جاوید چوہدری

میں کسی سے حسد نہیں کرتا
جاوید چوہدری جمعرات 6 اگست 2015

سلیم الزمان صدیقی پاکستان کے سب سے بڑے سائنس دان تھے، ہم ہر الیکشن میں ایک مخصوص سیاہی کے ذریعے ووٹر کا انگوٹھا سیاہ کرتے ہیں، یہ ان مٹ سیاہی ہوتی ہے جس کا مقصد الیکشن کے عمل کو جعلی ووٹوں اور ووٹروں سے بچانا ہوتا ہے، الیکشن کمیشن کا عملہ ووٹ ڈالتے وقت ووٹر کے انگوٹھے پر سیاہی لگا دیتا ہے، یہ سیاہی دو تین دن تک صاف نہیں ہوتی، یہ سیاہی ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی نے 1946ء میں ایجاد کی تھی اور یہ اس وقت سارک کے ساتوں ممالک میں استعمال ہوتی ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے ہندوستان کے نامور طبیب حکیم اجمل کے ایک نسخے پر ریسرچ کر کے اجملین نام کی ایک دوا بنائی، یہ بلڈ پریشر کا شاندار نسخہ ہے، ڈاکٹر صاحب کی ریسرچ پر سوئٹزر لینڈ کی ایک فارما سوٹیکل کمپنی نے بلڈ پریشر کی دوا بنائی اور یہ دوا اس وقت دنیا بھر میں استعمال ہو رہی ہے، ڈاکٹر صاحب قیام پاکستان کے بعد دہلی سے کراچی شفٹ ہوئے اور اپنی زندگی ملک میں سائنس کی ترقی اور ترویج پر لگا دی۔
انھوں نے زندگی میں سیکڑوں ہزاروں شاگرد بنائے، یہ لوگ اس وقت ملک بھر کی یونیورسٹیوں، لیبارٹریوں، دوا ساز کمپنیوں اور عالمی اداروں میں کام کر رہے ہیں، سائنس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کا کمال ان کی طویل العمری تھا، ڈاکٹر صاحب نے ماشاء اللہ 97 سال عمر پائی اور یہ آخری سانس تک کام کرتے رہے، انھیں اپریل 1994ء میں لیبارٹری میں کام کرتے ہوئے دل پر بوجھ محسوس ہوا، یہ اسپتال لے جائے گئے اور یہ وہاں مختصر علالت کے بعد انتقال کر گئے۔
ڈاکٹرصاحب نے اتنی لمبی اور صحت مند زندگی کیسے پائی، یہ راز اجملین کی طرح شاندار نسخہ ہے، انسان کو طویل العمری کی نعمت کے لیے بڑی جدوجہد کرنی پڑتی ہے، لوگ ایکسرسائز کرتے ہیں، کھانے میں پرہیز کرتے ہیں، دوائیں استعمال کرتے ہیں، وقت پر کام شروع کرتے ہیں اور وقت پر چھٹی کر کے آرام کرتے ہیں۔
لوگ صحت مند زندگی کے لیے سگریٹ، شراب اور نسوار سے بھی بچتے ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب نے طویل العمری کے لیے ان میں سے کسی اصول پر عمل نہیں کیا، وہ ایکسرسائز نہیں کرتے تھے، کھانے میں بھی بدپرہیزی کرتے تھے، وقت پر دوا نہیں لیتے تھے اور دن کا زیادہ تر وقت لیبارٹری میں گزار دیتے تھے، ڈاکٹر صاحب نے پانچ سال کی عمر میں سگریٹ پینا شروع کیا اور آخری دن تک سگریٹ پیتے رہے، وہ چین اسموکر تھے، ایک سگریٹ بجھتا تھا تو وہ دوسرا جلا لیتے تھے۔
وہ دن میں تین چار ڈبی سگریٹ پی جاتے تھے اور انھوں نے یہ معمول مذہبی فریضے کی طرح آخری سانس تک نبھایا، ڈاکٹر صاحب مشروب مغرب کے عادی بھی تھے، وہ دوپہر اور رات دو وقت وہسکی پیتے تھے، وہ دونوں وقت دو، دو پیک لیتے تھے لیکن ہمیشہ دوسرا پیک لے کر پہلا بھول جاتے تھے اور ان کا اصرار ہوتا تھا، میں نے ابھی ایک گلاس لیا ہے اور میرا دوسرا گلاس باقی ہے، وہ اس معاملے میں اتنی ضد کرتے تھے کہ دوسرے لوگ ان کے سامنے پسپائی اختیار کر جاتے تھے اور یوں وہ روزانہ چھ سات پیک پی جاتے تھے اور یہ معمول بھی انھوں نے تقریباً 80 سال نبھایا مگر اس تمام تر بدپرہیزی اور غیر صحت مندانہ سرگرمیوں کے باوجود ڈاکٹر صاحب نے 97 سال زندگی پائی اور وہ آخری لمحے تک لیبارٹری میں کام بھی کرتے رہے۔
کیوں اور کیسے؟ یہ کیوں اور کیسے اس کالم کا اصل موضوع ہے، ہم میں سے ہر شخص طویل زندگی بھی چاہتا ہے اور ہم آخری سانس تک اپنے قدموں پر بھی کھڑا رہنا چاہتے ہیں،ہم اپنی آنکھوں سے دیکھنا، اپنے کانوں سے سننا، اپنے ہاتھوں سے چیزیں پکڑنا اور اپنے دانتوں سے چبانا چاہتے ہیں، ہم زندگی کی آخری سانس تک اپنے دفتر، اپنی دکان، اپنی فیکٹری اور اپنے کھیتوں میں بھی جانا چاہتے ہیں اور ہم اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے ہزاروں جتن بھی کرتے ہیں مگر اس کے باوجود ہماری یہ خواہش پوری نہیں ہوتی، ہم سگریٹ، شراب، نسوار سے بھی پرہیز کرتے ہیں۔
ہم کھانے میں بھی احتیاط کرتے ہیں، ڈاکٹروں، دندان سازوں اور جوڑوں کے ماہرین کی مدد بھی لیتے ہیں اور ایکسرسائز بھی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے دانت جھڑ جاتے ہیں، سرننگا ہو جاتا ہے، آنکھیں کمزور ہو جاتی ہیں، ہم پاؤں رکھتے کہیں ہیں اور یہ پڑتا کہیں ہے اور ہمیں سننے میں بھی پریشان ہوتی ہے مگر ڈاکٹر سیلم الزمان صدیقی ہم سے مختلف انسان تھے، وہ اپنی خواہش کو تکمیل تک لے گئے اور انھوں نے کوئی پرہیز بھی نہیں کیا، کیسے؟ یہ جاننا بہت ضروری ہے۔
یہ سوال ڈاکٹر صاحب سے ان کے ایک شاگرد ڈاکٹر مشتاق اسماعیل نے بھی پوچھا تھا، ڈاکٹر مشتاق اسماعیل بھی سائنس دان ہیں اور یہ ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی کے ساتھ کام کرتے تھے، ڈاکٹر صاحب اس وقت سگریٹ کا آخری کش لگا رہے تھے اور ان کا چپڑاسی اگلا سگریٹ سلگا رہا تھا، ڈاکٹر صدیقی نے پرانا سگریٹ بجھایا اور نیا پکڑ لیا اور ہنس کر بولے ’’ میری طویل العمری کی صرف اور صرف ایک وجہ ہے۔
میں کسی سے حسد نہیں کرتا‘‘ یہ جواب ڈاکٹر مشتاق اسماعیل کے لیے بھی حیران کن تھا اور میرے لیے بھی کیونکہ دنیا میں لمبی اور صحت مند زندگی کی جتنی کتابیں ،ہیں یہ نسخہ ان میں سے کسی کتاب میں موجود نہیں، دنیا بھر کے ڈاکٹرز، دنیا بھر کے غذائی ماہر اور دنیا بھر کے ٹرینر ہمیں لمبی اور صحت مند زندگی کے لیے متوازن خوراک، پوری نیند، ایک گھنٹہ ایکسرسائز اور فکروں سے آزادی کا مشورہ دیتے ہیں مگر ہمیں آج تک کسی نے یہ نہیں بتایا حسد انسان کی عمر اور صحت کو کم کرتا ہے۔
آپ خوراک میں جتنا چاہیں اعتدال پیدا کر لیں، آپ جتنی چاہیں ایکسرسائز کر لیں اور آپ خود کو فکر اور پریشانی سے خواہ کتنا آزاد کر لیں لیکن آپ کے اندر اگر حسد موجود ہے تو یہ بیج کھیتی ضرور بنے گا اور یہ کھیتی آہستہ آہستہ آپ کی صحت اور عمر دونوں کو کھا جائے گی، دنیا بھر کے ایکسپرٹ اس حقیقت سے واقف نہیں مگر ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی اس سے آگاہ تھے چنانچہ انھوں نے اس نسخہ کیمیا کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا، انھوں نے خود کو ہمیشہ حسد اور رقابت سے پاک رکھا اور یوں 97 سال لمبی اور صحت مند زندگی پائی۔
ہماری کاغذی زندگی کے لیے حسد، رقابت اور غیبت آگ کی حیثیت رکھتی ہے، ہم جب اپنی زندگی میں یہ آگ دہکا لیتے ہیں تو ہماری عمر اور صحت آہستہ آہستہ پگھلنے لگتی ہے اور ہم دیکھتے ہی دیکھتے بیمار ہو جاتے ہیں، میرے ایک دوست پانچ وقتہ حاسد ہیں، یہ کسی انسان کی خوشی کو ہضم نہیں کر سکتے، ان کا کوئی کولیگ اچھے کپڑے پہن کر دفتر آ جائے، کوئی نئی گاڑی خرید لے، کوئی اپنے گھر میں نیا پینٹ کرا لے، کوئی لوگوں میں بیٹھ کر ہنس لے، کسی کا بچہ اسکول میں اچھی پوزیشن لے لے یا ان کے راستے میں کوئی شخص اپنی پرانی دکان گرا کر نئی تعمیر شروع کر دے یہ حسد کی آگ میں جلنے لگتے ہیں۔
یہ شروع شروع میں اس شخص کی کامیابی یا خوشی سے آنکھ چرانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جب تعریف پر مجبور ہو جاتے ہیں تو یہ اس کے دودھ میں ایسی ایسی مینگنیاں ڈالتے ہیں کہ وہ شخص دل پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے، ان کا حسد صرف ان کے ماحول یا دائیں بائیں تک محدود نہیں بلکہ اس کی حدود بین الاقوامی ہیں، یہ دوسری اقوام اور غیر ملکیوں کی کامیابیوں میں بھی ایسے کیڑے نکالتے ہیں کہ بعض اوقات کیڑے بھی پریشان ہو جاتے ہیں مثلاً وہ پچھلے دس برسوں سے بل گیٹس کو دنیا کا امیر ترین اور وارن بفٹ کو دوسرا امیر ترین شخص ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں، یہ جب بھی ان دونوں کے خلاف کوئی خبر پڑھتے ہیں تو یہ اخبار اٹھا کر ہمارے پاس آ جاتے ہیں اور اس وقت ان کے چہرے پر عجیب قسم کا تفاخر ہوتا ہے۔
اس وقت محسوس ہوتا ہے جیسے وارن بفٹ اور بل گیٹس کو ’’ غریب‘‘ بنانے میں ہمارے اس دوست نے دن رات کام کیا، ہمارا یہ دوست حسد کی اس آگ کی وجہ سے چالیس سال کی عمر میں دنیا بھر کے مہلک امراض میں مبتلا ہے، یہ دل کا مریض بھی ہے، یہ بلڈ پریشر، شوگر اور جوڑوں کے عارضوں کا شکار بھی ہے اور یہ جوں جوں علاج کراتا ہے اس کا مرض بڑھتا جا رہا ہے، یہ روزانہ ایکسرسائز بھی کرتا ہے۔
خوراک میں بھی اعتدال سے کام لیتا ہے اور ڈاکٹروں کی ہدایات پر بھی عمل کرتا ہے لیکن اس کے باوجود چالیس سال کی عمر میں ساٹھ سال کا بوڑھا دکھائی دیتا ہے اور اس کی واحد وجہ حسد ہے مگر ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی اس حقیقت سے آگاہ تھے چنانچہ انھوں نے اپنے دل کو حسد کی آگ سے پاک کر لیا، ڈاکٹر صاحب کے دل میں حسد نہیں تھا چنانچہ ان میں شک اور غیبت بھی نہیں تھی لہٰذا ان کی عمر لمبی اور جسم صحت مند تھا، وہ جانتے تھے جس دن انھوں نے حسد کیا اس دن صحت اور عمر دونوں رخصت ہو جائیں گی چنانچہ وہ آخری سانس تک یہ سمجھتے اور کہتے رہے ’’ میں کسی سے حسد نہیں کرتا‘‘ اور یہ یقین انھیں تمام تر کوتاہیوں کے باوجود 97 سال کی عمر تک لے گیا۔

جاوید چوہدری منگل 4 اگست 2015

خاندان بڑا تھا لیکن روٹی بہرحال ماں ہی کو پکانی پڑتی تھی، وہ بیچاری سارا دن گھر کا کام کرتی، شام ہوتی تو وہ پورے خاندان کا کھانا بناتی، خاندان چولہے کے گرد جمع ہو جاتا، ماں توے سے تازہ روٹیاں اتارتی جاتی اور وہ کھاتے جاتے، ایک دن ماں کا دھیان بھٹک گیا، روٹی توے پر پڑی پڑی جل گئی، ماں نے وہ روٹی اتار کر اپنے لیے رکھ لی، خاوند دیکھ رہا تھا، اس نے فوراً کہا ’’یہ روٹی مجھے دے دو‘‘ ماں نے گھبرا کر جواب دیا ’’یہ جل گئی ہے۔
میں آپ کے لیے اور پکا رہی ہوں‘‘ خاوند نے مسکرا کر کہا ’’ مجھے دے دو، مجھے جلی ہوئی روٹیاں بہت پسند ہیں‘‘ اور ساتھ ہی ہاتھ آگے بڑھا کر ٹوکری سے روٹی اٹھا لی اور مزے سے کھانے لگا، کھانا ختم ہوا، خاندان اٹھ کر اپنی اپنی چار پائیوں پر چلا گیا، خاندان کا چھوٹا بیٹا ہمیشہ سونے سے پہلے باپ کا ماتھا چومتا تھا، وہ ماتھا چومنے کے لیے والد کی چارپائی پر گیا تو اس نے سرگوشی میں باپ سے پوچھا ’’ابا کیا آپ کو واقعی جلی ہوئی روٹی پسند ہے‘‘ والد نے مسکرا کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور آہستہ آواز میں جواب دیا ’’بیٹا جلی ہوئی روٹی کس کو پسند ہو گی،، بیٹے نے پوچھا ’’ پھر آپ نے ماں سے جھوٹ کیوں بولا‘‘ باپ نے جواب دیا ’’ بیٹا تمہاری ماں سارا دن کام کرتی ہے۔
یہ ہمیں روز اچھا اور مزے دار کھانا بھی پکا کر کھلاتی ہے، میں نے زندگی میں اس کے ہاتھوں سے پکی ہوئی سیکڑوں روٹیاں کھائیں، میں نے اگر ایک دن جلی ہوئی روٹی کھا لی تو کیا قیامت آ گئی‘‘ باپ نے کہا ’’یہ روٹی میں نہ کھاتا تو تمہاری ماں کھاتی اور یہ مجھے منظور نہیں تھا‘‘ یہ واقعہ بچپن کی سنہری یاد بن گیا، وہ زندگی میں جہاں بھی رہا، وہ جس عہدے پر بھی پہنچا، اسے جو بھی پیش کیا گیا اس نے چپ چاپ کھا لیا، اس نے کبھی کھانے میں نقص نہیں نکالا اور ہاں وہ جب بھی کھانے کی میز پر بیٹھا، اس کے سامنے کھانا رکھا گیا تو اسے اپنی ماں اور باپ دونوں ضرور یاد آئے اور اس نے والد کے یہ الفاظ بھی ضرور دہرائے۔
یہ کون تھا؟ یہ بھارت کے مرحوم صدر عبدالکلام تھے، عبدالکلام 27 جولائی کو شیلانگ میں انتقال کر گئے، ان کی عمر 84 سال تھی، یہ بھارت کے ان چند لوگوں میں شامل ہیں جن کے انتقال پر ملک بھر میں سات روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا، یہ حقیقتاً اس اعزاز کے حق دار تھے، یہ 1931ء میں بھارت کے ایک جزیرے میں پیدا ہوئے، جزیرے کا نام ’’رامش ورام‘‘ ہے، یہ جزیرہ تامل ناڈو میں سری لنکا کے قریب واقع ہے اور یہ سری لنکا کی طرف بھارت کا آخری ٹاؤن ہے۔ عبدالکلام ’’رامش ورام‘‘ کے غریب ترین مسلمانوں کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے، والد کا کل اثاثہ ایک کشتی تھی۔
وہ یہ کشتی یاتریوں کو کرائے پر دے دیتے تھے، کشتی کا کرایہ خاندان کا نان نفقہ تھا، عبدالکلام کے بڑے بھائی نے بچپن میں پرچون کی دکان بنا لی، عبدالکلام کا بچپن اور جوانی عسرت میں گزری، وہ تین چار سال کی عمر میں املی کے بیج اکٹھے کرتے تھے، سارے دن کی محنت کے بعد انھیں ایک آنہ ملتا تھا، وہ بھائی کی دکان پر بھی بیٹھتے تھے اور لوگوں کے گھروں میں اخبار بھی پھینکتے تھے، وہ اناج منڈی میں بھی کام کرتے رہے، وہ کام کے ساتھ ساتھ پڑھائی کرتے تھے، لائق تھے چنانچہ بچپن ہی میں وظیفے ملنے لگے۔ ’’رامش ورام‘‘ میں ہندوؤں کی اکثریت تھی، اسکول میں بھی مسلمان طالب علم کم تھے۔
اساتذہ مسلمان طالب علموں پر سختی کر کے انھیں اسکول سے بھگا دیتے تھے، وہ بھی استادوں کے اس ناروا سلوک کا نشانہ بنتے رہتے تھے لیکن ثابت قدمی اور اللہ کی مدد دونوں ان کے شامل حال تھی چنانچہ گاؤں کے مکھیا کو یہ اطلاع ملی تو اس نے اساتذہ کو ڈانٹ دیا اور یوں استادوں نے انھیں بھی انسان سمجھنا شروع کر دیا، وہ ریاضی میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے، کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مدراس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں داخلہ ہوا، فیس ہزار روپے تھی لیکن گھر میں اتنی بڑی رقم نہیں تھی۔
عبدالکلام نے اعلیٰ تعلیم کا خیال چھوڑ دیا لیکن پھر ان کی بڑی بہن فرشتہ بن کر آئی، اس نے اپنی طلائی چوڑیاں بیچ کر بھائی کی فیس ادا کر دی یوں یہ یونیورسٹی پہنچ گئے لیکن وہاں فیس معافی کے لیے پوزیشن لینا ضروری تھی، عبدالکلام اس کے بعد صرف فیس معاف کرانے کے لیے پوزیشنیں لیتے رہے، یہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد بھارت کے ایٹمی پروگرام سے وابستہ ہو گئے، عبدالکلام نے 1974ء میں بھارت کو ایٹمی طاقت بھی بنایا اور یہ بھارت میں میزائل پروگرام کی بنیاد رکھ کر ’’میزائل مین‘‘ بھی کہلائے، یہ 2000ء تک مختلف پوزیشنوں پر کام کرتے رہے یہاں تک کہ 2002ء میں کانگریس اور بی جے پی نے انھیں بھارت کا صدر بنا دیا، یہ 2007ء تک بھارتی صدر رہے۔
عبدالکلام کمال انسان تھے، یہ وقت کے انتہائی پابند تھے، صبح ساڑھے چھ سے سات بجے کے درمیان کام شروع کرتے تھے، ٹی وی نہیں دیکھتے تھے، ان کے گھر میں ٹی وی نہیں تھا، اپنی تمام ای میلز چیک کرتے تھے اور جواب بھی دیتے تھے، پوری زندگی کام کیا، ان کا انتقال بھی شیلانگ میں لیکچر کے دوران ہوا، وہ لیکچر دے رہے تھے، انھیں ہارٹ اٹیک ہوا، انھیں اسپتال پہنچایا گیا لیکن وہ “Funny Guy- Are you doing well”کہتے کہتے دنیا سے رخصت ہو گئے۔
یہ ذاتی زندگی میں انتہائی سادہ، ایماندار اور منکسرالمزاج تھے، وہ ایوان صدر میں تین بکسے لے کر آئے اور یہ تین بکسے ہی ان کے ساتھ واپس گئے، بھارت کے پہلے مسلمان صدر ڈاکٹر ذاکر حسین کے دور سے ایوان صدر میں رمضان میں افطار ڈنر دیا جاتا تھا، ڈاکٹر عبدالکلام صدر بنے، ان کی صدارت کا پہلا رمضان آیا، مہمانوں کی فہرست دیکھی، اسٹاف کو بلایا اور کہا ’’ یہ تمام لوگ خوش حال ہیں، افطاری ان کا ایشو نہیں، ہم کیوں نہ یہ رقم یتیم خانوں میں تقسیم کر دیں‘‘ اسٹاف نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا، صدر نے پوچھا ’’افطار ڈنر پر کتنی رقم خرچ ہوتی ہے‘‘ جواب ملا ’’ اڑھائی لاکھ روپے‘‘ ڈاکٹر عبدالکلام نے اڑھائی لاکھ روپے منگوائے، ایک لاکھ روپے ذاتی جیب سے ڈالے، ساڑھے تین لاکھ روپے کا آٹا، دالیں، کمبل اور سویٹر منگوائے اور یہ سامان دہلی کے 28 یتیم خانوں میں تقسیم کرا دیا، وہ جب تک صدر رہے۔
وہ افطار ڈنر کی رقم اسی طرح یتیم خانوں میں تقسیم کراتے رہے، ڈاکٹر عبدالکلام نے مئی 2006ء میں اپنے پورے خاندان کو ایوان صدر بلایا، خاندان کے 52 افراد ان کی دعوت پر دہلی آئے، ان میں ان کے90 سال کے بڑے بھائی شامل تھے اور ڈیڑھ سال کی پوتی بھی، یہ لوگ آٹھ دن ایوان صدر میں رہے، صدر نے انھیں اجمیر شریف بھی بھجوایا، یہ لوگ واپس چلے گئے تو صدر عبدالکلام نے اپنے خاندان کی رہائش، خوراک اور ٹرانسپورٹ کا بل منگوایا، یہ تین لاکھ 52 ہزار روپے بنتے تھے، صدر نے ذاتی اکاؤنٹ سے یہ رقم ادا کر دی، انھوں نے چائے کے ایک ایک کپ کے پیسے ادا کیے۔
خاندان اجمیر شریف گیا تھا، اس ’’زیارت‘‘ کے لیے بھی کوئی سرکاری گاڑی استعمال نہیں ہوئی، صدر نے پرائیویٹ بس کا انتظام کیا اور خاندان کو اس بس پر اجمیر شریف بھجوایا، صدر نے پانچ برسوں میں صدر کی حیثیت سے 176 دورے کیے لیکن ان دوروں میں غیر ملکی دورے صرف سات تھے، باقی 169 دورے اندرون ملک تھے۔
وہ بطورصدر ملک کی ہر ریاست، ہر بڑے شہر اور ہر کمیونٹی کے پاس گئے ، وہ ہر ہفتے دو تین سیمیناروں میں بھی شریک ہوتے تھے اور لیکچر دیتے تھے، سادگی کا یہ عالم تھا، بھارت کے تقریباً تمام اخبارات، صحافیوں اور ٹیلی ویژن اینکرز نے ان کی موت پر یہ واقعہ ضرور بیان کیا، وہ بطور صدر کسی تقریب کی صدارت کر رہے تھے، انھوں نے صدارتی خطبہ دے دیا، تقریب ختم ہو گئی، وہ رخصت ہونے لگے تو کسی صحافی نے سوال پوچھ لیا، وہ اس وقت تک اسٹیج سے اتر چکے تھے لیکن وہ واپس مڑے اور اسٹیج کے ایک کونے میں زمین پر بیٹھ گئے۔
ہال میں بیٹھے لوگ فوراً کھڑے ہو گئے لیکن عبدالکلام نے ہاتھ کے اشارے سے انھیں بٹھایا اور خود زمین پر بیٹھے بیٹھے صحافی کی بات کا جواب دیا، یہ ان کی ذات میں چھپی ہوئی سادگی تھی، وہ اس کا مظاہرہ کرتے وقت پروٹوکول بھی فراموش کر دیا کرتے تھے، وہ کس قدر بڑے انسان تھے ٗ آپ اس کا اندازہ ان کے دورہ امریکا سے لگا لیجیے، یہ 2011ء میں امریکا کے دورے پر گئے۔
یہ نیویارک ائیرپورٹ پہنچے تو یہ اپنے لباس، انداز اور نشست و برخاست، کسی زاویئے سے وی وی آئی پی نہیں لگتے تھے چنانچہ سیکیورٹی حکام نے انھیں تلاشی کے لیے روک لیا، ڈاکٹر عبدالکلام نے پیشانی پر شکن ڈالے بغیر تلاشی دے دی، کلیئر ہوئے اور آرام سے باہر آ گئے، امریکی حکام کو اس واقعے کا علم ہوا تو امریکا نے اس رویئے پر بھارت سے تحریری معافی مانگی، یہ سلوک دنیا کے بے شمار حکمرانوں کے ساتھ ہو چکا ہے، ہمارے اپنے وزراء اور عسکری حکام امریکی ائیرپورٹس پر اس سلوک کا شکار ہو چکے ہیں لیکن امریکا نے معافی صرف عبدالکلام سے مانگی، یہ اعزاز بھی صرف انھی کو حاصل ہوا۔
دنیا میں بے شمار سیلف میڈ لوگ حکمران بنتے ہیں، دنیا میں ڈاکٹر عبدالکلام جیسے لوگ بھی بے شمار ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے انتہائی غربت میں آنکھ کھولی اور کھردری زمین پر گھٹنوں کے بل چل چل کر کامیابی کے آخری زینے تک پہنچے، دنیا میں کامیابی انوکھی چیز نہیں لیکن کامیابی کے بعد اور ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر پہنچ کر اپنی سادگی، اپنی ایمانداری اور اپنی عاجزی کو قائم رکھنا کمال ہوتا ہے اور ڈاکٹر عبدالکلام کا یہ کمال، کمال قسم کا کمال تھا، آپ نے درویشوں کو بادشاہ بنتے اور بادشاہوں کو درویش بنتے دیکھا ہو گا لیکن آپ نے کسی درویش کو تخت پر بیٹھ کر اپنی درویشی سنبھالتے نہیں دیکھا ہو گا لیکن ڈاکٹر عبدالکلام، ایک معمولی کشتی بان کے صاحبزادے ڈاکٹر عبدالکلام نے یہ کمال کیا، یہ تخت کے سامنے کھڑے ہو کر بھی درویش تھے اور یہ تخت پر بیٹھ کر بھی درویش رہے۔
یہ پانی پر چلتی کشتی کی طرح اقتدار کا سفر پورا کر کے دنیا سے چپ چاپ چلے گئے، آپ ڈاکٹر عبدالکلام کی یہ ساری داستان پڑھیں اور اس کے بعد اس سوال کا جواب دیں ’’کیا بیس کروڑ لوگوں کے اس ملک میں ڈاکٹر عبدالکلام جیسا کوئی ایک شخص موجود ہے، کوئی ایک شخص! ہم جس کی سادگی، ایمانداری اور درویشی کی قسم بھی کھا سکیں اور ہم جس کے انتقال پر سات روزہ سوگ بھی منا سکیں، کوئی ایک! ہاں کوئی ایک ایسا شخص جو بھرپور زندگی گزارنے کے بعد یہ کہتا ہوا اطمینان سے چلا جائے ’’Funny Guy- Are you doing well،،۔

ٹکاٹک
جاوید چوہدری اتوار 2 اگست 2015

جنازے میں صرف پچاس ساٹھ لوگ تھے، سلام پھیرا گیا، مولوی صاحب نے دعا کرائی اور لوگوں نے تعزیت کے لیے لواحقین کی تلاش میں دائیں بائیں دیکھنا شروع کر دیا، مرحوم کا ایک ہی بیٹا تھا، وہ لندن میں تھا، وہ وقت پر پاکستان نہ پہنچ سکا چنانچہ وہاں کوئی ایسا شخص نہیں تھا جس سے پرسا کیا جا سکتا، لوگوں نے چند لمحے انتظار کیا اور پھر گرمی کی وجہ سے ایک ایک کر کے چھٹنے لگے، تدفین کا وقت آیا تو قبرستان میں صرف چھ لوگ تھے، مستنصر حسین تارڑ، یہ مرحوم کے عزیز ترین دوست تھے۔
یہ وہاں موجود تھے، دوسرا شخص مرحوم کا پبلشر تھا، یہ پچھلی دو دہائیوں سے ان کی کتابیں چھاپ رہا تھا لہٰذا یہ بھی وہاں رک گیا اور باقی چار لوگ گھریلو ملازم تھے، یہ آخری وقت تک صاحب کا ساتھ دینا چاہتے تھے، میت اٹھائی گئی، قبر میں رکھی گئی، مٹی ڈالی گئی، تازہ مٹی میں درخت کی سبز شاخ بھی ٹھونک دی گئی، گورکن نے قبر پر چھڑکاؤ کیا اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے، تدفین میں مصروف لوگوں نے بھی ہاتھ جھاڑے اور دعا میں شامل ہو گئے اور یوں ملک کے سب سے بڑے ادیب، بڑے ناول نگار کا سفر حیات اختتام پذیر ہو گیا، ایک کہانی تھی جو4 جولائی 2015ء کو ڈی ایچ اے لاہور کے قبرستان میں دفن ہو گئی۔
یہ کون تھا؟ یہ عبداللہ حسین تھے، وہ عبداللہ حسین جن کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں، پاکستان نے 68 سالوں میں بین الاقوامی سطح کا صرف ایک ناول نگار پیدا کیا اور وہ ناول نگار عبداللہ حسین تھے، عبداللہ حسین 14 اگست 1931ء میں راولپنڈی میں پیدا ہوئے، اصل نام محمد خان تھا، سولہ سال کی عمر میں ہندوستان کی تقسیم دیکھی، قیام پاکستان کے دوران انسان کا ایسا بھیانک چہرہ سامنے آیا کہ مذہب، انسانیت اور اخلاقیات تینوں سے اعتبار اٹھ گیا اور وہ مذہب اور انسانیت دونوں کے باغی ہو گئے۔
تقسیم کے واقعات نے عبداللہ حسین کے ذہن پر خوفناک اثرات چھوڑے، وہ 1952ء میں داؤدخیل کی سیمنٹ فیکٹری میں بطور انجینئر کام کرتے تھے، انھوں نے وہاں قلم اٹھایا اور ’’اداس نسلوں‘‘ کے نام سے اردو زبان کا ماسٹر پیس تخلیق کر دیا، یہ ناول محض ایک ناول نہیں تھا، یہ ان نسلوں کا نوحہ تھا جنھوں نے تقسیم ہند کے دوران پرورش پائی اور یہ کندھوں پر اداسی کی صلیب اٹھا کر زندگی گزارنے پر مجبور ہوئیں، یہ ناول ایک تہلکہ تھا، یہ تہلکہ پاکستان میں بھی چھپا اور سرحد پار ہندوستان میں بھی۔
’’اداس نسلیں‘‘ آج تک اردو کا شاندار ترین ناول ہے، یہ ناول عبداللہ حسین نے 32 سال کی عمر میں لکھا، صدر پاکستان ایوب خان نے انھیں 34 سا کی عمر میں ادب کا سب سے بڑا اعزاز ’’آدم جی ایوارڈ‘‘ دیا اور یہ برطانیہ شفٹ ہو گئے، یہ 40 سال برطانیہ رہے، برطانیہ میں قیام کے دوران مزید دو ناول لکھے، دو ناولٹ بھی تخلیق کیے اوردرجنوں افسانے بھی لکھے، عبداللہ حسین نے ایک ناول انگریزی زبان میں بھی لکھا، یہ سارے افسانے، یہ سارے ناولٹ اور یہ سارے ناول ماسٹر پیس ہیں۔
یہ قاری کو گرفت میں لے لیتے ہیں اور قارئین طویل عرصے تک زندگی کو ان ناولوں، ان افسانوں کے کرداروں کے ذریعے دیکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، عبداللہ حسین کی تحریروں میں ایک کھردری سی اداسی، ایک کھردری سی تنہائی اور ایک کھردرا سا ادھورا پن ہے، ان کے تمام افسانے، تمام ناول اچانک شروع ہوتے ہیں اور اچانک ختم ہو جاتے ہیں، ان کے تمام کردار بھی ادھورے، تنہا اور اداس ہیں، نقل مکانی اور نئے معاشرے، نئے دور میں ایڈجسٹ ہونے کی کوشش، یہ ان کے ہر افسانے، ہر ناول میں نظر آتی ہے، یہ تنہائی پسند بھی تھے اور مردم بے زار بھی اور یہ دوست بنانے کی صلاحیت سے بھی تقریباً محروم تھے۔
یہ چند سال پہلے لندن سے پاکستان شفٹ ہوئے اور لاہور میں اپنی بیٹی کے گھر میں رہائش پذیر ہو گئے، عطاء الحق قاسمی صاحب ان کے بہت بڑے فین ہیں، یہ ان تک پہنچے اور یہ انھیں کھینچ کھانچ کر ادبی سرگرمیوں میں لے آئے، عرفان جاوید نے بھی ان پر بہت محنت کی، یہ ان کا طویل انٹرویو کرنے میں بھی کامیاب ہوئے اور یہ ان کی میزبانی اور مہمان نوازی کا لطف بھی اٹھاتے رہے، یہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے ادبی میلوں میں بھی شریک ہوتے رہے۔
یہ خون کے سرطان میں مبتلا تھے، بیماری سے لڑتے رہے یہاں تک کہ 4 جولائی 2015ء کو 84 سال کی عمر میں لاہور میں انتقال فرما گئے، بیگم کے ساتھ تعلقات کشیدہ تھے، وہ برطانیہ میں ہی رہ گئیں، بیٹا لندن میں رہتا تھا، وہ جنازے پر نہ پہنچ سکا، عطاء الحق قاسمی نے احباب کو اطلاع دی، یوں پچاس ساٹھ لوگ ملک کے سب سے بڑے ادیب کی آخری رسومات میں شریک ہو گئے، یہ المیہ عبداللہ حسین کی موت کے المیے سے بھی بڑا المیہ تھا۔
ہم لوگ اس المیے سے دو سبق سیکھ سکتے ہیں، ایک سبق ہم عام لوگوں کے لیے ہے اور دوسرا ریاست کے لیے۔ ہم لوگ بہت بدقسمت ہیں، ہم کام، شہرت اور دولت کی دھن میں خاندان کو ہمیشہ پیچھے چھوڑ دیتے ہیں، ہم کیریئر بناتے رہتے ہیں، شہرت سمیٹتے رہتے ہیں اور اس دوڑ کی دھوپ ہمارے خاندان کی موم کو پگھلاتی رہتی ہے یہاں تک کہ جب زندگی کی شام ہوتی ہے تو ہمارے طاقوں میں پگھلی ہوئی موم کی چند یادوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا، میں بے شمار ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو اپنے بچوں کے بچپن کو اس لیے انجوائے نہ کر سکے کہ یہ بچوں کے اعلیٰ مستقبل کے لیے سرمایہ جمع کر رہے تھے۔
بچے بڑے ہوئے تو انھوں نے اپنی پوری جمع پونجی لگا کر بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے باہر بھجوا دیا، بچے جہاں گئے وہ وہاں سے واپس نہ آئے اور یوں ان کے جنازے ملازمین ہی نے پڑھے اور ملازمین ہی نے انھیں دفن کیا، میں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو پوری زندگی شہرت جمع کرتے کرتے مر گئے اور ان کے جنازے میں ان کا کوئی عزیز، رشتے دار اور دوست تھا اور نہ ہی وہ لوگ جو زندگی میں ان کے ہاتھ چومتے تھے اور اپنی ہتھیلیوں پر ان کے آٹو گراف لیتے تھے۔
میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے جو امن، انصاف، خوش حالی اور مطمئن زندگی کے لیے خاندان کو ملک سے باہر لے گئے، آخر میں خود واپس آ گئے، خاندان وہیں رہ گیا اور جب انتقال ہوا تو بچوں کو چھٹی ملی اور نہ ہی فلائیٹ اور میں ایسے لوگوں سے بھی واقف ہوں جو زندگی میں غرور کا غ ہوتے تھے، جنھوں نے زندگی اقتدار کا الف اور شہرت کی ش بن کر گزاری لیکن جب یہ مرے تو دس دس سال تک کوئی ان کی قبر پر فاتحہ کے لیے نہ آیا، کسی نے ان کے سرہانے دیا تک نہ جلایا چنانچہ پہلا سبق یہ ہے، آپ اپنی اولاد، اپنے خاندن کو کبھی تعلیم، روزگار، کام، شہرت، اقتدار اور سیکیورٹی کے نام پر اپنے آپ سے اتنا دور نہ کریں کہ یہ آپ کے جنازے میں شریک نہ ہو سکیں اور آپ کی قبریں دس دس سال تک ان کے قدموں کو ترستی رہیں۔
دوسرا سبق ریاست کے لیے ہے، ادیب، شاعر، دانشور، موسیقار، اداکار اور کھلاڑی معاشرے کی ’’م‘‘ ہوتے ہیں، یہ م نہ ہو تو معاشرہ معاشرہ نہیں عاشرہ بن جاتا ہے، ہم اگر بحیثیت ریاست عبداللہ حسین جیسے لوگوں کو عزت نہیں دیں گے تو پھر یہ ریاست اور یہ معاشرہ دونوں بنجر ہو جائیں گے چنانچہ میری وزیراعظم اوروزراء اعلیٰ سے درخواست ہے، آپ تخلیقاروں کی عزت افزائی کے لیے فوری طورپر تین اقدامات کریں، ایک، آپ صدر اور گورنر صاحبان کی ذمے داری لگا دیں۔
یہ دانشوروں ،مصوروں ، ادیبوں ،اداکاروں اورکھلاڑیوں کے جنازوں میں شریک ہوں گے اور یہ وہاں پھولوں کی چادر بھی چڑھائیں گے،دو، آپ ملک کے تمام بزرگ دانشوروں کی فہرست بنائیں اور ان دانشوروں کو مختلف یونیورسٹیوں میں تقسیم کردیں، یہ یونیورسٹیاں ان دانشوروں کو ’’اون‘‘ کریں، یہ انھیں اعزازی پروفیسر بھی بنائیں، انھیں یونیورسٹی کے اندر چھوٹا سا گھر بھی بنا کر دیں،ان کی مہارت اور تجربے سے بھی فائدہ اٹھائیں، ان کے علاج معالجے کا بندوبست بھی کریں اور یہ جب انتقال کریں تو ان کا جنازہ اور تدفین یونیورسٹی ہی میں ہو اور پوری یونیورسٹی اس جنازے میں شریک ہو ۔
یہ قدم دانشوروں ،ادیبوں اور شاعروں کی عزت افزائی کا باعث بھی بنے گا اور یہ نان نفقے کی ذلت سے بھی بچ جائیں گے اور قوم بھی ایسی خبروں کے عذاب سے نکل آئے گی جن کے ذریعے قوم کو ہر مہینے یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ فلاں ادیب یا اداکار انتقال کر گیا اور فلم انڈسٹری اور ادبی حلقے کی کسی شخصیت نے جنازے میں شرکت نہ کی اور تین، آپ ملک بھر کے ’’ڈی سی اوز‘‘ کو ہدایت کر دیں، یہ عید اور شب برات پر ادیبوں ،شاعروں اور مصوروں کی قبروں پر قرآن خوانی بھی کرائیں ،چراغاں بھی اور ان کی برسی بھی منائیں ، یہ قدم بھی ملک میں فنون لطیفہ کی عزت میں اضافہ کرے گا۔
آپ لوگ عبداللہ حسین کی آخری رسومات کی خبر پڑھ لیں اور اس کے بعد یورپ اور امریکا کے ادیبوں،شاعروں اور مصوروں کی آخری رسومات دیکھیں ،آپ کو اپنے فکری زوال اور مغربی دنیا کے ذہنی عروج کی وجوہات معلوم ہو جائیں گی،خدا کا غضب جس ملک میں عبداللہ حسین جیسے شخص کی تدفین گھریلو ملازمین نے کی ہو، اس ملک میں ادب ، دانش اور فکر کتنی دیر زندہ رہے گی ، اس ملک میں کتابوں کے شوروم کی جگہ جوتوں اور ٹکا ٹک کی دکانیں نہیں کھلیں گی تو کیا ہو گا۔
علی حمزہ انقلابی
جاوید چوہدری جمعـء 31 جولائ 2015

پاکستان کا اصل انقلابی علی حمزہ ہے، ڈسکہ کا علی حمزہ۔ باپ ٹی بی کا مریض ہو گیا، ٹی بی نے دماغ پر اثر کیا تو باپ ذہنی مریض بن گیا، ماں بھی شدید بیمار تھی، پانچ مرلے کا گھر تھا، گھر کا آدھا حصہ ماں اور باپ کے علاج پر خرچ ہو گیا، علی حمزہ کی تین بہنیں اور ایک چھوٹا بھائی تھا، بچے پر پورے خاندان کی ذمے داری پڑ گئی۔
علی حمزہ کے پاس دو آپشن تھے، یہ خاندان کو مرنے دیتا اور اپنی تعلیم جاری رکھتا یا پھر یہ تعلیم ترک کر کے والد کی فروٹ کی ریڑھی پر بیٹھ جاتا۔ آپ لوگ پڑھے لکھے اور سمجھ دار ہیں، آپ خود کو علی حمزہ کی جگہ پر رکھ کر دیکھیں، آپ کے پاس بھی یہ دو آپشن ہوں گے اور مجھے یقین ہے آپ دوسرا آپشن پسند کریں گے، آپ تعلیم کا سلسلہ ترک کر کے سب سے پہلے اپنے خاندان کے لیے روزی روٹی کا بندوبست کریں گے لیکن علی حمزہ آپ اور مجھ سے زیادہ بہادر تھا، اس نے دونوں آپشن استعمال کرنے کا فیصلہ کیا، یہ صبح اسکول جاتا تھا، اسکول میں پڑھتا تھا اور چھٹی کے بعد فروٹ کی ریڑھی پر کھڑا ہو جاتا تھا، یہ دل ہی دل میں اپنا سبق دہراتا جاتا اور ساتھ فروٹ بیچتا رہتا تھا، علی حمزہ فروٹ بیچ کر روزانہ تین سو روپے کماتا تھا، جی ہاں صرف تین سو روپے اور یہ تین سو روپے پورے خاندان کا نان نفقہ ہوتے تھے۔
خاندان اس رقم سے روٹی پانی بھی چلاتا تھا اور دواء دارو بھی۔ یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ علی حمزہ نے گوجرانوالہ بورڈ میں میٹرک کا امتحان دے دیا، یہ امتحان کے دنوں میں بھی پرچے کے بعد ریڑھی پر کھڑا ہو جاتا تھا، امتحان مکمل ہوا اور اس کے بعد اس نے خود کو فروٹ کی ریڑھی تک محدود کر دیا، 25 جولائی کو گوجرانوالہ بورڈ کے میٹرک کے نتائج نکلے تو پتہ چلا علی حمزہ نے 1100 میں سے 1003 نمبر لے کر آرٹس گروپ میں دوسری پوزیشن حاصل کر لی، دنیا میں ہر سال لاکھوں امتحان ہوتے ہیں، پاکستان میں بھی میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے 23 بڑے تعلیمی بورڈز ہیں، یہ بورڈز بھی امتحان لیتے ہیں اور ان میں تقریباً 60 لاکھ طالب علم شریک ہوتے ہیں، ان طالب علموں میں ہر سال درجنوں بچے پہلی، دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کرتے ہیں لیکن ان طالب علموں میں علی حمزہ جیسے بچے خال خال ہوتے ہیں۔
ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اپنے پورے خاندان کا بوجھ اٹھاتے ہیں، بہن بھائیوں کے ناشتے، لنچ اور ڈنر کا بندوبست بھی کرتے ہیں، ماں باپ کا علاج بھی کراتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں، ہم میں یقینا بہت سے ایسے لوگ ہوں گے لیکن ان ’’بہت‘‘ سے لوگوں میں کتنے لوگ اعلیٰ پوزیشن حاصل کر پاتے ہیں یا ان کی عمر پندرہ سال سے کم ہوتی ہو اور یہ پندرہ سال سے کم عمر میں اپنے خاندان کا بوجھ بھی اٹھاتے ہوں، تعلیم بھی حاصل کرتے ہوں اور پوزیشن بھی لیتے ہوں؟ آپ کو زندگی میں ایسی مثالیں کم ملیں گی، علی حمزہ ایک ایسی مثال ہے، یہ بچہ اصل انقلاب ہے، یہ ملک کے ہر اس شخص کے لیے روشن مثال ہے جو اس ملک کو تبدیل کرنا چاہتا ہے، جو ملک کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتا ہے، میں علی حمزہ جیسے انقلابی کو سلام پیش کرتا ہوں۔
میں زندگی کے خوفناک ترین تجربوں کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں، اس میں انقلاب میاں نواز شریف لائیں گے، آصف علی زرداری اور نہ ہی عمران خان۔ پاکستان کو تبدیل کرنا کسی سیاست زادے کے بس کی بات نہیں، کیوں؟ کیونکہ یہ سب لوگ ایک ایسے بدبودار نظام کے محافظ ہیں جسے فوت ہوئے دہائیاں گزر چکی ہیں، یہ ایک ایسا انتقال شدہ نظام ہے جو علی حمزہ کو تعلیم دے سکتا ہے اور نہ ہی اس کے والد کو علاج کی سہولت لیکن ہمارے لیڈر اس کے باوجود اس نظام کے چوکیدار ہیں، کیوں؟ کیونکہ یہ خود اس نظام کی پیداوار ہیں اور یہ نظام اگر ختم ہو گیا تو اس کے ساتھ ہی آصف علی زرداری، میاں نواز شریف اور عمران خان کی سیاست بھی ختم ہو جائے گی چنانچہ یہ لوگ اس نظام کو ٹوٹنے دیں گے اور نہ ہی تبدیل ہونے دیں گے۔
آپ یقین کریں ملک میں تبدیلی کا ہر نعرہ جھوٹا ہے اور اس جھوٹے نعرے کے پیچھے کوئی نہ کوئی خفیہ ایجنڈا ہے، آپ کسی دن ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ بیٹھیں، ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں موجود لوگوں کا ڈیٹا نکالیں، آصف علی زرداری، میاں نواز شریف اور عمران خان کے ساتھ بیٹھے لوگوں کے پروفائل نکالیں، ان کا ماضی اور حال دیکھیں اور اس کے بعد فیصلہ کریں، کیا یہ وہ لوگ ہیں جو ملک میں تبدیلی لائیں گے؟ کیا یہ وہ لوگ ہیں جو نیا پاکستان تخلیق کریں گے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کی وجہ سے پرانا پاکستان گندہ ہوا تھا، یہ وہ لوگ ہیں جن کی وجہ سے ملک میں آج تک انقلاب نہیں آیا، یہ کمال لوگ ہیں، یہ اقتدار کی ہرکشتی میں پہلی قطار میں بیٹھے نظر آتے ہیں۔
آپ دور نہ جائیے، آپ پاکستان کی صرف ایک سال کی تاریخ کا تجزیہ کر لیجیے، حکومت کل تک پاکستان تحریک انصاف سے بچنے کے لیے سیاسی جماعتوں کی منتیں کر رہی تھی، یہ آج پاکستان تحریک انصاف کو بچانے کے لیے جے یو آئی اور ایم کیو ایم کی ٹھوڑی کو ہاتھ لگا رہی ہے، پاکستان تحریک انصاف کے ایم این ایز کل تک قومی اسمبلی کو دھاندلی زدہ، جعلی اور ناجائز قرار دے رہے تھے، یہ کل تک اس ایوان میں پاؤں رکھنے کے لیے تیار نہیں تھے لیکن یہ آج اس کی دہلیز چھوڑنے کے لیے رضا مند نہیں ہیں، عمران خان نے 22 اگست 2014ء کو اپنے ایم این ایز کے استعفے بھجوا دیے لیکن خیبر پختونخواہ کی حکومت نہ چھوڑی اور یہ پورے ملک کا انتخابی نظام بدلنا چاہتے ہیں لیکن یہ خیبر پختونخواہ میں کوئی ایسا نظام نہیں بنا سکے۔
جس کے ذریعے یہ وہاں صاف شفاف بلدیاتی الیکشن کرا سکیں، یہ چند تلخ حقائق ہیں، آپ کو اصل حقیقت اس دن نظر آئے گی جس دن عمران خان قومی اسمبلی میں جائیں گے اور وہ تمام ارکان ڈیسک بجا کر ان کا استقبال کریں گے جو کل تک انھیں ملک کا سب سے بڑا سازشی قرار دے رہے تھے اور جس دن پی ٹی آئی کے قائدین اس ایوان کو مقدس قرار دیں گے جسے یہ کل تک ڈھا دینا چاہتے تھے یا اس اسپیکر کی غیر جانبداری اور جمہوریت کی تعریف کریں گے جس کے خلاف انھوں نے دھاندلی کا ریفرنس دائر کر رکھا ہے، آپ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔
وہ لوگ جو یکم اگست 2014ء سے یکم اگست 2015ء تک ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے، وہ اب قومی اسمبلی میں ایک دوسرے کا بازو بن جائیں گے اور یہ مل کر ایسی ترامیم کریں گے جن کے ذریعے ان کے اقتدار کو دوام مل سکے، میں دل سے یہ سمجھتا ہوں ملک میں اس دن انقلاب آئے گا جس دن انقلابی لیڈروں کے دائیں بائیں سیاسی لوٹوں کی بجائے علی حمزہ جیسے لوگ بیٹھے ہوں گے، کیوں؟ کیونکہ جو انسان اپنے چھ فٹ کے قد پر انقلاب نافذ نہ کر سکے وہ کبھی زمین کے چھ فٹ ٹکڑے پر انقلاب کی پنیری نہیں لگا سکتا، آپ دیکھ لیجیے گا۔
عمران خان خیبر پختونخواہ کی حکومت چھوڑیں گے اور نہ ہی وہاں کے نظام میں کوئی انقلابی تبدیلی لائیں گے، یہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی نشستیں بھی نہیں چھوڑیں گے، کیوں؟ کیونکہ اس میں ان کا نقصان ہے! میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری بھی عمران خان اور پی ٹی آئی کو اسمبلیوں سے باہر نہیں جانے دیں گے، کیوں؟ کیونکہ یہ اسمبلیوں سے نکل کر ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے اقتدار کے لیے خطرہ بن جائیں گے، حکومت اور اپوزیشن ایم کیو ایم کے خلاف بھی کوئی ایسی کارروائی نہیں ہونے دے گی جس کے نتیجے میں ایم کیو ایم پارلیمنٹ اور سندھ اسمبلی سے مستعفی ہو جائے یا ایم کیو ایم پر پابندی لگ جائے۔
کیوں؟ کیونکہ کراچی اور حیدر آباد میں جب ایم کیو ایم کو نقصان پہنچے گا تو اس کا فائدہ پی ٹی آئی کو ہو گا اور یہ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو سوٹ نہیں کرتا، اے این پی بھی کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت نہیں گرنے دے گی، کیوں؟ کیونکہ پی ٹی آئی کی حکومت گرنے کے بعد جے یو آئی کو فائدہ ہو گا اور یہ اے این پی کے مفاد میں نہیں اور جے یو آئی کبھی پی ٹی آئی کی حکومت نہیں چلنے دے گی، یہ 2018ء سے قبل صوبائی حکومت کو گرانے کی کوشش کرے گی، کیوں؟ کیونکہ اگلے الیکشن سے قبل اے این پی اور پی ٹی آئی دونوں قریب آ جائیں گی۔
یہ دونوں 2017-18ء میں سیاسی اتحاد بنا لیں گی اور یہ جے یو آئی کے لیے فائدہ مند نہیں اور آپ یہ بھی دیکھ لیجیے گا ملک کی چار بڑی سیاسی جماعتیں ملک کے ایک حصے میں اتحادی ہوں گی اور دوسری حصے میں مخالف، یہ ایک صوبے میں ’’اوئے زرداری‘‘ کا نعرہ لگائیں گے اور دوسرے صوبے میں بھائی بھائی ہوں گے اور اس ساری سیاست بازی میں انقلاب کا رہا سہا بھرکس بھی نکل جائے گا، یہ کیا ہے؟ یہ سیاست ہے۔
یہ سب ایک ہیں اور ہم ’’بے ایمان میڈیا‘‘ اور ہم ’’بکے ہوئے صحافیوں‘‘ نے سیاست بازی اور مفاد پرستی کے اس کھیل سے کیا حاصل کیا؟ ہم نے ملک کو پانچویں مارشل لاء سے بچا لیا، ملک میں اگر خدانخواستہ مارشل لاء لگ جاتا تو یہ مارشل لاء ملک کا آخری مارشل لاء ثابت ہوتا۔ سیاستدان شاید گرتے پڑتے کبھی نہ کبھی سنبھل جائیں گے، عوام میں بھی اچھے برے کی تمیز پیدا ہو رہی ہے لہٰذا دو تین جمہوری حکومتوں کے بعد شاید ملک میں تبدیلی آ جائے گی لیکن مارشل لاء لگ جاتا تو آپ یقین کیجیے یہ ملک ٹوٹ جاتا، کیوں؟ کیونکہ فوج اب ملک کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی، یہ ملک ایک ایسا بھاری پتھر بن چکا ہے جسے اٹھانے کے لیے اب ایک ادارہ کافی نہیں چنانچہ ہم نے گالیاں کھا لیں لیکن فوج اور ملک دونوں بچا لیے، یہ آزاد میڈیا کا کریڈٹ ہے۔
یہ ملک کے اصل حقائق ہیں، آپ اگر یہ حقائق بدلنا چاہتے ہیں تو آپ کو انقلابی علی حمزہ بننا ہو گا، یہ درست ہے ملک میں تعلیم نہیں، قانون نہیں، انصاف نہیں، پینے کا صاف پانی نہیں، اسپتال نہیں، دواء نہیں، سیکیورٹی نہیں، روزگار نہیں اور عزت نہیں لیکن یہ عزت، یہ روزگار اور یہ تعلیم آپ کو یہ لوگ نہیں دے سکیں گے، اگر سیاسی جماعتیں یا سیاسی لیڈر انقلاب لا سکتے تو ’’کے پی کے‘‘ میں انقلاب آ چکا ہوتا، آپ یقین کیجیے جس دن عمران خان نے صرف پشاور شہر کے تمام شہریوں کو صاف پانی، روز گار، سیکیورٹی، دواء، انصاف، قانون اور تعلیم دے دی، جس دن آصف علی زرداری نے کراچی شہر میں روٹی، کپڑے اور مکان کا منشور پورا کر لیا، جس دن میاں نواز شریف نے صرف رائے ونڈ کے اردگرد کے علاقے کو پیرس بنا دیا اور جس دن مولانا فضل الرحمن نے اپنی پارٹی میں اسلام نافذ کر دیا تو قوم اس دن ان سب کو سلام پیش کرے گی، یہ سب کھیل ہے۔
یہ سب سیاست ہے، آپ خدا کے لیے اس سیاست، اس کھیل سے باہر نکلیں اور علی حمزہ بنیں، آپ اپنی زندگیوں میں تبدیلی لے آئیں، آپ اپنی ذات میں چھپے انقلاب کو جگا لیں، آپ کو روٹی بھی مل جائے گی، روزگار بھی، دواء بھی، انصاف بھی، عزت بھی اور تعلیم بھی۔ آپ جس دن علی حمزہ کے راستے پر چل پڑیں گے، آپ یقین کیجیے آپ کو اس دن میاں نواز شریف کی ضرورت رہے گی، آصف علی زرداری کی اور نہ ہی عمران خان کی، آپ کے لیے اس دن آپ، آپ کا اللہ اور آپ کی محنت کافی ہو گی، آپ ایک بار کر کے دیکھیں، آپ ایک بار علی حمزہ بن کر دیکھیں، آپ تمام انقلابیوں کی محتاجی سے آزاد ہو جائیں گے۔
فرشتہ عمران خان
جاوید چوہدری جمعرات 30 جولائ 2015

میاں نواز شریف بھی جس دن ٹھنڈے دماغ سے سوچیں گے، یہ بھی یقینا مان لیں گے عمران خان میاں برادران اور پاکستان مسلم لیگ ن دونوں کے سب سے بڑے محسن ہیں، یہ نہ ہوتے تو شاید آج میاں نواز شریف وزیراعظم، میاں شہباز شریف وزیراعلیٰ اور پاکستان مسلم لیگ ن اقتدار میں نہ ہوتی، آپ کو اگر میری بات پر یقین نہ آئے تو آپ ایک بار پھر وقت کو ’’ری وائینڈ‘‘ کریں اور تاریخ کو 30 جولائی 2015ء سے جون 2013ء میں لے جائیں اور میاں نواز شریف کی گورننس اور باڈی لینگویج کا تجزیہ کریں۔
مجھے یقین ہے آپ کوبھی یقین آ جائے گا، قوم اگر تجزیہ کرے تو اسے دو میاں نواز شریف نظر آئیں گے، ایک میاں نواز شریف جون 2013ء سے اگست 2014ء تک کے میاں نواز شریف تھے اور دوسرے میاں نواز شریف وہ میاں نواز شریف ہیں جو آج قوم کو نظر آ رہے ہیں، پہلے میاں نواز شریف صرف وزیراعظم تھے، وہ وزیراعظم شام سات بجے گھر چلا جاتا تھا اور صبح آٹھ بجے تک اس سے رابطہ ممکن نہیں ہوتا تھا، وزیراعظم ہاؤس اور پی ایم آفس میں روزانہ کل چار میٹنگز ہوتی تھیں اور یہ میٹنگز بھی بے نتیجہ رہتی تھیں، وزراء گروپوں میں تقسیم تھے۔
چوہدری نثار علی خان اور خواجہ آصف ایک دوسرے سے سلام تک لینے کے روادار نہیں تھے، اسحاق ڈار اور چوہدری نثار کے درمیان بھی اختلافات تھے، خواجہ سعد رفیق اپنے چھوٹے بھائی سلمان رفیق کے ساتھ وزیر اعلیٰ کے سرد رویئے کی وجہ سے میاں برادران سے ناراض تھے، وزارت خارجہ سرتاج عزیز اور طارق فاطمی کا میدان جنگ بن چکی تھی، طالبان کے ساتھ مذاکرات ہونے چاہئیں یا جنگ حکومت اس ایشو پر بھی تقسیم تھی۔
ہمیں یہ حقیقت بھی ماننی ہو گی میاں نواز شریف فوج کے ساتھ کمفرٹیبل تھے اور نہ ہی فوج کو میاں صاحب پر اعتماد تھا، میاں صاحب نے 2013ء کو حکومت سنبھالتے ہی فوج کے ساتھ محاذ آرائی شروع کر دی، میاں شہباز شریف وزیراعظم کو روکتے رہے لیکن حکومت نے جنرل پرویز مشرف کے گرد گھیرا تنگ کر دیا، جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ساتھ بھی میاں صاحب کے تعلقات ٹھیک نہیں تھے، آئی ایس آئی کے ڈی جی جنرل ظہیر الاسلام اور سابق ڈی جی جنرل احمد شجاع پاشا کے ساتھ بھی تعلقات خرابی کی انتہا کو چھو رہے تھے۔
فروری 2014ء میں ترکی کے صدر عبداللہ گل نے افغانستان اور پاکستان کے درمیان اچھے تعلقات قائم کرنے کے لیے سہ فریقی کانفرنس بلائی، افغان صدر حامد کرزئی نے وہاں وزیراعظم کی موجودگی میں آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس آئی سے بدتمیزی کی اور ہمارے وزیراعظم خاموشی سے یہ تماشہ دیکھتے رہے، حامد میر پر حملے کے بعد حکومت جیو کے ساتھ کھڑی ہو گئی اور آئی ایس آئی اور فوج کو تنہا چھوڑ دیا گیا، وزیراعظم حامد میر کی عیادت کے لیے بھی چلے گئے جب کہ ڈی جی آئی ایس آئی کو خیریت کا فون تک نہ کیا، فوج نے اس رویئے کو سخت ناپسند کیا، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق اور پرویز رشید کے بیانات نے رہی سہی کسر پوری کر دی، پرویز رشید نے دلیل اور غلیل کا بیان دے دیا، خواجہ آصف کا بیان جرنیل معافیاں مانگتے پھر رہے ہیں۔
یہ پاؤں پڑے ہوئے ہیں اور خواجہ سعد رفیق کے بیان’’ مشرف غدار ہیں، مرد کے بچے بنیں، ڈرامے بازی چھوڑیں‘‘ نے بھی غلط فہمیوں کے پرندوں کو آسمان تک پہنچا دیا، ہم اگر ان دنوں کا تجزیہ کریں تو ہمیں ماننا پڑے گا، فوجی قیادت میاں نواز شریف کو مشکوک نظروں سے دیکھ رہی تھی، آرمی چیف ملاقات کے لیے وزیراعظم کے پاس آتے تھے تو کوئی نہ کوئی لیفٹیننٹ جنرل ان کے ساتھ ہوتا تھا، بھارت کے ساتھ تجارت پر بھی فوج کو تحفظات تھے، طالبان کے ساتھ مذاکرات پر بھی فوج خوش نہیں تھی اور وزیراعظم کے غیر ملکی دورے بھی فوج کو پریشان کر رہے تھے۔
آپ اگر ماضی میں جائیں تو آپ کو محسوس ہو گا حکومت کے پہلے سال تک وزیراعظم کی حکومتی معاملات پر گرفت ڈھیلی تھی، وزراء کی کارکردگی کا جائزہ نہیں لیا جا رہا تھا، حکومت خاندانی اقتدار میں تبدیل ہو چکی تھی، وزیر اعظم غیر ملکی دورے پر جاتے تھے تو پورے خاندان کو ساتھ لے جاتے تھے، میاں منشاء کے ساتھ کاروباری تعلقات کی خبریں بھی عام تھیں اور میگا کرپشن کی کہانیاں بھی سنی جا رہی تھیں، ملک کے سیاسی تجزیہ نگار یہ صورتحال دیکھتے تھے تو وہ برملا کہہ اٹھتے تھے۔
میاں نواز شریف نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا اور یہ اس بار بھی پانچ سال پورے نہیں کر سکیں گے۔ مجھے بھی اس وقت یقین تھا میاں نواز شریف 2014ء پار نہیں کر سکیں گے کیونکہ محاذ آرائی کسی بھی وقت صورتحال کو 12 اکتوبر 1999ء تک لے جا سکتی تھی لیکن پھر عمران خان فرشتہ بن کر میاں نواز شریف کی زندگی میں آئے اور ملک کا سارا سیاسی نقشہ بدل گیا، عمران خان کا دھرنا شروع ہوا اور میاں نواز شریف جاگ گئے۔
یہ اب دیر تک دفتر بیٹھتے ہیں، وزراء کے باہمی اختلافات بھی ختم ہو چکے ہیں، وہ اپوزیشن جس سے میاں صاحب کے تعلقات کشیدہ تھے وہ اب میاں نواز شریف کی محافظ بن چکی ہے، فوج اور حکومت کے تعلقات بھی مثالی ہیں، خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق دونوں فوج کے ترجمان بن چکے ہیں، پرویز رشید بھی فوج کی محبت میں سینہ ٹھونک کر کھڑے ہو جاتے ہیں، وزارت خارجہ دوبارہ فوج کے سائے میں آ گئی، حکومت اب ضرب عضب کے معاملے میں فوج کی کوئی فرمائش نہیں ٹالتی، فوجی عدالتیں بھی بنیں، کراچی کے معاملات بھی فوج کے پاس چلے گئے۔
آپ حکومت اور فوج کے تعلقات ملاحظہ کیجیے، 16 جون 2015ء کو آصف علی زرداری نے فوج کے خلاف بیان دیا تو میاں نواز شریف نے نہ صرف زرداری کے ساتھ اپنی طے شدہ ملاقات منسوخ کر دی بلکہ پوری حکومت پتھر اٹھا کر آصف علی زرداری کے پیچھے دوڑ پڑی اور میاں صاحب اس دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے وہ احسانات بھی بھول گئے جو اس نے دھرنے میں ن لیگ پر کیے تھے، دھرنے سے قبل کوئی غیر ملکی مہمان آرمی چیف سے ملنا چاہتا تھا تو حکومت اس ملاقات کی منظوری دیتی تھی لیکن دھرنے کے بعد آرمی چیف دنیا بھر کے دورے کر رہے ہیں۔
یہ وہاں سربراہ مملکت کے برابر پروٹوکول بھی پاتے ہیں اور حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا، حکومت نے اپنی رفتار بھی بڑھا دی، راولپنڈی کی میٹرو مکمل ہو گئی، ملتان میں کام جاری ہے، یہ بھی 25 دسمبر تک مکمل ہو جائے گی، بجلی کے منصوبوں پر بھی دن رات کام ہو رہا ہے، ایل این جی میں بھی خوشخبری آ رہی ہے اور چین پاکستان اقتصادی راہداری بھی دوڑ بھاگ رہی ہے اور وہ میاں نواز شریف جو ایک سال پہلے تک اپنی پارٹی کے اہم ترین وزراء سے ملنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے وہ اب 21 ویں ترمیم سے لے کر اقتصادی راہداری تک اور آرمی پبلک اسکول کے سانحے سے لے کر پی ٹی آئی کو ’’ڈی سیٹ‘‘ نہ کرنے تک کے فیصلے ملک کی اہم سیاسی قیادت کو اعتماد میں لے کر کرتے ہیں۔
یہ کیا ہے؟ یہ تبدیلی کہاں سے آئی؟ یہ سب عمران خان کی مہربانی ہے، عمران خان اگر میاں نواز شریف پر دھرنے کی نوازش نہ کرتے تو میاں نواز شریف بدستور سوتے رہتے، یہ فوج کے ساتھ اپنی محاذ آرائی بھی جاری رکھتے اور یوں یہ 2014ء میں واقعی فارغ ہو جاتے، ملک میں مارشل لاء لگ جاتا، قومی حکومت بن جاتی یا پھر نئے الیکشن ہو چکے ہوتے اور جہانگیر ترین یا اسد عمر وزیراعظم، شاہ محمود قریشی وزارت خارجہ اور ہمارے دوست شفقت محمود وزیر تجارت کا قلم دان سنبھال چکے ہوتے اور محترمہ شیریں مزاری ناراض ہو کر گھر بیٹھ چکی ہوتیں لیکن ایسا نہ ہوا، عمران خان نے میاں نواز شریف کے کان میں سیٹی بجا کر انھیں اٹھا دیا اور یہ بھی آصف علی زرداری کی طرح زمینی حقائق سے واقف ہو گئے، یہ بھی جان گئے پاکستان میں حکومت کرنی ہے تو پھر حالات سے سمجھوتہ کرنا پڑے گا اور میاں نواز شریف نے یہ سمجھوتہ کر لیا اور یہ میاں نواز شریف دوسرے میاں نواز شریف ہیں۔
عمران خان میاں نواز شریف کے لیے فرشتہ بن کر کیوں آئے! آپ کو یہ جاننے کے لیے نواز شریف اور عمران خان کا ٹریک ریکارڈ دیکھنا ہو گا، میاں نواز شریف دراصل ایک خوش نصیب انسان ہیں، قسمت ہر دور میں ان پر مہربان رہی، آپ 1980ء سے 2015ء تک میاں نواز شریف کی 35 سالہ سیاسی تاریخ کا جائزہ لے لیجیے، آپ دو نکتوں تک پہنچ جائیں گے، ایک، میاں نواز شریف کو آج تک کوئی شخص نقصان نہیں پہنچا سکا، وہ تمام لوگ جنہوں نے آج تک انھیں فارغ کرنے کی کوشش کی وہ خود فارغ ہو گئے اور یہ اقتدار میں واپس آ گئے، مجھے بعض اوقات محسوس ہوتا ہے قدرت جب بھی اپنا استحقاق استعمال کرتی ہے۔
یہ اپنا فیصلہ میاں نواز شریف کے پلڑے میں ڈال دیتی ہے، آپ دور نہ جائیں، آپ دھرنے کو دیکھ لیں، یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا خوفناک ترین حملہ تھا لیکن میاں نواز شریف اس حملے میں بھی بال بال بچ گئے، یہ ان کی خوش قسمتی نہیں تو کیا ہے؟ دو، میاں نواز شریف کو جب بھی نقصان پہنچا اس کی وجہ کوئی اور نہیں تھا ،یہ خود تھے، آپ ان کی سیاسی تاریخ نکال کر دیکھ لیجیے، یہ آپ کو ہمیشہ اپنی وجہ سے مسائل کا شکار ہوتے نظر آئیں گے، ہم اگر یہ کہیں میاں نواز شریف اپنا ڈیزاسٹر خود ہیں تو یہ غلط نہیں ہو گا، یہ وہ مولا جٹ ہیں جسے مولا نہ مارے تو مولا نہیں مر سکتا جب کہ آپ اس کے مقابلے میں عمران خان کا ٹریک بھی نکال کر دیکھ لیں، یہ آپ کو ورلڈ کپ اور شوکت خانم اسپتال کے علاوہ ہر جگہ بدقسمتی کا شکار ہوتے نظر آئیں گے، عمران خان کی کوشش ہمیشہ لاجواب ہوتی ہے لیکن یہ آخر میں پہنچ کر کوئی نہ کوئی ایسی غلطی کر بیٹھتے ہیں جس کے نتیجے میں یہ دوبارہ پہلی سیڑھی پر آ جاتے ہیں اور خان صاحب کے ساتھ اس بار بھی یہی ہوا۔
کھیل کا فائنل راؤنڈ ختم ہو چکا ہے، ملک کے دونوں کھلاڑیوں کو اب اپنی اپنی پالیسی ’’ری وزٹ‘‘ کرنی چاہیے، عمران خان کو چاہیے، یہ میاں نواز شریف کو اپنے حال پر چھوڑ دیں اور اس لمحے کا انتظار کریں جب میاں نواز شریف کے اندر سے دوبارہ وہ پہلا نواز شریف باہر آ جائے جو کیلے پر پاؤں رکھنے کا کوئی موقع ضایع نہیں کرتا یوں خان صاحب کا کام ہو جائے گا، یہ اگر نواز شریف کو اسی طرح الجھائے رکھیں گے تو انھیں فوج سے لڑنے کی فرصت نہیں ملے گی اور یوں خان صاحب ’’اوور ایج‘‘ ہو جائیں گے، میاں صاحب کو بھی چاہیے یہ بھی اس راؤنڈ کو فائنل سمجھ کر نیا محاذ نہ کھولیں، یہ بھی صبر کریں، کیوں؟ کیونکہ اگلی غلطی ان کی اپنی غلطی ہو گی اور یہ آج تک اپنی غلطی سے نہیں بچ سکے، میاں صاحب کے اندر کا مولا ہمیشہ ان کا قاتل ثابت ہوا۔
اللہ ہمیں اس انجام سے بچائے
جاوید چوہدری منگل 28 جولائ 2015

