خونی رشتوں میں شادیاں کزن میرج نہ کرو کی وضاحت؟

السلام علیکم۔۔
محترم مندرجہ ذیل کے  53 نمبر کا حوالہ تحریر فرما دیجئے اور اس کی مزید وضاحت بھی فرما دیجئے۔ ”خونی رشتوں میں شادیاں نہ کرو۔ (کزن میرج)”
ایس ایم اعوان
……..

قریبی رشتہ دار میں نکاح کی ممانعت شرعی نہیں، تجرباتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شریعت اسلامیہ نے لڑکی کے نکاح میں  اس کے حسب یعنی خاندانی شرافت ودینداری کو معیار اور بنیاد بنایا ہے۔ دینداری، خواہ اقارب میں ہو یا اجانب میں۔ اسے اختیار کیا جائے گا۔ نہ اجانب قابل ترجیح  وترغیب ہیں نہ اقارب قابل نفور۔ ورع وتقوی اور ذہنی ہم آہنگی ویگانگت معیار ہیں خواہ جہاں ملیں۔
اقارب میں شادی کی ممانعت ہے اور نہ غیر خاندان میں شادی کرنے کی ترغیب۔ البتہ رشتہ کے انتخاب کے موقع سے لڑکی کی فطری شرافت، دینداری اور مستقبل میں ذہنی موافقت جیسےامور کا خیال رکھنا بہرحال ضروری ہے۔ اور اگر اپنے قریبی خاندان  میں شادی  کرنا کسی مصلحت  کے خلاف ہو جس میں طبی مصلحت بھی داخل ہے تو پھر دوسرے خاندان  میں شادی کرنا بہتر ہے۔
عن عبدالرزاق عن معمرعن یحیی بن بای  کثیر  قال قال رسول اذا جاءکم من ترضون  امانتہ وخلقہ فانکحوا کائنا من کان فان لاتفعلوا تکن فتنۃ فی الارض وفساد کبیراً واقال عریض (مصنف عبدالرزاق 6:153)
مصنف عبدالرزاق ”میں روایت  ہے کہ آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
جب تمہارے پاس ایسا رشتہ آئے جس کی امانت داری اچھےاخلاق سے تم رضامند ہو تو نکاح کردیا کرو”وہ کوئی بھی ہو” اس  لیے اگر تم ایسا نہیں کروگے تو زمین میں فساد پیدا ہوجائے گا۔)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ (بخاری 762،2 ۔۔۔۔۔
چار چیزوں کی وجہ سے عورت سے شادی کی جاتی ہے۔ مال، حسب، خوبصورتی، دینداری۔
تم دیندار کے ذریعہ کامیابی حاصل کرو (اگر کسی عورت میں یہ چاروں خوبیاں موجود ہوں تو سبحان اللہ! ورنہ دینداری ہی کو معیار وبنیاد بنانا چاہئے)
قرآن کریم نے اس موقع سے تفصیل کے ساتھ ان جائز رشتوں کی نشاندہی کی ہے اور  ناجائز رشتوں کی بھی۔ (سورہ الاحزاب آیت نمبر 50 میں بیان ہے:
“اے نبی ہم نے تمہارے لئے تمہاری وہ بیویاں حلال کردی ہیں جنہوں ان کا مہر دے چکے ہو اور وہ لونڈیاں بھی جو اللہ تعالیٰ نے غنیمت میں تجھے دی ہیں اور تیرے چچا کی لڑکیاں اور پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تمہارے ماموں کی بیٹیاں اور خالائوں کی بیٹیاں بھی جنہوں نے تمہارے ساتھ ہجرت کی ہے اور وہ ایماندار عورت جو اپنا نفس نبی کو ہبہ کردے یہ اس صورت میں کہ خود نبی بھی اس سے نکاح کرنا چاہے، یہ خاص طور پر صرف آپ کے لئے ہی ہے اور مومنوں کے لئے نہیں، ہم اسے بخوبی جانتے ہیں جو ہم نے ان پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں احکام مقرر کر رکھے ہیں، یہ اس لئے کہ تجھ پر حرج واقع نہ ہو،۔ اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔”
جن رشتہ داروں سے نکاح کرنا واقعی مضر، موجب نقصان اور حرام  ہیں ان کا بیان بھی بالتفصیل آیا ہے:
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ مِنْ نِسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَأَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا
(004:023)
تم پر حرام کی گئیں تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں۔ اور تمہاری بہنیں۔ اور تمہاری پھوپھیاں۔ اور تمہاری خالائیں۔ اور بھتیجیاں اور بھانجیاں۔ اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہے (یعنی انا) اور تمہاری وہ بہنیں جو دودھ پینے کی وجہ سے ہیں ۔ اور تمہاری بیبیوں کی مائیں۔ اور تمہاری بیٹیوں کی بیٹیاں۔ جوکہ تمہاری پرورش میں رہتی ہیں ان بیبیوں سے کہ جن کے ساتھ تم نے صحبت کی ہو ۔ اور اگر تم نے ان بیبیوں سے صحبت نہ کی ہو تو تم کو کوئی گناہ نہیں اور تمہارے ان بیٹوں کی بی بیاں جو کہ تمہاری نسل سے ہوں۔ اور یہ کہ تم دو بہنوں کو (رضاعی ہوں یا نسبی) ایک ساتھ رکھو لیکن جو پہلے ہوچکا۔ بیشک اللہ تعالیٰ بڑے بخشنے والے بڑے رحمت والے ہیں۔
ان  جائز النکاح رشتہ داروم میں چچا خالہ اور ماموں کی بیٹیوں سے نکاح کو نبی کے واسطہ سے  امت کے لئے جائز قرار دیا گیا ہے ۔اگر ان قریبی رشتہ داروں میں نکاح جائز نہ ہوتا تو اللہ تعالی اپنے نبی کو اس کی اجازت کیوں مرحمت فرماتے؟  پہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طور پر بھی  رشتہ داری میں نکاح فرماکر اس کے جواز کی راہ کھلی رکھی ہے۔
چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے خود اپنی پھوپھی کی لڑکی زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا اور اپنی لخت جگر فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح چچا کے لڑکے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے کیا ہے۔
ان نصوص کو سامنے رکھنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قریبی ترین رشتہ داروں مثلا کزنس میں شادی کرنے کی ممانعت کہیں سے ثابت نہیں ہے۔ اس سلسلے میں جو شکوک وشبہات پیدا کردیئے گئے ہیں کہ  حضور نے ایسی رشتہ داری سے ممانعت فرمائی ہے نیز یہ کہ قریبی رشتہ داری میں شادی کرنے سے موروثی بیماری منتقل ہوتی ہے اور بچہ جسمانی طور پر  کمزور پیدا ہوتا ہے۔ اس بابت بعض لوگ یہ روایت بھی پیش کرتے ہیں:
“لاتنكحوا القرابة القريبة فإن الولد يخلق ضاويا”
(یعنی قریبی ترین رشتہ داروں میں شادی نہ کرو۔ ورنہ بچہ کمزور ولاغر پیدا ہوگا)
تو خیال رہے کہ یہ یا اس قسم کی حدیث اگرچہ بعض کتابوں  مثلا اتحاف السادة المتقين للزبيدي وغیرہ میں مذکور ہے:
“لاتنکحوا القرابۃ القریبۃ فان الولد یخلق ضاویاً ای نحیفا لیس بمرفوع تذکرۃ الموضوعات للفتی  137)
ان لا تکون من القرابۃ القریبۃ  فان ذالک  یقلل الشھوۃ قال رسول اللہ ﷺ لا تنکحوا القرابۃ القریبۃ فان الولد یخلق ضاویاً ای نحیفا اصلہ ضاووی وزنہ فاعول  (ای نحیفاً) قلیل  الجسم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ ( اتحاف السادۃ المتقین للزبیدی 5:349)
لیکن یہ حدیث صحیح کیا؟ حدیث ہی نہیں ہے۔ یعنی اس کا حدیث ہونا ہی ثابت نہیں ہے۔
(الف) محقق ابن الصلاح فرماتے ہیں “لم أجد له أصلا معتمدا”
تلخيص الحبير للحافظ ٢\١٤٦
(ب) حافظ  شوکانی اسے غیر ثابت مانتے ہوئے موضوعات کی فہرست میں شامل کرتے ہیں:
لاتنکحوا القرابۃ فان الولد یخلق ضاویا نحیفا وال المختصر لیس بمرفوع ( الفوائد المجموعۃ  فی الاحادیث  الموضوعۃ  للشوکانی 131)
(ج )لا تنكِحوا القرابةَ القريبةَ ، فإنَّ الولدَ يُخلَقُ ضاويًا .
الراوي: – المحدث: ابن الملقن /خلاصة البدر المنير – الصفحة: 2/179
والحديث غريب [يعني لا يعلم من رواه كما قال في المقدمة]
(د )لا تَنكحوا القرابةَ القريبةَ فإنَّ الولدَ يُخلقُ ضاويًا .
السبكي (الابن) / طبقات الشافعية الكبرى – الصفحة : 6/310
و الحديث: [لم أجد له إسنادا]
(ھ ) – لا تنكحوا القرابةَ القريبةَ ؛ فإن الولدَ يخلقُ ضاويًا . .
