تقدیر

تقدیر کیا ہے؟

س… میرے ذہن میں تقدیر یا قسمت کے متعلق بات اس وقت آئی جب ہمارے نویں یا دسویں کے استاد نے کلاس میں یہ ذکر چھیڑا، انہوں نے کہا کہ ہر انسان اپنی تقدیر خود بناتا ہے، اگر خدا ہماری تقدیر بناتا تو پھر جنت و دوزخ چہ معنی دارد؟ مطلب یہ کہ ہم جو برے کام کرتے ہیں، اگر وہ خدا نے ہماری قسمت میں لکھ دئیے ہیں تو ہمارا ان سے بچنا محال ہے، پھر دوزخ اور جنت کا معاملہ کیوں اور کیسے؟ میرے خیال میں تو انسان خود اپنی تقدیر بناتا ہے۔

میں نے اپنے ایک قریبی دوست سے اس سلسلے میں بات کی تو اس نے بتایا کہ: خدا نے بعض اہم فیصلے انسان کی قسمت میں لکھ دئیے ہیں، باقی چھوٹے چھوٹے فیصلے انسان خود کرتا ہے، اہم فیصلوں سے مراد بندہ بڑا ہوکر کیا کرے گا؟ کہاں کہاں پانی پیئے گا وغیرہ، لیکن انسان اپنی صلاحیت اور قوتِ فیصلہ کی بنیاد پر ان فیصلوں کو تبدیل بھی کرسکتا ہے۔

آپ نے کچھ احادیث وغیرہ کے حوالے دئیے ہیں، آپ نے اس کے ساتھ کوئی وضاحت نہیں دی، صرف یہ کہہ دینا کہ: “قسمت کے متعلق بات نہ کریں۔” میری رائے میں تو کوئی بھی اس بات سے مطمئن نہیں ہوگا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ بات کہی ہے تو انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ: “سابقہ قومیں اسی وجہ سے تباہ ہوئیں کہ وہ تقدیر کے مسئلے پر اُلجھے تھے۔” اب ذرا آپ اس بات کی وضاحت کردیں تو شاید دل کی تشفی ہوجائے۔

ج… جان برادر۔ السلام علیکم! اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ کائنات کی ہر چھوٹی بڑی، اچھی بری چیز صرف اللہ تعالیٰ کے ارادہ، قدرت، مشیت اور علم سے وجود میں آئی ہے، بس میں اتنی بات جانتا ہوں کہ ایمان بالقدر کے بغیر ایمان صحیح نہیں ہوتا، اس کے آگے یہ کیوں، وہ کیوں؟ اس سے میں معذور ہوں۔

تقدیر اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، اس کو انسانی عقل کے ترازو سے تولنا ایسا ہے کہ کوئی عقل مند سونا تولنے کے کانٹے سے “ہمالیہ” کا وزن کرنا شروع کردے، عمریں گزر جائیں گی مگر یہ مدعا عنقا رہے گا۔

ہمیں کرنے کے کام کرنے چاہئیں، تقدیر کا معما نہ کسی سے حل ہوا نہ ہوگا، بس سیدھا سا ایمان رکھئے کہ ہر چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہے، اور ہر چیز اس کی تخلیق سے وجود میں آئی ہے، انسان کو اللہ تعالیٰ نے اختیار و ارادہ عطا کیا ہے مگر یہ اختیار مطلق نہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کسی نے دریافت کیا کہ انسان مختار ہے یا مجبور؟ فرمایا: ایک پاوٴں اٹھاوٴ! اس نے اٹھالیا، فرمایا: دوسرا بھی اٹھاوٴ! بولا: حضور! جب تک پہلا قدم زمین پر نہ رکھوں دوسرا نہیں اٹھاسکتا۔ فرمایا: بس انسان اتنا مختار ہے، اور اتنا مجبور! بہرحال میں اس مسئلہ میں زیادہ قیل و قال سے معذور ہوں اور اس کو بربادیٴ ایمان کا ذریعہ سمجھتا ہوں۔

