اخلاقیات

نصیحت کرنے کے آداب

س… اگر میرے ساتھ کام کرنے والا یا کوئی رشتہ دار کسی طریقے یعنی تبلیغ یا نرمی سے سمجھانے پر بھی نماز پڑھنے یا غلط عمل کے ترک کرنے پر آمادہ نہ ہو تو اس کے ساتھ دِینِ اسلام کی رُو سے کیا طریقہ اختیار کرنا چاہئے؟

ج… اپنے مسلمان بھائیوں کو نیکی کرنے اور بُرائی چھوڑنے کی ترغیب دینا تو فرض ہے، مگر اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ بات بہت نرمی اور خوش اخلاقی سے سمجھائی جائے۔ طعن و تشنیع کا لہجہ اختیار نہ کیا جائے۔ اور تبلیغ کرتے وقت بھی اس کو اپنے سے افضل سمجھا جائے۔ اگر آپ نے پیار و محبت سے سمجھایا اور اس کے باوجود بھی وہ نہیں مانا تو آپ نے اپنا فرض ادا کرلیا، اب زیادہ اس کے پیچھے نہ پڑیں، بلکہ اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے رہیں کہ اسے راہِ راست کی توفیق عطا فرمائے اور کسی مناسب موقع پر پھر نصیحت کریں۔ بہرحال یہ خیال رہنا چاہئے کہ ہمیں بیماری سے نفرت ہے، بیمار سے نہیں۔ جو مسلمان بے عمل ہو اسے حقیر نہ سمجھا جائے، بلکہ اخلاق و محبت سے اس کی کوتاہی دُور کرنے کی پوری کوشش کی جائے، اس کے لئے تدابیر سوچی جائیں۔

جوان مرد اور عورت کا ایک بستر پر لیٹنا

س… کیا عورتوں کے کمرے میں مرد اکٹھے سوسکتے ہیں، جبکہ مردوں کے علیحدہ کمرے موجود ہوں؟ ان گناہگار آنکھوں نے کئی بار عورتوں کے ساتھ مردوں کو رات بھر ایک بستر پر سوتے دیکھا ہے، اور ان کو منع کیا مگر بدقسمتی سے تلخ جواب ملا یہ کہتے ہوئے کہ: “انسان تو چاند تک پہنچ گیا ہے اور تم ابھی تک دقیانوسی خیالات بار بار دُہراتے ہو، موجودہ ترقی یافتہ دور میں یہ سب ٹھیک ہے۔ پچاس برس کی ماں اپنے پچّیس برس کے بیٹے کے ساتھ سوسکتی ہے اور اسی طرح پچّیس سال کا بھائی اپنی بیس برس کی بہن کے ساتھ سوسکتا ہے۔”

ج… حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے کہ: “جب بچے دس سال کے ہوجائیں تو ان کے بستر الگ کردو” (مشکوٰة ص:۵۸) پس جوان بہن بھائیوں کا ایک بستر پر سونا کیسے صحیح ہوسکتا ہے؟ انسان کے چاند پر پہنچ جانے کے اگر یہ معنی ہیں کہ اس ترقی کے بعد انسان، انسان نہیں رہا، جانور بن گیا ہے اور اب اسے انسانی اقدار اور قوانینِ فطرت کی پابندی کی ضرورت نہیں، تو ہم اس ترقی کے مفہوم سے ناآشنا ہیں۔ ہمارے خیال میں انسان چاند چھوڑ کر مریخ پر جاپہنچے، اس پر انسانیت کے حدود و قیود کی رعایت لازم ہے، اور اسلام انسانیت کے فطری حدود و قیود ہی کا نام ہے۔ جو لوگ اسلام کی مقدس تعلیمات کو “دقیانوسی باتیں” کہہ کر اپنی آزاد خیالی اور ترقی پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں، وہ دراصل یہ چاہتے ہیں کہ انسان اور حیوان کا امتیاز مٹ جانا چاہئے، ایسے لوگوں کو مسلمان کہنا ہی غلط ہے۔

غصّے میں گالیاں دینا شرعاً کیسا ہے؟

س… میرے دادا جان جن کی عمر تقریباً ۶۰ سال ہے، ماشاء اللہ سے خاصے صحت مند ہیں اور ان کی سنت کے حساب سے داڑھی بھی ہے، لیکن وہ عادتاً گالیاں دیتے ہیں۔ غصہ پینے کی بجائے بہت غصہ کرتے ہیں، انڈین فلمیں دیکھنے کا بھی شوق رکھتے ہیں، کبھی تو پانچ وقت کی نماز پابندی سے ادا کرتے ہیں، لیکن وہ بھی گھر میں، بعض اوقات تو جمعہ کی نماز بھی گھر پر پڑھتے ہیں، اور کبھی کبھی بالکل ہی نماز چھوڑ دیتے ہیں۔ اگر ذرا سر میں درد ہو یا کسی دن کام کی زیادتی ہوتی ہے اور وہ تھک جاتے ہیں تو صرف یہ کہہ کر نماز چھوڑ دیتے ہیں کہ آج بہت تھک گیا ہوں۔

ج… غصہ تو ان کو بڑھاپے کی کمزوری کی وجہ سے آتا ہوگا، لیکن غصّے میں گالیاں بکنا تو بہت بُری بات ہے، اور پھر ایک معمر بزرگ کے منہ سے گالیاں تو اور بھی بُری بات ہے۔ نماز میں کوتاہی کرنا ایک مسلمان کے شایانِ شان نہیں، بڑھاپے کے بعد تو قبر ہی باقی رہ گئی ہے، اگر آدمی کو بڑھاپے میں اپنی کوتاہیوں کی تلافی کا ہوش نہ آئے تو کب آئے گا․․․؟ حدیث میں ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے ساٹھ برس کی عمر عطا کردی، اس کے سارے عذر ختم کردئیے:

“عن ابن عباس رضی الله عنھما قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ینادی مناد یوم القیام: این ابن الستین؟ وھو العمر الذی قال الله تعالٰی: أَوَ لَمْ نُعَمِّرْکُمْ مَا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ مَنْ تَذَکَّرَ وَجَآئَکُمُ النَّذِیْرُ۔”

(رواہ البیہقی فی شعب الایمان، مشکوٰة ص:۴۵۱)

ترجمہ:… “حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: قیامت کے دن ایک منادی اعلان کرے گا کہ: ساٹھ سال کی عمر والے کہاں ہیں؟ یہی عمر ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی کہ جس کو سمجھنا ہوتا وہ سمجھ سکتا، اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی پہنچا تھا؟”

(ترجمہ حضرت تھانوی)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے “اصلی گھر” کی تیاری کی توفیق عطا فرمائیں۔

