شہادت سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ

تمہید :۔
حضرات !اہل سنت میں رتبہ شہادت پر فائز ہونے والوں کی کمی نہیں ہے شہداء احد بھی ہیں ،اور شہداء بدر بھی ہیں ،شہدا ء حنین بھی ہیں ،اور شہداء یمامہ بھی ،شہداء خیبر بھی ،اور شہداء کربلابھی ،شہداء جمل بھی ہیں ،اور شہداء صفین بھی۔ دوسرے لوگ تو صرف اس لئے چند حضرات کی شہادت بیان کرتے ہیں کہ وہ صحابہ کرامص میں سے جنہوں نے اپنے محبوبؐ کے سامنے جام شہادت نوش کیااور پروانہ وار قربان ہوئے نہ ان کو شہید مانتے ہیں اور نہ ان کے ایمان کے قائل ہیں ۔
لیکن تعجب اہل سنت علماء پر ہے جو انہیں شہید بھی مانتے ہیں لیکن ان کی شہادت کے واقعات ممبروں پر بیان نہیں کرتے ۔
شہادت ایک نعمت ہے حبیب کبریا ؐ نے بھی اس کی تمنا کی ہے
قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم انی وددت ان اقتل ثم احی ثم اقتل ثم احی ثم اقتل ۔ (مشکوٰۃ )
حضرت کریم انے فرمایا میں چاہتاہوں کہ مجھے شہید کردیا جائے پھر زندہ کیا جاؤں پھر جام شہادت نوش کروں پھر زندہ کیا جاؤں پھر خدا کے راستے میں قربان ہوجاؤں۔
مسلمان کی فطرت میں داخل ہے کہ زندہ رہے گا تو مجاہدبن کر اور مریگا تو شہید ہوکر
تمہیں سے اے مجاہدو دین کی ثبات ہے
شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے
جب مسلمان تیغ بکف گھر سے باہر نکلتا ہے تو کامیابی اس کے قدموں کو چومتی ہے
مرے شہید ہو مارے اگر تو غازی ہو
یہ راہ وہ ہے کہ جس میں ہر طرح سے سرفرازی ہو
شہید مرتا نہیں ہے بلکہ وہ موت کی دیوار پھاند کر فانی حیات سے باقی حیات میں قدم رکھتا ہے اسی لئے خداتعالیٰ نے شہید کو مردہ کہنے سے منع کیا ہے بلکہ اتناقدر کنٹرول کیا ہے کہ شہدا کے متعلق مردہ ہونے کا تصور اور تخیل بھی ممنوع قرار دیدیا ہے چنانچہ قرآن مجید میں فرمایا ہے ۔
وَلَاتَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْافِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًابَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُوُنَ۔(پ۴)
اورخدا کے راستے میں شہید ہونے والوں کو مردہ گمان نہ کرنا بلکہ خداتعالیٰ کے ہاں زندہ ہیں رزق دیئے جاتے ہیں ۔
جب شہادت نیز شہداء کے متعلق آپ نے ارشادات ربانی ملاحظہ فرمالئے اب ہم سیدنا حسینؓ کی شہادت کا واقعہ پیش کرتے ہیں
شہادت کی حقیقت کو سمجھتے ہیں خدا والے
شہادت خوب اس کی دے گئے ہیں کربلاوالے
شہادت اک نخیل لازوال اور غیر فانی ہے
شہادت خود ہی تفسیر حیات جاودانی ہے
لیکن مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے حسنین مکرمین کے فضائل ومناقب بیان کردیئے جائیں تاکہ ان کا رتبہ ومقام نیز ان کی توقیر وتکریم قلوب واذہان میں مرکوز ومصؤن ہوجائے ۔
فضائل حسنین مطہرین
حضرت کریم ؐکا سیدنا حسن سے اظہار محبت
عن ابی ھریرہؓ قال رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یمص لسان الحسنؓ کما یمص الرجل التمرۃ۔
(کنزالعمال جلد۱ صفحہ ۱۰۴)
حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا کہ میں نے حضور اکو دیکھا ہے کہ وہ حضرت حسنؓ کی زبان کھجور کے پھل کی طرح چوستے تھے۔
سیدنا حسنؓ کی اولاد سے حضرت مہدی پیدا ہوں گے
حضرت علی مرتضٰیؓ کی پیشین گوئی :۔
عن ابی اسحق قال قال علیؓ ونظر لی وجہ ابنہ الحسن فقال ان ابنی ہذاسیدکماسماہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم سیخرج من صلبہ رجل یسمی اسم نبیکم یشبہہ فی الخلق ولا یشبہ فی الخلق یملاء الارض عدلا۔
ابی اسحقؓ سے روایت ہے حضرت علیؓ مرتضیٰ نے اپنے بیٹے حضرت حسنؓ کی طرف دیکھ کر فرمایا یہ میرا بیٹا سید ہے جیسا کہ حضور ؐنے اس کا نام رکھا ہے قریب ہے کہ اس کے نسب سے ایک مرد پیدا ہوگا جس کا نام محمد ہوگا خلق میں تو حضور ؐ کے مشابہ ہوگا لیکن شکل میں مشابہ نہیں ہوگا زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے گا (کنزالعمال ج ۱ ص ۱۰۴)
صلح کا پیکر سیدنا حسنؓ :۔
عن جابر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم للحسن ان ابنی ہذا سید ولیصلحن اللہ بہ وفی لفظ علی یدیہ بین الفئتین من المسلمین عظیمتین۔(کنز العمال جلد ۱ ص ۱۰۸)
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ حضرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسنؓ کے متعلق فرمایایہ میرا بیٹا سید ہے ،خداتعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دوبڑی جماعتوں کے درمیان صلح کرائیں گے۔
فائدہ :۔حضرت کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باعلام خداوندی سیدنا حسنؓ کے متعلق جو پیشینگوئی فرمائی وہ سیدنا معاویہؓ کے ساتھ صلح کرنے کی شکل میں پوری ہوئی۔
حسنین مکرمین کی مشترکہ فضیلت :۔
عن عمرقال رأیت الحسن والحسین علی عاتقی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقلت نعم الفرس تحتکما فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ونعم الفارسان ہما۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا میں نے حضرت نبی کریم اکے کندھوں پر حسنین کو دیکھا تو میں نے کہا بہتر سواری ہے تو حضرت انے فرمایا دونوں سوار بھی بہتر ہیں۔ (کنزالعمال جلد ۱ صفحہ ۱۰۶)
دو تابدار گوہر ہم شکل مصطفیؐ تھے:۔
عن علیؓقال من سرہ ان ینطرالی اشبہ الناس برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مابین عنقہ الی وجہہ فلینظر الی الحسن ومن سرہ ان ینظر الی اشبہ الناس برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مابین عنقہ الی کعبیہ خلقا ولونا فلینظر الی الحسین ابن علی۔ (کنزالعمال جلد ۱ صفحہ ۱۰۶)
حضرت علیؓمرتضیٰ نے فرمایا جس نے گردن سے لیکر چہرے تک حضور اکے زیادہ مشابہ دیکھنا ہو وہ حضرت حسنؓ کو دیکھے اور جس نے گردن سے لیکر ٹخنوں تک شکل رسول مقبول اکے زیادہ مشابہ دیکھنا ہووہ حسین ابن علی کو دیکھے۔
رحمۃ للعالمین کااظہار مسرت :۔
عن حذیفۃ ابن الیمان قال رأینا فی وجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم السرور یوما من الایام فقلنا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لقد رأینا فی وجہک بتاثیرالسرور قال وکیف لا اسرو قد اتانی جبریل فبشر نی ان الحسن والحسین سید الشباب اہل الجنۃ (کنزالعمال صفحہ ۱۰۸)
حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے فرمایا ایک دن حضور ؐکے چہرے میں خوشی دیکھی تو ہم نے وجہ مسرت دریافت کی آپ نے فرمایا میں کیسے خوش نہ ہوں میرے پاس جبرائیل آیا ہے اور اس نے مجھے بتایا ہے کہ حضرت حسنؓ او رحضرت حسینؓ نوجوانان جنت کے سردار ہیں
نیا فرشتہ اور نئی بشارت :۔
