مدینہ منورہ میں مقدس مقامات کی زیارت کریں ۔ پھر جب مدینہ منورہ سے واپسی کا ارادہ ہو تو پہلے آنحضرتﷺ پر الوادعی صلوٰۃ وسلام نہایت ہی ادب واحترام اور دلسوزی سے پیش کریں پھر دین و دنیا کی حاجت کے لئے اور حج و زیارت کے قبول ہونے اور گھرعافیت کے ساتھ پہنچنے کی دعا مانگے کہ اے اللہ! آپ اپنے نبیﷺ اور مسجد نبوی کی اس زیارت کو آخری نہ کر، بلکہ میرے لئے دوبارہ آنا اور ٹھہرنا سہل اور آسان فرما۔ ان کی حضوری میں میرے لئے سلامتی و عافیت دین و دنیا کی مقدر فرما اور میں اپنے گھر عافیت اور سلامتی کے ساتھ اجروثواب لے کر جائوں۔ یا ارحم الراحمین! مقدر فرما دیجئے میرے لئے۔
اس وقت جب قدر حزن و ملال رنج و غم کا اظہار ہو سکے کرے اور رونے کی کوشش کرے، اس وقت آنسوئوں کا نکلنا اور قلب کے اوپر حزن کا غلبہ ہونا قبولیت کی علامت ہے۔ پھر روتا ہوا اور مفارقت دربار پر حسرت و افسوس کرتا ہوا چلے، اس کیفیت کے ساتھ مدینہ منورہ سے رخصت ہو۔ اللہ پاک تمام مسلمانوں کو بار بار حاضری کی تو فیق نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین
ایام قربانی
قربانی کتنے دن کر سکتے ہیں
سوال: قربانی کے بارے میں بعض حضرات فرماتے ہیں کہ قربانی سات دن تک جائز ہے، حالانکہ ہم لوگ صرف تین دن قربانی کرتے ہیں، وضاحت فرمائیں کہ تین دن کر سکتے ہیں یا سات دن بھی کر سکتے ہیں؟
ج:جمہور ائمہ کے نزدیک قربانی کے تین دن ہیں، امام شافعی رحمہ اللہ چوتھے دن بھی جائز کہتے ہیں، حنفیہ کو تین دن ہی قربانی کرنی چاہئے۔
قربانی دسویں، گیارہویں اور بارہویں ذی الحجہ کو کرنی چاہئے
س: قربانی کس دن کرنی چاہئے؟
ج: قربانی کی عبادت صرف تین دن کے ساتھ مخصوص ہے، دوسرے دنوں میں قربانی کی کوئی عبادت نہیں ،قربانی کے دن ذی الحجہ کی دسویں، گیارہویںاور بارہویں تاریخیں ہیں۔ ان میں جب چاہے قربانی کر سکتا ہے ، البتہ پہلے دن کرنا افضل ہے۔
شہر میں نماز عید سے قبل قربانی کرنا صحیح نہیں
س: شہر میں زید نے نماز عید سے پہلے صبح ہی قربانی کی۔ یہ قربانی ہوئی یا نہیں؟
ج: یہ قربانی نہیں ہوئی، لہٰذا اگر اس پر قربانی واجب تھی تو قربانی کے دنوں میں دوسری قربانی کرنا اس پر واجب ہوگا۔
قربانی کرنے کا صحیح وقت
س: براہ کرم قربانی کرنے کا صحیح وقت، نماز سے پہلے ہے یا بعد میں ہے ا س پر روشنی ڈالئے؟
ج: جن بستیوں یا شہروں میں نماز جمعہ و عیدین جائز ہے وہاں نماز عید سے پہلے قربانی جائز نہیں، اگر کسی نے نماز عید سے پہلے قربانی کردی تو اس پر دوبارہ قربانی لازم ہے۔ البتہ چھوٹے گائوں جہاں جمعہ و عیدین کی نمازیں نہیں ہوتیں، یہ لوگ دسویں تاریخ کی صبح صادق کے بعد قربانی کر سکتے ہیں۔ ایسے ہی کسی عذر کی وجہ سے نماز عید پہلے دن نہ ہو سکے تو نماز عید کا وقت گزر جانے کے بعد قربانی درست ہے۔ (درمختار) قربانی رات کو بھی جائز ہے مگر بہتر نہیں ( شامی)
کن کن جانوروں کی قربانی جائز ہے
س:بکرا، بکری، بھیڑ، دنبہ کن کن جانوروں کی قربانی کر سکتے ہیں؟
ج:بھیڑ، بکرا، دنبہ، ایک ہی شخص کی طرف سے قربان کیا جاسکتا ہے۔ گائے، بیل ،بھینس، اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے ایک کافی ہے، بشرطیکہ سب کی نیت ثواب کی ہو، کسی کی نیت محض گوشت کھانے کی نہ ہو، بکرا، بکری ایک سال کا پورا ہونا ضروری ہے، بھیڑ اور دنبہ اگر اتنا فربہ اور تیار ہو کہ دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہو تو وہ بھی جائز ہے، گائے، بیل، بھینس دوسال کی ، اونٹ پانچ سال کا ہونا ضروری ہے۔ ان عمروں سے کم کے جانور قربانی کے لئے کافی نہیں، اگر جانوروں کا فروخت کرنے والا پوری عمر بتاتا ہے اور ظاہری حالات سے اس کے بیان کی تکذیب نہیں ہوتی تو اس پر اعتماد کرنا جائز ہے۔ جس جانور کے سینگ پیدائشی طور پر نہ ہوں یا بیچ میں سے ٹوٹ گئے ہوں اس کی قربانی درست ہے۔ ہاں! سینگ جڑ سے اکھڑ گیا ہو جس کا اثر دماغ پر ہونا لازم ہے تو اس کی قربانی درست نہیں ۔(شامی) خصّی بکرے کی قربانی جائز بلکہ افضل ہے۔ ( شامی) اندھے، کانے اور لنگڑے جانور کی قربانی درست نہیں۔ اسی طرح ایسا مریض اور لاغر جانور جو قربانی کی جگہ تک اپنے پیروں پر نہ جا سکے اس کی قربانی بھی جائز نہیں۔ جس جانور کا تہائی سے زیادہ کان یا دم کٹی ہوئی ہو اس کی قربانی جائز نہیں۔( شامی)
