بین مذہبی نکاح؛ اسلام کی نظر میں

السلام عليكم و رحمۃاللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں ایک عورت نماز کی بھی پابند ہے اور روزے بھی رکھتی ہے لیکن شادی ایک غیر مسلم سے کرلیتی ہے اور اس سے اولاد بھی ہے تو کیا اس عورت کے لئے غیر مسلم مرد کے ساتھ رہنے کی گنجائش ہے یا نہیں؟
آپ سے گزارش ہے کہ سہل انداز میں تفصیل سے جواب مرحمت فرمادیں
یہ جواب اسی عورت کو بھیجنا ہے
المستفتی:
محمد عاصم، پونے، مہاراشٹر
الجواب وباللہ التوفیق
دوبکریوں کو کھونٹے سے باندھ دینے کا نام نکاح نہیں ہے بلکہ نکاح چند بلند ترین مقاصد کے حصول کے لئے عمل میں آنے والے دیرپا اور مقدس رشتہ کا نام ہے۔ انہی مقاصد کے پیش نظر اسلام نے نکاح کو نفلی عبادت سے افضل اور تجرد کی زندگی سے بہتر قرار دیا ہے۔ صرف شہوت رانی نکاح کا مقصود نہیں ہے۔
نکاح کا بنیادی مقصد عفت وعصمت کی حفاظت اور افزائش نسل انسانی ہے۔
لہذا اس مقصد کے حصول کی راہ میں ممد ومعاون ثابت ہونے والی خاتوں کو نکاح کے لئے منتخب کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔حافظ عسقلانی کے بقول شہوت کو توڑنے ، نفس کو عفیف بنانے اور نسل کی کثرت
کے لئے شادی عمل میں آتی ہے۔ (فتح الباری 21/27 )
ان مقاصد کے حصول میں رکاوٹ بننے والی خاتون سے نکاح نہ کرنے کی تعلیم ہے۔
اسلام کے بنیادی عقائد ثلاثہ؛ توحید،  آخرت، اور رسالت سے متصادم عقیدہ کی حامل خاتون یا مرد کو اپنے حرم میں لانے سے شرک وکفر کی نفرت دور کرکے ان کی طرف رغبت ومیلان کا خاموش اظہار بھی ہے اور پھر اس اختلاط کے نتیجہ میں حاصل شدہ اولاد  بھی کفریہ جراثیم سے لت پت ہوگی۔۔۔جس سے اسلام کی اساس اور بنیاد پہ زد پڑے گی۔
اس لئے قرآن کریم سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ “شرک” نکاح کی حرمت کے منجملہ اسباب میں سے ایک سبب ہے۔
اور کسی بھی مسلم عورت کا مشرک مرد سے یا مسلم مرد کا مشرکہ عورت سے نکاح کرنا حرام ہے۔ اگر کوئی دونوں میں نکاح پڑھادے تو نکاح ہی منعقد نہ ہوگا، دونوں کا ازدواجی تعلقات قائم کرنا زناکاری کے زمرے میں آئے گا۔ جس سے توبہ واستغفار کرنا اور فورا علیحدگی اختیار کرنا ضروری ہے۔
قال اللّٰہ تعالیٰ: {وَلَا تَنْکِحُوْا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا} [البقرۃ: ۲۲۱]
ومنہا إسلام الرجل إذا کانت المرأۃ مسلمۃً، فلا یجوز نکاح المؤمنۃ الکافر، لقولہ تعالیٰ: {وَلَا تَنْکِحُوْا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا} [البقرۃ، جز ء آیت: ۲۲۱] (بدائع الصنائع، کتاب النکاح / فصل في عدم نکاح الکافر المسلمۃ ۳؍۴۶۵ دار الکتب العلمیۃ بیروت، الفتاویٰ الہندیۃ / القسم السابع: المحرمات بالشرک ۱؍۲۸۲ زکریا، وکذا في الفقہ الإسلامي وأدلتہ، کتاب النکاح / الفصل الثالث: المحرمات من النساء، زواج المسلمۃ بالکافر ۹؍۶۶۵۲ رشیدیۃ)
قرآن کریم کی قطعی الدلالہ آیت کی تحریم کے بعد اب کسی عقلی وجہ ڈھونڈنے کی ضرورت باقی نہ رہی۔ تاہم ایک دوسری آیت کا مطالعہ اس کی وجہ بتاتا ہے کہ مشرکین جہنم کی طرف بلاتےہیں۔ ارشاد باری ہے
” اولئک یدعون الی النار” ” (البقرہ 221 )
ان سے مناکحت قائم کرنے میں
ان کے اقوال، ان کے افعال، ان کی محبت کے ساتھ اختلاط کرنا، شرک کی نفرت اور اس کی برائی کو دل سے کم کرتا ہے اور شرک کی طرف رغبت کا باعث ہوتا ہے جس کا انجام دوزخ ہے اس لیے ایسوں کے ساتھ نکاح کرنے سے اجتناب کلی لازم ہے۔ اور بغیر کلمہ پڑھے انھیں مسلمہ عورت دینا یا ان کی عورت کو اپنے نکاح میں لانا قطعا ناجائز وحرام ہے ۔۔اس قربت ویکجائی کو نکاح جیسے نام کے ساتھ موسوم کرنا اس شرعی نام بلکہ عبادت کے تقدس کو پامال کرنا ہے۔ اگر انجانے میں کوئی مسلم خاتوں اس کی شکار ہوچکی ہو تو بلا ادنی تاخیر کے فورا علیحدگی اختیار کرکے کسی کلمہ گو بندہ سے شرعی ضابطہ کے ساتھ نکاح کرے۔ عزم وحوصلہ صادق وپختہ ہو تو اللہ دشواریاں سہل وآسان فرمادیتے ہیں۔
اذا صدق العزم وضح السبیل۔
انسانوں سے بھری اس دنیا میں مومن بندے کی کمی یا قحط نہیں ہے کہ کسی اجنبی کے دام میں پھنسیں!
واللہ یھدی من یشاء الی صراط مستقیم۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
muftishakeelahmad@gmail.com