سماجی روابط سائٹس؛ سلام کے جواب کا طریقہ


سماجی روابط سائٹس؛ سلام کے جواب کا طریقہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
واٹساپ اور ٹیلی گرام گروپ پر بہت سے لوگ سلام کرتے ہیں  تو کیا سلام کا جواب ہرایک کو صوتی یا تحریری دینا ضروری ہے یا پھر کوئی ایک جواب دیدے سب کی طرف سے کافی ہوجائے گا یا پھر سب اپنی اپنی زبان سے جواب دیدیں،
نیز اگر وائس ریکارڈنگ کے ذریعہ سلام کیا گیا ہوتو جواب دینا ضروری نہیں ہے کیا؟
مسئلہ کی وضاحت فرمائیں نوازش ہوگی
المستفتی نورالحسن پرتاپ گڑھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
مسلمانوں کا ایک دوسرے کے لئے  ابتداء ملاقات میں محبت، اکرام، خیر خواہی کا اظہار اور دعا سلامتی پیش کرنا اسلامی تہذیب کا رکن رکین، تعلیمات اسلامی کی واضح تلقین وتعلیم ہے اور ساتھ  ہی ساتھ اس کا شعار بھی ہے۔ ایک مومن کو دوسرے مومن کی طرف سے ملنے والا ایک پاکیزہ ترین تحفہ “سلام” ہے، جو دعا بھی ہے اور موجب مغفرت عمل بھی۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے،
‘واذا حییتم بتحیة فحیوا باحسن منھا او ردوھا’
”تم کو دعا دیوے کوئی تو تم بھی دعا دو اس سے بہتر یا وہی کہو الٹ کر.”
ارشاد نبوی ہے؛
عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃؓ قاَلَ : قاَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ :’’لاَتَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی تُؤْمِنُوْا، وَلاَ تُؤْمِنُوْا حَتّٰی تَحاَبُّوْا، أَوَلاَ أَدُلُّکُمْ عَلیٰ شَيْئٍ إِذَا فَعَلْتُمُوْہٗ تَحاَبَبْتُمْ؟ أَفْشُوْا السَّلاَمَ بَیْنَکُمْ۔‘‘ (مسلم، مشکوٰۃ/ص: ۳۹۷/کتاب الآداب/ بابُ السّلام/الفصل الأول)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے: ’’تم جنت میں داخل نہیں ہوسکتے جب تک (کامل ) ایمان نہ لے آؤ، اور تمہارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ تم (اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے) آپس میں محبت نہ کرنے لگو، اور کیا میں تم کو ایسی چیز نہ بتاؤں جس کو اختیار کرکے تم باہم محبت کرنے لگو؟ تو وہ یہ ہے کہ تم آپس میں سلام کو خوب پھیلاؤ۔
سلام کا جواب دینا معاشرتی حقوق واجبہ میں سے ایک ہے؛
عن أبی ہریرۃ أن رسول اللہ ﷺ: قال: حق المسلم علی المسلم ست قیل: ماہن؟ یا رسول اللہﷺ ! قال: إذا لقیتہ فسلم علیہ وإذا دعاک فأجبہ الخ۔ (مسلم شریف، باب من حق المسلم للمسلم رد السلام، النسخۃ الہندیۃ ۲/۲۱۳، بیت الأفکار رقم: ۲۱۶۲)
سلام کرنا سنت ہے۔ جواب دینا  (غیر سائل کے لئے) واجب ہے۔ سلام کرنے والے کو بیس نیکی جبکہ جواب دینے والے کو صرف دس نیکیاں ملتی ہیں۔ یہی وہ سنت ہے جس کا اجر واجب سے بھی بڑھا ہوا ہے۔
سلام کے جواب کو سنانا عام حالات میں واجب ہے۔ اگر بعد مکانی یا کسی اور عارض کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو تو ایسا اشارہ کردینا ضروری ہے جس سے سلام کرنے والے کو معلوم ہوجائے کہ اس نے جواب دیا ہے؛
