خطے کے لیے خطرے کی گھنٹیاں؟

خطے کے لیے خطرے کی گھنٹیاں؟

تحریر یاسر محمد خان

اوبامہ چھٹے امریکی صدر ہیں جنہوں نے بھارت کا دورہ کیا۔ سب سے پہلے آئزن ہاور نے 1959ء میں بھارت کا رخ کیا تھا۔ اس وقت پنڈت نہرو بھارتی وزیر اعظم تھا۔ چین کے ساتھ بھارت کے تعلقات بہت خراب ہو چکے تھے۔ امریکا اور بھارت اس لیے بھی ایک دوسرے کے قریب آ گئے۔ اس وقت روس اور بھارت بہت گہرے تھے۔ آئزن ہاور نے نئی دہلی میں یہ تاریخی الفاظ کہے: ’’ امریکا بھارت سے دوستی کا خواہاں ہے، لیکن پاکستان امریکا کا دل ہے۔‘‘ 1969ء میں صدر رچرڈ نکسن نے بھارت کا دوسرا دورہ کیا۔ اندرا گاندھی وزیراعظم تھی۔ اس وقت اپوزیشن نے اس کی ناک میںدم کر رکھا تھا۔ امریکا ویت نام کی دلدل میں گہرادھنس چکا تھا۔ دونوں ملکوں کے لیے یہ دورہ کچھ زیادہ گرم جوشی کا حامل نہ بن سکا۔

1978ء میں جمی کارٹر تیسرے امریکی صدر کی حیثیت سے بھارت کا دورہ کیا۔ کارٹر نے 1974ء میں بھارتی ایٹمی دھماکوں ر اس کی سرزنش کی۔ بھارتی وزیراعظم مرارجی ڈیسائی اور جمی کارٹر کے درمیان مذاکرات ناکام رہے۔ یوں اس دورے سے بھارت کے لیے اچھے نتائج پیدا نہ ہوپائے۔ 2000ء میں بل کلنٹن چوتھے امریکی صدر تھے جو بھارت آئے۔ انہوں نے 5 روز قیام کیا۔ آگرہ، جے پور، احمدآباد اور ممبئی میں اس نے سیر کی۔ بھارتی پارلیمنٹ سے خطاب کیا۔ کلنٹن اور اٹل بہاری واجپائی کے مذاکرات کئی اعتبار سے کامیاب رہے۔

2006ء میں جارج بش پانچویں امریکی صدر تھے جو بھارت کے دورے پر آئے۔ اس وقت عراق اور افغانستان تنوروں کی طرح دہک رہے تھے۔ بھارتی مسلمانوں نے شہر شہر مظاہرے کر کے بش کو مسلم جذبات کی تصویر دکھائی۔ بش نے بھارت کو نیوکلیئردنیا کا حصہ بننے کے لیے آشیر باد دی۔ 2010ء میں باراک اوباما نے پہلی بار بھارت کا دورہ کیا۔ اس نے امریکا بھارت تجارت کے لیے حجم کو بڑا کرنے کے لیے منصوبوں پر دستخط کیے، کئی اعتبار سے یہ اہم دورہ تھا۔ نریندر مودی اس وقت گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا۔ اس نے اوبامہ کو گجرات کی صنعتی ترقی دکھانے کے لیے مدعو کیا۔ اوبامہ نے یہ پیش کش قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ نیویارک کی ایک عدالت میں مودی کو گجرات کے مسلمانو ں کے قتل کا ذمہ دار قرار دے کر ایک مقدمہ چلایا جارہا تھا۔ مودی کے امریکا داخلے پر پابندی تھی۔ کئی امریکی ججوں نے بھی مودی کے بارے میں سخت ریمارکس دے رکھے تھے۔ جنوری 2015ء میں امریکا کی اس عدالت نے یہ مقدمہ خارج کر دیا۔ یوں اوبامہ کے بھارت دورے کی راہ پوری طرح ہموار کر دی گئی۔ 25جنوری کو اوبامہ بھارت پہنچے۔ جہاں مودی نے پروٹوکول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسے جھپی ڈالی۔ امریکا اور بھارت نے مل کر ڈورن بنانے کا اعلان کیا۔ نیوکلیئر معاہدے پر تمام اختلاف ختم ہو گئے۔ دفاع، ماحولیات اور تجارت کے شعبوں میں نئے تاریخ ساز معاہدے ہوئے۔ فوجی ٹرانسپورٹ طیاروں کی مشترکہ تیاری کا ڈول ڈالا گیا۔ امریکا نے سلامتی کونسل کی مستقل نشست کے لیے بھارت کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ امریکا نے افغانستان میں بھارت کو اپنا قابل اعتماد پارٹنر قرار دیا۔ واشنگٹن جوہری مواد کی نگرانی کے مطالبے سے دستبردار ہو گیا۔ اوبامہ نے نئی دہلی سے بہتر تعلقات کو اپنی خارجہ پالیسی میں سرفہرست قرار دیا۔ مودی پر یس کانفرنس میں اوبامہ کو بے تکلفی سے باراک کہہ کر پکارتا رہا۔ دونوں نے تنہائی میں ملاقاتیں کیں جن کی تفصیلات منظر عام پر نہ آسکیں۔ امریکا نے بھارت کو سرمایہ کاری اور قرضوں کی مد میں 4کھرب روپے دینے کا عندیہ دیا۔