عن ابی حذیفۃؓ قال بت عندرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرأیت عندہ شخصا فقال لی یاحذیفۃ ہل رأیتہ ؟قلت نعم یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ہذا ملک لم یہبط الی منذبعثت اتانی اللیلۃ فبشرنی الحسن والحسین سید الشباب اہل الجنۃ (کنزالعمال صفحہ ۱۰۸)
حضرت حذیفہؓ فرماتے ہیں کہ میں حضور علیہ السلام کی خدمت میں ایک رات رہا ہوں تو میں نے ایک شخص کو دیکھا آپ نے فرمایا کیا تو نے اسے دیکھا تھا ؟میں نے عرض کی ہاں یارسول اللہ فرمایا یہ فرشتہ آج کے بغیر کبھی بھی میرے اوپر نازل نہیں ہوا جب سے میں نے دعوٰی نبوت ظاہرکیا ہے، اس نے مجھے خبر دی ہے کہ حسنین بہشتی نوجوانوں کے سردار ہیں ۔
صدیق اکبرؓ کے قلب اطہر میں حضرت حسنؓ کی محبت :۔
ان ابابکر رأی الحسنؓ کان یلعب بالصبیان فاسرع الیہ فکان الحسن یفریمینا وشمالا فالتصقہ بالصدرو قال شبیہا بالنبی لا بالعلی۔
حضرت صدیقؓ اکبر نے حضرت حسنؓ کو دیکھا کہ وہ بچوں کے ساتھ کھیل رہاتھا تو ابوبکرؓ نے اسے محبت کی وجہ سے پکڑنا چاہا اور حضرت حسنؓ کبھی دائیں جاتے تھے توکبھی بائیں پس حضرت ابوبکرؓنے حضرت حسنؓ کوسینے سے لگاکر کہا شکل ناناوالی ہے باپ والی نہیں ہے۔
حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کے قلب میں سیدنا حسنینؓ کی محبت :۔
نفضل الشیخین نحب الحسنین نری المسح علی الخفین
ہم صدیقؓ وعمرؓ کو افضل مانتے ہیں حسنینؓ کو محبوب رکھتے ہیں موزوں پر مسح کرنا جائز سمجھتے ہیں۔
ان تمام دلائل سے معلوم ہوا کہ اہل سنت عترت رسول ؐ کے نہ صرف قائل ہیں بلکہ ان کی مدح وتوصیف اپنے لئے باعث نجات سمجھتے ہیں اور ان کے قدموں کی گردوغبار کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنانے کے لئے تیار ہیں۔
ایک ضروری بحث :۔
بعض لوگ جذبات میں یہ کہہ دیتے ہیں کہ اگر حضرت معاویہؓ یزید کو تخت امارت پر مقرر نہ کرتے تو یزید برسر اقتدار نہ آتا ۔اور اگر یہ باشاہ نہ بنتا تو سیدنا حسینؓ شہید نہ ہوتے حالانکہ یہ محض ان لوگوں کا گمان ہے اگر اس تسلسل کو صحیح مان لیا جائے تو دوسرے کوبھی یہ کہنے کا حق ہے کہ اگرسیدنا حسنؓ مملکت عربیہ اسلامیہ کو حضرت معاویہؓ کے سپرد نہ کرتے تو یہ واقعات رونما نہ ہوتے۔
دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیئے کہ کہنے والا یوں بھی کہہ سکتا ہے کہ سیدنا حسینؓ اس لئے شہید ہوئے کہ یزید امیر بنا اور یزید اس لئے بنا کہ حضرت معاویہؓ نے اسے نامزد کیا اور معاویہ رضی اللہ عنہ نے تب نامزد کیا جب حضرت حسنؓ نے ان کو مملکت اسلامیہ کا بادشاہ بنایا اورحضرت حسنؓ نے تب سپرد کیا جب حضرت علیؓنے ان کو امارت سپرد کی۔
خلاصۃ الکلام :۔
یہ کہ شہادت حسینؓ کا جس طرح سیدنا علی المرتضیٰؓ اور سیدنا حسنؓ کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا ،اسی طرح حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اس ذمہ داری سے بری ہیں ۔
قیامت تک کوئی ثابت نہیں کرسکتا :۔
کہ سیدنا معاویہؓ نے یزید کو حضرت حسینؓ کے قتل کاحکم دیا ہو،یا وصیت کی ہو بلکہ شیعوں کی معتبر کتابوں میں مرقوم ہے کہ حضرت معاویہؓ نے یزید کو کہاتھا کہ اہل بیت رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہتر تعلقات رکھنا۔
چنانچہ اہل تشیع کے معتبر عالم گیارہویں صدی کے مجتہد کتب متعددہ کے مصنف مذہب تشیع کے محسن اپنی لاجواب تصنیف جلا ء العیون مطبوعہ ایران میں لکھتے ہیں۔
محبت حضرت حسینؓ اور حضرت معاویہؓ :۔
امام حسینؓ پس میدانی نسبت وقرابت اور آنحضرت رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اوبارہ تن آنحضرت است واز گوشت وخون اوپر ور دہ شدہ است ومن میدانم البتہ اہل عراق اور ابسوئے خود خواہند بردو یاری اور نخوا ہند کرد و اور اتنہا خواہند گذاشت اگر براوظفر یابی حق حرمت اورا بشناس ومنزلت وقرابت اور اباپیغمبر یا آوردواور رابکرد ہائے اومو اخذہ مکن ،وروابطے کہ من بااودریں مدت محکم کردہ ام زینہار کہ باومکرد ہے وآسیبے مرساں (جلاء العیون صفحہ ۳۴۸)
حضرت حسینؓ کے متعلق تجھے خبر ہے کہ حضور علیہ السلام کے ساتھ اس کی کیا نسبت ہے اور کیا رشتہ داری ہے ؟وہ حضور ؐکا گوشہ جگر ہے اور حضورؐکے گوشت وخون سے پلاہوا ہے مجھے خبر ہے کہ حضرت حسینؓ کو عراق والے اپنی طرف بلائیں گے مگر وفا نہیں کریں گے اور اسے اکیلا چھوڑ دیں گے اگر تجھے ان پر کامیابی ہوجائے تو حسینؓ کی قدرو منزلت کا خیال کرنا اور حضور ؐکے ساتھ تعلقات کا لحاظ رکھنا اور وہ تعلقات جو ان سے میں نے آج تک وابستہ کیئے ہیں ان کو نہ توڑنا اور اگر وہ تیرے خلاف چلیں تو ان سے محاسبہ ہرگز ہرگز نہ کرنا ۔
یہ وہ وصیت ونصیحت ہے جو کہ حضرت معاویہؓ نے یزید کو حضرت امام حسینؓ کے حق میں کی ،اگر سید نا معاویہؓ اہل بیت کے دشمن ہوتے تو ایسا بیان نہ دیتے۔
سیدنا معاویہؓ کے متعلق منہاج التبلیغ حصہ اول میں لکھا جاچکا ہے کہ وہ خدا، رسول خدا اور حضرت علیؓ کی نگاہ میں کیا قدرو منزلت رکھتے تھے اس میں شک نہیں کہ آپ نے یزید کو حکمران بنایا او ر مجلس مشاورت کے مشورے کے مطابق بنایا لیکن یہاں قابل تحقیق دو امور ہیں،
(۱)۔۔۔امارت اپنے بیٹے کے سپرد کیوں کی ؟
(۲)۔۔۔آ پ نے اس امر کو مسلمانوں کے سپرد کیوں نہ کیا ؟
اہل سنت کا مسلک :۔
یہ ہے کہ سیدنا معاویہؓ بلاشبہ صحابی رسول ہیں لیکن ان کا رتبہ نہ مہاجرینؓ کے برابر ہے اور نہ انصارؓ کے۔ رہے حضرت علیؓ وہ تو والسابقون الاولون من المہاجرین میں داخل ہونے کی وجہ سے صف اول میں شمار کیئے جاتے ہیں اسی طرح یزید ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا ہے لیکن مصطفی کریم کے گوشہ جگر نور بصر حضرت حسینؓ بن علیؓ کی شان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔
حضرت حسینؓ ابن علیؓ بھی ہیں اور ابن رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں حضرت حسینؓ کی آنکھوں کو لبہائے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے چوما ہے اور زبان کو چوسا ہے اس عظمت وجلال اور توقیرو تکریم کا لحاظ رکھتے ہوئے یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیئے کہ خلافت راشدہ کا دور ختم ہوچکا تھا اب امارات کادور چل رہا تھا۔
پس اگر ان دو امور کا حل شیعی اعتراض کے جواب میں کرنا ہے تو کوئی مشکل نہیں کیونکہ جو لوگ امارت کی عمارت وراثت کی بنیادوں میں استوار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کوئی امام اس وقت تک عالم جاودانی کی طرف تشریف نہیں لے جاتا جب تک اپنے مقام پر اپنی اولاد میں سے یا نسب میں سے کسی کو منتخب نہ کرجائے اسی بنا پر حضر ت علیؓ نے اپنے بڑے بیٹے کو منتخب فرمایا اور انہوں نے بھائی کو اورا نہوں نے اپنے بڑے بیٹے کو علی ہذا القیاس قیامت تک یہی سلسلہ جاری رہے گا اور اسی بنا پر انہوں نے امامت کو امام مہدی کے لئے ریزرو کیا ہوا ہے ان کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ سیدنا معاویہؓ کے اس انتخاب پر طعن کریں کہ بیٹے کو نامزد کیوں کرگئے؟
