مشرقِ وسطیٰ میں بپا قیامت

مشرقِ وسطیٰ میں بپا قیامت

تحریر یاسر محمد خان

مشرقِ وسطیٰ ایک وسیع و عریض خطہ ہے۔ ان میں سے بعض ملک امن کا گہوارہ ہیں۔ وہاں خوشحالی اور آسودگی ہے، جبکہ بیشتر ملکوں نے ماضی اور حال میں بدترین بدامنی، قتل و غارت گری، فسادات اور دہشت گردی کا سامنا کیا ہے۔ مصر میں دہائیوں تک امریکا نواز حکومتیں رہیں۔ اخوان المسلمون کے اقتدار میں آتے ہی داخلی اور خارجی سازشیں شروع ہوگئیں۔ مرسی حکومت کو ختم کرکے دوبارہ امریکی پٹھو اقتدار میں آگئے ہیں۔ مصر دو گرہوں میں بٹ کر داخلی انتشار کا آتش فشاں بنا ہوا ہے۔ شام میں پچھلے چار برسوں سے بدترین خانہ جنگی جاری ہے۔

2 لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ان میں 10 ہزار 6 سو بچے ہیں۔ 6 ہزار خواتین بھی میں مرنے والوں میں شامل ہیں۔ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال نے 2 ہزار سے زیادہ افراد کی جان لے لی ہے۔ یہ خانہ جنگی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔ عراق میں امریکی جارحیت کے دوران 10 لاکھ سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ صدام حکومت کی رخصتی کے بعد سے ملک میں ایک دن کے لیے بھی امن قائم نہ ہوسکا۔ عراق کے زخموں سے بدستور لہو کے فوارے نکلے جارہے ہیں۔ عراقی مہاجرین عرب دنیا میں بھٹکتے پھررہے ہیں۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اسرائیل نے دہائیوں سے فلسطین اور لبنان میں امن کے پرخچے اُڑا رکھے ہیں۔ دونوں ملکوں میں اُس کی جارحیت کی وجہ سے عورتوں، بچوں، بوڑھوں، نوجوانوں کا قتل عام جاری رہا۔

انسانی بستیوں پر بے محابہ بمباری سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلادی گئی۔ بڑے ملکوں نے اسرائیل کی درندگی پر مسلسل آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ ہر سال یہ جن بوتل سے باہر آکر تباہی مچاتا ہے۔ کچھ مذمتی قراردادیں منظور کی جاتی ہیں اور بس۔ اگلے برس آگ اور خون کا یہ کھیل اور زیادہ وقت کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔ اسرائیلی جارحیت کے منفی اثرات سارے مشرق وسطیٰ میں تیزی سے پھیلتے جارہے ہیں۔ امریکا، برطانیہ، روس، فرانس، جرمنی جیسے ملک اس ضمن میں کوئی بھی فعال کردار ادا نہیں کرپائے۔ یوں یہودیوں کی چیرہ دستیاں ہر گزرتے سال کے ساتھ بڑھ رہی ہیں۔

٭ اسرائیل وہ گندی مچھلی ہے جس نے سارے تالاب کے پانیوں کو آلودہ اور بدبودار کر رکھا ہے۔ ٭ مسلم دنیا کو اپنی سادگی کے علاوہ اغیار کی عیاری اور مکاری پر بھی مستقل نظر رکھنا ہوگی۔ ٭

