لبرل ازم کی اقسام
پر
مولانا طلحہ سیف صاحب
کی
یہ تحریر نہیں پڑھی سمجھو کچھ نہیں پڑھا؛
دس سال کا عرصہ ہوا ’’معروف کالم نگار‘‘ کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا، جس پر ایک’’معروف کالم نگار‘‘ دوست سخت ناراض ہو گئے تھے۔ اس میں ان لوگوں کی علامات لکھی تھیں جنہیں چند کالم لکھ کر’’معروف کالم نگار‘‘ کہلانے کا شوق بلکہ نشہ ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا کا بخار آنے سے پہلے ایسے لوگ بکثرت پائے جاتے تھے، البتہ اب چونکہ کالم نگاروں کی وہ عزت باقی نہیں رہی اس لئے یہ جنس کم ہوگئی ہے۔ سوشل میڈیا اب ایک اور قوم لایا ہے جو فی الوقت برساتی مینڈکوں سے بھی زیادہ فراواں ہے اور جس طرح سوشل میڈیا کا بخار ترقی کر رہا ہے اسی قدر ان کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ قوم ہیں ’’معروف دانش ور‘‘ حضرات، پہلے کم ہوتے تھے، اب ہر پتھر کے نیچے سے دو تین نکل آتے ہیں بلکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو پتھر کے اوپر بھی ایک آدھ چپکا ہوا مل جاتا ہے۔
دانش وروں کی یوں تو اتنی اقسام ہیں جتنی خود دانش کی بھی نہیں، البتہ ان میں تین اقسام ہمارے ہاں سب سے زیادہ مشہور ہیں؛
(۱) لبرل دانش ور
(۲) اسلامی دانش ور
(۳) مکسچر دانش ور
پہلے لبرل دانش ور کی بات کرتے ہیں:
یہ وہ شخص ہے جسے مذہب سے شدید بغض ہو گا بشرطیکہ وہ مذہب اسلام ہو۔ باقی مذاہب کی یا تو تعریف کرتا پایا جائے گا یا کم از کم ان کے بارے میں خاموشی اختیار رکھتا ہو گا، البتہ جہاں اسلام کی بات آئے گی آپ اسے زہر اُگلتا اور اس کے اندر سے گٹر اُبلتا دیکھیں گے۔ اسے مذہبی لوگوں سے شدید الرجی ہو گی بشرطیکہ وہ مذہبی لوگ مسلمان ہوں۔ دنیا کی ہر خرابی اسے مسلمانوں میں نظر آئے گی اور جونہی آپ اس خرابی میں مبتلا کسی کافر کی مثال رکھ دیں، یہ لبرل فوراً ترقی کر کے فاشسٹ بھی بن جائے گا اور گالم گلوچ پر اُتر آئے گا۔ البتہ ایک چیز جو آپ کو ان لبرلز میں مشترک نظر آئے گی وہ یہ ہے کہ یہ سارے کے سارے محرم الحرام کے پہلے عشرے میں مکمل مذہبی بن جاتے ہیں۔ البتہ اس وقت بھی جس مذہب کو اپناتے ہیں وہ اسلام نہیں بلکہ ایک ’’سوکالڈ اسلام‘‘ ہے۔ امید ہے سمجھ ہی گئے ہوں گے۔ یہ لبرل بے چارے بہت مشکل میں رہتے ہیں۔ ان کے نام مسلمانوں والے ہیں، یہ پیدا بھی مسلمانوں کے گھر میں ہوئے اور بچپن میں ان کی مرضی معلوم کئے بغیر ’’وہ اڑی چڑیا‘‘ والی واردات کے ذریعے مسلمانی کی نشانی بھی پکی ان پر نصب کر دی گئی۔ اب انہیں کفار کو یہ یقین دِلائے رکھنے کے لئے کہ ان کے پیدا ہونے سے لے کر چڑیا اڑی تک یہ سارے کام بالکل ان کی مرضی کے بغیر بلکہ مرضی کے خلاف ہوئے ہیں کافی محنت کرنا پڑتی ہے۔ حتی کہ بعض روسیاہوں کو تو یہاں تک کہہ کر گزرنا پڑتا ہے کہ انہوں نے اپنی ماں کا جنازہ بھی نہیں پڑھا تھا جنازے کے وقت باہر کرسی بچھا کر بیٹھے رہے تھے ۔ ان دانش وروں کی ہر تحریر کا آغاز کچھ اس قسم کے الفاظ سے ہوتا ہے۔