اور اگر بنظر اہل سنت تحقیق مقصود ہے تو کسی سنی مسلمان کو حضرت معاویہؓ پرنہ طعن کرنے کا حق ہے اور نہ بدگمانی کا۔
ان کے نزدیک بدلے ہوئے حالات کا صحیح حل یہ تھا کہ کسی کو اپنی زندگی میں بادشاہ نامزد کرجائیں تاکہ اس انتخاب کے سلسلے میں جمل وصفین میں بہت بڑی خونریزی کے بعد دنیا پھر قتل وقتال پر آمادہ نہ ہوجائے اور ممالک عربیہ پھر نئے سرے سے جنگ وجدال کی آماجگاہ نہ بن جائے اور جسے وہ بادشاہ بنائیں اسے ضروری ہدایات بھی کرجائیں
اور یزید بھی اگر اعمال واحوال میں سدھر نا چاہتا تو سدھر سکتا تھا جبکہ اسے ایک اسلامی ریاست کا تاجدار بنادیا گیا تھا ،مگر افسوس کہ کما حقہ حضرت امیر معاویہؓ کا خواب یزید کے حق میں شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا اور یزید کے عہد میں وہ جو روستم اور ظلم وعدوان کا مظاہرہ ہوا جسے نہ چشم فلک بھول سکتا ہے اور نہ سطح زمین ۔
نبوی گلستان کے پھولوں کو جس طرح مسلا گیا اور ان کے پاک وجود وں کو جس طرح پامال کیا گیا اور ان کے سرکو جس بے دردی سے جدا کیا گیا اور ابن زیادکے دربار میں جلب منفعت اور طمع نفسانی کی خاطر پیش کیا گیا اور اس مردود نے جس انداز سے ان دانتوں پر لکڑی کی نوک لگائی جن پر کسی زمانے میں محبوب خدا کے لب لگے تھے خلفاء اربعہ نے بوسے دیئے تھے اس کی مثال اس رتبے کے لحاظ سے ملنا مشکل ہے۔
بہرحال عترت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اہل سنت کے ایمان کا جز ہے دعا ہے کہ خدا تعالیٰ ہم سب کو قیامت کے دن صحابہ کرامؓ اور اہل بیت عظام اور عترت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے خدام میں بنا کر اٹھائے ۔آمین
سیدنا معاویہؓ کی وفات اور یزید کا تقرر:۔
مؤرخ طبری تاریخ الامم والملوک جلد ۴ صفحہ ۲۵۷ میں لکھتے ہیں
حدثنی یحییٰ زکریا ابن یحییٰ الفرید قال حدثنا احمد بن جناب المصیصی ویکنی ابا الولید قال حدثنا خالدبن یزید ابن سد بن عبداللہ القسری قال حدثنا عمار الدھنی قال قلت لا بی جعفر حدثنی بمقتل الحیسن حتی کانی حضرتہ قال مات معاویۃ والولید بن عتبتہ بن ابی سفیان علی المدینۃ فارسل الی الحسین بن علی لیا خذ بیعتہ فقال لہ اخرنی وارفق فاخرہ فخرج الی مکہ فاتاہ اہل الکوفۃ ورسلہم انا قد حبسنا انفسنا علیک ولسنا نحضر الجمعۃ مع الوالی فاقدم علینا۔
یحییٰ کہتے ہیں مجھے احمد نے روایت کی ہے اور احمد کو خالد نے اور خالد کو عمار نے اور عمار کہتے ہیں کہ میں نے محمد باقر سے عرض کیا مجھے واقعہ شہادت ایسا بتایئے کہ گویا میں وہیں تھا انہوں نے فرمایا ،حضرت معاویہؓ نے وفات پائی تو ولید مدینے کا والی تھا اس نے حسین کی طرف بھیجا تاکہ یزید کے حق میں بیعت لے آپ نے فرمایا میرے ساتھ نرمی برتئے اور سوچنے کے لئے مہلت دے دیجئے پس آپ مکہ کو تشریف لے گئے اور وہاں سے کوفہ والوں کے فرستادے اور خطوط آئے کہ ہم ابھی تک آپ کی انتظار میں ہیں ہم والی کوفہ کے پاس جمعہ اد اکرنے کے لئے نہیں جاتے پس آپ ہمارے پاس آیئے
اس کی تشریح شیعی عبارتوں کی روشنی میں ملاحظہ فرمایئے
شیعی مورخ ملا باقر مجلسی جلاء العیون صفحہ ۳۴۹میں لکھتا ہے کہ سیدنا حسینؓ نے فرمایا کہ اے ولید کیا تو علانیہ بیعت چاہتا ہے اس نے کہاں ہاں آپ نے فرمایا مجھے اس وقت مہلت دیجئے کل میں آپ کے ساتھ اس سلسلہ میں مناظرہ کروں گا۔
ہریک آزما داو کہ بخلافت سزوار تر باشد دیگری بااوبیعت نماید ،ولید گفت برو خدابا تو ہمراہ تادرمجمع مردم تراملاقات نمایم ۔
جو بھی ہم میں سے خلافت کے لائق ہو دوسرا اس کی بیعت کرلے گا ولید نے کہا جایئے خداآپ کا امدادی ہو میں آپ سے مجمع میں ملاقات کروں گا ۔
فائدہ :۔اہل تشیع نے یہ تسلیم کرلیا کہ سیدنا حسینؓ خود امیر وقت بننا چاہتے تھے نیز یزید پر ان کے کچھ الزامات تھے اس لئے آپ نے فرمایا کہ۔
مثل من کسے بامثل اوکسے ہرگز بیعت نمیکند (جلاء العیون صفحہ ۳۴۹)
میرے جیسا اس جیسے کے ہاتھ پر ہرگز بیعت نہیں کرے گا
اس کے بعد آپ مدینہ منور ہ کے اہم مزارات پرتشریف لے گئے اور وہاں آخری سلام کرکے واپس تشریف لائے اتنے میں محمد بن حنفیہ سے ملاقات ہوئی محمد ابن حنفیہ نے کہا آپ مجھے اسلئے بھی محبوب ہیں کہ میرے بڑے بھائی ہیں اور اسلئے بھی کہ آپ امام اور پیشواء ہیں جو مقام خداتعالیٰ نے آپ کو دیا ہے مجھے نہیں دیا آپ نوجوانان بہشت کے سردار ہیں میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ یزید کی بیعت سے کنارہ کرجائیں اور کسی بستی میں چلے جائیں اور وہاں سے ملک میں خطوط اور اطلاعات بھیجیں اگر لوگ آپ پر جمع ہوجائیں تو فبہا
وبیعت تر ااختیار نمایند آنچہ مکنون خاطر حقائق مظاہر تست بعمل آوری واگر اطاعت تو نکنندمالک اختیار خود باشی (جلاء العیون صفحہ ۳۵۲)
اگر وہ لوگ تیری بیعت ہوجائیں جو کہ آپ کا منشا ہے تو ٹھیک اور اگر آپ کی اطاعت نہ کریں تو پھر آپ کو اختیار ہے۔
حضرت حسینؓ نے فرمایا پھر میں کہاں جاؤں محمد بن حنفیہ نے عرض کی پھر آپ مکہ معظمہ جایئے اگر وہ آپ کے ساتھ تعاون کریں تو ٹھیک ورنہ آپ یمن چلے جایئے سیدنا حسینؓ نے محمد ابن حنفیہ کے مشورے پر مرحبا کی آواز بلند کی اور فرمایا کہ اب تو میں مکہ مکرمہ کا عزم کرچکا ہوں ۔
مورخہ ۴ شعبان کو سیدنا حسینؓ کی مکہ کوروانگی اور تلقین صبر :۔
جب آپ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ تشریف لے جانے لگے تو مخدرات بنی ہاشم بہت غمگین ہوئیں اس وقت آپ نے نہایت ضبط واستقلال کا مظاہرہ فرمایا
شمارا بخدا سو گند بدہم کہ صبر پیش آورید ودست از جزع وبے تابی بروارید (جلاء العیون صفحہ ۳۵۳)
تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ صبر کرنا اور سینہ کوبی اور آہ وفغاں نہ کرنا
بہر حال آپ اپنے خویش واقارب کو داغ فراق دے کر اپنے خاص اہل بیت اپنے ساتھ لے کر مکہ مکرمہ تشریف لے آئے ۔
سید نا حسینؓ مکہ پہنچے تو خط وکتا بت شروع ہوگئی
سلیمان ابن صرد خزاعی کے گھر میں شیعی اجتماع :۔
سیلمان ابن صرد خزاعی نے سب شیعوں کو بلایا اور کہا کہ حضرت حسینؓ مدینہ منور ہ چھوڑ کر مکہ تشریف لا چکے ہیں اگر تم امداد کرسکو تو ان کو یہاں بلالو ،ورنہ خیر، تمام شیعوں نے بیک آواز ہو کر جواب دیا اے سلیمان کیا شیعہ بھی بے وفائی کرسکتا ہے؟
وبدست ارادت بااوبیعت می نمائیم ودربارے اوودفع شراعد ء او جانفشانی ہا بظہورمی رسانیم
