اصطلاحات حج

حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ
(شمارہ 508)
اصطلاحات حج
۱)استلام: حجراسود کو بوسہ دینا یا صرف ہاتھ لگا کر ہاتھ کو چومنا۔
مسئلہ:اگر ہجوم کی وجہ سے آپ اس کے قریب نہ پہنچ سکیں تو ہاتھوں کو اس کی طرف اٹھا کر چوم لیں، یادرکھیے! حجراسودکا چومنا سنت ہے اور وہاں کسی کو اذیت اور تکلیف پہنچانا حرام ہے، لہٰذا اس بات کا خیال کیا جائے کہ کسی کو اذیت نہ ہو۔ بآسانی پہنچ سکتے ہیں تو چوم لیں۔
۲)اضطباع: احرام کی چادر کو داہنی بغل کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈالنا۔
۳)تلبیہ:پوری لبیک پڑھنا۔
۴)جمرات یاجمار:منیٰ میں تین مقام ہیں جن پر قد آدم ستون بنے ہوئے ہیں۔ یہاں پر کنکریاں ماری جاتی ہیں۔
۵) حجر اسود : یہ جنت کا سیاہ پتھر ہے جو بیت اللہ کے مشرقی جنوبی گوشہ میں قد آدم کے قریب اونچائی پر بیت اللہ کی دیوار میں گڑا ہوا ہے۔
۶)رکن یمانی : بیت اللہ کے جنوبی مغربی گوشہ کو کہتے ہیں کیونکہ یہ یمن کی جانب ہے۔
۷)رکن عراقی:بیت اللہ کا شمال مشرقی گوشہ جو عراق کی طرف ہے۔
۸)رکن شامی: بیت اللہ کا وہ گوشہ جو شمال مشرقی جانب ہے۔
۹)رمل: طواف کے پہلے تین پھیروں میں اکڑکر شانے ہلاتے ہوئے قریب قریب قدم رکھ کر ذرا تیزی سے چلنا۔
۱۰)رمی:جمرات میں کنکریاں پھینکنا
۱۱)زمزم: بیت اللہ کے قریب ایک چشمہ کنویں کی شکل کا ہے۔ جس کو اللہ رب العزت کی ذات نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ محترمہ کے لئے جاری کیا تھا۔
۱۲)صفا: بیت اللہ کے قریب جنوبی طرف ایک چھوٹی سی پہاڑی جس سے سعی شروع کی جاتی ہے۔
۱۳)مقام ابراہیم:جنتی پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے کھڑے ہو کر بیت اللہ کی تعمیر کی تھی۔ بیت اللہ کے دروازے کے سامنے جالی میں محفوظ ہے۔
۱۴) ملتزم: حجراسود اور بیت اللہ کے دروازے کادرمیانی حصہ جس سے لوگ لپٹ لپٹ کر دعائیں مانگتے ہیں۔
۱۵)منیٰ: مکہ سے تین میل کے فاصلے پر وہ جگہ جہاں قربانی اور شیطانوں کو کنکریاں ماری جاتی ہیں۔
۱۶)مسجد خیف: منیٰ کی بڑی مسجد کا نام ہے۔
۱۷)مسجد نمرہ: میدان عرفات کی مسجد جس میں خطبہ حج پڑھا جاتا ہے۔
۱۸)میلین اخضرین:صفا،مروہ کے درمیان مسجد حرام کی دیوار میں دوسبز ستون جہاں سعی کے وقت دوڑ کر چلتے ہیں
۱۹)مروہ : بیت اللہ کے شرقی شمالی گوشہ والی چھوٹی پہاڑی کا وہ حصہ جہاںسعی ختم ہوتی ہے۔
۲۰)وقوفِ عرفہ: میدان عرفات میں ٹھہرنا
۲۱)آفاقی : وہ حجاج کرام جو عرب کے نہ ہوں یعنی بیرون ممالک سے آئے ہوں۔
مسائل عمرہ و حج
