوائی جاچکی ہیں، ان کا دیکھنا یا ان کا رکھنا کیسا ہے؟ آیا کہ ان کو بھی جلادیا جائے یا انہیں رکھ سکتے ہیں؟ اور جو اِن تصاویر کو سنبھال کر رکھے گا اور ان کی حرمت ثابت ہونے کے باوجود انہیں جلاتا نہیں ہے اس کے لئے شریعت کیا حکم دیتی ہے؟

ج… تصویر بنانا، دیکھنا اور رکھنا شرعاً حرام ہے، تصویر بنائی ہی نہ جائے اور جو بے ضرورت ہو اس کو تلف کردیا جائے، اور اللہ تعالیٰ سے اِستغفار کیا جائے۔

س… فوٹوگرافی کے علاوہ (مووی بنانا) یعنی ویڈیو کیمرے کے ذریعے سے تصویرکشی کرنا کیسا ہے؟ اس کا بنوانا، اس کا دیکھنا اور اس کا رکھنا کیسا ہے؟ اگر بنانے والا اپنا محرَم ہی ہو تو پھر کیسا ہے (یعنی بے پردگی نہیں ہوگی)؟

ج… “مووی بنانا” بھی تصویرسازی میں داخل ہے، ایسی تقریبات، جن میں ایسے حرام اُمور کا ارتکاب کرکے اللہ تعالیٰ کی ناراضی مول لی جائے، موجبِ لعنت ہیں، اور ایسی شادی کا انجام “خانہ بربادی” کے سوا کچھ نہیں نکلتا، ایسی خرافات سے توبہ کرنی چاہئے۔

عذر کی وجہ سے اُنگلیاں چٹخانا

س… میری اور میری دُوسری بہنوں کی اُنگلیاں چٹخانے کی عادت ہے، اگر اُنگلیاں چٹخائے ایک یا ڈیڑھ گھنٹہ ہوجائے تو ہاتھوں میں درد ہونے لگتا ہے، جبکہ ہماری امی اس حرکت سے سخت منع کرتی ہیں اور وہ کہتی ہیں کہ اُنگلیاں چٹخانا حرام ہے۔ آپ براہِ کرم مجھے یہ بتائیں کہ کیا واقعی یہ حرکت کرنا حرام ہے یا شریعت میں اس کے متعلق کوئی حکم ہے؟

ج… اُنگلیاں چٹخانا مکروہ ہے اور اس کی عادت بہت بُری ہے۔

رات کو اُنگلیاں چٹخانا

س… کیا اُنگلی چٹخانا گناہ ہے؟ کیونکہ ہمارے ایک دوست نے کہا کہ رات میں اُنگلی نہیں چٹخانا چاہئے، اس سے فرشتے نہیں آتے، کیونکہ اُنگلی چٹخانا نحوست کی علامت ہے۔ تو آپ بتائیے کہ کیا یہ دُرست ہے یا نہیں؟

ج… اُنگلیاں چٹخانا مکروہ ہے۔

کیا اُنگلیاں چٹخانا منحوس ہے؟

س… کیا اُنگلیاں چٹخانا منحوس ہے؟ اور اگر ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟

ج… اسلام نحوست کا قائل نہیں، البتہ نماز میں اُنگلیاں چٹخانا مکروہ ہے اور بیرونِ نماز بھی پسندید نہیں، فعلِ عبث ہے۔

ماتمی جلوس کی بدعت

س… ماتمی جلوس کی شریعت میں کیا حیثیت ہے؟ کب اور کیسے ایجاد ہوئے؟ نیز یہ کہ حالیہ واقعات میں علمائے اہلِ سنت نے کیا تجاویز پیش کیں؟

ج… محرّم کے ماتمی جلوسوں کی بدعت چوتھی صدی کے وسط میں معزالدولہ دیلمی نے ایجاد کی، شیعوں کی مستند کتاب “منتہی الآمال” (ج:۱ ص:۴۵۳) میں ہے:

“جملہ (ای موٴرّخین) نقل کردہ اند کہ ۳۵۲ھ (سی صد وپنجاہ و دو) روز عاشور معزالدولہ دیلمی امر کرد اہلِ بغداد رابہ نوحہ ولطمہ وماتم بر اِمام حسین وآنکہ زنہا مویہا را پریشان و صورتہا را سیاہ کنند وبازارہا رابہ بندند، وبرد کانہا پلاس آویزاں نمائند، وطباخین طبخ نہ کنند، وزنہائے شیعہ بیروں آمدند در حالیکہ صورتہا رابہ سیاہی دیگ وغیرہ سیاہ کردہ بودند وسینہ می زدند، ونوحہ می کردند، سالہا چنیں بود۔ اہلِ سنت عاجز شدند از منع آں، لکون السلطان مع الشیعة۔”

