موت کا سفر

موت کا سفر

تحریر یاسر محمد خان

چند روز قبل ملک میں ایک سنگین ٹریفک حادثہ ہوا۔ اس میں 67 ہلاکتیں ہوئیں۔ 42 مرد، 11 بچے اور 9 خواتین جاں بحق ہوگئیں۔ 10 اور 11 جنوری کی درمیانی رات کراچی کے میمن گوٹھ تھانہ کی حدود میں لنک روڈ پر ایک آئل ٹینکر اور مسافر بس کے درمیان خوفناک تصادم ہوا۔ آئل ٹینکر غلط راستے پر آرہا تھا۔ رات کے 2 بج رہے تھے۔ بسوں کے متعدد مسافر سوئے ہوئے تھے۔ اس ٹکرائو کے بعد بس میں فوراً آگ پھیل گئی۔ باہر کے راستے میں بھی سیٹیں لگاکر مسافر بٹھائے گئے تھے۔ یوں اس الائو کے بھڑکنے کے بعد مسافر بس سے نہ نکل سکے۔ چھت پر بیٹھے مسافروں نے کود کر اپنی جانیں بچائیں۔ سی این جی سلنڈروں کے پھٹنے کے بعد قیامت کا منظر تھا۔ یوں لاشیں جل کر ناقابل شناخت ہو گئیں۔ فائر بریگیڈ کے پہنچنے میں کئی گھنٹے لگے۔ اس وقت تک تباہی اپنے نقطۂ عروج سے گزر چکی تھی۔ پھر قانون نافذ کرنے والے سوئے ہوئے ادارے حرکت میں آگئے۔ ملک بھر میں ہر طرف سے اظہار افسوس ہونے لگا۔ بس اڈّے کا ریکارڈ ضبط کرلیاگیا۔ بسوں کے لیے نئے نئے قانون بنانے کا مطالبہ زور پکڑگیا۔ آئل ٹینکر کے مالک اور ڈرائیور کی تلاش میں چھاپے مارے جانے لگے۔ 3 ماہ پہلے 11 نومبر کو خیرپور میں پشاور سے کراچی جانے والی مسافر بس اور آئل ٹینکر کے درمیان تصادم میں 60 افراد جل گئے تھے۔ چند روز بعد اس خوفناک واقعہ کو بھلادیا گیا۔

ان چند سالوں کے یاد آجانے والے بڑے حادثوں میں نواب شاہ میں ڈمپر نے اسکول بس کو کچل کر 22 بچوں کو شہید کیا تھا۔ کوئٹہ اور تربت سے کراچی آنے والی 2 بسوں میں گڈانی کے قریب موڑ کاٹتے ہوئے تصادم میں 40 افراد جاں بحق ہوئے۔ پنوں عاقل کے قریب سانگی میں مسافر کوچ اور ٹراہلر میں تصادم سے 40 افراد جاں بحق ہوئے۔ ہر بڑے حادثے کے بعد قومی سطح پر ایک وقتی ہلچل سی مچتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کچھ بڑا ہونے کو جا رہا ہے۔ چند ہی دنوں بعد سسٹم اسی طرح رواں دواں ہو جاتا ہے۔

٭ اگر ہم بحیثیت قوم حادثات کو کم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ٹریفک اصولوں اور ضابطوں کو اپنانا ہو گا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنا فعال کردار ادا کرنا ہو گا۔ ہمارے ملک میں ہونے والے بیشتر خوفناک حادثے روکے جا سکتے ہیں۔ ٭ ہمیں درست ڈائریکشن میں چلنا ہو گا تاکہ ہماری سڑکیں مقتل بن کر نہ رہ جائیں۔ہمارا ہر سفر موت کی شاہراہ سے ہو کر نہ نکلتا ہو۔ ہم حادثوں کے ان سارے بڑے بڑے اسباب کو دور کر کے حادثوں میں کئی گنا کمی کر سکتے ہیں۔ ٭ پاکستان میں ٹریفک حادثات کی ایک بڑی وجہ سڑکوں کی ابتر حالت ہے۔ سڑکوں کو تعمیر کرنے کے لیے جو بین الاقوامی تقاضے ہیں، انہیں سرے سے پورا نہیں کیا جاتا۔ سڑکیں بنانا ہمارے تعمیراتی ماہرین کے لیے سونے کی کانیں کھودنے کے مترادف ہے۔ ٭

