قادیانیوں کے ساتھ موالات(2)


قادیانیوں کے ساتھ موالات(۴)
مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ (شمارہ 609)
قاضی ابو بکر بن العربی لکھتے ہیں:

’’وفیہ دلیل علی ان للامام ان یعاقب المذنب بتحریم کلامہ علی الناس أدباًلہ علی تحریم اھلہ علیہ‘‘
اس قصہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ امام کو حق حاصل ہے کہ کسی گنہگار کی تادیب کے لئے لوگوں کو اس سے بول چال کی ممانعت کردے، اس کی بیوی کو اس کے لئے ممنوع ٹھہرادے۔‘‘

حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں:

’’وفیھا ترک السلام علی من اذنب وجواز ھجرہ اکثر من ثلاث…‘‘الخ
’’اس سے ثابت ہوا کہ گنہگار کو سلام نہ کہا جائے اور یہ کہ اس سے قطع تعلق تین روز سے زیادہ بھی جائز ہے۔‘‘

بہرحال کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء کا یہ واقعہ قرآن کریم کی سورۃ توبہ میں مذکور ہے اور اس کی تفصیل صحیح بخاری، صحیح مسلم اور تمام صحاح ستہ میں موجود ہے۔

امام ابودائود نے اپنی کتاب سنن ابی دائود میں’’کتاب السنۃ‘‘ کے عنوان کے تحت متعدد ابواب قائم کئے ہیں:

(الف) باب مجانبۃ اھل الھواء( اہل ہوا باطل پرستوں سے کنارہ کشی کرنے اور بغض رکھنے کا بیان)

ب)باب ترک السلام علی اھل الا ھواء( اہل ہوا ء سے ترک سلام کا بیان )

سنن ابی دائود میں حدیث ہے کہ عمار بن یاسررضی اللہ عنہ نے خلوق( زعفران) لگایا تھا آپﷺ نے ان کو سلام کا جواب نہیں دیا۔

غور فرمائیں کہ معمولی خلاف سنت بات پر جب یہ سزادی گئی تو ایک مرتد موذی اور کافر محارب سے بات چیت ، سلام و کلام اور لین دین کی اجازت کب ہو سکتی ہے؟

امام خطابی معالم السنن میں حدیث کعب کے سلسلہ میں تصریح فرماتے ہیں:

’’مسلمانوں کے ساتھ بھی ترک تعلق اگر دین کی وجہ سے ہو تو بلا قید ایام کیا جا سکتا ہے جب تک تو بہ نہ کریں‘‘

(۵) مسند احمد و سنن ابی دائود میں ابن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

’’القدریۃ مجوس ھذہ الامۃ ان مرضوافلا تعودوھم و ان ماتوافلا تشھدوھم‘‘
’’تقدیر کا انکار کرنے والے اس امت کے مجوسی ہیں اگر بیمارہوں تو عیادت نہ کرو اور اگر مرجائیں تو جنازے پر نہ جائو۔‘‘

۶)…ایک اور حدیث میں ہے:

’’لا تجالسوااھل القدرولا تفاتحوھم‘‘
’’منکرین تقدیر کے ساتھ نہ نشست و برخاست رکھو اور نہ ان سے گفتگو کرو‘‘

۷)…سنن کبریٰ بیہقی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

’’امرنی رسول اللّٰہﷺ ان اغورماء اٰبار بدر‘‘
’’جنگ بدر میں رسول ﷺ نے مجھے حکم فرمایا کہ بدر کے کنوئوںکا پانی خشک کردوں‘‘

اور ایک حدیث میں ہے:

’’ان تغورالمیاہ کلھا غیرماء واحد نلقی القوم علیہ‘‘
’’کہ سوائے ایک کنویں کے جو بوقت جنگ ہمارے کا م آئے گا باقی سب کنویں خشک کردئیے جائیں۔‘‘

صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس چند بددین زندیق لائے گئے تو آپ نے انہیں آگ میں جلا دیا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماکو اس کی اطلاع پہنچی تو فرمایا: اگر میں ہوتا تو انہیں جلاتا نہیں، کیونکہ رسول اللہﷺ نے منع فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کی سزامت دو بلکہ میں انہیں قتل کرتا۔ کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے:

