قیامت کی نشانیاں
جبرائیل علیہ السلام نے پانچواں سوال یہ کیا کہ پھر ایسی نشانیاں ہی بتادیجئے جن سے یہ معلوم ہوسکے کہ اب قیامت قریب ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں قیامت کی دو نشانیاں بتائیں۔
اول یہ کہ لونڈی اپنی مالکہ کو جنے․․․․․۔ اس کی تشریح اہل علم نے کئی طرح کی ہے، سب سے بہتر توجیہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس میں اولاد کی نافرمانی کی طرف اشارہ ہے، مطلب یہ کہ قربِ قیامت میں اولاد اپنے والدین سے اس قدر برگشتہ ہوجائے گی کہ لڑکیاں جن کی فطرت ہی والدین کی اطاعت، خصوصاً والدہ سے محبت اور پیار ہے، وہ بھی ماں باپ کی بات اس طرح ٹھکرانے لگیں گی جس طرح ایک آقا اپنے زرخرید غلام لونڈی کی بات کو لائق توجہ نہیں سمجھتا، گویا گھر میں ماں باپ کی حیثیت غلام لونڈی کی ہوکر رہ جائے گی۔
دوسری نشانی یہ بیان فرمائی کہ وہ لوگ جن کی کل تک معاشرے میں کوئی حیثیت نہ تھی، جو ننگے پاوٴں اور برہنہ جسم جنگل میں بکریاں چرایا کرتے تھے وہ بڑی بڑی بلڈنگوں میں فخر کیا کریں گے۔ یعنی رذیل لوگ معزز ہوجائیں گے۔ ان دو نشانیوں کے علاوہ قربِ قیامت کی اور بہت سی علامتیں حدیثوں میں بیان کی گئی ہیں۔ مگر یہ سب قیامت کی “چھوٹی نشانیاں” ہیں، اور قیامت کی بڑی بڑی نشانیاں جن کے ظاہر ہونے کے بعد قیامت کے آنے میں زیادہ دیر نہیں ہوگی، یہ ہیں:
۱:…حضرت مہدی علیہ الرضوان کا ظاہر ہونا اور بیت اللہ شریف کے سامنے رکن اور مقام کے درمیان لوگوں کا ان کے ہاتھ پر بیعتِ خلافت کرنا۔
۲:…ان کے زمانے میں کانے دجال کا نکلنا اور چالیس دن تک زمین میں فساد مچانا۔
۳:…اس کو قتل کرنے کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نازل ہونا۔
۴:…یاجوج ماجوج کا نکلنا۔
۵:…دابة الارض کا صفا پہاڑی سے نکلنا۔
۶:…سورج کا مغرب کی جانب سے طلوع ہونا اور یہ قیامت کی سب سے بڑی نشانی ہوگی، جس سے ہر شخص کو نظر آئے گا کہ اب زمین و آسمان کا نظام درہم برہم ہوا چاہتا ہے اور اب اس نظام کے توڑ دینے اور قیامت کے برپا ہونے میں زیادہ دیر نہیں ہے۔ اس نشانی کو دیکھ کر لوگوں پر خوف و ہراس طاری ہوجائے گا مگر یہ اس عالم کی نزع کا وقت ہوگا، جس طرح نزع کی حالت میں توبہ قبول نہیں ہوتی، اسی طرح جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا تو توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا۔ اس قسم کی کچھ بڑی بڑی نشانیاں اور بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں۔ قیامت ایک بہت ہی خوفناک چیز ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کے لئے تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائیں اور قیامت کے دن کی رسوائیوں اور ہولناکیوں سے اپنی پناہ میں رکھیں۔
علامات قیامت کے بارے میں سوال
س… آپ نے روزنامہ جنگ کے جمعہ ایڈیشن میں علاماتِ قیامت میں “جاہل عابد اور فاسق قاری” کے عنوان سے لکھا ہے کہ: “آخری زمانہ میں بے علم عبادت گزار اور بے عمل قاری ہوں گے۔” آپ ذرا تفصیل سے سمجھائیں کہ ایسے عابد جو جاہل ہوں کس زمرے میں آئیں گے؟ کیونکہ بعض بزرگ فرماتے ہیں کہ کسی مسلمان کو جاہل نہ کہیں کیونکہ جاہل تو ابوجہل تھا یا اس کی ذریات ہوں گی، لیکن ایسے بے علم بھی نظر آجاتے ہیں جو بڑے عبادت گزار ہوتے ہیں اور شاید پُرخلوص بھی اور شاید اتنا علم بھی رکھتے ہوں کہ نماز کے الفاظ اور سورہٴ اخلاص کے ساتھ نماز ادا کرسکیں، وضو اور غسل کا طریقہ انہیں آتا ہو، کیا ایسے لوگ ان جاہل عابدوں کے زمرے سے خارج ہوں گے؟ اگر یہ لوگ جاہل عابدوں کے زمرے میں شمار نہ کئے جائیں تو اس سے کمتر درجہ میں یعنی جن کو نماز پڑھنی بھی نہ آتی ہو وہ عبادت گزار کیسے بن سکتا ہے؟
لہٰذا آپ تفصیل سے سمجھادیں کہ حدیث شریف کا مطلب کیا ہے؟ آیا “یہ ایسے عابد ہوں گے اور ناجی ہوں گے اور ایسے قاری ہوں گے جن کے پاس علم تو بڑا ہوگا لیکن عمل نہیں کریں گے۔” یا “یہ بے علم عبادت کریں گے اور بے عمل عالم ہوں گے اور دونوں ہی گھاٹے میں رہیں گے کیونکہ بے علم عمل نہیں اور بغیر عمل علم نہیں۔”
ج… “بے علم عبادت گزار” سے وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے دین کے ضروری مسائل، جن کی روزمرہ ضرورت پیش آتی ہے، نہ سیکھے ہوں۔ اگر کسی نے اتنا علم جو ہر مسلمان پر فرض ہے، سیکھ لیا ہو تو وہ “بے علم” کے زمرے میں نہیں آتا۔ خواہ کتاب کے ذریعے سیکھا ہو، یا حضرات علماء کی خدمت میں بیٹھ کر زبانی سیکھا ہو، اور جو شخص فرض علم سے بھی بے بہرہ ہو اس کے “جاہل” ہونے میں کیا شبہ ہے؟ اور “فاسق قاری” سے مراد وہ لوگ ہیں جو دین کا علم تو رکھتے ہیں، مگر عمل سے بے بہرہ ہیں۔
حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کے بارے میں اہل سنت کا عقیدہ
س… ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی رو سے ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) آخر الزمان ہیں۔ یہ ہم سب مسلمانوں کا عقیدہ ہے، لیکن پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بتایا کہ ان کی وفات کے بعد اور قیامت سے پہلے ایک نبی آئیں گے، حضرت مہدی رضی اللہ عنہ جن کی والدہ کا نام حضرت آمنہ اور والد کا نام حضرت عبداللہ ہوگا، تو کیا یہ حضرت مہدی رضی اللہ عنہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو نہیں ہوں گے جو دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے؟ میرے نانا محترم مولوی آزاد فرمایا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ میں فرما رہے تھے کہ قیامت سے پہلے حضرت مہدی رضی اللہ عنہ دنیا میں تشریف لائیں گے، لوگوں نے نشانیاں سن کو پوچھا: یا رسول اللہ! کیا وہ آپ تو نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکراکر خاموش رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسکراہٹ کہہ رہی تھی میں اس دنیا میں دوبارہ آوٴں گا، اس کا جواب تفصیل سے دے کر شکریہ کا موقع دیں۔
ج… حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا ہے اور جس پر اہل حق کا اتفاق ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ حضرت فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کی نسل سے ہوں گے اور نجیب الطرفین سید ہوں گے۔ ان کا نام نامی محمد اور والد کا نام عبداللہ ہوگا۔ جس طرح صورت و سیرت میں بیٹا باپ کے مشابہ ہوتا ہے اسی طرح وہ شکل و شباہت اور اخلاق و شمائل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ ہوں گے، وہ نبی نہیں ہوں گے، نہ ان پر وحی نازل ہوگی، نہ وہ نبوت کا دعویٰ کریں گے، نہ ان کی نبوت پر کوئی ایمان لائے گا۔
ان کی کفار سے خوں ریز جنگیں ہوں گی، ان کے زمانے میں کانے دجال کا خروج ہوگا اور وہ لشکر دجال کے محاصرے میں گھِرجائیں گے، ٹھیک نماز فجر کے وقت دجال کو قتل کرنے کے لئے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے اور فجر کی نماز حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کی اقتدا میں پڑھیں گے، نماز کے بعد دجال کا رخ کریں گے، وہ لعین بھاگ کھڑا ہوگا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس کا تعاقب کریں گے اور اسے “بابِ لُدّ” پر قتل کردیں گے، دجال کا لشکر تہ تیغ ہوگا اور یہودیت و نصرانیت کا ایک ایک نشان مٹادیا جائے گا۔
یہ ہے وہ عقیدہ جس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر تمام سلف صالحین، صحابہ و تابعین اور ائمہ مجددین معتقد رہے ہیں۔ آپ کے نانا محترم نے جس خطبہ کا ذکر کیا ہے اس کا حدیث کی کسی کتاب میں ذکر نہیں، اگر انہوں نے کسی کتاب میں یہ بات پڑھی ہے تو بالکل لغو اور مہمل ہے، ایسی بے سروپا باتوں پر اعتقاد رکھنا صرف خوش فہمی ہے، مسلمان پر لازم ہے کہ سلف صالحین کے مطابق عقیدہ رکھے اور ایسی باتوں پر اپنا ایمان ضائع نہ کرے۔
حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کا ظہور کب ہوگا؟
اور وہ کتنے دن رہیں گے؟
س… امام مہدی رضی اللہ عنہ کا ظہور کب ہوگا؟ اور آپ کہاں پیدا ہوں گے؟ اور کتنا عرصہ دنیا میں رہیں گے؟
ج… امام مہدی علیہ الرضوان کے ظہور کا کوئی وقت متعین قرآن و حدیث میں نہیں بتایاگیا۔ یعنی یہ کہ ان کا ظہور کس صدی میں؟ کس سال ہوگا؟ البتہ احادیثِ طیبہ میں بتایا گیا ہے کہ ان کا ظہور قیامت کی ان بڑی علامتوں کی ابتدائی کڑی ہے جو بالکل قربِ قیامت میں ظاہر ہوں گی اور ان کے ظہور کے بعد قیامت کے آنے میں زیادہ وقفہ نہیں ہوگا۔
امام مہدی رضی اللہ عنہ کہاں پیدا ہوں گے؟ اس سلسلہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ایک روایت منقول ہے کہ مدینہ طیبہ میں ان کی پیدائش و تربیت ہوگی۔ مکہ مکرمہ میں ان کی بیعت و خلافت ہوگی اور بیت المقدس ان کی ہجرت گاہ ہوگی۔ روایات و آثار کے مطابق ان کی عمر چالیس برس کی ہوگی جب ان سے بیعتِ خلافت ہوگی، ان کی خلافت کے ساتویں سال کانا دجال نکلے گا، اس کو قتل کرنے کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے۔ حضرت مہدی علیہ الرضوان کے دو سال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی معیت میں گزریں گے اور ۴۹ برس میں ان کا وصال ہوگا۔
حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کا زمانہ
س… روزنامہ جنگ میں آپ کا مضمون علاماتِ قیامت پڑھا، اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ ہر مسئلے کا حل اطمینان بخش طور پر اور حدیث و قرآن کے حوالے سے دیا کرتے ہیں۔ یہ مضمون بھی آپ کی علمیت اور تحقیق کا مظہر ہے۔ لیکن ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کہ پورا مضمون پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت مہدی رضی اللہ عنہ اور حضرت عیسیٰ کے کفار اور عیسائیوں سے جو معرکے ہوں گے ان میں گھوڑوں، تلواروں، تیرکمانوں وغیرہ کا استعمال ہوگا، فوجیں قدیم زمانے کی طرح میدانِ جنگ میں آمنے سامنے ہوکر لڑیں گی۔ آپ نے لکھا ہے کہ حضرت مہدی رضی اللہ عنہ قسطنطنیہ سے نو گھڑسواروں کو دجال کا پتہ معلوم کرنے کے لئے شام بھیجیں گے، گویا اس زمانے میں ہوائی جہاز دستیاب نہ ہوں گے۔ پھر یہ کہ حضرت عیسیٰ دجال کو ایک نیزے سے ہلاک کریں گے، اور یاجوج ماجوج کی قوم بھی جب فساد برپا کرنے آئے گی تو اس کے پاس تیرکمان ہوں گے۔ یعنی وہ اسٹین گن رائفل، پسٹل اور تباہ خیز بموں کا زمانہ نہ ہوگا۔ زمین پر انسان کے وجود میں آنے کے بعد سے سائنس برابر ترقی کر رہی ہے اور قیامت کے آنے تک تو اس میں قیامت خیز ترقی ہوچکی ہوگی۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ نے لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ ، اللہ کے حکم سے چند خاص آدمیوں کے ہمراہ یاجوج ماجوج کی قوم سے بچنے کے لئے کوہِ طور کے قلعے میں پناہ گزیں ہوں گے، یعنی دنیا کے باقی اربوں انسانوں کو جو سب مسلمان ہوچکے ہوں گے، یاجوج ماجوج کے رحم و کرم پر چھوڑ جائیں گے۔ اتنے انسان تو ظاہر ہے اس قلعے میں بھی نہیں سماسکتے۔ میں نے کسی کتاب میں یہ دعا پڑھی تھی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنہ دجال سے بچنے کے لئے مسلمانوں کو بتائی تھی، مجھے یاد نہیں رہی۔ مندرجہ بالا وضاحتوں کے علاوہ وہ دعا بھی تحریر فرمادیں تو عنایت ہوگی۔
ج… انسانی تمدن کے ڈھانچے بدلتے رہتے ہیں، آج ذرائع مواصلات اور آلات جنگ کی جو ترقی یافتہ شکل ہمارے سامنے ہے، آج سے ڈیڑھ دو صدی پہلے اگر کوئی شخص اس کو بیان کرتا تو لوگوں کو اس پر “جنون” کا شبہ ہوتا۔ اب خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ سائنسی ترقی اسی رفتار سے آگے بڑھتی رہے گی یا خودکشی کرکے انسانی تمدن کو پھر تیر و کمان کی طرف لوٹادے گی؟ ظاہر ہے کہ اگر یہ دوسری صورت پیش آئے جس کا خطرہ ہر وقت موجود ہے اور جس سے سائنس دان خود بھی لرزہ براندام ہیں، تو ان احادیثِ طیبہ میں کوئی اشکال باقی نہیں رہ جاتا جن میں حضرت مہدی علیہ الرضوان اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے کا نقشہ پیش کیا گیا ہے۔
فتنہٴ دجال سے حفاظت کے لئے سورہٴ کہف جمعہ کے دن پڑھنے کا حکم ہے، کم از کم اس کی پہلی اور پچھلی دس دس آیتیں تو ہر مسلمان کو پڑھتے رہنا چاہئے، اور ایک دعا حدیث شریف میں یہ تلقین کی گئی ہے:
“اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ جَھَنَّمَ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ۔”
ترجمہ:…”اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں جہنم کے عذاب سے اور تیری پناہ چاہتا ہوں قبر کے عذاب سے اور تیری پناہ چاہتا ہوں مسیح دجال کے فتنے سے۔ اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں زندگی اور موت کے ہر فتنے سے۔ اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں گناہ سے اور قرض و تاوان سے۔”
حضرت مہدی کے ظہور کی کیا نشانیاں ہیں؟
س… آپ کے صفحہ “اقرأ” کے مطابق امام مہدی آئیں گے، جب امام مہدی آئیں گے تو ان کی نشانیاں کیا ہوں گی؟ اور اس وقت کیا نشان ظاہر ہوں گے جس سے ظاہر ہو کہ حضرت امام مہدی آگئے ہیں؟ قرآن و حدیث کا حوالہ ضرور دیجئے۔
ج… اس نوعیت کے ایک سوال کا جواب “اقرأ” میں پہلے دے چکا ہوں، مگر جناب کی رعایتِ خاطر کے لئے ایک حدیث لکھتا ہوں۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتی ہیں کہ: “ایک خلیفہ کی موت پر (ان کی جانشینی کے مسئلہ پر) اختلاف ہوگا، تو اہل مدینہ میں سے ایک شخص بھاگ کر مکہ مکرمہ آجائے گا (یہ مہدی ہوں گے اور اس اندیشہ سے بھاگ کر مکہ آجائیں گے کہ کہیں ان کو خلیفہ نہ بنادیا جائے) مگر لوگ ان کے انکار کے باوجود ان کو خلافت کے لئے منتخب کریں گے، چنانچہ حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان (بیت اللہ شریف کے سامنے) ان کے ہاتھ پر لوگ بیعت کریں گے۔”
“پھر ملک شام سے ایک لشکر ان کے مقابلے میں بھیجا جائے گا، لیکن یہ لشکر “بیداء” نامی جگہ میں جو کہ مکہ و مدینہ کے درمیان ہے، زمین میں دھنسادیا جائے گا، پس جب لوگ یہ دیکھیں گے تو (ہر خاص و عام کو دور دور تک معلوم ہوجائے گا کہ یہ مہدی ہیں) چنانچہ ملک شام کے ابدال اور اہل عراق کی جماعتیں آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر آپ سے بیعت کریں گی۔ پھر قریش کا ایک آدمی جس کی ننھیال قبیلہ بنوکلب میں ہوگی آپ کے مقابلہ میں کھڑا ہوگا۔ آپ بنوکلب کے مقابلے میں ایک لشکر بھیجیں گے وہ ان پر غالب آئے گا اور بڑی محرومی ہے اس شخص کے لئے جو بنوکلب کے مالِ غنیمت کی تقسیم کے موقع پر حاضر نہ ہو۔ پس حضرت مہدی خوب مال تقسیم کریں گے اور لوگوں میں ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے موافق عمل کریں گے اور اسلام اپنی گردن زمین پر ڈال دے گا (یعنی اسلام کو استقرار نصیب ہوگا)۔ حضرت مہدی سات سال رہیں گے پھر ان کی وفات ہوگی اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔” (یہ حدیث مشکوٰة شریف ص:۴۷۱ میں ابوداوٴد کے حوالے سے درج ہے، اور امام سیوطی نے العرف الوردی فی آثار المہدی ص:۵۹ میں اس کو ابن ابی شیبہ، احمد ابوداوٴد، ابویعلیٰ اور طبری کے حوالے سے نقل کیا ہے)۔
الامام المہدی ․․․ سنی نظریہ
محترم المقام جناب مولانا لدھیانوی صاحب
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ!