الألباني – السلسلة الضعيفة –  الرقم: 5365
والحدث: لا أصل له مرفوعاً
(و )حافظ طاہر پتنی بھی اسے حدیث ماننے کو تیار نہیں:
لاتنکحوا القرابۃ القریبۃ فان الولد یخلق ضاویاً ای نحیفا لیس بمرفوع تذکرۃ الموضوعات للفتی 137)
اما قول بعض الشافعیۃ یستحب ان لا تکون المراۃ ذات  ۔۔۔الخ ( فتح الباری 135:9)
ہاں اتنا ضرور ہے کہ بالکل قریبی رشتہ داروں میں شادی کرنے سے گھریلو معاملات ونزاعات پریشان کن بنے رہتے ہیں جس کی وجہ سے زوجین کے تعلقات بدمزگی کے شکار رہتے ہیں اور دونوں کے مابین  مودت ومحبت، قلبی لگائو اور دلی میلان ویگانگت کی کمی رہنے کے باعث مرد کا نطفہ کمزور ہوجاتا ہے جو ضعف نسل کا بسااوقات سبب  بن جاتا ہے۔
اسی کے پیش نظر ابراہیم الحربی نے غریب الحدیث  میں ذکر کیا ہے کہ ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خاندان صائب سے کہا تھا کہ تم نے اپنی اولاد کو کمزور کردیا ہے ۔سو اجانب میں نکاح کیا کرو ۔(یعنی بالکل قریبی رشتہ داری میں نکاح نہ کرو) {تلخیص الحبیر٢\١٤٦. بحوالہ شمائل کبری 69/11}
لیکن اس کے باوجود قریبی رشتہ دار میں شادی کرنا شرعا منع نہیں ہے۔ ہاں طبی اور تجرباتی اعتبار سے اگر ذہنی انتشار وخلفشار  کے باعث ایسی شادی کسی کسی کے لئے نقصان دہ ہو تو اسے فائدہ نقصان کو دیکھ کر رائے قائم کرنے کا اختیار ضرور ہے۔لیکن ایسی شادی کا ہمیشہ ہر شخص کے لئے اولاد کی خلقی وجسمانی نقائص کا موجب بننے کا قائل ہونا شرعا درست نہیں۔ اسے قول رسول کے طور پر بیان کرنا بھی ثابت نہیں۔واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
١٩ /جمادی الاولی ١٤٣٩هجري ۔6 فروری 2018 ع  روز منگل
…….
قریبی رشتہ داروں سے نکاح اور طبی ومذہبی حقائق
اللہ تعالیٰ نے نکاح کو مشروع کیا اور اسے انبیاء کی سنت قرار دیا ہے کہ اس کے اندر نسل انسانی کی بقاء اور انسانوں کے ایسے مفادات ومصالح پوشیدہ ہیں جس میں سے کچھ کا ہم علم رکھتے اور کچھ کا نہیں رکھتے ہیں۔
اس وقت بعض گوشوں سے رشتہ داروں سے نکاح پر شکوک وشبہات کا اظہار کیا جاتا اور طرح طرح کی باتیں خلقی نقائص سے متعلق کہی جاتی ہیں، جبکہ ذخیرہ حدیث کو کھنگالنے کے باوجود ہمیںکوئی ایسی صحیح حدیچ نہیں مل سکی جس میں رشتہ داروں اور قریبی لوگوں سے شادی سے منع کیا گیا ہو، بلکہ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
آیتیَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَاجَکَ اللَّاتِیْ آتَیْْتَ أُجُورَہُنَّ وَمَا مَلَکَتْ یَمِیْنُکَ مِمَّا أَفَاء اللَّہُ عَلَیْْکَ وَبَنَاتِ عَمِّکَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِکَ وَبَنَاتِ خَالِکَ وَبَنَاتِ خَالَاتِکَ اللَّاتِیْ ہَاجَرْنَ مَعَکَ وَامْرَأَۃً مُّؤْمِنَۃً إِن وَہَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِیِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِیُّ أَن یَسْتَنکِحَہَا خَالِصَۃً لَّکَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِیْنَ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَیْْہِمْ فِیْ أَزْوَاجِہِمْ وَمَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُہُمْ لِکَیْْلَا یَکُونَ عَلَیْْکَ حَرَجٌ وَکَانَ اللَّہُ غَفُوراً رَّحِیْماً (سورہ الاحزاب آیت نمبر 50)
ترجمہ:اے نبی ہم نے تمہارے لئے تمہاری وہ بیویاں حلال کردی ہیںجنہوں ان کا مہر دے چکے ہو اور وہ لونڈیاں بھی جو اللہ تعالیٰ نے غنیمت میں تجھے دی ہیں اور تیرے چچا کی لڑکیاں اور پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تمہارے ماموں کی بیٹیاں اور خالائوں کی بیٹیاں بھی جنہوں نے تمہارے ساتھ ہجرت کی ہے اور وہ ایماندار عورت جو اپنا نفس نبی کو ہبہ کردے یہ اس صورت میں کہ خود نبی بھی اس سے نکاح کرنا چاہے، یہ خاص طور پر صرف آپ کے لئے ہی ہے اور مومنوں کے لئے نہیں، ہم اسے بخوبی جانتے ہیں جو ہم نے ان پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں احکام مقرر کر رکھے ہیں، یہ اس لئے کہ تجھ پر حرج واقع نہ ہو،۔ اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
رسول اللہ ﷺنے خود اپنی پھوپھی کی لڑکی زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا اور اپنی لخت جگر فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح چچا کے لڑکے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے کیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس طرح کی شادیاں بیماریوں کے منتقل ہونے اور خلقی نقائص امراض کے حامل بچوں کے پیدا ہونے کا سبب نہیں ہوسکتی ہیں کہ یہ دین دین فطرت اور اللہ کا پسندیدہ دین ہے ، ہماری شریعت نے جن رشتوں کو حرام کیا ہے، اس کی وجہ تو ظاہر ہے کہ اس میں اس طرح کے احتمال پائے جاتے ہیں، مگر اللہ نے رشتہ داروں سے نکاح کی اجازت دی ہے جس میں یہ احتمال نہیں اگر احتمال غالب ہوتا تو یقینی طور پر اللہ اس کی اجازت نہیں دیتا۔
ہاںسائنسی انکشافات کی روشنی میںکہا جاسکتا ہے کہ اس طرح کی شادیوں میں ایک موہوم سا احتمال اور نادر حالات پائے جاسکتے ہیں۔
سپریم کونسل برائے اسلامی امور کی سائنسی اعجاز بورڈ کے چیرمین اور قلب وباطنی امراض کے ماہر ڈاکٹر احمد شوقی کا کہنا ہے کہ رشتہ داروں سے نکاح ذریت میں موروثی امراض کے پائے جانے یا اس میں اضافے کا سبب بننے کی بات کسی حال میں بھی درست نہیںہے، ہاں بعض حالات میں کسی حد تک درست ہوسکتے ہیں ، اس لئے رشتہ داروں سے نکاح پر پابندی لگانے کیلئے اس کا سہارا نہیں لیا جاسکتا اور نہ قانون بنایا جاسکتا ہے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ قریبی رشتہ داروں سے نکاح کرنے میں اگر ضرر ہوتا تو اللہ تعالیٰ کسی حال میں اسے جائز وحلال نہیں کرتا، ہاں اگر طبی ٹسٹ اور دوسرے طریقوں سے یاموروثی جین کے ذریعہ اور مرض کی نوعیت وکیفیت سے یقینی طو رپر پتہ چل جائے کہ اس شادی سے اولاد کو نقصان پہنچ سکتا ہے تو اس خاص حالت میں رشتہ داروں سے شادی کرنا اسی طرح مناسب نہیں ہوگا جس طرح اجنبی سے اس احتمال کے ساتھ مناسب نہیں۔ اس لئے لوگوں کو اغیار کے پھیلائے ہوئے توہمات سے متاثر ہوئے بغیر شریعت کے مطابق عمل کرنا چاہیے، اسلام نے جسے حرام کیا ہے، اس سے بچنا چاہیے، اور جسے حلال کیا ہے، اس سے نکاح کرنے میں شکوک وشبہات کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ اگر بظاہر رشتہ داروں میں کوئی ظاہری بیماری یا اس طرح کی صورتحال نہ ہو تو شیطانی وساوس کا شکار نہ ہوں، اللہ پر بھروسہ کریں اور حسن ظن رکھیں، ایک حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
انا عند ظن عبدی بی (طبرانی 7951 بسند صحیح)
میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق سلوک کرتا ہوں اگر اچھا گمان کرتا تو اچھا اور برا گمان کرتا تو برا سلوک کرتا ہوں۔
اس سے متعلق قدرے تفصیل اور معروف مذاہب میں ایسی شادیوں سے متعلق احکام اور سائنسی انکشافات کا تذکرہ آئندہ سطور میں ہم اختصار سے کررہے ہیں۔
قرابت ورشتہ داری میں سب سے اہم و قریب ترین رشتہ باپ ‘بیٹی اور ماں بیٹے کے درمیان ہے، یہ دونوں رشتے باپ یا ماں کی طرف سے خواہ کتنے ہی اوپر یا نیچے تک چلے جائیں ، خاندانی موروثی صفات ایک دوسرے کی طرف منتقل ہوتے رہتے ہیں، جسے HEREDIYARY سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس کے بعد دوسرے نمبر پر بھائی بہن اور اسی طرح کے دوسرے رشتے ہیں، یہ سب کے سب باہم موروثی صفات اور جنیٹک خصوصیات HEREDIYARY میں برابر کے شریک ہوتے ہیں، جدید ٹکنالوجی وماہرین جینیا کی تحقیق کے مطابق ان میں 50 فیصد جینٹیک مادہ ایک دوسرے کی طرف منتقل ہوتے ہیں، اسی لئے نہ صرف اسلام نے بلکہ بیشتر ادیان نے ان کے درمیان شادی اور جنسی تعلقات کے قیام کو ممنوع وحرام قرار دیا ہے کہ ان دونوں کے درمیان جزئیت وبعضیت کا رشتہ پایا جاتا ہے، اور ان سے پیدا ہونے والی اولاد کے اندر خلقی نقائص وبگاڑ اور طرح طرح کے امراض پیدا ہونے کا غالب امکان بلکہ یقین رہتاہے اور ایک دوسرے کے اندر پائی جانے والی بیماریاں دوسرے کی طرف اضافے کے ساتھ منتقل ہوتی ہیں۔