احرام :جس وقت احرام باندھنے کا ارادہ ہو تو اچھی طرح غسل کیا جائے اور اگر کسی وجہ سے غسل نہ کرسکیں تو وضو کرلیں اور سلے ہوئے کپڑے اتاردیں، دو اَن سلی چادریں ایک ناف سے گھٹنوں تک جو تہبند کا کام دیتی ہے دوسری جو کندھوں پر ڈالی جاتی ہے، باندھ لیں اور سرننگا رہنا چاہئے، یہ مرد کا احرام ہے۔
عورت کا احرام مثل مرد کے ہے فرق صرف یہ ہے کہ عورت کو سرڈھانکنا واجب ہے اور منہ پر کپڑا لگانا منع ہے اور روز مرہ کے معمول کے مطابق سلے کپڑے بہ نیت احرام پہنے۔ عورت کو اجنبی مردوں کے سامنے بے پردہ ہونا منع ہے اس لئے کوئی چیز پیشانی کے اوپر اس طرح لگا کر کپڑا ڈال لے کہ کپڑا چہر ے کو نہ لگے، احرام باندھ کردو رکعت بہ نیت احرام عمرہ یا حج پڑھے اور مرد بلند آواز سے تلبیہ پڑھے اور عورت دھیمی آواز سے پڑھے اس کے بعد احرام کی تمام پابندیوں کے ساتھ عمرہ یا حج ادا کریں۔
طواف:طواف نا م ہے بیت اللہ کے گردسات چکر لگانے کا ، طواف حجراسود سے شروع کیا جائے، حاجی کو چاہئے کہ حجراسود کے سامنے اس طرح کھڑا ہو کہ اس کا داہنا کندھا حجراسود کے بائیں کنارے کے مقابل اور حجراسود اس کے داہنی طرف رہے۔ پھر حاجی حجراسود کے قریب سامنے کھڑے ہو کر دونوں ہاتھ اس طرح اٹھائے جس طرح نماز کے لئے اٹھائے جاتے ہیں۔ اگر بآسانی حجراسود کو بوسہ دے سکیں توبوسہ دیجئے ورنہ ہاتھ اس کی طرف اٹھا کر چوم لیں مگر کسی کو آپ کی طرف سے دھکایا تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ عمرہ اور حج کے طواف میں پہلے تین چکروں میں رمل ( اکڑ کر شانے ہلاتے ہوئے کچھ ساتھ ساتھ چلے) کرے۔اس طواف میں اضطباع بھی کرے( اوپر والی چادر کو داہنی بغل سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈالنا، داہنا کندھا کھلا رہے) مگر اضطباع تمام چکروں میں رہے گا اور رمل صرف پہلے تین چکروں میں، باقی چار چکروں میں طریقہ سے چلے۔
تنبیہ:عورتوں کے لئے رمل نہیں ہے۔ عام چال کے ساتھ چلیں۔ طواف کے دوران کوئی سابھی ذکر کر سکتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ جو کتابوں میں درج ہے البتہ رکن یمانی اور حجراسود کے درمیان ربنا اتنافی الدنیا والی دعا پڑھیں یہ دعا پڑھنا سنت ہے۔ طواف سے فارغ ہو کر جتنا بھی ممکن ہو آبِ زمزم نوش فرمائیں۔ اگر وقت مکروہ نہ ہو تو دورکعت واجب الطواف کے نام سے مقام ابراہیم علیہ السلام کے پاس ادا کی جائیں۔ خصوصاً اس موقعہ پر دعائوں سے غافل نہ رہیں۔