سوَر کی گالی دینا

س… بزرگوں سے سنا ہے کہ سوَر کی گالی دینے سے چالیس دن کا رزق اُڑ جاتا ہے، اسلام میں یہ بات کہاں تک دُرست ہے؟

ج… کسی کو یہ گندی گالی دینا تو دُرست نہیں، باقی رِزق اُڑجانے کی بات مجھے معلوم نہیں۔

انسان کا شکریہ ادا کرنے کا طریقہ

س… انسان کا شکریہ ادا کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ الفاظ: “مہربانی، شکریہ” وغیرہ کہنا جائز ہے؟

ج… کسی شخص کے احسان کا شکریہ ادا کرنے کے لئے شریعت نے “جَزَاکَ الله” کہنے کی تلقین کی ہے، حدیث میں ہے:

“من صنع الیہ معروف قال لفاعلہ: جزاک الله، فقد ابلغ فی الثناء۔” (ترمذی ج:۲ ص:۲۳)

ترجمہ:… “جس پر کسی نے احسان کیا ہو، وہ احسان کنندہ کو “جزاک اللہ” کہہ دے تو اس نے تعریف کو حدِ کمال تک پہنچادیا۔”

بداخلاق نمازی اور بااخلاق بے نمازی میں سے کون بہتر ہے؟

س… ایک شخص ہے نمازی اور بہت نیک اور پرہیزگار، مگر اس کے اخلاق اچھے نہیں، ہر ایک کے ساتھ بداخلاقی سے پیش آتا ہے، اور ایک شخص بے نمازی اور پرہیزگار بھی نہیں ہے، مگر اس کے اخلاق بہت اچھے ہیں، ایسی صورت میں کس کا عمل اچھا ہے؟

ج… آپ کی یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے، کیونکہ عبادات کی تو تأثیر یہ ہے کہ وہ انسان کو مہذّب بنادے، اس کا دِل نرم کردے، اس کے اخلاق کو اچھا بنادے، اس کے تکبر کو ختم کردے، کیونکہ نماز کے بارے میں آتا ہے کہ وہ بے حیائی اور فواحش سے روکتی ہے، پھر جب انسان نماز میں تواضع سے سر جھکاتا ہے تو تکبر ختم ہوجاتا ہے، ہر وقت وہ نماز میں خدا تعالیٰ سے دُعا کرتا ہے کہ مجھے نیک لوگوں کے راستے پر چلا، اور نیک لوگوں کے اخلاق اچھے اور اعلیٰ ہوتے ہیں، تو معلوم ہوا کہ عبادت کا اثر ہی یہی ہے کہ اس کے اخلاق بھی اچھے ہوجائیں۔ اب اگر عبادت اس میں یہ تأثیر نہیں کرتی تو معلوم ہوا کہ اس کی عبادت میں کوئی نقص ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی عبادت کی اصلاح کرے، لیکن اس کو نماز، روزہ اور دیگر نیک کاموں کا اَجر اپنی جگہ الگ ملے گا اور بداخلاقی کا گناہ اپنی جگہ الگ۔ اسی طرح بااخلاق شخص جو کہ نیک اعمال نہیں کرتا اور فرائض میں کوتاہی کرتا ہے تو معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو فطرتِ سلیمہ اور صحیح طبیعت عطا کی ہے، مگر وہ اپنی غفلت اور کوتاہی اور شیطان کے بہکانے میں آکر اپنے فرائض میں کوتاہی کر رہا ہے، تو اس کو ان فرائض میں کوتاہی کی سزا ضرور ملے گی۔ ان دونوں اَشخاص کی آپس میں کوئی نسبت نہیں، دونوں ہی صحیح راستے پر نہیں، ایک نے ایک حصہ دِین کا چھوڑا دیا، اور دُوسرے نے دُوسرا دِین کا حصہ چھوڑ دیا، اس لئے دونوں ناقص ہیں۔

منافق کی تین نشانیاں

س… میں یہاں ایک حدیثِ نبوی کا ترجمہ بحوالہ بخاری و مسلم درج کرنا چاہتا ہوں: “حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں، بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو خلافِ وعدہ کرے، کوئی امانت اس کے پاس رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے، چاہے وہ شخص روزہ رکھتا ہو، نماز پڑھتا ہو اور اپنے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہو” اس حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں آپ اس کے متعلق کیا فرماتے ہیں جس شخص میں یہ تینوں خصوصیات بدرجہٴ اَتم ہوں؟

ج… منافق دو قسم کے ہیں، ایک منافقِ اعتقادی جو ظاہر میں مسلمان ہو اور دِل میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان ہی نہ رکھتا ہو۔ دُوسرا منافقِ عملی، یہ وہ شخص ہے جو اللہ و رسول کو مانتا ہے اور دِینِ اسلام کا عقیدہ رکھتا ہے، لیکن کام منافقوں والے کرتا ہے، مثلاً: جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا، امانت میں خیانت کرنا، اس حدیثِ پاک میں اس دُوسری قسم کے منافق کا ذکر ہے، جو اگرچہ مسلمان ہے، نماز روزہ کرتا ہے، مگر اس کا کردار منافقانہ ہے۔ جس شخص کا آپ نے ذکر کیا ہے، اگر اس میں یہ سب باتیں پائی جاتی ہیں تو حدیثِ پاک کی وعید اس کو شامل ہے کہ اس کا کردار منافقوں والا ہے، مگر اس کو مطلقاً “منافق” کہنا جائز نہیں، جیسا کہ کوئی شخص کافروں والے عمل کرتا ہو تو اس کو مطلقاً “کافر” کہنا جائز نہیں۔

کسی کے بارے میں شک و بدگمانی کرنا

س… ایک حدیث ہے کہ کسی پر شک نہیں کرنا چاہئے، یعنی شک، بدگمانی اور تجسّس منع ہیں۔ دُوسری حدیثِ مبارک ہے کہ جو چیز تمہیں شک میں ڈال دے اسے چھوڑ دو۔ ان دونوں حدیثوں میں کیا فرق ہے عمل کے لحاظ سے؟ اور کیا مطلب ہے؟

ج… کسی کے بارے میں بدگمانی جائز نہیں، یہ تو پہلی حدیث کا مطلب ہے۔ اور دُوسری حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جس کام کے بارے میں تردّد ہو کہ آیا یہ جائز ہے یا نہیں، تو اس کو نہ کرو۔

غیبت کی سزا

س… کیا غیبت کرنے سے گناہ معاف ہوتے ہیں، میں نے سنا ہے کہ جس آدمی کی غیبت کی جاتی ہے غیبت کرنے والا گناہگار ہوجاتا ہے، مگر جس کی غیبت کی جاتی ہے اس کے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ کیا جس کی غیبت کی جاتی ہے واقعی اس کے گناہ معاف ہوتے ہیں؟