یمن مشرقِ وسطیٰ کے غریب ملکوں میں شامل ہے۔ اس کا کل رقبہ 5,27,829 مربع کلومیٹر ہے۔ آبادی 2 کروڑ 38 لاکھ 33 ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ اس کی جی ڈی پی 58.202 ڈالرز پر مشتمل ہے۔ آمدنی فی کس 2 ڈالرز یومیہ سے بھی کم ہے۔ اس پر 33 سال تک علی عبداللہ صالح حکمران رہا۔ اُس کی پالیسیوں نے ملک کو کنگال کرکے رکھ دیا۔ یمن میں پانی کی ایسی قلت پیدا ہوئی کہ 1994ء میں یہاں ایک سول وار کی سی کیفیت درپیش ہوگی۔ پڑوسی ملک مدد کو آئے اور یوں یہ خطرہ ٹلا۔ یمن میں القاعدہ کی جڑیں مضبوط ہیں۔ پاکستان کے بعد یمن ہی وہ ملک ہے جہاں امریکی ڈرون حملے سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔ عرب بہار کے بعد مسلم دنیا پر دہائیوں سے حکومت کرنے والے حکمرانوں پر بُرا وقت آیا۔ 2011ء میں علی عبداللہ صالح کے خلاف صنعاء اور دوسرے شہروں میں مظاہر شروع ہوگئے۔ ان میں وقت کے ساتھ ساتھ شدت آتی گئی۔ حکومت نے مظاہرین سے سختی سے نپٹنے کی حکمت عملی اپنائی۔ 2 ہزار سے زائد افراد مارے گئے۔ 22 ہزار شدید زخمی ہوئے، جبکہ 7 ہزار افراد جیلوں میں قید کردیے گئے۔ علی عبداللہ صالح کے پاس کوئی راہ نجات نہ بچی۔ ناچار اُس کے زہر 2011ء میں مظاہرین سے مذاکرات کیے۔ اقتدار کی قربانی دی اور اپنی آل اولاد کے ساتھ ملک سے باہر چلاگیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ علی عبداللہ نے اپنے جانشین کے لیے اپنے بیٹے کو تیار کر رکھا تھا۔ اُس کی یہ پلاننگ بھی ناکام ہوئی۔ فروری 2012ء میں یمن میں نئے حکمران کے لیے پولنگ ہوئی۔ منصور ہادی کو ملک کا صدر چن لیا گیا۔ اُس نے 25 فروری 2012ء کو اپنے عہدے کا حلف اُٹھالیا۔ نئی حکومت کے اقتدار میں آنے کے باوجود یمن میں مکمل طور پر امن قائم نہ ہوسکا۔ ستمبر 2014ء میں صنعاء کا محاصرہ کرلیا گیا۔ جنوری 2015ء میں صدر اور وزیراعظم مستعفی ہوگئے۔

اقلیت سے تعلق رکھنے والے باغیوں نے 6 فروری کو حکومت پر قبضہ کرلیا۔پارلیمنٹ کو زبردستی تحلیل کردیا گیا۔ 5 رکنی صدارتی کونسل تشکیل دے دی گئی۔ 551 اراکین پر مشتمل ایک نیشنل کونسل بنائی جائے گی جو پارلیمنٹ کے نعم البدل کے طور پر کام کرے گی۔ حوثیوں کے ان اقدامات کے خلاف ملک بھر میں مظاہر شروع ہوگئے ہیں۔ لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ خلیجی ملکوں نے بغاوت کی مذمت کی ہے۔ اسے ناقابلِ قبول اور سنگین عمل قرار دیا ہے۔ بحرین، عمان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ نے جان کیری سے ملاقات کی ہے اور اُسے اپنی تشویش سے آگاہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ نے جمہوریت کی فی الفور بحالی اور دارالحکومت صنعاء کا محاصر اُٹھالینے پر زور دیا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ایمن کے حالات خراب سے خراب تر ہورہے ہیں۔ 11 فروری کو امریکا اور برطانیہ نے اپنے سفارت خانے بند کرکے عملے کو یمن سے نکل جانے کا حکم دیا ہے۔ دنیا بھر کی حکومتیں اپنے اپنے باشندوں کو یمن سے دور رہنے کی ہدایات جاری کررہی ہیں۔ ملک میں ہزاروں سال پرانے آثار قدیمہ کی وجہ سے سیاحت ہوتی تھی، اُس کا مکمل طور پر خاتمہ ہوچکا ہے۔ بیرونی دنیا سے معاملات دلانے کے لیے درکار حکومت کا وجود نہ ہونے سے سفارتی خلا خطرناک طور پر بڑھ گیا ہے۔ بیرون ملک یمن کے سفارت خانوں کا کوئی راہنما نہیں ہے۔ وہ بے یقینی کے اندھیروں میں ٹھوکریں کھارہے ہیں۔

