فضائل صبر


تمہید :۔
حضرات اس آیت نے جہاں صبر کرنے والوں کی فضیلت بیان کی ہے وہاں بے صبر لوگوں کی تردید بھی کی ہے،کہ وہ نصرت الٰہی سے محروم ہیں ،ہمار ا دعوی ہے کہ جمیع انبیاء علیہم السلام اور ان کے راستے پر چلنے والے لوگوں کا دستور العمل صبر تھا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے صبر فرمایا تو آگ ٹھنڈی ہوگئی :۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کارنامے بچپن سے ہی موحدانہ تھے اگرچہ ان کے خویش واقارب شرک میں مبتلا تھے ،وہ زمانہ نمرود کی بادشاہی کا تھا ،نمرود کا رعب پوری سلطنت پر چھایا ہوا تھا ،وہ نہ صرف اپنے کو بادشاہ کہلاتا تھا بلکہ رب بھی کہلاتا تھا ،حضرت ابراہیم علیہ السلام اور نمرود علیہ اللعنۃ کا مسئلہ رب پر مناظرہ منہاج التبلیغ حصہ اول میں تفصیل کے ساتھ درج کرچکا ہوں
توحید کے جوش میں ابراہیمی اعلان :۔
آپ نے جب بتوں کے بچاریوں کو دیکھا کہ وہ ہمہ وقت اس میں مصروف ہیں تو آپ نے ان سے ایک دن کہہ دیا کہ
لَاَ کِیْدَنَّ اَصْنَامَکُمْ(پ۱۷)
میں تمہارے بتوں سے کوئی تدبیر کروں گا
اتنا فرما کر خاموش ہوگئے اور وقت کے منتظر رہے ،قوم ایک دن جبکہ میلے پر گئی تو موقع کو غنیمت جان کر بت خانے میں تشریف لے گئے ایک بڑے بت کے بغیر سب کی مرمت کی کسی کا سرکاٹا ،تو کسی کی ناک ،کسی کی ٹانگ اکھیڑ دی تو کسی کے کان ،الغرض سب کی حجامت کرکے کلہاڑا بڑے بت کے کندھے پر رکھ دیا
جب قوم واپس ہوئی تو خداؤں کو بری حالت میں پایا غیرت کی وجہ سے بپھر گئے سوچ بچار کے بعد حضرت ابراہیم ؑ کا اعلان یاد آیا انہیں بلا کر پوچھا
ءَ اَنْتَ فَعَلْتَ ہٰذَا بِاٰلِہَتِنَایٰٓاِبْرٰہِیْمُ(پ۱۷)
کیا یہ ہمارے حاضروں ناظروں کے ساتھ تو نے کیا ہے اے ابراہیم
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بَلْ فَعَلَہٗ (بلکہ کیا ہے )فرما کر تھوڑا سا سکوت کیا اور جلدی سے فرمایا
کَبِیْرُہُمْ ہٰذَا فَاسْءَلُوْہُمْ اِنْ کَانُوْایَنْطِقُوْنَ (پ۱۷)
ان کا بڑا یہ بیٹھا ہے اس سے پوچھ لو اگر یہ بول سکتے ہیں ۔
اب لگے مشرک ایک دوسرے کا منہ تکنے جب سب داؤ بے کار گئے تو آگ میں جلانے کی ٹھانی ،لیکن وہاں بھی ندامت کے بغیر کچھ ہاتھ نہ آیا آگ کا الاؤ تیار کیا اور ابراہیم علیہ السلام کو اندر ڈالا۔چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام صابر تھے اللہ تعالیٰ نے اپنی پوری اعانت ونصرت کا مظاہر ہ فرمایا۔
آگ کو خدائی پیغام :۔
قُلْنَایٰنَارُکُوْنِیْ بَرْدًاوَّسَلٰمًاعَلآی اِبْرٰہِیْمَ(پ ۱۷)
ہم نے کہا اے آگ ابراہیم علیہ السلام پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا
آگ ٹھنڈی ہوگئی ،ابراہیم علیہ السلام آگ کی زد سے محفوظ رہ گئے یہ صبر کی برکت تھی۔
اسماعیل علیہ السلام نے صبر کیا تو چھری کند ہوگئی :۔
وفادار باپ کا وفادار بیٹا حضرت اسماعیل علیہ السلام باپ کی طرح صابر تھا اباجان نے نیند میں دیکھا کہ بیٹے کی گردن کاٹنے کاحکم خدا تعالیٰ کی طرف سے ہورہا ہے صبح اٹھے تو بیٹے کو بتایا
یٰبُنَیَّ اِنِّیٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰی (پ۲۳)