سعی: صفا مروہ کے درمیان سات مرتبہ آنا جانا سعی کہلاتا ہے۔ سعی صفا سے شروع کی جائے گی اور مروہ پر ختم ہوگی اس دوران میلین اخضرین( دوسبز ستونوں) کے درمیان عام رفتار سے تیز چلے مگر عورتوں کے لئے یہ حکم نہیں۔ سعی کے دوران کوئی سابھی ذکر کر سکتے ہیں۔ صفا پر چڑھ کر بیت اللہ کی طرف نظر کر کے دعائوں کے ساتھ ہاتھ بلند کر کے چھوڑدے اور سعی کا عمل شروع کرے،اسی طرح مروہ پر بھی کیاجائے گا۔
حلق: بال منڈانا کتروانا۔ مردوں کے لیے تمام بال منڈانا مستحب اور افضل ہے۔ عورتوں کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ صرف چوتھائی سر کے بال بقدر ایک انگل کتروانے کافی ہیں۔
ہدایات:
۱)عمرہ اور حج میں احرام کا طریقہ، سعی اور حلق یکساںہیںان میں کوئی بھی فرق نہیں ہے۔
۲)عمرہ میں احرام، طواف، سعی اور حلق کے مسائل پر عمل کرلینے سے عمرہ ادا ہوجاتا ہے۔
۳)عمرہ اور حج کے طواف کے علاوہ باقی طواف بغیراحرام کے جتنا دل چاہے کر سکتے ہیں ان میں احرام ضروری نہیں بلکہ عام کپڑوں میں طواف کیا جائے گا اور اس طواف میں رمل اور اضطباع بھی نہ ہوگا۔
۴)عمرہ اور حج کے طواف کے بعد سعی ہوگی باقی کسی طواف کے بعد سعی نہ ہوگی۔
٭…٭…٭
الفقہ
(شمارہ 509)
عمرہ کرنے کا طریقہ
احرام کے ساتھ بیت اللہ کا طواف مع رمل اور اضطباع کے کریں اور پھر دو رکعت واجب الطواف کے نام سے مقام ابراہیم کے پاس ادا کریں، اگر وہاں جگہ نہ ملے تو کہیں بھی یہ دورکعت ادا کریں پھر ملتزم پر آکر خوب دعائیں مانگیں، طواف سے فارغ ہو کر آب زم زم خوب نوش فرمائیں۔ اگر ہمت ساتھ دے تو سعی کا عمل شروع کریں ورنہ کچھ دیر کے بعد بھی شروع کر سکتے ہیں البتہ سعی کے لیے جانے سے قبل ایک دفعہ حجراسود کا استلام کرنا سنت ہے۔ سعی سے فارغ ہو کر حلق یعنی بال منڈوالیں۔ اب آپ احرام کھول سکتے ہیں اور احرام کی تمام پابندیاں ختم ہوگئیں، عام لباس پہن لیں اب عمرہ ادا کرلیا گیا۔ مختصر بات یہ ہے کہ مندرجہ ذیل چارچیزوں کی ادائیگی کا نام عمرہ ہے:
۱)احرام عمرہ شرط ہے
۲)طواف مع رمل رکن ہے
۳) سعی واجب ہے
۴)حلق یعنی یعنی بال منڈوانا واجب ہے۔
مکۃ المکرمہ میں سب سے بڑی عبادت فرائض کی ادائیگی کے بعد بیت اللہ کا طواف ہے، جتنا بھی ممکن ہو طواف کریں۔
فرائض حج
حج کے تین فرض ہیں:
۱)احرام (۲)وقوف عرفہ (۳) طواف زیارت
واجبات حج
۱)رات کو مزدلفہ میں ٹھہرنا اور مغرب عشاء کو جمع کرنا
۲)وقوف مزدلفہ یعنی صبح صادق کے بعد طلوع آفتاب سے پہلے کچھ دیر مزدلفہ میں ٹھہرنا۔
۳)سعی صفاومروہ
۴)رمی جمار( کنکریاں مارنا)
۵)قربانی قران اور تمتع کا احرام باندھنے والوں کے لیے
۶)بال کٹوانا۔
۷)آفاقی کے لیے طواف وداع
۸)میقات سے بغیر احرام کے نہ گذرنا۔
تنبیہ: فرائض کے چھوٹ جانے سے حج نہیں ہوگا اور واجبات حج چھوٹ جانے پر دم دینا لازمی ہوتا ہے۔ سنن حج رہ جانے سے حج میں کوئی فرق نہیں البتہ جان بوجھ کر نہ چھوڑا جائے ورنہ گناہ ہوگا۔