تقدیر برحق ہے، اس کو ماننا شرطِ ایمان ہے

س ۱:…آدمی کے دنیا میں تشریف لانے سے پہلے تقدیر لکھ دی جاتی ہے کہ یہ آدمی دنیا میں یہ کام کرے گا، کیا تقدیر میں لکھا ہوتا ہے کہ جب دنیا فانی سے رخصت ہوگا تو اس کی اتنی نیکیاں اور اتنی بدیاں ہوں گی؟ تو پھر نامہٴ اعمال اور تقدیر میں کیا فرق ہے؟

۲:…اگر کوئی آدمی مصائب و آلام میں مبتلا ہو تو کہتے ہیں کہ اس کی تقدیر لکھی ہی اس طرح ہوگی، اور اگر کوئی عیش و عشرت سے زندگی گزار رہا ہو تو کہتے ہیں کہ اس کی تقدیر اچھی ہے، جبکہ فرمانِ الٰہی ہے کہ: جتنی کسی نے کوشش کی اتنا ہی اس نے پایا۔ تو تقدیر کیا ہے؟

۳:…اور ایک جگہ پڑھا ہے کہ تقدیر میں جو کچھ لکھ دیا جاتا ہے وہ بدل نہیں سکتا، جبکہ امام المرسلین نے فرمایا کہ: “مظلوم کی دعا رد نہیں ہوتی، اس کی دعا کے لئے آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ: قسم ہے اپنی عزت کی! میں تیری مدد کروں گا۔” تو کیا اس کا مطلب یہی ہے کہ دعا سے تقدیر بدل جاتی ہے؟

۴:…نجومی یا عامل وغیرہ ہاتھ کی لکیریں دیکھ کر بتاتے ہیں کہ آپ کی تقدیر ایسی ہے، اسی طرح کچھ فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں کہ طوطے کے ذریعے فال معلوم کریں اور عوام کو بیوقوف بناتے ہیں، کیا اللہ کے سوا کسی کو معلوم ہے کہ آنے والا وقت کیا ہوگا؟

۵:…المختصر یہ کہ کیا تقدیر آدمی پر منحصر ہے جیسی بنائے یا پہلے لکھ دی جاتی ہے، اگر پہلے لکھ دی جاتی ہے تو کیا بدل سکتی ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں کیونکہ ہوگا وہی جو تقدیر میں لکھا ہوگا۔

ج… تقدیر برحق ہے۔ اور اس کو ماننا شرطِ ایمان ہے۔ لیکن تقدیر کا مسئلہ بے حد نازک اور باریک ہے، کیونکہ تقدیر اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، اور آدمی صفاتِ الٰہیہ کا پورا احاطہ نہیں کرسکتا۔ بس اتنا عقیدہ رکھا جائے کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ کو پہلے سے اس کا علم تھا، اور اللہ تعالیٰ نے اس کو پہلے سے لوحِ محفوظ میں لکھ رکھا تھا۔ پھر دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اس کی دو قسمیں ہیں۔ بعض میں انسان کے ارادہ و اختیار کا بھی دخل ہے، اور بعض میں نہیں۔ جن کاموں میں انسان کے ارادہ و اختیار کو دخل ہے، ان میں سے کرنے کے کاموں کو کرنے کا حکم ہے، اگر انہیں اپنے ارادہ و اختیار سے ترک کرے گا تو اس پر موٴاخذہ ہوگا، اور جن کاموں کو چھوڑنے کا حکم ہے ان کو اپنے ارادہ و اختیار سے چھوڑنا ضروری ہے، نہیں چھوڑے گا تو موٴاخذہ ہوگا۔ الغرض جو کچھ ہوتا ہے تقدیر کے مطابق ہی ہوتا ہے لیکن اختیاری امور پر چونکہ انسان کے ارادہ و اختیار کو بھی دخل ہے، اس لئے نیک و بد اعمال پر جزا و سزا ہوگی، ہمارے لئے اس سے زیادہ اس مسئلہ پر کھود کرید جائز نہیں، نہ اس کا کوئی فائدہ ہے۔

