امیر المومنین عمر بن خطاب رضی الله عنه

امیر المومنین عمر بن خطاب رضی الله عنه مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ان کے پاس سے ایک آدمی کا گزر ہوا- وہ کہہ رہا تھا:
(( ویل لک یا عمر من النار))
” اے عمر! تمہارے لیے جہنم کا ویل ہے.”
امیر المومنین نے حاضرین سے فرمایا: اس آدمی کو میرے پاس لاؤ-
جب وہ آیا تو آپ نے پوچھا:
تم نے یہ بات کیوں کہی ہے؟
وہ کہنے لگا:
آپ رضی الله عنه اپنے حکام کو مقرر کرتے وقت ان سے شرائط قبول تو کرواتے ہیں مگر ان کا محاسبہ نہیں کرتے کہ انھوں نے شرائط پوری کی ہیں یا نہیں؟
امیر المومنین رضی الله عنه نے پوچھا:
بات کیا ہے؟
وہ کہنے لگا:
مصر میں آپ کا جو حاکم ہے، اس نے آپ کی شرائط کو فرموش کر کے ان باتوں کا ارتکاب کیا ہے جن سے آپ نے منع فرمایا ہے-
یہ شکایات سننے کے بعد امیر المومنین نے قبیلہ انصار کے دو آدمیوں کو بغرض تفتیش مصر روانہ کیا اور ان سے فرمایا:
تم دونوں مصر جاؤ اور حاکم کے متعلق وہاں کے لوگوں سے استفسار کرو- اگر اس آدمی نے مجھے غلط رپورٹ دی ہو تو آگاہ کرنا، اور اگر اس کی رپورٹ صحیح ہے اور حاکم واقعی اپنی ذمہ داری میں کوتاہی کرتا ہے تو وقت ضائع کیے بغیر اسے لے کر میری خدمت میں پہنچو-
دونوں انصاری امیرالمومنین کے حکم کی تعمیل میں مصر روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر لوگوں سے حاکم مصر کے متعلق حقیقت جاننی چاہی- انہیں وہان وہی رپوٹ ملی جیسے مذکورہ شخص نے امیرالمومنین سے شکایت کی تھی- چنانچہ ان دونوں نےحاکم کے گھر پر پہنچ کر دروازے پر دستک دی اور اندر آنے کی اجازت طلب کی- دربان نے جواب دیا:
(( انہ لیس علیہ الیوم اذن))
” آج حاکم سے ملنے کی اجازت نہیں ہے.”
دونوں انصاریوں نے کہا:
(( لیخر جنّ الینا او لنحرقنّ بابہ))
” حاکم کو ہمارے سامنے ضرور نکلنا پڑے گا ورنہ ہم ابھی اس کا دروازہ پھونک دیں گے…”
اتنے میں ایک انصاری جلدی سے کہیں سے آگ کا شعلہ بھی لے کر آگیا-
دربان اندر داخل ہوا اور حاکم مصر کو اس کی خبر دی- حاکم گھر سے باہر نکلا تو ان دونوں نے کہا: ہم امیرالمومنین کا پیغام لے کر آئے ہیں، تمہیں ہمارے ساتھ چلنا ہوگا-
حاکم نے کہا:
میری ایک ضرورت ہے، تھوڑی دیر کے لیے مہلت دو تاکہ تیاری کرلوں-
انھوں نے کہا:
امیرالمومنین نے ہمیں حکم دیا ہے کہ تمہیں ایک پل کی بھی مہلت نہ دی جائے-
جب وہ دونوں حاکم مصر کو لےکر مدینہ منورہ عمررضی الله عنه کی خدمت میں پہنچے تو اس نے سلام کیا مگر امیرالمومنین نے اسے نہیں پہچانا کیونکہ اس کی ہیت پہلے سے بہت بدل چکی تھی- وہ مصر کا حاکم بن کر جانے سے قبل گندمی رنگ کا انسان تھا مگر جب مصر کی سر سبزی و شادابی اس کو راس آئی تو وہ گورا چٹا اور بھاری بھرکم انسان بن چکا تھا، اس لیے امیر المومنین نے تعجب سے پوچھا:
تم کون ہو؟
اس نے عرض کیا:
میں فلاں آدمی ہوں جس کو آپ نے مصر کا حاکم مقرر کیا تھا-
امیر المومنین نے فرمایا:
((ویحک! رکبت ما نھیت عنہ وترکت ما امرت بہ، واللہ! لا عاقبنک عقو بۃ ابلغ الیک فیھا))
” تیرا ناس ہو! جس بات سے تجھے منع کیا گیا تھا اس کو تونے گلے لگالیا مگر جس بات کا حکم دیا تھا اس کو فراموش کر بیٹھا- اللہ کے قسم! میں تجھے ضرور عبرتناک سزا دوں گا”-
پھر امیرالمونین نے اون کا ایک پھٹا ہوا لباس، ایک لاٹھی، اور صدقے میں آئی ہوئی 300 بکریاں منگوائيں اور اس (حاکم مصر) سے فرمایا:
یہ لباس زیب تن کرو، میں نے تمہارے باپ کو اس سے بھی ردی لباس پہنے ہوئے دیکھا- یہ لاٹھی اٹھاؤ جو تمہارے باپ کی لاٹھی سے کہیں بہتر ہے اور فلاں چرا گاہ میں جاکر ان بکریوں کو چراؤ- اس وقت سخت گرمی کا زمانہ تھا-
امیر المومنین رضی الله عنه نے مزید فرمایا:
(( ولا تمنع السّابلۃ من البانھا شیئا الا آل عمر، فانی لا اعلم احدا من ال عمر اصاب من البان غنم الصدقۃ ولحو مھا شیئا))
” اور تم راہ گزرنے والوں کو ان بکریوں کا دودھ پینے سے مت روکو، صرف عمر کے گھروالوں کو روکنا، کیونکہ مجھے نہیں معلوم کہ عمر کے گھروالوں نے کبھی صدقے کی بکریوں کے دودھ یا گوشت میں سے کچھ استعمال کیا ہو-”
جب وہ آدمی (حاکم مصر) واپس ہوا تو امیر المومنین رضی الله عنه نے اسے بلایا اور پوچھا:
جو کچھ میں نے کہا ہے، سمجھے یا نہیں؟
وہ فورا زمین پر گرگیا اور کہنے لگا:
(( یا امیرالمومنین! لا استطیع ھذا فان شئت فاصرب عنقی))
” اے امیرالمومنین! یہ کام مجھ سے نہیں ہوسکتا، چاہے آپ میری گردن اڑادیں-”
امیر المومنین نے فرمایا:
(( فان رددتّک فایّ رجل تکون؟))
” اگر میں نے تمہیں گزشتہ منصب پر بحال کردیا تو پھر تم کس طرح کے آدمی ہوگے؟”
وہ کہنے لگا:
(( واللہ! لا یبلغک بعدھا الا ما تحبّ))
” اللہ کی قسم! اب اس کے بعد آپ کو وہی رپورٹ پہنچے گی جو آپ پسند کریں گے-”
پھر امیرالمومنین نے اسے اس کے سابقہ عہدے پر فائز کردیا؛ چنانچہ اس کے بعد وہ آدمی مصر کا ایک مثالی حاکم ہوگیا اور اپنی ذمہ داریاں خوف و تقوای اور اخلاص وللہیت کے ساتھ انجام دینے لگا-
(قصص العرب: 3/16-17، ابن ابی الحدید