مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ
تیسرے مقام پر حدود اللہ سے ’’طلاق و نکاح کے مخصوص احکام‘‘مراد ہیں۔ جوان دونوں آیات میں بیان کئے گئے ہیں اور قرینہ اس کا اسم اشارہ (تلک) ہے۔ اسی طرح چوتھے مقام پر حدود اللہ کا مصداق نکاح و طلاق کے علاوہ اور’’ تمام احکام شرعیہ‘‘ اوامر ونواہی ہیں، جواللہ تعالیٰ نے انسانوں کی فلاح و اصلاح کے لئے مقرر فرمائے ہیں، گویا یہ ایک عام ہدایت دی جارہی ہے کہ تمہاری فلاح و سعادت اور دنیا و آخرت کی بھلائی اسی میں مضمر ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ تمام احکام سے سر موتجاوز نہ کرو۔ اگر تم ان حدود الہٰی سے تجاوز کرو گے تو تم یقینا خود اپنے اوپر ظلم کرو گے اور نقصان اُٹھاؤگے۔ دوسرے لفظوں میں اس طرح سمجھئے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام احکام درحقیقت حرام ،حلال، جائز و ناجائز، طاعت و معصیت کی بناء پر ہیں۔سعادت کا تقاضایہ ہے کہ بندے انہی حدبندیوں کے اندر رہیں۔ حلال کو حلال سمجھیں اور اس پر عمل کریں حرام کو حرام سمجھیں اوراس سے اجتناب کریں۔ یہی اللہ کی اطاعت ہے اور اس کے خلاف کرنا’’معصیت‘‘ ہے، بہرحال ان حدبندیوں سے باہر نہ نکلیں اس لئے کہ جب کوئی ان حدود سے باہر نکلتا ہے تو یقینا وہ ظالم کے لقب کا سزاوار ہے۔
ابن جریر الطبری فرماتے ہیں:
یہ احکام طاعت و معصیت کی حدود ہیں، اس لئے حلال کی حد سے نکل کر حرام کی حد کی طرف نہ جائو۔ طاعت کی حد سے نکل کر معصیت کی حد کی طرف سے نہ جائو۔
پانچویں مقام پر بھی حدود اللہ سے مراد یہی حقوق وفرائض زوجین ہیں، جو قرآن و سنت میں بیان کئے گئے ہیں، یہاں بھی قرینہ( یقیما) تثنیہ کا صیغہ ہے۔
اور چھٹے مقام پر طلاق و خلع و نکاح سے متعلق احکام مراد ہیں جو اس آیت کریمہ میں بیان ہوئے، یہاں بھی قرینہ اسم اشارہ ( تلک) ہے۔
اس تفصیل کے بعد آیت کریمہ کا دقیق تجزیہ کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ لفظ حدود اس آیت میں تین معنی میں استعمال ہوا ہے:
( ا) ایک وہ حقوق و فرائض زوجین جو قرآن و سنت نے مسلمان خاوند اوربیوی کے مقرر کئے ہیں۔ پہلے دوسرے اور پانچویں مقام پر حدود کا مصداق یہی ہیں۔
(۲) دوسرے وہ احکام طلاق وخلع و نکاح جو اس آیت کریمہ میں بیان ہوئے ہیں تیسرے اور چھٹے مقام میں یہی معنی مراد ہیں۔
(۳)عام احکام الہٰیہ جو حرام وحلال اور جائز و ناجائز سے متعلق ہیں چوتھے مقام پر یہی معنی مراد ہیں۔
ہم آگے بڑھنے سے پہلے ایک سوال کا جواب بھی دینا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ طلاق و نکاح وغیرہ کے احکام کی کیا خصوصیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان دوآیات میں چھ مرتبہ’’ حدود اللہ‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے، حالانکہ دوسرے احکام بھی اس سے کم اہم نہیں لیکن وہاں حدود اللہ کا لفظ اس طرح استعمال نہیں کیا گیا۔
