احکام شرعیہ میں رائے عامہ کی حیثیت

مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ (شمارہ 599)
’’الم ترالی الذین یزعمون انھم امنوابما انزل الیک وما انزل من قبلک یریدون ان یتحاکموا الی الطاغوت وقدامرواان یکفروابہ ویرید الشیطان ان یضلھم ضلالا بعیداً‘‘
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایمان لے آئے اس کتاب پر جو آپ پر نازل کی گئی اور ان کتابوں پر جو اس سے پہلے اتاری گئیںحالانکہ وہ چاہتے ہیں کہ اپنا فیصلہ’’طاغوت‘‘ کی طرف لیجائیں حالانکہ ان کو اس کا حکم دیا گیا تھا کہ اس کا انکار کریں لیکن شیطان چاہتا ہے کہ ان کو بہت دور کی گمراہی میں ڈال دے۔

’’عن جابر رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ ﷺ:امابعد فان خیرالحدیث کتاب اللّٰہ وخیر الھدی ھدی محمد وشرالامور محدثاتھا وکل بد عۃ ضلالۃ‘‘
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ پیغمبرﷺ نے ارشاد فرمایا: سب سے بہتر کلام اللہ کی کتاب ہے اور سب سے بہتر طریقہ محمدﷺ کا طریقہ ہے اور بدترین امر یہ ہے کہ دین میں نئی چیزیں نکالی جائیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔

’’عن ابن عباس قال قال رسول اللّٰہﷺ ابغض الناس الی اللّٰہ ثلاثۃ، ملحد فی الحرام و مبتغ فی الاسلام سنۃ الجاھلیۃ ومطلب دم امرء مسلم بغیرحق لیھریق دمہ‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ پیغمبرﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک تین شخص سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہیں ایک تو وہ شخص جو حرم میں الحاد کرے دوسرا وہ شخص جو اسلام میں جاہلیت کا طریقہ زندہ کرے تیسرا وہ شخص جو کسی مسلمان کا ناحق خوں بہانے کے لئے حیلے تلاش کرے۔

’’عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللّٰہﷺ کل امتی یدخلون الجنۃ الامن ابی قیل:ومن ابی قال: من اطاعنی فقد ابی‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے پیغمبر ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری ساری امت جنت میں داخل ہوگی سوائے ان لوگوں کے کہ جو انکار کریں کہا گیا: ایسے لوگ کون ہیں؟ فرمایا: جس نے میری اطاعت کی وہ تو جنت میں داخل ہوا اور جس نے میری نافرمانی کی تو گویا اس نے انکار کیا۔

’’عن ابن مسعود قال قال رسول اللّٰہﷺ مامن نبی بعثہ اللّٰہ فی امتہ قبلی الا کان لہ فی امتہ حواریون و اصحاب یا خذون بسنتہ ویقتدون بامرہ ثم انھا تخلف من بعد ھم خلوف یقولون مالا یفعلون مالا یؤمرون‘‘ (رواہ مسلم)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: کوئی نبی ایسا نہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پہلے اس کی امت میں مبعوث فرمایا الّایہ کہ اس کی امت میں خاص لوگ اور صحابی ہوئے جو اس کی سنت پر عمل کرتے ہیں اور اس کے احکام کی اقتداء کرتے ہیں پھر اس کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوتے ہیں جو کہتے ہیں اور کرتے نہیں ہیں اور ایسے کام کرتے ہیں جن کا حکم نہیں دیا جاتا۔