“جنگ” جمعہ ایڈیشن میں کسی سوال کے جواب میں آپ نے مہدی منتظر کی “مفروضہ پیدائش” پر روشنی ڈالتے ہوئے “امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ” کے پُرشکوہ الفاظ استعمال کئے ہیں جو صرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لئے مخصوص ہیں۔ دوسرے، قرآن مقدس اور حدیث مطہرہ سے “امامت” کا کوئی تصور نہیں ملتا، علاوہ ازیں اس سلسلہ میں جو روایات ہیں وہ معتبر نہیں کیونکہ ہر سلسلہٴ رواة میں قیس بن عامر شامل ہے، جو متفقہ طور پر کاذب اور من گھڑت احادیث کے لئے مشہور ہے۔
ابن خلدون نے اس بارے میں جن موافق و مخالف احادیث کو یکجا کرنے پر اکتفا کیا ہے ان میں کوئی بھی سلسلہٴ تواتر کو نہیں پہنچتی، اور ان کا انداز بھی بڑا مشتبہ ہے۔
لہٰذا میں حق و صداقت کے نام پر درخواست کروں گا کہ مہدی منتظر کی شرعی حیثیت قرآن عظیم اور صحیح احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں بذریعہ “جنگ” مطلع فرمائیں، تاکہ اصل حقیقت ابھر کر سامنے آجائے، اس سلسلہ میں مصلحت اندیشی یا کسی قسم کا ابہام یقینا قیامت میں قابل موٴاخذہ ہوگا۔
شیعہ عقیدہ کے مطابق مہدی منتظر کی ۲۵۵ھ میں جناب حسن عسکری کے یہاں نرجس خاتون کے بطن سے ولادت ہوچکی ہے اور وہ حسن عسکری کی رحلت کے فوراً بعد ۵ سال کی عمر میں حکمتِ خداوندی سے غائب ہوگئے اور اس غیبت میں اپنے نائبین، حاجزین، سفرا اور وکلاء کے ذریعہ خمس وصول کرتے، لوگوں کے احوال دریافت کرکے حسبِ ضرورت ہدایات، احکامات دیتے رہتے ہیں، اور انہیں کے ذریعہ اس دنیا میں اصلاح و خیر کا عمل جاری ہے، اس کی تائید میں لٹریچر کا طویل سلسلہ موجود ہے۔
میرے خیال میں علمائے اہل سنت نے اس ضمن میں اپنے اردگرد پائی جانے والی مشہور روایات ہی کو نقل کردیا ہے، مزید تاریخی یا شرعی حیثیت و تحقیق سے کام نہیں لیا، اور اغلباً اسی اتباع میں آپ نے بھی اس “مفروضہ” کو بیان کر ڈالا ہے، کیا یہ درست ہے؟
ج… حضرت مہدی علیہ الرضوان کے لئے “رضی اللہ عنہ” کے “پُرشکوہ الفاظ” پہلی بار میں نے استعمال نہیں کئے، بلکہ اگر آپ نے مکتوبات امامِ ربانی کا مطالعہ کیا ہے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ مکتوبات شریفہ میں امام ربانی مجدد الف ثانی نے حضرت مہدی کو انہیں الفاظ سے یاد کیا ہے۔ پس اگر یہ آپ کے نزدیک غلطی ہے تو میں یہی عرض کرسکتا ہوں کہ اکابرِ امت اور مجددینِ ملت کی پیروی میں غلطی:
ایں خطا از صد صواب اولیٰ تر است
کی مصداق ہے۔ غالباً کسی ایسے ہی موقع پر امام شافعی نے فرمایا تھا:
ان کان رفضاً حُب اٰل محمد
فلیشھد الثقلان انی رافضیاً
ترجمہ:…”اگر آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا نام رافضیت ہے، تو جن و انس گواہ رہیں کہ میں پکا رافضی ہوں۔”
آپ نے حضرت مہدی کو “رضی اللہ عنہ” کہنے پر جو اعتراض کیا ہے، اگر آپ نے غور و تأمل سے کام لیا ہوتا تو آپ کے اعتراض کا جواب خود آپ کی عبارت میں موجود ہے۔ کیونکہ آپ نے تسلیم کیا ہے کہ “رضی اللہ عنہ” کے الفاظ صرف صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے لئے مخصوص رہے ہیں، آپ کو معلوم ہوگا کہ حضرت مہدی علیہ الرضوان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفیق و مصاحب ہوں گے، پس جب میں نے ایک “مصاحبِ رسول” ہی کے لئے “رضی اللہ عنہ” کے الفاظ استعمال کئے ہیں تو آپ کو کیا اعتراض ہے؟ عام طور پر حضرت مہدی کے لئے “علیہ السلام” کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، جو لغوی معنی کے لحاظ سے بالکل صحیح ہے، اور مسلمانوں میں “السلام علیکم، وعلیکم السلام” یا “وعلیکم وعلیہ السلام” کے الفاظ روزمرہ استعمال ہوتے ہیں، مگر کسی کے نام کے ساتھ یہ الفاظ چونکہ انبیاء کرام یا ملائکہ عظام کے لئے استعمال ہوتے ہیں، اس لئے میں نے حضرت مہدی کے لئے کبھی یہ الفاظ استعمال نہیں کئے، کیونکہ حضرت مہدی نبی نہیں ہوں گے۔
جناب کو حضرت مہدی کے لئے “امام” کا لفظ استعمال کرنے پر بھی اعتراض ہے، اور آپ تحریر فرماتے ہیں کہ: “قرآن مقدس اور حدیث مطہرہ سے امامت کا کوئی تصور نہیں ملتا” اگر اس سے مراد ایک خاص گروہ کا نظریہ امامت ہے تو آپ کی یہ بات صحیح ہے۔ مگر جناب کو یہ بدگمانی نہیں ہونی چاہئے تھی کہ میں نے بھی “امام” کا لفظ اسی اصطلاحی مفہوم میں استعمال کیا ہوگا، کم سے کم امام مہدی کے ساتھ “رضی اللہ عنہ” کے الفاظ کا استعمال ہی اس امر کی شہادت کے لئے کافی ہے کہ “امام” سے یہاں ایک خاص گروہ کا اصطلاحی “امام” مراد نہیں۔
اور اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کسی شخص کو امام بمعنی مقتدا، پیشوا، پیش رو کہنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی تو آپ کا یہ ارشاد بجائے خود ایک عجوبہ ہے۔ قرآن کریم، حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور اکابر امت کے ارشادات میں یہ لفظ اس کثرت سے واقع ہوا ہے کہ عورتیں اور بچے تک بھی اس سے نامانوس نہیں۔ آپ کو “واجعلنا للمتقین اماما” کی آیت اور “من بایع اماما” کی حدیث تو یاد ہوگی اور پھر امت محمدیہ (علیٰ صاحبہا الصلوٰة والسلام) کے ہزاروں افراد ہیں جن کو ہم “امام” کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ فقہ و کلام کی اصطلاح میں “امام” مسلمانوں کے سربراہ مملکت کو کہا جاتا ہے (جیسا کہ حدیث: “من بایع اماما” میں وارد ہوا ہے)۔
حضرت مہدی کا ہدایت یافتہ اور مقتدا و پیشوا ہونا تو لفظ “مہدی” ہی سے واضح ہے اور وہ مسلمانوں کے سربراہ بھی ہوں گے، اس لئے ان کے لئے “امام” کے لفظ کا استعمال قرآن و حدیث اور فقہ و کلام کے لحاظ سے کسی طرح بھی محل اعتراض نہیں۔
ظہورِ مہدی کے سلسلہ کی روایات کے بارے میں آپ کا یہ ارشاد کہ:
“اس سلسلہ میں جو روایات ہیں وہ معتبر نہیں، کیونکہ ہر سلسلہٴ رواة میں قیس بن عامر شامل ہے، جو متفقہ طور پر کاذب اور من گھڑت احادیث کے لئے مشہور ہے۔”
بہت ہی عجیب ہے! معلوم نہیں جناب نے یہ روایات کہاں دیکھی ہیں جن میں سے ہر روایت میں قیس بن عامر کذاب آگھستا ہے؟
میرے سامنے ابوداوٴد (ج:۲ ص:۵۸۸، ۵۸۹) کھلی ہوئی ہے، جس میں حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت علی، حضرت ام سلمہ، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہم کی روایت سے احادیث ذکر کی گئی ہیں، ان میں سے کسی سند میں مجھے قیس بن عامر نظر نہیں آیا۔
جامع ترمذی (ج:۲ ص:۴۶) میں حضرت ابوہریرہ، حضرت ابن مسعود اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہم کی احادیث ہیں، ان میں سے اول الذکر دونوں احادیث کو امام ترمذی نے “صحیح” کہا ہے، اور آخر الذکر کو “حسن”، ان میں بھی کہیں قیس بن عامر نظر نہیں آیا۔