ٹریفک حادثات میں پاکستان دنیا بھر میں بہت ہی بڑے ریکارڈ کا حامل ہے۔ اگر صرف پچھلے 10 سال کا ریکارڈ دیکھا جائے تو یہ نہایت درد ناک تصویر کشی کرتا ہے۔ 2005ء میں ملک میں 9492 حادثے ہوئے جن میں 4868 افراد ہلاک ہوئے، جبکہ 11415 افراد زخمی یا اپاہیج ہوگئے،10565 گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔2006ء میں 10446 حادثے جن میں 5465 افراد جاں بحق اور 12875 زخمی ہوئے، 11481 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ 2007ء میں 10466 حادثے ہوئے۔5615 افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔ 12096 افراد زخمی ہوئے اور 11456 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ 2008ء میں 9496 حادثے ہوئے جن میں 4907 افراد جاں بحق اور 11037 زخمی ہوئے اور 10322 گاڑیاں ان حادثوں میں تباہ ہوگئیں۔ 2009ء میں9747 ٹریفک حادثے ہوئے جن میں 5380 افراد جاں بحق اور 11173 افراد زخمی ہوئے، 10496 گاڑیاں تباہ ہوگئیں۔ 2010ء میں 9723 حادثے ہوئے جن میں 5271 افراد جاں بحق ہوگئے، 11383 افراد زخمی ہوگئے، جبکہ 10822 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ 2011ء میں 9140 حادثے ہوئے، 4758 افراد جاں بحق ہوئے۔ 9710 زخمی ہوئے جبکہ 9876 گاڑیاں تباہ ہوگئیں۔ 2012ء میں 8988 حادثے ہوئے۔ ان میں 4719 افراد جاں بحق ہوئے۔ 9710 زخمی ہوئے، جبکہ 9877 گاڑیاں تباہ ہوگئیں۔ 2013ء میں 8359 حادثے ہوئے۔ ان میں 4348 افراد جاں بحق ہوئے، جبکہ 9777 زخمی ہوئے اور 9423 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ 2014ء میں 9752 حادثے ہوئے، ان میں 5773 افراد جاں بحق ہوئے، 12737 افراد زخمی ہوئے، جبکہ 10072 گاڑیاں مکمل طور پر تباہ ہوگئیں۔

صو بہ پنجاب میں 2005ء میں 4431 حادثے ہوئے جن میں 2500 افراد جاں بحق، 5408 زخمی اور 4571 گاڑیاں تباہ ہوگئیں۔ 2006ء میں 5355 حادثے ہوئے،

3096 افراد جاں بحق جبکہ 6371 زخمی اور 5355 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ 2007ء میں 5522 حادثے 3293 افراد جاں بحق ،6163 زخمی اور 5240 گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ 2009ء میں 5344 حادثے ہوئے جن میں 3083 افراد جاں بحق ،5856 زخمی اور 5344 گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ 2010ء میں 5420 حادثے ہوئے ،3167 افراد جاں بحق اور 5809 زخمی جبکہ 5420 گاڑیاں تباہ ہوگئیں۔ 2011ء میں 4990 حادثے ہوئے جن میں 2880 افراد جاں بحق اور 5071 زخمی ہوئے اور4990 گاڑیاں تباہ ہوگئیں۔ 2012ء میں 4517 حادثے ہوئے جبکہ2692 افراد جاں بحق اور 4515 زخمی ہوئے اور4587 گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ 2013ء میں 3696 حادثے ہوئے2145 افراد جاں بحق اور 3941 زخمی ہوئے جبکہ 3696 گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ 2014ء میں 3405 حادثے ہوئے جن میں 2442 زخمی اور 3400 گاڑیاں جزوی یا مکمل طور پر تباہ ہو گئیں۔

