طریقت بجز خدمت خلق نیست


مذہب اسلام کا خلاصہ ومقصد ہی دوسروں کو نفع پہنچانا ہے. اسلام کے علاوہ دنیا کے کسی مذہب نے بھی خلق خدا کی داد رسی  کو عبادت قرار نہیں دیا۔یہ مذاہب کی تاریخ کا خاص امتیاز ہے کہ اسلام نے انسانیت کے رشتہ کی بنیاد پہ انسانوں کی خدمت کو عبادت کا درجہ دے کر سب سے بہتر اس شخص کو قرار دیا ہے جو ذاتی منفعت کے لئے نہیں ، بلکہ اجتماعی مفاد کے لئے جیتا ہو۔
فقال: خيرُ الناسِ من ينفعُ الناسَ فكن نافعًا لهم.(عن خالد بن الوليد  مجموع فتاوى ابن باز –  الرقم: 26/330 )
محبوبیت خداوندی کے حصول کا سب سے  “شارٹ کٹ” اور مختصر راستہ”خدمت خلق” ہے۔۔۔۔۔
اس کی اتنی ترغیب دی گئی ہے کہ جو شخص دنیا میں کسی کے دکھ درد دور کرے ۔اللہ اس کے بدلہ قیامت میں اس کی مشکلات دور فرمائیں گے۔
(مَن نفَّس عن مُؤمِنٍ كُربةً مِن كُرَبِه نفَّس اللهُ عنه كُرَبَه يومَ القيامةِ ومَن ستَر على مُؤمِنٍ عورةً ستَر اللهُ عَوْرتَه ومَن فرَّج عن مُؤمِنٍ كُرَبَه فرَّج اللهُ عنه كُرْبَتَه
عن كعب بن عجرة . الطبراني في المعجم الأوسط – الصفحة  : 6/12 ).
ہاتھ میں تسبیح ، بدن پہ گڈری ودرویشانہ لباس کا نام تصوف نہیں۔۔۔بلکہ اصل تصوف تو خدمت خلق ہے !
زتسبیح وسجادہ ودلق نیست
طریقت بجز خدمت خلق نیست
اسی لئے اسلام نے ” بیت المال ” کا تصور دیا ہے تاکہ حالات گزیدہ لوگوں کی راحت رسانی کا کام بآسانی انجام پاتا رہے۔اور کوئی کسی شخص واحد کا دست نگر بن کے نہ رہ جائے۔
خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس  “رفاہی سسٹم” میں جو توسیع فرمائی تھی اسے آج چودہ سو سال بعد اسلام کی سخت مخالف حکومتیں بھی  نہ صرف رول ماڈل کے بطور  دیکھ رہی ہیں بلکہ اسے  غربت و افلاس کی موجودہ ناہمواریوں میں نجات دہندہ تصور کر رہی ہیں ۔۔۔۔
جہانگیر بادشاہ جیسا بھی تھا !
لیکن شاہی محل کے سامنے مجبوروں ولاچاروں کی داد رسی کے لئے گھنٹی آویزاں کرنے کی وجہ سے تاریخ کے صفحات میں “عدل جہانگیری” ایک استعارہ کے طور پہ محفوظ ہوگیا۔۔۔۔
انہی فضائل وترغیبات کی وجہ سے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی ذوات قدسیہ مشکل ترین لمحات میں بھی اس عالی تصور کا خیال ملحوظ رکھا۔ خود بھوکے رہتے لیکن اوروں کا پیٹ بھرنا ان کی ترجیح ہوتی۔
بہار کے سیمانچل علاقہ میں حالیہ سیلاب نے جو قہر مچایا ہے اور جس بے دردی کے ساتھ خواتین ومعصوم بچوں کی جانوں کا خراج وصول کیا ہے وہ اہل علم وارباب بصیرت سے مخفی نہیں ہے۔
مصیبت کی اس گھڑی میں، ذات،  مذہب، برادری، علاقائی، وطنی، لسانی تنگنائیوں سے اوپر اٹھ کے محض انسانی بنیادوں پہ لاچاروں اور پریشان حال لوگوں کی راحت رسانی کی مہم میں ہمیں جٹ جانا چاہئے ۔ہمارے مذہب کی یہ بنیادی تعلیم ہے۔محبوبیت خداوندی کے حصول کا یہ اقرب ترین ذریعہ ہے۔۔۔
الحمد للہ علاقہ کے علماء وملی تنظیمیں راحت رسانی میں اپنی بساط کی حد تک مصروف ہیں۔
ہمارے علاقہ بیگوسرائے  میں ایک انتہائی مخلص، باوفا،  فنا فی خدمة الخلق،  نمونہ سلف حضرت الاستاذ مولانا محمد صابر نظامی صاحب القاسمی، سکریٹری جنرل ضلعی جمعیت، اس تعلق سے جو بے لوث تحریک اور مہم چلا رہے ہیں اس کی تحسین وتائید نہ کرنا زیادتی ہوگی۔۔۔۔۔۔
علاقے میں امداد کی فراہمی کی مہم چلارہے ہیں۔
الحمد للہ داد وتحسین کے صلہ کی خواہش کے بغیر زمینی حقائق پہ بالکل خاموشی کے ساتھ ملی مفاد میں کام کرنے کی وجہ سے علاقہ کے مسلمانوں کا آپ پہ خاص اعتماد ہے. آپ کی تحریک ، ایماء اور ایک اشارہ پہ علاقہ کے علما، ائمہ مساجد، وبااثر شخصیات اس مہم میں ہمہ تن مصروف عمل ہیں۔
ہماری بستی سیدپور کے اصلاح معاشرہ کمیٹی کے رضا کار افراد کی دوچار ٹیمیں اس مہم میں لگی ہوئی ہیں اور ایک معتد بہ رقم جمع کرنے میں کامیاب ہوچکی ہیں۔۔۔۔۔لیکن خطرات، خسارے اور نقصانات کے سامنے یہ “اونٹ کے منہ میں زیرہ” والی بات ہے۔
علاقہ کے تمام دردمندان قوم وملت حضرت مولانا نظامی کی نگرانی میں اس رفاہی سسٹم کا حصہ بنیں۔ مفلوک الحال لوگوں کی راحت رسانی کے لئے زیادہ سے زیادہ کوشش فرمائیں۔ اس مہم کا خود بھی حصہ بنیں اور دوسروں کو اس کار خیر کی طرف آمادہ بھی کریں۔ اللہ ہم تمام لوگوں کی طرف سے حضرت مولانا کی اس جرأت مندانہ قیادت وبے لوث مجاہدوں پہ اپنی شایان شان بدلہ عطا فرمائے۔ ان کی عمر میں خوب برکتیں عطا فرمائے۔
آمین یارب العالمین
شکیل منصور القاسمی