اسلامی قانون میں حد کا تصور (انتخاب مضامین

مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ (شمارہ 601)
بعنوان مندرجہ بالا ڈاکٹر فضل الرحمن ڈائریکٹر ادارہ تحقیقاتِ اسلام کا ایک مضمون فکر و نظربابت ماہ فروری و مارچ ۱۹۶۶ء میں نظر سے گزرا، ڈاکٹر صاحب موصوف نے سب سے پہلے سنت نبویہ علی صاحبہا الف صلاۃ و تحیۃ کو مجروح و ناقابل اعتبار گردانا اور بزعم خویش ثابت کرنا چاہا کہ سنت رواج کے ہم معنی ہے ہر زمانہ کا رواج قانون سازی کے لیے اصل قرار دیاجائے گا، پھر بینک کے سود کو حلال فرمایا۔ بیئر شراب کی باری آئی تو اس کی حلت و طہارت کا فتویٰ دیا، درمیان میں پانچ وقت نماز پر بھی( العیاذ باللہ) ہاتھ صاف کرتے چلے اور لکھ دیا کہ پانچوں نمازوں پر تاکیدو اصرار عہد رسالت کے بعد کی پیدوار ہے اب حدود کا نمبر آیا ہے اور قرآن کریم کی نصوص نظیر اور سنت متواترہ سے ثابت شدہ حدود کو قابل تغیر و تبدیلی قرار دے رہے ہیں۔

ایک عام پاکستانی شہری ادارہ تحقیقاتِ اسلام اور اس کے ڈائریکٹر کی اسلام کے خلاف تحقیق کے نام سے اس ہرزہ سرائی کو دیکھتا ہے تو حیرت زدہ ہو کر قبل ازقیام پاکستان کے نعروں اور بعد کے واقعات سے اس سوال کا جواب لینا چاہتا ہے کہ جو مملکت خالص اسلام کے نام پر بنائی گئی ہے اور جس کے قیام و بقا کے لیے لاکھوں انسانوں نے اپنا خون، ناموس سب کچھ قربان کروادیا۔ اس مملکت کا قائم کیا ہوا ادارہ اسلام کی خدمت کرنے کے بجائے اسلام کی اقدار کو منہدم کررہا ہے۔ ادارہ تحقیقات اسلام کے سامنے اسلام کی خدمت کے بیش بہا مواقع تھے۔ ادارہ مستشرقین اور ان کے اباطیل کا جواب دیتا، اسلامی علوم و فنون میں ان کے ملائے ہوئے زہر کو کی جرم کو تریاق سے تبدیل کر کے نوجوان نسل کے لیے کام کرتا ، جدید علوم پراسلام کی روشنی سے کتابیں لکھی جاتیں، اقتصادیات ، فلسفہ، سائنس اور دیگر علوم پر کمیونزم اور سوشلزم کی اجارہ داری کو ختم کر کے اسلام کی اجارہ داری قائم کرتا۔ الغرض اس طرح کے سیکڑوں کام تھے لیکن

اے بسا آرزو کہ خاک شدہ

مستشرقین کی ہفوات و اباطیل کو سند کا درجہ دیا جارہا ہے اور ان سے خراج تحسین وصول کرنے کے لیے اسلام کو مسخ کیا جارہا ہے ،نوجوان نسل کے لیے تریاق بہم کرنے کے بجائے تریاق کوزہر بنایا جارہا ہے ، ادارہ تحقیقاتِ اسلام کے اہل قلم کی علمی و قلمی صلاحیتیں صرف اس بات پر خرچ ہو رہی ہیں کہ پیغمبرﷺ کے لائے ہوئے دین کو ختم کر کے ایک خود ساختہ دین کو ادارہ تحقیقات اسلام کی کوکھ سے جنم دے کر لوگوں کو گمراہ کیا جائے کہ اسلام اصلی یہی ہے، صحابہ، تابعین، آئمہ مجتہدین،محدثین،فقہا ء سب کے سب اس اسلام کو بھول گئے تھے،اب ادارہ تحقیقات اسلام کے کارپردازوں کو بذریعہ الہام اس کا اصلی اسلام ہونا معلوم ہوا۔

ہم اس پاکستانی شہر ی کے حیرت و استعجاب کو دور کرتے ہیں، حقیقت حال یہ ہے کہ کچھ تو قیام پاکستان کے نعروں کا لحاظ کرتے ہوئے اور کچھ اس بنا پر کہ مشرقی و مغربی پاکستان کے درمیانی ہزار میل کے فاصلہ کو پاٹنے کے لیے اس ملک کی قسمت کے مالک دستور میں اسلام کا نام لینے کے لیے مجبور ہوئے، بڑی مشکل سے اسلام کا نام تو لے دیا لیکن انگریز سے مرعوب ذہن ودماغ اسلام کا نام لینے میں زبان کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوئے، اس لیے اسلام اور صحیح دین سے فرار اور گریز کی راہیں تلاش کرنے کے لیے اسلامی ادارہ تحقیقات کو منصہ و جود پر لایا گیا، تاکہ اس کے ذریعہ اسلام کی قدروں کو ڈھا کر…اسلام کا ایک ایسا ایڈیشن تیار کیا جائے جس میں سب کچھ روارکھا جائے،ڈاکٹر صاحب موصوف کا مضمون بعنوان مندرجہ بالا اسی سلسلہ ابشر کی ایک کڑی ہے۔