اے میرے بیٹے میں دیکھتا ہوں نیند میں کہ تحقیق میں تجھے ذبح کرتا ہوں پس دیکھ لے جو تو دیکھے۔
بیٹے نے جواب دیا
اِفْعَلْ مَاتُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ* (پ۲۳)
جس چیز کا تجھے حکم دیا گیا ہے کرلے عنقریب مجھے توصابرین سے پائے گا انشاء اللہ تعالیٰ
اب حضرت خلیل ؑ نے بیٹے کو لٹایا ،اور گردن پر چھری چلائی ،دھار بند ہوگئی چھری کند ہوگئی ،قدرت کی طرف سے آواز آئی ،اے ابراہیم ؑ آپ نے اپنے خواب کی تعبیر کو علیٰ وجہ الصدق پور اکردیا۔
اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(پ۲۳)
ہم اسی طرح نیک کام کرنے والوں کو جزا دیاکرتے ہیں۔
یہاں صبر کو احسان اور صابر کو محسنین کا عنوان دیا جارہا ہے ،اگر ایسے ہے تو پھر اِنَّ رَحْمَۃَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ کا تعلق خوب لگے گا بہر حال علماء اسے سوچ سمجھ کر بیان فرمائیں ۔
حضرت ام موسیٰ کا صبر واستقلال اور فرقت کے بعد وصال
تفصیل سے واقعہ منہاج التبلیغ حصہ اول میں دربیان خلافت راشدہ ملاحظہ فرمایئے
بہرحال ماں نے بیٹے کی جدائی میں صبر کیا تو خدا تعالیٰ نے متعدد انعامات عنایت فرمائے ۔
(۱)۔۔۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دشمنوں کی زد سے محفوظ رکھا ۔۔۔سچ ہے
فَاللّٰہُ خَیْرٌ حٰفِظًاوَّہُوَاَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(پ۱۳)
(۲)۔۔۔ حضرت موسیٰ کے دودھ اور حفاظت کا انتظام فرمایا
(۳)۔۔۔ جدا شدہ بیٹا اما ں جان کو مل گیا
یہ سب کیوں ہوا ؟:۔
فَرَدْنٰہُ اِلآی اُمِّہٖ کَیْ تَقَرَّعَیْنُہَاوَلَاتَحْزَنَ وَلِتَعْلَمَ اَنَّ وَعْدَاللّٰہِ حَقٌّ وَّلٰکِنَّ اَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ (القصص )
پس ہم نے حضرت موسیٰ کو ان کی والدہ کی طرف لوٹا دیا تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں اور حزن نہ کرے او رباطنی علم کو ظاہری واقعات کے مطابق دکھاسکیں کہ خدا کا وعدہ حق ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
جہاں پرور دگار عالم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے انعامات جتلائے وہاں پھر بھی یہی فرمایا
فَرَجَعْنٰکَ اِلآی اُمِّکَ کَیْ تَقَرَّعَیْنُہَا وَلَا تَحْزَنَ (طہ)
پس ہم نے تجھے تیری والدہ کی طرف لوٹا دیا تاکہ اس کی آنکھ ٹھنڈی ہوجائے اور وہ غمگین نہ ہو۔
بہر حال صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے
صبر کرنے والوں کے لئے بہشت میں توقیر :۔
یَدْخُلُوْنَ عَلَیْہِمْ مِّنْ کُلِّ بَابٍ zسَلٰمٌ عَلَیْکُمْ بِمَاصَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ(پ۱۳)
صبر کرنے والوں پر بہشت کے ہر دروازے سے سلام علیکم کی آوا ز آئے گی کہ تم نے صبر کیا تھا پس اچھا ملا آخری مقام
صبر کرنے والوں کے لئے مغفرت اور اجر عظیم :۔
اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآءِمِیْنَ وَالصّآءِمٰتِ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَہُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًاوَّالذّٰکِرٰتِ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًاعَظِیْمًاz (الاحزاب )
بلاشبہ مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں مؤمن مرد اور مؤمنہ عورتیں ، فرماں بردار مرد اور فرمانبردار عورتیں خیرا ت کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں او ر اللہ کے قہر سے ڈرنے والے مرد اور عورتیں اور خیرات کرنے والے مرد اور عورتیں اور روزے دارمرد اورروزے دار عورتیں اور اپنی شرمگاہوں کو گناہوں سے بچانے والے مرد اور عورتیں اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرنے والے مرد اور عورتیں اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے بخشش اور اجر عظیم تیار کررکھا ہے
مصیبت کے وقت صابر ین کا عمل اور درجات عالیہ :۔
وَبَشِّرِا لصّٰبِریْنَz الَّذِیْنَ اِذَآاَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْآاِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَz اُولٰٓءِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ وَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنَ(پ۲)
اے محبوب ؐ صابرین کو خوشخبری دیدے جبکہ ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے کہتے ہیں بلاشبہ ہم خدا کے لئے ہیں اور ہم اس کی طرف جانے والے ہیں یہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے صلوٰۃ ورحمت ہے اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں
اس آیت سے معلوم ہوا کہ صابرین عند المصیبت جزع فزع نہیں کرتے بلکہ انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھتے ہیں
مصیبت کے وقت یا کسی مصیبت کو یاد کرکے رونے کا انکار نہیں ہے لیکن ہائے وائے کرنا مقتضائے اسلام کے خلاف ہے فریقین کی کتابوں میں مسلم طورپر صبر کے فضائل درج ہیں چنانچہ اہل سنت کی کتاب کنزل العمال جلد ۲ صفحہ ۱۵۵میں ہے
صبر کے متعلق سیدنا علیؓ کا ارشاد گرامی ۔
عن علی قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان اول شیء کتبہ اللہ فی اللوح المحفوظ بسم اللہ الرحمن الرحیم انی انا اللہ لا الہ الا انا لاشریک لی انہ من امن لقضائی وصبر علی بلائی ورضی لحکمی کتبتہ صدیقا وبعثتہ مع الصدیقین یوم القیمۃ
حضرت علیؓ سے روایت ہے فرمایا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے تحقیق لوح محفوظ میں پہلی چیز جو کہ خدا تعالیٰ نے لکھی ہے وہ یہ ہے بسم اللہ الرحمن الرحیم بے شک میں ہی معبود ہوں میرے بغیر کوئی حاجت روا نہیں ہے میرا کوئی شریک نہیں ہے جس نے میرے فیصلے کو مان لیااور میری دی ہوئی مصیبت پر صبر کیا اور میرے حکم پر راضی ہوا اسے میں صدیق لکھوں گا اور قیامت کے دن اس کو صدیقین کے ساتھ اٹھاؤ ں گا ۔

صاحب ذوالفقار کا دوسراارشاد :۔
عن علی قال الصبر من الایمان بمنزلۃ الراس من الجسد فاذااذہب الصبر ذہب الایمان (کنز العمال ج۲ ص ۱۵۳
حضرت علیؓ سے روایت ہے فرمایا صبر کا تعلق ایمان کے ساتھ ایسا ہے جیسا کہ جسم کے ساتھ سرکا ہے پس جب صبر چلا گیا تو ایمان چلا گیا
قاتلِ مرحب کا تیسرا ارشاد :۔
عن علی قال الصبر من الایمان بمنزلہ الراس من الجسد من لا صبرلہ لا ایمان لہ (کنز العمال جلد ۲ صفہ ۱۵۳)