’’من بدل دینہ فاقتلوہ‘‘
’’جو شخص مرتد ہوجائے اسے قتل کردو۔‘‘

صحیح بخاری میں صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ سے سوال کیا گیا کہ رات کی تاریکی میں مشرکین پر حملہ ہوتا ہے تو عورتیں اور بچے بھی زد میں آجاتے ہیں، فرمایا:وہ بھی انہی میں شامل ہیں۔

بہرحال یہ تو حضرت نبی کریمﷺ کے ارشادات ہیں۔ عہد نبوت کے بعد عہد خلافتِ راشدہ میں بھی اسی طرز عمل کا ثبوت ملتا ہے۔

مانعین زکوٰۃ کے ساتھ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا اعلان جہاد کرنا بخاری ومسلم میں موجود ہے۔

مسیلمہ کذاب، اسود عنسی ،طلحہ اسید اور ان کے پیروؤں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس سے حدیث و سیر کا معمولی طالب علم بھی واقف ہے۔

عہد فاروقی میں ایک شخص صبیغ عراقی قرآن کریم کی آیات کے ایسے معانی بیان کرتا تھا جس میں ہوائے نفس کا دخل تھا اور ان سے مسلمانوں کے عقائد میں تشکیک کا راستہ کھلتا تھا، یہ شخص فوج میںتھا، جب عراق سے مصر گیا اور حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ گورنر مصر کو اس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے اس کو حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے پاس مدینہ بھیجا اور صورت حال لکھی، حضرت عمررضی اللہ عنہ نے نہ اس کا موقف سنا نہ دلائل، بحث و مباحثہ میں وقت ضائع کئے بغیر اس کا’’علاج بالجرید‘‘ ضروری سمجھا ، فوراً کھجور کی تازہ شاخیں منگوائیں اور خود اپنے ہاتھ سے اس کے سر پر بے تحاشہ مارنے لگے، اتنا مارا کہ خوب بہنے لگا۔ وہ چیخ اُٹھا:’’امیر لمومنین! آپ مجھے قتل ہی کرنا چاہتے ہیں تومہربانی کیجئے تلوار لے کر میرا قصہ پاک کردیجئے اور اگر صرف میرے دماغ کا خناس نکالنا مقصود ہے تو آپ کو اطمینان دلاتا ہوں کہ اب وہ بھوت نکل چکا ہے۔‘‘اس پر حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اسے چھوڑ دیا اور چند دن مدینہ رکھ کر اسے عراق بھیج دیا اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو لکھا :’’ان لا یجالسہ احد من المسلمین‘‘ کہ کوئی مسلمان اس کے پاس نہ بیٹھے۔ اس مقاطعہ سے اس شخص پر عرصہ حیات تنگ ہوگیا، تو حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کو لکھا کہ اب اس کی حالت ٹھیک ہوگئی ہے، تب حضرت عمررضی اللہ عنہ نے لوگوں کو اس کے پاس بیٹھنے کی اجازت دی۔

اب فقہ کی چند تصریحات ملاحظہ ہوں:

(۱) علامہ درد یر مالکی’’شرح کبیر‘‘ میں باغیوں کے احکام میں لکھتے ہیں:

’’وقطع المیرۃ والماء عنھم الاان یکون فیھم نسوۃ وذراری‘‘
’’ان کا کھانا پانی بند کردیا جائے الّایہ کہ ان میں عورتیں اور بچے ہوں‘‘

(۲)کوئی قاتل اگر حرم مکہ میں پناہ گزیں ہوجائے اس سلسلہ میں ابو بکر الجصاص لکھتے ہیں:

’’قال ابوحنیفۃ وابویوسف ومحمدوزفرو الحسن بن زیاد: اذا قتل فی غیرالحرم ثم دخل الحرم لم یقتص منہ مادام فیہ ولکنہ لا یبایع ولا یواکل الی ان یخرج من الحرم‘‘
امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، محمد، زفر اور حسن بن زیاد کا قول ہے کہ جب حرم سے باہر قتل کر کے حرم میں داخل ہو تو جب تک حرم میں ہے اس سے قصاص نہیں لیا جائے گا لیکن نہ اس کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کی جائے نہ اس کو کھانا دیا جائے یہاں تک کہ وہ حرم سے نکلنے پر مجبور ہوجائے۔