ترجمہ:… “سب موٴرِّخین نے نقل کیا ہے کہ ۳۵۲ھ میں عاشورہ کے دن معزالدولہ دیلمی نے اہلِ بغداد کو اِمام حسین رضی اللہ عنہ پر نوحہ کرنے، چہرہ پیٹنے اور ماتم کرنے کا حکم دیا اور یہ کہ عورتیں سر کے بال کھول کر اور منہ کالے کرکے نکلیں، بازار بند رکھے جائیں، دُکانوں پر ٹاٹ لٹکائے جائیں اور طباخ کھانا نہ پکائیں۔ چنانچہ شیعہ خواتین نے اس شان سے جلوس نکالا کہ دیگ وغیرہ کی سیاہی سے منہ کالے کئے ہوئے تھے اور سینہ کوبی و نوحہ کرتی ہوئی جارہی تھیں۔ سالہا سال تک یہی رواج رہا اور اہلِ سنت اس (بدعت) کو روکنے سے عاجز رہے، کیونکہ بادشاہ شیعوں کا طرف دار تھا۔”

حافظ ابنِ کثیر نے “البدایہ والنہایہ” میں ۳۵۲ھ کے ذیل میں یہی واقعہ اس طرح نقل کیا ہے:

“فی عاشر المحرّم من ھٰذہ السنة أمر معزالدولة بن بویہ -قبحہ الله- ان تغلق الأسواق، وان یلبس النساء المسوج من الشعر، وأن یخرجن فی الأسواق حاسرات عن وجوھھن ناشرات شعورھن یلطمن وجوھھن ینحن علی الحسین بن علی بن أبی طالب۔ ولم یکن أھل السنّة منع ذٰلک لکثرة الشیعة وظھورھم وکون السلطان معھم۔”

(البدایہ والنہایہ ج:۱۱ ص:۲۴۳)

ترجمہ:… “اس سال (۳۵۲ھ) کی محرّم دسویں تاریخ کو معزالدولہ بن بویہ دیلمی نے حکم دیا کہ بازار بند رکھے جائیں، عورتیں بالوں کے ٹاٹ پہنیں اور ننگے سر، ننگے منہ، بالوں کو کھولے ہوئے، چہرے پیٹتی ہوئی اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر نوحہ کرتی، بازاروں میں نکلیں، اہلِ سنت کو اس سے روکنا ممکن نہ ہوا، شیعوں کی کثرت و غلبہ کی وجہ سے اور اس بنا پر کہ حکمران ان کے ساتھ تھا۔”

اس سے واضح ہے کہ چوتھی صدی کے وسط تک اُمت ان ماتمی جلوسوں سے یکسر ناآشنا تھی، اس طویل عرصے میں کسی سنی اِمام نے تو درکنار، کسی شیعہ مقتداء نے بھی اس بدعت کو روا نہیں رکھا، ظاہر ہے کہ ان ماتمی جلوسوں میں اگر ذرا بھی خیر کا پہلو ہوتا تو خیرالقرون کے حضرات اس سے محروم نہ رہتے، حافظ ابنِ کثیر کے بقول:

“وھٰذا تکلف لا حاجة الیہ فی الاسلام، ولو کان ھٰذا امرًا محمودًا لفعلہ خیر القرون وصدر ھٰذہ الأُمَّة وخیرتھا۔ وھم أوْلٰی بہ ولو کان خیر ما سبقونا الیہ وأھل السنة یقتدون ولا یبتدعون۔”

(البدایہ والنہایہ ج:۱۱ ص:۲۵۴)

ترجمہ:… “اور یہ ایک ایسا تکلف ہے جس کی اسلام میں کوئی حاجت و گنجائش نہیں، ورنہ اگر یہ اَمر لائقِ تعریف ہوتا تو خیرالقرون اور صدرِ اوّل کے حضرات جو بعد کی اُمت سے بہتر و افضل تھے، وہ اس کو ضروری کرتے کہ وہ خیر و صلاح کے زیادہ مستحق تھے، پس اگر یہ خیر کی بات ہوتی تو وہ یقینا اس میں سبقت لے جاتے اور اہلِ سنت، سلف صالحین کی اقتدا کرتے ہیں، ان کے طریقے کے خلاف نئی بدعتیں اختراع نہیں کیا کرتے۔”

الغرض جب ایک خود غرض حکمران نے اس بدعت کو حکومت و اقتدار کے زور سے جاری کیا اور شیعوں نے اس کو جزوِ ایمان بنالیا تو اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ اگلے ہی سال یہ ماتمی جلوس سنی شیعہ فساد کا اکھاڑا بن گیا اور قاتلینِ حسین نے ہر سال ماتمی جلوسوں کی شکل میں معرکہٴ کربلا برپا کرنا شروع کردیا، حافظ ابنِ کثیر ۳۵۳ھ کے حالات میں لکھتے ہیں:

“ثم دخلت سنة ثلاث وخمسین وثلاث مائة، فی عاشر المحرّم منھا عملت الرافضة عزأ الحسین کما تقدم فی السنة الماضیة، فاقتتل الروافض أھل السُّنَّة فی ھٰذا الیوم قتالًا شدیدًا وانتھبت الأموال۔”

(البدایہ والنہایہ ج:۱۱ ص:۲۵۳)

ترجمہ:… “پھر ۳۵۳ھ شروع ہوا تو رافضیوں نے دس محرّم کو گزشتہ سال کے مطابق ماتمی جلوس نکالا، پس اس دن روافض اور اہلِ سنت کے درمیان شدید جنگ ہوئی اور مال لوٹے گئے۔”

چونکہ فتنہ و فساد ان ماتمی جلوسوں کا لازمہ ہے، اس لئے اکثر و بیشتر اسلامی ممالک میں اس بدعتِ سیئہ کا کوئی وجود نہیں، حتیٰ کہ خود شیعی ایران میں بھی اس بدعت کا یہ رنگ نہیں جو ہمارے ہاں کربلائی ماتمیوں نے اختیار کر رکھا ہے، حال ہی میں ایران کے صدر کا بیان اخبارات میں شائع ہوا، جس میں کہا گیا:

“عَلم اور تعزیہ غیراسلامی ہے۔ عاشورہ کی مروّجہ رُسوم غلط ہیں۔ ایران کے صدر خامنہ ای کی تنقید۔ تہران (خصوصی رپورٹ) ایران کے صدر خامنہ ای نے کہا ہے کہ یومِ عاشورہ پر اِمام حسین رضی اللہ عنہ کی یاد تازہ کرنے کے مروّجہ طریقے یکسر غلط اور غیراسلامی ہیں۔ اسلام آباد کے انگریزی اخبار “مسلم” کی رپورٹ کے مطابق ایرانی سربراہِ مملکت نے نمازِ جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ یہ طریقہ نمود و نمائش پر مبنی اور اسلامی اُصولوں کے منافی ہے۔ فضول خرچی اور اِسراف ہمیں اِمام حسین رضی اللہ عنہ کے راستے سے دُور کردیتا ہے۔ انہوں نے عَلم اور تعزیے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ خواہ یہ محراب و گنبد کی شکل میں ہی کیوں نہ ہوں، یاد تازہ کرنے کی اسلامی شکل نہیں، ان نمائشی چیزوں پر رقم خرچ کرنا حرام ہے اور عاشورہ کی رُوح کے منافی ہے، کیونکہ یومِ عاشورہ تفریح کا دن نہیں ہے۔ اِمام خمینی کے فتویٰ کا حوالہ دیتے ہوئے صدر خامنہ ای نے کہا کہ مذہبی تقریبات کے دوران لاوٴڈ اسپیکر کو بہت اُونچی آواز میں استعمال نہیں کرنا چاہئے اور عزاداری کے مقام پر بھی پڑوسیوں کو کوئی تکلیف نہیں پہنچانا چاہئے۔ لوگوں کو ماتم کرنے پر مجبور نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی اس رسم کو لوگوں کے لئے تکلیف دہ ہونا چاہئے۔”

(روزنامہ “جنگ” کراچی پیر ۱۹/ محرم ۱۴۰۵ھ، ۱۵/اکتوبر ۱۹۸۴ء)

ہند و پاک میں یہ ماتمی جلوس انگریزوں کے زمانے میں بھی نکلتے رہے اور “اسلامی جمہوریہ پاکستان” میں بھی ان کا سلسلہ جاری رہا، اہلِ سنت نے اکثر و بیشتر فراخ دِلی و رواداری سے کام لیا اور فضا کو پُرامن رکھنے کی کوشش کی، لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود کبھی یہ بدعت فتنہ و فساد سے مبرا نہیں رہی۔ انگریزوں کے دور میں تو ان ماتمی جلوسوں کی اجازت قابلِ فہم تھی کہ “لڑاوٴ اور حکومت کرو” انگریزی سیاست کی کلید تھی، لیکن یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد اس فتنہ و فساد کی جڑ کو کیوں باقی رکھا گیا جو ہر سال بہت سی قیمتی جانوں کے ضیاع اور ملک کے دو طبقوں کے درمیان کشیدگی اور منافرت کا موجب ہے․․․؟ بظاہر اس بدعتِ سیئہ کو جاری رکھنے کے چند اسباب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہمارے اربابِ حل و عقد نے ان ماتمی جلوسوں کے حسن و قبح پر نہ تو اسلامی نقطہٴ نظر سے غور کیا اور نہ ان معاشرتی نقصانات اور مضرتوں کا جائزہ لیا جو اِن تمام ماتمی جلوسوں کے لازمی نتائج کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ ایک نظام جو انگریزوں کے زمانے سے چلا آتا تھا انہوں نے بس اسی کو جوں کا توں برقرار رکھنا ضروری سمجھا اور اس میں کسی تبدیلی کو شانِ حکمرانی کے خلاف تصوّر کیا۔ عاشورائے محرّم میں جو قتل و غارت اور فتنہ و فساد ہوتا ہے، وہ ان کے خیال میں کوئی غیرمعمولی بات نہیں جس پر کسی پریشانی کا اظہار کیا جائے، یا اسے غور و فکر کے لائق سمجھا جائے۔ دُوسرا سبب یہ کہ اہلِ سنت کی جانب سے ہمیشہ فراخ قلبی و رواداری کا مظاہرہ کیا گیا، اور ان شرانگیز ماتمی جلوسوں پر پابندی کا مطالبہ نہیں کیا گیا اور ہمارے حکمرانوں کا مزاج ہے کہ جب تک مطالبے کی تحریک نہ اُٹھائی جائے وہ کسی مسئلے کو سنجیدہ غور و فکر کا مستحق نہیں سمجھتے۔