میری آپ سے صرف ایک درخواست ہے، آپ چند گھنٹوں کے لیے صوفے پر بیٹھ جائیے، آپ پانی کا جگ سامنے رکھئے، اے سی یا پنکھا چلائیے، آنکھیں بند کیجیے اور آپ تاریخ کو آج 28 جولائی 2015ء سے یکم اگست 2014ء تک واپس ’’ری وائنڈ‘‘کرنا شروع کر دیجیے اور پھر مجھے صرف ایک سوال کا جواب دیجیے، میں نے گزشتہ ایک سال میں کون سی بات غلط کہی تھی، میرا کون سا تجزیہ غلط ثابت ہوا، کیا عمران خان کے ساتھ دس لاکھ لوگ لاہور سے نکلے، کیا انقلابی قافلے کے ساتھ ایک لاکھ موٹر سائیکل تھے اور کیا قافلے کے اسلام آباد پہنچنے سے پہلے حکومت چلی گئی۔
میں کہتا رہا، عمران خان اور علامہ طاہر القادری اکٹھے ہو جائیں گے، کیا یہ اکٹھے نہیں ہوئے، کیا یہ دونوں کزن نہیں بنے؟ میں نے پندرہ اگست کو کہا تھا ’’ عمران خان ریڈزون میں داخل ہوں گے‘‘ کیا عمران خان 19 اگست 2014ء کو ریڈ زون میں نہیں گئے؟ میں نے کہا، یہ لوگ پارلیمنٹ ہاؤس پر بھی قابض ہوں گے، یہ ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس پر بھی دھاوا بولیں گے اور یہ پی ٹی وی پر بھی قبضہ کریں گے، کیا یہ نہیں ہوا؟ میں نے یہ بھی عرض کیا تھا، پولیس انھیں نہیں روکے گی، یہ بھی کہا تھا، پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے گولی چلے گی اور لوگ مریں گے اور یہ بھی عرض کیا تھا، ٹیلی ویژن چینلز اور ملک کے نصف درجن اینکرز بھی ان کا ساتھ دیں گے، کیا یہ غلط ثابت ہوا؟ میں نے کہا تھا، عمران خان اور شیخ رشید اپنا استعفیٰ پیش نہیں کریں گے۔
کیا عمران خان اور شیخ رشید نے قومی اسمبلی میں اپنا استعفیٰ جمع کرایا؟ یہ بھی عرض کیا، پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کی حکومت نہیں چھوڑے گی، یہ لوگ صوبائی اسمبلی بھی نہیں توڑیں گے، کیا صوبائی اسمبلی ٹوٹی، کیا صوبائی حکومت گئی؟ میں نے یہ بھی عرض کیا، چوہدری صاحبان اور ایم کیو ایم بھی اس انقلاب کا ساتھ دے گی، کیا یہ بھی غلط ثابت ہوا؟ میں نے عرض کیا ’’یہ لوگ قومی حکومت بنوانے کی کوشش کریں گے‘‘کیا چوہدری شجاعت نے قومی حکومت کا مطالبہ نہیں کیا؟ اور میں نے عرض کیا تھا ’’ میاں نواز شریف کبھی استعفیٰ نہیں دیں گے‘‘ کیا میاں نواز شریف نے استعفیٰ دیا اور کیا حکومت چلی گئی؟ کیا میری یہ بات بھی غلط تھی!۔
آپ یہ نقاط بھی چند لمحوں کے لیے سائیڈ پر رکھ دیجیے اور آپ میرے چند مزید سوالوں کا جواب دیجیے، کیا عمران خان نے یہ نہیں کہا تھا، میرے اسلام آباد پہنچنے سے پہلے حکومت ختم ہو جائے گی، کیا حکومت ختم ہوئی، کیا یہ نہیں کہا تھا ’’ ایمپائر کی انگلی دو دن بعد اٹھ جائے گی‘‘ کیا یہ انگلی اٹھی، کیا یہ نہیں کہا تھا ’’ میں حکومت کے خاتمے تک کنٹینر میں رہوں گا‘‘ کیا یہ کنٹینر میں رہے؟ کیا یہ رات بنی گالا نہیں چلے جاتے تھے اور اگلی شام نہا دھو کر واپس نہیں آ جاتے تھے؟ کیا عمران خان نے نجم سیٹھی پر 35 پنکچر کا الزام نہیں لگایا اور کیا خان صاحب یہ الزام ثابت کر سکے؟
اور کیا انھوں نے سات ماہ تک 35 پنکچر، 35 پنکچر کی گردان کے بعد اس الزام کو سیاسی بیان قرار نہیں دیا اور کیا انھیں اس غلط بیانی پر نجم سیٹھی سے معافی نہیں مانگنی چاہیے؟ کیا عمران خان نے سول نافرمانی کا اعلان کر کے یہ اعلان واپس نہیں لیا؟ کیا انھوں نے بیرون ملک موجود پاکستانیوں سے یہ درخواست نہیں کی ’’آپ ہنڈی کے ذریعے رقم پاکستان بھیجا کریں‘‘ اور کیا پھر یہ درخواست بھی واپس نہیں لی گئی، کیا عمران خان نے سر عام بجلی کے بل نہیں پھاڑے؟ کیا عمران خان نے یہ اعلان نہیں کیا، میں اور میرے ساتھی بجلی کے بل ادا نہیں کریں گے؟ اور کیا عمران خان، جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر سمیت پی ٹی آئی کی ساری قیادت نے بعد ازاں بجلی کے بل جمع نہیں کرائے اور کیا یہ آج واپڈا کی بجلی استعمال نہیں کر رہے؟
کیا عمران خان نے قومی اسمبلی کو جعلی قرار نہیں دیا تھا، کیا انھوں نے یہ نہیں کہا تھا ’’ میں اور میرے ایم این ایز جعلی قومی اسمبلی میں نہیں جائیں گے‘‘ اور کیا پھر عمران خان اور ان کے ایم این ایز اس قومی اسمبلی میں نہیں گئے؟ کیا عمران خان پوری پارلیمنٹ کو جعلی، دھاندلی زدہ اور کرپٹ قرار نہیں دیتے رہے اور کیا یہ اس کے ساتھ ساتھ اس جعلی اسمبلی کے ضمنی الیکشن نہیں لڑتے رہے؟ کیا انھوں نے اپنے سینیٹر منتخب نہیں کرائے؟ کیا یہ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کو کرپٹ اور بے ایمان نہیں کہتے رہے اور کیا بعد ازاں خان صاحب نے سینیٹ کے الیکشن میں حمایت کے لیے اسی آصف علی زرداری کو ٹیلی فون نہیں کیا؟
اور کیا عمران خان نے سینیٹ کے الیکشن کے لیے اسی میاں نواز شریف کے ساتھ خیبر پختونخواہ میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں کی؟ کیا یہ 17 دسمبر 2014ء کو اسی میاں نواز شریف کے ساتھ پشاور میں نہیں بیٹھے اور کیا انھوں نے وہاں یہ نہیں کہا ’’ میاں صاحب آگے بڑھیں، ہم آپ کے ساتھ ہیں‘‘ کیا عمران خان نے یہ نہیں کہا تھا ’’ حکومت کے خاتمے تک یہ دھرنا جاری رہے گا‘‘ اور پھر اسی عمران خان نے 17 دسمبر 2014ء کو دھرنے کے خاتمے کا اعلان کر دیا، کیا عمران خان نے یہ نہیں کہا تھا ’’ مجھے چیف جسٹس ناصر الملک پر مکمل اعتماد ہے‘‘ کیا یہ بار بار یہ نہیں کہتے رہے ’’ ہمیں جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ منظور ہو گی‘‘ کیا انھوں نے یہ نہیں کہا تھا ’’ اگر جوڈیشل کمیشن نے 2013ء کے الیکشن کو شفاف قرار دے دیا تو میں میاں نواز شریف کے پاس جا کر انھیں مبارک باد دوں گا‘‘ کیا عمران خان نے یہ وعدے نبھائے؟
کیا یہ مبارک باد کے لیے وزیراعظم کے پاس گئے اور کیا انھوں نے پوری اعلیٰ ظرفی کے ساتھ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ تسلیم کی؟ کیا عمران خان نے یہ دعویٰ نہیں کیا تھا ’’چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری دھاندلی کی سازش میں شریک تھے‘‘ کیا عمران خان نے چیف جسٹس کے خلاف کوئی ثبوت پیش کیا اور کیا ان کے وکیل نے سابق چیف جسٹس کو کمیشن کے سامنے پیش کرنے کا مطالبہ کیا؟ کیا خان صاحب یہ دعوے نہیں کرتے رہے ’’ ہمارے پاس دھاندلی کے ثبوتوں کے کمرے بھرے ہوئے ہیں‘‘ خان صاحب نے پھر وہ کمرے کیوں نہیں کھولے اور یہ وہ ٹھوس اور ناقابل تردید ثبوت لے کر کمرہ عدالت میں کیوں نہیں گئے اور کیا یہ این اے 246 میں کامیابی کے ڈنکے نہیں بجاتے رہے اور کیا ایم کیو ایم کے خلاف تمام تر ریاستی نفرت کے باوجود ان کے امیدوار کی ضمانت ضبط نہیں ہوئی؟ کیا خیبر پختونخواہ کے بلدیاتی الیکشن میں دھاندلی نہیں ہوئی۔
کیا وہاں الیکشن کے دوران 20 لوگ قتل نہیں ہوئے اور کیا صوبائی وزیر نے پولیس کو گرفتاری دینے سے انکار نہیں کیا اور کیا اب تک ’’کے پی کے‘‘ کے چار وزراء پر کرپشن کے الزامات نہیں لگے اور کیا یہ وزیر اپنے عہدوں سے فارغ نہیں ہوئے؟ آپ ٹھنڈے دماغ سے ان سوالوں کے جواب تلاش کیجیے اور پھر جواب دیجیے۔ خان صاحب کے سارے دعوے غلط ثابت ہوئے لیکن وہ اس کے باوجود سچے ہیں اور میری کوئی بات غلط ثابت نہیں ہوئی لیکن میں اس کے باوجود غلط بھی ہوں اور جھوٹا بھی! کیا یہ انصاف ہے؟ کیا یہ نیا پاکستان ہے؟۔
اب سوال یہ ہے، کیا یہ دھرنا انقلاب تھا یا سازش اور کیا یہ سازش عمران خان نے تیار کی تھی؟ ہمیں اس سوال کے جواب کے لیے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑے گی؟ محمد زبیر نجکاری کے وزیر ہیں، یہ پی ٹی آئی کے ایم این اے اسد عمر کے بھائی بھی ہیں، یہ 23 جولائی کو دعویٰ کرتے ہیں ’’جنرل شجاع پاشا نے پی ٹی آئی کا 2011 ء کا جلسہ کامیاب بنانے کے لیے کارپوریٹ سیکٹر کے اہم لوگوں کو بلا کر کہا، آپ لوگ پی ٹی آئی کو سپورٹ کریں۔
میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا‘‘ وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی دعویٰ کیا، دھرنے کے پیچھے آئی ایس آئی کے دو سابق چیفس جنرل احمد شجاع پاشا اور جنرل ظہیر الاسلام تھے، جنرل ظہیر الاسلام 7 نومبر 2014ء تک آئی ایس آئی کے سربراہ رہے، عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے دھرنے ان کے دور میں اسلام آباد میں خیمہ زن تھے۔
آپ ان دونوں الزامات کی تحقیقات کرا لیں، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا، وہ شخص بھی سامنے آنا چاہیے جس کے بارے میں اسلام آباد کے مختلف حلقوں میں سرگوشیاں سنائی دے رہی ہیں، یہ شخص سابق سرکاری ملازم تھا، اس کے گھر سے تیس کروڑ روپے کی رقم برآمد ہوئی، یہ رقم ملک کے اعلیٰ ترین ادارے نے برآمد کی، یہ رقم کہاں سے آئی؟ کیا یہ ’’رقم‘‘ جمع کرنے والا اکیلا شخص تھا؟ اگر نہیں تو باقی لوگ کون کون تھے؟ اور یہ لوگ رقم ’’جمع‘‘ کر کے کہاں کہاں پہنچاتے تھے اور کہیں خدانخواستہ اس رقم کا کوئی حصہ دھرنے میں استعمال تو نہیں ہوا؟ آپ جاوید ہاشمی سے بھی پوچھیں، دھرنے کی فنڈنگ کہاں سے ہوتی تھی اور اخراجات کا حکم کون دیتا تھا۔
یہ اگر محض چندہ تھا تو پھر یقینا چندہ دینے والوں کے نام اور پتے بھی ہوں گے، وہ لوگ کہاں ہیں؟ آپ اخراجات کی تفصیلات کو آمدنی کے ساتھ میچ کر کے دیکھیں، آپ یہ بھی دیکھیں، مئی 2014ء کے کن کن دنوں میں چوہدری صاحبان، علامہ طاہر القادری اور عمران خان لندن میں تھے، ان دنوں کون کون سا اینکر پرسن بھی لندن تھا اور دھرنے کے دوران اس اینکر پرسن کے خیالات کیا تھے؟ کیا وہ دھرنے میں بھی نظر آتا رہا؟ آپ یہ بھی معلوم کریں وہ کون تھا جس نے رات تین بجے وزیراعظم کو جگا کر مشورہ دیا تھا، آپ 40 دن کی چھٹی پر چلے جائیں اور یہ پیغام کس نے بھجوایا تھا؟ آپ پی ٹی آئی کے ایم این ایز سے بھی پوچھیں، وہ کون تھا جو آخری وقت تک عمران خان کے کان بھرتا رہا اور جو عمران خان کو اس لیول پر لے آیا جس پر خان صاحب کو نہیں آنا چاہیے تھا اور آپ حامد خان سے بھی پوچھیں، وہ کب اور کہاں کہاں کہتے رہے۔
ہم کمیشن میں دھاندلی ثابت نہیں کر سکیں گے اور کوئی ایک شخص اس دعویٰ کو جھٹلاتا رہا، وہ کون تھا اور اس نے بالآخر عمران خان کو وہاں پہنچا دیا جہاں انھیں نہیں پہنچنا چاہیے تھا لیکن یہ حقائق اپنی جگہ مگر میں دل سے سمجھتا ہوں عمران خان اچھے انسان ہیں، یہ قوم کے لیے کچھ کرنا بھی چاہتے ہیں، یہ ملک کی آخری امید بھی ہیں لیکن یہ بدقسمتی سے استعمال ہو گئے اور یہ اب بھی استعمال ہو رہے ہیں، میری دعا ہے اللہ تعالیٰ عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف دونوں کو سلامت رکھے، کیوں؟ کیونکہ اگر پی ٹی آئی کو نقصان ہوا، اگر یہ پارٹی عوامی حمایت کھو بیٹھی تو ملک میں ایک وسیع سیاسی خلا پیدا ہو جائے گا اور یہ خلا بعد ازاں مذہبی شدت پسند پر کریں گے اور اگر یہ لوگ سامنے آ گئے تو پاکستان میں داعش جیسی تنظیموں کے جھنڈے لہرائیں گے اور وہ دن پاکستان اور نظریہ پاکستان دونوں کا آخری دن ہو گا۔
اللہ ہمیں اس انجام سے بچائے۔

چھ ہزار چار سو اسی گھنٹے
جاوید چوہدری اتوار 26 جولائ 2015

میں نے تنہائی کو انجوائے کرنا خواجہ صاحب سے سیکھا تھا، خواجہ صاحب مجھے ایک دن مارگلہ کی پہاڑیوں پر لے گئے، انھوں نے پیر سوہاوہ کے قریب گاڑی رکوائی، مجھے نیچے اتروایا اور پہاڑی کی پگڈنڈی پر چل پڑے۔
ہم چلتے چلتے ایک وادی میں آ گئے، پہاڑ کے دامن میں کوئی گاؤں تھا، یہ شام کا وقت تھا اور ڈوبتے ہوئے سورج کی شعاعیں مکانوں کی چھتوں سے منعکس ہو رہی تھیں، گاؤں کے درمیان سے پانی کا نالا گزر رہا تھا اور ہم جس زاویے پر کھڑے تھے اس سے ہمیں پانی میں آسمان کی نیلاہٹ اور ڈوبتے سورج کی سرخی ایک دوسرے میں گھلتی دکھائی دے رہی تھی۔ گاؤں کے چاروں طرف جنگل تھا، مجھے ایک لمحے کے لیے محسوس ہوا یہ منظر ایک پیالہ ہے جس کے پیندے میں سرخ ٹماٹروں کا گودا پڑا ہے جب کہ کسی ماہر شیف نے پیالے کی گول دیواروں پر پودینے کی چٹنی کا لیپ کر دیا ہے۔
میں نے ایک لمبی سانس لی اور خواجہ صاحب کی طرف دیکھا، وہ مسکرائے اور آگے چل پڑے، میں بھی ان کے پیچھے چل پڑا۔ ہم گھنٹہ بھر چلتے رہے، اسی دوران گاؤں اور چٹنی سے بھرا پیالہ دونوں پگڈنڈی کے کسی موڑ میں گم ہو گئے، سفر کے دوران سورج نے بھی ہمارا ساتھ چھوڑ دیا اور رات آہستہ آہستہ ہمارے راستے میں حائل ہونے لگی۔ میرے دل میں خوف ٹشو پر گرے سیاہی کے دھبے کی طرح آہستہ آہستہ پھیل رہا تھا لیکن میں خواجہ صاحب کے احترام میں چپ چاپ چلتا رہا، خواجہ صاحب تھوڑی دیر بعد رک گئے، یہ ایک عجیب جگہ تھی، دس دس فٹ کے فاصلے پر دو چٹانیں تھیں۔
چٹانوں کے سامنے پچاس ساٹھ فٹ اونچی چھوٹی سی پہاڑی تھی اور پہاڑی سے مختلف رنگوں کی روشنیاں آسمان کی طرف اٹھ رہی تھیں، چٹانوں کی دوسری طرف وہ پگڈنڈی تھی جس پر ہم کھڑے تھے اور ہماری پشت پر ایک گھنا سیاہ جنگل تھا اور اس جنگل سے جنگلی کیڑوں کی ہزاروں قسم کی آوازیں آ رہی تھیں۔
میں نے خواجہ صاحب کی طرف دیکھا، وہ مسکرائے، انھوں نے دائیں چٹان کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا ’’آپ اس چٹان پر چڑھ کر بیٹھ جائیں، آپ نے آدھ گھنٹہ وہیں بیٹھے رہنا ہے اور خبردار آپ نے 30 منٹ تک یہ جگہ نہیں چھوڑنی‘‘ میں نے بے بسی سے ان کی طرف دیکھا، چٹان پر چڑھا اور چپ چاپ بیٹھ گیا۔ خواجہ صاحب دوسری چٹان پر بیٹھے، انھوں نے کندھے سے رومال اتارا، سر پر ڈالا اور راجپوت عورتوں کی طرح گھونگھٹ نکال کر بیٹھ گئے۔ میں نے دائیں بائیں دیکھا، پھر سامنے نظر دوڑائی اور پہاڑی کی دوسری طرف اٹھنے والی روشنیوں کے بارے میں سوچنے لگا۔
میں نے سوچا، یہ روشنیاں کہاں سے آ رہی ہیں؟ مجھے شروع شروع میں محسوس ہوا سی ڈی اے نے پہاڑ پر لائٹس لگا رکھی ہیں اور یہ روشنیاں انہی لائٹس کی پیداوار ہیں لیکن میں نے جلد ہی یہ خیال ذہن سے جھٹک دیا کیونکہ سڑک سے دو گھنٹے کی پیدل واک پر لائٹس لگوانے کی کوئی تُک نہیں بنتی تھی۔
میں نے سوچا یہ روحانی روشنیاں ہیں اور کسی قطب، کسی ابدال نے ان کا بندوبست کیا ہے اور خواجہ صاحب اپنی روحانی لو بلند کرنے کے لیے یہاں آئے ہیں مگر میں نے چند لمحوں میں یہ خیال بھی جھٹک دیا کیونکہ ابدال اور قطب کسی ایک جگہ کو روحانی مقام نہیں بننے دیتے۔ میں نے سوچا یہ شیطانی روشنیاں ہیں اور ان کا مقصد لوگوں کو گمراہ کرنا ہے لیکن میں نے جلد ہی یہ خیال بھی ذہن سے جھٹک دیا کیونکہ اگر یہ روشنیاں واقعی شیطانی ہوتیں تو پھر خواجہ صاحب کبھی یہاں نہ آتے اور اس کے بعد روشنیوں کا گورکھ دھندہ میرے ذہن میں پھیلتا چلا گیا۔
میرے ذہن میں ہر سیکنڈ بعد روشنیوں کے بارے میں کوئی نہ کوئی نیا تھیسس پیدا ہوتا اور میں اگلے ہی سیکنڈ میں کسی نہ کسی جواز، کسی نہ کسی دلیل کی الکلی سے اس تھیسس کے تیزاب کو نمک بنا دیتا۔ یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ خواجہ صاحب نے گھونگھٹ اٹھایا، مسکرا کر میری طرف دیکھا اور فرمایا ’’چلیں‘‘ میں نے قید با مشقت سے رہائی پانے والے قیدی کی طرح فوراً چٹان سے چھلانگ لگا دی، اور چپ چاپ خواجہ صاحب کے پیچھے چل پڑا، یہ ایک گہری سیاہ بلکہ اندھی رات تھی اور ہم دونوں پیدائشی نابیناؤں کی طرح ٹٹول ٹٹول کر راستہ تلاش کر رہے تھے، میرے اندر شدید بے چینی تھی، میں خواجہ صاحب سے اس ساری خواری کی وجہ معلوم کرنا چاہتا تھا لیکن خواجہ صاحب کی ساری توجہ راستے پر تھی، ہم راستے سے الجھتے، لڑتے اور بگڑتے ہوئے تین گھنٹوں میں گاڑی تک پہنچے۔
ہم نے واپسی کا سفر شروع کر دیا، دامن کوہ کے قریب پہنچ کر خواجہ صاحب نے فرمایا ’’انسان ماں کے پیٹ میں نو ماہ تک تنہا رہتا ہے، تنہائی کے ان دو سو ستر دنوں میں اس کے پاس ماں کے دل کی دھڑکن اور اندھیرے کے سوا کچھ نہیں ہوتا، اندھیرے اور تنہائی کے ان دو سو ستر دنوں میں وہ آہستہ آہستہ لیکوڈ سے سالڈ کی شکل اختیار کرتا ہے۔
اس کے تمام اعضاء درخت کی شاخوں کی طرح ایک ایک کر کے جنم لیتے ہیں یہاں تک کہ وہ ماں کے دل کی دھڑکن کو سمجھنے لگتا ہے اور باہر کی روشنیاں ماں کے پیٹ کی دیواروں سے چھن چھن کر اس تک پہنچنے لگتی ہیں اور وہ ان روشنیوں کی ماہیت کا اندازہ لگا نے کی کوشش شروع کر دیتا ہے‘‘ میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا، وہ بولے ’’اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے ستر لاکھ لذتیں پیدا کی ہیں لیکن اللہ نے سب سے بڑی لذت تنہائی میں رکھی ہے‘‘ وہ رکے، انھوں نے سانس لیا اور بولے ’’تم تنہائی کی لذت کا اندازہ صرف اس بات سے لگا لو کہ اللہ کے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی میجی ٹیشن (مراقبے) کے لیے جنگلوں، پہاڑوں، غاروں اور ویرانوں میں جاتے تھے اور اس عمل میں انھیں اس قدر لذت محسوس ہوتی تھی کہ وہ غاروں تک محدود ہونے کی کوشش کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کو وحی کے ذریعے انھیں واپس بستیوں میں جانے اور لوگوں کو دعوت دینے کا حکم دینا پڑتا تھا۔
یہ نبی بعثت کے بعد بھی ویرانوں، جنگلوں اور غاروں کی طرف بھاگتے رہے اور اللہ تعالیٰ انھیں ہر بار واپس بھجواتا رہا۔ تم اولیائے کرام کو بھی دیکھو، تمام اولیائے کرام خانقاہوں، حجروں اور کوٹھڑیوں میں محدود ہونے کی کوشش کیوں کرتے ہیں؟ درویش اپنی شناخت لوگوں میں کیوں گم کر دیتے ہیں کیونکہ یہ لوگ بھی تنہائی کی لذت، تنہائی کی برکتوں سے واقف ہوتے ہیں چنانچہ یہ تنہائی کو انجوائے کرتے ہیں‘‘ وہ رکے اور چند لمحے بعد بولے ’’تنہائی کتنی عظیم چیز ہے تم اس کا اندازہ زندگی کے آغاز اور موت جیسے اختتام سے لگا لو، اللہ تعالیٰ انسان کو پیدا ہونے سے قبل دو سو ستر دن تک اکیلا رکھتا ہے۔
وہ انسان کو پیدا بھی تنہا کرتا ہے، انسان مرتا بھی اکیلا ہے اور مرنے کے بعد حشر تک قبر میں بھی اکیلا رہتا ہے۔۔ کیوں؟ یہ تنہائی ہے! اور یہ تنہائی کی لذت ہے!۔ تنہائی اس قدر عظیم نعمت ہے کہ جب انسان پیدا ہوتا ہے تو وہ تنہائی چھن جانے پر چیخ کر احتجاج کرتا ہے‘‘ وہ رکے اور دوبارہ بولے ’’ساری عبادتیں، ساری نمازیں اور ساری دعائیں کیا ہیں؟ یہ بھی ایک مختصر تنہائی ہیں، ہم نماز شروع کرنے سے پہلے کیا کرتے ہیں؟ ہم اپنے آپ کو تنہا کرتے ہیں اور اس کے بعد خود کو اللہ کے دربار میں کھڑا کر دیتے ہیں، ایسا کیوں ہے؟ اس لیے کہ تنہائی دنیا کی واحد چیز ہے جو انسان کو اللہ سے جوڑتی ہے۔
جو اسے اللہ کا قرب عطا کرتی ہے اور یہ قرب ہی بنیادی طور پر وہ لذت ہوتی ہے جسے انسان پیدائش سے قبل اور انتقال کے بعد محسوس کرتا ہے چنانچہ اگر تم زندگی کو انجوائے کرنا چاہتے ہو، تم زندگی کی اصل لذت کو محسوس کرنا چاہتے ہو تو کبھی کبھی پہاڑ کی کسی چٹان پر آ کر اکیلے بیٹھ جایا کرو، کسی جھیل کے کنارے جایا کرو، کسی خوبصورت منظر میں اتر جایا کرو اور کبھی کبھی کسی ایسی اجنبی جگہ چلے جایا کرو جہاں تمہیں کوئی نہ جانتا ہو اور تم کسی خاموش جگہ بیٹھ کر اپنے ارد گرد دیکھا کرو، تمہیں ایک ایسی لذت محسوس ہو گی جو ہزاروں محبتیں مل کر نہیں دے سکتیں‘‘۔
وہ رکے اور نرم آواز میں بولے ’’انسان کو زندگی کو سمجھنے کے لیے زندگی میں 270 دنوں کے برابر تنہائیاں درکار ہوتی ہیں، یہ چھ ہزار چار سو اسی گھنٹے بنتے ہیں چنانچہ انسان کو یہ ساڑھے چھ ہزار گھنٹے اپنے آپ کو ضرور دینے چاہئیں کیونکہ ان کے بغیر یہ زندگی کے مقصد کو نہیں سمجھ سکتا‘‘ اور وہ دن ہے اور آج کا دن ہے میں تنہائی کو انجوائے کرنے کا کوئی موقع ضایع نہیں کرتا۔

وہ کیا ہیں اور ہم کیاہیں
جاوید چوہدری جمعـء 24 جولائ 2015

وہ دسمبر 1998ء کی ایک سرد رات تھی، وہ اپنی سرکاری رہائش گاہ میں سو رہا تھا، خوابوں کا سلسلہ جاری تھا، خواب فوکس ہوتے جا رہے تھے یہاں تک کہ اس نے دیکھا وہ ایک ایسے مصنوعی سیارے پر بیٹھا ہے جو زمین کے انتہائی قریب ہے اور وہ اس جگہ سے کھلی آنکھوں سے پوری زمین دیکھ سکتا ہے۔
زمین قطب جنوبی سے قطب شمالی تک کھلی کتاب کی طرح اس کے سامنے رکھی تھی اور وہ کرہ ارض پر پھیلے ایک ایک دریا، ایک ایک ندی، ایک ایک شہر اور ایک ایک کھیت کو دیکھ رہا تھا، وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا، کمرے میں گھپ اندھیرا تھا، وہ اس اندھیرے میں اپنے بیڈ پر پریشان بیٹھا تھا، نیند میں دیکھا خواب ابھی تک اس کے دماغ کی اسکرین پر زندہ تھا، اس نے لیمپ جلایا، ڈائری اٹھائی، زمین کا نقشہ بنایا، زمین کے اوپر مصنوعی سیارہ بنایا اور سیارے کے نیچے کیمرے کا نشان بنا دیا، اس نے گھڑی دیکھی، رات کے تین بجے تھے، وہ دوبارہ سو گیا، اگلی صبح انقلاب کی صبح تھی۔
وہ گھر سے سیدھا ناسا کے دفتر گیا، ناسا کے ڈائریکٹر سے ملا، اپنا خواب سنایا، نقشہ دکھایا اور اس سے پوچھا ’’ کیا یہ ممکن ہے، ہم فضا میں اس زاویئے پر سیٹلائیٹ بھجوائیں اور سیٹلائیٹ پوری زمین کی تصویر بنا کر نیچے بھیج دے‘‘ ڈائریکٹر نے زمین کی ہیئت اور زاویئے کا جائزہ لے کر جواب دیا ’’ یس ایل گور یہ ممکن ہے‘‘ ڈائریکٹر کا کہنا تھا ’’ ہمیں اگر سو ملین ڈالر مل جائیں تو ہم یہ منصوبہ تین سال میں مکمل کر سکتے ہیں‘‘ اس نے ڈائریکٹر کے ساتھ ہاتھ ملایا اور اپنے دفتر آ گیا، وہ بہت جذباتی ہو رہا تھا، اسے جذباتی ہونا بھی چاہیے تھا، کیوں؟ کیونکہ اس وقت تک کسی کیمرے نے پوری زمین کی تصویر نہیں کھینچی تھی۔
انسان کے پاس زمین کی صرف ایک تصویر تھی، یہ تصویر 1972ء میں اپالو 17 سے اس وقت لی گئی جب وہ چاند سے زمین کی طرف واپس آ رہا تھا لیکن وہ تصویر بھی زیادہ واضح نہیں تھی، ہمارے نیوی گیشن سسٹم میں جتنی تصویریں موجود ہیں، یہ چھوٹی چھوٹی تصویریں جوڑ کر بنائی گئی ہیں، انسان ہزاروں سال سے زمین کی ایک ایسی تصویر کا منتظر ہے جس کے ذریعے وہ کرہ ارض کو بھی دیکھ سکے اور زمین پر وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ بھی کر سکے۔
انسان صدیوں سے یہ کوشش کر رہا ہے، مصنوعی سیاروں کے دور میں اس کوشش میں اضافہ ہو گیا لیکن ماہرین کو کوئی ایسا زاویہ نہیں مل رہا تھا جس سے پوری زمین ان کے سامنے آ سکے اور کوئی ایسا کیمرا بھی ایجاد نہیں ہوا تھا جس کے ذریعے دنیا کو ایک ’’کلک‘‘ میں محفوظ کیا جا سکے، قدرت نے پھر خواب کے ذریعے اسے یہ زاویہ بھی دکھا دیا اور پورا منصوبہ بھی سمجھا دیا، وہ جذباتی تھا، وہ جلد سے جلد اس منصوبے کو مکمل دیکھنا چاہتا تھا، وہ صدر کے پاس گیا اور اس تاریخ ساز منصوبے کی اجازت لے لی۔
وہ شخص کون تھا؟ وہ امریکا کے نائب صدر البرٹ آرنلڈ ایل گور تھے، ایل گور 1993ء سے 2001ء تک امریکا کے نائب صدر رہے،انھوں نے 2000ء میں صدارتی الیکشن لڑا لیکن وہ جارج بش کے ہاتھوں ہار گئے، ماحولیات ایل گور کا جنون ہے، یہ 1976ء سے ماحولیاتی تبدیلیوں پر کام کر رہے ہیں، انھوں نے دنیا کو ماحولیاتی آلودگی سے بچانے کے لیے ایک این جی او بھی بنا رکھی ہے، یہ 2000ء کے بعد خود کو ماحولیات تک محدود کر چکے ہیں۔
ایل گور کو 2007ء میں ماحولیات اور موسمی تبدیلیوں پر خدمات کے صلے میں نوبل انعام سے بھی نوازا گیا، ایل گور نے 1998ء میں صدر بل کلنٹن کی مدد سے وہ منصوبہ شروع کرایا جس کی ’’بشارت‘‘ انھیں خواب کے ذریعے ہوئی، اس منصوبے کو ایل گور کی مناسبت سے ’’ایل گور سیٹلائیٹ‘‘ کا نام دیا گیا، یہ منصوبہ 17 سال جاری رہا، یہ سیاست کی نذر بھی ہوا، یہ رکا، چلا اور پھر رکا لیکن یہ بالآخر تین دن قبل مکمل ہو گیا، ایل گور سیٹلائیٹ فضا میں اس زاویے پر پہنچ گیا جہاں سے یہ اب پورے کرہ ارض کی تصویر بنا سکتا ہے، اب سوال یہ ہے اس منصوبے سے بنی نوع انسان کو کیا فائدہ ہو گا؟
آپ یقین کیجیے ایلگور سیٹلائیٹ انسانی زندگی کی شکل بدل دے گا، یہ سیارہ ہر دو گھنٹے بعد زمین کی مکمل تصویر ناسا کو بھجوائے گا، اس کے بعد پورے کرہ ارض پر آنے والی موسمی تبدیلیوں کو سمجھنا آسان ہو جائے گا، قطب جنوبی، ماؤنٹ ایوریسٹ اور کے ٹو پر برف کے کسی تودے میں جب بھی تبدیلی ہو گی، بادل کے ٹکڑے جب بھی سائبیریا سے چین کی طرف چلیں گے، بحرالکاہل کی موجوں میں جب بھی کسی موج کا اضافہ ہو گا، صحرائے گوپی میں جب بھی ریت کا کوئی ٹیلہ کروٹ بدلے گا، بلیک فاریسٹ یا ایمازون میں جب بھی درخت کٹیں گے۔
پینگوئن کے خاندان قطب شمالی سے جب بھی نقل مکانی کریں گے یا پھر جب بھی کوئی نیا آتش فشاں ایکٹو ہو گا، اوزون کی تہہ میں کوئی نئی تبدیلی آئے گی یا پھر عرب کے صحراؤں میں گردوغبار کا کوئی طوفان اٹھے گا، پوری دنیا صرف دو گھنٹوں میں اس تبدیلی اور اس تبدیلی کے اثرات سے آگاہ ہو جائے گی، یوں دنیا کے 245 ممالک حادثوں، زلزلوں، سونامیوں، خشک سالیوں، آتش فشانیوں اور سیلابوں سے قبل اپنا بندوبست کر لیں گے، یہ سیٹلائیٹ مستقبل میں انسانیت کا بہت بڑا خادم ثابت ہو گا لیکن سوال یہ ہے کیا پاکستان بھی ایل گور سیٹلائیٹ سے فائدہ اٹھانے والے ممالک میں شامل ہو گا؟
اس کا جواب دو کلو میٹر طویل ناں ہے کیونکہ ہم پاکستانی اللہ تعالیٰ کی ایسی مخلوق ہیں جنہوں نے آج تک دو سو سال پرانی ٹیکنالوجی سے فائدہ نہیں اٹھایا، ہم آگ کو بھوسے میں چھپانے والے لوگ ہیں، ہم چوٹ پر برف رکھتے ہیں اور اعلان کر دیتے ہیں ’’ہمارا علاج مکمل ہو گیا‘‘ ہم ڈوبتے شخص کو رسی پکڑانے کے بجائے دعائیں شروع کر دیتے ہیں اور یوں وہ جان اور ہم ایمان سے جاتے ہیں اور ہم لوگ دریاؤں کو سمندروں میں گراتے ہیں اور اس کے بعد بالٹیاں اٹھا کر گلی گلی پانی کی بھیک مانگتے ہیں، ہم کمال لوگ ہیں اور کمال لوگوں کو ایل گور سیٹلائیٹ جیسی ٹیکنالوجی کی ضرورت نہیں ہوا کرتی، ہمیں صرف بجانے کے لیے ڈھول اور سیاپے کے لیے عمران خان چاہیے ہوتے ہیں اور یہ دونوں نعمتیں ہمارے پاس وافر ہیں۔
آپ کو اگر اپنی صلاحیتوں پر یقین نہ آئے تو آپ صرف سیلابوں کا تیس سال کا ڈیٹا نکال لیجیے، آپ حیران رہ جائیں گے، ہم 30 برسوں سے سیلابوں کا شکار ہو رہے ہیں، ملک میں چھ برس سے مسلسل تباہ کن سیلاب آ رہے ہیں، ہم ہر سال ملک کے ایک تہائی حصے کو پانی میں ڈوبا دیکھتے ہیں، سکردو سے کراچی تک کہاں کہاں پانی نہیں آتا اور یہ پانی کس کس شہر، کس کس گاؤں کو تباہ نہیں کرتا، عمارتیں بہہ جاتی ہیں، مال مویشی مر جاتے ہیں۔
فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں، سڑکیں اور پل ٹوٹ جاتے ہیں اور لوگ مر جاتے ہیں لیکن ہم نے لوگوں کو سیلابوں سے بچانے کے لیے کیا کیا؟ ہم آج تک ندی، نالوں اور دریاؤں میں موجود تجاوزات نہیں ہٹا سکے، ہمارے ملک میں کوئی بھی شخص، کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ عمارت کھڑی کر سکتا ہے اور کوئی اس سے سوال تک نہیں کرتا، ہمارے دریاؤں میں ہاؤسنگ اسکیمیں بن چکی ہیں، فیکٹریاں لگی ہیں لیکن ہم نے آج تک ملک میں بلڈنگ کنٹرول کا کوئی مضبوط نظام نہیں بنایا، ملک میں سیلاب کی وارننگ تک کا نظام موجود نہیں، بین الاقوامی ادارے ای میل کرتے رہتے ہیں مگر ہم ای میل پڑھنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کرتے، ہم آج تک سیلابوں میں پھنسے لوگوں کو نکالنے کے لیے کشتیاں تک پوری نہیں کر سکے، ہم نے خیمے، ادویات اور خوراک کی سپلائی تک کا کوئی نظام نہیں بنایا، بھارت میں 5000 ڈیم ہیں، چین نے 22 ہزار ڈیم بنا لیے۔
چین تین بڑے ڈیموں سے 22 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے لیکن پاکستان میں صرف 156 ڈیم ہیں، ہم ہمسایوں تک سے سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں، ہم آج بھی ڈیموں پر لڑ رہے ہیں، کالا باغ ڈیم آج بھی ملک میں گالی کی حیثیت رکھتا ہے، ہم سیلابوں میں ڈوبنے والی قوم ہیں لیکن پانی کی حالت یہ ہے، ہم سال میں صرف 15 دن پانی سے پوری کیپسٹی کے برابر بجلی پیدا کرتے ہیں، ہم باقی ساڑھے گیارہ مہینے اسی فیصد بجلی فرنس آئل سے حاصل کرتے ہیں، بھارت ساڑھے تین مہینے کا پانی ذخیرہ کرتا ہے، چین کے پاس چھ مہینے کا پانی اسٹور ہے جب کہ ہمارے پاس صرف 15 دن کا پانی ہوتا ہے، ہم برسات میں ڈوب کر مرتے ہیں اور باقی نو مہینوں میں بارش کی دعائیں کرتے ہیں۔
ہم نے آج تک نہیں سوچا ہم کم از کم اپنے کھیتوں میں چھوٹے چھوٹے جوہڑ ہی بنا لیں، یہ جوہڑ بارش کا پانی اکٹھا کریں گے اور یہ پانی بعد ازاں آب پاشی کے کام آئے گا، ہم پانی کے راستوں میں چھوٹی چھوٹی جھیلیں اور ڈیم ہی بنا لیں، یہ ڈیم، یہ جھیلیں پانی اسٹور کریں، یہ پانی آبپاشی کے کام بھی آئے اور یہ زمین میں پانی کا لیول بھی اونچا کرے اور یہ ڈیم سیلابوں کو بھی روکیں، ہم اگر کچھ نہیں کرتے تو ہم کم از کم پانی کی گزرگاہوں کے راستوں میں موجود تجاوزات ہی ختم کرا دیں، ہم پانی کو راستہ ہی دے دیں، ہم کیسی قوم ہیں، ہم پانی کے راستے میں مکان بنا لیتے ہیں، ہم خود ڈوب کر مر جاتے ہیں اور ہمارے حکمران عید منانے کے لیے دوبئی، لندن اور سعودی عرب چلے جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ایسی قوم پر عذاب نازل نہ کرے تو کیا کرے؟ کیا اسے پھول بھجوائے؟۔
آپ ایک لمحے کے لیے سوچئے ایل گور جیسے لوگ خواب بھی کیسے کیسے دیکھتے ہیں اور ہم لوگ کھلی آنکھوں کے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟ وہ کیا ہیں اور ہم کیا ہیں اور ہمیں ہم ہونے پر شرم تک نہیں آتی۔

کیا دیکھا،کیا سیکھا
جاوید چوہدری جمعرات 23 جولائ 2015

مسافر 16 گھنٹے کے مسلسل سفر کے بعد عید سے دو دن قبل اسلام آباد پہنچا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں 25 دن گزرے، یہ 25 دن مسافر کی زندگی کے 45 سالوں سے کتنے مختلف تھے؟ یہ وہ سوال تھا جو وہ سارا راستہ اپنے آپ سے پوچھتا رہا، جواب واضح تھا، مسافر نے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں بے شمار ایسی چیزیں دیکھیں جو باقی دنیا سے مختلف تھیں، مثلاً آسٹریلیا عیسائی دنیا کا واحد ترقی یافتہ ملک ہے جس میں پرائمری کے بعد لڑکیوں کے اسکول الگ ہو جاتے ہیں۔
ملک میں ’’کو ایجوکیشن‘‘ کی سہولت بھی موجود ہے، وہ والدین جو اپنی بچیوں کو مخلوط اسکولوں میں پڑھانا چاہتے ہیں، وہ بچیوں کو مخلوط اسکولوں میں بھجوا دیتے ہیں جب کہ باقی والدین لڑکوں کو مردانہ اسکولوں اور بچیوں کو زنانہ اسکولوں میں داخل کرا دیتے ہیں، یہ سہولت یورپ اور امریکا میں موجود نہیں، اسکول بارہ جماعتوں تک ہوتے ہیں، بارہ درجے پاس کرنے کے بعد طالب علم یونیورسٹیوں میں چلے جاتے ہیں، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ تعلیم کو بہت اہمیت دے رہے ہیں۔
آپ ملک میں کوئی بھی کام کرنا چاہیں ،آپ بال کاٹنا چاہیں یا انشورنس ایجنٹ بننا چاہیں یا پھر کشتی چلانا چاہیں آپ کے لیے ڈپلومہ ضروری ہو گا، آپ اس کے بغیر کوئی کام نہیں کر سکیں گے چنانچہ ملک بھر میں ہزاروں تعلیمی سینٹر کھلے ہیں، یہ سینٹر ’’آر ٹی او‘‘ کہلاتے ہیں، یہ ادارے شہریوں کو چھوٹے چھوٹے کورسز کرواتے ہیں، حکومت کورسز کرنے اور کروانے والوں دونوں کو امداد بھی دیتی ہے، کوئینز لینڈ اسٹیٹ میں حکومت ’’آر ٹی اوز‘‘ کو فی اسٹوڈنٹ کے لحاظ سے ادائیگی کرتی ہے، کاسٹ آف لیونگ زیادہ ہے چنانچہ آسٹریلین اور نیوزی لینڈ کے شہری اسکول کی تعلیم کے بعد یونیورسٹی جانے کے بجائے پروفیشنل کورس کرتے ہیں اور کام شروع کر دیتے ہیں۔
آپ کو اعلیٰ تعلیم کے رجحان میں اس کمی کے باعث یونیورسٹیوں میں زیادہ تر طالب علم غیر ملکی نظر آتے ہیں، آپ کسی یونیورسٹی میں چلے جائیں آپ کو وہاں چینی اور بھارتی طلباء کا قبضہ نظر آئے گا، حکومت اس مسئلے کو سیریس لے رہی ہے چنانچہ یہ یونیورسٹیوں سے فارغ ہونے والے طالب علموں کو شہریت دے کر انھیں وہیں رکھ لیتی ہے یوں ان کو سکلڈ لوگ بھی مل جاتے ہیں اور شہریوں کی ’’ٹیکس منی‘‘ بھی ضایع نہیں ہوتی، ان دونوں ملکوں نے چھوٹی اور مشکل جابز اپنے شہریوں کے لیے آسان بنا دی ہیں، تعمیرات ان دونوں ملکوں میں مہنگا ترین پیشہ ہے۔
آپ کو اس شعبے میں صرف آسٹریلین اور نیوزی لینڈ کے لوگ نظر آئیں گے، آپ کو سڑک سے کثیر منزلہ عمارت کی تعمیر تک صرف گورے دکھائی دیں گے لیکن آپ لیبارٹریوں، اسپتالوں، ٹیکس ڈیپارٹمنٹ اور فیکٹریوں میں چلے جائیں آپ کو وہاں غیر ملکی زیادہ نظر آئیں گے، یہ چیز ثابت کرتی ہے، حکومت کو جہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے یہ وہاں غیر ملکیوں کو شہریت کا لالچ دے کر ’’فٹ‘‘ کر لیتی ہے اور جہاں کم تعلیم اور معمولی ہنر سے کام چل سکتا ہے یہ وہاں اپنے لوگوں کو فوقیت دیتی ہے، حکومت نے آبادی اور وسائل دونوں پر کڑی نظر رکھی ہوئی ہے۔
آسٹریلیا کا رقبہ 76 لاکھ، 92 ہزار 24 مربع کلومیٹر ہے، یہ پاکستان سے نو گنا بڑا ملک ہے لیکن آسٹریلیا کی آبادی صرف دو کروڑ 38 لاکھ ہے گویا یہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان سے دس گنا چھوٹا ملک ہے، آسٹریلیا کا نوے فیصد رقبہ بے آباد ہے، یہ اگر چاہے تو یہ اس نوے فیصد رقبے پر پاکستان جیسے دس ملک آباد کر سکتا ہے لیکن یہ جانتا ہے ملکوں کو صرف رقبہ درکار نہیں ہوتا انھیں وسائل بھی چاہیے ہوتے ہیں چنانچہ یہ امیگریشن کے معاملے میں بہت سخت ہیں۔
یہ غیر ہنر مند لوگوں کو ملک میں نہیں گھسنے دیتے ہاں البتہ آپ اگر اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند ہیں اور آپ آسٹریلیا کے شہریوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں تو آسٹریلیا کے دروازے آپ کے لیے کھلے ہیں، آپ خواہ دنیا کے کسی بھی خطے، کسی بھی نسل اور کسی بھی عقیدے سے تعلق رکھتے ہوں آپ کو آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں خوش آمدید کہا جائے گا، پاکستانی ڈاکٹرز، انجینئرز اور کمپیوٹر ایکسپرٹس اس سہولت کا جی بھر کر فائدہ اٹھا رہے ہیں، آپ کو امریکا کے بعد آسٹریلیا میں سیکڑوں ڈاکٹر ملیں گے۔
حکومت وسائل کو بہت اہمیت دیتی ہے، یہ جانتی ہے ہم دنیا کو انڈسٹری میں مات نہیں دے سکیں گے چنانچہ انھوں نے زراعت کو اپنی صنعت بنا لیا، یہ لوگ لاکھوں ایکڑ پر گنا، کیلا، کپاس اور پھل اگاتے ہیں، آسٹریلین گائے اور بھیڑیں دنیا میں پہلے نمبر پر ہیں، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ ڈیری پراڈکٹس پیدا کرنے والے دنیا کے دس بڑے ممالک میں شمار ہوتے ہیں، یہ ہر سال 24 بلین ڈالر کی ڈیری مصنوعات بیچتے ہیں، دنیا کا مہنگا ترین شہد نیوزی لینڈ میں پیدا ہوتا ہے، یہ دونوں ملک دنیا بھر کو گوشت بھی سپلائی کرتے ہیں۔
آسٹریلیا میں پانی کم ہے چنانچہ حکومت نے جدید ترین ’’ایری گیشن‘‘ سسٹم ایجاد کرا لیا، یہ سسٹم دونوں ملکوں میں استعمال ہوتا ہے، آپ اس سسٹم سے کم پانی سے زیادہ فصل حاصل کرتے ہیں، آپ اپنے ٹوائلٹ کا فلش سسٹم دیکھئے، آپ کو فلش ٹینک کے ساتھ دو بٹن نظر آئیں گے، ایک بٹن دبانے سے پوری ٹینکی خالی ہو جاتی ہے جب کہ دوسرے بٹن سے صرف آدھا ٹینک استعمال ہوتا ہے، یہ سسٹم آسٹریلیا نے ایجاد کیا اور یہ اس وقت پوری دنیا میں رائج ہے، اس سے پانی کی بچت ہوتی ہے۔
مسافر 25 دن عام ٹونٹی کا پانی پیتا رہا، کیوں؟ کیونکہ پورے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں ٹونٹی کا پانی پینے کے لیے محفوظ ہے چنانچہ وہاں گورنر جنرل سے لے کر عام شہری تک لوگ ٹونٹی کا پانی پیتے ہیں، منرل واٹر صرف سفر کے دوران پیا جاتا ہے، آپ اس کے مقابلے میں پاکستان کا کوئی ایسا شہر دکھا دیجیے جس میں ٹونٹی کا پانی پیا جا سکتا ہو، ہمارے ملک میں وزیراعظم سے واسا کے چیئرمین تک اور وزیراعلیٰ سے عام شہری تک منرل واٹر پینے پر مجبور ہیں اور جو لوگ نہیں پیتے ان کی زندگی ڈاکٹروں اور اسپتالوں کی محتاج ہو جاتی ہے چنانچہ عوام کے پاس دو آپشن ہیں، یہ منرل واٹر کمپنیوں کو پیسے دیں یا پھر ڈاکٹروں اور فارما سوٹیکل کمپنیوں کی خدمت کریں۔
کاش ہم ملک کو صاف پانی ہی فراہم کر دیں۔ آسٹریلیا کی ٹرینوں کی نشستیں بھی مختلف ہیں، آپ نشست کی پشت کو کھینچ کر اس کا رخ بدل سکتے ہیں، سیٹ وہیں رہتی ہے لیکن بیک کو آگے اور پیچھے کیا جا سکتا ہے یوں آپ اپنا پورا رخ بدل سکتے ہیں، یہ بندوبست ٹرینوں کے رخ کو مد نظر رکھ کر کیا گیا، ٹرینوں میں انجن کبھی ڈبوں کے آگے لگتا ہے اور کبھی پیچھے چنانچہ گھنٹے بعد مسافروں کا رخ بدل جاتا ہے، وہ پہلے آگے کی طرف جا رہے ہوتے ہیں اور پھر ٹرین انھیں پیچھے سے کھینچ رہی ہوتی ہے، مسافر اس صورتحال میں کمفرٹیبل فیل نہیں کرتے چنانچہ حکومت نے اسپیشل سیٹس لگا دیں۔
مسافر اب ان سیٹس کو آگے پیچھے کر کے اپنا رخ بدل لیتے ہیں۔ مسافر کو آسٹریلیا میں ایک اور دلچسپ چیز بھی نظر آئی، آسٹریلیا کا ٹیکس ڈیپارٹمنٹ ہر سال انکم ٹیکس وصول کرنے کے بعد ٹیکس دہندہ کو ایک خط لکھتا ہے، یہ ٹیکس دہندہ کا شکریہ ادا کرتا ہے، ملکی معیشت کے اعداد و شمار دیتا اور پھر اسے بتاتا ہے آپ نے اس معیشت میں کتنا حصہ ڈالا اور اب آپ کا ٹیکس کہاں کہاں خرچ ہو گا، یہ خط مسافر کے لیے ایک دلچسپ چیز تھی کیونکہ اس خط میں حکومت وہ تمام معلومات عام شہری کے دروازے تک پہنچاتی ہے جو ہماری حکومتیں ملک کے خاص لوگوں تک سے خفیہ رکھتی ہیں، آسٹریلین حکومت ٹیکس کا سب سے بڑا حصہ صحت پر خرچ کرتی ہے، اس کے بعد ویلفیئر پر اور اس کے بعد تعلیم اور دفاع کی باری آتی ہے۔
آسٹریلین لوگ ناموں کو مختصر کرنے کے ماہر ہیں، میں وہاں پہنچ کر جاوید سے ’’جے و‘‘ مظہر میز تھا، رضوی رِز تھا، شہباز شیب تھا، عامر امیر تھا اور فیاض فیض۔ یہ ہر نام، ہر لفظ کو مختصر کر دیتے ہیں، فٹ بال کو پوری دنیا میں فٹ بال کہا جاتا ہے لیکن آسٹریلین فٹ بال کو ’’فٹی‘‘ کہتے ہیں، آسٹریلین فٹی اپنے نام کی طرح فٹ بال سے ذرا سا مختلف کھیل ہے، یہ لوگ یونیورسٹی کو ’’یونی‘‘ کہتے ہیں، مسافر نے دنیا کے کسی حصے میں یونیورسٹی کو یونی نہیں سنا۔ آسٹریلیا کے پاس کھلا آسمان اور وسیع ساحل ہیں، حکومت نے ان دونوں کو سیاحت کا ذریعہ بنا لیا، ملک میں ایسی سیکڑوں ہوائی کمپنیاں ہیں جو سیاحوں کو پیرا شوٹ کے ذریعے آسمان سے کودنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔
یہ کھیل ’’سکائی ڈائیو‘‘ کہلاتا ہے، مسافر نے بھی زندگی میں پہلی بار سڈنی کے مضافات میں ’’سکائی ڈائیو‘‘ کی، ہمیں جہاز کے ذریعے چودہ ہزار فٹ کی بلندی پر لے جایا گیا اور وہاں سے نیچے پھینک دیا گیا، یہ ایک ہولناک تجربہ تھا لیکن یہ اس کے ساتھ ساتھ شاندار تفریح بھی تھی، ساحلوں پر ’’سکوبا ڈائیونگ‘‘ بھی کرائی جاتی ہے، آپ کی پشت پر آکسیجن کا سیلنڈر باندھ کر آپ کو گہرے پانی میں پھینک دیا جاتا ہے اور آپ پانی میں میل ڈیڑھ میل نیچے جا کر آبی زندگی دیکھتے ہیں، مسافر پانی سے گھبراتا ہے چنانچہ یہ سکوبا ڈائیونگ نہ کر سکا۔
پاکستان سے لوگ پہلی بار 1861ء میں آسٹریلیا گئے تھے، یہ انگریز کا زمانہ تھا، آسٹریلیا آباد ہو رہا تھا، کراچی کے بلوچ اونٹ لے کر آسٹریلیا پہنچے اور یہ اور ان کے اونٹ آسٹریلیا میں رچ بس گئے، یہ لوگ آج بھی وہاں موجود ہیں لیکن یہ آسٹریلین بن چکے ہیں، یہ خان کی مناسبت سے ’’غان‘‘ کہلاتے ہیں، ان کی اکثریت مذہب تک تبدیل کر چکی ہے، آسٹریلیا میں 1861ء تک اونٹ نہیں تھا، پاکستانی خان اونٹ لے کر آسٹریلیا گئے، آج آسٹریلیا میں پاکستانی اونٹوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ یہ لوگ نہ صرف اونٹ ایکسپورٹ کرتے ہیں بلکہ یہ اونٹوں کی آبادی کنٹرول رکھنے کے لیے انھیں گولی مارنے پر بھی مجبور ہو جاتے ہیں۔
میلبورن کے قدیم ریلوے اسٹیشن کے ساتھ لوہے کا پرانا پل ہے، اس پل پر ان 128 ممالک کی تختیاں لگی ہیں جن کے باشندے آسٹریلیا میں موجود ہیں، ان 128 تختیوں میں پاکستان کی تختی بھی شامل ہے، تختی پر لکھا ہے، آسٹریلیا میں پاکستانی 1861ء سے آنا شروع ہوئے، یہ 1900ء سے قبل کراچی، لاہور، سیالکوٹ اور کے پی کے سے آئے، ان کی آمد کا سلسلہ آج بھی جاری ہے، مسافر تختی کے پاس رک گیا اور اس نے اپنے آپ سے پوچھا ’’رزق کتنی خوفناک چیز ہے، یہ انسان سے وطن بھی چھین لیتا ہے اور رشتے بھی‘‘ مسافر نے دیکھا، میلبورن کے اس پل پر 128 ممالک کی تختیوں کے سائے میں زندگی کی یہ سب سے بڑی حقیقت لکھی تھی۔
ہم انسان رزق کھاتے ہیں لیکن یہ رزق اکثر اوقات ہم انسانوں کے وطن سمیت سارے رشتے کھا جاتا ہے، ہم انسان کس قدر مظلوم ہیں، مسافر نے 25 دن کے اس سفر میں ہر جگہ یہ دیکھا، ہر جگہ یہ سیکھا۔

برسبین سے
جاوید چوہدری جمعـء 17 جولائ 2015

برسبین(Brisbane) ہماری اگلی منزل تھی، آپ اگر آسٹریلیا کا نقشہ بچھا کر دیکھیں تو آپ کو برسبین سڈنی کے دائیں جانب نظر آئے گا، سڈنی کے دائیں جانب گرم علاقے ہیں جب کہ آپ اگر سڈنی سے بائیں جانب چلیں تو موسم سرد ہوتا جاتا ہے،کینبرا میں بھی سردی پڑتی ہے اور میلبورن سڈنی سے زیادہ ٹھنڈا ہے، تسمانیہ سمندر میں گھرا ہوا آسٹریلین جزیرہ ہے، یہ جزیرہ نیوزی لینڈ کے قریب ہے، میلبورن بھی ٹھنڈا ہے۔
اس کے برعکس سڈنی سے دائیں جانب موسم گرم ہے یہاں تک کہ ڈارون میں شدید گرمی پڑتی ہے، ڈارون انڈونیشیا کے قریب ہے، آپ دو گھنٹے میں وہاں سے جکارتا پہنچ جاتے ہیں، ڈارون کا وقت بھی سڈنی اور میلبورن سے مختلف ہے، غیر قانونی طور پر آسٹریلیا آنے والے زیادہ تر لوگ کشتیوں پر انڈونیشیا سے ڈارون آتے ہیں اور ڈارون پہنچ کر آسٹریلیا میں سیاسی پناہ لے لیتے ہیں، برسبین سڈنی اور ڈارون کے درمیان ہے، یہ گنے، کیلے اور مالٹے کے باغات اور اپنے گرم خوبصورت ساحلوں کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے، دنیا کی مشہور ترین کوسٹل لائین ’’گولڈ کوسٹ‘‘ بھی برسبین کے ہمسائے میں واقع ہے۔
ہم بدھ کے دن برسبین پہنچ گئے، یہ 915 کلو میٹر لمبی ڈرائیو تھی، راؤ عامر تحریم برسبین میں ہمارا انتظار کر رہے تھے، یہ بہاولپور سے تعلق رکھتے ہیں، تعلیم کے لیے نیوزی لینڈ آئے، وہاں سے سڈنی آ گئے اور آخر میں گرافٹن اور برسبین کے مقیم ہو گئے، یہ بزنس مین ہیں، پٹرول پمپس بھی چلاتے ہیں اور کالج بھی۔ یہ کاروبار کی وجہ سے اپنا زیادہ وقت گاڑی میں گزارتے ہیں، ہم نے اس طویل سفر کی وجہ سے ان کا نام ’’راؤ پراڈو‘‘ رکھ دیا کیونکہ ہر ہفتے چار پانچ ہزار کلو میٹر کا سفر صرف وہ لوگ کر سکتے ہیں جو راؤ ہوں یا جنھیں مہینے میں صرف تین دن گیراج نصیب ہوتا ہو، راؤ صاحب بڑی شدت سے ہمارا انتظار کر رہے تھے، سفر شاندار تھا، ہمارے دائیں ہاتھ سمندر چل رہا تھا جب کہ بائیں ہاتھ چھوٹے چھوٹے گاؤں، چراہ گاہیں اور فارم ہاؤسز آ رہے تھے، گرافٹن پہنچ کر ماحول مزید خوبصورت ہو گیا، ہم سمندر اور دریا کے درمیان آ گئے۔
وہ صاف پانی کا نیلا دریا تھا جس میں سورج غسل کی تیاری کر رہا تھا، آپ کو زندگی میں کبھی کوئی دریا سفید بادلوں، میلوں تک پھیلے کھیتوں اور سیاہ گھنے جنگلوں کے قریب بہتا نظر آئے تو آپ وہاں ضرور رکیے اور وہ وقت اگر غروب آفتاب کا ہو تو وہاں نہ رکنا کفران نعمت ہو گا، کیوں؟ کیونکہ وہ منظر صرف منظر نہیں ہو گا وہ اللہ کی عظیم نعمت ہو گا اور آپ اس نعمت سے منہ موڑ کر اللہ تعالیٰ کو ناراض کر بیٹھیں گے، ہم بھی گرافٹن میں رک گئے، وہ کوئی اجنبی گاؤں تھا، دریا گاؤں کے قریب پہنچ کر شانت ہو گیا تھا، میں اور مظہر بخاری دریا کے کنارے اتر گئے، گاؤں کے لوگوں نے کشتیاں باندھنے کے لیے پانی میں لکڑی کے دوستون گاڑھ رکھے تھے، ہم ستونوں کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے اور دریا میں اترتے سورج کو دیکھنے لگے، وہ لمحہ بھی زندگی کے شاندار ترین لمحات میں سے ایک تھا۔
گرافٹن شہر دو حوالوں سے منفرد ہے، شہر کے مضافات میں وول گول گا(Wool Goolga)کا ٹاؤن ہے، قصبے میں کیلے کے میلوں تک پھیلے باغات ہیں، آپ کو وہاں تاحد نظر کیلے کے درخت نظر آتے ہیں، دوسرا حوالہ سکھ ہیں، یہ سکھ سن 1800ء کے آخر میں آسٹریلیا آئے اور ’’وول گول گا‘‘ آ کر کیلے کے باغات پر قابض ہو گئے، وہ دن ہے اور آج کا دن ہے آسٹریلیا میں سکھ اور کیلے دونوں ایک ہو چکے ہیں، کیلوں پر سکھوں کی باقاعدہ مناپلی ہے۔
وول گول گا کے سکھ آسٹریلیا میں اپنا روایتی لباس پہنتے ہیں، پنجابی بولتے ہیں اور بیساکھی کا تہوار مناتے ہیں، گاؤں میں دو گردوارے بھی موجود ہیں، یہ اپنے بچوں کی شادیاں پنجاب میں کرتے ہیں، بہو پنجاب سے سیدھی ’’وول گول گا‘‘ آتی ہے اور پھر پوری زندگی کیلے کے باغ میں گزار دیتی ہے، یہ گرافٹن تک نہیں جاتی، ہم واپسی پر ’’وول گول گا‘‘ بھی رکے، ہم گردوارے بھی گئے، ہم نے سکھوں سے ملاقات بھی کی اور کیلے کے باغ کی سیر بھی کی،یہ باغ ہمارے باغات سے بہتر ہیں، ہماری حکومت کو جدید تکنیک جاننے کے لیے اپنے ماہرین ’’وول گول گا‘‘ بھیجنے چاہئیں، یہ لوگ وہاں ہم سے زیادہ فصل لے رہے ہیں، کوئینز لینڈ اسٹیٹ گنے اور شوگر ملوں کی وجہ سے بھی پوری دنیا میں مشہور ہے۔
آپ اگر برسبین سے آ گے سفر کریں تو آپ کوبرسبین سے کینز تک سڑک کے دونوں اطراف ہزار کلو میٹر تک صرف اور صرف گنے کے کھیت نظر آتے ہیں، آپ کو کھیتوں کے درمیان شوگر ملیں بھی ملیں گی، ہم پاکستان میں کھیتوں سے گنا کاٹ کر ملوں تک پہنچاتے ہیں،وہاں یہ سسٹم نہیں، آسٹریلیا میں کھیتوں میں تھریشر مشینوں جیسی مشینیں لگی ہیں، یہ مشینیں کھیت سے گنا کاٹتی ہیں، اسے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں توڑتی ہیں۔
یہ ٹکڑے ٹرالیوں میں بھرے جاتے ہیں اور یہ ٹرالیاں سیدھی مل چلی جاتی ہیں، ہماری حکومت آسٹریلیا سے یہ ٹیکنالوجی برآمد کیوں نہیں کرتی؟ یہ کسانوں میں یہ تکنیک متعارف کیوں نہیں کراتی؟ ہم نے اپنے کسان کو روایتی کاشت کاری تک محدود کیوں کر رکھا ہے، کوئینز لینڈ میں پھرتے ہوئے یہ سوال بار بار میرے ذہن میں آتا تھا اور مجھے کوئی جواب نہیں ملتا تھا۔
برسبین میں 22 لاکھ لوگ رہتے ہیں لیکن یہ اس کے باوجود خاموش شہر ہے، رات نو بجے شہر میں سناٹا ہو جاتا ہے، دنیا کے تمام بڑے اور خوبصورت شہروں کی طرح برسبین بھی دریا کے دو کناروں پر آباد ہے، آدھا شہر ادھر ہے اور آدھا ادھر۔ شہر کے دونوں حصوں کو پلوں نے جوڑ رکھا ہے، ڈاؤن ٹاؤن میں بلند و بالا عمارتیں بھی تھیں اور رونق بھی۔ یہ شہر گولڈ کوسٹ کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاحوں کی حتمی منزل ہے چنانچہ آپ کو شہر میں دنیا جہاں کے لوگ ملتے ہیں۔
ہمارے اسلام آباد کی طرح وہاں بھی ایک ’’دامن کوہ‘‘ ہے، آپ وہاں سے پورے شہر کا نظارہ کر سکتے ہیں، دریا کے جنوبی کنارے پر مصنوعی بیچ بھی ہے، سوئمنگ پول بھی، پارک بھی اور سڑک کے ساتھ ساتھ ریستوران اور کافی شاپس بھی۔ اس جگہ رونق رہتی ہے، گولڈ کوسٹ برسبین سے پونے گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے، یہ ساحل سفید گرم ریت، نیلے پانی اور صاف آسمان کی وجہ سے مشہور ہے، حکومت نے ساحل کے ساتھ ساتھ درجنوں اسپاٹ بنا دیے ہیں۔ ’’سرفس پیرا ڈائز،، بڑا ٹاؤن ، آپ کو ٹاؤن میں سمندر کے کنارے فلیٹس کے آسمان بوس ٹاور نظر آتے ہیں، آسٹریلیا کے امراء غروب آفتاب اور طلوع آفتاب کا نظارہ کرنے کے لیے یہ فلیٹس خریدتے ہیں، ٹاؤن میں گرمی تھی اور خواتین مرد اور بچے گرم ریت پر لیٹ کر گرمی کا مزا لوٹ رہے تھے۔
ریستوران، کافی شاپس اور پب بھی آباد تھے، ہم جس طرف سر اٹھاتے تھے ہمیں لوگ ہی لوگ نظر آتے تھے، حکومت نے سیاحوں کی تفریح کے لیے جگہ جگہ گلوکار بٹھا رکھے تھے، یہ گلو کار ساز بجاتے تھے اور گانے گاتے تھے اور سیکڑوں لوگ ان کے سامنے کھڑے ہو کر ڈانس کر رہے تھے، یوں محسوس ہوتا تھا پورا شہر خوش ہے، سرفس پیراڈائز میں سکھ اور بھارتی زیادہ ہیں، یہ نوجوان ریستورانوں اور دکانوں میں کام کرتے ہیں۔
حکومت یہاں کام کرنے والوں کو پاسپورٹ جلدی دے دیتی ہے چنانچہ نوجوان سرفس پیراڈائز کا رخ کرتے ہیں۔’’بائرن بے‘‘ ہماری اگلی منزل تھی، یہ گولڈ کوسٹ پر دوسرا بڑا اور مشہور مقام ہے، یہ شہر ہپیوں کی جنت کہلاتا ہے، آپ کو ساحلی علاقے میں سیکڑوں کی تعداد میں ہیپی نظر آتے ہیں، یہ لوگ تہذیب، قانون اور معاشرت کو تسلیم نہیں کرتے، یہ شراب پیتے ہیں، چرس کے مرغولے اڑاتے ہیں، ناچتے ہیں اور گاتے ہیں اور یوں زندگی کا سفر مکمل کر کے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔
ہم بائرن بے پہنچے تو زندگی کی خوبصورت ترین شام ہمارا انتظار کر رہی تھی، آسمان پر رین بو کی دو کمانیں تنی تھیں، ہیپی مسحور ہو کر رین بو دیکھ رہے تھے، میں بھی ان کی اس ’’عبادت‘‘ میں شریک ہو گیا، میں نے سیکڑوں رین بو دیکھیں لیکن دو اکٹھی رین بو میری زندگی کا پہلا تجربہ تھا، میرے دائیں جانب رین بو تھیں اور بائیں جانب سورج ڈوب رہا تھا، وہ شام اف خدایا قیامت کی شام تھی، یوں محسوس ہوتا تھا لیونارڈو ڈاونچی اپنے برش رنگوں میں ڈبو رہا ہے اور مو قلم سے آہستہ آہستہ آسمان کے کینونس پر اپنی زندگی کی خوبصورت ترین شام پینٹ کرتا جا رہا ہے۔
سورج جوں جوں ڈوب رہا تھا توں توں آسمان کے تنے ہوئے خیمے کے کناروں پر آگ لگ رہی تھی، بادلوں کے پرے آگ بجھانے کے لیے آسمان کے کناروں کی طرف دوڑتے تھے اور سیاہ ہو کر افق کے کینوس پر بکھر جاتے تھے، میں مبہوت ہو گیا، وہ منظر منظر نہیں تھا وہ مقدس عبادت گاہ تھا، ایک ایسی عبادت گاہ جسے دیکھنے کے بعد آپ خود کو سجدے سے باز نہیں رکھ سکتے، آپ خود کو بارہ گاہ ایزدی میں جھکنے سے نہیں روک سکتے، میں ساحل کے آخری کونے پر رک گیا، میرے سامنے سمندر کا پانی جھاگ اڑا رہا تھا۔
سامنے سیاہ پڑتا آسمان تھا اور آسمان کے آنچل پر آگ لگی تھی، میں نے موبائل فون نکالا اور اس منظر کو اسکرین کے حافظے میں قید کر لیا، یہ منظر اب میرا منظر تھا، مجھے اس دن پہلی بار معلوم ہوا قدیم زمانوں کے لوگ سورج کو دیوتا کیوں بنا لیتے تھے، وہ یقینا ایسے منظر دیکھتے ہوں گے اور اس کے بعد افق کے سامنے جھک جاتے ہوں گے، میرے سامنے ہیپی سورج کے سامنے جھکے ہوئے تھے اور میں ٹکٹکی باندھ کر اللہ کی حمد و ثناء میں مصروف تھا۔
بے شک ہم اس کی کس کس نعمت کو جھٹلائیں گے۔
پینگوئن کے جزیرے پر
جاوید چوہدری منگل 14 جولائ 2015

میلبورن کے مضافات میں تین اٹریکشن تھیں، پہلی ہیلز وِلے (Healesville)کی سینکچری تھی، ہیلز وِلے میلبورن سے ایک گھنٹے کی مسافت پر یارا کے پہاڑی سلسلے میں واقع ہے، یہ گاؤں اپنی سینکچری (چڑیا گھر) کی وجہ سے پورے آسٹریلیا میں مشہور ہے، سینکچری چڑیا گھر ہوتا ہے لیکن یہ ہمارے چڑیا گھر سے مختلف ہوتا ہے، سینکچری میں جانوروں، پرندوں اور مچھلیوں کو قدرتی ماحول میں رکھا جاتا ہے، آپ جوں ہی سینکچری میں داخل ہوتے ہیں محسوس ہوتا ہے آپ جنگل میں آ گئے ہیں اور جنگلی جانور آپ کے دائیں بائیں گھوم پھر رہے ہیں۔
ہیلز وِلے کی سینکچری بھی ایک وسیع جنگل ہے جس میں آسمان کو چھوتے درخت بھی ہیں، گھاس بھی، پھول بوٹے بھی اور جھاڑیاں بھی، جھیلیں بھی اور آبشاریں بھی۔ ہیلز وِلے کے درمیان ایک وسیع اسٹیپی ہے، آپ کو اپنے دائیں بائیں دور دور تک انگوروں کے باغات نظر آتے ہیں، باغات کے ساتھ وائین فیکٹریاں ہیں، وائین فیکٹریوں کے ساتھ گھوڑوں، گائیوں اور بھیڑوں کے باڑے ہیں، دنیا میں چلتی گاڑیوں کے شیشے سے چرتے ہوئے گھوڑے، گائیں اور بھیڑیں دیکھنا ایک شاندار تجربہ ہوتا ہے، آپ سو کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آگے بڑھتے ہیں اور آپ کے ساتھ ساتھ منظر تبدیل ہوتے جاتے ہیں، ڈاکٹر شہباز نے مجھے سینکچری کے گیٹ پر ڈراپ کر دیا، میں اندر داخل ہوا اور مسمرائزڈ ہو گیا، یہ سینکچری جنگل تھی، جانور، پرندے اور آبی مخلوق قدرتی ماحول میں زندگی گزار رہی تھی، سینکچری کے اندر چھوٹی چھوٹی پگڈنڈیاں بنی تھیں۔
ان پر اسکولوں کے بچے اور فیملیزایک سیکشن سے دوسرے سیکشن میں آ جا رہے تھے، سینکچری میں تین دلچسپ چیزیں تھیں، پرندوں کا سیکشن لائف ٹائم تجربہ تھا، بلند و بالا درختوں اور بیلوں کے اوپر لوہے کی جالی لگی تھی، لوگ جالی دار دروازوں سے گزر کر داخل ہوتے تھے اور پرندوں کے عین درمیان کھڑے ہو کر انھیں محسوس کرتے تھے، پرندے ایک درخت سے اڑان بھر کر دوسرے درخت پر جاتے تھے اور آپ انھیں اپنے سامنے اڑتے اور چھلانگ لگاتے دیکھ کر حیران ہوتے تھے، یہ اچھا تجربہ تھا، دوسرا تجربہ آبی پرندوں کا سیکشن تھا، یہ سیکشن چھوٹی سی جھیل پر بنا تھا، یہ جھیل بھی جالیوں سے کور تھی، آپ جالی کا دروازہ عبور کر کے اندر داخل ہوتے تھے اور آبی پرندوں کو چٹانوں پر بیٹھے، پانی میں اترتے اور بھاگتے دوڑتے دیکھتے تھے۔
یہ بھی ایک دلچسپ تجربہ تھا لیکن سینکچری کا سب سے شاندار تجربہ جانوروں کا اسپتال تھا، سینکچری کے عین درمیان اسپتال کی خوبصورت اور جدید عمارت تھی، اسپتال میں باقاعدہ آؤٹ ڈور اور ان ڈور سیکشن تھا، آپریشن تھیٹر بھی تھا اور لیبارٹری اور فارمیسی بھی۔ میں آدھی سے زائد دنیا دیکھ چکا ہوں لیکن میں نے اتنا خوبصورت اور اچھا اسپتال نہیں دیکھا اور وہ بھی جانوروں کا اسپتال۔ اسپتال میں لومڑی کا آپریشن ہو رہا تھا، سرجن اندر آپریشن کر رہے تھے اور اسکول کے چھوٹے بچے شیشے کے ساتھ ناک جوڑ کر یہ آپریشن دیکھ رہے تھے، کاش ہمارے ملک کے حیوانات کے ماہرین یہ سینکچری دیکھیں، یہ اس سے سیکھیں اور پاکستان میں بھی کوئی ایک ایسی سینکچری بنائیں جسے دیکھ کر ہمارے بچے بھی خوش ہوں اور ہم بھی دنیا کو یہ پیغام دے سکیں ہم بھی جانوروں سے پیار کرتے ہیں۔
گمبویا پارک (Gumbuya Park) میلبورن کی دوسری بڑی اٹریکشن تھی، یہ بھی شہر کے مضافات میں ہے اور لوگ دنیا بھر سے یہاں آتے ہیں، ہم کینگروز، کوالا اور لاما دیکھنے وہاں گئے، یہ تینوں جانور صرف آسٹریلیا میں پائے جاتے ہیں، پارک میں کینگروز کا باقاعدہ سیکشن ہے اور آپ اس سیکشن میں داخل ہو کر کینگروز کو نہ صرف چھو سکتے ہیں بلکہ آپ انھیں کھلا بھی سکتے ہیں، کینگرو اللہ تعالیٰ کا عظیم معجزہ ہے، یہ جانور پچھلی دو ٹانگوں پر لمبے لمبے جمپ لگاتا ہے، مادر کینگرو کے پیٹ پر چھوٹی سی تھیلی ہوتی ہے، اس کا بچہ اس تھیلی میں پیدا ہوتا ہے۔
بچہ آہستہ آہستہ بڑا ہوتا ہے، ماں بچے کو تھیلی میں ڈال کر دوڑتی بھاگتی رہتی ہے، بچہ جب تک خود کو سنبھالنے کے قابل نہیں ہوتا یہ اس وقت تک تھیلی کے اندر رہتا ہے، یہ جوں ہی اپنے قدموں پر کھڑا ہو جاتا ہے ماں اسے تھیلی سے باہر نکال دیتی ہے تاہم یہ ابتدائی دنوں میں خطرے یا پریشانی کے عالم میں بچے کو تھیلی میں ڈال کر دوڑ پڑتی ہے، کینگرو کا منہ بکری کی طرح ہوتا ہے، یہ امن پسند جانور ہے اور یہ عموماً چارہ کھاتا ہے، میں نے گمبویا پارک میں زندگی میں پہلی بار کینگرو دیکھے، میں آدھا گھنٹہ ان کے ساتھ کھیلتا بھی رہا، یہ بکری کی طرح ہاتھ پر رکھی خوراک بھی کھا جاتے تھے، یہ بھی اچھا تجربہ تھا، پارک میں لاما کی جوڑی بھی موجود تھی، یہ طویل قامت بھیڑ ہوتی ہے۔
یہ بھی سیاحوں سے کھیلتی ہے تاہم یہ شرارتی جانور ہے، یہ سیاحوں کے ساتھ عموماً ایسا مذاق کرتا ہے جس سے وہ بے چارے عمر بھر کے لیے مذاق بن جاتے ہیں، آپ اسے جو کھلاتے ہیں یہ کھاتا جاتا ہے اور عین تصویر بنانے کے وقت یہ کھائی ہوئی خوراک ’’پھوں‘‘ کر کے کسی نہ کسی پر پھینک دے گا، وہ بے چارہ چیخ مارتا ہے اور لاما خوشی سے ڈانس شروع کر دیتا ہے، کوالا بھی آسٹریلیا کا جانور ہے، یہ دنیا کے سست ترین جانوروں میں شمار ہوتے ہیں، یہ سارا سارا دن سوئے رہتے ہیں، آپ کو کوالا شاذونادر ہی جاگتے نظر آئیںگے، یہ بھی اس پارک میں موجود تھے، پارک سینکچری کی طرح وسیع تھا، وہاں بچوں کے لیے جھولے بھی تھے اور باربی کیو ایریا بھی، لوگ وہاں آتے ہیں اور سارا دن گزار کر چلے جاتے ہیں۔
سینکچری اور گمبویا پارک اپنی جگہ لیکن میلبورن کی اصل اٹریکشن فلپ آئی لینڈ تھا، یہ میلبورن کے مضافات میں ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے، یہ پل کے ذریعے خشکی سے جڑا ہوا ہے، فلپ آئی لینڈ ایک پرسکون ٹاؤن ہے، آپ کو اس کی فضا میں ایک عجیب سی طمانیت کا احساس ہوتا ہے، میلبورن کا پہلا شخص فلپ آئی لینڈ میں آباد ہوا تھا، وہ شخص کیپٹن لاک تھا، کیپٹن لاک کا گھر آج بھی جزیرے میں موجود ہے، یہ اب ہوٹل بن چکا ہے، لوگ کیپٹن لاک کے بیڈ روم میں رہتے ہیں اور ماضی میں چلے جاتے ہیں، یہ جزیرہ میلبورن سے 140 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
یہ 26 کلو میٹر لمبا اور نو کلومیٹر چوڑا ہے، ساحل 97 کلو میٹر لمبا ہے، لوگ کم ہیں، آپ کو وہاں دس ہزار لوگ ملیں گے لیکن سیاح بے شمار آتے ہیں، آپ اگر فلپ آئی لینڈ کے پل پر کھڑے ہو جائیں تو آپ کو سہ پہر کے وقت سیکڑوں گاڑیاں جزیرے میں آتی نظر آئیں گی، یہ لوگ جزیرے میں کیا کرنے آتے ہیں؟ یہ لوگ ایک دلچسپ اور منفرد تجربہ کرنے یہاں آتے ہیں، فلپ آئی لینڈ میں روز غروب آفتاب کے بعد پینگوئن پریڈ ہوتی ہے، جزیرے کے گرد سمندر میں 33 ہزار پینگوئن رہتے ہیں، یہ پینگوئن غروب آفتاب کے بعد پانی سے باہر آتے ہیں، ساحل پر چہل قدمی کرتے ہیں اور چلتے چلتے پہاڑی پر موجود اپنے گھروں میں گھس جاتے ہیں۔
یہ اس لحاظ سے ایک منفرد جگہ ہے، حکومت نے پینگوئن کے ساحل پر ریسرچ سینٹر بنا دیا، ٹکٹ لگایا اور سیاحوں کو پینگوئن پریڈ دیکھنے کا موقع فراہم کر دیا،ٹکٹوں سے حاصل ہونے والی آمدنی پینگوئن کی بہبود اور تحقیق پر خرچ ہوتی ہے، میں اور ڈاکٹر شہباز غروب آفتاب سے قبل جزیرے پر پہنچ گئے، ٹکٹ مہنگے تھے لیکن یہ تجربہ ضروری تھا، سیاحوں کو غروب آفتاب سے چند لمحے قبل ساحل پر لے جایا گیا، ساحل پر اسٹیڈیم بنا تھا، لوگ سیٹوں پر اس طرح بیٹھ گئے جس طرح کرکٹ، ہاکی یا فٹ بال کا میچ دیکھنے کے لیے بیٹھتے ہیں۔
ہماری پشت پر فلڈ لائیٹس تھیں، سامنے ساحل تھا، ساحل پر پانی کی خوفناک لہریں تھیں، درجہ حرارت منفی میں تھا، ساحل پر پھر ایک عجیب واقعہ پیش آیا، سامنے پانی سے چاند نکل آیا، وہ چودھویں رات تھی، میں نے زندگی میں پہلی بار پورے چاند کو سمندر سے طلوع ہوتے دیکھا، آسمان پولوشن سے بھی پاک تھا چنانچہ چاند سورج محسوس ہوتا تھا، وہ جوں جوں اوپر اٹھ رہا تھا وہ مقناطیس کی طرح نظروں کو اپنی طرف کھینچ رہا تھا، چاند جوں ہی پانی سے الگ ہوا وہ دو ہو گیا، ایک چاند آہستہ آہستہ آسمان کی طرف اٹھنے لگا اور دوسرا چاند پانی میں گھلنے لگا، پانی کا چاند لہروں کے ساتھ ساتھ ہمارے قدموں میں ڈولتا تھا، ہمارے سامنے پورا چاند تھا اور پشت پر زہرہ (وینس) سیارہ چمک رہا تھا، یہ رمضان اپنے ساتھ زہرہ لے کر آیا، وینس کا سیارہ زمین سے 261 ملین کلو میٹر کے فاصلے پر ہے، یہ گرم سیارہ ہے اور محبت کی دیوی زہرہ کا گھر کہلاتا ہے۔
یہ 584 دن بعد زمین کے انتہائی قریب آ جاتا ہے، وینس اس رات فلپ آئی لینڈ کے بہت قریب تھا، یہ فلڈ لائیٹس کی طرح نظر آتا تھا چنانچہ منظر کچھ یوں تھا، ہمارے سامنے پوری رات کا چاند چمک رہا تھا، بیک پر وینس کا سیارہ تھا اور ساحل سے ٹھنڈی یخ ہوائیں آ رہی تھیں اور ہم اس تصویر میں خاموش بیٹھے پینگوئن کے آنے کا انتظار کر رہے تھے، پینگوئن بھی اللہ تعالیٰ کی عجیب مخلوق ہیں، یہ پانی اور خشکی دونوں پر زندہ رہتے ہیں، ٹھندے پانیوں کی مخلوق ہیں، گرم علاقوں میں زندہ نہیں رہ سکتے، فلپ آئی لینڈ میں انھوں نے اپنے گھر بنا رکھے ہیں، یہ صبح کے وقت پانی میں چھلانگ لگاتے ہیں اور پانی میں تیرتے ہوئے دور نکل جاتے ہیں، یہ زندگی کا 80 فیصد حصہ پانی اور 20 فیصد خشکی پر گزارتے ہیں۔
یہ زندہ مچھلیاں کھاتے ہیں، یہ پیٹ بھرنے کے بعد زمین پر آ جاتے ہیں اور انسان کی طرح دو پاؤں پر چلتے ہوئے اپنے گھروں میں داخل ہو جاتے ہیں، یہ اس وقت تک گھروں میں رہتے ہیں جب تک انھیں بھوک نہیں لگتی، یہ جوں ہی بھوک محسوس کرتے ہیں،یہ دوبارہ پانی میں اتر جاتے ہیں، یہ گروپ کی شکل میں رہتے ہیں،گروپ کا لیڈر پہلے خشکی پر آتا ہے، یہ دس پندرہ منٹ تک خشکی کا جائزہ لیتا ہے اور یہ جب مطمئن ہو جاتا ہے تو یہ حلق سے تیز آواز نکالتا ہے اور اس آواز کے ساتھ ہی پانی میں موجود پینگوئن ساحل پر آ جاتے ہیں۔
یہ تمام پینگوئن اس کے بعد مٹر گشت کرتے ہیں اور پھر ٹہلتے ٹہلتے اپنے گھروں میں چلے جاتے ہیں، گھروں میں ان کی مادہ یا نر ان کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں، فلپ آئی لینڈ پر 33 ہزار پینگوئن رہتے ہیں، اس رات کتنے پینگوئن پانی سے باہر آئیں گے کوئی نہیں جانتا تھا، ہم بس ساحل پر نظریں جمائے بیٹھے تھے اور سامنے چاند تھا، دوسرا چاند پانی میں ہلکورے لے رہا تھا اور وینس سیارہ فلڈ فلائیٹ کی طرح ہماری پشت پر چمک رہا تھا اور ٹھنڈی یخ ہوا چھریوں کی طرح ہمارے بدنوں میں اتر رہی تھی۔
فلپ آئی لینڈ اس وقت جادو کا جزیرہ بن چکا تھا۔
سیلف میڈ نہیں، اللہ میڈ
جاوید چوہدری اتوار 12 جولائ 2015