٭…٭…٭
قادیانیوں کے ساتھ موالات(۵)
مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ (شمارہ 610)
۳)درمختار میں ہے:

’’وافتی الناصحی بوجوب قتل کل موذ وفی’’شرح الوھبانیۃ: ویکون بالنفی عن البدل و بالھجوم علی بیت المفسدین و بالاخراج عن الداروبھدمھا‘‘
ناصحی نے فتویٰ دیا ہے کہ ہر موذی کا قتل واجب ہے، اور’’شرح وہبانیہ‘‘ میں ہے کہ تعزیریوں بھی ہو سکتی ہے کہ شہر بدر کردیا جائے اور ان کے مکان کاگھیرائو کیا جائے، انہیں مکان سے نکال باہر کیا جائے اور مکان ڈھادیا جائے۔

۴)ابن عابدین الشامی درمختار میں لکھتے ہیں:

قال فی احکام السیاسۃ:وفی المنتقی:واذا سمع فی دارہ صوت المزامیر فادخل علیہ لانہ لمااسمع الصوت فقد اسقط حرمۃ الدار،وفی حدود’’البزازیۃ‘‘ وغصب’’النھایۃ‘‘ و جنایۃ’’الدرایۃ ‘‘ذکر الصدر الشھید عن اصحابنا انہ یھدم البیت علی من اعتاد الفسوق وانواع الفساد فی دارہ حتی لاباس بالھجوم علی بیت المفسدین وھجم عمرنا ئحۃ فی منزلھا وضربھا بالدرۃ حتی سقط خمارھا فقیل لہ فیہ،فقال:لا حرمۃ لھا بعد اشتغالھا بالمحرم والتحقت بالاماء…وعن عمر رضی اللّٰہ عنہ انہ احرق بیت الخمار،عن الصفارالزاھد الامربتخریب دار الفاسق‘‘
احکام السیاسہ میں’’المنتقی‘‘ سے نقل کیا ہے کہ جب کسی کے گھر سے گانے بجانے کی آواز سنائی دے تو اس میں داخل ہوجائو کیونکہ جب اس نے یہ آواز سنائی تو اپنے گھر کی حرمت کو خود ساقط کردیا اور ’’بزاریہ‘‘ کی کتاب الحدودونہایہ کے باب الغصب اور’’درایہ‘‘ کی کتاب الجنایات میں لکھا ہے کہ صدر الشہید نے ہمارے اصحاب سے نقل کیا ہے کہ جو شخص فسق و بدکاری اور مختلف قسم کے فساد کا عادی ہو ایسے شخص پر اس کا مکان گرادیاجائے حتی کہ مفسدوں کے گھر میں گھس جانے میں بھی مضائقہ نہیں…حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک نوحہ گر عورت کے گھر میں گھس آئے اور اس کو ایسا درہ مارا کہ اس کے سر سے چادر اُتر گئی اور اپنے طرز عمل کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ:حرام میںمشغول ہونے کے بعد اس کی کوئی حرمت نہیں رہی اور یہ لونڈیوں کی صف میں شامل ہوگئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے ایک شرابی کے مکان کو آگ لگادی تھی، صفار زاہد کہتے ہیں کہ فاسق کا مکان گرادینے کا حکم ہے۔

۵)ملاعلی قاری’’مرقاۃ شرح مشکوٰۃ‘‘ میں لکھتے ہیں:

و ھذا تنصیص علی ان الضرب تعزیر یملکہ الانسان وان لم یکن محتسبا وصرف فی’’المنتقلی‘‘ بذلک‘‘
اور یہ اس امر کی تصریح ہے کہ مارنا ایسی تعزیر ہے جس کا انسان اختیار رکھتا ہے خواہ محتسب نہ ہو۔ ’’المنتقی‘‘ میں اس کی تصریح کی ہے۔

یاد رہے کہ اس قسم کے مقاطعہ کا تعلق درحقیقت’’بغض فی اللہ‘‘ سے ہے جس کو حضرت محمدﷺ نے’’احب الاعمال الی اللّٰہ‘‘ فرمایا ہے۔