صوبہ سندھ میں 2005ء میں1809 حادثے ہوئے1239 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ1260 زخمی ہوئے اور 2034 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ 2006ء میں 1618 حادثے ہوئے 1079 افراد جاں بحق اور 1303 زخمی ہوئے اور1758 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔2007ء میں1561 حادثے ہوئے1066 افراد جاں بحق جبکہ1135 زخمی ہوئے اور1722 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ 2008ء میں 1433 حادثے ہوئے961 افراد جاں بحق، 1160 زخمی اور 1562 گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ 2009ء میں 1465 حادثے ہوئے،1031 افراد جاں بحق 1261 زخمی اور 1580 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ 2010ء میں 1270 حادثے ہوئے،927 افراد جاں بحق 1071 زخمی اور 1541 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ 2011ء میں 1054 حادثے ہوئے756 افراد جاں بحق، 681 زخمی اور 1121 گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ 2012ء میں935 حادثے ہوئے، 696 افراد جاں بحق، 637 زخمی اور 960 گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ 2013ء میں 945 حادثے ہوئے، 791 افراد جاں بحق، 893 زخمی اور 1103 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ 2014ء میں 885 حادثے ہوئے،752 افراد جاں بحق، 1202 زخمی اور 892 گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔

صوبہ خیبرپختونخواہ میں 2005 ء میں2732ٹریفک حادثے ریکارڈ کیے گئے 875 افراد جاں بحق، 400 زخمی اور 3366 گاڑیاں تباہ ہوئیں، 2006ء میں 2942حادثے ہوئے1006 افراد جاں بحق1 442 زخمی اور3756گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ 2007ء میں 2893 حادثے ہوئے 942 افراد جاں بحق، 3884 زخمی اور 3634 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ 2008ء میں2392 حادثے ہوئے،786 افراد جاں بحق، 3340 زخمی اور 2975 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ 2009ء میں 2559 حادثے ہوئے، 921 افراد جاں بحق، 3560 زخمی اور 3128 گاڑیاں تباہ ہوگئیں۔ 2010ء میں 2722 حادثے ہوئے،3560 زخمی اور 3128 گاڑیاں تباہ ہوگئیں۔ 2011ء میں 2772 حادثے ہوئے،953 افراد جاں بحق، 3913 زخمی اور 3501 گاڑیاں تباہ ہوگئیں۔ 2012ء میں 2968 حادثے ہوئے، 1059 جاں بحق، 4016 زخمی اور 3736 گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ 2013ء میں 3120 حادثے ہوئے،1033 افراد جاں بحق، 4252 زخمی اور 3934 گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ 2014ء میں 3107 حادثے ہوئے، 856 افراد جاں بحق، 4149 زخمی اور 3087 گاڑیاں جزوی یا مکمل طور پر تباہ ہو گئیں۔

صوبہ بلوچستان میں 2005ء میں 520 ٹریفک حادثے ہوئے، 254 افراد جاں بحق، 741 زخمی اور 594 گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ 2006ء میں 551 حادثے ہوئے، 284 افراد جاں بحق، 840 زخمی اور 612 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ 2007ء میں 490 حادثے ہوئے 314 افراد جاں بحق، 914 زخمی اور 578 گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ 2008ء میں 431 حادثے ہوئے، 248 افراد جاں بحق، جبکہ 747 زخمی اور 545 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ 2009ء میں 379 حادثے ہوئے، 245 افراد جاں بحق، 496 زخمی اور 444 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ 2010ء میں 311 حادثے ہوئے، 191 افراد جاں بحق، 350 زخمی اور 382 گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔2011ء میں 324 حادثے ہوئے، 161 جاں بحق، 480 زخمی اور 374 گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ 2012ء میں 297 حادثے، 163 افراد جاں بحق، 362 زخمی جبکہ 381 گاڑیاں تباہ ہوگئیں۔ 2013ء میں 342 حادثے ہوئے، 247 افراد جاں بحق ہوئے، 480 زخمی اور 434 گاڑیاں تباہ ہوگئیں۔2014ء میں 282 حادثے ہوئے، 233 افراد جاں بحق، جبکہ 448 زخمی اور 272 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ ان سارے اعداد و شمار میں ریلوے ،ایرکریش یا کسی ارضی و سماوی آفت سے ہونے والی اموات شامل نہیں۔ یہ سب ماجرا ہماری سڑکوں کا ہے وہ سڑکیں جو شاہرہ موت کی طرف جاتی ہیں۔ اور جن پر اژدھام وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔

پاکستان میں ٹریفک حادثات کی ایک بڑی وجہ سڑکوں کی ابتر حالت ہے۔ سڑکوں کو تعمیر کرنے کے لیے جو بین الاقوامی تقاضے ہیں، انہیں سرے سے پورا نہیں کیا جاتا۔ سڑکیں بنانا ہمارے تعمیراتی ماہرین کے لیے سونے کی کانیں کھودنے کے مترادف ہے۔ دنوں ہفتوں میں سڑکیں گڑھے بن جاتی ہیں۔ بڑی سڑکیں ون وے کی بجائے ٹووے ہیں جن پر دونوں اطراف سے بھاری ٹریفک چلتی رہتی ہے۔ حادثات کی روک تھام کے لیے سڑکوں کو ون وے بنانا لازمی امر ہے۔ ہمارے ڈرائیور حضرات کو پوری طرح تربیت یافتہ کرنا اشد ضروری ہے۔ کون نہیں جانتا کہ رشوت کے ذریعے ڈرائیونگ لائسنس کا حصول ہمارے ملک میں کتنا آسان ہے۔ ایسے ڈرائیورز روڈ پر نکل کر انسانی جان کے لیے بہت بڑا خطرہ بن جاتے ہیں۔ لمبے روٹ پر چلنے والی بسوں اور ٹرکوں کے ڈرائیورز کو نیند پوری کرنے کا موقع نہ دینا ایک سفاک عمل ہے۔ ایسے ڈرائیورز بڑے حادثات کا موجب بن جاتے ہیں۔ ڈرائیور حضرات میں نشہ بازی عام ہے۔ منشیات کا بے محابہ استعمال بھی حادثات کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ موبائل فون کا ڈرائیونگ کے دوران استعمال کسی بھی وقت بڑے حادثات کا باعث بن سکتا ہے۔

بسوں کی خستہ حالی،مسافروں کو گنجائش سے زیادہ لاد دینے ،ٹریفک قوانین کی طرف سے صریح لاپروائی بھی انسانی جانوں کے ضیاع کا بڑا باعث ہے۔ مقررہ رفتار سے تیز اسپیڈ پر گاڑیاں چلانا، گاڑیوں میں کان پھاڑنے والا میوزک بجانا ،ٹریفک سگنل توڑنا بھی ہمارے ملک میں جواں مردی کا بڑا نشان سمجھا جاتا ہے۔ اگر ہم بحیثیت قوم حادثات کو کم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان سارے اصولوں اور ضابطوں کو اپنانا ہو گا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنا فعال کردار ادا کرنا ہو گا۔ ہمارے ملک میں ہونے والے بیشتر خوفناک حادثے روکے جا سکتے ہیں۔ جانی و مالی نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔ تباہ حال خاندانوں کے جاں لیوا عذابوں کو ٹالا جا سکتا ہے۔ ہمیں درست ڈائریکشن میں چلنا ہو گا تاکہ ہماری سڑکیں مقتل بن کر نہ رہ جائیں۔ہمارا ہر سفر موت کی شاہراہ سے ہو کر نہ نکلتا ہو۔ ہم حادثوں کے ان سارے بڑے بڑے اسباب کو دور کر کے حادثوں میں کئی گنا کمی کر سکتے ہیں۔