دُشمن دیکھ لے

دُشمن دیکھ لے

تحریر یاسر محمد خان

’’شکرپڑیاں‘‘ اسلام آباد کا ایک پرفضا مقام ہے۔ سطح سمندر سے بلند ہونے کی وجہ سے یہاں کا ماحول نہایت دلکش ہے۔ درختوں اور پودوں کی حد نگاہ تک پھیلی ہوئی ان گنت قطاریں ہیں۔ چہار سو بچھی ہوئی ہریالی آنکھوں کو بہت بھاتی ہے۔ شکرپڑیاں کی بلندی سے نیچے اسلام آباد کا نظارہ ایک راحت افروز تجربہ ہے۔ اس مقام پر افواج پاکستان کے لیے ایک بڑا پریڈ گرائونڈ بھی بنا ہوا ہے۔ 23 مارچ کی صبح یہاں ایک ہجوم جمع ہوچکا تھا۔ پاکستان میں 7 سال بعد فوجی پریڈ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ سخت سیکورٹی کی وجہ سے اسپیشل پاس کے حامل افراد ہی پریڈ دیکھ پائے۔ راولپنڈی اسلام آباد میں بڑی بڑی اسکرینوں کے ذریعے ہزاروں افراد نے اس سے لطف لیا۔ ٹی وی کے ذریعے کروڑوں پاکستانیوں نے پریڈ کی لمحہ بہ لمحہ کارروائی کا نظارہ کیا۔ صدرِ مملکت اور دوسرے معزز مہمانوں کی آمد کا اعلان بگل بجاکر کیا گیا۔ پھر قومی ترانہ بجایا گیا اور پریڈ کا باضابطہ آغاز ہوا۔ تینوں مسلح افواج کے دستوں کی قیادت بریگیڈیئر خرم سرفراز خان نے کی۔ فضا نعرئہ تکبیر اور پاکستان زندہ باد سے گونج اُٹھی۔ پریڈ میں بری، بحری، ہوائی فوج کے علاوہ خواتین، رینجرز اور ایف سی کے دستوں نے بھی حصہ لیا۔ باری باری یہ دستے اسٹیج کے سامنے سے گزرے اور انہوں نے سماں باندھ دیا۔ ایس ایس جی کمانڈوز اور ملٹری بینڈ نے بھی مارچ پاسٹ کیا۔ پاک فضائیہ کے سربراہ نے ایف 16 طیارہ فضا میں اُڑاکر اپنا فنی کمال دکھایا۔

 

جنگی طیاروں نے قطاریں باندھ کر ہوا میں اپنی مہارت کے مظاہرے پیش کیے۔ ملٹری ہیلی کاپٹروں سے پیراشوٹ کے ذریعے فوجیوں نے ایرشو کیا۔ چھاتہ بردار رنگے برنگے پیرا شوٹوں میں زمین پر اُترے تو رنگوں کی بہار آگئی۔ ہر ہوا باز کے ہاتھوں میں سبز ہلالی پرچم تھا۔ پیرا ٹروپرز نے اعلیٰ جنگی مظاہرے پیش کیے۔ تھنڈر جے ایف 17 میراج اور دوسرے لڑاکا طیاروں نے اعلیٰ درجے کے کمالات دکھائے۔ مسلسل 17 گھنٹے پرواز کرنے والے اورین طیاروں کا دستہ توجہ نگاہ بنارہا۔ جدید میزائلوں، پاکستان کے تیار کردہ ڈرون طیاروں، براق، الخالد اور ضرار ٹینکوں، ایڈوانس ریڈار سسٹم کی نمائش اس پریڈ کا حصہ تھی۔ نصر اور شاہین ٹو میزائلوں کو بھی روح پرور نظاروں کے طور پر پیش کیا گیا۔ یوں یہ پریڈ کئی لحاظ سے منفرد اور یکتا تھی۔ اس میں ساری فوج نے مجبوری طور پر حصہ لیا۔ 7 سالوں تک پریڈ نہ ہونے کے داغ کو دھودیا گیا۔ دنیا پر ثابت کردیا کہ پاکستان کا دفاع نہایت ٹرینڈ اور اعلیٰ فنی جوہر کے حامل کمانڈروں کے ہاتھ میں ہے۔ اس پریڈ سے قوم کو ایک تازہ ولولہ ملا ہے۔

٭ دنیا پر ثابت کردیا کہ پاکستان کا دفاع نہایت ٹرینڈ اور اعلیٰ فنی جوہر کے حامل کمانڈروں کے ہاتھ میں ہے۔ ٭ ساری اسلامی دنیا میں ہماری فوج بہترین حربی صلاحیتوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ ہمارے اسلحے اور جوہری ہتھیاروں کو مسلم ملکوں میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ٭