اسکے ہاتھ پربیعت کریں گے انکی امداد اوراعدادکے شرکے دفع کرنے اورجان قربان کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کریں گے ۔
(جلاء العیون صفحہ ۳۵۶)
سیدنا حسینؓ کے نام متعدد خطوط
پہلا خط
بسم اللہ الرحمن الرحیم ایں نامہ ایست بسوئے حسینؓ ابن علیؓاز جانب سیلمان بن صرد خزاعی ومسیب بن نجیہ ور فاعہ ابن شداد بجلی وحبیب ابن مظاہر وسائر شیعان (جلااء لعیون صفحہ ۳۵۶)
بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ خط ہے حضرت حسینؓ کی طرف سلیمان بن صرد خزاعی او رمسیب اور رفاعہ اور حبیب اور سب شیعوں کی طرف سے ۔
اور خط کا مضمون یہ تھا کہ آپ ضرور تشریف لے آئیے آپ جہاں تشریف لے آئیں گے تو ہم کوفہ کے والی کو فورًا نکال دیں گے
خط کے لے جانے والوں کے نام اور خطوں کی تعداد:۔
نامہ رابا عبداللہ بن مسمع ہمدانی وعبداللہ بن دال بخدمت آنحضرت فرستادند ومبالغہ کردند کہ آن را بانہایت سرعت بخدمت آنحضرت برسانند پس ایشاں دردہم ماہ مبارک رمضان داخل مکہ شدند ونامہ اہل کوفہ رابآں حضرت رسانید ند باز اہل کوفہ بعد از دو روز ارسال آں قاصداں فیس بن مصہر وعبداللہ بن شداد و عمارہ بن عبداللہ رافر ستادندبا صد وپنجا ہ نامہ کہ عظماء اہل کوفہ نوشتہ بودند باز بعد از دو روز ہانی بن ہانی ربیع وسعید ابن عبداللہ رابخدمت آنحضرت روانہ کردندو نوشتہ بسم اللہ الرحمن الرحیم ایں عریضہ ایست بخدمت حسین بن علی ازشیعیان وفدویان ومخلصان (جلاالعیون صفحہ ۳۵۶۔۳۵۷
تاآنکہ دریک روز شش صدنامہ ازاں بانحضرت رسید ،چوں مبالغہ ایشاں از حد گذشت ورسولا ں بسیار نزد آنحضرت جمع شد ندواز دہ ہزار نامہ ازاں ناحیہ باں جناب رسید (جلاء العیون صفحہ ۳۵۷)
شیعوں نے وہ خط عبداللہ بن مسمع اور عبداللہ بن دال کے ہاتھ حضرت حسینؓ کی طرف بھیجا اور تاکید کی کہ یہ خط حضرت حسینؓ کے ہاں جلدی پہنچائیں پس یہ لوگ دسویں تاریخ رمضان مکہ مکرمہ پہنچے اور اہل کوفہ کے خطوط حضرت حسینؓ تک پہنچائے اس کے بعد کوفہ والوں نے دو دن کے بعد قیس اور عبداللہ اور عمارہ کو ڈیڑھ سو خط اہل کوفہ کے سرداروں کے بھیجے اور دو ر وز کے بعد ہانی اور سعید کو خط دے کر بھیجا اور خط لکھنے والوں نے اس مضمون کا خط لکھا بسم اللہ الرحمن الرحیم بخدمت حسینؓ بن علیؓ از طرف شیعیان وفد ویان ومخلصان کوفہ ۔تاآنکہ ایک دن میں چھ سو خط شیعیان کوفہ کی طرف سے آئے جب مبالغہ حدسے گزرگیا اور فرستادے حضرت کے پاس زیادہ جمع ہوئے تو وہاں سے بارہ ہزار خط حضرت حسینؓ کے پاس پہنچے
اس قدر تحقیق کے بعد اب مذکورہ بالاکتاب تاریخ الامم والملوک مصنفہ طبری جلد ۴ صفحہ ۲۸۷ کی عبارت ملاحظہ فرمایئے اور غور سے دیکھئے کہ حضرت مسلم کو سیدنا حسینؓ نے تحقیق کا حکم تو دیا ہے لیکن یہ نہیں فرمایا کہ وہاں جاکر بیعت لینا شروع کردو ہوسکتا تھا کہ بیعت کا سلسلہ اگر شروع نہ کرتے تو یہ حالات رونما نہ ہوتے ۔واللہ اعلم
حقیقت الحال :۔
قال فبعث الحسین الی مسلم بن عقیل فقال لہ سرالی الکوفۃ فانظر ما کتبوا الی فان کان حقا خرجنا الیہم فخرج حتی قدمہا ونزل علی رجل من اہلہا قال لہ ابن عوسجہ قال لما تحدث اہل الکوفۃ بمقدمہ ذہبو الیہ فبایعوہ فبایعہ منہم اثنا عشرالفا
حضرت حسینؓ نے حضرت مسلم بن عقیل کی طرف پیغام بھیجا کہ آپ کو فے جائیے اور وہاں حالات کا جائز ہ لے کر مجھے مطلع فرمایئے پس اگر سچ ہو تو ہم ان کے پاس جائیں گے پس حضرت مسلم کوفہ چلے گئے اور وہاں ابن عوسجہ کے پاس پہنچے جب اہل کوفہ کو ان کے آنے کی اطلاع ملی تووہ حضرت مسلم کے پاس پہنچے اور بارہ ہزار آدمیوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔
اہل تشیع کی جلاء العیون صفحہ ۳۵۷ او ر تاریخ الامم صفحہ ۲۵۷ دونوں کا اس پر اتفاق ہے حضرت مسلم کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں لوگ نماز پڑھتے اور پروانہ وار قربانی کا دم بھرتے مرج البحرین کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ چالیس ہزار افراد نے امام مسلم کی بیعت کی چونکہ حضرت مسلم نے یہ خبر سیدنا حسینؓ کو دینی تھی ۔۔۔اسلئے
کتب مسلم بن عقیل الی الحسینؓ ابن علی یخبرہ بیعۃ اثنی عشرالفا من اہل الکوفۃ ویا مرہ بالقدوم
(تاریخ الامم جلد ۴ صفحہ ۶۵۹)
حضرت مسلمؓ نے حضرت حسینؓ کی طرف خط لکھا اور اس میں یہ بھی تحریر فرمایا کہ اہل کوفہ میں سے بارہ ہزار نے میرے ہاتھ پر بیعت کرلی ہے لہذا آپ آنے میں دیر نہ فرمایئے۔
خط بھیجنے کی خبر ہرہر گھر میں پہنچ گئی شیعیان کوفہ حضرت حسینؓ کی آمد کے بے حد منتظرتھے ۔
شیعیان حسینؓ کی چہل پہل اور محبین یزید کے پیٹ میں درد :۔
فقام رجل ممن یہوی یزید ابن معاویہ الی النعمان ابن بشیر فقال لہ انک ضعیف ضعیف او متضعف قد فسد البلاد ۔ (تاریخ الامم جلد ۴ صفحہ ۲۵۷)
پس یزید کے ہوا خواہوں میں سے ایک جوان نعمان ابن بشیر کی طرف آیا اور کہا تو یا تو ضعیف ہے اور یا ضعیف بنا دیا گیا ہے شہر تباہ ہورہے ہیں اور تو مست ہوکر بیٹھا ہے۔
نعمان بن بشیر کا جواب :۔
ان اکون ضعیفا وانافی طاعۃ اللہ احب الی من ان اکون قویافی معصیۃ اللہ وما کنت لاہتک سراسرہ اللہ۔
خدا تعالیٰ کی اطاعت میں مجھے ضعیف ہونا زیادہ محبوب ہے اس سے کہ خدا کی معصیت میں قوی ہوجاؤں مجھ سے اس پردے کی ہتک نہیں ہوسکتی جسے اللہ تعالیٰ نے ڈھانپ لیا ہے اریخ الامم ص ۳۵۷)
جاسوس نے یزید کو خبردے دی:۔
یزید کو جب معلوم ہوا کہ والی کوفہ نعمان محبت اہل بیت کی وجہ سے سستی کررہا ہے اور مسلم بن عقیل کا سکہ اہالیان کو فہ کے دلوں میں بیٹھ چکا ہے ادھر مسلم نے حسینؓ بن علیؓ کوبھی تاکیدی خط لکھ دیا ہے وہ اگر آگیا تو قوم ساری کی ساری ان کے ساتھ ہوجائے گی تو میری عزت میں فرق آجائے گا۔
پس اس نے اپنے مشیر سرجون کو بلایا اور یہ سارا ماجرا سنایا ،سرجون نے کہا کہ واقعی نعمان وہاں کے لائق نہیں ہے اگر عبیداللہ بن زیادکو کوفے کاو الی مقرر کردیا جائے تو وہ قوم کو اپنے کنٹرول میں لے لے گا
وکان یزید ساخطا وکان ہم بعزلہ عن البصرۃ فکتب الیہ برضاۂ وانہ قدولاہ الکوفۃ مع البصرۃ وکتب الیہ ان یطلب مسلم بن عقیل فیقتلہ ان وجدہ (تاریخ الامم صفحہ ۲۵۸)
یزید ابن زیاد پر ناراض تھا اور اس کے معزول کرنے کا قصد کرچکا تھا پس یزید نے ابن زیاد کو خط لکھا کہ میں نے تجھے بصرے کے ساتھ ساتھ کوفے کا والی بھی بنا دیا ہے اور کام یہ ہے کہ جہاں مسلم بن عقیل کو پائے قتل کردے ۔
ابن زیاد کوفہ میں آیا اور لوگوں نے اسے حسینؓ بن علی تصور کیا :۔
قال فاقبل ابن زیاد حتی قدم الکوفۃ عنلثما ولا یمر علی مجلس من مجالسہم فیسلم الا قالواعلیک السلام یاابن بنت رسول اللہ وہم یظنون انہ الحسین حتی نزل القصر
(تاریخ الامم جلد ۴ صفحہ ۲۵۸)