’’اس کی وجہ تکبر ہے، ہر کامیاب انسان اپنی کامیابی کو ذاتی اچیومنٹ سمجھتا ہے، یہ احساس اس کے اندرغرور اور تکبر پیدا کر دیتا ہے اور یہاں سے خرابی جنم لیتی ہے‘‘ ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، یہ ایک خاص قسم کی مسکراہٹ تھی اور یہ مسکراہٹ دنیا کے ہر صوفی، ہر نیک، عالم اور اصلی دانشور کے چہرے پر ہوتی ہے۔ دنیا کا ہر صوفی، ہر عالم اور ہر نیک شخص اپنی نیکی، اپنے علم اور اپنے تصوف کو لوگوں سے چھپا کر رکھتا ہے لیکن وہ اپنی مسکراہٹ نہیں چھپا پاتا۔ یہ مسکراہٹ اچھے لوگوں کا ٹریڈ مارک ہوتی ہے اور یہ آپ کو مدرٹریسا سے لے کر نیلسن منڈیلا، میاں محمد بخش سے شاہ حسین اور امام غزالی سے لے کر مولانا روم تک دنیا کے ہر اچھے، بڑے، نیک، عالم اور صوفی کے چہرے پر دکھائی دیتی ہے۔ میں نے ہمیشہ اچھے لوگوں کو ان کی اس مسکراہٹ سے پہچانا، میں نے ان سے ایک ایسا سوال پوچھا جو میرے دل میں ہمیشہ سے کھٹکتاچلا آ رہا ہے۔
میں نے ان سے پوچھا ’’دنیا کا ہر کامیاب انسان آخر میں تنہا کیوں ہوتا ہے‘‘ انھوں نے فوراً جواب دیا ’’اپنے تکبر اور غرور کی وجہ سے‘‘ میں ان سے تفصیل کا متقاضی تھا، وہ بولے ’’دنیا میں تکبر کی سب سے بڑی شکل سیلف میڈ ہے‘‘ میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا، انھوں نے فرمایا ’’جب کوئی انسان اپنے آپ اور اپنی کامیابیوں کو سیلف میڈ کا نام دیتا ہے تو وہ نہ صرف اللہ تعالیٰ، قدرت اورفطرت کی نفی کرتاہے بلکہ وہ ان تمام انسانوں کے احسانات اور مہربانیوں کو بھی روند ڈالتا ہے جنھوں نے اس کی کامیابی میں مرکزی کردار ادا کیا تھا اور یہ دنیا کا بدترین تکبر ہوتا ہے‘‘ وہ رکے، چند لمحے سوچا اور اس کے بعد بولے ’’تم فرعون اور نمرود کو دیکھ لو، یہ دونوں انتہا درجے کے ذہین، فطین اور باصلاحیت حکمران تھے، فرعون نے نعشوں کو حنوط کرنے کا طریقہ ایجاد کیا تھا.
اس نے ایک ایسی سیاہی بھی بنوائی تھی جو قیامت تک مدھم نہیں ہوتی، اس نے ایسے احرام بھی تیار کیے تھے جن کی ہیئت کو آج تک کی جدید سائنس نہیں سمجھ پائی، اس نے دنیا میں آبپاشی کا پہلا نظام بھی بنایا تھا اور فرعون کے دور میں مصر کے صحراؤں میں بھی کھیتی باڑی ہوتی تھی لیکن یہ فرعون بعدازاں عبرت کی نشانی بن گیا۔ کیوں؟‘‘ انھوں نے میری طرف دیکھا، میں نے فوراً عرض کیا ’’اپنے تکبر، اپنے غرور کی وجہ سے‘‘ انھوں نے اثبات میں سر ہلایا اور مسکرا کر بولے ’’ہاں لیکن فرعون کا تکبر سیلف میڈ لوگوں کے غرور سے چھوٹا تھا، اس نے صرف اللہ کی نفی کی تھی، وہ اللہ کے سوا اپنے تمام بزرگوں، اپنے تمام دوستوں اور اپنے تمام مہربانوں کا احسان تسلیم کرتا تھا.
وہ اپنے استادوں کو دربار میں خصوصی جگہ دیتا تھا اور وہ اپنی بیویوں کا اتنا احترام کرتا تھا کہ اس نے اپنی اہلیہ محترمہ کے کہنے پر حضرت موسیٰ ؑکو گود لے لیا تھا‘‘ وہ رکے اور دوبارہ بولے ’’تم نمرود کو دیکھو، نمرود نے کھیتی باڑی کے جدید طریقے ایجاد کرائے تھے، اس نے دنیا میں پہلی بار زمین کو یونٹوں میں تقسیم کیا تھا، اس نے اونچی عمارتیں بنوائیں تھیں، اس نے شہروں میں فوارے لگوائے تھے، اس نے دنیا میں پہلی بار درخت کاٹنے کی سزا تجویز کی تھی اور وہ دنیا کا پہلا بادشاہ تھا جس کے ملک سے غربت اوربے روزگاری ختم ہو گئی تھی اور جس کی رعایا کاہر فرد خوشحال اور مطمئن تھا لیکن پھر یہ بادشاہ بھی اللہ کے عذاب کاشکار ہوا۔
کیوں؟‘‘ میں نے فوراً عرض کیا ’’غرور کی وجہ سے‘‘ انھوں نے اثبات میں سر ہلایا اور بولے ’’ہاں وہ اللہ کے وجود کی نفی کا مرتکب ہوا تھا اور یہ اس کا واحد جرم تھا جب کہ عام زندگی میں وہ ایک اچھا انسان اور شاندار بادشاہ تھا، وہ مہمان نواز تھا، وہ شائستگی کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا، اس نے اپنے دربار میں دنیا جہاں کے عالم اور ماہرین جمع کر رکھے تھے، وہ بہادری اور شجاعت میں یکتا تھا، وہ اپنے دوست احباب، ماں، باپ اور عزیز رشتے داروں کا بھی احترام کرتا تھا اور وہ لوگوں کے احسانات اور مہربانیوں کو بھی یاد رکھتا تھا لیکن اس نے اللہ کی ذات کی نفی کی، خود کو خدا کہہ بیٹھا اور اللہ کی پکڑ میں آ گیا‘‘ وہ رک گئے۔
وہ چند لمحے سوچتے رہے اور اس کے بعد بولے ’’فرعون اور نمرود نے صرف اللہ کی ذات میں برابری کی تھی جب کہ خود کو سیلف میڈ کہنے والا شخص نعوذ باللہ نہ صرف اس سے برتری کا دعویٰ کرتا ہے بلکہ وہ دنیا بھر کے ان لوگوں کے احسانات بھی فراموش کر دیتا ہے جنھوں نے اس کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا چنانچہ یہ شخص فرعون اور نمرود کے مقابلے میں بھی کئی گنا بڑے غرور اور تکبر کا مظاہرہ کرتا ہے لہٰذا یہ آخر میں اللہ کی پکڑ میں آ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس پر تنہائی کا عذاب نازل فرما دیتا ہے‘‘ وہ رکے، انھوں نے ایک لمبا سانس لیا اور دوبارہ بولے ’’انسان مجلسی جانور ہے۔ انسان، انسان کا محتاج ہے، ہم سب اپنے جیسے لوگوں میں بیٹھنا چاہتے ہیں، ان کے ساتھ گپ شپ کرنا چاہتے ہیں، ان کے ساتھ اپنے جذبات شیئر کرنا چاہتے ہیں، ہمارے لیے سب سے بڑی سزا تنہائی ہوتی ہے اسی لیے قید تنہائی کو دنیا میں سب سے سنگین سزا قرار دیا گیا۔
انسان بڑے سے بڑا عذاب برداشت کر جاتاہے لیکن وہ تنہائی کی سزا نہیں بھگت سکتا۔ اللہ تعالیٰ کیونکہ ہماری رگ رگ، ہماری نس نس سے واقف ہے چنانچہ وہ خود کو سیلف میڈ قرار دینے والوں کو تنہائی کی حتمی سزا دیتا ہے۔ تم دیکھ لو، دنیا میں جس بھی شخص نے خود کو سیلف میڈ قرار دیا.
جس نے بھی اپنی اچیومنٹس کو اپنی ذاتی کوشش، جدوجہد اور محنت کا نتیجہ کہا وہ کامیابی کی آخری اسٹیج پر پہنچ کر تنہائی کا شکار ہوگیا، وہ تنہائی کی موت مرا‘‘ وہ خاموش ہو گئے، میں چند لمحے انھیں دیکھتا رہا، جب خاموشی کا وقفہ طویل ہو گیا تو میں نے عرض کیا ’’ہمیں سیلف میڈ کے بجائے کیا کہنا چاہیے‘‘ وہ فوراً بولے ’’اللہ میڈ‘‘ وہ چند لمحے مجھے دیکھتے رہے اور اس کے بعد بولے ’’کامیاب اور کامران لوگوں پر اللہ کا خصوصی کرم ہوتا ہے، اللہ ان لوگوں کو کروڑوں، اربوں لوگوں میں سے کامیابی کے لیے خصوصی طور پر چنتا ہے، انھیں وژن اور آئیڈیاز دیتا ہے، ان کو محنت کرنے کی طاقت دیتا ہے.
انھیں دوسرے انسانوں کے مقابلے میں زیادہ توانائی بخشتا ہے، ان کے آگے بڑھنے کے خصوصی مواقع پیدا کرتا ہے، ان کے لیے کامیابی کے راستے کھولتا ہے، معاشرے کے بااثر اور اہم لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے محبت اور ہمدردی پیدا کرتاہے اور آخر میں تمام لوگوں کو حکم دیتاہے وہ ان لوگوں کو کامیاب تسلیم کریں، وہ اپنی نشستوں سے اٹھ کر ان کے لیے تالی بجائیں اگر یہ حقیقت ہے تو پھر یہ ساری کامیابی اللہ کی کامیابی نہ ہوئی، ہم لوگ اورہماری ساری کامیابیاں اللہ میڈ نہ ہوئیں، تم سوچو، تم بتاؤ‘‘ ۔ انھوں نے رک کر میری طرف دیکھا، میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
وہ بولے ’’اور جب کوئی کامیاب شخص اپنی کامیابی کو اللہ کا کرم اور مہربانی قرار دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں اس کے گرد رونق لگا دیتاہے، وہ لوگوں کے دلوں میں اس شخص کے لیے محبت ڈال دیتاہے یوں یہ شخص زندگی کی آخری سانس تک لوگوں کی محبت اور رونق سے لطف اٹھاتا رہتا ہے.
اللہ اس کی زندگی پر تنہائی کا سایہ نہیں پڑنے دیتا‘‘۔ میں نے ان کی طرف دیکھا اور ڈرتے ڈرتے پوچھا ’’پھر انسان کی زندگی میں اس کی کوشش اور جدوجہد کا کیا مقام ہوا‘‘ انھوں نے غور سے میری طرف دیکھا اور بولے ’’ہماری کیا مجال ہے ہم اس کی اجازت کے بغیر محنت کر سکیں یا ہم اس کی مہربانی کے بغیرجدوجہد کر سکیں، ہم میں تو اتنی مجال نہیں کہ ہم اس کی رضا مندی کے بغیر اس کانام تک لے سکیں۔
پھر ہماری محنت، ہماری جدوجہد کی کیا حیثیت ہے، یہ سب اللہ کی مہربانی کا کھیل ہے، یہ سب اللہ میڈ ہے، ہم اور ہم سب کی کامیابیاں اللہ میڈ ہیں، خدا کے بندو، اللہ کے کریڈٹ کو تسلیم کرو تاکہ تمہاری زندگیاں تنہائیوں سے بچ سکیں، تم پر غم کا سایہ نہ پڑے‘‘۔ وہ رکے اور اس کے بعد زور دے کر بولے ’’یاد رکھو، زندگی میں کبھی خود کو سیلف میڈ نہ کہو، ہمیشہ اپنے آپ کو اللہ میڈ سمجھو، اللہ تم پر بڑا کرم کرے گا‘‘۔
سونے کا پہاڑ
جاوید چوہدری منگل 7 جولائ 2015

بیلا ریٹ (BALLARAT) میلبورن سے زیادہ دور نہیں، آپ ڈیڑھ گھنٹے میں وہاں پہنچ جاتے ہیں لیکن جوں ہی قصبے میں داخل ہوتے ہیں،یہ بستی آپ کو پونے دو سو سال پیچھے لے جاتی ہے، یہ قصبہ 1851ء تک تاریخ کے گم نام صفحوں میں گم تھا لیکن پھر ساورن ہل (Soverein Hill) پر ایک واقعہ پیش آیا اور بیلاریٹ پوری دنیا میں مشہور ہو گیا، لوگوں کو ساورن ہل سے اترنے والے چشمے سے اچانک سونا ملنے لگا، چشمے کی ریت، پتھروں اور مٹی میں سونے کے ذرات تھے، یہ خبر جوں ہی قصبے سے باہر نکلی دنیا جہاں کے مہم جو ساورن ہل کی طرف دوڑ پڑے، لوگوں کی یہ دوڑ آج بھی آسٹریلین تاریخ میں ’’گولڈن رش،، کہلاتی ہے۔
اس گولڈن رش نے دنیا جہاں کے لوگوں کو بیلا ریٹ کا راستہ دکھا دیا، دنیا کی شاید ہی کوئی قوم ہو گی جو بیلا ریٹ نہ پہنچی ہو اور اس نے سونا حاصل کرنے کی کوشش نہ کی ہو، زمین سے سونا نکالنے، کان کنی اور سونا تلاش کرنے کی زیادہ تر ٹیکنالوجی بھی اسی جگہ پیدا ہوئی، گولڈن رش نے علاقے میں تہذیب کی بنیاد بھی رکھ دی، سونے کے پہاڑ کے گرد شہر آباد ہوا، شہر میں سسٹم بنا، پولیس کا آغاز ہوا، فوج بنی، گولڈ کمشنر کا عہدہ تخلیق ہوا، ٹیکس لگے، سڑکیں اور پل بنے، ریستوران، ہوٹل اور شاپنگ سینٹر بنے اور آخر میں کفن بنانے والی کمپنیاں، لباس سینے والے لوگ اور موسیقار بھی ’’بیلا ریٹ‘‘ پہنچ گئے اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے علاقے میں ایک مہنگا اور جدید شہر آباد ہو گیا، یہ گولڈن رش 1918ء تک جاری رہا۔
میں ڈاکٹر شہباز چوہدری کے ساتھ پچھلی جمعرات کو بیلا ریٹ پہنچا، ڈاکٹر شہباز میرے کزن ہیں، یہ ڈاکٹر ہیں، متحرک انسان ہیں، پاکستانی کمیونٹی کے لیے دن رات کام کرتے ہیں، یہ مسقط میں تھے، دس سال پہلے آسٹریلیا شفٹ ہوئے، میلبورن کو اپنا ٹھکانہ لیکن گھر کو منی پاکستان بنا لیا، ڈاکٹر صاحب کے گھر میں پنجابی چار پائی جسے ہم منجی کہتے ہیں وہ تک موجود ہے، یہ سرہانے اور رنگالے پائیوں والی کرسیاں بھی استعمال کرتے ہیں، کھانا آج بھی دیسی کھاتے ہیں، گھر میں چوبیس گھنٹے پاکستانی چینلز چلتے رہتے ہیں اور میاں بیوی اور بچیاں اردو اور پنجابی بولتی ہیں، یہ ایک مکمل گجر گھرانہ ہے، میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ بیلا ریٹ پہنچ گیا، ہم ساورن ہل پہنچے، ساورن ہل آج کل تفریحی مقام ہے۔
یہاں ہر سال ساڑھے پانچ لاکھ لوگ آتے ہیں، آپ کو سونے کی پہاڑی پر پہنچنے کے لیے ٹکٹ لینا پڑتا ہے، آپ جوں ہی ٹکٹ گاہ سے باہر نکلتے ہیں، آپ فوراً 1851ء کے زمانے میں چلے جاتے ہیں، آپ کے سامنے خیموں کا ایک وسیع شہر آ جاتا ہے، آپ کو تاحد نظر لکڑی کے گھر، خیمے اور پرانے کنوئیں دکھائی دیتے ہیں، یہ سونے کی تلاش میں یہاں آنے والے لوگوں، ان کے غلاموں اور ان کے ملازمین کے خیمے تھے، ایک خیمے کے سامنے گولڈ کمشنر کا بورڈ بھی لگا تھا، یہ یقینا کسی ایسے سرکاری اہلکار کا خیمہ ہو گا جو سونا نکالنے والوں پر نظر رکھتا ہو گا، وہاں خیموں میں بنی دکانیں بھی تھیں، گراسری شاپ بھی، عبادت گاہ بھی اور مرغیوں اور بھیڑوں کے چھوٹے چھوٹے فارم ہاؤسز بھی۔ خیمہ گاہ میں وہ چشمہ بھی موجود تھا جس سے شروع میں سونا نکلا تھا، چشمے کے اوپر سونا چھاننے کا قدیم نظام آج بھی موجود ہے۔
پانی لکڑی کے تین چار طویل چینلز سے ہوتا ہوا زمین پر آتا ہے، زمین پر لکڑی کی پھرکیاں لگی ہیں، یہ پھرکیاں پانی کو بار بار بلوتی ہیں، یہ پانی بعد ازاں آگے بڑھتا ہے، لوگ وہاں چھاننیاں لے کر بیٹھے ہوتے ہیں، یہ اس پانی، اس پانی کی ریت اور ساورن ہل سے ٹوٹنے والے کنکروں کو چھاننیوں سے گزارتے ہیں اور بے تاب ہو کر چھاننیوں کے اندر سونا تلاش کرتے ہیں، یہ پریکٹس آج تک جاری ہے، ہم نے وہاں سو سے زائد لوگوں کو پانی چھانتے اور سونا تلاش کرتے دیکھا۔ ’’کیا ان لوگوں کو سونا مل جاتا ہے؟‘‘ ڈاکٹر صاحب کا جواب تھا ’’ہاں چشمے کے پانی میں آج بھی سونا موجود ہے، لوگوں کو کبھی کبھار یہ دولت ہاتھ آ جاتی ہے‘‘ ساورن ہل میں سونے کی دو بڑی کانیں ہیں، پہلی کان پرانی اور روایتی ہے، آپ کو اس کان میں اترنے کے لیے زمین میں 53 زینے اترنے پڑتے ہیں، یہ کان 1860ء میں بنی، یہ ہاتھ سے کھودی گئی تھی، کان کی دیواروں پر لکڑی کے تختے جڑے ہیں، چھت کو بھی شہتیر اور تختے جوڑ کر گرنے سے بچایا گیا ہے، کان میں اندھیرا تھا، آپ دیواروں کو ٹٹول ٹٹول کر آگے بڑھتے ہیں۔
اس کان سے سونے کا 67 کلو گرام ٹکڑا نکلا تھا، آپ جب کان کے آخری سرے تک پہنچتے ہیں تو آپ کو وہاں وہ چٹان نظر آتی ہے جس سے 67 کلو گرام کا ٹکڑا نکلا، سیاحوں کو سونے کا یہ ٹکڑا نکلنے کا پورا عمل سمجھایا جاتا ہے، چٹان پر ’’ملٹی میڈیا‘‘ کے ذریعے چٹان توڑنے کی فلم دکھائی جاتی ہے، یہ تھری ڈی فلم ہے، آپ یہ فلم دیکھ کر آگے بڑھتے ہیں تو آپ کے سامنے ایک تجوری سی کھل جاتی ہے، آپ تجوری میں سونے کا 67 کلو گرام کا وہ ٹکڑا دیکھتے ہیں جو اس کان سے دریافت ہوا، کیا یہ ٹکڑا اصل ہے؟ نہیں یہ اصل جیسا ہے! اصلی ٹکڑا لندن لے جایا گیا اور وہ شاہی خاندان نے آپس میں تقسیم کر لیا، دوسری کان گہری بھی ہے اور ماڈرن بھی۔ آپ کو اس مائن میں داخل ہونے کے لیے نیا ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے، آپ کو ٹرین کے ڈبے میں بٹھایا جاتا ہے اور آپ اندھیرے میں سفر کرتے ہوئے تین سو میٹر زیر زمین چلے جاتے ہیں، کان کے اندر بھول بھلیاں ہیں۔
یہاں سے آج بھی سونا نکالا جاتا ہے، یہ کان پانی کی سطح سے بہت نیچے ہے، کان کو پانی سے بچانے کے لیے سو سال قبل بھاپ کا ایک سسٹم بنایا گیا، یہ نظام آج تک چل رہا ہے، یہ سسٹم ’’اسٹیم انجن،، سے ملتا جلتا ہے، یہ سسٹم چوبیس گھنٹے چلتا رہتا ہے۔ ہم کان میں اترے تو ہمیں یہ سسٹم دکھایا گیا، یہ سسٹم جوں جوں پانی کھینچ رہا تھا ہمیں توں توں احساس ہو رہا تھا ہم موت کے کتنے قریب ہیں، یہ سسٹم اگر چند سیکنڈ کے لیے بند ہو جائے تو پوری کان میں پانی بھر جائے اور ہم چند سیکنڈ میں ڈوب کر اوپر پرواز کر جائیں، کان کے درمیان میں ایک ایسا مقام آتا ہے جس کی دیواروں پر چین کے دوبھائیوں کی کہانی لکھی ہے، یہ کہانی ’’ تھری ڈی فلم‘‘ کی شکل میں دکھائی جاتی ہے۔
یہ دونوں بھائی سونے کی تلاش میں ’’گانزو‘‘ سے بیلا ریٹ آئے، دن رات کان کنی کی اور ایک رات سونے کی ٹنوں وزنی چٹان تلاش کر لی، یہ دونوں خوش ہو گئے لیکن یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی کیونکہ سونا پانے کے چند لمحے بعد اوپر سے چٹانیں گریں اور یہ چٹانیں سونے کی چٹان اور ان دونوں بھائیوں کو نگل گئیں، یہ مقام اس دن سے خواہشوں کا قبرستان ہے، یہ فلم ختم ہوئی تو وہاں موجود تمام لوگ اداس ہو گئے، زمین کی سطح سے تین سو میٹر نیچے سونے کی چٹانوں کے درمیان کھڑا ہونا بھی ایک تجربہ تھا، دیواروں پر جگہ جگہ سونے کے ذرات موجود تھے، یہ ذرات روشنی میں چمکتے تھے اور گزرنے والوں کی نظروں کو للچا دیتے تھے۔
بیلا ریٹ کبھی چینیوں کی بڑی بستی ہوتی تھی، گولڈن رش کے دور میں یہاں نو ہزار چینی کان کن آباد تھے، یہ لوگ سونے کی تلاش میں یہاں آئے تھے، یہ زمین ان میں سے اکثر لوگوں کا قبرستان ثابت ہوئی، بیلا ریٹ میں آج بھی ان لوگوں کی روحیں بھٹک رہی ہیں، یہ وہ ناآسودہ روحیں ہیں جو آسودگی کی تلاش میں یہاں آئیں اور سونا تلاش کرتے کرتے وقت کی گرد میں کھو گئیں، یہ لوگ چلے گئے لیکن ان کی خواہشیں پیچھے رہ گئیں، ساورن ہل میں آج بھی ان مرحوم چینیوں کے خیمے، کافی شاپس، عبادت گاہیں اور قبرستان موجود ہیں، ہم نے ایک خیمے کے سامنے جلتی ہوئی موم بتی بھی دیکھی، یہ موم بتی یقینا اس کے خاندان کے کسی فرد نے جلائی ہو گی اور یہ فرد بھی یقینا ہمارے ساتھ خواہشوں کے اس سنہرے قبرستان کی سیاحت کے لیے یہاں آیا ہو گا، یہ ہمارے ساتھ موجودکسی سیاح کے بزرگ کا خیمہ ہو گا۔
ایک ایسے بزرگ کا خیمہ جو سو ڈیڑھ سو سال پہلے سونے کی تلاش میں اس سنہری قبرستان میں آیا اور سونا تلاش کرتے کرتے اس بے مہر زمین کا رزق بن گیا، میں نے بیلا ریٹ میں پھرتے ہوئے محسوس کیا انسان کا سب سے بڑا دشمن، انسان کا سب سے بڑا مرض لالچ ہے، آپ جب بھی اس مرض، اس دشمن کے شکنجے میں آتے ہیں آپ اپنی ہڈیاں تک گنوا بیٹھتے ہیں، شاید یہی وجہ ہے دنیا کے تمام مذاہب نے قناعت کو کرہ ارض کی سب سے بڑی دولت قرار دیا، آپ اگر قناعت کی دولت سے مالا مال ہیں تو آپ دنیا کے امیر ترین شخص ہیں خواہ آپ کی جیبوں میں کنکروں کے سوا کچھ نہ ہو اور آپ کے پاس اگر قناعت نہیں تو آپ خواہ ساورن ہل کے مالک ہو جائیں، دنیا میں آپ سے بڑا کنگال کوئی نہیں ہوگا، یہ ساورن ہل کا پہلا سبق تھا، دوسرا سبق اس کی مارکیٹ تھی، ساورن ہل میں آج بھی ڈیڑھ سو سال پرانی مارکیٹ موجود ہے۔
یہ ایک سڑک ہے جس کے دونوں اطراف لکڑی کے تختوں سے بنی دکانیں ہیں، یہ دکانیں اسی نام سے قائم ہیں جس نام سے یہ ڈیڑھ سو سال پہلے بنی تھیں، یہ دکانیں ماضی میں بھی چل رہی تھیں اور یہ آج بھی آباد ہیں جب کہ سونا تلاش کرنے والوں کے خیمے بے آباد ہو چکے ہیں، میں جب ان دکانوں کے سامنے سے گزرا اور میں نے ان کے قیام کی تاریخیں پڑھیں تو مجھے معلوم ہوا دنیا میں کام اور ہنر سے بڑا کوئی سونا نہیں ہوتا، آپ کو اگر کوئی ہنر آتا ہے یا آپ کام کرنا چاہتے ہیں تو آپ ’’ساورن ہل‘‘ پر اپنا ٹھکانہ بنا لیں، لوگ سونا تلاش کریں گے اور یہ سونا آپ کو آپ کے ہنر کے بدلے پیش کر دیں گے یوں سونا تلاش کرنے والوں کی محنت آپ کی جیب میں آ جائے گی، محنت دوسرے کریں گے لیکن محنت کا پھل آپ کھائیں گے، یہ سوچ کر میری ہنسی نکل گئی۔
ساورن ہل کی اس پونے دو سو سال پرانی گلی کے آخری سرے پر تابوت بنانے والی ایک ورکشاپ بھی تھی، یہ کمپنی ڈیڑھ سو سال قبل بنی، یہ ساورن ہل میں مرنے والوں کے لیے لکڑی کے تابوت فراہم کرتی تھی، میں ورکشاپ کے اندر چلا گیا، شو روم میں لکڑی کے منقش تابوت پڑے تھے۔
میں نے ورکشاپ میں گھوم کر دیکھا اور پھر اپنے آپ سے سوال کیا ’’ کیا سونا تلاش کرنے والوں کو یہ ورکشاپ اور اس ورکشاپ میں پڑے تابوت نظر نہیں آتے تھے؟‘‘۔ میرے اندر سے آواز آئی ’’نہیں‘‘ پوچھا ’’کیوں؟‘‘ جواب آیا ’’ انسان کی آنکھ جب تک کھلی رہتی ہے اسے اس وقت تک سونے کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا لیکن جب آنکھ بند ہوتی ہے تو زندگی کی اصل حقیقتیں کھل کر سامنے آ جاتی ہیں مگر اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے، اس وقت تک تابوت کے ڈھکن کے سوا کچھ نہیں بچا ہوتا‘‘ اور پوری ساورن ہل زندگی کی اس تلخ حقیقت کی تفسیر تھی۔

گڈ بائی نیوزی لینڈ
جاوید چوہدری ہفتہ 4 جولائ 2015

وناکا (Wanaka) کوئینز ٹاؤن کے ہمسائے میں آباد ہے، یہ وہاں سے 93 کلو میٹر دور تھا، رات ہو چکی تھی لیکن ہم نے وناکا جانے کا فیصلہ کر لیا، یہ سفر بھی مشکل تھا، رات تھی، بارش تھی، دھند تھی اور بلیک آئس تھی لیکن ہم اس کے باوجود وناکا پہنچ گئے، میں یہاں خالد بلوچ اور ان کے دوست علی تاجک کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، ہم جہاں بھی گئے علی تاجک نے ہمارے لیے مناسب ہوٹل بک کرا دیا، ہم ہوٹل کا ایڈریس ’’جی پی ایس،، میں ڈالتے اور وہاں پہنچ جاتے، ہمارا موٹل وناکا میں بھی بک تھا، وناکا کیسا تھا؟ ہمیں رات کے وقت اندازہ نہ ہو سکا لیکن صبح کے وقت ہم نے جوں ہی پردے ہٹائے،ہمارے منہ سے بے اختیار سبحان اللہ نکل گیا، جنت میں اگر کوئی شہر ہو گا تو وہ شہر یقینا وناکا جیسا ہو گا، یہ شہر ٹیرس کی طرح پہاڑ پر بنا ہے۔
سامنے صاف پانی کی جھیل ہے، گھنے جنگل ہیں اور جنگلوں کے آخری سرے پر برف پوش پہاڑ ہیں، پہاڑوں نے وناکا کو چاروں اطراف سے گھیر رکھا ہے، ہم دیوانہ وار شہر کی طرف دوڑ پڑے، گاڑیوں پر برف جم چکی تھی، سڑکیں بھی بلیک آئس کے پردے میں چھپی تھیں، ٹریفک کا سلسلہ منقطع تھا، لوگ فٹ پاتھوں پر جاگنگ کر رہے تھے، ان کے نتھنوں سے بھاپ نکل رہی تھی اور جھیل پر کہرے کی تہہ ہلکورے لے رہی تھی، سڑکوں کے کنارے برف کا شیشہ سا جما تھا، سڑک پر جمی ہوئی برف باریک پلاسٹک شیٹ کی طرح ہوتی ہے، آپ کو محسوس ہوتا ہے آپ کے پیروں تلے دودھیا رنگ کی شیٹ بچھی ہے، آپ اس شیٹ پر جوں جوں آگے بڑھتے ہیں آپ کے پیروں تلے توں توں برف کا شیشہ ٹوٹتا جاتا ہے، برف ٹوٹنے کی یہ چڑ چڑ اور ٹک ٹک بھی ایک نایاب تجربہ ہے۔
آپ جب تک خود اس تجربے سے نہیں گزرتے آپ اس وقت تک اس کے مزے کو نہیں سمجھ سکتے، ہم برف کا شیشہ توڑتے توڑتے آگے بڑھ رہے تھے، شہر ہمارے سامنے کھل رہا تھا، سڑکیں کھلی اور خوبصورت تھیں، گھر لکڑی کے تھے اور ان کی کھڑکیاں پہاڑوں کی طرف کھلتی تھیں، صحنوں میں اونچے اونچے درخت تھے اور درختوں کے دائیں بائیں بیلیں اور پھولوں کی کیاریاں تھیں، سردیوں کی وجہ سے درختوں کی شاخیں مرجھائی ہوئی تھیں لیکن یہ مرجھائی ہوئی سرمئی شاخیں ماحول میں خواب گھول رہی تھیں، یوں محسوس ہوتا تھا قصبے پر ایک مقدس نیند اتر رہی ہے، ایک ایسی نیند جس میں اندیشوں کا کوئی کانٹا، فکر کا کوئی کنکر نہیں۔
ہم چلتے چلتے شہر کے خوبصورت ترین حصے میں پہنچ گئے، یہ خوبصورت ترین گھروں کی خوبصورت ترین اور خاموش ترین بستی تھی، ہمیں بستی کے حسن نے جکڑ لیا اور ہم بے وقوفوں کی طرح منہ کھول کر گھروں کو دیکھنے لگے، بستی کے تمام گھر ایک جیسے، خوبصورت اور آرام دہ تھے، کھڑکیوں کے پردے ہٹے ہوئے تھے، ہم نے اندر جھانک کر دیکھنا شروع کر دیا، تمام گھروں میں آتش دان تھے اور ان آتش دانوں کے گرد بزرگ بیٹھے تھے، ہم حیرت سے بستی کو دیکھنے لگے، بستی کے آخری سرے پر ’’ریٹائرمنٹ ہومز‘‘ کا بورڈ لگا تھا، مظہر بخاری نے عقدہ کھولا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں بھی ’’ریورس مارگیج‘‘ کا سسٹم موجود ہے۔
بینک ریٹائرمنٹ ہومز خریدتے ہیں، ریٹائر لوگ اپنی پوری زندگی کی جمع پونجی بینکوں میں جمع کرا دیتے ہیں اور بینک انھیں خوبصورت گھر بھی دے دیتے ہیں اور ساتھ ہی ماہانہ خرچ بھی۔ یہ بزرگ ان گھروں میں آرام سے زندگی گزارتے ہیں، یہ فوت ہو جاتے ہیں تو بینک وصیت کے مطابق باقی ماندہ رقم ان کے لواحقین میں تقسیم کر دیتا ہے اور مکان کسی نئے بزرگ کے حوالے کر دیتا ہے، مجھے یہ بندوبست اچھا لگا، یہ بندوبست اس وقت یورپ اور امریکا میں بھی موجود ہے، کاش کوئی ادارہ، کوئی کمپنی پاکستان میں بھی یہ انتظام کر دے، اس سے ان ہزاروں بزرگوں کو فائدہ ہو گا جو بڑھاپے میں بچوں کے آسرے پر خوار ہوتے ہیں۔
ہم نے وناکا جھیل کے گرد چکر لگایا، یہ سیر میری زندگی کی شاندار ترین سیروں میں سے ایک تھی، ہمارے سروں پر درخت جھکے تھے، قدموں میں پانی کے چھوٹے چھوٹے جھرنے بہہ رہے تھے، دائیں جانب جھیل تھی اور بائیں جانب شہر کی چھتیں اور مارکیٹیں۔ وہ سب کچھ فلم کا سین محسوس ہوتا تھا، ہم دیر تک وہاں ٹہلتے رہے، بارہ بجے موسم گرم ہوا، برف پگھلی اور سڑک ٹریفک کے لیے کھل گئی اور ہم کرائسٹ چرچ کے لیے روانہ ہو گئے، کرائسٹ چرچ نیوزی لینڈ کا تیسرا بڑا شہر ہے، ہم نے اتوار کے دن کرائسٹ چرچ سے فلائیٹس لینی تھیں، مظہر بخاری نے سڈنی واپس جانا تھا اور میں نے میلبورن کی فلائیٹ پکڑنی تھی۔
ہماری خواہش تھی ہم رات سے پہلے پہلے کرائسٹ چرچ پہنچ جائیں چنانچہ ہم بارہ بجے وناکا سے روانہ ہو گئے، وناکا سے کرائسٹ چرچ کے راستے میں دو برفانی درے آتے ہیں، لنڈس پاس پہلا اور بلند ترین درہ ہے، آپ جوں جوں اس درے کی طرف بڑھتے جاتے ہیں، آپ کے گرد برف کا ریگستان وسیع ہوتا جاتا ہے، آپ کو اگر کبھی ریگستان دیکھنے کا موقع ملا ہو تو آپ بڑی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں آپ جس طرف دیکھتے ہیں آپ کو ہاں دور دور تک، تاحد نظر کروٹ بدلتی ریت کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا، برفیلے دروں کی صورتحال بھی ایسی ہی ہوتی ہے، آپ جس طرف نظر دوڑاتے ہیں، آپ کو برف کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا، لنڈس پاس بھی ایک ایسا ہی مقام ہے، آپ کو آسمان سے زمین اور مشرق سے مغرب تک سفید برف کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا، ہم درے میں پہنچے تو اس کے حسن نے ہمیں مکڑی کے جالے میں الجھی مکھی کی طرح پھانس لیا اور ہم رکنے پر مجبور ہو گئے۔
وہ درے کا ویو پوائنٹ تھا، آپ اگر اس وقت سیٹلائیٹ سے اس جگہ کی تصویر لیتے تو آپ کو وہاں سفید دودھیاں برف کے درمیان دو سیاہ دھبے حرکت کرتے نظر آتے، وہ منظر بھی مقدس کنواری کی شرمیلی نظروں جیسا تھا، ہم اسے دیکھتے تھے اور اس کے تقدس میں ڈوبتے چلے تھے، ہم گنگ اور حیران ہو کر اندھیری کوٹھڑی سے نکلے قیدی کی طرح دائیں بائیں دیکھتے تھے اور خواب میں چلے جاتے تھے، اللہ تعالیٰ نے اپنی زمین پر ایسے ہزاروں منظر چھپا رکھے ہیں جو انسان کے منتشر ذہن کے سارے انتشار، انسان کے تھکے وجود کی ساری تھکاوٹ اور انسان کی زخمی روح کے سارے زخم چوس لیتے ہیں، لنڈ س پاس کا ویوپوائنٹ بھی ایک ایسی ہی جگہ ، ایک ایسا ہی مقام تھا، یہ بھی آپ کے ذہن ، آپ کی روح اور آپ کے وجود کی ساری کثافتیں کھینچ لیتا ہے ،یہ بھی آپ کو ایک بار پھر پیدا کر دیتا ہے اور ہم نے اس برفستان میں ایک اور جنم لیا، ہماری روح کو بدن کا ایک نیا لباس مل گیاا ور قدرت نے ہمار ے دماغ ،ہمارے ذہن کو ایک نیا سافٹ وئیر عنایت کر دیا۔
ہم نے برف سے سبزے کی طرف سفر شروع کر دیا، پہاڑ سر اٹھاتے تھے، سر گراتے تھے، وادیاں میدان بنتی تھیں اور میدان ڈھلوانوں میں تبدیل ہو جاتے تھے، راستے کا ہر منظر لاجواب اور ہر موڑ شاندار تھا، راستے میں منجمد جھیلیں بھی آئیں، ٹھٹھرے دریا بھی اور سردی سے سکڑے دیہات بھی اور خوراک کی متلاشی بھیڑوں اور اور گائیوں کے فارم بھی۔ وہ سفر، سفر نہیں تھا، وہ ایک رواں ،دوڑتی بھاگتی فلم تھی اور یہ فلم اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہمارے وجود ،ہمارے دماغ کا حصہ بن چکی ہے۔
نیوزی لینڈ میں ہم نے تین چیزوں کا باربار مشاہدہ کیا،یہ تینوں چیزیں انوکھی بھی ہیں اور قابل تقلید بھی۔ نیوزی لینڈ زرعی ملک ہے ، اس کا زیادہ تر دارومدار اجناس ،پھل اور مویشیوں پر ہے چنانچہ انھوں نے زیادہ سے زیادہ فصل حاصل کرنے کے لیے چند جدید طریقے وضع کیے ہیں، ہم بڑی آسانی سے یہ طریقے استعمال کر سکتے ہیں، نیوزی لینڈ کے کسانوں نے لوہے کے بڑے بڑے راڈز پر پانی کے شاور لگا رکھے ہیں، راڈز کے نیچے ٹائر لگے ہیں، آپ ان ٹائروں کو پش کر کے شاور کو کھیت کے مختلف حصوں میں لے جاسکتے ہیں ، یہ راڈز ٹیوب ویل کے ساتھ منسلک ہیں، یہ لوگ ٹیوب ویل چلاتے ہیں اور پانی غسل خانوں کے شاورز کی طرح زمین اور فصل کو تر کرنا شروع کر دیتا ہے۔
یہ جدید طریقہ ہے، اس طریقے سے پانی کی بچت بھی ہوتی ہے ، فصل کو پورا پانی بھی ملتا ہے اور افرادی قوت کی ضرورت بھی نہیں رہتی ، ہم نے راستے میں بے شمار ایسے فارم دیکھے جن میں ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک شاورز لگے تھے، کسان یقینا انھیں آگے سرکاتے جاتے ہیں اور کھیت کو پانی ملتا جاتا ہے، آپ اگر یہ انتظام دیکھنا چاہیں تو آپ انٹرنیٹ پر ’’نیوزی لینڈ اری گیشن سسٹم ‘‘ ٹائپ کریں اور آپ یہ سارا بندوبست سمجھ جائیں گے،کسانوں نے کھیتوں کے درمیان پانی کے تالاب بھی بنا رکھے ہیں ، یہ تالاب بارش کے پانی سے بھرجاتے ہیں اور یہ لوگ بعد ازاں یہ پانی کاشت کاری کے لیے استعمال کرتے ہیں، نیوزی لینڈ کی دوسری منفرد چیز’’لائیو اسٹاک‘‘ ہے ، یہاں اس وقت ایک کروڑ چالیس لاکھ بھیڑیںہیں، تیس چالیس لاکھ گائے بھی ہوں گی۔
آپ ملک میں جس طرف دیکھیں آپ کو بھیڑیں ہی بھیڑیں دکھائی دیتی ہیں،یہ لوگ یہ بھیڑیں کیسے پالتے ہیں، یہ بھی ایک دلچسپ مشاہدہ ہے ، یہ لوگ اپنے کھیتوں کے گرد لکڑی یا لوہے کی تار کی باڑ لگاتے ہیں، کھیت میں چارہ بوتے ہیں اور بھیڑوں کو کھیت میں کھلا چھوڑ دیتے ہیں، بھیڑیں سارا سال کھیت میں چرتی رہتی ہیں، یہ لوگ مقرر ہ وقت پر ان کی اون اتارتے ہیں،انھیں مذبحہ خانے بھجوادیتے ہیں یا پھر ان سے بچے حاصل کر لیتے ہیں ، یہ ہماری طرح چارہ کاٹنے کا جھنجٹ نہیں پالتے، نیوزی لینڈ کے کے بعد دنیا میں پاکستان کی بھیڑیں اور بکریاں بہت مشہور ہیں چنانچہ ہم نیوزی لینڈ کے تجربے سے فائدہ اٹھا کر اپنے کسانوں کو خوش حال بنا سکتے ہیں اور تیسری انوکھی چیز ،یہ لوگ دنیا بھر سے ماہرین امپورٹ کر رہے ہیں۔
آپ اگر کسی کام میں مہارت رکھتے ہیں تو نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے دروازے آپ کے لیے کھلے ہیں، آپ بڑی آسانی سے نیوزی لینڈ کی امیگریشن حاصل کر سکتے ہیں،یہ لوگ ہاتھ سے کرنے والے تمام کام خود کرتے ہیں لیکن جہاں دماغ، قلم اور مہارت کی ضرورت پڑتی ہے یہ اس شعبے کے ماہرین دنیا کے غریب ملکوں سے حاصل کر لیتے ہیں چنانچہ آپ کو نیوزی لینڈ میں جتنے غیر ملکی نظر آتے ہیں ، یہ زیادہ تر پڑھے لکھے اور ماہر ہیں، مجھے یہ اپروچ بھی اچھی لگی۔
ہم شام کے وقت کرائسٹ چرچ پہنچ گئے، یہ ہماری نیوزی لینڈ میں آخری رات تھی، ہم نے کل اس ملک کو ’’گڈ بائی ،، کہہ دینا تھالیکن عارضی طور پر کیونکہ ہم نے چھ ماہ بعد قطب جنوبی دیکھنے کے لیے دوبارہ نیوزی لینڈ آنا ہے چنانچہ یہ جدائی مستقل نہیں ،یہ عارضی ہے ۔
کوئینزٹائون سے
جاوید چوہدری جمعرات 2 جولائ 2015

اوما راما کی صبح منجمد تھی، ہم نے کھڑکیوں کے پردے ہٹا دیے، تاحد نظر برف ہی برف تھی، سورج چوٹیوں پر چمک رہا تھا لیکن وادی میں ابھی کہر کی حکمرانی تھی، قصبے میں دور دور تک کوئی بندہ بشر نہیں تھا، ہم نے اپنی گاڑی کی طرف دیکھا، گاڑی برف میں برف بن چکی تھی، ونڈ اسکرین پر برف کا نیا شیشہ چڑھ چکا تھا، ٹائروں پر بھی سفیدی کی تہہ تھی، بمپر بمپر نہیں تھے، برف کی سلیں تھے۔
ہم جہاں قدم رکھتے تھے وہاں سے شیشہ ٹوٹنے کی آواز آتی تھی، یہ آواز ہمارے لیے اجنبی تھی لیکن یہ آنے والے دو دنوں کے دوران ہماری مستقل ساتھی بن گئی، ہم جہاں جہاں قدم رکھتے رہے وہاں وہاں ہمارے قدموں میں برف کا شیشہ ٹوٹتا رہا، یہ شیشہ جنوبی نیوزی لینڈ کا ’’ٹریڈ مارک‘‘ ہے، آپ کوئینز ٹاؤن کے پہاڑی سلسلے میں ہوں، سردیوں کا موسم ہو اور آپ کے قدموں سے شیشہ ٹوٹنے کی آواز نہ آئے یہ ممکن نہیں، ہم جائزے کے لیے ٹاؤن میں نکل گئے، گھر خوبصورت اور آرام دہ تھے، اسکول بھی تھا، اسپتال بھی، چرچ بھی، ٹاؤن ہال بھی، پولیس اسٹیشن بھی اور شاپنگ سینٹر بھی، شہر میں وہ سب کچھ تھا جس کی لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے۔
ہم ایک سووینیئرشاپ میں گھس گئے، یہ شاپ بھی تھی، کافی شاپ بھی اور ریستوران بھی، یہ دکان ایک بزرگ خاتون اپنی تین بیٹیوں کے ساتھ چلا رہی تھی، خاتون خوش اخلاق اور مہربان تھی، وہ پاکستان کا سن کر حیران ہوئی، شاید اس نے پہلی بار پاکستانی دیکھے تھے لیکن طالبان اور بم دھماکوں کی وجہ سے پاکستان کا نام اس کے لیے اجنبی نہیں تھا، ہم یہ سن کر دکھی ہو گئے کیونکہ پاکستان کے درجنوں حوالے ہیں لیکن یہ تمام حوالے دفن ہو چکے ہیں اور دنیا نے اب دہشت گردی اور طالبانائزیشن کو ہمارا حوالہ بنا لیا ہے، ہم کس قدر بدقسمت لوگ ہیں! ہماری سڑک بارہ بجے کلیئر ہوئی، ہم اوماراما سے نکلے تو راستہ دیکھ کر پریشان ہو گئے، ہمیں رات کے اندھیرے میں راستہ دکھائی نہیں دیا تھا چنانچہ ہم اندھا دھند یہاں تک آ گئے۔
ہم اگر ایک بار دائیں بائیں موجود کھائیاں، دریا اور منجمد جھیلیں دیکھ لیتے تو ہم کبھی رات کے وقت اس راستے پر گاڑی چلانے کا رسک نہ لیتے لیکن شاید ہمارے جیسے لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے ’’کائنات میں جہاں فرشتوں کے پر جلنے لگتے ہیں بے وقوف وہاں چھلانگ لگا دیتے ہیں‘‘ اور ہم پچھلی رات برف کے جہنم میں مسلسل چھلانگیں لگاتے رہے تھے، یہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم تھا ہم اس کے باوجود بچ گئے، کیوں؟ کیونکہ ہم اگر ’’سلپ‘‘ نہ بھی ہوتے تو بھی اگر خدانخواستہ ہماری گاڑی خراب ہو جاتی تو ہم برف میں جم کر فوت ہو چکے ہوتے اور پولیس کو اگلے دن ہماری لاشیں اس عالم میں ملتیں کہ یہ بڑی دیر تک یہ اندازہ نہ کر سکتی، ہم مرنے سے قبل ہنس رہے تھے یا رو رہے تھے اور مرنے سے قبل ہمارے جسم کا کون کون سا حصہ پھٹ گیا تھا، ہم نے ہاتھ باندھ کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور کوئینز ٹاؤن کے لیے روانہ ہو گئے۔
کوئینز ٹاؤن نیوزی لینڈ کی لیک ڈسٹرکٹ کہلاتی ہے، یہ جنوب کے آخر میں نیوزی لینڈ کا چوتھا بڑا شہر ہے، یہ قطب جنوبی کے ہمسائے میں واقع ہے، سردیوں میں یہاں شدید سردی پڑتی ہے، نیوزی لینڈ کی سردیاں جون، جولائی اور اگست تین مہینوں میں شدت اختیار کر لیتی ہیں، نیوزی لینڈ لمبائی میں زیادہ اور چوڑائی میں چھوٹا ملک ہے، کوئینز ٹاؤن کے گرد پہاڑیوں کا طویل سلسلہ ہے، یہ پہاڑ ہزاروں مربع کلومیٹر تک پھیلے ہیں، ہر پہاڑ کے دامن میں جھیلیں ہیں، دریا ان جھیلوں کو ایک دوسرے سے ملاتے ہیں، یہاں ایسی جھیلیں بھی ہیں جو دور سے سمندر دکھائی دیتی ہیں اور ان میں باقاعدہ بحری جہاز چلتے ہیں، کوئینز ٹاؤن میں سردی اور گرمی دونوں موسموں کی سیکڑوں سرگرمیاں ہیں۔
یہ اس ملک کا مشہور ترین شہر ہے، دنیا بھر سے لاکھوں سیاح ہر سال نیوزی لینڈ آتے ہیں اور یہ کوئینز ٹاؤن بھی پہنچتے ہیں، کوئینز ٹاؤن کے گرد و نواح میں درجن بھر چھوٹے چھوٹے ائیرپورٹس ہیں، یہاں سے چھوٹے چارٹر جہاز اڑتے اور اترتے ہیں، آپ بھی ان جہازوں کی سروس حاصل کر سکتے ہیں، ہیلی کاپٹر کی سروس بھی موجود ہے، یہ ہیلی کاپٹر آپ کو مختلف پہاڑوں پر لے جاتے ہیں، بحری جہاز، فیریز اور موٹر بوٹس بھی چلتی ہیں، یہ بھی آپ کو ایسی جگہوں پر لے جاتی ہیں جن پر جنت کا گمان ہوتا ہے، آپ جوں جوں آگے بڑھتے جاتے ہیں، آپ کو ان چھوئے، کنوارے برف پوش جزیرے ملتے ہیں، آپ ان جزیروں پر کیوی، پینگوئن اور قطب جنوبی کے رنگ برنگے پرندے اور برفیلے جانور دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔
یہ شہر صرف شہر نہیں، یہ ایک مکمل خواب، ایک آسودہ حسرت، ایک سیراب خواہش اور ایک مکمل وصل ہے، یہ حسن کرشمہ ساز کی ایک مکمل الف لیلیٰ بھی ہے، یہ قدرت کے برش سے پینٹ شدہ جمالیاتی حسوں کی ایک مکمل تصویر بھی ہے، ایک ایسی مونا لیزا، ایک ایسی سمفنی، ایک ایسا راگ اور ایک ایسی آیت جسے قدرت نے ہزاروں سال تک جمالیات کے تیشے سے تراشا اور پھر اپنے پسندیدہ بندوں کے سامنے آشکار کر دیا اور ہم بڑی تیزی سے اس شہر کی طرف بڑھ رہے تھے، راستے میں بارش تھی، جھیلیں تھیں، پہاڑ تھے، برف تھی، انگور کے باغ تھے، باغوں کے پیچھے وائین فیکٹریوں کی سرخ چھتیں تھیں اور کوئینز ٹاؤن کی طرف سے آنے والی خوشبودار ہوائیں تھیں، شہر کے قریب پہنچ کر وادی کھل گئی۔
ہمیں دور دور تک چرا گاہیں، سفید بھیڑیں، گھاس کے میدان اور کسانوں کے گھر دکھائی دینے لگے، گھر لکڑی، پتھر اور ٹین کے بنے تھے، چھتیں سرخ تھیں، سبز تھیں یا پھر سیاہ تھیں، کھیتوں کی سرحدوں پر طویل درختوں کی دیواریں تھیں، یہ دیواریں گرمیوں میں یقینا سبز ہوتی ہوں گی لیکن یہ سردی میں گرے رنگ کی ہو چکی تھیں، کھیتوں میں خشک چارے کے گٹھے تھے اور ان گٹھوں پر منہ مارتی گائیں تھیں، یہ فلمی منظر دل کھینچ رہا تھا، ہم خود کو بار بار فلم کا حصہ سمجھ رہے تھے، اس ٹام، ڈک یا ہنری کی طرح جس نے نیوزی لینڈ کے دیہی علاقے میں آنکھ کھولی ہو اور اب نیچرل سیٹ پر اس کی فلم بن رہی ہو، ہم ٹام، ڈک یا ہنری کی اس فلم کا حصہ تھے۔
کوئینز ٹاؤن سے پہلے پھلوں اور سبزیوں کے اسٹالز آگئے، یہ اسٹالز بڑے بڑے تھے اور یہ مقامی کسان چلاتے تھے،گاڑیاں ان اسٹالز پر رک رہی تھیں، پھل مقامی تھے اور سبزیاں دوسرے شہروں سے آئی تھیں، یہ لوگ مقامی شہد اور گھروں میں تیار کردہ وائین بھی بیچتے تھے، ہم نے یہاں سے افطار کا سامان خرید لیا اور پھر ہم اس شہر میں داخل ہو گئے جس کے لیے ہم نے پندرہ سو کلو میٹر ڈرائیو کی تھی، کوئینز ٹاؤن، جھیلوں کا شہر، دنیا کے جنوب میں آخری بڑا شہر۔
کوئینز ٹاؤن ایک وسیع جھیل کے کنارے آباد ہے، آپ اگر شہر کے درمیان میں کھڑے ہوں اور آپ دائیں بائیں اور آگے پیچھے دیکھنا شروع کریں تو آپ شہر کے سحر میں کھو جائیں گے، آپ کو چاروں اطراف افق کے قریب سفید برف پوش چوٹیاں دکھائی دیں گی، چوٹیوں کے قدموں میں سبز جنگل ہیں، جنگلوں سے آگے مکان ہیں، مکان سیڑھیوں کی طرح اوپر نیچے بنے ہیں، مکانوں کے آخر میں گراؤنڈ لیول پر شہر کا سینٹرل حصہ ہے، سٹی سینٹر میں ریستوران، کیفے، سووینیئر شاپس، شاپنگ سینٹرز، انفارمیشن سینٹرز، ٹور آپریشن کمپنیوں کے دفاتر اور ہوٹلز ہیں، آپ اگر سٹی سینٹر سے بائیں جانب چل پڑیں تو آدھ کلو میٹر کی واک کے بعد جھیل آ جاتی ہے، جھیل شروع میں سمندر دکھائی دیتی ہے۔
آپ کو اس کا دوسرا کنارا دکھائی نہیں دیتا، جھیل کے گرد ریستورانوں، کافی شاپس، بارز اور ہوٹلز کا دائرہ سا کھچا ہے، آپ پانی کے قریب پہنچیں تو فیریز، موٹر بوٹس، بحری جہازوں اور واٹر گیمز کی مختلف کمپنیوں کے بکنگ آفس ہیں، آپ جھیل کے کنارے کنارے چلنا شروع کریں تو آپ کو پانی میں براؤن رنگ کی بطخیں اور کونجیں بھی نظر آئیں گی، ہم جھیل کے کنارے پہنچے تو بارش شروع ہو گئی،بارش میں کوئینز ٹاؤن مزید خوبصورت ہو گیا، سردی کا زور ٹوٹ گیا اور فضا میں ایک خوشبو سی پھیل گئی، ہم نے غروب آفتاب کا منظر دیکھنے کے لیے آخری کروز میں نشستیں بک کرا لیں، کروز نے پانچ بجے چلنا تھا اور جھیل میں اس مقام پر پہنچنا تھا جہاں سورج کی آخری کرنیں زمین کو الوداع کہتی ہیں۔
ہمارے پاس ایک گھنٹہ تھا، ہم شہر میں نکل گئے، شہر خواب کی طرح محسوس ہوتا تھا، آپ کو دنیا میں بہت کم ایسے شہر ملیں گے جن میں بیک وقت برف بھی ہو، پہاڑ بھی ہوں، جنگل بھی ہوں، مکان بھی ہوں، لوگ بھی ہوں، رش بھی ہو اور ساتھ ہی بڑی جھیل بھی ہو اور یہ سب کچھ جون کے مہینے میں دستیاب ہو، کوئینز ٹاؤن ایک ایسا شہر ہے جس میں یہ تمام عناصر موجود ہیں اور بھرپور طریقے سے موجود ہیں، آپ اگر ایک بار اس شہر میں قدم رکھ لیں تو یہ باقی زندگی آپ کا پیچھا نہیں چھوڑے گا، یہ حسین یاد بن کر ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے گا، شہر مہنگا ہے۔
شاید مہنگائی کی وجہ وہ سیاح ہیں جو صرف خرچ کرنے کے لیے یہاں آتے ہیں یا پھر جنوب کی انتہا پر ہونے کی وجہ سے ہر چیز یہاں پہنچ کر مہنگی ہو جاتی ہے، لوگ بہت خوش اخلاق ہیں، یہ خوش دلی سے آپ کا استقبال کرتے ہیں، پورے نیوزی لینڈ میں سیاحوں کی مدد کے لیے انفارمیشن سینٹر بنے ہیں، آپ جس شیشے یا دروازے پر انگریزی زبان میں آئی کا لفظ دیکھیں آپ اندر گھس جائیں، آپ کو وہاں سے ہر قسم کی معلومات ملیں گی، ٹرانسپورٹ اور ہوٹل مہنگے ہیں، خوراک بھی سستی نہیں، اگر کوئی چیز سستی ہے تو وہ دائیں بائیں بکھرے مناظر ہیں اور یہ مناظر سیکڑوں ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔
ہماری فیری کا وقت ہو گیا، ہم فیری میں سوار ہو گئے، موسم خراب تھا چنانچہ ہم غروب آفتاب کا منظر نہ دیکھ سکے، آدھ گھنٹے بعد اندھیرا ہو گیا، اندھیرے کے بعد کوئینز ٹاؤن کے نئے رنگ سامنے آ گئے، ہم جھیل کے پیالے میں تیر رہے تھے۔
ہمارے چاروں اطراف پہاڑ تھے، پہاڑوں پر کوئینز ٹاؤن آباد تھا، شہر کی روشنیاں جل رہی تھیں، یہ روشنیاں فیری کے ساتھ پانی میں گھلتی تھیں اور منظر کو مزید خواب ناک، مزید رنگیں بنا دیتی تھیں، ہم ٹرانس میں چلے گئے، ایک ایسے ٹرانس میں جس میں بارش تھی، ہڈیوں میں اترنے والی تیز ہوا تھی، جھیل تھی، جھیل میں تیرتی ہوئی فیری تھی اور فیری کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے پانی میں ہزاروں روشنیاں ہچکولے کھا رہی تھیں، وہ لمحہ صرف لمحہ نہیں تھا، وہ ایک فوٹو گراف تھا اور وہ فوٹو گراف ہمیشہ ہمیشہ کے لیے میرے ذہن کی دیواروں سے چپک گیا، میرے دماغ، میرے ذہن میں ایک کوئینز ٹاؤن آباد ہو گیا۔

کوئینز ٹاؤن ہنوز دور است
جاوید چوہدری منگل 30 جون 2015

ہم افطاری کے وقت ولنگٹن پہنچ گئے، شام لال تھی، فضا میں خنکی تھی، ہم گاڑی سے باہر نکلتے تو ٹھنڈی یخ ہوا ، محبوبہ کی طرح جسم سے لپٹ جاتی تھی، چہرہ، گردن، ہاتھ اور ٹخنے برف ہو جاتے تھے، ہم واپس بھاگ کر گاڑی میں پناہ لے لیتے تھے، ولنگٹن نیوزی لینڈ کا دارلحکومت اور دوسرا بڑا شہر ہے، شہر پہاڑیوں پر بنا ہے، پہاڑیاں سبز بھی ہیں، ٹیڑھی میڑھی بھی اور طوفانی بھی، یخ تیز ہوا ہر وقت شہر پر دستک دیتی رہتی ہے، شہر کے پاؤں میں ٹھنڈا سمندر ہچکولے لیتا رہتا ہے، یہ شمالی نیوزی لینڈ کا آخری شہر بھی ہے، اس کے بعد سمندر ہے اور سمندر کے دوسرے سرے پرنیوزی لینڈ کا جنوبی حصہ ۔بحری جہاز دونوں سروں کے درمیان رابطے کا واحد ذریعہ ہیں، ہم آخری فیری پکڑنا چاہتے تھے اور ہم اس میں کامیاب ہو گئے، فیری بڑی تھی، نچلے حصے میں گاڑیاں، ٹرک اور بارہ بارہ پہیوں والے ٹرالر کھڑے تھے جب کہ دوسری منزل پر مسافروں کے بیٹھنے کی جگہ تھی، فیری میں ڈنر اور کافی کا اچھا اہتمام تھا۔
دنیا کے ہر شہر کی ایک خوشبو، ایک احساس ہوتا ہے، میں اسے ’’فِیل‘‘ کہتا ہوں، شہر لوگوں کی طرح ہوتے ہیں، یہ آپ کو اچھے بھی لگتے ہیں، یہ آپ کو برے بھی لگتے ہیں، یہ آپ کو دھوکا بھی دیتے ہیں، یہ آپ سے وفا بھی کرتے ہیں اور یہ آپ کو اپنے اپنے بھی محسوس ہوتے ہیں، ولنگٹن میں اپنائیت تھی، یہ دل کو کھینچ رہا تھا لیکن ہمارے پاس اس کی دلبری سے لطف اٹھانے کا وقت نہیں تھا چنانچہ ہم فیری میں گھس گئے، ہماری فیری ولنگٹن سے نکلی تو دونوں اطراف عمارتیں تھیں اور عمارتوں کی روشنیاں تھیں، فیری، پانی، یخ ہوائیں، ولنگٹن اور تڑپتی مچلتی عکس چھوڑتی روشنیوں نے مجھے اداس کر دیا، یہ اداسی کھرنڈ کی خارش جیسی تھی، یہ غم سے زیادہ مزہ دے رہی تھی اور میں اور مظہر بخاری دونوں کھرنڈ سہلا رہے تھے اور بھیگتی ہوئی اداسی کا لطف لے رہے تھے۔
فیری تین گھنٹے پانی پر چلی، پانی کے اس چینل کو شارک اور سیلز کا گھر کہا جاتا ہے، ہمارے جہاز کے گرد بھی سیل ہوں گی لیکن ہم اندھیرے کی وجہ سے انھیں دیکھ نہیں پا رہے تھے، پکٹن (Picton) ہماری اگلی منزل تھا، یہ جنوبی نیوزی لینڈ کا پہلا شہر ہے، ہم رات کے لیے یہاں رک گئے، رات بہت ٹھنڈی تھی، درجہ حرارت نقطہ انجماد سے کم تھا، کھڑکی سے باہر کہرا تھا اور ٹھندی ہوا تھی، نیوزی لینڈ میں سردیوں کے لیے خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے، ہوٹلوں کے کمرے گرم ہوتے ہیں، یہ لوگ الیکٹرک کمبل بھی استعمال کرتے ہیں، یہ کمبل عام مل جاتے ہیں، آپ اسے بستر پر بچھاتے ہیں، اس کا سوئچ آن کرتے ہیں اور یہ آپ کا بستر گرم کر دیتا ہے، یہ اچھی اور سود مند ایجاد ہے، ہمیں بھی یہ سردیوں میں گھروں میں استعمال کرنی چاہیے، یہ سستی بھی ہے، بجلی بھی کم استعمال ہوتی ہے اور یہ بستر کو بھی جلد گرم کر دیتی ہے۔
ہم نیوزی لینڈ میں جہاں بھی گئے ہمیں یہ کمبل ملے اور ہم نے یہ استعمال کیے، پکٹن کی صبح اچھی تھی، گھاس پر برف کی تہہ جمی تھی جب کہ فضا ٹھٹھری ہوئی تھی، ہمارا سفر شروع ہو گیا، پکٹن نیوزی لینڈ کی ’’وائین ڈسٹرکٹ،، کہلاتا ہے، شہر کے باہر ’’ہائی وے،، کے دونوں اطراف انگوروں کے سیکڑوں باغات ہیں، آپ کو دور دور تک انگوروں کے باغات اور وائین فیکٹریاں دکھائی دیتی ہیں، پاکستان میں اس وقت انگور پک رہے ہیں جب کہ نیوزی لینڈ میں بیلوں پر ابھی تک پتے نہیں آئے، یہاں سردیاں ہیں، یہ انگوروں کا موسم نہیں، یہاں انگور دسمبر جنوری میں پکتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اگر مہلت دی تو میں انشااللہ نیوزی لینڈ کی گرمیوں میں بھی یہاں آؤں گا، باغات کے مالکان نے پودوں کو برف ، مکھیوں اور پرندوں سے بچانے کے لیے خصوصی اہتمام کر رکھا تھا، کھیتوں پر بڑی بڑی جالیاں لگی تھیں، یہ جالیاں کھل جاتی تھیں اور پورے کھیت کو اپنے حصار میں لے لیتی تھیں، انگوروں کے یہ باغات نو سو کلومیٹر تک ہمارے ساتھ چلتے رہے، یہ کہیں کم ہو جاتے تھے اور کہیں زیادہ لیکن یہ غائب نہیں ہوتے تھے، ہم نے صبح کے وقت سفر شروع کیا تھا۔
ہم رات تک ڈرائیو کرتے رہے، ہمارے سارے سفر کے دوران سورج ہماری دائیں جانب رہا، یہ ہمارے سر سے گزر کر بائیں جانب نہیں آیا، یہ ایک غیر معمولی بات تھی، یہ ثابت کرتی تھی، نیوزی میں سورج مشرق سے مغرب کی طرف نہیں جاتا، یہ سروں اور چھتوں کے اوپر سے نہیں گزرتا، یہ دائیں بازو پر طلوع ہوتا ہے اور دائیں بازو ہی غروب ہو جاتا ہے، ہم نے اللہ کے اس معجزے کی زیارت کی اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا، راستے میں مختلف جگہوں پر ’’سیل،، سمندر سے نکل کر چٹانوں پر بیٹھی تھیں،، ان کے بچے بھی ان کے ساتھ تھے، سیل عجیب مخلوق ہے، یہ بیک وقت پانی اور خشکی کا جانور ہے، یہ بھینس نما مچھلی ہوتی ہے، یہ پانی میں بھی رہتی ہے اور خشکی پر بھی، بچوں کو دودھ پلاتی ہے، انسانوں سے خائف نہیں ہوتی، یہ ہم سے جلد مانوس ہو جاتی ہے، یہ ذہنی لحاظ سے انسان کے قریب ہے چنانچہ یہ انسانی حرکتیں اور اشارے سیکھ جاتی ہے۔
میں نے دنیا کے مختلف حصوں میں ’’واٹر شوز‘‘ میں سیل دیکھیں لیکن انھیں یوں کھلے آسمان تلے دیکھنے کا موقع پہلی بار ملا، ہم نے انھیں چٹانوں پر چڑھتے بھی دیکھا اور اترتے بھی، یہ چل کر سڑک کے کنارے تک آجاتی تھیں، ہم تصویریں بنانے کے لیے ان کے قریب پہنچے تو یہ ہمیں تھوتھنی اٹھا کر غور سے دیکھنے لگیں، یہ ہم سے خائف نہیں تھیں اور ہم ان سے خوفزدہ نہیں تھے، کیوں؟ ہمیں اس کی وجہ سمجھ نہیں آئی، راستے میں شیویٹ Cheviot کا گاؤں بھی آیا اور ایش برٹن کا قصبہ بھی۔ یہ گاؤں شیویٹ فیملی نے 1890ء میں آباد کیا تھا، یہ لوگ برطانیہ سے آئے ، زمین کا یہ ٹکڑا حاصل کیا اور اس کی آباد کاری میں مصروف ہو گئے، گاؤں میں آج بھی ان کی نسل آباد ہے، لوگوں نے بزرگ کے نام پر ایک چھوٹا سا عجائب گھر بھی بنا رکھا ہے، یہ پہاڑوں میں گھرا ہوا ایک ایسا خوبصورت گاؤں ہے جو ہم کیلنڈروں، ویوکارڈز اور فلموں میں دیکھتے ہیں، ہم چند لمحوں کے لیے گاؤں میں رک گئے۔
سڑک کی دوسری طرف چھوٹا سا چرچ تھا، میں نے چرچ کا دروزہ کھولا اور اندر داخل ہو گیا، اندر خنکی ، سناٹا اور اداسی تھی، میں چرچ کے بینچ پر بیٹھ گیا اور سوچا میں شاید اس چرچ کاپہلا مسلمان ہوں، یہ سوچتے ہی میرے اندر ایک عجیب جذبہ ہچکولے لینے لگا، میں اٹھا، قربان گاہ پر چڑھا اور سورت فاتحہ کی تلاوت شروع کر دی، میں نے یہ کیوں کیا؟ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا، ایشن برٹن اس روڈ کا آخری قصبہ تھا، ایش برٹن کے بعد پہاڑی سلسلہ شروع ہو گیا، ایش برٹن بھی ایک خوبصورت ٹاؤن تھا، تمام شہری سہولتوں سے آراستہ پرسکون ٹاؤن۔ قصبے کے بعد ہمارا خطرناک سفر شروع ہو گیا، ہم نے چڑھائی چڑھنا شروع کر دی اور چڑھائی کے ساتھ ہی برفیلا علاقہ شروع ہو گیا، ہمارے دائیں بائیں برف پوش پہاڑ تھے، برف تازہ تھی، نیوزی لینڈ میں رات کا سفر خطرناک ہوتا ہے، رات کے وقت درجہ حرارت گرنے سے سڑک پر برف کی باریک تہہ جم جاتی ہے، مقامی لوگ اسے ’’بلیک آئس‘‘ کہتے ہیں۔
یہ خطرناک ہوتی ہے کیونکہ یہ ٹائرز کی سڑک پر گرفت کمزور کر دیتی ہے اور گاڑیوں کے سلپ ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، ہم نے جب ایش برٹن کراس کیا تو ہمیں چند گاڑیاں آگے جاتی نظر آئیں، ہم نے بھی ہمت پکڑی اور ان کے پیچھے چل پڑے، ہمیں آگے جا کر اندازہ ہوا ہم ٹھیک ٹھاک رسک لے چکے ہیں،کیوں؟ کیونکہ ہمارے آگے جانے والی گاڑیاں جیپیں بھی تھیں اور یہ لوگ بھی مقامی تھے جب کہ ہم کار چلا رہے تھے اور ہمیں راستوں کا علم بھی نہیں تھا لیکن ہم چل پڑے اور سوچل پڑے۔ حکومت نے ہر چڑھائی اور اترائی پر بجری اور نمک کی کنکریاں پھینک رکھی تھیں، یہ کنکریاں آخر تک ہمارے ساتھ رہیں، یہ گاڑیوں کو پھسلنے سے بچا رہی تھیں، یہ حکومت کی طرف سے خصوصی بندوبست تھا، حکومت اس سارے علاقے پر نظر رکھتی ہے، برفباری بالخصوص صبح کے وقت جب سڑک پر بلیک آئس ہوتی ہے۔
حکومت روڈ ٹریفک کے لیے بند کر دیتی ہے اور یہ روڈ اس وقت تک نہیں کھلتا جب تک سڑک کلیئر نہیں ہو جاتی، حکومت سڑکوں سے برف بھی ہٹاتی رہتی ہے جب کہ خطرناک اترائیوں اور چڑھائیوں پر کنکریاں بھی ڈال دی جاتی ہیں، ہم ایک ایسی روڈ پر چل رہے تھے جس کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے برف تھی اور برف سے ذرا سے فاصلے پر اندھیرا تھا، ہماری ہم سفر گاڑیاں ایک ایک کر کے ہمارا ساتھ چھوڑتی گئیں، یہ راستے کے ہوٹلوں اور موٹلوں میں رکتی چلی گئیں لیکن ہم آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ سڑک پر صرف ہم رہ گئے، اب وہاں کیا تھا؟ وہاں اب برف تھی، تیز یخ ہوا تھی، اندھیرا تھا اور خوف تھا اور برف کے اس خوفناک ریگستان میں ہماری گاڑی جگنو بن کر چمک رہی تھی اور شہتوت کے کیڑے کی طرح آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی، شیشے کی دوسری طرف برف کا طوفان تھا اور ہم دونوں بزدل بہادر بنے کبھی ایک دوسرے کی طرف دیکھتے تھے اور کبھی باہر برف کے طوفان کو متوحش نظروں سے تکتے تھے۔
ہم دونوں سفیدی کے اس جہنم میں بہادر بھی تھے اور بزدل بھی۔ ہم بہاد کیوں تھے؟ ہم بہادر اس لیے تھے کہ ہم نے ہمت نہیں ہاری، ہم آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے اور ہم بزدل کیوں تھے؟ ہم بزدل اس لیے تھے کہ خوف سے ہماری بری حالت تھی، ہم دل ہی دل میں اس سفر کو اپنا آخری سفر سمجھ رہے تھے، ہمارے خوف میں اس وقت اضافہ ہو جاتا تھا جب ہم سڑک کے کنارے کھڑی تباہ حال گاڑیاں دیکھتے یا پھر سڑک کے کنارے آویزاں وارننگ پڑھتے، مظہر بخاری اچھا ڈرائیور ہے لیکن راستہ بھی اجنبی تھا، ملک بھی ہمارا نہیں تھا، سردی بھی تھی، برف بھی تھی، رات بھی اندھیری تھی، ہم بھی مسلسل آٹھ گھنٹے سے ڈرائیونگ کر رہے تھے اور ہمارے آگے پیچھے بھی کوئی گاڑی نہیں تھی، ہم نے اگلے پڑاؤ پر ڈیرے ڈالنے کا فیصلہ کر لیا، ہمیں سامنے ایک چھوٹا سا گاؤں نظر آیا، گاؤں کا نام اوماراما تھا۔
سڑک پر موٹل تھا، ہم نے موٹل میں کمرہ لے لیا، موٹل تقریباً برف میں دفن ہو چکا تھا لیکن کمرے بہت گرم تھے، استقبالیہ پر کھڑی خاتون نے بتایا کل رات یہاں کا درجہ حرارت منفی بیس تھا، گاؤں کا سارا پانی جم گیا تھا، ہمارے پاس پینے تک کا پانی نہیں بچا تھا، گاؤں میں صرف تین سو لوگ رہتے ہیں، گرمیاں اچھی ہوتی ہیں لیکن سردیوں میں گاؤں میں رہنا مشکل ہو جاتا ہے، ہم نے اس کا شکریہ ادا کیا، کمرے میں داخل ہوئے اور ہمارے منہ سے موٹل بنانے والے کے لیے دعائیں نکلنے لگیں، کیوں؟ کیونکہ موٹل کے مالک نے کمروں میں نہ صرف تمام سہولتیں رکھی تھیں بلکہ اس نے گاہکوں کے آرام کے لیے کمروں کے ہیٹر جلا رکھے تھے، کمرہ گرم تھا، ہم نے وہ رات اوماراما میں بسر کرنا تھی، کیوں؟ کیونکہ کوئینز ٹاؤن ابھی دو سو کلو میٹر دور تھا۔ ’’ہنوز کوئینز ٹاؤن دور است،،۔
صلاحیتوں، زندگی اور سرمائے کا صدقہ
جاوید چوہدری اتوار 28 جون 2015