پچھلے چند برسوں میں ملک نے دہشت گردی کے عفریت کو بستیوں میں تباہ کاریاں مچاتے ہوئے دیکھا ہے۔ پاک افغان سرحد پر پائیدار امن ایک خواب بن کر رہ گیا تھا۔ فوجی قیادت نے نئی افغان حکومت کے ساتھ مل کر خطے میں امن کے لیے ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ ہماری مشرقی سرحدوں پر دُشمن ہمیں ضرب عضب میں مصروف دیکھ کر بدترین شرپسندی پر اُتر آیا۔ پچھلے دو سالوں میں سینکڑوں بار سرحد کی خلاف ورزی کی گئی۔ پاکستانی گائوں دیہات پر بے مہابہ بمباری کی جاتی رہی۔ ہمیں خاصا جانی اور مالی نقصان اُٹھانا پڑا۔ اوبامہ کے ہندوستانی دورے کے بعد انڈیا کی شورہ پشتی میں مزید اضافہ ہوگیا۔ 23 مارچ کو افواج پاکستان نے اپنے زورِ بازو اور جنگی سازوسامان کا جو مظاہرہ کیا، اُس سے ہندوستان کی سرحد پر امن قائم ہونے کے ہر وار کا کاری جواب دیا جائے گا۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں داخلی امن کے لیے فوج کی کوششوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ درست ہے کہ کراچی سمیت بڑے شہروں میں اگر سکون ہوگا تو ملکی ترقی کی رفتار تیزتر ہوئی ہے جس کی نظر ملکی سرحدوں کے علاوہ ملک کے کونے کونے پر مرکوز سرجری کی ضرورت ہے۔ ہماری جمہوری حکومت کی ترجیحات میں یہ شامل ہی نہیں تھا۔ جمہوری لیڈروں نے اُس گھن کی طرف کبھی توجہ نہیں دی جو ملک کو اندر سے چاٹے جارہا ہے۔ فوج نے بروقت ادراک کیا کہ دفاع ہمیں صرف بیرونی دُشمنوں سے ہی نہیں کرنا، ہمیں اُن اندرونی دُشمنوں کی بھی گوشمالی کرنی ہے جو ملک کی بنیادوں کو مسلسل کھوکھلا کیے جارہے ہیں۔ ہمارے بدخواہوں نے اندر سے نقب لگارکھی ہے۔ این جی اوز کے نوکیلے پنجے ملک کو اپنے حصار میں لیے ہوئے ہیں۔ اسرائیل، امریکا اور بھارت کی ایجنسیاں شیر و شکر ہوکر پاکستان کو کمزور کرنے کے درپے ہیں۔ ان کے جال کو فوی الفور توڑنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں گروہی، نسلی اور لسانی بنیاد پر تقسیم نے قوم کو متحارب گروہوں میں بانٹ دیا ہے۔

ہر گروہ دوسرے سے دست و گریبان ہے۔ سیاسی پارٹیوں نے مسلح ونگز بنا رکھے ہیں۔ گولی کی دہشت نے حکمرانی کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے۔ راہبروں اور راہزنوں میں فرق مفقود ہوگیا ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسند تنظیموں نے غیربلوچیوں کا قتل عام شروع کر رکھا ہے۔ ان تنظیموں کو بیرونی قوتیں اسلحہ بارود مہیا کررہی ہیں۔ سندھ میں اور شہروں کے علاوہ کراچی دہائیوں سے بھتہ خوروں کے قبضے میں ہے۔ بھتہ نہ دینے والی فیکٹری میں سینکڑوں مزدوروں کو زندہ جلادیا گیا۔ اس شہر میں نقص امن نے سارے ملک کی معیشت پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ کراچی میں لینڈ مافیا نے کھربوں کی زمینیں ناجائز طور پر ہتھیا رکھی ہیں۔ اگر فوج صرف سرحدوں کے دفاع پر ہی توجہ مرکوز رکھتی تو ہم اندرونی طور پر ختم ہوتے جاتے۔ فوجی قیادت نے حالات کے ادراک میں زیرک پن دکھایا ہے۔ ہم اگر اندرون طور پر مضبوط ہوجائیں گے تو بیرونی دفاع میں ہمیں کوئی خاص مشکل پیش نہیں آئے گی۔ اگر ملک اندر سے ہی کھوکھلا ہوجائے تو صرف بیرونی دفاع ہمیں بچا نہ پائے گا۔ سوویت یونین کے پاس دنیا میں اسلحے کے سب سے بڑے انبار تھے۔ لاکھوں پر مشتمل فوجیں تھیں۔ اُسے معاشی بدحالی نے ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔ آج کی دنیا میں قومیں محض اسلحے اور فوجوں کے زور پر ہی مضبوط نہیں ہوتیں۔ درست ہے کہ گولہ بارود کی اہمیت اپنی جگہ بہت زیادہ ہے، دراصل معاشی آسودگی کسی بھی ملک کے دفاع میں مرکزی کردار کی حامل بن گئی ہے۔ آج وہی ملک آگے ہیں جہاں عوام خوشحال ہیں، فوجیں بہت تربیت یافتہ ہیں اور جدید ترین اسلحہ بھی بہم ہے۔

