قادیانیوں کے ساتھ موالات(۱)


قادیانیوں کے ساتھ موالات(۱)
مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ (شمارہ 606)
ملک کا اقتصادی نظام بینکنگ کے سودی کاروبار پر چل رہا ہے، شراب عام ہے، زنا باہمی رضامندی سے جرم نہیں، مہذب قماربازی ریس کو رس بالکل عام ہیں، مجمع عام میں برہنہ رقص کھلے عام جاری ہیں، عدالتوں میں وہی انگریز کا بنایا ہوا قانون چل رہا ہے اور جو نئے قانون ’’قانون سازاسمبلیاں‘‘ بنا رہی ہیں ان میں بھی اسلام کی بجائے یورپ کی تقلید کی جارہی ہے، مسلم فیملی لامز اور’’عائلی منصوبہ بندی‘‘ پاکستانی قانون سازی کے شاہکار ہمارے بیان کا زندہ ثبوت ہیں۔ غرض پورا نظام حکومت و معاشرت نہ صرف غیر اسلامی بلکہ پورپین تہذیب و تمدن کا چربہ ہے۔ ایسی صورت میں عوامی مطالبہ اور دستور کی مطابقت کا تقاضہ یہ ہے کہ اس پورے مروج نظام کو سند جواز دیدی جائے اور تمام غیر اسلامی چیزوں کو عین اسلامی اور کتاب و سنت کے مطابق ثابت کردیاجائے۔ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب کو اس ’’کار خیر ‘‘کے انجام دینے کیلئے میکگل یونیورسٹی سے بلایا گیا ہے چنانچہ موصوف نے بینکنگ اور سودی نظام کو اس طرح سند جواز عطا کی کہ بینک کا سودحلال ہے، شراب کی فراوانی کو اس طرح حلال فرمایا کہ’’بیئر‘‘شراب نہیں اس لئے وہ حلال ہے ، عدالتوں میں جو قانون خصوصاً سزا اور جرم سے متعلق قانون انگریز کا بنایا ہو ا چل رہا ہے اس کو اب یہ کہہ کر سند جواز عطا کی جارہی ہے کہ ’’قرآن کو تو ضوابط و قوانین سے کچھ زیادہ سروکار نہیں ہے قانون سازی امت کا کام ہے لہٰذا موجودہ قوانین چونکہ قرآن کی اخلاقی روح کے عین مطابق ہیں اس لئے ان کو تبدیل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔رہا حدود وقصاص کا مسئلہ تو اس پر اس زیر بحث مضمون( اسلامی قانون میں حد کا تصور ) میں یہ کہہ کر ہاتھ صاف کرنا چاہتے ہیں کہ قرآن نے سزائوں کے لئے کہیں حدود کا لفظ استعمال نہیں کیا یہ دوسری تیسری صدی کے فقہاء کی اختراع ہے۔ قرآن کی اصطلاح میں تو حدود سے مراد’’رواجی سماجی‘‘امور ہیں اور قرآن میں مذکورہ جرائم کی سزائوں کی’’روح‘‘ اور غایت مجرم کی اخلاقی اصلاح و تربیت ہے۔ وہ ہمارے جیل خانوں میں کافی حدتک ہوتی ہے۔ کچھ اوراصلاحات یورپ کی پیروی میں کردی جائیں۔غرض’’ادارہ تحقیقات اسلام‘‘ صرف غیر اسلامی کو عطائے سند جواز اور ان پر اسلامی ٹھپہ لگادینے کا ایک’’محکمہ‘‘ ہے۔

پھر ڈھٹائی اور بے حیائی ملاحظہ ہو کہ جو مسلمان قرآن کو ایک مکمل کتاب سمجھ کر اس کو بے کم و کاست نافذ کرانا چاہتے ہیں ان کو علانیہ جاہل اور قرآن کی فہم سے کورا قرار دیا جاتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ:

اور وہ لوگ دوہری غلطی کا ارتکاب کررہے ہیں جو خدا کے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں اور اس کو لفظاًنافذ کروانا چاہتے ہیں۔ اولاًیہ امر واضح ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ قرآن کا بہت کم حقیقی فہم رکھتے ہیں دوم یہ کہ قوانین کی تشکیل کا کام کسی فردیا گروہ کو نہیں بلکہ شوری نظام کے واسطے سے پوری امت کو تفویض کیا گیا ہے۔