کسی اقلیت کا امریکی ہتھیاروں کے زور پر حکومت پر قبضے نے اکثریت کو بھی مسلح جدوجہد کی راہ دکھادی ہے۔ یوں مشرق وسطیٰ جس کے دہانے سے ہمہ وقت آتش فشاں کا لاوہ اُبلتا رہتا تھا، اب اس کا دائرہ ایک اور ملک تک وسیع ہوگیا ہے۔

مشرقِ وسطیٰ میں انسانی المیوں کا پہلا بڑا محرک چند ملکوں میں مطلق العنان بادشاہتیں رہی ہیں۔ انہیں ہم دو قسموں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ پہلی قسم میں علی عبداللہ صالح جیسے حکمران آتے ہیں جنہوں نے اقتدار کا سارا کیک خود ہڑپ کرلیا اور عوام کے لیے شب و روز کو بھاری سے بھاری تر بناتے چلے گئے۔ ایسے حکمرانوں کے چلے جانے کے باوجود ان ملکوں میں شورشیں تھمنے میں نہیں آتیں۔ نئی حکومتیں چند ماہ میں سیاہ کو سفید بنانے میں ناکام رہتی ہیں۔ انجام کار خانہ جنگیاں سر اُٹھالیتی ہیں اور ملکوں کو ہڑپ لیتی ہیں۔ علی عبداللہ کے 33 سال یمن کو مشرقِ وسطیٰ کے غریب ترین ملکوں کی فہرست میں سب سے آگے لے گئے۔ نئے حکمران حالات میں خاطرخواہ سدھار نہ لاپائے اور یوں صدر اور وزیراعظم رخصت ہوگئے۔ شورشیں ملک کو خانہ جنگی کے گرد اب تک لے آئی ہیں۔ اسی خطے میں بعض ایسے ملک بھی ہیں جہاں شخصی حکومتوں کے باوجود امن اور خوشحالی ہے۔ یہاں کے حکمرانوں نے عوام کے شب و روز کو سہل بنارکھا ہے۔ ضروریاتِ زندگی نہایت کم نرخوں پر مہیا ہیں۔ روزگار بہت وافر ہیں اور وہ عوام کو فکرِ معاش سے بالکل آزاد کردیتے ہیں۔ امن و امان کے مسائل ان ملکوں میں دیکھنے میں نہیں آتے۔ یہاں بھلے ان ملکوں میں ’’عرب بہار‘‘ کے بعد بھی کوئی خزاں نہیں آئی۔

مشرقِ وسطیٰ میں انسانی المیوں کا دوسرا سب سے بڑا محرک یہاں کے کچھ ملکوں میں امریکی موجودگی ہے۔ ان ملکوں میں امریکی سپاہ نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ باقاعدہ اُن کی چھائونیاں ہیں۔ بھاری اسلحہ و بارود مہیا ہے، اس لیے امریکا اسرائیل گٹھ جوڑ نے تمام خطے کو خانہ جنگی کے شعلوں میں لپیٹ رکھا ہے۔ یمن اُن ملکوں میں سے ایک ہے جہاں امریکی اپنے سارے جنگی سازو سامان کے ساتھ موجود ہے۔ یہاں القاعدہ پر ڈرون حملے دن رات جاری ہیں۔ اُسے القاعدہ کی طرف سے زبردست مزاحمت درپیش ہے۔ امریکی ہتھیار یمنی مارکیٹ میں بم ہونے کی وجہ سے مسلح گروہوں نے طاقت پکڑلی ہے اور ایک منتخب شدہ حکومت کا خاتمہ کرکے ملک کو زوال کی پاتال کی طرف لیے جارہے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ سے باہر بھی جن ملکوں میں امریکا نے حال میں دخل اندازی کی ہے وہاں زبردست بدامنی پھیلی ہے۔ افغانستان میں 13 برس بعد بھی اُسے طالبان کے خلاف کوئی خاطرخواہ کامیابی نہ مل پائی۔ سارا افغان معاشرہ اب امریکی بارود کی کاشت کردہ فصلیں کاٹ رہا ہے۔ معمر قذافی لیبیا کا آمر ہی سہی اُس نے ملک کو ایک کر رکھا تھا۔ امریکیوں نے وہاں دخل اندازی کرکے ملک کو مسلح گروہوں کی جاگیر بنادیا۔ لیبیا میں خونِ مسلم کی ارزانی دیکھ کر اس خانہ جنگی کے جلد ختم ہونے کی کوئی امید باقی نہیں رہ جاتی۔ امریکا نے یہاں جو آگ لگائی تھی، اُس میں اُس کا اپنا سفارتخانہ اور سارے سفارت کار جل کر راکھ ہوگئے۔ لبنان اور صومالیہ میں بھی امریکی دراندازی سے وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی تھی۔ انجام کار امریکی اپنا نقصان دیکھ کر وہاں سے بھی فرار ہوگئے۔ عراق جیسا ہنستا بستا ملک بھی امریک ہوس کا شکار بن کر مستقل خانہ جنگی کا ٹھکانہ بن گیا ہے۔

