مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ (شمارہ 598)
ادارئہ تحقیقات اسلامی کے بارے میں اب تک کا تجربہ یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب موصوف صحیح اسلامی بنیادوں پر معاشرے کے مدددینے کے سلسلہ میں کوئی شوشہ چھوڑ دیتے ہیں اور پھر ادارہ کی فوج ظفر موج اس کو ہاتھوں ہاتھ لے کر اس کو بانس پر چڑھادیتی ہے اور اس کے لیے گری پڑی روایتوں اور مرجوح اقوال کے سہارے تلاش کر کے ایک’’نیا علم کلام‘‘تصنیف کرلیا جاتا ہے، پیش نظر کتابچہ اس سلسلہ کی بہترین مثال ہے۔
اس کتابچہ سے ہمیں ایک اہم انکشاف ہوا اور اس ادارہ سے دین کی جو مٹی پلید ہورہی ہے یا آئندہ ہوگی اس سلسلہ میں یہ انکشاف بڑی اہمیت کا حامل ہے اس سے اس ادارہ کے آئندہ عزائم کا پتہ لگانا بڑا آسان ہوگا، محمد سرور صاحب فرماتے ہیں:
اب یقینا اس پر بحث ہوگی اور یہ بحث ہونی چاہئے اور ہر اہل علم کو اس میں حصہ لینا چاہئے اگر ’’رائے عامہ‘‘ ڈاکٹر صاحب کی رائے کی تصویب کرے گی تو مشینی ذبیحہ کا حلال ہونا تسلیم کرلیا جائے گا ورنہ یہ رائے مسترد کردی جائے گی۔
اس کے چند سطروں کے بعد مزید وضاحت فرماتے ہیں:
’’دارلافتاء تو نہ ادھر ہے نہ اُدھر، آخری فیصلہ تو’’رائے عامہ‘‘ کا ہوگا جسے بالآخر حکومت تسلیم کرے گی۔‘‘
اب یہاں دین کے ہر حکم ہر عبادت اور سارے کے سارے اوامر ونواہی کے بارے میں یہ اصول طے کر لیا گیا ہے ،یہاں حکم براہ راست کتاب و سنت نہیں، نہ اسلام کے طے شدہ اصولوں کا کوئی احترام ہوگا، بلکہ صورت یہ ہوگی کہ اسلام کے بنیادی سے بنیادی مسئلہ کو لیا جائے اور اس میں کوئی نیا شوشہ چھوڑ اجائے اور بحث کی دعوت دی جائے کچھ لوگ اس کی حمایت کریں گے اور کچھ مخالفت اور پھر عوم سے استصواب کیا جائے گا، رائے عامہ جس رائے کی حمایت کرے گی حکومت اس کو تسلیم کر کے اسلامی قانون قرار دے دیگی۔
اس اصول کے پیش نظر کل یہ مسئلہ اٹھایا جائے گاکہ نمازیں پانچ وقت کی زائد ہیں اور العیاذ باللہ اس سے وقت ضائع ہوتا ہے اس لئے صرف دویا تین نمازیں اس نوزائیدہ مملکت کے لئے مناسب ہیں۔ کچھ لوگ اس الحاد اور زندقہ کی حمایت کریں گے کیونکہ اس ملک میں منکرین حدیث کی ایک کھیپ آخر موجودہی ہے جس کا مسلک یہی ہے اور غالباً ڈاکٹر صاحب کی رائے تو اس سے بھی آگے ہے کہ نمازوں پر یہ زور شور بعد کے دور کی پیداوار ہے ،ابتدائی دور میں پانچ نمازوں کی اس طرح تاکیدنظر نہیں آتی اور بدقسمتی سے رائے عامہ اس کو قبول کرلے تو کیا حکومت اس کو تسلیم کرے گی؟ پھر یہ سلسلہ صرف عبادات اور معاملات تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کی زد میں ایمانیات اور مسلمات بھی آئیں گے اور ایک دن سارے دین کا سفینہ غرق ہوجائے گا’’نعوذباللّٰہ من شرورھم‘‘ ہر مسلمان سمجھتا ہے کہ اسلامی قوانین کے ماخذ حسب ذیل ہیں:
(الف) قرآن کریم
(ب) سنت رسول اللہﷺ
(ج) خلافت راشدہ کا تعامل
(د) مجتہدین امت کے فیصلے
مسلمانوں نے ہردور میں اس پر عمل کیا ہے اور ان کے تعامل و توارث نے اس پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ شرعی مسائل میں’’رائے عامہ‘‘ کو کبھی بھی حکم تسلیم نہیں کیا گیا۔ رائے عامہ کو اگر تسلیم کرلیا جاتا تو دین کبھی کا ختم ہوچکا ہوتا، اس دین متین کو رائے عامہ کے حوالے کرکے کیا یہ حضرات دریابرد کرنا چاہتے ہیں۔ یورپ نے اپنے قوانینِ دستور کو رائے عامہ کے حوالہ کر کے کیا پایا۔