٭ جن ملکوں کے حاکم غریب ہوں وہاں کی عوام خوشحال ہوتی ہے اور جن ملکوں پر امیروں کی حکومت ہو وہاں عوام سخت تنگ دست ہو جاتی ہے۔ ٭ آپ پاکستان کے وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ، گورنروں، وزیروں مشیروں کا طرز رہائش دیکھ لیں۔ نہیں لگے گا کہ اس ملک کا بچہ بچہ عالمی سود خور مہاجنوں کے سودی جال میں پھنسا ہوا ہے۔ ٭ ملک اپنے مفادات کو اولیت دیتے ہیں، کوئی بھی ملک اپنے عوام کے لیے بہتری کا کوئی بھی موقع اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ ٭

یوں امریکی صدر کا یہ دورہ ہر اعتبار سے کامیاب رہا۔ بھارت امریکا ایک دوسرے کے اتنے قریب آگئے کہ پہلے کبھی نہ تھے۔ اب امریکی صنعت کار انڈیا میں اپنی فیکٹریاں لگائیں گئے۔ سرکار انہیں اس س ضمن میں رعائتیں دے گی۔ غریب مزدوروں کے لیے روزگار کے نت نئے دروازے کھلیں گے۔ بھارت امریکا سے جدید ترین اسلحہ سستے داموں خریدے گا۔ افغانستان میں بھارت امریکا کا بازو پکڑے اپنے مفادات کے حصول کے لیے کوشاں رہے گا۔ افغانستان میں معدنیات نکالنے کے لیے ہی بھارتی اشرف غنی کو شیشے میں اتار چکے ہیں۔ امریکی سفارش پر ہندوستان وہاں مزید رعائتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ جوہری مواد کی نگرانی سے دستبردار ی کے بعد ہندوستان بین الاقوامی جوہری منڈی میں کسی روک ٹوک کے بغیر خرید و فروخت کر سکے گا۔ اسے ان ملکوں میں شامل کر لیا گیا ہے جو ایٹمی مواد کو کسی بندش کے بغیر جتنا چاہیں حاصل کر سکتے ہیں۔ سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت ملنے کے بعد بھارت کشمیر جیسے معاملے کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کی پوزیشن میں آجائے گا۔ وہ امریکا، برطانیہ، فرانس، چین اور روس کی ہم سری کر سکے گا۔ 4کھرب روپے کی سرمایہ کاری سے بھارت کی معیشت کی گروتھ اور بڑھ جائے گی۔ دوسری طرف اوبامہ کے دورے کے دوران پاک بھارت سرحدوں پر کشیدگی بڑھا دی گئی۔ انڈیا نے پاکستانی چوکیوں پر بمباری جاری رکھی۔ یوں اس دورے سے ہندوستان نے ان گنت فائدے حاصل کیے ہیں۔ پاکستان میں لوگ پوچھتے پھر رہے ہیں کہ 2001ء سے امریکی بندوقیں اٹھا کر لوگوں کو مارنے اور’’ڈومور ڈو مور‘‘ کی صدائیں سننے کے بعد بھی امریکی صدر کے پاس چند گھنٹے بھی نہیں تھے کہ وہ پاکستان بھی آجاتا اور اس ملک کے مکینوں کو خوش کر جاتا جیسے بھارت کا پہلا دورہ کرنے والے امریکی صدر آئزن ہاور نے پاکستان کو امریکا کا دل قرار دیا تھا۔