ج… غیبت کرنے والے سے اس کی نیکیاں لے کر جس کی غیبت کی گئی ہو اس کو دِلائی جائیں گی، اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوں تو جس کی غیبت کی گئی اس کے گناہ غیبت کے بقدر اس پر ڈال دئیے جائیں گے۔ تمام حقوق العباد کا یہی مسئلہ ہے، اِلَّا یہ کہ اللہ تعالیٰ صاحبِ حق کو اپنے پاس سے عطا فرماکر اس سے معاف کرادیں تو ان کا فضل ہے۔

غیبت کرنا، مذاق اُڑانا اور تحقیر کرنا گناہِ کبیرہ ہے؟

س… گزارش یہ ہے کہ میں سرکاری دفتر میں کام کرتا ہوں، وہاں پر چند نوجوان ہیں، وہ ہر وقت کسی نہ کسی طرح، کسی نہ کسی کا مذاق اُڑاتے رہتے ہیں، لڑاتے رہتے ہیں اور جھوٹی قسم کھاتے ہیں، کسی کے سر پر تھپڑ مارتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں، کسی کو تکلیف دے کر خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں: “مزہ آگیا” جب ان سے کہا جاتا ہے: اللہ سے ڈرو! تو کہتے ہیں: “اللہ کو درمیان میں نہ لایا کرو!” جب کہ سب کے سب مسلمان ہیں، ہمارا مذہب ایسے لوگوں کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ ان لوگوں کے اندر نہ تو خدا کا خوف، نہ ہی ڈَر ہے، اکثر دو ساتھیوں میں جھگڑا کراکے خوش ہوتے اور کہتے ہیں: “آج بہت تفریح ہوگئی اور طبیعت خوش ہوگئی” اور جھوٹ بولنا، چغلی کرنا، بات کو اِدھر اور اُدھر کرنا مشغلہ ہے، اور اپنے سامنے دُوسرے کو کم تر سمجھنا اور خوار کرنا شامل ہے۔ لہٰذا آپ سے درخواست ہے کہ اسلامی نقطہٴ نظر سے بتائیں ایسے لوگوں کے ساتھ اُٹھنا اور بیٹھنا جائز ہے اور مذہب کیا حکم دیتا ہے؟

ج… یہ تمام اُمور جو آپ نے ذکر کئے ہیں، گناہِ کبیرہ ہیں، کسی کا مذاق اُڑانا، کسی کی تحقیر کرنا، کسی کو دُوسرے سے لڑانا، کسی کی غیبت کرنا، جھوٹ بولنا، جھوٹی قسم کھانا، اس قسم کے تمام اُمور نہایت سنگین ہیں اور ان سے معاشرے میں شر و فساد اور رنجشیں جنم لیتی ہیں، ایسے لوگوں سے دوستانہ مراسم نہیں رکھنے چاہئیں۔

کسی کے شر سے لوگوں کو بچانے کے لئے غیبت کرنا

س… ایک صاحب ہمارے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ: “فلاں صاحب جو آپ کے محلے میں رہتے ہیں، ان سے ہم اپنی بیٹی کا رشتہ کرنا چاہتے ہیں، برائے مہربانی آپ ہمیں ان صاحب کی عادتوں اور کردار وغیرہ اور دیگر تفصیلات کے متعلق بتائیں” کیا ان سائل کو تمام باتیں بتانا چاہئے یا نہیں؟ اور اگر بتانا چاہیں تو کیا وہ باتیں بھی بتادی جائیں جن کو کسی سے ذکر نہ کرنے کا ہم سے وعدہ لے لیا گیا ہو؟

ج… اس شخص کی غیبت کرنا مقصود نہ ہو بلکہ رشتہ کرنے والے کو نقصان سے بچانا مقصود ہو تو اس شخص کی حالت کا ذکر کردینا جائز ہے، اور اگر کسی سے ذکر نہ کرنے کا وعدہ کر رکھا ہو تو بہتر یہ ہے کہ خود نہ بتائے بلکہ کسی اور واقف کار کا حوالہ دے دے کہ اس سے دریافت کرلو۔

فوٹو والے بورڈ والی کمپنی کے خلاف تقریر غیبت نہیں

س… ایک محترمہ مبلغ نے خواتین کے اجتماع کے سامنے اشتہاری بورڈ (جس پر عورت کا فوٹو بنا ہوتا ہے) کو تقریر کا موضوع بنایا، ایک کمپنی کا نام لے کر اس پر تنقید کی اور یہاں تک کہہ گئیں کہ: “سفید داڑھی والے عورتوں کی کمائی کھاتے ہیں” پکار کر کہا کہ: “اگر کوئی فلاں کمپنی والوں کی رشتہ دار یہاں موجود ہے تو ہمارا پیغام ان کو پہنچادے” خواتین نے ایک خاتون کی طرف اشارہ کیا کہ یہ ان کی رشتہ دار ہے، سو اس خاتون نے وعدہ کیا کہ میں آپ کا پیغام پہنچادُوں گی۔ یہ واقعہ ایک جمعہ کو ہوا، ہفتے کو کمپنی کے مالک کو معلوم ہوا، مذکورہ بورڈ اس کی اطلاع میں نہیں تھا، بہرحال بورڈ فوراً صاف کرادیا گیا۔ آئندہ بدھ کو پھر اسی محترمہ نے ایک دُوسرے علاقے میں تقریر کی، اسی بورڈ کو موضوعِ تقریر بنایا، وہی سوال کیا کہ اگر ان کا کوئی رشتہ دار یہاں ہے تو ہمارا پیغام پہنچادے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جمعہ کے دن جو پہلی تقریر کی تھی وہ غیبت ہے جو مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے برابر ہے؟ اور جو بدھ کو تقریر کی تھی وہ بہتان ہے، کیونکہ بورڈ اس سے قبل بالکل مکمل طور پر مٹایا جاچکا تھا؟

ج… جو گناہ اعلانیہ کیا جاتا ہو، اس کو بیان کرنا غیبت نہیں، اس لئے اس خاتون کی پہلی تقریر صحیح تھی اور یہ غیبت کے ذیل میں نہیں آتی۔ بورڈ صاف کرکے اگر اس خاتون کو اطلاع نہیں کی گئی تھی تو اس خاتون کی بدھ کی تقریر بھی صحیح تھی، کیونکہ ضروری نہیں کہ اس کو بورڈ کے صاف کردئیے جانے کا علم بھی ہوگیا ہو، اس میں قصور اس خاتون کا نہیں بلکہ کمپنی والوں کا ہے۔

