اسلامی قانون میں حد کا تصور

مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ (شمارہ
آپس میں گٹھ جوڑ کر کے اس برگزیدہ دین میں تغیرو تبدل اور مسخ و تحریف کرنے اور اس کی جگہ خود ساختہ دین چلانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ اپنے ایمان و عمل کی طاقتوں سے ان کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملادیتے ہیں’’لا یخافون فی اللّٰہ لومۃ لائم‘‘اللہ کی راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے مطلق نہیں ڈرتے۔ ان کاشعار اور امتیازی نشان ہے۔

۲)حدود الہٰی کی حفاظت کے ذیل میں تو بہ، عبادت، حمد، رکوع ،سجود، امر بالمعروف، نہی عن المنکر سب کی سب صفات محمودہ اجمالاً داخل ہیں، اس لئے تفصیل کے بعد اجمال کو ذکر کیا تاکہ مومنین مخلصین کی مدح و ستائش تفصیل و اجمال دونوں طریقوں سے ہو سکے اور اس طرح ان کا امتیاز قائم ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ درمیان میں حرف عطف (واو) نہیں لایا گیا اور’’الحافظون لحدود اللہ‘‘ سے پہلے حرف عطف لایا گیا کیونکہ اجمال تفصیل میں ایک لحاظ سے مغایرت اور دوسرے لحاظ سے اتحاد ہوتا ہے اور عطف نہ مغایرت محض کی صورت میں جائز ہوتا ہے نہ اتحاد محض کی صورت میں، بلکہ ایک لحاظ سے مغایرت او دوسرے سے اتحاد کی صورت میں وائو لایا جاتا ہے۔

۳)توبہ، عبادت ،حمد ،رکوع، سجود، امر بالمعروف، نہی عن المنکر ایسے امور ہیں کہ اگر ان کو احکام الہٰی اور طاعت و عبادت کی حیثیت سے انجام نہ دیا جائے بلکہ ریاکاری ، شہرت یا کسی بھی اور غرض سے انجام دیاجائے تو وہ باعث اجروثواب ہونے کے بجائے اُلٹے گناہ کا سبب بن سکتے ہیں اس لئے’’الحافضون لحدود اللہ‘‘ کا جملہ ارشاد فرما کر صراحت کردی کہ یہ حضرات اپنے مذکورہ بالا سارے صفات واعمال اور عبادت و بندگی کے تمام طریقوں کو محض اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ احکام کی حیثیت سے انجام دیتے ہیں اور ان کی حفاظت و پابندی ان کا واحد مقصد ہوتا ہے، اسی لئے وہ خود ساختہ طریقوں اور رواجی راستوں سے دور بھاگتے ہیں۔

۴)بعض محققین نے’’الحافظون لحدود اللہ‘‘ سے مراد اسلامی شرعی سزائیں مثلاً قتل عمد میں قصاص، چوری میں قطع ید( ہاتھ کا کاٹنا) زنا میں سوکوڑے لگانا’’ یا رجم’’ سنگسار‘‘ کرنا مراد لیا ہے، کیونکہ اسلامی شرعی سزائیں دنیا میں ہر معاشرے کے اند ر سے فساد اخلاق و اعمال ،استیصال جرائم اور ظلم و جور کے دفع کرنے کی ضامن ہیں۔

اس لئے مومنین مخلصین ان حدود کی علمی و عملی حفاظت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں، تاکہ معاشرہ فسادِ اخلاق، اشاعت فاحشہ اور ظلم وجور سے پاک ہوجائے اور انسانوں کو امن و امان اور اطمینان وسکون کی شریفانہ زندگی بسر کرنا نصیب ہو۔

اب صاحب مقالہ ڈاکٹر فضل الرحمن ’’بالقابہ‘‘ کی خامہ فرسائی ملاحظہ ہو کہ انہوں نے کس طرح اپنا غلط مفروضہ ثابت کرنے کے لئے آیت کریمہ کا غلط مطلب نکالنے کی بے سود کوشش کی ہے ہمیں امید ہے کہ کوئی مسلمان بھی ان کے طلسم فریب میں نہ پھنسے گا۔ فرماتے ہیں:

اس سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ حدود اللہ کا اشارہ اس’’عام امتیاز‘‘ کی طرف ہے جو نیک اور بد میں پایاجاتا ہے۔ یہاں بھی حدود اللہ کا اشارہ ان امور کی طرف ہے جو’’نیکی اور راست کرداری‘‘ کے تحت آتے ہیں۔