وہ 75 سال کے ’’ بابے‘‘ تھے، ان کے 80 فیصد دانت گر چکے تھے، کانوں سے انھیں آوازیں نہیں آتی تھیں، وہ سونگھنے، چکھنے اور چھونے کی حسوں سے محروم ہو چکے تھے، ان کے دونوں گھٹنوں میں بھی درد رہتا تھا، ان کی بینائی سے یک سوئی بھی ختم ہو چکی تھی اور ان کے پورے جسم میں ایک رعشہ اور لرزہ بھی طاری رہتا تھا، وہ پانچ برس سے صاحب فراش تھے، یہ پانچ برس انھوں نے گھر پر گزار دیے، سردیاں آتی تھیں تو نوکر ان کی کرسی دھوپ میں رکھ دیتے تھے اور وہ سارا دن لان میں بیٹھ کر اونگھتے رہتے تھے۔
گرمیوں میں وہ اے سی کے سامنے بیٹھ جاتے تھے اور بہار کے موسم میں ان کے کمرے کی کھڑکیاں کھول دی جاتی تھیں اور وہ شیشے کے پاس بیٹھ کر کیاریوں میں لرزتے کانپتے پھول دیکھتے رہتے تھے، ان کی اہلیہ کو ساتھ چھوڑے دس برس ہو چکے تھے، ان کے بچے سعادت مند تھے لیکن اپنے اپنے کاروبار میں الجھ چکے تھے اور ان کے پاس باباجی کے لیے وقت نہیں تھا، وہ بھی اپنے بچوں کی مجبوریوں کو سمجھتے تھے، ان کا اپنا فلسفہ تھا، کاروبار اس وقت تک کاروبار نہیں بنتا جب تک انسان پوری طرح اس میں جذب نہ ہو جائے، وہ جانتے تھے کسی اچھے اور کامیاب بزنس مین کے پاس فیملی، دوست احباب اور ماں باپ کے لیے وقت نہیں ہوتا چنانچہ وہ اپنے بچوں سے کبھی شکوہ نہیں کرتے تھے لیکن ان کے دل میں کسی نہ کسی جگہ زندگی سے شدید نفرت اور شکایت بھی موجود تھی۔
وہ اکثر سوچا کرتے تھے انھوں نے 70 سال تک ’’ایکٹو‘‘ زندگی گزاری، انھوں نے ایک چھوٹی سی دکان کو چھ فیکٹریوں اور تین ہزار ایک سو بارہ روپے کے اکائونٹ کو دو ارب 80 کروڑ 40 لاکھ تین سو 90 روپے کے بینک بیلنس میں بدل دیا تھا لیکن پھر جوں ہی ان کی زندگی نے 70 سال کی دہلیز پر قدم رکھا ان کی ساری ’’ ایکٹویٹی‘‘ یک دم ختم ہو گئی اور وہ بے کار ہو کر گھر بیٹھ گئے، کیوں؟ وہ اکثر سوچا کرتے تھے اگر قدرت کو ان کی مزید ضرورت نہیں تو پھر وہ زندہ کیوں ہیں؟ وہ مر کیوں نہیں جاتے؟ انھیں ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں ملتا تھا لیکن پھر پچھلے دسمبر کی دھوپ آئی، وہ لان میں بیٹھے، عصر کے وقت انھوں نے آسمان کی طرف دیکھا اور اپنے اللہ سے پوچھا ’’یا پروردگار میں کیوں زندہ ہوں‘‘ اور یہ وہ وقت تھا جب گمان اللہ کا جواب بن کر ان کے دل پر اترا، انھوں نے خوشی سے ہاتھ بھینچے، اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور سہارے کے بغیر اپنے قدموں پر کھڑے ہو گئے،یہ ان کی نئی زندگی کا پہلا دن تھا۔
وہ اگلی صبح اٹھے، شیو بنائی، سوٹ پہنا، خوشبو لگائی اور ڈرائیور کے ساتھ دفتر پہنچ گئے، انھیں دفتر میں دیکھ کر تمام لوگ حیران رہ گئے، انھوں نے دفتر میں ایک چھوٹا سا کیبن لیا، اس میں بیٹھے اور اپنے ذاتی اکائونٹ کی تفصیلات طلب کر لیں، ان کے اکائونٹ میں 22 کروڑ روپے تھے، انھوں نے کمپنی کے انجینئرز کو بلوایا، ٹھیکے داروں اور نقشہ نویسوں کو طلب کیا اور شہر کے مضافات میں ایک چھوٹی سی فیکٹری لگانے کا حکم دے دیا، یہ فیکٹری ایسی جگہ لگائی جا رہی تھی جہاں کچی آبادیوں کی بھر مار تھی، جہاں بجلی، سیوریج، ٹیلی فون اور گیس نہیں تھی اور جس جگہ سڑک بھی موجود نہیں تھی، بابا جی کا یہ فیصلہ بم بن کر گرا اور کمپنی کے عہدیداروں سمیت ان کے تمام بچے پریشان ہو گئے، ان لوگوں کا خیال تھا باباجی سٹھیا گئے ہیں۔
یہ بات زیادہ غلط نہیں تھی کیونکہ پوری دنیا میں فیکٹریاں لگانے کے چند پکے اصول ہیں، دنیا کا ہر صنعتکار ایسی جگہ فیکٹری لگاتا ہے جہاں سڑک ہو، جہاں بجلی، گیس، ٹیلی فون اور سیوریج لائنیں موجود ہوں اور جہاں کے لوگ مہذب ہوں، پاکستان جیسے ممالک میں صنعت کار کچی آبادیوں کے قریب سرمایہ کاری نہیں کرتے کیونکہ وہاں سیکیورٹی، لاء اینڈ آرڈر اور سہولتوں کا فقدان ہوتا ہے اور یہ تینوں چیزیں سرمایہ کاری کی دشمن ہیں، بابا جی نے خود بھی زندگی بھر ان اصولوں کا خیال رکھا تھا، وہ کبھی گیلی زمین پر پائوں نہیں رکھتے تھے اور انھوں نے ہمیشہ محفوظ جگہوں پر سرمایہ کاری کی تھی چنانچہ ایک ایسا شخص جسے لوگ زیرک اور چالاک سمجھتے ہوں وہ اگر اچانک اپنے اصولوں کی خلاف ورزی شروع کر دے اور 22 کروڑ روپے جیسی خطیر رقم بے وقوفی کے تنور میں ڈال دے تو لوگ یقینا اس کی ذہنی حالت کے بارے میں مشکوک ہو جائیں گے لہٰذا لوگ بابا جی کی ذہنی حالت کے بارے میں بھی خدشات کا شکار ہو گئے، میں باباجی اور ان کے بیٹے کا مشترکہ دوست تھا، بابا جی میری بہت عزت کرتے تھے، وہ بیٹا میرے پاس آیا، اس نے مجھے ساری کہانی سنائی اور مجھے بابا جی کو سمجھانے کی ذمے داری سونپ دی۔
میں اگلے دن بابا جی کے پاس حاضر ہو گیا، بابا جی نے بڑے صبر سے میرے سارے اعتراضات سنے اور آخر میں ایک بلند و بانگ قہقہہ لگایا، میں بابا جی کی ذہنی سطح کے بارے میں مکمل طور پر مشکوک ہو گیا، بابا جی ذرا دیر تک ہنستے رہے اور آخر میں سنجیدہ ہو کر بولے ’’میں فیکٹری لگانا چاہتا ہوں، تم لوگوں کو اس میں کیا تکلیف ہے‘‘ میں نے عرض کیا ’’دو بڑی تکلیفیں ہیں‘‘ وہ بولے ’’کیا‘‘ میں نے جواب دیا ’’اول یہ آپ کی کام کرنے کی عمر نہیں ہے، دوم آپ غلط جگہ سرمایہ کاری کر رہے ہیں‘‘ انھوں نے قہقہہ لگایا اور مجھ سے دو سوال پوچھے، انھوں نے پوچھا ’’اگر میں کام کرنے کے قابل نہیں ہوں تو پھر میں زندہ کیوں ہوں‘‘ میں نے ان کے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی لیکن مجھ سے کوئی خاص جواب نہ بن پایا، انھوں نے دوسرا سوال پوچھا ’’انسان کو زندگی گزارنے کے لیے کتنا سرمایہ چاہیے‘‘ میں نے اس کا جواب دینا شروع کر دیا، ہم دیر تک انسان کی مختلف ضرورتوں اور ان ضرورتوں پر آنے والے خرچ کا تخمینہ لگاتے رہے۔
ہم نے ایک گھنٹے میں تخمینہ لگایا، پاکستان جیسے ملک میں مڈل اور اپر مڈل کلاس کا ایک شخص ذاتی زندگی پر اوسطاً 70 سے 80 لاکھ روپے خرچ کرتا ہے، بابا جی مسکرائے اور انھوں نے پوچھا ’’اس کا مطلب ہے اگر اللہ تعالیٰ کسی انسان کو 80 لاکھ روپے سے زیادہ رقم دیتا ہے تو یہ سرمایہ زائد ہے‘‘ میں نے ہاں میں سر ہلا دیا، وہ بولے ’’اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جو چیز تمہاری ضرورت سے زائد ہو وہ اللہ کی راہ میں خرچ کر دو‘‘ میں حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگا، وہ بولے ’’اب تم ایک اور پہلو بھی دیکھو، اللہ تعالیٰ ہمیں زندگی گزارنے کے لیے بے شمار صلاحیتیں دیتا ہے، وہ ہمیں جسم، دماغ اور روح دیتا ہے، وہ ہمیں وژن، سوچ اور حوصلہ دیتا ہے۔
وہ بعض لوگوں کو بعض لوگوں کے مقابلے میں زیادہ جرأت، زیادہ بہادری، زیادہ ذہانت اور زیادہ معاملہ فہمی دیتا ہے اور وہ بعض لوگوں کو ایک روپے سے دس ہزار روپے کمانے کا ہنر دیتا ہے، یہ سارے ہنر، یہ ساری صلاحیتیں بھی بعض اوقات ہماری ضرورت سے زائد ہوتی ہیں،، میں خاموشی سے سنتا رہا، وہ بولے ’’ اللہ تعالیٰ ہمیں زندگی بھی بخشتا ہے اور بعض اوقات ہماری یہ زندگی بھی ہماری ضرورت سے زائد ہوتی ہے مثلاً تم مجھے دیکھو میں نے اپنے سارے کام ساٹھ سے ستر برس تک پورے کر لیے تھے اور اس کے بعد کی زندگی مجھے زائد سی محسوس ہوتی تھی،، میں خاموش رہا، وہ بولے ’’میں تمہیں اب بتاتا ہوں انسان کا زائد سرمایہ، زائد صلاحیتیں اور زائد زندگی اللہ اور اس کے بندوں کی امانت ہوتی ہے اور اگر ہم یہ زائد زندگی، زائد صلاحیتیں اور زائد سرمایہ اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو ہم اللہ کے گنہگار ہیں،، میں خاموشی سے سنتا رہا، وہ بولے ’’مجھے اچانک ایک دن معلوم ہوا میرے پاس بھی زائد زندگی، زائد صلاحیتیں اور زائد سرمایہ ہے چنانچہ مجھے مرنے سے پہلے یہ ساری امانتیں اللہ کے بندوں کو سونپ دینی چاہئیں‘‘
مجھے یہاں ان کے فلسفے میں تھوڑا سا جھول محسوس ہوا چنانچہ میں نے فوراً ’’ری ایکٹ‘‘ کیا، میں نے عرض کیا ’’لیکن اللہ کی امانت لوٹانے کے لیے فیکٹری لگانا تو ضروری نہیں‘‘ انھوں نے قہقہہ لگایا اور بولے ’’مجھے یقین تھا تم مجھ سے یہ ضرور پوچھو گے، بے وقوف بچے اللہ نے مجھے فیکٹریاں لگانے اور کاروبار کرنے کی صلاحیت دے رکھی تھی، میں اسی کام کا ماہر ہوں چنانچہ میں اللہ کے بندوں کو صرف اسی صلاحیت میں شریک کر سکتا ہوں، میں اپنی آخری فیکٹری شہر کے سب سے محروم علاقے میں اس لیے لگا رہا ہوں کہ اس فیکٹری سے علاقے کے بے روزگاروں کو روزگار ملے گا اور اس علاقے کے لوگوں کو سڑک، بجلی، گیس اور پانی ملے گا، میں یہ فارمولہ بنا رہا ہوں میری اس فیکٹری کا آدھا منافع کارکنوں اور ان کے اہل خانہ کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو اور باقی آدھا منافع اس علاقے کے لوگوں کے معیار زندگی پر لگایا جائے، یہ فیکٹری علاقے میں اسکول، کالج اور اسپتال بنائے گی۔
یہ لوگوں کو ہنر سکھائے گی جس سے اس سارے علاقے کا معیار زندگی بلند ہو جائے گا،، وہ خاموش ہو گئے، میں بھی خاموشی سے ان کی طرف دیکھتا رہا، وہ ذرا دیر رک کر بولے ’’ ہمیں فلاح کے صرف وہ کام کرنے چاہئیں جس کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں صلاحیت دے رکھی ہو، ماہر تعلیم کو تعلیم، کھلاڑی کو کھیل، صنعت کار کو صنعت، ڈاکٹر کو طب، دکاندار کو دکان اور قلم کار کو قلم کا صدقہ دینا چاہیے، ہم سب لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی دی صلاحیتوں، زندگی اور سرمائے کا صدقہ دینا چاہیے، دکاندار کو آخری دکان صدقہ سمجھ کر بنانی چاہیے اور استاد کو ریٹائرمنٹ کے بعد کچی آبادی کے بچوں کے لیے صدقہ اسکول بنانا چاہیے اور اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہم اللہ تعالیٰ کے مجرم ہوں گے‘‘ وہ خاموش ہو گئے۔
میں نے ان کا ہاتھ چوما اور باہر آ گیا، وہ سچے تھے اور ہم سب بے وقوف اور بے عقل۔
سورج کے دیس میں
جاوید چوہدری جمعرات 25 جون 2015

آپ اگر دنیا کا نقشہ سامنے بچھائیں اور اس میں نیوزی لینڈکو تلاش کریں تو یہ آپ کو قطب جنوبی کی سمت میں دنیا کے آخر میں نقطے کی صورت میں ملے گا، یہ قطب جنوبی کی طرف آخری انسانی آبادی ہے، اس کے بعد اندھیرا ہے، برف ہے اور موت ہے، زندگی یہاں پہنچ کر اجنبی ہو جاتی ہے، نیوزی لینڈ دو حصوں میں تقسیم ہے، شمالی نیوزی لینڈ اور جنوبی نیوزی لینڈ، دونوں کے درمیان سمندر حائل ہے، آپ کو شمالی نیوزی لینڈ سے جنوبی نیوزی لینڈ جانے کے لیے بحری جہاز کی مدد لینا پڑتی ہے، آپ گاڑی سمیت بحری جہاز میں داخل ہو جاتے ہیں۔
آپ کو دنیا بھر میں شمالی حصہ جنوبی حصے کے مقابلے میں سرد محسوس ہوتا ہے لیکن نیوزی لینڈ میں ایسا نہیں ہوتا، آپ یہاں جوں جوں شمال سے جنوب کی طرف بڑھتے ہیں، سردی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، آپ اگر نیوزی لینڈ کو غور سے دیکھیں تو آپ کو شمالی حصے کے آخر میں گزبورن (Gisborne) نام کا چھوٹا سا قصبہ ملے گا، یہ قصبہ دنیا کا مشرق ہے، سورج روزانہ یہاں سے اپنا سفر شروع کرتا ہے، سورج کی پہلی کرن اس قصبے میں آنکھ کھولتی ہے، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں لیکن اس کے باوجود دونوں ممالک کے وقت میں دو گھنٹے کا فرق ہے، نیوزی لینڈ میں طلوع کے دو گھنٹے بعد آسٹریلیا میں صبح ہوتی ہے جب کہ پاکستان میں سات گھنٹے بعد صبح کی اذان ہوتی ہے۔
سورج گز بورن سے سفر کرتا ہوا چوبیس گھنٹے بعد سامو آ میں غروب ہو جاتا ہے، ساموآ نیوزی لینڈ کے ہمسائے میں ایک چھوٹا سا امریکی جزیرہ ہے، گزبورن اور ساموآ میں زیادہ فاصلہ نہیں لیکن دونوں میں مشرق اور مغرب جتنی دوری ہے، ساموآ میں سورج غروب ہوتا اور چند منٹ بعد گزبورن میں طلوع ہو جاتا ہے چنانچہ آپ اگر ساموآ اور گزبورن کے درمیان پیسیفک اوشین (بحرالکاہل)میں کھڑے ہوں تو آپ اپنی آنکھوں سے اپنے ایک بازو میں سورج کو غروب ہوتے اور دوسرے بازو سے طلوع ہوتے دیکھ سکتے ہیں، یہ خطہ جس میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں ،یہ باقی دنیا سے چھ ماہ پیچھے ہے، جون اور جولائی میں جس وقت پاکستان میں درجہ حرارت 50 سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے عین اس وقت آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں سردیاں جوبن پر ہوتی ہیں۔
نیوزی کے جنوبی حصے میں اس وقت برف باری ہو رہی ہے جب کہ نومبر ،دسمبر اور جنوری میں جب باقی دنیا رضائیوں اور جیکٹوں میں گھس جاتی ہے، اس وقت نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں گرمیاں شروع ہو جاتی ہیں، آپ قدرت کا حیران کن معجزہ دیکھئے، فجی، ساموآ اور ٹونگا تینوں جزائر نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے ہمسائے میں واقع ہیں، یہ یہاں سے ایک، دو اور تین گھنٹے کی فضائی دوری پر ہیں لیکن وہاں سردی نہیں آتی، وہاں ہر وقت گرمی رہتی ہے شاید اسی لیے انگریزوں نے اکتوبر 1874ء میں فجی پر قبضہ کر کے وہاں وسیع پیمانے پر گنا کاشت کیا، شوگر ملز لگائیں اور پورے خطے کو چینی سپلائی کرنے لگے۔
آک لینڈ ہماری پہلی منزل تھا، میں اور مظہر بخاری آک لینڈ کے ائیر پورٹ پر اترے تو ہماری زندگی سے دو گھنٹے غائب ہو چکے تھے، ہم دنیا سے مزید دو گھنٹے پیچھے آگئے ،شہر تین اطراف سے سمندر میں گھرا تھا، آپ جہاز کی کھڑکی سے باہر جھانکیں تو آپ کو محسوس ہو گا جہاز شاید پانی پر اتر رہا ہے لیکن پھر اچانک رن وے آجاتا ہے، شہر کا پہلا تاثر اچھا ہے،سرسبز پہاڑیاں ہیں، آک لینڈ صاف ستھرا خوبصورت شہر ہے، شہر کے دو اطراف سمندر ہے، پہاڑیوں پر سڑکیں اور مکان بنے ہیں، پولوشن بالکل نہیں، آپ کو دور دور تک سمندر، افق اور ستارے نظر آتے ہیں۔
یہ شہر بلکہ پورا ملک ریٹائر منٹ کے لیے بہترین جگہ ہے، آپ اگر خوش حال ہیں اور آپ زندگی کا آخری حصہ آرام سے گزارنا چاہتے ہیں تو آپ کے لیے نیوزی لینڈ دنیا کا بہترین ملک ثابت ہو گا کیونکہ ملک چھوٹا ہے، موسم شاندار ہے، امیگریشن بہرحال سخت ہے، ہمیں ائیرپورٹ پر دقت کا سامنا کرنا پڑا، ملک میں ساڑھے سات ہزار پاکستانی ہیں، اکثر پاکستانی پڑھے لکھے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ ہیں، اسٹوڈنٹس کی تعداد زیادہ ہے، یہ لوگ پی ایچ ڈی کرنے آتے ہیں اور مستقل یہاں رہ جاتے ہیں، حلال گوشت بآسانی مل جاتا ہے، وجہ؟ نیوزی لینڈ ہر سال ڈیڑھ ارب ڈالر مالیت کا حلال گوشت عرب ممالک کو سپلائی کرتا ہے چنانچہ ملک میں حلال گوشت کی فراوانی ہے۔
ڈیری مصنوعات بڑی ایکسپورٹ ہیں، ملک کی کل آبادی 45 لاکھ70 ہزار ہے لیکن بھیڑیں ایک کروڑ 40 لاکھ ہیں، آپ جدھر نظر اٹھائیں آپ کو بھیڑیں ہی بھیڑیں نظر آئیں گی، بھیڑوں کی اون بھی ملک کی بڑی پراڈکٹ ہے، یہ اون پوری دنیا میں بکتی ہے، ہمیں آک لینڈ میں خالد بلوچ ملے، یہ کوئٹہ سے تعلق رکھتے ہیں اور گزشتہ 15 برس سے نیوزی لینڈ میں مقیم ہیں، ہیومن رائٹس ایکٹویسٹ ہیں، یہ ہر قسم کے مظاہرے میں پہلی قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں، یہ پاسپورٹ کی وجہ سے پریشان تھے، ان کا کہنا تھا پاکستانی سفارت خانے میں مشین ریڈایبل پاسپورٹ کی سہولت نہیں، نیوزی لینڈ میں مقیم پاکستانیوں کو پاسپورٹ کے لیے آسٹریلیا جانا پڑتا ہے جس پر ان کے ڈیڑھ دو ہزار ڈالر خرچ ہو جاتے ہیں۔
یہ پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ ظلم ہے، حکومت اگر کوئی ایسا بندوبست کر دے جس کے ذریعے لوگوں کی بائیو میٹرک یہاں ہو جائے اور پاسپورٹ آسٹریلیا سے بن کر آ جائے تو اس سے تین ہزار خاندانوں کا بھلا ہو جائے گا، یہ مطالبہ درست ہے چنانچہ میری جناب سرتاج عزیز سے درخواست ہے آپ مہربانی کریں اور یہ مسئلہ حل کرا دیں۔آک لینڈ کبھی آتش فشانوں کی سرزمین ہوتا تھا، آج بھی شہر میں آتش فشاں کے گڑھے موجود ہیں، ہم بھی ایک گڑھے کی ’’زیارت،، کے لیے پہاڑ کی چوٹی پر چلے گئے۔
یہ مائونٹ ایڈم تھی، پہاڑی کے گرد خوبصورت مکان بنے تھے اور اوپر چوٹی پر آتش فشانی گڑھا تھا، گڑھے کے گرد ٹریک تھا، لوگ ٹریک پر گڑھے کا طواف کرتے ہیں اور تصویریں بنواتے ہیں۔آک لینڈ کے مضافات میں تین بڑی تفریح گاہیں ہیں، ماٹا ماٹا شہر آک لینڈ سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع ہے، اس شہر سے بیس منٹ کے فاصلے پردی لارڈ آف دی رنگز اوردی ہوبٹ جیسی معرکۃ الآراء فلموں کے سیٹ ہیں، یہ فلمیں ہالی ووڈ کے مشہور فلم ساز پیٹر جیکسن نے 2001ء اور 2012ء میں بنائیں، فلم کے لیے اصلی لوکیشن تلاش کی گئی۔
یہ ماٹا ماٹا کے جاگیردار الیگزینڈر کا فارم ہائوس تھا، یہ جگہ حقیقتاً جنت کا ٹکڑا محسوس ہوتی ہے، فارم ہائوس کے دائیں بائیں سرسبز پہاڑیاں ہیں، پہاڑیوں کے درمیان ہزاروں سال پرانے بلند و بالا درخت اور ندیاں ہیں، آپ کو دور دور تک کھلا آسمان اور کائنات کی وسعت بھی دکھائی دیتی ہے اور بادلوں اور قوس قزح کے مٹتے بنتے رنگ بھی۔ پیٹر جیکسن نے یہ لوکیشن بڑی محنت کے بعد تلاش کی اور پہاڑوں کے درمیان بونوں کی پوری بستی آباد کر دی، پہاڑوں میں بونوں کے گھر، کھیت اور باغ بنائے گئے، جھیل کے کنارے پن چکی لگائی گئی اور پن چکی کے ساتھ مشہور زمانہ گرین ڈریگن بار بنایا گیا، فلم کی شوٹنگ شروع ہوئی تو اڑھائی ہزار لوگوں کا اسٹاف ماٹا ماٹا آیا اور یہاں پورا شہر آباد ہو گیا، فلم بنی اور اس نے تہلکہ مچا دیا، پیٹر جیکسن چلا گیا لیکن سیٹ رہ گیا، یہ سیٹ اب سیاحوں کی شاندار تفریح گاہ ہے۔
ماٹا ماٹا سے گائیڈڈ ٹور ملتا ہے، سیاح بسوں میں بیٹھ کر یہاں آتے ہیں، سیٹ دیکھتے ہیں اور پیٹر جیکسن کے کام کی تعریف کرتے ہیں، پیٹر جیکسن نے ’’دی لارڈ آف دی رنگز‘‘ سے 871 ملین ڈالر کمائے لیکن نیوزی لینڈ کی حکومت سیاحوں کو یہ سیٹ دکھا دکھا کر ہر سال کروڑوں ڈالر کما رہی ہے، ماٹا ماٹا کے بعد ’’روٹروا‘‘ کا شہر آتا ہے، یہ شہر اپنے زندہ آتش فشانوں، گندھک کے گرم چشموں اور غاروں میں چمکنے والے کیڑوں کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے،لوگ یہاں آتے ہیںاور سارا دن گندھک کے گرم چشموں کے گرم پانیوں میں لیٹے رہتے ہیں، شہر کے مضافات میں ایسے غار بھی ہیں جن میں ایسے لاکھوں کیڑے ہیں جو اندھیرے میں جگنو کی طرح روشنی دیتے ہیں اور دیکھنے والوں کو ’’اللہ اکبر‘‘ کہنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ’’روٹروا‘‘ کے بعد ٹاپو کا شہر آتا ہے، یہ شہر ٹاپو جھیل کے کنارے آباد ہے، یہ وسیع جھیل ہے۔
ہم نے جب یہ جھیل دیکھی تو ہم شروع میں اسے سمندر سمجھتے رہے لیکن یہ جھیل جھیل ہی نکلی، جھیل کے گرد پہاڑیاں ہیں، پہاڑیوں پر برف گری تھی، دور دور تک جنگل اور سبزے کے قطعات نظر آتے تھے، بھیڑیں بھی تھیں، سیاہ گائے بھی اور اس وسیع پینٹنگ میں ٹاپو کا خوبصورت قصبہ تھا، جھیل کے گرد ہوٹلوں اور ریستوران کی طویل قطار تھی، میں نے بے شمار صبحیں طلوع ہوتی دیکھی ہیں لیکن ٹاپو کی صبح میں ایک عجیب سحر تھا، پانی کے اوپر دھند کی چادر تھی ، دھند سے اوپر برف پوش پہاڑ تھے، پہاڑ کی اترائیوں پر گھنے جنگل تھے، جنگلوں کی بغلوں میں سبز چرا گاہیں تھیں، چرا گاہوں میں بھیڑیں چھوٹے چھوٹے نقطوں کی طرح جڑی تھیں اور ان نقطوں کے دائیں بائیں ٹھنڈی یخ ہوائیں ہلکورے لے رہی تھیں ، درجہ حرارت منفی میں تھا، یہ منظر صرف منظر نہیں تھا، یہ ایک تصویر تھی۔
ایک افق سے دوسرے افق تک پھیلی تصویر، ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک وسیع تصویر اور میں اس تصویر کے سامنے کھڑا تھا، میرے سامنے سورج نے کہر سے جنم لیا، جھیل کے دھند میں لپٹے پانی کو آگ لگی، بھیڑوں کے منجمد وجود میں حرکت پیدا ہوئی، ہوائوں کی چال بدلی، درختوں نے بے تابی سے دائیں بائیں دیکھنا شروع کیا اور برف پوش پہاڑوں کے چہروں پر حیا کی لالی دوڑ گئی، مشرق مشرق ہو گیا، سچا اور کھرا مشرق ، وہ لمحہ میری زندگی کا لازوال لمحہ تھا، ایک ایسا لمحہ جب انسان کے اندر ایک نیا انسان جنم لیتا ہے۔
جب فرد سیپ بن جاتا ہے اور اس سیپ کے اندر سیکڑوں موتی چمکنے لگتے ہیں ، میں سورج کے دیس میں ایک بار پھر جنم لے رہا تھا، اپنی جلی بجھی راکھ میں دوبارہ سر اٹھا رہا تھا، قفس کی طرح، راگوں کی آگ میں جلے بجھے پرندے کی طرح دوبارہ پیدا ہو رہا تھا،کھڑکی سے باہر یخ ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں اور کھڑکی کے اندر پرانے ،پھٹے اور بودار انسان کے اندر سے ایک نیا نکور انسان نکل رہا تھا۔

سڈنی سے
جاوید چوہدری منگل 23 جون 2015

سڈنی سے ائیرپورٹ سے باہر قدم رکھتے ہی دانت سے دانت ٹکرانے لگے، باہر یخ ہوائیں تھیں، میں رمضان سے ایک دن قبل لاہور سے روانہ ہوا تو پنجاب کے میدان تپ رہے تھے، زمین سے آسمان تک گرم ہوائیں چل رہی تھیں اور مشرق سے مغرب تک لو ہلکورے لے رہی تھی لیکن آسٹریلیا میں موسم الٹ تھا، دنیا میں جون جولائی گرم مہینے ہوتے ہیں جب کہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں یہ سردیوں کا آغاز ہوتا ہے۔
یہ دونوں ملک باقی دنیا سے چھ مہینے پیچھے ہیں، یہاں نومبر، دسمبر اور جنوری میں گرمی پڑتی ہے اور لوگ نیم برہنہ ہو کر ساحلوں کا رخ کرتے ہیں جب کہ یہ جون جولائی میں گرم جیکٹس پہن لیتے ہیں، ہیٹر جلا لیتے ہیں اور رضائیاں اوڑھ لیتے ہیں، نیوزی لینڈ میں اس وقت برف پڑ رہی ہے، میں اپنے دوست مظہر بخاری کے ساتھ نیوزی لینڈ میں ہوں، ہم آک لینڈ شہر سے کرائسٹ چرچ کی طرف سفر کر رہے ہیں لیکن یہ آج کی بات ہے، اس دن جس دن میں سڈنی ائیر پورٹ پر اترا وہ ایک مختلف دن تھا، گرم علاقے سے ٹھنڈے یخ علاقے کی طرف 16 گھنٹے کا طویل سفر، مغرب سے مشرق کی طرف تھکا دینے والی مسافت اور اس کے بعد موسم کا تغیر یہ تینوں حیران کن تھے، دنیا شمال، جنوب، مشرق اور مغرب چار سمتوں میں تقسیم ہے۔
ہم اگر چند لمحوں کے لیے شمال اور جنوب کو فراموش کر دیں اور دنیا کو مشرق اور مغرب صرف دو حصوں میں تقسیم کریں تو دنیا نیوزی لینڈ سے اسٹارٹ ہو گی اور اسپین کے آخری ساحلوں پورٹو، ویگو اور سنتیاگو پر پہنچ کر ختم ہو جائے گی، اس سے آگے کیا ہے؟ اس سے آگے سمندر ہے اور سمندر کے دوسرے سرے پر امریکا ہے، الاسکا امریکا کی آخری ریاست ہے، دنیا میں سورج کی پہلی کرن نیوزی لینڈ پر پڑتی ہے، سورج نیوزی لینڈ کے بعد آسٹریلیا پہنچتا اور آسٹریلیا کے بعد ایشیا کے مختلف ملکوں سے ہوتا ہوا یورپ اور یورپ سے امریکا جاتا ہے اور پھر گھوم کر دوبارہ نیوزی لینڈ پہنچ جاتا ہے، گویا نیوزی لینڈ سورج کا گھر ہے۔
سورج جہاں بھی جائے گا، یہ جہاں بھی سوئے گا ،یہ جاگے گا بہرحال نیوزی لینڈ میں۔ یہ شروع نیوزی لینڈ ہی سے ہو گا، نیوزی لینڈ کے پیچھے کیا ہے؟ نیوزی لینڈ کے پیچھے قطب جنوبی ہے، یہ انٹارکٹیکا میں واقع ہے، یہ برفیلی زمین ہے جہاں ہزاروں، لاکھوں بلکہ کروڑوں سالوں سے برف جمی ہے اور جہاں اندھیرا بھی ہے، کیوں؟ کیونکہ یہاں سورج نہیں پہنچتا، قطب جنوبی سے بالکل سیدھ میں آخر میں قطب شمالی ہے، مجھے اللہ کے کرم سے قطب شمالی کے اس مقام تک پہنچنے کا موقع ملا جہاں دنیا ختم ہو جاتی ہے۔
جہاں سے آگے برف، گلیشیئر اور موت کے سوا کچھ نہیں، میں پورٹو، ویگو اور سنتیاگو کے ان قصبوں میں بھی پہنچا جہاں مغرب ختم ہو جاتا ہے اور مجھے امریکا کے ان ساحلوں تک جانے کی توفیق بھی ملی جہاں سے سورج کی واپسی کا سفر شروع ہو جاتا ہے اور میں اب زمین کے اس سرے کی تلاش میں نکلا ہوں جہاں سے دن کا آغاز ہوتا ہے، جہاں سے سورج کا سفر شروع ہوتا ہے لیکن وہاں جانے سے قبل سڈنی پہنچنا ضروری ہے۔
آسٹریلیا ایک نئی دریافت ہے، یہ زمین 45 ہزار برس قبل آباد ہوئی، دنیا میں ایک وقت گزرا ہے جب ساری زمین مشرق سے مغرب تک منجمد تھی، انسان اس وقت روشنی اور آگ کی تلاش میں افریقہ سے نکلا اور برف پر چلتا ہوا کرہ ارض پر پھیل گیا، برف پگھلنا شروع ہوئی، سمندر بنے اور انسان زمین کے مختلف حصوں تک محصور ہو کر رہ گیا، امریکا اور آسٹریلیا بھی ان حصوں میں شامل تھے، تہذیب، افریقہ، یورپ، ایشیا میں پروان چڑھتی رہی، علم نے جنم لیا، ٹیکنالوجی آئی، انسان نے سمتوں اور زاویوں کا علم سیکھا، کشتیاں اور بحری جہاز بنائے اور افریقہ، یورپ اور ایشیا سے گم شدہ زمینوں کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔
انسان نے پہلے افریقہ، یورپ اور ایشیا کے درمیان رابطہ پیدا کیا، یہ پھر1492ء میں امریکا پہنچا اور یہ وہاں اپنے برف کے وقت کے بچھڑے کزنوں کو دیکھ کر حیران رہ گیا، کولمبس نے امریکا میں گھوڑے، گندم، کافی اور تلواریں متعارف کرائیں اور امریکا کے مقامی باشندوں ریڈ انڈینز نے اسے تمباکو، مکئی، آلو اور جنسی بیماریوں کا تحفہ دے دیا، کولمبس کے امریکا پہنچنے سے قبل دنیا میں سوزاک اور آتشک جیسی موذی بیماریاں نہیں تھیں، یورپی باشندے دھڑا دھڑ امریکا پہنچے، بھینسوں کا شکار کیا، سونے اور چاندی کی کانیں کھودیں اور تمباکو کے کھیت اگائے، یہ آہستہ آہستہ وہاں آباد بھی ہونے لگے، ہالینڈ کے جہاز رانوں نے 1606ء میں قطب جنوبی کی طرف سفر شروع کیا، ولیم جینززون نیوگنی پہنچا، یہ آسٹریلیا بھی آیا، آسٹریلیا میں لوگ موجود تھے۔
یورپی باشندوں نے ان جانور نما انسانوں کو ’’اب اوریجنل‘‘ کا نام دیا، یہ نام اور یہ باشندے آج تک آسٹریلیا میں موجود ہیں، ولیم کی مقامی باشندوں سے جنگیں ہوئیں، صلح ہوئی اور یہ اپنے لوگوں اور مقامی لوگوں کے ساتھ زندگی گزارنے لگا لیکن پھر مقامی خواتین پر دست درازی کی وجہ سے اس کی لڑائی ہوئی اور مقامی لوگوں نے اسے واپس ہالینڈ جانے پر مجبور کر دیا، ولیم کے بعد اسپین کا جہاز ران لوئیس ویز ڈی ٹورس آیا، یہ آسٹریلیا کے مغربی ساحلوں پر اترا، یہ تسمانیہ، فجی، نیوگنی اور جکارتہ بھی پہنچا لیکن یہ بھی یہاں سیٹل نہ ہو سکا، برطانوی جہاز رانوں نے 1622ء میں آسٹریلیا پر دستک دینا شروع کی لیکن آسٹریلیا کو برطانیہ کی کالونی کیپٹن جیمز کک نے بنایا، یہ 1769ء میں نیوزی لینڈ اور 1770ء میں سڈنی کے ساحل پر اترا، برطانیہ میں اس وقت کنگ جارج سوم کی حکومت تھی، کیپٹن کک نے بادشاہ کو آسٹریلیا پر قبضے کے لیے راضی کر لیا، بادشاہ نے ہاں کر دی ۔
جس کے بعد آسٹریلیا آج تک برطانیہ کے زیر اثر ہے، برطانوی ملکہ آج بھی آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی ملکہ ہے اور یہاں کی فوج رائل آرمی کہلاتی ہے، حکومت کو منتخب عوام کرتے ہیں لیکن یہ وفاداری کا حلف ملکہ کا اٹھاتی ہے، ملکہ آج بھی آسٹریلیا کی ملکہ ہے،سڈنی ایک دھیما، کھلا اور ہوا دار شہر ہے، آسٹریلیا کا کل رقبہ 76لاکھ،92 ہزار 24 مربع کلو میٹر ہے، اس رقبے میں سڈنی کا حصہ 12 ہزار تین سو67 مربع کلو میٹر ہے، آسٹریلیا کی آبادی دو کروڑ 38 لاکھ ہے، سڈنی میں 48 لاکھ چالیس ہزارلوگ رہتے ہیں۔ آپ اگر نقشے میں آسٹریلیا کو دیکھیں تو آپ کو ملک کے تمام شہر سمندرکے کنارے آباد ملیں گے، ملک درمیان میں بنجر اور غیر آباد ہے، فاصلے لمبے اور مسافتیں طویل ہیں، ملک پانی کی کمی کا شکار بھی ہے، پانی کی یہ کمی اس کی آبادی کے کم ہونے کی بنیادی وجہ ہے، سڈنی کا اوپرا ہائوس دنیا میں آسٹریلیا کی پہچان ہے، یہ ایک عظیم عمارتی معجزہ ہے۔
میرے آرکیٹیکٹ دوست اعجاز قادری کا دعویٰ ہے،عمارتیں دنیا کی تمام بڑی تہذیبوں کی نشانیاں ہوتی ہیں، مصر اہرام سے پہچانا جاتا ہے جب کہ پیرس آئیفل ٹاور، لندن کا شہر لندن برج اور لندن آئی،نیویارک مجسمہ آزادی اورنیویارک برج، بھارت تاج محل، استنبول آیا صوفیہ، روم کلوزیم، ویٹی کن سٹی، سینٹ پیٹر چرچ اور لاہور شاہی قلعہ اور مینار پاکستان سے پہچانا جاتا ہے، عمارتیں دنیا کی تمام تہذیبوں کی نشانیاں ہیں لہٰذا سڈنی کا اوپرا ہائوس آسٹریلیا کی پہچان ہے، یہ عمارت واقعی تعمیراتی معجزہ ہے، آپ اسے باہر سے دیکھیں تو آپ اس کی محبت میں گرفتار ہو جائیں گے، آپ اس کے اندر داخل ہو جائیں تو آپ اس کی دلکشی اور ہیبت میں کھو جائیں گے، یونیسکو نے اسے 2007ء میں عالمی ورثہ قرار دے دیا۔
یہ اب پوری دنیا کی ملکیت ہے، اوپرا ہائوس کا ڈیزائن منفرد ہے، یہ عمارت دور سے ہوا میں تیرتے ہوئے بادل دکھائی دیتی ہے، اوپرا ہائوس کا تصور برطانیہ کے مشہور موسیقار Eugene Goossens نے دیا تھا، یہ 1946ء میں سڈنی آیا اور اس نے حکومت کو سڈنی میں شاندار اوپرا ہائوس بنانے کا مشورہ دیا، حکومت نے مشورہ مان لیا، وزیراعظم نے ڈیزائن کے لیے بین الاقوامی مقابلہ کرانے کا فیصلہ کیا، 1955ء میں اشتہار دیا گیا، 1956ء میں 28 ممالک سے 722 ڈیزائن آئے، 222 آرکی ٹیکٹس نے اسکیمیں جمع کرائیں، عالمی سطح کی کمیٹی بیٹھی اور کمیٹی نے ڈنمارک کے 38 سال کے غیر معروف ڈیزائنر جورن اٹزون Jorn Utzon کا ڈیزائن پسند کر لیا، اٹزون نے سڈنی ہاربر پر بادلوں کا ٹکڑا ڈیزائن کیا تھا، یہ ایک غیر معمولی ڈیزائن تھا، دنیا میں اس سے قبل کنکریٹ کا اتنا بڑا منصوبہ نہیں بنا تھا، ماہرین کا خیال تھا، یہ ممکن نہیں لیکن حکومت نے اٹزون کو موقع دینے کا فیصلہ کیا، سنگ بنیاد رکھا گیا ،1959ء میں کام شروع ہوا، حکومت نے اوپرا ہائوس کے لیے لاٹری جاری کی، رقم جمع کی اور تعمیر شروع کر دی۔
اٹزون نے دن رات ایک کر دیے، منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچتا رہا لیکن اوپرا ہائوس کی کمیٹی اور اٹزون میں اختلافات پیدا ہو گئے، یہاں تک کہ اٹزون دل برداشتہ ہو کر ڈنمارک واپس چلا گیا، حکومت نے اٹزون کے جانے کے بعد بھی کام جاری رکھا، اوپرا ہائوس دسمبر 1972ء میں مکمل ہو گیا، یہ اس وقت تک ایک ناکام منصوبہ تھا لیکن یہ جوں ہی مکمل ہوا، یہ دنیا کی حیران کن عمارت بن گیا، حکومت کو 1999ء میں اٹزون کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا احساس ہوا چنانچہ حکومت نے اسے سڈنی آنے اور اپنا ماسٹر پیس دیکھنے کی دعوت دی لیکن اٹزون اس وقت تک بوڑھا بھی ہو چکا تھا اور وہ علیل بھی تھا، آپ ٹریجڈی دیکھئے ،دنیا سے ہر سال 82 لاکھ لوگ اوپرا ہائوس دیکھنے سڈنی آتے ہیں لیکن جورن اٹزون 2008ء میں اپنا تخلیق کردہ ماسٹر پیس دیکھے بغیر دنیا سے رخصت ہو گیا، اوپرا ہائوس کا تصور Eugene Goossens نے دیا تھا، وہ بھی یہ ماسٹر پیس نہ دیکھ سکا، وہ 1956ء میں سیکس سکینڈل میں پھنسا ،آسٹریلیا نے اس پر سڈنی آنے پر پابندی لگا دی اور وہ 1962ء میں لندن میں اس وقت انتقال کر گیا جب اوپرہائوس کی دیواریں کھڑی ہو چکی تھیں۔
میں مظہر بخاری کے ساتھ 21 جون کو اوپرا ہائوس کے سامنے پہنچا اور یہ انسانی معجزہ دیکھ کر مبہوت ہو گیا، یہ واقعی انسان کام دکھائی نہیں دیتا، آپ بھی جب زندگی میں سڈنی کا اوپرا ہائوس دیکھیں گے، تو آپ مصر کے اہراموں کو بھی بھول جائیں گے، کیوں؟ کیونکہ اہراموں میں صرف پتھر پر پتھر جوڑے گئے تھے جب کہ اوپرا ہائوس دنیا کی ایسی عظیم عمارت ہے جو ستونوں کے بغیر کھڑی کی گئی ہے، یہ ایک ایسی عمارت ہے جو خود انجینئرنگ کا شاہکار ہے لیکن یہ موسیقی اور تھیٹر جیسے آرٹ کا ویٹی کن سٹی ہے،میں جب آرٹ کے اس ویٹی کن سے باہر آیا تو میں اٹزون کے فن کو سلام پیش کرنے پر مجبور ہوگیا، میں نے عمارت کو سیلوٹ کیا اور اٹزون کی روح کے ایصال کے لیے بینچ پر ایک منٹ کے لیے خاموش بیٹھ گیا، اٹزون واقعی کمال کا تخلیق کار تھا، تخلیق کی ایک گریٹ ٹریجڈی۔
انسان خسارے میں ہے
جاوید چوہدری جمعـء 19 جون 2015

میں نے عرض کیا ’’خواجہ صاحب سائنس نے کمال کر دیا ہے، قدرتی آفتیں اور بیماریاں انسان کے دو بڑے مسئلے ہیں، سائنس ان دونوں کے حل کے قریب پہنچ چکی ہے، اب وہ وقت دور نہیں جب انسان آفتوں اور عذابوں کے ہاتھ سے نکل آئے گا‘‘ وہ مسکرا کر میری طرف دیکھتے رہے، وہ نرم آواز میں بولے ’’مثلاً سائنس نے کیا کر دیا ہے‘‘ میں نے عرض کیا ’’سر زلزلے، آتش فشاں، آندھیاں ٗ طوفان اور سیلاب پانچ بڑی آفتیں ہیں، سائنس نے ان آفتوں کی پیش گوئی کا سسٹم بنا لیا ہے، سائنس دانوں نے ایک ایسا کیمرہ بنایا ہے جو آتش فشاں کے پیندے میں چلا جاتا ہے اور وہاں آنے والی تبدیلیاں نوٹ کر لیتا ہے۔
ماہرین یہ تبدیلیاں دیکھ کر پیشین گوئی کر سکیں گے فلاں آتش فشاں فلاں دن اور فلاں وقت ابل پڑے گا،اس سسٹم کے بعد آتش فشاں کے قریب آباد لوگ وہاں سے بروقت نقل مکانی کر جائیں گے، یوں بے شمار لوگوں کی جانیں اور املاک بچ جائیں گی‘‘ خواجہ صاحب سکون سے سنتے رہے، میں نے عرض کیا ’’زلزلے کے ماہرین نے ایک ایسی سلاخ بنائی ہے جو زمین کی تہہ میں پچاس ساٹھ کلومیٹر نیچے چلی جائے گی، یہ زمین کے اندر موجود پلیٹوں کی حرکت نوٹ کرے گی اب جونہی کسی پلیٹ میں کسی قسم کی حرکت ہو گی ماہرین زلزلے سے کہیں پہلے زلزلے کی شدت، اس کے مرکز اور اس سے متاثر ہونے والے علاقے کا تخمینہ لگا لیں گے۔
ماہرین اس علاقے کے لوگوں کو بروقت مطلع کر دیں گے لہٰذا وہ لوگ زلزلے سے پہلے گھروں اور دفتروں سے باہر آ جائیں گے، یوں ہزاروں لاکھوں زندگیاں بچ جائیں گی، ماہرین نے عمارتوں کے ایسے ڈھانچے بھی بنا لیے ہیں جو ساڑھے نو درجے کی شدت سے آنے والے زلزلے میں بھی عمارت کو نقصان نہیں پہنچنے دیں گے چنانچہ وہ وقت دور نہیں جب زلزلے آئیں گے لیکن لوگ اطمینان سے اپنے معمول کے کام کرتے رہیں گے ‘‘ خواجہ صاحب بڑی توجہ سے میری بات سنتے رہے، میں نے عرض کیا ’’بیماریاں انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہیں، سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے ہمارے جینز میں ساڑھے چار ہزار بیماریاں ہوتی ہیں، ہر بیماری کا ایک الگ جین ہوتا ہے، سائنس دانوں نے اڑھائی ہزار مہلک بیماریوں کے جینز تلاش کر لیے ہیں لہٰذا اب وہ وقت دور نہیں جب سائنس دان تکلیف شروع ہونے سے پہلے کسی شخص کا معائنہ کریں گے۔
اس میں پروان چڑھنے والے جینز دیکھیں گے، ان جینز کو صحت مند جینز کے ساتھ بدل دیں گے اور مریض مرض کے حملے سے پہلے ہی صحت مند ہو جائے گا، انسانی کلوننگ کا عمل بھی شروع ہونے والا ہے، اگلے دس بیس برس میں انسان مرنے سے پہلے دوبارہ جنم لینا شروع کر دے گا‘‘ خواجہ صاحب نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلا دیا، میں نے عرض کیا ’’اس طرح سائنس دانوں نے آندھیوں، طوفانوں اور سیلابوں کی پیدائش کے مراکز بھی تلاش کر لیے ہیں، ماہرین کا کہنا ہے اگر ان آفتوں کے مراکز تباہ کر دیے جائیں تو یہ آفتیں پیدا نہیں ہونگی، سائنس دان ایسے آلے بنا رہے ہیں جو ان ہوائوں، ان پانیوں اور ان موجوں کو اکٹھا نہیں ہونے دیں گے جو اکٹھی ہوکر آندھی، سیلاب اور طوفان بنتی ہیں چنانچہ اگلے بارہ برسوں میں انسان ان تینوں آفتوں پر بھی قابو پا لے گا لہٰذا خواجہ صاحب آنے والا وقت انسان کے لیے بڑا آئیڈیل ہو گا، دنیا میں انسان کے لیے کوئی چیلنج نہیں ہو گا، لوگ مطمئن، آرام دہ اور سکھی زندگی گزاریں گے‘‘
خواجہ صاحب نے قہقہہ لگایا اور مجھے میٹھی میٹھی نظروں سے دیکھ کر بولے ’’تم بڑے بے وقوف ہو، یہ قدرتی آفتیں اتنی بڑی دشمن نہیں ہیں جتنا بڑا انسان، انسان کا دشمن ہے۔ آج تک انسان نے انسان کو جتنا نقصان پہنچایا ہے اتنا نقصان پچھلے دس ہزار سال میں قدرتی آفتیں مل کر نہیں پہنچا سکیں، تم یہ دیکھ لو 8 اکتوبر کے زلزلے میں جتنے لوگ مارے گئے تھے اس سے پانچ گنا زیادہ لوگ ہماری سڑکوں پر پچھلے ساٹھ برسوں میں حادثوں میں مارے گئے ہیں، ہر سال ہمسایوں کے ہاتھوں جتنے ہمسائے قتل ہوتے ہیں، جتنے بیٹے اپنے باپ قتل کرتے ہیں، آشنائوں کے ہاتھوں جتنے خاوند مارے جاتے ہیں، جتنے خاوند اپنی بیویوں کو قتل کرتے ہیں، ڈاکوئوں کے ہاتھوں جتنے راہگیر مارے جاتے ہیں اور جتنے دوست ہر سال دوستوں کو قتل کرتے ہیں، یہ ساری ہلاکتیں قدرتی آفتوں سے مرنے والوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہیں، بش جیسے لوگ اپنی انا کی تسکین کے لیے جتنے لوگ مار دیتے ہیں۔
دہشت گردوں کے ہاتھوں جتنے لوگ مارے جاتے ہیں، کشمیر، فلسطین، افغانستان، سری لنکا، عراق اور چیچنیا میں انسانوں کے ہاتھوں جتنے انسان مارے جاتے ہیں، گورے کے ہاتھوں جتنے کالے مارے جاتے ہیں اور سرخ رو انسان جتنے پیلے انسانوں کو قتل کرتے ہیں یہ تعداد قدرتی آفتوں کا لقمہ بننے والے انسانوں سے کہیں زیادہ ہے، ناگا ساگی پر بم کس نے پھینکا تھا ،ایک انسان نے،اس کا نشانہ کون بنے دوسرے انسان ، دوسری اور پہلی جنگ عظیم کس نے شروع کی تھی ، ایک انسان نے ٗ اس جنگ کا لقمہ کون بنے ، دوسرے انسان ، کوریا کی جنگ کس نے چھیڑی تھی ،ویتنام پر حملہ کس نے کیا تھا ، روس افغانستان جنگ کس نے شروع کی تھی ، افغانستان اور عراق پر حملہ کس نے کیا تھا؟ انسان نے ٗ اور ان جنگوں سے کس کو نقصان پہنچا، انسان کو؟ بارہ اکتوبر کا واقعہ کس کا کمال تھا؟ انسان کا اور اس کا نقصان کس کو پہنچا؟ انسان کو؟ اس دنیا میں بھائی کے ہاتھوں بھائی اور دوست کے ہاتھوں دوست مارا جاتا ہے لہٰذا انسان کا سیلابوں ٗ طوفانوں اور بیماریوں سے مقابلہ نہیں ، انسان کا انسان سے مقابلہ ہے اور جب تک انسان کی شرست میں تبدیلی نہیں آتی، یہ دنیا دارِ امن نہیں بن سکتی، اس زمین پر تخریب کا عمل جاری رہے گا‘‘
میں خواجہ صاحب کی بات غور سے سنتا رہا، انھوں نے فرمایا ’’انسان، انسان سے خائف ہے، وہ جب بھی ذرا سا خوشحال ہوتا ہے، اسے جب بھی ذرا سا اقتدار یا اختیار ملتا ہے، وہ جب بھی ذرا سی کامیابی پاتا ہے تو وہ دوسرے انسان کو تکلیف دینا شروع کر دیتا ہے، وہ آم کھا کر گٹھلیاں ہمسائے کے گھر پھینک دے گا، وہ دو لاکھ کا کتا خریدے گا اور یہ کتا دوسرے کے دروازے پر باندھ دے گا، وہ ایٹم بم بنا کر چاہے گا ساری دنیا اس کے قدموں میں جھک جائے، وہ بادشاہ کا مصاحب بن کر چاہے گا سب لوگ اسے سلام کریں۔
سب لوگ اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کریں، اب دوسری طرف بھی انسان ہوتا ہے، اس کے اندر بھی وہی خون، وہی انا اور وہی ہٹ دھرمی ہوتی ہے لہٰذا انسان انسان کے ساتھ ٹکرا جاتا ہے اور آخر میں دونوں فنا ہو جاتے ہیں، انسان کی انسان کے ساتھ جنگ میں پورس بھی مارا جاتا ہے اور سکندر بھی، دونوں خسارے میں رہتے ہیں، یہ اس زمین کا قانون ہے لہٰذا انسان جب تک مقدونیہ، سمرقند اور واشنگٹن کے اقتدار تک محدود نہیں رہتا، وہ جب تک دوسرے انسان پر حکمرانی کی خواہش ختم نہیں کرتا، وہ جب تک دوسرے لوگوں سے چھیڑ چھاڑ بند نہیں کرتا اس وقت تک انسان کے ہاتھوں انسان مارا جاتا رہے گا، اس وقت تک اس زمین پر امن نہیں ہو گا‘‘ میں خاموشی سے ان کی بات سنتا رہا، انھوں نے فرمایا ’’سائنس دانوں کو قدرتی آفتوں کے بجائے انسانی شرست کا کوئی علاج دریافت کرنا چاہیے۔
انھیں کوئی ایسی دوا ایجاد کرنی چاہیے جسے کھانے کے بعد صدر بش اور صدام حسین کی انا پُر سکون ہو جائے اور دونوں ایک دوسرے سے ٹکرانا بند کر دیں، جسے کھانے سے صدر پرویز مشرف اور نواز شریف کے اختلافات ختم ہو جائیں اور دونوں خود کو کمزور اور چند سانسوں کے مہمان انسان سمجھ لیں، جسے کھانے سے طالبان اور امریکا ایک دوسرے کو تسلیم کر لیں، جسے کھانے سے ایران اور امریکا ایک دوسرے کی آزادی اور زندہ رہنے کا حق مان لیں، جسے کھانے سے انسان انسان کو معاف کر دے اور جسے کھانے سے انسان انسان سے ٹکرانا بند کر دے‘‘۔
میں خاموشی سے ان کی بات سنتا رہا، انھوں نے فرمایا ’’یقین کرو ایک جنگل میں دو شیر سکون اور آرام سے رہ سکتے ہیں لیکن ایک چھت کے نیچے دو انسان لڑے، ٹکرائے اور مرے بغیر زندگی نہیں گزار سکتے، شاید اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا عصر کی قسم انسان خسارے میں ہے‘‘۔
یہی ہے وہ، یہی ہے وہ
جاوید چوہدری جمعرات 18 جون 2015

یہ مسجد نبوی کا منظر تھا، اللہ کے رسول نماز کے بعد مسجد میں تشریف رکھتے تھے، اصحاب گھیرا ڈال کر بیٹھ جاتے تھے، دنیا جہاں کی گفتگو ہوتی تھی، یہ گفتگو دین اور دنیا دونوں کی مشعل ہوتی تھی، آپؐ ایک دن تشریف فرما تھے، اللہ کے رسولؐ نے مسجد نبوی کے ایک دروازے کی طرف دیکھا اور فرمایا ’’ اس دروازے سے ابھی ایک جنتی اندر داخل ہو گا،، صحابہؓ نے اپنی نظریں دروازے پر جما دیں، زیادہ وقت نہیں گزرا ، دروازے سے ایک ضعیف انصاری اندر داخل ہوئے، سلام کیا اور چپ چاپ محفل میں بیٹھ گئے، دن گزر گیا، دوسرے دن دوبارہ محفل لگی۔
اللہ کے رسولؐ سوالوں کے جواب دے رہے تھے، آپؐ نے ایک بار پھر اس دروازے کی طرف دیکھا اور فرمایا ’’اس دروازے سے ابھی ایک جنتی اندر داخل ہو گا‘‘ صحابہؓ دوبارہ دروازے پر نظریں جما کر بیٹھ گئے، تھوڑی دیر بعد وہی بزرگ صحابیؓ اندر داخل ہوئے، سلام کیا اور چپ چاپ بیٹھ گئے، تیسرے دن بھی اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ’’اس دروازے سے ابھی ایک جنتی اندر داخل ہو گا‘‘ اور اس دن بھی وہی صحابیؓ تیسری بار اندر داخل ہو گئے، محفل میں ایک ایسے صحابیؓ بھی موجود تھے جن کی عبادت گزاری انتہا کو چھو رہی تھی، وہ رات بھر عبادت کرتے تھے، صبح روزہ رکھتے تھے اور دن میں ایک قرآن مجید ختم کرتے تھے، ان کی یہ عبادت گزاری دیکھ کر اللہ کے رسولؐ نے ان پر پابندی لگا دی۔
آپ رات کو آرام بھی کریں گے، ایک دن چھوڑ کر ایک روزہ رکھیں گے اور تین دن میں ایک قرآن مجید ختم کریں گے، ان کا نام حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ تھا، یہ عبادت گزار ترین صحابی تھے، یہ تینوں دن رسول اللہ ﷺکی محفل میں موجود تھے، یہ اس غیر معروف انصاری صحابی ؓکے بارے میں یہ بشارت سن کر حیران رہ گئے اور انھوں نے سوچا یہ شخص یقینا مجھ سے زیادہ عبادت کرتا ہو گا چنانچہ وہ اگلے دن اس صحابیؓ کے گھر چلے گئے اور چند دن کے لیے مہمان بننے کی درخواست کی، مدینہ میں ان دنوں یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ کوئی مہمان آئے اور صاحب خانہ اس کی میزبانی سے انکار کرے لہٰذا انصاری صحابیؓ نے اپنے دروازے ان کے لیے کھول دیے، مہمان اور میزبان دونوں نے رات کا کھانا کھایا، عشاء کی نماز پڑھی اور چارپائیوں پر چلے گئے، حضرت عبداللہ بن عمرو ؓنے منہ پر چادر تانی، چادر میں ایک درز بنائی اور چھپ کر بزرگ صحابیؓ کی چارپائی کی طرف دیکھنے لگے۔
ان کا خیال تھا، یہ بزرگ اٹھیں گے اور عبادت شروع کر دیں گے مگر بزرگ صحابیؓ نے چادر تانی اور صبح فجر کی نماز تک مزے سے سوتے رہے، حضرت عبداللہ بن عمروؓ حیران رہ گئے، بزرگ صحابیؓ نے فجر کی نماز ادا کی، ناشتہ کیا اور کام پر روانہ ہو گئے، اگلی رات آئی، حضرت عبداللہ ؓکا خیال تھا، یہ اس رات عبادت کریں گے مگر وہ اس رات بھی عشاء کی نماز کے بعد لمبی تان کر سو گئے، تیسری رات آئی تو اس بار بھی یہی ہوا وہ انصاری صحابیؓ جس کو نبی اکرمؐ نے تین بار جنت کی بشارت دی تھی، وہ تیسری رات بھی لمبی تان کر سو گئے، یہ وہ دور تھا جب مدینہ کا کوئی شہری تہجد بھی ضایع نہیں کرتا تھا جب کہ وہ صحابیؓ صرف فجر کے وقت اٹھتے تھے، حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ پریشان ہوئے اور انھوں نے چوتھے دن بات کھول دی، انھوں نے فرمایا، اللہ کے رسولؐ نے آپ کے لیے تین دن مسلسل جنت کی بشارت دی تھی، میں یہ معلوم کرنے کے لیے آپ کے گھر ٹھہرا تھا، آپ کون سی ایسی عبادت، کون سا ایسا فعل کرتے ہیں ۔
جس کی وجہ سے اللہ کے رسولؐ نے آپ کو جنت کا حق دار قرار دیا لیکن مجھے ان تین دنوں میں آپ میں کوئی انوکھی بات نظر نہیں آئی، آپ کی زندگی صرف فرائض تک محدود ہے، آپ نفلی عبادت تک نہیں کرتے پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو کیوں منتخب کیا؟ بزرگ صحابیؓ نے قہقہہ لگایا اور فرمایا ’’ بھتیجے میں جیسا ہوں ، میں آپ کے سامنے ہوں، میں اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوں‘‘ حضرت عبداللہؓ مایوس ہو کر روانہ ہونے لگے، وہ دروازے تک پہنچے تو بزرگ صحابیؓ نے آواز لگائی ’’بھتیجے سنو، بھتیجے سنو‘‘ حضرت عبداللہ واپس مڑ آئے، بزرگ انصاری صحابیؓ نے اپنے دل پر ہاتھ رکھا اور کہا ’’میری اس جگہ دنیا کے کسی شخص کے لیے کوئی بغض، کوئی نفرت اور کوئی حسد نہیں، اللہ تعالیٰ جب بھی کسی شخص کو کوئی نعمت عطا کرتا ہے تو میں دکھی نہیں ہوتا، میں خوش ہوتا ہوں‘‘ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ نے یہ سنا تو انھیں کرنٹ سا لگا اور وہ چلا کر بولے ’’ یہی ہے وہ، یہی ہے وہ‘‘۔
یہ واقعہ چند دن قبل مولانا طارق جمیل نے اسلام آباد میں سنایا، مولانا کو اللہ تعالیٰ نے علم اور تاثیر دونوں سے نواز رکھا ہے، ان کی آواز میں مقناطیسیت ہے، یہ دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں، میرے ان سے 15 سال پرانے تعلقات ہیں، میرے لیے اس مدت میں مولانا کے ’’اثرات‘‘ سے ’’محفوظ‘‘ رہنا انتہائی مشکل کام تھا لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم ہے، مولانا مجھ سے اور میں آج تک مولانا سے ’’بچا‘‘ ہوا ہوں مگراس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں، میں مولانا کی گفتگو کو سیریس نہیں لیتا، یہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی بات کرتے ہیں اور دنیا میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی باتوں سے زیادہ سیریس کوئی بات نہیں، مولانا کی ایک خوبی بندگی بھی ہے، یہ ہرحال میں انسان رہتے ہیں،یہ اللہ کے ایس ایچ او نہیں بنتے، یہ بندے اور اللہ کے درمیان حائل بھی نہیں ہوتے، یہ بندوں کو گناہ گار ہونے کا احساس بھی نہیں دلاتے، یہ دلوں کو توڑتے بھی نہیں ہیں،یہ جوڑتے ہیں۔
یہ غیبت بھی نہیں کرتے، یہ متنازعہ گفتگو بھی نہیں کرتے اور یہ حس ظرافت سے بھی لبالب ہیں، میرا تجربہ ہے جس انسان میں حس ظرافت نہیں، جس شخص میں جمالیاتی ذوق نہیں اور جس شخص میں رومان نہیں وہ شخص کچھ بھی ہو جائے،وہ اچھا انسان نہیں ہو سکتا اور مولانا طارق جمیل میں تینوں خوبیاں موجود ہیں، یہ سفر کرتے ہیں، کتابیں پڑھتے ہیں، موسموں کو انجوائے کرتے ہیں اور بزرگ اور ریٹائرڈ اداکاراؤں کو دائرہ اسلام میں واپس لاتے ہیں، یہ ان کے خمیر میں چھپی رومانویت ہے، یہ جمالیاتی ذوق سے بھی مالا مال ہیں، میں نے کبھی ان کا لباس اور جوتا گندہ نہیں دیکھا، ان کی نشست اور برخاست میں بھی سلیقہ اور حسن ہوتا ہے، ان کا پیٹ بھی کنٹرول میں ہے اور یہ صاحبان ایمان کی طرح ڈکار بھی نہیں مارتے اور تیسری خوبی یہ حس ظرافت سے بھی لبالب ہیں، یہ بھی کھل کر قہقہہ لگاتے ہیں اور لوگ بھی ان کی محفل میں کھل کر ہنستے ہیں۔
مولانا کے سامنے ہنسنا گستاخی نہیں ہوتی چنانچہ یہ اچھے انسان ہیں اور میرے جیسے بے شمار گناہ گار اور دنیا دار ان سے محبت کرتے ہیں، مولانا چند دن قبل اسلام آباد تشریف لائے، مجھے دعوت دی، ملاقات ہوئی، ملاقات میں گفتگو ہوئی تو مولانا نے یہ واقعہ سنایا، واقعے کے بعد مولانا نے ترمذی شریف کی ایک حدیث بھی سنائی، حضرت انسؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ اے میرے بچے اگر تو کر سکے تو صبح شام اپنے دل کو سب کے لیے صاف کر لے‘‘ آپؐ نے پھر فرمایا ’’ میرے بچے یہ میری عظیم الشان سنت ہے اور جو میری سنت سے پیار کرے گا، وہ مجھ سے پیار کرے گا اور جو مجھ سے پیار کرے گا وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا‘‘ مولانا نے یہ حدیث اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ کا واقعہ سنایا تو یہ دونوں تیر کی طرح سیدھے دل میں لگے اور میں سرشاری کے عالم میں دیر تک سر دھنتا رہا، کیوں؟ کیونکہ یہ ہے اصل اسلام، یہ ہے اصل دین۔ آپ اپنے دل کو صاف کر لیں، دل کو ایک ایسی مقدس عبادت گاہ بنا لیں جس میں بغض، کینہ اور حسد جیسے شیطان داخل نہ ہو سکیں تو آپ منزل پا لیں گے۔
آپ کو کسی کی بات بری لگے تو آپ اس سے کہہ دیں، آپ دل میں نہ رکھیں، آپ کہہ نہ سکیں تو آپ دو رکعت نفل نماز ادا کریں اور نماز کے دوران اس شخص کو اللہ کے نام پر معاف کر دیں، بغض ختم ہو جائے گا، آپ دوست بن کر کسی کو نقصان نہ پہنچائیں، آپ منہ پر دوست ہیں لیکن اندر ہی اندر اس شخص کے دشمن ہیں، آپ روز اس کو نقصان پہنچانے کے منصوبے بناتے ہیں تو آپ کینہ پرور ہیں، آپ اپنے دل کو اس کینے سے بھی پاک کر لیں، آپ دوست ہیں تو پھر دوست بنیں اور اگر آپ کسی کے دشمن ہیں تو پھر پوری دنیا کو معلوم ہونا چاہیے آپ فلاں کے دشمن ہیں، دوستوں کے بھیس میں دشمنیاں پالنا ظلم ہے اور آپ اگر ایسے انسان ہیں تو پھر آپ کی نمازوں، آپ کے روزوں کا کوئی فائدہ نہیں اور رہ گیا حسد!آپ اگر دوسروں کی کامیابیوں پر جلتے ہیں، آپ اگر لوگوں کو ناکام ہوتا، برباد ہوتا اور خراب ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ حسد جیسی بیماری کے شکار ہیں، یہ بیماری آپ، آپ کی صحت، آپ کے سکون اور آپ کے ایمان چاروں کو نگل جائے گی، آپ جلد سے جلد اپنے دل کو اس خرابی سے بھی پاک کر لیں، آپ مراد پا جائیں گے۔
ہم خواہ زیادہ عبادت اور زیادہ ریاضت نہ کریں، ہم خود کو صرف فرائض تک محدود رکھ لیں بس ہم روز سونے سے قبل اپنا دل صاف کر لیں، ہم نے جس سے زیادتی کی ہم اس سے معافی مانگ لیں اور جس نے ہمارے ساتھ زیادتی کی ہم اللہ کے نام پر اسے معاف کر دیں، ہمیں مزید کسی عبادت، کسی وظیفے، کسی ایکسرسائز، کسی سکون آور دوا کی اور کسی ڈائیٹ چارٹ کی ضرورت نہیں رہے گی، ہم بھی اس دروازے سے مسجد نبوی میں داخل ہو جائیں گے جس سے وہ بزرگ صحابیؓ داخل ہوئے تھے اور جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے تین دن مسلسل فرمایا تھا ’’ یہ جنتی ہے‘‘ آپ بھی کر کے دیکھئے، آپ بھی کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ یہی ہے وہ، یہی ہے وہ! جس کی ہمیں تلاش تھی۔
ملتان یونیورسٹی
جاوید چوہدری منگل 16 جون 2015

ملتان کی بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی 1975ء میں قائم ہوئی،یہ پہلے یونیورسٹی آف ملتان تھی،1979ء میں نام تبدیل کر کے اسے حضرت بہاؤالدین ذکریا ملتانی سے منسوب کر دیا گیا،پروفیسر ڈاکٹر خواجہ علقمہ آج کل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں،یہ ماہر تعلیم بھی ہیں،علم پرور بھی ہیں اور یہ یمن میں پاکستان کے سفیر بھی رہے،یہ صاحب مطالعہ ہیں،یہ دنیا بھرسے کتابیں منگواتے ہیں،خود بھی پڑھتے ہیں اور دوستوں کو بھی بھجواتے ہیں،ڈاکٹر صاحب نے یونیورسٹی آنے کی بے شمار دعوتیں دیں لیکن وقت نے یاوری نہ کی،جون میں میرے دوست ڈاکٹر محمد شہزاد نے یونیورسٹی کے ’’شعبہ فاصلاتی تعلیم‘‘کے سربراہ ڈاکٹر اسحاق فانی سے وعدہ کر لیا،ڈاکٹر شہزاد میرے بہاولپور کے زمانے کے دوست ہیں۔
یہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شعبہ صحافت میں پڑھاتے ہیں،میں ڈاکٹر شہزاد کے حکم پر ملتان پہنچ گیا،ڈاکٹر علقمہ نے یونیورسٹی کی بہبود کے لیے بہت کام کیا،صرف فاصلاتی تعلیم کے شعبے نے ایک ارب روپے کا ریونیو جمع کیا،فاصلاتی تعلیم کی نئی عمارت بن رہی ہے،یہ ملتان کی خوبصورت ترین عمارت ہو گی،میں شعبے کی زیر تعمیر لائبریری دیکھ کر حیران رہ گیا،ملک میں شاید ہی اس معیار کی کوئی دوسری لائبریری ہو،لوگ خواجہ علقمہ کے خلاف ہیں،یہ ان کی وہ خوبی ہے جس کی وجہ سے میں ان کا زیادہ احترام کرتا ہوں،میں نے وقت سے سیکھا،ہمارے ملک میں جو شخص کام کرے گا لوگ اس کی مخالفت کریں گے،آپ آج کام شروع کر دیں،لوگ کل آپ کے راستے میں کھڑے ہو جائیں گے۔
کیوں؟ کیونکہ ہمارے ملک میں اہلیت اور پرفارمنس دونوں جرم ہیں،آپ پوری زندگی سرکار کے داماد بنے رہیں،آپ تنخواہ لیں،مراعات انجوائے کریں اور پوری زندگی تنکا دوہرا نہ کریں،آپ کو پورا معاشرہ ایماندار بھی کہے گا،درویش بھی اور نیک بھی لیکن آپ نے جس دن ٹھہرے پانی کے گندے جوہڑ میں ایفی شینسی کا کنکر پھینک دیا،آپ نے گرتی عمارتوں پر سفیدی شروع کر دی یا آپ نے نکاسی آب کے لیے نالیاں سیدھی کرنا شروع کر دیں یا پھر آپ نے درختوں کے تنوں پر چونا پھیرنا شروع کر دیا لوگ فوراً ڈنڈے لے کر باہر آجائیں گے،یہ آپ کا جینا حرام کر دیں گے،میاں شہباز شریف کا المیہ کیا ہے؟ پنجاب میں 68 سال سے بجٹ بن رہے ہیں۔
ان بجٹوں میں ترقیاتی فنڈز بھی رکھے جاتے ہیں مگر حکومتیں یہ ترقیاتی فنڈز ایم پی ایز اور ایم این ایز میں تقسیم کر دیتی تھیں اور ہمارے معزز پارلیمنٹیرینز یہ فنڈ کھا جاتے تھے،قوم نے کبھی اعتراض نہیں کیا لیکن میاں شہباز شریف نے یہ فنڈز باقاعدہ خرچ کر دیے،لاہور اور راولپنڈی میں میٹروز بنا دیں،ملتان میں میٹرو شروع کر دی ،پنجاب کے بڑے شہروں میں بھی سڑکیں،پل اور انڈر پاسز بنا دیے چنانچہ لوگ اب ان کے خلاف ہیں،آپ دوسرے صوبوں کو دیکھ لیجیے ،سندھ،بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے وزراء اعلیٰ کے پاس بھی ترقیاتی بجٹ ہیں۔
یہ ترقیاتی کام نہیں کر رہے،یہ سڑکیں،پل اور میٹرو نہیں بنا رہے،یہ ہر سال اپنے ترقیاتی فنڈز ضایع کر دیتے ہیں مگر ان سے کوئی نہیں پوچھ رہا،ملک کا کوئی شہری یہ سوال نہیں پوچھ رہا،آپ نے میٹرو بنائی اور نہ ہی آکسفورڈ جیسی یونیورسٹی کی بنیاد رکھی پھر پیسہ کہاں چلا گیا؟ کیوں؟ کیونکہ ہم صرف کام کرنے والوں کی مخالفت کرتے ہیں‘ہم صرف کام کرنے والوں سے حساب مانگتے ہیں،پنجاب نے اس سال تعلیم کے لیے 310 ارب روپے کی رقم رکھی،یہ کل بجٹ کا 27 فیصد بنتا ہے،ہمیں یہ بجٹ نظر نہیں آئے گا لیکن ہم میٹرو کے 48 ارب روپے کے پیچھے ڈنڈا لے کر بھاگتے رہیں گے،کیوں؟ کیونکہ ہم ترقی اور کام دونوں کے خلاف ہیں،میٹرو نہ بنتی،یہ سرمایہ سیاستدان کھا جاتے تو ٹھیک تھا،میٹرو بن گئی،یہ سرمایہ عام آدمی کی سہولت پر خرچ ہو گیا،یہ برا ہے۔
خواجہ علقمہ کے ساتھ بھی یقینا یہی ہوا ہو گا،یہ بھی کام کرنے کی غلطی کر بیٹھے ہوں گے اور لوگوں کو ان کی یہ حرکت پسند نہیں آئی ہو گی چنانچہ لوگ ان کی مخالفت بھی کر رہے ہیں،یہ جس دن چلے جائیں گے اور ان کی جگہ سرکار کا کوئی داماد آ جائے گا اور یہ داماد ریٹائرمنٹ تک کسی پودے تک کو پانی نہیں دے گا تو لوگ خوش رہیں گے،لوگ یقینا فاصلاتی تعلیم کے شعبے کی مخالفت بھی کر رہے ہوں گے،کیوں؟ کیونکہ یہ شعبہ یونیورسٹی کو کما کر دے رہا ہو گا،یہ یونیورسٹی کے ریونیو میں اضافہ کر رہا ہو گا اور ہمارے خطے میں ہمیشہ کماؤ پوت کو جوتے پڑتے ہیں،نکھٹو پوری زندگی چارپائیاں اور روٹیاں توڑتے ہیں مگر اس کے باوجود بے چارے،شہدے اور لاڈلے کہلاتے ہیں۔
میرا یونیورسٹی میں لیکچر تھا،اساتذہ اور طالب علم دونوں سوالوں سے لبالب بھرے تھے،یہ سیشن تین گھنٹے جاری رہا،میں نے اور شرکاء دونوں نے انجوائے کیا،یونیورسٹی میں لاہور کیمپس کے مستقبل کے بارے میں بھی خوف پایا جاتا تھا،یہ کیمپس لاہور کے صنعت کار منیر بھٹی نے پنجاب حکومت اور یونیورسٹی سے باقاعدہ فرنچائز لے کر قائم کیا،پندرہ کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی،جدید ترین لیکچر تھیٹر اور کیمپس بنایا لیکن منیر بھٹی اور کیمپس دونوں سسٹم کے فٹ بال بن چکے ہیں،پانچ ہزار طالب علم ہیں،ان کا مستقبل کیا ہے؟
کوئی نہیں جانتا،ملک میں ایک طرف صنعت کاروں اور بزنس مینوں کو تعلیم اور صحت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی جاتی ہے،یونیورسٹیوں کو اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کا حکم بھی دیا جاتا ہے لیکن اگر کوئی یونیورسٹی یا کوئی سرمایہ کار یہ حرکت کر بیٹھے تو وہ ذلیل ہو کر رہ جاتا ہے،ہماری ریاست اتنی کنفیوژ کیوں ہے؟ یہ ایک ہی بار کوئی ٹھوس فارمولہ کیوں نہیں بنا دیتی،آپ فارمولہ بنائیں اور سرمایہ کاروں کے لیے اوپن کر دیں تا کہ کوئی ابہام ہی نہ رہے،کرپشن ہو،بے قاعدگی ہو تو مجرموں کو پکڑیں اور سزا دیں۔
آپ گھسیٹتے کیوں ہیں؟ آپ وقت کیوں ضایع کرتے ہیں؟ وقت ضایع کرنے اور گھسیٹنے سے مجرم بچ جاتے ہیں لیکن ادارے تباہ ہو جاتے ہیں،آپ مجرموں کو سزا دیں اور ادارے بچائیں،ملک ترقی کرے گا ورنہ دوسری صورت میں ادارے ختم ہو جائیں گے،ملک روانڈا بن جائے گا اور مجرم اسلامی جمہوریہ روانڈا کی گلیوں میں دندناتے پھریں گے،کیا ہم یہ چاہتے ہیں؟ اگر ہاں تو پھر وہ وقت دور نہیں۔
آپ دنیا کی بڑی ایجادات کا پروفائل نکال کر دیکھئے،آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے،دنیا کی زیادہ تر ایجادات یونیورسٹیوں میں ہوئیں اور پروفیسروں نے کیں،آپ آکسفورڈ،کیمبرج اور ہارورڈ یونیورسٹیوں کی ایجادات کی فہرست نکالیں،آپ ان کے نوبل انعام یافتہ سائنس دانوں کا پروفائل بھی نکالیے،آپ کو یہ یونیورسٹیاں اور ان کے پروفیسر انسانیت کے محسن نظر آئیں گے جب کہ ان کے مقابلے میں ہماری یونیورسٹیاں ڈگریاں دینے کے سوا کچھ نہیں کر رہیں،پاکستان میں 80سے زائد انجینئرنگ یونیورسٹیاں اور ٹیکنیکل ادارے ہیں لیکن ملک کسی شعبے کی کوئی ایک مشین پروڈیوس نہیں کر رہا،ہماری انجینئرنگ یونیورسٹیوں کی لیبارٹریوں کے آلات تک باہر سے آتے ہیں۔
ملک 20 سال سے لوڈ شیڈنگ کا شکار ہے مگر ہماری کسی یونیورسٹی نے بجلی کی پیداوار پر کام کیا،کسی ادارے نے لوڈشیڈنگ کے لیے کوئی فارمولا نہیں بنایا،ملک کی مدد کرنا تو دور انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے اور یہ لوگ امپورٹیڈ جنریٹر استعمال کرتے ہیں،یونیورسٹیوں کے جنریٹر خراب ہو جائیں تو یہ لوگ ’’ری پیئرنگ‘‘کے لیے مارکیٹ سے ان پڑھ مستری یونیورسٹی بلاتے ہیں‘کیوں؟ آپ ملک میں کوئی ایسی یونیورسٹی بتائیے جس نے کم از کم اپنے لیے بجلی پیدا کر لی ہو،ہم تو سولر ٹیوب ویل بھی چین کا استعمال کررہے ہیں،ہمیں پھر ان یونیورسٹیوں کی کیا ضرورت ہے؟ ملک دہشت گردی کا شکار ہے۔
ہم اب تک 60ہزار لاشیں اٹھا چکے ہیں لیکن کیا ہماری کسی یونیورسٹی نے ملک کو دہشت گردی سے بچانے کے لیے کوئی فارمولہ دیا؟ہمارے کسی ادارے نے ملک اور عام لوگوں کی سیفٹی کے لیے کوئی سسٹم بنایا؟راولپنڈی میں7جون کو پولیس نے دوبھائیوں ذیشان اور شکیل کو چیک پوسٹ پر نہ رکنے کے جرم پر گولی مار دی ،ملک میں اس نوعیت کے بیسیوں واقعات ہو چکے ہیں،ہماری یونیورسٹیاں پولیس کو ایسی چیک پوسٹ ڈیزائن کر کے دے سکتی تھیں جس پر پہنچ کر ہر شخص رکنے پر مجبور ہو جائے اور پولیس دور بیٹھ کر گزرنے والوں کو مانیٹر کرتی رہے لیکن کیا ہماری کسی یونیورسٹی نے یہ’’ اینی شیٹو‘‘لیا؟
آپ بتائیے ہمارے کسی تعلیمی ادارے نے کوئی سیفٹی بیلٹ بنائی ہو،ہم نے کوئی تعمیراتی مٹیریل بنایا ہو،ہم نے کوئی بوٹ پالش ہی ایجاد کرلی ہو یا ملک کے 94 میڈیکل کالجوں نے کسی معمولی مرض کی کوئی دوا ایجاد کر لی ہو؟ اگر نہیں تو پھر ہماری یونیورسٹیاں کرتی کیا ہیں؟ اس کا حساب کون لے گا؟ احسن اقبال منصوبہ بندی کے وزیر ہیں،میری ان سے درخواست ہے،آپ ملک کے بیس بڑے مسائل کی فہرست بنائیں اور یونیورسٹیوں کو ان مسائل کے حل تلاش کرنے کی ذمے داری سونپ دیں ،دوسرا آپ یونیورسٹیوں کو ٹاسک دیں۔
یہ پانچ سال کے اندر اندر مالی لحاظ سے بھی خود کفیل ہوں اور یہ اپنے استعمال کے لیے بجلی ،گیس اور پانی بھی پیدا کریں،تیسرا ہماری یونیورسٹیاں تعمیراتی لحاظ سے بد صورت ہیں،عمارتوں میں حس جمال نظر نہیں آتی،حکومت یونیورسٹیوں کو پابند کرے،یہ یونیورسٹی میں آرکی ٹیکچر ڈیپارٹمنٹس بنائیں،اس سے عمارتوں کی ری ڈیزائننگ کرائیں اور سول انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ سے ان کی تعمیر کروائیں،یونیورسٹیوں میں ہوٹل مینجمنٹ کے ڈیپارٹمنٹس بھی بنائے جائیں۔
یہ ڈیپارٹمنٹس یونیورسٹی کے کیفے ٹیریاز بھی چلائیں اور تمام ڈیپارٹمنٹس کے چپڑاسیوں کو چائے اور پانی سرو کرنے کا ڈھنگ بھی سکھائیں،یہ کتنے افسوس کی بات ہے ،یونیورسٹی ہو اور اس میں بجلی ہو اور نہ ہی پانی‘واش روم گندے ہوں،چائے کے برتن ٹوٹے ہوئے ہوں اورچپڑاسی فرش پر سلیپر گھسیٹ رہے ہوں،کیا یہ زیادتی نہیں،یہ ادارے قوم کی خدمت کے لیے بنائے گئے ہیں،قوم ان اداروں کو پالنے کے لیے نہیں بنی…لیکن ملتان یونیورسٹی کا ماحول قدرے بہتر تھا،خواجہ علقمہ کام کر رہے ہیں اور جی بھر کر کام کرنے کا نقصان بھی اٹھا رہے ہیں۔
فالتو کھانا
جاوید چوہدری اتوار 14 جون 2015