سنن ابن ماجہ میں یہ احادیث حضرات عبداللہ بن مسعود، ابو سعید خدری، ثوبان، علی، ام سلمہ، انس بن مالک، عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہم کی روایت سے مروی ہیں۔ ان میں بھی کسی سند میں قیس بن عامر کا نام نہیں آتا۔
مجمع الزوائد (ج:۷ ص:۳۱۵ تا ۳۱۸) میں مندرجہ ذیل صحابہ کرام سے اکیس روایات نقل کی ہیں:
۱:…حضرت ابوسعید خدری: ۴
۲:…حضرت ام سلمہ: ۴
۳:…حضرت ابوہریرہ: ۳
۴:…حضرت ام حبیبہ: ۱
۵:…حضرت عائشہ: ۱
۶:…حضرت قرة بن ایاس: ۱
۷:…حضرت انس: ۱
۸:…حضرت عبداللہ بن مسعود: ۱
۹:…حضرت جابر: ۱
۱۰:…حضرت طلحہ: ۱
۱۱:…حضرت علی: ۱
۱۲:…حضرت ابن عمر: ۱
۱۳:…حضرت عبداللہ بن حارث: ۱
ان میں سے بعض روایات کے راویوں کی تضعیف کی ہے اور دو روایتوں میں دو کذاب راویوں کی بھی نشاندہی کی ہے، مگر کسی روایت میں قیس بن عامر کا نام ذکر نہیں کیا، اس لئے آپ کا یہ کہنا کہ ہر روایت کے سلسلہٴ رواة میں قیس بن عامر شامل ہے، محض غلط ہے۔
آپ نے موٴرخ ابن خلدون کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے اس سلسلہ میں موافق اور مخالف احادیث کو یکجا کرنے پر اکتفا کیا ہے، ان میں کوئی بھی سلسلہٴ تواتر کو نہیں پہنچتی اور ان کا انداز بھی بڑا مشتبہ ہے۔
اس سلسلہ میں یہ عرض ہے کہ آخری زمانے میں ایک خلیفہ عادل کے ظہور کی احادیث صحیح مسلم، ابوداوٴد، ترمذی، ابن ماجہ اور دیگر کتب احادیث میں مختلف طرق سے موجود ہیں۔ یہ احادیث اگرچہ فرداً فرداً آحاد ہیں مگر ان کا قدر مشترک متواتر ہے۔ آخری زمانے کے اسی خلیفہ عادل کو احادیثِ طیبہ میں “مہدی” کہا گیا ہے، جن کے زمانے میں دجال اعور کا خروج ہوگا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوکر اسے قتل کریں گے۔ بہت سے اکابر امت نے احادیثِ مہدی کو نہ صرف صحیح بلکہ متواتر فرمایا ہے اور انہی متواتر احادیث کی بنا پر امتِ اسلامیہ ہر دور میں آخری زمانے میں ظہورِ مہدی کی قائل رہی ہے، خود ابن خلدون کا اعتراف ہے:
“اعلم ان المشہور بین الکافة من اھل الاسلام علی ممر الاعصار انہ لا بد فی آخر الزمان من ظھور رجل من اھل البیت یوٴید الدین ویظھر العدل ویتبعہ المسلمون ویستولی علی الممالک الاسلامیة ویسمی بالمھدی ویکون خروج الدجال وما بعدہ من اشراط الساعة الثابتة فی الصحیح علی اثرہ وان عیسیٰ ینزل من بعدہ فیقتل الدجال او ینزل معہ فیساعدہ علیٰ قتلہ ویأتم بالمھدی فی صلاتہ۔”(مقدمہ ابن خلدون ص:۳۱۱)
ترجمہ:…”جاننا چاہئے کہ تمام اہل اسلام کے درمیان ہر دور میں یہ بات مشہور رہی ہے کہ آخری زمانے میں اہل بیت میں سے ایک شخص کا ظہور ضروری ہے جو دین کی تائید کرے گا، اس کا نام مہدی ہے اور دجال کا خروج اور اس کے بعد کی وہ علاماتِ قیامت جن کا احادیث صحیحہ میں ذکر ہے ظہورِ مہدی کے بعد ہوں گی۔ اور عیسیٰ علیہ السلام مہدی کے بعد نازل ہوں گے، پس دجال کو قتل کریں گے۔ یا مہدی کے زمانے میں نازل ہوں گے، پس حضرت مہدی قتل دجال میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفیق ہوں گے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نماز میں حضرت مہدی کی اقتدا کریں گے۔”
اور یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کے عقائد پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں بھی “علاماتِ قیامت” کے ذیل میں ظہورِ مہدی کا عقیدہ ذکر کیا گیا ہے، اور اہل علم نے اس موضوع پر مستقل رسائل بھی تالیف فرمائے ہیں۔ پس ایک ایسی خبر جو احادیث متواترہ میں ذکر کی گئی ہو، جسے ہر دور اور ہر زمانے میں تمام مسلمان ہمیشہ مانتے چلے آئے ہوں، اور جسے اہل سنت کے عقائد میں جگہ دی گئی ہو، اس پر جرح کرنا یا اس کی تخفیف کرنا، پوری امتِ اسلامیہ کو گمراہ اور جاہل قرار دینے کے مترادف ہے۔ جیسا کہ آپ نے اپنے خط کے آخر میں مہدی کے بارے میں ایک مخصوص فرقہ کا نظریہ ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے:
“میرے خیال میں علماء اہل سنت نے اس ضمن میں اپنے اردگرد پائی جانے والی مشہور روایات ہی کو نقل کردیا ہے۔ مزید تاریخی یا شرعی حیثیت و تحقیق سے کام نہیں لیا اور اغلباً اسی اتباع میں آپ نے بھی اس “مفروضہ” کو بیان کر ڈالا، کیا یہ درست ہے؟”
گویا حفاظِ حدیث سے لے کر مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ دہلوی تک وہ تمام اکابرِ امت اور مجددینِ ملت نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کر دکھایا، آپ کے خیال میں سب دودھ پیتے بچے تھے کہ وہ تاریخی و شرعی تحقیق کے بغیر گرد و پیش میں پھیلے ہوئے افسانوں کو اپنی اسانید سے نقل کردیتے اور انہیں اپنے عقائد میں ٹانک لیتے تھے؟ غور فرمائیے کہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم: “ولعن آخر ھذہ الامة اولھا” کی کیسی شہادت آپ کے قلم نے پیش کردی․․․! میں نہیں سمجھتا کہ احساسِ کمتری کا یہ عارضہ ہمیں کیوں لاحق ہوجاتا ہے کہ ہم اپنے گھر کی ہر چیز کو “آوردہٴ اغیار” تصور کرنے لگتے ہیں۔ آپ علمائے اہل سنت پر یہ الزام لگانے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے کہ انہوں نے ملاحدہ کی پھیلائی ہوئی روایات کو تاریخی و شرعی معیار پر پرکھے بغیر اپنے عقائد میں شامل کرلیا ہوگا (جس سے اہل سنت کے تمام عقائد و روایات کی حیثیت مشکوک ہوجاتی ہے، اور اسی کو میں “احساسِ کمتری” سے تعبیر کر رہا ہوں)، حالانکہ اسی مسئلہ کا جائزہ آپ دوسرے نقطہ نظر سے بھی لے سکتے تھے کہ آخری زمانے میں ایک خلیفہ عادل حضرت مہدی کے ظہور کے بارے میں احادیث و روایات اہل حق کے درمیان متواتر چلی آتی تھیں۔ گمراہ فرقوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے اسی عقیدہ کو لے کر اپنے انداز میں ڈھالا اور اس میں موضوع اور من گھڑت روایات کی بھی آمیزش کرلی۔ جس سے ان کا مطمع نظر ایک تو اپنے سیاسی مقاصد کو بروئے کار لانا تھا، اور دوسرا مقصد مسلمانوں کو اس عقیدے ہی سے بدظن کرنا تھا، تاکہ مختلف قسم کی روایات کو دیکھ کر لوگ الجھن میں مبتلا ہوجائیں اور ظہورِ مہدی کے عقیدے ہی سے دستبردار ہوجائیں۔ ہر دور میں جھوٹے مدعیان مہدویت کے پیش نظر بھی یہی دو مقصد رہے، چنانچہ گزشتہ صدی کے آغاز میں پنجاب کے جھوٹے مہدی نے جو دعویٰ کیا اس میں بھی یہی دونوں مقصد کارفرما نظر آتے ہیں۔ الغرض سلامتیٴ فکر کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم اس امر کا یقین رکھیں کہ اہل حق نے اصل حق کو جوں کا توں محفوظ رکھا اور اہل باطل نے اسے غلط تعبیرات کے ذریعہ کچھ کا کچھ بنادیا، حتیٰ کہ جب کچھ نہ بن آئی تو امام مہدی کو ایک غار میں چھپاکر پہلے غیبتِ صغریٰ کا اور پھر غیبتِ کبریٰ کا پردہ اس پر تان دیا، لیکن آخر یہ کیا اندازِ فکر ہے کہ تمام اہل حق کے بارے میں یہ تصور کرلیا جائے کہ وہ اغیار کے مالِ مستعار پر جیا کرتے تھے!
