امریکی غرور کا غبارہ پھٹنے کو ہے
تحریر یاسر محمد خان
’’شیکسپیئر‘‘ مغربی ادب کا سب سے بڑا نام ہے۔ اس کے ڈرامے 4 سو سالوں سے پڑھے اور دیکھے جا رہے ہیں۔ اس کے ایک تاریخی ڈرامے کا نام ’’ہنری فور‘‘ ہے۔ اس ڈرامے میں اس نے ’’سرجان فالسٹاف‘‘ جیسا زوردار کردار تخلیق کیا۔ یہ مغربی دنیا کا سب سے زیادہ مزاحیہ کردار مانا جاتا ہے۔ ’’فالسٹاف‘‘ بیک وقت راہزن بھی ہے اور راہبر بھی۔ وہ کمزروں کو دیکھ کر فوراً شیر ہوجاتا ہے۔ بہادروں کے سامنے آنے پر دم دبا کر بھاگ نکلتا ہے۔ بے آسروں کا مال ہڑپ کر کے انہیں نیکی کا وعظ کرتا ہے۔ شراب کے نشے میں مدہوش ہو کر اپنی خیال بہادری کے بعید ازقیاس قصے سناتا ہے۔ جب کبھی حقیقت میں دلیری دکھانے کا وقت آئے تو ٹوٹے شہتیر کی طرح ڈھے جاتا ہے۔ فوج جمع کرنے کے لیے اسے سرکار سے پیسہ ملتا ہے۔ وہ سارا روپیہ پیسہ ہڑپ کرجاتا ہے۔ ملک بھر کے لنگڑے، لولے اور اپاہج جمع کرکے ایک لشکر جرار کھڑا کردیتا ہے۔ ڈرتے ڈرتے ہوئے دشمن کے جسم میں تلوار بھونکتا اور اپنی اس ’’بہادری‘‘ کے لیے ہر کسی سے داد کا متلاشی رہتا ہے۔
وہ ’’ہنری فور‘‘ بادشاہ کو ایسا ہی ایک قصہ سناتا ہے۔ آغاز میں اس کا سامنا دو سپاہیوں سے ہوتا ہے۔
اس کا زور بیان، مگر زمان و مکان کی تمام حدود توڑ دیتا ہے۔ ایک منہ زور طوفان کی طرح یہ واقعہ من گھڑت کہانیوں کی سب فہرستوں سے آگے نکل جاتا ہے۔ 2 سپاہی 11 سپاہی بن جاتے ہیں۔ یہ 11 سپاہی ’’جان فالسٹاف‘‘ جیسے گوشت کے پہاڑوں کے آگے آگے بھاگتے ہیں۔ وہ منہ سے آگ اگلنے والی بلا کی طرح تلوار لہراتا ان کا تعاقب کررہا ہوتا ہے۔ اس واقعے کو سنانے کے فوراً بعد لشکر کشی کا حکم آتا ہے۔ فالسٹاف کبھی فوج کے ہمراہ چلتا ہے، کبھی راستے سے ہی فرار ہوجاتا ہے۔ بادشاہ اس کی بزدلی سے تنگ آکر اسے فارغ کردیتا ہے۔ یوں ’’فالسٹاف‘‘ کی مزید بہادری دکھانے کے سارے مواقع ختم ہو کر رہ جاتے ہیں۔
٭ جو کام 13 سالوں میں ایک لشکر جرار نہ کرپایا، اسے چند ہزار خوفزدہ خرگوش انجام نہ دے پائیں گے۔ ٭
امریکی صدر بارک اوبامہ موجودہ دور کا ’’فالسٹاف‘‘ قرار دیا گیا۔ اس نے 20 جنوری 2009ء کو امریکی افواج کے سپریم کمانڈر کا عہدہ سنبھالا۔ اپنی صدارت کے دوران اس نے پہلے عراق سے افواج واپس بلالیں۔ ستمبر 2014ء میں اس کے طیارے دوبارہ عراق میں داعش کے ٹھکانوں پر حملہ کررہے ہیں۔ اوبامہ نے عالمی ایوانوں میں دھواں دھار تقریر یں کیں اور یوں خود کو بری الذمہ قرار دے دیا۔ اس نے ایران کو ’’Nexus of Evil‘‘ ’’برائی کا گھن چکر‘‘ کہا۔ ایران پر پابندیاں لگائیں۔ اسے آنکھیں دکھائیں، مگر ایران کا کچھ بھی نہ بگاڑسکا۔ اس نے لیبیا میں ایک جمی جمائی حکومت کا تختہ الٹا، اسے جمہوریت کی فتح قرار دیا اور یوں ایک پھلتے پھولتے ملک کو سنگین خانہ جنگی کے آتش فشار کے حوالے کردیا۔ اس نے اسرائیل کی بدترین جنگی کارروائیوں کو سیلف ڈیفنس قرار دے کر اپنے شورہ پشت ہونے پر تصدیق کی مہر لگادی۔ اوبامہ نے روس کے یوکرائن پر حملے اور کریمیا کو بزور ہتھیا لینے پر بھی شاہی فرمان جاری رکھے۔ روس مگر مچھوں کی طرح ایک ملک نگلے جا رہا ہے اور اوبامہ ہاتھ ملنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر پایا۔ یوں امریکی خارجہ پالیسی کی کوئی سمت متعین نہیں۔ یہ ہر تیزرو کے ساتھ ساتھ بھاگتی پھررہی ہے۔ دنیا بھر میں خوار زبوں ہوئے جارہی ہے۔
