حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ
(۱) اعتکاف اس کو کہتے ہیں کہ اعتکاف کی نیت کرکے مسجد میں رہے اور سوائے ایسی حاجات ضروریہ کے جو مسجد میں پوری نہ ہوسکیں (جیسے پیشاب، پاخانہ کی ضرورت یا غسل واجب اور وضو کی ضرورت) مسجد سے باہر نہ جائے۔
(۲) رمضان کے عشرئہ اخیر میں اعتکاف کرنا سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے۔ یعنی اگر بڑے شہروں کے محلہ میں اور چھوٹے دیہات کی پوری بستی میں کوئی بھی اعتکاف نہ کرے تو سب کے اوپر ترکِ سنت کا وبال رہتا ہے اور کوئی ایک بھی محلہ میں اعتکاف کرے تو سب کی طرف سے سنت ادا ہوجاتی ہے۔
(۳) بالکل خاموش رہنا اعتکاف میں ضروری نہیں، بلکہ مکروہ ہے، البتہ نیک کلام کرنا اور لڑائی جھگڑے اور فضول باتوں سے بچنا چاہیے۔
(۴) اعتکاف میں کوئی خاص عبادت شرط نہیں، نماز، تلاوت یا دین کی کتابوں کا پڑھنا پڑھانا یا جو عبادت دل چاہے کرتا رہے۔
(۵) جس مسجد میں اعتکاف کیاگیا ہے، اگر اس میں جمعہ نہیں ہوتا، تو نماز جمعہ کے لیے اندازہ کرکے ایسے وقت مسجد سے نکلے جس میں وہاں پہنچ کر سنتیں ادا کرنے کے بعد خطبہ سن سکے۔ اگر کچھ زیادہ دیر جامع مسجد میں لگ جائے، جب بھی اعتکاف میں خلل نہیں آتا۔
(۶) اگر بلا ضرورت طبعی شرعی تھوڑی دیر کو بھی مسجد سے باہر چلا جائے گا تو اعتکاف جاتا رہے گا، خواہ عمداً نکلے یا بھول کر۔ اس صورت میں اعتکاف کی قضا کرنا چاہیے۔
(۷) اگر آخر عشرہ کا اعتکاف کرنا ہوتو ۲۰/ تاریخ کو غروبِ آفتاب سے پہلے مسجد میں چلا جائے اور جب عید کا چاند نظر آجائے تب اعتکاف سے باہر ہو۔
(۸) غسلِ جمعہ یا محض ٹھنڈک کے لیے غسل کے واسطے مسجد سے باہر نکلنا معتکف کو جائز نہیں۔
شبِ قدر
چونکہ اس امت کی عمریں بہ نسبت پہلی امتوں کے چھوٹی ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک رات ایسی مقرر فرمادی ہے کہ جس میں عبادت کرنے کا ثواب ایک ہزار مہینہ کی عبادت سے بھی زیادہ ہے، لیکن اس کو پوشیدہ رکھا، تاکہ لوگ اس کی تلاش میں کوشش کریں اور ثواب بے حساب پائیں۔ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں شبِ قدر ہونے کا زیادہ احتمال ہے یعنی ۲۱ ویں، ۲۳ ویں، ۲۵ویں، ۲۷ویں، ۲۹ویں شب۔ اور ۲۷ویں شب میں سب سے زیادہ احتمال ہے۔ ان راتوں میں بہت محنت سے عبادت اور توبہ واستغفار اور دعا میں مشغول رہنا چاہیے۔ اگر تمام رات جاگنے کی طاقت یا فرصت نہ ہوتو جس قدر ہوسکے جاگے اور نفل نماز یا تلاوتِ قرآن یا ذکر وتسبیح میں مشغول رہے اور کچھ نہ ہوسکے تو عشاء اور صبح کی نماز جماعت سے ادا کرنے کا اہتمام کرے، حدیث میں آیا ہے کہ یہ بھی رات بھر جاگنے کے حکم میں ہو جاتا ہے، ان راتوں کو صرف جلسوں تقریروں میں صرف کرکے سو جانا بڑی محرومی ہے، تقریریں ہر رات ہوسکتی ہیں، عبادت کا یہ وقت پھر ہاتھ نہ آئے گا۔
البتہ جولوگ رات بھر عبادت میں جاگنے کی ہمت کریں، وہ شروع میں کچھ وعظ سن لیں، پھر نوافل اور دعا میں لگ جائیں تو درست ہے۔
ترکیب نمازِ عید
اول زبان یا دل سے نیت کرو کہ دو رکعت نمازِ عید واجب مع چھ زائد تکبیروں کے پیچھے اس امام کے۔ پھر اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لو اور سُبحَانَکَ اللّٰہم پڑھو پھر دوسری اور تیسری تکبیر میں ہاتھ کانوں تک اٹھاکر چھوڑ دو اور چوتھی میں باندھ لو اور جس طرح ہمیشہ نماز پڑھتے ہو پڑھو۔ دوسری رکعت میں سورت کے بعد جب امام تکبیر کہے تم بھی تکبیر کہہ کر پہلی، دوسری اور تیسری دفعہ میں ہاتھ کانوں تک اٹھاکر چھوڑ دو اور چوتھی تکبیر کہہ کر بلاہاتھ اُٹھائے رکوع میں چلے جاؤ۔ باقی نماز حسب دستور تمام کرو۔ خطبہ سن کر واپس جاؤ۔ وَالحَمدُ لِلّٰہِ
مسائل زکوٰۃ
وَاَقِیمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکوٰۃَ
مسئلہ: اگر کسی کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا ہے یا اس میں سے کسی ایک کی قیمت کے برابر روپیہ یا نوٹ ہے تو اس پر زکوٰۃ فرض ہے۔ نقد روپیہ بھی سونے چاندی کے حکم میں ہے (شامی) اور سامانِ تجارت اگر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے تو اس پر بھی زکوٰۃ فرض ہے۔
مسئلہ: کارخانے اور مِل وغیرہ کی مشینوں پر زکوٰۃ فرض نہیں، لیکن ان میں جو مال تیار ہوتا ہے اس پر زکوٰۃ فرض ہے ، اسی طرح جو خام مال کارخانہ میں سامان تیار کرنے کے لیے رکھا ہے اس پر بھی زکوٰۃ فرض ہے۔ (درمختار وشامی)
مسئلہ: سونے چاندی کی ہر چیز پر زکوٰۃ واجب ہے، زیور، برتن، حتی کہ سچاگوٹہ، ٹھپہ، اصلی زری، سونے چاندی کے بٹن، ان سب پر زکوٰۃ فرض ہے، اگرچہ ٹھپہ گوٹہ اور زری کپڑے میں لگے ہوئے ہوں۔
مسئلہ: کسی کے پاس کچھ روپیہ، کچھ سونا یا چاندی اور کچھ مالِ تجارت ہے، لیکن علیحدہ علیحدہ بقدر نصاب ان میں سے کوئی چیز بھی نہیں ہے تو سب کو ملاکر دیکھیں اگر اس مجموعہ کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہوجائے توزکوٰۃ فرض ہوگی اور اگر اس سے کم رہے تو زکوٰۃ فرض نہیں۔ (ہدایہ)
مسئلہ: مِلوں اور کمپنیوں کے شیئرز پر بھی زکوٰۃ فرض ہے، بشرطیکہ شیئرز کی قیمت بقدر نصاب ہو یا اس کے علاوہ دیگر مال مِل کر شیئرہولڈر مالک نصاب بن جاتا ہو، البتہ کمپنیوں کے شیئرز کی قیمت میں چونکہ مشینری اور مکان اور فرنیچر وغیرہ کی لاگت بھی شامل ہوتی ہے جو درحقیقت زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہے، اس لیے اگر کوئی شخص کمپنی سے دریافت کرکے جس قدر رقم اس کی مشینری اور مکان اور فرنیچر وغیرہ میں لگی ہوئی ہے، اُس کو اپنے حصے کے مطابق شیئرز کی قیمت میں سے کم کرکے باقی کی زکوٰۃ دے تو یہ بھی جائز اور درست ہے۔ سال کے ختم پر جب زکوٰۃ دینے لگے اس وقت جو شیئرز کی قیمت ہوگی وہی لگے گی۔ (درمختار وشامی)
مسئلہ: پراویڈنٹ فنڈ جو ابھی وصول نہیں ہوا اُس پر بھی زکوٰۃ فرض ہے، لیکن ملازمت چھوڑنے کے بعد جب اس فنڈ کا روپیہ وصول ہوگا، اس وقت اس روپیہ پر زکوٰۃ فرض ہوگی، بشرطیکہ یہ رقم بقدرِ نصاب ہو یا دیگر مال کے ساتھ مل کر بقدر نصاب ہوجاتی ہو۔ وصولیابی سے قبل کی زکوٰۃ پراویڈنٹ کی رقم پر واجب نہیں، یعنی پچھلے سالوں کی زکوٰۃ فرض نہیں ہوگی۔
مسئلہ: صاحب نصاب اگر کسی سال کی زکوٰۃ پیشگی دے دے تو یہ بھی جائز ہے، البتہ اگر بعد میں سال پورا ہونے کے اندر مال بڑھ گیا تو اس بڑھے ہوئے مال کی زکوٰۃ علیحدہ دینا ہوگی۔ (درمختار وشامی)
جس قدر مال ہے اس کا چالیسواں حصہ دینا فرض ہے یعنی ڈھائی فیصد مال دیا جائے گا۔ سونے، چاندی اور مال تجارت کی ذات پر زکوٰۃ فرض ہے اس کا چالیسواں حصہ دے، اگر قیمت دے تو یہ بھی جائز ہے، مگر قیمتِ خرید نہ لگے گی، زکوٰۃ واجب ہونے کے وقت جو قیمت ہوگی اس کاچالیسواں حصہ دینا ہوگا (درمختار،ج:۲)
مسئلہ: ایک ہی فقیر کو اتنا مال دے دینا کہ جتنے مال پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے، مکروہ ہے لیکن اگر دے دیا تو زکوٰۃ ادا ہوگئی اور اس سے کم دینا بغیر کراہت کے جائز ہے۔ (ہدایہ ج۱)
٭…٭…٭
الفقہ
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ
(شمارہ 504)
صدقۃ الفطر
صدقۃ الفطر ہر اس آزاد مسلمان پر واجب ہے جس کی ملکیت میں سونا چاندی، نقد رقم، سامان تجارت اور حاجاتِ اصلیہ سے زائد( ضرورت سے زائد) سامان ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے بقدر موجود ہو، اس میںعاقل اور بالغ ہونا شرط نہیں ہے۔
صدقۃ الفطر واجب ہونے کا نصاب:
صدقۃ الفطر کے نصاب میں پانچ چیزوں کا عتبار ہے:
(۱)نقد رقم: خواہ اپنی کرنسی کی شکل میں ہو یا بیرونی کرنسی کی شکل میں ہو یا بانڈز وغیرہ کی شکل میں ہو۔ (۲)سونا (۳)چاندی: کسی بھی شکل میں ہو خواہ زیورات کی شکل میں ہویا ڈلی کی شکل میں، خواہ استعمال میں ہو یانہ ہو،
(۴)مال تجارت
(۵)ضرورت سے زائد سامان: شریعت کی نظر میں ضرورت سے زائد سامان وہ ہوتا ہے جو انسان کے استعمال میں نہ آرہا ہو، جیسے زائد قیمتی کپڑے ،آرائشی اور نمائشی اشیائ،برتن، غیر رہائشی پلاٹ، مکان، ٹی وی، وی سی آر وغیرہ یہ سب ضرورت سے زائد سامان میں شامل ہے۔
اب اس نصاب کا مالک ہونے کی دوصورتیں ہوسکتی ہیں ، ایک تویہ کہ کسی کی ملکیت میں ان پانچ چیزوں میں سے صرف اور صرف سونا ہے، اس کے علاوہ اس کے پاس نہ چاندی ہے اور نہ کسی قسم کا تجارتی سامان ہے اور نہ نقد رقم ہے اور نہ ہی کسی قسم کا ضرورت سے زائد سامان ہے، تو اس صورت میں حکم یہ ہے کہ اگر یہ سونا ساڑھے سات تولہ یا اس سے زائد ہے تو اس پر صدقۃ الفطر واجب ہے اور اگر ساڑھے سات تولہ سے کم ہے توصدقۃ الفطر واجب نہیں، لیکن یہ صورت بہت کم ہوتی ہے کیونکہ انسان کے پاس کچھ نہ کچھ نقد رقم موجود ہی ہوتی ہے، بہرحال یہی صرف ایک ایسی صورت ہے کہ جس میںساڑھے سات تولہ سونے کے نصاب کا اعتبار ہے، اس کے علاوہ جتنی بھی صورتیں ہیں ان میں ساڑھے باون تولہ چاندی کے نصاب کاا عتبار ہے۔
لہٰذااگرکسی کی ملکیت میں سونے کے علاوہ باقی چار چیزوں میں سے کوئی چیز مثلاً صرف چاندی ہو اور وہ ساڑھے باون تولہ یا اس سے زائد ہو،یاکسی کے پاس صرف نقد رقم ہو یا صرف سامان تجارت ہو اوران کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو تو اس پر بھی صدقۃ الفطر واجب ہے، اسی طرح اگر چہ کسی کی ملکیت میں ان چاروں چیزوں میں سے تو کوئی چیز نہ ہو ، لیکن ضرورت سے زائد اشیاء ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر موجود ہوں، تو اس پر بھی صدقۃ الفطر واجب ہے۔
اسی طرح جس شخص کے پاس یہ پانچوں چیزیں تھوڑی تھوڑی موجود ہوں یا ان میں سے دو یا تین چار چیزیں موجود ہوںاوران سب کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے بقدر ہو تو اس پر بھی صدقہ الفطر واجب ہے اور اگر ان کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت سے کم ہو تو اس پر صدقۃ الفطر واجب نہیں بلکہ یہ شخص خود زکوٰۃ اور صدقۃ الفطر کا مصرف ہے۔
نوٹ: یاد رکھئے کہ جو شخص صدقۃ الفطر کے نصاب کا مالک ہے یعنی اوپر ذکر کردہ تفصیل کے مطابق اس پر صدقۃ الفطر واجب ہوجاتا ہے تو اس پر قربانی بھی واجب ہے اور اس کو زکوٰۃ لینا بھی جائز نہیں اور جو شخص اس نصاب کامالک نہیں، اس پر نہ صدقۃ الفطر واجب ہے اور نہ ہی قربانی واجب ہے بلکہ یہ شخص زکوٰۃ اور صدقۃ الفطر کا مستحق ہے بشرطیکہ سید نہ ہو۔
صدقۃ الفطر کب واجب ہوتا ہے:
زکوٰۃ کی طرح صدقۃ الفطر واجب ہونے کے لئے سال گزرنا شرط نہیں ، بلکہ صدقۃ الفطر عید الفطر کی صبح صادق کے وقت واجب ہوتا ہے، صبح صادق سے پہلے پہلے جو شخص نصاب کا مالک بن گیا اس پر صدقۃ الفطر واجب ہوگااور جس کی ملکیت میں صبح صادق سے پہلے نصاب کے بقدر مال نہ رہا، ا س پر صدقۃ الفطر واجب نہیں ہوگا۔
صدقۃ الفطر کی ادائیگی کاوقت
مستحب یہ ہے کہ صدقۃ الفطر نماز عید سے پہلے ادا کردیاجائے، نماز کے بعد بھی ادا کیا جا سکتا ہے اور رمضان میں بھی اداکیا جا سکتا ہے، صدقۃ الفطر تاخیر سے ساقط نہیں ہوتا۔
صدقۃ الفطر کن لوگوں کی طرف سے واجب ہے
صدقۃ الفطراپنی ذات کی طرف سے ادا کرنا اور اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے اداکرنا واجب ہے اور بالغ بچوںمیں سے کوئی مالدار ہے تو صدقۃ الفطر اسی کے مال میں سے دے دیا جائے۔
بالغ عورت پر اپنا صدقۃ الفطر خود ادا کرنا واجب ہے اس کے شوہر یا والد پر نہیں، البتہ اگر عورت اپنے شوہر یا والد کو کہہ دے کہ میری طرف سے صدقۃ الفطر ادا کردو اور پھر وہ ادا کردیں تو ادا ہوجائے گا۔