جہاں تک ابن خلدون کی رائے کا تعلق ہے، وہ ایک موٴرخ ہیں، اگرچہ تاریخ میں بھی ان سے مسامحات ہوئے ہیں، فقہ و عقائد اور حدیث میں ابن خلدون کو کسی نے سند اور حجت نہیں مانا، اور یہ مسئلہ تاریخ کا نہیں بلکہ حدیث و عقائد کا ہے، اس بارے میں محدثین و متکلمین اور اکابر امت کی رائے قابل اعتناء ہوسکتی ہے۔
امداد الفتاویٰ جلد ششم میں صفحہ: ۲۵۹ سے صفحہ:۲۶۷ تک “موخذة الظنون عن ابن خلدون” کے عنوان سے حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ نے ابن خلدون کے شبہات کا شافی جواب تحریر فرمایا ہے، اسے ملاحظہ فرمالیا جائے۔
خلاصہ یہ کہ “مسئلہ مہدی” کے بارے میں اہل حق کا نظریہ بالکل صحیح اور متواتر ہے اور اہل باطل نے اس سلسلہ میں تعبیرات و حکایات کا جو انبار لگایا ہے نہ وہ لائق التفات ہے اور نہ اہل حق کو اس سے مرعوب ہونے کی ضرورت ہے۔
کیا امام مہدی کا درجہ پیغمبروں کے برابر ہوگا؟
س… کیا امام مہدی کا درجہ پیغمبروں کے برابر ہوگا؟
ج… امام مہدی علیہ الرضوان نبی نہیں ہوں گے، اس لئے ان کا درجہ پیغمبروں کے برابر ہرگز نہیں ہوسکتا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو حضرت مہدی کے زمانے میں نازل ہوں گے وہ بلاشبہ پہلے ہی سے اولو العزم نبی ہیں۔
کیا حضرت مہدی و عیسیٰ علیہ السلام ایک ہی ہیں؟
س… مہدی اس دنیا میں کب تشریف لائیں گے؟ اور کیا مہدی اور عیسیٰ ایک ہی وجود ہیں؟
ج… حضرت مہدی رضوان اللہ علیہ آخری زمانہ میں قربِ قیامت میں ظاہر ہوں گے، ان کے ظہور کے قریباً سات سال بعد دجال نکلے گا اور اس کو قتل کرنے کے لئے عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے۔ یہاں یہ بھی معلوم ہوگیا کہ حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام دو الگ الگ شخصیتیں ہیں۔
ظہورِ مہدی اور چودہویں صدی
س… امام مہدی ابھی تک تشریف نہیں لائے اور پندرہویں صدی کے استقبال کی تیاریاں شروع ہوگئی ہیں۔
ج… مگر امام مہدی کا چودہویں صدی میں ہی آنا کیوں ضروری ہے؟
س… علاوہ اس کے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ثابت ہے کہ ہر صدی کے سرے پر ایک مجدد ہوتا ہے۔
ج… ایک ہی فرد کا مجدد ہونا ضروری نہیں، متعدد افراد بھی مجدد ہوسکتے ہیں اور دین کے خاص خاص شعبوں کے الگ الگ مجدد بھی ہوسکتے ہیں، ہر خطہ کے لئے الگ الگ مجدد بھی ہوسکتے ہیں۔ حدیث میں “من” کا لفظ عام ہے، اس سے صرف ایک ہی فرد مراد لینا صحیح نہیں اور ان مجددین کے لئے مجدد ہونے کا دعویٰ کرنا اور لوگوں کو اس کی دعوت دینا بھی ضروری نہیں اور نہ لوگوں کو یہ پتہ ہونا ضروری ہے کہ یہ مجدد ہیں، البتہ ان کی دینی خدمات کو دیکھ کر اہل بصیرت کو ظن غالب ہوجاتا ہے کہ یہ مجدد ہیں۔
س… حضرت مہدی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام چودہویں صدی کے باقی ماندہ قلیل عرصہ میں کیسے آجائیں گے؟
ج… مگر ان کا اس قلیل عرصہ میں آنا ہی کیوں ضروری ہے؟ کیا چودہویں صدی کے بعد دنیا ختم ہوجائے گی؟ جناب کی ساری پریشانی اس غلط مفروضے پر مبنی ہے کہ: “حضرت مہدی رضی اللہ عنہ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام دونوں کا چودہویں صدی میں تشریف لانا ضروری تھا، مگر وہ اب تک نہیں آئے۔” حالانکہ یہ بنیاد ہی غلط ہے، قرآن و حدیث میں کہیں نہیں فرمایا گیا کہ یہ دونوں حضرات چودہویں صدی میں تشریف لائیں گے، اگر کسی نے کوئی ایسی قیاس آرائی کی ہے تو یہ محض اٹکل ہے، جس کی واقعات کی دنیا میں کوئی قیمت نہیں، اور اگر اس کے لئے کسی نے قرآن کریم اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ دیا ہے تو قطعاً غلط بیانی سے کام لیا ہے۔ اس سے دریافت فرمائیے کہ چودہویں صدی کا لفظ قرآن کریم کی کس آیت یا حدیث شریف کی کس کتاب میں آیا ہے؟
نوٹ:… جناب نے اپنا سرنامہ ایک “پریشان بندہ” لکھا ہے، اگر آپ اپنا اسم گرامی اور پتہ نشان بھی لکھ دیتے تو کیا مضائقہ تھا؟ ویسے بھی گمنام خط لکھنا، اخلاق و مروت کے لحاظ سے کچھ مستحسن چیز نہیں۔
مجدد کو ماننے والوں کا کیا حکم ہے؟
س… ہر صدی کے شروع میں مجدد آتے ہیں، کیا ان کو ماننے والے غیرمسلم ہیں؟
ج… ہر صدی کے شروع میں جن مجددوں کے آنے کی حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں خبر دی گئی ہے وہ نبوت و رسالت کے دعوے نہیں کیا کرتے، اور جو شخص ایسے دعوے کرے وہ مجدد نہیں، لہٰذا کسی سچے مجدد کو ماننے والا تو غیرمسلم نہیں، البتہ جو شخص یہ اعلان کرے کہ: “ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم رسول اور نبی ہیں” اس کو ماننے والے ظاہر ہے غیرمسلم ہی ہوں گے۔
س… چودہویں صدی کے مجدد کب آئیں گے؟
ج… مجدد کے لئے مجدد ہونے کا دعویٰ کرنا ضروری نہیں، جن اکابر نے اس صدی میں دینِ اسلام کی ہر پہلو سے خدمت کی وہ اس صدی کے مجدد تھے، گزشتہ صدیوں کے مجددین کو بھی لوگوں نے ان کی خدمات کی بنا پر ہی مجدد تسلیم کیا۔
چودہویں صدی کے مجدد حضرت محمد اشرف علی تھانوی تھے
س… مشہور حدیث مجدد مسلمانوں میں عام مشہور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر سو سال کے سرے پر ایک نیک شخص مجدد ہوکر آیا کرے گا۔ براہ کرم وضاحت فرمائیں کہ چودہویں صدی گزرگئی مگر کوئی بزرگ مجدد کے نام اور دعویٰ سے نہ آیا، اگر کسی نے مجدد ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو اس کا پتہ بتائیں۔
ج… مجدد دعویٰ نہیں کیا کرتا، کام کیا کرتا ہے۔ چودہ صدیوں میں کن کن بزرگوں نے مجدد ہونے کا دعویٰ کیا تھا؟ چودہویں صدی کے مجدد حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی تھے، جنہوں نے دینی موضوعات پر قریباً ایک ہزار کتابیں لکھیں اور اس صدی میں کوئی فتنہ، کوئی بدعت اور کوئی مسئلہ ایسا نہیں جس پر آپ نے قلم نہ اٹھایا ہو۔ اسی طرح حدیث، تفسیر، فقہ، تصوف و سلوک، عقائد و کلام وغیرہ دینی علوم میں کوئی ایسا علم نہیں جس پر آپ نے تالیفات نہ چھوڑی ہوں۔ بہرحال مجدد کے لئے دعویٰ لازم نہیں، اس کے کام سے اس کے مجدد ہونے کی شناخت ہوتی ہے۔ مرزا غلام احمد نے مجدد سے لے کر مہدی، مسیح، نبی، رسول، کرشن، گرونانک، رودر گوپال ہونے کے دعویٰ تو بہت کئے مگر ان کے ناہموار قد پر ان میں سے ایک بھی دعویٰ صادق نہیں آیا۔
