مولانا عبیداللہ سندھی؛ اک وکھری ٹائپ کا مولوی

“ہم اس وقت جس مذہبیت کا شکار ہو رہے ہیں، یہ روگی ہوچکی ہے۔ یہ سُنی کو شیعہ سے لڑواتی ہے۔ اہلحدیث کا دل حنفی سے میلا کرتی ہے۔ احمدی اور غیراحمدی میں نفرت ڈالتی ہے۔ ہندوﺅں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کا جانی دشمن بناتی ہے۔ اس مذہبیت کے طفیل انسان انسان کے خون کا پیاسا ہو گیا ہے۔ میں اس روگی مذہبیت کو مٹانا چاہتا ہوں۔” (۔۔۔ مولانا سندھی)
آج کل تو مولوی کا نام سنتے ہی ذہن فوراً بم دھماکوں، مار دھاڑ، فرقہ واریت، مذہبی منافرت، اور قدامت پسندی کی طرف جاتا ہے مگر مولانا عبیداللہ سندھی کی تحریریں پڑھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں ایسے مذہبی رہنما بھی رہے ہیں جو علم، جدت پسندی اور رواداری کی مجسم تصویر ہی نہ تھے بلکہ ان کی فرقہ واریت پھیلانے والوں پر بھی برابر کی نظر تھی۔
اُپل جٹوں کے سیالکوٹی گھرانے میں 10 مارچ 1872 کو پیدا ہونے والے بوٹا سنگھ ہی عبیداللہ سندھی تھے جنھوں نے 1915 سے 1939 تک افغانستان، سوویت یونین، ترکی اور سعودی عرب (حجاز) میں 24 برس گذارے۔
ان 24 برسوں میں انھوں نے افغانستان کے حکمرانوں کی سیاسی چالوں کو بھی سمجھا، پہلے سوشلسٹ انقلاب پر چھائے روسی قوم پرستی کے منفی اثرات کو بروقت جانا، کمال اتاترک کے جدت پسند ترکی کا بھی مشاہدہ کیا اور نومولود سعودی عرب کے بادشاہوں کی سیاسی ترجیحات اور جابرانہ طرز حکمرانی کا بھی مطالعہ کیا۔
اس تجربہ کی روشنی میں انھوں نے کہا کہ؛
میں نے دہریہ روس سے مقدس حجاز تک حکمرانوں کو دیکھا ہے۔ میرا یہ خیال ہے کہ ہمارے انقلاب کو کوئی دوسرا ملک مدد نہیں دے گا کیونکہ ہر ملک کی اپنی اپنی خارجہ پالیسیاں ہیں۔ وہ اپنی خارجہ پالیسیوں کے تحت ہی انقلابیوں کو چکر دینے میں ماہر ہوتے ہیں۔ اگر ہم حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں تو اس کے لیے ہمیں اپنے عوام ہی پر بھروسہ کرنا ہوگا نہ کہ کسی بیرونی طاقت پر۔
یہ وہ سیاسی ویژن (بصیرت) ہے جو ہمارے بہت سے انقلابیوں کو آج تک پلّے نہیں پڑی مگر مولانا سندھی نے اس بارے 1939 ہی میں کھل کر اظہار کردیا تھا۔
وہ آل انڈیا کانگرس کے طرفدار تھے مگر انھیں مسلم لیگ اور یونینسٹ پارٹی آف پنجاب بھی پسند تھیں۔ مہاتما گاندھی کی سیاست کے مخالف ہی نہ تھے بلکہ کانگرس سے ان کا مطالبہ تھا کہ وہ ہندوستان کو ایک قوم کہنے کی بجائے قوموں کا وفاق کہے۔ علامہ اقبال اور سر سکندر حیات (وزیراعظم پنجاب) کی وفات پر ان کے لکھے خطوط کراچی کے دانشور ابو سلمان شاہجہان چھاپ چکے ہیں۔
فروری 1939 میں سر عبداللہ ہارون کی کوششوں اور حکومت سندھ کی ضمانت پر انگریز سرکار نے مولانا کو واپس آنے کی اجازت دے دی تھی۔
وطن واپسی کے بعد مولانا نے اپنے تجربات کی روشنی میں اجتہادی انداز میں درس دینے شروع کیے تو ان پر تنقید ہونے لگی۔ ان کی مخالفت کرنے والوں میں دارالعلوم دیوبند کے کرتا دھرتا بھی پیش پیش تھے حالانکہ اس دور کے علماء دیوبند میں ان سے سینئر کوئی نہیں تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب مشہور عالم پروفیسر سرور ان کی مدد کو لپکے۔
گجرات (پنجاب) میں پیدا ہونے والے پروفیسر سرور جامعہ ملیہ دہلی اور جامعہ الازہر مصرکے سند یافتہ تھے۔ جیسے اینگلز کے بغیر مارکس کا ذکر کرنا ممکن نہیں ہے ایسے ہی پروفیسر سرور کے بغیر مولانا سندھی کے بارے بات مکمل نہیں ہوسکتی۔
یہ سرور صاحب ہی تھے جنھوں نے بوڑھے سندھی کے ملفوظات کو جمع کیا اور کتابوں کی شکل میں مولانا کے افکار کو ہم تک پہنچایا۔ بعد میں مولانا سندھی کے افکار کو من مرضی سے بدلنے اور اس کی نئی نئی تشریحات کرنے کا سلسلہ شروع ہوا مگر اب عبیداللہ سندھی فاﺅنڈیشن لاہور ان کی کتابوں کو اصلی حالت میں چھاپنے کا کام شروع کرچکی ہے۔