ہم سارا دن کولن شہر میں گھومتے رہے، شام کے وقت ریستوران میں پہنچ گئے، وہ ایک ترکش ریستوران تھا اور مسلمانوں کے ریستورانوں کی طرح وہاں ہر قسم کی خوراک کی فراوانی تھی، دروازے کے باہر شوارمے کی گرل تھی، گرل پر بیف، مٹن اور چکن کی پھرکیاں گھوم رہی تھیں، مین ڈور کے اندر شیشے کا طویل کائونٹر تھا، کائونٹر میں درجنوں ڈشز پڑی تھیں، آپ جس ڈش کی طرف اشارہ کرتے تھے، باوردی شیف وہ ڈش اٹھا کر کچن کی طرف روانہ ہو جاتا تھا، فوڈ کائونٹر سے آگے سالاد، فروٹس اور سویٹ ڈشز کے کائونٹرز تھے۔
ان کائونٹرز پر بھی خوراک کا انبار لگا تھا، ریستوران میں گہما گہمی تھی، آپ کو تاحد نظر لوگ ہی لوگ نظر آتے تھے، میں اور میرا میزبان دونوں شہر میں اجنبی تھے، ہم بائی کار جرمنی ڈسکور کر رہے تھے، ہم برلن سے کولن پہنچے، شہر دیکھا اور حلال خوراک کی تلاش میں اس ریستوران میں آ گئے، کھانا آیا، ہم نے کھانا شروع کر دیا، ہم پنجابی نفسیاتی طور پر ’’روٹی نہ مک جائے‘‘ سینڈروم کا شکار ہیں، ہم مہمانوں کے لیے کھانا بنوائیں یا منگوائیں، ہم شادی بیاہ کے لیے کھانا پکوائیں یا سوئم یا چالیسویں کا بندوبست کریں ، ہم خود کھانا کھانے بیٹھیں یا ہم کسی دعوت پر جائیں ہم ہمیشہ کھانا زیادہ رکھیں گے۔
ہماری اس نفسیاتی بیماری کی وجہ شریکا اور طعنے ہیں، پنجاب میں پچاس سال پہلے تک ’’کھانا کم پڑ جانا‘‘ خوفناک طعنہ ہوتا تھا، پنجاب کی کسی شادی، سوئم یا دعوت میں کھانا کم پڑ جاتا تھا تو پورا شہر اس خاندان کو ملامت کرتا تھا، لوگ اس واقعے کو خاندان کی ’’چھیڑ،، بنا لیتے تھے، یہ نام لے کر دوسروں کو بتاتے تھے فلاں کی شادی یا چالیسویں پر کھانا ’’تھڑ‘‘ گیا تھا یا فلاں کا مہمان رات بھر بھوکا رہا ، ان طعنوں، اس چھیڑ نے ہماری نفسیات میں کھانے کا خوف پیدا کر دیا چنانچہ ہم کسی کے لیے کھانے کا بندوبست کرتے ہیں یا اپنی پلیٹ بھرتے ہیں تو ہم اتنہا کر دیتے ہیں، کھانے کے بعد ’’کھانا کیسا تھا‘‘ یہ ہمارا پہلا فقرہ ہوتا ہے۔
مہمان بھی کھل کر جھوٹی تعریف کرتے ہیں، ہم شادی بیاہ اور ختم درود کے بعد بھی فخر سے بتاتے ہیں ’’ ہمارے گھر ہزار لوگ آئے لیکن پانچ دیگیں پھر بھی بچ گئیں‘‘۔ یہ بچی ہوئی پانچ دیگیں ہمارے لیے اعزاز کی حیثیت رکھتی ہیں، یہ ہماری نفسیات ہے، ہم نے اس نفسیات کے تحت کولن میں بھی اپنی ضرورت سے زائد کھانا منگوا لیا، ہماری میز بھر گئی، ہم دونوں کم کھانے والے لوگ ہیں چنانچہ ہم بہت جلد سیر ہو گئے، ہم نے بل منگوایا، ادائیگی کی اور اٹھ کھڑے ہوئے ، ہم جوں ہی دروازے کے پاس پہنچے، ایک جرمن بابا اٹھا، ہمارا ہاتھ پکڑا اور زور زور سے چلانے لگا، وہ جرمن زبان میں کچھ کہتا تھا۔
ہماری میز کی طرف اشارہ کرتا تھا اور اونچی اونچی آواز میں چلاتا تھا، ریستوران میں موجود لوگ ہماری طرف متوجہ ہو گئے اور وہ بھی بابا کی آواز میں آواز ملانے لگے، ہم دونوں پریشان ہو گئے، ہم اپنا جرم سمجھنے کی کوشش کرتے لیکن ہمیں اپنا جرم سمجھ نہیں آرہا تھا، ریستوران کے منیجر کو ہماری حالت پر رحم آ گیا، وہ بھاگ کر ہمارے پاس آیا اور ہمیں ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بتایا ’’ کولن میں خوراک کے ضیاع پر مہم چل رہی ہے۔
ہماری یونیورسٹی کے طالب علموں نے ریسرچ کی دنیا میں روزانہ ہزاروں لوگ بھوک سے مر جاتے ہیں اور لاکھوں لوگ بھوکے سوتے ہیں لیکن کولن شہر میں روزانہ پانچ سو ٹن خوراک ضایع کر دی جاتی ہے، یہ ریسرچ شہر میں ’’خوراک بچائو‘‘ مہم کی بنیاد بن گئی، لوگ ریستوران میں اب صرف اتنا آرڈر دیتے ہیں جتنا یہ کھا سکتے ہیں، شہر میں اضافی خوراک آرڈر کرنا گناہ ہو چکا ہے۔
لوگ میزوں پر کھانا چھوڑ دینے وا لوں کا راستہ روک کرکھڑے ہو جاتے ہیں‘‘ ہم یہ سن کر شرمندہ ہو گئے، میں نے منیجر سے پوچھا ’’ہم اپنے جرم کا ازالہ کیسے کر سکتے ہیں‘‘ منیجر نے بتایا ’’ آپ ریستوران میں موجود لوگوں سے معافی مانگیں، آئندہ احتیاط کا وعدہ کریں، یہ خوراک پیک کرائیں اور گلی میں موجود کسی ہوم لیس کو پیش کردیں‘‘ ہم دونوں نے فوراً ہاتھ جوڑے، ذرا سا جھکے، باباجی اور ریستوران میں موجود لوگوں سے معافی مانگی، اپنا بچا ہوا کھانا اپنے ہاتھ سے پیک کیا، ریستوران میں موجود لوگوں کو سلام کیا اور باہر آ گئے۔
یہ جرمنی کا دس سال پرانا واقعہ تھا، جرمن حکومت نے بعد ازاں خوراک ضایع کرنے کے خلاف باقاعدہ قانون بنا دیا، ریستوران میں موجود کوئی بھی شخص، کسی بھی وقت شکایت کر سکتا ہے اور پولیس کھانا ضایع کرنے کے جرم میں اس شخص کو گرفتار کرلے گی، جرمنی کی دیکھا دیکھی فرانس نے بھی 22 مئی 2015ء کو یہ قانون پاس کر دیا، فرانس کے نئے قانون کے مطابق سپر مارکیٹوں اور بڑے ریستورانوں میں کھانا ضایع کرنا جرم بن گیا، یہ بل سوشلسٹ جماعت کے رکن گیولامے گیروٹ نے پیش کیا، گیروٹ کا کہنا تھا، فرانس میں روزانہ ٹنوں کے حساب سے خوراک کچرے میں پھینکی جاتی ہے، یہ ظلم ہے اور اس ظلم کے خلاف قانون بننا چاہیے۔
فرانس کی پارلیمنٹ نے گیروٹ کا بل متفقہ طور پرمنظور کر لیا، فرانس میں اب تمام سپر مارکیٹس، کھانے پینے کی دکانیں اور گروسری اسٹورز اپنی غیر فروخت شدہ اشیاء فلاحی اداروں کو دینے کے پابند ہوں گے، بل کے تحت 4305 مربع فٹ کے حامل تمام اسٹورز جولائی 2016ء سے پہلے فلاحی اداروں سے معاہدے کریں گے بصورت دیگر یہ 75 ہزار یورو تک جرمانہ ادا کریں گے۔
فلاحی ادارے یہ خوراک ضرورت مندوں تک پہنچائیں گے۔ یورپ کے دیگر ممالک بھی ایسی قانون سازی کر رہے ہیں، یہ ممالک خوراک، پانی اور لباس کے ضیاع کو جرم بناتے جا رہے ہیں، قانون سازی کا یہ سلسلہ اگر اسی طرح چلتا رہا تو یورپ میں بہت جلد ایسا وقت آ جائے گا جب خوراک، پانی اور کپڑے ضایع کرنے والے لوگ جیل میں ہوں گے اور یورپ کے لوگ صرف ضرورت کے مطابق خوراک، پانی اور لباس خریدیں گے، یہ مثبت اقدامات ہیں، یہ انسانوں کو انسانیت کی طرف لے جا رہے ہیں، یہ انسان کو انسان کے ساتھ جوڑ رہے ہیں۔
ہم بھی ان رویوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، یہ درست ہے ہماری حکومت، ہمارا سسٹم بہت کمزور ہے، یہ اس نوعیت کے قانون بنا سکے گی اور نہ ہی ان پر عمل کرا سکے گی مگر ہمارا معاشرہ، ہمارے لوگ بہت کچھ کر سکتے ہیں، ہم انفرادی سطح پر خوراک اور پانی دونوں بچا سکتے ہیں، ہم روزانہ ریستورانوں میں منوں کے حساب سے خوراک ضایع ہوتے دیکھتے ہیں، ہم کم از کم یہ خوراک ضرور بچا سکتے ہیں، میرے چند دوستوں نے دس برس قبل کھانا ضایع نہ کریں کلب بنایا، ہم نے فیصلہ کیا ہم جب بھی ریستوران میں کھانا کھائیں گے، ہم فالتو کھانا پیک کرائیں گے اور ہم یہ کھانا پارکنگ لاٹ میں موجود ڈرائیوروں ، گلی کے چوکیداروں یا پھر چوکوں اور سڑکوں پر موجود بھکاریوں کو پیش کریں گے۔
ہم لوگ آج تک اس اصول پر کاربند ہیں، میں ایک بار پرویز رشید کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا، میں نے آخر میں کھانا پیک کرایا اور پرویز رشید صاحب کو بتایا، میں جس دن لیٹ گھر جاتا ہوں میری گلی کے چوکیدار کو اس دن یقین ہوتا ہے میں اس کے لیے کھانالے آئوں گا‘‘۔ پرویز رشید نے فوراً وعدہ کیا ’’ وہ بھی اپنی گلی کے چوکیداروں کا اسی طرح خیال رکھیں گے‘‘ میں نے ایک دن فائیو اسٹور ہوٹل میں کھانا پیک کرایا اور ویٹر سے درخواست کی، پارکنگ لاٹ میں میرے مہمان (یہ بھی وزیر تھے) کا ڈرائیور موجود ہے، آپ یہ کھانا اسے دے آئیں، وزیر صاحب نے فرمایا ’’ میں اس کے کھانے کا خاص خیال رکھتا ہوں، یہ کھانا کھا چکا ہے‘‘۔
میں نے عرض کیا ’’ لیکن آج یہ فائیو اسٹار ہوٹل کاوہ کھانا کھائے گاجو آپ اور میں نے کھایا،، وزیر صاحب بھی مسکرا کر ہمارے کلب میں شامل ہو گئے ،ہمارے کلب کے ایک ممبر تحفے میں ملنے والی مٹھائیاں، کیک اور پھل ہمیشہ دفتر کے چپڑاسیوں، سویپرز اور چوکیداروں میں تقسیم کر دیتے ہیں، یہ لوگ یہ ٹوکرے اپنے اپنے گھر لے جاتے ہیں، ہمارے ایک ممبر کے تمام ملازمین غیر ملکی برانڈ کے کپڑے پہنتے ہیں، یہ کپڑے کہاں سے آتے ہیں؟ میرا دوست برانڈڈ کپڑوں کا رسیا ہے، یہ دھڑا دھڑ کپڑے خریدتا ہے، یہ چھ مہینے یہ کپڑے پہنتا ہے اور یہ قیمتی کپڑے بعد ازاں اس کے ملازمین استعمال کرتے ہیں، لاہور میں میرے ایک دوست نے اپنے تمام ملازمین کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی، یہ بچے اعلیٰ اسکولوں میں پڑھے، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی اور یہ اب اپنے قدموں پر کھڑے ہیں۔
ہمارے ایک ممبر جب بھی کھانے یا پینے کی چیز لیتے ہیں تو یہ دو لیتے ہیں، ایک اپنے لیے اور دوسری سڑکوں کے بھکاری بچوں کے لیے۔ میں نے اس سے ایک دن پوچھا ’’ تم بھکاری بچوں کو بھیک کے بجائے کھانے کی چیز کیوں دیتے ہو‘‘۔ اس کا جواب تھا ’’ یہ بچے سارا دن بھوکے پیاسے رہتے ہیں، لوگ ان کی آنکھوں کی بھوک پڑھ کر پیسے دیتے ہیں لیکن یہ پیسے ان بچوں کے ٹھیکیدار لے جاتے ہیں، میں ان بچوں کی بھوک کا بندوبست کرتا ہوں‘‘اور ہمارے ایک بزرگ دوست زندگی بھر تین نیکیاں کرتے رہے، یہ سردیوں میں دس رضائیاں بنواتے ہیں، یہ رضائیاں ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیتے ہیں، یہ گرمیوں میں چھ ٹیبل فین خریدتے ہیں اور یہ فین کچی بستیوں میں ان گھروں میں دے آتے ہیں جن میں پنکھا نہیں اور یہ ہفتے میں دو دن چاولوں کے پیکٹ بنواتے ہیں، پیکٹ گاڑی میں رکھتے ہیں اور راستے میں بانٹتے چلے جاتے ہیں، ان کا دعویٰ ہے ’’یہ تین نیکیاں میری بخشش کے لیے کافی ہیں‘‘۔
یہ ہم عام لوگ ہیں،یہ ہمارے کلب اور کلب کے ممبروں کی چند عادتیں ہیں، ریستورانوں کے مالک خاص لوگ ہوتے ہیں، یہ خاص لوگ اگر مہربانی فرمائیں، یہ شہروں کے غریب علاقوں کے سروے کرائیں، یہ محتاج گھرانوں کی فہرست بنائیں اور یہ گاہکوں کا بچا ہوا کھانا صاف کر کے روزانہ ان گھرانوں کو پہنچا دیں تو یہ نیکی بھی ہو گی اور انقلاب بھی۔ یہ ریستورانوں کے مالکان گاہکوں کو بھی اس نیکی میں شریک کر سکتے ہیں، یہ بروشر بنوائیں اور یہ بروشر مینیو کے ساتھ گاہکوں کو دے دیں، بروشر میں گاہکوں کوبتایا جائے ’’آپ کا بچا ہوا کھانا کتنے لوگ کھائیں گے‘‘ یہ بروشر بھی ایک نیا پاکستان تخلیق کرے گا، ایک ایسا پاکستان جس میں لوگ لوگوں کی خوراک کا بندوبست کریں گے، جس میں کوئی فالتو کھانا، فالتو نہیں ہوگا اور جس میں کوئی بھوکا، بھوکا نہیں سوئے گا۔
ملتان سے
جاوید چوہدری جمعـء 12 جون 2015

سر پر گرم آسمان تھا اور پیروں کے نیچے تپتی، پگھلتی زمین تھی اور دائیں بائیں تاحد نظر ملتان بکھرا تھا، صوفیاء کا شہر، تاریخ کا عظیم قبرستان، ہسٹری کا نوحہ۔ ملتان صرف شہر نہیں، یہ وقت ہے، گیا، ٹھہرا اور آنے والا وقت۔
ملتان عبرت سرائے بھی ہے، ہندوستان میں اقتدار کے ہزاروں سورج طلوع ہوئے، یہ ملتان پہنچے، دلی کی طرف روانہ ہوئے، دلی فتح کیا، واپس ملتان آئے اور سینٹرل ایشیا واپس چلے گئے، آپ ہندوستان کی تاریخ کے کسی فاتح کا نام لیں، وہ زندگی میں ملتان ضرور آیا ہو گا، وہ ملتان میں ٹھہرا بھی ہو گا اور اس نے اس کی گرم ہوائوں میں سانس بھی لی ہوگی، یہ شہر محض شہر نہیں، یہ روغنی ملتانی ٹائلوں کی موجد گاہ بھی ہے۔
آپ ملتان سے افغانستان جائیں، افغانستان سے ایران جائیے، اصفہان، گیلان، تبریز اور مشہد سے گزریئے، آپ وہاں سے سمرقند اور بخارہ جائیے اور آپ وہاں سے ترکمانستان، آذربائیجان اور الماتے جائیے، آپ کو راستے کی ہر قدیم عمارت، ہر قدیم محل اور ہر قدیم مزار پر روغنی ٹائلیں ملیں گی، یہ ٹائلیں ملتانی ہاتھوں نے بنائیں اور یہ تاریخ کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہوئیں وہاں پہنچیں، یہ ٹائلیں، ٹائلیں نہیں تھیں۔
یہ ملتان کا انتقام تھیں، ہر اس فاتح سے انتقام، ہر اس قوم سے انتقام جس نے ملتان فتح کرنے کی جسارت کی، جس نے اس شہر کو تاراج کرنے کا منصوبہ بنایا، ملتان کی یہ سبز ٹائلیں جنھیں آپ دور سے دیکھیں تو یہ نیلی دکھائی دیتی ہیں، یہ تاریخ سازوں کے نام پیغام ہیں ،آپ ملتان کو فتح کر سکتے ہیں لیکن آپ ملتانی ہاتھوں کے اس فن کو کیسے فتح کریں گے، یہ آپ کا آپ کی قبروں تک پیچھا کرے گا، ملتان شہر نہیں تاریخ ہے۔
پورے ہندوستان میں کوئی دوسراایسا شہر نہیں جس میں اتنے اولیاء کرام مدفون ہوں اور جس میں اتنے مزارات ہوں، ملتان کے ہر محلے میں مزار ہیں اور ان مزارات پر دیے بھی جلتے ہیں، یہ وہ شہر ہے جس میں پراہلاد جی کے مندر میں پہلی ہولی کھیلی گئی، پراہلاد بچہ تھا، اس نے اپنی پھوپھی ہولکا کے ساتھ اپنے والد راجہ پرناکشپ کی خدائی کو چیلنج کیا، راجہ نے بہن اور بیٹے کو آگ میں جلا دیا، ہولکا جل کر مر گئی لیکن پراہلاد بچ گیا،ہندو پوری دنیا میں ہر سال ہولکا کی اس قربانی کی یاد مناتے ہیں، یہ یاد ہولی کہلاتی ہے۔
ہولی ملتان سے شروع ہوئی، پراہلاد کا مندر 1992ء تک قائم رہا، ہندوستان میں ہندو انتہا پسندوں نے 1992ء میں ایودھیا کی بابری مسجد گرا دی، ملتان کے مسلمانوں نے بدلے میں پراہلاد کا مندر توڑ دیا، مندر ٹوٹ گیا لیکن بنیادیں آج بھی حضرت بہائو الدین ذکریاؒ کے پہلو میں موجود ہیں، یہ وہ شہر تھا جس پر یلغار کے دوران سکندر اعظم کو زہریلا تیر لگا، وہ زخمی ہوا اور راستے میں انتقال کر گیا، شہر میں آج بھی وہ برج موجود ہے جہاں سکندر اعظم گھائل ہوا، شہر میں حضرت شاہ شمسںؒ کا مزار بھی موجود ہے، یہ شاہ شمس کون ہیں؟ کیا یہ وہ شمس تبریز ہیں جنہوں نے مولانا روم کو محبت کے 40 اصول سکھائے ؟، اگر یہ وہ ہیں تو پھروہ کون تھے جنھیں مولانا روم کے صاحبزادوں نے قونیہ میں قتل کر کے کنوئیں میں پھینک دیا تھا؟
کیا یہ حضرت شاہ شمس سبزواری ہیں؟وہ شاہ شمس سبزواری جو 1201ء میں ملتان آئے اور 1276ء میں ایک سو گیارہ سال کی عمر میں وصال پایا، ملتان میں دفن ہوئے اور آپ کا مزار ہزار سال سے ملتان کے لوگوں پر سایہ فگاں ہے، یہ گمان زیادہ قرین القیاس ہے، یہ شہر حضرت بہائو الدین ذکریا ملتانی ؒ کا شہر ہے، آپ دنیاوی اور دینی دونوں قسم کی دولت سے مالا مال تھے، تاتاریوں نے ملتان پر حملہ کیا تو آپ نے اہل ملتان کی جان بخشی کے لیے تاتاریوں کو ایک لاکھ دینار ادا کیے، یہ تمام لوگ عظیم تھے، یہ تمام ہستیاں محترم ہیں لیکن یہ شہر بہرحال حضرت شاہ رکن عالم ؒکا شہر ہے، آپ کا کوئی بدل نہیں تھا۔
حضرت شاہ رکن عالم ؒ حضرت بہائوالدین ذکریاؒ کے پوتے تھے، آپ ’’رحم مادر‘‘ میں تھے تو حضرت بہائوالدین ذکریا ؒاٹھ کر اپنی بہو کا استقبال کرتے تھے، بچپن کرامات سے بھرا ہوا تھا،شیرخوارگی کے دور میں بھی اذان کے وقت ماں کا دودھ نہیں پیتے تھے، ماں نے ہمیشہ آپ کو باوضو ہو کر دودھ پلایا، 3 جنوری 1335ء کو انتقال ہوا تو دادا حضرت بہائوالدین ذکریاؒ کے قدموں میں دفن کر دیا گیا، آپ کی تدفین کے چند دن بعد حضرت بہائوالدین ذکریاؒ شیخ صدر الدین محمد کے خواب میں آئے اور فرمایا ’’ آپ نے قطب الاقطاب کو میری پائینتی میں دفن کر دیا، مجھے سخت تکلیف ہو رہی ہے۔
آپ انھیں دوسرے مقبرے میں دفن کریں تا کہ میں آرام سے رہ سکوں،، حکم واضح تھا، ملتان کے اولیاء نے دائیں بائیں دیکھا، سامنے غیاث الدین تغلق کا مقبرہ تھا، یہ مقبرہ تعمیر اور عقیدت کی عظیم داستان تھا، غیاث الدین تغلق دیپال پور کا صوبیدار تھا، دیپالپور ہندوستان کی بڑی چھائونی تھی، غیاث الدین تغلق نے زندگی میں اپنا مقبرہ بنوایا، مقبرے کی تعمیر کے دوران تغلق نے ایک ایک پیسہ اپنی گرہ سے لگایا اور یہ رقم سو فیصد حلال تھی، یہ ہندوستان کی خوبصورت ترین عمارت تھی، یہ مشرق میں 260 فٹ تک پھیلی تھی، مغرب میں 213 فٹ تھی، شمال میں 283 فٹ تھی اور جنوب میں اس کی چوڑائی 283 فٹ تھی، یہ ہشت پہلو عمارت قطر میں 49 فٹ تھی، دیواریں عمودی تھیں، زمین سے اونچائی 160 فٹ تھی، عمارت تین منزلہ تھی۔
اوپر وسیع گنبد تھا، یہ گنبد ستونوں کے بغیر بنایاگیا، دیواروں میں لکڑی کے شہتیر لگائے گئے اور شہتیروں کے درمیان پتھروں کی چنائی کی گئی، مقبرے پر ملتان کی روغنی ٹائلوں کا کام تھا، آیات بھی کندا کی گئیں اور پچی کاری کا کام بھی ہوا،یہ مقبرہ فن تعمیر کا نادر نمونہ ہے، کاش میرے آرکیٹیکٹ دوست اعجاز قادری ملتان جائیں اور یہ تعمیراتی معجزہ دیکھیں، غیاث الدین تغلق اس مقبرے میں دفن ہونا چاہتا تھا لیکن دلی کے تخت پر قطب الدین مبارک شاہ نے قبضہ کر لیا، یہ ہندوستان کی تاریخ کا مکروہ ترین کردار تھا، ہم جنس پرست تھا، ہندو لڑکے سے روزانہ شادی کرتا تھا، ایک دن دلہن بنتا تھا اور دوسرے دن دلہا، عمائدین سلطنت روز تحفے تحائف لے کر شادی میں شریک ہوتے تھے۔
معشوق لڑکے نے ایک دن اسے قتل کر دیا اور خسرو پرویز کے نام سے اپنی حکومت کا اعلان کر دیا، اس نے نعوذ باللہ قرآن مجید کے تمام نسخے جمع کیے، ان کی کرسیاں بنوائیں اور درباریوں کو ان پر بیٹھنے کا حکم دے دیا، وہ ہندوستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دور تھا، پورے ملک میں غیاث الدین تغلق واحد شخص تھا جو مسلمانوں کو اس ظالم شخص سے رہائی دلا سکتا تھا، دلی کے مسلمانوں نے تغلق سے اپیل کی، تغلق دلی پہنچا، مسلمانوں کو ظالموں سے نجات دلائی، واپس آنے لگا تو دلی کے لوگ قدموں میں گر گئے۔
وہ مجبور ہو گیا اور یوں تغلق حکومت کی بنیاد پڑ گئی، وہ پوری زندگی لڑتا رہا یہاں تک کہ تغلق آباد میں کھانا کھا رہا تھا، محل کی چھت گری اور وہ چھت کے نیچے دفن ہو گیا، غیاث الدین تغلق کی میت کو ملتان پہنچانا مشکل تھا چنانچہ اسے دلی میں دفن کر دیا گیا، ملتان کا مقبرہ خالی رہ گیا، آپ حسن اتفاق ملاحظہ کیجیے، غیاث الدین تغلق کا صاحبزادہ اور ہندوستان کا بادشاہ فیروز شاہ تغلق عین اس دن سندھ سے واپس دلی جا رہا تھا جب وہ خواب دیکھا گیا، وہ ملتان میں رکا، ملتان کے عمائدین نے اسے خواب سنایا، وہ اٹھا، عمائدین کے ساتھ قبرکشائی کی، حضرت شاہ رکن عالمؒ کے جسد مبارک کو کندھا دے کر والد کے خالی مقبرے تک لایا اور اپنے ہاتھوں سے ان کی تدفین کر دی، وہ دن ہے اور آج کا دن ہے، یہ مقبرہ مقبرہ نہیں رہا، یہ مزار بن گیا، یہ مزار دنیا بھر میں ملتان کی پہچان بھی ہے، دنیا بھر کی کتابوں میں جہاں بھی ملتان کا ذکر آتا ہے وہاں ساتھ ہی حضرت شاہ رکن عالمؒ کے مزار کی تصویر شایع ہوتی ہے اور میں ہفتہ 6 جون کے دن اس مزار کے سامنے کھڑا تھا جسے غیاث الدین تغلق نے اپنے لیے بنوایا لیکن اسے یہاں دفن ہونے کی اجازت نہ ملی اور ہندوستان کی عظیم عمارت حضرت شاہ رکن عالمؒ کے نام لکھ دی گئی۔
سرپر گرم آسمان تھا اور پیروں کے نیچے تپتی زمین اور دائیں بائیں دور تک ملتان بکھرا تھا، ہسٹری کا تڑپتا مچلتا نوحہ۔ عمارت کے اندر سفید رنگ کی درجنوں قبریں تھیں، قبروں کے درمیان چبوترا تھا اور چبوترے پر حضرت شاہ رکن عالمؒ محو استراحت تھے، میں نے سلام کیا، فاتحہ پڑھی اور مزار کے دائیں بائیں نظریں دوڑائیں، حضرت شاہ رکن عالمؒ کے دائیں بائیں درجنوں قبریں ہیں۔
ان قبروں میں کون لوگ مدفون ہیں؟ کوئی نہیں جانتا، یہ لوگ یقینا اپنے زمانے کے بڑے لوگ ہوں گے لیکن انسان جب خاک میں اترتا ہے تو مٹی وجود کے ساتھ ساتھ اس کے عہدے ،نام اور دولت بھی نگل جاتی ہے، اللہ تعالیٰ موت کے بعد صرف اپنے چاہنے والوں کو شناخت عنایت کرتا ہے یا پھر ان لوگوں پر مہربانی فرماتا ہے جو اس کی مخلوق کے لیے مفید ہوتے ہیں ، شاہ رکن عالمؒ اللہ تعالیٰ کو پسند تھے لہٰذا انھیں اس مقبرے میں جگہ عنایت ہو گئی جو بادشاہ نے اپنے لیے تعمیر کرایا تھا،آپ کا نام آج بھی سلامت ہے۔
لوگ آج بھی عقیدت کے ساتھ گردن جھکا کر آپ کے مزار پر حاضر ہوتے ہیں جب کہ غیاث الدین تغلق کا نام صرف کتابوں میں رہ گیا،وہ صرف قصہ بن کر رہ گیا، یہ عبرت کی نشانیاں ہیں اور انسان ان نشانیوں سے کچھ سیکھنا چاہے تو یہ بہت کچھ سیکھ سکتا ہے لیکن انسان بھی اللہ تعالیٰ کی کتنی عجیب مخلوق ہے ،یہ اپنے ہاتھوں سے دوسرے انسانو ں کو دفن کرتا ہے مگر یہ اس کے باوجود خود کو ناگزیر سمجھتا ہے ، کاش انسان، انسان بن جائے۔
مزار کی پچھلی دیوار پر ایک پتھر نصب تھا ، روایت ہے وہ مرد جس کی داڑھی مونچھ نہیں آتی وہ اگر اس پتھر پر اپنا منہ رگڑے تو اس کے چہرے پر بال اگ آتے ہیں ، لوگوں نے منہ رگڑ رگڑ کر پتھر اور اس کے دائیں بائیں کی جگہ سیاہ کر دی تھی، ہماری روایتیں بھی کیا روایتیں ہیں ، مزار کے سامنے ’’دم دما ،، تھا ، یہ تاریخ کا وہ مقام ہے جہاں تاریخ کے ہزاروں قدم نقش ہیں، دم دما کی چھت پر دھوپ اور ہوا دونوں تیز تھیں۔
دس سال بعد
جاوید چوہدری منگل 9 جون 2015

گاؤں کا نام تھا غزالہ، یہ گاؤں طوس کے قریب واقع تھا اور طوس ایران میں تھا، یہ علاقہ اس وقت سلجوق ریاست کا حصہ تھا، غزالہ میں 1058ء میں ایک بچہ پیدا ہوا، والدین نے ابو حامد نام رکھ دیا، یہ بچہ علم کا متوالہ تھا، اس نے غزالہ میں کیسے تعلیم حاصل کی؟ یہ بھی ایک کہانی ہے۔
میں یہ کہانی آپ کو کسی اور وقت سناؤں گا، بچے نے علم حاصل کیا، علاقے میں معروف ہوا، سلجوق سلطان کے وزیر نظام الملک تک پہنچا، وزیر نے سلطان سے ملاقات کرائی، سلطان علم سے متاثر ہوا اور اسے مدرسہ نظامیہ بغداد کا سربراہ لگا دیا، مدرسہ نظامیہ اس وقت عالم اسلام کی آکسفورڈ تھا، وہ اسلامی آکسفورڈ کا سربراہ بن گیا، وہ 1091ء سے 1095ء تک چار سال مدرسہ نظامیہ کا سربراہ رہا، یہ اس کا علمی، تحقیقی اور دنیاوی لحاظ سے ایکٹو دور تھا، اس نے اس دور میں دنیا کو دو بڑے فلسفے دیے، پہلا فلسفہ علم سے متعلق تھا’’ علم دو قسم کے ہوتے ہیں۔
دینی اور دنیاوی وہ علوم کی اس تقسیم کا بانی تھا، اس سے قبل دینی اور دنیاوی علم ایک سمجھے جاتے تھے اور یہ دونوں علوم ایک دوسرے سے الجھتے رہتے تھے، یہ فلسفہ شروع میں مسترد کر دیا گیا لیکن دنیا آہستہ ہستہ یہ حقیقت ماننے پر مجبور ہو گئی یہاں تک کہ آج دنیا کے 245 ممالک میں دنیاوی اور دینی علوم الگ الگ پڑھائے جا رہے ہیں، دوسرا فلسفہ بجٹ تھا، غزالہ کے اس 33 سالہ جوان نے دنیا میں پہلی بار بجٹ کا تصور دیا، اس کا کہنا تھا، ریاست ہو یا خاندان یہ اپنی آمدنی اور اخراجات میں توازن نہیں رکھے گا تو یہ تباہ ہو جائے گا۔
اس نے دنیا میں پہلی بار بجٹ کی مختلف مدیں بھی طے کیں، اس کا کہنا تھا، ریاست آمدنی کا تخمینہ لگائے، اس آمدنی کا ایک حصہ فوج پر خرچ کرے، ایک حصہ ترقیاتی کاموں مثلاً پانی کے کنوؤں، سڑکوں، درختوں کی افزائش، شہروں میں روشنی، فصیلوں کی تعمیر، نہروں، بندوں اور آبپاشی جیسے کاموں پر خرچ کرے، تیسری مد فلاح علامہ تھی ،ریاست آمدنی کے ایک حصے سے مویشی پالے، شفاخانے بنائے، مدارس قائم کرے اور غرباء، مساکین اور مسافروں کو امداد دے اور چوتھا اور آخری حصہ بادشاہ، وزراء، مشیروں اور عمائدین ریاست پر خرچ کیا جائے۔
اس نے عام آدمی کو گھریلو بجٹ بنانے کی ترغیب بھی دی، اس فلسفے کو بھی پہلے فلسفے کی طرح شروع میں زیادہ قبولیت نہ ملی مگر دنیا آہستہ آہستہ اس کی اس فراست کو بھی ماننے پر مجبور ہو گئی، آج دنیا کے 245 ممالک میں کوئی ایسا ملک نہیں جہاںبجٹ نہ بنایا جاتا ہو اور وہ ملک اپنے پاؤں اپنی چادر کے اندر رکھنے کی کوشش نہ کرتا ہو، وہ 1095ء میں روحانی خلفشار کا شکار ہوا، شاندار نوکری چھوڑی، اپنے من کی تلاش میں نکلا، دنیا میں بھٹکا، صوفی ہوا اور باقی زندگی تصوف میں گزار دی، وہ کون تھا؟ دنیا اس شخص کو امام غزالی کہتی ہے۔
وہ 1111ء میں دنیا سے رخصت ہو گئے، کل 53 سال عمر پائی، ان 53 برسوں میں 500 مضامین اور35 کتابیں لکھیں، کیمیائے سعادت تخلیق کا نقطہ کمال تھی، یہ آج بھی یورپ کے دانشوروں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے، طوس میں دفن ہوئے، زمانے کی گرد نے قبر کو بے نشان کر دیا لیکن ایرانی حکومت نے 1995ء میں یہ قبر دریافت کر لی، قبر پر مزار بن چکا ہے اور میں ان شاء اللہ فاتحہ کے لیے اس عظیم فلسفی، اس عظیم انسان کی قبر پر بھی جاؤں گا، امام غزالی کے طوس شہر بھی پہنچوں گا۔
دنیا میں بجٹ کا تصور امام غزالی نے دیا لیکن آمدنی اور اخراجات میں توازن کا ایشو ہزاروں سال پرانا ہے، ملک میں بے شمار طبقے ہوتے ہیں، فوج ہے، سرکاری محکمے ہیں، بزنس مین ہیں اور مزدور ہیں، یہ سب ایک معاشرے کا حصہ ہیں، ریاست معاشرے کے کسی حصے کو دوسروں سے الگ نہیں کر سکتی، آپ اگر سیکیورٹی ریاست ہیں، آپ کی دشمنیاں ہیں تو پھر آپ کو مضبوط اور بڑی فوج رکھنا ہو گی، بڑی اور مضبوط فوج کے لیے سرمایہ چاہیے چنانچہ ریاست بجٹ کا بڑا حصہ فوج کے لیے وقف کرے گی، آپ کو ملک چلانے کے لیے بیوروکریسی بھی چاہیے، ملک کی آبادی زیادہ ہے تو بیورو کریسی کا سائز بھی بڑھے گا، آپ ملک کے ہر کونے میں سرکاری دفتر کھولیں گے۔
اس دفتر میں ملازمین رکھیں گے، یہ ملازمین سرکار سے تنخواہ اور مراعات لیں گے، یہ رقم بھی خزانے سے جائے گی، عوام کو صاف پانی، بجلی، تعلیم اور صحت بھی چاہیے، عوام زیادہ ہوں گے تو یہ ضروریات بھی زیادہ ہوں گی چنانچہ آپ کو اسپتالوں، ڈاکٹروں، کالجوں، پاور اسٹیشنوں اور واٹر سپلائی کے لیے بھی رقم چاہیے، دنیا کے ہر ملک میں مزدوروں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے،ملک میں جاری ترقیاتی کام ان مزدوروں کی روزی روٹی ہوتے ہیں، ریاست اگر ترقیاتی کاموں کے لیے بجٹ نہیں رکھے گی۔
یہ سڑک، ریل، ڈیم، کھمبے اور میٹرو نہیں بنائے گی تو لاکھوں مزدور بھی بے روزگار ہوں گے اور تعمیرات سے منسلک 60 صنعتیں بھی بیٹھ جائیں گی، سیمنٹ فیکٹریاں، اسٹیل ملز، کرشنگ یونٹس، ٹرانسپورٹ کمپنیاں اور ٹائلز، اینٹ اور پتھر بنانے والے فارغ ہو جائیں گے، ملک کی ایک ایک انڈسٹری لاکھ لاکھ، دو، دو لاکھ لوگوں کو روزگار دیتی ہے، یہ لاکھوں لوگ بے روزگار ہو جائیں گے،ترقیاتی کام کیا ہوتے ہیں، آپ تین مثالوں سے اندازہ لگائیے، فائیو اسٹار ہوٹل میں ایک کمرے میں اضافہ 126 لوگوں کو روزگار دیتا ہے۔
سیمنٹ کی ایک اضافی بوری 24 لوگوں کی آمدنی میں اضافہ کرتی ہے اور پانچ مرلے کے ایک گھر کی تعمیر سے 85 گھرانوں کے چولہے جلتے ہیں چنانچہ ریاست اگر بجٹ میں ترقیاتی کاموں کے لیے رقم نہیں رکھے گی تو ایک سال میں بے روزگاری میں پچاس فیصد اضافہ ہو جائے گا، ملک کا ریونیو 15 فیصد کم ہو جائے گا اور ملک کا انفرااسٹرکچر پانچ سال پیچھے چلا جائے گا، ترقیاتی کاموں کی طرح تعلیم اور صحت بھی انتہائی ضروری ہیں، دنیا کا ہر ملک اپنے بجٹ میں صحت اور تعلیم کے لیے رقم رکھتا ہے۔
ہم بھی رکھتے ہیں مگر ہمارے بجٹ میں اس کی شرح بہت کم ہے، 2015ء کے بجٹ میں صحت کے لیے صرف18 ارب اورتعلیم کے لیے 71 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جن میں20 ارب روپے اعلیٰ تعلیم کے لیے رکھے گئے ہیں، وفاق کا کہنا ہے 18 ویں ترمیم کے بعد یہ دونوں شعبے صوبوں کے پاس ہیں، یہ بجٹ صرف وفاق کے لیے ہے لیکن اس جواز کے باوجود یہ رقم پاکستان میں تعلیم اور صحت کے شعبے کے لیے انتہائی کم ہے مگر سوال یہ ہے، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی تین وجوہات ہیں۔
ملک کے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں، ہم 20 کروڑ لوگ سال میں 35 ارب ڈالر کی ایکسپورٹس اور 40 ارب ڈالر کی امپورٹس کرتے ہیں گویا ہم جتنا کماتے ہیں اس سے پانچ ارب ڈالر زیادہ کی خریداری کر لیتے ہیں، کیوں؟ کیونکہ ہم 20 کروڑ ہیں اور زیادہ آبادی کی ضروریات بھی زیادہ ہوتی ہیں، ہمارے مقابلے میں سنگا پور کی آبادی 55 لاکھ ہے لیکن یہ ہر سال 518 بلین ڈالر کی ایکسپورٹ کرتا ہے چنانچہ ہم آمدنی میں مار کھا رہے ہیں، ہمارے پاس آمدنی کا دوسرا ذریعہ ٹیکس ہیں لیکن 20 کروڑ لوگوں کے ملک میں صرف 10 لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں باقی 19 کروڑ 90 لاکھ لوگ صرف مطالبات کرتے ہیں لہٰذا یہ 10 لاکھ لوگ کب اور کہاں تک 19 کروڑ لوگوں کا بوجھ اٹھائیں گے، دوسری وجہ، ہمارے دفاعی اخراجات زیادہ ہیں۔
ہم نے اس سال781 ارب روپے دفاع کے لیے مختص کیے ہیں، یہ ہمارے بجٹ کا تقریباً 18فیصد بنتا ہے، کیا ہم یہ خرچ بند کر سکتے ہیں؟ جی نہیں، ہم دشمن دار ملک ہیں، ہم فوج ختم کریں گے تو ہمارے دشمن ہمیں کھا جائیں گے چنانچہ ہم یہ خرچ کم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، تیسری وجہ، ہم مقروض ہیں، ہمارے تازہ ترین بجٹ میں اندرونی اور بیرونی قرضوں کی قسطیں ادا کرنے کے لیے1150 ارب روپے رکھے گئے ہیں، کیا ہم اس سے بچ سکتے ہیں؟ نہیں،کیوں؟ کیونکہ ہم قسط نہیں دیں گے تو ہم ڈیفالٹ کر جائیں گے اور یہ آج کے زمانے کی سب سے بڑی سزا ہے، اب سوال یہ ہے، ہم قرض کیوں لیتے ہیں؟ ہم ملک چلانے کے لیے قرضہ لیتے ہیں، ہمارے پاس بیچنے کے لیے کچھ نہیں، ہماری ایکسپورٹس کم ہیں اور عوام ٹیکس نہیں دیتے چنانچہ قرضوں کے علاوہ کیا آپشن بچتا ہے؟ یہ تین بڑی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ہم تعلیم اور صحت پر خرچ نہیں کر پارہے۔
ہم اگر تعلیم اور صحت کا بجٹ بڑھانا چاہتے ہیں تو پھرہمارے پاس چار آپشن ہیں، ہم دفاعی بجٹ کم کریں، یہ ہم نہیں کر سکتے، ہم قرضوں سے بچیں، یہ بھی سرے دست ممکن نہیں، ہم اپنی آمدنی بڑھائیں، اس کے لیے بجلی، سڑک، ماہرین اور ٹیکس ضروری ہیں اور ہم ان چاروں کے خلاف ہیں اور چوتھا اور آخری آپشن ہم اپنا ترقیاتی بجٹ صحت اور تعلیم پر خرچ کر دیں، یہ ممکن ہے لیکن سوال یہ ہے ہم اگر سڑک نہیں بنائیں گے، ہم شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر نہیں بنائیں گے، ہم ڈیمز بھی تعمیر نہیں کریں گے اورہم موٹر ویز نہیں بنائیں گے تو طالب علم اسکول، کالج اور یونیورسٹی تک کیسے پہنچیں گے۔
مریض اور ڈاکٹر اسپتال تک کیسے آئیں گے؟ دوسرا ریاست اگر ترقیاتی کام نہیں کرتی تو ملک میں موجود وہ لاکھوں مزدور کہاں سے کھائیں گے جن کے روزگار کا واحد ذریعہ ہتھوڑا، کسی،پلاس اور گینتی ہے، ملک کی وہ 60 صنعتیں کیسے چلیں گی جن کا تعلق تعمیرات کے شعبے سے ہے اور ہم اگر اس بحران سے بھی نکل گئے تو آنے والے کل میں جب پاکستان کی آکسفورڈ یونیورسٹیوں سے بیس لاکھ اعلیٰ دماغ باہر نکلیں گے تو یہ جاب کہاںکریں گے، یہ کہاں سے کمائیں گے کیونکہ ہم نے ملک میں ترقیاتی سرگرمیاں پانچ سال پہلے بند کر دی تھیں اور اس فیصلے کی وجہ سے ملک کے پرائیویٹ سیکٹر کا جنازہ نکل چکا ہو گا۔
یورپ ہم سے تعلیم، صحت اور روزگار میں آگے ہے، کیوں؟ کیونکہ اس نے آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے اپنا انفرااسٹرکچر مکمل کر لیا تھا، لندن میں انڈر گراؤنڈ( میٹرو) 1863ء میں بنی،پیرس میں 1900ء میں، امریکا(شکاگو) میں 1897 ء، جاپان(ٹوکیو) میں 1927ء اور روس(ماسکو) میں 1935 میں میٹرو بنی، یہ ملک جہاں تک سڑک، ریل اور میٹرو پہنچانا چاہتے تھے، انھوں نے وہاں آج سے سو ڈیڑھ سو سال پہلے پہنچا دی چنانچہ یہ انفرااسٹرکچر سے فارغ ہو کر اپنا زیادہ تر سرمایہ تعلیم اور صحت پر خرچ کر رہے ہیں جب کہ ہم نے آج 2015ء میں صرف دو شہروں میں میٹرو بنائی، ہماری موٹر وے بھی بمشکل پشاور سے لاہور پہنچتی ہے، ہمارے دیہات میں آج بھی سڑک نہیں اور ہم آج بھی بجلی کی کمی کا شکار ہیں۔
یہ کمی ہمارے بجٹ کا رہا سہا جوس بھی چوس جاتی ہے چنانچہ آپ اگر واقعی تعلیم اور صحت کا مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں تو آپ دن رات کر کے پیٹ پر پتھر باندھ کر جلد سے جلد اپنا انفرااسٹرکچر مکمل کر لیں تا کہ آپ دس برس بعد یورپ کی طرح انفرااسٹرکچر پر صرف اڑھائی فیصد خرچ کریں اور تعلیم اور صحت پر جی ڈی پی کا دس فیصد لگا سکیں لیکن ہم نے اگر آج ترقیاتی کاموں کی محالفت بند نہ کی، ہم نے اپنی سوچ نہ بدلی تو ہم اگلے دس سال بعد بھی وہیں ہوں گے جہاں ہم آج ہیں ، ہم ایسا تورا بورا بن جائیں گے جس میں ملا عمر کے پاس وضو کے لیے پانی نہیں تھا لیکن وہ پوری دنیا پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہے تھے۔
آپ آج فیصلہ کر لیں آپ دس سال بعد کہاں جانا چاہتے ہیں۔

زوال پرستی
جاوید چوہدری اتوار 7 جون 2015

ہم اب آتے ہیں تعلیم کی طرف، ہمارے خطے میں تعلیم کے چار ادوار گزرے ہیں، پہلا دور سلاطین کا زمانہ تھا، وہ تعلیم کا ایک مشکل اور مہنگا زمانہ تھا، ہندوستان میں اسکول اور مدارس نہیں تھے، شاہی خاندان اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے سینٹرل ایشیا، ایران، ترکی، عراق اور شام سے اساتذہ امپورٹ کرتے تھے، یہ لوگ مختلف علوم کے ماہر ہوتے تھے۔
بادشاہ انھیں لمبے چوڑے معاوضے اور مراعات کا لالچ دے کر ہندوستان بلواتے تھے، یہ لوگ دہلی اور آگرہ میں بس جاتے تھے، بادشاہ ان کے لیے الگ محلے بنواتے تھے، ان کے لیے وظیفہ طے کیا جاتا تھا اور ان کو مستقلاً ہندوستان میں رکھنے کے لیے ان کی اعلیٰ خاندانوں میں شادیاں کرا دی جاتی تھیں، یہ لوگ بعد ازاں شاہی اور رئیس خاندان کے بچوں کو تعلیم دیتے تھے، بادشاہوں کی دیکھا دیکھی ہندوستان کے مختلف راجوں، مہاراجوں اور صوبیداروں نے بھی یہ بندوبست کر لیا، یہ بھی اساتذہ اور اتالیق درآمد کر کے اپنے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرا لیتے تھے، یہ ایک طریقہ تھا، دوسرا طریقہ صوفیاء کرام اور رحمدل اساتذہ کا وضع کردہ تھا۔
اساتذہ دوسرے خطوں سے ہندوستان آتے اور مختلف علاقوں کے اہل ثروت کی مدد سے مختلف شہروں میں اپنی درس گاہیں بنا لیتے، صوفیاء کرام بھی اپنی درگاہوں پر درس و تدریس کا انتظام کرتے تھے، علم کے طالب دور دور سے ان درس گاہوں اور درگاہوں پر آتے اور جہاں تک ممکن ہوتا تعلیم حاصل کرتے، یہ تعلیم حاصل کرنے کا محدود اور کمیاب طریقہ تھا، آپ ہندوستان کے مختلف مفتی، مولانا ، سید اور مرزا فیملیز کے پروفائل نکالیں، آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے۔
ان کے آباؤ اجداد وہ اتالیق تھے جو ماضی میں ہندوستان آئے اور یہاں آ کر رچ بس گئے، یہ لوگ آہستہ آہستہ خاندان بنتے چلے گئے، سلاطین اور مغلوں کے زمانے میں تعلیم عام کیوں نہیں تھی؟ اس کی دو وجوہات تھیں، پہلی وجہ ہندوستان کے حکمران تھے، یہ لوگ فوجی تھے، یہ ملک کو فتح کرنے آتے تھے اور ملکوں کو فتح کرنے والے لوگ ریفارمز نہیں کیا کرتے، دوسری وجہ انفراسٹرکچر یا رسل و رسائل کے ذرائع کی کمی تھی، استاد کس سڑک پر سفر کر کے دور دراز علاقوں کے طالب علموں کو تعلیم دینے آتے اور شاگرد کس بس، کس ریل گاڑی پر بیٹھ کر درس گاہ تک جاتے؟ چنانچہ استاد اور شاگرد دونوں محتاج تھے اور اس محتاجی نے ہزاروں سال تک اس خطے کو تعلیم سے دور رکھا۔
ہندوستان میں تعلیم کا دوسرا دور انگریز کا زمانہ تھا، انگریز نے 1857ء کی جنگ کے بعد ہندوستان میں سڑک، پل، ریل، ٹیلی فون اور ٹیلی گراف کا نیٹ ورک بچھایا، یہ انفرا سٹرکچر جہاں جہاں پہنچا وہاں مشنری اور سرکاری اسکول اور کالج بنے، آپ ہندوستان کے تمام پرانے تعلیمی اداروں کی ہسٹری نکال کر دیکھئے، آپ کو یہ تمام ادارے سڑک کی تعمیر کے بعد بنتے نظر آئیں گے، آپ یونیورسٹیوں کی تاریخ بھی نکال لیجیے، ہندوستان کی تمام یونیورسٹیاں ریلوے کے بعد بنیں اور یہ ریلوے اسٹیشن کے قریب تھیں، آپ برصغیر کے وہ علاقے بھی سرچ کیجیے جو انگریز کے دور میں تعلیم میں باقی ہندوستان سے پیچھے رہ گئے۔
آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے، انگریز ان علاقوں میں سڑک اور ریل نہیں بنا سکا تھا چنانچہ ریل اور سڑک کی کمی ان علاقوں کے عوام کو تعلیم سے دور لے گئی، انگریز کی دیکھا دیکھی ہندوؤں، سکھوں اور مسلمانوں نے بھی جدید تعلیم کے ادارے بنائے، آپ پاٹ شالوں کی ہسٹری نکال کر دیکھ لیجیے یا خالصہ اسکولوں اور کالجوں کی ہسٹری یا پھر علی گڑھ یونیورسٹی اور سندھ مدرسہ کی ہسٹری، آپ کو یہ اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں بھی بڑی شاہراہوں اور ریلوے اسٹیشنوں کے گرد بنتی نظر آئیں گی، کیوں؟ کیونکہ سڑک اور ریل دو ایسے بڑے ذرائع تھے جن کے ذریعے اہل اساتذہ اور تعلیم کے طلب گار شاگرد تعلیمی اداروں تک پہنچ سکتے تھے، آپ یقین کیجیے اگر انگریز ہندوستان میں انفراسٹرکچر پر توجہ نہ دیتا تو ہندوستان میں تعلیم کی حالت آج بھی مغلیہ دور سے بہتر نہ ہوتی، یہ سڑک اور ریل تھی جس نے ہندوستان کے عام شہری پر تعلیم کے دروازے کھولے اور یہ علم کی روشنی سے بہرہ مند ہوا۔
ہم اب پاکستان کے دور میں داخل ہوتے ہیں، ایوب خان ملک کے پہلے حکمران تھے جنھوں نے انفراسٹرکچر پر توجہ دی، ایوب دور میں سڑکیں چھوٹے قصبات اور دیہات تک گئیں، ریڈیو کے اسٹیشنز میں اضافہ ہوا، ٹیلی ویژن آیا، فون لگا اور ریلوے کے لوکل روٹس شروع ہوئے، یہ نعمتیں جہاں جہاں گئیں وہاں وہاں نئے تعلیمی ادارے بنے، آپ ایوب دور سے پہلے کا ڈیٹا نکال لیجیے اور آپ ایوب دور کے بعد تعلیمی اداروں کی تعداد دیکھ لیجیے۔
آپ کو ایک اور دس کا فرق ملے گا، ملک میں تعلیمی اداروں میں دس گناہ اضافہ کیسے ہوا؟ اس کی وجہ بھی انفراسٹرکچر تھی، سڑک آئی تو اسکول بھی کھلا، اسکول کھلا تو بچے کا لج بھی پہنچے اور یہ کالج آئے تو انھیں یونیورسٹی کی ضرورت بھی پڑی اور سڑکیں اور ریلوے ان کی یہ ضرورتیں پوری کرتے رہے، یہ خطے میں تعلیم کا تیسرا دور تھا، ملک کا چوتھا دور ذوالفقار علی بھٹو کا زمانہ تھا، بھٹو صاحب نے ملک کے تمام تعلیمی ادارے بھی قومیا لیے اور طالب علموں کا سفر بھی مفت کر دیا، یہ دونوں فیصلے ملک میں تعلیمی انقلاب کی بنیاد بنے، بھٹو صاحب سے قبل تعلیم پرائیویٹ تھی، طالب علموں کو بھاری فیس ادا کرنا پڑتی تھی۔
شہر یا قصبے کے طالب علم ٹرانسپورٹ کے کرایوں کی وجہ سے بھی تعلیم کے لیے دوسرے شہروں میں نہیں جا سکتے تھے چنانچہ اس دور میں 90 فیصد طالب علموں کی تعلیم پرائمری کے بعد وہاں ختم ہو جاتی تھی جہاں انھیں مڈل اور ہائی اسکول اور کالج کی فیس ادا کرنا پڑتی تھی یا روزانہ بس اور ریل کا کرایہ دینا پڑتا تھا، آپ بھٹو صاحب کے زمانے کے اعداد و شمار نکال کر دیکھ لیجیے، آپ کو ایوب خان اور بھٹو کے دور میں زمین آسمان کا فرق ملے گا، بھٹو صاحب کے ان دو اقدامات نے ملک میں کالج اور یونیورسٹی پہنچنے والے طالب علموں کی تعداد میں بیس گنا اضافہ کر دیا۔
آپ کو آج چالیس سال سے اوپر جتنے گریجوایٹ یا پوسٹ گریجوایٹ ملتے ہیں ان میں سے نوے فیصد لوگ بھٹو صاحب کی مہربانی ہیں، بھٹو صاحب یہ دو فیصلے نہ کرتے تو شاید یہ لوگ کالج اور یونیورسٹی کا منہ نہ دیکھ پاتے، آپ ملک کے کسی گاؤں اور قصبے کا پروفائل بھی نکال لیجیے، آپ کو اس گاؤں اور قصبے میں بھٹو صاحب کے دور میں جتنے گریجوایٹ ملیں گے، اتنے آپ کو ماضی میں نظر نہیں آئیں گے، گو بھٹو صاحب کے ان فیصلوں نے ملک کو چند سماجی نقصان بھی پہنچائے، ان میں تعلیم کا پست معیار اور طالب علموں کی بدمعاشی شامل ہیں لیکن فائدے بہرحال زیادہ تھے۔
ہم اگر ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں تو ہمیں سڑک، ریل اور میٹرو کا تعلیم سے گہرا تعلق ملے گا، برطانیہ میں 1096ء میں آکسفورڈ اور 1209ء میں کیمبرج یونیورسٹی بنی، امریکا میں 1636ء میں ہارورڈ یونیورسٹی بنی، اٹلی میں یونیورسٹی آف بولونا1088ء اور فرانس میں یونیورسٹی آف پیرس1160ء میں بنی، یہ یونیورسٹیاں اس سے پہلے کیوں نہیں بنیں؟ کیونکہ اس سے قبل سڑک نہیں تھی، کیونکہ اس سے قبل امریکا میں ریلوے بھی نہیں تھا، آپ آج آکسفورڈ اور کیمبرج کا سڑک اور ریل سے رابطہ توڑ دیں۔
آپ آج لندن اور پیرس کی انڈر گراؤنڈ ٹرینیں بند کر دیں آپ اس کے بعد کیمبرج اور آکسفورڈ کا معیار بھی دیکھ لیجیے گا اور آپ لندن اور پیرس کی تعلیمی شرح بھی ملاحظہ کر لیجیے گا، معاشروں کو علم اور کام دونوں کے لیے ٹرانسپورٹ کا سستا ذریعہ چاہیے، آپ کے ملک میں اگر سڑکیں نہیں ہوں گی، ریلوے نہیں ہو گا اور پبلک ٹرانسپورٹ نہیں ہو گی تو تعلیم بھی نہیں ہو گی، منڈیاں بھی نہیں ہوں گی اور بازار اور کارخانے بھی نہیں ہوں گے، آپ کسی دن اپنی سڑکیں، اپنی ریلوے بند کر دیں اور اس کے بعد تعلیمی اداروں، دفتروں اور کارخانوں میں حاضری دیکھیں؟ آپ افغانستان اور افریقہ کے ملکوں کا تعلیمی اور معاشی ڈیٹا بھی نکال کر دیکھ لیجیے۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی افغانستان میں افغان روس جنگ کے دوران بھی کالج اور یونیورسٹیاں کھلی رہیں، طالبان دنیاوی تعلیم کے خلاف تھے لیکن وہ بھی زیادہ دیر تک تعلیمی ادارے بند نہ رکھ سکے، ملاعمر کے زمانے میں بھی اسکول، کالج اور افغانستان کی دو یونیورسٹیاں کھلی رہیں لیکن پھر افغانستان کا نظام تعلیم کیوں زوال پذیر ہوا؟ افغانستان کے تعلیمی اداروں نے جنگ کے زمانوں میں اچھے طالب علم پیدا کیوں نہیں کیے؟ جواب واضح ہے۔
افغانستان میں 1970ء سے لے کر 2002ء تک تعلیمی ادارے تو کھلے تھے لیکن سٹرکیں معطل تھیں چنانچہ استاد پہنچ سکے اور نہ ہی طالب علم اور یوں علم افغانستان میں فوت ہو گیا، آپ آج افغانستان میں تعلیم کا معیار دیکھ لیجیے، آپ تازہ ترین ڈیٹا دیکھئے، آپ افغان طالب علموں کا معیار تعلیم دیکھئے ، آپ حیران رہ جائیں گے، کیوں؟ کیونکہ آج افغانستان کی سٹرکیں بحال ہیں، حکومت طالب علموں کو سستی ٹرانسپورٹ بھی فراہم کر رہی ہے لہٰذا افغانستان میں تعلیم ترقی کر رہی ہے، آپ اپنے سامنے افریقہ کا نقشہ بچھائیں اور ساؤتھ افریقہ کو دیکھیں، جنوبی افریقہ کے گرد نمیبیا، بوٹسوانا، زمبابوے، موزمبیق اور سوازی لینڈ ہیں۔
آپ پھر جنوبی افریقہ اور اس کے ان پانچ ہمسایہ ممالک کی تعلیم کا ڈیٹا نکالیے، آپ کو زمین آسمان کا فرق ملے گا، کیوں؟ کیونکہ انگریز نے انیسویں صد ی کے آخری میں جنوبی افریقہ میں سڑکیں، ریلوے اور ملک کے پانچ بڑے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بنا دیا تھا چنانچہ جنوبی افریقہ میں علم کا انقلاب آ گیا، نیلسن منڈیلا تک اس انقلاب کی پیداوار ہیں جب کہ جنوبی افریقہ کے ہمسایہ ممالک میں پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت نہیں تھی، یہ انفراسڑکچر سے محروم تھے لہٰذا یہ جنوبی افریقہ سے پیچھے رہ گئے۔
میری پاکستان کی صوبائی حکومت سے درخواست ہے آپ انفراسٹرکچر پر توجہ دیں، آپ جلد سے جلد بڑے شہروں میں میٹرو سروسز شروع کریں تا کہ لوگوں کو ٹرانسپورٹ کی سہولت ملے، یہ سہولت تعلیم میں بھی اضافہ کرے گی اور روز گار میں بھی، میری حکومتوں سے یہ بھی درخواست ہے، آپ بڑے شہروں کے مضافات میں ’’ایجوکیشنل سٹی‘‘ آباد کریں، آپ ملک کی بڑی یونیورسٹیوں، کالجوں اور اسکولوں کو وہاں بڑے بڑے پلاٹس دیں، آپ ان اداروں کو سرکاری امداد اور قرضے دے کر ان کے کیمپس تیار کروائیں اور پھر ان کیمپس کو میٹرو سروس سے جوڑ دیں، یہ رابطہ ملک میں تعلیمی انقلاب لے آئے گا، میری میاں شہباز شریف سے بھی درخواست ہے۔
آپ لاہور، راولپنڈی اور اسلام آباد کے تعلیمی اداروں کا جائزہ لے کر صبح اور سہ پہر کے وقت طالب علموں کے لیے خصوصی میٹرو بسیں چلوا دیں، ان اسٹوڈنٹ بسوں کا رنگ عام بسوں سے مختلف ہونا چاہیے اور ان کے اسٹاپ بھی تعلیمی اداروں کے مطابق ہونے چاہئیں، حکومت کو اگر اس بندوبست کے لیے چند نئی سٹرکیں اور چند نئے اسٹاپ بھی بنوانا پڑیں تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ انتظام طالب علموں کے لیے مفید ہو گا، میری میاں شہباز شریف سے یہ بھی درخواست ہے، آپ جب میٹرو کے ذریعے راولپنڈی اور لاہور کے پرانے شہروں میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کو دور دور تک بے ترتیب، گندی اور ٹوٹی چھتیں نظر آتی ہیں۔
یہ مناظر مسافروں کی حس جمال پر گراں گزرتے ہیں، حکومت اگر چھتوں کو کمرشل ڈکلیئر کر کے انھیں سائن بورڈز کے لیے وقف کر دے تو مکینوں کا بھی بھلا ہو گا اور حس جمال اور حسن ذوق کی عزت بھی رہ جائے گی اور ہم عوام کو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے ملک میں درجنوں لیڈر اور درجنوں حکومتیں آئیں، وہ حکومتیں اور وہ لیڈر قوم کے اربوں روپے کھا گئے لیکن قوم نے کوئی اعتراض نہیں کیا، آج اگر قوم کا سرمایہ قوم پر لگ رہا ہے تو اعتراضات کیوں اٹھائے جا رہے ہیں۔
ملک میں جب میٹرو نہیں تھی تو کتنے اسکول، کالج اور اسپتال بن گئے اور حکمرانوں نے مہنگائی اور بے روزگاری کے خاتمے پر کتنا سرمایہ لگا دیا؟ ہم نے کبھی سوچا؟ ہم نے نہیں سوچا کیونکہ ہم ایک زوال پرست قوم ہیں اور زوال پرست قومیں سرمایہ ضایع کرنے پر سوال نہیں اٹھایا کرتیں، یہ ترقی کے عمل پر سرمایہ لگانے پر اعتراض کیا کرتی ہیں اور ہم یہ کام جی جان سے کر رہے ہیں۔

آپ بھی میٹرو شروع کریں
جاوید چوہدری جمعـء 5 جون 2015

آپ ہندوستان میں انگریزوں کی تاریخ ملاحظہ کیجیے، پر تگالی 1434ء میں انڈیا آئے، ہالینڈ کے تاجروں نے 1605ء میں ہندوستان میں قدم رکھا اور برطانوی تاجروں نے 1612ء میں یہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کا پہلا دفتر کھولا، فرانسیسی اور ڈنمارک کے بزنس مین ان کے بعد ہندوستان آئے لیکن یہ لیٹ ہو جانے کی وجہ سے یہاں قدم نہ جما سکے، یورپی باشندے برصغیر آ گئے لیکن یہاں کی گرمی، گرد، ہیضے اور انفرا سٹرکچر کی کمی نے انھیں بہت جلد پریشان کر دیا، ہندوستان میں آٹھ ماہ گرمی پڑتی تھی۔
حبس کے موسم میں سانس تک لینا دشوار ہوتا تھا، آندھیاں بھی آتی تھیں اور گرد کے طوفان بھی اٹھتے تھے، برسات میں ہیضہ پھوٹتا تھا اور لاکھ لاکھ زندگیاں لے جاتا تھا، انفراسٹرکچر کی حالت یہ تھی ہندوستان میں کوئی ایسی ہائی وے نہیں تھی جو پورے ملک کو آپس میں ملاتی ہو، پورے ہندوستان میں کوئی پل نہیں تھا، پورے برصغیر میں کوئی پختہ سڑک نہیں تھی، پورے ہندوستان میں اسکولوں، اسپتالوں اور ڈاک کا کوئی مربوط نظام نہیں تھا، ہندوستان کی حکومت پنجاب، دہلی، گجرات اور بنگال تک محدود تھی، ملک کا ساٹھ فیصد علاقہ خودمختار تھا، ان علاقوں کے حکمران راجے کہلاتے تھے۔
بادشاہ کو ان راجوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا تھا لیکن یہ جس دن تخت کو چیلنج کر دیتے ، مغلوں کی فوج آتی تھی اور ان کی اینٹ سے اینٹ بجا کر واپس چلی جاتی تھی ، ہندوستان ایسا کیوں تھا؟ اس کی واحد وجہ دفاع تھا،یہ گرم موسم اور یہ کمزور انفراسٹرکچر دراصل ہندوستان کا ڈیفنس تھا، ہندوستان پر ہزاروں سال سے حملے ہو رہے تھے، مشرقی یورپ، سینٹرل ایشیا، ایران، ترکی اور منگولیا سے لشکر آتے تھے، برصغیر کوفتح کرتے تھے لیکن جلد ہی گرمی،گرد اور ہیضے کی وجہ سے واپس بھاگ جاتے تھے۔
سڑکوں اور پلوں کی کم یابی بھی دفاع تھی، درہ خیبر سے دلی تک راستے میں دس چھوٹے بڑے دریا آتے تھے، دریاؤں میں پانچ ماہ طغیانی رہتی تھی چنانچہ حملہ آور کے پاس کناروں پر رکنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا تھا، حملہ آور بار بار رکنے کی وجہ سے تھک جاتے تھے،یہ تھکاوٹ آگے چل کر ان کی شکست کی وجہ بن جاتی تھی، آپ ہندوستان کی تاریخ نکال کر دیکھ لیجیے، ہندوستان کی دس ہزار سال کی تاریخ میں مون سون میں کوئی بڑی جنگ نہیں ہوئی اور اگرکوئی طالع آزما یہ غلطی کر بیٹھا تو اسے ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا،حملہ آور فوجیں مون سون کے سیلابوں کے بعد کشتیوں کے پل بناتی تھیں۔
یہ ایک مشکل مرحلہ ہوتا تھا کیونکہ ہاتھیوں، گھوڑوں، توپوں اور لاکھ لاکھ فوجیوں کو کشتیوں کے پلوں سے گزارنا آسان نہیں ہوتا تھا، آج بھی دریائے جہلم، چناب اور راوی میں ایسی درجنوں توپیں مدفون ہیں جو کشتیوں کے پل بیٹھ جانے کی وجہ سے پانی کا رزق بن گئیں،ہندوستان کی تاریخ میں شیر شاہ سوری پہلا بادشاہ تھا جس نے بنگال سے پشاور ، لاہور سے ملتان اور دہلی سے راجپوتانے تک تین بڑی شاہراہیں بنوائیں، یہ سڑکیں صرف سڑکیں نہیں تھیں، یہ پورا ہندوستان تھیں کیونکہ یہ سڑکیں جہاں جہاں گئیں وہ علاقہ ہندوستان بن گیا اور یہ سڑکیں جہاں ختم ہوگئیں وہاں ہندوستان بھی ختم ہو گیا لیکن ان سڑکوں پر بھی پل نہیں تھے، یہ دریا کے ایک پاٹ پر ختم ہو جاتی تھیں اور دوسرے پاٹ سے دوبارہ شروع ہو جاتی تھیں۔
مسافر گھوڑوں سمیت کشتیوں کے ذریعے دریا پار کرتے تھے، انگریز آیا، ہندوستان دیکھا تو وہ ماضی میں سینٹرل گورنمنٹس نہ ہونے کی وجہ سمجھ گیا، وہ جان گیا ’’ ہم جب تک ہندوستان کو آپس میں نہیں جوڑیں گے، ہم مضبوط حکومت نہیں بنا سکیں گے‘‘ چنانچہ انگریزنے ہندوستان میں انفراسٹرکچر بچھانا شروع کر دیا، اس نے پورے ہندوستان کو سڑکوں، پلوں، ریل، ٹیلی فون، ڈاک، ٹیلی گراف اور ریڈیو سے جوڑ دیا، ہندوستان میں پہلا پل انگریز نے بنوایا، پہلی اسفالٹ روڈ انگریز نے بنوائی اور ریل کا نظام بھی انگریز ہی نے تشکیل دیا، انگریز کی سڑک، ریل اور ٹیلی فون نے پورے ہندوستان کو ملا دیا اور یہ ملاپ انگریز کی مضبوط حکومت کی بنیاد بنا، انگریز سڑک سے محبت کرتا تھا لیکن ہم سڑک، پل اور کھمبے کے خلاف تھے۔
کیوں؟ کیونکہ ہم ہندوستانی سڑک، ریل اور کھمبے کو غلامی کا طوق سمجھتے تھے، کیوں؟ کیونکہ ہم نے ہزاروں سال پلوں اور سڑکوں کے بغیر زندگی گزاری تھی، پلوں اور سڑکوں کی یہ کمی ہمارا جنگی دفاع تھی چنانچہ ہم نفسیاتی طور پر انفراسٹرکچر کے خلاف تھے، آپ ہندوستان کی تاریخ نکال کر دیکھ لیجیے، آپ کو ہندوستان کی ساری تحریکیں سڑکیں توڑتیں، پل گراتیں، ریل کی پٹڑیاں اکھاڑتیں، فون اور بجلی کے کھمبے گراتیں، ڈاک خانوں، ٹیلی گراف آفسز اور انفراسٹرکچر کے ذمے دار محکموں کو آگ لگاتی نظر آئیں گی، ملک میں آج بھی جب احتجاج ہوتا ہے تو لوگ کیا کرتے ہیں؟ لوگ سڑک، پل اور پٹڑی توڑتے ہیں،یہ سرکاری گاڑیوں کو آگ لگاتے ہیں، یہ سرکاری دفتروں پر ہلہ بولتے ہیں، کیوں؟ کیونکہ ہم آج بھی انفراسٹرکچر کے خلاف ہیں، ہم جسمانی طور پر آزاد ہو چکے ہیں لیکن ہم نفسیاتی طور پر آج بھی غلام ہیں۔
آپ کسی دن ایک دلچسپ ریسرچ کیجیے، آپ پاکستان کی تاریخ کی دس بڑی مخالفتوں کا ڈیٹا نکالیے، آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے، ہماری دس کی دس مخالفتیں ترقی اور انفراسٹرکچر سے متعلق تھیں، ہم لوگ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف جیسے آمروں کو حکمران مان لیں گے لیکن ہم کالا باغ ڈیم نہیں بننے دیں گے، ہم طالبان اور داعش کے خلاف جلوس نہیں نکالیں گے لیکن ہم موٹروے کی مخالفت میں سڑک پر لیٹ جائیں گے، ہم بلدیاتی الیکشن میں ایک دوسرے کی کھل کر مخالفت کریں گے۔
ہم ایک دوسرے کے خلاف قتل کی ایف آئی آر بھی درج کرائیں گے لیکن ہم پاک چین اقتصادی راہ داری کی مخالفت میں اکٹھے ہو جائیں گے، ہم پچاس پچاس سال قبائلی لڑائیاں لڑیں گے لیکن گیس کی سینٹرل پائپ لائین اڑانے، بجلی کی مین ٹرانسمیشن لائین توڑنے، گوادر پورٹ بنانے والے چینی انجینئرز کو قتل کرنے اور صوبوں کو آپس میں ملانے والی ہائی ویز روکنے کے لیے اکٹھے بیٹھ جائیں گے، کیوں؟ کیونکہ ہم آج بھی نفسیاتی طور پر اس دور میں زندگی گزار رہے ہیں جس میں پل، سڑک اور پٹڑی کا نہ ہونا دفاع تھا، ہم آج بھی گھوڑوں، خچروں اور ہاتھیوں کے دور میں زندگی گزار رہے ہیں، یہ ہماری وہ نفسیات ہے جس کی وجہ سے ہم آج ’’میٹرو بس‘‘ جیسے منصوبوں کے بھی خلاف ہیں، ہم انھیں عیاشی سمجھتے ہیں، ہم اگر چند لمحوں کے لیے تعصب کی عینک اتار دیں، ہم چند لمحوں کے لیے ماضی میں پیوست نفسیات کی ٹوپی بھی اتار دیں تو مجھے یقین ہے ہم میٹرو بس منصوبے پر میاں شہباز شریف کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکیں گے،ہم ان کو سیلوٹ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
یہ درست ہے پنجاب کے حالات آئیڈیل نہیں ہیں، لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو بہتر ہونا چاہیے، اسپتالوں اور سرکاری اسکولوں پر بھی توجہ ہونی چاہیے اور سرکاری اداروں کی ری سٹرکچرنگ بھی ہونی چاہیے لیکن آپ اگر ان تمام خامیوں کے باوجود پنجاب کا تقابل باقی تین صوبوں سے کریں تو آپ کو زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا، آپ چند دن کراچی میں رہیں، آپ چند دن اندرون سندھ میں گزاریں، آپ بلوچستان کا چکر لگائیں اور آپ خیبر پختونخواہ کے تین بڑے شہروں کا دورہ کریں اور آپ اس کے بعد لاہور،راولپنڈی ، ملتان،فیصل آباد یا سیالکوٹ جائیں ، آپ کو واضح فرق نظر آئے گا، اس فرق کا کریڈٹ بہرحال میاں شہباز شریف کو جائے گا۔
آپ میٹرو کی مثال ہی لے لیجیے، میاں شہباز شریف نے شدید مخالفت کے باوجود10 فروری 2013ء کو لاہور میں میٹروبس سروس چلائی،میں بھی اس منصوبے کا مخالف تھا لیکن میں دو ماہ قبل لاہور گیا، میں نے ٹکٹ لی اور میٹروبس میں سوار ہو گیا، میں گجومتہ سے شاہدرہ تک گیا، آپ یقین کریں یہ سفر شانداربھی تھا آرام دہ بھی، میرے دائیں بائیں بیٹھے لوگ جھولیاں پھیلا کر میاں شہباز شریف کو دعائیں دے رہے تھے، کل راولپنڈی اسلام آباد میں بھی میٹرو بس سروس شروع ہو گئی ، میں نے اس میٹرو میں بھی سفر کیا، یہ میٹرو بھی’’نیا پاکستان‘‘ ہے، آپ بھی میٹرومیں 23کلومیٹر کا سفر کریں،مجھے یقین ہے آپ بھی میاں شہباز شریف کی تعریف پر مجبور ہو جائیں گے، حنیف عباسی میٹرو منصوبے کے چیئرمین ہیں۔
میں نے اس شخص کو دن رات کام کرتے دیکھا، یہ2013ء میں الیکشن ہارگئے لیکن انھوں نے ہار کے باوجود راولپنڈی کے عوام کا ساتھ نہیں چھوڑا ، آپ راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی سے لے کر میٹروبس تک حنیف عباسی کی محنت دیکھئے، آپ ان کی تعریف پر بھی مجبور ہو جائیں گے۔ میٹرو بس جیسے منصوبے ترقی کے استعارے ہوتے ہیں،ہم عوام کو ایسی ترقی سے محروم رکھ کر ترقی نہیں کر سکیں گے، ہم نے آگے بڑھنا ہے تو پھر ہمیں انفراسٹرکچر پر توجہ دینا ہو گی، امریکا اگرآج امریکا ہے، برطانیہ برطانیہ ،فرانس فرانس ،جاپان جاپان اور چین اگر چین ہے تو یہ انفراسٹرکچر کا کمال ہے،آپ کے پاس اگر انفراسٹرکچر نہیں ہو گا تو آپ خواہ کتنے ہی امیر کیوں نہ ہوجائیں آپ ترقی یافتہ نہیں کہلا سکیں گے۔
آپ لائبیریا کی مثال لیجیے، دنیا کے مہنگے ترین ہیرے لائبیریا سے نکلتے ہیں لیکن یہ بکتے پیرس میں ہیں، آپ نے کبھی سوچا لائبیریا لائبیریا کیوں ہے اور پیرس پیرس کیوں؟یہ فرق انفراسٹرکچر کا فرق ہے، لائبیریا دنیا کے مہنگے ترین ہیروں کا مالک ہونے کے باوجود غریب ہے اور پیرس لائبیریا کے ہیرے بیچ کر امیر ہو گیا، کیوں؟ کیونکہ فرانس انفراسٹرکچر میں آگے ہے،لائبیریا اس وقت تک لائبیریا رہے گا یہ جب تک فرانس جیسا انفرا سٹرکچر نہیں بناتا، ہمارے خطے میں شیر شاہ سوری نے پہلی سڑک بنائی، انگریزوں نے پہلا روڈ نیٹ ورک تشکیل دیا، صدر ایوب خان نے پاکستان میں سڑکوں کا پہلا جال بچھایا اوراب میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف سڑکوں، پلوں اور میٹروز پر کام کر رہے ہیں۔
ہم نے سوری کی مخالفت بھی کی، انگریزوں کی بھی، ایوب خان کی بھی اور اب میاں برادران کی مخالفت بھی کر رہے ہیں، آپ کو یاد ہو گا قوم نے 1990ء کی دہائی میں موٹروے کی کتنی مخالفت کی لیکن آج قوم موٹروے کو ملک کا سب سے بڑا اثاثہ قرار دے رہی ہے، مجھے یقین ہے ہم کل لاہور اور راولپنڈی کی میٹرو کی تعریف بھی کریں گے،کیوں؟ کیونکہ یہ ہماری عادت ہے، ہم مینگنیوں کے بغیر کسی کو دودھ کا پیالہ پیش نہیں کرتے، ہم اس معاملے میں ثابت قدم ہیں، ہمیں اب بہرحال یہ روایات بدلنا ہوں گی، ہمیں دل بڑا کرنا ہو گا، ہمیں کام کرنے والوں کا احسان بھی ماننا ہو گا، ہمیں ان کی تعریف کرنی ہو گی، ہمیں تاریخ سے ضرور سیکھنا ہوگا، میری دوسرے صوبوں کی قیادت سے بھی درخواست ہے، آپ بھی مہربانی کریں، آپ بھی کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں میٹرو سروس شروع کریں تاکہ عام لوگوں کو سہولت ملے اور یہ آپ کے لیے بھی جھولیاں پھیلا کر دعا کریں۔
ترقی آج کے انسان کا حق ہے اور ہمیں یہ حق انھیں جلد سے جلد دینا ہوگا۔