اسی لئے ساری انسانیت سوائے بعض کے اس طرح کے رشتہ داروں وقرابتوں میں شادی کرنے اور جنسی تعلقات قائم کرنے کی مذمت کرتی اور اسے دائمی محرمات میں شمار کرتی ہے‘ لیکن بعض مذاہب یا بعض انسانی سماج ایسا بھی ہے جو اس میں کوئی حرج وعیب تصور نہیں کرتا اور ماں ، بیٹے ،باپ بیٹی، یا بھائی بہن کے ساتھ بھی جنسی تعلقات قائم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
دائمی حرمت والی قرابت ورشتہ داری میں چچا، بھتیجی ، ماموں، بھانجی ، بھتیجا، پھوپھی، بھانجا، وخالہ بھی شامل ہیں جس کی تفصیل خود کتاب اللہ نے اپنی آیتوں میں کردی ہے۔ مگر چچا بھتیجی ، ماموں بھانجی اور اس کے برعکس کے درمیان شادی کو یہودی ، مجوسی اور بعض ہندو فرقوں کے مذاہب جائز وحلال قرار دیتے ہیں جبکہ ان کے درمیان جینٹیک اشتراک ومنتقلی 25 فیصد تک ہوتی ہے اور ایک دوسرے کی بیماریوں کی منتقلی اور بچوں میںخلقی نقائص کا امکان دس فیصد تک ہوتا ہے۔
قرابت داروں میں شادی کے ضمن میں ایک وہ رشتہ بھی ہے جسے اسلام نے حرام قرار نہیں دیا بلکہ اسے مباح وجائز قرار دیاہے، جیسے چچا زاد بھائی بہن اور خالہ زاد بھائی بہن کے درمیان کی شادی ، ان میںجینٹیک منتقلی کا امکان ماہرین کے مطابق ایک فیصد ہوتی ہے، اور پیدا ہونے والی اولاد میں اس سے متاثر ہونے کا امکان اگر ایک سے زائد جینٹیک اشتراک پایا جائے تو ایک سے تین فیصد تک ہوتا ہے۔
اور اگر شادی کرنے والے جوڑے اس رشتہ داری سے ذرا دور کے رشتہ میں ہوں ، مثلاً ماں باپ ، چچائوں کی اولاد میں سے ہوں ، پھر نیچے ان کی اولاد وذریت کے درمیان شادی کا رشتہ قائم کیا جائے مثلاً کسی کا نکاح باپ کے چچا کے لڑکے کی لڑکی سے یا ماں کے چچا کے لڑکے کی لڑکی سے ہو تو یہ شادی بھی اگرچہ رشتہ داروں کے درمیان شادی کے ضمن میں آتی ہے مگر اس میں جینیٹک منتقلی کا امکان 1/46 یعنی بالکل موہوم ہوتا اور خلقی نقائص سے متاثر ہونے کا امکان بالکل تھوڑا بلکہ نہ کے برابر ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ رشتہ داریاں جسے اگرچہ قریبی رشتہ داروں کے درمیان کی شادی کا نام دیا جاتا ہے مگر ان کے درمیان جنیٹک منتقلی نہیں ہوتی، ان میں اور دیگر انسانوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوتا ہے، اس لئے ان کے درمیان موروثی بیماریوں سے متاثر ہونے کا امکان معدوم ہوتا ہے۔
محرمات ورشتہ داروں سے نکاح کی تاریخ:
اللہ تعالیٰ نے سارے انسانوں کو ایک ماں باپ آدم وحواء علیہما السلام سے پیدا کیاہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیْراً وَنِسَاء وَاتَّقُواْ اللّہَ الَّذِیْ تَسَاء لُونَ بِہِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللّہَ کَانَ عَلَیْْکُمْ رَقِیْبا (النسائ)(1)
ترجمہ:اے لوگوں اپنے پروردگار سے ڈر جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کرکے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلادیں، اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناطے توڑنے سے بھی بچو ، بے شک اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے۔
تفسیر کی کتابوں میں مذکور ہے کہ حواء ہر حمل کے اندر دو بچے جنا کرتی تھیں، ایک لڑکا ہوتا تھا او رایک لڑکی ، اور چونکہ ان بھائی بہنوں کے علاوہ اس وقت کوئی اور انسان نہیں تھا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں اجازت دی تھی کہ بھائی اپنی اس بہن سے شادی کرسکتا ہے، جو اس کے ساتھ پیدا نہیں ہوئی ہے، وہ اس نظام وقانون پر اس وقت تک برقرار رہے جب تک کہ ان کی آبادی پھیل نہ گئی، جب ان کی آبادی زیادہ ہوگئی اور کئی نسل آگئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی بھائی بہنوںکے درمیان شادی کرنے اور جنسی تعلقات قائم کرنے سے منع کردیا۔
توریت اور رشتہ داروں سے نکاح:
افسوس کے ساتھ ذکر کرنا پڑ رہا ہے کہ موجودہ تحریف کردہ توریت کے اندر مذکور ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی باپ زادہ بہن سارہ سے نکاح کیا تھا اور سارہ ان کی علاتی بہن تھیں، سفر تکوین اصحاح 20 میں ہے کہ (یہودیوں کے گمان کے مطابق) ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بیوی سارہ (سارای) کو شاہ جرار (ابیمالک) کے حوالے کردیا، تو ان کے عقیدے کے مطابق اللہ تعالیٰ ابیمالک کے پاس رات میں آیا اور اس سے کہا کہ اب تم اس عورت کی وجہ سے مرنے والے ہو، کیونکہ یہ عورت شادی شدہ ہے، اور اس کا شوہر موجود ہے، (سفرالتکوین الاصحاح 4/20) اس کے بعد ابیمالک نے ان کے گمان کے مطابق اس حرکت وکرتوت پر ابراہیم علیہ السلام کی سرزنش کی تو ابراہیم علیہ السلام نے ان کے زعم کے مطابق کہا کہ اس جگہ قطعی اللہ کا خوف نہیں ہے، تو وہ مجھے میری بیوی کی وجہ سے مجھے قتل کردیںگے، اور حقیقت یہ ہے کہ یہ میری باپ زادہ بہن ہے ، البتہ میری ماں کے بطن سے نہیں ہے، اسی لئے میں نے اسے اپنی بیوی بنا لیا ہے۔ (التکوین 13-20/11)
بلا شبہ یہودیوں نے ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں کذب بیانی ، دروغ گوئی اور افتراء پردازی سے کام لیا ہے، ابراہیم علیہ السلام نے قطعی طور پر اپنی باپ زادہ بہن سے شادی نہیں کیا، اسی طرح کا واقعہ توریت میں دوسری جگہ بھی مذکور ہے، سفر تکوین ، اصحاح 26 ظ7-1 میں ہے کہ اسحاق علیہ السلام نے بھی اپنی بیوی کو فلسطینیوں کے بادشاہ ابیمالک کو پیش کیا تھا، (ابیمالک فسلطینیوں کے ہر بادشاہ کا لقب (قیصر وکسری یا فرعون کی طرح ہے) اور اس سے کہا تھا کہ یہ جو عورت میرے ساتھ ہے، یہ اس کی بہن ہے، انہوںنے اسے اپنی بیوی نہیں کہا تھا۔
لوط علیہ السلام کے بارے میں غلط بیانی:
تحریف شدہ توریت کے سفر تکوین ، اصحاح 38-19/30 میں ہے، لوط صوغر سے اوپر چڑھے اور پہاڑ پر سکونت اختیار کی ان کے ساتھ ان کی دو لڑکی تھی، بڑی لڑکی نے چھوٹی سے کہا، میرے والد بوڑھے ہوچکے ہیں، اور روئے زمین پر کوئی ایسا مرد نیہں جو زمین والوں کی عادت کے مطابق ہم سے جنسی تعلق قائم کرسکے، اس لئے آئو والد کو شراب پلا دیتے ہیں اور ان کے ساتھ لیٹ جاتے ہیں، اس طرح ہم اپنے باپ کی نسل کو زندہ اور باقی رکھ سکتے ہیں‘ ان دونوں نے (نعوذباللہ) اپنے والد لوط علیہ السلام کو اس رات شراب پلا دیا، اور بڑی والی اپنے باپ کے ساتھ لیٹ گئی، لوط علیہ السلام کو اس کے سونے اور اٹھنے کا علم نہیں ہوسکا۔ اسی طرح بڑی کے بعد چھوٹی نے بھی کیا۔ ان دونوں کو باپ سے حمل قرار پاگیا۔ بڑی کو لڑکا ہوا جس کا نام موآب رکھا اور یہی اب تک موآبیوں کے جد امجد ہیں اور چھوٹی والی کو بھی لڑکا پیدا ہو جس کانام بن عمی رکھا اور یہی آج تک عمونیوں کے جد امجد ہیں۔
سفر تکوین اصحاح 25/22 میں ہے کہ یعقوب علیہ السلام کے بڑے لڑکے روابین اپنے والد کی باندی اور اپنے بھائیوں کی ماں بلھجۃکے پاس گیا اور اس کے ساتھ سوگیا، یعقوب علیہ السلام کو اس کی اطلاع ملی اور پتہ چلا کہ بیٹے نے بلہۃ کے ساتھ جنسی تعلق قائم کیا ہے مگر (نعوذباللہ) یہودیوں کے عقیدے کے مطابق یعقوب اس سے ناراض نہیںہوئے اور نہ ہی اس سے انہیں کسی طرح کی الجھن ہوئی بلکہ انہوںنے بیٹے روابین کو اس پر مبارکباد دی ۔
سفر تکوین اصحاح 29/13 میں ہے کہ یعقوب نے راحیل سے شادی کی اور اسے بتایا کہ وہ ان کے والد کے بھائی یعنی چچا ہیں، اس سے پہلے انہوں نے ان کی بہن لینہ سے شادی کی تھی، اسی طرح یہ کہانی سفر تکوین اصحاح 9 میں بھی مذکور ہے بلا شبہ یہودیوں کی یہ اوراس طرح کی باتیں سراسر کذب بیانی ودروغ گوئی اور انبیاء علیہ السلام پر افتراء پردازی ہے۔