’’مشہور فرانسیسی فلسفی پاں پوں ٹس نے کہا ہے انسان ہونا بہت آسان کام تھا البتہ اس فکر نے اسے مشکل تر بنا دیا کہ انسان خود کو عمل سے بندر کی اولاد ثابت کرے‘‘…
اس کے بعد کافی دیر تک مشکل اور لایعنی جملوں کی بھرمار ہو گی اور پھر تحریر کا رخ اس طرف پھر جائے گا کہ مولوی ٹانگیں نہ کھینچ رہے ہوتے تو ہر انسان مریخ پر ملک ریاض کے بحریہ ٹاؤن جتنی سوسائٹی کا مالک بن چکا ہوتا۔ مصیبت ساری یہ ہے کہ مولوی نہ کسی راکٹ کو پوری قوت سے اڑنے دیتے ہیں اور نہ انہیں زیادہ بلندی پر جانے دیتے ہیں۔
مولوی نہ ہوتے تو ایاز امیر ہوا میں اُڑ چکا ہوتا۔ وجاہت مسعود چاند پر رنگ گورا کرنے کی کریمیں بیچ رہا ہوتا اور ڈاکٹر پرویز ہود بھائی مریخ پر قائداعظم یونیورسٹی بنا کر وہاں بھی طلبہ و طالبات کو بدکاری کرنے کے نئے سائنٹفک طریقے سکھا رہا ہوتا۔ یہ مولوی ہی ہے جس کی وجہ سے یہ تینوں اور ان کے کئی شاگرد ابھی تک زمین پر خجل خوار ہو رہے ہیں۔ دنیا میں کہیں قتل وغارت کا کوئی واقعہ ہو جائے یہ لبرل آپ کو بجھی ہوئی موم بتی والا منہ بنا کر موم بتیاں جلاتے اور ہر ممکنہ طریقے سے مقتولین کا درد بانٹتے نظر آئیں گے بشرطیکہ مقتولین مسلمان نہ ہوں۔ مسلمان قتل ہو رہے ہوں تو یہ اپنی بلوں میں اس طرح گھس جاتے ہیں کہ لکڑی مار کر بھی آپ انہیں باہر نہیں لا سکتے۔ جبکہ کافر قتل ہو تو اس کی جان نکلنے سے پہلے ہی شام غریباں برپا کر دیں گے۔
اصل میں یہ ’’انسانیت‘‘ کے دشمن اور ’’ہیومنزم‘‘ کے محافظ ہیں۔ الحذر، الحذر! ہیومنزم اور انسانیت کو ایک ہرگز نہ سمجھ لیں۔ ’’ہیومن‘‘ کا ترجمہ انسان اور ہیومنزم کا مطلب انسانیت بتانا ان لبرلز کا ایک ڈھونگ ہے۔ ہیومنزم کی اصطلاح کے خالق خود اعتراف کرتے ہیں کہ اس مخلوق کا سترھویں صدی تک دنیا میں کوئی وجود ہی نہ تھا۔ اس سے پہلے انسان اور انسانیت کے لیئے وہ الفاظ کہے اور اصطلاحات بولی جاتی تھیں جو انسانیت کی اصل یعنی ’’عبدیت‘‘ کے مفہوم پر مشتمل تھیں۔ ’’ہیومن ‘‘ اٹھارویں صدی کی ایجاد ہے جس کا مفہوم ہے وہ انسان جو خود اپنے لئے الوہی صفات کا حامل ہے۔ ایک آزاد خود مختار اور مرضی کا مالک انسان۔ یعنی حقیقی معنوں میں بندر۔ ہر لبرل ’’ہیومنزم‘‘ کا داعی اور ہمدرد ہے اس لئے انہی لوگوں کے لیئے روتا تڑپتا ہے جو خود کو بندر کی نسل سمجھتے ہیں اور عمل سے ثابت کرتے ہیں اس کا انسانیت سے کوئی لینا دینا نہیں، اس لئے انسانوں کے المیات اس پر کوئی اثر نہیں ڈالتے۔ وہ پوری ڈھٹائی سے یا تو ان المیوں کا منکر ہو جاتا ہے یا ان کے اسباب گھڑ کر خود المیے سے دوچار افراد کو ذمہ دار ٹھہرا کر یکسو ہو جاتا ہے۔ اس کے نزدیک امریکی اور اور شامی، فرانسیسی اور افغانی اور اسرائیل اور فلسطینی انسان یکساں نہیں ہو سکتے۔ وہ ایک ہندو پر ہونے والے ظلم اور ایک برمی مسلمان پر ہونے والے ظلم کو کبھی ایک نظر سے نہیں دیکھ سکتا،
ان لبرل دانش وروں کا ایک مظلوم ترین طبقہ وہ ہے جسے بد قسمتی سے مذہبی بیک گراؤنڈ ملا۔ وہ دیندار گھروں میں پیدا ہو گئے۔ ماں باپ نے دین پڑھا دیا۔ کئی ایک ایسے ہیں جو مولوی بھی بن گئے پھر انہیں مولوی یا دیندار کی اولاد ہونے سے بندر کی اولاد ہونا اچھا لگا۔ وہ انسان بنانے کی کوششوں کا شکار ہوئے لیکن انہیں ہیومن بننا پسند آیا۔ ایسے لوگ بڑی مصیبت میں ہیں۔ انہیں ہر روز اپنے آباء و اجدادکو کو سنا پڑتا ہے۔ ان استادوں کی بدگوئی کرنا پڑتی ہے جنہوں نے انہیں انسان بنانے کی تگ و دو کی۔ اس ماحول کو دن رات برا بھلا کہنا پڑتا ہے جس میں انہیں کچھ عرصہ انسان بن کر رہنا پڑا۔ اس پورے نصاب کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانا ان کی روزانہ کی ڈیوٹی ہے جو ان کو انسانیت کی راہ سجھاتا رہا ہے۔ اب جب انہیں ہیومن بن کر بندر زادوں کے بیچ رہنا ہے تو دن رات اس مشقت سے گزرنا ہے۔ لبرل کو حمیت سے شدید چڑ، غیرت سے دِلی نفرت، حیا سے بغض ، عبادت سے تنفر، اور ہر اس چیز سے بُعد ہے جس کا تعلق اسلام سے ہو۔ خاص طور پر ’’ناموس رسالت‘‘ کا لفظ تو ان کے لئے وہ اَلاؤ ہے جو ان کے دل کو جلا کر کوئلہ بنا دیتا ہے۔ اور رہی بات ’’جہاد ‘‘ کی تو شاید اس کے نام سے تو عبد اللہ بن اُبی کو بھی اس قدر تکلیف نہ ہوتی ہو گی جتنی انہیں ہوتی ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ وہ اپنی پوری تکلیف کا اظہار نہ کر سکتا تھا انہیں اظہار کی آزادی حاصل ہے۔ البتہ یہ بھی اس قدر مجبور ضرور ہیں کہ مقاماتِ تکلیف کا کھل کر اظہار نہیں کر سکتے۔ لبرل ازم کی ایک ماسٹر کی ( چابی) ہے، وہ ہے لفظ ’’ بے‘‘ ۔ یہ لفظ آپ کسی بھی اچھے لفظ سے پہلے لگا دیں وہ لبرل کی صفت بن جائے گی۔ مثال کے طور پر حیاء، غیرت، عزت، علم ، صلاح، ایمان، درد اور وفاء وغیرہ۔ بس اتنے کافی ہیں ان کے ساتھ لگا لیجئے پوری فرہنگ آصفیہ تو میں لکھنے سے رہا۔اور ہاں ایک بات تو رہ گئی، لبرل کو ہر مذہب کے تہوار بہت پسند ہیں سوائے اسلامی عیدوں کے۔ ان میں چونکہ ’’عبادت‘‘ کا عنصر پایا جاتا ہے اس لئے لبرل کو ان سے بہت تکلیف ہوتی ہے۔
مذہبی دانش ور:
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہر تھوڑے عرصے بعد یہ خیال آ جاتا ہے کہ دین کی جو تعبیر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے سے اَسلاف امت میں آج تک چلی آئی ہے وہ یا تو درست نہیں یا پھر اس زمانے میں قابل عمل نہیں رہی۔ لہٰذا وہ ایک نئی تعبیر لانے پر اپنی دانش کو آزماتے ہیں۔ ہر زمانے میں کچھ نہ کچھ ایسے دماغی مریض موجود رہے ہیں البتہ ہمارا زمانہ اس اعتبار سے قابل رحم ہے کہ اس میں ان کی تعداد ہمیشہ سے بڑھ گئی ہے۔ گذشتہ ادوار میں بھی ان کی کچھ علامات رہی ہوں گی جن سے یہ پہچانے جاتے ہوں گے، ہمارے زمانے میں ان کی سب سے واضح علامات دو ہیں۔ یہ علامات دراصل دو اصطلاحات ہیں جن کا جتنا بے دریغ استعمال یہ طبقہ کر رہا ہے اس سے لگتا ہے کہ یہ الفاظ خود بھی شرمندہ ہوں گے۔ (۱) بیانیہ (۲) کلاسیکل
آپ کو جو شخص یہ الفاظ بہت کثرت سے استعمال کرتا نظرا ٓئے سمجھ لیں کہ دانشوری کی اس نوع میں ہونے کا شناختی کارڈ دِکھلا رہا ہے۔ یہ لوگ اسلام کے ہر حکم کی تعبیرِ قدیم کو ’’کلاسیکل‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ کلاسیکی فقہ، کلاسیکی تفسیر، کلاسیکی شرح حدیث، فہم کتاب و سنت کا کلاسیکی منہج، کلاسیکی علم کلام وغیرہ وغیرہ۔ اب عوام بے چاری جو اب تک صرف یہ جانتی تھی کہ رنگین کپڑوں میں ملبوس بد شکل قسم کے خان صاحبان پکا پکا کر جو موسیقی سناتے ہیں اسے کلاسیکل کہا جاتا ہے جبکہ اس کے مقابل جو موسیقی سنتے ہوئے شرم اور دیکھتے ہوئے انتہائی بے شرمی آ رہی ہو اسے ’’پاپ‘‘ یعنی اسم بامسمیٰ گناہ کہا جاتا ہے۔ وہ جب یہ اصطلاحات سنتے ہیں تو حیران ہوتے ہیں کہ فقہ و کلام جیسی چیزوں میں کلاسیکل کا کیا معنی؟۔ لیکن چونکہ اب یہ اس طبقے کا شناختی کارڈ بن چکا ہے اس لئے انہیں اس کے استعمال سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بات کہیں اور نکل گئی۔ اسلام کی ہر قدیم تعبیر کو کلاسیکل کا نام دے کر اس کی تضحیک و تغلیط اور اس کے مقابل اپنی ’’پاپ‘‘ تعبیر کو ’’بیانیہ‘‘ کے عنوان سے پیش کرنا یہ اس دانشوری کا اول و آخر ہے۔ اسلام کی کلاسیکل تعبیر میں جہاد ہے، پردہ ہے، حیاء ہے، غیرت ہے، احکام پر عمل کے باب میں کچھ شدت ہے، عزیمت ہے، مزاحمت ہے، موسیقی اور دیگر ملاہی کی ممانعت ہے، سود کی حرمت ہے، کفر و اسلام کے مابین ’’براء‘‘ کا سخت حکم ہے، دیگر مذاہب کا نسخ ہے جبکہ ’’پاپ‘‘ تعبیر میں نہ جہاد ہے نہ مزاحمت بلکہ استعمار کی غلامی کا ایجنڈا ہے۔ کفر و اسلام میں ’’براء ‘‘ کا معاملہ کیا ہوتا فرق ہی نہیں ہے، دیگر مذاہب کا نسخ تو کجا انہیں سنت کے اصلی ماخذ کا درجہ حاصل ہے۔سود زمانہ قدیم کی بات ہے۔ پر دہ منسوخ ہے بلکہ مصافحے بھی حلال ہیں، موسیقی نہ صرف جائز ہے بلکہ ڈراؤنی روحوں کی غذاء ہے، عزیمت داستان ماضی ہے، سارا دین رُخصت ہی رُخصت ہے۔
