ملٹی نیشنل کمپنیوں کا خونی شکنجہ
تحریر یاسر محمد خان
’’ہیپی ازم، ، کی ابتدا 1960ء کی دہائی میں ہوئی۔ یہ امریکا کے مغربی ساحلوں پر پروان چڑھی۔ مہینوں سالوں میں یہ ساری مغربی دنیا میں پھیل گئی۔ نوجوان نسل بڑی ہوئی شیو، پھٹی پتلونوں، جھاڑ جھنکاڑ بالوں اور میل جمی شرٹوں کے ساتھ گلی کوچوں میں گھومتے۔ بیٹل موسیقی اپنے ہیجانی اور تیز سروں کے ساتھ ان کی ’’روحانی غذا‘‘ بن گئی۔ یہ کلبوں میں تھرکتے اور باروں میں تیز نشے کرتے تھے۔ یہ کلچر مغرب سے 1980ء کی دہائی میں مشرق منتقل ہوگیا۔ این جی اوز نے مشرقی روایات کو منقلب کرنا شروع کیا۔ ’’اینگری ینگ مین‘‘ ہمارے ہاں کا مشہور کردار بن گیا۔ نوجوان ڈسکو، موسیقی کے دلدادہ ہوگئے۔ ان کے لباس کی تراش خراش یکسر مغربی ہوگئی۔ عربی اور فارسی کی بجائے انگریزی زبان تہذیب کی واحد علامت قرار دی جانے لگی۔ ساری معاشرتی اقدار کا جنازہ نکلنا شروع ہوگیا۔ این جی اوز نے معاشروں میں اپنے نوکیلے پنجے گاڑدیے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے پہلے پہل ہمیں پیپسی اور میکڈونلڈ کا شائق بنادیا۔ میڈیا ان بھوکے صیلیبوں کی یلغار کی زد میں آگیا۔ زندگی کا قدرتی پن ختم ہوگیا۔ ہم ایک بے روح بھاگ دوڑ کا حصہ بن گئے۔ اشتہار بازی نے ہماری مادّی ہوس کو چار چاند لگادیے۔ کرتے کرتے ہم ملٹی نیشنل کمپنیوں اور این جی اوز کی بچھائی شطرنج کے ادنیٰ مہرے بن گئے۔
دنیا بھر میں پھیلی ہوئی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں 620 ہیں۔ ان کے مجموعی اثاثے 50 ٹریلین ڈالرز سے زائد ہیں۔ ایشیاء کی معیشت پر 40 بڑی کمپنیاں قابض ہوچکی ہیں۔ ان کمپنیوں نے جن ملکوں کو دیوالیہ نکالا ان میں صومالیہ، روانڈا، سوڈان، شمالی کوریا، ایل سلواڈور، زمبابوے، مالڈوا پیرو، یوکرائن، البانیہ، آرمینیا، برکینا فاسو، کیمرون چاڈ، کانگو، ایتھوپیا، گیمبیا، ہیٹی، ملاوی، مالی، سینیگال، ناہجریا اور تنزانیہ شامل ہیں۔ ٹڈی دل کے لشکروں کی طرح یہ چوس چوس کر ملکوں کو ناکارہ بنائے جارہی ہیں۔ صرف نیسلے کمپنی ہر سال لاکھوں ٹن خوراک سمندر میں غرق کردیتی ہے۔ مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا ہوتی ہے اور قیمتیں بڑھتی رہتی ہیں۔ یہ کمپنی دنیا بھر سے زرعی اجناس خریدنے میں اوّل نمبر پر ہے۔ ان سے یہ اپنی غذائی مصنوعات بناتی ہے۔ پھر ترقی پذیر ملکوں میں انہیں من چاہے نرخوں پر فروخت کرتی ہے۔ یہ کمپنی اتنی امیر ہے اگر چاہے تو دنیا بھر کے غریبوں کوکئی سال مفت خوراک مہیا کرسکتی ہے۔