تقدیر و تدبیر میں کیا فرق ہے؟

س… جناب سے گزارش ہے کہ میرے اور میرے دوست کے درمیان اسلامی نوعیت کا ایک سوال مسئلہ بنا ہوا ہے، اگر ہم لوگ اس مسئلہ پر خود ہی بحث کرتے ہیں تو اس کا نتیجہ غلط بھی نکال سکتے ہیں، میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ اس مسئلے کو حل کرکے ہم سب لوگوں کو مطمئن کریں۔

یہ حقیقت ہے کہ تقدیریں اللہ تعالیٰ نے بنائی ہیں، لیکن جب کوئی شخص کسی کام کو کئی بار کرنے کے باوجود ناکام رہتا ہے تو اسے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ: “میاں! تمہاری تقدیر خراب ہے، اس میں تمہارا کیا قصور؟” تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کی کوششیں رائیگاں جاتی ہیں جب تک کہ اس کی تقدیر میں اس کام کا کرنا لکھا نہ گیا ہو، لیکن جب کوئی شخص اپنی تدبیر اور کوشش کے بل بوتے پر کام کرتا ہے تو خدا کی بنائی ہوئی تقدیر آڑے آتی ہے۔

ج… حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم تقدیر کے مسئلہ پر بحث کر رہے تھے کہ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، ہمیں بحث میں الجھے ہوئے دیکھ کر بہت غصے ہوئے، یہاں تک کہ چہرہٴ انور ایسا سرخ ہوگیا گویا رخسارِ مبارک میں انار نچوڑ دیا گیا ہو، اور بہت ہی تیز لہجے میں فرمایا:

“کیا تمہیں اس بات کا حکم دیا گیا ہے؟ کیا میں یہی چیز دے کر بھیجا گیا ہوں؟ تم سے پہلے لوگ اسی وقت ہلاک ہوئے جب انہوں نے اس مسئلہ میں جھگڑا کیا، میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ اس میں ہرگز نہ جھگڑنا۔” (ترمذی، مشکوٰة ص:۲۲)

حضرت ام الموٴمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: “جو شخص تقدیر کے مسئلہ میں ذرا بھی بحث کرے گا، قیامت کے دن اس کے بارے میں اس سے بازپرس ہوگی۔ اور جس شخص نے اس مسئلہ میں گفتگو نہ کی اس سے سوال نہیں ہوگا۔”

(ابن ماجہ، مشکوٰة ص:۲۳)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: “کوئی شخص موٴمن نہیں ہوسکتا جب تک ان چار باتوں پر ایمان نہ لائے:

۱:…اس بات کی گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں۔

۲:…اور یہ کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں، اللہ تعالیٰ نے مجھے حق دے کر بھیجا ہے۔

۳:…موت اور موت کے بعد والی زندگی پر ایمان لائے۔

۴:…اور تقدیر پر ایمان لائے۔” (ترمذی، ابن ماجہ، مشکوٰة ص:۲۲)

ان ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے چند چیزیں معلوم ہوئیں:

۱:…تقدیر حق ہے اور اس پر ایمان لانا فرض ہے۔

۲:…تقدیر کا مسئلہ نازک ہے، اس میں بحث و گفتگو منع ہے اور اس پر قیامت کے دن بازپرس کا اندیشہ ہے۔