کیا چودہویں صدی آخری صدی ہے؟
س… بعض لوگ کہتے ہیں کہ چودہویں صدی آخری صدی ہے، اور چودہویں صدی ختم ہونے میں ڈیڑھ سال باقی ہے، اس کے بعد قیامت آجائے گی۔ جبکہ میں اس بات کو غلط خیال کرتا ہوں۔
ج… یہ بات سراسر غلط ہے! قرآن کریم اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں قیامت کا معین وقت نہیں بتایا گیا اور اس کی بڑی بڑی جو علامتیں بیان فرمائی گئی ہیں وہ ابھی شروع نہیں ہوئیں، ان علامتوں کے ظہور میں بھی ایک عرصہ لگے گا، اس لئے یہ خیال محض جاہلانہ ہے کہ چودہویں صدی ختم ہونے پر قیامت آجائے گی۔
چودہویں صدی ہجری کی شریعت میں کوئی اہمیت نہیں
س… چودہویں صدی ہجری کی اسلام میں کیا اہمیت ہے؟ اور جناب کسی شخص نے مجھ سے کہا ہے کہ: “چودہویں صدی میں نہ تو کسی کی دعا قبول ہوگی اور نہ ہی اس کی عبادات۔” آخر کیا وجہ ہے؟
ج… شریعت میں چودہویں صدی کی کوئی خصوصی اہمیت نہیں، جن صاحب کا یہ قول آپ نے نقل کیا ہے، وہ غلط ہے۔
پندرہویں صدی اور قادیانی بدحواسیاں
س… جناب مولانا صاحب! پندرہویں صدی کب شروع ہو رہی ہے؟ باعث تشویش یہ بات ہے کہ بندہ نے قادیانیوں کا اخبار “الفضل” دیکھا، اس میں اس بارے میں متضاد باتیں لکھی ہیں، چنانچہ موٴرخہ ۷/ذی الحجہ ۱۳۹۹ھ، ۲۹/اکتوبر ۱۹۷۹ء کے پرچہ میں لکھا ہے کہ: “سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثالث نے غلبہٴ اسلام کی صدی کے استقبال کے لئے جس کے شروع ہونے میں دس دن باقی رہ گئے ہیں ایک اہم پروگرام کا اعلان فرمایا ہے۔”
مگر الفضل ۱۲/ذی الحجہ ۱۳۹۹ھ، ۳/نومبر ۱۹۷۹ء کے اخبار میں لکھا ہے کہ سیدنا و امامنا حضرت خلیفة المسیح الثالث پر آسمانی انکشاف کیا گیا ہے کہ پندرہویں صدی جس کی ابتداء اگلے سال ۱۹۸۰ء میں ہو رہی ہے، اور ربوہ کے ایک قادیانی پرچہ “انصار اللہ” نے ربیع الثانی ۱۳۹۹ھ، مارچ ۱۹۷۹ء کے شمارے میں “چودہویں صدی ہجری کا اختتام” کے عنوان سے ایک ادارتی نوٹ میں لکھا ہے:
“اسلامی کیلنڈر کے مطابق چودہویں صدی کے آخری سال کے چوتھے ماہ کا بھی نصف گزرچکا ہے، یعنی آج پندرہ ربیع الثانی ۱۳۹۹ھ ہے اور چودہویں صدی ختم ہونے میں صرف ساڑھے آٹھ ماہ کا عرصہ رہ گیا ہے، پندرہویں صدی کا آغاز ہونے والا ہے (گویا محرم ۱۴۰۰ھ سے)۔”
آپ ہماری رہنمائی فرمائیں کہ پندرہویں صدی کب سے شروع ہو رہی ہے، اس ۱۴۰۰ھ سے یا اگلے سال محرم ۱۴۰۱ھ سے؟ یا ابھی دس سال باقی ہیں؟
ج… صدی سو سال کے زمانہ کو کہتے ہیں، چودہویں صدی ۱۳۰۱ھ سے شروع ہوئی تھی، اب اس کا آخری سال محرم ۱۴۰۰ھ سے شروع ہو رہا ہے، اور محرم ۱۴۰۱ھ پندرہویں صدی کا آغاز ہوگا۔ باقی قادیانی صاحبان کی اور کون سی بات تضادات کا گورکھ دھندا نہیں ہوتی؟ اگر نئی صدی کے آغاز جیسی بدیہی بات میں بھی تضاد بیانی سے کام لیں تو یہ ان کی ذہنی ساخت کا فطری خاصہ ہے، اس پر تعجب ہی کیوں ہو․․․؟
دجال کی آمد
س… دجال کی آمد کا کیا صحیح حدیث میں کہیں ذکر ہے؟ اگر ہے تو وضاحت فرمائیں۔
ج… دجال کے بارے میں ایک دو نہیں بہت سی احادیث ہیں اور یہ عقیدہ امت میں ہمیشہ سے متواتر چلا آیا ہے، بہت سے اکابر امت نے اس کی تصریح کی ہے کہ خروج دجال اور نزول عیسیٰ علیہ السلام کی احادیث متواتر ہیں۔
دجال کا خروج اور اس کے فتنہ فساد کی تفصیل
جنگ اخبار میں آپ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمدِ ثانی کے بارے میں حدیث کے حوالہ سے “ان کا حلیہ اور وہ آکر کیا کریں گے” لکھا تھا، اب مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات بھی لکھ دیں تو مہربانی ہوگی۔
س:۱:… خر دجال کا حلیہ حدیث کے حوالہ سے (کیونکہ ہم نے لوگوں سے سنا ہے کہ وہ بہت تیز چلے گا، اس کی آواز کرخت ہوگی وغیرہ وغیرہ)۔
س:۲:… کانا دجال جو اس پر سواری کرے گا، اس کا حلیہ۔
ج… دجال کے گدھے کا حلیہ زیادہ تفصیل سے نہیں ملتا، مسند احمد اور مستدرک حاکم کی حدیث میں صرف اتنا ذکر ہے کہ اس کے دونوں کانوں کے درمیان کا فاصلہ چالیس ہاتھ ہوگا اور مشکوٰة شریف میں بیہقی کی روایت سے نقل کیا ہے کہ اس کا رنگ سفید ہوگا۔
دجال کے بارے میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں، جن میں اس کے حلیہ، اس کے دعویٰ اور اس کے فتنہ و فساد پھیلانے کی تفصیل ذکر کی گئی ہے، چند احادیث کا خلاصہ درج ذیل ہے:
۱:…رنگ سرخ، جسم بھاری بھرکم، قد پستہ، سر کے بال نہایت خمیدہ الجھے ہوئے، ایک آنکھ بالکل سپاٹ، دوسری عیب دار، پیشانی پر “ک، ف، ر” یعنی “کافر” کا لفظ لکھا ہوگا جسے ہر خواندہ و ناخواندہ موٴمن پڑھ سکے گا۔
۲:…پہلے نبوت کا دعویٰ کرے گا اور پھر ترقی کرکے خدائی کا مدعی ہوگا۔
۳:…اس کا ابتدائی خروج اصفہان خراسان سے ہوگا اور عراق و شام کے درمیان راستہ میں اعلانیہ دعوت دے گا۔
۴:…گدھے پر سوار ہوگا، ستر ہزار یہودی اس کی فوج میں ہوں گے۔
۵:…آندھی کی طرح چلے گا اور مکہ مکرمہ، مدینہ طیبہ اور بیت المقدس کے علاوہ ساری زمین میں گھومے پھرے گا۔
۶:…مدینہ میں جانے کی غرض سے احد پہاڑ کے پیچھے ڈیرہ ڈالے گا، مگر خدا کے فرشتے اسے مدینہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے، وہاں سے ملک شام کا رخ کرے گا اور وہاں جاکر ہلاک ہوگا۔
۷:…اس دوران مدینہ طیبہ میں تین زلزلے آئیں گے اور مدینہ طیبہ میں جتنے منافق ہوں گے وہ گھبراکر باہر نکلیں گے اور دجال سے جاملیں گے۔
۸:…جب بیت المقدس کے قریب پہنچے گا تو اہل اسلام اس کے مقابلہ میں نکلیں گے اور دجال کی فوج ان کا محاصرہ کرلے گی۔
۹:…مسلمان بیت المقدس میں محصور ہوجائیں گے اور اس محاصرہ میں ان کو سخت ابتلا پیش آئے گا۔
۱۰:…ایک دن صبح کے وقت آواز آئے گی: “تمہارے پاس مدد آپہنچی!” مسلمان یہ آواز سن کر کہیں گے کہ: “مدد کہاں سے آسکتی ہے؟ یہ کسی پیٹ بھرے کی آواز ہے۔
۱۱:…عین اس وقت جبکہ فجر کی نماز کی اقامت ہوچکی ہوگی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام بیت المقدس کے شرقی منارہ کے پاس نزول فرمائیں گے۔