جواب ظاہر ہے کہ نزول قرآن سے پہلے فساد تو انسانی زندگی کے ہر شعبہ پر طاری تھا لیکن عائلی زندگی اس درجہ فاسد ہوچکی تھی کہ تصور نہیں کیا جا سکتا۔ طلاق کا مسئلہ سب سے زیادہ ناہموار یوں کا شکار تھا۔ علاوہ ازیں لوگوں کے اس خام خیال میں مبتلا ہوجانے کا اندیشہ تھا کہ’’دین‘‘ تو عبادت کے چند خاص طریقوں کا نام ہے، نکاح و طلاق وغیرہ رواجی مسائل ہیں، دین و احکام الہٰی کا ان سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ یہ سارے مسائل رسم ورواج اور انسانوں کے خود ساختہ طریقوں کے حوالے ہیں( حتی کہ آج چودہ سو سال بعد بھی بر ملا یہی کہا جارہا ہے) لہٰذا ان آیات میں طلاق وخلع کے احکام بتلائے گئے اور جاہلیت کے طریقوں کی نفی کی گئی اور قدم قدم پر حدود اللہ کا لفظ استعمال کیا گیا کہ نکاح اور طلاق کے احکام و مسائل کو رواجی طریقے نہ سمجھنا چاہئے، بلکہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ احکام اور حقوق اور واجبات ہیں اور ان کے مسائل میں اس نے تم کو آزاد نہیں چھوڑا ہے کہ تم اپنی خواہشات کے تقاضوں کے بموجب جیسا دبائو پڑے ویسے’’عائلی قوانین‘‘ بناتے رہو بلکہ جس طرح تمہاری زندگی کے دوسرے شعبوں کو اپنی ہدایات اور احکام سے محدودو متعین کیا ہے بالکل اسی طرح اس زندگی کو بھی اپنے مقرر کردہ احکام اور حقوق و واجبات سے محکم و استوار فرمایا ہے، اب تم اگر کامیابی سے ہمکنار ہونا چاہتے ہو تو اس کا ایک ہی راستہ ہے کہ ان حد بندیوں کو نہ توڑو،ان سے نہ نکلو بلکہ ان حدود میں رہ کر ہی شریفا نہ زندگی گزارو۔
دوسری آیت کریمہ جس سے صاحب مقالہ نے استدلال کیا ہے وہ سورۃ توبہ کی آیت ہے
التائبون العابدون الحامدون السائحون الراکعون الساجدون الامرون بالمعروف والناھون عن المنکروالحافظون لحدود اللّٰہ
وہ ایسے لوگ ہیں جو گناہوں سے تو بہ کرنے والے ہیں، اللہ کی عبادت کرنے والے ہیں، حمد وثنا کرنے والے،(ماسو اللہ سے) بے تعلق والے ،رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے ،اچھی باتوں کی تعلیم دینے والے، بر ی باتوں سے روکنے والے اور حدود الہٰیہ کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
اس سے پہلے کی آیت میں ان مؤمنین مخلصین کا ذکر ہے جنہوں نے اپنے جان ومال کو جنت کے عوض اللہ تعالیٰ کے ہاتھ فروخت کردیا ہے۔ اس آیت میں مؤمنین کی مزید صفات بیان کی جارہی ہیں کہ یہ مؤمنین وہ ہیں جو تو بہ و انابت الی اللہ کو اپنا شعار بنا کر عبادت الہٰی کے جذبہ سے سرشار اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا میں رطب اللسان ہیں، روزہ یا جہاد یا طلب علم ودین کی غرض سے شہوات و لذائد نفس سے گھر بار اور وطن سے بے تعلق ہو کر اللہ جلّ جلالہٗ کے حضور میں نمازوں میں رکوع کرتے ہیں، سجدہ میں جبین نیاز کو آستانہ الہٰی پر رکھتے ہیںاور عبدیت کا اظہار کرتے ہیں، پھر یہ مومنین مخلصین خوددرست کار ہونے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی اصلاح کا جذبہ بھی رکھتے ہیں اور’’تواصی بالحق‘‘ کا فرض ادا کرتے ہیں اسی لئے لوگوں کو شرعاً نیک کاموں کا حکم کرتے ہیں اور ازروئے شرع برے کاموں سے روکتے ہیں۔
اس کے بعد مؤمنین مخلصین کا آخری اور جامع متعین وصف بیان فرمایا :
’’اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حدود کی حفاظت کرنے والے‘‘
آیت کریمہ میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ’’والحافظون لحدود اللہ‘‘ وجوہ ذیل پر ارشاد فرمایا گیا ہے
۱)مؤمنین جو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ فروخت ہو چکے ہیں ان کے لئے صفات مذکورہ نامکمل تھیں اس لئے ایک جامع ترین صفت لا کر صفات محمودہ کی تکمیل کردی گئی یعنی یہ حضرات نہ صرف صفات مذکورہ کے مالک ہیں بلکہ اپنی پوری زندگی اللہ تعالی کی قائم کی ہوئی حدود کے تحت گزارتے ہیں۔
٭…٭…٭