۳:…تدبیر، تقدیر کے خلاف نہیں، بلکہ تقدیر ہی کا ایک حصہ ہے۔

کیا تقدیر پر ایمان لانا ضروری ہے؟

س… جن چیزوں پر ایمان لائے بغیر بندہ مسلمان نہیں ہوسکتا، ان میں تقدیر بھی شامل ہے۔ لیکن ہمیں یہ تو معلوم ہی نہیں کہ تقدیر میں کیا کیا ہوتا ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ تقدیر میں موت، رزق اور جس سے شادی ہونی ہوتی ہے وہ ہوتا ہے۔ آپ یہ بتائیں کہ آخر جس تقدیر پر ہمارا ایمان ہے اس میں کون کون سی چیزیں شامل ہیں اور کیا یہ سچ ہے کہ خدا نے ہر چیز پہلے سے معین کردی ہے؟

ج… تقدیر پر ایمان لانا فرض ہے۔ اور تقدیر کا مطلب یہ ہے کہ یہ ساری کائنات اور کائنات کی ایک ایک چیز اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہے، اور کائنات کی تخلیق سے پہلے ہر چیز کا علمِ الٰہی میں ایک اندازہ تھا، اسی کے مطابق تمام چیزیں وجود میں آتی ہیں، خواہ ان میں انسان کے اختیار و ارادہ کا دخل ہو یا نہ ہو، اور خواہ اسباب کے ذریعہ وجود میں آئیں یا بغیر ظاہری اسباب کے۔

جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے اسباب کے ماتحت رکھا ہے، ان کے جائز اسباب اختیار کرنے کا حکم ہے، اور ناجائز اسباب سے پرہیز کرنا فرض ہے۔

تقدیر بنانا

س… کیا انسان اپنا اچھا مستقبل خود بناتا ہے یا اللہ تعالیٰ اس کا مستقبل شاندار بناتا ہے؟ میرا نظریہ یہ ہے کہ انسان اپنی دماغی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی قسمت خود بناتا ہے، جبکہ میرے ایک دوست کا نظریہ مجھ سے مختلف ہے، اس کا کہنا ہے کہ انسان اپنا اچھا مستقبل خود نہیں بناسکتا بلکہ ہر آدمی کی قسمت اللہ تعالیٰ بناتا ہے۔

ج… انسان کو اچھائی برائی کا اختیار ضرور دیا گیا ہے، لیکن وہ اپنی قسمت کا مالک نہیں، قسمت اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے، اس لئے یہ کہنا کہ انسان اپنی تقدیر کا خود خالق ہے یا یہ کہ اپنی تقدیر خود بناتا ہے، اسلامی عقیدے کے خلاف ہے۔

کیا ظاہری اسباب تقدیر کے خلاف ہیں؟

س… تقدیر پر ایمان لانا ہر مسلمان کا فرض ہے، یعنی اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لانا لیکن جب اسے نقصان پہنچے یا مصیبت میں گرفتار ہو تو وہ ظاہری اسباب کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے، وہ کیوں ایسے کہتا ہے کہ: “اگر ایسا نہیں ایسا کیا جاتا تو ایسا ہوتا اور یہ نقصان نہ ہوتا اور یہ مصیبت نہ آتی” تو کیا اس طرح کہنے سے گناہ تو نہیں ہوتا؟ اور تقدیر پر ایمان رکھنے کے سلسلہ میں اس طرح کہنے سے اس کی ایمانیت میں تو کوئی فرق نہیں پڑتا؟ اور کیا انسان کو تقدیر کے بارے میں سوچنا نہیں چاہئے؟