ایک بڑی علامت اس دانشوری کی استہزاء اور تمسخر کا انداز ہے جو ہمیشہ مولوی، مدرسہ اور دین کے شعائر کے تیئں نظر آئے گا۔ ہمیشہ اس انداز میں بات کرنے کے بعد یہ لوگ آپ کو یہ کہتے نظر آئیں گے کہ ابھی ہم پر ’’فتویٰ‘‘ لگنے والا ہے۔ یہ فتویٰ لگنے کی بات مظلومیت کے سٹنٹ کے طور پرا ستعمال کی جاتی ہے۔ ان میں بعض تو علمی حیثیت کے حامل لوگ ہیں کچھ معروف اہل علم بھی پورے نہ سہی کافی حد تک اس طبقے کے ہمنوا بن چکے ہیں البتہ اکثریت ان لوگوں کی ہے جن پر فتوی تو کیا، کوئی تنقید کرنا بھی گوارہ نہیں کرتا مگر وہ بھی اپنے آپ کو اس قابل سمجھنے لگتے ہیں کہ ان پر فتوی لگا دیا جائے گا۔ فیس بک پرکافی عرصہ قبل ایسے لوگوں کے لئے ایک جملہ لکھا تھا۔ آج پھر دہرا دیتا ہوں کہ ’’فتنہ ہونا بھی ایک منصب ہے جس پر صرف اہل لوگوں کو ہی فائز کیا جاتا ہے ہر ایرے غیر نتھو خیرے کو یہ مقام نہیں دیا جا سکتا‘‘۔ لیکن برا ہو اس سوشل میڈیا کا۔ ہر سوکھی کھال میں لائیک وکمنٹ کی اتنی ہوا بھر دیتا ہے کہ اہل ہوا کو خود اپنے بارے میں بدگمانی ہونے لگتی ہے کہ شاید ہم کوئی بڑی چیز بن گئے ہیں۔ اس لئے وہ یہ سوچنے لگتے ہیں کہ انہیں بھی فتنہ ہونے کی عزت بخش کر ان کے خلاف فتوی جاری کر دیا جائے گا۔ اس غلط فہمی کا سبب کچھ اہل حق کی جلد بازی بھی ہے جو ہر ایک بے اصل بے نسل معترض کا جواب لکھنا اپنے اوپر لازم سمجھ لیتے ہیں۔ ان میں سے جو لوگ اپنے نظریات و خیالات سے واقعی فتنہ بن رہے ہیں ان کا رد تو دلیل کے ساتھ لازمی کرنا چاہیے تاکہ احقاق حق کا فرض اداء ہو لیکن اکثر لوگ اس قابل ہیں کہ انہیں گھاس تو کجا باسی ٹکڑے بھی نہ ڈالے جائیں، تو یہی ان کا بہترین جواب ہے تاکہ بے چارے فتوے کے انتظار میں اسے پکار پکار کر خود ہی مایوس ہو جائیں اور یہ کام چھوڑ کر کوئی اور کام کرنے لگیں۔ آج کل اس قسم کے لوگ دینی مدارس سے بکثرت نکل رہے ہیں، جس کی بناء پر بعض مخلصین کو مدارس کے نظام ونصاب میں خرابیاں نظر آنے لگی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہر پراڈکشن یونٹ دو چیزیں نکالتا ہے:
(۱)پراڈکٹ (۲)فُضلہ
دینی مدارس کی پراڈکٹ ان سے نکلنے والے ’’فضلاء‘‘ ہیں جبکہ ’’فُضلہ‘‘ یہی دانش ور ہیں۔ پراڈکشن یونٹ سے فضلہ برآمد ہونا اس کی خرابی نہیں، بلکہ ایک فطری عمل ہے۔
تیسری قسم کے دانش وروں کی شناخت پریڈ کی جگہ نہیں رہی،بس آسان سا کلیہ سمجھ لیں۔40 فیصد عادات و اطوار قسم اول اور ساٹھ فیصد قسم دوم کے ملائیں تو قسم سوم کا دانش ور وجود میں آتا ہے۔ یہ قسم آپ کو ریٹائرڈ بیوروکریٹ ازکار رفتہ فوجی حضرات اور قبر میں پاؤں لٹکائے صحافیوں میں بکثرت مل جائے گی۔
٭…٭…٭
سمیع اللہ حامد کی وال سے