کاٹتے پہلے ہیں، گنتے بعد میں ہیں
جاوید چوہدری جمعرات 4 جون 2015

آپ نے اردو پوائنٹ کا نام یقینا سنا ہو گا، یہ پاکستان کی پرانی اور بڑی نیوز ویب سائیٹ ہے، یہ سائیٹ لاہور کے نوجوان علی چوہدری نے پندرہ سال قبل بنائی، علی چوہدری اس زمانے میں دن کے وقت نوکری کرتے تھے اور شام کو ’’ویب سائیٹ‘‘ چلاتے تھے، یہ ایک مشکل کام تھا لیکن یہ ڈٹے رہے، یہاں تک کہ اردو پوائنٹ دنیا بھر کے پاکستانیوں میں پاپولر ہو گئی۔
علی نے نوکری چھوڑی اور یہ فل ٹائم ویب سائیٹ سے منسلک ہو گئے، ویب سائیٹ ترقی کرتی رہی، ملازمین کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا ،یہاں تک کہ یہ ملک کی سب سے بڑی نیوز ویب سائیٹ اور علی چوہدری ملک کے سب سے بڑے ’’ویب سائیٹ انٹرپنیور‘‘ بن گئے، یہ ملک کے ان نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہیں جو ہر سال یونیورسٹیوں سے نکلتے ہیں اور اپنا کام کرنا چاہتے ہیں، میں علی چوہدری کا فین ہوں،میں ہمیشہ ان سے بہت کچھ سیکھتا ہوں، یہ گزشتہ جمعرات اسلام آباد آئے۔
میں مصروف تھا چنانچہ میرے دفتر کا ایک نوجوان انھیں کھانا کھلانے سپر مارکیٹ کے ایک ریستوران میں لے گیا، یہ کھانا کھارہے تھے کہ ریستوران میں چھاپہ پڑ گیا، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اور مجسٹریٹ پولیس کی معیت میں ریستوران میں آئے اور وہاں موجود تمام لوگوں کو گرفتار کر لیا، یہ دونوں پریشان ہو گئے، وجہ پوچھی تو بتایا گیا ریستوران میں ’’شیشہ سرو‘‘ ہو رہا تھا اور اسلام آباد میں پبلک مقامات پر سگریٹ نوشی اور شیشے پر پابندی ہے، پولیس ریستوران کے تمام گاہکوں کو تھانے لے گئی، یہ لوگ تھانے پہنچے تو معلوم ہوا، ملزم ساری رات تھانے میں رہیں گے، صبح مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہوں گے اور مجسٹریٹ ان کی ضمانت لے گا، مجھے رات دو بجے اطلاع ملی، میں نے چند لوگوں سے رابطہ کیا لیکن وہ تمام لوگ سو چکے تھے۔
میں نے کپڑے تبدیل کیے، ایک کتاب اٹھائی اور تھانے پہنچ گیا، میرا خیال تھا، میں علی چوہدری اور اپنے دفتر کے نوجوان کے ساتھ بیٹھ کر کتاب پڑھوں گا، صبح ہو گی تو میں انھیں عدالت لے جاؤں گا اور ان کی ضمانت کرا لوں گا، میں تھانے پہنچا تو صورتحال بہت دلچسپ تھی، چند نوجوان لڑکے لاک اپ میں بند تھے، علی چوہدری اور میرے دفتر کا نوجوان رپورٹنگ روم میں بیٹھا تھا، تھانے کی بجلی بند تھی اور مچھروں نے یلغار کر رکھی تھی، علی کے ساتھ لاک اپ میں بند نوجوانوں کا والد بیٹھا تھا اور ان تینوں کے ساتھ ایک پریشان حال گورا بیٹھا تھا، وہ گورا کبھی مچھر مارتا تھا، کبھی کرسی پر پہلو بدلتا تھا اور کبھی وہاں موجود لوگوں سے موبائل فون مانگتا تھا، میں نے سلام کیا اور ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ گیا۔
میں نے علی کو تسلی دی’’ آپ فکر نہ کریں، چار پانچ گھنٹے کی بات ہے، ہم گپ شپ کرتے ہیں، صبح ہو جائے گی تو ہم ضمانت کرا لیں گے‘‘ علی نے مسکرا کر جواب دیا ’’آپ میری فکر چھوڑیں، آپ اس گورے کو چھڑوائیں، یہ پہلی بار پاکستان آیا اور یہاں پھنس گیا،، میں نے گورے سے گپ شپ شروع کر دی، پتہ چلا ،یہ فرانس سے تعلق رکھتا ہے، اسلام آباد کے فائیو اسٹار ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا، یہ شہر کی سیر کے لیے ہوٹل سے باہر آیا، سپرمارکیٹ پہنچا، شیشہ دیکھا تو ریستوران میں بیٹھ گیا، کافی کا آرڈر دیا اور شیشہ پینے لگا، پولیس آئی اور اسے بھی گرفتار کر لیا۔
میں نے اس سے پوچھا ’’تم نے پولیس کو اپنی شناخت کیوں نہیں کروائی‘‘ اس نے جواب دیا ’’میں گھبرا گیا تھا، مجھے سمجھ ہی نہیں آئی یہ کیا ہو رہا ہے‘‘ میں نے علی سے کہا ’’آپ ہی مجسٹریٹ یا پولیس کو بتا دیتے‘‘ اس نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ’’ پولیس والے اسے پٹھان سمجھ رہے ہیں، یہ اسے اوئے خان کہتے ہیں، پولیس نے تھانے آتے ہی اس کا موبائل فون لے لیا، اس نے مجھ سے فون لیا، ہوٹل میں اپنی بیوی سے بات کی اور اس کی بیوی نے رونا شروع کر دیا، مجھے اس کی گفتگو سے پتہ چلا، یہ فارنر ہے، میں محرر کے پاس گیا اور اس سے درخواست کی ’’یہ فارنر ہے، ملک کی بدنامی ہوگی، آپ کم از کم اسے چھوڑ دیں‘‘ محرر نے جواب دیا ’’ سر ہم ان میں سے کسی کو نہیں چھوڑ سکتے۔
یہ چھاپہ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اور مجسٹریٹ نے مارا تھا، یہ انھیں یہاں چھوڑ کر گئے ہیں،ہم ان میں سے کسی کو رہا نہیں کر سکتے‘‘ میں نے گورے سے معذرت کی اور اس کو آفر کی، آپ اگر ہوٹل میں اپنی بیگم کو کوئی پیغام دینا چاہتے ہیں، پیرس میں کسی کو اپنی خیریت کی اطلاع کرنا چاہتے ہیں یا پھر ایمبیسی سے رابطہ چاہتے ہیں تو میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں‘‘ اس نے معذرت کر لی، اس کا کہنا تھا’’ میں سفارت خانے کے نوٹس میں لائے بغیر پاکستان آیا ہوں، میں انھیں ’’انوالو‘‘ نہیں کرنا چاہتا‘‘ وہ پریشان تھا اور میں اس کی پریشانی پر پریشان تھا، میں نے ڈی ایس پی صاحب سے رابطہ کیا اور ان سے گورے کو چھوڑنے کی درخواست کی مگر ان کا جواب بھی وہی تھا ’’ہم کچھ نہیں کر سکتے‘‘ تھانے میں اب عجیب صورتحال تھی۔
تھانے میں ایسے لوگ بند تھے جو ایک ایسے ریستوران میں کھانا کھا رہے تھے جہاں شیشہ سرو کیا جا رہا تھا، ریستوران کا مالک اور عملہ کہاں تھا؟ پولیس کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا اور وہاں ایک غیر ملکی تھا جو مچھر مار رہا تھا اور پریشان ہو رہا تھا، وہ منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتا بھی تھا اور پولیس اسے پٹھان سمجھ رہی تھی اور میں علی کے سامنے بیٹھ کر صبح ہونے کا انتظار کر رہا تھا، یہ ایک عجیب صورتحال تھی۔
پولیس کو بہرحال میری حالت پر رحم آگیا، ڈی ایس پی نے مجسٹریٹ کو جگایا، مجسٹریٹ نے مجھے فون کیا، ان کا کہنا تھا ’’ اسلام آباد میں شیشہ ممنوع ہے اور یہ لوگ سرعام قانون کی خلاف ورزی کر رہے تھے‘‘ میں نے ان سے درخواست کی، آپ میری ذاتی ضمانت پر ان ’’مجرموں‘‘ کو چھوڑ دیں، میں صبح ان سب کو لے کر عدالت میں حاضر ہو جاؤں گا، مجسٹریٹ اچھا آدمی تھا، وہ صورتحال سمجھ گیا، اس نے پولیس کو ’’مجرموں‘‘ کی رہائی کا حکم دے دیا، ضمانت کے پیپر تیار ہونے لگے، گورے کے کاغذات ہوٹل میں تھے۔
میں نے پولیس سے درخواست کی’’ آپ اس بے چارے کو میری ضمانت پر جانے دیں‘‘ پولیس مان گئی، یوں ہم صبح ساڑھے چار بجے تھانے سے فارغ ہوئے۔اگلے دن معلوم ہوا، ہم جس گورے کو عام سیاح سمجھ رہے تھے، وہ دنیا کی سب سے بڑی سافٹ ویئر کمپنی کا سینئر نمایندہ تھا، وہ پاکستان میں آئی ٹی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کے لیے یہاں آیا تھا اور وفاقی دارالحکومت میں شیشہ پینے کے جرم میں دھر لیا گیا، اس کی بیوی نے کمپنی سے رابطہ کیا، کمپنی نے اپنے گھوڑے دوڑانا شروع کر دیے، وہ صبح ہوٹل پہنچا تو کمپنی نے پہلی فلائیٹ پر اسے دوبئی شفٹ کیا اور وہاں سے اسے واپس پیرس لے گئی، معاہدے درمیان میں رہ گئے۔
ہم ٹھنڈے دل سے صورتحال کا جائزہ لیں تو ہم کسی محکمے، کسی شخص کو اس صورتحال کا ذمے دار قرار نہیں دے سکتے، شیشہ بلکہ تمباکو نوشی مضر صحت ہے، اس پر پابندی ہونی چاہیے، میں حکومت بالخصوص چوہدری نثار کو اس اقدام پر مبارک باد پیش کرتا ہوں مگر پابندی کے ساتھ ساتھ قوانین بھی واضح ہونے چاہیے تھے، ہم یہاں مار کھا گئے، آپ بے شک شیشہ بیچنے والوں کو بھاری جرمانہ کریں، آپ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے ریستورانوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیں۔
آپ مالکان کو قید اور جرمانے کی سزا بھی دیں لیکن آپ قانون کی آڑ میں غیر ملکیوں اور علی چوہدری جیسے لوگوں کو ذلیل نہ کریں، آپ ملک بھر میں اشتہاری مہم چلائیں،عوام کو ایجوکیٹ کریں، قانون شکنوں کے لیے جرمانہ طے کریں اور آپ غیر ملکیوں کے لیے چھوٹا سا کتابچہ تیار کریں، یہ کتابچہ پاکستان آنے والے غیر ملکیوں کو امیگریشن کاؤنٹر پر دیا جائے، کتابچے میں واضح طور پر لکھا جائے، پاکستان میں شراب، منشیات اور فحاشی جرم ہے۔
پاکستان میں شیشے پر بھی پابندی ہے اور آپ حکومتی اجازت کے بغیر کس کس شہر اور کس کس مقام میں داخل نہیں ہو سکتے، آپ کتابچے میں محفوظ ہوٹلز، ریستوران، مارکیٹس، رینٹ اے کار اور ریسٹ ہاؤسز کے نام اور پتے بھی شایع کریں اور آپ غیر ملکیوں کے لیے کوئی ہیلپ لائین بھی کھولیں تاکہ یہ لوگ کسی ایمر جنسی صورتحال میں ریاست سے رابطہ کر سکیں اور ریاست ان کی مدد کر سکے، ہمارا المیہ یہ ہے ہم بے وقوفوں کی طرح کان پہلے کاٹتے ہیں اور گنتے بعد میں ہیں اور یوں ہم اپنا بیڑہ بھی غرق کر لیتے ہیں اور دوسروں کو بھی تباہ کر دیتے ہیں۔
طفیلی پودے، یتیم کیڑے
جاوید چوہدری اتوار 31 مئ 2015

وہ 965ء میں پیدا ہوا، بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ تھا، بنو عباس کی حکومت تھی،المقتدر خلیفہ تھا، مکتب میں ابتدائی تعلیم حاصل کی، علماء کی قربت اختیار کی اور دربار تک پہنچ گیا، خلیفہ نے اسے وزیر بنا لیا، وہ مذہبی کش مکش کا دور تھا، فرقے بن رہے تھے، فرقے ٹوٹ رہے تھے، دجلہ اور فرات کے کنارے مناظرے ہوتے تھے اور مہینوں چلتے تھے، وہ اس افراتفری کودیکھتا رہا اوراس کے دل میں خانقاہوں، مذہبی بحثوں اور فرقہ وارانہ چپقلش کے خلاف نفرت پیدا ہوتی رہی، وہ کوئی ایسا کام کرنا چاہتا تھا جس سے انسانیت کی خدمت بھی ہو اور رہتی دنیا تک اس کا نام بھی قائم رہے مگر سسٹم موقع دینے کے لیے تیار نہیں تھا، وہ تنگ آ گیا، اس نے ایک دن رخت سفر باندھا اور عراق سے مصر آ گیا، وہاں اس وقت الحکم کی حکومت تھی، الحکم العزیزباللہ کے انتقال کے بعد گیارہ سال کی عمر میں بادشاہ بنا تھا، وہ ایک عجیب و غریب شخص تھا، وہ بیک وقت دانشور بھی تھا اور سنکی بھی۔
اس نے دنیا بھر کے عالم اور سائنس دان مصر میں اکٹھے کر لیے لیکن ساتھ ہی فوج کو ملک بھر کے کتے مارنے کا حکم دے دیا، وہ کتوں کی آواز سے الرجک تھا، اہلکاروں کو معمولی باتوں پر قتل کرا دیتا تھا، وہ قاہرہ پہنچا ، الحکم نے اسے دریائے نیل پر ڈیم بنانے کی ذمے داری سونپ دی، انجینئرز کی ٹیم بنائی اور نیل کے کنارے سفر شروع کر دیا، دریا کا جائزہ لیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچا ’’ہمارے پاس کوئی ایسی ٹیکنالوجی نہیں، ہم جس کے ذریعے اتنا بڑا ڈیم بناسکیں، یہ منصوبہ مصر کو معاشی طور پر تباہ کر دے گا‘‘ وہ واپس دربار میں آیا اور اپنی ناکامی تسلیم کر لی، بادشاہ ناراض ہو گیا،بادشاہ کی ناراضی کا ایک ہی مطلب ہوتا تھا! موت۔ بادشاہ نے اس کی گردن مارنے کا حکم دے دیا لیکن وہ حکم کی بجا آوری سے پہلے اٹھا اور دیوانہ وار ناچنا شروع کر دیا، وہ ناچتا جاتا تھا اور اپنے کپڑے پھاڑتا جاتا تھا۔
وہ اول فول بھی بک رہا تھا، بادشاہ نے طبیب بلائے، طبیبوں نے اسے پاگل قرار دے دیا،بادشاہ نے اپنا فیصلہ واپس لیا اور اسے تامرگ ’’ہاؤس اریسٹ‘‘ کی سزا دے دی یوں وہ شخص جس نے آنے والے زمانے میں سائنس کا پورا قبلہ تبدیل کر دیا، جو نہ ہوتا تو شاید آج دنیا میں کیمرہ ہوتا، دوربین ہوتی، مائیکرو اسکوپ ہوتی، عینک ہوتی اور نہ ہی آنکھ کا آپریشن ہوتا اور یہ بھی ممکن تھا، ہم آج تک روشنی اور سائے کے تمام بھیدوں سے ناواقف ہوتے اور یہ بھی ہو سکتا تھا ہم آج بھی اس دور میں زندہ ہوتے جس میں انسان یہ سمجھتا تھا ’’روشنی ہماری آنکھ سے نکلتی ہے، یہ باہر سے آنکھ میں داخل نہیں ہوتی‘‘ اور یہ بھی ہو سکتا تھا ہم آج بھی اندھوں کو خدائی سزا وار سمجھ کر آنکھوں کی بیماریوں کو ناقابل علاج سمجھ رہے ہوتے،ہم آج جہاں ہیں یہ سب اس کی محنت کا نتیجہ تھا، وہ ہمارا محسن تھا۔
ہم قصے کی طرف واپس آتے ہیں، بادشاہ کے حکم سے اسے الازہر مسجد کے قریب گھر میں قید کر دیا گیا، اس نے خدا کا شکر ادا کیا اور اس چھوٹے سے گھر میں کام شروع کر دیا، وہ 1021ء تک اس گھر میں قید بھی رہا اور پاگل بھی رہا یہاں تک کہ خلیفہ الحکم کا انتقال ہو گیا۔ خلیفہ کی تدفین کے بعد اس کے گھر کا دروازہ کھولا گیا تو وہ اس وقت تک 92 سائنسی مضامین لکھ چکا تھا اور دو سو کے قریب عظیم ایجادات کی بنیاد رکھ چکا تھا، ان ایجادات میں سات جلدوں پر مشتمل وہ کتاب ’’کتاب المنظر‘‘ بھی شامل تھی جس نے دنیا کو پہلی بار بتایا روشنی آنکھ میں باہر سے داخل ہوتی ہے، جس نے دنیا کو عدسے، آئینے، عکس، روشنی اور رنگوں کی جادوگری کا کھیل سمجھایا، جس نے دنیا کو بتایا دوربین بھی بنائی جا سکتی ہے۔
جس نے بتایا، روشنی سفر کرتی ہے اور اس کی باقاعدہ ایک رفتار ہوتی ہے، اس میں میں توانائی کے ایٹم ہوتے ہیں اور یہ ایٹم سیدھے سفر کرتے ہیں اور جس نے دنیا کو بتایا کیمرہ بھی بنایا جا سکتا ہے اور آپ مناظر کو اپنے پاس محفوظ بھی رکھ سکتے ہیں، وہ پاگل ’’ہاؤس اریسٹ،، سے باہر نکلا تو دنیا کو چاند اور سورج کے گرہن کی سائنسی سمجھ آئی، ستاروں اور سیاروں کا کھیل (علم نجوم) سمجھ آیا، ٹیلی اسکوپ اور مائیکرو اسکوپ کی بنیاد پڑی اور عمل اور ردعمل کا وہ اصول سمجھ آیا جس پر کام کر کے نیوٹن نے اپنے پہلے قانون کی بنیاد رکھی، وہ دنیا کا پہلا انسان تھا۔
جس نے آنکھ کی ہیئت سمجھی اور سمجھائی،جس نے بتایا آنکھ کے تین حصے ہوتے ہیں، لینس، ریٹنا اور قرینہ، آنکھ کے ان تین حصوں کی دریافت نے آنکھ کی سرجری کی بنیاد بھی رکھی اور عینک بھی بنائی، دنیا میں پچھلے ہزار برسوں میں آنکھ کے جتنے آپریشن ہوئے، جتنے لوگوں کی آنکھوں کا کھویا نور واپس آیا، وہ سب اس کے شکر گزار ہیں، وہ پاگل کتنا بڑا آدمی تھا، آپ یہ جاننے کے لیے انٹرنیٹ پر جائیے اور ہزار سال میں اس پر ہونے والی ریسرچ پڑھیے، آپ کو پوری سائنس اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر بیٹھی نظر آئے گی، وہ شخص، جی ہاں اس کا نام ابوعلی الحسن بن حسین ابن الہیشم تھا۔
ابن الہیشم کو دنیا سے گزرے ہزار برس ہو گئے ہیں، ہم نے ان ہزار سالوں میں الحکم جیسے سیکڑوں ایسے بادشاہ پیدا کیے جو ابن الہیشم جیسے ٹیلنٹڈ لوگوں کو پاگل قرار دیتے رہے، ان کے سر اتارتے رہے لیکن ہم نے ابن الہیشم جیسا کوئی دوسرا سائنس دان پیدا نہیں ہونے دیا، دنیا میں ہر سال 70 لاکھ لوگ اندھے پن کا شکار ہوتے ہیں،دنیا کوابن الہیشم نے1021ء میں بتایا، اندھے پن کی 90 فیصد وجہ ’’قرینہ،، ہوتا ہے،ہم قرینے کی سائنس پر توجہ دیں تو اندھا پن ختم ہو جائے گا، دنیا ہزار سال سے ابن الہیشم کی لائین پر کام کر رہی ہے، یہاں تک کہ تین ہفتے قبل چین کے ایک سائنس دان نے مصنوعی قرینہ ایجاد کر لیا، یہ ایک عظیم سائنسی ایجاد ہے، اس انقلاب کے بعد دنیا کے 50 فیصد اندھوں کی بینائی لوٹ آئے گی۔
ایک پرتگالی نیورلوجیسٹ Joao Lobo Antune نے مصنوعی آنکھ بھی بنا لی، یہ آنکھ بائیونک ٹیکنالوجی سے بنائی گئی اور یہ نابیناؤں کے دماغی پردے پر الیکٹرانک سرکٹس اور انفرا ریڈ شعاعوں کے ذریعے ایسی تصویر بنائے گی جس سے وہ عام انسانوں کی طرح دیکھ سکیں گے، یہ تصور بھی ابن الہیشم نے دیا تھا، امریکا کی ایک کمپنی Abiomedine نے مصنوعی دل تیار کر لیا، یہ دل جولائی 2001ء میں سینٹ لوئس اسپتال میں مریض کے جسم میں لگایا گیا، یہ دل پندرہ برسوں سے نارمل دلوں کی طرح کام کر رہا ہے، اس دل کے لیے ٹیوبز اور لائینز تک کی ضرورت نہیں پڑتی، یہ ہارٹ سرجری اور جگر کی پیوندکاری کے بعد دنیا کا بڑا طبی انقلاب ہے،یہ تصور بھی ابن الہیشم نے دیا تھا۔
اس نے 1021ء میں دعویٰ کیا تھا، دنیا میں ایسا وقت آئے گا جب انسان جسم کے سارے اعضاء بنا لے گا، امریکی سائنس دان Dr. Kenneth Matsumara نے 2001ء میں مصنوعی جگر تیار کیا، ٹائم میگزین نے اسے 2001ء میں دنیا کی بہترین ایجاد قرار دیا، 2015ء میں اس مصنوعی جگر میں ایک نئی بریک تھرو ہوئی،یہ بریک تھرو آنے والے دنوں میں طبی دنیا میں بھونچال مچا دے گی، یہ جگر جس دن مارکیٹ میں آجائے گا اس دن لیور ٹرانسپلانٹ کی ضرورت نہیں رہے گی، David Gow نام کے ایک سائنس دان نے جولائی 2007ء میں دنیا کا پہلا ’’بائیونک ہینڈ‘‘ بنا لیا،یہ مشینی ہاتھ ہے، یہ ہاتھوں سے محروم لوگوں میں لگایا جائے گا اور یہ دماغ سے باقاعدہ سگنل لے کر عام لوگوں کے ہاتھوں کی طرح کام کرے گا۔
یہ ہاتھ 2015ء میں باقاعدہ مارکیٹ ہو جائے گا اور خون انسانی جسم کا اہم ترین جزو ہے، یہ چار اجزاء کا مرکب ہوتا ہے، سرخ خلیے، سفید، خلیے، پلازما اور پلیٹ لیٹس۔ یہ جسم کو آکسیجن، توانائی اور قوت مدافعت دیتا ہے، دنیا میں 1600ء سے مصنوعی خون پیدا کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں،سائنس دانوں نے 2015ء میں ’’متبادل خون‘‘ بنا لیا، یہ خون حادثوں کے بعد مریض کو دیا جائے گا تا کہ اسے اسپتال تک پہنچایا جا سکے، یہ سارے تصورات اس ابن الہیشم نے پیش کیے جسے پاگل قرار دے کر گھر میں بند کر دیا گیا تھا۔
دنیا میں اس وقت ایک ہزار شعبے ہیں اور ان ہزار شعبوں میں ہزاروں لاکھوں بریک تھرو ہو رہی ہیں مگر بدقسمتی سے یہ تمام بریک تھرو ابن الہیشم کی قوم کے دائیں بائیں ہو رہی ہیں،کیوں؟ کیونکہ ابن الہیشم کی قوم ہزار سال پہلے ایسی ایجادات کوصرف پاگل پن قرار دیتی تھی، تاریخ میں ہزار سال پہلے ابن الہیشم جیسے لوگ پاگل بن کر سزا سے بچ جاتے تھے لیکن آج ابن الہیشم کی قوم ایسی ’’گستاخیوں‘‘ پر ابن الہیشم جیسے لوگوں پر کفر کا فتویٰ لگاتی ہے، اسے سرے عام قتل کرتی ہے اور اسلامی دنیا کی کوئی حکومت، کوئی عدالت قاتلوں کا ہاتھ نہیں روک سکتی، آپ اندازہ لگائیے۔
ہم نے ہزار سال میں کتنی ترقی کی؟ ہم پاگل پن سے قتل تک پہنچ گئے، آپ ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کرٹھنڈے دل سے سوچئے، کیا سائنس اور ٹیکنالوجی کفر ہے؟ کیا یہ مادیت ہے؟ اور کیا یہ بندے کو خدا سے دور لے جاتی ہے؟ مجھے یقین ہے آپ کا دل جواب دے گا، نہیں، ہر گز نہیں! یہ اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی عقل کے معجزے ہیں اور یہ معجزے ہمارا اللہ تعالیٰ کی کبریائی پر ایمان مضبوط بناتے ہیں، ٹیکنالوجی صرف ہماری معاون ہے، یہ خدا نہیں ہوتی، ہم اگر ابن الہیشم کی طرح اللہ پر پختہ ایمان رکھیں۔
اس سے رحم اور رہنمائی طلب کریں اور اس کے بعد اللہ کی بخشی عقل اور علم سے استفادہ کریں اور ابن الہیشم کی طرح دیوانہ وار کام کریں، ہم بھی اللہ کے بندوں کی زندگی آسان بنائیں تو ہم بھی دکھی انسانوں کے مددگاروں میں شامل ہو جائیں گے، ہم بھی ابن الہیشم کی طرح انسانیت کے محسن کہلائیں گے لیکن ہم نے بدقسمتی سے شکر، محنت اور مدد کا راستہ چننے کی بجائے داعش کا راستہ چن لیا اور ہم ابن الہیشم کی بجائے ابوبکر بغدادی بن گئے، ہم کیسے لوگ ہیں، ہم ہزار سال سے طفیلی پودوں اور یتیم کیڑوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں، ہم دوسروں کی ریسرچ کا خون چوستے ہیں اور خود کو دنیا کی عظیم ترین قوم کہتے ہیں، ہمیں کب شرم آئے گی، ہم کب جاگیں گے اور ہم کب انسان بن کر انسانی زندگی گزاریں گے، اے ابن الہیشم ہمیں گائیڈ کرو! آپ جہاں بھی ہو، ہماری رہنمائی کرو کیونکہ تمہاری قوم نے تمہیں بھی فراموش کر دیا ہے اور تمہارے رب کو بھی۔

ایک خبر کی مار
جاوید چوہدری جمعرات 28 مئ 2015

یہ دوسرا واقعہ ہے،اکبر علی بھٹی میری پروفیشنل زندگی کے پہلے انسان تھے جنھیں میری نسل کے صحافیوں نے ایک خبر کی وجہ سے عرش سے فرش پر گرتے دیکھا، آج کے صحافی اکبر علی بھٹی کا نام نہیں جانتے لیکن 1990ء سے 1997ء تک میڈیا میں اکبر علی بھٹی کا طوطی بولتا تھا، وہ ملک کے بڑے میڈیا ٹائیکون تھے، وہ وہاڑی کے رہنے والے تھے، میٹرک پاس تھے، ادویات کا کاروبار کرتے تھے۔
سیاست میں آئے، 1988ء اور1990ء میں وہاڑی سے دو بار ایم این اے منتخب ہوئے،وہ میاں برادران کے قریب تھے، وہ سیاسی جوڑ توڑ کا زمانہ تھا، اکبر علی بھٹی نے اس زمانے کا بھرپور فائدہ اٹھایا، ملک میں اس زمانے میں سرکاری اسپتالوں میں مفت ادویات بھی ملتی تھیں اور ٹیسٹ بھی فری ہوتے تھے، اکبر علی بھٹی نے اسپتالوں میں ای سی جی، ایکسرے مشینیں، لیبارٹری کے آلات اور ادویات سپلائی کرنا شروع کر دیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے خوشحال ترین لوگوں میں شمار ہونے لگے، آپ یہ بھی ذہن میں رکھئے، دولت، طاقت اور شہرت تینوں بہنیں ہیں۔
آپ اگر دولت مند ہیں تو آپ مشہور اور طاقتور بھی ہونا چاہیں گے، آپ اگر مشہور ہیں تو آپ دولت اور طاقت بھی حاصل کرنا چاہیں گے اور آپ اگر طاقتور ہیں تو آپ دولت اور شہرت کے پیچھے بھی بھاگیں گے اور انسان جب ان تین بہنوں کو بیک وقت منکوحہ بنانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی بربادی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، کیوں؟ کیونکہ یہ تینوں بہنیں، بہنیں ہونے کے باوجود ایک دوسرے کی خوفناک دشمن بھی ہیں، یہ ایک گھر میں اکٹھی نہیں رہ سکتیں، شہرت دولت سے الجھتی رہتی ہے۔
طاقت شہرت کی ناک توڑ دیتی ہے اور دولت اکثر اوقات شہرت کے زوال کی وجہ بن جاتی ہے اور اس کشمکش کے آخر میں عموماً وہ شخص ذلیل و خوار ہو جاتا ہے جو تینوں کو ایک گھر میں رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور اکبر علی بھٹی کے ساتھ بھی یہی ہوا، وہ بھی دولت کے بعد طاقت اور شہرت کے پیچھے دوڑ پڑے۔ ملک میں اس وقت صرف دو بڑے اخبار ہوتے تھے، اکبر علی بھٹی بھاری سرمائے کے ساتھ صحافت میں آئے، لاہور میں مرکزی جگہ پر عمارت خریدی، جدید پرنٹنگ پریس لگایا اور ملک بھر کے نامور صحافیوں کو تین تین، چار چار گنا معاوضہ دیا، ملک میں اس اخبار نے تین نئے ٹرینڈ متعارف کرائے، ملک کے دونوں بڑے اور پرانے اخبارات کی مناپلی ٹوٹ گئی، یہ کارکنوں کی تنخواہ میں اضافے اور انھیں ریگولر کرنے پر مجبور ہو گئے، دو، ملک کے تمام بڑے صحافی اس اخبار سے وابستہ تھے۔
یہ پوری آزادی سے لکھتے تھے چنانچہ ملک میں آزاد صحافت کا آغاز ہوا اور تین، روزنامہ پاکستان نے نوجوان صحافیوں کی ایک نئی کھیپ تیار کی، اس سے قبل ملک میں اچھا صحافی بننے کے لیے آپ کا گنجا ہونا، آپ کے سرکا سفید ہونا یا پھر فاقہ مستی کا تیس سالہ تجربہ ہونا ضروری تھا، پاکستان اخبار نے ملک میں پہلی بار سیاہ بالوں والے خوش حال صحافیوں کی کلاس تیار کی لیکن پھر یہ اخبار اپنے خالق اکبر علی بھٹی اور اپنے زوال کی خوفناک مثال بن گیا۔
اکبر علی بھٹی اور روزنامہ پاکستان پر زوال کیسے آیا؟ اس کی وجہ ایک خبر اور اس کی تین لفظی سرخی بنی، 1993ء میں صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم میاں نواز شریف کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے تو اکبر علی بھٹی صدر کے کیمپ میں شامل ہو گئے، صدر نے میاں نواز شریف کی حکومت برطرف کر دی، یہ برطرفی روزنامہ پاکستان میں ’’بدمعاش حکومت برطرف‘‘ کی سرخی کے ساتھ لیڈ لگ گئی، یہ تین لفظ ’’بدمعاش حکومت برطرف‘‘ اکبر علی بھٹی اور روزنامہ پاکستان دونوں کے زوال کی وجہ بن گئے کیونکہ یہ تینوں لفظ میاں برادران کے دل سے ترازو ہو گئے،اکبر علی بھٹی کی بدقسمتی سے میاں نواز شریف کی حکومت بحال ہو گئی، حکومت کے پہلے ٹارگٹ اکبر علی بھٹی تھے۔
ٹھیکے منسوخ ہو گئے اور ادائیگیوں کی پڑتال کے لیے کمیشن بن گئے اور احتساب بھی شروع ہو گیا،بھٹی صاحب کی دولت ایک رات میں آدھی رہ گئی، اکبر علی بھٹی نے بھاگ کر پاکستان پیپلز پارٹی کے مورچے میں پناہ لے لی، محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت آئی، اکبر علی بھٹی نے پہلے آصف علی زرداری کے صحافی دوست اظہر سہیل کو اخبار کا ایڈیٹر بنایا، وہ انھیں سیاسی بحران سے نہ نکال سکے تو حامد میر کو اخبار کا ایڈیٹر بنا دیا گیا، اکبر علی بھٹی کا خیال تھا محترمہ حامد میر کو بھائی کہتی ہیں چنانچہ یہ ایڈیٹر شپ، نئی گاڑی اور موبائل فون کے بدلے انھیں واپس اس مقام پر لے آئیں گے جہاں سے انھیں ’’بدمعاش حکومت برطرف‘‘ کی سرخی نے اتارا تھا لیکن حامد میر پروفیشنل صحافی ثابت ہوئے، انھوں نے کاروبار میں ان کی کوئی مدد نہ کی چنانچہ بھٹی صاحب کی کشتی ڈوبتی چلی گئی، میاں نواز شریف 1997ء میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آ گئے۔
میاں صاحب کی واپسی اکبر علی بھٹی کے تابوت کا آخری کیل ثابت ہوئی، یہ سڑک پر آ گئے، وہ پانچ سو مربع زمین کے مالک تھے، یہ ساری زمین بک گئی، ان کے پاس 165 ٹریکٹر تھے، یہ ٹریکٹر بھی بک گئے، وہ اربوں روپے کی پراپرٹی کے مالک تھے، یہ پراپرٹی بھی بک گئی اور ان کی ادویات کی کمپنیاں بھی بند ہو گئیں، ٹھیکے منسوخ ہو گئے اور سرکاری ادائیگیاں بھی پھنس گئیں اور پیچھے رہ گیا اخبار تو یہ بھی نیلام ہو گیا یہاں تک کہ وہ پیسے پیسے کو محتاج ہو گئے۔
اکبر علی بھٹی آخر میں کرائے کے مکان میں فوت ہوئے۔آپ ملاحظہ کیجیے، ایک خبر اور تین لفظوں کی یہ سرخی ’’بد معاش حکومت برطرف‘‘ اور اکبر علی بھٹی کی پوری ایمپائر غائب۔ میں آج سمجھتا ہوں وہ اگر غرور نہ کرتے، وہ اگر وزیر بننے کا خبط نہ پالتے اور وہ اگر دولت ، شہرت اور طاقت تینوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش نہ کرتے تو وہ شاید اس عبرت ناک انجام تک نہ پہنچتے لیکن انسان بھی قدرت کی عجیب تخلیق ہے، یہ تاریخ جیسی عظیم نعمت کے ہوتے ہوئے بھی سبق نہیں سیکھتا، یہ تاریخ کی موجودگی کے باوجود قارون سے ہارون تک غلطیاں دہراتا چلا جاتا ہے، شاید اسی لیے اللہ نے زمانے کی قسم کھا کر اعلان فرمایا’’ انسان خسارے میں ہے‘‘۔
میری زندگی کا دوسرا واقعہ ایگزیکٹ اور بول کے چیئرمین شعیب احمد شیخ ہیں، یہ بھی ایک خبر، جی ہاں صرف ایک خبر کا نشانہ بن گئے، شعیب شیخ نے جعلی یونیورسٹیاں بنائیں، ویب سائیٹس پر جعلی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا، دنیا بھر کا سرمایہ سمیٹا اور یہ عین جوانی میں ارب پتی بن گئے، دولت آئی تو یہ بھی شہرت اور طاقت کے خبط میں مبتلا ہو گئے، انھوں نے شہرت کے حصول کے لیے ملک کا سب سے بڑا میڈیا گروپ بنانے کا اعلان کر دیا، بول کا فیس بک پیچ بنایا، ویب سائیٹس بنائیں اور میڈیا کے نامور لوگوں کی بولی لگانا شروع کر دی۔
یہ ملک کے طاقتور ترین لوگوں کو بھی اپنا دوست بنانے لگے، ان کے دوستوں کی فہرست میں ایک ایسے طاقتور شخص بھی شامل ہیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد دو خوفناک انکوائریاں بھگت رہے ہیں اور جن کی ریٹائرمنٹ نئے پاکستان کے دھرنے اور شعیب احمد شیخ کے زوال کی بڑی وجہ بنی، یہ اگر ریٹائر نہ ہوتے تو آج صورت حال یکسر مختلف ہوتی، بہر حال قصہ مختصر شعیب شیخ چینل لانچ کرنے سے قبل غرور کی اس حد کو چھونے لگے جس پر اکبر علی بھٹی چار سال کی کامیاب صحافت کے بعد پہنچے ، یہ صحافتی اداروں، ان کی ٹیم کا حصہ نہ بننے والے اینکرز اور سرکاری اداروں کو للکارنے لگے، آپ انٹرنیٹ پر ان کی تقریریں سنیں، آپ کو ان کے لہجے میں غرور کی بو آئے گی۔
یہ غرور بالآخر ان کے زوال کی وجہ بن گیا، پاکستان سے ساڑھے گیارہ ہزار کلومیٹر دور نیویارک میں ایک صحافی نے ایک رپورٹ بنائی اور اس رپورٹ پر (Fake Diplomas, Real Cash: Pakistani Company Axact Reaps Millions)نو لفظوں کی سرخی لگائی اور شعیب شیخ کی پوری ایمپائر اپنے ہی قدموں پر گر گئی، یہ دو دن میں عرش سے فرش پر آگئے، میں نے کل رات جب انھیں گرفتار ہوتے دیکھا تو میرے منہ سے فوراً استغفار نکلا اور میں نے اللہ سے اپنے تمام کردہ اور نا کردہ گناہوں کی معافی مانگی، یہ شخص کل تک ملک کا مضبوط اور مشہور شخص تھا، اینکرز کی مضبوط فوج، ملک کے با اثر ترین لوگوں کی فرینڈ شپ، وکلاء کے طویل اسکواڈ اور ساٹھ ستر ارب روپے کا مالک تھا لیکن صرف ایک اخباری رپورٹ اسے فٹ پاتھ پر لے آئی، یہ گھر کا رہا اور نہ ہی گھاٹ کا، اسے کوئی زوال سے نہ بچا سکا، نہ اینکرز،نہ سرکاری تعلقات اور نہ ہی عقل، یہ اپنے ہی مزار کا بجھتا ہوا چراغ بن کر رہ گیا۔
میری ملک کے تمام، دولت مندوں، شہرت پسندوں اور طاقتوروں سے درخواست ہے آپ شعیب شیخ کی تصویر فریم کروائیں اور اپنے کمرے کی دیوار پر لگا لیں، آپ روز یہ تصویر دیکھیں اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں کیونکہ صرف وہی ہے جو ہمارے عیبوں پر پردے ڈالتا ہے، جو ہمیں عزت دیتا ہے، جو ہم پر رحم کرتا ہے اور جو ہم پر کرم فرماتا ہے،دنیا میں شعیب شیخ ایک خبر کی مار ثابت ہوا تو کیا کوئی معمولی خبر یا تین لفظوں کی کوئی سرخی آپ کو نہیں ڈس سکتی، کیا آپ چند لفظوں کا نشانہ نہیں بن سکتے، آئیے اپنے اللہ سے معافی مانگیں۔

ٹارزنوں کی واپسی
جاوید چوہدری منگل 26 مئ 2015

یہ حسینہ معین کے ایک ڈرامے کی لائین تھی، سین کچھ یوں تھا، لڑکا خوبصورت، امیر اور بااخلاق ہے، لڑکی امیر بیوہ اور ایک بچے کی ماں ہے، لڑکا لڑکی کو بچے سمیت قبول کرنا چاہتا ہے، لڑکی اپنے والد سے مشورہ کرتی ہے اور والد فوراً انکار کر دیتا ہے، لڑکی والد سے پوچھتی ہے ’’کیا یہ اچھا انسان نہیں‘‘ والد جواب دیتا ہے ’’یہ آئیڈیل انسان ہے‘‘ لڑکی پوچھتی ہے ’’ پھر انکار کیوں؟‘‘ والد جواب دیتا ہے ’’ بیٹا لڑکے میں کوئی خرابی نہیں، مجھے صرف یہ چیز رشتے سے روک رہی ہے‘‘ بیٹی خاموش رہتی ہے، والد کہتا ہے ’’ میرا تجربہ ہے، آپ کو جس شخص میں کوئی خامی نظر نہ آئے آپ اس شخص سے بچ کر رہیں‘‘ میں نے حسینہ معین کی لکھی یہ لائین25 سال پہلے ٹیلی ویژن پر سنی اور یہ پوری زندگی کے لیے میرا مزاج بن گئی۔
میں ہر اس شخص سے دور رہتا ہوں مجھے جس میں کوئی خامی نظر نہیں آتی، میں ہر اس منصوبے سے بھی دور بھاگ جاتا ہوں جس میں کوئی رخنہ، کوئی خلا نہیں ہوتا کیونکہ مکمل اور خامی سے پاک صرف خدا کی ذات ہے، ہم انسان کچھ بھی ہو جائیں ہم تکمیل کی دہلیز پر قدم نہیں رکھ سکتے، ہمارے وزیردفاع اور بجلی اور پانی کے وفاقی وزیر خواجہ آصف کیریئر کے شروع میں بی سی سی آئی بینک میں کام کرتے تھے۔
آغا حسن عابدی بینک کے سربراہ تھے، خواجہ آصف نے ایک دن عابدی صاحب سے کہا ’’ سر آج کا کام ختم ہو گیا‘‘ عابدی صاحب مسکرائے اور بولے ’’ بیٹا کام کبھی ختم نہیں ہوتا، دن ختم ہوتے ہیں، آپ کہو، آج کا دن ختم ہو گیا‘‘۔ ہم انسانوں کی تکمیل بھی نہیں ہوتی، ہم عمر بھر تکمیل کے لیے جدوجہد کرتے ہیں اور بس۔ ہم میں سے جو لوگ مکمل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں یا ہمیں جب کوئی شخص یا کوئی منصوبہ مکمل دکھائی دیتا ہے تو ہمیں اس پر یقین نہیں کرنا چاہیے کیونکہ دنیا کا کوئی شخص، کوئی منصوبہ، کوئی ادارہ اور کوئی پراڈکٹ مکمل نہیں ہو سکتی، کوئی شخص اور کوئی ادارہ خدا کی برابری نہیں کر سکتا۔
پاکستان میں آج سے تین سال قبل بول نام کے ایک ٹیلی ویژن چینل کا غلغلہ شروع ہوا، یہ چینل ’’ایگزیکٹ‘‘کمپنی شروع کر رہی تھی، یہ کمپنی سافٹ ویئر کا بزنس کرتی تھی، شعیب احمد شیخ اور وقاص عتیق کمپنی کے مالک تھے، یہ آج بھی مالک ہیں، دنیا میں آئی ٹی کا بزنس نیا ہے، یہ کاروبار انتہائی منافع بخش ہے، دنیا کی 40 فیصد دولت اس وقت آئی ٹی کمپنیوں کے ہاتھ میں ہے،پاکستان میں قریباً 400کمپنیاں آئی ٹی سے منسلک ہیں۔
ایگزیکٹ کا ہیڈ کوارٹر کراچی میں تھا، کمپنی نے پاکستان کا سب سے بڑا نیوز چینل بنانے کا اعلان کر دیا، یہ اعلان انڈسٹری میں سنسنی بن کر دوڑ گیا، میڈیا سے وابستہ لوگ بول کی طرف متوجہ ہو گئے، بول کی انتظامیہ نے ویب سائٹ بنائی، فیس بک پر اپنا پیج بنایا اور سوشل میڈیا پر ترغیبات کی بھرمار کر دی، یہ معاملہ اسی طرح چلتا رہا لیکن پھر اچانک میڈیا کے ایک بڑے نام اظہر عباس نے بول جوائن کر لیا، اظہر عباس ٹی وی نیوز کے گرو ہیں، یہ پوری انڈسٹری میں عزت کی نگاہ سے بھی دیکھے جاتے ہیں۔
اظہر عباس کے بعد کامران خان اور نجم سیٹھی کا نام آنے لگا، یہ خبر بھی گردش کرنے لگی بول کے پیچھے پاکستان کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی کا ہاتھ ہے، یہ خبر بھی گردش کرنے لگی بول میں داؤد ابراہیم اور ملک ریاض کا پیسہ لگا ہے اور یہ خبر بھی نکلی ،یہ پاکستانی میڈیا کے خلاف غیر ملکی سازش ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ خبریں نکلتی رہیں لیکن بول کی انتظامیہ نے کسی خبر کی تردید نہ کی، اپریل 2014ء میں ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ پر برا وقت آیا تو بول کی بولتی میں اضافہ ہو گیا، کامران خان ٹوٹ کر بول میں شامل ہو گئے۔
یہ بول میڈیا گروپ کے صدر بھی بن گئے اور شیئر ہولڈر بھی۔ بول نے اس کے بعد ملک کے تمام چھوٹے بڑے اینکرز سے رابطے شروع کر دیے، یہ انھیں کراچی بلاتے، اپنا سیٹ اپ دکھاتے اور ایسی حیران کن پیش کش کر تے جسے سن کر اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہ جاتا، ایک کروڑ روپے تنخواہ، مرسڈیز، بی ایم ڈبلیو یا نئی پراڈو گاڑی، بزنس کلاس ٹکٹ، فائیو اسٹار ہوٹلوں میں قیام، خاندان بھر کی ہیلتھ انشورنس، کروڑوں روپے کی لائف انشورنس اور دنیا کے شاندار ترین جزائر میں سالانہ چھٹیاں۔ یہ پیش کش محض پیشکش نہیں تھی، یہ سانس روکنے کا پورا پورا بندوبست تھا، یہ پیکیج اس قدر مکمل اور خامیوں سے پاک تھا کہ انسان کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں۔
کمپنی ملازمین کے گھروں میں منرل واٹر تک پہنچانے کی ذمے داری اٹھا رہی تھی، چینل کے دفاتر بھی کمال تھے، دنیا کا سب سے بڑا براڈ کاسٹنگ گروپ بی بی سی ہے، اس کے آٹھ ٹی وی چینلز اور دس ریڈیوسٹیشن ہیں، یہ 30 زبانوں میں براڈ کاسٹ ہوتا ہے، اتنی بڑی آرگنائزیشن کے پاس کل22 اسٹوڈیوز ہیں جب کہ بول نے صرف کراچی شہر میں 33جدید ترین اسٹوڈیوز بنائے، پاکستان کے تین بڑے چینلز کے پاس ایک ایک ’’وڈیو وال‘‘ ہے جب کہ بول نے تمام اسٹوڈیوز میں ’’وڈیو وال‘‘ لگائیں، دفتر کے اندر 30 کمروں کا فائیو اسٹار ہوٹل بھی تھا، کیفے ٹیریا ’’فائیو اسٹار‘‘ تھا، عمارت میں فائیو اسٹار سوئمنگ پول بھی تھا، فائیو اسٹار جم بھی تھا، فائیو اسٹار ’’سپا،، اور فائیو اسٹار میک اپ روم بھی تھا، فرنیچر بھی کمال تھا، کمپنی کا اپنا بحری جہاز بھی تھا، ڈی ایس این جیز کی تعداد پاکستان کے تمام چینلز کی کل ڈی ایس این جیز سے زیادہ تھی۔
پاکستان کا شاندار ترین ایڈیٹوریم بھی بول میں تھا، ایڈیٹوریم میں 536 لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی، یہ ایڈیٹوریم بیک وقت کانفرنس ہال، سینما اور تھیٹر تھا، کراچی میں ایمرجنسی حالات میں پورا اسٹاف دفتر میں رہائش پذیر ہو سکتا تھا اور بول میں پاکستان کا جدید ترین ’’نیوز روم‘‘ بھی تھا، آپ اگر دفتر دیکھیں، ٹیکنالوجی دیکھیں، سہولیات دیکھیں اور صحافیوں کو پیش کیا جانے والا پیکیج دیکھیں تو آپ کی ٹانگیں لرز جائیں گی لیکن سوال یہ ہے، کیا کوئی صحافی ان چیزوں سے متاثر ہو سکتا ہے؟ صحافی کی اصل طاقت سوال ہوتے ہیں۔
ہم کسی سے بھی 13 سوال پوچھتے ہیں اور غصب کرپشن کی بڑی سے بڑی عجب کہانی کا آزار بند ٹوٹ جاتا ہے لیکن آپ بدقسمتی دیکھئے ملک کے نامور، سینئر اور شاطر ترین صحافی پاکستان کے بڑے ڈبل شاہ کا شکار بن گئے اور یہ ’’بول‘‘ کے مالک سے یہ پوچھنا بھول گئے ’’ جناب ایپل دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ہے، یہ کمپنی صرف اپنا نام اور لوگو بیچ دے تو اسے 109 بلین ڈالر مل جائیں گے، ایپل کمپنی بھی اپنے ملازمین کو آپ کے برابر پیکیج نہیں دیتی، آپ کہاں سے دیں گے؟‘‘ یہ لوگ یہ پوچھنا بھی بھول گئے’’آپ پاکستان کے دس بڑے خاندانوں کی فہرستیں نکالیں، آپ کو ان میں ایسے لوگ بھی ملیں گے جن کے دفتروں میں بیس بیس ہزار ملازم ہیں جو بینکوں کے مالک ہیں اور جو ذاتی جہاز رکھتے ہیں لیکن یہ بھی آج تک اپنے ملازمین کو یہ سہولتیں دے سکے ہیں اور نہ ہی ایسے دفاتر اور ایڈیٹوریم بنا سکے ہیں۔
پھر آپ نے یہ کارنامہ کیسے سر انجام دے دیا؟ ’’یہ لوگ یہ پوچھنا بھی بھول گئے‘‘ پاکستان 20 کروڑ لوگوں کا ملک ہے، ہماری 68 برسوں کی تاریخ میں آج تک صرف ایک شخص میاں منشاء فوربس میگزین کے ارب پتیوں کی فہرست میں شامل ہوا، ان کے اثاثوں کی مالیت بھی ایک بلین ڈالر ہے جب کہ آپ دعویٰ کر رہے ہیں آپ سال میں ’’آئی ٹی‘‘ کے ذریعے ڈیڑھ بلین ڈالر کماتے ہیں، کیسے؟ اور اگر یہ سچ ہے تو پھر آپ کا نام فوربس میگزین میں کیوں نہیں آیا؟ اور یہ لوگ یہ پوچھنا بھی بھول گئے،بی بی سی 1922ء میں شروع ہوا، سی این این جون1980ء میں بنا اور فاکس نیوز اکتوبر 1996ء میں بنا لیکن یہ اربوں ڈالر کے سالانہ ٹرن اوور کے باوجود آج تک 33 اسٹوڈیوز اور اتنا بڑا انفراسٹرکچر نہیں بنا سکے۔
آپ چینل اسٹارٹ ہونے سے پہلے یہ سب کچھ کیسے بنا رہے ہیں؟‘‘ میرا خیال ہے میرے دوستوں نے شعیب شیخ کی چکا چوند سے متاثر ہو کر اپنے سوالوں کی وہ تلوارنیام میں رکھ لی تھی جس سے یہ پوری زندگی دوسروں کے سر قلم کرتے رہے، انھوں نے اپنا وہ قلم بھی توڑ دیا تھا جس کے ذریعے یہ پوری زندگی دوسروں کی پگڑیاں اچھالتے رہے اور انھوں نے اپنی اس زبان پر بھی تالا چڑھا دیا تھا جس سے یہ غصب کرپشن کی عجب کہانیاں بیان کرتے تھے۔
بول میں کون کون گیا ؟آپ وہ تمام چہرے انٹرنیٹ پر دیکھ سکتے ہیں اور کس کس نے بول لانچ ہونے کے بعد بول کو جوائن کرنا تھا آپ وہ ساری صورتیں بھی بول کی مختلف تقریبات کی جھلکیوں میں دیکھ سکتے ہیں، یہ جھلکیاں انٹرنیٹ پر موجود ہیں،آپ کو ان جھلکیوں میں وہ تمام لوگ بول اور ایگزیکٹ کے ’’سی ای او،، شعیب شیخ کے دعوؤں پر تالیاں بجاتے، قہقہے لگاتے اور داد دیتے نظر آئیں گے جو تنخواہیں دوسرے اداروں سے لیتے تھے لیکن تعریف شعیب شیخ کی فرماتے تھے اور جو پگڑیاں دوسرے چینلز پر اچھالتے تھے لیکن تالیاں شعیب شیخ کے فنکشن میں بجاتے تھے، آپ کو یقین نہ آئے تو آپ انٹرنیٹ پر بول اور ایگزیکٹ کی تقریبات کی فوٹیج دیکھ لیجیے، آپ کو میڈیا کے تمام پارساؤں کی پارسائی نظر آ جائے گی۔
آپ اگر اس پارسائی سے مطمئن نہ ہوں توآپ آخر میں با کردار لوگوں کے کردار کی مزید عظمت ملاحظہ کر لیجیے، یہ لوگ فارغ بیٹھ کر سال سال ،ڈیڑھ ڈیڑھ سال کروڑ کروڑ روپے تنخواہ لیتے رہے، یہ میڈیا کے جونیئر صحافیوں کو گمراہ کر کے بول میں بھرتی بھی کراتے رہے اور جب ان کی وجہ سے اڑھائی ہزار لوگ نوکریاں چھوڑ کر بول کے جہاز میں سوار ہو گئے تو ذرا سی آندھی چلی اور ان لوگوں نے جہاز سے چھلانگ لگا دی اور چھلانگ لگاتے وقت ایک لمحے کے لیے ان اڑھائی ہزار ملازمین کی طرف نہیں دیکھا جنہوں نے ان کی وجہ سے معاشی اور پیشہ وارانہ خودکشی کر لی تھی۔
کیا یہ کریکٹر ہے؟۔ کیا یہ پروفیشنل ازم ہے؟ آپ کو جب پیسے ملیں تو آپ پیسے دینے والوں سے بنیادی سوال تک نہ پوچھیں اور ادارے پر جب مشکل وقت آئے تو آپ اپنی رقم جیب میں ڈالیں اور گھر چلے جائیں،یہ لوگ ان سوالوں کا کیا جواب دیں گے؟ یہ رویہ انتہائی افسوس ناک ہے لیکن اس رویئے کا کلائمیکس اس وقت آئے گا جب یہ لوگ دوبارہ ٹیلی ویژن چینلز پر بیٹھیں گے اور قوم کوایک بار پھر نیکی اور ایمانداری کا درس دیں گے اور یہ حکمرانوں کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالیں گے اور یہ سیاسی لوٹوں کا احتساب کریں گے، آئیے ہم اس دن کا انتظار کرتے ہیں، اس دن کا انتظار جب میڈیا کے ٹارزن اپنے پرانے اداروں میں واپس آ جائیں گے۔
ہماری آنکھ کب کھلے گی
جاوید چوہدری اتوار 24 مئ 2015

ہمارے سورج پر اربوں سال سے دھماکے ہو رہے ہیں، یہ دھماکے روزانہ 120 ملین ٹن مادے کو ہیلیم گیس میں تبدیل کرتے ہیں، یہ ہیلیم گیس ایک سیکنڈ میں ہماری زمین کی پانچ لاکھ سال کی ضرورت کے برابر توانائی پیدا کرتی ہے، سورج زمین پر روزانہ ایک لاکھ 74 ہزار ٹیرا واٹ توانائی پھینکتا ہے، یہ توانائی ہماری ضرورت سے پانچ ہزار گنا زیادہ ہوتی ہے، سورج یہ توانائی کیسے جنریٹ کرتا ہے؟ یہ توانائی ’’فیوژن‘‘کے ذریعے جنریٹ ہوتی ہے، فیوژن میں ہائیڈروجن گیس کے دو ایٹم ملتے ہیں، یہ دو ایٹم ہیلیم گیس بناتے ہیں اور اس سارے عمل میں ہزار ایٹم بم کے برابر توانائی پیداہو جاتی ہے۔
ہائیڈروجن اور ہیلیم گیس کے ری ایکشن کو فیوژن کہتے ہیں، سورج پر ان دونوں گیسز کا غلاف چڑھا ہے، یہ گیسیں 150ملین کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے زمین تک پہنچتی ہیں، آپ اگر سورج سے زمین تک اس عمل کا جائزہ لیں تو آپ توانائی کا شاندار کھیل دیکھ کر حیران رہ جائیں گے، یہ کھیل زندگی کی بنیاد ہے، کائنات میں جس دن سورج بجھ جائے گا اس دن زندگی کا دیا بھی گل ہو جائے گا، ہم انسان معاشرتی زندگی کے لیے توانائی کے محتاج ہیں، ہم توانائی کا بڑا حصہ تیل اور گیس سے حاصل کرتے ہیں لیکن یہ تمام ذرائع مل کر بھی سورج کی توانائی کا ایک فیصد نہیں بنتے چنانچہ سائنس دان پچھلے بیس برس سے سورج کو فوکس کر رہے ہیں۔
یہ گیس اور پٹرول کی محتاجی سے نکلنے کے لیے زمین پر سورج جیسا لیکن محدود اور کنٹرولڈ فیوژن کرنا چاہتے ہیں، یہ اس کے لیے فیوژن ری ایکٹر بنارہے ہیں، یہ پراجیکٹ چین میں زیر تعمیر ہے اور دنیا کے آٹھ بڑے ممالک فیوژن ری ایکٹر کے لیے چین کی مدد کر رہے ہیں، فیوژن ری ایکٹر کے لیے ہیلیم گیس درکار ہے، یہ گیس ہماری فضا میں انتہائی کم ہے، سائنس دان کم یابی کی وجہ سے اسے ’’نوبل گیس‘‘ کہتے ہیں، ہم اگر اپنی فضا کو نچوڑیں تو ہم اس سے بمشکل 15 ٹن ہیلیم گیس حاصل کر سکیں گے، چاندہماری زمین کے قرب و جوار میں واحد مقام ہے جس پر 50 لاکھ ٹن ہیلیم گیس موجود ہے، چین نے جون 2014ء میں چاند سے ہیلیم گیس لانے کا فیصلہ کر لیا، چینی سائنس دان دن رات اس پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں، یہ لوگ جس دن کامیاب ہو جائیں گے اس دن چین کی توانائی کی تمام ضرورتیں پوری زندگی کے لیے پوری ہو جائیں گی۔
یہ منصوبہ پہیئے، بجلی کی ایجاد، ریڈیو سگنلز اور کمپیوٹر کی ایجاد سے بڑا بریک تھرو ہو گا، انسان کو اس کے بعد توانائی کے لیے کسی ذریعے کی ضرورت نہیں رہے گی، ہم بلب سے جہاز تک دنیا کی ہر چیز فیوژن توانائی سے چلائیں گے،یہ چین ہے، آپ اب جاپان کی طرف آئیے، جاپان کی کمپنی Shimizu کارپوریشن نے چاند کے خط استوا پر سولر پینل کی 250 میل لمبی بیلٹ لگانے کا فیصلہ کر لیا، یہ بیلٹ سورج کی توانائی کو بجلی میں تبدیل کرے گی اور یہ بجلی شعاع بن کر زمینی اسٹیشن پر اترے گی، یہ بیلٹ ’’لونر رنگ‘‘ کہلائے گی، یہ جاپان کو روزانہ 13 ہزار ٹیراواٹ بجلی دے گی، امریکا اس وقت 4100 ٹیراواٹ بجلی پیدا کررہا ہے گویا جاپان صرف ایک منصوبے کے ذریعے امریکا کی کل پیداوار سے تین گنا زیادہ بجلی حاصل کرے گا، یہ بجلی سال کے بارہ مہینے دستیاب ہو گی، یہ ماحولیاتی آلودگی بھی نہیں پھیلائے گی اور اس کے لیے خام مواد بھی درکار نہیں ہوگا۔
یہ کیا ہے؟ یہ انسان کی صرف ایک ضرورت یعنی بجلی پر ہونے والی ریسرچ ہے اور یہ ریسرچ چیخ کر بتا رہی ہے، ہم سے چند ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہم جیسے انسان چاند اور سورج سے اتنی بجلی حاصل کریں گے جو 245 ممالک پر پھیلی اس دنیا کے سات ارب لوگوں کے بلب، چولہے، اے سی، ہیٹر اور گاڑیاں چلائے گی،آپ ان دونوں منصوبوں کو سائیڈ پر رکھ دیں اور ایک اور حقیقت ملاحظہ کیجیے، دنیا میں 2000ء تک گیس اور پٹرول گاڑیاں چلانے کا واحد ذریعہ ہوتا تھا لیکن آج دنیا میں ہائی برڈ گاڑیاں بھی ہیں اور یورپ، امریکا اور آسٹریلیا میں بجلی سے چلنے والی گاڑیاں بھی دھڑا دھڑ بن رہی ہیں، یہ گاڑیاں انجن کے بغیر چلتی ہیں، آپ بیٹری ری چارج کرتے ہیں اور پانچ سو کلومیٹر سفر طے کرلیتے ہیں۔
دنیا میں سولر انرجی سے اڑنے والے جہاز بھی بن چکے ہیں، دنیا 2020ء تک ’’سولر فلائیٹس‘‘ کے مزے لوٹے گی، دنیا بھر کے سائنس دان ’’کرشماتی ادویات‘‘ بھی ایجاد کر رہے ہیں، آپ بچوں کو ویکسین دیں گے اور بچے زندگی بھر کے لیے متعدی امراض سے محفوظ ہو جائیں گے، آپ چھوٹے بڑے تمام امراض کے لیے ایک ہی گولی کھائیں گے اور گلے کی خرابی سے قبض تک آپ کے تمام امراض دور ہو جائیں گے، امریکا میں ایسی شرٹس بھی بن چکی ہیں جنھیں دھونے کی ضرورت نہیں پڑتی،آپ شرٹ کو جھاڑیں اور پہن لیں، گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے کپڑے بھی ایجاد ہو چکے ہیں، آپ جب چاہیں، جہاں چاہیں کھڑے کھڑے اس کا رنگ تبدیل کر لیں، میں نے پچھلے دنوں آسٹریلیا کا ویزہ لگوایا، مجھے ویزے کے لیے پاسپورٹ سفارتخانے بھجوانا پڑا اور نہ ہی انٹرویو دینا پڑا، کاغذات کوریئر کے ذریعے بھجوائے اور ای میل پر ویزہ آ گیا، میں نے ویزے کا پرنٹ لے لیا، آپ ترکی کا ویزہ بھی ’’آن لائن‘‘ حاصل کر سکتے ہیں، دنیا بھر کی کرنسی پلاسٹک کے کریڈٹ کارڈ اور اے ٹی ایم کارڈ میں سما چکی ہے۔
آپ دنیا کے کسی کونے میں اپنا کارڈ ’’سوئپ‘‘ کریں اور خریداری کر لیں، دنیا کے تمام بڑے بینک ’’آن لائن‘‘ ہیں، آپ انٹرنیٹ کے ذریعے رقم جمع بھی کرا سکتے ہیں، نکال بھی سکتے ہیں اور ٹرانسفر بھی کر سکتے ہیں، آپ کا موبائل دو برسوں میں آپ کا شناختی کارڈ بھی بن جائے گا، پاسپورٹ بھی، ڈرائیونگ لائسنس بھی، بینک بھی، کریڈٹ کارڈ بھی، بجلی، گیس اور پٹرول کا بل بھی، پراپرٹی کا ریکارڈ بھی، ہیلتھ کارڈ بھی اور انشورنس پالیسی بھی۔ آپ اپنا موبائل فون مشینوں کی اسکرینوں سے ٹکراتے جائیں گے اور آگے بڑھتے جائیں گے، آپ دو برس میں ’’سم لیس‘‘ فون بھی استعمال کریں گے، آپ کوکسی ملک میں ’’سم‘‘ نہیں بدلنا پڑے گی، آپ کا فون نمبر دنیا بھر میں ’’لوکل پیکیج‘‘ پر کام کرے گا، آپ کو ’’رومنگ چارجز‘‘ نہیں پڑیں گے، گوگل پوری دنیا کے لیے ’’ایک وائی فائی‘‘ پر کام کر رہا ہے، فضا میں بڑے بڑے غبارے فکس ہو رہے ہیں۔
غباروں میں انٹرنیٹ کی مشینیں لگی ہیں، یہ مشینیں پوری دنیا کو وائی فائی سے جوڑ دیں گی، دنیا بھر کے لیے ’’وارننگ سسٹم‘‘ بھی بن رہا ہے، یہ سسٹم آپ کو ایک سال پہلے بارش، سیلاب، زلزلے، آتش زدگی، وباؤں اور آندھی طوفان کی اطلاع دے دے گا، یہ آپ کو یہ بھی بتائے گا دنیا کے کس کونے میں کب، کس چیز کی قلت ہو گی، دنیا بھر کے لوگ اس وارننگ سسٹم کے ذریعے وقت سے پہلے اپنا بندوبست کر لیں گے، دنیا بڑی تیزی سے ’’ڈی این اے‘‘ کو شناختی نشان بھی بناتی جا رہی ہے، آپ کون ہیں، کہاں کے رہنے والے ہیں اور آپ کس پیشے سے منسلک ہیں۔
ان تمام سوالوں کا جواب آپ کے خون کا ایک قطرہ دے گا، دنیا میں سچائی کی مشینیں بھی دھڑا دھڑ بن رہی ہیں، ہم جب بھی جھوٹ بولیں گے، یہ مشین ہمارے پسینے کی بو سے اس کا اندازہ لگا لے گی اور سائنس دان ایک ایسا واسطہ بھی تلاش کر رہے ہیں جو روشنی کی رفتار سے تیز ہے اور انسان جس پر سفرکر کے سیکنڈ میں ہزاروں نوری سال کا فاصلہ طے کر لے گا، انسان نے جس دن یہ واسطہ تلاش کر لیا یہ اس دن کروڑوں نوری سال کے فاصلے پر موجود کہکشاؤں میں اتر جائے گا، یہ وہاں کھلی آنکھوں سے لمحہ بہ لمحہ پھیلتی کائنات کا مشاہدہ کرے گا۔
یہ کیا ہے؟ یہ علم ہے اور دنیا اس علم سے جی بھر کر فائدہ اٹھارہی ہے، اللہ تعالیٰ نے ذرے ذرے میں اسباب کے لاکھوں خزانے چھپا دیئے ہیں، یہ تمام اسباب اہل ایمان کی امانت ہیں لیکن اہل ایمان نے یہ اسباب چین، جاپان، کوریا، آسٹریلیا، یورپ اور امریکا کے حوالے کر کے اپنے لیے سستی، جہالت اور نالائقی چن لی، دنیا آج بجلی کے لیے چاند اور سورج پر تاریں بچھا رہی ہے، یہ ’’گلوبل وائی فائی‘‘ کے ذریعے پوری دنیا کو جوڑ رہی ہے لیکن ہم اہل ایمان پولیو کی ویکسین کو حرام قرار دے رہے ہیں، ہم دوسرے مسلمانوں کو کافر قرار دے کر ان کی گردنیں اڑا رہے ہیں اور ہم مسجدوں میں بم پھاڑ رہے ہیں۔
دنیا ’’فیوژن ری ایکٹر‘‘ کے لیے ایک دوسرے کی مدد کر رہی ہے لیکن ہم لوگ رمضان کے چاند پراتفاق رائے پیدا نہیں کر پا رہے اور دنیا کرہ ارض پر پھیلے سات ارب انسانوں کو ’’ون یونٹ‘‘ میں پرونے کی کوشش کر رہی ہے لیکن ہم نے محلے میں تین تین مسالک کی مسجدیں بنا رکھی ہیں، ہم کب جاگیں گے، ہم اسباب کی اس دنیا میں اپنا حصہ کب ڈالیں گے، ہم دنیاکو کب بتائیں گے ہم مسلمان بھی ذہین ہیں، ہم مسلمان بھی عالم ہیں، ہم مسلمان بھی آئن سٹائن ہو سکتے ہیں اور ہم مسلمان صرف بجلی استعمال نہیں کرتے، ہم بجلی بنا بھی سکتے ہیں لیکن اس کے لیے آنکھیں کھولنا ضروری ہے اور ہم مسلمان آنکھیں کھولنے کے لیے تیار نہیں ہیں، پتہ نہیں ہماری آنکھیں کب کھلیں گی؟
ہمیں اب ایک مضبوط فوج بھی چاہیے
جاوید چوہدری جمعرات 21 مئ 2015