اگر شوہر کا بیوی کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرنے کا معمول ہو تو ہر مرتبہ کہنا ضروری نہیں، بلکہ کہے بغیر بھی بیوی کی طرف سے صدقۃ الفطر اداکرنے سے ادا ہوجائے گا۔
باپ پر بالغ اولاد کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرنا واجب نہیں بلکہ اولاد پر خود واجب ہے، البتہ اگر وہ اپنی اولاد کو کہہ دیں کہ ہماری طرف سے صدقۃ الفطر ادا کریں اور پھر وہ ادا کردے تو ادا ہوجائے گا، اسی طرح اگر وہ بالغ اولاد باپ کی کفالت میں ہو اور باپ کا ان کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرنے کا معمول ہو تو ان کو بتائے بغیر بھی ان کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرنے سے ادا ہوجائے گا۔
صدقۃ الفطر کا مصرف
صدقۃ الفطر کا مصرف ہر وہ شخص ہے جس پر صدقۃ الفطر واجب نہ ہو اور وہ ہاشمی یا سید بھی نہ ہو۔
عید کی نماز کا طریقہ
عید کی نماز کا طریقہ یہ ہے کہ یہ نیت کریں کہ میں دورکعت واجب نماز عید چھ زائد واجب تکبیروں کے ساتھ ادا کرتا ہوں اور مقتدی امام کی اقتداء کی بھی نیت کرے۔ پھر اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لیں اور سبحانک اللھم پوری پڑھیں، اس کے بعد امام تین زائد تکبیریں کہیں گے، اس میں پہلی دوتکبیروں میں تو اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور چھوڑدیں اور تیسری تکبیر میں اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور باندھ لیں، پھر امام تعوذ اور تسمیہ پڑھ کر قراء ت کریں گے اور عام طریقہ سے رکعت پوری کریں گے، پھر جب امام دوسری رکعت میں قراء ت سے فارغ ہوںگے تو اللہ اکبر کہہ کر رکوع میں نہیں جائیں گے، بلکہ تین زائد تکبیر کہیں گے، ان تینوں تکبیروں میں اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور چھوڑیں اور اس کے بعد امام چوتھی مرتبہ اللہ اکبر کہیں گے، اس تکبیر پر رکوع میں چلے جائیں اور باقی نماز عام طریقہ سے پوری کی جائے گی۔
عید کی نماز میں تکبیریں یا رکعات فوت ہوجانے کے مسائل
اگر عید کی نماز میں ایسے وقت میں شامل ہوئے کہ امام صاحب زائد تکبیریں کہہ چکے تھے، تو تکبیرکہہ کر نماز شروع کردیں اور ہاتھ باندھ لیں، اس کے بعد تین زائد تکبیریں کہیں، اس طرح کہ پہلی دو میں تو اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور چھوڑدیں اور تیسری تکبیر میں اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور باندھ لیں، اگر امام قراء ت شروع کرچکے ہوں تو بھی اسی طرح کریں۔
اور اگرایسے وقت میں شامل ہوئے کہ امام پہلی رکعت کے رکوع میں جاچکے ہیں، تو اگر غالب گمان یہ ہو کہ اگر اوپر ذکر کردہ طریقہ کے مطابق تکبیریں کہنے کے بعد بھی امام کے ساتھ رکوع میں شامل ہوجائیں گے تو اسی طریقہ سے تکبیریں کہہ کر رکوع میں شامل ہوجائیں اور غالب گمان یہ ہو کہ تکبیریں کہنے کی صورت میں امام کے ساتھ رکوع میں شامل نہیں ہو سکیںگے، تو اللہ اکبر کہہ کر نیت باندھ لیں ،پھر اللہ اکبر کہہ کر رکوع میں شامل ہوجائیں اور رکوع میں تسبیح پڑھنے کے بجائے تین مرتبہ اللہ اکبر کہیں اور اس میں کانوں تک ہاتھ نہیں اُٹھانے، اگر اس طرح کرنے میں رکوع میں تین تکبیریں کہنے کا موقعہ نہیں ملا، بلکہ امام تین تکبیریں کہنے سے پہلے ہی کھڑے ہوگئے تو اس صورت میں امام کے ساتھ ہی کھڑے ہو جائیں، جو تکبیریں رہ گئیں وہ معاف ہیں۔