کیا یہ وہی’’رائے عامہ‘‘ نہیں ہے جس نے زنا، لواطت جیسی گھنائونی حرکات کو جائز اور مباح قرار دے دیا ،کیا یہی وہ رائے عامہ نہیں ہے جس نے انسانیت کو بہیمیت سے ہمکنار کر کے ہزارہاتا ریکیوں کو جنم دیا ہے اور قول وعمل کی جس قدر برائیاں وجود میں آسکتی تھیں وہ سب کی سب پوری طرح آچکی ہیں۔
امریکہ، برطانیہ اور فرانس میں اباحت مطلقہ اور نوجوان نسل کی بے راہروی اور تباہی پر سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں رپورٹیں شائع ہوچکی ہیں مگر ان کے مطابق کوئی مثبت قدم نہیں اٹھایا جاتا بلکہ جب کبھی حساس دلوں نے اس پر تشویش کا اظہار کیا تو ان جرائم کے جواز کے لئے سب سے بڑی توجیہ یہی پیش کی گئی کہ’’رائے عامہ‘‘ ان اخلاق سوز حرکتوں کی حامی ہے اس لئے ہم کیا کر سکتے ہیں۔ کیا ادارہ تحقیقات اسلامی کے ذمہ دار اس سیاہ تاریخ کو اس ملک میں دہرانا چاہتے ہیں جس کو اسلام کے نام پر بڑی قربانیاں دے کر حاصل کیا گیا ہے ،کیا ’’رائے عامہ‘‘ کے فلسفہ سے یہ حضرات اسلامی معاشرے کو بھی یورپ کی سطح لانا چاہتے ہیں۔
رائے عامہ کو حکم بنانے کا جو اصول پیش کیا گیا ہے اس کا ہم قرآن کریم، حدیث نبوی اور سلف کے کلام کی روشنی میں جائزہ لینا چاہتے ہیں تاکہ ہمارے قارئین علی وجہ البصیرۃ اس گمراہ کن اور دین و شریعت کے منافی اصول پر نفرین بھیج سکیں اور اس پر زور دار احتجاج کر سکیں۔
’’ان الحکم الا للّٰہ امرالا تعبدواالاایاہ ذلک الدین القیم‘‘
حکم سوائے اللہ کے اور کسی کا نہیں اس کا فرمان ہے کہ اس کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کر ویہی صحیح دین ہے۔
’’یقولون ھل لنا من الا مرمن شیء قل ان الامر کلہ للّٰہ‘‘
ترجمہ: وہ پوچھتے ہیں کہ اختیارات میں ہماراسبھی کچھ حصہ ہے کہو کہ اختیارات توسارے اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔
’’ولاتقولوالماتصف السنتکم الکذب ھذا حلال و ھذاحرام‘‘
اپنی زبانوں سے یونہی غلط سلط جھوٹ نہ بک دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام۔
’’ومن لم یحکم بماانزل اللّٰہ فاولئک ھم الکافرون‘‘
ترجمہ:جو خدا کی نازل کی ہوئی شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ہی دراصل کافر ہیں۔
’’ماکان لمومن ولامومنۃ اذاقضی اللّٰہ ورسولہ امراان یکون لھم الخیرۃ من امرھم ومن یعص اللّٰہ ورسولہ فقد ضل ضلالا مبینا‘‘
کسی مومن مرد اور مومن عورت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ جب کسی معاملے کا فیصلہ اللہ اور اس کا رسول کردے تو پھر ان کے لئے خود اپنے معاملے میں فیصلہ کرنے کا اختیار باقی رہ جائے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ گمراہی میں بہت دور نکل گیا۔
’’یاایھاالذین امنوااطیعوااللّٰہ واطیعواالرسول واولی الامر منکم فان تنازعتم فی شیء فردوہ الی اللّٰہ والرسول ان کنتم تومنون باللّٰہ والیوم الاخرذالک خیر واحسن تاویلا‘‘
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرورسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں پھر اگر کسی معاملہ میں تمہارے درمیان نزاع ہو تو اس کو اللہ اور رسول کی طرف پھیرو اگر تم ایمان رکھتے ہو اللہ پر اور آخرت کے دن پر یہ بہتر ہے اور بلحاظ انجام بھی اچھا ہے۔‘‘
٭…٭…٭