جس جانور کے دانت بالکل نہ ہوں یا اکثر نہ ہوں اس کی قربانی جائز نہیں۔( شامی، درمختار) اسی طرح جس جانور کے کان پیدائشی طور پر بالکل نہ ہوں، اس کی قربانی درست نہیں۔ اگرجانور صحیح سالم خریدا تھا پھر اس میں کوئی عیب مانع قربانی پیدا ہو گیا تو اگر خریدنے والا غنی صاحب نصاب نہیں ہے تو اس کے لئے اسی عیب دار جانور کی قربانی جائز ہے اور اگر یہ شخص غنی صاحب نصاب ہے تو اس پر لازم ہے کہ اس جانور کے بدلے دوسرے جانور کی قربانی کرے۔( درمختار وغیرہ)
قربانی کابکرا ایک سال کا ہونا ضروری ہے، دودانت ہونا علامت ہے
س: بکرے کے دودانت ہونا ضروری ہیں یاتندرست توانا بکرا دودانت ہوئے بغیر بھی ذبح کیا جا سکتا ہے یا یہ حکم صرف دنبے کے لئے ہے؟
ج: بکرا پورے سال کا ہونا ضروری ہے۔ اگر ایک دن بھی کم ہوگا تو قربانی نہیں ہوگی۔ دودانت ہونااس کی علامت ہے۔ بھیڑ اور دنبہ اگر عمر میں سال سے کم ہے لیکن اتنا موٹا تازہ ہے کہ سال بھر کا معلوم ہوتا ہے تو اس کی قربانی جائز ہے۔
کیا پیدائشی عیب دار جانور کی قربانی جائز ہے
س: چند جانور فروش یہ کہہ کر جانور فروخت کرتے ہیں کہ اس کی ٹانگ وغیر ہ کا جو عیب ہے، یہ اس کا پیدائشی ہے یعنی قدرتی ہے جبکہ عیب دار جانور عقیقہ و قربانی میں شامل کرنے کو روکا جاتا ہے؟
ج: عیب خواہ پیدائشی ہو، اگر ایسا عیب ہے جو قربانی سے مانع ہے، اس جانور کی قربانی اور عقیقہ صحیح نہیں ہے۔
گابھن جانور کی قربانی کرنا
س: اگر گائے کی قربانی کی اور گائے گابھن تھی لیکن ظاہر نہیں ہوتی تھی یعنی یہ معلوم نہیں ہوتا تھاکہ گابھن ہے یا نہیں؟ لیکن جب قربانی کی تو پیٹ سے بچہ نکلا تو بتائیں کہ وہ قربانی ہوگئی ہے یا دوبارہ کریں؟
ج: گابھن گائے وغیرہ کی قربانی جائز ہے۔ دوبارہ قربانی کرنے کی ضرورت نہیں، بچہ اگر زندہ نکلے تو اس کو بھی ذبح کرلیا جائے اور مردہ نکلے تو اس کا کھانا درست نہیں اس کو پھینک دیا جائے، بہرحال حاملہ جانور کی قربانی میں کوئی کراہت نہیں۔
٭…٭…٭
الفقہ
حضرت مولانا یوسف لدھیانوی شہیدؒ کی کتاب ’’آپ کے مسائل اور اُن کا حل‘‘ سے ماخوذ
(شمارہ 512)
نمازعیدین کی نیت
س:نمازعیدین کی نیت کس طرح کی جاتی ہے؟
ج: نماز عید کی نیت اس طرح کی جاتی ہے کہ میں دورکعت نمازعید الفطر یا عیدالاضحی واجب مع تکبیرات زائد کی نیت کرتا ہوں۔
قبولیت کا دن کس ملک کی عید ہوگا
س: مسئلہ یہ ہے کہ چونکہ کرئہ ارض پر عید مختلف دنوں میں ہوتی ہے جیسا کہ اس سال سعودیہ میں عید تین دن پہلے ہوئی اس لئے آپ مہربانی فرما کر یہ بتائیں کہ قبولیت کا دن کس ملک کی عید پر ہوگا؟
ج:جس ملک میں جس دن عید ہوگی اس دن وہاں اس کی برکات بھی حاصل ہوں گی، جس طرح جہاں فجر کا وقت ہوگا وہاں اس وقت کی برکات بھی ہوں گی اور نماز فجر بھی فرض ہوگی۔
رمضان میں ایک ملک سے دوسرے ملک جانے والا عید کب کرے
س:بکر سعودیہ سے واپس پاکستان آیا وہاں روزہ دودن پہلے رکھا گیا تھا اب جبکہ پاکستان میں ۲۸ روزے ہوں گے اس کے ۳۰ روزے ہو جائیں گے، اب وہ سعودیہ کے مطابق عید کرے گا یا کہ پاکستان کے مطابق؟ یہ بھی واضح کریں کہ بکرنے سعودیہ کے مطابق روزہ رکھا جس دن وہاں عید ہوگی اس دن وہ روزہ رکھ سکتا ہے یا کہ نہیں؟ دوروزے جو زیادہ ہوجائیں گے وہ کس حساب میں شمار ہوںگے؟
ج:عید تووہ جس ملک (مثلاً پاکستان) میں موجود ہے اسی کے مطابق کرے گا،مگر چونکہ اس کے روزے پورے ہوچکے ہیں اس لئے یہاں آکر جوزائد روزے رکھے گا وہ نفلی شمار ہوں گے۔
پاکستان سے سعودیہ جانے والا کس دن عید کرے گا
س:ایک آدمی پاکستان سے سعودی عرب گیا اس کے دروزے کم ہوگئے اب وہ سعودیہ کے چاند کے مطابق عید کرے گا اور جو روزے کم ہوئے ان کو بعد میں رکھے گا یا اپنے روزے پورے کر کے سعودی عرب کی عید کے دودن بعد پاکستان کے مطابق اپنی عید کرے گا؟
ج:عید سعودیہ کے مطابق کرے او رجو روزے رہ گئے ہیں ان کی قضا کرے۔
نماز عید میں مقتدی کی تکبیرات نکل جائیںتو…
س:عید کی نماز میں اگر مقتدی کی آمددیر میں ہوتی ہے ایسی صورت میں کہ زائد تکبیریں نکل جائیں تو مقتدی زائد تکبیریں کس طرح ادا کرے گا؟ اور اگر پوری رکعت نکل جائے تو کس طرح ادا کرے گا؟