پس ابن زیاد کوفہ میں آیا اور جس مجلس سے گزرتاتھا اور السلام علیکم کرتا لوگ اسے حسین بن علی سمجھ کر وعلیک السلام یاابن رسول اللہ ؐکہہ کر جواب دیتے تھے حتیٰ کہ وہ شاہی محل میں داخل ہوگیا ۔
ابن زیاد نے پبلک کے جذبے سے اندازہ لگالیا کہ مسلم اور حسینؓ کی محبت ان کے دلوں میں گھر کرچکی ہے اس لئے ایک جاسوس کے ذریعے مسلم بن عقیل کا پتہ نکالا۔
فاعطاہ ثلاثۃ الاف فقال لہ اذہب حتی تسال عن الرجل الذی یبایع لہ اہل الکوفۃ فاعلمہ انک رجل من اہل حمص جئت لہذاالامرو ہذا مال تد فعہ الیہ لیتقوی فلم یزل یتلطف ویرفق بہ حتی دل علی شیخ من اہل الکوفۃ بلی البیعۃ فلقیہ واخبرہ فقال لہ الشیخ لقد سرنی لقاء ک ایای وقد ساء نی فاماما سرنی من ذالک فما ہداک اللہ لہ واما ما ساء لی فان امرنا لم یستحکم بعد فادخلہ الیہ فاخذمنہ المال وبایعہ ورجع الی عبداللہ بن زیاد فاخبر ہ

پس اسے تین ہزار درہم دیئے اورکہا کہ جااور مسلمؓ کی خبر لے جس کی اہل کوفہ بیعت کررہے ہیں ان کو یہ کہہ دے کہ میں حمص سے بیعت کے لئے آیا ہوں اور یہ مال حضرت مسلمؓ کی خدمت میں پیش کرنا ہے پس ہمیشہ نرمی اور خوش خلقی سے پیش آیا ،حتی کہ اس شیخ کے پاس آیا جس کے ذریعے سے بیعت ہوتی تھی پس جاکر شیخ سے ملا اور خبر دی پس شیخ نے کہا کہ آپ کی ملاقا ت سے تو مجھے خوشی ہوئی لیکن ایک طریقہ سے غمگینی بھی ہوئی خوشی تو یہ خداتعالیٰ نے تجھے ہدایت بخشی اور غمی یہ کہ ابھی تک ہمارا کام مستحکم نہیں ہوا ۔پس اس سے مال لیا اور حضرت کی بیعت کرادیا وہ یہ کہ جاسوسی کرکے ابن زیاد کے پاس پہنچا اور اسے جاکر خبر دی ۔ (تاریخ الامم جلد ۲ صفحہ ۲۵۸)
حضرت مسلمؓ بن عقیل اسی دن ہانی ابن عروہ کے گھر تشریف لائے۔
عبیداللہ ابن زیاد نے ہانیؓ بن عروہ کو طلب کرلیا :۔
جب اس کو حقیقت حال سے آگاہی ہوئی توایک دن سب کے ساتھ ملاقات کرنے کے بعد دربار میں ہانی بن عروہ کے نہ آنے کی وجہ پوچھی اس بنا پر اشعت ہانی کے دروازے پر گیا اور کہا ۔
ان الامیر قدذکرک واستبطاک فانطلق الیہ فلم یزالوابہ حتی رکب وسار حتی دخل علی عبیداللہ وعند ہ شریح القاضی فلما نظر الیہ قال یاہانی این مسلم؟
(تاریخ الامم جلد ۴ صفحہ ۲۵۹)
امیر ابن زیاد نے تجھے یا دکیا ہے اور تیری غیر حاضری کو برا محسوس کیا ہے اور دیری کی وجہ پوچھی ہے پس جب ہانیؓ نے یہ سنا تو گھوڑے پر سوار ہوااور عبیداللہ بن زیادکے دربار میں پہنچ گیا وہاں قاضی شریح بھی بیٹھا تھا جب ابن زیادنے ہانی کو دیکھا تو پوچھا مسلم کہاں ہے ؟
ہانی ابن عروہ نے لاعلمی کا اظہار کیا تو عبیداللہ نے اس جاسوس کو سامنے کیا جب ہانیؓ نے اس مکار زمن کو دیکھا تو جواب دیا
اصلح الا میر واللہ مادعوتہ الی منزلی ولکنہ جاء فطرح نفسہ علی۔ (تاریخ الامم جلد ۴ صفحہ ۲۵۹)
خداتعالیٰ امیر کو نیک بنائے خداکی قسم حضرت مسلم کو میں نے بلایا تو ہے نہیں لیکن وہ خودبخود آئے ہیں ۔
ہانیؓ سے عبیداللہ بن زیاد کا مطالبہ :۔
عبیداللہ بن زیاد نے کہا کہ لاؤ مسلم بن عقیل کو میرے سپرد کردو ہانی نے انکار کردیا اور کہا کہ ۔
مال مانگو تو مال دیں گے جان مانگو تو جان دیں گے
مگر یہ ہم سے نہ ہوسکے گا نبی کا جاہ وجلال دیں گے
میں ایک بوڑھا صحابی ہوں مجھے حضرت رسول کریم ﷺ کا خیال آیا ہے میری جان چلی جائے تو چلی جائے مگر میں حضرت مسلم کا ناخن بھی نہیں دکھا سکتا ۔
ابن زیاد نے جلاد کو کہا کہ اسے ایک ہزار کوڑے لگاؤ جب پانچ سو کوڑے لگائے گئے تو صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم بے ہوش کر گر پڑا آخر الامر شہید کردیا گیا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
سید نا مسلمؓ کو ہانی ابن عروہ کی تکلیف کا پتہ چل گیا :۔
فنادی بشعاءۃ فاجتمع الیہ اربعۃ الاف من اہل الکوفۃ پس حضرت مسلم نے اپنی جماعت کو بلایا آپ کے پاس چار ہزار کوفیوں میں سے جمع ہوگئے۔ (تاریخ الامم جلد ۴ صفحہ ۲۶۰)
آپؓ نے جنگ کا پورا نقشہ بنا کر دارالامارت کو گھیر لیا عبیداللہ ابن زیاد نے جب یہ رنگ دیکھا تو اس کے طوطے اڑگئے اب عبیداللہ نے کوفے کے رؤسا کی طرف آدمی بھیجے اور ان کو کہا کہ دارالامارۃ پر چڑھ کر لوگوں کو ڈرائیں۔
پس بحکم ابن زیاد،محبت کے داعی رؤساء کوفہ جنہوں نے ہزار خطوط لکھے تھے ، دارالامارت پر چڑھ گئے اور لوگوں سے کہا کہ یزید بڑا سخت آدمی ہے تمہیں پیس کر رکھ دے گا تمہیں چاہیئے کہ ابن عقیل کا ساتھ چھوڑ دو ۔
نتیجہ یہ نکلا کہ شام تک پانچ سو باقی رہے جب اندھیرا ہوا تو تیس باقی رہے مسجد سے باہر نکلے تو سب شیعہ بھاگ گئے ۔
فلما رای مسلم انہ قد بقی وحدہ یتردد فی الطرق حتی اتی بابا فنزل علیہ فخرجت الیہ امرۃ فقال لہا اسقنی فسقتہ ثم دخلت فمکثت ماشاء اللہ ثم خرجت فاذاہوعلی الباب قالت یا عبداللہ ان مجلسک مجلس ریبۃ فقم فقال انا مسلم ابن عقیل فہل عندک ماوی؟ قالت نعم ودخل ۔
(تاریخ الامم صفحہ ۲۶۰ جلد ۴)
پس مسلم نے دیکھا کہ میں اکیلا رہ گیا ہوں تو گلیوں میں ادھر ادھر جانے لگا حتی کہ ایک دروازے پر آکر بیٹھ گئے پس ایک عورت گھر سے نکلی حضرت مظلوم نے پانی مانگاوہ پانی لے آئی اور پلا کر اندرچلی گئی تھوڑی دیر کے بعد باہر آئی تو حضرت وہیں کے وہیں بیٹھے ہوئے تھے اس نے کہا اے خدا کا بندہ تیری نشست مشکوک نظر آرہی ہے آپ تشریف لے جایئے آپ نے فرمایا میرانام مسلم بن عقیل ہے بے وطن ہوں کیا تیرے پاس میرے رہنے کی جگہ ملے گی؟ اس نے کہاں ہاں اور آپ اندر چلے گئے ۔
مسافر ہوں ،سید ہوں ،آوارہ وطن ہوں ،غریق قلزم رنج ومحن ہوں ،اس عورت کا بیٹا محمد اشعت کا خادم تھا جب اسے پتہ چلا تو اس نے محمد کو بتا دیا اور محمد ابن اشعت نے عبیداللہ تک خبر پہنچادی اس نے عمر وبن حریث کو محمد ابن اشعت اور تین سو سواروں سمیت روانہ کیا جب فوج نے طوعہ کے مکان کو گھیرلیا تو حضرت مسلمؓ نے نماز سے فراغت کے بعد نقارے اور گھوڑوں کی ٹاپ کی آواز سنی ۔
فلما رای مسلم خرج الیہم بسیفہ فقاتلہم فاقبل علیہ محمد ابن الاشعت فقال یافتی لک الامان لا تقتل نفسک (تاریخ الامم جلد ۴ صفحہ ۲۸۰)
پس جب مسلمؓ نے دیکھا تو تلوار لے کر باہر نکلے پس ان سے جنگ کی جب بہادری کے جوہر دشمنوں نے دیکھے تو کہا محمد ابن اشعت نے تیرے لئے امان ہے تو اپنے نفس کو قتل نہ کر ۔
حضرتؓ نے جس پر وار کیا پوراکیا یاماراگیا یا حدسے زیادہ زخمی ہوا جدھر منہ کرتے صفایا کردیتے ،ظالموں کے مقابلے کی تاب نہ رہی ،مکانوں پر چڑھ کر تیروں کے وار کرنے لگے ،ایک ظالم کا پتھر پیشانی پر ایسا لگا کہ خون فوارے کی طرح نکلنا شروع ہوا تمام چہرہ لہولہان ہوگیا ،غش تک نوبت پہنچ گئی ،مگر ضبط کرگئے
فلما عجز القتال فاسندظہر ہ الی جنب تلک الدار فاتی بنعبۃ فحمل علیہا واجتمعواحولہ وانتزعوا سیفہ من عنقہ فکانہ اٰئس من نفسہ فدمعت عیناہ ثم قال ہذااول الغدر قال محمد ابن الاشعت ارجوان لا یکون علیک باس قال ماہو الا الرجاء این امانکم انا للہ وانا الیہ راجعون