اور اگر امام کے پہلی رکعت کے رکوع سے کھڑے ہونے کے بعد نماز میں شامل ہوئے، تو اس صورت میں تکبیر تحریمہ کہہ کر نماز میں شامل ہوجائیںاور زائد تکبیریں نہ کہیں، بلکہ امام کے ساتھ اپنی نماز پوری کریں اور جب امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی باقی رہ جانے والی ایک رکعت پوری کرنے کے لئے کھڑے ہوں تو پہلے تلاوت کریں اور اس کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے تین زائد تکبیریں کہیں اور تینوں میں اللہ اکبر کہہ کر کانوں تک ہاتھ اٹھا کر چھوڑ دیں اور پھر چوتھی مرتبہ اللہ اکبر کہہ کر رکوع میں چلے جائیں اور باقی رکعت عام طریقہ سے پوری کریں۔
اور اگر امام کے دوسری رکعت کے رکوع سے کھڑے ہونے کے بعد نماز میں شامل ہوئے، تو اس صورت میں امام کے ساتھ نمازپوری کریںاور امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑے ہوجائیں اور اپنی فوت شدہ دورکعتیں ادا کریں اور اس میں پہلی اوردوسری رکعت میں زائد تکبیریں اسی موقعہ پر ادا کریں جس طرح امام کرتا ہے، اگر عید کی نماز میں ایسے وقت میں شامل ہوئے کہ امام تشہد پڑھ چکے ہیں لیکن ابھی تک سلام نہیں پھیرا، تو نماز میں شامل ہوجائیںاور امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی فوت شدہ دو رکعتیں پوری کریں اور اس میں اپنے مقام پر زائد تکبیریں کہیں۔
شوال کے چھ روزے
عید الفطر کے بعد مزید چھ دن روزے رکھنا بہت فضیلت اور ثواب کا کام ہے، احادیث میں اس کی بہت زیادہ فضیلت آئی ہے یہ چھ روزے ماہِ شوال کے اندر رکھنے ہیں خواہ مسلسل رکھے جائیں یا وقفہ وقفہ سے رکھے جائیں، دونوں طرح درست ہیں، حدیث پاک میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:
جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ ایسا ہے کہ اس نے سارا سال روزے رکھے۔( صحیح مسلم)
اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے:
جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو وہ گناہوں سے ایسے صاف ہوجاتا ہے جیسے آج ہی ماں کے پیٹ سے نکلا ہو۔( مجمع الزوائد)
٭…٭…٭
الفقہ
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ
(شمارہ 505)
مکان اور سواری کا اجارہ
شریعت میں جس طرح انسان سے اُجرت پر کام لینا جائز ہے اسی طرح دوکان ، مکان وغیرہ کو بھی اجرت پر لینا درست ہے اور خود حدیث سے ثابت ہے۔
شریعت کے عام اصول اور اجارہ کے عمومی قداعد کے مطابق مکان کے کرایہ پر لینے کے لئے بھی ضروری ہے کہ کرایہ کی مقدار اور مدت متعین کردی جائے اور و ہ اس میں کیا کرے گا، رہائش اختیار کر ے گا یا کوئی دوسرا کام کرے گا اس کی تعیین ضروری نہیں، ہاں اگر مکان کو کسی ایسے غیر معمولی کام کے لئے استعمال کریں جس سے مکان کے تحفظ کو نقصان پہنچ سکتا ہو تو اس کی صراحت کردینی ہوگی جیسے دھوبی ،لوہار، آٹا پیسنے کی مشین، اس طرح کے کاموں کا ارادہ ہو تو پھر ضروری ہے کہ اس کی وضاحت کر دے۔
اسی طرح سواری پر بار برداری کے لئے سواری کا کرایہ پر لینا بھی درست ہے، فقہاء نے لکھا ہے کہ اس کے لئے سوار، اٹھایا جانے والا سامان، جہاں سے جہاں لے جایا جارہا ہو، اس کی تعیین وغیرہ ضروری ہوگی۔
فقہاء کے یہاں ان ساری وضاحتوں کا اصل مقصد ممکنہ نزاع اور اختلاف کا سدباب ہے، موجودہ زمانہ میں جو تیز رفتار سواریاں ہیں ان کے لئے جو قوانین اور قواعد ہیں، انہی کے مطابق معاملات ہوں گے، اس لئے کہ قانون کی وجہ سے اس کی حیثیت عرف کی ہوگئی ہے اور جو چیز عرف کے مطابق ہوتی ہے وہ نزاع و اختلاف کا سدباب کرتی ہے۔
زرضمانت
آج کل صاحب مکان کرایہ دار سے کچھ رقم بطور زر ضمانت حاصل کرتے ہیں، ایسا اس لئے کیا جاتا ہے تاکہ کرایہ دار کے ضرر سے خود کو محفوظ رکھا جاسکے، یہ ایک طرح سے کرایہ کے ساتھ قرض کی شرط ہے جو رواج کی حیثیت اختیار کرچکی ہے اور اگر کوئی شرط رواج کا درجہ اختیار کرلے تو پھر وہ جائز اور درست ہوجاتی ہے، اس لئے جائز ہے۔
پگڑی