ہمارے پاس گوادر کاشغر روٹ کے علاوہ کوئی معاشی آپشن نہیں،کیوں ؟ کیونکہ ہم ترقی کی چار بڑی ٹرینیں مس کر چکے ہیں،ہماری برآمدات1969ء میں چار ایشین ٹائیگرز ملائشیا،انڈونیشیا،تھائی لینڈ اور جنوبی کوریا کی مجموعی ایکسپورٹس سے زیادہ تھیں،ہم 1960ء کی دہائی میں پورے ایشیا کے معاشی لیڈر تھے لیکن پھر ہم نے صنعتوں اور تجارتی اداروں کو قومی تحویل میں لیا اور اپنی ٹرین کا انجن بٹھا دیا،یہ ہماری مس ہونے والی پہلی ٹرین تھی،دنیا میں 1980ء میں ’’ڈیجیٹل ریوولوشن‘‘آیا،دنیا کی ہر مشین گراری،چین اور ہائیڈرالک سے الیکٹرانکس میں شفٹ ہوئی،دنیا مشینوں میں موٹر،چپ اور ریموٹ کنٹرول لگانے لگی لیکن ہم نے افغان وار چھیڑ لی یوں ہماری دوسری ٹرین بھی مس ہو گئی،دنیا میں نوے کی دہائی سرمایہ کاری کی دہائی تھی۔
سوویت یونین تک نے اپنے آہنی پردے گرائے،یونین توڑی اور سرمایہ کاری کے دور میں داخل ہو گیا،چین نے بھی اپنی فلاسفی ’’ری وزٹ‘‘کی اور دنیا بھر کی کمپنیوں کو کاروبار اور سرمایہ کاری کی دعوت دے دی مگر ہم سرمایہ کاری پر توجہ دینے کے بجائے افغان وار کی کرچیاں جمع کرنے لگے،ملک میں دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا اور ہمارے رہے سہے سرمایہ کار بھی بھاگ گئے،دنیا 2000ء میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے عہد میں داخل ہوئی،آپ آج دنیا کی بڑی کارپوریشنز اور کمپنیوں کا ڈیٹا نکال کر دیکھیں،آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے،دنیا کی 40 فیصد دولت انفارمیشن کمپنیوں کے اکاؤنٹس میں ہے،ایپل کمپنی کی برانڈ ویلیو اس وقت 112 بلین ڈالر ہے،گوگل اگر صرف اپنا نام اور لوگو بیچ دے تو اسے 102 بلین ڈالر مل جائیں گے۔
آپ فیس بک،ٹویٹر اور واٹس ایپ کی ’’ برانڈ ویلیو‘‘بھی نکالیں،آپ کو آئی ٹی کی ایک ایک کمپنی پاکستان کے کل بجٹ سے زیادہ سرمایہ کماتی نظر آئے گی لیکن ہم نے یہ ٹرین بھی مس کر دی،ہم آج 2015 ء میں ملک کا پہلا آئی ٹی آرڈیننس تیار کر رہے ہیں اور ہم سے یہ بھی مکمل نہیں ہو پا رہا،ہمارے پاس اب پانچواں اور آخری موقع بچا ہے،دنیا میں آج راہداریاں انڈسٹری بن رہی ہیں،دنیا کے مختلف ملک نہریں کھود کر سمندروں کو آپس میں ملا چکے ہیں،ملک سمندروں کے اندر ٹنلز بنا کر رابطے استوار کر چکے ہیں،اب بھارت،چین اور روس کی باری ہے،یہ بھی جس دن سرحدوں سے باہر نکل آئیں گے اس دن دنیا حقیقتاً گلوبل ویلج بن جائے گی،چین لمحہ موجود میں دنیا کا سب سے بڑا تجارتی اور صنعتی یونٹ ہے۔
یہ ہر سال 228بلین ڈالر کی مصنوعات ایکسپورٹ کرتا ہے،چین شنگھائی سے تجارتی سامان لوڈ کرتا ہے،چین کے ایک بحری جہاز کوشنگھائی سے جدہ،دوبئی،ایران یا کراچی پہنچنے کے لیے 14 ہزار کلومیٹر فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے،یہ اگر کاشغر سے گوادر تک ریلوے لائین اور سڑک بنا لے تو 14 ہزار کلومیٹر کا فاصلہ سمٹ کر 21 سو کلومیٹر رہ جائے گا،سڑک اور ریل بحری جہازوں کے مقابلے میں سستا ذریعہ بھی ہے چنانچہ ہمیں کسی قیمت پر یہ ٹرین مس نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ہم نے اگر یہ ٹرین بھی مس کر دی تو پھر پاکستان کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔
ہمارے دشمن سندھ اور بلوچستان کو ملک سے الگ کر کے سڑک بنا لیں گے ،یہ روٹ ہماری زمینی اور معاشی سلامتی کے لیے ضروری ہے،یہ ہر صورت بننا چاہیے لیکن ہمیں گوادر کاشغر روٹ بنانے سے قبل تاریخ کے ایک اور ستم کا جائزہ بھی لینا چاہیے،ہمیں تاریخ کا ادراک بھی ہونا چاہیے،ہمارے منصوبہ بندی کے وزیر احسن اقبال اور وزیراعظم میاں نواز شریف کو فوری طور پر ہندوستان کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے کیونکہ یہ مطالعہ انھیں ماضی کی ان غلطیوں سے بچائے گا جو ہندوستان کے چوتھے مغل شہنشاہ جہانگیر نے کی تھیں اور ان غلطیوں کی پاداش میں پورا ہندوستان تین سو سال کے لیے غلامی میں چلا گیا ۔
میں اپنے دوست احسن اقبال کو چند لمحوں کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی اور مغل سلطنت کے عروج و زوال کی طرف لے جانا چاہتا ہوں،پروفیسر احسن اقبال صاحب کو یاد ہو گا ملکہ الزبتھ نے 31 دسمبر 1600ء کو برطانیہ کے بڑے تاجروں اور جاگیرداروں کو ایسٹ انڈیا کمپنی بنانے کی اجازت دی،یہ لوگ سورت پہنچے،سورت کے راجہ کو تحائف دیے اور ہندوستانی زمین پر پہلی تجارتی کوٹھی بنالی،سورت کے لوگ اس ڈائریکٹ انویسٹمنٹ پر خوشیوں کے شادیانے بجانے لگے،1614ء کو جیمز اول نے سرتھامس روی کو جہانگیر کے دربار میں پیش ہونے اور گجرات میں فیکٹریاں لگانے کی اجازت حاصل کرنے کا مشورہ دیا،سرتھامس روی آگرہ پہنچ گیا۔
انگریز نے بیمار شہزادی کو کونین کی دو گولیاں کھلائیں اور بادشاہ نے انگریزوں کو احمد آباد اور آگرہ میں فیکٹریاں لگانے کی اجازت دے دی،انگریز ہندوستان سے سوت،کپاس،ریشم،نمک،چائے اور افیون خریدنے لگا،ہندوستانیوں کو رقم ملی،یہ خوش ہو گئے،فیکٹریاں اور گودام بنے تو چوریاں بھی ہونے لگیںاور انگریز اہلکاروں پر حملے بھی شروع ہو گئے،انگریزوں نے راجوں مہاراجوں سے اپنی حفاظت کے لیے مقامی گارڈز بھرتی کرنے کی اجازت لے لی،راجوں نے سوچا ہمارے مقامی لوگوں کو نوکریاں ملیں گی،یہ اچھا موقع ہے۔
انگریزوں کو گارڈز بھرتی کرنے کی اجازت دے دی گئی،انگریز نے گارڈز کے لیے برطانیہ سے اسلحہ منگوانا شروع کر دیا،اسلحہ آیا تو اسلحے کی ٹریننگ کے لیے انگریز کپتان بھی آ گئے،انگریز کپتانوں نے گارڈز کی پلٹونیں بنائیں اور ان کی ٹریننگ شروع کر دی یوں ہندوستان میں انگریزوں کی پرائیویٹ آرمی تیار ہو گئی،راجوں نے اعتراض کیا تو کمپنی نے راجہ صاحبان کو پیش کش کر دی،فوج کو اسلحہ اور تنخواہ ہم دیں گے لیکن ملکیت آپ کی ہو گی،آپ فوج کو جب چاہیں،جہاں چاہیں استعمال کریں،یہ راجاؤں کے لیے شاندار آفر تھی،راجے خوش ہو گئے۔
یہ لوگ انگریز فوج سے ذاتی کام لینے لگے،انگریز فوج راجے کا لگان بھی وصول کرتی تھی،مخالف ریاستوں پر حملے بھی کرتی تھی اور انگریزوں کے گوداموں کی حفاظت بھی کرتی تھی،یہ سلسلہ چلتا رہا،انگریزوں نے 1690ء میں مدراس،1661ء میں ممبئی،1668ء میں اڑیسہ اور 1690ء میں کلکتہ میں بھی فیکٹریاں بنا لیں،کلکتہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا مرکز بن گیا،انگریزوں کی پرائیویٹ آرمی کی خبریں آگرہ اور دلی پہنچتی رہیں لیکن مغل اسے مشرقی ساحلوں کا مقامی ایشو سمجھ کر خاموش بیٹھے رہے،مرکز کمزور ہوتا رہا،مغل فوج تلواروں اور گھوڑوں کے عہد میں بغلیں بجاتی رہی اور انگریز قدم بہ قدم مضبوط ہوتا رہا یہاں تک کہ 1757ء آ گیا،پلاسی کے میدان میں رابرٹ کلائیو اور نواب آف بنگال سراج الدولہ کے درمیان جنگ ہوئی،انگریزوں کے پاس صرف آٹھ سو گورے اور دو ہزار دو سو مقامی فوجی تھے۔
نواب سراج الدولہ 50 ہزار جوانوں کے ساتھ میدان میں اترے،انگریز کے پاس بندوق تھی،ہمارے ہاتھ میں تلوار تھی،بندوقوں نے ہمارے سینے شق کر دیے،رہی سہی کسر میر جعفر نے پوری کر دی،ہم ہار گئے،یہ انگریز فوج کی پہلی فتح تھی،اس کے بعد میجر ایڈم نے 1763ء میں میر قاسم کو بھی شکست دے دی،میسور کے حکمران حیدر علی پہلے ہندوستانی تھے جنہوں نے انگریزوں کے ارادے بھانپ لیے،یہ پوری زندگی انگریزوں سے برسر پیکار رہے،حیدر علی کے بعد ٹیپو سلطان میدان میں اترے لیکن یہ بھی مئی 1799 ء میں سرنگا پٹم میں مار کھا گئے اور انگریز پورے بنگال پر قابض ہو گیا۔
اس کے بعد دلی کمزور ہوتا رہا اور انگریز اپنی طاقت بڑھاتا رہا یہاں تک کہ 1857ء کی جنگ ہوئی اور ہندوستان میں ہمیشہ کے لیے مغل سلطنت کا سورج غروب ہو گیا،ملکہ نے 1858ء میں پہلا انڈین ایکٹ نافذ کیا اور ہندوستان کو برطانیہ کی کالونی ڈکلیئر کر دیا،ایسٹ انڈیا کمپنی سمٹنا شروع ہوئی اوریکم جون 1874ء کو کمپنی کا آخری دفتر بھی بند ہو گیا،لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان کا آخری وائسرائے تھا،اس نے 14 اگست 1947ء کو جب ہندوستان کی چابیاں پاکستان اور بھارت کے حوالے کیں تو سورت کی ایک کوٹھی سے شروع ہونے والی سرمایہ کاری 526 ہندوستانی ریاستوں کو اپنی غلامی میں لے چکی تھی۔
یہ تاریخ کیا ثابت کرتی ہے؟ یہ تاریخ ثابت کرتی ہے،قومیں مضبوط ہوں تو سرمایہ کاری ان کی معیشت میں اضافے کا باعث بنتی ہے لیکن قومیں اگر کمزور ہوجائیں تو بڑے ملکوں کی چھوٹی چھوٹی کمپنیاں بھی غلامی کا طویل دور ثابت ہوتی ہیں،ہمارا دوست چین پاکستان میں 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے،ہمیں اس پر چین کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہیے اور خوشی بھی منانی چاہیے لیکن ہمیں ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے چین اگر سڑک بنائے گا،یہ اگر اس سڑک پر اپنے تجارتی قافلے دوڑائے گا تو یہ ان قافلوں اور اس سڑک کی حفاظت بھی کرے گا،یہ قافلوں پر حملوں کے بعد سڑک پر اپنی چیک پوسٹیں بھی بنائے گا،سڑک کے دائیں بائیں اپنے فوجی بھی آباد کرے گا۔
یہ دہشت گردوں کا مقابلہ بھی کرے گا اور یہ پاکستان میں ایسی حکومتیں بھی چاہے گا جو چین کی سرمایہ کاری کو سیاسی تحفظ دیں اور یہ سلسلہ اگر چل پڑا تو ہم ملک کو زیادہ دیر تک چینی اثرات سے نہیں بچا سکیں گے چنانچہ ہمیں تاریخ کو سامنے رکھ کر آج ہی کوئی ٹھوس پالیسی بنانی ہو گی،ہمیں مستقبل کی ایسٹ انڈیا کمپنی سے بچنے کے لیے مضبوط اور جدید ترین فوج چاہیے ہو گی،ایک ایسی مضبوط فوج جس کی موجودگی میں کوئی عالمی طاقت پاکستان کی طرف دیکھنے کی جرات نہ کرے اور جو چین کی مدد کے بغیر اس سڑک کی حفاظت بھی کر سکے۔
ہمیں فوج کے ساتھ مضبوط سیاسی نظام بھی درکار ہو گاکیونکہ یہ 46 ارب ڈالر ملک میں آ گئے اور ساتھ ہی ہماری فوج کمزور ہوتی گئی اور ہمارے سیاسی نظام کی شکست و ریخت میں اضافہ ہو گیا تو ہم غلامی کے ایک نئے دور میں داخل ہو جائیں گے چنانچہ ہم اگر تالیاں بجانے سے فارغ ہو گئے ہوں تو پھر ہمیں اب سنجیدگی سے اس سرمایہ کاری کے نتائج پر بھی غور کرنا چاہیے،ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے،یہ سرمایہ کاری ہمیں صرف میک نہیں کرے گی یہ ہمیں بریک بھی کر سکتی ہے،یہ ہمارے لیے خطرناک بھی ثابت ہو سکتی ہے۔

ہم گدھے کھا رہے ہیں
جاوید چوہدری منگل 19 مئ 2015

آپ اگر کسی قصاب کی دکان سے قیمہ خرید رہے ہیں یا آپ نے کسی ریستوران میں کڑاہی گوشت کا آرڈر دے دیا یا آپ باربی کیو سے لطف اندوز ہورہے ہیں یا پھر آپ چپلی کباب کو للچائی نظروں سے دیکھ رہے ہیں تو آپ فوراً اپنا ارادہ بدل لیں، آپ قیمہ خریدنے کے فیصلے سے بھی منحرف ہو جائیں اور اگر ممکن ہو تو آپ چند ماہ کے لیے گوشت کی خریداری سے بھی تائب ہوجائیں، آپ کی صحت اور ایمان دونوں کے لیے بہتر ہو گا، یہ فیصلہ صرف آپ اور مجھے نہیں کرنا چاہیے بلکہ ملک کے تمام پارلیمنٹیرینز، تمام بیورو کریٹس، تمام فوجی افسروں، تمام وزراء، تمام وزراء اعلیٰ، گورنر صاحبان، وزیراعظم اور صدر صاحب کو بھی یہ فیصلہ کرلینا چاہیے کیونکہ یہ لوگ بھی یقینا ان گوشت فروشوں کا نشانہ ہیں جو اس وقت معمولی سے مالی فائدے کے لیے عوام اور خواص دونوں کو گدھے کا گوشت کھلا رہے ہیں اور ہم عوام سمیت ملک بھر کے خواص 2013 سے اس حرام خوری کے مرتکب ہیں۔
یہ معاملہ کیا ہے؟ ہمیں یہ جاننے کے لیے ذرا سا ماضی میں جانا ہو گا، ہمارے ملک میں چمڑا اور چمڑے کی مصنوعات تیسری بڑی ایکسپورٹ ہے، پاکستان نے 2014میں 957 ملین ڈالر کی چمڑے کی مصنوعات ایکسپورٹ کیں، ملک میں چمڑا صاف کرنے والی آٹھ سو بڑی ٹینریز ہیں جب کہ پانچ لاکھ لوگ اس صنعت سے وابستہ ہیں،پاکستان میں نیوزی لینڈ کے بعد دنیا کی شاندار ترین کھالیں پیدا ہوتی ہیں، پاکستان کی 2010 تک اس شعبے میں مناپلی تھی لیکن پھر چین اس شعبے میں آگیا، اس نے دنیا بھر سے کھالیں جمع کرنا شروع کر دیں، چین نے پاکستان کی چمڑے کی صنعت پر بھی دستک دی، چینی کارخانہ دار پاکستان سے بھاری مقدار میں کھالیں خریدنے لگے، چینی تاجر پاکستان آئے تو انھوں نے دیکھا ملک میں بکرے، گائے اور بھینس کا چمڑا مہنگا جب کہ گدھوں اور خچروں کی کھالیں سستی ہیں۔
تحقیق کی، پتہ چلا، پاکستان مسلمان ملک ہے، مسلمان گدھوں اور خچروں کا گوشت نہیں کھاتے،پاکستان میں جب گدھے اور خچر بیمار ہوتے ہیں تو انھیں کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے، یہ ویرانوں میں سسک سسک کر مر جاتے ہیں، گدھوں کے مرنے کے بعد شہروں کے انتہائی غریب لوگ ان کی کھال اتار لیتے ہیں اور گوشت چیلوں اور مردار خور جانوروں کے لیے چھوڑ دیا جاتاہے، یہ کھال بازار میں آٹھ سو سے بارہ سو روپے میں فروخت ہوتی تھی، یہ چینی تاجروں کے لیے بڑی خبر تھی کیونکہ گدھے اور خچر کی کھال گائے اور بھینس کی کھال سے زیادہ مضبوط اور خوبصورت ہوتی ہے، آپ اس کھال کو معمولی سا ’’فنش‘‘ کر کے گھوڑے کی کھال بنا لیتے ہیں اور گھوڑے کی کھال کا صوفہ 5 ہزار ڈالر سے شروع ہوتا ہے، چینی تاجروں نے ٹیکس اور ڈیوٹی دیکھی تو یہ بھی گائے کی کھال سے بہت کم تھی،گدھے کی پوری کھال پر صرف 8 ڈالر کسٹم ڈیوٹی اور 20 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی تھی جب کہ اس کے مقابلے میں گائے کی کھال پر مربع فٹ کے حساب سے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے چنانچہ چینی تاجروں نے پاکستان سے گدھوں اور خچروں کی کھالیں خریدنا شروع کر دیں۔
کھالوں کی ڈیمانڈ پیدا ہوئی تو قیمت میں بھی اضافہ ہو گیا، ملک میں اس وقت گدھے کی وہ کھال جو 2013 تک صرف آٹھ سو روپے میں ملتی تھی اس کی قیمت آج بارہ ہزار سے 20 ہزار روپے ہے جب کہ اس کے مقابلے میں گائے کی کھال تین ہزار سے ساڑھے تین ہزار اور بھینس کی کھال چار ہزار سے ساڑھے چار ہزار روپے میں دستیاب ہے، پاکستان میں دو سمندری پورٹس اور 13 ڈرائی پورٹس ہیں، آپ پچھلے دو سال میں ان 15 پورٹس سے گدھوں اور خچروں کی کھالوں کی ایکسپورٹس کا ڈیٹا نکلوا کر دیکھ لیں، آپ کے 14 طبق روشن ہو جائیں گے، میں صرف کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم کا ڈیٹا آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں، کراچی پورٹ سے جنوری 2013سے اپریل 2015 تک گدھوں کی 96 ہزار 8 سو 13 کھالیں جب کہ پورٹ قاسم سے 89 ہزار کھالیں ایکسپورٹ ہوئیں، یہ کل ایک لاکھ 85 ہزار 8 سو 13 گدھے بنتے ہیں، آپ باقی 13ڈرائی پورٹس سے بک ہونے والی کھالوں کی تعداد صرف ایک لاکھ 15 ہزار لگا لیجیے تو یہ تین لاکھ بن جائیں گے گویا پاکستان میں دو برسوں میں تین لاکھ گدھے انتقال فرما گئے۔
یہ تعداد انتہائی الارمنگ ہے کیونکہ 2013 سے قبل ملک سے گدھوں کی سالانہ صرف چار ہزار کھالیں برآمد ہوتی تھیں، اب سوال یہ ہے گدھوں کی کھالوں میں اچانک 30 گنا اضافہ کیسے ہو گیا؟ جواب بہت واضح اور سیدھا ہے، سندھ میں چالیس سے پچاس ہزار روپے میں صحت مند گدھا مل جاتا ہے، پنجاب میں اس کی قیمت 25 سے 30 ہزار روپے ہے، قصاب گدھا خریدتے ہیں، اس کا گلا کاٹتے ہیں، اس کی کھال اتارتے ہیں، یہ کھال 12 سے 20 ہزار روپے میں فروخت ہو جاتی ہے، گدھے کا وزن 150 سے 200 کلو گرام تک ہوتا ہے، کھال کے بغیر گدھے کا وزن 135 کلو رہ جاتا ہے، یہ لوگ گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بناتے ہیں اور یہ گوشت 300 روپے کلو کے حساب سے مارکیٹ میں بیچ دیا جاتا ہے،یہ گوشت چالیس سے پچاس ہزار روپے میں فروخت ہو جاتا ہے، یوں ان لوگوں کو ہر گدھے سے دس ہزار سے 20 ہزار روپے بچ جاتے ہیں۔ یہ گوشت کہاں جاتا ہے؟
اس گوشت کا 80 فیصد حصہ ان سرکاری محکموں کے ’’میس‘‘ میں چلا جاتا ہے جو ’’بلک‘‘ میں گوشت خریدتے ہیں یا وہ بڑے ہوٹل، بڑے ریستوران اور گوشت کی وہ بڑی چینز جو روزانہ سیکڑوں من گوشت خریدتی ہیں، یہ گوشت انھیں سپلائی ہو جاتا ہے،باقی بیس فیصد گوشت مارکیٹوں میں پہنچ جاتا ہے، گدھا اگر کٹا ہوا ہو، اس کی کھال اتری ہوئی ہو اور یہ قصاب کی دکان پر الٹا لٹکا ہو تو آپ خواہ کتنے ہی ماہر کیوں نہ ہوں آپ گدھے کو پہچان نہیں سکیں گے ، آپ کو وہ گدھا قصاب کی دکان پر بکرا، گائے کا بچھڑا یا پھر بھینس کا بچہ ہی محسوس ہو گا، کراچی، لاہور اور راولپنڈی کے چند کاریگر قصاب مزید فنکاری کرتے ہوئے گدھے کی ننگی گردن کے ساتھ بچھڑے کی سری لٹکا دیتے ہیں، یوں مرحوم گدھا دیکھنے والوں کو گدھا محسوس نہیں ہوتا، یہ بچھڑا لگتا ہے۔یہ معلومات کس حد تک درست ہیں، ہم اب اس سوال کی طرف آتے ہیں، مجھے ابتدائی معلومات اس مکروہ دھندے سے وابستہ ایک شخص نے دیں، یہ شخص توبہ تائب ہوگیا، اس نے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی اور مجھ سے رابطہ کیا۔
اس کا دعویٰ تھا ملک کے تمام مقتدر عہدیدار اس وقت تک گدھے کا گوشت کھا چکے ہیں کیونکہ مکروہ کاروبار سے وابستہ لوگ جان بوجھ کر ان ایوانوں میں گوشت پہنچا رہے ہیں جو ملکی پالیسیاں بناتے ہیں، اس صاحب کا دعویٰ تھا یہ لوگ اس سلوک کے حق دار ہیں کیونکہ ملک میں اچانک گدھوں کی کھال کی ڈیمانڈ بڑھ گئی، ملک سے گدھے کم ہونے لگے اور گوشت کی قیمتوں میں کمی ہوگئی لیکن یہ لوگ خواب غفلت کے مزے لوٹتے رہے، ان میں سے کسی نے کسی سے نہ پوچھا ’’گدھوں کی کھالوں کی ایکسپورٹ میں کیوں اضافہ ہو رہا ہے؟ اور اس اضافے کے عوام پر کیا اثرات ہوں گے؟‘‘چنانچہ یہ لوگ دو برسوں سے اس بے حسی کا نقصان اٹھا رہے ہیں، یہ جانتے ہی نہیں ان کی ڈائننگ ٹیبل اور ان کے کچن میں کیا ہو رہا ہے اور انھیں گوشت سپلائی کرنے والے ان کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔
یہ سطریں اگر وزیراعظم، صدر مملکت، وزیرخزانہ، سیکریٹری خزانہ، وزیر داخلہ، وزراء اعلیٰ اور ایف بی آر کے حکام تک پہنچ جائیں تو میری ان سے درخواست ہے، آپ فوری طور پر گدھوں کی کھالوں کی ایکسپورٹ کا ڈیٹا منگوائیں، اس ڈیٹا کا تجزیہ کریں اور اس کے بعد گدھوں کی کھال کی ایکسپورٹ پر پابندی لگا دیں، آپ اس کے بعد حرام جانوروں کی کھالوں کے لیے کوئی ٹھوس پالیسی بنائیں، میری عام شہریوں سے بھی درخواست ہے آپ گوشت خود خریدا کریں، آپ قصاب کی دکان پر خود جائیں اور اپنی نظروں کے سامنے گوشت کٹوائیں، میرے چند دوستوں نے گوشت کے سلسلے میں باقاعدہ ’’مافیا‘‘ بھی بنا رکھا ہے، یہ چار لوگ مل کر بکرا خریدتے ہیں، اسے اپنے سامنے ذبح کراتے ہیں، گوشت بنواتے ہیں اور گوشت کے چار حصے کر لیتے ہیں، یہ پانچ دس لوگ مل کر گائے بھی خرید لیتے ہیں، یہ اس کا گوشت بھی آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں، یہ لوگ قیمہ گھر پر اپنی مشین پر بناتے ہیں، یہ بھی اچھا فارمولا ہے کیونکہ صحت اور ایمان انسان کے قیمتی ترین اثاثے ہوتے ہیں، انسانوں کو ان اثاثوں کی حفاظت کرنی چاہیے، میری وزیراعظم اور وزیرخزانہ سے درخواست ہے آپ ایک لمحے کے لیے اپنے سالن کے ڈونگے میں جھانک لیں، مجھے یقین ہے آپ گدھوں کی کھالوں کی ایکسپورٹ پر پابندی لگانے پر مجبور ہو جائیں گے۔

توکل
جاوید چوہدری اتوار 17 مئ 2015

ہم اب آتے ہیں مادہ، علم، ٹیکنالوجی اور روح کی طرف، ہم دنیا کی جس چیز کو چھو، چکھ، سونگھ اور محسوس کر سکتے ہیں،وہ مادہ کہلاتی ہے، مٹی کے ذرے سے لے کر اربوں کھربوں نوری سالوں تک پھیلی یہ ساری کائنات مادہ ہے، ہم خود بھی مادہ ہیں، ہم پوری زندگی مادے میں زندہ رہتے ہیں اور ہم مرنے کے بعد بھی مادے ہی میں دفن ہوتے ہیں، مادہ ہے کیا؟ اس کی کتنی قسمیں ہیں؟ اور یہ انسان کے لیے مفیدکیسے ہو سکتا ہے؟ یہ سوال اور ان کے جواب ’’علم،، کہلاتے ہیں۔
اب ٹیکنالوجی کیا ہے؟ ٹیکنالوجی مادے کو انسان کے لیے کارآمد بنانے کا فن ہے، مثلاً آپ پانی کی مثال لیجیے، پانی مادہ ہے، پانی کے عناصر یا اجزاء کون کون سے ہیں؟ یہ علم ہے اور پانی سے انجن چلانا اور بجلی پیدا کرنا یہ ٹیکنالوجی ہے، مثلاً سورج اور سورج کی روشنی مادہ ہے، یہ روشنی کیسے کام کرتی ہے، یہ علم ہے اور اس روشنی سے سولر لائیٹس بنانا یہ ٹیکنالوجی ہے اور مثلاً ہوا مادہ ہے، یہ ہوا ہماری زندگی کے لیے کتنی ضروری ہے، یہ علم ہے اور اس ہوا کو سفر کا ذریعہ بنانا، اس کی مدد سے ہیلی کاپٹر اور جہاز اڑانایہ ٹیکنالوجی ہے،آپ اگر انسانی تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا انسان نے ہزاروں سال مادے پر تحقیق کی، یہ تحقیق علوم کی بنیاد بنی اور علوم سے بعد ازاں ٹیکنالوجی برآمد ہوئی چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں مادہ باپ ہے، علم ماں ہے اور ٹیکنالوجی اولاد ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے، انسان کو علم اور ٹیکنالوجی کی ضرورت کیوں ہے؟ یہ ایک لمبی کہانی ہے، قدرت نے انسان کو لاکھوں سال قبل بے مہر، ننگی، سرد اور گرم زمین پر پھینک دیا، ہمارے پاس ہوا، پانی اور روشنی کے سوا کچھ نہ تھا، ہم تھے اور ہماری ایک لاکھ ضرورتیں تھیں، ہم ان ضرورتوں کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے تھے، ہم ضرورتیں پوری کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے، یہ ضرورتیں ہمیں علم کے راستے پر لے آئیں اور علم ہمیں ٹیکنالوجی تک لے گیا، آج بھی ہمارے جسم میں جب کوئی نئی بیماری پھوٹتی ہے تو یہ ایک نئی ضرورت کو جنم دیتی ہے۔
یہ ضرورت طبی علوم کو جگاتی ہے اور انسان کوئی ایسی ٹیکنالوجی پیدا کر تا ہے جو انسان کی یہ ضرورت پوری کر دیتی ہے،علم اور ٹیکنالوجی انسان کی ضرورت ہیں اور یہ اس وقت تک ضرورت رہیں گی جب تک ہم اور ہماری ضرورتیں موجود ہیں، جس دن ہم نہیں رہیں گے، اس دن ہماری ضرورتیں بھی نہیں رہیں گی اور جس دن ہماری ضرورتیں نہیں رہیں گی اس دن ٹیکنالوجی اور علم بھی نہیں رہے گا۔
ہم اب آتے ہیں روح کی طرف۔ روح کائنات کے مالک یعنی اللہ تعالیٰ کا اذن، اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، یہ ایک ایسا مائیکرو چپ ہے جو جب جانداروں کے وجود میں لگتا ہے تو یہ سانس لینا، دیکھنا اور سننا شروع کر دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ جس دن یہ چپ نکال لیتا ہے اس دن زندگی کا دیا بجھ جاتا ہے، اب سوال یہ ہے، کیا اللہ صرف روح کا رب ہے؟ جی نہیں، مادہ ہو، مادے کا علم ہو یا ضرورتوں کے مطابق مادے کی ہیئت تبدیل کرنے کی ٹیکنالوجی ہو یا پھر روح ہو اللہ تعالیٰ سب کا مالک، سب کا مختار ہے۔
کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ۔ اب یہ سوال ہے، کیا کوئی ذی روح، ٹیکنالوجی، علم اور مادے کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے؟ اس کا جواب بھی نہیں ہے کیونکہ آپ ہوں، میں ہوں یا پھر انبیاء کرام ؑاور اولیاء کرامؒ ہوں لباس سے لے کر خوراک تک اور پناہ گاہ سے لے کر جنگ تک انسان کے 95 فیصد تقاضے مادی ہیں، سوال یہ ہے، کیا کوئی شخص اپنی زندگی سے مادے، علم اور ٹیکنالوجی کو خارج کر سکتا ہے؟ جواب، نہیں، ہرگز نہیں! ہم بس اس میں کمی یا زیادتی کر سکتے ہیں، ہم اسے زندگی سے خارج نہیں کرسکتے مثلاً آپ توکل کی چوٹی پر بیٹھے شخص کو دیکھ لیجیے، وہ شخص بھی کپڑے پہنے گا، وہ بھی خوراک کھائے گا، وہ بھی سردی اور گرمی سے بچے گا۔
وہ بھی ادویات استعمال کرے گا، وہ بھی مکھی مچھر سے پرہیز کرے گا، وہ بھی صاف پانی پیئے گا اور وہ بھی رات بسر کرنے کے لیے کوئی محفوظ ٹھکانہ تلاش کرے گا اور یہ تمام چیزیں کیا ہیں اور یہ کہاں سے آتی ہیں؟ یہ تمام چیزیں مادی ہیں اور یہ ٹیکنالوجی اور علم سے آتی ہیں، آپ انبیاء کرام ؑ کی جنگوں کا احوال بھی دیکھ لیجیے، تاریخ کے جس زمانے میں تلواریں ’’وار ٹیکنالوجی‘‘ تھیں، انبیاء ؑ نے اس دور میں تلواریں استعمال کیں، جب تیر ایجاد ہوا تو انھوں نے تیر استعمال کیے، جب گرز اور زرہیں آئیں تو انبیاء ؑ نے یہ ٹیکنالوجی بھی استعمال کی، جہاں ہاتھی تھے انبیاء کرام ؑ نے وہاں ہاتھی استعمال کیے، جہاں گھوڑے تھے وہاں گھوڑے اور جہاں اونٹ تھے وہاں اونٹ میدان میں لائے گئے لہٰذا جتنی ٹیکنالوجی آئی اس دور میں اتنی استعمال کی گئی، سوال، کیا تعداد میں کم لوگ زیادہ پر حاوی ہو سکتے ہیں؟ ہاں ہو سکتے ہیں۔
انسان کی پوری تاریخ اس کی گواہ ہے، آپ حضرت داؤد ؑ کی داستان پڑھ لیں، حضرت موسیٰ ؑ کا واقعہ دیکھ لیجیے اور نبی اکرم ؐ کے غزوات دیکھ لیجیے، یہ لوگ تعداد میں کم تھے لیکن اس کے باوجود جیت گئے، سوال، کیا یہ لوگ صرف ایمانی قوت سے جیتے؟ شاید ہاں۔ یہ شاید کیوں؟ شاید اس لیے کہ تاریخ میں ایسے کافر بھی موجود ہیں جو تعداد اور وسائل میں کمی کے باوجودجیت گئے تھے اور ایسے اہل ایمان بھی ہیں جو ایمان اور دنیاوی اسباب دونوں کے باوجود ہار گئے، مثلاً؟ مثلاً انبیاء ؑکے ادوار میں یوروشلم کافروں کے ہاتھوں برباد ہوتا رہا، کافر آئے اور مقدس ترین شہر کو تاراج کر کے چلے گئے،مثلاً مقدونیہ کے کافر شہزادے سکندر اعظم نے آدھی دنیا روند ڈالی، مثلاً چنگیز خان کے ساتھ چند سو لوگ تھے۔
یہ اٹھا اور دنیا کی عظیم اسلامی اور غیر اسلامی ریاستوں پر کھوپڑیوں کے مینار بنا دیے،مثلاً امیر تیمور کیش گاؤں کے معمولی زمیندار کا بیٹا تھا، اس کے پاس دو سو جوان تھے، یہ ان کے ساتھ دنیا سے ٹکرا گیا اور اس نے اپنے دیکھے اور نہ ہی پرائے، مثلاً آپ چین اور ویتنام کی مثال لیجیے، چین بھی لادین ہے اور ویتنام بھی لیکن ان دونوں لادینوں نے سپر پاورز کو پسپا کر دیا چنانچہ اگر تعداد کا تعلق صرف مذہب سے ہوتا تو دنیا میں بخت نصر کامیاب ہوتا اور نہ ہی سکندر اعظم، چنگیز خان اور نہ ہی چین اور ویتنام، یہ لوگ تعداد میں بھی کم تھے اور ایمانی قوت سے بھی خالی تھے لیکن یہ اس کے باوجود بھی کامیاب ہوئے،آپ کو اسی طرح تاریخ میں ہارنے والے اسلامی لشکر بھی مل جائیں گے، سوال یہ ہے، افغانستان کے بوریا نشینوں نے دنیا کی تین سپر پاورز کو ناک سے چنے چبوا دیے، کیا یہ ان کے توکل اور ایمانی قوت کا ثبوت نہیں؟ شایدنہیں! کیونکہ اگر صرف مار کھانا، پچاس ساٹھ ہزار لاشیں اٹھانا، گوانتانا موبے کی اذیت برداشت کرنا، اجتماعی قبروں کا کتبہ بننا، تورا بورا بن جانا اور 40 لاکھ افغانوں کا 30 سال تک مہاجرکیمپوں میں پڑا رہنا کا میابی ہے تو پھر افریقہ کے ستر فیصد ممالک افغانستان کے بوریا نشینوں سے زیادہ کامیاب ہیں ، یہ سو سال سے ایسی کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں ۔
سوال یہ ہے، متوکل کون ہے ؟ اس کے جواب سے قبل دو نئے سوال پیدا ہوتے ہیں، کیا کوئی بھکاری مومن متوکل کہلا سکتا ہے؟ میرا جواب ہے، نہیں، اللہ کے رسولؐ نے مومن کے لیے اوپر والا ہاتھ پسند کیا ہے نیچے والا نہیں، دوسرا سوال، کیا اللہ تعالیٰ لینے والے مومن کو پسند کرتا ہے یا دینے والے کو؟جواب، اللہ تعالیٰ غنی مومن کو پسند کرتاہے ۔
ہم اب آتے ہیں متوکل مومن کی تعریف کی طرف ،متوکل مومن ایسا انسان ہوتا ہے جو اللہ پر ایمان اور یقین رکھتا ہواور اس کا ہاتھ ہمیشہ اوپر والا ہو ،وہ جیب سے لے کر ذہن تک غنی ہو۔ سوال یہ ہے مومن کب متوکل بنتا ہے ؟ جواب مومن اس وقت متوکل بنتا ہے جب وہ ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرتا ہے، جب وہ غنی بن جاتا ہے، سوال ،لوگوں کی ضرورتیں کتنی ہیں، جواب، انسان کی دو بڑی ضرورتیں ہیں، علم اورمال اور یہ دونوں مادہ ہیں اور ان دونوں کا حصول مادیت ہے چنانچہ ایک ایسا غنی مومن جو دولت مندبھی ہو ، جو عالم بھی ہو ، جو ایمان بھی رکھتا ہو اور جو اللہ کی توکل پر دولت اور علم دونوں کے دروازے کھول دیتا ہو، وہ برا کیسے ہو سکتا ہے؟۔
ہم ہزار سال سے علم ،ٹیکنالوجی اور دولت تینوں شعبوں میں بھکاریوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں،ہم اسپرین سے لے کر جہادی رائفل تک ان قوموں کے محتاج ہیں جنھیں ہم اپنا اذلی دشمن سمجھتے ہیں، ہمارے بوریا نشینوں کو کافر روس سے لڑنے کے لیے کافر امریکا کے ہتھیاروں کی ضرورت پڑ جاتی ہے، ہم اس وقت تک حسنی مبارک،کرنل قذافی،زین العابدین اور صدام حسین کی آمریت سے جان نہیں چھڑا پاتے جب تک ہمیں کافروں کی حمایت حاصل نہیں ہوتی یا ہم کافروں کا ایجاد کردہ سوشل میڈیا استعمال نہیں کرتے، ہمیں آج یمن اور شام کی جنگ روکنے کے لیے بارک حسین اوبامہ کی ضرورت ہے۔
ہم آج بھی اپنے کعبے کی حفاظت کے لیے دنیا کی منتیں کر رہے ہیں،آپ اپنی تو کل ملاحظہ کیجیے،58اسلامی ملک ہیں، ان میں سے54ملک کافر قوموں کے کافر اداروں کے مقروض ہیں،ہماری توکل کی حالت یہ ہے ہم کافروں کی مدد کے بغیراپنی زمینوں سے تیل نکال سکتے ہیں اور نہ ہی پینے کا پانی، اگر توکل کا مطلب غیروں کی فوجی غلامی ،غیروں کا قرض،غیروں کی ٹیکنالوجی ،غیروں کا علم اور غیروں کی امداد ہے تو پھر ہم کامیاب بھی ہو چکے ہیں اور ہم دنیا کی عظیم ترین متوکل قوم بھی بن چکے ہیں اور اگر توکل کا مطلب اللہ کی ذات پر یقین کے ساتھ دن رات محنت ہے تو پھرہم توکل کی تعریف پر پورے نہیں اترتے،آپ یقین کیجیے ہم جسے توکل سمجھ رہے ہیں یہ یورپ کا کنزیومرازم ہے اور یہ توکل یورپ کے ان بزنس مینوں نے ایجاد کیا تھا جو ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو تاحیات اپنی مصنوعات کا غلام رکھنا چاہتے ہیں۔
جو یہ چاہتے ہیں مسلمان توکل کا کمبل اوڑھ کر لیٹے رہیں اور یورپ اسی طرح علم اور ٹیکنالوجی کا قبلہ بنا رہے،جو یہ چاہتے ہیں ہم ہمیشہ جاپان کاجبہ ،چین کی جائے نماز اور تسبیح،یورپ کااے سی اور امریکی اسلحہ استعمال کرتے رہیں، ہم ہمیشہ ان کے گاہک بنے رہیں ، یہ اپنی یونیورسٹیاں ،لیبارٹریاںاور فیکٹریاں چلاتے رہیں ، ہم تسبیحیں رولتے رہیں اور ان کی مصنوعات خریدتے رہیں، یہ ترقی کرتے رہیں اور ہم ایسے بوریا نشین بنے رہیں جنھیں افغانستان سے فرار ہونے کے لیے بھی ہونڈا 125کی ضرورت پڑ جائے، ہمارے شیخ آٹھ سال ایبٹ آباد میں توکل کرتے رہیں لیکن اس کے باوجود کافروں کے مصنوعی سیارے انھیں تلاش کر لیں، آپ یقین کیجیے یورپ کا ایجاد کردہ توکل ہمیں کبھی آئن سٹائن اور بل گیٹس نہیں بننے دے گا، یہ ہمیں ہمیشہ کنزیومر دیکھنا چاہے گا چنانچہ آپ نے فیصلہ کرنا ہے، آپ نے کنزیومر مومن رہنا ہے یا غنی مومن۔

معمولی سی توجہ
جاوید چوہدری جمعـء 15 مئ 2015

میلان کی ایکسپو اور بریشیا کی پاکستانی کمیونٹی یہ دونوں ہمیشہ میری یادوں کا حصہ رہیں گی، دنیا میں پانچ سال بعد ’’ورلڈ ایکسپو‘‘ ہوتی ہے، دنیا کے 165 ممالک ایکسپو کے لیے باقاعدہ ووٹ دیتے ہیں، ملک کا انتخاب ہوتا ہے، ملک کو تیاری کے لیے سات سال دیے جاتے ہیں اور پھر اس ملک میں 165 سے زائد ممالک اپنی ثقافت، اپنی ٹیکنالوجی کی نمائش کرتے ہیں۔
’’ورلڈ ایکسپو‘‘، میزبان ملک کی تاریخ کا بڑا واقعہ، بڑا بریک تھرو ہوتا ہے، یکم مئی 2015ء کو میلان میں ورلڈ ایکسپو 2015ء شروع ہوئی، یہ 30 اکتوبر تک جاری رہے گی، 2020ء میں یہ ایکسپو دبئی میں ہو گی جب کہ پچھلی ایکسپو 2010ء میں شنگھائی میں ہوئی تھی،یہ ایکسپو اٹلی جانے کا بنیادی مقصد تھا، رانا نوید نے ایکسپو کے لیے میری رہنمائی کی، رانا صاحب گوجرانوالہ کے رہنے والے ہیں، یہ دو بھائی ہیں، رانا نثار بڑے ہیں اور رانا نوید چھوٹے۔ یہ ’’ میٹل اسکریپ‘‘ کا کاروبار کرتے ہیں، دن رات سر نیچے کر کے کام کرتے ہیں،میری تین سال پہلے دونوں بھائیوں سے پہلی ملاقات ہوئی۔
یہ دوسری ملاقات تھی، رانا نوید مجھے ایکسپو میں لے گئے، ایکسپو ٹیکنالوجی، کلچر اور حس جمال کا شاہکار تھی، نمائش میں 145 ممالک کے پویلین ہیں، ہر پویلین حیرت نگری ہے، آپ جس پویلین میں داخل ہوجائیں آپ اسی کے ہو کر رہ جاتے ہیں، اٹلی کی حکومت نے ایکسپو کے لیے مسلسل دس سال کام کیا، ایکسپو سائٹ تک باقاعدہ ریلوے اور میٹرو بچھائی گئی، ٹرینیں یورپ بھر سے براہ راست ایکسپو سائٹ آتی ہیں، میلان سے آنے جانے کے لیے میٹرو بھی دستیاب ہے جب کہ شہر کے سینٹرل اسٹیشن سے بسیں بھی چلتی ہیں، آپ کو ایکسپو سینٹر کا ریلوے اسٹیشن حیران کر دیتا ہے۔
یہ کسی بھی طرح ائیر پورٹ سے کم نہیں، سائٹ پر بڑی اور کھلی سڑکیں ہیں، پانی کی ندیاں، فوارے اور باغیچے ہیں، پوری ایکسپو سائٹ پر تمبو تنے ہوئے ہیں، فضا کو ٹھنڈا رکھنے کا خصوصی بندوبست ہے، ہر پویلین کے سامنے مصنوعی آبشار ہے اور آبشار سے مسلسل پانی کی دیوار نیچے گر رہی ہے، پانچ پویلین کے بعد فوڈ کورٹس ہیں، بیرونی دروازوں کو پلوں اور برقی سیڑھیوں سے ملایا گیا ہے، آپ کو داخلے کے گیٹ سے نمائش گاہ تک پہنچنے میں بیس منٹ لگ جاتے ہیں، نمائش کا ٹوٹل رقبہ 490 ایکڑ ہے، آپ کو پوری نمائش دیکھنے کے لیے کم از کم سات دن درکار ہیں۔
یہ پوری نمائش گاہ دیکھنے کے قابل ہے لیکن برطانیہ، آسٹریا، کیوبا، چین، برازیل، جاپان اور لیتھونیا کے پویلین جادو کی نگری ہیں، برطانیہ نے پویلین میں مصنوعی لان اگا رکھا ہے، آپ لان کی قد آدم جھاڑیوں، خوشبو دار پودوں اور چھوٹے جنگلی ٹڈوں کی آوازوں سے ہوتے ہوئے پویلین کے درمیان پہنچتے ہیں تو آپ لوہے کا دو منزلہ اسٹرکچر دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں، یہ اسٹرکچر لوہے کے لاکھوں چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جوڑ کر بنایا گیا ، یہ بنیادی طور پر شہد کا دو منزلہ چھتہ ہے جس کے اندر تین رنگوں کی لائیٹس لگی ہیں، یہ لائیٹس انرجی کے مطابق جلتی ،بجھتی اور رنگ بدلتی ہیں، آسٹریا نے اپنے پویلین میں گھنا سیاہ جنگل اگا رکھا ہے، آپ جنگل میں گم ہو کر رہ جاتے ہیں۔
یہ جنگل کے ذریعے دنیا کو آکسیجن کی افادیت اور گلوبل وارمنگ سے بچاؤ کا پیغام دیتے ہیں، چین نے طویل و عریض پویلین میں پھولوں کی گھنی کیاریاں لگا رکھی ہیں، آپ جوں ہی پویلین کے قریب پہنچتے ہیں آپ کو گیندے کی خوشبو مسحور کر دیتی ہے، جاپان کا پویلین لکڑی کے لاکھوں ٹکڑے جوڑ کر بنایا گیا، لیتھونیا نے پوراپویلین لکڑی کے لاکھوں ٹکڑے جوڑ کر بنایااور برازیل کا پویلین جنگل، روشنی اور ٹیکنالوجی تینوں کا مجموعہ ہے، یہ ایکسپو ایک لائف ٹائم تجربہ ہے، آپ کو وہاں دنیا کی تمام قومیتوں کے لوگ ملتے ہیں، آپ دنیا بھر کی ثقافت، موسیقی اور کھانوں سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔
آپ پاکستان کی بدقسمتی دیکھئے ہم اس نمائش سے بھی غیر حاضر ہیں، پاکستان ایکسپو کا رکن ملک ہے لیکن اٹلی کی خواہش اور کوشش کے باوجود ہم نے وہاں اپنا پویلین نہیں بنایا، ہم اگر پویلین بناتے تو اس سے پاکستان کے گلوبل امیج میں بہتری آتی، ہماری حکومت کو ایسے مواقع ضایع نہیں کرنے چاہئیں، وزیراعظم کو چاہیے یہ ملک میں ایک ایکسپو باڈی بنائیں، یہ باڈی ایکسپو کے لیے درجن بھر ڈیزائن بنا ئے اور دنیا میں جہاں نمائش ہو یہ وہاں پاکستان کا اسٹال یا پویلین لگائے، اس سے بین الاقوامی سطح پر ہمارا امیج بہتر ہو گا۔
بریشیا میلان سے 45 منٹ کی ڈرائیو پر واقع ہے، یہ اٹلی کا ’’اسٹیل سٹی‘‘ ہے، شہر سے باہر لوہے اور مختلف دھاتوں کے درجنوں کارخانے اور اسٹیل ملز ہیں، آپ کو وہاں دور دور تک کارخانے دکھائی دیتے ہیں، انڈسٹری کا اطالوی ماڈل دلچسپ بھی ہے اور کارآمد بھی۔ اطالوی حکومت نے بڑے شہروں کے گرد آباد دیہات کو انڈسٹریل زون میں تبدیل کر دیا، دیہات میں انڈسٹری لگی اور اس انڈسٹری کی وجہ سے پورے علاقے کی ہیئت تبدیل ہو گئی، گاؤں شہر بن گئے، وہاں سڑکیں بنیں، ریلوے کی پٹڑی بچھی، شاپنگ سینٹر بنے اور اسپتال اور اسکول قائم ہوئے، یہ دیہات آج صرف کہنے کی حد تک گاؤں ہیں جب کہ حقیقت میں یہ پورے شہر ہیں، میلان اٹلی کا سب سے بڑا انڈسٹریل سٹی ہے۔
اس میں دو ہزار فیکٹریاں ہیں، یہ فیکٹریاں دیہات میں قائم ہیں، آپ میلان کے اطراف میں کسی طرف نکل جائیں، آپ کو سیکڑوں میل تک چمنیاں نظر آتی ہیں، میں طویل عرصے سے ’’کنالی‘‘ کی فیکٹری دیکھنا چاہتا تھا۔ یہ مردانہ سوٹس میں دنیا کا دوسرا بڑا برانڈ ہے، یہ برانڈ کنالی فیملی نے 1934میں قائم کیا، آج خاندان کی تیسری نسل اس کاروبار سے وابستہ ہے، کنالی کی فیکٹری اور آؤٹ لیٹ سوویکو گاؤں میں ہے، یہ پورا گاؤں ’’کنالی‘‘ سے منسلک ہے، گاؤں کے آدھے لوگ فیکٹری میں کام کرتے ہیں یا فیکٹری کے لیے کام کرتے ہیں، ان لوگوں میں میرے شہر لالہ موسیٰ کے ایک صاحب بھی شامل ہیں، شکیل قریشی دس سال سے کنالی سے وابستہ ہیں۔
یہ مجھے وہاں ملے اور میں ان کی استقامت کو داد دیے بغیر نہ رہ سکا، بریشیا شہر کے اردگرد دیہات میں بھی سیکڑوں فیکٹریاں ہیں، ان فیکٹریوں میں 20 ہزار پاکستانی کام کرتے ہیں، یہ لوگ زیادہ تر لوہے کی فیلڈ سے وابستہ ہیں، اٹلی میں پاکستانیوں کی کل تعداد ایک لاکھ چھ ہزار ہے، 28 ہزار پاکستانی صرف بریشیا میں رہتے ہیں، اتوار کے دن بریشیا میں پاکستانی کمیونٹی کا فنکشن تھا، یہ تقریب پاکستان اوورسیز الائنس فورم نے منعقد کی ، برادرم اعجاز پیارا تقریب کے روح رواں تھے جب کہ تمام انتظامات کی ذمے داری اجمل خان نے اٹھا رکھی تھی، اجمل خان پاکستان مسلم لیگ ن سے تعلق رکھتے ہیں، میاں نواز شریف کے متوالے ہیں، یہ میاں صاحب پر جان اور مال دونوں نثار کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔
یہ سب کچھ برداشت کر لیتے ہیں لیکن میاں برادران کے خلاف ایک لفظ نہیں سنتے، میں ان سے مل کر حیران ہوا اور میں نے سوچا، میاں برادران نے آج تک اس شخص کے اخلاص اور ٹیلنٹ سے کام کیوں نہیں لیا؟ اجمل خان اور اعجاز پیارا نے بریشیا میں ہزار سے زائد پاکستانی جمع کیے، پاکستان کی سفیر تہمینہ جنجوعہ، میلان کے قونصل جنرل ندیم خان اور اٹلی میں ویلفیئر اتاشی اختر عباس بھی وہاں موجود تھے، یہ تینوں تقریب میں خواتین اور بچوں کی تعداد پر حیران تھے، پاکستانی اٹلی میں اپنی خواتین کو تقریبات میں نہیں لے کر آتے، یہ رویہ اطالوی شہریوں کے لیے حیران کن ہے۔
سفیر پاکستان تہمینہ جنجوعہ پاکستانی کمیونٹی پر بار بار زور دیتی ہیں آپ اپنے بچوں اور خواتین کو اطالوی زبان سکھائیں، آپ انھیں گھر سے باہر بھی لے کر جائیں تا کہ پاکستان کا امیج بہتر ہو لیکن پاکستانی کمیونٹی ضد پر قائم ہے تاہم سفیر صاحبہ کی کوششوں سے اب برف پگھل رہی ہے، تقریب میں تین سو کے قریب خواتین اور بچے شامل تھے، سفیر صاحبہ خواتین کو دیکھ کر بہت خوش ہوئیں، ہال میں پاکستان اور اٹلی کے قومی ترانے بھی بجائے گئے، پاکستانی بچوں نے پاکستانی ثقافت پر ٹیبلو بھی پیش کیے اور خواتین نے بھی نظمیں اور غزلیں پڑھیں، اٹلی کے سیاستدانوں اور بیوروکریٹس نے بھی پاکستانی فنکشن میں شرکت کی، وہ بھی پاکستانی کمیونٹی کے ڈسپلن اور جذبات دیکھ کر حیران رہ گئے۔
میں اس فنکشن سے تین حیرتیں لے کر واپس آیا، یہ میری زندگی کی پہلی پاکستانی تقریب تھی جو چار گھنٹے جاری رہی اور جس میں ہزار سے زائد پاکستانی موجود تھے لیکن وہاں لڑائی، مار کٹائی اور گالم گلوچ کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا، آپ بھی یہ جان کر یقینا حیران ہوں گے وہاں کھانے کے دوران بھی کوئی جھڑپ نہیں ہوئی، دو، یہ بیرون ملک پاکستانیوں کا واحد فنکشن تھا جس میں کسی پاکستانی نے پاکستانی سفارتخانے کے خلاف کوئی شکایت نہیں کی، لوگ سفارتخانے کے رویئے سے مطمئن ہیں۔
یہ بات بھی میرے لیے حیران کن تھی اور تین، لوگ اٹلی میں ’’سیٹل لائف‘‘ گزار رہے ہیں لیکن یہ پاکستان کے بارے میں انتہائی جذباتی ہیں، یہ اپنے ملک کو اٹلی سے بہت آگے دیکھنا چاہتے ہیں، مجھے پاکستانیوں کی اس تڑپ نے بھی حیران کیا، مجھے تقریب میں اندازہ ہوا،پاکستان سے باہر آباد پاکستانی ملکی الیکشنوں میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتے ہیں، یہ بار بار کہہ رہے تھے ،اطالوی حکومت کو ہماری دوہری شہریت پر کوئی اعتراض نہیں، ہم اٹلی میں اٹلی کے سیاسی نمایندوں کو ووٹ دے سکتے ہیں لیکن ہمارا اپنا ملک ہمارا ووٹ نہیں لیتا،کیوں؟ کیا یہ تضاد نہیں؟ اطالوی پاکستانیوں کا یہ مطالبہ جائز ہے حکومت کو اگلے الیکشنوں میں غیر ممالک میں آباد پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ضرور دینا چاہیے۔
اوورسیز پاکستانی ملک کا عظیم اثاثہ ہیں، حکومت کو پاکستان کے اس اثاثے کو عزت دینی چاہیے، اجمل خان جیسے محب وطن پاکستانیوں کے لیے پارلیمنٹ میں خصوصی نشست ہونی چاہیے تاکہ یہ پارلیمنٹ میں اپنے حقوق کا تحفظ کر سکیں اور 2015ء کے آخر تک یورپ میں مینول پاسپورٹ ختم ہو جائیں گے مگر اٹلی سمیت ہمارے زیادہ تر سفارت خانوں میں ابھی تک مشین ریڈایبل پاسپورٹس کی سہولت موجود نہیں۔
حکومت کو فوری طور پر اس مسئلے پر بھی توجہ دینی چاہیے ورنہ دوسری صورت میں 2015ء کے آخر میں اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل میں اضافہ ہو جائے گا، یہ تمام مسئلے حل ہو سکتے ہیں بس حکومت کی معمولی سی توجہ چاہیے، ایک کروڑ محب وطن پاکستانی اس معمولی سی توجہ کے لیے حکومت کے راستے میں آنکھیں بچھا کر بیٹھے ہیں، حکومت نہ جانے کب آنکھ اٹھا کر ان بے وطنوں کی طرف دیکھے گی۔

رومیو جولیٹ کے شہر میں
جاوید چوہدری جمعرات 14 مئ 2015

دوسرا کمرہ پہلے کمرے کی دائیں جانب تھا، کمروں کوسرنگ ملاتی تھی، سرنگ کے سرے پر لوہے کی زنجیر تھی، زنجیر کے بعد میلے رنگ کے رف سے سنگ مرمر کا ٹب تھا، میں نے مقبرے کی نگران سے پوچھا ’’ کیا یہ جولیٹ کا مقبرہ ہے‘‘ خاتون نے تصدیق میں سر ہلایا اور میں جولیٹ کے احترام میں خاموش کھڑا ہو گیا، یہ ٹب نما قبر تھی۔
سنگ مر مر کا ٹب زمین سے چار فٹ اونچا تھا، ٹب کا اوپر کا حصہ کھلا تھا، کھلے حصے میں شاید ماضی میں مٹی ہو اور اس مٹی میں گھاس اور پھول اگائے جاتے ہوں لیکن اس وقت وہاں کچھ نہیں تھا، تہہ خانے میں ہلکی ہلکی سی خنکی تھی،خنکی میں جولیٹ کے آنسوؤں کی نمی آج تک موجود تھی، وقت کے خشک آٹھ سو سال بھی یہ نمی نہ بجھا سکے، مقبرہ آج بھی محبت کی عظیم داستان کی گواہی دے رہا تھا،جولیٹ نے آنکھ کھولی تو رومیو اس کی پائنتی پر سر رکھ کر دنیا سے گزر چکا تھا، کاؤنٹ پیرس کی لاش بھی ذرا سے فاصلے پر پڑی تھی۔
اس نے رومیو کے چہرے کو چھو کر دیکھا، پھر حسرت سے کمرے کو دیکھا، خنجر اٹھایا اور اپنے سینے میں اتار لیا، سینہ پہلے سے چھلنی تھا بس خون نکلنا باقی تھا، خون اچھل کر باہر نکلا اور فرش پر وہ داستان رقم ہو گئی جو آٹھ سو سال سے دنیا بھر کے عاشقوں کا نوحہ، محبت کے ماروں کا ماتم ہے، یہ داستان ورونہ سے نکلی، انگلینڈ پہنچی، شیکسپیئر کے دامن سے لپٹی اور لفظوں کے جادوگر ولیم شیکسپیئر نے اسے ہمیشہ کے لیے امر کر دیا، یہ داستان شیکسپیئر تک کیسے پہنچی اور شیکسپیئر نے اٹلی کے گم نام شہر ورونہ کی اس معمولی لڑکی کو محبت کی دیوی کیسے بنایا، ہم اس داستان سے پہلے جولیٹ کو تلاش کریں گے۔
جولیٹ ورونہ شہر کے رئیس خاندان کیپولیٹ فیملی کی خوبصورت لڑکی تھی، ورونہ اٹلی کا چھوٹا سا خوبصورت شہر ہے، یہ شہر میلان سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے، ورونہ سرخ سنگ مرمر اور رومیو جولیٹ کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے، سنگ مر مر شہر کی مناسبت سے ’’ورونہ ماربل‘‘ کہلاتا ہے جب کہ رہ گئے رومیو اور جولیٹ تو کہانی کچھ یوں ہے، بارہویں صدی میں شہر میں دو بڑے خاندان رہتے تھے۔
مانتنگ فیملی اور کیپولیٹ فیملی۔ یہ دونوں خاندان ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے، جولیٹ کا تعلق کیپولیٹ خاندان سے تھا اور رومیو مانتنگ خاندان سے تعلق رکھتا تھا، کیپولیٹ خاندان نے ایک رات حویلی میں رقص کا اہتمام کیا، رومیو بھیس بدل کر دشمن کی تقریب میں شریک ہو گیا، رقص کے دوران دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور یوں وہ ہو گیا جس پر آج تک سیکڑوں ناول، افسانے، کہانیاں اور ڈرامے لکھے گئے، فنکشن کے بعد رومیو کمرے کی بالکونی کے نیچے چھپ گیا، کھڑکی کھلی تھی، جولیٹ نے اپنی آیا کو رومیو کے بارے میں بتایا اور اعتراف کیا وہ رومیو کی محبت میں گرفتار ہو چکی ہے، رومیو نے سنا تو وہ رسی کی مدد سے اوپر چڑھا اور جولیٹ کو اپنی حقیقت بتا دی۔
یہ حقیقت تلخ تھی لیکن معاملہ آگے بڑھتا رہا، رومیو روز آتا، رسی کے ذریعے بالکونی تک پہنچتا، دونوں ساری رات گپیں مارتے اور رومیو صبح واپس چلا جاتا، یہ معاملہ چل رہا تھا کہ ایک دن رومیو کے دوست مرکیوشیو (Mercutio) کی جولیٹ کے کزن ٹبالٹ سے مڈ بھیڑ ہو گئی، ٹبالٹ نے مرکیوشیو کو قتل کر دیا، رومیو کو پتہ چلا تو اس نے ٹبالٹ کو قتل کر دیا یوں شہر کے حالات خراب ہو گئے، رومیو کو شہر چھوڑنا پڑ گیا لیکن وہ جولیٹ کی محبت سے باز نہ آیا یہاں تک کہ وہ دونوں گھر سے بھاگ گئے، شادی کی، ایک دن اکٹھے رہے لیکن پھر جولیٹ کا خاندان اسے زبردستی اٹھا کر لے گیا، جولیٹ کے والد نے اس کی شادی کاؤنٹ پیرس سے طے کر دی۔
شادی اگلے دن ہونی تھی لیکن اس دوران ایک بہی خواہ نے جولیٹ کو ایک ایسی دواء لا دی جسے پینے کے بعد وہ 40 گھنٹے کے لیے فوت ہو گئی، جولیٹ نے 40 گھنٹے بعد دوبارہ زندہ ہو جانا تھا، جولیٹ نے اس دواء کے بارے میں رومیو کو اطلاع بھجوائی، اس کا خیال تھا، خاندان اسے دفن کر دے گا، وہ 40 گھنٹے بعد دوبارہ زندہ ہو جائے گی، رومیو آئے گا اور دونوں ورونہ سے فرار ہو جائیں گے لیکن بدقسمتی سے جولیٹ کا پیغام رومیو تک نہ پہنچ سکا اور جولیٹ کے مرنے کی خبر پھیلی، خاندان نے اس کی آخری رسومات ادا کیں اور اس کی لاش کمرے میں رکھ دی گئی، رومیو کو انتقال کی خبر ملی تو وہ دیوانہ وار مقبرے کی طرف دوڑا، وہ یہاں پہنچا تو جولیٹ کا منگیتر کاؤنٹ پیرس بھی یہاں موجود تھا۔
کاؤنٹ پیرس نے رومیو کو روکنے کی کوشش کی، دونوں کے درمیان لڑائی ہوئی اور کاؤنٹ پیرس رومیو کے ہاتھوں مارا گیا، رومیو جولیٹ کی لاش کے قریب پہنچا، لاش کا بوسہ لیا اور زہر کھا کر خودکشی کر لی، جولیٹ کی نیند کے چالیس گھنٹے پورے ہوئے، اس نے آنکھ کھولی، کاؤنٹ پیرس اور رومیو کی لاشیں دیکھیں تو چیخ ماری، خنجر اٹھایا، سینے میں اتارا اور گر کر مر گئی۔یہ ایک عام سی داستان تھی، دنیا کے ہر ملک میں ایسی سیکڑوں داستانیں بکھری پڑی ہیں لیکن شاید اللہ تعالیٰ کو جولیٹ اور رومیو کی شہرت منظور تھی چنانچہ یہ کہانی پورے علاقے میں مشہور ہو گئی۔
وینس کے ایک لکھاری لوئی گی ڈی پورٹا نے 1531ء میں یہ داستان لکھی، کتاب شایع ہوئی لیکن پاپولر نہیں ہوسکی، 1553ء میں میتھوبینڈ لیو اور گیرارڈو بولدیر نے بھی یہ داستان لکھی مگر اس کو بھی قبول عام نصیب نہ ہوئی، 1559میں بینڈلیو کی کتاب کا فرانسیسی میں ترجمہ ہوا، یہ ترجمہ شیکسپیئر تک پہنچا، وہ کہانی سے متاثر ہوا، اس نے 1594-95 میں ملکہ الزبتھ کے لیے رومیو جولیٹ کی ڈرامائی تشکیل کی، یہ ڈرامہ 1596 میں لندن میں پہلی بار کھیلا گیا، ملکہ کو اسٹوری پسند آ گئی اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے غیر معروف شہر کی غیر معروف اور عام سی کہانی محبت کی عظیم داستان بن گئی، رومیو، جولیٹ اور ورونہ تینوں امر ہو گئے۔
شہر میں جولیٹ کی گلی، مکان اور اس کی بالکونی آج بھی موجود ہے، یہ گلی، یہ گھر اور یہ بالکونی دنیا بھر کے عاشقوں کا قبلہ ہے، ہر سال لاکھوں لوگ یہاں آتے اور رومیو، جولیٹ اور شیکسپیئر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، میں سوموار گیارہ مئی کو ورونہ پہنچا، اعجاز پیارا اور شیخ مبشر میرے ساتھ تھے، ہم سب سے پہلے جولیٹ کی گلی میں پہنچے، یہ گلی وایاکیپلو کہلاتی ہے۔
گھر کا نمبر 23 ہے، یہ گھرآٹھ سو سال میں مختلف خاندانوں سے ہوتا ہوا کیپلو خاندان تک پہنچ گیا، 1907ء میں میونسپل کمیٹی نے عمارت خریدی اور اسے میوزیم کا درجہ دے دیا، گلی کے اندر، دکانوں کے درمیان ایک بڑا پھاٹک ہے، پھاٹک کے اندر پرانی ڈیوڑھی ہے اور ڈیوڑھی کی دونوں دیواروں پر عاشقوں نے رنگ برنگی مارکروں، نیل پالش اور خون سے ایک دوسرے کے نام لکھے ہیں، دیواروں پر کم وبیش دو تین کروڑ عاشقوں کے نام ہوں گے، یہ دیواریں آپ کو دیواریں کم اور آرٹ کا نمونہ زیادہ دکھائی دیتی ہیں، ڈیوڑھی کے بعد صحن آتا ہے، صحن کی سامنے کی دیوار پر سبز بیل چڑھی ہے، بیل کے سائے میں جولیٹ کا کانسی کا مجسمہ ایستادہ ہے، مجسمے کے ساتھ تصویر بنوانا یہاں کی عاشقانہ روایت ہے۔
مرد حضرات مجسمے کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور مجسمے کے ایک خاص حصے پر ہاتھ رکھ کر تصویر بنواتے ہیں، مجسمے کا وہ خاص حصہ اس کثرت استعمال سے سیاہ ہو چکا ہے، مجسمے کے پیچھے دیوار پر سیکڑوں چٹیں لگی ہیں، یہ چٹیں عاشقوں کے ’’لو میسج‘‘ ہیں، دیوار پر نام بھی لکھے ہیں اور بائیں جانب ہزاروں تالے بھی لٹک رہے ہیں، مجسمے کے دائیں جانب گھر کا دروازہ ہے اور دروازے سے ذرا سا ہٹ کر دنیا کی وہ مشہور ترین بالکونی ہے جس کی ’’زیارت‘‘ کے لیے ہر سال کروڑوں لوگ ورونہ آتے ہیں، آپ کو جولیٹ کی بالکونی اور بیڈروم تک جانے کے لیے ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے، ٹکٹ میں جولیٹ کے مقبرے کی ’’زیارت‘‘ بھی شامل ہے، ہم لوگ ٹکٹ لے کر پہلی منزل پر پہنچ گئے۔
وہاں بالکونی پر کھڑے ہونے اور تصویر کھنچوانے کے لیے قطار لگی تھی، ہم بھی اپنی باری پر اس بالکونی پر پہنچ گئے جہاں کبھی رومیو چھپ کر آتا تھا اور جولیٹ بے تابی سے اس کا انتظار کرتی تھی، دیواروں پر بارہویں، تیرہویں اور چودھویں صدی کے مشہور اطالوی مصوروں کی پینٹنگز لٹک رہی تھیں، دوسری منزل پر گھر کا اسٹیک روم، آتش دان اور ڈائننگ روم تھا جب کہ جولیٹ کا بیڈروم تیسری منزل پر تھا، بیڈروم میں جولیٹ کا بیڈ اور لباس رکھا تھا، یہ بیڈ اور لباس اصل نہیں ہیں، یہ 1968 میں بننے والی ہالی ووڈ کی فلم رومیو جولیٹ کا کاسٹیوم اور بیڈ تھا، بیڈروم کی بالائی منزل پر چار کمپیوٹر اور خط لکھنے کا سامان رکھا تھا، آپ کمپیوٹرز پر جولیٹ کو ای میل کر سکتے ہیں اور آپ کو جولیٹ کی طرف سے ای میل کا باقاعدہ جواب بھی آتا ہے،آپ وہاں مرحومہ کو خط بھی لکھ سکتے ہیں اور جولیٹ کی طرف سے آپ کے پتے پر جواب بھی آتا ہے۔
چوتھی منزل پر گھر کے مزید دو بیڈ روم تھے، جولیٹ کا گھر بارہویں صدی کے خوبصورت گھروں میں شمار ہوتا تھا، چھتیں اور فرش لکڑی کے ہیں اور دیواریں پتھروں اور چونے سے بنی ہیں، گھر میں شیکسپیئر کی تصویریں اور اس کے ڈرامے کے ڈائیلاگ بھی آویزاں ہیں، ہم وہاں سے جولیٹ کے مقبرے پر آگئے، مقبرہ گھر سے بیس منٹ کی واک پر ہے، یہ مقبرہ وقت کی گرد میں دفن ہو گیا ہوتا لیکن مقبرے پر چرچ بن گیا اور چرچ کی وجہ سے یہ مقبرہ زندہ رہ گیا، چرچ اب تقریباً ختم ہو چکا ہے تاہم مقبرہ آج بھی موجود ہے۔
ہم ورونہ سے نکلے تو ہم لوگ گورے کی مارکیٹنگ کے قائل ہو گئے، گورے نے معمولی سی داستان کو اساطیری شکل دے دی، دنیا بھر سے کروڑوں لوگ ہر سال یہاں آتے ہیں، یہ لوگ شہر کی معیشت میں پٹرول کی حیثیت رکھتے ہیں، جولیٹ کی وجہ سے ورونہ میں سیکڑوں دکانیں چل رہی ہیں، ٹرانسپورٹ کا بزنس، ہوٹلوں کا کاروبار، گائیڈز کی روزی، ریستوران اور کافی شاپس چل رہی ہیں چنانچہ جولیٹ کو یہاں وہ مقام حاصل ہے جو برصغیر کے پرانے شہروں میں زندہ پیروں کو حاصل تھا، بی بی کی وجہ سے آٹھ سو سال سے لاکھوں لوگوں کا روزگار چل رہا ہے۔
ایک گورے ہیں جو آٹھ سو سال سے جولیٹ سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ایک ہم ہیں جو آج تک سوہنی مہینوال، ہیر رانجھا اور سسی پنوں پر شرمندہ ہیں، ہم شرمندہ کیوں ہیں اور گورے رومیو جولیٹ پر کیوں فخر کرتے ہیں، ہمیں ورونہ میں اس کا جواب نہیں ملا رومیو بھی اس شہر سے تعلق رکھتا تھا، اس کا گھر بھی اسی شہر میں موجود ہے لیکن اس بے چارے کا گھر ویران اور قبر بے نشان ہے جب کہ جولیٹ کے مکان اور مقبرے پر ٹھٹ کے ٹھٹ لگے ہیں، کیوں؟ شاید زن مریدوں کی اس دنیا میں عاشق بے چارے اور معشوقائیں قیمتی ہوتی ہیں، جولیٹ جولیٹ بن جاتی ہیں اور رومیو رانجھے بن کر بے نشان رہ جاتے ہیں، یہ دنیا زنانہ ہے اور اس میں صرف خواتین کو اہمیت حاصل ہے۔
توکل علم اور عمل کے بغیر مکمل نہیں ہوتا
جاوید چوہدری جمعـء 8 مئ 2015