جب لڑائی سے عاجز ہوگئے تو دیوار کے ساتھ پشت کی ٹیک لگا کر بیٹھ گئے آپ کو ایک خچر پر سوار کیا گیا کوفی شیعوں نے ان کی گردن سے تلوار کھینچ لی پس آپ اپنی زندگی سے ناامید ہوگئے اور رونے لگے پھر فرمایا یہ پہلا دھوکا ہے تو محمد ابن اشعت نے کہا مجھے امید ہے کہ آپ کو کوئی کچھ نہیں کہے گا آپ نے فرمایا بس یہ امید ہی ہے ،کہاں تمہاری امان ؟انا اللہ وانا الیہ راجعون ۔
فائدہ :۔
حضرت مسلمؓ بن عقیل کو بلانے والے کون تھے؟
خط کن لوگوں نے لکھا تھا؟
دستخطوں میں وہ اپنے کو کس مذہب سے منسوب کرتے تھے ؟
بعدہ بیعت کرنے والے کون تھے؟
ابن زیاد باہر سے کوئی فوج لے کر آیا ہی نہیں تھا آخر کن لوگوں نے اسکا ساتھ دیاتھا؟
حضرت مسلمؓ کو تن تنہا کون لوگ چھوڑ گئے ؟
اس کا جواب مذکورہ خط وکتابت کی روشنی میں خود سوچ لیں؟
مظلوم مسلمؓ، ابن زیاد کے دربار میں :۔
نہ قاصدے نہ صبائے نہ مرغ نامہ برے
کسے زبے خبری مانمے برد خبرے
کس حال میں پیش کیا گیا ،بکر ابن عمران کے وار کی وجہ سے آپ کااوپر والا ہونٹ کٹ گیا تھا شدت پیاس کی وجہ سے گلا خشک ہوگیا تھا جب ابن عقیل پیش ہوئے تو آپ نے ابن زیاد کو سلام نہ کیا ۔چوکیدار نے کہا کیا آپ امیرکو سلام نہیں کرتے ؟۔۔۔فرمایا
ان کان یرید قتلی فما سلامی علیہ وان کان لا یرید قتلی فلعمری لکثیر ۃ سلامی علیہ فقال لہ ابن زیادلعمری لتقتلن قال کذالک قال نعم قال فدعنی فاوص الی بعض قومی۔ (تاریخ الامم طبری جلد ۴ صفحہ ۲۸۱)
اگر ابن زیاد میرے قتل کا ارادہ رکھتا ہے تو میر اسلام اس پر نہیں ہے اور اگر میرے قتل کا ارادہ نہیں رکھتا تو بہت سلام ہوں گے اس پر ،پس ابن زیاد نے کہا ضرور تجھے قتل کردیا جائے گا مسلم ابن عقیل نے کہا ، اسی طرح ،کہنے لگا ہاں۔ ابن عقیل نے کہا مجھے چھوڑ دو ،تاکہ میں قوم کے بعض افراد کو وصیت کرلوں ۔
حضرت مسلمؓ بن عقیل کی وصیتیں :۔
آپؓ نے عمر وبن سعد کی طرف رخ کیا اور فرمایا ،میری اور تیر ی رشتہ داری ہے مجھے تیرے تک کام ہے تجھے چاہیئے کہ میری وصیتیں پوری کردے
(۱)۔۔۔ایک تو میں نے شہر کوفہ میں سات سو درہم قرض لیا تھا وہ ادا کردینا ۔
(۲)۔۔۔میرے کپڑے پھٹ چکے ہیں کہیں مجھے بغیر کپڑوں کے قتل نہ کردیا جائے ۔
(۳)۔۔۔میرابھائی حضرت حسینؓ روانہ ہوچکا ہوگا کسی آدمی کو بھیج کر ان کو واپس کردیا جائے اور ان کو بتا دیا جائے کہ تیرا فرستادہ اس قدر بے دردی اور بے رحمی سے قتل کردیا گیا ہے اگر ہوسکے تو میرا رنگین پیرہن نشانی کے طور پر حضرت حسینؓ تک پہنچادینا۔
ابن زیاد نے کہا
اصعد وابہ فوق القصرواضربو ا عنقہ
(تاریخ الامم جلد ۴ صفحہ ۲۸۱)
اسے قصر (محل )پر لے جاؤ او راسے قتل کردو
شہاد ت مسلم بن عقیل :۔
خدابرا کرے نفسانی طمع اور نشہ امارت کا کہ کس ہستی کو انہوں نے قتل کرنا چاہا ،سچ ہے کہ کوئی گورنمنٹ متوازی اسٹیج برداشت نہیں کرسکتی خواہ مقابلے میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا عزیز سے عزیز ترین ہی کیوں نہ ہو ۔
بحکم ابن زیاد پہلی مرتبہ حملہ بکران بن عمران کے بیٹے نے کیا لیکن اس کا ہاتھ خشک ہوگیا ،اس کے بعد دوسرے نے حملہ کیا لیکن اس کا کلیجہ پھٹ گیا اور وہیں گر کر مر گیا آخر کار ابن زیادنے ایک شامی کو بھیجا جس نے آپؓ کوشہید کردیا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
مکہ مکرمہ میں خط پہنچا اور سیدنا حسینؓ نے سفر کا ارادہ کرلیا :۔
جب اہالیان مکہ کو آپ کے عراق جانے کا علم ہوا تو کافی لوگ حضرت حسینؓ کو روکنے کے لئے آئے کہ آپ ادھر تشریف نہ لے جایئے وہ لوگ بے وفا ہیں بعض حضرات کے مشورے ملاحظہ فرمایئے ۔
عمر بن عبدالرحمن بن حارث مخزومی کا مشورہ :۔
قدبلغنی انک ترید المسیر الی العراق وانی مشفک علیک من مسیرک انک تاتی بلدا فیہ عمالہ وامراء ہ ومعہم بیوت الاموال وانما الناس عبید لہذا لدرہم والدنیار ولا آمن علیک۔ (طبری صفحہ ۲۸۶جلد ۴)
مجھے معلوم ہوا ہے کہ توعراق کی طرف جانے کا ارادہ کررہا ہے اور مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ آپ ایسے شہرمیں جارہے ہیں جس میں یزید کے عمال اور امیر رہتے ہیں اور بیت المال بھی ہیں اور لوگ دنیا پرست ہیں اورمیں آپ پر بے غم نہیں ہوں۔
سید نا حسینؓ کا جواب:۔
مہما یقض من امریکن اخذت برایک اوترکتہ فانت عندی احمد مشیروانصح ناصح (طبری ج ۴ ص۲۸۶)
جو ہونا ہے ہوگا اب میں آپ کا مشورہ قبول کروں یا چھوڑوں ،پس تو میرے نزدیک بہترین مشیر اور ناصح ہے ۔
حضرت ابن عباسؓ کا مشورہ:۔
فانہم انما دعوک الی الحرب والقتال ولا امن علیک ان یکذبوک ویخالفوک و یخذ لوک فقال لہ حسین و انی استخیراللہ وانظر مایکون (تاریخ طبری ج۴ ص ۲۸۶)
بلاشبہ انہوں نے آپ کو جنگ وقتال کی طرف بلایا ہے اور مجھے ڈر ہے کہ وہ آپ کی تکذیب اور مخالفت نہ کریں اور آپ کو بے عزت نہ کریں حضرت حسینؓ نے فرمایا میں استخارہ کروں گا اور دیکھوں گا کہ کیا ہوتا ہے ۔
حضرت ابن عباسؓ کا دوسرا مشورہ :۔
اتخوف علیک فی ہذا لوجہ الہلاک والا ستیصال ان اہل العراق قوم غدر فلا تقربنہم اقم بہذا البلد فانک سید اہل الحجاز فان کان اہل العراق یرید ولک کماز عموا فاکتب الیہم فلینفوا عدوہم ثم اقدم علیہم فان ابیت الان تخرج فسرالی الیمن فان بہا حصونا وشعوبا
(طبری جلد ۴ صفحہ ۲۸۶)
اس وجہ سے مجھے آپ پر ہلاکت اور تباہی کا خوف ہے یہ عراقی دھوکے باز ہیں ان کے پاس نہ جاؤ یہاں مدینے میں رہ جاؤ آپ اہل حجاز کے سردار ہیں اور اگر اہل عراق کا آپ کے جانے کے متعلق ارادہ ہے جس طرح ان کا دعوی ہے تو ان کو لکھیئے کہ پہلے اپنے دشمن کو اپنے شہر سے نکالیں پھر ان کے پاس جائیے اور اگر آپ نہیں مانتے تو پھر بجائے عراق کے یمن چلے جایئے وہاں بچنے کے بہت سے مقامات ہیں اگر آپ جاتے ہیں تو بال بچوں کو نہ لے جائیے۔
سیدنا حسینؓ کو ابن عباسؓ کا مشورہ :۔
فلا تسربنسا ئک وصبیتک فواللہ ان لخائف ان تقتل کماقتل عثمان ونساؤہ وولد ینظرون الیہ
(طبری جلد ۴ صفحہ ۲۸۷)
آپ اپنی عورتوں اور بچیوں کو ساتھ نہ لے جائیے مجھے خوف ہے کہ کہیں آپ کو حضرت عثمانؓ کی طرح قتل نہ کردیا جائے کہ وہ قتل ہورہے تھے اور ان کی اہل بیت ان کو دیکھتی رہ گئی ۔

ابن عباسؓ کا تشدد آمیز مشورہ :۔
واللہ الذی لاالہ الاہو لو اعلم انک اذا اخذت بشعرک وناصیتک حتی یجتمع علی وعلیک الناس وسلمت لفعلت ذالک۔ (تاریخ طبری جلد ۴ صفحہ ۲۸۷)
خدا کی قسم اگر مجھے یقین ہوتا کہ میں تیرے سر کے بال اور تیری پیشانی پکڑ لوں تاکہ لوگ جمع ہوجائیں اور آپ مان جاتے تو یہ حیلہ بھی میں کرلیتا۔
حضرت ابن زبیرؓ نے بھی منع کیا :۔
مگر افسوس کی سیدنا حسینؓ نے کسی کا مشورہ نہ مانا اور اپنے بال بچوں سمیت روانہ ہوگئے