’’بغض فی اللہ‘‘ کے ذیل میں امام غزالیؒ’’ احیاء العلوم‘‘ میں بطور کلیہ لکھتے ہیں:

’’الاول:الکافر،فالکافران کان محاربا فھو یستحق القتل والارقاق،ولیس بعدھذین اسلحۃ، الثانی:المبتدع الذی یدعو الی بدعتہ فان کانت البدعۃ بحیث یکفر بھا فامرہ اشد من الذمی لانہ لایقربجزیۃ ولایسامع بعقد ذمہ،وان کان ممن لایکفربہ فامرہ بینہ وبین اللّٰہ اخف من امرالکافر لا محالہ، ولکن الصرفی الانکار علیہ اشدمنہ علی الکافر،لان شرالکافر غیر متعد فان المسلمین اعتقدوا کفرہ فلا یلتفتون الی قولہ…‘‘الخ
اول کافر، پس کافر اگر حربی ہوتو اس بات کا مستحق ہے کہ قتل کیا جائے یا غلام بنالیاجائے اور یہ ذلت و اہانت کی آخری حد ہے۔ دوم صاحب بدعت جو اپنی بدعت کی دعوت دیتا ہو، پس اگر بدعت حد کفر تک پہنچی ہوئی ہو تو اس کی حالت کافر ذمی سے بھی سخت تر ہے کیونکہ نہ اس سے جزیہ لیا جا سکتا ہے نہ اس کو ذمی کی حیثیت دی جا سکتی ہے اور اگر بدعت ایسی نہیں جس کی وجہ سے اس کو کافر قرار دیا جائے تو عنداللہ تو اس کا معاملہ کافر سے لامحالہ اخف( ہلکا) ہے مگر کافر کی بہ نسبت اس پر نکیر زیادہ کی جائے گی کیونکہ کافر کا شر متعدی نہیں اس لئے کہ مسلمان کافر کو ٹھیٹھ کا فر سمجھتے ہیں لہٰذا اس کے قول کو لائق التفات ہی نہیں سمجھیں گے…

ردالمحتار میں قرامطہ کے بارے میں لکھا ہے:

’’ونقل علی المذاھب الاربعۃ انہ لا یحل اقرارھم فی دیارالا سلام بجزیۃ ولاغیرھا۔ ولاتحل مناکحتھم ولاذبائحھم…والحاصل انھم یصدق علیھم اسم الزندیق والمنافق و الملحد ولا یخفی ان اقرارھم بالشھاد تین منع ھذاالا عتقاد الخبیث لو یجعلھم فی حکم المرتد لعدم التصدیق ولا یصح اسلام احدھم ظاہراالا بشرط التبری عن جمیع ما یخالف دین الاسلام لانھم یدعون الاسلام ویقرون بالشھادتین وبعد الظفربھم لاتقبل توبتھم اصلا…‘‘الخ
مذاہب اربعہ سے منقول ہے کہ انہیں اسلامی ممالک میں ٹھہرانا جائز نہیں نہ جزیہ لے کر نہ بغیر جزیہ کے ۔ نہ ان سے شادی بیاہ جائز ہے نہ ان کا ذبیحہ حلال ہے… حاصل یہ ہے کہ ان پر زندیق ،منافق اور ملحد کا مفہوم پوری طرح صادق آتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس خبیث عقیدہ کے باوجود ان کاکلمہ پڑھنا انہیں مرتد کا حکم نہیں دیتا کیونکہ وہ تصدیق نہیں رکھتے۔ اور ان کا ظاہری اسلام غیر معتبر ہے جب تک ان تمام امور سے جو دین اسلام کے خلاف ہیں براء ت کا اظہار نہ کریں۔ کیونکہ وہ اسلام کا دعویٰ اور شہادتین کا اقرار تو پہلے سے کرتے ہیں( مگر اس کے باوجود پکے بے ایمان اور کافر ہیں) اور ایسے لوگ گرفت میں آجائیں تو ان کی توبہ اصلاً قابل قبول نہیں۔

