اپنی حفاظت کی خاطر

اپنی حفاظت کی خاطر

تحریر یاسر محمد خان

’’ڈانا اباچر‘‘ اور ’’لوئی گومیرٹ‘‘ امریکی کانگریس کے دو اراکین ہیں۔ اباچر ریاست کیلیفورنیا اور گومیرٹ ٹیکساس سے تعلق رکھتا ہے۔ ان دونوں نے امریکا میں ایک تحریک چلارکھی ہے۔ یہ بلوچستان کی پاکستان سے مکمل علیحدگی کے سرخیل ہیں۔ یہ کانگریس میں تقریریں کرتے ہیں۔ قراردادیں پاس کرواتے ہیں۔ اخبارات اور میڈیا میں ان دونوں نے ایک حلقہ پیدا کرلیا ہے۔ اس مہم میں استاذ، سماجی کارکن اور دانشور شامل ہوگئے ہیں۔ یہ ہر وقت اس پروپیگنڈے میں مصروف رہتے ہیں کہ بلوچستان میں ہماری ایجنسیوں نے 12 ہزار بلوچوں کو اغوا کر رکھا ہے۔ دراصل ان لوگوں کی نظریں معدنیات کے ان ذخائر پر ہیں جن کا دنیا میں بہت شور و غلغلہ ہے۔

امریکا میں ہندوستانی لابی بہت مضبوط ہے۔ اس کے ایما پر کانگریس اور سینیٹ کے اراکین کو راغب کیا جارہا ہے کہ وہ امریکی حکومت پر دبائو بڑھائے۔ امریکی خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے بلوچستان کو الگ کرلیا جائے۔ امریکی یہودی اور ہندو لابیوں نے اَٹھ کرلیا ہے کہ چین کو بلوچستان میں سرمایہ کاری کو روکا جائے۔ چینیوں کو مضبوط سے مضبوط تر ہوتا دیکھ کر یہ سارے دُشمن باہم شیر و شکر ہوگئے ہیں۔ پاکستانی سرحد سے متصل ایرانی علاقے میں آباد بلوچوں نے بلوچستان لبریشن فرنٹ سے اتحاد مضبوط کرلیا ہے۔ یوں مختلف راستوں سے اسلحہ، گولہ بارود اور کرنسی آرہی ہے۔ علیحدگی پسند طاقت پکڑتے جارہے ہیں۔ بلوچستان حکومت ان دہشت گردوں کے سامنے گھٹنے ٹیکتی جارہی ہے۔ لا اینڈ ارڈر کی صورت حال دن بدن مخدوش ہوتی جارہی ہے۔ غیربلوچیوں کے قتل عام کاایک سلسلہ ہے جو اَب لامتناہی ہوچکا ہے۔

تربت کے علاقے گوگدان میں 10 اور 11 اپریل کی درمیانی رات کو مزدوروں کے قتل کی لرزہ خیز واردات ہوئی۔ یہ بدقسمت سوراب ڈیم کی تعمیر میں شامل تھے۔ مرنے والوں میں 13 کا تعلق پنجاب اور 7 کا سندھ سے ہے۔ ان کو رات 1 بجکر 40 منٹ پر نیند سے اُٹھایا گیا۔ ان کے صوبوں کی شناکت کی گئی اور برسٹ مار کر موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ ہر طرف سے مذمت کی صدائوں کے درمیان وزیراعلیٰ نے ہلاک ہونے والوں کے لیے دس دس لاکھ روپے اور زخمیوں کے لیے پانچ پانچ لاکھ روپے کا اعلان کردیا ہے۔ وزیراعلیٰ کے اپنے علاقے میں یہ پچھلے دو سالوں میں چوتھا بڑا واقعہ ہے۔ 2013ء میں 9 پختون مزدوروں کو قتل کیا گیا۔ گوادر میں ایف ڈبلیو او کے محنت کاروں کو اغوا کرکے موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔ بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال کا اندازہ صرف ایک واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ 13 فروری 2014ء کو تربت سے وہاں کے ڈپٹی کمشنر، 2 اسسٹنٹ کمشنروں، ایک تحصیل دار اور 4 پولیس اہلکار کو اغوار کرلیا گیا۔ بلوچستان لبریشن فرنٹ کے دہشت گرد انہیں اپنے ٹھکانوں میں لے گئے۔ سرکاری گاڑیاں اور اسلحہ بھی ان کے قبضے میں چلاگیا۔ وزیراعلیٰ نے ایک مذاکراتی ٹیم دہشت گردوں سے مذاکرات کے لیے بھیجی، اُسے بھی بیچ راستے میں گن پوائنٹ پر اغوا کرلیا گیا۔ بے بس وزیراعلیٰ رہائی کی اپیلیں کرتے رہ گئے۔ آخرکار قبائلی عمائدین نے اپنے اثر و رسوخ سے ان سب اغواشدگان کو رہائی دلوائی۔