ج:اگر امام تکبیرات سے فارغ ہوچکا ہو، خواہ قرأت شروع کی ہو یا نہ کی ہو بعد میں آنے والا مقتدی تکبیر تحریمہ کے بعد زائد تکبیریں بھی کہہ لے اور اگر امام رکوع میں جا چکا ہے اور یہ گمان ہو کہ تکبیرات کہہ کر امام کے ساتھ رکوع میں شامل ہوجائے گا تو تکبیر تحریمہ کے بعد کھڑے کھڑے تین تکبیریں کہہ کر رکوع میں جائے اور اگریہ خیال ہو کہ اتنے عرصہ میں امام رکوع سے اٹھ جائے گا تو تکبیر تحریمہ کہہ کر رکوع میں چلا جائے اور رکوع میں رکوع کی سبحان ربی العظیم کے بجائے تکبیرات کہہ لے ہاتھ اٹھائے بغیر اور اگر اس کی تکبیریں پوری نہیں ہوئی تھیں امام رکوع سے اٹھ گیا تو تکبیریں چھوڑ دے امام کی پیروی کرے اور اگر رکعت نکل گئی تو جب امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی رکعت پوری کرے گا تو پہلے قرأت کرے پھر تکبیریں کہے اس کے بعد رکوع کی تکبیر کہہ کر رکوع میں جائے۔
س: اگر عید الفطر یا عیدالاضحی کی نماز پڑھاتے ہوئے امام سے کوئی غلطی ہوجائے تو نماز دوبارہ لوٹائی جائے گی یا سجدہ سہو کیا جائے گا؟
ج: اگر غلطی ایسی ہو جس سے نماز فاسد نہیں ہوتی تو نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں اور فقہاء نے لکھا ہے کہ عیدین میں اگر مجمع زیادہ ہو تو سجدہ سہو نہ کیا جائے کہ اس سے نماز میں گڑ بڑ ہوگی۔
عیدین میں تکبیریں بھول جانا
س: عیدین کی نماز میں اگرا مام نے چھ تکبیریں بھول کر اس سے زیادہ یا کم تکبیریں کہیں اور اس کا بعد میں احساس ہو تو کیا نماز توڑ دینی چاہئے یا جاری رکھنی چاہئے؟
ج: نماز کے آخر میں سجدہ سہو کر لیاجائے۔ بشرطیکہ پیچھے مقتدیوں کو معلوم ہوسکے کہ سجدہ سہو ہو رہا ہے اور اگر مجمع زیادہ ہونے کی وجہ سے گڑبڑ کا اندیشہ ہو تو سجدہ سہو بھی چھوڑ دیا جائے۔
خطبہ کے بغیر عید کا حکم
س: اگر کوئی امام عید کی نماز کے بعد خطبہ پڑھنا بھول جائے یانہ پڑھے تو کیا عید کی نماز ہوجائے گی؟اگر ہوجائے گی تو خطبہ چھوڑنے کے متعلق کیا حکم ہے؟
ج: عید کا خطبہ سنت ہے اس لئے خلاف سنت ہوئی۔
نمازعید پر خطبہ،دعا اور معانقہ
س: کیا عید پر گلے ملنا سنت ہے؟
ج: یہ سنت نہیں، محض لوگوں کی بنائی ہوئی ایک رسم ہے، اس کو دین کی بات سمجھنااور نہ کرنے والے کو لائق ملامت سمجھنا بدعت ہے۔
س: خطبہ عید نماز سے پہلے پڑھا جاتا ہے یا نماز کے بعد؟ دعانماز کے بعد یاخطبہ کے بعد کرنی چاہئے؟
ج: عید کا خطبہ نماز کے بعد ہوتا ہے ، دعا ء بعض حضرات نماز کے بعد کرتے ہیں اور بعض خطبہ کے بعد، دونوں کی گنجائش ہے آنحضرتﷺ ،صحابہ کرام اور فقہاء سے اس سلسلہ میں کچھ منقول نہیں۔
عیدین کی جماعت سے رہ جانے والے کا حکم
س : اگر کوئی عید الفطر یا عیدالاضحی کی نماز با جماعت نہ پڑھ سکے تو کیا وہ شخص گھر میں یہ نماز اداکرسکتا ہے یا اس نماز کے بدلے میں کسی شخص کو کھانا وغیرہ کھلا دیا جائے تو کیا نماز پوری ہوجائے گی یا نہیں؟
ج: عید کی نماز کی قضا نہیں نہ اس کا کوئی کفارہ ادا کیا جا سکتا ہے۔ صرف استغفار کیا جائے۔
بکرا عید کے دنوں میں تکبیرات تشریق کا حکم
س: تکبیرات تشریق کب پڑھی جائیں؟
ج: ذی الحجہ کی نویں تاریخ کی صبح سے تیرہویں تاریخ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد ہر بالغ مرد اور عورت پر تکبیرات تشریق واجب ہیں ،ہر ایک ان کلمات کو بلند آواز سے پڑھے۔ تکبیر تشریق یہ ہے:
اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد
کیا جمعہ کی عید مسلمانوں پر بھاری
س: گزشتہ چند روز سے یہ مسئلہ زیر بحث تھا کہ جمعہ کی عید حاکم پر یا عوام پر بھاری گزرتی ہے؟
ج: قرآن وحدیث یا اکابر کے ارشادات سے اس خیال کی کوئی سند نہیں ملتی۔ اس لئے یہ خیال محض غلط تو ہم پرستی ہے، جمعہ بجائے خود عید ہے اور اگر جمعہ کے دن عید بھی ہو تو گویا’’عید میں عید‘‘ ہوگئی ۔خدا نہ کرے کہ کبھی عید بھی مسلمانوں کے لئے بھاری ہونے لگے۔
عیدی کی رسم
س: عید کے دن عیدی کی رسم جائز ہے یا نہیں؟ اور کیا دینے والے کو گناہ تونہیں ہوگا؟
ج: عید کے روز اگر عیدی کو… اسلامی عبادت یا سنت نہیں سمجھا جاتا، محض خوشی کے اظہار کے لئے ایسا کیا جاتا ہے تو کوئی حرج نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
٭…٭…٭
الفقہ
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ
(شمارہ 513)
سلام کے الفاظ