فرزوق ابن غالب شاعر سے آخری کلام :۔
عن عبداللہ بن سلیم والمذری قال اقبلنا حتی انتہنا الے الصفاح فلقینا الفرزوق فواقف حسینا فقال لہ اعطاک اللہ سولک واملک فیما تحب فقال لہ الحسین بین النا نبأ الناس فقال لہ الفرزوق من الخبیر سألت قلوب الناس معک وسیوفہم مع بنی امیۃ والقضاء ینزل من السماء واللہ یفعل مایشاء فقال لہ الحسین صدقت اللہ الامرواللہ یفعل مایشاء وکل یوم ربنا فی شان ثم حرک الحسین راحلۃ قال السلام علیک۔ (تاریخ طبری جلد نمبر ۴ ص ۲۹۰)
عبداللہ اور مذری کہتے ہیں کہ ہم روانہ ہوئے حتی کہ ہم صفاح تک پہنچے پس ہماری ملاقات فرزوق شاعر سے ہوئی فرزوق نے حضرت حسینؓ کو روک لیا اورکہا خداآپ کا مقصد پورا کرے حضرت حسینؓ نے فرمایا کوفے کے لوگوں کا حال بیان فرمایئے فرزوق نے کہا شکر ہے کہ آپ نے ایک واقف کارسے سوال کیا ہے سنیئے لوگوں کے دل تو آپ کے ساتھ ہیں اور تلواریں یزید کے ساتھ قضاء آسمان سے نازل ہوتی ہیں اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے پس حضرت حسینؓ نے فرمایا آپ نے سچ کہا ہے بلاشبہ سب کچھ خداتعالیٰ کے ہاتھ ہے اور اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے ،یہ کہہ کر حضرت حسینؓ نے سواری کو چلایا اور فرمایا السلام علیکم۔
فائدہ:۔
آج ماہ ذی الحجہ ۶۰ ہجری کی تیسری تاریخ تھی اور اسی دن حضرت مسلمؓ کی شہادت ہوئی
سیدنا حسینؓ کے رضاعی بھائی کی شہادت :۔
جب سیدنا حسینؓ وادی بطن رملہ میں پہنچے تو عبداللہ بن یقطین کو اپنی آمد کی خبر پر ایک مشتمل خط دیا تاکہ کوفہ والوں کو آمد کے اطلاع ہوجائے مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ابن زیاد نے حضرت حسینؓ کی آمد کی خبر سن کر سرحد قادسیہ پر حصین بن نمیر کو کچھ فوج دے کر روانہ کیا اس نے قادسیہ پر قبضہ کرکے چاروں طرف سے ناکہ بندی کرلی اور عبداللہ بن یقطین کو گرفتار کرکے شہید کردیا۔
جب آپ وادی بطن رملہ سے آگے گئے تو عبداللہ بن عمرؓسے ملاقات ہوئی ان سے جدائی کے بعد زبیر بن قیس سے ملاقات ہوئی۔
حضرت مسلم بن عقیلؓ کی خبرشہادت :۔
جب آپ منزل ثعلبیہ میں پہنچے تو بکر اسدی کوفے سے آرہاتھا اس سے سیدنا حسینؓ نے کوفے کے حالات بالخصوص حضرت مسلم بن عقیل کی خبر پوچھی اس نے آبدیدہ ہوکر عرض کیا ،حضرت مسلمؓ تو ۳ ذی الحجہ کو شہید کردیئے گئے ہیں اور تمام شیعہ بے وفائی کرکے فوج یزید میں شامل ہوچکے ہیں ۔
آپ نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا او رخیمے کی طرف چلے آئے
اے حسینؓ واپس چلیئے :۔
ولما کان بالثعلبیۃ جاء ہ مقتل مسلمؓ بن عقیل فقال لہ بعض اصحابہ اللہ الاما رجعت من مکانک فانہ لیس لک بالکوفۃناصرولا ثیقہ بل نتخوف ان یکونوا علیک فوثب بنو عقیل وقالواواللہ لا نبرح حتی ندرک ثارنا اونذوق کما ذاق مسلم ۔محاضرات ۔تاریخ الامم الاسلامیہ شیخ محمد طبری جلد ۴ صفحہ ۱۲۸)
اور جب آپؓ ثعلبیہ کے مقام پر پہنچے تو آپکےؓ پاس حضرت مسلمؓ کی شہادت کی خبر پہنچی تو آپکے بعض احباب نے عرض کیا کہ واپس چلنا چاہیئے آپؓ کا کوفے میں کوئی مدد گار نہیں ہے اور نہ طرف دار ہے بلکہ ہمیں آپکی تکلیف کا خوف ہے پس مسلم بن عقیلؓ کے بھائی اچھلے اور کہنے لگے خدا کی قسم بغیر بدلے یا بغیر شہادت کے ہم نہیں ٹلیں گے۔
آپؓ بنوعقیل کے کہنے پر آگے بڑھے تو موضع زمالہ آگیا ۔آگے بڑھے تو مقام سرات آگیا ۔وہاں حر بن یزید ابن زیاد کی طرف سے سیدنا حسینؓ کو گرفتار کرنے کے لئے ایک ہزار سوار لے کر آپہنچا ۔
حضرت حسینؓ اور حر کی تیز تیز باتیں :۔
قابلتہ خیل عدتہا الف فارس مع الحرابن یزید التمیمی فقال لہم الحسین ایھا الناس انہا معذرۃ الی اللہ والیکم انی لم اتیکم حتی اتنی کتبکم ورسلکم ان اقدم علینا فلیس لنا امام لعل اللہ ان یجعلنا بک علی الہدی فقد جئتکم فان تعطونی مااطمئن الیہ من عہودکم اقدم مصرکم وان لم تفعلواوکنتم بمقد می کارہین انصرفت عنکم الی المکان الذی اقبلنا منہ فلم یجیبوہ بشئی فی ذالک ثم قال لہ الحرانا امرنا اذا نحن تعیناک ان لا نفارقک حتی نقد مک الکوفۃ علی عبیداللہ بن زیاد فقال الحسین الموت ادنٰی الیک من ذالک ثم امراصحابہ فرکبواینصرفو افمنعہم الحرمن ذالک فقال الحسین ثکلتک امک ماترید فقال اماواللہ لوغیرک من العرب یقولہا ما ترکت ذکر امہ بالثکل کائنااماکان ولکن مالی الی ذکرامک من سبیل الاباحسن ما یقدر (محاضرات تاریخ الامم اسلامیہ ج ۲ ص ۱۲۸
حضرت حسینؓ کے آگے حربن یزید ہزار سوار لے کر مقابلے کے لئے آگیا ان کو حضرت حسینؓ نے فرمایا اے لوگوں میری معذرت خدا کی طرف ہے اور تمہاری طرف ہے میں تمہارے پاس بغیر تمہارے خطوں اور فرستادوں کے نہیں آیا تم نے لکھا تھا ،تم ہمارے پاس آؤ ہمارا امام کوئی نہیں ہے شاید ہم کو خداتعالیٰ آپ کے ذریعے سے ہدایت نصیب فرمائے پس اب میں تمہارے پاس پہنچ چکا ہوں اگر تم وعدوں پر سچے ہو تو میں تمہارے شہر آتا ہوں اور اگر تم کو میرا آنا پسند نہیں ہے میں وہاں چلاجاؤں گا جہاں سے آیا ہوں ،اس کا جواب انہوں نے کچھ نہ دیا حرنے کہا ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ آپ کو ابن زیادکے پاس لے جائیں سیدنا حسینؓ نے فرمایا کہ موت تیرے قریب تر ہے اس کے بعد آپ نے جماعت کو حکم دیا سوار ہوکر مڑنے لگے تو حر نے انہیں روک دیا حضرت حسینؓ نے فرمایا تیری ماں تجھ پر روئے تیرا ارادہ کیا ہے؟ حر نے کہا خدا کی قسم اگر عرب میں سے تیرے بغیر کوئی اور یہ کلمہ میرے حق میں کہتا تو میں اس کی ماں کے ذکر کو نہ چھوڑتا اور جو کچھ نتیجہ نکلتا برداشت کرتا لیکن مجھے حیا مانع ہے کہ میں تیری ماں کا ذکر کروں۔
ان دلائل سے روز روشن کی طرح واضح ہورہا ہے کہ برادران یوسف جس طرح یوسف علیہ السلام کو لانے والے اور وہی بے وفائی کرنے والے تھے اسی طرح یہاں بھی سیدنا مسلم اور سیدنا حسینؓ کو یہی لانے والے تھے اور یہی بے وفائی کرنے والے تھے۔
مقام کربلا میں سیدنا حسینؓ پہنچ گئے:۔
آج ۶۱ھ اور دوسری محرم کا دن تھا آپ نے وہاں خیمے گاڑے، اونٹ بٹھائے، گھوڑے باندھے ،ہتھیار کھولے ،آپ نے اپنے اہل بیت کو صبر کی تلقین کی ۔
فائدہ :۔
گذشتہ عبارتوں سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ جب سیدنا حسینؓ کو اکابر صحابہ اور ارباب حل وعقد نے یہاں آنے سے منع کیا تو تب انہوں نے بات نہ مانی تھی اب جب انہوں نے حالات ناگفتہ بہ دیکھ کر واپس جاناچاہا توابن زیاد کی فوج نے نہ جانے دیا عقید ت کے پیش نظر اس کے بغیر کوئی چارہ کا رنہیں کہ سیدنا حسینؓ کوفیوں کے مجبور کرنے پر یہاں آنے کا اپنی پاک زبان سے وعدہ فرماچکے تھے حضرت حسینؓ سارا نقصان برداشت کرسکتے تھے لیکن نقض عہد نہیں فرماسکتے تھے ۔