۱۲:…ان کی تشریف آوری پر امام مہدی (جو مصلّے پر جاچکے ہوں گے) پیچھے ہٹ جائیں گے اور ان سے امامت کی درخواست کریں گے، مگر آپ امام مہدی کو حکم فرمائیں گے کہ نماز پڑھائیں کیونکہ اس نماز کی اقامت آپ کے لئے ہوئی ہے۔
۱۳:…نماز سے فارغ ہوکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام دروازہ کھولنے کا حکم دیں گے، آپ کے ہاتھ میں اس وقت ایک چھوٹا سا نیزہ ہوگا، دجال آپ کو دیکھتے ہی اس طرح پگھلنے لگے گا جس طرح پانی میں نمک پگھل جاتا ہے۔ آپ اس سے فرمائیں گے کہ: اللہ تعالیٰ نے میری ایک ضرب تیرے لئے لکھ رکھی ہے، جس سے تو بچ نہیں سکتا! دجال بھاگنے لگے گا، مگر آپ “بابِ لُدّ” کے پاس اس کو جالیں گے اور نیزے سے اس کو ہلاک کردیں گے اور اس کا نیزے پر لگا ہوا خون مسلمانوں کو دکھائیں گے۔
۱۴:…اس وقت اہل اسلام اور دجال کی فوج میں مقابلہ ہوگا، دجالی فوج تہہ تیغ ہوجائے گی اور شجر و حجر پکار اٹھیں گے کہ: “اے موٴمن! یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے، اس کو قتل کر۔”
یہ دجال کا مختصر سا احوال ہے، احادیث شریفہ میں اس کی بہت سی تفصیلات بیان فرمائی گئی ہیں۔
یاجوج ماجوج اور دابة الارض کی حقیقت
س… آپ نے اپنے صفحہ “اقرأ” میں ایک حدیث شائع کی تھی اور اس میں قیامت کی نشانیاں بتائی گئی تھیں جن میں دجال کا آنا، دابة الارض اور یاجوج ماجوج کا آنا وغیرہ شامل ہیں۔ برائے مہربانی یہ بتائیں کہ یاجوج ماجوج، دابة الارض سے کیا مراد ہے؟ اور آیا کہ یہ نشانی پوری ہوگئی؟
ج… دجال کے بارے میں ایک دوسرے سوال کے جواب میں لکھ چکا ہوں، اس کو ملاحظہ فرمالیا جائے۔
یاجوج ماجوج کے خروج کا ذکر قرآن کریم میں دو جگہ آیا ہے، ایک سورہٴ انبیاء کی آیت:۹۶ میں جس میں فرمایا گیا ہے:
“یہاں تک کہ جب کھول دئیے جائیں گے یاجوج ماجوج اور وہ ہر اونچان سے دوڑتے ہوئے آئیں گے اور قریب آن لگا سچا وعدہ (یعنی وعدہٴ قیامت) پس اچانک پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی آنکھیں منکروں کی ہائے افسوس! ہم تو اس سے غفلت میں تھے، بلکہ ہم ظالم تھے۔”
اور دوسرے سورہٴ کہف کے آخری سے پہلے رکوع میں جہاں ذو القرنین کی خدمت میں یاجوج ماجوج کے فتنہ و فساد برپا کرنے اور ان کے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنانے کا ذکر آتا ہے، وہاں فرمایا گیا ہے کہ حضرت ذوالقرنین نے دیوار کی تعمیر کے بعد فرمایا:
“یہ میرے رب کی رحمت ہے، پس جب میرے رب کا وعدہ (وعدہٴ قیامت) آئے گا تو اس کو چور چور کردے گا، اور میرے رب کا وعدہ سچ ہے۔ (آگے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں) اور ہم اس دن ان کو اس حال میں چھوڑ دیں گے کہ ان میں سے بعض بعض میں ٹھاٹھیں مارتے ہوں گے۔”
ان آیاتِ کریمہ سے واضح ہے کہ یاجوج ماجوج کا آخری زمانے میں نکلنا علمِ الٰہی میں طے شدہ ہے اور یہ کہ ان کا خروج قیامت کی نشانی کے طور پر قربِ قیامت میں ہوگا۔ اسی بنا پر حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ان کے خروج کو قیامت کی علاماتِ کبریٰ میں شمار کیا گیا ہے، اور بہت سی احادیث میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ان کا خروج سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ہوگا۔ احادیث طیبہ کا مختصر خاکہ پیش خدمت ہے۔
ایک حدیث میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دجال کو قتل کرنے کا واقعہ ذکر کرنے کے بعد ارشاد ہے:
“پھر عیسیٰ علیہ السلام ان لوگوں کے پاس جائیں گے جن کو اللہ تعالیٰ نے دجال کے فتنے سے محفوظ رکھا ہوگا اور گرد و غبار سے ان کے چہرے صاف کریں گے اور جنت میں ان کے جو درجات ہیں وہ ان کو بتائیں گے۔ ابھی وہ اسی حالت میں ہوں گے کہ اتنے میں اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی بھیجے گا کہ میں نے اپنے ایسے بندوں کو خروج کی اجازت دی ہے جن کے مقابلے کی کسی کو طاقت نہیں، پس آپ میرے بندوں کو کوہِ طور پر لے جائیے۔
اور اللہ تعالیٰ یاجوج ماجوج کو بھیجے گا اور وہ ہر بلندی سے تیزی سے پھسلتے ہوئے اتریں گے، پس ان کے دستے بحیرہ طبریہ پر گزریں گے تو اس کا سارا پانی صاف کردیں گے اور ان کے پچھلے لوگ آئیں گے تو کہیں گے کہ کسی زمانے میں اس میں پانی ہوتا تھا۔ اور وہ چلیں گے یہاں تک کہ جب جبل خمر تک جو بیت المقدس کا پہاڑ ہے پہنچیں گے تو کہیں گے کہ زمین والوں کو تو ہم قتل کرچکے اب آسمان والوں کو قتل کریں۔ پس وہ آسمان کی طرف تیر پھینکیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے تیر خون سے رنگے ہوئے واپس لوٹادے گا۔
اور اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے رفقاء کوہِ طور پر محصور ہوں گے اور اس محاصرہ کی وجہ سے ان کو ایسی تنگی پیش آئے گی کہ ان کے لئے گائے کا سر تمہارے آج کے سو درہم سے بہتر ہوگا۔ پس اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے رفقاء اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کریں گے، پس اللہ تعالیٰ یاجوج و ماجوج کی گردنوں میں کیڑا پیدا کردے گا، جس سے وہ ایک آن میں ہلاک ہوجائیں گے۔ پھر اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے رفقاء کوہِ طور سے زمین پر اتریں گے تو ایک بالشت زمین بھی خالی نہیں ملے گی جو ان کی لاشوں اور بدبو سے بھری ہوئی نہ ہو، پس اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے رفقاء اللہ سے دعا کریں گے، تب اللہ تعالیٰ بختی اونٹوں کی گردنوں کے مثل پرندے بھیجے گا، جو ان کی لاشوں کو اٹھاکر جہاں اللہ کو منظور ہوگا پھینک دیں گے۔
پھر اللہ تعالیٰ ایسی بارش برسائے گا کہ اس سے کوئی خیمہ اور کوئی مکان چھپا نہیں رہے گا، پس وہ بارش زمین کو دھوکر شیشے کی طرح صاف کردے گی (آگے مزید قربِ قیامت کے حالات مذکور ہیں)۔”
(صحیح مسلم، مسند احمد، ابوداوٴد، ترمذی، ابن ماجہ، مستدرک حاکم، کنز العمال)