ج… شرعی حکم یہ ہے کہ جو کام کرو خوب سوچ سمجھ کر بیدار مغزی کے ساتھ کرو، اس کے جتنے جائز اسباب مہیا کئے جاسکتے ہیں ان میں بھی کوتاہی نہ کرو۔ جب اپنی ہمت و بساط اور قدرت و اختیار کی حد تک جو کچھ تم کرسکتے ہو کرلیا، اس کے بعد نتیجہ خدا کے حوالے کردو، اگر خدانخواستہ کوئی نقصان وغیرہ کی صورت پیش آجائے تو یوں خیال کرو کہ اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا، جو کچھ اللہ تعالیٰ کو منظور تھا وہ ہوا، اور اسی میں حکمت تھی۔ ایسی صورت میں یہ کہنا کہ اگر یوں کرلیتے تو یوں ہوجاتا، اس سے طبیعت بلاوجہ بدمزہ اور پریشان ہوگی، جو کچھ ہونا تھا وہ تو ہوچکا، اسے تو کسی صورت میں واپس نہیں لایا جاسکتا، تو اب “اگر، مگر” کا چکر سوائے بدمزگی و پریشانی کے اور کیا ہے؟ اس لئے حدیث میں اس کی ممانعت فرمائی گئی ہے، اور اس کو “عمل شیطان” کی کنجی فرمایا گیا ہے۔ درحقیقت یہ ضعفِ ایمان، ضعفِ ہمت، حق تعالیٰ شانہ سے صحیح تعلق نہ ہونے کی علامت ہے۔

انسان کے حالات کا سبب اس کے اعمال ہیں

س… ایک انسان جس کو اپنی قسمت سے ہر موقع پر شکست ہو یعنی کوئی آدمی مفلس ونادار بھی ہو، غربت کی مار پڑی ہو، علم کا شوق ہو لیکن علم اس کے نصیب میں نہ ہو، خوشی کم ہو، غم زیادہ، بیماریاں اس کا سایہ بن گئی ہوں، ماں باپ، بہن بھائی کی موجودگی میں محبت سے محروم ہو، رشتے دار بھی ملنا پسند نہ کرتے ہوں، محنت زیادہ کرے پھل برائے نام ملے، ایسا انسان یہ کہنے پر مجبور ہو کہ یا اللہ! جیسا میں بدنصیب ہوں ایسا تو کسی کو نہ بنا۔ اس کے یہ الفاظ اس کے حق میں کیسے ہیں؟ اگر وہ اپنی تقدیر پر صبر کرتا ہو اور صبر نہ آئے تو کیا کرنا چاہئے؟

ج… انسان کو جو ناگوار حالات پیش آتے ہیں ان میں سے زیادہ تر انسان کی شامتِ اعمال کی وجہ سے آتے ہیں، ان میں اللہ تعالیٰ سے شکایت ظاہر ہے کہ بے جا ہے، آدمی کو اپنے اعمال کی درستی کرنی چاہئے اور جو امور غیراختیاری طور پر پیش آتے ہیں ان میں اللہ تعالیٰ کی تو ذاتی غرض ہوتی نہیں بلکہ بندے ہی کی مصلحت ہوتی ہے، ان میں یہ سوچ کر صبر کرنا چاہئے کہ ان میں اللہ تعالیٰ کو میری ہی کوئی بہتری اور بھلائی منظور ہے، اسی کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے جو بے شمار نعمتیں عطا کر رکھی ہیں ان کو بھی سوچنا چاہئے اور “الحمد لله علیٰ کل حال” کہنا چاہئے۔

انسان کی زندگی میں جو کچھ ہوتا ہے، کیا وہ سب کچھ

پہلے لکھا ہوتا ہے؟

س… انسان کی زندگی میں جو کچھ ہوتا ہے کیا وہ پہلے سے لکھا ہوتا ہے؟ یا انسان کے اعمال کی وجہ سے ظہور پذیر ہوتا ہے؟

ج… یہ تقدیر کا مسئلہ ہے۔ اس میں زیادہ کھود کرید تو جائز نہیں، بس اتنا ایمان ہے کہ دنیا میں جو کچھ اب تک ہوا یا ہورہا ہے، یا آئندہ ہوگا، ان ساری چیزوں کا اللہ تعالیٰ کو دنیا کے پیدا کرنے سے پہلے ہی علم تھا۔ دنیا کی کوئی چیز نہ اس کے علم سے باہر ہے، نہ قدرت سے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے اس علم کے مطابق کائنات کی ہر چیز اور ہر انسان کا ایک چارٹر لکھ دیا ہے، دنیا کا سارا نظام اسی خدائی نوشتہ کے مطابق چل رہا ہے، اسی کو تقدیر کہتے ہیں اور اس پر ایمان لانا واجب ہے، جو شخص اس کا منکر ہو وہ مسلمان نہیں۔