ہماری افواج نہایت تربیت یافتہ ہیں۔ ان کے پاس دنیا کا اعلیٰ اسلحہ موجود ہے۔ ہم بحیثیت قوم خوشحال نہیں ہیں۔ ہماری معیشت نہایت درجہ کمزور ہے۔ ہم بیرونی امداد کے سہارے ملک چلارہے ہیں۔ ہم سود پر بھاری قرضے لیتے ہیں۔ ہمارے بجٹ کا 66 فیصد سود سمیت قرضوں کی ادائیگی پر صرف ہوجاتا ہے۔ سال بہ سال یہ بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔ جب ہم جی ڈی پی کے 34 فیصد سے اپنا سارا بجٹ بنائیں گے تو ملکی ترقی میں بڑی بہتری کی امید رکھنا مشکل ہوجائے گا۔ ملک میں سولہ سترہ سالوں سے کوئی مردم شماری نہیں ہوپائی، اس لیے ہمیں کتنے اسکول اور ہسپتال چاہییں، ہمیں کچھ پتہ نہیں۔ بلدیاتی انتخابات سالہا سال سے مؤخر ہونے کی وجہ سے ہمارے شہر کوڑا دان بن کر رہ گئے ہیں۔ ڈینگی اور دوسری وبائیں پھیلتی جارہی ہیں۔ جمہوری قیادت نعروں، خطابوں اور خوابوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ سنگین مسائل ہیں کہ آندھیوں کی طرح یورش کیے جارہے ہیں۔ ان کا بوجھ کم ہونے کی بجائے دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے۔ سیاسی لیڈر ہر محاذ پر پسپا ہوئے جارہے ہیں۔

ان حالات میں پاکستانی فوج نے جو قدم اُٹھائے، وہ سب درست سمت میں ہیں۔ فوج کو چاہیے کہ وہ اندرون اور بیرون دونوں طرف کڑی نظر رکھے۔ خود کو سیاست میں مت اُلجھائے۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ فوج نے جب بھی ملکی قیادت سنبھالی ہے، اُس کا نتیجہ انجام کار اچھا نہیں نکلا۔ پرویز مشرف کے دور میں فوجی مورال بہت نیچے چلاگیا تھا۔ مشرف اپنے اقتدار کو تادیر قائم رکھنے کے لیے اس جانب غفلت برتتے رہے۔ فوجی وردی تمسخر اور تضحیک کا نشانہ بننے لگی۔ پچھلے چند برسوں میں فوج سیاست سے دور رہی تو اُس کا وقار پھر بلند ہونا شروع ہوگیا۔ جنرل راحیل شریف نے پچھلے برس فورسز کی کماند سنبھالی تھی۔ ایک برس میں انہوں نے فوج کو بلند مورال عطا کیا ہے۔ فوج اندرون اور بیرون ملک اعلیٰ کارکردگی کی بنا پر ناموری کماچکی ہے۔ ساری اسلامی دنیا میں ہماری فوج بہترین حربی صلاحیتوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ ہمارے اسلحے اور جوہری ہتھیاروں کو مسلم ملکوں میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ہمیں فوج کے اس شفاف امیج کی بہت حفاظت کرنے کی ضرورت ہے۔

درست ہے کہ کئی مسلم ملکوں میں خانہ جنگی ہے۔ وہاں متحارب گروپ ایک دوسرے پر شب خون مار رہے ہیں۔ ان حالات کا حل یہ نہیں کہ ہم اُن جنگوں کا براہ راست حصہ بن جائیں۔ ہمیں مکہ و مدینہ کی حفاظت پاکستان سے بڑھ کر کرنی چاہیے، مگر فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہونے والی ہر جنگ میں ہمیں غیرجانبدار رہنا ہوگا۔ ہماری فوج کے پیچھے اسلامی تعلیمات کا جگمگاتا سمندر ٹھاٹیں مار رہا ہے۔ اس کا نظریہ وہی 23 مارچ ہے جس کی روح پرور پریڈ ہم سب نے دیکھی ہے۔ خدارا! اس فوج کو مسلمانوں کے خلاف مت استعمال ہونے دیجیے۔ یہ دیارِ مقدس کی حفاظت کے لیے جائے تو بسم اللہ۔ یہ اگر یمن کے خلاف بننے والے اتحاد میں استعمال ہو تو ہمیں ایسے ہر قدم کو اُٹھانے سے پہلے سو سو بار سوچنا ہوگا۔