امریکا ایران، افغانستان اور ہندوستان کا عمل دخل صوبے میں کثرت کے ساتھ دیکھنے میں آرہا ہے۔ خصوصاً ہندوستان علیحدگی پسندوں کو بھاری اسلحہ، ٹریننگ اور کرنسی دیے جارہے جارہا ہے۔ جب یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے تو انہوں نے شرم الشیخ میں سابق بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کو بلوچستان میں بھارتی تخریب کارانہ سرگرمیوں کے ناقابل تردید ثبوت فراہم کیے تھے۔ اُس کے بعد بھی ان برسوں میں ہندوئوں نے اپنے مشن کو جاری رکھا ہوا ہے۔ بی جے پی کے دورِ حکومت میں یہ عمل دخل خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ بھارت صوبے کو آتش فشاں میں تبدیل کرتا جارہا ہے۔ صوبائی وزیر داخلہ نے تربت واقعے کے بعد اسے ’’را‘‘ سے فنڈز لینے والے دہشت گرد گروپوں کا کیا دھرا قرار دیا۔ آرمی چیف نے کوئٹہ کا ایک روزہ دورہ کیا۔ جہاں انہیں ایف سی ہیڈکوارٹرز میں بریفنگ دی گئی۔ انہوں نے گورنر، وزیراعلیٰ اور کمانڈر سدرن کمانڈ سے ملاقاتیں کیں۔ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے بلوچستان حکومت کی بے دریغ مدد کا تہیہ کیا۔ انہوں نے بیرونی طاقتوں اور ایجنسیوں کو سخت الفاظ میں انتباہ کیا کہ ان کو مکمل شکست فاش دی جائے گی۔ دہشت گردوں کو چھپنے کے لیے کہیں جگہ نہیں ملے گی۔ اُن کے سہولت کاروں کا جال کاٹ دیا جائے گا۔ اس ضمن میں آرمی چیف نے وزیراعظم سے بھی ملاقات کی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی کی طرز پر بلوچستان میں بھی ایک آپریشن زیرغور ہے۔

اس وقت بھی تین یا چار بڑے سردار حکومت کے ساتھ پنجہ آزمائی کررہے ہیں، جبکہ بلوچستان میں درجنوں سردار ہیں۔ ان سب نے دہائیوں سے واویلا مچارکھا ہے کہ مرکز اُن کی معدنیات کھاگیا ہے اور صوبے کو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر حصہ دے رہا ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ یہ سردار صوبے کی تعمیر و ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس تصویر کے دو رُخ ہیں۔ پہلا یہ کہ ڈیرہ بگٹی، کوہلو، خضدار اور تربت میں مزدور صوبے کی تعمیر و ترقی میں مصروف ہیں۔ تصویر کا دوسرا رُخ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ پنجاب کے دیہی علاقوں، اندرون سندھ اور خیبرپختونخواہ میں غربت میں خوفناک حد تک اضافہ ثابت کرتا ہے کہ حکومت بلوچستان میں بھی لگنے چنے پراجیکٹس کے علاوہ زیادہ سرمایہ صرف نہیں کررہی۔ اس بات کو رد کرنے والے کہتے ہیں کہ خان آف قلات، جام آف لسبیلہ، مینگل، بگٹی، اچکزئی، مری، جمالی، ریسانی یہاں حکمران رہے۔ انہوں نے مشرف اور زرداری دور میں ترقیاتی فنڈز کے لیے مرکز سے اربوں لیے۔ اُن میں سے کتنا حصہ صوبے میں استعمال ہوا۔ یوں ان سرداروں نے مال ہڑپ کرلیا۔ پروپیگنڈے کے شور سے آسمان سر پر اُٹھالیا۔ زرداری حکومت نے جب آغاز حقوق بلوچستان کا آغاز کیا تو انہی سرداروں نے اُس کی مخالفت شروع کردی۔ یوں اگر تصویر کے سارے ٹکڑے جوڑے جائیں تو ایک وحشت ناک منظرنامہ سامنے آتا ہے۔ اس میں سویلین اور فوجی حکومتوں کی بداعمالیاں، سرداروں کی شورہ پشتیاں، بیرونی طاقتوں کی دہشت گردیاں سب شامل ہوجاتی ہیں۔ یہ منظرنامہ دیکھنے والے کو دہشت میں مبتلا کردیتا ہے۔ اُس کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مستقبل وحشت ناک خواب کی طرح مسلط ہوجاتا ہے۔ ہم اندر سے کمزور ہوئے تو دُشمنوں نے ہمارے صحن میں رسّے بنالیے۔ دُشمن ایجنسیاں یہاں اپنے ٹھکانے مضبوط کرچکی ہیں۔ ملک کی بنیادوں میں ڈائنامائٹ بچھایا جارہا ہے۔ سی آئی اے، موساد اور را تینوں پنجے جھاڑ کر ہمارے شکار کے لیے یہاں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ اس پس منظر میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا بیان بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ غیرملکی قوتیں اور ایجنسیاں پاکستان کو غیرمستحکم کرنے سے باز رہیں۔