اسلامی قانون میں حد کا تصور

مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ (شمارہ 602)
ایک اورجگہ کہتے ہیں:

اس طریق فکر پر چلنے سے ہم جرم اورسزا کی اسلامی ساخت کی ازسر نو تقسیم کر کے اور اس میں باقاعدگی پیدا کرکے قرآن و سنت کی مقتضیات کی تکمیل کر سکیں گے، یہ نظام معقولیت پر مبنی ہوگا اور یہی قرآن کا تقاضا بھی ہے۔

مضمون کے آخر میں اپنے مدعا کا ایک بار پھر اظہار کرتے ہیں:

یہاں پر سزائوں کی اسلامی ساخت کی ایک قابل قبول بنیاد معلوم کرنا چاہتے ہیں، یہ بنیاد مجرم کی اخلاقی اصلاح اور اسے جرم سے باز رکھنے کی قوت کے دوگونہ اصولوں میں فقہاء نے ہمارے لیے فراہم کردی ہے۔

ڈاکٹر صاحب موصوف کے مقالہ گرانمایہ کا یہ ایک سرسری تعارف جو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے، دراصل ڈاکٹر صاحب کی یہ تحقیقات نامرضیہ اسی راگ کی لے ہیں جو اس سے قبل موصوف نے چھیڑا تھا کہ:

قرآن کے احکام ابدی نہیں ہیں بلکہ اس کی علل ابدی ہیں۔

اب اس کے ساتھ ایک اور مقدمہ لگادیا ہے، قرآن اخلاقی ضوابط کی کتاب ہے، احکام سے اس کو زیادہ سروکار نہیں ہے۔ ان دونوں مقدموں کے بعد نتیجہ ظاہر ہے کہ قرآن کا ہر حکم قابل تبدیلی ہے( العیاذ باللہ) ڈاکٹر صاحب کا مضمون مندرجہ بالا ہمیں اس وقت موصول ہوا جب’’بینات ‘‘ کی کتابت ہوچکی تھی اس لیے آپ کے مضمون کا سرسری جائزہ پیش کرسکا۔ آئندہ شمارہ سے اس کا تحقیقی جائزہ ملاحظہ فرمائیں۔

گذشتہ قسط میں ہم نے بتلایا تھا کہ:

ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب لاشعوری یا شعوری طور پر مستشرقین کی تحقیقات عالیہ سے مرعوب اور اسلامی حدود پر غیر مسلموں کی طرف سے جو اعتراضات کئے گئے ہیں وہ ڈاکٹر صاحب کے دماغ پر مسلط ہیں۔ اس لئے درحقیقت ان کا مقصد تو یہ ہے کہ کسی طرح ان سزائوں کا سرے سے انکار کردیں لیکن وہ اس انکار کو تحقیق کے پردوں میں اور فقہاء و محدثین پر’’اتہامات‘‘ کی شکل میں کرنا چاہتے ہیں صرف نا واقفوں کو گمراہ کرنے کے لئے بیچ بیچ میں کچھ شوشے بھی چھوڑتے جاتے ہیں ہم سردست ان شوشوں کا جواب ہی دے رہے ہیں۔ سب سے پہلے ڈاکٹر صاحب نے یہ شوشہ چھوڑا ہے کہ قرآن نے لفظ ( حد) کو’’اخلاقی مفہوم‘‘یا معنی میں استعمال کیا ہے اور اس سلسلہ میں سورہ بقرہ اور سورہ توبہ وغیرہ کی آیات پیش کر کے ثابت کرنا چاہا ہے کہ ان آیات میں حدود کا لفظ متعین احکام کی طرف نشاندہی نہیں کرتا اس سے مراد پسندیدہ رسم ورواج ہے حالانکہ یہ مفروضہ قطعاً غلط ہے۔ قرآن نے جہاں پر حدود کا لفظ استعمال کیا ہے اس سے مراد متعین و مقررہ احکام ہیں جو کبھی خود قرآن میں بیان ہوجاتے ہیں اور کبھی سنت نبویﷺ میں۔

قرآن و سنت نے کبھی بھی انسانوں کی زندگی کو ان کے خود ساختہ رسم و رواج کے حوالہ نہیں کیا۔ اگر اس طرح رسم و رواج کے حوالہ کرنا ہوتا تو ہدایت انسانی کے لیے قرآن کریم نازل کرنے اور پیغمبرﷺ کے مبعوث فرمانے کی کیا ضرورت تھی؟

اب وہ آیا ت سنئے جن سے ڈاکٹر صاحب نے اپنا خود ساختہ مفروضہ ثابت کرنا چاہا ہے تعجب کیجئے کہ اس زمانہ کے ملحدین قرآن کریم کی کس طرح تحریف کررہے ہیں۔