اس طرح کے واقعات انہوںنے زناکاری وبدکاری اور اخلاقی گراوٹ وبے راہ روی کو حلال وجائز کرنے کے مقصد سے گھڑے ہیں، سفر خروج اصحاح ثانی میں ہے کہ عمرام (موسیٰ علیہ السلام کے والد عمران) نے خود اپنی پھوپھی یوکابید سے نکاح کیا جس سے انہیں دو بچے موسیٰ او رہارون اور کئی بچیاں پیدا ہوئیں، اسی لئے یہود پھوپھی ، بھتیجی ، بھانجی اور خالہ سے نکاح کو حلال وجائز قرار دیتے ہیں۔
اس کے باوجود کہ سفر لاویین میں ان محارم کو متعین کردیا گیا ہے جن سے نکاح کرنا مناسب نہیں بلکہ حرام ہے ، مگر اس میں بھی چچا کا بھتیجی سے یا ماموں کا بھانجی سے نکاح کرنے کی اجازت دی گئی اور اسے حلال قرار دیا گیا ہے، اس کی عبارت ہے۔
اپنے باپ اور اپنی ماں کے ستر کو نہ کھولو‘ اپنے باپ کی بیوی کا ستر نہ کھولو، اپنے باپ کی بیٹی یا ماں کی بیٹی یعنی بہن کا ستر نہ کھولو، جو اس گھر میں پیدا ہوئی ہو یا باہر پیدا ہوئی ہو۔ (اندر اور باہر پیدا ہونے کی تفسیر ایسی بہن سے ہے جو ماں شریک یا باپ شریک ہو خواہ مشروع نکاح کے ذریعہ پیدا ہوئی ہو یا زنا سے) ماں کی بہن یعنی خالہ کا ستر نہ کھولو، اپنے باپ کی بہن کا ستر نہ کھولو اور باپ کی بیوی سے قریب مت ہو، اپنے بھائی کی بیوی کا ستر نہ کھولو، اور اپنے ساتھی کی بیوی کے ساتھ ایک بستر پر نہ سوئواور کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ نہ سوئے، (ہم بستری نہ کرے) اور نہ کسی جانور چوپائے کے ساتھ لیٹے (ہم بستری وبدفعلی کرے) اور جو کوئی یہ گندی حرکت کرے گا اور نجاست میں پڑے گا تو اس کے کئے پر اسے قتل کردیا جائے گا۔ (سفرلادیین 29-18/7)
سفر لاویین میں زنا کی سزا سنگسار (رجم) یا نذر آتش کردینا ہے، خاص طور پر جبکہ لڑکی باکپاز کی لڑکی ہو‘ (اصحاح 21/20/10 ، انہوں نے دائودعلیہ السلام پر بھی بہتان باندھنے اور دروغ گوئی سے باز نہیں آئے، انہوںنے لکھ دیا کہ (نعوذباللہ) دائود علیہ السلام نے اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کیا پھر سازش کرکے نہایت ذلت آمیز ورسوا کن طریقہ پر اس کے شوہر کو قتل کرادیا۔ (سفر صموئیل اصحاح 15-11/2) یہودیوں کا کہنا ہے کہ دائود علیہ السلام کے بیٹے ادوینا نے اپنی بہن ثامار کے ساتھ زنا کیا جو اسرائیلی حکیم ودانا شخص یوناداب کی نصیحت کی بنیاد پر ہوا۔ اس زنا کے بعد ثامار نے زنا کرنے والے اپنے بھائی سے کہا کہ اب جا کے بادشاہ (والد دائود علیہ السلام) سے بات کرو، کیونکہ وہی مجھے تم سے جنسی تعلق قائم کرنے سے منع نہیں کیا کرتے تھے، یعنی شادی کرنے سے مگر انہوں نے شادی کرنے سے تو انکار کردیا البتہ ان کے ساتھ زنا کیا۔
(دیکھیں۔ سفر صموئیل ثانی اصحاح 16/13/1)
یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ دائود علیہ السلام کے بیٹے ادوینا نے باپ کی بیوی (سوتیلی ماں) کے ساتھ جنسی تعلق قائم کیا یہ ابیشح شومینہ کی چھوٹی بیٹی تھی، اور جب باپ کا انتقال ہوگیا تو اس نے اپنی سوتیلی ماں سے شادی کرلی۔ (سفر ملوک اول 22-2/13) ماں کی بیوی سے ادوینا کا نکاح خود ان کے بھائی سلیمان علیہ السلام نے کرایا تھا۔ اور یہ شادی کرانے میں درمیان میں واسطہ سلیمان علیہ السلام کی ماں بتشبع تھیں، یہ وہی بیوی ہیں جس کے ساتھ (نعوذباللہ) ان کے گمان کے مطابق دائود علیہ السلام نے زنا کیا تھا اور اس کے شوہر اوریا کو قتل کرادیا تھا۔ اور اسے قتل کرنے کے بعد اس سے شادی کرلی تھی، اور اسی کے بطن سے سلیمان علیہ السلام پیدا ہوئے تھے۔
یہودو نصاریٰ کی کتاب مقدس میں اس طرح کی دروغ گوئی وبہتان تراشی پر مبنی واقعات ومن گھڑت کہانیاں بے شمار ہیں، اس میں سے یہاں پر بطور مثال چند ہی کو ذکر کیا گیا ہے، انکی کتاب مقدس کے اس حصہ کو توریت عہد قدیم سے تعبیر کیا جاتا ہے، جس میں پانچوں وسفارہیں، اس میں وہ اسفار بھی درج ہیں جو موسیٰ علیہ السلام کے بعد ان کے خیال میں اس میں شامل کردیئے گئے۔
دوسری قومیں اور قرابت داروں سے نکاح
فراعنہ مصر کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بھائی بہن کے درمیان شادی کو نہ صرف جائز سمجھتے تھے بلکہ اسے ترجیح دیا کرتے تھے ، فراعنہ مصر کی بیشتر بیگمات ‘ملکہ ‘کی شادیاں بھائیوں سے ہوئی تھیں ملکہ نفرتیتی نے یکے بعد دیگر اپنے بھائیوں سے شادی کی، فراعنہ کے درمیان بھائی بہن کی شادی کا رواج بطالسوں یا بطلسوں کے دور تک جاری رہا، یہ بطلس اسکندر مقدونی کے خلفاء وجانشین تھے جس اسکندر نے طویل عرصہ تک مصر پر حکومت کی تھی ان کی وراجدھانی اسکندریہ تھی۔ اس شہر کو چار صدی قبل مسیح اسکندر مقدونی نے بسایا تھا، اور یہی ملکہ کیلو پترہ کے زمانہ میں رومانی دورحکومت تک راجدھانی برقراررہا تھا‘ یونان کے مشہور حکیم وماہر ادویات دیودورس صقلی جن کی زندگی اسکندریہ میں گذری تھی نے ذکر کیا ہیکہ بھائی بہن کے درمیان شادیوں کا رواج بطالسہ جسے بطالمہ بھی کہا جاتا ہے کہ زمانہ تک جاری تھا۔
فراعنہ مصر ہی کی طرح اہل فارس بھی بھائی بہن کے درمیان شادی کو درست قرار دیتے تھے، ہیرو دتس ، اور فیلون اسکندری جیسے بے شمار مورخین نے اس کا ذکر کیا ہے، فقہاء اسلام میں سے بھی بہتوں نے لکھا ہے کہ مجوس نہ صرف بھائی بہن کے درمیان شادی اور جنسی تعلق قائم کرنے کو جائز سمجھتے ہیں بلکہ چچا ، بھتیجی ، بھتیجا ، پھوپھی ، ماموں ، بھانجی اور بھانجہ وخالہ کے درمیان شادی کو بھی جائز سمجھتے ہیں، فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی مجوسی عورت اسلام قبول کرتی ہے تو اس کے مجوسی باپ چچا ماموں اور بھائی اسکے محرم نہیں ہوںگے اور نہ وہ ان کے ساتھ سفر کرسکتی ہے، بلکہ انہوںنے تو یہ بھی لکھا ہے کہ اس کے لئے ان قریبی رشتہ داروں کے ساتھ رہنا بھی درست نہیں ہے۔ حافظ ابن قیم اپنی کتاب ’’احکام اھل الذمہ‘‘ میں امام احمد بن حنبل علیہ الرحمۃ کا قول نقل کرتے ہیں کہ امام صاحب سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی مسلمان عورت کا لڑکا مجوسی ہو اور وہ سفر کرنا چاہے تو اس کا یہ لڑکا اس کے لئے محرم ہوسکتا ہے کہ اس کے ساتھ سفر کرسکے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں وہ مجوسی لڑکا مسلمان ماں کا محرم نہیںہوگا، کیونکہ وہ ماں سے نکاح کو جائز سمجھتا ہے، تو وہ کس طرح ایسی ماں کے لئے محرم بن سکتا ہے۔
قریبی رشتہ داروں سے نکاح کے بارے میں ہندوستان کے ہندو بھائیوں کا عقیدہ قدرے مختلف ہے، شمالی ہند میں مرد کی جانب سے ساتویں پشت تک اور عورت کی جانب سے پانچویں پشت تک رشتہ داروں سے نکاح کرنا حرام ہے، جبکہ جنوبی ہند کے ہندو چچا کا اپنی بھتیجی سے او رماموں کا اپنی بھانجی سے نکاح کرنے کو ترجیح دیتے اور اسے افضل ترین قرار دیتے ہیں، اس طرح کا رواج آنداپردیش ، کرناٹک، تامل ناڈو، اور قریب کے صوبوں میں عام ہے، یہاں کے ہندو بھائی اپنی خالہ اور اپنے ماموں سے شادی کرنے کو افضل قرار دیتے ہیں، بہن اپنی لڑکی کی شادی اپنے بھائی سے کرنے کو اپنا اولین حق سمجھتی ہے، اور سب سے پہلے اسی سے رشتہ مطلوب ہوتا ہے، اگر وہ تیار نہ ہو تب دوسروں سے رشتہ کیلئے رخ کیا جاتا ہے، جبکہ شمالی ہند کے ہندو اور سکھ مذہب کے پیروکار اسے سخت معیوب اور حرام سمجھتے ہیں۔
عیسائیت اور قرابت داروں سے شادی
کیتھولک اور آرتھوذکس چرچ قریبی رشتہ داروں سے نکاح کو ممنوع قرر دیتے ہیں، یہاں تک کہ چچا کے لڑکے اور ماموںکے لڑکے ولڑکی سے بھی نکاح کی اجازت نہیں دیتے، بلکہ بعض عیسائی تو والد یا والدہ کے چچا کی لڑکی سے بھی نکاح کو ممنوع قرار دیتے ہیں البتہ اس میں کیتھولک چرچ کی اجازت سے گنجائش نکالی جاتی ہے، کہ چچا اور ماموں خالہ کی اولاد سے چرچ کے خصوصی اجازت نامے کے ذریعہ شادی کرسکتے ہیں‘ البتہ پروٹسٹن چرچ چچا پھوپھی اور خالہ ماموں کی اولاد سے نکاح کو جائز قرار دیتا ہے، بلکہ شادی کے لئے سب سے بہترین رشتہ یا جوڑی والد یا والدہ کے چچا کی لڑکی ہوتی ہے، اس شدت کے باوجود بورجیا فیملی سے تعلق رکھنے والے اور فسق وفجور میں مشہور چھٹے پوپ اسکندر (1503-1492ئ) خود اپنی لڑکی سے ناجائز تعلقات قائم کئے ہوئے اور اپنی لڑکی لوکریزا کے عشق میں گرفتار ہو کر اسے اپنی ہوس کا شکار بنائے ہوئے تھے، لوکریزا نے اپنے باپ کے نطفے سے بچے پیدا کئے ، بابا اسکندر کا لڑکا سیراز بھی اپنی اسی بہن سے جنسی تعلق قائم کئے ہوا تھا، اور باپ بھائی دونوں اسے اپنی ہوس کا شکار اس کی رضا مندی وخوشی سے بنائے ہوئے تھے۔