اگر ہم پچھلے پندرہ سالوں کا جائزہ لیںتو تین امریکی صدوربھارت کے چارلمبے چوڑے دورے کر چکے ہیں۔ 2000ئ، 2006ئ، 2010ء اور 2015میں بھارت امریکا تعلقات نے بلندیوں کے نئے افق تلاش کیے ہیں۔ دونوں ملکوں نے گہری دوستیاں بنائی ہیں۔ بھارت نے امریکا سے وسیع تر مفادات کے حصول کے لیے درانتیاں تیز سے تیز کر لی ہیں۔ ان 15سالوں میں صرف ایک بار صدر کلنٹن بھارتی دورے سے واپسی پر 2000ء میں چند گھنٹوں کے لیے اسلام آباد میں اسٹاپ اوور کے لیے رکا۔ اس نے پی ٹی وی پر ایک تقریر ریکارڈ کروائی جس میں پاکستان کو کیا کرنا چاہیے پر نصیتحوں کا ایک طومار تھا۔ اس دوران پاکستان وار آن ٹیرر کے شعلوں میں جلتا رہا۔ ایک کھرب روپے کا معاشی نقصان ہوا۔ 50ہزار پاکستانیوں کے لاشے اٹھائے گئے۔ ہزاروں افراد کسی کیس، کسی فرد جرم،

کسی ثبوت اور کسی گواہ کے بغیر امریکا کے حوالے کردیے گئے۔ 2001ء کے بعد سے پاکستانی حکومت نے امریکا کے زر خرید کا رول ادا کیے رکھا۔ درحقیقت اس مدت میں دنیاکے کسی بھی ملک نے امریکی کے لیے اتنی ’’خدمات‘‘ انجام نہیں دیں۔پاکستان کی اکانومی بیٹھ گئی۔ ملک خوف و دہشت کی جاگیریں بن کے رہ گیا۔ دہشت گردی کے طوفانوں نے بستی بستی قریے قریے کو ڈبو کر رکھ دیا۔ بھارت نے اس دوران سرحدوں پر بدترین جارحیت کو اپنی متعلقہ پالیسی بنائے گا۔ پچھلے سال اکتوبر سے لے کر اب تک بھارتی تو پ خانہ خاموش نہیں ہوا۔ امریکا نے اپنی خارجہ پالیسی میں ان سے کسی بات کا لحاظ نہیں رکھا۔ اندھوں کی طرح نیاز کی ساری ریوڑیاں ہندوئوں میں بانٹ دی ہیں۔ دورہ امریکا کے دوران ہمارے آرمی چیف نے انڈین گورنمنٹ کے پاکستان میں مداخلت کے بارے میں ناقابل تردید ثبوت مہیا کیے۔ انہیں بھی امریکیوں نے طاق نسیاں میں رکھ دیا۔ یوں امریکا نے پاکستان سے اپنی تاریخی بے وفائی کی کتاب میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ ہم ’’ڈو مور ‘‘ کے علاوہ کسی بھی آشیر باد کے مستحق نہیں قرار پائے۔

صرف دوسروں کو الزام دینے کی بجائے ہمیں خود بھی اپنی غلط کاریوں کو دیکھناچاہیے۔ ہم اپنی بربادی کے لیے خود بھی ذمہ دار ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ آج کی دنیا میں بین الاقوامی تعلقات ایک سائنس کا درجہ اختیار کر گئے ہیں۔ ملک اپنے مفادات کو اولیت دیتے ہیں۔ اپنی عوام کی بہتر ی کے لیے ہر قدم اٹھاتے ہیں۔ داخلی خوشحالی اور آسودگی کو خارجہ پالیسی کا بنیادی پتھرائو قرار دیا جاتا ہے۔ کوئی بھی ملک اپنے عوام کے لیے بہتری کا کوئی بھی موقع اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، ملک مضبوط ترین نظام حکومت پر چلائے جارہے ہیں۔ انہی نظاموں میں سے ایک نے ایک سیاہ فام اور عام امریکی باشندے کو ملک کا صدر چن لیا۔ بھارت میں چائے بیچنے والا دنیا کی سب بڑی جمہوریت کا قائد بن گیا۔ اخبارات نے مودی کی بیگم سے امریکی صدر کے دورے کے بارے میں ردعمل جاننے کے لیے رابطہ کیا۔ یوں اخبار وں میں اس کے گھر کی ایک اندرونی تصویر بھی چھپ گئی۔ اس کمرے کو دیکھنے کے بعد یقین نہیں آتا کہ یہ ہندوستانی وزیراعظم کا گھر ہے۔ کمرے میں ایک معمولی ایک پرچھوٹا سا ٹی وی پڑا ہوا تھا۔ سبز رنگ کا ایک چھوٹا فریج ہے جس پر سامان پرا ہوا ہے۔ کمرے میں معمولی سا بجلی کا سوئچ بورڈ اور تار پہ لٹکا ہوا ایک بلب روشن ہے۔ چھوٹی سی عام الماری اور معمولی کرسی دھری ہوئی ہے۔ وزیر اعظم ہندوستان کے گھر کا یہ کمرہ دیکھنے کے بعد کوئی بھی غیر جانبدار مبصر اس ملک کے روشن مستقبل پر حتمی رائے دینے کی پوزیشن میں آجاتا ہے۔ مودی نے صوبہ گجرات کی شاندار صنعتی ترقی کے بعد ہندوستان کی عنان اقتدار سنبھالی۔ ایسے شخص کا Livinng Standardاگر یہی ہے تو بجا طور پر ہندوستا ن کی معاشی ترقی کا گروتھ ریٹ حیرت انگیز طور پر بڑھے جار ہا ہے۔ اگر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا وزیراعظم ہمارے لیڈروں کے سرونٹ کو اٹرز سے بھی بدتر جگہ میں رہتا ہے تو ہم اس کا مقابلہ کس طرح کر پائیں گے؟ آپ پاکستان کے وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ، گورنروں، وزیروں مشیروں کا طرز رہائش دیکھ لیں۔ نہیں لگے گا کہ اس ملک کا بچہ بچہ عالمی سود خور مہاجنوں کے سودی جال میں پھنسا ہوا ہے۔