سلام کے منقول الفاظ اس قدرہیں’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ جواب میں بھی’’و‘‘ کے اضافہ کے ساتھ اتنا ہی منقول ہے’’وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘
چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضورﷺ کی وساطت سے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو اسی حدتک سلام کا جواب دیا ہے… امام نووی نے لکھا ہے کہ سلام میں چاہے ایک ہی شخص مخاطب کیوں نہ ہو، مگر’’کم‘‘یعنی جمع کا صیغہ استعمال کرنا چاہئے اور جواب دینے والے کو’’و‘‘ کا اضافہ کرنا چاہئے یعنی ’’وعلیکم‘‘
بہتر طریقہ ہے کہ سلام کرتے ہوئے’’برکاتہ‘‘ تک پورا فقرہ ادا کیا جائے ، چنانچہ ایک شخص حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں آئے اور کہا: ’’السلام علیکم‘‘پھر بیٹھ گئے، آپﷺ نے فرمایا: ان کے لئے دس نیکیاں دوسرے آنے والے نے اس کے ساتھ ’’ورحمۃ اللہ‘‘ کا اضافہ کیا، آپ ﷺ نے ان کو بیس نیکیوں کا اور’’ وبرکاتہ‘‘ تک کہنے والوں کو تیس نیکیوں کا مستحق قراردیا ہے۔
سلام کے بعض آداب
سلام ایسی آواز میں کرنا چاہئے کہ سونے والے جاگ نہ اُٹھیں، حضور اکرمﷺ کا یہی معمول تھا۔ ملاقات کے وقت سلام کرنا چاہئے پھر اگر تھوڑا فصل بھی ہو یہاں تک کہ ایک دیوار اور کمرہ کا فصل آجائے تو بھی دوبارہ سلام کرنا چاہئے۔ کسی مجلس میں جائے تو اس وقت بھی سلام کرے اور واپس ہوتے وقت بھی بلکہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ واپسی کا سلام ابتدائی سلام سے زیادہ افضل ہے۔
سلام کے آداب میں یہ ہے کہ سوار پیادہ چلنے والے پر، پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے شخص کو اور تھوڑے لوگ زیادہ افراد کے مجمع کو سلام کریں۔ اسی طرح گزرنے والے بیٹھنے والوں اور چھوٹے بڑوں کو سلام کرنے میں سبقت کریںلیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ وہ سلام میں پہل نہ کریں تو دوسرے سلام کریں ہی نہیں بلکہ ہر شخص کو پہل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ آپﷺ نے فرمایا: لوگوںمیں اللہ سے سب سے قریب وہ شخص ہے جو سلام میں پہل کرے، بالخصوص بچوں کو تو ازراہ تربیت پہلے سلام کرنے کی تاکید کرنی چاہئے، آپﷺ کا جب بھی بچوں سے گزرہوتا ان کو سلام فرماتے۔
ایسا شخص جو اعلانیہ فسق و فجور میں مبتلا ہو، حوصلہ شکنی اور اصلاح کی غرض سے ان کو سلام نہیں کر نا چاہئے۔ اسی طرح جو کسی شرعی وجہ مثلاً نماز، تلاوت ، خطبہ و اذان، احکام ومسائل کی تکرار وغیرہ یا کسی طبعی وجہ سے مثل کھانے کی وجہ سے سلام کرے تو اس کا جواب دینے سے عاجز ہو تو ان حالات میں سلام نہ کیا جائے اور کوئی شخص سلام کرے تو اس کا جواب دینا ضروری نہیں۔ البتہ خیال رہے کہ کسی فاسق و فاجر کو سلام نہ کرنے کی وجہ سے تعلقات میں مزید تلخی اور امید اصلاح کی کم یا منقطع ہوجانے کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں سلسلۂ سلام باقی رکھنا چاہئے کہ اصل مقصود مفاد دینی کی رعایت ہے۔
جماعت میں سے کسی ایک شخص کو سلام کرنا اور جواب دے دینا کافی ہے۔
ضروری نہیں کہ سبھی الگ الگ سلام کریں اور جواب دیں۔ ضرورتاً اشارہ سے سلام کرنا حضور ﷺ سے ثابت ہے اس طرح کہ ساتھ ساتھ سلام کے الفاظ بھی کہے جائیں، مگر عیسائیوں، یہودیوں کی طرح اشارہ سلا م کے لئے استعمال کرنا درست نہیں۔ حضورﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ اسی میں ہندوئوں کی طرح ہاتھ جوڑنا بھی داخل ہے۔
خیر مقدمی کلمات
ملاقات کے موقعہ پر سلام کے علاوہ اگر کوئی اور خیرمقدمی کلمہ کہا جائے تو اس میں قباحت نہیں،رسول اللہ ﷺ سے بعض مواقع پر اس طرح کا کلمہ کہنا ثابت ہے۔ فتح مکہ کے موقعہ پر حضرت اُم ہانی اور حضرت عکرمہ کی آمد پر مرحبا کہتے ہوئے استقبال فرمایا ہے۔ ہاں صبح بخیر، شب بخیر، گڈمورننگ وغیرہ کے الفاظ مسنون طریقہ کے خلاف ہیں۔ ایام جاہلیت میں لوگ کہا کرتے تھے’’ انعم اللّٰہ بک عیناً‘‘( اللہ تم کو اپنی نعمت سے نوازے) اور’’انعم صباحاً‘‘ (صبح بخیر) اسلام کی آمد کے بعد اس سے منع کردیا گیا۔
مصافحہ
مصافحہ ہاتھ سے ہاتھ ملانے کا نام ہے، مصافحہ رسول اللہﷺ کی سنتوں میں سے ہے، آپﷺ نے اس کو ملاقات کی تکمیل قراردیا ہے۔
