فلسطین کی آزادی تک
تحریر یاسر محمد خان
’’ہیلوی کے یوسی‘‘ (Halvi K Youssie) اسرائیل کا ایک بڑا دانشور ہے۔ 7 ستمبر 2002ء کو اس نے مشہور امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز میں ایک مضمون لکھا۔ اس کا عنوان Introspective as a prerequisite for Peace (امن کے لیے اوّلین شرط باطن میں جھانکنا) تھا۔ یہ مضمون اپنے وقت کی شہرئہ آفاق تحریروں میں شامل ہوگیا۔ اسے دنیا بھر کے پریس نے چھاپا۔ بے شمار زبانوں میں اس کے تراجم ہوئے۔ ’’یوسی نے اسرائیل فلسطین جنگ پر ایک نئے انداز میں روشنی ڈالی تھی۔ وہ یہودیوں کی تاریخ کے اوّلین دور میں گیا۔ اجتماعی یہودی لاشعور (Collective Jewish Unconscious) سے پردہ اٹھایا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہودی اپنی تاریخی بداعمالیوں کا بوجھ اپنے باطن میں اٹھائے پھر رہے ہیں ۔ یہ بوجھ دوسری قوموں کے خلاف شدید نفرت جنگ و جدل کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ یہودی نفسیات میں سفاکیت در آئی ہے۔ وہ کسی بھی مظلوم کا نقطہ نظر سننے اور جانچنے کا روادار نہیں رہی۔ یہودیوں نے پچھلی چند صدیوں میں یورپ کو سازشوں کا گڑھ بنادیا۔ ملکوں کو باہم لڑایا اور یوں ان کے خلاف نفرت بیسویں صدی کے پہلے نصف میں اپنی انتہا تک پہنچ گئی۔ ہٹلر نے جرمنی میں ان کا صفایا شروع کردیا۔ زیرک یہودی دماغوں نے دنیا بھر سے اپنے اثاثے اکٹھے کیے۔ فلسطین میں ایک جنگی الائو روشن کردیا۔
1948ء میں یہودیوں نے مسلمانوں کا قتل عام کرنا شروع کردیا۔ 1956ئ، 1967ء اور 1973-74ء میں جنگیں ہوئی۔
اسرائیل نے ایک لاکھ 9 ہزار 93 مربع میل کا عرب علاقہ ہڑپ کرلیا۔ فلسطینی مسلمان لبنان، اردن اور شام میں بکھر گئے۔ عیسائیوں کے ساتھ ساتھ اردن اور شام کی مسلمان حکومتوں نے بھی ان پر ظلم کے پہاڑ توڑنا شروع کردیے۔ لبنان میں یہ مسلمان صابرہ اور شتیلہ کے کیمپوں میں مقیم ہوگئے۔ یہ کیمپ باقاعدہ طرز کے بنے ہوئے مکانات تھے۔ مسلمانوں نے اپنی جمع پونجی ان کی تعمیر پر خرچ کردی تھی۔ یوں یہ باقاعدہ کالونیاں بن گئیں۔ اسرائیل کے ایما پر ایک عیسائی ’’بشیر جمائل‘‘ کو لبنان کا صدر منتخب کرلیا گیا۔ چند دنوں بعد وہ قتل ہوگیا اور فلسطینی مسلمان کو اس کا مورد الزام ٹھہرایا جانے لگا۔ اسرائیل نے لبنان کے فلانجی عیسائیوں کو اپنا ہراول دستہ بنایا اور مسلمانوں کا قتل عام شروع کردیا۔ ’’یوسی‘‘ کے مطابق صابرہ کیمپ سے صرف اڑھائی سو قدم دور ایک 7 منزلہ عمارت کو یہودیوں نے اپنا کیمپ آفس بنالیا۔ یوں 15 ستمبر 1982ء کو دن 2 بجے یہ قتل عام شروع ہوا۔ صابرہ اور شتیلہ کیمپ ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے۔ اسرائیلوں نے کیمپوں کے راستے ٹینک لگا کر بند کردیے۔ عیسائی اور یہودی رائفلوں، گرنیڈوں اور مشین گنوں سے حملہ آور ہوئے۔ غروب آفتاب تک قتل عام جاری رہا۔ خصوصاً نوجوان لڑکوںکو چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔ 16 ستمبر 1982ء کی صبح اسرائیلی وزیر دفاع مشیروں کے حکم پر فلانجی عیسائی فوجوں نے قتل عام جاری رکھا۔ غروب آفتاب کے وقت یہودیوں نے مارٹر گنوں سے روشنی کے گولے Flares فائر کرنا شروع کردیے۔ یوں رات کو دن بنادیا گیا۔ یہ گولے پیراشوٹ سے فضا ہی میںمعلق رہتے تھے۔ مارٹر گنوں، رائفلوں، مشین گنوں، سب مشین گنوں، گرنیڈوں کے دھماکے فضائوں میں گونجنے لگے۔ کیمپوں میں قیامت بپا کردی گئی۔ عورتوں، بوڑھوں، شیر خوار بچوں، نوجوانوں کا لہو گلی گلی بہنا شروع ہوگیا۔ مسلمانوں کو مارنے کے لیے ایسے ایسے طریقے ایجاد کیے گئے کہ شیطان بھی ششدرہ گیا۔
17 ستمبر 1982ء کو فلسطینیوں کو حکم دیا گیا کہ وہ ایک جگہ اکٹھے ہوجائیں۔ جیسے ہی ایک ہجوم جمع ہوا اس پر ٹینک چڑھا دیے گئے۔ ہسپتالوں میں گھس کر زخمی فلسطینیوں کو بے رحمی سے قتل کردیا گیا۔ 18 ستمبر کو ریڈ کراس نے زخمیوں کو طبی امداد دینے کے لیے اسرائیلی حکومت سے درخواست کی جسے سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔ اس رات لبنان کے سارے ہسپتالوں میں ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرامیڈیکل اسٹاف کو جان سے مار دینے کی دھمکیاں دے کر رخصت پر بھیج دیا گیا۔ ہسپتالوں میں جمع زخمی تڑپ تڑپ کر مرگئے۔ 19 ستمبر 1982ء کو دن ساڑھے 10 بجے قتل عام ختم کردیا گیا ۔ ریڈکراس، ہولی ڈیفنس، لبنان کی مسلمان فوج اور رضاکار کیمپوں میںداخل ہوئے۔ جدھر نظر اُٹھتی لاشیں ہی لاشیں دکھائی دے رہی تھیں۔ یہودیوں نے اموات کم دکھانے کے لیے بلڈوزر سے گڈھے کھودے اور لاشیں گڈھوں میں پھینک دیں۔ ایک مشترکہ قبر ایسی دیکھی گئی جو 50 مربع گز کی تھی۔ اس ہولناک سانحے کے بعد یہودیوں نے فلانجیوں کو قتل عام کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ خود کو اس شیطانی کھیل سے بری الذمہ قرار دیا۔ ’’ہیلوی کے یوسی‘‘ لکھتا ہے: ’’یہ سب قتل عام یہودیوں نے کیا۔‘‘ وہ اسے وقت کی ستم ظریفی قرار دیتے ہوئے کہتا ہے: ’’صابرہ اور شتیلہ عین اس جگہ واقع تھے جہاں سلطان صلاح الدین ایوبی نے ایمان کی درانتی سے فصل صلیبی کاٹی تھی۔ رچرڈ سوئم کو شکست دی تھی اور عیسائی مسلمانوں کی ساری شرائط مان کر میدان جنگ سے واپس جا پائے تھے۔‘‘
1982ء کے بعد بھی ہر سال مسلمان اپنے خون کا خراج ادا کرتے رہے ہیں۔ جنوری 2006ء میں حماس نے فلسطین میں الیکشن جیتا تو اب تک 2009ئ، 2012ء اور 2014ء میں وسیع پیمانے پر مسلما نوں کا قتل عام ہوچکا ہے۔ سب سے ہولناک سال 2014ء رہا جس میں 2000 سے زائد مسلمان شہید کردیے گئے۔
8 جولائی سے 26 اگست تک اسرائیل نے ’’آپریشن برائے تحفظ کنارہ‘‘ شروع کیے رکھا۔ یوں غزہ کے مغربی کنارے پر فضائی اور زمینی کا روائی کرتے ہوئے فلسطینی علاقے کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا گیا۔ اسرائیل نے 3 یہودیوں کے قتل کا بہانہ بنایا اور درندگی کا راج قائم کردیا ۔ 7 ہفتوں پر محیط یہ قتل عام مہذب دنیا کی عین آنکھوں کے نیچے ہوتا رہا، مگر اسرائیل کا کوئی کچھ بھی نہ بگاڑ سکا۔ اسرائیل کے مطابق اس نے حماس کے 5000 سے زائد ٹھکانوں پر بمباری کی۔ 34 خفیہ سرنگیں اور حماس کا دو تہائی اسلحہ تباہ کیا گیا۔ 2143 فلسطینیوں میں سے 1500 عام شہری شہید ہوئے۔ 17000 مکانات مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔ 30,920 مکانات جزوی طور پر تباہ ہوئے۔ 120 مسجدیں شہید کی گئیں اور 43 کو جزوی نقصان پہنچا۔ 24 اسکول مکمل طور پر جبکہ 198 جزوی طور پر تباہ ہوگئے۔ 9563 افراد شدید زخمی ہوئے۔ 4 لاکھ 75 ہزار افراد بے گھر ہوگئے۔ حماس نے اسرائیل پر 4564 راکٹ فائر کیے جن سے 161 افراد ہلاک ہوئے اور 651 زخمی ہوئے۔ ان خوفناک اور دل ہلا دینے والے حملوں کے باوجود امریکی حکومت نے اسرائیل کی دل کھول کر مدد کی۔ دراصل یہودیوں نے اسرائیل کے بعد جس ملک میں سب سے زیادہ جڑیں گاڑ رکھی ہیں وہ امریکا ہے۔
’’ چارلس ایف مارڈن‘‘ (Charles F. Marden) نامی امریکی نے ان پر ایک کتاب لکھی ہے۔ Minorities in American Societyکے نام سے شائع ہوئے ہے۔ اس میں امریکا میں موجودہ 4 بدنام زمانہ یہودی تنظیموں کا پوسٹ مارٹم کیا گیا ہے۔ ان میں ایک The American Jewish Committee، 2 پر The Anti Defamation League 3 پر The American Jewish Congress اور 4 پرThe Jewish Labour Committee شامل ہیں۔ مارڈن لکھتا ہے: ’’نسل کے اعتبار سے یہودی امریکیوں سے انتہائی مختلف ہیں۔ ان کی ناکیں لک کی طرح، بال سیاہ اور چہروں کے خدوخال ایسے ہوتے ہیں جو غیریہودیوں کی نگاہ میں کشش سے عاری ہوتے ہیں۔ ان کے روز مرہ زندگی کے طور طریقے مختلف ہیں جن کی بنیاد ان کے ایک ایسے مذہب پر رکھی گئی ہے جو عجیب و غریب رسومات اور خانگی رسم و رواج کا مجموعہ ہے۔ یہودیوں میں سب سے آگے نکل جانے کا خبط ایسا ہے کہ وہ غیریہودیوں کے خلاف جار حانہ طریقے اور زمین دوز کا روائیاں شروع کردیتے ہیں۔ ان کے ذہن پرلے درجے کے سازشی ہیں۔ وہ غیریہودی دنیا میں کوئی نہ کوئی مصیبت پیدا کرنے کی اسکیمیں ہمہ وقت سوچتے رہتے ہیں۔
ایک امریکی فلم پروڈیوسر ’’جارج پیکرز‘‘ نے خاصی عرق ریزی کی اور یہودیوں کے جرائم پر ایک فلم بنائی۔ اس کا نام A History of Jewish Crimes رکھا گیا۔ امریکی سنسر بورڈ میں بیٹھے یہودیوں نے اس فلم پر مکمل پابندی لگوادی۔ امریکا سمیت دنیا بھر میں اس کے دکھانے پر سزا مقرر کردی گئی۔ یوں انسانیت کے خلاف کیے گئے یہودی جرائم پر سے پردہ نہ اٹھ پایا۔ آج جب 2014ء اختتام پذیر ہوچکا ہے۔ امریکی آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے وجود کو تسلیم نہ کرنے پرپہلے نمبر پر ہے۔ اقوام متحدہ میں اس مقصد کے لیے ایک قرار داد پیش کی گئی۔ دنیا کے 193 میں سے 180 ملکوں نے اس کی پرزور حمایت کی۔ فرانس، برطانیہ اور سویڈن جیسے عیسائی ملکوں نے بھی قرارداد کی حمایت کی۔ اسرائیل، امریکا، کینیڈا اور ناروے سمیت 7 ملکوں نے اس کی مخالفت کی۔ 4 ملکوں نے اس قرارداد کے نہ حق میں نہ مخالفت میں ووٹ ڈالا۔ یوں امریکا نے یہودیوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے فلسطینی مسلمانوں کے جائز حق کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنے سارے ذیلی اداروں اور ایجنسیوں کو بھی پابند کیا ہے کہ وہ فلسطینی حق خوداریت کے راستے میں حائل ہر دیوار کو گرادے تا کہ یہ تنازعہ حل ہو اور پائیدار امن کی کوئی صورت نکل سکے۔ پاک فوج کے سربراہ نے بھی مسئلہ کشمیر اور فلسطین کے فوری حل پر زور دیا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ جن ملکوں میںعیسائیوں پر کوئی بُرا وقت آتا ہے، ساری عیسائی دنیا ان کے ساتھ کھڑی ہوجاتی ہے۔ پوپ بھی کھیتولک چرچ سے فرمان جاری کرنا شروع کردیتا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا بھی دن رات اس مسئلے کو اٹھائے اٹھائے پھرتا ہے۔ دنیا بھر کے اخبارات میں اسے نہایت نمایاں جگہ ملتی ہے۔ ہر بین الاقوامی فورم پر اسے پوری طرح ہائی لائٹ کیا جاتا ہے۔ بڑے ملکوں کی تنظیمیں بھی فعال کردار ادا کرنا شروع کردیتی ہیں۔ یوں مشرقی تیمور میں عیسائیوں کے لیے علیحدہ ریاست وجود میں آگئی۔ نائیجیریا میں ’’بوکو حرام‘‘ ایک بین الاقوامی اچھوت بنادی گئی۔ دن رات عیسائیوں کے حقوق پر فرمان سننے کو آرہے ہیں۔ الشباب کے نظام پر تبصرے اور تجزیے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ارجنٹائن نے برطانوی تسلط سے اپنے جزیرے خاک لینڈ کو چھڑایا تو ساری دنیا برطانیہ کی طرف ہوگئی۔ روس نے عیسائی اکثریت کا ملک ہڑپنا شروع کیا ہے تو ہر طرف ایک واویلا سنائی دے رہا ہے۔ ساری عیسائی دنیا میں زلزلے بپا ہونے لگے ہیں۔ رُوس کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے یورپی یونین امریکا کی سرکردگی میں خم ٹھونک کر میدان میں آگئی ہے۔
دوسری طرف دیکھیں تو او آئی سی مسلم دنیا کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ اس کے 4میں سے ایک سیکرٹری جنرل کی بظاہر تمام تر توجہ فلسطین پر مرکوز رہتی ہے۔ اس تنظیم نے القدس کمیٹی بھی بنا رکھی ہے۔ ایک القدس فنڈ بھی قائم کر رکھا ہے۔ فلسطینیوں کے لیے ملٹری تعاون کا ایک دفتر بھی کاغذات میں موجود ہے۔ عملاً جب کبھی مسلمانوں پر کڑا وقت آیا ہے، اس تنظیم کے ہیڈ کوارٹرز سے بیانات کا ایک تند و تیز سیلاب نکل آتا ہے۔ پریس کانفرنسیں ہوتی ہیں۔ اعلامیے جاری کیے جاتے ہیں۔ الفاظ کا ایک پہاڑ کھڑا کردیا جاتا ہے، جسے روندکر اسرائیل اپنی سفلی سرگرمیاں جاری رکھتا ہے۔ مسلم دنیا کی دوسری بڑی تنظیم عرب لیگ ہے جو صرف عرب دنیاسے اپنا سروکار رکھتی ہے۔ اس کا بجٹ او آئی سی سے 10 گنا زیادہ ہے۔ اس کے باوجود یہ او آئی سی جیسی ہی ناکامیوں اور نا مرادیوں کا تاج سرپر سجائے ہوئے ہے۔ مسلم دنیا کے بعض ملکوں کے پاس الف لیلوی دولت کے انبار ہیں۔ اس کے بادشاہ سونے کے محلوں میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کے ذاتی جہازوں کے بیڑے ہیں۔ ان کے پاس اتنے وسائل ہیں فلسطینیوں کے لیے ایک دو مسلمان ملکوں کے علاوہ کوئی مدد کو نہ آیا۔ شرم کی بات یہ ہے کہ عیسائی دفاعی تنظیم ریڈ کراس سب سے پہلے غزہ پہنچی۔ ساری مسلم دنیا اجلاس قراردادوں، اعلامیوں، مذمتی بیانات، بینروں اور نعروں جلوسوں کے علاوہ کچھ نہ کرسکی۔ عربوں میں ملی بے حسی کی مقدار مرور ایام کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔ محض مذمتی تیر چلا کر یہ اپنے فرض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں۔ متاثرین کی بحالی کے لیے مسلم دنیاسے فنڈز بہت کم آتے ہیں۔ یوں خون مسلم بہتا رہتا ہے۔ زخمی سسکتے رہتے ہیں۔ ان کے گھر اندھیری گھچائیں بن جاتے ہیں۔ بچوں کے اسکول تباہ اور مسجدیں برباد کردی جاتی ہیں۔ ہسپتال اور اناج گھر بھسم کردیے جاتے ہیں۔ خوراک کے دانے دانے کے لیے مجبور مسلمان بھٹکتے پھرتے ہیں۔ سارے دفاع کی تباہی کی وجہ سے بیرونی امداد، خوارک اور ادویات مستحقین تک نہیں پہنچ پاتیں۔ یہ کہانی نئے اسکرپٹ کے ساتھ ہر دوسرے برس دوہرائی جارہی ہیں۔ ان بھیانک فلسطین کا مسئلہ فلسطینیوں کی مرضی اور منشا کے مطابق حل ہو جاتا ہے تو یہ سارے خطے کے لیے امن لے کر آئے گا۔ یہ رہتا ہوناسور اگربھر جائے تو عالمی امن کے خواب کا ایک بڑا حصہ پورا ہو جائے گا۔
پاکستان کو اس کڑے وقت میں آگے آنا ہوگا۔ ہمیں اس اُبھرتے ہوئے منظرنامے میں ایک فعال کردار ادا کرنا ہے۔ فلسطین کی آزادی ہماری خارجہ پالیسی کا محدود رہی ہے۔ اب وقت آگیا ہے ہم اسے عملی جامہ پہننانے کے لیے سب سے آگے آجائیں۔ ساری اسلامی دنیا کو باور کرانا ہو گا کہ ان تاریخی ساعتوں میں سب گراں خوابی سے بیدار ہوں اورا پنے مسلمان بھائیوں کی مدد کے لیے آگے بڑھیں۔ اقوام متحدہ میں ہر مسئلے کے پائیدار حل کے لیے اسے مسلسل زندہ رکھنا ہوگا۔ دنیا قرار داد پاس کرواکر اپنے کام دھندوں میں لگ جائے گی۔ امریکی منافق کوشش کریں گے کہ اس پر وقت کی گرد جم جائے، یہ نظروں سے دور ہوجائے اور اسرائیلوں کی گوشمالی کا یہ موقع ضائع ہوجائے۔ اب یہ مسلم دنیا پھر منحصر ہے کہ وہ کس قدر جاندار کردار ادا کرتی ہے؟ اگر اس موقع سے فائدہ اٹھایا جائے اور عالمی ضمیر کو بار بار جھنجھوڑا جائے تومنزل قریب آسکتی ہے۔ اگر ہم نے موقع ضائع کر دیا تو اس بھاری قرار داد کا مستقبل وقت کی گہری دھند میں روپوش ہوجائے گا۔ ہم خدانخواستہ! دوبارہ اسرائیلی درندوں کی سفاکیت و بربریت کی مثالیں دیکھ رہے ہوں گے۔ اگر عیسائی ملک اپنے چھوٹے چھوٹے مسئلوں پر ساری دنیا کی توجہ حاصل کر سکتے ہیں، وہ میڈیا اور سیمینارز میں اسے وقت کا سب سے زیادہ اہم معاملہ بنا کر پیش کرسکتے ہیں تو ہم کئی دہائیوں سے جاری اس جنگ و جدل کو رکوانے کے لیے کیوں سر گرم نہیں ہوسکتے ہیں؟ او آئی سی عرب لیگ سارے اسلامی ملک ان کی ساری فعال تنظیمیں اس قرارداد کی ہمہ وقت تازہ رکھیں تو مسئلہ فلسطین کا حل نکلنا شروع ہوجائے گا۔ اگر سورج کی روشنی کاغذ پر مرتکز ہو تو اسے جلا ڈالتی ہے اگر ساری مسلم دنیاکی قوت ایک ہو جائے تو اسرائیل کو بھسم کرسکتی ہے۔ فلسطینیوں کے گرد کسا ہوا یہودی شکنجہ ٹوٹ سکتا ہے۔ فلسطین کو آزادی مل سکتی ہے۔