بودھ مذہب میں قریبی شتہ داروں سے نکاح:
بودھ مذہب کے پیروکار بھی قریبی رشتہ داروں سے نکاح کو ناجائز سمجھتے ہیں وہ چچا پھوپھی اور خالہ وماموں کی اولاد سے بھی نکاح کی اجازت نہیں دیتے، اس کے برعکس سکھ مذہب کے متبعین چچا ، پھوپھی اور ماموں وخالہ کے بچوں سے نکاح کی اجازت دیتے ہیں۔
قرابت داروں سے شادی اور ملکی قانون:
اس مسئلہ سے متعلق ہر ملک کا قانون مختلف ہے، بلکہ ایک ہی ملک کے مختلف علاقوں کا دستور جداگانہ ہے، مثال کے طور پر ریاست ہائے امریکہ متحدہ کے مختلف صوبوں کا قانون مختلف ہے، برطانیہ واسٹریلیا میںچچا ، پھوپھی اور ماموں وخالہ کی اولاد سے شادی جائز ہے جبکہ یہی امریکہ کے آٹھ صوبوں میں قانونا جرم اور 31 صوبوں میں خلاف قانون ہے۔ اس کے ساتھ ہی جزیرہ روڈ یہودیوں کو اجازت دیتا ہے کہ کوئی یہودی شخص اپنی بھتیجی یا بھانجی سے شادی کرسکتاہے۔
شادی سے متعلق ہندوستانی قانون بابت 1955 چچا کا اپنی بتھیجی سے اور ماموں کا اپنی بھانجی سے نکاح کو خلاف قانون قرار دیتاہے، مگر اس قانون کے باوجود صوبہ کرناٹک کے دو شہروں میسور وبنگلور میں 1980 اور 1989ء کے درمیان جتنی شادیاں ہندوئوں میں ہوئی ہیں، انمیں 21,3 فیصد بیویاں یا تو بھتیجی یا بھانجی تھیں، یعنی چچائوں نے اپنی بھتیجیوں سے اور ماموئوں نے اپنی بھانجیوں سے شادی کی ہیں۔
اسلام سے پہلے اور اس کے بعد عربوں میں محارم کا تصور
عرب دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرتے تھے، مگر اسلام نے آنے کے بعد جمع بین الاختین سے روک دیا، اسی طرح عرب باپ کی بیوی سے نکاح کرنے کو جائز سمجھتے تھے جسے اسلام نے منع کردیا اور اسے قطعی حرام قرار دے دیا، ان کے نزدیک بیویوں کی تعداد میں کوئی تحدید نہیں تھی وہ جتنا چاہیں شادی کرسکتے اور ایک ساتھ انہیں اپنی زوجیت میں رکھ سکتے تھے مگر اسلام نے اس تعداد کو چار کے اندر محدود کردیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
وَلاَ تَنکِحُواْ مَا نَکَحَ آبَاؤُکُم مِّنَ النِّسَاء إِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّہُ کَانَ فَاحِشَۃً وَمَقْتاً وَسَاء سَبِیْلاً(22) حُرِّمَتْ عَلَیْْکُمْ أُمَّہَاتُکُمْ وَبَنَاتُکُمْ وَأَخَوَاتُکُمْ وَعَمَّاتُکُمْ وَخَالاَتُکُمْ وَبَنَاتُ الأَخِ وَبَنَاتُ الأُخْتِ وَأُمَّہَاتُکُمُ اللاَّتِیْ أَرْضَعْنَکُمْ وَأَخَوَاتُکُم مِّنَ الرَّضَاعَۃِ وَأُمَّہَاتُ نِسَآئِکُمْ وَرَبَائِبُکُمُ اللاَّتِیْ فِیْ حُجُورِکُم مِّن نِّسَآئِکُمُ اللاَّتِیْ دَخَلْتُم بِہِنَّ فَإِن لَّمْ تَکُونُواْ دَخَلْتُم بِہِنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْکُمْ وَحَلاَئِلُ أَبْنَائِکُمُ الَّذِیْنَ مِنْ أَصْلاَبِکُمْ وَأَن تَجْمَعُواْ بَیْْنَ الأُخْتَیْْنِ إَلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللّہَ کَانَ غَفُوراً رَّحِیْماً(23) وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاء إِلاَّ مَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُکُمْ کِتَابَ اللّہِ عَلَیْْکُمْ وَأُحِلَّ لَکُم مَّا وَرَاء ذَلِکُمْ أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَالِکُم مُّحْصِنِیْنَ غَیْْرَ مُسَافِحِیْنَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِہِ مِنْہُنَّ فَآتُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ فَرِیْضَۃً وَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْکُمْ فِیْمَا تَرَاضَیْْتُم بِہِ مِن بَعْدِ الْفَرِیْضَۃِ إِنَّ اللّہَ کَانَ عَلِیْماً حَکِیْماً(سورہ نساء آیت 22 تا 24)
اس آیت کریمہ نے واضح کردیا ہے کہ کونسی عورتیں مردوں پر حرام ہیں، اور ان سے نکاح کرنا درست نہیں ہے اس آیت نے محارم کے سلسلہ کو ذکر کرتے ہوئے ماں اور اس کے اوپر (نانی وپرنانی) بیٹی اور اس کے نیچے پوتی وپڑپوتی اور بہنوں کو ذکر کیا ہے، بہن میں رضاعی بہن بھی شامل ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رضاعت سے بھی وہی حرمت آتی ہے جو نسب کی وجہ سے آتی ہے’’ یحرم من الرضاع ما یحرم من النسب‘‘ اسی طرح پھوپھی اوپر تک بھی حرام ہے، جیسے باپ، یا دادا کی پھوپھی اور خالائیں جس میں باپ اور ماںکی خالائیں بھی شامل ہیں، اسی طرح بھائی بہن، کی لڑکیاں نیچے تک اور وہ مائیں بھی حرام ہیںجنہوں نے دودھ پلایا ہو اور رضاعی بھائی بہن اور باپ بھی یعنی نسب سے جر حرمتیں آتی ہیں‘ رضاعت کی وجہ سے بھی آتی ہیں، بیوی کی لڑکی بھی حرام ہے، خواہ وہ لڑکی ماں کے پاس ہو یا نہ ہو لیکن اس لڑکی کی حرمت اس وقت آتی ہے جبکہ ماں سے نکاح کے ذریعہ جنسی تعلق قائم کرلیا ہو‘ اگر ماں سے صرف نکاح ہوا ہے، دخول نہیں ہوا ہے تو یہ لڑکی حرام نہیں ہوگی، اس لئے دخول کے بغیر ماں کو اگر طلاق ہوجائے تو اس کی اس لڑکی سے نکاح درست ہوگا، لڑکے کی بیوی باپ پر محض لڑکے کے نکاح کرلینے سے ہمیشہ کیلئے حرام ہوجائے گی خواہ لڑکے نے اس سے دخول کیا ہو یا نہ کیا ہو، اسی طرح بیوی کی ماں (یعنی ساس) شوہر پر محض نکاح کرلینے سے ہمیشہ کیلئے حرام ہوجائے گی چاہے شوہر نے اپنی بیوی سے دخول نہ کیا ہو، انہیں محرمات میں سے دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرنا بھی ہے، اس کے علاوہ حدیث نے عورت اور پھوپھی اور عورت اور اس کی خالہ کو نکاح میں جمع کرنے سے روک دیا ہے، اس کے علاوہ عورتوں سے اسلام نے نکاح کو حلال وجائز قرار دیا ہے۔ بشرطیکہ وہ عورت محصنہ یعنی کسی کی زوجیت میں نہ ہو، اور عدت کے ایام زوجیت میں رہنے کے حکم میں ہے، اسلام نے زوجیت میں صرف چار عورتوں کو رکھنے کی اجازت دی ہے لیکن اس کی اجازت بھی اس شرط کے ساتھ ہے کہ وہ ان چاروں کے ساتھ عدل اور مساویانہ سلوک کرسکے، اور اگر عدل کا یقین نہ ہو بلکہ امکان ہو کہ کسی کے ساتھ مساویانہ سلوک کرنے (شب گذاری ونفقہ اور دادودہش میں نہ کہ ہم بستری یاقلبی میلان میں) میںکوتاہی ہوسکتی ہے تو اس کے لئے ایک سے زائد نکاح کرنا درست نہیں ہے، اس کیلئے ضروری ہے کہ صرف ایک پر اکتفا کرے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
وَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تُقْسِطُواْ فِیْ الْیَتَامَی فَانکِحُواْ مَا طَابَ لَکُم مِّنَ النِّسَاء مَثْنَی وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَۃً أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُکُمْ ذَلِکَ أَدْنَی أَلاَّ تَعُولُواْ(سورہ نساء آیت 3)
اگر کوئی شخص اسلام قبول کرے اور اس کے پاس چار سے زائد بیویاں ہوں تو وہ چار کو رکھ کر باقی کو جدا کردے گا، کسے رکھے اور کسے علاحدہ کریگا، اس میں فقہاء کا اختلاف ہے، احناف پہلے کی چار کو رکھ کر بعد والیوں کو علحدہ کرنے کیلئے کہتے ہیں جبکہ جمہور اختیار دیتے ہیں کہ ان میں سے جنہیں چاہے چار کو رکھے اور جسے چاہے علحدہ کردے پھر اس علحدگی سے متعلق عدت ، نسب اور دیگر احکام کی تفصیل ہے، اور بعض میں فقہاء کا اختلاف بھی ہے کہ یہ فرقت طلاق ہوگی یا فسخ۔
اسلامی معاشرہ میںغیر مسلموں کے ساتھ رواداری:
مسلم ملکوں کے اندر دیگر ادیان ومذاہب کے ساتھ مسلمانوں کی رواداری ورکھ رکھائو کی طویل تاریخ ہے، غیر مسلم برادران وطن جب تک جزیہ ادا کرتے رہیںگے ان کے ساتھ مسلمانوں کا سا ہی سلوک رکھنا اور مکمل رواداری برتنا ضروری ہے، پوری اسلامی تاریخ میں مسلمان اپنے غیر مسلم ہم وطنوں کے ساتھ یہی سلوک کرتے رہے ہیں، حافظ ابن قیم اپنی کتاب احکام اھل الذمہ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں :
’’ہم اہل ذمہ کو ان کے فاسد نکاحوں پر دو شرطوں کے ساتھ برقرار رکھنے کے پابند ہیں، ایک شرط تو یہ ہیکہ وہ اس تعلق سے ہم سے فیصلہ طلب نہ کریں اور دوسری شرط یہ ہے کہ ان کے دین میں اس نکاح کے جائز ودرست ہونے کا انہیں اعتقاد ہو‘‘۔
مثال کے طور پر یہود اپنے تحریف کردہ دین میں چچا کا اپنی بھتیجی سے اور ماموں کا اپنی بھانجی سے اور اس کے برعکس کے نکاح کو جائز سمجھتے ہیں تو چونکہ یہ ان کے دین ومذہب میں درست ہے ہم انہیں اس سے نہیں روکیںگے۔
اسی طرح وہ بہت سے محارم سے نکاح کو درست سمجھتے اور خیال کرتے ہیں کہ ان کا دین ومذہب انہیں اس کی اجازت دیتا ہے، اس لئے ہم انہیں نہیں روکیںگے، ہاں اگر وہ ہم سے فیصلہ کرانا چاہیںگے تو ہم اپنے دین ومذہب کی تعلیمات کے مطابق انہیں محارم سے نکاح کرنے سے روک دیںگے۔ البتہ اس کے بارے میں امام احمد بن حنبلؒ سے دو قول منقول ہے ‘ایک تو یہ ہے کہ ایسا کرنا ان کے لئے جائز ہوگا، بشرطیکہ وہ ہم سے فیصلہ نہ کروائیں، اور دوسرا یہ کہ انہیںمحارم سے نکاح کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ حضرت عمرؓ ان کے اندر بھی محارم سے نکاح کے جائز نہ ہونے کے قائل تھے، اور وہ کہتے تھے کہ اگرکوئی محارم سے نکاح کرے تو ان کے درمیان تفریق کردی جائے گی، مگر یہ حضرت عمر کا اجتہاد تھا، جبکہ دوسرے صحابہ اس کے جواز کے قائل تھے۔کیونکہ رسول ﷺنے فرمایا:
’’سنو بہم سنۃ اہل الکتاب‘‘ (اخرجہ مالک فی المؤطا1/278/42)
رسول اللہ صلعم نے علاء بن الحضرمی کو جب بحرین بھیجا تو بحرین والے اگرچہ مجوسی تھے، ان کی مذمت نہیںکی۔
اہل کتاب اور مجوسیوں میں سے کوئی بھی اہل ذمہ اگر اسلام لائے اور اس کی بیوی اسلام قبول کرلے تو بیوی اگر محارم میں سے ہوگی تو ان دونوں کے درمیان تفریق کردی جائے گی، اور اگر وہ محارم میں سے نہیں ہوںگے تو حسب سابق زوجین برقرار رہیںگے، تجدید نکاح کی ضرورت نہیں ہوگی۔
امام احمد نے کافر کو اجازت نہیں دی ہے کہ وہ اپنی مسلمان بیٹی کے ساتھ سفر کرے کیونکہ وہ اس کے لئے محرم نہیں ہے، اور مجوس کا معاملہ تو اس سے بھی زیادہ سخت ہے کہ وہ تو بیٹی سے بھی نکاح کو جائز سمجھتے ہیں۔
عجیب مضحکہ خیز بات ہے کہ اہل مغرب جو جمہوریت اور مذہبی آزادی کا دعویٰ کرتے اور اس کی صدا بلند کرتے رہتے ہیں،وہ مسلمانوں کو ایک سے زیادہ شادی کرنے کی اجازت نہیں دیتے اور اگر پہلے سے اس کے پاس ایک سے زیادہ بیوی ہو تو انہیں سبھوں کو رکھنے کی اجازت نہیں دیتے بلکہ صرف ایک کو رکھنے کی اجازت دیتے ہیں جبکہ مسلمان اپنے ملک میں غیر مسلموں کو فاسد نکاحوں کی بھی اجازت دیتے اور محارم سے نکاح پر بھی پابندی عائد نہیںکرتے ہیں، جیسا کہ یہودی مسلم ملک میں اپنی بھتیجی اور بھانجی سے نکاح کرلیتے ہیں، یا جیسا کہ مجوسی بہن بیٹی ہر ایک سے نکاح کو روا رکھتے ہیں۔
ماموں، خالہ، چچا اور پھوپھی کی لڑکی سے شادی:
عرب سمجھتے تھے کہ رشتہ داروں سے نکاح خاندانی تعلقات کو مضبوط بناتے اور ایک خاندان کے افراد کے درمیان الفت ومحبت اور اتحاد ویکجہتی کو فروغ دیتے ہیں، اس کے ساتھ ہی انہیں یہ احساس بھی تھا کہ اجنبیوں میں نکاح زیادہ نجابت وخلقی بہتری کا سبب ہوتاہے، یعنی ان عورتوں سے پیدا ہونے والے بچے جسمانی وذہنی طور پر زیادہ بہتر ہوتے ہیں، خاندانی وقبائلی ارتباط اور سماج میں اس کی اہمیت کی بنیاد پر اسلام نے چچا ، پھوپھی خالہ اور ماموں کی لڑکی سے نکاح کو درست قرار دیا، طبی طور پر یہ طے شدہ بات ہے کہ پہلے درجہ کے چچا کی لڑکی والد کے چچا کی لڑکی ، ماموںکی لڑکی ، والدہ کے چچا کی لڑکی یا خالہ کی لڑکی یا چچائوں وخالائوں کے لڑکے موروثی جنیٹنگ مادے میں 1/8 آٹھواں حصہ میں شریک ہوتے ہیں، جبکہ دوسرے درجہ اور اوپر کے چچائوں خالائوں اورماموئوں کی اولاد میں یہ جینٹنک موروثی مادہ 1/64 پایا جاتاہے، اس کا مطلب ہے کہ ان موروثوں سے شادی میں موروثی بیماریوں کا احتمال بہت ہی کم اور نہ کے برابر ہے البتہ خاندان کے ایسے لوگ جو جد بعید یعنی پڑ دادا اور اس سے اوپر جا کر ملتے ہیں، ان کے درمیان موروثی بیماریوں سے متاثر ہونے کا امکان معدوم ہے، ان سے نکاح یا اجنبی وخاندان سے باہر نکاح کرنا بالکل برابر ہے، خود رسول اللہ ﷺنے اپنی پھوپھی کی لڑکی زینب بنت جحش سے نکاح کیا اور اپنی لخت جگر فاطمہ کا نکاح اپنے چچا ابوطالب کے صاحبزادے علی ؓ سے کیا۔ زینب بنت جحش تو دیگر ازواج مطہرات پر اس بات پر فخر کیا کرتی تھیں کہ ان کا نکاح ساتوں آسمان کے اوپر خود اللہ تعالیٰ نے کیا ہے جبکہ دیگر ازواج مطہرات کا نکاح ان کے آباء نے کئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
فلما قضی (الاحزاب:37)
اس آیت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے متنبی بنانے سے متعلق عربوں کے عقیدے کا خاتمہ کیا ہے‘ زید کو رسول اللہ صلعم نے بعثت سے قبل اپنا متبنی بنالیا تھا جبکہ وہ اپنے والدین کے ساتھ جانے سے انکار کردیا تھا۔ ان کے والدین یمن سے انہیں واپس لینے کیلئے تلاش کرتے ہوئے یہاں پہنچے تھے، مگر انہوںنے والدین کے ساتھ جانے کے بجائے رسول ﷺ، کی خدمت میں رہنا پسند کیا ، پھر اس آیت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ متبنی کے متعارف طریقہ کو ختم کردیا۔
ْ وَمَا جَعَلَ أَدْعِیَاء کُمْ أَبْنَاء کُمْ ذَلِکُمْ قَوْلُکُم بِأَفْوَاہِکُمْ وَاللَّہُ یَقُولُ الْحَقَّ وَہُوَ یَہْدِیْ السَّبِیْلَ (4)
مغرب کو آج بھی متبنی بنانے کی مشکلات کا سامنا ہے،انکے حرام وناجائز تعلقات متبنی کے بھائی بہن کے ستھ قائم ہوتے ہیں اور اکثر وبیشتر متبنی بنانے والے باپ اور متبنی بنائی ہوئی لڑکی کے درمیان ناجائز جسنی تعلقات قائم ہوتے ہیں، اوریہ ایک دوسرے سے اپنی ہوس پوری کرتے رہتے اور باپ بیٹی بھی کہلاتے رہتے ہیں، بحمد اللہ اس طرح کے مشکلات کہیں بھی مسلم سماج میں نہیں پائی جاتی ہیں۔
رشتہ داروں سے نکاح کا موروثی بیماریوں کے پیدا ہونے پر اثر:
موروثی بیماریاں جو شاز ونادر پیدا ہوا کرتی ہیں، اس کے پیدا ہونے کا احتمال اس وقت بڑھ جاتا ہے جبکہ چچا، پھوپھی، ماموں یا خالہ کی لڑکی سے نکاح کیا جائے کیونکہ چچائوں اور ماموں وخالائوں کی اولادیں موجود جینیٹک مادے میں آٹھویں 1/8 حصہ کے شریک ہوتے ہیں، اس لئے ان سے پید اہونے والے بچوں میں موروثی بیماریوں کے ساتھ پیدا ہونے کا احتمال ایسے سماج کے مقابلہ میں دوسے تین فیصد تک بڑھ جاتا ہے جس سماج میں رشہ داروں سے شادی نہیں ہوتی ہے، مگر بچوں کے خلقی نقائص کے ساتھ پید ہونے کے کئی اسباب ووجوہات اور بھی ہیں ،رابطہ عالم اسلامی کے فقہی مجلہ میں رشتہ داروں سے نکاح کے مثبت ومنفی اثرات سے متعلق ایک مقالہ ڈاکٹر سالم نجم کا شائع ہوا ہے ، انہوں نے مکہ مکرمہ کی ایک بڑی فیملی کی چار نسلوں میں سے 984 افراد کی تحقیق کی ہے، انہوں نے لکھا ہے کہ پہلے اور دوسرے درجہ کے قریبی رشتہ داروں یعنی چچائوں اور خالہ وماموئوں کی اولاد کے درمیان ہونے والی شادیوں کا تناسب 79 فیصد تھا، اور تیسرے وچوتھے درجے کے رشتہ داروں میں 56 فیصد مگر اس قرابتی رشتہ ازدواج کے باوجود ان میں ایسے ذہین اور جسمانی طور پر مکمل صحت مند وعمدہ بچے پیدا ہوئے جو سماج کے عام معیار سے زیادہ فائق اور بہتر تھے۔
اس پورے خاندان میں اس کے پھیلے اور بڑے ہونے کے باوجود مرد وعورت میں کوئی ایک فرد بھی ناخواندہ نہیں تھا بلکہ اکثر اونچی تعلیم یافتہ ادباء ، علماء ، سفارتکار ، اطبائ، اور ماہرین پیدا ہوئے، پورے خاندان میں کوئی ایک بھی بچہ خلقی نقائص کے ساتھ پیدا نہیں ہوا، اور نہ کسی کے عقلی وذہنی سطح میں کسی طرح کی کوئی کمی تھی، اور نہ کسی نے بھی شراب نوشی کی یا کسی بھی طرح کی منشیات کا استعمال کیا البتہ پورے خاندان میں صرف چار طلاق کے واقعات پیش آئے، پھر ان کی بھی شادیاں دوبارہ خاندان ہی کے اندر ہوگئی اور ان سے بھی جسمانی طور پر مکمل صحت مند بچے پیدا ہوئے، بعض ایمپریکل تحقیقات میں بتایا گیا ہیکہ جس سماج میں رشتہ داروں کے درمیان شادی نہیں ہوتی اس کی بہ نسبت قریبی رشتہ داروں میںبیماری کا تناسب ایک سے چار فیصد زیادہ ہونے کا احتمال ہوتا ہے۔ 1991-1990ء میں پاکستان کے اندر بچوں کی اموات کو اسباب وعوامل سے متعلق تحقیقات میں بتایا گیا ہے کہ اس کی سب سے بنیادی وجہ ماں کا ناخواندہ ہونا، ولادت کے وقت ماں کی عمرکا 20 سال سے کم ہونا، دو حملوںکے درمیان 18 ماہ سے کم ہونا، اور معاشی سطح کی ابتری تھی۔ اس کے ساتھ ہی قریبی رشتہ داروں سے نکاح بھی بچوں کی اموات کا ایک سبب تھا۔