خود رسول اللہﷺ کا معمول مبارک بھی مصافحہ کا تھا۔ حضرت ابو ذررضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میری جب آپﷺ سے ملاقات ہوئی، آپ ﷺ نے ضرور ہی مصافحہ فرمایا ۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مصافحہ کی ابتدا سب سے پہلے اہل یمن نے کی ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بھی معمول باہم مصافحہ کرنے کاتھا اور کیوں نہ ہوتا کہ ارشاد نبویﷺ ہے کہ دو مسلمان جب بھی باہم ملیں اور مصافحہ کریں تو الگ ہونے سے پہلے ان کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔
ایک روایت میں یوں بھی ارشاد فرمایا گیا کہ مصافحہ باہمی کینہ وکدورت کو دور کرتا ہے۔
مصافحہ کا وقت آغاز ملاقات ہے، اس طور کہ پہلے سلام کیاجائے پھر مصافحہ اس موقعہ پر ایک دوسرے کو مغفرت کی دعا دینے کی بھی تلقین فرمائی ہے۔’’یغفراللّٰہ لناولکم‘‘ کہنا اسی فرمان کی تکمیل ہے۔
بعض نمازوں کے بعد جو خاص طورپر مصافحہ کا رواج ہوگیا ہے، یہ بدعت اور مکروہ ہے، مشہور محدث اور فقیہ ملا علی قاری حنفیؒ نے اس پر بڑی بصیرت افروز گفتگو فرمائی ہے۔ لکھتے ہیں:
’’فجر و عصرکے وقت لوگوں کے مصافحہ کا عمل مستحب و مشروع طریقے کے مطابق نہیں ہے، اس لئے کہ مصافحہ کا عمل آغاز ملاقات ہے۔ ان نمازوں میں لوگ بغیر مصافحہ کے باہم ملاقات کرتے ہیں، باہم گفتگو کرتے ہیں، علمی مذاکرہ کرتے ہیں اور ان سب چیزوں میں خاصا وقت گزارتے ہیں، پھر جب نماز پڑھ لیتے ہیں تو مصافحہ کرنے لگتے ہیں، اسی لئے ہمارے بعض علماء نے صراحت کی ہے کہ اس وقت مصافحہ مکروہ ہے اور حقیقت یہ ہے کہ وہ قبیح بدعتوں میں سے ہے، ہاں اگر کوئی مسجد میں آئے، لوگ مصروف نماز ہوں یا نماز شروع ہی کیا چاہتے ہوں پھر نماز سے فراغت کے بعد آنے والا شخص پہلے ان کو سلام کرے پھر مصافحہ تو یہ بلاشبہ مسنون مصافحہ ہوگا، تاہم اس کے باوجود اگر کوئی مسلمان مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھائے تو ہاتھ کھینچنا نہ چاہئے کہ اس میں ایک مسلمان کو ایذاء پہنچانا ہے جو رعایت ادب سے بڑھ کر ہے، حاصل یہ کہ اس وقت مروّجہ طریقہ پر مصافحہ کی ابتداء تو مکروہ ہے مگر بدخلقی( مجابرہ) مناسب نہیں ۔‘‘
مصافحہ ایک ہاتھ سے ہو یا دوہاتھ سے؟ یہ اتنی اہم بات نہیں جتنی اہمیت کہ لوگوں نے دے رکھی ہے۔ حدیث میں زیادہ تر’’ید‘‘ ہاتھ کے الفاظ آئے ہیں جو عر بی قاعدہ کے لحاظ سے واحد ہونے کی وجہ سے ایک ہاتھ کو بتاتا ہے مگر زبان کا ایک محاورہ یہ بھی ہے کہ کبھی ہاتھ بول کر دونوں ہاتھ، پائوں بول کر دونوں پائو ں اور آنکھ بول کر دونوں آنکھیں مراد لی جاتی ہیں، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت موجود ہے کہ میرا ہاتھ حضورﷺ کے دونوں ہاتھوں کے درمیان تھا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ معمول مبارک دوہاتھوں سے مصافحہ کا بھی تھا ،اس لئے صحیح یہی ہے کہ دونوں طرح مصافحہ کیا جا سکتا ہے، اس میں شدت نہ کرنی چاہئے۔
٭…٭…٭
الفقہ
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ
(شمارہ 514)
معانقہ
ملاقات کے موقعہ پر معانقہ یعنی گلے لگانا بھی آپﷺ سے ثابت ہے، حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے یہاں حضورﷺ نے اطلاع بھیجی، میں گھر پر موجود نہ تھا، آیا تو خبر ہوئی اور حاضر خدمت ہوا۔ آپﷺ اپنی چارپائی پر تھے آپﷺ نے مجھے چمٹا لیا۔ فتح خیبر کے موقع پر جب زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ مدینہ پہنچے تو آپﷺ مارے خوشی کے بے تابا نہ اٹھے اور ان کو گلے لگایااور چوما۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک قابل لحاظ مدت کے بعد ملاقات ہو تو اظہار محبت کے لئے معانقہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ معانقہ محض گلے لگانے کا نام ہے۔
ہمارے یہاں تین بار جو معانقہ کا رواج ہے، وہ صحیح نہیں ، اسی طرح نماز عیدین کے بعد جو معانقہ کا رواج سا ہو گیا ہے وہ اسی طرح اور انہی وجوہ کی بنا پر… جو فجر و عصر کے بعد مصافحہ کے سلسلہ میں ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے لکھا ہے…مکروہ ہے، ہاں اگر کوئی معانقہ کے لئے آگے بڑھے تو تشدد بھی نہ برتا جائے کہ جیسا کہ مذکورہوا یہ ایک مسلمان کے لئے ایذاء اور ہتک کا باعث ہوگا۔
احتراماً کھڑا ہونا