قال النووي: نقل ابن عبد البر إجماع المسلمین علی أن ابتداء السلام سنۃ وأن ردہ فرض (أي واجب)۔ (تکملۃ فتح الملہم ۴؍۲۴۵ المکتبۃ الأشرفیۃ دیوبند)
إن السلام سنۃ واستماعہ مستحب، وجوابہ أي ردہ فرض کفایۃ، وإسماع ردہ واجب۔ (شامي / کتاب الحظر والإباحۃ ۶؍۴۱۳ کراچی، ۹؍۵۹۳ زکریا)
قال في شرح الشرعۃ: واعلم أنہم قالوا: إن السلام سنۃ، وإسماعہ مستحب وجوابہ: أي ردہ فرض کفایۃ وإسماع ردہ واجب، بحیث لو لم یسمعہ لا یسقط ہٰذا الفرض عن السامع حتی قیل: لو کان المسلم أصم یجب علی الراد أن یحرک شفتیہ ویریہ بحیث لو لم یکن أصم لسمعہ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء ۹؍۵۹۳ زکریا)
اہل مجلس میں سے اگر کوئی ایک بھی جواب دیدے، تو سب کی طرف سے کافی ہوجائے گا، اور اگر کسی نے بھی جواب نہ دیا تو تمام اہل مجلس ذمہ دار ہوں گے، ہاں اگر سلام کرنے والے نے کسی کا نام لے کر سلام کیا ہے، تو پھر صرف اُسی کے ذمہ جواب دینا واجب ہوگا۔
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: یسلم الصغیر علی الکبیر، والمار علی القاعد، والقلیل علی الکثیر۔ (صحیح البخاري، کتاب الاستئذان / باب تسلیم القلیل علی الکثیر ۲؍۹۲۱ رقم: ۶۲۳۱ دار الفکر بیروت)
لو دخل شخص مجلسًا فإن کان الجمع قلیلاً یعمہم سلام واحد فسلم کفاہ، فإن زاد فخصّص بعضہم فلا بأس ویکفي أن یرد منہم واحد، فإن زاد فلابأس، وإن کانوا کثیرًا بحیث لا ینتشر فیہم فیبتدئ أول دخولہ إذا شاہدہم وتتأدی سنۃ السلام في حق جمیع من یسمعہ، ویجب علی من سمعہ الرد علی الکفایۃ۔ (فتح الباري ۱۱؍۱۴-۱۵ ریاض)
قال الفقیہ أبو اللیث: إذا دخل جماعۃ علی قوم، فإن ترکوا السلام فکلہم آثمون في ذٰلک، وإن سلم واحد منہم جاز عنہم جمیعًا، وإن ترکوا الجواب فکلہم آثمون، وإن ردّ واحد منہم أجزأہم۔ (تکملۃ فتح الملہم ۴؍۲۴۳ المکتبۃ الأشرفیۃ دیوبند)
عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ قَالَ یُجْزِیُٔ عَنِ الْجَمَاعَۃِ إِذَا مَرُّوْا أنْ یُسَلِّمَ أَحَدُھُمْ وَیُجْزِیُٔ عَنِ الْجُلُوْسِ أَنْ یَرُدَّ أَحَدُھُمْ (بیھقی و ابوداؤد)
حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا ایک جماعت کی طرف سے یہ کافی ہے جب کہ وہ کسی کے پاس سے گزرے کہ اس کا ایک فرد سلام کرلے اور بیٹھے ہوئے کچھ لوگوں (کو جب سلام کیا جائے تو ان) کی طرف سے یہ کافی ہے کہ ان کا ایک فرد جواب دے لے۔
وہاٹس ایپ گروپس ایک مجلس کے حکم میں ہے۔ اس میں کئے گئے سلام کا جواب مذکورہ بالا حدیث کی تعلیم اور ہدایات کے مطابق دیا جائے گا۔ کہ گروپ میں سے کوئی ایک آدمی بھی جواب دیدے تو پورے اہل حلقہ کی طرف سے وجوب ادا ہوجائے گا۔ بشرطیکہ کسی مخصوص فرد کا نام لے کے سلام نہ کیا گیا ہو!  ورنہ اسے از خود جواب دینا پڑے گا۔ اگر جواب لکھنے کا ارادہ ہوتو لفظوں میں جواب لکھدے۔ ورنہ زبان سے کوئی ایک فرد گروپ جواب کہدے تو بھی کافی ہے۔
الفاظ سلام میں کامل وافضل طریقہ یہ ہے کہ “السلام عليكم.”