جنابِ صدر کراچی تشریف لائے اور مختلف طبقات سے ملاقاتیں فرمائیں، سب سے پہلے شیعوں کو شرفِ باریابی بخشا گیا، آخر میں مولانا محمد بنوری، مولانا مفتی ولی حسن اور مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب کی باری آئی، مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی نے نہایت متانت و سنجیدگی اور بڑی خوبصورتی سے صورتِ حال کا تجزیہ پیش کیا، لیکن اہلِ سنت کی اشک شوئی کا کوئی سامان نہ ہوا۔

اہلِ سنت بجا طور پر یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ:

۱:… ان ماتمی جلوسوں پر پابندی عائد کی جائے۔

۲:… جن شرپسندوں نے قومی و نجی املاک کو نقصان پہنچایا ہے ان کو رہزنی و ڈکیتی کی سزا دی جائے۔

۳:… اہلِ سنت کی جن املاک کا نقصان ہوا، ان کا پورا معاوضہ دِلایا جائے۔

۴:… اہلِ سنت کے جن رہنماوٴں کو “جرمِ بے گناہی” میں نظربند کیا گیا ہے، ان کو رہا کیا جائے۔

جھلی میں پیدا ہونے والا بچہ اور اس کی جھلی

س… بعض بچوں کی ولادت خواہ لڑکا ہو یا لڑکی ایک جھلی میں ہوتی ہے،جسے برقع بھی کہا جاتا ہے۔ بعض خواتین و حضرات کا کہنا یہ ہے کہ اس جھلی کو سکھاکر رکھ لیا جائے بہت نیک فال ثابت ہوتی ہے، اور اس جھلی میں پیدا ہونے والا بچہ بھی بہت خوش نصیب ہوتا ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں فرمائیے کہ جھلی رکھ لینا دُرست ہے؟ پھینک دینا دُرست ہے؟ یا دفن کردینا دُرست ہے؟

ج… یہ جھلی عموماً دفن کردی جاتی ہے، اس کو رکھنے اور ایسے بچے کے خوش نصیب ہونے کا قرآن و حدیث میں کہیں ثبوت نہیں۔

ماں کے دُودھ نہ بخشنے کی روایت کی حقیقت

س… اولاد کے لئے ماں کے دُودھ بخشنے کی جو روایات ہم ایک عرصے سے سنتے آئے ہیں، قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی کیا اہمیت ہے؟ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ آج کل مائیں اولاد کی پروَرِش ڈبوں کے دُودھ پر کرتی ہیں، وہ کس طرح دُودھ بخشیں گی؟

ج… دُودھ بخشنے کی روایت تو کہیں میری نظر سے نہیں گزری، غالباً اس کا مطلب یہ ہے کہ ماں کا حق اتنا بڑا ہے کہ آدمی اس کو ادا نہیں کرسکتا، اِلَّا یہ کہ ماں اپنا حق معاف کردے۔

بچے کو دیکھنے کے پیسے دینا

س… فرسودہ رسم و رواج میں سے ایک رسم جو اکثر گھرانوں میں پائی جاتی ہے، یہ ہے کہ جب کسی گھر میں بچے کی پیدائش ہوتی ہے تو تمام رشتے دار اسے دیکھنے کے لئے آتے ہیں، لیکن بچے کو دیکھ لینے کے بعد ہر شخص پر یہ لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق جیب سے نوٹ نکال کر نومولود بچے کے ہاتھ میں تھمادے، کچھ ہی دیر بعد وہ نوٹ بچے کی ماں کے تکیے کے نیچے جمع ہوجاتے ہیں۔ یہ آسمانی قانون کی طرح ایک پختہ رسم بن چکی ہے اور آج تک ہم نے کسی کو اس کی خلاف ورزی کرتے نہیں دیکھا، جب بچے کی ماں کا چلہ پورا ہوجاتا ہے تو پھر نوٹوں کی گنتی کی جاتی ہے اور نوٹوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے بچے کی خوش قسمتی یا بدقسمتی کے متعلق رائے قائم کی جاتی ہے، یہ کاروبار کرنے کے لئے کئی گھرانوں میں بچے کی پیدائش کا بے چینی سے انتظار کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسلام میں ان فرسودہ رسم و رواج کی کوئی گنجائش موجود ہے؟

