کارٹون دو طرح کے ہوتے ہیں: محض خاکہ جس میں چہرہ سروغیرہ نہیں ہوتا ہے۔ دوسرا کارٹون،جو اخباروں اور ٹیلویژن میں مروّج ہے۔ جس میں سر بھی ہوتا ہے، چہرہ بھی ہوتا ہے اگرچہ وہ مسخ شدہ ہوتا ہے۔ پہلے قسم کا کارٹون؛ بلکہ خاکے بنانا درست ہے۔
دوسرے قسم کے کارٹون جو موجودہ زمانے میں مروّج ہیں؛ وہ بھی تصویر کے حکم میں داخل ہیں، اگرچہ وہ تصویر بگڑی ہوئی ہوتی ہے؛ لہٰذا اس طرح ذی روح کا کارٹون بنانا درست نہیں؛ بلکہ تصویر سازی کے گناہ پر بھلی صورتوں کو بگاڑکر مذاق بنانے کا گناہ مستزاد ہوگا۔
(۶) کارٹون بنانا چوں کہ گناہ کا کام ہے؛ اس لیے اس کو ذریعہٴ آمدنی بنانا اور اس مقصد کے لیے ملازمت کرنا گناہ کے کاموں پر تعاون ہونے کی وجہ سے ممنوع ہوگا۔ ارشاد باری ہے:
تَعَاوَنُوا عَلیٰ البِرِّ وَالتَّقْویٰ وَلاَ تَعَاوَنُوا عَلیٰ الاثْمِ وَالْعُدْوَانِ
یعنی نیکی کے کاموں پر تعاون کرو۔ گناہ اور ظلم کے کاموں پر تعاون مت کرو۔ بعض فقہاء نے نابالغ بچوں کے لیے باتصویر کھلونوں سے کھیلنے کو درست قرار دیا ہے۔ نابالغ بچے اگر کارٹون کے پروگرام دیکھیں؛ تو اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے؛ لیکن شرط یہ ہے کہ بچوں کا وقت ضائع نہ ہو اور ان کے دلوں سے تصویر کی کراہت نہ نکلے۔
(تصویر کے شرعی احکام: از: مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ)
…
https://m.facebook.com/ULAMA.E.AHNAF.DEOBAND.ALHIND/photos/a.186837388149040.1073741828.185709091595203/701230760043031/?type=3
…………..
http://urdubooksandnovels.blogspot.in/2012/07/blog-post_2871.html?m=1
……………