جب کسی کی غیبت ہوجائے تو فوراً اس سے معافی مانگ لے یا اس کے لئے دُعائے خیر کرے

س… مولانا صاحب! میں نے خدا تعالیٰ سے عہد کیا تھا کہ کسی کی غیبت نہیں کروں گی، لیکن دوبارہ اس عادتِ بد میں مبتلا ہوگئی ہوں۔ فی زمانہ یہ بُرائی اس قدر عام ہے کہ اس کو بُرائی نہیں سمجھا جاتا۔ میں اگر خود نہ کروں تو دُوسرے لوگ مجھ سے باتیں کرتے ہیں، نہ سنوں تو نک چڑھی کہلاتی ہوں۔ آپ برائے مہربانی فرمائیے کہ میں کس طرح اس عادتِ بد سے چھٹکارا حاصل کروں؟ عہد توڑنے کا کیا کفارہ ادا کروں؟

ج… عہد توڑنے کا کفارہ تو وہی ہے جو قسم توڑنے کا ہے، یعنی دس مسکینوں کو دو وقتہ کھانا کھلانا، اور اس کی طاقت نہ ہو تو تین دن کے روزے رکھنا۔ باقی غیبت بہت بڑا گناہ ہے، حدیث میں اس کو زنا سے بدتر فرمایا ہے۔ اس بُری عادت کا علاج بہت اہتمام سے کرنا چاہئے اور اس میں کسی کی ملامت کی پروا نہیں کرنی چاہئے۔ اور اس کا علاج یہ ہے کہ اوّل تو آدمی یہ سوچے کہ میں کسی کی غیبت کرکے “مردہ بھائی کا گوشت” کھا رہا ہوں، اور یہ کہ میں اپنی نیکیاں اس کو دے رہا ہوں، اور یہ خالص حماقت ہے کہ جس کی بُرائی کر رہا ہے اس کو اپنی نیکیاں دے رہا ہے۔ دُوسرے جب کسی کی غیبت ہوجائے تو فوراً اس سے معافی مانگ لے، اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو اس کے لئے دُعائے خیر کرے، اِن شاء اللہ تعالیٰ اس تدبیر سے یہ عادت جاتی رہے گی۔

تکبر کیا ہے؟

س… آپ نے اسلامی صفحے کا آغاز کیا ہے، یہ سلسلہ بہت پسند آیا، ہماری طرف سے مبارک باد قبول کیجئے۔ اگر آپ تکبر پر روشنی ڈالیں تو مہربانی ہوگی۔

ج… تکبر کے معنی ہیں: کسی دِینی یا دُنیوی کمال میں اپنے کو دُوسروں سے اس طرح بڑا سمجھنا کہ دُوسروں کو حقیر سمجھے۔ گویا تکبر کے دو جز ہیں:

۱:…اپنے آپ کو بڑا سمجھنا۔ ۲:… دُوسروں کو حقیر سمجھنا۔

تکبر بہت ہی بُری بیماری ہے، قرآن و حدیث میں اس کی اتنی بُرائی آتی ہے کہ پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ آج ہم میں سے اکثریت اس بیماری میں مبتلا ہے، اس کا علاج کسی ماہر رُوحانی طبیب سے باقاعدہ کرانا چاہئے۔

قبلہ کی طرف پاوٴں کرکے لیٹنا

س… میرے ذہن میں کچھ اُلجھنیں ہیں جن کو صرف آپ ہی دُور کرسکتے ہیں، وہ یہ کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ قبلہ کی طرف پاوٴں کرکے نہ تو سونا چاہئے اور نہ ہی تھوکنا چاہئے، کیا یہ صحیح ہے؟

ج… قبلہ شریف کی طرف پاوٴں کرنا بے ادبی ہے، اس لئے جائز نہیں۔

کیا قبلہ کی طرف پاوٴں کرنے والے کو قتل کرنا واجب ہے؟

س… بزرگوں سے سنا ہے کہ قبلہ شریف کی طرف جو شخص ٹانگیں پھیلاکر سورہا ہو اس کو قتل کرنا واجب ہے۔ کیا جو شخص قبلہ شریف کی طرف منہ کرکے پیشاب کرے اور پیشاب کرے بھی کھڑا ہوکر تو برائے مہربانی بتائیں کہ کیا اس طرف پیشاب کرنے والے کا قتل بھی واجب ہے؟

ج… قبلہ شریف کی طرف پاوٴں پھیلانا بے ادبی ہے، اور اس طرف پیشاب کرنا گناہ ہے، لیکن اس گناہ پر قتل کرنا جائز نہیں، جبکہ وہ شخص مسلمان ہو، البتہ اگر ایسے افعال کعبہ شریف کی توہین کی نیت سے کرتا ہے تو یہ کفر ہے۔

لوگوں کی ایذا کا باعث بننا شرعاً جائز نہیں

س… آپ نے روزنامہ “جنگ” جمعہ ایڈیشن ۳/دسمبر ۱۹۸۲ء کی اشاعت میں کالم “آپ کے مسائل اور اُن کا حل” میں ایک صاحب کے ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے کہ مکان کرائے پر دینا اور لینا جائز ہے۔ یہ تو صحیح ہے، لیکن ایسی صورت میں کہ ایک شخص جسے لوگ دِین دار مسلمان سمجھتے ہوں، نیز وہ خود بھی دِین کا درس اور اسلام کی تعلیم دینے کا دعوے دار ہو، کسی رہائشی علاقے میں مکان خرید کر ایسے کاروبار یا کارخانے کے لئے جو اس رہائشی علاقے کے لحاظ سے نہ تو قانونی، نہ ہی اخلاقی طور پر جائز و مناسب ہو، زیادہ کرائے کے لالچ پر دے، جو وہاں کے رہنے والوں کے لئے اذیت اور پریشانی کا باعث ہو، یہاں تک کہ لوگوں کو گٹر کا پانی پینا اور استعمال کرنا پڑے (مال بردار گاڑیوں کی آمد و رفت سے گٹر اور پانی کی پائپ لائنیں ٹوٹ پھوٹ جانے کی وجہ سے)، نیز ایسی ایذارسانی کی بنیاد کو ختم کرانے کے لئے لوگوں کی برادرانہ گزارشات کو مختلف حیلے بہانوں سے ٹالتا رہے اور اپنی بات پر قائم رہنے کے لئے مختلف تأویلوں سے جھوٹ کا ارتکاب بھی کرے، اس سلسلے میں قرآن و حدیث کی روشنی میں آپ کا کیا جواب ہے؟

ج… کسی شخص کے لئے ایسے تصرفات شرعاً بھی جائز نہیں جو لوگوں کی ایذا رسانی کے موجب ہوں۔

کیا قاتل کی توبہ بھی قبول ہوجاتی ہے؟

س… یہ بھی بتائیے کہ کیا قاتل کی توبہ قبول ہوتی ہے؟

ج… توبہ تو ہر گناہ سے ہوسکتی ہے اور ہر سچی توبہ کو قبول کرنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرما رکھا ہے۔ لیکن قتل کے جرم سے توبہ کرنے میں کچھ تفصیل ہے، اس کو سمجھ لینا ضروری ہے۔