مولانا سندھی 22 اگست 1944 کو راہی ملک عدم ہوے تھے۔ ان کی زندگی ہی میں پروفیسر سرور ایک کتاب “مولانا عبیداللہ سندھی حالات، تعلیمات اور سیاسی افکار” لکھ چکے تھے جسے خود مولانا سندھی نے پسند کیا۔ یہ کتاب حال ہی میں عبیداللہ سندھی فاؤنڈیشن لاہور نے چھاپ دی ہے جس کے بیک ٹائٹل پر یہ تحریر موجود ہے؛
“اگر ہم نے بروقت مولانا سندھی جیسی شخصیات کی باتوں کو مدنظر رکھا ہوتا تو آج جن انتہا پسندیوں کا ہم شکار ہیں ان سے بچ سکتے۔”
اب آپ اس کتاب سے چند اقتباسات پڑھیں کہ وہ کون سی اہم باتیں تھیں جن کے بارے مولانا سندھی ہمیں بروقت آگاہ کر رہے تھے؛
“ہمارے موجودہ مذہبی طبقے ناکارہ ہو چکے ہیں۔ وہ آسانی سے رجعت پسندی کا آلہ کار بن جاتے ہیں۔ نیز اب تک مذہب کے نام سے ہمارے یہاں جو تحریکیں چلیں، ان سے خود مسلمانوں کے اندر افتراق اور جھگڑے پیدا ہوئے۔”
“خالص اور بے میل انسانیت ہی قرآن کا صحیح اور مکمل نصب العین ہے۔ جو تعلیم عام انسانیت کے تقدم اور ترقی میں ممد و معاون ہے، وہ حق ہے اور جو تعلیم انسانیت کے ارتقاء میں حارج ہو وہ تعلیم حق نہیں ہو سکتی۔”
“جب کسی وجہ سے قوم کا ذہین طبقہ جو اخلاق اور افکار کا مالک ہوتا ہے اپنے فرض منصبی سے غفلت برتتا ہے، تو اس کی یہ صلاحیتیں ذلیل کاموں میں صرف ہونے لگتی ہیں۔ ان کی ذلت کا پہلا قدم تملق ہے یعنی حکمران طبقے کی خوشامد کر کے ان سے زیادہ سے زیادہ وصول کرنے کی کوشش۔”
“خدا پرستی کی پہچان اس دنیا میں تو یہی ہے کہ خدا پرست انسان کو خدا کے سارے بندوں سے محبت ہو اور وہ خدا کی خوشنودی، اس کی مخلوقات کی خدمت اور اس کی بہبودی میں ڈھونڈے۔”
“ہم اس وقت جس مذہبیت کا شکار ہو رہے ہیں، یہ روگی ہو چکی ہے۔ یہ سُنی کو شیعہ سے لڑاتی ہے۔ اہلحدیث کا دل حنفی سے میلا کرتی ہے۔ احمدی اور غیراحمدی میں نفرت ڈالتی ہے۔ ہندوﺅں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کا جانی دشمن بناتی ہے۔ اس مذہبیت کے طفیل انسان انسان کے خون کا پیاسا ہو گیا ہے۔ میں اس روگی مذہبیت کو مٹانا چاہتا ہوں۔”
“دس ہزار آدمیوں کی ایک بستی ہے۔ اگر اُس کا اکثر حصہ نئی چیزیں پیدا کرنے میں مصروف نہیں رہتا تو وہ ہلاک ہو جائے گی۔ ایسے ہی اگر ان کا بڑا حصہ تعیش میں مبتلا ہو گیا تو وہ قوم کے لیے بار بن جائے گا اور اس کا ضرر بتدریج ساری آبادی میں پھیل جائے گا۔ یوں ان کی حالت ایسی ہو جائے گی جیسے انھیں دیوانے کتے نے کاٹ کھایا۔”
“مولانا نے فرمایا کہ اگر شاہ صاحب (شاہ ولی اللہ) کے اس اصول کو سمجھ لیا جائے تو چینی قوم کے اعلیٰ اخلاقی تصور، یونانی فلسفہ، ایرانیوں کی حکمت آفرینی، ہندو رشیوں کے بلند فکری نظام اور اسلام، یہودیت اور عیسائیت میں بنیادی طور پر کوئی تضاد نہیں رہتا۔ یوں کل انسانیت کے چوکٹھے میں ساری قوموں کے نظام، ادیان اور اخلاق اپنی اپنی جگہ ٹھیک بیٹھ جاتے ہیں۔”
“مولانا ہندوستان (ہند، پاک) میں یوروپ کی قسم کا مادی انقلاب چاہتے ہیں۔ اس سے ان کا مقصود علم اور سائنس کی وہ برکات ہیں جن سے آج کل یورپ مستفید ہو رہا ہے۔ وہ اسے اپنے ملک میں رائج کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ان کی نظر صرف اس مادی انقلاب تک محدود نہیں۔ ان کے پیش نظر تو ہر فرد انسانی کا تعلق کائنات کی رُوحِ کل سے جوڑنا ہے، اور اسی کو وہ اسلام سمجھتے ہیں۔ تاہم ان کے نزدیک جب تک انسان مادی دنیا پر قابو نہ پا لے اور علم و سائنس کی برکتیں ہر شخص کے لئے عام نہ ہو جائیں، انسانیت بحیثیت مجموعی اسلام کے قریب نہیں آ سکتی۔ اسلام کی حکومت خدا کی حکومت ہے۔ خدا کی حکومت کے معنی یہ ہیں کہ اس کی نعمتیں اس کے سارے بندوں کے لیے عام ہو جائیں۔”
عامر ریاض