ج… نومولود بچے کی پیدائش پر اسے تحفہ دینا تو بزرگانہ شفقت کے زُمرے میں آتا ہے، لیکن اس کو ضروری اور فرض و واجب کے درجے میں سمجھ لینا اور اس کو بچے کی نیک بختی یا بدبختی کی علامت تصوّر کرنا غلط اور جاہلانہ تصوّر ہے۔

عیدکارڈ کی شرعی حیثیت

س… عیدکارڈ کا رواج ہمارے ہاں کب سے ہوا؟ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اس کی لکھائی چھپائی اور تقسیم پر جو لاکھوں روپیہ صَرف ہوتا ہے کیا یہ اِسرافِ بے جا نہیں؟ شاید یہ رسمِ قبیح بھی غیرملکی دورِ اقتدار کی نشانی ہے، کیونکہ قیمتی کاغذ کی شکل میں لاکھوں روپیہ غیرملکیوں کو چلا جاتا ہے اور غیرملکی آقاوٴں کی دی ہوئی تعلیم کا حامل ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ اس میں زیادہ حصہ لیتا ہے۔ شادی کارڈ کی شکل میں صَرف ہونے والا روپیہ بھی اس ذیل میں آتا ہے، ان کارڈوں کا خریدار بے تحاشہ روپیہ اس مد میں صَرف کرتا ہے جبکہ مرسل الیہ کو کچھ بھی نہیں ملتا۔ کیا عید کی مبارک باد سادہ خط میں نہیں دی جاسکتی؟

ج… یہ تو معلوم نہیں کہ عیدکارڈ کی رسم کب سے جاری ہوئی؟ مگر اس کے فضول اور بے جا اِسراف ہونے میں کوئی شبہ نہیں، اسی طرح شادی کارڈ بھی فضول ہیں۔ آپ کے خیالات قابلِ قدر ہیں!

جشنِ ولادت یا وفات؟

س… ہمارے ہاں ۱۲/ربیع الاوّل کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یومِ ولادت بڑے تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ نیز یہ جشنِ ولادت ہے یا وفات؟

ج… ہمارے یہاں ربیع الاوّل میں “سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم” کے جلوسوں کا اہتمام کیا جاتا ہے اور “جشنِ عید میلاد النبی” بھی بڑی دُھوم دھام سے منایا جاتا ہے، چراغاں ہوتا ہے، جھنڈیاں لگتی ہیں، جلسے ہوتے ہیں، جلوس نکلتے ہیں، ان تمام اُمور کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقِ محبت کی ادائیگی سمجھا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں اہلِ فکر کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخِ ولادت میں مشہور قول ۱۲/ربیع الاوّل کا ہے، لیکن محققین کے نزدیک راجح یہ ہے کہ آپ کی ولادت ۸/ربیع الاوّل کو ہوئی، اور آپ کی وفات شریفہ راجح اور مشہور قول کے مطابق ۱۲/ربیع الاوّل کو ہوئی۔ گویا ربیع الاوّل کا مہینہ اور اس کی بارہ تاریخ صرف آپ کا یومِ ولادت نہیں بلکہ یومِ وفات بھی ہے۔ جو لوگ اس مہینے اور اس تاریخ میں “جشنِ عید” مناتے ہیں انہیں سو بار سوچنا چاہئے کہ کیا وہ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر تو “جشنِ عید” نہیں منارہے؟ مسلمان بڑی بھولی بھالی قوم ہے، دُشمنانِ دِین کے خوشنما عنوانات پر فریفتہ ہوجاتی ہے۔ صفر کے آخری بدھ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مرضِ وفات شروع ہوا، دُشمنوں کو اس کی خوشی ہوئی اور اس خوشی میں مٹھائیاں بانٹنا شروع کیں، اِدھر مسلمانوں کے کان میں چپکے سے یہ پھونک دیا کہ اس دن آنحضور سروَرِ کون و مکاں صلی اللہ علیہ وسلم نے “غسلِ صحت” فرمایا تھا اور آپ سیر و تفریح کے لئے تشریف لے گئے تھے۔ ناواقف مسلمانوں نے دُشمن کی اُڑائی ہوئی اس ہوائی کو “حرفِ قرآن” سمجھ کر قبول کرلیا اور اس دن گھر گھر مٹھائیاں بٹنے لگیں۔ جس طرح “یومِ مرض” کو “یومِ صحت” مشہور کرکے دُشمنانِ رسول نے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی کہلانے والوں سے اس دن مٹھائیاں تقسیم کرائیں، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے “یومِ وفات” کو “یومِ میلاد” مشہور کرکے مسلمانوں کو اس دن “جشنِ عید” منانے کی راہ پر لگادیا۔ شیطان اس قوم سے کتنا خوش ہوگا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرضِ موت پر مٹھائیاں تقسیم کرتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دن “جشن” مناتی ہے․․․! کیا دُنیا کی کوئی غیرت مند قوم ایسی ہوگی جو اپنے مقتدا و پیشوا کے یومِ وفات پر “جشنِ عید” مناتی ہو؟ اگر نہیں، تو سوال یہ ہے کہ مسلمان “بارہ وفات” پر “جشنِ عید” کس کے اِشارے پر مناتے ہیں؟ کیا اللہ تعالیٰ نے انہیں اس کام کا حکم دیا تھا؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دُنیا سے تشریف لے جاتے ہوئے فرماگئے تھے کہ میری وفات کے دن کو “عید” بنالینا؟ کیا خلفائے راشدین، صحابہ و تابعین اور اَئمہ مجتہدین میں سے کسی نے اس دن “جشنِ عید” منایا؟ کیا حدیث و فقہ کی کسی کتاب میں مذکور ہے کہ “بارہ وفات” کا دن اسلام میں “عید” کی حیثیت رکھتا ہے؟ اور یہ کہ اس دن مسلمانوں کو سرکاری طور پر چھٹی کرنی چاہئے اور “جشنِ عید” منانا چاہئے․․․؟