رضاعی بھائی بہن سے شادی:
رضاعی بھائی بہن سے شادی کو اسلام نے قطعی طور پر حرام قرار دیا ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا:
یحرم من الرضاع ما یحرم من الولادۃ (بخاری جلد 5 صفحہ 300 کتاب الشھادات باب الشھادۃ علی الانساب والرضاع )
رضاعت سے اسی طرح حرمت آتی ہے جس طرح نسب و ولادت سے آتی ہے۔
یہ حرمت بھی اسلام کی دوسری تشریعات اور دوسرے احکام وقوانین کی طرح مسلمانوں کے مصلحت ومفادا میں ہے، جدید سائنس نے انکشاف کیا اور سائنسی ماہرین نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا ہے کہ دودھ پلانے والی ماں کا دودھ قوت مدافعت کے ذرہ دار سالمے پر مشتمل ہوتاہے، اور جب عورت اپنا دودھ بچے کو پلاتی ہے تو بچے کے اندر یہ مادہ داخل ہو کر اس کے جین کا حصہ بن جاتا ہے۔ اس طرح بچہ دودھ سے پیدا ہونے والی قوت مدافعت سے متعلق موروثی صفات حاصل کرلیتا ہے، پھر ماں کا جینٹک مادہ اس بچہ کی طرف منتقل ہوجاتاہے اور وہ اپنے دودھ شریک بھائی یا بہن کے بعض موروثی صفات وخصوصیات میں شریک اور اس کے مشابہ ہوجاتا ہے، ماہرین کا خیال ہے کہ دودھ کے ذریعہ جو موروثی صفات اس غیر نسبی نسل کی طرف منتقل ہوتی ہے وہ اس کی جین میںجذب ہو کر اس کا حصہ بن جاتی اور دونوں کے جین میںیکسانیت پیدا ہوجاتی ہے، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ رضاعی بھائی بہن سے شادی میں وہی خطرات ہوتے جو قریبی محرم رشتہ داروں سے شادی میں پائے جاتے ہیں۔
نثارقاسمی
http://www.baseeratonline.com/16686.php
………………..

چند برس پرانی بات ہے، ایک امریکی نو مسلم نے قرآن مجید سے حقوق العباد سے متعلق اللہ تعالیٰ کے 100 احکامات مجتمع کئے، یہ احکامات پوری دنیا میں پھیلے مسلم اسکالرز کو بھجوائے اور پھر ان سے نہایت معصومانہ سا سوال کیا:
’’ہم مسلمان اللہ تعالیٰ کے ان احکامات پر عمل کیوں نہیں کرتے؟‘‘
مسلم اسکالرز کے پاس اس معصومانہ سوال کا کوئی جواب نہیں تھا.
مجھے چند روز قبل ایک دوست نے یہ احکامات ’’فارورڈ‘‘ کر دیے، میں نے پڑھے اور میں بڑی دیر تک اپنے آپ سے پوچھتا رہا:
’’ہمارے رب نے ہمیں قرآن مجید کے ذریعے یہ احکامات دے رکھے ہیں، ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ان احکامات پر پورا اترتے ہیں؟‘‘
میں یہ احکامات سو نمبر کا پرچہ سمجھ کر ترجمہ کر رہا ہوں اور میں یہ آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں، آپ پہلے یہ پرچہ حل کریں، پھر خود اس کی مارکنگ کریں، پھر اپنے پاس یا فیل ہونے کا فیصلہ کریں اور آخر میں یہ سوچیں ہم قیامت کے دن کیا منہ لے کر اپنے رب کے سامنے پیش ہوں گے، آپ کا یہ جواب فیصلہ کرے گا ہم کتنے مسلمان ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
1 گفتگو کے دوران بدتمیزی نہ کیا کرو
2 غصے کو قابو میں رکھو
3 دوسروں کے ساتھ بھلائی کرو‘
4 تکبر نہ کرو‘
5 دوسروں کی غلطیاں معاف کر دیا کرو
6 لوگوں کے ساتھ آہستہ بولا کرو‘
7 اپنی آواز نیچی رکھا کرو
8 دوسروں کا مذاق نہ اڑایا کرو‘ 9 والدین کی خدمت کیا کرو‘
10 منہ سے والدین کی توہین کا ایک لفظ نہ نکالو‘
11 والدین کی اجازت کے بغیر ان کے کمرے میں داخل نہ ہوا کرو‘
12 حساب لکھ لیا کرو‘
13 کسی کی اندھا دھند تقلید نہ کرو‘
14 اگر مقروض مشکل وقت سے گزر رہا ہو تو اسے ادائیگی کے لیے مزید وقت دے دیا کرو‘
15 سود نہ کھاؤ‘
16 رشوت نہ لو‘
17 وعدہ نہ توڑو‘
18 دوسروں پر اعتماد کیا کرو‘
19 سچ میں جھوٹ نہ ملایاکرو‘
20 لوگوں کے درمیان انصاف قائم کیا کرو‘
21 انصاف کے لیے مضبوطی سے کھڑے ہو جایا کرو‘
22 مرنے والوں کی دولت خاندان کے تمام ارکان میں تقسیم کیاکرو
23 خواتین بھی وراثت میں حصہ دار ہیں,
24 یتیموں کی جائیداد پر قبضہ نہ کرو‘
25یتیموں کی حفاظت کرو‘
26 دوسروں کا مال بلا ضرورت خرچ نہ کرو,
27 لوگوں کے درمیان صلح کراؤ‘
28 بدگمانی سے بچو‘
29  غیبت نہ کرو‘
30 جاسوسی نہ کرو‘
31 خیرات کیا کرو‘
32 غرباء کو کھانا کھلایا کرو‘
33 ضرورت مندوں کو تلاش کر کے ان کی مدد کیا کرو‘
34 فضول خرچی نہ کیا کرو‘
35 خیرات کر کے جتلایا نہ کرو‘
36 مہمانوں کی عزت کیاکرو‘
37 نیکی پہلے خود کرو اور پھر دوسروں کو تلقین کرو‘
38 زمین پر برائی نہ پھیلایا کرو‘
39 لوگوں کو مسجدوں میں داخلے سے نہ روکو‘
40 صرف ان کے ساتھ لڑو جو تمہارے ساتھ لڑیں‘
41 جنگ کے دوران جنگ کے آداب کا خیال رکھو‘
42 جنگ کے دوران پیٹھ نہ دکھاؤ‘
43 مذہب میں کوئی سختی نہیں
44 تمام انبیاء پر ایمان لاؤ‘
45 حیض کے دنوں میں مباشرت نہ کرو‘
46 بچوں کو دو سال تک ماں کا دودھ پلاؤ‘
47 جنسی بدکاری سے بچو‘
48 حکمرانوں کو میرٹ پر منتخب کرو,
49 کسی پر اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو‘
50 نفاق سے بچو‘
51 کائنات کی تخلیق اور عجائب کے بارے میں گہرائی سے غور کرو‘
52 عورتیں اور مرد اپنے اعمال کا برابر حصہ پائیں گے,
53 خونی رشتوں میں شادی نہ کرو (کزن میرج)‘
54 مرد کو خاندان کا سربراہ ہونا چاہیے‘
55 بخیل نہ بنو‘
56 حسد نہ کرو,
57 ایک دوسرے کو قتل نہ کرو‘
58 فریب (فریبی) کی وکالت نہ کرو‘
59 گناہ اور شدت میں دوسروں کے ساتھ تعاون نہ کرو‘
60 نیکی میں ایک دوسری کی مدد کرو‘
61 اکثریت سچ کی کسوٹی نہیں ہوتی‘
62 صحیح راستے پر رہو‘
63 جرائم کی سزا دے کر مثال قائم کرو‘
64 گناہ اور ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرتے رہو‘
65 مردہ جانور‘ خون اور سور کا گوشت حرام ہے‘
66 شراب اور دوسری منشیات سے پرہیز کرو‘
67 جواء نہ کھیلو‘
68 ہیرا پھیری نہ کرو‘
69 چغلی نہ کھاؤ،
70 کھاؤ اور پیو لیکن اصراف نہ کرو‘
71 نماز کے وقت اچھے کپڑے پہنو‘
72 آپ سے جو لوگ مدد اور تحفظ مانگیں ان کی حفاظت کرو‘ انھیں مدد دو‘
73 طہارت قائم رکھو‘
74 اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہو‘
75 اللہ نادانستگی میں کی جانے والی غلطیاں معاف کر دیتا ہے‘
76 لوگوں کو دانائی اور اچھی ہدایت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاؤ‘
77 کوئی شخص کسی کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا‘
78 غربت کے خوف سے اپنے بچوں کو قتل نہ کرو‘
79 جس کے بارے میں علم نہ ہو اس کا پیچھا نہ کرو‘
80 پوشیدہ چیزوں سے دور رہا کرو (کھوج نہ لگاؤ)‘
81 اجازت کے بغیر دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہو‘
82 اللہ اپنی ذات پر یقین رکھنے والوں کی حفاظت کرتا ہے‘
83 زمین پرعاجزی کے ساتھ چلو‘
84 دنیا سے اپنے حصے کا کام مکمل کر کے جاؤ‘
85 اللہ کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو,
86 ہم جنس پرستی میں نہ پڑو‘
87 صحیح(سچ) کا ساتھ دو‘ غلط سے پرہیز کرو‘
88 زمین پر ڈھٹائی سے نہ چلو‘
89 عورتیں اپنی زینت کی نمائش نہ کریں‘
90 اللہ شرک کے سوا تمام گناہ معاف کر دیتا ہے‘
91 اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو‘
92 برائی کو اچھائی سے ختم کرو‘
93 فیصلے مشاورت کے ساتھ کیا کرو‘
94 تم میں وہ زیادہ معزز ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے‘
95 مذہب میں رہبانیت نہیں‘
96 اللہ علم والوں کو مقدم رکھتا ہے‘
97 غیر مسلموں کے ساتھ مہربانی اور اخلاق کے ساتھ پیش آؤ‘
98 خود کو لالچ سے بچاؤ‘
99 اللہ سے معافی مانگو‘ یہ معاف کرنے اور رحم کرنے والا ہے
100 ’’جو شخص دست سوال دراز کرے اسے انکار نہ کرو‘‘۔