آخر میں ہم مقالہ نگار سے تمام عالم اسلام کی جانب سے ان دعا وی کے قرآن کی نصوص سے اثبات کا مطالبہ کرتے ہیں، یہ صرف اس اسلامی ملک کی خصوصیت ہے کہ آسمانی کتاب قرآن و سنت اور مسلمات و ضروریات دین کو ہر کس و ناکس موضوع بحث بنا سکتا ہے، ورنہ دنیا کی تمام حکومتوں کا مسلمہ قانون ہے کہ حکومت کا جو بھی مذہب اور مذہبی روایات ہوں ان کو موضوع بحث بنانا قابل مؤاخذہ جرم ہے۔

کیا عیسائی ملکوں اور حکومتوں میں عیسیٰ علیہ السلام کے خدا کا بیٹا ہونے کو، اس کے سولی پر لٹکا دئیے جانے کو’’پوپ‘‘ کے ’’تقدس‘‘ کو ’’کفارہ‘‘ کے مسئلہ کو، انجیلوں کے آسمانی کتاب ہونے کو موضوع بحث بنایا جا سکتا ہے؟پورپین حکومتوں کی جہاں ہر ہر چیز میں تقلید کرتے ہووہاں مذہب اور مذہبی روایات کے احترام میں بھی کم ازکم انہی سفید چمڑی والوں کی تقلید کرلو، کچھ تو غیرت و حمیت کا ثبوت دو، دنیا کی آزاد قومیں اپنے دلوں میں اس بے غیرتی پر تمہیں کیا کہتی ہے ہوں گی ،سچ یہ ہے کہ پاکستانی قوم اگر چہ کہنے کو آزاد قوم ہے مگر ذہنی اعتبار سے و ہ قطعی طور پر غلام اور محکوم ہے۔ العیاذ باللہ

قادیانیوں کے ساتھ موالات

کیا فرماتے ہیں علماء دین متین و فقہم اللہ الصواب حسب ذیل مسئلہ میں:

کوئی شخص یاجماعت کسی داعی نبوتِ کا ذبہ پر ایمان لانے کی وجہ سے باتفاق اُمت دائرہ اسلام سے خارج ہو اور ان کا کفر یقینی اور شک و شبہ سے بالاتر ہو، اس کے علاوہ اُن میں حسب ذیل وجوہ بھی موجود ہوں:

۱)وہ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کے ایمان پر ڈاکہ ڈالتے ہوں اور تمام عالم اسلام اور ملت اسلامیہ کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف ہوں۔

۲)مسلمانوں کو جانی ومالی ہر طرح کی ایذاء پہنچانے میں تامقدور کوتاہی نہ کرتے ہوں۔

۳)ان کی مادی قوت اور مالی و سائل میں روزافزوں ترقی کا تمام تر انحصار مسلمانوں کے استحصال پر ہو، ان کے کارخانے اور انڈسٹریاں مسلمانوں کے ذریعہ چلتی ہوں اور وہ اسلامی ملک کے تمام کلیدی مناصب پر فائز اور معاشی وسائل پر قابض ہونے کی کوششیں کررہے ہوں۔

۴)دشمن اسلام بیرونی طاقتوں ، یہودی اور مسیحی حکومتوں اورہندوستان کی اسلام دشمن حکومت سے ان کے روابط ہوں، الغرض مسلمانوں کے لئے دینی، معاشی، اقتصادی اور معاشرتی اعتبار سے ان کا طرز عمل سنگین خطرات کا باعث ہو بلکہ ان کی وجہ سے ایک اسلامی مملکت کو بغاوت و انقلاب کے خطرات تک لاحق ہوں۔

۵)حکومت یا حکومت کی سطح پر توقع نہ ہو کہ اس فتنہ سے ملک وملت کو بچانے کی کوئی تدبیر کی جائے گی اور یہ امید نہ ہو کہ جس شرعی سز اکے وہ مستحق ہیں وہ ان پر جاری ہو سکے گی، اندریں حالات بے بس مسلمانوں کو اس فتنہ کی روک تھام کے لئے کیا کرنا چاہئے؟ اور اس سلسلہ میں شرعی طور پر ان پر کیا فریضہ عائد ہوتا ہے؟کیا ان حالات میں اس جماعت یا فرد کی بڑھتی ہوئی جارحیت پر قدغن لگانے کے لئے حسب ذیل امور کے جوازیا وجوب کی شرعاً کوئی صورت ہے کہ:

(الف) امت اسلامیہ اس فردیا جماعت کے ساتھ برادرانہ تعلقات منقطع کرے۔

(ب) ان سے سلام و کلام، میل جول ،نشست و برخاست ،شادی وغمی میں شرکت نہ کی جائے بلکہ معاشرتی سطح پر ان سے مکمل طور پر قطعِ تعلق کرلیا جائے۔

(ج)ان سے تجارت ،لین دین اور خریدوفروخت کی جائے یا نہیں؟

(د)ان کے کارخانوں ،فیکٹریوں سے مال خریدا جائے یاان کا مکمل اقتصادی مقاطعہ کیاجائے؟

(ھ)ان کی تعلیم گاہوں، ہوٹلوں، رسیٹورانوں میں جانا جائز ہے یا نہیں؟

(و)ان سے رواداری برتی جائے یا نہیں؟

(ز)ان کے کارخانوں اور فیکٹریوں کی مصنوعات استعمال کی جائیں یا نہیں؟

غرض ان سے مکمل سوشل بائیکاٹ یا مقاطعہ کرنے کی اجازت ہے یا نہیں؟کیا تمام مسلمانوں کو بھی شرعاً یہ حق حاصل ہے کہ انہیں راہ راست پر لانے کے لئے ان کا بائیکاٹ کریں، جبکہ اس کے سوا اور کوئی چارہ اصلاح موجود نہ ہو۔

(مجلس عمل کراچی)

قادیانیوں کے ساتھ موالات(۲)
مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ (شمارہ 607)
الجواب باسمہٖ تعالیٰ

بلاشبہ قرآن کریم کی وحی قطعی، جناب رسول اللہﷺ کی احادیثِ متواترہ قطعیہ اور امت محمدیہ کے قطعی اجماع سے ثابت ہے کہ حضرت محمدرسول اللہﷺ آخری پیغمبر ہیں،آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا، اس لئے حضرت نبی کریمﷺ کے بعد ہر نبوت کا مدعی کافر اور دائرہ اسلام سے قطعاً خارج ہے اور جو شخص اس مدعی نبوت کی تصدیق کرے اور اسے مقتداو پیشوامانے وہ بھی کافر و مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔

اس کفر اور ارتداد کے ساتھ اگر اس میں وجوہ مذکور فی السوال میں سے ایک وجہ بھی موجود ہو تو قرآن کریم اور احادیث نبویہ اور فقہ اسلامی کے مطابق وہ اسلامی اخوت اور اسلامی ہمدردی کا ہرگز مستحق نہیں۔ مسلمانوں پر واجب ہے کہ اس کے ساتھ سلام و کلام ، نشست و برخاست اور لین دین وغیرہ تمام تعلقات ختم کریں۔ کوئی ایسا تعلق یا رابطہ اس سے قائم کرنا جس سے اس کی عزت و احترام کا پہلو نکلتا ہو یا اس کو قوت و آسائش حاصل ہوتی ہو جائز نہیں۔ کفار محاربین، اور اعداء اسلام سے ترک موالات کے بارے میں قرآن حکیم کی بے شمار آیات موجود ہیں اسی طرح احادیثِ نبویہ اورفقہ میں اس کی تفصیلات موجود ہیں۔

یہ واضح رہے کہ کفار محاربین جو مسلمانوں سے برسرپیکار ہوں، انہیں ایذاء پہنچاتے ہوں، اسلامی اصطلاحات کو مسخ کرکے اسلام کا مذاق اڑاتے ہوں اور مارآستین بن کر مسلمانوں کی اجتماعی قوت کو منتشر کرنے کے درپے ہوں، اسلام ان کے ساتھ سخت سے سخت معاملہ کرنے کا حکم دیتا ہے۔

رواداری کی ان کافروں سے اجازت دی گئی ہے جو محارب اور موذی نہ ہوں، ورنہ’’کفار محاربین‘‘ سے سخت معاملہ کرنے کا حکم ہے۔

علاوہ ازیں بساوقات اگر مسلمانوں سے کوئی قابل نفرت گناہ سرز د ہوجائے تو بطور تعزیرو تادیب ان کے ساتھ ترک تعلق اور سلام و کلام ونشست و برخاست ترک کرنے کا حکم شریعت مطہرہ اور سنت نبوی میں موجود ہے چہ جائیکہ کفار محاربین کے ساتھ۔