حج کا طریقہ
حج کے پانچ ایام ۸ذوالحجہ سے ۱۳ ذوالحجہ تک ہیں۔ حجاج کرام کی آسانی کی خاطر ایام حج کی تقسیم با عتبار احکام کے مندرجہ ذیل بیان کی جاتی ہے۔
۸ ذوالحجہ کے مسائل( مِنیٰ)
ا)احرام حج( یہ احرام کسی بھی جگہ سے باندھا جا سکتا ہے اور یہ حج کیلئے شرط ہے۔
۲)روانگی منیٰ قبل الظہراور یہ عمل مستحب ہے۔
۳)نوذوالحجہ کی فجر تک منیٰ ہی میں رہنا یعنی پانچ نمازیں منیٰ ہی میں ادا کرنااور یہ عمل بھی مستحب ہے۔
۴)طلوع آفتاب کے بعد منیٰ سے میدان عرفات روانہ ہونا،یہ عمل مستحب ہے۔
ہدایت: حاجی صاحبان اپنا قیمتی وقت ذکر الہٰی اور دعائوں میں صرف کریں، سیر وتفریح سے گریز کریں۔
۹ ذوالحجہ کے مسائل( میدانِ عرفات)
۱)عرفات یعنی میدان عرفات میں ٹھہرنا، اس کوو قوف عرفہ بھی کہا جاتا ہے اور یہ حاجی کیلئے فرض ہے۔
۲)ظہر عصر کی نماز کو جمع کرنا بشرطیکہ مسجد نمرہ کے امام کے ساتھ پڑھ رہے ہوں ورنہ ہر نماز کو اپنے وقت پر ادا کرنا۔یہ عمل مستحب ہے۔
۳)غروب آفتاب تک وہیں ٹھہرنا،یہ ٹھہرنا بھی مستحب ہے۔
۴)زیادہ وقت ذکر واذکار اور دعائوں میں گذارنامستحب ہے۔
ہدایت:تجربے کی بات ہے کہ حجاج کرام غروب آفتاب سے پہلے ہی میدان عرفات سے نکلنا شروع کردیتے ہیں یہ درست نہیں بلکہ غروب آفتاب کے بعد نکلیں۔ دوسری بات حجاج کرام غروب آفتاب کے بعد وہیں نماز مغرب پڑھنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ درست نہیں بلکہ مزدلفہ میں پہنچ کر مغرب اورعشاء ایک ساتھ ادا کی جائیں گی۔میدان عرفات قبولیت دعائوں کا مرکز ہے لہٰذا جتنا بھی ممکن ہو دعائوں میں وقت صرف کرے، یہاں کی دعائوں کو رد نہیں کیا جاتا بلکہ اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے۔
شب ۱۰ ذوالحجہ کے مسائل (مزدلفہ)
۱)غروب آفتاب کے بعد میدان عرفات سے مزدلفہ روانہ ہونا،یہ عمل مستحب ہے۔
۲)راستہ میں تلبیہ اور ذکر الہٰی کا ورد کرتے رہنامستحب ہے۔
۳)مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع کر کے پڑھنا۔یہ عمل واجب ہے۔
۴)ستر(۷۰) کنکریاں جمع کرنا،یہ عمل مستحب ہے۔
۵)نماز فجر پڑھ کر مزدلفہ سے منیٰ جاناسنت ہے۔
یادرکھئے! صبح صادق سے قبل فجر کی نماز ہرگز نہ پڑھیں بلکہ اپنے وقت پر پڑھیں، بعض لوگ جلدی کی خاطر قبل ازوقت نماز پڑھ لیتے ہیں، ایسا ہرگز نہ کیجئے۔
ہدایت: ستر کنکریاں مثل کھجور کی گٹھلی ،چنے یالوبیے کے دانے کے برابر اُٹھائیے اور پھر پانی سے دھوڈالیں، افضل ہے کہ رات ذکر الہٰی اور دعائوں میں صرف کریں۔