مضمون کی اصل روح یہ ہے کہ زنا ، چوری، تہمت، شراب نوشی، قتل وغیرہ کی سزائیں جو قرآن کی آیات قطعیہ اور سنت متواترہ سے ثابت ہیں اور جن کے بارے میں نزول قرآن سے لے کر آج تک تمام امت کا اجماع اور اتفاق رہا ہے کہ ان سزائوں میں تبدیلی ناممکن اور محال ہے قابل تبدیلی قرار دیا جائے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے اس موقف کا بار بار اظہار کیا ہے۔

چنانچہ مضمون کے شروع میں کہتے ہیں:

حد کی اصطلاح کو ایک غیر متغیر مقدار سزا کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور یہ مقدار ابتدائی طور پر وہی ہے جو قرآن نے مقرر کی ہے۔ قرآن میں علیحدہ کرنے والی یا روکنے والی حد کا جو تصور پایا جاتا ہے ،جرم سے بازرکھنے والی سزا کے تصور نے اس کی جگہ لے لی ہے۔

دوسری جگہ کہتے ہیں:

دوسری بات جو مساوی اہمیت رکھتی ہے وہ یہ کہ معروف اور پسندیدہ رسم و عادات کے مشمولات نہ صرف ناقابل تغیر ہیںبلکہ کافی تبدیل پذیر بھی ہیں۔

پھر ایک جگہ صریح اظہارکرتے ہیں کہ قرآن کو امت کے اخلاقی ضابطہ بندی سے زیادہ سروکار ہے۔قانونی ضوابط کے سلسلہ میں مسلمانوں کو آزاد چھوڑدیا گیا ہے کہ وہ اپنے حسب حال قانون سازی کریں اور نزول قرآن سے لے کر آج تک امت کے اس عقیدے کو مجروح قرار دیتے ہیں کہ قرآن میں احکام اور نزول قرآن سے لے کر آج تک امت کے جو احکام دئیے ہیں ان کو لفظاً نافذ کیا جائے گا ، اقتباس مندرجہ ذیل ڈاکٹر صاحب کے حقیقی مدعا کے واضح کرنے کے لیے کافی ووافی ہے۔

ہمیں فکر و تامل سے کام لیتے ہوئے سوچنا چاہیے کہ قرآن کو امت کی اجتماعی زندگی میں خالص قانونی ضوابط کی تشکیل سے نسبتاً کم اور امت کی عمومی اخلاقی طرز فکر کی تشکیل سے کتنا زیادہ سروکار ہے، قانونی اہمیت رکھنے والے امور کا حق یقیناً پورا پورا ادا کرنا ہوگا اور ایک ایسے قانونی نظام کی نشوونما پر یقینا توجہ کرنی ہوگی جو امت کی ضروریات کے لیے کفایت کرے لیکن یہ کام امت پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ قرآن کی روشنی میں اور اس کی اخلاقی روح کو مد نظر رکھتے ہوئے اس قانون کی تشکیل کرے ،البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ خود قرآن کا یہ میلان نہیں کہ وہ ہر مسئلہ کی نسبت معین قوانین و ضوابط و ضع کرے اور وہ لوگ دوہری غلطی کا ارتکاب کررہے ہیں جو خدا کے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں اور اس کو لفظاً نافذ کرانا چاہتے ہیں۔ اولاً یہ امرواضح ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ قرآن کا بہت کم حقیقی فہم رکھتے ہیں۔

اسی طرح آگے چل کر کہتے ہیں:

پہلی بات یہ ہے کہ یہ سزائیں صحیح معنوں میں قانونی نوعیت کی نہیں ہیں بلکہ کفارہ کی تعریف میں آئی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی قانون سازی کی نوعیت قانون کے مقابلہ میں مذہبی و اخلاقی زیاد ہ ہے اس کے معنی یہ ہوئے کہ اصل قانون کو قرآن سے اخذ کرنا پڑے گا وہ پہلے سے بنابنایا قرآن میں موجود نہیں ہے… کہ ان کے ذریعہ مسلمانوں کو یہ بتایا جارہا ہے کہ حالات کی مناسبت سے سزائوں میں کس طرح تبدیلی کی جا سکتی ہیں۔

٭…٭…٭