“جشنِ عید” منانا روافض کے ماتمِ محرّم کی تقلید ہے، اور کسی کی برسی منانا (خواہ پیدائش کی ہو یا وفات کی) خود خلافِ عقل و دانش ہے، حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب “تحفہٴ اثنا عشریہ” میں تحریر فرماتے ہیں:

“نوع پانزدہم امثال متجددہ را یک چیز بعینہ دانستن، وایں وہم خیلے برضعیف العقول غلبہ دارد حتیٰ کہ آب دریا و شعلہ چراغ و آب فوارہ را اکثر اشخاص یک آب و یک شعلہ خیال کنند، واکثر شیعہ در عادات خود منہمک ایں خیال اند، مثلاً روز عاشورا در ہر سال کہ بیاید آں را روزِ شہادت حضرت اِمامِ عالی مقام حسین علیہ السلام گمان برند و اَحکام ماتم و نوحہ وشیون وگریہ وزارے۔

وفغاں و بے قرارے آغاز نہند مثل زنان کہ ہر سال بر میّت خود ایں عمل نمایند حالانکہ عقل بالبداہت میداند کہ زمان امر سیال غیر قارست ہرگز جز او ثبات و قرار ندا رد و اعادہٴ معدوم محال و شہادت حضرت اِمام در روزے شدہ بود کہ ایں روز ازاں روز فاصلہ ہزار و دو صد سال دارد ایں روز را بآں روز چہ اتحاد وکدام مناسبت و روز عیدالفطر وعید النحر را بریں قیاس نباید کرد کہ در آں جا مایہ سرور و شادے سال بسال متجدد ست یعنی اداء روزہ رمضان و ادائے حج خانہ کعبہ کہ (شکر النعمة المتجدّدة) سال بسال فرحت و سرور نو پیدا مے شود ولہٰذا اعیاد شرائع بریں وہم فاسد نیامدہ بلکہ اکثر عقلا نیز نوروز مہرجان و امثال ایں تجددات و تغیرات آسمانی را عید گرفتہ اند کہ ہر سال چیزے نو پیدا می شود و موجب تجدد اَحکام میباشد وعلیٰ ہذا القیاس تعید بعید بابا شجاع الدین وتعید بعید غدیر و امثال ذالک مبنی بر ہمیں وہم فاسد ست از ینجا معلوم شد کہ روز نزول آیة (الیوم اکملت لکم دینکم) و روز نزولِ وحی و شبِ معراج را چرا در شرع عید قرار ندادہ اند وعید الفطر وعید النحر را قرار دادہ اند و روز تولد و وفات ہیچ نبے را عید نگردانیدند و چرا صوم یوم عاشورا کہ در سال اول بموافقت یہود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بجا آوردہ بودند منسوخ شد دریں ہمہ ہمیں سرست کہ وہم را دخلے نباشد بدون تجدد نعمت حقیقة سرور و فرحت نمودن یا غم و ماتم کردن خلافِ عقل خالص از شوائب وہم است۔” (تحفہ اثنا عشریہ، فارسی، ص:۳۵۱)