شخصیات کے احترام میں بہت مبالغہ اسلام میں پسند نہیں، اسی بنا ء پر آپﷺ نے تعظیماً کھڑے ہونے کو پسند نہیں فرمایا، ایک بار آپﷺ تشریف لائے اور صحابہ کھڑے ہوگئے تو فرمایا کہ یہ عجمیوں کا طریقہ ہے، اس طرح کھڑے نہ ہوا کرو۔ لیکن اس کو ایک مستقل رسم اور رواج بنائے بغیر کبھی جوش محبت میں کھڑا ہوجائے تو مضائقہ نہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا راوی ہیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جب تشریف لاتیں تو آپﷺ نے ان کے لئے کھڑے ہوتے یہی عمل حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا آپﷺ کے ساتھ تھا۔ غزوئہ بنو قریظہ کے موقع پر جب حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بحیثیت حکم تشریف لائے تو خود آپﷺ نے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے کھڑے ہونے کو کہا:’’ قومواالی سید کم‘‘… لیکن کسی شخص کے اندر اس خواہش کا پیدا ہوجانا کہ لوگ اس کے لئے کھڑے ہوں اور لوگ کھڑے نہ ہوں تو اس کا براماننا، سخت مذموم اور ناپسندیدہ ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ ایسا شخص جہنم کو اپنا ٹھکانہ بنا رہا ہے۔ افسوس کہ بعض خانقاہوں اور مشائخ نے اس کو اپنے آداب میں داخل کرلیا ہے۔
چوں کفراز کعبہ بر خیزد کجاماند مسلمانی؟
بوسہ
بعض اوقات انسان ملاقات کے وقت پاکیزہ جذبات کے ساتھ جوش محبت میں بوسہ لے لیتا ہے، اس طرح کا عمل بعض اوقات حضورﷺ سے بھی ثابت ہے، فقہاء نے احادیث اور شریعت کے اصول کو سامنے رکھ کر اس سلسلہ میں احکام مقرر کئے ہیں:
بڑوں کے بوسہ کے سلسلہ میں یہ بات یادرکھنی چاہئے کہ غیر محرم مردوعورت کے لئے تو ایک دوسرے کابوسہ ناجائز ہے ہی ،ایک مرد کے لئے دوسرے مردکا یا ایک عورت کے لئے دوسری عورت کابوسہ لینا عام حالات میں درست نہیں ہے۔
چنانچہ رسول اللہﷺ سے دریافت کیا گیا کہ ایک دوست اپنے دوست یا بھائی سے ملے تو کیا اس کے لئے جھکے؟ آپﷺ نے فرمایا: نہیں، پھر پوچھا گیا کہ کیا اسے چمٹے اوربوسہ لے؟ تو آپﷺ نے اس سے بھی منع فرمایا ، پھر ہاتھ پکڑنے اور مصافحہ کرنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپﷺ نے اس کی اجازت دی۔
اسی لئے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عام حالات میں اس کو مکروہ قرار دیا گیا ہے، چنانچہ علامہ کا سانیؒ فرماتے ہیں: معانقہ اور بوسہ کے سلسلہ میںفقہاء کا اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ ؒکے یہاں ایک شخص کے لئے دوسرے شخص کے چہرہ یا ہاتھ یا کسی حصہ جسم کا بوسہ لینا مکروہ ہے اور امام ابو یوسفؒ کے نزدیک کچھ مضائقہ نہیں۔
البتہ جہاں شہوت کا کوئی اندیشہ نہ ہو وہاں گنجائش ہے، چنانچہ ایک دفعہ باہر سے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی مدینہ واپسی پر فرط مسرت میں آپﷺ نے ان سے معانقہ کیا اور بوسہ دیا ، اس طرح وفد عبدالقیس آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو شرکاء وفد نے آپ کے دست و پائے مبارک کا بوسہ لیا۔
اسی طرح محرم بالغہ رشتہ داروں کا بوسہ لینا بھی اس وقت جائز نہ ہوگا جب شہوت کا اندیشہ یا احتمال ہو،ہاں جہاں اس کا کوئی احتمال نہ ہو وہاں اجازت ہوگی، چنانچہ آنحضورﷺ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حضورﷺ کا بوسہ لیا کرتی تھیں۔ ایک دفعہ اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بخار تھا، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ باہر سے آئے، آکر مزاج پرسی کی اور صاحبزادی کے رخساروں کابوسہ لیا۔
عیادت
صحت اور بیماری انسان کا ازلی ساتھی ہے، بیماری انسان کو خدا کی بے پناہ قدرت بھی یاد دلاتی ہے اور صحت جیسی عظیم نعمت الہٰی پر شکر کے جذبات اور امتنان کے احساسات بھی پیدا کرتی ہے۔ بعض اوقات بیماریاں بھی صحت کی ضمانت ہوتی ہیں اور اس میں آخرت کا نفع بھی ہے۔
ارشاد نبویﷺ ہے کہ مومن کو ایک کانٹا بھی چبھے اور وہ اسے صبرو رضا کے ساتھ برداشت کرے تو اللہ اس کا ایک درجہ اونچا کردیتے ہیں۔ صحت وشفا کی کلید چونکہ خدا نے اپنے ہی ہاتھ میں رکھی ہے اس لئے اس سے توحید کا استحضار ہوتا ہے۔
’’ واذا مرضت فھو یشفین‘‘