قتل بہت بڑا کبیرہ گناہ ہے، جس کا تعلق بندے کے حق سے بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کے حق سے بھی ہے، اور اللہ تعالیٰ کے حق سے اس کا تعلق اس طرح ہے کہ جان اور جسم کا رشتہ اللہ تعالیٰ نے جوڑا ہے، جو شخص کسی کو قتل کرتا ہے وہ گویا اللہ تعالیٰ کے اس فعل میں مداخلت کرتا ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے کسی کو ناحق قتل کرنے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے، لیکن قاتل اس ممانعت کی پروا نہ کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی حکم عدولی کرتا ہے۔

بندے کے حق سے قتل کا تعلق دُہرا ہے، ایک تو اس نے مقتول کو ظلم کا نشانہ بنایا، دُوسرے مقتول کے لواحقین پر ظلم ڈھایا، اس کی بیوی کا سہاگ اُجاڑ دیا، اس کے بچوں کو یتیم کردیا۔ اس کے بہن بھائیوں کا بازُو کاٹ دیا اور اس کے اعزّہ و اقارب کو صدمہ پہنچایا۔

جب یہ بات معلوم ہوئی کہ قتل میں اللہ تعالیٰ کے حق کی بھی حق تلفی ہے، مقتول کے حق کی بھی اور اس کے وارثوں کی بھی۔ اب یہ سمجھنا چاہئے کہ توبہ اس وقت قبول ہوتی ہے جب آدمی کو اپنے جرم پر ندامت بھی ہو اور اس جرم سے جن جن کی حق تلفی ہوئی ہے ان کا حق یا تو ادا کردیا جائے یا ان سے معاف کرالیا جائے۔ لہٰذا قاتل کی توبہ اس وقت قبول ہوگی جب متعلقہ فریقوں سے اس کو معافی مل جائے۔ اللہ تعالیٰ سے اگر سچے دِل سے معافی مانگی جائے تو وہ ارحم الراحمین غنیٴ مطلق ہے، ان کے دربار سے تو معافی مل جائے گی، مقتول دُوسرے جہان میں جاچکا ہے، اس سے معافی کی صورت بس ایک ہے کہ اللہ تعالیٰ قاتل کی سچی توبہ کو قبول فرماکر مقتول کو اس سے راضی کرادیں اور اس پر جو ظلم ہوا ہے، اس کا بدلہ اپنے پاس سے ادا فرمادیں اور مقتول کے وارثوں کی جو حق تلفی ہوئی ہے قاتل ان کو معاوضہ دے کر یا بغیر معاوضے کے محض راہِ للہ معاف کرالے۔ اگر یہ تینوں فریق اس کو معاف کردیں تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کا جرم معاف ہوجائے گا۔ ورنہ آخرت میں اسے اپنے کئے کی سزا بھگتنی ہوگی۔ اگر قاتل واقعتا سچی توبہ کرلے، اور ان تینوں فریقوں سے سچے دِل سے معافی لینا چاہے تو اِن شاء اللہ اس کو ضرور معافی مل جائے گی۔ یہاں پر یہ عرض کر دینا بھی ضروری ہے کہ شریعت نے “قتل” کی جو دُنیاوی سزا رکھی ہے، یہ سزا اگر قاتل پر جاری بھی ہوجائے تب بھی آخرت کی سزا سے بچنے کے لئے توبہ ضروری ہے۔

آپ کا عمل قابلِ مبارک ہے

س… میں رات کو سوتے وقت اپنے بستر پر لیٹ کر بسم الله الرحمن الرحیم کا وِرد، آیت الکرسی، دُعائے صدیق، دُرود شریف پڑھتا ہوں اور پھر اس کے بعد خدا سے اپنے گناہوں کی معافی، دُعائے حاجات مانگتا ہوں۔ کیا میرا یہ عمل صحیح ہے؟ بستر پر لیٹتے وقت وضو میں ہوتا ہوں، جسم اور کپڑے صاف ہوتے ہیں، کیا بستر پر لیٹتے وقت اس طرح پڑھنا چاہئے یا نہیں؟ جواب دے کر ضرور مطلع کریں۔

ج… آپ کا عمل صحیح اور مبارک ہے۔

گھر میں عورتوں کے سامنے اِستنجا خشک کرنا

س… مجھے یہ کہتے ہوئے آتی تو شرم ہے، مگر مسئلہ اہم ہے۔ میرے ایک دوست کے والد اور چچا وغیرہ کی عادت ہے کہ جب وہ گھر میں بھی ہوں تو پیشاب کے بعد گھر میں ہی ازاربند سنبھالے وٹوانی (پیشاب کو ڈھیلے سے خشک کرنا) کرتے ہیں، میرے دوست کو تو جو شرم آتی ہے میں خود شرمندہ ہوجاتا ہوں کہ ان کے گھر میں ان کی بیٹیاں، بیٹے سب ہوتے ہیں اور انہیں ذرا احساس نہیں ہوتا ہے کہ یہ کتنی بُری بات ہے۔ ایک بار میری بہن نے میرے دوست کی بہن سے کہا، تو اس نے کہا: میں کیا کہہ سکتی ہوں، ابا کو خود سوچنا چاہئے۔ آپ براہ مہربانی یہ بتائیں کہ کیا اسلام میں اس طرح وٹوانی کو منع نہیں کیا گیا؟ اہم بات یہ ہے کہ میرے دوست کے والد پانچوں وقت کے نمازی ہیں، میرا دوست کہتا ہے کہ: میرے والد کیا، پنجاب کے بیشتر دیہات کے نہایت پرہیزگار لوگ اسی طرح کرتے ہیں۔

ج… یہ عمل حیا کے خلاف ہے، ان کو ایسا نہیں کرنا چاہئے، استنجا خشک کرنے کے لئے اس کی ضرورت ہو تو استنجاخانے میں اس سے فارغ ہولیا کریں۔

دیارِ غیر میں رہنے والے کس طرح رہیں؟

س… پاکستان میں زیادہ پیسے کی نوکری نہیں ملتی اور زندگی کے دُوسرے معاملات میں رشوت زیادہ چلتی ہے، تو کیا صرف ان وجوہات کی وجہ سے کسی مسلمان کے لئے جائز ہے کہ امریکہ جیسے ملک میں رہے؟ کیونکہ وہاں بُرائیاں بہت عام ہیں، کیا کسی مسلمان کے لئے جائز ہے کہ وہ امریکن شہریت حاصل کرلے؟ کیونکہ امریکن شہریت حاصل کرنے کے لئے اپنی سابقہ شہریت سے دستبردار ہونا پڑتا ہے اور حلف اُٹھانا پڑتا ہے کہ میں امریکن قوانین کا پابند رہوں گا۔ اور ان قوانین میں جیسے کہ دُوسری شادی نہیں کرسکتے، یعنی کچھ امریکن قوانین اسلامی شریعت سے متصادم ہوتے ہیں، کیا مسلمان کے لئے جائز ہے کہ وہ صرف اچھے مستقبل کی خاطر اس قسم کے حلف اُٹھاسکتا ہے؟ عصری علم حاصل کرنے کے لئے امریکہ میں ہمارے نوجوان رہتے ہیں، تو کیا ہمارا یہ فعل شریعت کے خلاف تو نہیں؟