ترجمہ:… “نوع پانزدہم نئی نئی امثال کو ایک چیز بعینہ جاننا اور یہ وہم کرنا ضعیف العقول پر بہت غلبہ رکھتا ہے، یہاں تک کہ دریا کے پانی اور شعلہ اور چراغ اور آب فوارہ کو اکثر لوگ ایک آگ اور ایک شعلہ خیال کرتے ہیں۔ اکثر شیعہ ان خیالات کے عادتوں میں ڈُوبے ہوئے ہیں، مثلاً ہر سال دسویں محرّم کی ہوتی ہے، ہر سال روزِ شہادت حضرت اِمام عالی مقام حسین علیہ السلام کا گمان کرتے ہیں اور اَحکامِ ماتم اور شیون اور گریہ و زاری اور فغاں و بے قراری شروع کرتے ہیں، عورتوں کی طرح کہ ہر سال اپنی میّت پر یہ عمل کرتے ہیں، حالانکہ عقل صریح جانتی ہے کہ زمانہ ہر سال کا غیر قار ہے، یعنی قرار نہ پکڑنے والا، کوئی جز اس کا ثابت و قائم نہیں رہتا، اور اس زمانے کا لوٹنا بھی محال ہے، اور شہادت حضرت اِمام رضی اللہ عنہ کی جس دن ہوئی اُس دن سے اِس دن تک فاصلہ گیارہ سو پچاس برس کا ہوا، پھر یہ اور وہ دن کیسے ایک ہوگیا اور کونسی مناسبت ہوگئی؟

عیدالفطر اور عیدِ قرباں کو اس پر قیاس کرنا نہیں چاہئے کیونکہ اس میں خوشی اور شادی سال در سال نئی ہے، یعنی روزے رمضان کے ادا کرنا اور حج خانہ کعبہ کا بجا لانا کہ شکر النعمة المتجدّدة (یعنی شکر ہے نئی نئی نعمت کا) سال در سال فرحت و سرور نیا پیدا ہوتا ہے۔ اسی واسطے عیدین شریعت کی اس وہمِ فاسد پر مقرّر نہیں ہوئی ہیں، بلکہ اکثر عقلاء نے بھی نوروز اور مہرجان اور امثال اس کی نئی باتوں اور تغیرِ آسمانی کو خیال کرکے عید اختیار کی ہے کہ ہر سال ایک چیز نئی پیدا ہوتی ہے اس پر نئے نئے اَحکام کئے جاتے ہیں اور علیٰ ہذا القیاس تعید بعید بابا شجاع الدین اور تعید بعید غدیر اور مثل ان کے سب کی بناء، وہمِ فاسد پر ہے، اور اسی موقع سے معلوم ہوا کہ جس روز یہ آیت نازل ہوئی: “الیوم اکملت لکم دینکم” اور جس دن وحی نازل ہوئی اور شبِ معراج، ان روزوں کو شرع میں کیوں نہیں عید ٹھہرایا ہے اور عید الفطر اور عیدِ قرباں کو عید ٹھہرایا، وہ دن بھی تو بڑی خوشی کے تھے، ایسے کسی نبی کے تولد اور وفات کے دن کو عید نہ ٹھہرایا اور روزہ عاشورا کا کہ اوّل سال یہود کی موافقت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا تھا کیوں منسوخ ہوا؟ ان سب باتوں میں یہی بھید تو ہے کہ وہم کو دخل نہ ہونے پائے بغیر کسی نئی نعمت حقیقة کی فرحت اور سرور کا ہونا یا غم اور ماتم کرنا اس عقل کے خلاف ہے جو آمیزش وہم سے خالص ہے۔”

(ترجمہ تحفہٴ اثنا عشریہ ص:۷۲۶)

علاوہ ازیں اس قسم کے جشنوں میں وقت برباد ہوتا ہے، ہزاروں روپیہ ضائع ہوتا ہے، نمازیں غارت ہوتی ہیں، نمود و نمائش ہوتی ہے، مردوں عورتوں کا اختلاط ہوتا ہے، بے حجابی و بے پردگی ہوتی ہے۔ ذرا غور کیجئے! کیا ان تمام باتوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہٴ حسنہ سے کوئی جوڑ ہے؟ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس نام پر ان تمام چیزوں کا روا رکھنا کتنا بڑا ظلم ہے․․․؟

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ شریفہ اور آپ کا وجودِ سامی سراپا رحمت ہے (حق تعالیٰ شانہ کی مزید عنایت در عنایت یہ کہ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں شامل ہونے کا شرف عطا فرمایا، اللّٰھم فلک الحمد ولک الشکر) مگر اس رحمت سے فائدہ اُٹھانے والے وہی خوش قسمت ہیں جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و سیرت کو اپنانے اور آپ کے مقدس اُسوہٴ حسنہ پر گامزن ہونے کی توفیق ارزانی کی جاتی ہے کہ یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کا مقصدِ وحید ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہٴ حسنہ ہر اُمتی کے لئے مینارہٴ نور ہے اور دِین و دُنیا کی فلاح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و عادات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اَحکام و اِرشادات کے اِتباع پر موقوف ہے اور اس کی ضرورت صرف نماز روزہ وغیرہ عبادات تک محدود نہیں، بلکہ عقائد و عبادات، معاملات و معاشرت، اخلاق و عادات اور شکل و شمائل الغرض! زندگی کے ہر شعبے کو محیط ہے۔