’’عن ابی مسعود قال من کان مستنا فلیستن بمن قد مات فان الحی لاتومن علیہ الفتنۃ اولئک اصحاب محمدﷺ کا نواافضل ھذہ الامۃ ابرھا قلوباً اعمقھا علماً واقلھا تکفاً اختار ھم اللّٰہ لصحبۃ نبیہ والاقامۃدینہ فاعرفوالھم فضلھم واتبعوھم علی اثرھم وتمسکوابما استطعتم من اخلا قھم و سیرھم فانھم کانواعلی الھدی المستقیم‘‘
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تم میں جو شخص کسی طریقہ پر چلنا چاہے تو چاہئے کہ وہ وفات پانے والے حضرات کے طریقہ پر چلے کیونکہ زندہ لوگ فتنہ سے محفوظ نہیں رہ سکتے اور جن کے طریقے پر چلنا ہے وہ پیغمبر ﷺ کے صحابہ ہیں اس امت کے افضل ترین حضرات تھے دلوں کے لحاظ سے پاکیزہ، علم کے لحاظ سے گہرے، تکلیف سے خالی ، اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کو اپنے نبی کی صحبت کے لئے اور دین قائم کرنے کے لئے چن لیا تھا، پس تم ان کے فضل وکمال کا اقرار کرو اور جہاں تک تم سے ہو سکے ان کے اخلاق حمیدہ اور سیرت طیبہ کو مضبوطی سے پکڑے رہو کیونکہ یہ سب لوگ جادہ مستقیم پر قائم تھے۔

’’عن ابی ثعلبۃ الخشی قال قال رسول اللّٰہﷺ:ان اللّٰہ فرض فرائض فلانضیعوھاوحرم حرمات فلا تنتھکوھا وحدحدودافلا نعتدوھا و سکت عن اشیاء من غیر نسیان فلا تجثوعنھا‘‘
حضرت ابو ثعلبہ خشیؓ روایت کرتے ہیں کہ پیغمبرﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے کچھ چیزوں کو فرض فرمایا ہے تم ان کو ضائع نہ کرو اور بعض اشیاء کو حرام کہا ہے تم ان کی پردہ داری نہ کرو اور کچھ حدود مقرر کی ہیں ان سے آگے نہ بڑھو اور بعض چیزوں سے بھولے بغیر سکوت فرمایا ان کی جستجو میں نہ پڑو۔

غرض قرآن کریم اورحدیث نبوی نے واضح طور پر اس حقیقت کا واشگاف الفاظ میں اعلان کر دیا کہ مسلمانوں کے لئے’’حکم‘‘ کتاب وسنت ہے، انہیں اپنے ہر معاملہ میں اورزندگی کے ہر شعبے میں یہ دیکھنا ہے کہ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کا فیصلہ کیا ہے ؟ یہ چیز خدا و رسول ﷺ کے نزدیک حلال ہے یا حرام ،جائز ہے یا جانائز؟ اور خدا اور رسولﷺ کا حکم معلوم ہوجانے کے بعد کسی کا حکم قابل تسلیم نہیں، نہ کسی کی رائے کا اعتبار ہے،’’لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق‘‘ جائز وناجائز اور حلال و حرام کے فیصلوں میں’’رائے عامہ‘‘ کو اتھارٹی تسلیم کرنے کا نظریہ ان معاشروں میں تو پنپ سکتا ہے جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہوں نہ رسول اللہﷺ پر، نہ آسمانی کتاب سے بہر ہ مند ہوں نہ خدائی شریعت سے، لیکن جس شخص کے دل میں ایمان کا ادنیٰ شعور باقی ہو وہ جان سکتا ہے کہ اسلامی قوانین و احکام کے بارے میں رائے عامہ کو ذرہ برابر دخل نہیں۔ اسلام میں احکام و قوانین کے مآخذوہی ہیں جن کی اوپر نشاندہی کی گئی ہے اس لئے شرعی مسائل میں’’رائے عامہ‘‘ کو بطور حکم پیش کرنا وہ طرز فکرہے، جس کی توقع کسی مسلمان سے نہیں ہو سکتی۔

علمائے اصول نے بسلسلۂ اجماع تصریح کی ہے کہ صرف رائے عامہ کا کوئی اعتبار نہیں، فخرالاسلام نبردوی لکھتے ہیں:

’’فامامایختص بالرأی والاستنباط ومایجری مجراہ فلا یعتبر فیہ الااھل الرأی والاجتھاد‘‘
وہ مسائل جن کا تعلق رائے اور استنباط سے ہو ان میں صرف ان ہی حضرات کا اعتبار ہے جو اہل اجتہاد ہوں۔