۲:…ترمذی کی حدیث میں ہے کہ وہ پرندے یاجوج ماجوج کی لاشوں کو نہبل میں لے جاکر پھینکیں گے اور مسلمان ان کے تیر کمان اور ترکشوں کو سات برس بطور ایندھن استعمال کریں گے۔ (مشکوٰة ص:۴۷۴)
۳:…ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ معراج کی رات میری ملاقات حضرت ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام سے ہوئی، قیامت کا تذکرہ آیا، تو سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے دریافت کیا گیا، انہوں نے فرمایا کہ: مجھے اس کا علم نہیں۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا گیا، انہوں نے بھی یہی جواب دیا، پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے سوال ہوا، انہوں نے فرمایا: قیامت کے وقوع کا وقت تو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں، البتہ میرے رب عزوجل کا مجھ سے ایک وعدہ ہے اور وہ یہ کہ دجالِ اکبر خروج کرے گا تو اس کو قتل کرنے کے لئے میں اتروں گا، وہ مجھے دیکھتے ہی رانگ کی طرح پگھلنا شروع ہوگا، پس اللہ تعالیٰ اسے میرے ہاتھ سے ہلاک کردیں گے۔ یہاں تک کہ شجر و حجر پکار اٹھیں گے کہ: اے موٴمن! میرے پیچھے کافر چھپا ہوا ہے اسے قتل کر! پس میں دجال کو قتل کردوں گا اور دجال کی فوج کو اللہ تعالیٰ ہلاک کردے گا۔
پھر لوگ اپنے علاقوں اور وطنوں کو لوٹ جائیں گے۔ تب یاجوج ماجوج نکلیں گے اور وہ ہر بلندی سے دوڑے ہوئے آئیں گے، وہ مسلمانوں کے علاقوں کو روند ڈالیں گے، جس چیز پر سے گزریں گے اسے تباہ کردیں گے، جس پانی پر سے گزریں گے اسے صاف کردیں گے، لوگ مجھ سے ان کے فتنہ و فساد کی شکایت کریں گے، میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا، پس اللہ تعالیٰ انہیں موت سے ہلاک کردے گا، یہاں تک کہ ان کی بدبو سے زمین میں تعفن پھیل جائے گا، پس اللہ تعالیٰ بارش بھیجے گا جو ان کو بہاکر سمندر میں ڈال دے گی۔
بس میرے رَبّ عزوجل کا مجھ سے جو وعدہ ہے اس میں فرمایا کہ جب یہ واقعات ہوں گے تو قیامت کی مثال اس پورے دنوں کی حاملہ کی ہوگی جس کے بارے میں اس کے مالکوں کو کچھ خبر نہیں ہوگی کہ رات یا دن کب، اچانک اس کے وضع حمل کا وقت آجائے۔ (مسند احمد، ابن ماجہ، ابن جریر، مستدرک حاکم، فتح الباری، درمنثور، التصریح بما تواتر فی نزول المسیح ص:۱۵۸، ۱۵۹)
یاجوج ماجوج کے بارے میں اور بھی متعدد احادیث ہیں جن میں کم و بیش یہی تفصیلات ارشاد فرمائی گئی ہیں، مگر میں انہی تین احادیث پر اکتفا کرتے ہوئے یہ فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں کہ آیا یہ نشانی پوری ہوچکی ہے یا ابھی اس کا پورا ہونا باقی ہے؟ فرمائیے! آپ کی عقل خداداد کیا فیصلہ کرتی ہے؟
رہا دابة الارض! تو اس کا ذکر قرآن کریم کی سورة النمل آیت:۸۲ میں آیا ہے، چنانچہ ارشاد ہے:
“اور جب آن پڑے گی ان پر بات (یعنی وعدہٴ قیامت کے پورا ہونے کا وقت قریب آلگے گا) تو ہم نکالیں گے ان کے لئے ایک چوپایہ زمین سے جو ان سے باتیں کرے گا کہ لوگ ہماری نشانیوں پر یقین نہیں لاتے تھے۔”
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دابة الارض کا خروج بھی قیامت کی بڑی علامتوں میں سے ہے اور ارشاداتِ نبویہ میں بھی اس کو علاماتِ کبریٰ میں شامل کیا گیا ہے، ایک حدیث میں ہے کہ چھ چیزوں سے پہلے نیک اعمال میں جلدی کرو، دخان، دجال، دابة الارض، مغرب سے آفتاب کا طلوع ہونا، عام فتنہ اور ہر شخص سے متعلق خاص فتنہ۔ (مشکوٰة ص:۴۷۲)
ایک اور حدیث میں ہے کہ قیامت کی پہلی علامت جو لوگوں کے سامنے ظاہر ہوگی، وہ آفتاب کا مغرب کی جانب سے طلوع ہونا اور چاشت کے وقت لوگوں کے سامنے دابة الارض کا نکلنا ہے، ان میں سے جو پہلے ہو دوسری اس کے بعد متصل ہوگی۔ (مشکوٰة، صحیح مسلم)
ایک اور حدیث میں ہے کہ تین چیزیں جب ظہور پذیر ہوجائیں گی تو کسی نفس کو اس کا ایمان لانا فائدہ نہ دے گا، جو اس سے پہلے ایمان نہ لایا ہو، یا اس نے ایمان کی حالت میں کوئی نیکی نہ کی ہو، آفتاب کا مغرب سے طلوع ہونا، دجال کا ظاہر ہونا اور دابة الارض کا نکلنا۔ (مشکوٰة، صحیح مسلم)
ایسا لگتا ہے کہ اس دنیا کے لئے آفتاب کے طلوع و غروب کا نظام ایسا ہے جیسے انسان کی نبض کی رفتار ہے۔ جب سے انسان پیدا ہوا ہے اس کی نبض باقاعدہ چلتی رہتی ہے، لیکن نزع کے وقت پہلے نبض میں بے قاعدگی آجاتی ہے اور کچھ دیر بعد وہ بالکل ٹھہر جاتی ہے، اسی طرح جب سے اللہ تعالیٰ نے اس عالم کو پیدا کیا ہے سورج کے طلوع و غروب کے نظام میں کبھی خلل نہیں آیا، لیکن قیامت سے کچھ دیر پہلے اس عالم پر نزع کی کیفیت طاری ہوجائے گی اور اس کی نبض بے قاعدہ ہوجائے گی، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ آفتاب کو ہر دن مشرق سے طلوع ہونے کا اذن ملتا ہے، ایک دن اسے مشرق کے بجائے مغرب کی جانب سے طلوع ہونے کا حکم ہوگا۔
(صحیح بخاری، صحیح مسلم)
پس جس طرح نزع کی حالت میں ایمان قبول نہیں ہوتا، اسی طرح آفتاب کے مغرب کی جانب سے طلوع ہونے کے بعد (جو اس عالم کی نزع کا وقت ہوگا) توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا، اس وقت ایمان لانا مفید نہ ہوگا، نہ ایسے ایمان کا اعتبار ہوگا، اور توبہ کا دروازہ بند ہونے کے بعد بے ایمانوں کو رسوا کرنے اور ان کے غلط دعویٴ ایمان کا راستہ بند کرنے کے لئے موٴمن و کافر پر الگ الگ نشان لگادیا جائے گا۔
“دابة الارض جب نکلے گا تو اس کے پاس موسیٰ علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کی انگشتری ہوگی، وہ انگشتری سے موٴمن کے چہرے پرمہر لگادے گا جس سے اس کا چہرہ چمک اٹھے گا، اور کافر کی ناک پر موسیٰ علیہ السلام کے عصا سے مہر لگادے گا۔ (جس کی وجہ سے دل کے کفر کی سیاہی اس کے منہ پر چھاجائے گی) جس سے موٴمن و کافر کے درمیان ایسا امتیاز ہوجائے گا کہ مجلس میں موٴمن و کافر الگ الگ پہچانے جائیں گے۔”
دابة الارض کے تھوڑے عرصہ بعد ایک پاکیزہ ہوا چلے گی جس سے تمام اہل ایمان کا انتقال ہوجائے گا اور صرف شریر لوگ رہ جائیں گے، چوپاوٴں کی طرح سڑکوں پر شہوت رانی کریں گے، ان پر قیامت واقع ہوگی۔” (مشکوٰة)