اُمتِ مسلمہ کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہٴ حسنہ کی پیروی کا التزام متعدّد وجوہ سے ضروری ہے۔

اوّل:… حق تعالیٰ شانہ نے بار بار تاکیداتِ بلیغہ کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرماں برداری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم کی پیروی کا حکم فرمایا ہے، بلکہ اپنی اطاعت و بندگی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اِتباع کے ساتھ مشروط فرمایا ہے، چنانچہ ارشاد ہے:

“وَمَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللهَ۔” (النساء:۸۰)

دوم:… ہم لوگ “لا اِلٰہ اِلَّا الله محمد رسول اللہ” کا عہد کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ہیں اور ہمارے اس ایمانی عہد کا تقاضا ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ایک فیصلے پر دِل و جان سے راضی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ایک حکم کی تعمیل کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک سنت کو اَپنائیں، حق تعالیٰ شانہ کا ارشاد ہے:

“فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُوٴْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔” (النساء:۶۵)

سوم:… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر اُمتی کے لئے محبوب ہیں اور یہ محبت شرطِ ایمان ہے، ارشادِ نبوی ہے:

“والذی نفسی بیدہ! لا یوٴمن احدکم حتّٰی اکون احبّ الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین۔”

(صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب حب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم من الایمان)

اور محبت کا خاصہ ہے کہ ایک محبِ صادق اپنے محبوب کی ہر ہر اَدا پر مرمٹتا ہے، اور اسے محبوب کی تمام ادائیں محبوب ہوتی ہیں، یہ نہ ہو تو دعویٴ محبت محض لاف و گزاف ہے۔ پس ہماری ایمانی محبت کا تقاضا ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہٴ حسنہ کے سانچے میں ڈَھل جائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک ادا پر مرمٹیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک سنت کو زندہ کریں، اس کے بغیر ہمیں بارگاہِ الٰہی سے محبتِ نبوی کی سند نہیں مل سکتی۔

چہارم:… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کمالِ انسانیت کا نقطہٴ معراج ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ادائیں، تمام سنتیں اور آپ کا پورا اُسوہٴ حسنہ مظہرِ کمال بھی ہے اور مظہرِ جمال بھی، پس جو شخص جس قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرے گا اور اسے جس قدر اُسوہٴ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا و اِتباع نصیب ہوگی اسی قدر کمالِ انسانیت سے بہرہ ور ہوگا، اور جس قدر اسے اُسوہٴ نبوی سے بُعد ہوگا اسی قدر وہ کمالاتِ انسانیت سے گرا ہوا ہوگا۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی “انسانِ کامل” کے لئے معیار اور نمونے کی حیثیت رکھتی ہے۔ پس نہ صرف اہلِ ایمان کو بلکہ پوری انسانیت کو لازم ہے کہ کمالِ انسانی کی معراج تک پہنچنے کے لئے اس “انسانِ کامل” صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم کی پیروی کرے، والله اعلم!

یہ اس اُمت پر حق تعالیٰ شانہ کا احسانِ عظیم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم محبوب رَبّ العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہٴ حسنہ کا مکمل ریکارڈ اُمت کے سامنے اس طرح موجود ہے کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے اور سوتے جاگتے ہماری نظروں کے سامنے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ شمائل اور احادیث کا مستند ذخیرہ موجود ہے، اور ہر دور میں اکابرِ اُمت اور حضراتِ محدثین نے اسے اپنے اپنے انداز میں مرتب فرمایا ہے، تاکہ اُمت ہر شعبہٴ زندگی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات و ارشادات سے واقف ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کی پیروی کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے اور اُسوہٴ نبوی کے قالب میں اپنی زندگی کے تمام شعبوں کو ڈھالے۔

موجودہ دور میں جبکہ سروَرِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں سے مغایرت بڑھتی جارہی ہے اور مسلمان اپنے دِین کی تعلیمات اور اپنے مقدس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہٴ حسنہ کو چھوڑ کر غیروں کے طور طریقے اپنا رہے ہیں، اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو چند روزہ جشن منانے کے بجائے ان کی متاعِ گم گشتہ کی طرف بار بار بلایا جائے اور انہیں اسلامی تعلیمات اور سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی دعوت دی جائے، کیونکہ مسلمانوں کی دُنیوی و اُخروی ہر طرح کی صلاح و فلاح اِتباعِ سنت ہی میں مضمر ہے۔