فی زمانہ شہروں اورقصبات میں کرایہ داری کے ساتھ پگڑی کارواج بھی عام ہوگیا ہے۔ پگڑی کی کئی صورتیں ممکن ہیں:
۱)مالک مکان کا کرایہ دار سے پگڑی لینا۔
۲)پگڑی کے ذریعہ دوکان حاصل کرنیوالے کرایہ دار کا خود مالک مکان یا نئے کرایہ دار سے پگڑی وصول کرنا۔
۳)جس کرایہ دار نے پگڑی دئیے بغیر مکان حاصل کیا ، اس کا مالک مکان یا نئے کرایہ دار سے پگڑی وصول کرنا۔
پہلی صورت جائز ہے ، مالک مکان پگڑی لے کر گویا کرایہ ہی کا ایک حصہ بعجلت وصول کر لیتا ہے اور کرایہ کا بقیہ حصہ ماہوار بالاقساط حاصل کرتا ہے اور ایسا کرناجائز ہے، علامہ شامی نے اپنے زمانہ میں’’خدمت‘‘ اور تصدیق‘‘ کے نام سے کرایہ دار سے یکمشت کچھ رقم وصول کرنے کا ذکر کیا ہے جس کی نوعیت قریب قریب پگڑی ہی کی ہے۔
دوسری صورت بھی جائز ہے، دراصل حق ملکیت اور حق قبضہ دومستقل حقوق ہیں جو مکان سے متعلق ہیں،کرایہ دار پگڑی ادا کر کے حق قبضہ خرید کرلیتا ہے اور حق ملکیت اصل قبضہ کی قیمت پگڑی کے نام پر وصول کرلیتا ہے، فقہاء کے یہاں ایسی نظیریں موجود ہیں کہ جن میں بعض حقوق کو قابل قیمت تسلیم کیا گیا ہے۔
تیسری صورت جائز نہیں۔ جس کرایہ دار نے پگڑی کے بغیر مکان یا دکان حاصل کی ہے چونکہ وہ صرف حق انتفاع کا مالک ہے حق قبضہ کا مالک نہیں اس لئے وہ خود مالک مکان یا نئے کرایہ دار سے پگڑی حاصل کرنے کا مجاز نہیں ، اگر پگڑی نئے کرایہ دار سے حاصل کرتا ہے تو غصب کے حکم میں ہے اور خود مالک مکان سے لے تو رشوت ہے۔ اگر اس نے مکان یا دکان میں کوئی تعمیری اضافہ کیا ہے تب بھی وہ پگڑی لینے کا حقدار نہیں بلکہ صرف اس اضافہ کی مناسب قیمت وصول کرسکتا ہے، قانون ملکی گو اس کے حق اجارہ کو عام حالات میں ناقابل انفساخ قراردیتا ہے لیکن چونکہ یہ قانون شرعی کے مغائر ہے اس لئے اس کا اعتبار نہیں۔
آداب و اخلاق
اسلام خدا کا آخری، محفوظ اور مکمل دین ہے، جو انسانیت کی ہدایت،راستی اور اس کی دنیا و عقبیٰ کی فلاح و کامیابی اور سعادت وخوش بختی کا ضامن ہے، حفاظت و ہدایت اس کی خاص شان ہے۔ اس کا دستور اساسی قرآن مجید کی شکل میں اس طرح محفوظ ہے کہ بجائے خود ایک معجزہ ہے۔ جامعیت وہمہ گیری اس کا خاص وصف ہے۔ زندگی کا کونسا گوشہ ہے جس کو اس کے خورشید ہدایت نے بے نور چھوڑا ہے؟
اور جہان رنگ و بو میں پیش آنے والا کون ساقضیہ ہے جس کی اس نے عقدہ کشائی نہیں کی؟
مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کی تعلیمات کو وسعت دی جائے تو وہ ایک وسیع و طویل کتاب ہے، وہ عقیدہ ایمان ہے۔ عبادت وبندگی ہے، خشیت و تضرع ہے، خدا کا ذکر ہے، آخرت کی فکر ہے، قانون معاشرت ہے، اصول معاملت ہے، نظام اجتماعی ہے ، ضابطۂ عدل وقضا ہے، قواعد جرم و سزا ہے، تزکیۂ اخلاق ہے، حقوق الناس کی رعایت ہے، عورتوں کی کرامت کا راز ہے، مردوں کے لئے اپنی منصب شناسی کا آئینہ ہے، بچوں کا محافظ ہے، جانوروں کے لئے پیام رحمت ہے، تہذیب و ثقافت اور تمدن کی معراج ہے، علماء کے لئے جو لانگاہ علم وتحقیق ہے، عامیوں کے لئے سرچشمۂ ہدایت وتوفیق ہے، صبح و شام کا خضر طریق اور روزوشب کا رہبر کامل ہے، سلطانی بھی ہے اور درویشی بھی ، امارت بھی ہے اور محکومیت بھی، دولت و ثروت بھی ہے اور صبر و قناعت بھی، خلوت بھی ہے اور جلوت بھی… کونسی صنف و جنس ہے، جو اس کی باران رحمت سے محروم ہے اور کونسا گوشہ زندگی ہے جو اس کی ہدایت و رہبری سے تاریک ہے؟
لیکن اس کی وسعت وہمہ گیری کو سمیٹا جائے تو محض دولفظوں’’ اسوئہ محمد‘‘ سے عبارت ہے، آپﷺ کے شب و روز ، شام وسحر، خلوت، عبادت و معاشرت، معاملات و تعلقات ایک آئینہ ہیں۔ اس آئینے میں جس کی زندگی جتنی مکمل محسوس ہو، وہ ایمان و اسلام کی کسوٹی میں اسی قدر پورا ہے، اس کو قرآن کریم نے (لقد کان لکم فی رسول اللّٰہ اسوۃ حسنۃ) کہا اور اسی حقیقت کو شاعر حق شناس اقبال نے یوں کہا:
بہ مصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بو لہبی ست
کتاب کے اس آخری باب میں اسوئہ محمد کی چند جھلکیاں ہیں، آداب و معمولات ہیں، اخلاقی ہدایات اور نقوش شام و سحر ہیں، جو اہل ایمان کی چشم عقیدت کا سرمہ اور نگاہ احترام کا سکون ہیں…صلی اللہ علیہ وسلم،صلی اللہ علیہ وسلم،صلی اللہ علیہ وسلم
٭…٭…٭
الفقہ
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ
(شمارہ 507)
گھر میں داخل ہونے کی اجازت
کسی کے گھر میں داخل ہوتے وقت واجب ہے کہ پہلے اجازت لی جائے، اسی کو حدیث میں’’استیذان‘‘ کہا گیا ہے، قرآن مجید میں اس سلسلہ میں مفصل حکم موجود ہے:
’’اے اہل ایمان! اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں اہل خانہ کو سلام کئے اور اجازت لئے بغیر نہ داخل ہو، یہ تمہارے حق میں بہتر نہیں ہے۔امید کہ تم اس سے نصیحت حاصل کرو گے، اگر وہاں کسی کو نہ پائو تب بھی جب تک اجازت نہ مل جائے داخل نہ ہو اور اگر واپس ہوجانے کو کہا جائے تو واپس ہوجائو کہ یہی تمہارے لئے پاکیزہ ہے اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے… ہاں ایسے مکان جو رہائشی نہ ہوں اور وہاں تمہارے سامان رکھے ہوں، میں بلا اجازت داخل ہوجانے میں بھی مضائقہ نہیں( تاہم یاد رکھو کہ) اللہ ان باتوں سے بھی واقف ہے جن کا تم اظہار کرتے ہو اور ان باتوں سے بھی جن کو نہاںخانۂ دل میں) چھپا رکھے ہو۔‘‘(سورہ نور:۲۷تا۲۹)
اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ جب بھی کسی کے گھر میں داخل ہواجائے تو اجازت چاہی جائے اور اجازت چاہنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے سلام کرے پھر داخلہ کی اجازت چاہے۔ آیت میں گوکہ پہلے’’ استیناس‘‘ یعنی اجازت چاہنے اور پھر سلام کا ذکر ہے مگر عربی زبان میں یہ عام بات ہے کہ کبھی کبھی عمل ترتیب کو نظر انداز کرتے ہوئے بھی الفاظ کا ذکر کر دیا جاتا ہے۔ احادیث میں استیذان کا جو طریقہ مروی ہے اس میں پہلے سلام کا ذکر ہے… اس استیذان کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے جا کر سلام کرے پھر اپنا نام لے کے اندر آنے کی اجازت چاہے، چنانچہ آپﷺ نے ایک صحابی کو اسی طرح اجازت لینے کا طریقہ ارشاد فرمایا۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو فرمایا: یستاذن ابو موسیٰ ( ابو موسیٰ اجازت کا طالب ہے)
اجازت لیتے وقت نام کی وضاحت کردینی چاہئے تاکہ صاحب مکان کو اشتباہ نہ ہو۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما ایک مرتبہ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اجازت چاہی۔ آپﷺ نے دریافت فرمایا: کون صاحب ہیں؟ انہوں نے جواب دیا:’’ انا‘‘ میں،آپﷺ نے فرمایا: انا انا کہنے سے کیا حاصل؟اس سے کوئی پہچانا نہیں جاتا۔
اجازت لینے کی صورتیں
استیذان کا اصل مقصد اجازت چاہنا، اپنی آمد کی اطلاع دینا اور دوسروں کی آزادی میں خلل انداز نہ ہونا ہے۔ یہ مقصد جس طریقہ سے بھی حاصل ہوجائے استیذان کے لئے کافی ہوگا۔ مثلاً’’گھنٹی‘‘ بجا کر اپنا نام بتادینا اور دروازہ پر دستک دینا، شناختی کارڈ بھیج دینا۔ اس لئے کہ یہ ساری چیزیں اس مقصد کی تکمیل کردیتی ہیں۔
البتہ دستک کی آواز اتنی تیز نہ ہو کہ لوگ ڈر جائیں ، چنانچہ تفسیر قرطبی میں نقل کیا ہے کہ صحابہ حضورﷺ کے دروازے پر ناخنوں سے دستک دیتے تھے۔
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر صاحب مکان ملاقات سے معذرت کردے تو کچھ ناگواری محسوس کئے بغیرواپس ہوجانا چاہئے، اسی طرح تین بارسلام کرنے اور اجازت چاہنے کے باوجود اگر جواب نہ آئے تو واپس ہوجانا چاہئے جیسا کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے حضورﷺ سے نقل کیا ہے اور اس کی تائید حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی فرمائی ہے۔البتہ یہ اور بات ہے کہ اسلامی اخلاق کا تقاضا ہے کہ بلاعذر ملاقاتیوں سے معذرت نہ کی جائے۔