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ صبر ایمان سے ایسا ہے جس طرح سر کا تعلق جسم سے ہے جس کا صبر نہیں اس کاا یمان نہیں۔
اور یہی روایتیں اہل تشیع کی من لا یحضرہ الفقیہ میں بھی موجود ہیں مزید عبارتیں میری لاجواب تصنیف جلاء الاذہان میں دیکھ لی جائیں جس میں راقم الحروف نے پور اایک ہزار اعتراض اہل تشیع پر کیا ہے۔
جزع فزع کرنے سے تصریحی ممانعت :۔
بقول رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت فرمود کہ در مصیبتہا طمانچہ بر روئ خود مزیند وروئ خودرا مخراشید وموئ خودرا مکنیدو گریبان خودرا چاک مکنید وجامہ خودرا سیاہ مکنید وواویلا ہ مکنید پس برایں شرطہا حضرۃ باایشاں بیعت کرد
حیات القلوب جلد ۲ صفحہ ۵۳۸ مطبوعہ نولکشورلکھنو
محبوب مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مصیبتوں میں اپنے منہ پر نہ مارا کرو، اپنا منہ نہ چھیلا کرو، اپنے بال نہ کھسوٹو ،اپنا گریبان چاک نہ کرو، اپنے کپڑے سیاہ نہ کرو ،ہائے ہائے نہ کرو ،پس ان شرطوں پر حضرت کریمﷺ نے ان کو بیعت میں لیا
صبر کے سلسلے میں سیدنا حسینؓ کی وصیت :۔
چوں من از تیغ اہل جفا بعالم بقارحلۃ نما یم گریبان چاک مکنید رو مخراشیدوواویلا مگوئید (جلا العیون صفحہ ۳۲۸مطبوعہ ایران)
جب میں ظالموں کی تلوار سے شہید ہوجاؤں تو گریبان چاک نہ کرنا، منہ نہ چھیلنا اور ہای وای نہ کہنا
جب وہ اما م جن کی خوشنودی کے لئے لوگ جزع فزع کرتے ہیں روک رہے ہیں خواہ مخواہ ضرورت ہی کیا ہے کہ اس کو ہم اپنا شعار بنالیں ۔
یقین کیجئے :۔
کہ شہداء کرام کو نہ تو ہمارے سیاہ کپڑوں سے فائدہ پہنچتا ہے اور نہ سینہ کوبی سے، اگر ان کو روحانی مسرت محسوس ہوتی ہے تو قرآن پڑھ کر ایصال ثواب سے ۔
میں حیران ہوں کہ ایسے صابر بہادر کو ہائے کیوں کہا جاتا ہے خدا کی قسم ہمارے نزدیک سیدنا حسینؓ ہائے کے لائق نہیں ہیں واہ کے لائق ہیں
جو دہکتی خاک کے شعلوں پہ سویا وہ حسینؓ
جس نے اپنے خون سے عالم کو دھویا وہ حسینؓ
جوجواں بیٹے کی میت پہ نہ رویا وہ حسینؓ
جس نے سب کچھ کھوکے پھر بھی کچھ نہ کھویا وہ حسینؓ
واہ حسین اب تک گل افشاں ہے تیری ہمت کا باغ
آندھیوں میں جل رہاہے اب تلک تیرا چراغ
ہنس کے جس نے پی لیا جام شہادت وہ حسینؓ
چل بسا لیکن نہ کی دشمن کی بیعت وہ حسینؓ
ایک شبہ کا ازالہ :۔
قرآن اگر کسی کے ہاتھ سے گر جائے تو ہائے کرنا جائز ہے اور اگر سیدنا حسین کٹ کر زمین پر گرگئے تو کیا ہائے کرنا ناجائز ہے ؟
جواب:۔ ہائے کرنا دونوں مقاموں پر ناجائز ہے لیکن خداتعالیٰ اگر سمجھ عطاء فرمائے تو مسئلہ اس مثال کے ذریعے سے بھی سمجھ آسکتا ہے کیونکہ یہاں قرآن کو ہائے نہیں ہے اس ہاتھ کو ہائے ہے جس نے قرآن گرایا ہے اسی طرح میدان کربلا کے شہسوارکو ہائے نہیں ہے بلکہ اس ہاتھ کو ہائے ہے جس نے سرکو کاٹ کر زمین پر گرایا ہے پس اس بنا پر ہائے اگر کرنا ہے تو سیدنا حسینؓ نور العینین کے قتل کرنے والوں کو کیا جائے جو مستحق ہیں سید نا حسین نہ ہائے کے لائق ہیں اور نہ ان پر ہائے کالفظ ستعمال کیا جائے
وماعلینا الا البلاغ المبین