اس سلسلہ میں سب سے پہلے تو اسلامی حکومت پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ان فتنہ پردازمرتدین پر’’من بدل دینہ فاقتلوہ‘‘کی شرعی تعزیر نافذ کر کے اس فتنہ کا قلع قمع کرے اور اسلام اور ملت اسلامیہ کو اس فتنہ کی یورش سے بچائے۔ چنانچہ رسول اللہﷺ اور خلفائے راشدین نے فتنہ پرداز موذیوں اور مرتد و کافر سے جو سلوک کیا وہ کسی سے مخفی نہیں اور بعد کے خلفاء اور سلاطین اسلام نے بھی کبھی اس فریضہ سے غفلت اور تساہل پسندی کا مظاہرہ نہیں کیا۔

لیکن اگر مسلمان حکومت اس قسم کے لوگوں کو سزادینے میں کوتاہی کرے یا اس سے توقع نہ ہو تو خود مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ بحیثیت جماعت اس قسم کی سزا کا فیصلہ کریں جو ان کے دائرہ اختیار میں ہو ،الغرض ارتداد، محاربت ، بغاوت، شرارت، نفاق، ایذاء، مسلمانوں کے ساتھ سازش، یہودونصاریٰ وہنود کے ساتھ سازباز ان سب وجوہ کے جمع ہوجانے سے بلاشبہ مذکورہ فی السوال فردیا جماعت کے ساتھ مقاطعہ یا بائیکاٹ نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے، اگر مسلمانوں کی جماعت بہیئت اجتماعی اس فتنہ کی سرکوبی کے لئے مقاطعہ یا بائیکاٹ جیسے ہلکے سے اقدام سے بھی کوتاہی کرے گی تو وہ عند اللہ مسئول ہوگی۔

یہ مقاطعہ یا بائیکاٹ ظلم نہیں بلکہ اسلامی عدل و انصاف کے عین مطابق ہے،کیونکہ اس کا مقصد ہے کہ مسلمانوں کو ان کی محاربت اور ایذاء رسانی سے محفوظ کیا جائے اور ان کی اجتماعیت کو ارتد ادونفاق کے دست برد سے بچایا جائے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ خود ان محاربین کے لئے بھی اس میں یہ حکمت مضمر ہے کہ وہ اس سزایا تادیب سے متاثر ہو کر اصلاح پذیر ہوں اور کفر و نفاق کو چھوڑ کر صحیح ایمان و اسلام قبول کریں، اس طرح آخرت کے عذاب اور ابدی جہنم سے ان کو نجات مل جائے، ورنہ اگر مسلمانوں کی ہیئت اجتماعیہ ان کے خلاف کوئی تادیبی اقدام نہ کرے تو وہ اپنی موجودہ حالت کو مستحسن سمجھ کر اس پر مصرر ہیں گے اور اس طرح ابدی عذاب کے مستحق ہوں گے۔

رسول اکرمﷺ نے مدینہ پہنچ کر ابتدائً یہی طریقہ اختیار فرمایا تھاکہ کفار مکہ کے قافلوں پر حملہ کرکے ان کے اموال پر قبضہ کیا جائے تاکہ مال اور ثروت سے ان کو جو قوت و شوکت حاصل ہے وہ ختم ہوجائے جس کے بل بوتے پر وہ مسلمانوں کو ایذاء پہنچاتے ہیں اور مقابلہ کرتے ہیں اور مختلف سازشیں کرتے ہیں، قتل نفس اورجہاد بالسیف کے حکم سے پہلے مقاطعہ اور دشمنوں کو اقتصادی طور پر مفلوک کرنے کی یہ تدبیر اس لئے اختیار کی گئی تھی تاکہ اس سے ان کی جنگی صلاحیت ختم ہوجائے اور وہ اسلام کے مقابلہ میں آکر کفر کی موت نہ مریں۔ گویا اس اقدام کا مقصد یہ تھا کہ ان کے اموال پر قبضہ کر کے ان کی جانوں کو بچایا جائے کیونکہ اموال پر قبضہ ان کی جان لینے سے زیادہ بہتر ہے۔