اندرون ملک امریکا کو اس دوران خوفناک معاشی بحران سے گزرنا پڑا۔ پنشن اور صحت پر اوبامہ کی پالیسیاں فیل ہوگئیں۔ تارکینِ وطن کے لیے اس کا پلان سر اٹھاتے ہی پٹ گیا۔ اوبامہ ہیلتھ کیئر کھنڈرات کی صورت اختیار کرلینے والا منصوبہ بن گیا ہے۔ اسے ’’ساورن ڈیفالٹ‘‘ کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ کانگریس اور سینٹ کے حالیہ انتخابات میں اسے شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ریپبلکن پارٹی نے سینیٹ کی 100 میں سے 52 نشستوں پر انتخابات جیت لیے ہیں۔ ڈیموکریٹس کے پاس صرف 43 نشستیں ہیں۔ کانگریس میں اوبامہ مخالفین 246 ہیں۔کل نشستوں کی تعداد 435 ہے۔ ریاستی گورنروں کے الیکشن میں 24 ریاستوں میں ریپبلکن اُمیدوار کا میاب ہوگئے۔ اوبامہ کے گورنر صرف 11 رہ گئے ہیں۔ یوں اوبامہ اگلے 2 سالوں کے لیے کٹھ پتلی صدر ہے جس کا ڈنک نکل گیا ہے۔ وہ زبانی اشتعال انگیزیوں کے علاوہ کوئی قانون سینیٹ یا کانگریس سے پاس نہیں کرواسکتا۔
اوبامہ کے امریکی صدر بننے کے ایک سال کے اندر اندر معاشی زوال کی رفتار نہایت درجہ تیز تر ہوگئی۔ امریکا کا ریاستی قرضہ 2010ء میں 16 ارب ڈالرز سے تجاویز کرگیا۔ قومی خسارہ 1700 ارب ڈالرز تک جاپہنچا۔ ستمبر 2012ء سے امریکی ریاستی خسارے کی رفتار مزید تیز ہوگئی۔ امریکی ریاستی قرضے میں روزانہ 2.65 ارب ڈالرز کی شرح سے بعید ازقیاس اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ امریکا نے ماہانہ 85 ارب ڈالرز کے نوٹ چھاپنا شروع کردیے۔ عام امریکی خاندان کی آمدنی میں 4.2 فیصد کمی واقع ہونا شروع ہوگی۔ لاکھوں سرکاری ملازمین اپنی پنشن سے یکسر ہاتھ دھوبیٹھے۔ یوں ہر دوسرا امریکی پنشن سے محروم ہوکر حکومت کو کوسے جارہا ہے۔ بے روز گاری کی شرح میں اضافہ دوگنا ہو گیا۔ ماہانہ 6 لاکھ افراد بے روزگار ہونا شروع ہوگئے۔ کانگرس اور سینیٹ میں بیرون ملک مقیم فوجیوں کے بے مہابا اخراجات پر ہاہاکار ہونے لگی۔ امریکا نے 31 دسمبر 2014ء تک اپنی افواج کو واپس بلانے کے اعلانات کیے۔ یوں دنیا بھر میں دہشت گردی کرنے والے 87000 امریکی فوجیوں کی مزید پرواز کو روک دیا گیا۔ افغانستان سے سپاہ کوچ کرنا شروع ہوگئی۔ امریکی اپنے بنائے سیٹ اپ کو اکھاڑنا شروع ہوگئے۔ امریکی پرچم سرنگوں ہونا شروع ہوگیا۔ امریکا اور نیٹو نے 5 کھرب ڈالرز پھونک کر افغانستان کے دہشت و صحرا سے سنگریز ے جمع کیے اور انہیں قیمتی پتھر قرار دینے لگے۔ 6929047 مربع میل پر محیط امریکا کو تاریخ کے خوفناک برفانی آور سمندری طوفان کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
قدرت کا انتقام دیکھیے! امریکا میں کالوں اور گوروں کے درمیان فسادات پھوٹ پڑے ہیں۔ 12 سالہ کالے بچے کو گولی مار دینے والے سفید فام باشندے کو رہا کردیا گیا ہے۔ امریکی شہر ’’فرگوسن‘‘ سے شروع ہونے والا فسادات کا ریلا ملک کے طول و عرض پر پھیل گیا ہے۔ نومبر کے آخر میں ’’تھینکس گیونگ ڈے‘‘ اور ’’بلیک ڈے فرائیڈے‘‘ پر ہنگامے کنٹرول سے باہر ہوگئے۔ کالوں نے گوروں کے کلبوں اور ہوٹلوں کو آگ لگادی۔ پیٹرول پمپس اور تھانے جلادیے گئے۔ امریکی حکومت میں اندرونی کشیدگیاں عروج پر ہیں۔ پنٹاگون کے سیکرٹری ہیگل نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اب اوبامہ کی ساری پالیسیاں اضطراری ہیں اور اس کے اضطراب ہر جگہ نظر آرہا ہے۔ اس نے ایک خفیہ معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ افغانستان میں امریکی جنگی مشن کی معیاد ایک سال بڑھادی ہے۔ یوں 31 دسمبر 2014ء کی بجائے امریکی فوج 31 دسمبر 2015ء تک ملک میں مقیم رہے گی۔ اوبامہ نے فوجیوں کو برائے راست جنگی کارروائیوں کا ہدف دے دیا ہے۔ طالبان کی زبردست زور پکڑتی کارروائیوں نے امریکیوں کو حواس باختہ بنادیا ہے۔ یوں 9800 امریکی فوجی ملک میں مقیم رہیں گے۔ 1350 جرمنی اور اٹلی کے فوجی افغان فوج کو تربیت دیں گے جبکہ امریکی فوجی جنگوں میں حصہ لیں گے۔ یوں افغانستان میں امریکا کے علاوہ 850 جرمن اور 500 اٹلی کے فوجی مقیم ہیں۔ امریکی صدر کے اس اقدام کے بعد ریپبلکن سینیٹروں نے ایک پریس کانفرنس کی۔ انہوں نے سینیٹ اور کانگرس میں اوبامہ کی اس ’’Senseless‘‘ پالیسی کے لتے لینے کا عندیہ دیا ہے۔ اوبامہ کی نائو طوفان میں گھر گئی ہے۔ اس کے باقی کے 2 سال شدید تنازعات میں گزریں گے۔ افغانستان اس کے گلے کی ہڈی بن جائے گا۔ پچھلے 13 سالوں میں امریکا افغانستان پر مکمل قابض نہ ہوپایا۔ اس نے کروڑوں ٹن بارود پھینکا۔ اس کی توپیں کبھی خاموش نہیں ہوئیں۔ اس کے جنگی جہاز پر آن پرواز میں بھرتے رہے۔ اس کے خلائی سیارے افغانستان کے چپے چپے کے نقشے فراہم کرتے رہے۔ شورہ پشت شمالی اتحاد نئے ناموں کے ساتھ اس کا ہم رقاب رہا۔ اس کے باوجود اوبامہ اپنے مشن میں کامیاب نہ ہوپایا۔ ایک برس مزید قیام اس کے منصوبوں کو مزید وبال جان بنادے گا۔ وہ طالبان کو کچل نہیں پائے گا۔ سی این این نے درست معنوں میں اس کے اس قدام کو Lackadaisical Action (ٹھنڈا ٹھار قدم) قرار دیا ہے۔ اس عمل کے پیچھے کوئی حکمت عملی، کوئی جنگی پلان، کوئی کیس اسٹڈی، کوئی دور اندیشی پر مبنی سوچ کار فرما نہیں ہے۔ خارجی و داخلی محازوں پر شکست فاش ہونے کے بعد اوبامہ نے اضطراری طور پر اس فعل کا ارتکاب کیا ہے۔
اسے اندرون ملک Lackadaisicalاور کانگریس کو جواب دہ ہونا پڑے گا۔
افغانستان میں طالبان کے حملوں میں اچانک تیزی آجانے سے اسے اس محاذ پر بھی بدترین شکست ہو گئی۔ وہ امریکی تاریخ میں ’’فالسٹاف‘‘ کے خطاب سے نوازا جائے گا۔ ایک ایسا جنگ جو راہبر بھی تھا اور راہزن بھی تھا۔ جس کے دور میں امریکا پستی کی کھائی کی طرف تیز قدموں سے چلا۔ جس کی پالیسیاں ملک کے لیے ذلت و رُسوائی کے تاج لے کر آئیں۔ امریکی غرور اور تکبر کا غبارہ پھٹ گیا اور یہ ہوا بھرنے والوں کے منہ کے ساتھ چپک گیا۔ طالبان کو ختم کر دینے کا ہر حربہ پسپائی پر جا کر ختم ہو گیا۔ جو کام 13 سالوں میں ایک لشکر جرار نہ کر پایا جسے امریکی اور نیٹو جنگی جہاز میزائلوں کے ہمراہ نہ کر پائے، جسے کروڑوں ٹن بارود پورا نہ کرسکا۔ اسے چند ہزار خوفزدہ خرگوش انجام نہ دے پائیں گے۔ اوبامہ کے ان اقدام پر اس کے قدم مزید لڑکھڑا جائیںگے۔ زمین اسے مزید ڈولتی دکھائی دے گی۔ طالبان ڈرائونا خواب بن کر اس کی نیندوں میں زہر انڈیل دیں گے۔ شر خیر کے ہاتھوں ضرور شکست کھا جائے گا۔ اللہ کے شیروں کو روباہی نہیں آتی۔ لومڑیوں کی مکاری امریکا کو مبارک۔ یہی عیاری ان کے گلوں کا پھندا بن جائے گی۔