ج… ایک جنت تو شدّاد نے بنائی تھی، اور ایک جنت دورِ جدید کے شدّاد (مغربی ممالک) نے بنائی ہے۔ ان لوگوں کو آخرت پر ایمان تو ہے نہیں، اس لئے انہوں نے دُنیا کی راحت و سکون کے تمام وسائل جمع کرلئے ہیں۔ امریکہ چونکہ کافروں کی جنت ہے اس لئے ہمارے بھائیوں کو آخرت والی جنت کی اتنی رغبت و کشش نہیں جتنی امریکہ کی شہریت مل جانے کی ہے۔ اگر کسی کو “گرین کارڈ” مل جائے تو ایسا خوش ہوتا ہے جیسے میدانِ محشر میں کسی کو جنت کا ٹکٹ مل جائے۔

ایک مسلمان کا مطمح نظر تو آخرت ہونی چاہئے، اور یہ کہ دُنیا کی دو روزہ زندگی تو جیسے کیسے تنگی و ترشی کے ساتھ گزر ہی جائے گی، لیکن ہماری آخرت برباد نہیں ہونی چاہئے۔ مگر ہمارے بھائیوں پر آج دُنیا طلبی، زیادہ سے زیادہ کمانے اور دُنیا کی آرائش و آسائش کی ہوس اتنی غالب ہوگئی ہے کہ آخرت کا تصوّر ہی مٹ گیا اور قبر و حشر کا عقیدہ گویا ختم ہو رہا ہے۔ اس لئے کسی کو جائز و ناجائز کی پروا ہی نہیں۔ بہرحال کسبِ معاش کے لئے یا علوم و فنون حاصل کرنے کے لئے غیرملک جانے سے ہماری شریعت منع نہیں کرتی۔ البتہ یہ تاکید ضرور کرتی ہے کہ تمہارے دِین کا نقصان نہیں ہونا چاہئے، اور تمہاری آخرت برباد نہیں ہونی چاہئے۔

امریکہ اور مغربی ممالک میں بھی اللہ تعالیٰ کے بہت سے نیک بندے آباد ہیں، جن کی نیکی و پارسائی پر رشک آتا ہے۔ جو لوگ امریکہ جائیں یا کسی اور ملک میں جائیں ان کو لازم ہے کہ اپنے دِین کی حفاظت کا اہتمام کریں اور دُنیا کمانے کے چکر میں اس قدر غرق نہ ہوجائیں کہ دُنیا سے خالی ہاتھ جائیں اور دِین و ایمان کی دولت سے محروم ہوجائیں۔ ان حضرات کو مندرجہ ذیل اُمور کا اہتمام کرنا چاہئے:

۱:… اپنے دِینی فرائض سے غافل نہ ہوں، حتی الوسع نماز باجماعت کا اہتمام کریں اور چوبیس گھنٹے میں اپنے وقت کا ایک حصہ قرآنِ کریم کی تلاوت، ذکر و تسبیح اور دِینی کتابوں کے مطالعے کے لئے مخصوص رکھیں۔ اور ان چیزوں کی ایسی پابندی کریں جس طرح غذا اور دوا کا اہتمام کیا جاتا ہے، غذا و دوا اگر انسانی بدن کو زندہ و توانا رکھنے کے لئے ضروری ہے، تو یہ چیزیں رُوح کی غذا ہیں، ان کے بغیر رُوح توانا نہیں رہ سکتی۔

۲:… کفار اور لادِین لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے سے گریز کریں اور کفار کو جو نعمتیں اللہ تعالیٰ نے دے رکھی ہیں، ان کو ایسا سمجھیں جیسے اس قیدی کو، جس کے لئے سزائے موت کا حکم ہوچکا ہے، تمام آسائشیں مہیا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ الغرض! کفار کی نعمتوں کو عبرت کی نگاہ سے دیکھیں، لجاجت و حرص کی نظر سے نہ دیکھیں، اور ان چیزوں پر رال نہ ٹپکائیں۔ کفار و فجار کی نقالی سے پرہیز کریں، کیونکہ ملعون اور مبغوض لوگوں کی نقالی بھی آدمی کو انہی کے زُمرے میں شامل کرادیتی ہے۔

۳:… ان ممالک میں حرام و حلال کا تصوّر بہت کمزور ہے، جبکہ ایک مسلمان کے لئے ہر ہر قدم پر یہ دیکھنا لازم ہے کہ یہ چیز حلال ہے یا حرام؟ جائز ہے یا ناجائز؟ اس لئے ان بھائیوں سے التماس ہے کہ اپنے دِین کے حلال و حرام کو کسی لمحہ فراموش نہ کریں، اور اس بات کا یقین رکھیں کہ ہمارے دِین نے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے درحقیقت وہ زہر ہے، جس کے کھانے سے آدمی ہلاک ہوجاتا ہے، اگر ہمیں کسی کھانے میں ملا ہوا زہر نظر نہ آئے تو کسی ایسے شخص کی بات پر اعتماد کرتے ہیں جو لائقِ اعتماد اور سچا ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا لائقِ اعتماد اور سچا ہونا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حقائق سے باذنِ اللہ واقف ہونا ایسی حقیقت ہے جو ہر مسلمان کا جزو ایمان ہے، پس جن چیزوں کو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام اور ناجائز بتایا ہے ان سے اسی طرح پرہیز کرنا لازم ہے جس طرح زہر سے پرہیز کیا جاتا ہے۔

۴:… آدمی، آدمی کو دیکھ کر بنتا ہے یا بگڑتا ہے، ان مغربی اور امریکی معاشروں میں انسان کے بگاڑ کا سامان تو قدم قدم پر ہے، لیکن انسان کی اصلاح و فلاح کا چرچا بہت کم ہے، اس لئے ان ممالک میں رہنے والے مسلمان بھائیوں کو لازم ہے کہ اپنے علاقے اور حلقے میں اچھے اور نیک لوگوں کو تلاش کرکے کچھ وقت ان کے ساتھ گزارنے کا اِلتزام کریں۔ اس کے لئے سب سے زیادہ موزوں دعوت و تبلیغ کا کام ہے، جو حضرات اس کام میں جڑے ہوئے ہوں ان کے ساتھ کچھ وقت ضرور لگائیں۔ حق تعالیٰ شانہ ان تمام بھائیوں کے دِین و ایمان کی حفاظت فرمائیں۔