٭…٭…٭
قادیانیوں کے ساتھ موالات(۶)
مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ (شمارہ 611)
فقہ حنفی کی معتبر کتاب’’معین الحکام‘‘ میں بسلسلہ تعزیر ایک مستقل فصل میں لکھا ہے:

اور تعزیرکسی معین فعل یا معین قول کے ساتھ مختص نہیں، چنانچہ رسول اللہﷺ نے ان تین حضرات کو( جو غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے اور) جن کا واقعہ اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم میں ذکر فرمایا ہے، مقاطعہ کی سزادی تھی۔ چنانچہ پچاس دن تک ان سے مقاطعہ رہا، کوئی شخص ان سے بات تک نہیں کر سکتا تھا ۔ان کا مشہور قصہ صحاح میں موجود ہے۔ نیز رسول اللہﷺ نے جلاوطنی کی سزا بھی دی چنانچہ مخنثوں کو مدینہ سے نکالنے کا حکم دیا اور انہیں شہر بدر کردیا۔ اسی طرح آپﷺ کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی مختلف تعزیرات جاری کیں ہم ان میں سے بعض کو جو احادیث کی کتابوں میں وارد ہیں یہاں ذکرکرتے ہیں، ان میں سے بعض کے ہمارے اصحاب قائل ہیں اور بعض پردیگر ائمہ نے عمل کیا ہے۔

٭…حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صبیغ نامی ایک شخص کو مقاطعہ کی سزادی یہ شخص’’الذاریات‘‘ وغیرہ کی تفسیر پوچھا کرتا تھا اور لوگوں کو فہمائش کیا کرتا تھا کہ وہ مشکلات قرآن میں تفقہ پیدا کریں۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اس کی سخت پٹائی کی اور اسے بصرہ سے کوفہ جلاوطن کردیا اور اس سے مقاطعہ کا حکم فرمایا،چنانچہ کوئی شخص اس سے بات تک نہیں کرتا تھا یہاںتک کہ وہ تائب ہوا اور وہاں کے گورنر نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس کے تائب ہونے کی خبر لکھ بھیجی تب آپ نے لوگوں کو اجازت دی کہ اس سے بات چیت کر سکتے ہیں۔

٭…حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نصیر بن حجاج کا سر منڈوا کر اسے مدینہ سے نکال دیا تھا جبکہ عورتوں نے اشعار میں اس کی تشبیب شروع کردی تھی اور فتنہ کا اندیشہ لاحق ہوگیا تھا۔

٭…آنحضرتﷺ نے قبیلہ عرینہ کے افراد کو جو سزادی( اس کا قصہ صحاح میں موجود ہے)

٭…حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ایک ایسے شخص کے بارے میں جو بدفعلی کراتا تھا، صحابہ سے مشورہ کیا، صحابہ نے مشورہ دیا کہ اسے آگ میں جلا دیا جائے ،حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو یہ حکم لکھ بھیجا بعدازاں حضرت عبداللہ بن زبیر اور ہشام بن عبدالملک نے بھی اپنے اپنے دور خلافت میں اس قماش کے لوگوں کو آگ میں ڈالا۔

٭…حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مرتدین کی ایک جماعت کو آگ میں جلادیا ۔

٭…آنحضرتﷺ نے شراب کے مٹکے توڑنے اوراس کے مشکیزے پھاڑ دینے کا حکم فرمایا۔

٭…آنحضرتﷺ نے خیبر کے دن ان ہانڈیوں کو توڑنے کا حکم فرمایا جن میں گدھوں کا گوشت پکایا گیا تھا، پھر صحابہؓ نے آپﷺ سے اجازت چاہی کہ انہیں دھوکر استعمال کرلیا جائے تو آپﷺ نے اجازت دے دی۔ یہ واقعہ دونوں باتوں کے جواز پر دلالت کرتا ہے کیونکہ ہانڈیوں کو توڑڈالنے کی سزا واجب نہیں تھی۔

٭…حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس مکان کے جلادینے کا حکم فرمایا جس میں شراب کی خرید و فروخت ہوتی تھی۔

٭…حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے جب رعیت سے الگ تھلگ رہ کر اپنے گھر ہی میںفیصلہ کرنا شروع کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کامکان جلاڈالا۔