علاوہ ازیں اس تدبیر میں یہ حکمت و مصلحت بھی تھی کہ کفار مکہ کے لئے غور و فکر کا ایک اور موقعہ فراہم کیا جائے تاکہ وہ ایمان کی نعمت سے سرفراز ہوکر ابدی نعمتوں کے مستحق بن سکیں اور عذاب اخروی سے نجات پاسکیں، لیکن جب اس تدبیر سے کافر اور مشرکین کے عناد کی اصلاح نہ ہوئی تو ان کے شروفساد سے زمین کو پاک کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی جانب سے جہاد بالسیف کا حکم دیدیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے قریش کے تجارتی قافلہ کے بجائے ان کی عسکری تنظیم سے مسلمانوں کا مقابلہ کرادیا۔ رسول اللہﷺ کی ابتداء کی تدبیر سے امت مسلمہ کو یہ ہدایت ضرور ملتی ہے کہ خاص قسم کے حالات میں جہاد بالسیف پر عمل نہ ہو سکے تو اس سے اقل درجہ کا اقدام یہ ہے کہ کفار محاربین سے نہ صرف اقتصادی بائیکاٹ کیا جائے بلکہ ان کے اموال پر قبضہ تک کیا جا سکتا ہے مگر ظاہر ہے کہ عام مسلمان نہ تو جہاد بالسیف پر قادر ہیں، نہ انہیں اموال پر قبضہ کی اجازت ہے، اندریں صورت ان کے اختیار میںجو چیز ہے وہ یہ ہے کہ ان موذی کافروں سے ہر قسم کے تعلقات ختم کر کے ان کو معاشرہ سے جدا کردیا جائے۔

بدن انسانی کا جو حصہ سڑگل جائے کہ اس کی وجہ سے تمام بدن کو نقصان کا خطرہ لاحق ہو اور جان خطرہ میں ہو تو اس ناسور کو جسم سے پیوستہ رکھنا دانشمندی نہیں، بلکہ اسے کاٹ دینا ہی عین مصلحت و حکمت ہے، تمام عقلاء اور حکماء و اطباء کا اسی پر عمل اور اتفاق ہے اور پھر جب یہ موذی کفار مسلمانوں کا خون چوس چوس کر پل رہے ہوں اور طاقتور ہو کر مسلمانوں ہی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کررہے ہوں تو ان سے خرید وفروخت اور لین دین میں مکمل مقاطعہ، اسلام اور ملت اسلامیہ کے وجودو بقاء کے لئے ایک ناگریز ملی فریضہ بن جاتا ہے، آج بھی اس متمدن دنیا میں مقاطعہ یا اقتصادی ناکہ بندی کو ایک اہم دفاعی مورچہ سمجھا جاتا ہے اور اس کو سیاسی حربہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے مگر مسلمانوں کے لئے یہ کوئی سیاسی حربہ نہیں بلکہ اسوۂ نبی، سنت رسول اور ایک مقدس مذہبی فریضہ ہے۔اسلام کی غیرت ایک لمحہ کے لئے یہ برداشت نہیں کرتی کہ اسلام اور ملت اسلامیہ کے دشمنوں سے کسی نوعیت کا کوئی تعلق اور رابطہ باقی رکھا جائے…

٭…٭…٭
قادیانیوں کے ساتھ موالات(۳)
مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ (شمارہ 608)
اب ہم آیات قرآنیہ، احادیث نبویہ اور فقہاء امت اسلامیہ کے وہ نقول پیش کرتے ہیں جن سے اس مقاطع کا حکم واضح ہوتا ہے:

۱)…’’اذاسمعتم آیات اللّٰہ یکفر بھاو یستھزأبھافلا تقعد وامعھم‘‘(النساء:۱۳۹)
’’جب سنو تم کہ اللہ کی آیتوں کا انکار کیا جارہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جارہا ہے تو ان کے ساتھ نشست و برخاست ترک کردو۔‘‘

۲)…’’واذا رأیت الذین یخوضون فی ایتنا فاعرض عنھم‘‘(الانعام:۶۸)
اور جب تم دیکھو ان لوگوں کو جو مذاق اڑاتے ہیں ہماری آیتوں کا تو ان سے کنارہ کشی اختیار کرلو‘‘

اس آیت کے ذیل میں حافظ الحدیث امام ابو بکر الجصاص الرازی لکھتے ہیں:

وھذایدل علی ان علینا ترک مجالسۃ الملحدین وسائرالکفارلاظھارھم الکفرو الشرک ومالا یجوز علی اللّٰہ تعالیٰ اذالم یمکن انکارہ…‘‘(الخ)
’’یہ آیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ہم (مسلمانوں) پر ضروری ہے کہ ملاحدہ اور سارے کافروں پر ان کے کفر اور شرک اور اللہ پر ناجائز باتیں کہنے کی روک نہ کر سکیں تو ان کے ساتھ نشست و برخاست ختم کردیں۔‘‘

۳)…’’یاایھا الذین امنوالاتتخذوا الیھودو النصاری اولیاء‘‘ ( المائدۃ:۵۱)
’’اے ایمان والو!تم یہودو نصاریٰ کو اپنا دوست مت بنائو۔‘‘

امام ابو بکر الجصاص لکھتے ہیں:

’’وفی ھذہ الایۃ دلالۃ علی ان الکافر لایکون ولیا للمسلمین لا فی التصرف و لا فی النصرۃ و تدل علی وجوب البراء ۃمن الکفاروالعداوۃ لھم لان الولایۃ ضدالعداوۃ فاذاامرنا بمعاداۃ الیھود و النصاری لکفرھم فغیرھم من الکفار بمنزلتھم و الکفر ملۃ واحدۃ‘‘
اس آیت میں اس امر پر دلالت ہے کہ کافر مسلمانوں کا ولی( دوست) نہیں ہو سکتا، نہ تو معاملات میں اور نہ امداد و تعاون میں…اور اس سے یہ امر بھی واضح ہوتا ہے کہ کافروں سے برأت اختیار کرنا اور ان سے عداوت رکھنا واجب ہے کیونکہ ولایت،عداوت کی ضد ہے اور جب ہم کو یہود ونصاریٰ سے ان کے کفر کی وجہ سے عداوت رکھنے کا حکم ہے تو دوسرے کافر بھی ان ہی کے حکم میں ہیں، سارے کافر ایک ہی ملت ہیں۔

۴)…سورہ ممتحنہ کا تو موضوع ہی’’کفار سے قطع تعلق‘‘‘ کی تاکید ہے۔ اس سورت میں بہت سختی کے ساتھ کفار کی دوستی اور تعلق سے ممانعت کی گئی ہے، اگرچہ رشتہ دار ،قرابت دار ہوں اور فرمایا کہ قیامت کے دن تمہارے یہ رشتے کام نہیں آئیں گے اور یہ کہ جو لوگ آئندہ کفار سے دوستی اور تعلق رکھیں گے، وہ راہ حق سے بھٹکے ہوئے اور ظالم شمار ہوں گے۔

۵)…’’لاتجد قوما یومنون باللّٰہ والیوم الآخر یوادون من حاد اللّٰہ ورسولہ ولوکانوآباء ھم او ابناء ھم اواخوانھم اوعشیرتھم‘‘( مجادلہ: ۲۲)

’’تم نہ پائو گے کسی قوم کو جو یقین رکھتے ہوں اللہ پر اور آخرت پر کہ دوستی کریں ایسوں سے جو مخالف ہیں اللہ کے اور اس کے رسول کے خواہ و ہ ان کے باپ ہوں، بیٹے ہوں، بھائی ہوں یا خاندان والے ہوں۔‘‘

آگے چل کر اس آیت کریمہ میں ان مسلمانوں کو جو باوجود قرابت داری کے ،محارب کافروں سے دوستانہ تعلقات ختم کردیتے ہیں، سچے مومن کہا گیا ہے، انہیں جنت اور رضوان الہٰی کی بشارت سنادی گئی ہے اور ان کو’’حزب اللہ‘‘ کے لقب سے سرفراز فرمایا گیا ہے جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ خدا و رسول کے دشمن، موذی کافروں سے تعلقات رکھنا، ان سے گھل مل کر رہنا اور انہیں کسی قسم کی تقویت پہنچانا کسی مومن کا کام نہیں ہو سکتا۔

بطور مثال ان چند آیات کا ذکر کیا گیا ہے ورنہ بے شمار آیات کریمہ اس مضمون میں موجود ہیں۔

اب چند احادیث نبویہ ملاحظہ ہوں:

۱)…جامع ترمذی کی ایک حدیث جو سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

’’حکم دیا گیا ہے کہ مشرکوں اور کافروں کے ساتھ ایک جگہ سکونت بھی اختیار نہ کرو، ورنہ مسلمان بھی کافروں جیسے ہوں گے۔

۲)…نیز ترمذی کی ایک حدیث میں، جو جریر بن عبد اللہ البجلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’انا بریٔ من کل مسلم یقیم بین اظھر المشرکین‘‘
’’یعنی آپﷺ نے اظہار برأت فرمایا اس مسلمان سے جو محارب کافروں میں سکونت پذیر ہو۔‘‘(حوالہ بالا)

۳)…صحیح بخاری کی ایک حدیث میںقبیلہ عکل اور عرینہ کے آٹھ نو اشخاص کا ذکر ہے جو مرتد ہوگئے تھے۔ ان کے گرفتار ہونے کے بعد حضور اکرمﷺ نے حکم دیا کہ ان کے ہاتھ پائوں کاٹ دئیے جائیں اور ان کے آنکھوں میں گرم کر کے لوہے کی کیلیں پھیردی جائیں اور ان کو مدینہ طیبہ کے کالے کالے پتھروں پر دھوپ میں ڈال دیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ، یہ لوگ پانی مانگتے تھے لیکن پانی نہیں دیا جاتا تھا۔ صحیح بخاری کی روایت کے الفاظ ہیں:

’’یستسقون فلا یسقون‘‘ اور ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:’’ حتی ان احدھم یکدم بفیہ الارض، فرایت الرجل منھم یکدم الارض بلسانہ حتی یموت‘‘ کہ وہ پیاس کے مارے زمین چاٹتے تھے مگر انہیں پانی دینے کی اجازت نہ تھی۔

امام نوویؒ اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں:

’’ان المحارب المرتد لاحرمۃ لہ فی سقی الماء ولا غیرہ،ویدل علیہ ان من لیس معہ ماء الا للطھارۃ لیس لہ ان یسقیہ المرتد ویتیمم بل یستعملہ ولومات المرتد عطشاً‘‘
’’اس سے معلوم ہواکہ محارب مرتد کا پانی وغیرہ پلانے میں کوئی احترام نہیں، چنانچہ جس شخص کے پاس صرف وضو کے لئے پانی ہو تو اس کو اجازت نہیں ہے یہ کہ پانی مرتد کو پلا کر تیمم کرلے، بلکہ اس کے لئے یہ حکم ہے کہ پانی مرتد کو نہ پلائے اگر چہ وہ پیاس سے مرجائے بلکہ وضو کر کے نماز پڑھے‘‘

۴)… غزوئہ تبوک میں تین کبار صحابہ کعب بن مالک، بلال بن امیہ واقفی بدری اور مرارۃ بن ربیع بدری عمری کو غزوہ میں شرک نہ ہونے کی وجہ سے سخت سزادی گئی،آسمانی فیصلہ ہوا کہ ان تینوں سے تعلقات ختم کرلئے جائیں ان سے مکمل مقاطعہ کیا جائے، کوئی شخص ان سے سلام و کلام نہ کرے حتی کہ ان کی بیویوں کو بھی حکم دیا گیا کہ وہ بھی ان سے علیحدہ ہوجائیں اور ان کے لئے کھانا بھی نہ پکائیں، یہ حضرات روتے روتے نڈھال ہوگئے اور حق تعالیٰ کی وسیع زمین ان پر تنگ ہوگئی، وحی قرآنی کے الفاظ ملاحظہ ہوں:

’’وعلی الثلا ثۃ الذین خلفوا حتی اذاضاقت علیھم الارض بمارحبت وضاقت علیھم انفسھم وظنواان لا ملجاء من اللّٰہ الا الیہ‘‘
اور ان تینوں پر ( بھی توجہ فرمائی) جن کا معاملہ ملتوی چھوڑ دیا گیا تھا یہاں تک کہ جب زمین ان پر باوجود اپنی فراخی تنگی کرنے لگی اور وہ خود اپنی جانوں سے تنگ آگئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اللہ تعالیٰ سے کہیں پناہ نہیں مل سکتی بجزاسی کی طرف کے۔‘‘

پورے پچاس دن یہ سلسلہ جاری رہا آخر کار اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور معافی ہوگئی۔