نیز آپ کو یہ خیال بھی تھا کہ جب میں جاؤں گا اور ان کے خطوط دکھاؤں گا تو وہ نادم ہوکر میرے زیر سایہ آجائیں گے۔
یہ توتصور ہی نہ تھا کہ وہ بظاہر مدعی محبت ہیں اور بباطن اعداء حسینؓ ہیں بہرحال ساتویں محرم کو ابن سعد کی فوج جو تقریبا بیاسی ہزار پیادے پر مشتمل تھی تشدد پر اتر آئی آٹھویں اورنویں وہاں گزاری۔
دسویں محرم اور سیدنا حسینؓ کا اظہار حقیقت :۔
لعنت برشماد وبرار ادت شماباد اے بیوفا یان جفا کار غدار ومارادر ہنگام اضطر ار بمددویاری خود طلبیدید چوں اجابت شما کردیم وبہدایت ونصرت شما آمد یم شمشیر کینہ وبروئے ما کشدید ودشمنان خودر ابرمایاری گرداید وازدوستان خدادست برداشتید قبیح بادر وہائے شما ای گمراہان امت وترک کنند گان کتاب ومتفرقان احزاب وپیروان شیطان وترک کنندگان خیر الانام ۔(جلاء العیون صفحہ ۳۹۱)
ہمیشہ تم پراور تمہاری عقیدت پر لعنت ہواے بے وفاؤظالمو ، غدارو، دھوکے بازو ،پریشانی کے وقت تم نے مدد کے لئے ہمیں بلایا جب ہم آئے تو تم نے کینے کی تلوار ہمارے منہ پر کھینچ لی اور اپنے دشمنوں کی امداد کرنا شروع کردی اور خدا کے دوستوں سے تم نے ہاتھ اٹھالیا خدا تمہارے منہ خراب کرے اے امت کے گمراہو اور قرآن کو چھوڑنے والو اور شیطان کے پیروکارو اور خیرالانام کے چھوڑنے والو
جب یہ ملامت شیعیان کوفہ کے سامنے کار گر ثابت نہ ہوئی تو اب لگی جنگ چھڑنے
وفی عاشر المحرم ۶۱ھ انتسب القتال بین ہاتین الفئتین جیش العراق الذی لم یکن فیہ احد من اہل الشام وہذہ الفءۃ القلیلۃ ومن معہ وہم لا یزیدون ع۸۰ رجلا
(محاضرات جلد ۲ صحہ ۱۲۹)
محرم کی دسویں تاریخ ۶۱ھ کو دو جماعتوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی عراق کے لشکر میں شامی ایک بھی نہ تھا اور مقابلے میں جماعت تھوڑی تھی اوروہ بھی اسی آدمیوں سے زیادہ نہ ہوں گے۔
اجمالی طور پر اتنا قدر ذہن میں رکھ لیجئے کہ ابن سعد کی فوج سے اٹھاسی جوان قتل ہوئے اور سیدنا حسینؓ کے لشکرسے ۷۲جوان شہید ہوئے (محاضرات جلد ۲ صفحہ ۱۲۹)
اور جب حضرت حسینؓ بھی شہید ہوگئے اور ان کا سر یزید کے پاس لایا گیا تو وہ زارو قطار رونے لگا اس کے گھر میں کہرام مچ گیا۔ یزید نے کہا
کنت ارضی عن طاعتکم بدون قتل الحسین لعن اللہ ابن سمیہ اماواللہ لوانی صاحبہ لعفوت عنہ
میں تو حضرت حسینؓ کے قتل کئے بغیر بھی تم پر راضی ہوجاتا خدا لعنت کرے ابن سمیہ کو ،خدا کی قسم اگر میں حسینؓ کے پاس ہوتا تو اسے معاف کردیتا ۔(محاضرات جلد ۲ صفحہ ۱۲۹)
اجمال کی تفصیل:۔
عترت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے میدان میں سب سے پہلے عبداللہ بن مسلمؓ آئے حضرت حسینؓ نے کئی مرتبہ روکا مگر نہ رکے اور میدان میں لڑکر شہیدہوگئے۔ ان کے بعد حضرت مسلمؓ کے تینوں بھائی عبداللہ بن عقیل ،عبدالرحمن بن عقیل ،جعفر بن عقیل شہید ہوگئے ۔
ان کے بعد عبداللہ بن حسن بااجازت حضرت حسینؓ میدان میں آئے بہادری کے جوہر دکھائے اوران کی امدا د کیلئے فیروز آئے انہوں ایسے وار کئے کہ ایک سو تیس کو تیروں سے ہلاک کیا اور بیس کو شمشیر سے ۔آخر کا رلڑتے لڑتے فیروز بھی شہید ہوگیا اور عبداللہ بن حسن بھی ان کے بعد ابوبکر ابن الحسن اور عمر بن الحسن میدان میں آئے اور شہید ہوگئے۔
حضرت قاسم بن حسنؓاور شامی پہلوان کا مقابلہ :۔
حضرت قاسمؓ حضرت حسنؓکے چوتھے صاحبزادے ہیں آپ باذن سیدنا حسینؓ گھوڑے پر سوار ہوئے اور ایسا حملہ کیا کہ دشمنوں کے ہوش اڑگئے
بہادر نامور جو جو مقابل ہوکے آتے تھے
وہ اپنا ہاتھ اپنی زندگی سے دھوکے جاتے تھے
ارزاق نامی پہلوان حضرت قاسمؓ کا مقابلہ نہ کرنا چاہتا تھا او ر کہتا تھا کہ میں ایک لڑکے کے سامنے کیسے جاؤں؟ ہاں میں اپنے بیٹے بھیجتا ہوں چنانچہ جو بیٹا بھی آیا قتل کردیا گیا آخر میں ارزق آیا آپ نے اس بہادرپر اس طرح تلوار کا وار کیا کہ تلوار زرہ کاٹ کر پار نکل گئی ۔
گلوں میں بھی نہ اٹکی سینہ کاٹا دل جگر کاٹا
لہوچاٹا جگر کا بند زنجیر کمر کاٹا
گلے کے ہار زنجروں کی لڑیاں کاٹ کر نکلی
زرہ بکتر سے نکلی اور کڑیاں کاٹ کرنکلی
گری جب خاک پر دوٹکڑے ہوکر لاش خود سر کی
دہان شیر سے نکلی صدا اللہ اکبرکی
بہرحال ان نوجوانوں نے دشمنوں کو شکست فاش دی اور خود جام شہادت نوش فرمایا۔
فائدہ :۔
حضرات غور فرمائیں یہ لوگ ہائے کے لائق ہیں یا واہ کے لائق ہیں ان کے بعد محمد بن علیؓ عثمان بن علیؓعبداللہ بن علیؓاور جعفر بن علیؓنے جام شہادت نوش فرمایا اور ان کے بعد حضرت عباسؓ شہید ہوگئے ۔
حضرت علی اکبرؓ کا مقابلہ :۔
حضرت علی اکبر جب میدان میں آئے تو للکار کر فرمایا
میری تلوار کی زد میں نہ آؤاور ہٹ جاؤ
کہیں ایسا نہ ہو تلوار کی تیزی سے کٹ جاؤ
میں فرزند حسینؓ ابن علی ہوں مجھ کو جانتے ہونگے
شجاع ہاشمی ہوں مجھ کو تم پہچانتے ہوں گے
چمکتی دیکھ کر اس نوجوان کی تیغ کی دھاریں
گریں ڈھالیں یکایک چھٹ گئیں ہاتھوں سے تلواریں
عدو کہتے تھے شاید پھر علی المرتضیٰؓ آئے
مقابل آنے والوں کے لئے بن کے قضاء آئے
آخر کاروہ بھی شہید ہوکر اپنے ساتھیوں سے جاملے ۔
آخر میں جب سیدناحسینؓ کی باری آئی توآپ نے سب سے پہلے گھر والوں کو صبر کی تلقین فرمائی ۔زین العابدین نے ہر چند کوشش کی کہ میں بھی بہادری کے جوہر دکھاؤں مگر آپ نے نہ جانے دیا کیونکہ ان کی نسل سے سادات کی نسل قیامت تک رہنی تھی
اب حقیقت تو یہ ہے کہ سید نا زین العابدین صرف ایک راوی ہیں شہادت حسینؓ کے۔ جن کو باہر آنے کی باپ سے اجازت نہ ملی اور باہر وہ ایسے مصروف ہوئے کہ اندر نہ آسکے اور سیدھے جنت میں چلے گئے اور نہ یہاں کوئی راوی موجود تھا جس نے ہم تک خبر پہنچائی ہو ،کہ دشمنوں نے سیدنا حسین پر اس قدر وار کیئے ۔اور اگر راوی کہیں چھپا بیٹھا تھا محض اس لئے کہ میں بچ جاؤں تو یہ واقعات لوگوں میں بیان کرتا رہوں گاتو ایسے راوی کی روایت ناقابل قبول ہے۔
بہرحال سیدنا حسینؓ شہید کئے گئے ظالموں نے جس بیدردی سے شہید کرنا چاہا شہید کیا سرکاٹا،اور اس محبوب رب العالمین کے محبوب کے سر کو ابن زیاد کے دربار میں پیش کیا ،اس بے شرم نے آپ کے لبوں پر لکڑی کی نوک لگائی ۔انا للہ وانا الیہ راجعون
یہ سب کچھ کیوں ہوا؟:۔
محض اس لئے کہ ایفائے عہد کے خلاف نہ ہو ،محض اس لئے کہ چچا زاد بھائی کے ساتھ وفا پوری ہوجائے ۔محض اس لئے کہ جو لوگ اہل بیت کو تقیہ باز سمجھتے ہیں ان کی عملی تردید ہوجائے اور محض اس لئے کہ خلفاء ثلاثہ کی صداقت کی عملی تائید ہوجائے ۔
کیونکہ :۔
سیدنا حسینؓ جسے خلافت کا نااہل سمجھتے تھے اس کے ساتھ جنگ کی اگر خلفاء ثلاثہ ظالم اور نااہل ہوتے تو آج یہ پہلی کربلا نہ ہوتی بلکہ چوتھی کربلا ہوتی۔ خدا تعالیٰ ہم سب کو سیدنا حسینؓ اور جملہ شہدا ء اسلام کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے۔