اللہ تعالیٰ کے یہ سو احکامات حقوق العباد ہیں‘ ہم جب تک سو نمبروں کے اس پرچے میں پاس نہیں ہوتے ہم اس وقت تک مسلمان ہو سکتے ہیں اور نہ ہی اللہ کا قرب حاصل کر سکتے ہیں خواہ ہم پوری زندگی سجدے میں گزار دیں یا پھر خانہ کعبہ کی چوکھٹ پر جان دے دیں‘ آپ یہ پرچہ حل کریں‘ مارکنگ کریں اور اپنے گریڈز کا فیصلہ خود کر لیں۔مجھے یقین ہے میرے سمیت کوئی مسلمان اس امتحان میں پاس نہیں ہوسکے گا.
………..

100  Direct instructions by Allah in the Quran for mankind
Allah (Subhana Wa Ta`ala) has directly given us 100 instructions through Al Quran :
1. Do not be rude in speech (3:159)
2. Restrain Anger (3:134)
3. Be good to others (4:36)
4. Do not be arrogant (7:13)
5. Forgive others for their mistakes (7:199)
6. Speak to people mildly (20:44)
7. Lower your voice (31:19)
8. Do not ridicule others (49:11)
9. Be dutiful to parents(17:23)
10. Do not say a word of disrespect to parents (17:23)
11. Do not enter parents’ private room without asking permission (24:58)
12. Write down the debt (2:282)
13. Do not follow anyone blindly (2:170)
14. Grant more time to repay if the debtor is in hard time (2:280)
15. Don’t consume interest (2:275)
16. Do not engage in bribery (2:188)
17. Do not break the promise (2:177)
18. Keep the trust (2:283)
19. Do not mix the truth with falsehood (2:42)
20. Judge with justice between people (4:58)
21. Stand out firmly for justice (4:135)
22. Wealth of the dead should be distributed among his family members (4:7)
23. Women also have the right for inheritance (4:7)
24. Do not devour the property of orphans (4:10)
25. Protect orphans (2:220)
26. Do not consume one another’s wealth unjustly (4:29)
27. Try for settlement between people (49:9)
28. Avoid suspicion (49:12)
29. Do not spy and backbite (2:283)
30. Do not spy or backbite (49:12)
31. Spend wealth in charity (57:7)
32. Encourage feeding poor (107:3)
33. Help those in need
by finding them (2:273)
34. Do not spend money extravagantly (17:29)
35. Do not invalidate charity with reminders (2:264)
36. Honor guests (51:26)
37. Order righteousness to people only after practicing it yourself(2:44)
38. Do not commit abuse on the earth (2:60)
39. Do not prevent people from mosques (2:114)
40. Fight only with those who fight you (2:190)
41. Keep the etiquettes of war (2:191)
42. Do not turn back in battle (8:15)
43. No compulsion in religion (2:256)
44. Believe in all prophets (2:285)
45. Do not have sexual intercourse during menstrual period (2:222)
46. Breast feed your children for two complete years (2:233)
47. Do not even approach unlawful sexual intercourse (17:32)
48. Choose rulers by their merit (2:247)
49. Do not burden a person beyond his scope (2:286)
50. Do not become divided (3:103)
51. Think deeply about the wonders and creation of this universe (3:191)
52. Men and Women have equal rewards for their deeds (3:195)
53. Do not marry those in your blood relation (4:23)
54. Family should be led by men (4:34)
55. Do not be miserly (4:37)
56.Do not keep envy (4:54)
57. Do not kill each other (4:92)
58. Do not be an advocate for deceit (4:105)
59. Do not cooperate in sin and aggression (5:2)
60. Cooperate in righteousness (5:2)
61. ’Having majority’ is not a criterion of truth (6:116)
62. Be just (5:8)
63. Punish for crimes in an exemplary way (5:38)
64. Strive against sinful and unlawful acts (5:63)
65. Dead animals, blood, the flesh of swine are prohibited (5:3)
66. Avoid intoxicants and alcohol (5:90)
67. Do not gamble (5:90)
68. Do not insult others’ deities (6:108)
69. Don’t reduce weight or measure to cheat people (6:152)
70. Eat and Drink, But Be Not Excessive (7:31)
71. Wear good cloths during prayer times (7:31)
72. protect and help those who seek protection (9:6)
73. Keep Purity (9:108)
74. Never give up hope of Allah’s Mercy (12:87)
75. Allah will forgive those who have done wrong out of ignorance (16:119)
76. Invitation to God should be with wisdom and good instruction (16:125)
77. No one will bear others’ sins (17:15)
78. Do not kill your children for fear of poverty (17:31)
79. Do not pursue that of which you have no knowledge (17:36)
80. Keep aloof from what is vain (23:3)
81. Do not enter others’ houses without seeking permission (24:27)
82. Allah will provide security for those who believe only in Allah (24:55)
83. Walk on earth in humility (25:63)
84. Do not neglect your portion of this world (28:77)
85. Invoke not any other god along with Allah (28:88)
86. Do not engage in homosexuality (29:29)
87. Enjoin right, forbid wrong (31:17)
88. Do not walk in insolence through the earth (31:18)
89. Women should not display their finery (33:33)
90. Allah forgives all sins (39:53)
91. Do not despair of the mercy of Allah (39:53)
92. Repel evil by good (41:34)
93. Decide on affairs by consultation (42:38)
94. Most noble of you is the most righteous (49:13)
95. No Monasticism in religion (57:27)
96. Those who have knowledge will be given a higher degree by Allah (58:11)
97. Treat non-Muslims in a kind and fair manner (60:8)
98. Save yourself from covetousness (64:16)
99. Seek forgiveness of Allah. He is Forgiving and Merciful (73:20)
100. Do not repel one who asks (93:10)
And Allah Knows Best.
……
………………..

Cousin marriages & defective children

Recently, Muslims in the U.K. were outraged when it was announced that the prevalence of marriages between cousins was responsible for a large number of defective children being born in their community.

While it is true that cousin marriages slightly increase chances of children being born with genetic defects, among Muslims, most people are the products of decades of cousin marriages. If a child’s great grandparents, as well as grandparents were first cousins, it significantly increases the chances of that child having more defects than one whose forebears were not first cousins.

I know many families in which children are either totally deaf or totally near-sighted, and they were shocked when doctors told them that inbreeding was to blame.

For this reason, cousin marriages are banned in 26 states in the U.S., while most Hindu sects do not allow marriages between cousins. This proves that even three thousand years ago, people realized that marriage among near relatives was harmful.

So how do you convince people not to marry their cousins? The mullah will immediately say that it is a Jewish conspiracy against Islam”.
…………..
http://www.chowrangi.com/cousin-marriages-defective-children.html
…………..
https://www.linkedin.com/pulse/100-direct-instructions-allah-quran-mankind-soumaya-bint-abdesselam
خون کی ایک بیماری ہے تھیلیسیمیا ، یہ کزن میرج کی مرہون منت ہے :