آج کی مشرقِ وسطیٰ کی صورت حال میں اس خطے کے ملکوں پر ایک بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے۔ ان ملکوں کو فعال ہوکر یمن کے منظرنامے کو بہتر بنانا ہوگا۔ سارے متحارب گروہوں کو ایک میز پر اکھٹا کرکے گفت و شنید ہو، کیونکہ ایک مرکزی حکومت کا وجود یمن کے لیے نہایت ضروری ہے۔ یمنی آبادی کے تناسب کو مدنظر رکھا جائے۔ اقلیت اگر اکثریت پار حاوی ہوجائے تو مزید انتشار اور بدامنی پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ اقوام متحدہ جس نے مڈل ایسٹ میں مستقل امن کے لیے کبھی کوئی ٹھوس قدم نہیں اُٹھایا، اُسے بھی اب اس نازک صورتحال میں ایک پورے ملک کی تباہی کی طرف پھسلنے کو روکنا ہوگا۔ اس تنظیم کو دنیا پر ثابت کرنا ہوگا کہ یہ صرف یہودی اور عیسائی مفادات کا اکٹھ نہیں ہے۔ مسلم دنیا کے مسائل حل کرنے میں بھی کارگر ہوسکتی ہے۔ عرب لیگ اور او آئی سی ک وبھی سرگرم کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایمن میں امن لوٹ آتا ہے تو انہی خطوط پر خطے کے دوسرے ملکوں میں بھی سکون کاشت کیا جاسکتا ہے۔مصر و شام کو بھی اچھا مستقبل دیا جاسکتا ہے۔ فلسطین و لبنان میں بھی اچھے دن لوٹ کر واپس آسکتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر امریکی اور اسرائیلی اتحاد کو خطے میں توڑنے کی ضرورت ہے۔ اسرائیل وہ گندی مچھلی ہے جس نے سارے تالاب کے پانیوں کو آلودہ اور بدبودار کر رکھا ہے۔ اس سارے خطے میں امن و سکون کا غارت گر اسرائیل ہے۔ اس کی ہر سازش میں امریکا کا ہاتھ ہوتا ہے۔ یوں ان دونوں نے عرب اکثریت کے اس خطے میں انہیں چین و قرار سے محروم کر رکھا ہے۔ ایک اور مسلم ملک کا زوال کی کھائی کی طرف لڑھکنا ان اسلام دُشمن قوتوں کے لیے خوش کن ہوگا۔ ساری مسلم دنیا کو آگے آنا ہوگا تاکہ یمن جیسی صورتحال وبا کی طرح دوسرے ملکوں میں نہ پھیل جائے۔ مسلم دنیا کو اپنی سادگی کے علاوہ اغیار کی عیاری اور مکاری پر بھی مستقل نظر رکھنا ہوگی۔ خدا ہمیں اس امتحان میں سرخرو کرے، آمین!