الطلاق مرتان فامساک بمعروف الخ
طلاق دومرتبہ ہے پس اس کے بعد یارکھ لینا ہے شرعی دستور کے موافق یا چھوڑ دینا ہے خوبی کے ساتھ، اور تمہارے لئے حلال نہیں ہے کہ تم ان( عورتوں) کو دیا ہوا مال لے لو مگر جبکہ ان ( میاں بیوی ) دونوں کو خوف ہو( اس بات کا) کہ وہ قائم نہ رکھ سکیں گے اللہ کے احکام پس اگر تم( لوگوں) کو بھی اس بات کا ڈر ہو کہ وہ دونوں (میاں بیوی) اللہ کے مقرر کردہ احکام قائم نہ رکھ سکیں گے تو کچھ گناہ نہیں ان دونوںپر اس میں کہ عورت (عوض دے کر) اپنے نفس کو چھڑالے۔ یہ اللہ کے مقرر کردہ( شرعی) احکام سے آگے بڑھ جاتے ہیں تو وہی لوگ ظالم ہیں پھر اگر اس( عورت) کو تیسری مرتبہ طلاق دیدی تو وہ عورت اس شوہر پر حلال نہیں ہوگی اس کے بعد یہاں تک کہ وہ اس کے سوا( کسی) دوسرے (خاوندسے) بھی طلاق لے لے تو پھر کچھ گناہ نہیں ان دونوں پر کہ باہم رجوع کرلیں اگر گمان کریں کہ قائم رکھیں گے اللہ کے( مقرر کردہ احکامات کو۔ اللہ تعالیٰ کے یہ احکام ہیں جو جاننے والے لوگوں کے لئے بیان کرتا ہے۔(آیات۲۲۹،۲۳۰)

آیات کریمہ میں چھ مقام پر حدود کے لفظ کو استعمال کیا گیا ہے اور ہر مقام پر اس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہﷺ کے مقرر کردہ احکام مراد لیے ہیں۔ خواہ وہ حقوق و فرائض مابین ہوں، خواہ طلاق وخلع و نکاح کے احکام ہوں خواہ ان کے علاوہ اور احکام الہٰیہ جن کی تحدید و تعیین کتاب و سنت میں کی گئی ہے۔

چنانچہ پہلے اور دوسرے مقام پر حدود اللہ سے مراد’’حقوق و فرائض زوجین‘‘ ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے میاں بیوی کو اپنی عائلی زندگی استوار کرنے کے سلسلہ میں دئیے ہیں۔ قرینہ اس کا یہ ہے کہ یقیما تثنیہ کا صیغہ استعمال فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ وہ حدود ہیں جوزوجین کے قائم کرنے سے قائم ہو سکیں گے ایک سے نہیں۔ عائلی زندگی میں حدود’’فرائض و حقوق‘‘ ہی ہو سکتے ہیں اس لئے کہ نکاح کے بعد میاں بیوی دونوں پر کچھ فرائض عائد ہوتے ہیں اور کچھ حقوق ہر ایک کو حاصل ہوتے ہیں۔ چنانچہ آیت کریمہ ذیل میں انہی حدود اللہ کی جانب اشارہ ہے۔

ولھن مثل اللذی علیھن بالمعروف وللرجال علیھن درجۃ و اللّٰہ عزیزحکیم
ترجمہ:اور عورتوں کا بھی( مردوں پر) حق ہے جیساکہ( مردوںکا) ان پر حق ہے( شرعی) قاعدہ کے مطابق اور مردوں کو عورتوں پر ایک گونہ فضیلت و برتری (حاصل) ہے۔

آیت کریمہ نے یہ بتلادیا کہ عائلی زندگی اسی وقت استوار ہوگی جب میاں بیوی میں سے ہر ایک دوسرے کے حقوق کا لحاظ رکھے، مرد اپنی بیوی کے شرعی حقوق پور ے ادا کرے اسی طرح عورت اپنے خاوند کی فضیلت و برتری ملحوظ رکھتے ہوئے اس کے شرعی حقوق ادا کرے اور جب وہ دونوں اس ہدایت پر عمل نہیں کریں گے تو ان کی’’عائلی زندگی‘‘تباہی کے قریب پہنچ جائے گی۔ ایسی صورت میں ان کو اجازت ہے کہ وہ ’’خلع‘‘کرلیں تاکہ دونوں اپنی عائلی زندگی کو نئے سرے سے شروع کر سکیں۔ ہم نے حدود اللہ کا اس آیت میں جو مفہوم بتلایا ہے، ائمہ تفسیر سے بھی یہی منقول ہے ابن جریر الطبری اپنی تفسیر میں رقم فرماتے ہیں:

یہاں حدود اللہ سے مراد و ہ فرائض وواجبات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی پر لازم کئے ہیں۔ یعنی دونوں ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں ۔ حسن معاشرت اور حسن صحبت کو ضروری سمجھیں، ابن عباس، شعبی، حسن، زہری سے اس سلسلہ میں جو کچھ منقول ہے وہ بھی ہمارے بیان کردہ مفہوم میں داخل ہے( تفسیر طبری:ص ۲۸۴ج۲)

٭…٭…٭