٭…حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عمال کے مال کا ایک حصہ ضبط کر کے مسلمانوں میں تقسیم کردیا۔

٭…ایک شخص نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مہر پر جعلی مہر بنوالی تھی اور بیت المال سے کوئی چیز لے لی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو سودرے لگائے، دوسرے دن پھر سو درے لگائے اور تیسرے دن بھی سودُرے لگائے، امام مالکؒ نے اسی کو لیا ہے، چنانچہ ان کا مسلک ہے کہ تعزیر مقدارِ حدسے زائد بھی ہو سکتی ہے۔

٭…حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب ایک ایسا سائل دیکھا جس کے پاس قدرِ کفایت سے زائد غلہ موجود تھا، اس کے باوجود وہ بھیک مانگتا پھر رہا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے پاس جو کچھ تھا چھین کر صدقہ کے اونٹوں کو کھلا دیا۔

ان کے علاوہ اس نوعیت کے اور بھی بہت سے واقعات ہیں اور یہ صحیح اور معروف فیصلے ہیں۔‘‘

اور شرح السیر الکبیر میں ہے:

’’کوئی مضائقہ نہیں کہ مسلمان کافروں کے ہاتھ غلہ اور کپڑا وغیرہ فروخت کریں مگر جنگی سامان ، گھوڑے اور قیدی فروخت کرنے کی اجازت نہیں، خواہ وہ امن لے کر ان کے پاس آئے ہوںیابغیر امن کے،کیونکہ ان چیزوں کے ذریعہ مسلمانوں کے مقابلے میں ان کو جنگی قوت حاصل ہوگی اور مسلمانوں کے لئے ایسی کوئی چیز حلال نہیں جو مسلمانوں کے مقابلہ میں کافروں کو تقویت پہنچانے کا سبب بنے اور یہ علت دیگر سامان میں نہیں پائی جاتی۔ پھر یہ حکم تب ہے جبکہ مسلمانوں نے ان کے کسی قلعہ کا محاصرہ نہ کیا ہو، لیکن جب انہوں نے ان کے کسی قلعہ کا محاصرہ کیا ہو ا ہو تو ان کے لئے مناسب نہیں کہ اہل قلعہ کے ہاتھ غلہ یا پانی یا کوئی ایسی چیز فروخت کریں جو ان کے قلعہ بند رہنے میں ممدومعاون ثابت ہو، کیونکہ مسلمانوں نے ان کا محاصرہ اسی لئے تو کیا ہے کہ ان کی رسد اور پانی ختم ہوجائے اور وہ اپنے آپ کو مسلمانوںکے سپرد کردیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر باہر نکل آئیں،پس ان کے ہاتھ غلہ وغیرہ بیچنا ان کے قلعہ بند رہنے میں تقویت کا موجب ہوگا۔بخلاف گذشتہ بالا صورت کے کیونکہ اہل حرب اپنے ملک میں ایسی چیزیں حاصل کر سکتے ہیں جن کے ذریعہ وہاں قیام پذیر رہ سکیں، انہیں مسلمانوں سے خریدنے کی ضرورت نہیں، لیکن جو کافر کہ قلعہ بند ہوں اور مسلمانوں نے ان کا محاصرہ کر رکھا ہو وہ مسلمانوں کے علاوہ کسی سے ضرورت زندگی نہیں خرید سکتے، لہٰذا کسی بھی مسلمان کو حلال نہیں کہ ان کے ہاتھ اس قسم کی کوئی چیز فروخت کرے، جو شخص ایسی حرکت کرے اور امام کو اس کا علم ہو جائے تو امام اسے تادیب اور سرزنش کرے کیونکہ اس نے غیر حلال فعل کا ارتکاب کیا ہے۔‘‘

مذکورہ بالا نصوص اور فقہاء اسلام کی تصریحات سے حسب ذیل اصول منقح ہو کر سامنے آجاتے ہیں:

۱)کفار محاربین سے دوستانہ تعلقات ناجائز اور حرام ہیں ،جو شخص ان سے ایسے روابط رکھے وہ گمراہ ،ظالم اور مستحق عذاب الیم ہے…جاری ہے

٭…٭…٭