٭ این جی اوز کے جال اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے حصار کو فوراً توڑنا ہو گا۔ آرمی چیف کا یہ بیان ایک ’’ویک اپ کال‘‘ ہے۔ ہر ملک دشمن این جی اوز کے لیے دروازے سختی سے بند کرنا ہوں گے۔ ٭ ملٹی نیشنل کمپنیوں سے ملکی معیشت کو سارے خطرات کے ادراک کی ضرورت ہے۔ یہ ملک ہر گورے کے لیے جنت بنتا جا رہا ہے۔ سرمایہ کاری اور نقب زنی میں تفریق کرنا ہو گی۔ ٭
خوراک سے ہم زراعت کی طرف آتے ہیں۔ ’’بورلاگ‘‘ نامی امریکی سائنسدان نے ایک بیج ایجاد کیا جس نے زمین دوگنی فصل اُگاتی تھی۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ’’بولاگ‘‘ کو بھاری تنخواہ پر ملازم رکھ لیا۔ یہ بیج پاکستان میں 70 کی دہائی میں درآمد ہوا۔ اگلے برس ہمیں بیج کے علاوہ اس کمپنی کی کھاد خریدنا پڑی۔ اس سے اگلے برس ہمیں کیڑے مار دوائیاں اس کمپنی سے بھاری قیمت پر خریدنا پڑیں۔ اس کمپنی نے یہاں فیکٹریاں لگا لیں۔ یہاں کی کھپت بڑھنا شروع ہوگئی۔ زمین کسی بھی دوسرے بیج کو قبول کرنے سے انکاری ہوگئی۔ پانی کو یہ پیاسا بیج کئی گنا زیادہ مانگنا شروع ہوگیا۔ ملک میں ٹیوب ویل اس کمپنی نے لگانا شروع کردیے۔ سارے منسلکہ برقی آلات اسی کمپنی سے آنا شروع ہوگئے۔ بجلی کا سامان، تاریں، کھمبے اور میٹر بھی وہی کمپنی سپلائی کرنا شروع ہوگئی۔ یوں ملکی زراعت پر وہ تنزلی آئی کہ اجناس برآمد کرنے والا ایک بڑا ملک پاکستان اناج کے لیے محتاج ہو گیا۔ یہاں بھی وہی ملٹی نیشنل کمپنی آگے آئی اور دوسرے ملکوں سے ہمیں غذائی اجناس اسی کے توسط سے آنے لگیں۔ یوں ہم زراعت کے شہسوارں سے نکل کر دست نگر ہو گئے۔
ادویات مہیا کرنے والی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے 70کی دہائی میں پاکستان کا اس وقت بائیکاٹ کر دیا جب بھٹو نے ہر دوا ملک میں بنانے کا اعلان کیا۔ حکومت مجبور ہوئی۔ یوں سفید فام بھیڑے مجبور مخلوق کی کھال اتارنے لگے۔ ہندوستان کی نسبت ہم جان بچانے والی ادویات کے 66فیصد زیادہ نرخ دے رہے ہیں۔ بچوں کی ایک بنیادی دوا Gravinateزرداری حکومت میں 18روپے کی ملتی تھی۔ آج اس حکومت کے ڈیڑھ سالہ اقتدار میں اس کی قیمت 80روپے ہو چکی ہے۔ یوں دوا کی قیمت میںچار گنا سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔
ادویات بنانے والی صرف ایک کمپنی چاہے تو دنیا کے ہر شخص کا مفت علاج ہو سکتا ہے۔ دو کمپنیاں ملیں تو دنیا کی کل آبادی کو پوری زندگی کے لیے ہسپتال کا ایک کمرہ فراہم کرسکتی ہیں۔ اگر 3 کمپنیاں مل جائیں تو کرئہ ارض کے سارے مریضوں کے لیے درمیانے درجے کا ایک ایک ہسپتال بنایا جاسکتا ہے۔ ادویات بنانے والی 2 کمپنیاں ایسی ہیں جو دنیا کے ہر مریض کو 12، 12 گھنٹے کے لیے 2 ڈاکٹر اور 4 نرسیں مہیا کرسکتی ہیں۔ اگر ادویات بنانے والی 5 بڑی کمپنیاں زندگی بچانے والی ادویات کو اپنے چنگل سے آزاد کردیں تو مہلک امراض سے مرنے والوں کی تعداد میں 90 فیصد کمی آسکتی ہے۔ یہ کمپنیاں اگر اشتہارات، دوائوں کی پروموشن پر سیمینارز اور ورکشاپس بند کر دیں تو دنیاکی 3 سب سے غریب ملک مہلک امراض سے مرنے والوں کی زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔ سرجری کے آلات بنانے والی 2 کمپنیاں 4 سال تک دنیا کے تمام مریضوں کے مفت آپریشن کراسکتی ہیں۔ طاقت کی دوائیاں بنانے والی کمپنیاں 10 سال تک تمام نومولود بچوں کو ڈبے کادودھ فراہم کرسکتی ہیں۔ صرف 2 کمپنیاں چاہیں تو د نیا سے ٹی بی، کینسر اور ایڈز جیسے مہلک امراض کو کو جڑوں سے اُکھاڑ سکتی ہیں۔
ان سب کارہائے خیر کی بجائے یہ مریضوں کے جسم سے ایک ایک خون کا قطرہ چوسے جا رہی ہیں۔ ان کے اکانٹوں میں ہر دن بلین کے حساب سے روپے آرہے ہیں۔ یہ غریب ملکوں کے کرپٹ حکمرانوں کے ساتھ اتحاد بناکر کر ئہ ارض پر بیماری، جہالت، مفلسی اور لاچاری کے جراثیموں کو پروان چڑھا رہی ہیں۔ شکیل آفریدیوں کے ساتھ مل کر ملکی بنیادوںکو کھوکھلا کر رہی ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح یہ تجارت کی غرض سے آئی تھیں۔ اب پاکستان مکمل طور پر ان کے نرغے میں آیا ہوا ہے۔ ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کا این جی اوز کے ساتھ بہنوں کا رشتہ ہے۔
پاکستان میں 60 ہزار سے زیادہ این جی اوز رجسٹرڈ ہیں۔ یورپی این جی اوز 50 ارب ڈالرز سے زیادہ کے اثاثے رکھتی ہیں۔ ان کے خفیہ فنڈز قطار و شمار سے باہر ہیں۔ انہوں نے لاکھوں ملازمین رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا ایجنڈا ملک کے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب سے اسلام کی روح کو خارج کرنا ہے۔ لوگوں کو اسی دنیا کے کھیل تماشوں میں اُلجھانا ہے۔ یہ این جی اوز حکومت پاکستان کے Curriculum Wing کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ نوجوان نسل کے بے راہروی کا شکار بنانا۔ نت نئے نشوں کا عادی بنانا۔ شعائر اسلام سے مکمل قطع تعلق کرکے زندگی گزارنا۔ مغربی رنگ ڈھنگ کو اسلامی معاشرے میں سمونا۔ اپنے آباء کے کارناموں کا تمسخر اُڑانا۔ داڑھی، نماز، تسبیح، عمامہ، منبر کا مذاق اڑانا یہ سب ان تنظیموں کے خفیہ ایجنڈے ہیں۔ پاکستان میں صلیبی اور صہیونی لابیاں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ ایک ایسی نوجوان نسل کو پروان چڑھا یا جارہا ہے جو دین، غیرت، حمیت سے واقف نہیں۔ بے راہروی پر مبنی لٹریچر اور انٹرنیٹ پر اخلاق سوز مناظر عام کردیے گئے ہیں۔ ایک طوفان ہے تباہی اور بربادی کا جس نے ہماری نوجوان نسل کو غرقاب کر رکھا ہے۔ یہ پھو ل اپنا جوبن دکھانے سے پہلے ہی کملاگئے ہیں۔