دن۱۰ ذوالحجہ کے مسائل( منیٰ)
۱)طلوع آفتاب سے پہلے مزدلفہ سے منیٰ روانہ ہونامستحب عمل ہے۔
۲) بڑے شیطان کو سات کنکریاں مارنا،یہ عمل واجب ہے۔
۳)قربانی کرنا ،یہ عمل واجب ہے۔
۴)حلق یعنی بال منڈوانا،یہ عمل بھی واجب ہے۔
۵) بال منڈانے کے بعد احرام ختم ہوجاتا ہے، احرام کی پابندیاں ختم۔
۶)طوافِ زیارت کے لئے بیت اللہ آنا،یہ فرض ہے۔
ہدایات:دسویں تاریخ کی رمی کا وقت صبح صادق سے گیارہویں کی صبح صادق تک ہے، مگر مسنون وقت زوال تک پھر غروب تک مباح ہے۔ البتہ عورتوں، بیماروں اور کمزوروں کے لئے کوئی وقت مکروہ نہیں۔ کنکریوں کا جمرہ کے گرد حلقے میں جانا ضروری ہے، ایک ایک کر کے ماری جائیں، سات کنکریوں سے اضافہ درست نہیں اور نہ ہی کسی اور چیز کو پھینکیں۔ باقی قربانی کا جب تک یقین حاصل نہ ہو کہ ہوگئی ہے اس وقت تک حلق نہ کرائیں اور نہ ہی احرام کھولیں۔
۱۰ تاریخ کے مسائل کو ترتیب وار کیا جائے۔ قربانی، حلق اور طواف ۱۲ تاریخ تک مؤخر کر سکتے ہیں، افضل یہ ہے کہ طواف زیارت ۱۰ تاریخ کو کیاجائے اور طواف زیارت کے بعد سعی بھی کی جائے گی مگر اس طواف اور سعی میں احرام ضروری نہیں۔ دوسرے کپڑوں سے کیا جا سکتا ہے۔
۱۱ ذوالحجہ کے مسائل(منیٰ)
۱)تینوں جمرات کو سات سات کنکریاں زوال کے بعد غروب آفتاب تک مارنا مسنون ہے۔یہ عمل واجب ہے۔
۲)منیٰ ہی میں قیام کرنا،یہ مستحب ہے۔

الفقہ
(شمارہ 510)
۱۲ ذوالحجہ کے مسائل (منیٰ)
۱)تینوں جمرات کو سات سات کنکریاں زوال کے بعد غروب آفتاب تک مارنا مسنون ہے،یہ عمل واجب ہے۔
۲)غروب آفتاب سے پہلے منیٰ کو چھوڑ دینا ورنہ پھر ۱۳ تاریخ کو کنکریاں مارنا ضروری ہوگا،یہ عمل واجب ہے۔
تنبیہ:
۱)مکۃ المکرمہ میں فرائض کے بعد سب سے بڑی عبادت بیت اللہ کا طواف ہے، حاجی صاحبان اس سے غافل نہ رہیں۔
۲)حجاج کرام جب حج سے فارغ ہوتے ہیں تو پھر گھر کی واپسی اور تیاری میں اس قدر منہمک ہوتے ہیں کہ واجب کے تارک یعنی طواف و داع کرنا بھول جاتے ہیں۔ اس بات کا خیال رکھئے کہ جب مکۃ المکرمہ سے واپسی کا ارادہ ہو تو پہلے بیت اللہ کا طواف ’’ طواف و داع‘‘ کی نیت سے کر کے خوب اللہ پاک سے رو رو کر دعائیں مانگیں اور بیت اللہ کی جدائی کا صدمہ دل میں ہو اور بار بار واپسی کی دعا ہو اس کے بعد مکۃ المکرمہ کو الوداع کہیں، یادرکھیے!یہ طواف واجب ہے مگر اس میں رمل اور احرام نہیں اور نہ ہی اس کے بعد سعی ہے۔
زیارت مدینہ منورہ اور روضہ اقدس علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے آداب
حضورﷺ کے روضہ اقدس کی زیارت کرنا دین و دنیا میں سرخروئی کا موجب ہے۔ اس کی نسبت خودرسول اللہﷺ نے فرمایا:من وجد سعۃ ولم یزرنی فقد جفانی