پھر اس پر مستزاد ایک اور غلط مفروضہ ملاحظہ ہو:

کیونکہ’’یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ نیکی اور راست کرداری کے تحت آنے والے امور کا خدا نے حکم دیا ہے ،خواہ صراحتاً ایسا حکم موجود ہو یا نہ ہو۔‘‘

یہ کہنا کہ’’نیکی‘‘ اور ’’راست کرداری‘‘ کے تحت آنے والے امور کا خدا نے حکم دیا ہے۔‘‘

اپنی جگہ خود کتنا غلط ہے اور خاص کر جبکہ آج دنیا میں فساد برپا ہے۔ زبان و قلم بے لگام ہوچکے ہیں، شہوات اور نفس کی شرارتوں کا تسلط ہے اس لئے کہ حکومت نے ان بے لگاموں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ اس کے نتیجہ میں خیر وشر کی قدریں بدل رہی ہیں۔ کل تک جو امور شر میں داخل سمجھے جاتے تھے۔(مثلاًسود خوری ،شراب نوشی، قمار بازی ،ترک صلوٰۃ وصوم وغیرہ) وہ آج خیر اور مستحسن سمجھے جاتے ہیں اور کھلے عام کئے جارہے ہیں، اسی طرح’’نیکی‘‘ اور’’راست کرداری ‘‘ کے بارے میں بھی لوگوں کے زاویہ ہائے نظر( خیالات و نظریئے) بدل رہے ہیں۔ بلکہ صحیح معنی میں بدل چکے ہیں درحقیقت مذکورہ بالا مفروضہ صرف اس لئے قائم کیا گیا ہے کہ اس کے تحت ہر وہ امر جس کو یہ متجددین نیکی اور راست کرداری قرار پائیں اسی کو’’اللہ تعالیٰ کا حکم‘‘ کہا جا سکے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کا نازل کیا ہوا پورا دین’’اسلام کی تعمیر نو‘‘ کے نام سے مسخ کر کے رکھ دیا جائے۔ تعالیٰ اللّٰہ عمایقولون علواکبیرا

سورۃ توبہ کی مذکورہ بالا آیت کے پوسٹ مارٹم (عمل جراحی) سے فارغ ہو کر مقالہ نگارنے سورۃ توبہ کی آیت ذیل درج کی ہے اور اس سے بھی اپنا مفروضہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے: الاعراب اشدکفراونفا قاواجدران لایعلمواحد ودماانزل اللّٰہ علی رسولہ( سورۃ توبہ آیت ۹۷)( ان منافقین میں جو دیہاتی لوگ ہیں( اپنے گنوار پنے کی وجہ سے) وہ کفر و نفاق سے میں سب سے زیادہ سخت ہیں اور اسی لائق ہیں کہ وہ ان احکام کے علم سے بے بہرہ رہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر نازل فرمائے ہیں)

مدینہ کے منافقین اور مومنین مخلصین کا ذکر کرنے کے بعد آیت کریمہ میں عرب کے بدوی( دیہاتی) منافقین کا ذکر فرمایا ہے کہ کس طرح اور کیوں یہ لوگ کفر و نفاق میں سب سے زیادہ سخت ہیں۔ دیہات کے لوگ دیہاتی زندگی کے نتیجہ میں عموماً تندخو، درشت مزاج، اکھڑاور بدزبان ہیں۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ شہری زندگی کی مجالس علم و حکمت اور تہذیب و شائستگی سے دور اور محروم رہنے کی وجہ سے علم و معرفت،تہذیب و شائستگی کا اثر اور علوم و معارف الہٰیہ کی روشنی ان کو بہت کم میسر آتی ہے اور بتلانے سمجھانے پر بھی بہت کم اثر قبول کرتے ہیں اسی لئے… ان کادیہاتی کفر و نفاق شہری کفر و نفاق سے بہت زیادہ سخت ہوتا ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کو ایسے مواقع حاصل نہیں ہوتے کہ اہل علم وصلاح کی صحبت میں رہ کر علم و معرفت اور تہذیب و شائستگی کے وہ قانون وقاعدے معلوم کریں جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر علیہ السلام پر نازل کئے ہیں اور یہ مسلّم ہے کہ علم و معرفت ہی وہ کیمیا ہے جو انسان کے درشت اور سنگلاخ دل کو نرم اور موم بنا دیتی ہے اور اخلاق حسنہ و آداب فاضلہ سے آراستہ کردیتی ہے…