یہ وہ پس منظر ہے جس میں ہمارے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے 4 دسمبر کو دفاعی کانفرنس آئیڈیاز 2014ء اور سندھ پولیس کمانڈوز یونٹ سے خطاب کیا۔ انہوں نے ان غیرریاستی عناصر کو پاکستان کی سالمیت کے لیے بہت بڑا خطرہ قرار دیا۔ دشمن ہم میں گھس آیا ہے اور اندر سے وار کرکے ریاست کا سارا ڈھانچہ گرا دینے پر تُلاہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہماری حکومتیں دہائیوں سے ہمیںکھانے والی اس دیمک کو تلف کرنے پر توجہ دیتی۔ ہماری سیاسی حکومتیں اس معاملے میں سنگین غفلت کی مرتکب رہی ہیں۔ کئی اہلکار، بیورو کریٹ اور نام نہاد روشن خیال دانشور مغربی طاقتوں کے ایجنٹ رہے ہیں۔ یہ سراج الدولہ کی بجائے لارڈکلائیو سے ملے ہوئے تھے۔ ان بے رحم لوگوں نے اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے غریبوں کے تن سے کپڑے اتارلیے۔ ان کے ہاتھوں سے روٹی چھین لی۔ دوائوں کو ان کی دسترس سے دور کردیا۔ لوگ تشنہ کام صاف پانی کی تلاش میں بھٹکنے لگے۔ کتابوں سے زندگی کا رَس نچوڑ لیا اور اس کی بجائے انہیں زہر سے بھردیا گیا۔ سیکولر لادین طرزِ زندگی کو قوم کا شعار بنایا جانے لگا۔ ملی حمیت کی رگ جاں دبوچ لی گئی۔ روح کے سوت خشک کرکے حب دنیا کا شورابہ بھردیا گیا۔ ہمارے ہیرو صلاح الدین ایوبی کی بجائے مائیکل جیکسن بنادیے گئے۔ ہماری خاکستر میں فاطمہ بنت عبداللہ جیسی چنگاریاں بجھادی گئیں۔
ان کی بجائے میڈونا اور ڈیانا جیسی بدروحوں اور چڑیلوں کے قصے عام کردیے گئے۔ ملکی معیشت کا لہو چاٹ کر اسے یرقان زدہ بنا دیا گیا۔ رشوت ستانی اور کرپشن کے نامور ملی وجود کی ساری توانائیاں لے گئے۔ بڑھتے ہوئے قرضوں کے بھاری بوجھ کے نیچے انسانیت سسک رہی ہے۔ سودی نظام کی ہیروئن نے معاشرے سے ساری خیرو برکت چھین لی ہے۔
این جی اوز کے جال اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے حصار کو فوراً توڑنا ہو گا۔ آرمی چیف کا یہ بیان ایک ’’ویک اپ کال‘‘ ہے۔ این جی اوز کی آکاس بیل پوری طرح سے الگ ہوگی۔ ان بے مہارآزادی کو قانون کی سخت گرفت میں لانا ہوگا۔ پروٹوکولز اور ایس او پیز بنا کر انہیں رٹ کے نیچے لانا ہوگا۔ ہر ملک دشمن این جی اوز کے لیے دروازے سختی سے بند کرنا ہوں گے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں سے ملکی معیشت کو سارے خطرات کے ادراک کی ضرورت ہے۔ یہ ملک ہر گورے کے لیے جنت بنتا جا رہا ہے۔ سرمایہ کاری اور نقب زنی میں تفریق کرنا ہو گی۔ ہمیں ملٹی نیشنل کمپنیوں اور این جی اوز کے آگے آہنی دیوار کھڑی کرنی ہے۔ اس سیلاب کو مزید تباہی پھیلانے سے روکنے کی اشد ضرورت ہے۔