یہ بھی ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ارادہ و اختیار اور عقل و تمیز کی دولت بخشی ہے، اور یہ طے کردیا ہے کہ وہ اپنی صوابدید کے مطابق اور اپنے ارادہ و اختیار سے فلاں فلاں کام کرے گا۔

یہ بھی ایمان ہے کہ انسان کے اچھے یا برے اعمال کا نتیجہ اسے ثواب یا عذاب کی شکل میں آخرت میں ملے گا، اور کچھ نہ کچھ دنیا میں بھی مل جاتا ہے۔ یہ ساری باتیں قرآن کریم اور حدیث شریف میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہیں، ان پر ایمان رکھنا چاہئے۔ اس سے زیادہ اس مسئلہ پر غور نہیں کرنا چاہئے، اس میں بحث و مباحثہ سے منع کیا گیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر سخت ناراضی کا اظہار فرمایا ہے۔

برا کام کرکے مقدر کو ذمہ دار ٹھہرانا صحیح نہیں

س… ایک آدمی جب برا کام کرتا ہے، اس سے اگر پوچھا جائے تو کہتا ہے کہ یہ میرے مقدر میں لکھا ہوا تھا، جب اللہ نے اس کے مقدر میں لکھا تھا تو پھر اس کا کیا قصور؟

ج… بندے کا قصور تو ظاہر ہے کہ اس نے برا کام اپنے اختیار سے کیا تھا، اور مقدر میں بھی یہی لکھا تھا کہ وہ اپنے اختیار سے برا کام کرکے قصوروار ہوگا اور سزا کا مستحق ہوگا۔

تنبیہ:…برا کام کرکے مقدر کا حوالہ دینا خلافِ ادب ہے، آدمی کو اپنی غلطی کا اعتراف کرلینا چاہئے۔

خیر اور شر سب خدا کی مخلوق ہے، لیکن شیطان شر

کا سبب و ذریعہ ہے

س… اخبار جنگ کے ایک مضمون بعنوان “ایمان کی بنیادیں” میں صحیح مسلم کے حوالے سے یہ حدیث نقل کی گئی ہے کہ حضرت عمر سے (ایک طویل حدیث میں) روایت ہے کہ: آنے والے شخص نے جو درحقیقت جبرائیل علیہ السلام تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس انسانی شکل میں آئے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ بتائیے کہ ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تم اللہ کو، اس کے فرشتوں کو، اس کی بھیجی ہوئی کتابوں کو، اس کے رسولوں کو اور آخرت کو حق جانو، حق مانو اور اس بات کو بھی مانو کہ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے خدا کی طرف سے ہوتا ہے چاہے وہ خیر ہو، چاہے شر ہو۔ (صحیح مسلم)۔

ہم اب تک یہ سنتے آئے تھے کہ خیر خدا کی طرف سے اور شر شیطان کی طرف سے ہے۔ اب مذکورہ بالا حدیث پڑھ کر ایمان ڈانواڈول ہو رہا ہے اور نہ جانے مجھ جیسے کتنے کمزور ایمان والے بھی شش و پنج میں پڑگئے ہوں گے، کیونکہ جب شر بھی خدا کی طرف سے ہے تو پھر انسان مجرم کیوں؟

ج…ہر چیز کی تخلیق خدا تعالیٰ ہی کی جانب سے ہے، خواہ خیر ہو یا شر، شیطان شر کا خالق نہیں، بلکہ ذریعہ اور سبب ہے، اس لئے اگر شر کی نسبت شیطان کی طرف سبب کی حیثیت سے کی جائے تو غلط نہیں، لیکن جس طرح اللہ تعالیٰ خیر کا خالق ہے، اسی طرح شیطان کو شر کا خالق سمجھا جائے تو یہ مجوسیوں کا عقیدہ ہے، مسلمانوں کے نزدیک ہر چیز کا ایک ہی خالق ہے۔