کہے۔ یعنی الف لام کے ساتھ لفظ سلام استعمال کرے۔ نیز  سلام کیا جانے والا شخص ایک ہو یا زیادہ، علیکم  جمع کا صیغہ استعمال کرے تاکہ وہ اپنے محافظ فرشتوں کے ساتھ ایک جماعت بن جائے۔
بغیر الف لام کے صیغہ نکرہ کے ساتھ “سلام علیکم” یا “علیک” بغیر جمع کے- استعمال کرنا بھی اگرچہ درست ہے! لیکن خلاف اولی ہے۔ کیونکہ سلام علیکم صیغہ نکرہ کے ساتھ اہل جنت کا سلام ہوگا جیساکہ سورہ الرعد میں ہے؛
سَلَامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ
013:024
ترجمہ:
(اور کہیں گے) سلامتی ہو تم پر یہ تمہاری ثابت قدمی کا بدلہ ہے سو آخرت کا گھر کیا خوب (گھر) ہے۔.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں لکھتے ہیں:
ولو حذف اللام، فقال: سلام علیکم اجزاء…… لکن باللام اولی، لانھا للتفخیم والتکثیر. ( فتح الباری ٧ / ١٣)
اسی طرح “علیکم” کو “السلام” سے پہلے نہ کرے۔ یعنی “علیکم یا علیک السلام ” نہ کہے ۔کیونکہ یہ مردوں کو سلام کرنے کا طریقہ ہے ۔۔۔ ویسے بھی عربی زبان میں “علی” بد دعا دینے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اس کی تقدیم کوئی نیک شگون نہیں ہے۔ جبکہ سلام تو سراپا دعا ہے۔۔۔۔ایک صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح “علیک السلام” کے ذریعہ سلام کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریقہ کو ناپسند فرمایا اور ان صحابی کی اصلاح فرمائی کہ یہ مردہ لوگوں کو سلام کرنے کا طریقہ ہے۔ تمھیں جب سلام کرنا ہوتو “السلام علیکم ورحمة الله وبركاته”  کہنا چاہئے۔
ترمذی میں یہ روایت اس طرح آئی ہے:
بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ أَنْ يَقُولَ عَلَيْكَ السَّلَامُ مُبْتَدِئًا
2721 حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ عَنْ رَجُلٍ مِنْ قَوْمِهِ قَالَ طَلَبْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ أَقْدِرْ عَلَيْهِ فَجَلَسْتُ فَإِذَا نَفَرٌ هُوَ فِيهِمْ وَلَا أَعْرِفُهُ وَهُوَ يُصْلِحُ بَيْنَهُمْ فَلَمَّا فَرَغَ قَامَ مَعَهُ بَعْضُهُمْ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ قُلْتُ عَلَيْكَ السَّلَامُ يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلَيْكَ السَّلَامُ يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلَيْكَ السَّلَامُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ إِنَّ عَلَيْكَ السَّلَامُ تَحِيَّةُ الْمَيِّتِ إِنَّ عَلَيْكَ السَّلَامُ تَحِيَّةُ [ص: 68] الْمَيِّتِ ثَلَاثًا ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيَّ فَقَالَ إِذَا لَقِيَ الرَّجُلُ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ فَلْيَقُلْ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ ثُمَّ رَدَّ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَعَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَعَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَعَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ قَالَ أَبُو عِيسَى وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ أَبُو غِفَارٍ عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ عَنْ أَبِي جُرَيٍّ جَابِرِ بْنِ سُلَيْمٍ الْهُجَيْمِيِّ قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ وَأَبُو تَمِيمَةَ اسْمُهُ طَرِيفُ بْنُ مُجَالِدٍ
سنن الترمذي
اسی طرح سلام وجواب دونوں میں “برکاتہ”  تک اضافہ ہی مسنون ہے۔ اس کے آگے زیادتی مسنون نہیں۔
قرطبی لکھتے ہیں؛
“وبركاته ” وهذا هو النهاية. فلا مزيد.قال الله تعالى ورحمة الله وبركاته عليكم اهل البيت . هود 73. الجامع لاحكام القرأن. سورة النساء  آية 86.207/5.ط بيروت.
قال ابن عباس : ان السلام انتهى إلى البركة. قال محمد بن الحسن وبهذا نأخذ. موطأ محمد .صفحة 387. باب رد السلام.
کبھی کبھار برکاتہ پہ زیادتی ہوجائے تو جواز کی گنجائش ہے۔ کیونکہ بعض روایت میں اس پہ مغفرته  کا اضافہ ثابت ہے۔ لیکن عام حالات میں اس پہ زیادتی مسنون نہیں۔ دیکھئے فتح الباری جلد 11۔صفحہ 6۔ شرح النووی علی صحیح مسلم  212/2۔کتاب السلام۔ مرقات المفاتیح 427/8 کتاب الادب باب السلام۔ در مختار 265/5۔ فتاوی ہندیہ 330/5۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
سیدپور/ بیگوسرائے، بہار