۵:… ان بھائیوں سے ایک گزارش یہ ہے کہ دِین کے مسائل ہر شخص سے دریافت نہ کریں، کیونکہ بعض مسائل بہت نازک ہیں، اس لئے کسی محقق عالم سے مسائل پوچھا کریں۔ اگر ان ممالک میں کوئی لائقِ اعتماد عالم موجود ہیں تو ٹھیک، ورنہ اب تو دُنیا سمٹ کر ایک محلہ کی شکل اختیار کرگئی ہے، پاکستان کے محقق اہلِ علم سے ٹیلیفون پر مسائل دریافت کرسکتے ہیں یا ڈاک کے ذریعے مسائل کا جواب معلوم کرسکتے ہیں۔

معصوم بچوں کی دِل جوئی کے لئے بسکٹ بانٹنا

س… ایک حاجی صاحب باشرع ہیں، وہ اپنی دُکان پر چھوٹے بچوں کو سستے بسکٹ بانٹا کرتے ہیں، کسی بچے کو ایک اور کسی کو دو۔ یہ عمل موصوف کی دانست میں ثواب کا باعث ہے۔ مجھے یہ طریقِ کار پسند نہیں آیا، میرا خیال یہ ہے کہ روزانہ بسکٹ بانٹنے سے بچوں کو مانگنے کی عادت پڑسکتی ہے اور موصوف کی خودنمائی کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے۔ آپ اس مسئلے کا حل بتائیں کہ کیا یہ عمل ثواب ہے؟ اس کو جاری رکھنا بُرا نہیں ہے؟

ج… وہ بزرگ معصوم بچوں کی دِل جوئی کو کارِ خیر سمجھتے ہیں، اور آپ کے دونوں اندیشے بھی معقول ہیں، وہ بزرگ اس کو خود ہی ترک کردیں تو ٹھیک ہے، ورنہ اس کے جائز یا مکروہ ہونے کا فتویٰ دینا مشکل ہے۔

بچپن میں لوگوں کی چیزیں لے لینے کی معافی کس طرح ہو؟

س… آپ کے صفحے کا بہت دنوں سے قاری ہوں اور آپ سوالات کے بے حد اچھے اور سچے لفظوں میں جواب دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت میری عمر تقریباً ۱۹ سال ہے اور کالج میں زیر تعلیم ہوں، جس وقت میری عمر تقریباً ۱۱،۱۲ سال کی تھی تو لڑکپن کی شرارتیں اپنے عروج پر تھیں، ہم چند لڑکے بازار وغیرہ جاتے تو کوئی پھل والے کے پھل وغیرہ چرالیتے، یا کسی کو بغیر پیسے دئیے چیزیں لے لیتے تھے، مسجد میں جو چپلیں ہوتی تھیں ان چپلوں کے بند وغیرہ کاٹ دیتے تھے، کوئی چپل اُٹھاکر باہر پھینک دیتے تھے، بس میں ٹکٹ نہیں لیتے تھے، تقریب وغیرہ میں بغیر بلائے کھانا کھا آتے تھے، زمین پر پڑی ہوئی چیز اُٹھالیتے تھے، پیسے وغیرہ۔ یعنی لڑکپن اور جوانی کے دوران خوب یہ کام کرتے تھے اور خوش ہوتے تھے۔ اب میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ان کاموں کا جس میں ہم نے کسی کی چیزیں استعمال کیں، کس طرح نقصان پورا کرسکتے ہیں؟ آپ شرعی لحاظ سے جواب دیجئے اور تفصیل سے دیجئے، ہم آپ کے منتظر ہیں۔

ج… ہونا تو یہ چاہئے کہ جن جن لوگوں کا آپ نے نقصان کیا تھا ان سب سے معافی مانگی جائے، لیکن وہ سارے لوگ یاد نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ سے ان کے حق میں دُعا و اِستغفار کریں، آپ کے اِستغفار سے ان کی بخشش ہوجائے تو وہ آپ کو بھی معاف کردیں گے۔

لوگوں کا راستہ بند کرنا اور مسلمانوں سے نفرت کرنا شرعاً کیسا ہے؟

س… ہمارے علاقے میں ایک مولانا صاحب رہتے ہیں، جو کہ جمعہ اور عیدین پڑھاتے ہیں، کچھ روز قبل انہوں نے محکمہٴ اوقاف سے مل کر لوگوں کے راستے اور قانونی گزرگاہوں کو تنگ کرنا اور بند کرنا شروع کردیا، جس سے لوگوں کو بہت بڑی مصیبت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، علاقے کے لوگوں نے خدا کے واسطے دئیے مگر وہ صاحب ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ تو پھر لوگوں نے میونسپل کمیٹی اور اوقاف سے فریاد کی اور انہوں نے بھی علاقے کے لوگوں کے مسئلے کو جائز قرار دیا اور کہا کہ مولانا صاحب جس طرح کریں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ آپ سے شریعت کی روشنی میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کسی مسلمان کا راستہ بند کرنا یا ذہنی کوفت پہنچانا شریعت میں کہاں تک دُرست ہے اور اس کی سزا کیا ہے؟

ج… لوگوں کا راستہ بند کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔

س… کیا ان حالات میں ان صاحب کے پیچھے جمعہ اور عیدین کی نماز ہوتی ہے؟ جو کہ دِل میں مسلمانوں سے نفرت کرتا ہے۔

ج… ان صاحب کو مسلمانوں سے نفرت نہیں کرنا چاہئے اور لوگوں کی ایذارسانی سے توبہ کرنی چاہئے، اگر وہ اپنا رویہ تبدیل نہ کریں تو مسلمانوں کو چاہئے کہ اس کی جگہ دُوسرا اِمام و خطیب مقرّر کرلیں۔

گناہ گار آدمی کے ساتھ تعلقات رکھنا

س… ایک آدمی زانی ہو، چور اور ڈاکو ہو، یتیموں کا مال کھاتا ہو، مال دار ہو اور صدقہ زکوٰة وصول کرتا ہو، وعدہ خلافی کرتا ہو، جھوٹ اور بکواس کرتا ہو، اپنی اچھائی اور صداقت کے لئے لوگوں کے سامنے قسمیں کھاتا ہو کہ میں نے فلاں کے ساتھ یہ اچھائی کی اور اس کا کام کیا۔ کیا ایسے شخص کے ساتھ معاملات رکھنا، اس کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا اور اس کے پیچھے نمازیں پڑھنا جائز ہے یا کہ نہیں؟ قرآن مجید اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ جواب سے مطلع کریں۔

ج… یہ شخص گناہ گار مسلمان ہے، اس سے دوستانہ تعلقات تو نہ رکھے جائیں، لیکن ایک مسلمان کے جو حقوق ہیں، مثلاً: بیمارپُرسی اور نمازِ جنازہ وغیرہ ان کو ادا کیا جائے، اور اگر قدرت ہو اور نفع کی توقع ہو تو اس سے ان گناہوں کے چھڑانے کی کوشش کی جائے، ایسے شخص کے پیچھے نماز مکروہِ تحریمی ہے۔