’’جس کو مدینہ تک پہنچنے کی وسعت ہو اور وہ میری زیارت کو نہ آئے( یعنی صرف حج کر کے چلا جائے) اس نے میرے ساتھ بڑی بے مروتی کی۔‘‘
نیز آپﷺ کا ارشاد ہے:من زار قبری وجبت لہ شفاعتی
’’جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت لازمی ہوگئی۔‘‘
آپ ﷺ کا ارشاد ہے:من زارنی بعد مماتی فکانمازارنی فی حیاتی
’’جس نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی ایسا ہی ہے جیسا کہ اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی۔‘‘
مولانا عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک بزرگ سیدصدر الدین صاحب کا ایک مقولہ نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا:’’ دونعمتیں دنیا میں اس وقت ایسی ہیں کہ دنیا کی کوئی نعمت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی مگر افسوس کہ لوگ ان سے غافل ہیں ایک تو آنحضرتﷺ کا وجودِ مبارک جیسا کہ زندگی میں تھا اوردوسری نعمت قرآن ہے۔‘‘
مدینہ منورہ کے راستے میں کثرت درود کا وردرکھا جائے تاکہ آپﷺ کے ساتھ گہرا لگائو اور محبت قائم ہوجائے۔ جب مدینہ منورہ میں داخل ہوتو تواضع اور تعظیم کے ساتھ داخل ہو۔ افضل ہے کہ غسل کریں اور عمدہ لباس خوشبو کے ساتھ پہن کر مسجد نبوی ﷺ میں داخل ہوں۔ اگر وقت مکروہ نہ ہو تو دورکعت تحیۃ المسجد پڑھیں پھر نہایت آداب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے روضۂ اقدس کی طرف چلیں ،مگر دل میں یہ تصور ہو کہ اب آپﷺ سے ملاقات اور گفتگو ہوگی اور خلافِ ادب کوئی حرکت نہ ہو اور دل کو تمام دنیاوی خیالات سے فارغ کردیں اور سرہانے کی دیوار کے کونے میں جو ستون ہے اس سے چار ہاتھ کے فاصلہ پر کھڑے ہوجائیں اور قبلہ کی طرف پشت کر کے ذرا بائیں طرف مائل ہوجائو تاکہ روئے انور ﷺ کا مقابلہ ہوجائے۔ ادھر ادھر مت دیکھو نظر نیچے رکھو اور کوئی حرکت خلافِ ادب نہ ہو۔ زیادہ قریب بھی کھڑے نہ ہو اور جالی کو ہاتھ بھی نہ لگائو۔ نہ بوسہ دواور نہ ہی سجدہ کرو کہ اس قسم کی باتیں خلاف ادب اور احترام کے منافی ہیں، جبکہ سجدہ کرنا شرک ہے اور یہ خیال کرو کہ آپ ﷺ قبر مبارک میں قبلہ کی طرف رخ کئے ہوئے آرام فرمارہے ہیں اور سلام و کلام کو سنتے ہیں۔ عظمت و جلال کا لحاظ کرتے ہوئے متوسط آواز سے سلام پڑھو۔ نہ زیادہ چیخ و پکار ہو اور نہ ہی بالکل آہستہ، پھریوں سلام پڑھیں:
’’السلام علیک یارسول اللّٰہ!السلام علیک یاخیر خلق اللّٰہ!السلام علیک یا خلیل اللّٰہ!السلام علیک یا صفوۃ اللّٰہ!الصلوۃ والسلام علیک یانبی اللّٰہ!اسئل اللّٰہ تعالیٰ لک الوسیلۃ والفضیلۃ والدرجۃ الرفیعۃ والمقام المحمود والحوض المورود والشفاعۃ العظمی فی الیوم المشھود و نسئل اللّٰہ تعالیٰ ان یغفرلنا ذنوبنا ولا بائناوامھاتنا ولاقربائنا انہ مجیب الدعوات وھوارحم الراحمین‘‘
آپﷺ پر سلام پڑھنے کے بعد ایک ہاتھ داہنی طرف کوہٹ کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرہ مبارک کے سامنے کھڑے ہو کر ان پر یوں سلام پڑھیں:
’’السلام علیک یا سیدنا ابابکر الصدیق! السلام علیک یا خلیفۃ رسول اللّٰہ علی التحقیق السلام علیک یاصاحب رسول اللّٰہﷺ ثانی اثنین اذھما فی الغارورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ‘‘
اس کے بعد پھر ایک ہاتھ اور داہنی طرف ہٹ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرے کے مقابل کھڑے ہوکر یوں سلام پڑھیں:
’’السلام علیک یا عمر بن الخطاب السلام علیک یا ناطقا بالعدل والصواب السلام علیک یاشھید المحراب ورحمۃ اللّٰہ و برکاتہ‘‘
سلام سے فارغ ہو کر قبلہ رخ ہو کر اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا اور آپﷺ پر درود پڑھیے اور آپﷺ کے توسل سے خوب دعا کیجئے اور شفاعت کی درخواست اور اپنے والدین ،مشائخ، احباب، اقارب اور سب مسلمانوں کے لئے دعائیں کریں۔
آپ جب تک مدینہ منورہ میں رہیںخوب درود وسلام آپﷺ پر بھیجیں اور آپﷺ کے روضہ اقدس کی حاضری معمول بنالیں، یہاں کا سب سے بڑاوظیفہ مسجد نبوی میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا اور آپﷺ پر کثرت سے درود کا بھیجنا ہے۔
مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب بخاری و مسلم کی روایت کے مطابق ایک ہزار سے زیادہ ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:جو شخص میری مسجد میں چالیس نمازیں ادا کرے اور کوئی اس کی نماز فوت نہ ہو تو اس کے لئے دوزخ سے برأت اور عذاب و نفاق سے برأت لکھی جائے گی۔‘‘ اس واسطے مسجد نبوی میں نماز باجماعت کا خاص اہتمام کریں اور قرآن کریم کی خوب تلاوت کریں۔
مدینہ منورہ کے قیام میں مندرجہ ذیل مسائل کا خاص اہتمام کریں۔ درود شریف کی کثر ت اور تمام نمازیں مسجد نبوی میں ادا کرنے کی کوشش کریں۔ رات کے اکثر حصہ میں بیداررہ کر عبادت کریں۔ مسجد نبوی میں قرآن کی تلاوت آہستہ کرے۔ مسجد نبوی میں اعتکاف کی نیت سے داخل ہوں، روضہ اطہر پر اکثر نگاہ ڈالتا رہے، مسجد نبوی میں دنیاوی باتوں سے اجتناب کرے، مسجد قبا میں ہر ہفتہ جا کر نماز اور دعا کا معمول بنائے۔ خصوصاً یہاں پر لڑائی جھگڑے سے اجتناب کریں، خریدو فروخت اور بازار کی سیر و تفریح سے اجتناب کریں۔
(جاری ہے)