دنیا میں اور کونسی جمہوریت ہو گی جس میں کھربوں پتی صنعت کار عنان اقتدار سنبھالے ہوئے ہوں۔ جہاں کاروبار مملکت اور اپنا ذاتی کاروبار ایک ہوگیا ہو۔ جہاں اقتدار سونے کی ایسی کان ہو جس سے ہر دم سونا نکالا جا رہا ہو۔ جہاں امیر ترین اراکین اسمبلی و سینٹ ٹیکس کی مد میں ایک کلرک سے کم ٹیکس ادا کرتے ہوں۔ جہاں ہر میگا پراجیکٹ کی تکمیل اپنی جیبیں بھرنے کی ایک اسکیم سے زیادہ اہمیت نہ رکھتی ہو۔ جہاں بجلی، گیس، پیٹرول اور پانی اکیسویں صدی میں ناپید ہو گیا ہو۔ جہاں حکمرانوں کے بیٹے، داماد، سالے اورسمدھی اکانومی کے ہر چوراہے پر سانپ کی طرح پھن پھیلائے جھوم رہے ہوں۔ جہاںزرعی ملک ہونے کے باوجود بچے قعط اور کمی خوراک سے دھڑا دھڑ مر رہے ہوں۔ جہاں ڈاکو اور چور سوٹ بوٹ لگا کر اقتدار کی غلام گردشوں میں بلا روک ٹوک گھوم رہے ہوں۔ جہاں کار سرکارایک رلا دینے والے مذاق سے زیادہ اہمیت نہ رکھتا ہو۔ جہاں غریب کے تن کا کپڑا اور پیٹ کی آخری روٹی چھینی جارہی ہو۔ جہاں 5000میں کرائے کا قاتل مل جاتا ہو اور 2000بھتہ کے لیے لوگ قتل ہو جائیں۔ جہاں قانون، انصاف، روادار ی اور صفائی مکمل طورپر ناپید ہو گئے ہوں۔

کڑوا سچ یہی ہے کہ ہم نے اس ملک کو اس مقام تک پہنچا دیا ہے۔ ہمارے کھرب پتی حکمران اس کے ذمہ دار ہیں۔ ہم سب لوگ جس جمہوریت پر کار بند ہے اور ان ملکوں میں جمہوریت کس طرح کے لیڈر پیدا کیے جارہی ہے۔ افلاطون نے جب ایک خیامی ریاست کا نقشہ کھنچا تھا تو اس نے سرمایہ داروں کے حکمران بننے پر پابندی لگادی تھی۔ اس نے کہا تھا جو نکیں انسانی بدن کا لہو اتنی جلدی نہیں چوس سکتیں جتنی جلد سرمایہ دار ساری ریاست کا خون چوس جاتا ہے۔ افلاطون نے یہ بھی کہا تھا کہ جن ملکوں کے حاکم غریب ہوں وہاں کی عوام خوشحال ہوتی ہے اور جن ملکوں پر امیروں کی حکومت ہو وہاں عوام سخت تنگ دست ہو جاتی ہے۔