بعض خصوصی اوقات کے علاوہ جیسے صبح، دوپہر، شب والدین کے پاس بلا اجازت بھی جا سکتے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جو رسول اللہﷺ کے پروردہ اور داماد تھے کہ میں جب رات کو حضورﷺ کے پاس آتا تو آپﷺ بطور اجازت کھنکاردیا کرتے۔
پردہ کی رعایت
اجازت لینے کا طریقہ یہ ہے کہ اس طرح نہ کھڑا ہوکہ اہل خانہ کی بے ستری ہو جائے بلکہ دائیں یا بائیں جانب کھڑا ہو، حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضورﷺ کسی کے دروازے پر آتے تو سامنے کھڑے ہونے کی بجائے دائیں یا بائیں کھڑے ہوجاتے اور فرماتے: السلام علیکم، السلام علیکم۔
اطلاع اپنے گھر میں بھی مستحب ہے
اس آیت میں دوسروں کے گھر میں داخل ہونے کے لئے استیذان کا حکم دیا گیا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ خود اپنے گھر میں جہاں اس کی بیوی ہو اجازت چاہنا ضروری نہیں مگر مستحب طریقہ یہ ہے کہ وہاں بھی بلا اطلاع نہ جائے بلکہ کھنکار کر یاقبل ازوقت اس کی طلاع کر کے جائے۔
پبلک مقامات کے احکام
اس آیت سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ استیذان ان گھروں کے لئے ہے جو رہائش گاہ کی حیثیت رکھتے ہوں، اس لئے کہ’’بیت‘‘ عموماً ایسے ہی مکان کو کہتے ہیں، وہ جگہیں جو کسی کی رہائش گاہ نہ ہوں بلکہ عام طور پر وہاں لوگوں کی آمدورفت ہوا کرے جیسے دفاتر، مدرسے، مسجدیں، یہاں آمدورفت کی جا سکتی ہے سوائے اس کے کہ عام لوگوں کے آنے پر امتناع ہو۔
اسی طرح آیت میں’’بیوت غیر مسکونہ‘‘ میں آنے کی اجازت دی گئی اس سے دراصل وہ جگہیں مراد ہیں جو کسی خاص فرد کی ملکیت نہ ہو بلکہ عام لوگوں کے استعمال کی ہوں، مسافرخانے ، ویٹنگ روم، ریلوے اسٹیشن، بس اسٹینڈ یہاں ہر شخص کو جانے کی اجازت ہوگی۔
ٹیلیفون کا حکم
اسی طرح استیذان کی فہرست میں بعض بزرگوں نے ٹیلیفون کو بھی رکھا ہے کہ ٹیلیفون کے ذریعہ بھی گویا ملاقات کی جاتی ہے اس لئے اگر طویل گفتگو کرنی ہو تو پہلے اجازت لے لینی چاہئے۔
افسوس کہ استیذان جو ایک امر واجب ہے اور قرآن وحدیث میں اس کی سخت تاکیدآتی ہے یہاں تک کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی بلا اجازت تمہارے گھر میں جھانکے اور تو اس پر کنکری پھینکے یہاں تک کہ اس کی آنکھ جاتی رہے تو تم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ ہمارے معاشرہ میں یہ مسئلہ یکسر غیر اہم ہو کر رہ گیا ہے۔
سلام
اسلام میں سلام کو بڑی اہمیت دی گئی ہے، قرآن مجید نے اس کو پیغمبرانہ عمل بتایا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے مہمانوں کو سلام کیا، اور سلام کیا جائے تو انہیں الفاظ میں یا اس سے بہتر الفاظ میں جواب دیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بعد سب سے پہلے ان جو کو حکم دیا گیا وہ یہی تھا کہ فرشتوں کو سلام کریں اور ان کا جواب سنیں، یہی سلام و جواب بنو آدم کے لئے ہوگا۔
ایک دفعہ آپﷺ سے دریافت کیا گیا کہ اسلام کا سب سے بہتر عمل کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:یہ کہ کھانا کھلائو اور ہر شنا سا اور ناشنا ساکو سلام کرو۔ حضورﷺ نے حقوق العباد سے متعلق جن سات باتوں کا حکم فرمایا ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سلام کو رواج دو۔ اور آپﷺ نے سلام کو باہم محبت اور میل جول بڑھنے کاباعث قرار دیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں منقول ہے کہ وہ بسا اوقات صرف اس لئے بازار جایا کرتے تھے کہ راہ چلنے والوں اور ملاقاتیوں کو سلام کریں۔
٭…٭…٭