بیمار شخص کو اسلام رحم اور محبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور لطف وکرم کا حقدار قرار دیتا ہے۔ قرآن مجید نے بیماری کو بعض فرائض و واجبات کی معافی کے لئے ایک عذر کی حیثیت سے تسلیم کیا ہے ۔اسی لئے آپﷺ نے عیادت کو بڑے ثواب و اجر کا باعث فرمایا ہے اور اس کی تلقین کی ہے، ایک روایت میں ہے کہ بیمار پرسی کو آپﷺ نے ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق قراردیا ۔ ایک دفعہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایک مسلمان جب دوسرے مسلمان کی عیادت کرتا ہے تو گویا وہ جنت کے نخلستان میں ہوتا ہے۔
آپﷺ نے عیادت کے آداب بھی بتائے، دایاں ہاتھ مریض پر رکھے اور یوں دعا پڑھے:
’’اللھم رب الناس اذھب الباس اشف انت الشافی لا شافی الا انت، شفاء لایغادرسقما‘‘
’’اے اللہ ! آپ تمام لوگوں کے پالنہار ہیں، مرض دور فرمادیجئے اور شفادیجئے کہ آپ ہی شافی ہیں اور ایسی شفا نصیب فرمائیے کہ اس کے بعد مرض کا حملہ نہ ہو۔‘‘
یہ دعا بھی دیتے:
’’لاباس،طھوران شاء اللّٰہ‘‘
’’بیماری سے گھبرائو نہیں، انشاء اللہ یہ تمہارے لئے خطائوں کا کفارہ اور پاکی کا ذریعہ ہوگی۔‘‘
ایک صاحب کو آپﷺ نے درد کی حالت میں درد کے مقام پر ہاتھ رکھ کر تین بار بسم اللہ اور سات بار:
’’اعوذ بعزۃ اللّٰہ وقدرتہ من شرما اجد و احاذر‘‘ (میں اللہ تعالیٰ کی عزت اور اس کی قدرت کی پناہ چاہتا ہوں ان تمام چیزوں کے شر سے جو موجود ہیں اور جن کا اندیشہ ہے) پڑھنے کی تلقین کی۔
مسلمان فاسق ہو تب بھی اس کی عیادت کی جائے بلکہ چونکہ یہ ایک انسانی ہمدردی کا مسئلہ ہے اس لئے کافر کی عیادت بھی کی جانی چاہئے، اس سے اسلام کے اخلاق حسنہ کااظہار ہوتا ہے اور یہ اسلام کی طرف ایک خاموش دعوت ہے۔
٭…٭…٭
الفقہ
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ
(شمارہ 515)
اظہارِ غم کا طریقہ
کسی شخص کی موت پر غم و افسوس فطری بات ہے، شریعت نے ایک طرف اظہار غم کی اجازت بھی دی ہے اور دوسری طرف خدا کی تقدیر اور فیصلہ پر راضی رہنے کو واجب قرار دیا ہے، بے تکلف رونا آجائے اور بے ساختہ آنکھیں اشکبار ہو جائیں تو مضائقہ نہیں کہ خود پیغمبر اسلام سے اپنے صاحبزادہ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے وصال پر اشکبار ہونا منقول ہے۔ لیکن رونے میں اس درجہ مبالغہ کہ نوحہ کے درجہ کو پہنچ جائے، انسان خدا سے شکوہ سنج ہوجائے، کپڑے پھاڑنے لگے، رخساروغیرہ پیٹنے لگے، متوفی کے اوصاف و کمالات میں مبالغہ کیا جائے وغیرہ ممنوع ہے۔
اسلام سے پہلے لوگ مدتوں متوفی کی موت پر ماتم کناں رہتے تھے۔ اسلام نے جہاں سوگ میں اعتدال کا حکم دیا ،وہیں اس کے لئے مدت کی تحدید بھی کردی ہے۔
فرمایا کہ سوائے بیوی کے جو اپنے شوہر کی وفات پر چار ماہ دس دن سوگ کرتی ہے کسی کے لئے کسی کی موت پر تین دنوں سے زیادہ سوگواری کی اجازت نہیں۔ غزوئہ موتہ( ۹ھ) میں حضرت جعفر رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے، مدینہ منورہ میںاس کی خبر پہنچی تو حضرت جعفررضی اللہ عنہ کے یہاں اس کا اثر پڑنا فطری تھا۔ آپﷺ نے اس موقع پر ان کے خاندان کے لئے کھانا بھیجنے کی ہدایت فرمائی کہ اس غم نے ان کے دل و دماغ کو مشغول کررکھا ہے، چنانچہ اہل علم نے میت کے گھر کھانا بھیجنے کو مستحب قرار دیا ہے۔
حالت عدت میں عورت کو اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ تزئین و آرائش سے گریز کرے لیکن دوسرے اقرباء اپنے کسی عزیز کی موت پر اظہار غم وافسوس کایہ طریقہ بھی اختیار نہ کریں۔
تعزیت
غم کے موقعہ پر تسلی و تسکین اور پرسہ و دلدہی کی ضرورت ہوتی ہے، اس سے بے قراری کو قدرے قرار اور بے سکونی کو سکون میسر ہوتا ہے۔
ارشاد نبوی علی صاحبہ الصلوٰۃ والسلام ہے کہ جو شخص کسی مصیبت زدہ کی تعزیت کرے۔ اس کو بھی اتناہی اجر ہے جتنا خود اس مصیبت زدہ شخص کو صبر و شکر پر۔ ایک روایت میں ہے کہ جس نے بچہ کی موت پر ماں کی تعزیت کی، اس کو جنت میں چادر عطا کی جائے گی۔
تعزیت کے موقعہ پر ان الفاظ میں دعا دی جانی چاہیے:
’’اعظم اللّٰہ اجرک و احسن عزاء ک رحم میتک واکثر عددک‘‘
(اللہ تعالیٰ بہتر اجرعطا فرمائے اور بہتر طور پر غم کو دور کردے، میت پر رحم فرمائے اور تمہاری تعداد میں اضافہ کرے)
کسی غیر مسلم کی موت ہوجائے تو اس طرح کلمات تعزیت کہے جائیں:
’’اخلف اللّٰہ علیک خیرامنہ و اصلحک ورزقک ولدا مسلما‘‘