مجذوم بیمار سے تعلق رکھنے کا حکم

س… صحیح بخاری شریف کی حدیث مبارکہ میں حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: “مجذوم سے بچو” فقہِ حنفی کا مسئلہ یہ ہے کہ مجذوم کی بیوی کو اختیار ہے کہ وہ فسخِ نکاح کرے، اب عرض یہ ہے کہ جذام جسے انگریزی میں “لپروسی” کہتے ہیں پہلے ایک لاعلاج اور قابلِ نفرت بیماری تصوّر کی جاتی تھی، اب یہ مرض لاعلاج نہیں رہا، ایسے مریض میں نے دیکھے ہیں جو جذام سے صحت یابی کے بعد شادیاں کرچکے ہیں اور ان کے صحت مند بچے ہیں۔ میرا مقصد یہ ہے کہ اب یہ بیماری عام بیماریوں کی طرح ایک عام مرض ہے جس کا سو فیصد کامیاب علاج گارنٹی کے ساتھ ہوتا ہے۔ معاشرے میں مجذوم سے جو نفرت ہوتی تھی اب وہ نہیں رہی۔ اس بیماری کے جو ڈاکٹرز ہوتے ہیں ان کے حسنِ اخلاق کا کیا کہنا، وہ کہتے ہیں کہ جذام کے مریض، لوگوں کی توجہ کے مستحق ہیں، ان سے نفرت نہیں کرنی چاہئے تاکہ یہ لوگ احساسِ کمتری کا شکار نہ ہوں۔ بعض اوقات یہ ڈاکٹرز مجذومین کے ساتھ بیٹھ کر کھانا بھی کھاتے ہیں، ان کے ساتھ مصافحہ بھی کرتے ہیں، گفتگو کرتے ہیں، صحت کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ اب تک میں نے کسی سے نہیں سنا کہ کسی مجذوم سے یہ مرض ڈاکٹر یا کسی عام آدمی کو لاحق ہوا ہو۔ اب آپ سے دو باتیں پوچھنی ہیں:

۱:… حدیثِ مذکور کا مفہوم یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بیماری قابلِ نفرت ہے، اور اس بیماری کے معالجین کہتے ہیں کہ یہ بیماری قابلِ نفرت نہیں ہے، حدیث شریف کا صحیح مفہوم کیا ہے؟ یہ اِشکال محض میری جہالت و کم فہمی و کم علمی پر مبنی ہے۔

۲:… فقہِ حنفی کا جو مسئلہ میں نے تحریر کیا ہے، کیا آج کل کے حالاتِ مذکورہ کے موافق ایک ایسے آدمی کی بیوی کو بھی فسخِ نکاح کا اختیار ہوگا جو کہ جذام کی بیماری سے مکمل طور پر صحت یاب ہوچکا ہو؟

ج۱:… نفیس سوال ہے، اس کا جواب سمجھنے کے لئے دو باتوں کو اچھی طرح سمجھ لینا ضروری ہے۔ ایک یہ کہ بعض لوگ قوی المزاج ہوتے ہیں، ایسے مریضوں کو دیکھ کر یا ان کے ساتھ مل کر ان کے مزاج میں کوئی تغیر نہیں آتا، اور بعض کمزور طبیعت کے ہوتے ہیں (اور اکثریت اسی مزاج کے لوگوں کی ہے)، ان کی طبیعت ایسے موذی امراض کے مریضوں کو دیکھنے اور ان سے میل جول رکھنے کی متحمل نہیں ہوتی۔ دوم یہ کہ شریعت کے اَحکام قوی و ضعیف سب کے لئے ہیں، بلکہ ان میں کمزوروں کی رعایت زیادہ کی جاتی ہے۔ چنانچہ اِمام کو حکم ہے کہ وہ نماز پڑھاتے ہوئے کمزوروں کے حال کی رعایت رکھے۔ یہ دو باتیں معلوم ہوجانے کے بعد سمجھئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بہ نفسِ نفیس مجذوم کے ساتھ کھانا تناول فرمایا، چنانچہ حدیث میں ہے کہ: “حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجذوم کا ہاتھ پکڑ کر اس کو اپنے سالن کے برتن میں داخل کیا اور فرمایا کھا اللہ تعالیٰ کے نام سے، اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اور اعتماد کرتے ہوئے۔” (ترمذی ج:۲ ص:۴، مشکوٰة)

اِمام ترمذی رحمة اللہ علیہ نے اسی نوعیت کا واقعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بھی نقل کیا ہے، گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے واضح فرمایا کہ نہ مجذوم قابلِ نفرت ہے اور نہ وہ اَچھوت ہے، لیکن چونکہ ضعفاء کی ہمت و قوّت اس کی متحمل نہیں ہوسکتی، اس لئے ان کے ضعفِ طبعی کی رعایت فرماتے ہوئے ان کو اس سے پرہیز کا حکم فرمایا۔

ج۲:… حضراتِ فقہاء کا یہ فتویٰ بھی عورت کے ضعفِ طبعی کی رعایت پر محمول ہے، پس اگر مجذوم کا صحیح علاج ہوجائے تو عورت کو نکاح فسخ کرانے کی ضرورت نہیں ہوگی اور نہ حضرات فقہاء کا یہ فتویٰ اس پر لاگو ہوگا۔

غلطی معاف کرنا یا بدلہ لینا

س… اگر ہمارا مسلمان بھائی کوئی غلطی کرتا ہے تو کیا ہمیں اس کی غلطی معاف کردینی چاہئے یا اس سے انتقام لینا چاہئے؟

ج… معاف کردینا افضل ہے، اور شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے بدلہ لینا جائز ہے۔

اصلاح کی نیت سے دوستی جائز ہے

س… سوال یہ ہے کہ میرا ایک دوست ہے جس کا نام “ایم اے اے شاہ” ہے، جو کہ ایک اچھے خاندان سے تعلق رکھتا ہے، میں نے اس دوست کا ہر موڑ پر ساتھ دیا اور اس کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر لے گیا اور وہ کافی دن تک صحیح راستے پر چلتا رہا، لیکن اب وہ غلط راستے پر چلا گیا ہے اور پورے شہر میں رُسوا ہوگیا ہے، آپ یہ بتائیں آیا میں اس کے ساتھ رہوں یا نہیں؟

ج… اگر اس کی اصلاح کی نیت سے ساتھ رہیں تو ٹھیک ہے، ورنہ اس سے الگ ہوجائیں تاکہ اس کی غلط روی کی وجہ سے آپ کے حصے میں بدنامی نہ آئے۔