ہر چیز خدا کے حکم کے ساتھ ہوتی ہے

س… میری ایک عزیزہ ہر بات میں خواہ اچھی ہو یا بری “خدا کے حکم سے” کہنے کی عادی ہیں، یعنی اگر کوئی خوشی ملی تو بھی اور اگر لڑکا آوارہ نکل گیا یا اسی قسم کی کوئی اور بات ہوئی تب بھی وہ یہی کہتی ہیں۔ بتائیے کیا ان کا اس طرح کہنا درست ہے؟

ج… تو کیا کوئی چیز خدا کے حکم کے بغیر بھی ہوتی ہے؟ نہیں! ہر چیز خدا کے حکم سے ہوتی ہے، مگر خیر کے کاموں میں اللہ تعالیٰ کی رضا شامل ہوتی ہے اور شر اور برائی میں یہ نہیں ہوتا۔

قاتل کو سزا کیوں جبکہ قتل اس کا نوشتہٴ تقدیر تھا

س… ایک شخص نے ہم سے یہ سوال کیا ہے کہ ایک آدمی کی تقدیر میں یہ لکھا ہے کہ اس کے ہاتھوں فلاں شخص قتل ہوجائے گا، تو پھر اللہ پاک کیوں اس کو سزا دے گا؟ جبکہ اس کی تقدیر میں یہی لکھا تھا، اس کے بغیر کوئی چارہ ہو ہی نہیں سکتا، جبکہ ہمارا تقدیر پر ایمان ہے کہ جو تقدیر میں ہے وہی ہوگا تو پھر اللہ پاک نے سزا کیوں مقرر کی ہوئی ہے؟

ج… تقدیر میں یہ لکھا ہے کہ فلاں شخص اپنے ارادہ و اختیار سے فلاں کو قتل کرکے سزا کا مستحق ہوگا، چونکہ اس نے اپنے ارادہ و اختیار کو غلط استعمال کیا اس لئے سزا کا مستحق ہوا۔

خودکشی کو حرام کیوں قرار دیا گیا جبکہ اس کی موت

اسی طرح لکھی تھی

س… جب کسی کی موت خودکشی سے واقع ہونی ہے تو خودکشی کو حرام کیوں قرار دیا گیا جبکہ اس کی موت ہی اس طرح لکھی ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ رہنمائی فرمائیں اور تفصیل کے ساتھ جواب دے کر شکریہ کا موقع دیں، اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔

ج… موت تو اسی طرح لکھی تھی مگر اس نے اپنے اختیار سے خودکشی کی، اس لئے اس کے فعل کو حرام قرار دیا گیا۔ اور عقیدہٴ تقدیر رکھنے کے باوجود آدمی کو دوسرے کے برے افعالِ اختیاریہ پر غصہ آتا ہے، مثلاً: کوئی شخص کسی کو ماں بہن کی گالی دے تو اس پر ضرور غصہ آئے گا، حالانکہ یہ عقیدہ ہے کہ حکمِ الٰہی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتا!

شوہر اور بیوی کی خوش بختی یا بدبختی آگے پیچھے

مرنے میں نہیں ہے

س… بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ایسی عورتیں جو اپنے خاوند کے انتقال کے بعد زندہ رہتی ہیں وہ بدبخت ہیں، اور جو عورتیں خاوند سے پہلے انتقال کرجاتی ہیں وہ بہت خوش نصیب ہیں۔

ج… خوش بختی اور بدبختی تو آدمی کے اچھے اور برے اعمال پر منحصر ہوتی ہے، پہلے یا بعد میں مرنے پر نہیں۔