(اللہ تعالیٰ تجھ پر کسی بہتر آدمی کو اس کا جانشیں بنائے تیری اصلاح کرے اور تجھے مسلمان اولاد عطا فرمائے)
چھینک اور جمائی
آپﷺ نے چھینک او رجمائی کے آداب بھی بتائے، چھینک کو آپﷺ نے بہتر سمجھا ہے کہ یہ چستی اور نشاط کی علامت ہے، جمائی کو ناپسند کیا ہے کہ اس سے سستی و کاہلی کا اظہار ہوتا ہے۔ چھینک آئے تو چہرہ پرہاتھ یا کپڑا رکھے اور آواز ہلکی رکھنے کی سعی کرے۔ جس شخص کو چھینک آئے ’’ الحمد للہ‘‘ کہے۔ بعض روایات میں’’ الحمد للہ علی کل حال‘‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ایک روایت میں آپﷺ نے ’’ الحمد للہ رب العالمین‘‘ کہنے کا ارشاد فرمایا۔ سننے والا جواب میں’’ یرحمک اللہ ‘‘ (اللہ تجھ پر رحم کرے) کہے۔
عام طور پر حضورﷺ نے اتنی ہی تلقین فرمائی ہے۔ بعض روایات میں اس کے جواب میں پھرچھینکنے والے کو بھی بعض فقرے کہنے کی ہدایت دی ہے۔
حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ’’ یھدیکم اللّٰہ ویصلح بالکم‘‘( اللہ تجھے ہدایت دے اور تمہارے حالات درست کرے) کہے اور سالم بن عبید سے روایت ہے کہ’’یغفراللّٰہ لناولکم‘‘( اللہ ہم کو اور تم کو معاف فرمائے) کے الفاظ کہے جائیں۔ الفاظ و تعبیرات کا یہ اختلاف کوئی تضاد کے قبیل کی بات نہیں ہے، منشاء نبویﷺ یہ ہے کہ ان الفاظ ماثورہ میں سے کسی طرح بھی کلمہ تحمید کہا جائے اور جواب دیا جائے کافی ہے، لیکن ان کے بجائے اپنی طرف سے کسی مضمون کااضافہ نہ کرے، ایک صاحب کو چھینک آئی، انہوں نے جواب میں کہا’’ السلام علیک‘‘ آپﷺ نے اس پر ایسی تعبیر میں جواب دیا جو نا پسندیدگی کا مظہر تھا۔ فرمایا:’’علیک و علی امک‘‘ حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ کے سامنے ایک چھینکنے والے نے ’’الحمد للہ‘‘ کے ساتھ’’ والسلام علی رسول اللہﷺ ‘‘ کا اضافہ کر دیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ درود ہم بھی آپﷺ پر بھیجتے ہیں مگر اس موقع پر ہمیں اس کی تعلیم نہیں دی گئی۔
تین بار تک چھینک کا جواب دیا جائے اس کے بعد دینا مستحب نہیں۔ بعض اوقات ایک چھینک کا جواب دینے کے بعد دوسری اور تیسری بار آپﷺ نے جواب نہیں دیا اور فرمایا کہ اس شخص کو زکام ہے۔
چھینک کا جواب بعض اہل علم کے نزدیک فرض عین اور امام شافعیؒ کے نزدیک سنت ہے۔ لیکن عام فقہاء فرض کفایہ کہتے ہیں۔ مجلس سے ایک شخص نے جواب دیا تو سب کی طرف سے کفایت ہوجائے گی۔مناسب ہے کہ چھینکنے والا ’’ الحمدللہ‘‘ ایسی آواز میں کہے کہ دوسرے لوگ سن سکیں۔ خود چھینکنے والے کا الحمدللہ کہنا بالاتفاق واجب نہیں، مستحب ہے۔ یا سلام کی طرح مسنون ، اگر کسی غیر مسلم کو چھینک آئے اور وہ ’’ الحمدللہ‘‘ کہے تو جواب میں ’’یھدیکم اللّٰہ ویصلح بالکم‘‘(اللہ تم کو ہدایت دے اور تمہارے حالات بہتر کرے) کہنا چاہئے، آپﷺ سے بعض یہود کو اسی طرح جواب دینا ثابت ہے۔ جمائی آئے تو ممکن حدتک روکنے کی سعی کرے اور منہ پر ہاتھ رکھ لے کہ جمائی کی حالت میں منہ بد ہیئت نظر آتا ہے۔
گفتار
گفتگو میں سب سے زیادہ جس بات کی تاکید کی گئی ہے وہ ہے سچائی اور راست گوئی اور سب سے زیادہ جس چیز کی مذمت کی گئی ہے وہ ہے جھوٹ اور کذب بیانی، آپﷺ نے سچائی کا انجام جنت اور جھوٹ کا دوزخ کو قرار دیا ہے۔ قرآن مجید نے سیدھی سچی بات کو اعمال کی درستی اور گناہوں کی معافی کی ضمانت قراردیا ہے۔ اس لئے کہ انسان جو کچھ بولتا ہے دنیا میں تو وہ رنگ لاتا ہی ہے، آخرت کے لئے بھی اس کے یہ بول محفوظ ہوجاتے ہیں اور دراصل ہر وقت اس کے قول وفعل کا نگراں اس کے پاس ہی موجود رہتا ہے۔ اسی طرح ایسی گفتگو جو بے مقصد اور لایعنی ہونا پسندیدہ اور مذموم ہے اور یہ ایسی بات ہے کہ اس پر اس کو خدا سے مغفرت کا طلب گار ہونا چاہئے۔ روایت میں ہے کہ بہترین مسلمان ہونے کی پہچان لایعنی باتوں کا چھوڑنا ہے۔ اسی طرح ایک روایت میں آپﷺ نے خاموشی کو نجات کی ضمانت قرار دیا ہے۔ چنانچہ آپﷺ نے فرمایا کہ کسی مجلس میں لا یعنی کلام کی کثرت ہوجائے تو اٹھنے سے پہلے یہ دعا پڑھ لے:
’’سبحانک اللھم و بحمدک اشھد ان لا الہ الا انت استغفرک واتوب الیک‘‘
(اللہ کی ذات پاک اور قابل تعریف ہے میں گواہی دیتا ہوںکہ آپ کے سوا کوئی معبود نہیں، آپ سے مغفرت کا طلب گارہوں اور توبہ کرتا ہوں)
٭…٭…٭