ہم توکل میں جب تک امام الانبیاء ؐ، خلفائے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓ کی پیروی نہیں کریں گے، ہم شاید اس وقت تک دنیا اور آخرت میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے لیکن سوال یہ ہے نبی اکرمؐ اور خلفاء راشدینؓ کا توکل تھا کیا؟ توکل کی بے شمار قسمیں ہیں مثلاً توکل ہجرت بھی تھی، جب دیکھا مکہ میں رہنا مشکل ہے، کفار اہل ایمان کو بے مقصد لڑائیوں میں الجھا رہے ہیں اور یہ لڑائیاں وقت اور توانائی کا ضیاع ہیں تو ایک ایسے شہر مدینہ کی طرف ہجرت فرما لی جو جغرافیائی اور تجارتی لحاظ سے اہم تھا، توکل غزوہ بدر بھی تھا، دوہجری میں مکہ کے کفار نے مدینہ پر حملے کا فیصلہ کیا، ایک ہزار کا لشکر تیارہوا، مدینہ میں اطلاع ہوئی تو دو آپشن تھے۔
وہ لوگ مدینہ میں بیٹھ کر دعا کرواتے، اللہ تعالیٰ اپنے محبوبؐ کی کوئی بات نہیں ٹالتا تھا چنانچہ وہ دعا فرماتے اور کفار کے لشکر میں وباء پھوٹ پڑتی یا مکہ میں سیلاب آ جاتا اور کافر مصیبتوں کا شکار ہو کر ہلاک ہو جاتے لیکن اللہ کے نبیؐ نے ساتھی گنے، مدینہ میں 313 ایسے مرد نکلے جو جنگ کے قابل تھے، تلواریں گنیں، وہ8 تھیں، سواریاں دیکھیں، 70 اونٹ اوردو گھوڑے تھے اور زرہیں جمع کیں ،یہ تین یا چھ تھیں، یہ سامان اور یہ مجاہد لیے اور بدر پہنچ گئے،میدان بدر میں دشمن سے پہلے پانی کے کنوئیں کا کنٹرول لے لیا، بہترین مقام پر خیمے لگائے اور ایسی جگہ صف آراء ہوئے جو جنگی نکتہ نظر سے بہترین تھی، ان تمام انتظامات کے بعد اللہ سے عرض کیا، یا باری تعالیٰ میرے پاس صرف یہ لوگ ہیں۔
اگر آج یہ لوگ بھی شہید ہو گئے تو پھر دنیا میں تمہارا نام لینے والا کوئی نہیں ہوگا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت بھجوا دی، توکل غزوہ احد بھی تھا، آپؐ نے دیکھا، احد کی ایک چوٹی جنگی نکتہ نظر سے اہم ہے، اگر یہاں تیر انداز بٹھا دیے جائیں تو جنگ جیت جائیں گے، اللہ کے رسولؐ نے وہاں تیر انداز بٹھا دیے اور ان کو حکم دیا جنگ کی صورتحال کچھ بھی ہو تم نے یہ جگہ نہیں چھوڑنی، مسلمان ابتدائی مرحلے میں جنگ جیت گئے ، تیر اندازوں نے جذباتی ہو کر وہ مقام چھوڑ دیااور پھر اس غلطی کا کیا خمیازہ بھگتا؟ یہ چودہ سو سال سے تاریخ کا حصہ ہے۔
70مسلمان اور دندان مبارک شہید ہوگیا، غزوہ احد نے مسلمانوں کو پیغام دیا اللہ تعالیٰ کا معتبر اور مقدس ترین لشکر بھی اگر جنگ میں غلطی کرے گا، اگریہ حکمت عملی کے دائرے سے باہر قدم رکھے گا تو یہ بھی نقصان اٹھائے گا، توکل غزوہ خندق بھی تھا، کفار نے پانچ ہجری کو مسلمانوں پر فیصلہ کن حملے کا فیصلہ کیا، پانچ قبائل اکٹھے ہوئے، دس ہزار جوان جمع ہوئے، لشکر کو کیل کانٹے سے لیس کیا گیا اور مدینہ پر حملہ آور ہو گئے۔
مسلمانوں نے محسوس کیا ہمارے لیے کھلے میدان میں ان کا مقابلہ مشکل ہو گا، اللہ کے رسولؐ نے اپنے احباب سے مشورہ کیا، حضرت سلمان فارسیؓ نے خندق کھودنے کا مشورہ دیا، مشورہ پسند آیا، رسول اللہ ﷺ نے ان تمام صحابہ ؓ کو ساتھ لیا جن کے روحانی مقام تک دنیا کا کوئی ولی، کوئی صوفی، کوئی قطب، کوئی صاحب دعا اور کوئی متوکل آج تک نہیں پہنچ سکا، وہ سب اٹھے اور مدینہ کے گرد خندق کھودی، دشمن کا لشکر آیا ، خندق کے سامنے پہنچ کر بے بس ہوا، اللہ کے نبیؐ نے نصرت کی دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے کفار کے خیمے اکھاڑ دیے۔
آپ حیات طیبہ کا مطالعہ کریں، آپ کو پورا توکل سمجھ آ جائے گا، اللہ کے رسولؐ نے غزوہ بدر میں گرفتار ہونے والے کفار کی رہائی کے لیے کیا شرائط رکھی تھیں؟ کیا ان میں یہ شامل نہیں تھا؟ آپ مدینہ کے ان پڑھوں کو پڑھنا سکھا دیں اور اپنے گھر واپس چلے جائیں اور کیا بدر میں گرفتار کفار دینی علم کے ماہر تھے؟ نہیں، ہرگز نہیں! وہ صرف اور صرف دنیاوی علم جانتے تھے اور اللہ کے رسولؐ نے انھیں اپنے صحابہؓ کو دنیاوی علم سکھانے کی ہدایت فرمائی ، اللہ کے رسولؐ جب بھی علیل ہوتے آپ ؐ دواء استعمال کرتے اور پھر اللہ سے شفاء کی دعا فرماتے، پوری طب نبوی ان جڑی بوٹیوں کی گواہ ہے جو اللہ کے رسولؐ نے خود بھی استعمال کیں اور اپنے اصحابؓ کو بھی کروائیں۔
آپ حضرت عمرؓ کی دو جنگی حکمتیں بھی ملاحظہ کیجیے، اسلامی تاریخ نے آج تک حضرت عمر فاروقؓ سے بڑا حکمران اور بڑا متوکل شخص پیدا نہیں کیا، حضرت عمرؓ کے دور میں ایران فتح ہوا، ایران کے دو حکمران تھے رستم اور فیروزان۔ ان ایرانی حکمرانوں نے مہران ہمدانی کی سرپرستی میں خوفناک لشکر بنایا اور یہ لشکر عراق بھجوادیا، عراق میں بویب کے مقام پر اسلامی اور ایرانی لشکر کا آمنا سامنا ہوا، مثنیٰ بن حارثہ مسلمان لشکر کے سالار تھے، اسلامی لشکر میں اس وقت مسلمانوں کے ساتھ ساتھ بنو نمر اور بنو تعلب کے عیسائی بھی شامل تھے اور قبیلہ بجیلہ کے وہ مرتد بھی جو اسلام کے ابتدائی دور میں اسلام سے منحرف ہو ئے اور پھر معاف کر دیے گئے۔
اسلامی تاریخ کے عظیم مورخ محمد حسین ہیکل کے بقول حضرت عمرؓ نے قبیلہ بجیلہ کے تائبین ارتداد کو مال غنیمت کے علاوہ خمس کا چوتھائی حصہ دینے کا وعدہ کیا، یہ لوگ مان گئے اور یہ جرید بن عبداللہ بجلی کی قیادت میں مسلمانوں کے لشکر میں شامل ہونے کے لیے عراق پہنچ گئے، (کتاب حضرت عمر فاروق اعظمؓ۔ مصنف محمد حسین ہیکل اورصفحات 160 تا 165)، کیا حضرت عمر فاروقؓ (نعوذ باللہ) متوکل نہیں تھے یا انھیں اللہ کی نصرت پر یقین نہیں تھا؟ یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، تاریخ نے حضرت عمرؓ جیسا متوکل انسان آج تک پیدا نہیں کیا، پھر مسئلہ کیاتھا؟ مسئلہ یہ تھا حضرت عمر فاروق ؓ اللہ کے نظام کو سمجھتے تھے، وہ جانتے تھے، توکل تین عناصر کا مجموعہ ہوتا ہے، تیاری، حکمت اور دعا۔ وہ جانتے تھے تیاری کے لیے علم چاہیے، حکمت کے لیے عمل درکار ہے اور دعا کے لیے اللہ پر پختہ یقین چاہیے، آپ تاریخ اسلام کے صرف ابتدائی سو سال کا مطالعہ کر لیجیے۔
آپ کو اسلامی لشکر کئی مقامات پر ہارتا ہوا، پسپا ہوتا ہوا اور بکھرتا ہوا بھی نظر آئے گا، آپ جب ان لشکروں کے سالاروں کا پروفائل نکالیں گے تو آپ کے سامنے ایسے ایسے نام آئیں گے جن کا ثانی دنیا آج تک پیدا نہیں کر سکی، وہ لوگ حکمت اور توکل دونوں میں یکتا تھے مگر پھر وہ کیوں ہارے، وہ کیوں پسپا ہوئے اور ان کے لشکر کیوں بکھرے؟ آپ جب تاریخ سے یہ سوال پوچھیں گے تو تاریخ آپ کو وجوہات بھی بتائے گی اور یہ وجوہات غزوہ احد جیسی ہوں گی جس میں اہل ایمان نے جنگی حکمت عملی کے دائرے سے باہر قدم رکھ دیا تھا، آپ صرف خلفائے راشدین کی جنگی تاریخ نکال کر دیکھ لیں، آپ کو توکل میں حکمت اور تیاری دونوں کی سمجھ آ جائے گی۔
یہ دنیا حقائق کی دنیا ہے، مشرق سے لے کر مغرب تک اور زمین کی ساتویں تہہ سے لے کر ساتویں آسمان تک حقائق ہی حقائق ہیں، ہم اگر اپنی سستی، اپنی کم علمی، اپنی کم فہمی اور اپنی نالائقی کو تصوف کا نام دے کر ان حقائق سے آنکھیں چرانا چاہیں تو الگ بات ہے ورنہ یہ حقائق چیخ چیخ کر بتاتے ہیں اللہ کے زیادہ تر نبیوں کو جنگ کے میدانوں میں بھی اترنا پڑا اور سکون اور امن کی تلاش میں ہجرتیں بھی کرنا پڑیں، حضرت عثمانؓ کو جب شہید کیا گیا تھا تو وہ قرآن مجید پڑھ رہے تھے، حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ پر جب دشمنوں نے حملہ کیا تو یہ تمام تر روحانیت، تصوف اور توکل کے باوجود مجروح ہوئے اور انھیں دواء اور حکیم کی ضرورت بھی پڑی اور وہ دوائیں دنیاوی تھیں اوروہ اس وقت بھی یونانی، ہندی اور چینی کہلاتی تھیں۔
وہ ہستیاں جب دین کے ساتھ ساتھ دنیاوی علم کو تسلیم کرتی تھیں تو آج ہم دین اور دنیا کے علم کو توکل کے خلاف کیوں قرار دے رہے ہیں؟ ہم جس دن ٹھنڈے دل سے علم، ٹیکنالوجی اور توکل اور صرف توکل کا تقابل کریں گے تو ہمارے لیے طالبان اور اسامہ بن لادن کی مثال ہی کافی ہو گی، یہ متوکل لوگ تھے لیکن جب جنگ ہوئی تو ٹیکنالوجی فضا سے حملے کرتی رہی اور یہ لوگ زمین پر دشمن کا انتظار کرتے رہے، نتیجہ آپ کے سامنے ہے! پوری اسلامی دنیا تورا بورا جیسے انجام سے خوفزدہ ہو کر کفار کے ساتھ کھڑی ہو گئی اور بوریا نشین بیچارے اکیلے رہ گئے۔
نیٹو نے 14 برسوں میں صرف ساڑھے تین ہزارنعشیں اٹھائیں ، افغانستان کے 20لاکھ بے گناہ لوگ مارے گئے جب کہ امیر المومنین آج تک روپوش ہیں اور شیخ اسامہ یمنی نے ایبٹ آباد میں پناہ لے لی اور سات برس تک اپنا سر باہر نہیں نکالا، یہ لوگ اگر متوکل تھے، یہ اگر اللہ کی نصرت پر یقین رکھتے تھے تو یہ میدان میں کھڑے کیوں نہیں رہے؟ اور 20 لاکھ بے گناہ افغان کیوں مارے گئے! کیاافغانوں کی یہ 20 لاکھ لاشیں ہمارے اس فکری قحط کا نتیجہ نہیں ہیں جس کی گرفت میں آ کر ہم علم اور عمل دونوں سے دور ہو چکے ہیں۔
ہم مسلمانوں کو بہرحال یہ ماننا ہو گا، اللہ کی مدد مانگنے سے پہلے بدر میں آنا پڑتا ہے، جنگ کے لیے بہترین جگہ کا تعین کرنا پڑتا ہے، پوری تیاری کرنا پڑتی ہے اور آپ اگر 313 ہیں تو آپ کو وہ 313 میدان میں لانے پڑتے ہیں، ہمیں اس مغالطے سے بھی باہر آنا ہو گا، ہم پر دواء سے لے کر میزائل اور گاڑی سے لے کر جہاز تک مغرب کی تمام مصنوعات حلال ہیں لیکن ان مصنوعات کی ایجاد حرام ہے، ہمیں یہ طریقہ بھی ترک کرنا ہو گا جس میں پیر صاحب، حضرت صاحب، امام صاحب اور مولانا صاحب پوری زندگی لوگوں کو تعویذ دیتے ہیں۔
ان کے پانی میں شفاء کی پھونک مارتے ہیں اور ان کے کندھے پر تھپکی دے کر انھیں توکل کے راستے پر روانہ کرتے ہیں لیکن جب خود زکام میں مبتلا ہوتے ہیں تو یہودیوں اور عیسائیوں کی دوائیں کھاتے دیر نہیں لگاتے، یہ لوگ اپنے لیے جرمن گاڑیاں پسند کرتے ہیں اور دوسروں کو فاقہ مستی اور اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی پانے کا درس دیتے ہیں، ہم کتنے بدنصیب ہیں، ہم علم کے بغیر مچھر کو نہیں سمجھ سکتے لیکن ہم جاہل رہ کر اللہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، کیا یہ تضاد نہیں؟اور کیا ہمیں اب تضاد سے باہر نہیں نکلنا چاہیے؟۔
ا

بھی تو پارٹی باقی ہے
جاوید چوہدری جمعرات 7 مئ 2015

ہم پہلے قانونی پہلو ڈسکس کرتے ہیں، الیکشن ٹریبونل کے جج جاوید رشید محبوبی نے چار مئی کو این اے 125 میں انتخابی دھاندلی کا فیصلہ سنایا، یہ فیصلہ 80 صفحات پر مشتمل تھا، فیصلے میں بتایا گیا حلقہ این اے 125 میں 263 پولنگ اسٹیشنز تھے، 17 پولنگ اسٹیشنر منتخب کیے گئے،7 پولنگ اسٹیشنز کے ووٹوں کی پڑتال ہوئی، 1352 ووٹ ’’ویری فی کیشن‘‘ کے لیے نادرا بھجوائے گئے، نادرا نے 1254ووٹوں کی تصدیق کر دی، 84 ووٹوں پر انگوٹھوں کے نشانوں کی تصدیق نہ ہو سکی جب کہ 14 کاؤنٹر فائلز پر انگوٹھوں کے نشان جعلی تھے لیکن کامیاب امیدوار خواجہ سعد رفیق اس دھاندلی کے ذمے دار ہیں یہ ثابت نہیں ہوسکا۔
درخواست دہندہ حامد خان بھی دھاندلی کے ثبوت پیش نہیں کر سکے تاہم الیکشن عملے کی طرف سے سنجیدہ غلطیاں اور کوتاہیاں سامنے آئیں چنانچہ ٹریبونل نے تجویز دی ’’ این اے 125 میں دوبارہ الیکشن کرایا جائے‘‘ خواجہ سعد رفیق نے ٹریبونل کے اس فیصلے کو اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کر لیا، خواجہ صاحب عدالت میں یہ موقف اختیار کریں گے ’’ووٹر لسٹوں کی غیر موجودگی یا کاؤنٹر فائلز میں گڑ بڑ کے ذمے دار ریٹرننگ آفیسر ہیں مگر سزا مجھے اور میرے حلقے کے ووٹروں کو مل رہی ہے، یہ زیادتی ہے، خواجہ صاحب کو شاید عدالت سے ریلیف بھی مل جائے کیونکہ چھ سات سینٹروں کے رزلٹ کی بنیاد پر 263 سینٹروں کے نتیجے کو کالعدم قرار دینا قرین انصاف نہیں ہو گا۔
خواجہ سعد رفیق ذاتی طور پر دوبارہ الیکشن کے قائل ہیں لیکن ان کی پارٹی اپیل کرنا چاہتی ہے، کیوں؟ کیونکہ پارٹی کو خدشہ ہے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے حلقے این اے 122 اور خواجہ آصف کے حلقے 110میں بھی یہ صورت حال ہو سکتی ہے چنانچہ اگر خواجہ سعد رفیق نے اپیل کے بجائے الیکشن لڑا تو ایاز صادق اور خواجہ آصف کو بھی الیکشن لڑنا پڑے گا اور شاید ایاز صادق وہ الیکشن نہ جیت سکیں اور یوں پاکستان مسلم لیگ ن کو خفت اٹھانا پڑے گی چنانچہ خواجہ سعد رفیق کو پارٹی نے فیصلے کے خلاف اپیل کا حکم دے دیا ۔
خواجہ سعد رفیق عدالت جا رہے ہیں اور مستقبل میں بھی اگر ایاز صادق یا خواجہ آصف اس صورتحال کا نشانہ بنے تو یہ بھی عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے اور عدالتیں جب تک کسی حتمی نتیجے پر پہنچیں گی حکومت اس وقت تک اپنی مدت پوری کر چکی ہو گی، ہم اب اخلاقی پہلو کی طرف آتے ہیں، یہ درست ہے خواجہ سعد رفیق نے ریلوے کی نشاۃ ثانیہ کے لیے بے تحاشہ کام کیا، یہ ریلوے کو بڑی حد تک دوبارہ پٹڑی پر بھی لے آئے ، ریلوے خسارے سے بھی باہر آرہا ہے ، پاکستان مسلم لیگ ن کو دوبارہ خواجہ سعد رفیق جیسا ریلوے کا وزیربھی نہیں ملے گا لیکن اس کے باوجود خواجہ سعد رفیق کو ریلوے کی وزارت سے فوری طور پر مستعفی بھی ہونا چاہیے تھا اور پاکستان مسلم لیگ ن کو ٹریبونل کے کمزور فیصلے کے باوجود این اے 125 میں دوبارہ الیکشن کرانا چاہیے تھا اور اگر ایاز صادق اور خواجہ آصف کو بھی اس نوعیت کے فیصلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے توحکومت کو ان حلقوں میں بھی ’’ری الیکشن‘‘ کرانا چاہیے۔
کیوں؟ کیونکہ پاکستان مسلم لیگ ن نے سات برس سے اخلاقیات اور عدالتوں کے احترام کا جھنڈا اٹھا رکھا ہے، ٹریبونل بھی عدالت ہوتے ہیں اور یہ عدالت حکومت کے خلاف فیصلہ دے چکی ہے چنانچہ پاکستان مسلم لیگ ن کو یہ فیصلہ مان لینا چاہیے، اسے تاخیری حربوں کے لیے قانون کا سہارا نہیں لینا چاہیے، خواجہ سعد رفیق این اے 125 میں مضبوط ہیں، مجھے یقین ہے یہ دوبارہ جیت کر واپس آ جائیں گے، رہ گئے ایاز صادق تو یہ اگر ہار جاتے ہیں تو پاکستان مسلم لیگ ن کے پاس اسپیکرز کی کمی نہیں، یہ نیا اسپیکر لے آئیں اور اپنی مدت پوری کریں، حکومت کو صرف ایاز صادق کے لیے خواجہ سعد رفیق جیسے سیاسی ورکر کو متنازعہ نہیں بنانا چاہیے۔ ’’ریاست‘‘ اب خواجہ آصف کی کارکردگی سے مطمئن ہے لہٰذا یہ یقینا ایاز صادق جیسے مسائل کا شکار نہیں ہوں گے۔
ہم اگر چار مئی کے فیصلے کا تفصیلی جائزہ لیں تو خواجہ سعد رفیق کی معطلی ہمیں سمندر میں چھپے برفانی پہاڑ کی چھوٹی سی چوٹی محسوس ہو گی، اصل پہاڑ پانی کے اندر ہے، وہ پہاڑ کیا ہے؟ وہ ریٹرننگ آفیسرز ہیں، ٹریبونل کے اس فیصلے کے بعد پہلی بار ’’ریٹرننگ آفیسرز‘‘ متنازعہ بن کر سامنے آئے، آپ کو یاد ہو گا، آصف علی زرداری اور عمران خان پہلے دن سے ریٹرننگ آفیسرز کے کردار پر انگلی اٹھا رہے ہیں۔
یہ دونوں بار بار کہہ رہے ہیں ’’ 2013ء کا الیکشن آر اوز کا الیکشن تھا‘‘ عمران خان نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا، ہمارا الیکشن چوری کیا گیا، ہمیں سازش کے ذریعے ہرایا گیا، سازش میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، جسٹس خلیل رمدے، چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم، چیف سیکریٹری پنجاب جاوید اقبال، نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی اور ایک میڈیا گروپ شامل تھے۔
عمران خان کے بقول دھاندلی کا فیصلہ اوپر ہوا اور اس فیصلے کو عملی جامہ آر اوز نے پہنایا، یہ الزام کل تک محض ایک الزام تھا لیکن این اے 125 کے ٹریبونل نے فیصلے میں یہ لکھ کر ’’ فرائض میں غفلت برتنے پر ریٹرننگ آفیسر اور الیکشن کمیشن کے عملہ کے خلاف کارروائی کی جائے اور ان کو دیا گیا معاوضہ واپس لیا جائے‘‘ اس الزام کو ثبوت بنا دیا، ہمیں ماننا پڑے گا ٹریبونل کے فیصلے نے عمران خان کے دعوے کو بھی سچا ثابت کر دیا اور آر اوز کے کردار کو بھی مشکوک بنا دیا چنانچہ اب اگر جوڈیشل کمیشن آر اوز کو سماعت کا حصہ بنا لیتا ہے اور یہ آر اوز کو بلواتا ہے اور اگر ان میں سے چند آر اوز یہ بیان دے دیتے ہیں ’’ہم پر دباؤ تھا‘‘ تو 2013ء کا پورا الیکشن متنازعہ ہو جائے گا اور میاں نواز شریف کو استعفیٰ بھی دینا پڑے گا اور اسمبلیاں بھی توڑنی پڑجائیں گی۔
آپ یہ بھی فرض کیجیے اگر جوڈیشل کمیشن سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بھی طلب کر لیتا ہے تو کیا ہوگا؟ یہ بھی ایک دلچسپ منظر ہو گا، چوہدری صاحب کمیشن کی کارروائی کا فریق بننا چاہتے ہیں، یہ 14 اپریل کو کمیشن میں تحریری درخواست جمع کرا چکے ہیں’’ مجھے بھی فریق بنایاجائے‘‘ کمیشن اگر افتخار محمد چوہدری کو بلا لیتا ہے اور پاکستان تحریک انصاف کے وکیل حفیظ پیرزادہ کو سابق چیف جسٹس سے جرح کا موقع مل جاتا ہے تو پھر میاں نواز شریف کی سیاسی مشکلات کا آغاز ہو جائے گا۔
کیوں؟ کیونکہ پوری دنیا جانتی ہے افتخار محمد چوہدری اور جسٹس خلیل رمدے دوست اور جوڈیشل کالونی میں ایک دوسرے کے ہمسائے تھے اور رمدے خاندان کے شریف فیملی اور پاکستان مسلم لیگ ن سے تعلقات بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، جسٹس خلیل رمدے کے ایک بھائی چوہدری اسد الرحمن نے سات بار پاکستان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا، یہ 2013ء کے الیکشن میں بھی ن لیگ کے ٹکٹ پر این اے 94 ٹوبہ ٹیک سنگھ سے قومی اسمبلی کا حصہ بنے، جسٹس خلیل رمدے کے دوسرے بھائی محمد فاروق کی بہو عائشہ رضا فاروق بھی مارچ 2015ء میں ن لیگ کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئیں جب کہ الیکشن کے بعد جولائی 2013ء کو جسٹس خلیل رمدے کے صاحبزادے مصطفی رمدے کو ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بھی تعینات کیا گیا تھا ، پاکستان بار کونسل کے اعتراض اور تقرری کے خلاف پٹیشن پر مصطفی رمدے نے ایک سال بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
حفیظ پیرزادہ کو جرح میں کمال حاصل ہے، یہ یقینا افتخار محمد چوہدری سے کمیشن کے سامنے خلیل رمدے سے دوستانہ تعلقات کا اعتراف کروالیں گے، یہ ان سے یہ تصدیق بھی کرائیں گے ’’آپ نے خلیل رمدے کو ریٹائرمنٹ کے بعد ایڈہاک جج تعینات کیا تھا‘‘ یہ رمدے خاندان کے شریف فیملی سے تعلقات کے ثبوت بھی پیش کریں گے، یہ ان سے یہ بھی پوچھیں گے آپ نے الیکشن 2013ء سے قبل الیکشن کمیشن کے سیکریٹری ، ایڈیشنل سیکریٹری افضل خان اور ڈی جی الیکشن کمیشن شیر افگن کو کتنی بار عدالت اور کتنی بار چیمبر میں بلایا اور آپ نے اس دوران اہم ترین مقدموں کو سائیڈ پر رکھ کر الیکشن کمیشن کے غیر اہم ایشو کو اتنی اہمیت کیوں دی؟ یہ فخرالدین جی ابراہیم سے بھی پوچھیں گے آپ 23 اکتوبر 2012ء کو چیف جسٹس سے کیوں ملے اور ان سے عدلیہ سے آر اوز لینے کی درخواست کیوں کی؟
آپ کو یہ مشورہ کس نے دیا تھا؟ حفیظ پیرزادہ افتخار چوہدری سے یہ بھی پوچھیں گے آپ نے عدلیہ سے آر اوز کیوں نامزد کیے؟ آپ نے 8 اپریل 2013ء کو آر اوز سے خطا ب کیوں کیا؟ حفیظ پیرزادہ سپریم کورٹ سے آر اوز کی تقرری کا خط جاری ہونے کے بعد سپریم کورٹ اور افتخار چوہدری کا ٹیلی فون ریکارڈ بھی طلب کریں گے اور یہ آر اوز کو بھی جرح کے لیے بلانے کی درخواست کریں گے،یہ افتخار چوہدری سے یہ بھی پوچھیں گے، آپ الیکشن میں اتنی دلچسپی کیوں لے رہے تھے اور آپ کے کون کون سے دوست آپ کو ریٹائرمنٹ کے بعد صدر پاکستان دیکھنا چاہتے تھے؟
میرا خیال ہے کمیشن کی سماعت اگر اس رخ پر نکل گئی تو میاں نواز شریف منظم دھاندلی میں ملوث پائے جائیں یا سعد رفیق کی طرح بے گناہ ثابت ہوجائیں لیکن نقصان بہر حال انھیں اور ان کی حکومت کو ہوگا، یہ نئے الیکشن کرانے پر مجبور ہو جائیں گے یا پھر یہ بھی خواجہ سعد رفیق کی طرح قانونی راستوں پر دوڑ دوڑ کر اپنی مدت پوری کریں گے آپ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھیں جوڈیشل کمیشن سے قبل اور جوڈیشل کمیشن کے بعد کی صورتحال میں بہت فرق ہے، جوڈیشل کمیشن سے قبل تمام سیاسی جماعتیں میاں نواز شریف کے ساتھ تھیں لیکن کمیشن کے قیام کے بعد یہ جماعتیں اب کمیشن کے ساتھ ہیں اور اگر میاں نواز شریف نے کمیشن کے فیصلے کا احترام نہ کیا تو یہ سیاسی جماعتیں کمیشن کے فیصلے کے ساتھ کھڑی ہو جائیں گی۔
ان جماعتوں میں پاکستان پیپلزپارٹی اور بلوچستان کی حکمران جماعت نیشنل پارٹی پیش پیش ہو گی کیونکہ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ جوڈیشل کمیشن پر پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے واحد گواہ اور واحد ضامن ہیں، معاہدے پر ڈاکٹر مالک بلوچ کے دستخط بھی موجود ہیں اور یہ اپنی گواہی کا پاس رکھنے کے لیے اپنی حکومت تک قربان کر دیں گے چنانچہ این اے 125 کے ’’معمولی سے فیصلے‘‘ نے جھاڑو کی وہ گرہ کھول دی جس کے بعد اس کے تنکا تنکا ہونے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں، حکومت کو چاہیے یہ اب خود ہی الیکشن کرانے کا اعلان کر دے کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو جائے عمران خان اور میاں نواز شریف کی ضد دونوں کو فارغ کرا دے، کیوں؟ کیونکہ بنگلہ دیش ماڈل آج بھی فائلوں میں موجود ہے، یہ فائل ابھی کلوز نہیں ہوئی، ابھی تو پارٹی باقی ہے جناب!۔
تاریخ کا ادراک
جاوید چوہدری منگل 5 مئ 2015

’’یہ تاریخ کا ادراک نہیں رکھتے‘‘ یہ بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کا پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف پر مختصر لیکن جامع تبصرہ تھا، واجپائی اس تبصرے کے لیے کیوں مجبور ہوئے؟ یہ کہانی بھی کم دلچسپ نہیں، صدر مشرف 14 جولائی 2001ء کو پاک بھارت مذاکرات کے لیے آگرہ پہنچے، واجپائی اس وقت بھارت کے وزیراعظم تھے، وہ اپنے دور میں مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہتے تھے۔
یہ اس سلسلے میں 20 فروری 1999ء کو لاہور بھی آئے، میاں نواز شریف کے ساتھ ان کی ملاقات ہوئی، یہ معاملات آگے بڑھ رہے تھے کہ اچانک کارگل کا واقعہ پیش آ گیا، کشمیر پر پیش رفت رک گئی، کارگل کا محاذ ٹھنڈا ہوا تو 12 اکتوبر 1999ء ہو گیا، میاں نواز شریف فارغ ہو گئے، جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھال لیا، امریکا بھی اس دور میں کشمیر پر سنجیدہ تھا چنانچہ امریکی کوششوں سے واجپائی پاکستان سے دوبارہ مذاکرات کے لیے تیار ہو گئے، آگرہ میں میٹنگ کا فیصلہ ہوا۔
جنرل پرویز مشرف اس وقت تک ملک کے چیف ایگزیکٹو تھے، صدر کا عہدہ رفیق تارڑ کے پاس تھا، جنرل پرویز مشرف نے ان مذاکرات کو آئینی اور قانونی حیثیت دینے کے لیے رفیق تارڑ کو صدر کے عہدے سے سبکدوش کیا اور 20 جون 2001ء کو باوردی صدر بن گئے، یہ صدر کی حیثیت سے 14 جولائی 2001ء کو آگرہ گئے، بھارتی حکومت نے گرم جوشی سے استقبال کیا، یہ پاک بھارت تعلقات میں ایک بڑا بریک تھرو تھا، پاکستان اور بھارت طویل عرصے بعد اس لیول پر آئے تھے جہاں یہ باہمی مسائل کا حل تلاش کر سکتے تھے لیکن جنرل پرویز مشرف اس وقت تازہ تازہ ’’ہیڈ آف اسٹیٹ،، بنے تھے۔
وہ بھارت جاتے ہوئے 54 سالہ پرانی دشمنی کا صندوق بھی ساتھ لے گئے، وہ تین دن بھارت میں رہے، آگرہ میں ان کے وفد کی بھارتی زعماء کے ساتھ نصف درجن ملاقاتیں ہوئیں لیکن بیل منڈھے نہ چڑھ سکی، آگرہ کانفرنس ناکام ہو گئی، جنرل مشرف 16 جولائی کی شام ناکام واپس آ گئے، جنرل مشرف کی واپسی کے بعد وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھیوں نے ان سے جنرل پرویز مشرف کے بارے میں پوچھا، واجپائی مسکرائے اور پھر جواب دیا “He does not have sense of history” (یہ تاریخ کا ادراک نہیں رکھتے)۔ یہ جنرل پرویز مشرف کی شخصیت پر جامع تبصرہ تھا، ہم یقینا واجپائی کے اس تبصرے سے اتفاق نہیں کریں گے کیونکہ ہم اپنے علاقائی مسائل کو ہمیشہ اپنے مخصوص زاویہ نظر سے دیکھتے ہیں۔
ہم اس لیڈر کو لیڈر مانتے ہیں جو بھارتی سرحدوں کی طرف منہ کرتے ہی سلطان محمود غزنوی بن جائے، جو پاکستانی سرزمین پر بھارت کو للکارے، جو سرحدوں پر کھڑا ہو کر ’’ اوئے مودی‘‘ کا نعرہ لگائے اور جو بھارتی زمین پر قدم جما کر پوری بھارتی قوم کو للکارے، یہ رویہ سیاست اور فلم کے میدان میں کامیاب ثابت ہوتا ہے، لوگ اس پر دیوانہ وار تالیاں بجاتے ہیں لیکن یہ سفارت کاری میں زہر قاتل ہوتا ہے، سفارت کاری شائستگی، نرمی اور برداشت کا کھیل ہوتی ہے، آپ اس کھیل میں آہستہ آہستہ چالیں چلتے ہیں اور صرف اور صرف اپنے ٹارگٹ پر نظر رکھتے ہیں۔
بھارت کے ساتھ ہمارے تین بڑے ایشوز ہیں، ہم مسئلہ کشمیر کا پرامن حل چاہتے ہیں، کشمیر ہمارا ہے اور ہمیں یہ ہر قیمت پر چاہیے، دوسرا ایشو، بھارت ہمارا ہمسایہ ہے اور کوئی شخص اور کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کرتی جب تک وہ ہمسایوں سے تعلقات ٹھیک نہیں کر لیتی، بھارت اور پاکستان کے تعلقات 68 سالوں سے خراب ہیں، ہم چار جنگیں لڑ چکے ہیں، ہم دونوں ملک اسلحے کا ڈھیر لگا رہے ہیں، ہم ضد بازی میں جوہری طاقتیں تک بن چکے ہیں، دنیا کو خطرہ ہے بھارت اور پاکستان کے ایٹم بم کسی دن شدت پسندوں کے ہاتھ آ جائیں گے۔
نریندر مودی اس وقت بھارت کے وزیراعظم ہیں، یہ چالیس سال سے پاکستان اور مسلم دشمنی کی سیاست کر رہے ہیں، یہ اگر اکھڑ جائیں اور یہ جوہری دھمکی دے دیں، پاکستان کے اندر بھی ایسے لاکھوں لوگ موجود ہیں جو بھارت کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے ہیں یوں یہ معاملہ بگڑ جائے گا اور یہ پورا خطہ جہنم بن جائے گا، پاکستان اور بھارت کی غربت کی بڑی وجہ بھی یہ جنگی جنون ہے، یہ دونوں ملک اگر اچھے ہمسائے بن جائیں، یہ لڑنا بند کر دیں،یہ ترقی پر توجہ دیں تو بیس تیس برسوں میں خطے میں خوشحالی آ جائے اور تیسرا ایشو، پاکستان اور بھارت دونوں بڑی منڈیاں ہیں، پاکستان اور بھارت کی سرحدیں کھل جائیں تو دونوں ملکوں کو گاہک ملیں گے اور یہ گاہک خطے کی معیشت میں اہم کردار ادا کریں گے۔
یہ تینوں مسئلے مشترک ہیں اور ان مسئلوں کے حل کے لیے بہرحال دونوں ملکوں کی قیادت کو میز پر بیٹھنا پڑے گا۔ ’’یہ بیٹھنا‘‘ تاریخ کا سبق ہے، تاریخ بتاتی ہے انسان خواہ کتنی بڑی جنگ لڑ لے، یہ خواہ کروڑوں لوگ قتل کر دے یا قتل کروا لے اسے بہرحال میز پر ہی بیٹھنا ہو گا، یہ مسائل بہرحال مذاکرات ہی کے ذریعے حل کرے گا، تاریخ کا دوسرا سبق دشمنوں کی ملاقات کا وقت ہے، دنیا میں جب دو قومیں لڑتی ہیں تو ان کی زندگی میں بہت کم ایسے وقت آتے ہیں جب ان کے سربراہوں کے درمیان ملاقات ہوتی ہے، ملاقات کا یہ وقت بہت قیمتی ہوتا ہے کیونکہ یہ وقت قوموں کا مستقبل طے کرتا ہے، آپ اس ملاقات میں مزید جنگ یا جنگ بندی کا فیصلہ کرتے ہیں، آگرہ کی ملاقات میں یہ دونوں مواقع موجود تھے۔
پاکستانی جرنیل بھارت کی شدت پسند سیاسی جماعت بی جے پی کے ایسے وزیراعظم سے مل رہا تھا جو مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہتا تھا لیکن جنرل مشرف نے تاریخ کا ادراک نہ ہونے کی وجہ سے یہ موقع ضایع کر دیا، یہ خالی ہاتھ واپس آ گئے اور انھیں بعد ازاں بھارتی قیادت کو دوبارہ آگرہ جیسی پوزیشن پر لانے کے لیے درجنوں پاپڑ بیلنے پڑے، ہمیں امریکا، یورپ اور چین کی مدد بھی لینا پڑی اور نیٹو کو وہ رعایتیں بھی دینی پڑیں جنہوں نے ملک کو دوزخ کے منہ تک پہنچا دیا، یہ ادراک کی وہ کمی تھی جس کا خمیازہ ملک آج تک بھگت رہا ہے۔
تاریخ کا یہ المیہ صرف جنرل پرویز مشرف تک محدود نہیں تھا بلکہ ہمارے زیادہ تر حکمران اسی صورتحال کا شکار ہیں، آپ میاں نواز شریف کی مثال لے لیجیے، میاں صاحب تیسری بار ملک کے وزیراعظم بنے، یہ تجربہ کار ترین سیاستدان ہیں لیکن یہ اس تجربے کے باوجود آج تک تاریخ کے ادراک سے محروم ہیں، یہ آج کے زمانے میں بھی وہ غلطیاں کر رہے ہیں جو دو تین سو سال قبل نادان بادشاہ کیا کرتے تھے، میاں صاحب آج تک تاریخ کو نہیں سمجھ سکے مثلاً آپ 25 اپریل کی مثال لیجیے، 25 اپریل 2015ء کو برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں گیلی پولی کی جنگ کی سو سالہ دعائیہ تقریبات ہوئیں، برطانیہ نے سو سال قبل 25 اپریل 1915ء کو گیلی پولی کے جزیرے پر حملہ کیا، گیلی پولی ترک جزیرہ ہے۔
یہ ’’بلیک سی‘‘ کے ایک ایسے مقام پر واقع ہے جہاں سے یورپ اور روس کے بحری جہاز گزرتے تھے، پہلی جنگ عظیم کا مرکز یورپ تھا، جرمنی برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کو ’’ٹف ٹائم‘‘ دے رہا تھا، سر ونسٹن چرچل اس وقت ’’فرسٹ لارڈ آف ایڈمریلٹی‘‘ تھے، چرچل کا خیال تھا ہم اگر ایک دوسرا محاذ کھول لیں تو جرمنی کی توجہ یورپ سے ہٹ جائے گی اور یوں ہم یورپ میں جنگ جیت جائیں گے، چرچل کو گیلی پولی ایک ایسی جگہ نظر آئی جہاں قبضہ کر کے یہ دنیا کا اہم ترین بحری روٹ اپنے ہاتھ میں لے سکتے تھے۔
چرچل کا خیال تھا برطانیہ گیلی پولی پر قبضے کے بعد استنبول پر بھی قابض ہو جائے گا، چرچل نے 25 نومبر 1914ء کو اپنا یہ منصوبہ برٹش وار کونسل میں پیش کیا، جرنیلوں کو چرچل سے اختلاف تھا لیکن چرچل ڈٹ گیا، وارکونسل نے منصوبے کی منظوری دے دی، برطانیہ نے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور فرانس کے فوجی جمع کیے اور 25 اپریل 1915ء کو گیلی پولی پر یلغار کر دی، برطانوی بحری جہاز گیلی پولی پہنچے اور فوجیوں نے ساحلوں پر اترنا شروع کر دیا، خلافت عثمانیہ اس وقت آخری سانسیں لے رہی تھی، خلیفہ نے گیلی پولی کی حفاظت کی ذمے داری 19 ویںڈویژن کو سونپ دی، اتاترک اس وقت ترک فوج میں لیفٹیننٹ کرنل تھے، یہ گیلی پولی میں تعینات تھے، ترک فوج جزیرے میں کمزور تھی، جزیرے کا ساحل 150 میل لمبا تھا جب کہ جوان صرف 84 ہزار تھے، ان میں سے بھی لڑنے کے قابل صرف 62 ہزار تھے۔
اتاترک کی کمان میں 57 رجمنٹ تھی، اتاترک نے لڑنے کا فیصلہ کیا، انھوں نے 25 اپریل کی صبح اپنے جوان جمع کیے اور ان سے کہا ’’میں تمہیں لڑنے کا حکم نہیں دے رہا، میں تمہیں مرنے کا حکم دے رہا ہوں‘‘ جوانوں نے اپنے کمانڈر کے حکم پر سر تسلیم خم کیا اور دشمن پر جا گرے، گیلی پولی کی اس جنگ میں پوری 57 رجمنٹ ختم ہو گئی، رجمنٹ کا کوئی جوان زندہ نہ بچا، گیلی پولی کی جنگ صرف جنگ نہیں رہی، موت کا رقص بن گئی اور گیلی پولی صرف گیلی پولی نہ رہا وہ قبرستان بن گیا، ترکوں نے اتحادی فوجوں کو اڑا کر رکھ دیا، گیلی پولی کی جنگ میں برطانیہ کے 73 ہزار دو سو اور فرانس کے 27 ہزار فوجی ہلاک ہوئے، برطانوی فوجیوں کی زیادہ تعداد آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے تعلق رکھتی تھی۔
ترک شہداء کی تعداد اڑھائی لاکھ تھی، ان اڑھائی لاکھ لوگوں میں 57 رجمنٹ کے تمام جوان بھی شامل تھے، گیلی پولی کی جنگ سے سیاسی اتاترک کا ظہور ہوا، اتاترک نے اس کے بعد ترکی کی آزادی کا جھنڈا اٹھایا اور یوں ایک عظیم اسلامی ملک نے جنم لیا، ہندوستان کے مسلمانوں نے گیلی پولی کی جنگ اور جنگ کے بعد اتاترک کی کوششوں کو بھرپور سپورٹ کیا، ہندوستانی مسلمان خواتین نے اپنے زیور تک اتار کر ترکی بھجوا دیے، یہ زیورات آج بھی انقرہ کے میوزیم میں موجود ہیں۔
گیلی پولی کی جنگ برطانوی سماج اور ترک نیشنل ازم کی جنگ تھی، ترک نیشنل ازم یہ جنگ جیت گیا، برطانیہ نے 25 اپریل 2015ء کو لندن میں گیلی پولی کے آنجہانی فوجیوں کے اعزاز میں دعائیہ تقریب منعقد کی، آپ ہمارے وزیراعظم کا تاریخ کا ادراک ملاحظہ کیجیے، میاں نواز شریف ترکوں کے ہاتھوں مرنے اور ترکوں کو مارنے والے فوجیوں سے اظہار عقیدت کے لیے ہار لے کر اس تقریب میں شریک ہو گئے، مجھے شک ہے میاں نواز شریف کو گیلی پولی کی تاریخ معلوم نہیں ہو گی کیونکہ یہ اگر بیک گراؤنڈ جانتے ہوتے تو یہ کبھی یہ غلطی نہ کرتے، یہ 25 اپریل کو برطانیہ کے بجائے ترکی جاتے اور ترک حکومت کی تقریب میں شریک ہوتے، ترکی نے بھی 25 اپریل کو گیلی پولی کے شہداء کے لیے سو سالہ تقریبات کا اہتمام کیا تھا، یہ کتابوں اور تاریخ سے دوری ہے جس کا عملی مظاہرہ ہم اپنی قیادت کے ایسے کارناموں میں دیکھتے رہتے ہیں۔
میاں صاحب اور جنرل پرویز مشرف میں کوئی اور بات، کوئی اور چیز مشترک ہو یا نہ ہو لیکن ان دونوں میں ایک بات، ایک چیز کامن ہے، یہ دونوں ہسٹری کی سینس نہیں رکھتے اور جو حکمران تاریخ کا ادراک نہ رکھتے ہوں وہ اور ان کی قومیں دونوں آخری وقت تک بحرانوں میں رہتی ہیں، جنرل مشرف بحران کا شکار ہیں، میاں صاحب بحران کا کوئی موقع ضایع نہیں کرتے اور پیچھے رہ گئی قوم تو یہ بھی پیدائش سے لے کر آج تک بحرانوں میں گرفتار ہے، یہ کبھی اس سے باہر نہیں آ سکی اور شاید آ بھی نہ سکے کیونکہ آپ جب تک ماضی کا تجزیہ نہیں کرتے آپ کا حال اچھا نہیں ہو سکتا اور آپ کا حال جب تک اچھا نہ ہو آپ کا مستقبل اس وقت تک روشن نہیں ہو سکتا۔
میں نادم ہوں
جاوید چوہدری اتوار 3 مئ 2015

میں ایک سادہ بلکہ احمق انسان ہوں، میں اکثر اکیلا بیٹھ کر اپنی حماقتیں گنتا ہوں اور پھر دیر تک کف افسوس ملتا رہتا ہوں، مجھے اللہ تعالیٰ نے ایم اے کے بعد ایک شاندار موقع دیا تھا، میں اگر اس موقع سے فائدہ اٹھا لیتا تو آج میری زندگی میں فضائے بدر بھی ہوتی، میں توکل کی چوٹی پر بھی ہوتا، میں اللہ کی نصرت سے بھی جی بھر کر سیراب ہو چکا ہوتا، میں دنیاداری اور دنیا داری کی گمراہی سے بھی بچ گیا ہوتا، میں کامل ولی بھی ہوتا، میں مفسر قرآن بھی ہوتا، میں شیخ الحدیث بھی ہوتا اور میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا گواہ بھی ہوتا، میں آج اس غلطی، اس کوتاہی پر نادم بھی ہوں اور شرمندہ بھی۔
مجھے 1992ء میں سی ایس ایس کا موقع ملا تھا، میں اگر اس وقت یہ موقع ضایع نہ کرتا تو میں آج اس مملکت خداداد میں مذہب پر ٹھیک ٹھاک اتھارٹی ہوتا، میں ملک کے ہر چھوٹے بڑے ممولے کو مالش کر کے شاہین سے لڑاتا، وہ شاہین کا لنچ بن جاتا تو میں اسے شہید جمہوریت قرار دیتا اور پھر شاہین کی سیکریٹری شپ قبول کر لیتا، میں اس ’’ڈی ایم جی‘‘ کا حصہ بنتا جس کی بنیاد انگریز نے ہندوستان کے آخری مسلمان فرماں روا بہادر شاہ ظفر کو رنگون بھجوانے کے بعد رکھی تھی، میں اس سروس گروپ کا حصہ بنتا جو قیام پاکستان سے قبل اور قیام پاکستان کے بعد صرف ان علماء کو مدارس قائم کرنے کی اجازت دیتا تھا جو انگریز سرکار کی وفاداری کا تحریری حلف نامہ جمع کرواتے تھے۔
میں اس سروس کا حصہ بنتا جس نے پہلے راجپال کو توہین رسالت پر مبنی کتاب چھاپنے کی اجازت دی، پھر غازی علم دین شہید کی گرفتاری کا حکم جاری کیا، پھر ان کا پولیس ریمانڈ دیا اور پھر آخر میں انھیں سینٹرل جیل میانوالی میں پھانسی چڑھا دیا، آپ غازی علم دین شہید کا ڈیتھ وارنٹ اور ڈیتھ سرٹیفکیٹ نکال کر دیکھ لیجیے، آپ کو اپنی سول سروس کے ’’توکل‘‘ کا مکمل ادراک ہو جائے گا، مجھے چاہیے تھا میں اس سروس اکیڈمی میں تربیت پاتا جس کی بنیاد ان گوروں نے رکھی تھی جو 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد ہر باریش شخص کو پکڑتے تھے۔
اس کے گلے میں پھندا ڈالتے تھے اور اسے قریب ترین درخت کے ساتھ لٹکا دیتے تھے، میں انگریز آقائوں کی اکیڈمی میں چھری کانٹے کا استعمال بھی سیکھتا، پتلون پہننا، ٹائی لگانا اور سگار پینا بھی سیکھتا اور میں وہاں سے ’’باس اور حکومت سب سے بڑی توکل ہوتی ہے، آپ کبھی اس کو انکار نہ کریں،، جیسا سنہری اصول بھی سیکھتا، میں پھر اے سی بنتا، میں ڈی سی بنتا اور میں فوجی حکومتوں کو مطمئن کرنے کے لیے نہتے لوگوں پر گولی بھی چلواتا، میں کاغذوں پر بنی سڑکوں، پلوں اور ڈیموں کے ٹھیکے بھی جاری کرتا، میں صبح سویرے فوجی جرنیلوں، سیکریٹریوں، ایم این ایز اور وزراء کو سلام کرنے ان کے گھر بھی پہنچ جاتا، میں اچھی پوسٹنگز کے لیے سفارشیں بھی کراتا، اپنے بھائیوں، بھتیجوں اور بھانجوں کو پولیس اور محکمہ مال میں بھرتی بھی کراتا، میں دس دس کنال کے ان گھروں میں بھی رہتا جو انگریز آقائوں نے اپنی انائوں کی تسکین کے لیے بنوائے تھے۔
میں سرکاری گاڑیاں، سرکاری ٹیلی فون، سرکاری بجلی، سرکاری گیس اور سرکاری ملازموں سے بھی لطف اندوز ہوتا، میں سرکاری خرچ پر ملک ملک بھی گھومتا، میں ٹی اے ڈی اے سے بھی لطف اندوز ہوتا، میں غلام ملکوں کے غلام ابن غلام عوام کو مزید غلام بنانے کا فن سیکھنے یورپ اور امریکا بھی جاتا، میں پروموشن کے لیے سارا سرکاری اور غیر سرکاری زور بھی لگاتا، میں جونیئر خواتین افسروں کو متاثر کرنے کے لیے پامسٹری بھی سیکھ لیتا، علم نجوم کی تین کتابیں بھی پڑھ لیتا اور عملیات بھی شروع کر لیتا، میں اپنے بچوں کو انگریزی اسکولوں میں پڑھاتا، انھیں اسکالرشپ دلا کر یورپ اور امریکا بھجواتا، بچوں کی ملک سے باہر شادیاں کرتا اور انھیں توکل کے زور پر یورپ، امریکا، کینیڈا یا آسٹریلیا میں سیٹل بھی کراتا۔
میں جب یہ سب کچھ کر لیتا تو پھر مجھے چالیس سال کی عمر میں اچانک معلوم ہوتا میرے اندر وقت کا عظیم شاعر، دانشور، ڈرامہ نگار اور ادیب چھپا بیٹھا ہے، میں سرکاری اثر و رسوخ کے ذریعے اس ادیب کو باہر نکالتا، اسے پہلے پاکستان ٹیلی ویژن پر فروخت کرتا، پھر پبلشرز کے ہاتھوں بیچتا، پھر اسے اخبارات کے توکل میں جھونک دیتا اور آخر میں جب پرائیویٹ نیوز چینلز آتے تو میں اپنے اندر چھپے بیسویں گریڈ کے دانشور کو ٹیلی ویژن کی ’’فاقہ مستی‘‘ کے سامنے بھی رکھ دیتا اور میں جب اکیسویں گریڈ میں پہنچ جاتا اور مجھے یقین ہو جاتا میں اب 22 ویں گریڈ میں نہیں جا سکوں گا۔
میری ریٹائرمنٹ اب لازم ہے تو پھر مجھے اچانک الہام ہوتا میرے اندر وقت کا ایک عظیم صوفی چھپا بیٹھا ہے، میں پیدائشی ولی بھی ہوں اور میں شیخ الحدیث بھی ہوں، میں اس الہام کے بعد عوام کو اقبال کے شاہین کے بارے میں مطلع کرتا، میں انھیں مولانا روم کی دانش سے متعارف کراتا اور میں ملت کو انگریزوں کی سازشوں، امریکیوں کی اسلام دشمنیوں اور یہود، ہنود اور نصاریٰ کے مسلم کش منصوبوں کی اطلاع بھی دیتا، میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا جھنڈا بھی اٹھا لیتا اور قوم کو یہ بتاتا ’’آپ کان لگا کر سنو، آپ کو گھوڑوں کی ٹاپیں سنائی دیں گی، پاکستان کو عظیم اسلامی ریاست کا دارالحکومت بنانے کا فیصلہ ہو چکا ہے مگر اس سے قبل سروں کی تیار فصل کاٹی جائے گی۔
میں داڑھیوں سے خون ٹپکتا اور منافقوں کو سولیوں پر چڑھتا دیکھ رہا ہوں‘‘ افسوس میں نے سی ایس پی آفیسر بننے کا موقع ضایع کر دیا ورنہ میں ایک ہاتھ سے استعماری نظام سے پوری تنخواہ وصول کرتا، گریجویٹی لیتا، تنخواہ کے اس حصے کا پورا سود وصول کرتا جو میری 35 سال کی سروس کے دوران کٹتا رہا، میں سرکاری پلاٹ لیتا، پنشن لیتا اور کانٹریکٹ جاب کی کوشش کرتا جب کہ میں دوسرے ہاتھ میں انقلاب کا جھنڈا اٹھا لیتا، میں بیک وقت اس استعماری نظام کا بینی فیشری بھی ہوتا اور میں اسے غلامی کا جدید نظام بھی قرار دیتا، میں زندگی بھر اپنے کسی بچے کو کسی مدرسے کے قریب سے نہ گزرنے دیتا، میں اپنے کسی بچے کو پاکستان بھی نہ رہنے دیتا مگر میں پوری قوم سے اپیل کرتا آپ خدا کے لیے اپنے بچوں کو مذہبی تعلیم دلائیں۔
میں خود پوری زندگی دنیاداری کا کوئی موقع ضایع نہ کرتا لیکن قوم کو بتاتا ’’یہ دنیا عارضی ہے، یہ فانی ہے، دنیا پرستی ترک کر دو، اللہ تعالیٰ کے سچے پیغام کی طرف لوٹ آئو، مادیت چھوڑ و، اللہ سے لو لگائو اور اولیاء کرام کی تعلیمات پر عمل کرو‘‘ میں خود ہوانا کے سگار پیتا، پائپ میں کیوبا کا تمباکو ڈال کر خوشبو سے لطف لیتا، میں فرانسیسی خوشبوئیں استعمال کرتا، اطالوی کپڑے کے سوٹ سلواتا، جوتے لندن سے خریدتا لیکن قوم کو فضائے بدر پیدا کرنے کی تلقین کرتا، یوں میں دنیا میں بھی سرفراز ہو جاتا اور آخرت بھی میری مٹھی میں رہتی لیکن میں نے اپنی حماقت، اپنی سادگی، اپنی بے وقوفی سے یہ موقع ضایع کر دیا۔
میں سی ایس ایس نہ کر سکا چنانچہ میں صوفی بن سکا، ولی ہو سکا، شیخ الحدیث کے درجے تک پہنچ سکا اور نہ ہی میں عظیم دانشور کا ٹائٹل پا سکا، میں صرف قلم مزدور اور کتابی کیڑا بن کر رہ گیا، میں اپنی اس کوتاہی، اس غلطی پر نادم ہوں، مجھے اپنے دور جاہلیت کی اس حماقت پر شرمندگی بھی ہے، میں قوم سے اس غلطی پر معافی کا خواستگار ہوں، اللہ تعالیٰ نے مجھے اگر دوسرا موقع دیا تو میں وعدہ کرتا ہوں میں اپنی اس غلطی کی تلافی کروں گا، میں ملک کا عظیم صوفی بیوروکریٹ بنوں گا، ایسا صوفی بیوروکریٹ جو دنیاداروں کو ٹھیکے دے کر ان کے لیے وسیلہ رزق بھی بنے گا، الیکشنوں میں دھاندلی کرا کر گناہ گار سیاستدانوں کو اصلاح کا موقع بھی دے گا۔
ملک میں فحاشی، عریانی اور افراتفری پھیلانے والے میڈیا کی سمت ٹھیک کرنے کے لیے ڈرامے بھی لکھے گا، روحانی سیاسی ٹاک شو بھی کرے گا، صوفیانہ کالم بھی تحریر کرے گا، الہامی شاعری بھی کرے گا، سگار اور پائپ بنانے والے غرباء کی مالی مدد کے لیے تمباکو بھی پھونکے گا، جو یورپ اور امریکا کو اسلام سے روشناس کرانے کے لیے اپنے بچے بھی وہاں سیٹل کرائے گا اور جو سرکار کے استعماری نظام کی اصلاح کے لیے پنشن بھی لے گا، پلاٹ بھی لے گا، غیر مسلم خواتین کے گناہ دھونے کے لیے ان پر روحانی پھونکیں بھی بھی مارے گا اور ریٹائرمنٹ کے بعد قوم میں فضائے بدر بھی پیدا کرے گا۔
نوٹ: اوریا مقبول جان میرے دوست ہیں، یہ پاکستان کے پڑھے لکھے، ایماندار اور صاحب ذوق بیوروکریٹ ہیں، یہ وسیع المطالعہ بھی ہیں، انھوں نے دنیا بھی دیکھی اور یہ ٹیلی ویژن، اخبارات اور رسائل سے بھی وابستہ ہیں، میں ہمیشہ سے ان کا مداح ہوں، اوریا صاحب نے ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی کتاب ’’دو اسلام‘‘ پر میری اصلاح فرمائی، انھوں نے ’’تفہیم الاسلام،، کے تین خطوط کا حوالہ دیا، یہ خطوط ڈاکٹر برق نے مولانا مسعود احمد کو لکھے تھے۔
میں اوریا صاحب جیسے محقق اور صاحب علم کو رد نہیں کر سکتا، ہو سکتا ہے اوریا صاحب کا دعویٰ درست ہو اور ڈاکٹر غلام جیلانی برق واقعی اپنی ابتدائی تحقیق اور کتابوں پر نادم بھی ہوں اور وہ انھیں دور جہالت کی پیداوار بھی سمجھتے ہوں، میں صرف طالبعلم ہوں، میں اتھارٹی نہیں ہوں چنانچہ میں اوریا صاحب کی تحقیق اور اتھارٹی کو تسلیم کر لیتا ہوں تاہم مجھے ڈاکٹر برق کی روح سے ایک شکوہ رہے گا ’’آپ اپنی کتابوں پر نادم بھی تھے، آپ انھیں دور جہالت کی پیداوار بھی سمجھتے تھے لیکن ساتھ ہی آپ کی کتابیں بھی چھپ رہی تھیں، کیوں؟ آپ کی زندگی میں آپ کی کتاب آخری بار 1981ء میں شائع ہوئی۔
آپ نے اشاعت سے قبل اس کی اصلاح بھی کی، کیوں جناب؟ اور آپ انگریزی، فارسی، عربی اور اردو چار زبانوں کے ماہر بھی تھے لیکن آپ کو ندامت، معذرت اور اپنے کام کو دور جہالت کی پیداوار قرار دینے کے لیے چاروں زبانوں سے مناسب الفاظ نہ مل سکے اور یہ کام بالآخر ہمارے دوست اوریا مقبول جان کو2015ء میں سرانجام دینا پڑا کیوں؟ ‘‘ میں اوریا صاحب کا ممنون ہوں، میں یہ بحث یہاں ختم کر رہا ہوں، عوام دعا، دعا اور صرف دعا یا علم، عمل اور پھر دعا کا فیصلہ خود کریں۔
دواسلام (مزید)
جاوید چوہدری جمعـء 1 مئ 2015

مسلمانوں سے پہلے دنیا میں دو بڑی مذہبی طاقتیں تھیں، یہودی اور عیسائی۔ یہ دونوں جاہل بھی تھے، ظالم بھی، شدت پسند بھی اور نافرمان بھی۔یوروشلم کے ربیوں نے جیوری بنا رکھی تھی، یہ جیوری دنیا کی ہر نئی چیز، نئی ایجاد اور نئی سوچ کو خلاف مذہب قرار دے دیتی تھی، جیوری تورات کی کوئی آیت تلاوت کرتی تھی اور نئے خیال، نئی سوچ اور نئی چیز دینے والے کو صلیب پر چڑھا دیا جاتا تھا، یہ لوگ انبیاء تک کو نہیں بخشتے تھے۔
یہ انھیں آرے سے چیر دیتے تھے اور یہ انھیں غاروں میں بند کر کے بھوکا پیاسا مار دیتے تھے ، یہ اس ظلم کا جواز ہمیشہ تورات سے نکالتے تھے، یہ لوگ اس قدر بے لچک، سخت اور تنگ نظر تھے کہ انھوں نے حضرت عیسیٰ ؑپر توہین مذہب کا الزام لگایا اور رومی گورنر کو حضرت عیسیٰ ؑ کو صلیب پر چڑھانے پر مجبور کر دیا، آپ عیسائیوں کو بھی دیکھئے، عیسائیت یہودیوں کے جبر، ظلم، عدم برداشت اور جہالت کا رد عمل تھی، یہ لوگ پھانسیاں چڑھتے، صلیبیں اٹھاتے، کوڑے کھاتے اور جیلیں برداشت کرتے ہوئے آگے بڑھے اور آہستہ آہستہ دنیا کی بڑی مذہبی طاقت بن گئے مگر پھر یہ بھی یوروشلم کے ربی بن گئے اور پوپ نے وہ اختیارات حاصل کرلیے جو یوروشلم کی ربی جیوری کو حاصل تھے۔
چرچ انیسویں صدی تک اتنا مضبوط تھا کہ یہ عام لوگوں کے کھانے پینے، رہنے سہنے اور لباس تک کا فیصلہ کرتا تھا، کافی مسلمانوں کی د ریافت تھی، یہ مشروب ایتھوپیا میں دریافت ہوا، مکہ پہنچا، خانہ کعبہ کے سامنے دنیا کی پہلی کافی شاپ بنی اور کافی صوفی ڈرنک یا مسلم ڈرنک مشہور ہوگئی، پوپ نے مسلمانوں کی وجہ سے کافی کو حرام قرار دے دیا، کافی سن 1500ء تک عیسائی دنیا میں حرام اور ممنوعہ رہی یہاں تک کہ 1500ء میں پوپ نے کافی کا پہلا گھونٹ بھرا اور اسے جائز قرار دے دیا، ٹائی مسلمانوں کی ایجاد تھی، یہ قرطبہ شہر میں زریاب قرطبی نے ایجاد کی، خلیفہ کا اسٹاف ٹائی باندھتا تھا، پادریوں نے ٹائی پر پابندی لگا دی۔
یہ ٹائی کو قرطبہ کی مناسبت سے ’’قرطوبی‘‘ کہتے تھے، آج بھی فرنچ زبان اور آدھے اسپین میں ٹائی کو قرطوبی کہا جاتا ہے، چرچ نے ٹائی کو حلال کیسے قرار دیا، یہ بھی الگ کہانی ہے، عیسائی پادری بھی یہودی ربیوں کی طرح نئی ریسرچ، نئی ایجادات اور نئی سوچ کے خلاف تھے، یہ بھی انجیل کی آیات کی تلاوت کرتے تھے، آیات کی اپنی مرضی کی تاویل بیان کرتے تھے اور سائنس دانوں کو پھانسی چڑھا دیتے تھے۔
آپ اس ضمن میں نکولس کوپر نیکس کی مثال لیجیے، کوپرنیکس علم ہئیت اور ریاضی کا ماہر تھا، اس نے 1520ء میں سورج اور زمین کے رشتے پر کتاب لکھی، اس نے کتاب میں انکشاف کیا ’’ زمین سورج کے گرد چکر لگاتی ہے‘‘ وہ چرچ کے اختیارات سے واقف تھا چنانچہ اس نے کتاب پر اپنا نام نہیں لکھا، پادریوں نے کتاب کو خلاف مذہب قرار دے دیا، پادریوں کا کہنا تھا انجیل میں لکھا ہے سورج زمین کے گرد گھومتا ہے چنانچہ یہ نئی تھیوری انجیل سے متصادم ہے۔
مصنف کے خلاف سزائے موت کا حکم آ گیا، چرچ کوپر نیکس سے بائیس سال یہ پوچھتا رہا ’’یہ کتاب تم نے لکھی‘‘ اور کوپر نیکس انکار کرتا رہا یہاں تک کہ 1543ء میں جب اس کی موت کا وقت آگیا تو اس نے اپنا جرم بھی مان لیا اور کتاب پر اپنا نام بھی تحریر کر دیا، چرچ نے کتاب ’’بین‘‘ کر دی، فلورنس کے سائنس دان گلیلیو نے 1632ء میں انکشاف کیا ’’ صرف زمین نہیں بلکہ باقی سیارے بھی سورج کے گرد گھوم رہے ہیں‘‘ چرچ نے گلیلیو کو بھی کافر قرار دے دیا، گلیلیو کی کتاب بھی ضبط ہوئی، آٹھ ماہ مقدمہ چلا اور آخر میں گلیلیو کو’’موت یا معافی،، کا آپشن دیا گیا۔ گلیلیو اپنی تھیوری سے تائب ہوا اور چرچ سے معافی مانگ لی۔
پادریوں نے اسے اس کے فارم ہاؤس میں نظر بند کر دیا، وہ 1642ء میں اس فارم ہاؤس میں فوت ہو گیا مگر اس کا جرم معاف نہ ہوا، پادریوں نے اس کے جنازے کی اجازت نہ دی یوں گلیلیو کو جنازے کے بغیر گم نام قبر میں دفن کر دیا گیا، اس واقعے کے ساڑھے تین سو سال بعد پوپ جان پال نے 1992ء میں اعتراف کیا ’’ گلیلیو کے ساتھ ناانصافی ہوئی‘‘ گلیلیو کے بعد گیارڈانو برونو (Giordano Bruno) نے زمین کی ساخت پر کام شروع کیا ۔
چرچ کے حکم پر لوگوں نے اسے زندہ جلا دیا، آپ اگر کبھی آکسفورڈ جائیں تو آپ کو وہاں بشپ نکولس ریڈلی اور بشپ ہیوگ لیمڑ کی یاد گار ملے گی، یہ دونوں چرچ کے روایتی طریقہ کار سے اختلاف رکھتے تھے چنانچہ دونوں کو آکسفورڈ کے چوک میں زندہ جلا دیا گیا، یہ عیسائیوں کا علم، سائنس اور جدت کے بارے میں رویہ تھا، یہ چند مثالیں ہیں ، تاریخ ایسے سیکڑوں واقعات سے بھری پڑی ہے۔
اسلام یہودیت اور عیسائیت سے بالکل برعکس تھا، یہ روشن خیال بھی تھا،یہ کھلاڈھلا بھی تھا، یہ نئے اور جدید خیالات کو قبول بھی کرتا تھا، یہ علم دوست بھی تھا، یہ عملی بھی تھا اور یہ برداشت بھی رکھتا تھا، اسلام کا دل کتنا بڑا تھا؟ آپ اس کا اندازہ یوروشلم کی فتح سے لگا لیجیے، حضرت عمر فاروق ؓ یوروشلم کی فتح پر بیت المقدس گئے اور آپؓ نے چرچ میں نماز ادا کرنے سے انکار کر دیا، آپؓ کا کہنا تھا، میں نے اگر ایک چرچ میں نماز پڑھ لی تو مسلمان تمام کلیساؤں کو مسجدیں بنا دیں گے۔
مسلمانوں نے سیکڑوں سائنس دان، فلسفی اور فقیہہ پیدا کیے، محمد ابن موسیٰ الخوارزمی نے 810ء سے 820ء کے درمیان الجبرہ کی بنیاد رکھی، ثابت بن قراء نے 880ء میں شماریات (Statistics) کا علم متعارف کرایا، ابن الہیشم نے 1010ء میں روشنی اور علم بصارت پر کام کیا، یونانی فلاسفر اور مذہب یہ کہتا تھا ہماری آنکھ میں روشنی (نور) ہوتی ہے۔
یہ روشنی آنکھ سے نکل کر اشیاء پر پڑتی ہے، ابن الہیشم نے یہ فلسفہ مسترد کر دیا، اس نے ثابت کیا روشنی باہر سے ہماری آنکھوں میں داخل ہوتی ہے، ہماری آنکھ کے پیچھے پردہ ہے جس پر تمام مناظر منعکس ہوتے ہیں، ابن الہیشم نے ہزار سال قبل ’’کتاب المناظر‘‘ کے نام سے کتاب لکھی، ابن الہیشم کے اس فلسفے پر بعد ازاں کیمرہ ایجاد ہوا، عینک بنی اور آنکھوں کا علاج شروع ہوا، ابو ریحان البیرونی نے 1020ء میں ریاضی، تاریخ اور جغرافیہ پر کام کیا، اس نے زاویے کو تین برابر حصوں میں تقسیم کیا اور زمین کا محیط نکالنے کا طریقہ ایجاد کیا، ابوالقاسم الظواہری نے 980ء میں زخم بھرنے اور سرجری کے جدید علم کی بنیاد رکھی۔
اس نے ادویات کا پہلا انسائیکلو پیڈیا بھی مرتب کیا، امام غزالیؒ پہلے مسلم مفکر تھے جنھوں نے دنیا کو بجٹ کا تصور دیا ’’ علم کی دو قسمیں ہوتی ہیں، دنیاوی علم اور دینی علم‘‘۔ اس فلسفے کے بانی بھی امام غزالی تھے، بو علی سینا نے گیارہویں صدی عیسوی میں طب کی بنیاد رکھی اور کتاب الشفاء کے نام سے طب پر حیرت انگیز کتاب لکھی، یہ 18 جلدوں پر مشتمل تھی اور امیر تیمور کے پوتے الغ بیگ نے 1429ء میں سمر قند میں دنیا کی پہلی جدید ترین رصد گاہ تعمیر کرائی، اس نے سورج کے گرد زمین کے چکر کا دورانیہ نکالا، یہ سب نئے علوم تھے، یہ تمام فلسفے نئی سوچ تھے۔
یہ سائنس کی بنیاد تھے اور یہ مسلمان مفکرین سائنس کے ان علوم کے بانی تھے جن کی چوٹی پر آج یورپ کی ساری ترقی بیٹھی ہے، مسلمان فقہ کے علم کے بھی بانی تھے، اسلام دنیا کا پہلا مذہب تھا جس نے اجتہاد کی بنیاد رکھی، اجتہاد اتنا بڑا علم، اتنی بڑی عدالت تھا کہ اس کے ذریعے حضرت عمر فاروقؓ نے مصیبت کے زمانے میں چوری کی وہ سزا تک معطل کر دی جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دیا تھا، یہ سب مسلمانوں کا کمال تھا اور ان کے کمالات کے دوران کسی شخص، کسی مسلم ریاست نے بو علی سینا کے خلاف مقدمہ درج کیا، امام غزالیؒ کو پتھر مارے اور نہ ہی البیرونی، ابن الہیشم، ثابت بن قراء اور الخوارزمی کو زندہ جلایا، اسلامی معاشرے نے نہ صرف ان تمام اسکالرز کو تسلیم کیا بلکہ مسلمان آج تک ان پر فخر بھی کرتے ہیں۔آپ کسی دن ٹھنڈے دماغ سے یہودیت، عیسائیت اور اسلام کی فکری، سائنسی اور نظریاتی تاریخ کا مطالعہ کریں، آپ اسلام کو دنیا کا جدید ترین، وسیع القلب اور سائنسی مذہب پائیں گے، ایک ایسا مذہب جو فتح مکہ کے بعد ابوسفیان اور ہندہ تک کو معاف کر دیتا ہے۔
جو جھوٹے نبی مسیلمہ کذاب کے پیروکاروں کو بھی قتل نہیں کرتا اور جو یونان کے فلسفیوں اور شام کے عیسائیوں سے معاشرت کا سبق سیکھتے ہوئے نہیں ہچکچاتا، آپ مذہبی اور معاشرتی تاریخ کا تھوڑا سا مطالعہ کریں گے، آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے ہم جہاں سن 1000میں تھے۔
یہودی اور عیسائی آج وہاں ہیں، یہ آج البیرونی، ابن الہیشم، بوعلی سینا اور غزالی ؒ کے گھٹنوں کو چھو رہے ہیں اور جہاں یہودی اور عیسائی صلیب کے واقعے سے سن 1600 تک تھے ہم آج وہاں کھڑے ہیں، یہودی اور عیسائی آج ثابت بن قراء کو علم کا محسن قرار دے رہے ہیں جب کہ ہم مسلمان اسلامی معاشرے میں نئی بات کرنے والوں، سائنس، ٹیکنالوجی اور علم کی بات کرنے والوں اور برداشت اور تحقیق کی بات کرنے والوں کے ساتھ وہ سلوک کررہے ہیں جو کبھی پادریوں نے گلیلیو، کوپرنیکس اور برونو کے ساتھ کیا تھا، آپ تاریخ کا المیہ دیکھئے آج 2015ء میں یہودی اور عیسائی علم، ٹیکنالوجی اور معیشت میں مسلمان ہو چکے ہیں جب کہ ہم مسلمان سفر طے کرتے کرتے معیشت، ٹیکنالوجی اور علم میں وہاں پہنچ گئے ہیں جہاں پانچ سو، ہزار اور دو ہزار سال پہلے عیسائی اور یہودی تھے، یہ آگے دوڑ رہے ہیں اور ہم نے پیچھے کی طرف دوڑ لگا رکھی ہے۔
میں سمجھتا ہوں اسلام دو ہیں، ایک وہ اسلام جو خلفائے راشدین کا اسلام تھا، جو الخوارزمی،ابن سینا، البیرونی، امام غزالیؒ، ابن الہیشم، ابن خلدون، ابن کثیر، ابن تیمیہ اور ثابت بن قراء کا اسلام تھا اور دوسراوہ اسلام جو داعش کا اسلام ہے، ایسا اسلام جو اپنے علاوہ دوسرے مسلمانوں کو بھی مسلمان نہیں سمجھتا، جس میں شیعہ سنیوں کو کافر سمجھتے ہیں اور سنی شیعوں کو اور جس میں وہابی کی جنت اور ہے اور بریلوی کی بہشت دوسری اور میں درمیان میں کنفیوژ کھڑا ہوں، میں لوگوں سے پوچھ رہا ہوں کس اسلام کی طرف جاؤں، میں کسے اپنا مذہب مانوں۔
علم، عمل اور پھر دعا
جاوید چوہدری جمعرات 30 اپريل 2015

آپ اب چند حقائق بھی ملاحظہ کیجیے۔
ہم مسلمان ہیں اور ہمارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک ہم خانہ کعبہ اور روضہ رسولؐ کو اپنے ایمان کا حصہ نہ بنا لیں، ہم دنیا کے کسی کونے میں بھی ہوں ہم پر جب بھی مشکل پڑتی ہے ہم خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں اور رب کعبہ سے رو رو کر اس کے کرم، رحم اور مہربانی کی بھیک مانگتے ہیں، ہم یہ سمجھتے ہیں مسلمان اگر طواف کعبہ کرتے ہوئے، خانہ کعبہ کی دہلیز پر ہاتھ رکھ کر، غلاف کعبہ تھام کر یا پھر مقام ابراہیم پر کھڑے ہو کر اللہ سے جو دعا کریں باری تعالیٰ اس دعا کو قبولیت بخش دیتا ہے، ہم روضہ رسولؐ کو بھی دعاؤں کی قبولیت کا مرکز سمجھتے ہیں۔
ہم باب جبرائیل پر بیٹھ کر، ہم قدمین شریفین میں کھڑے ہو کر، ہم روضہ کی جالیوں کو تھام کر، ہم ریاض الجنۃ میں سجدہ ریز ہو کر اور ہم اصحاب صفہ کے چبوترے پر کھڑے ہو کر رسول اللہ ﷺ کے صدقے اللہ تعالیٰ سے جو کچھ مانگتے ہیں اللہ اپنے حبیب کے صدقے ہمیں وہ عنایت کر دیتا ہے، یہ ہمارا یقین بھی ہے اور ایمان بھی۔ آپ اب اس یقین کو ذہن میں رکھئے اور اس کے بعد ایک دوسری حقیقت ملاحظہ کیجیے، یمن میں جنوری 2015ء میں حوثی باغیوں نے ملک کے مختلف حصوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا، یمن کی کل آبادی دو کروڑ 51 لاکھ ہے،ان اڑھائی کروڑ لوگوں میں حوثی باغیوں کی کل تعداد ایک لاکھ ہے۔
حوثیوں کی بغاوت کے بعد سعودی عرب اور یو اے ای کو تین خطرات محسوس ہوئے، ایک، حوثی باغی خلیج عدن پر قبضہ کر کے تیل کے جہازوں کا راستہ روک دیں گے، دو، یمن پر شیعہ حوثیوں کا قبضہ ہو جائے گا اور یہ لوگ سعودی عرب کے لیے مسلسل خطرہ بن جائیں گے اورتین یہ لوگ ایران اور شام کے شیعہ حکمرانوں کے ساتھ مل کر سعودی عرب پر حملہ کر دیں گے، یہ تینوں خدشات محض خدشات ہیں، ان میں سے ابھی تک کوئی ایک خدشہ بھی حقیقت نہیں بنا لیکن سعودی حکمران خانہ کعبہ اور مسجد نبویؐ میں جا کر اللہ تعالیٰ کی نصرت مانگنے کے بجائے ترکی اور پاکستان سے فوج مانگ رہے ہیں، یہ ہم جیسے گناہ گاروں سے فوجی مدد حاصل کرنے کے لیے پورا زور لگا رہے ہیں، یہ پاکستان کو خوفناک نتائج کی دھمکی بھی دے رہے ہیں۔
یہ اپنے وزراء کو ترکی اور پاکستان بھی بھجوا رہے ہیں اور امام کعبہ شیخ خالد الغامدی بھی پاکستان تشریف لا کر پاکستانی بھائیوں کو مدد کے لیے تیار کر رہے ہیں، ہم گناہ گار لوگ ہر مشکل، ہر مصیبت، ہر زلزلے، ہر سیلاب، ہر خشک سالی، ہر قرض، ہر جنگ اور ہر سیاسی بحران میں مکہ اور مدینہ کا رخ کرتے ہیں جب کہ ارض مقدس کے وہ خادمین ہم جن کے ہاتھ چومنا، جن کے لبادے کو ہاتھ لگانا اور جن کے جوتے اٹھانا سعادت سمجھتے ہیں وہ مدد کے لیے ہم گناہگاروں سے اپیل کر رہے ہیں۔
کیوں؟ کیونکہ ترکی اور پاکستان خواہ کتنے ہی گناہ گار، کتنے ہی سیاہ کار اور خواہ کتنے ہی عجمی کیوں نہ ہوں یہ بہرحال دنیا کی ساتویں اورآٹھویں بڑی فوجی طاقتیں ہیں، پاکستان اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی قوت بھی ہے چنانچہ عرب تمام تر دنیاوی، روحانی اور دینی طاقت کے باوجود ترکی جیسے اس سیکولر ملک کے محتاج ہیں جو پچھلے 90 سال سے خود کو اسلامی دنیا سے کاٹ کر یورپین یونین کا حصہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے اور جس میں آج بھی شراب، سود اور جنسی آزادی کو قانونی حیثیت حاصل ہے ، عربوں کو اس پاکستان کی بھی ضرورت ہے جو آج تک ملک سے انگریز کا قانون ختم نہیں کرا سکا، جو آج تک عدالتوں میں اسلامی قوانین نافذ نہیں کر سکا۔
یہ حقیقت کیا ثابت کرتی ہے، یہ حقیقت ثابت کرتی ہے خوش فہمیوں اور حقائق میں زمین اور آسمان کا فاصلہ ہے، آپ کو اگر اس جواز کے بعد بھی یہ فاصلہ نظر نہیں آتا تو آپ ایک اور حقیقت بھی ملاحظہ کیجیے، سعودی عرب نے 2010ء میں حجاز مقدس کے دفاع کے لیے 60 ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے کیے، یہ معاہدے کس کے ساتھ ہوئے؟ اس ملک کا نام امریکا تھا، سعودی عرب نے 2014ء میں امریکا سے ساڑھے چھ ارب ڈالر کے ہتھیار خریدے، امریکا نے پچھلے سال عرب ممالک کو ساڑھے آٹھ ارب ڈالر، فرانس نے پانچ ارب ڈالر اور برطانیہ نے چار ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے۔
سعودی عرب نے پچھلے سال لبنان کو بھی فرانس سے 3 ارب ڈالر کے ہتھیار خرید کر دیے، آپ مزید حقائق ملاحظہ کیجیے، سعودی فضائیہ خطے میں اسرائیل کے بعد سب سے بڑی فضائیہ ہے، سعودی عرب کے پاس امریکا، فرانس اور برطانیہ کے جدید ترین طیارے ہیں، سعودی فضائیہ کے پاس امریکا کے ڈیڑھ سو F-15Eagleاور Boeing F-15C/S طیارے، 90 عدد برطانوی Euro Fighter Typhoonطیارے، جرمنی اور برطانیہ کی مشترکہ پیداوارParnavia Tornedos کے 100 طیارے اور فرانس کے درجنوں Airbus A330 MRTT طیارے ہیں، سعودی فضائیہ کے پاس امریکی ہیلی کاپٹر اپاچی اور ایواکس بھی ہیں۔
پاناویا ٹارنیڈوز(PANAVIA TORNEDOS) برطانیہ اور جرمنی کی مشترکہ کمپنی پانا ویا ائیر کرافٹ جی ایم بی ایچ تیار کرتی ہے، ایف 15 ایگل’’ امریکی کمپنی میک ڈونیل ڈگلس‘‘ تیار کرتی ہے، یہ کمپنی دو کمپنیوں میک ڈونیل ائیر کرافٹ اور ڈگلس ائیر کرافٹ کا مشترکہ منصوبہ ہے، کمپنی کے پہلے مینجنگ ڈائریکٹر ڈیوڈ ایس لیوس تھے، یہ کون تھے، آپ اس کا اندازہ ان کے نام سے لگا لیجیے، سعودی عرب کے پاس سیکڑوں کی تعداد میں امریکی ساختہ ٹینک AMX-30,M1Abrams بھی ہیں اور M60Patton بھی۔ اس کے پاس فرانسیسی ساختہ AMX-10P اور برطانوی ساختہ Nexter Aravis اورPanhard M3 آرمرڈ گاڑیاں بھی ہیں، سعودی عرب کا آرٹلری اور میزائل سسٹم بھی برطانوی، امریکی اور چینی ہے۔
آپ انٹرنیٹ پر جائیے اور سعودی عرب سمیت پوری عرب دنیا کا دفاعی نظام دیکھئے، آپ کو اس نظام پر امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی یا چین کا نام ملے گا، یہ حقیقت کیا ثابت کرتی ہے، یہ حقیقت ثابت کرتی ہے ہم آج اپنی مقدس زمینوں کی حفاظت کے لیے بھی ان قوموں کے علم اور ٹیکنالوجی کے محتاج ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا، یہ لوگ تمہارے دوست نہیں ہو سکتے، آپ اگر تھوڑی سی ریسرچ کریں، آپ جنگی جہاز، ہیلی کاپٹر، ٹینک، میزائل، رائفلیں اور دفاعی کمیونیکیشن سسٹم بنانے والی کمپنیوں پر ذرا سی تحقیق کر لیں، آپ اگر یہ دیکھ لیں یہ کمپنیاں کس نے بنائیں، کمپنیوں پر سرمایہ کون لگا رہا ہے۔
ان کے پیچھے بینک، انشورنس کمپنیاں اور اسٹاک ایکسچینج بروکر کون ہیں، یہ ہتھیار، یہ اسلحہ ایجاد کس نے کیا اور یہ اسلحہ بیچنے والی کمپنیاں کون ہیں تو آپ کا سر شرم سے جھک جائے گا، یہ وہ لوگ ہیں جن سے ہم پچھلے ساٹھ برسوں سے اپنا قبلہ اول چھڑوانے کی کوشش کر رہے ہیں یا یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا سے تمام مسلمانوں کو ختم کر دینا چاہتے ہیں مگر ہم یہ جانتے ہوئے، یہ بوجھتے ہوئے بھی اپنے مقدس ترین دعائیہ مقامات کی حفاظت کے لیے ان لوگوں، ان کی کمپنیوں اور ان کے ہتھیاروں کے محتاج ہیں، کیوں؟ کیونکہ یہ لوگ، یہ قومیں علم، ٹیکنالوجی اور معیشت میں ہم سے بہت آگے ہیں۔
اتنے آگے کہ ہمیں حجاز مقدس کی حفاظت کے لیے بھی ان کے جہازوں، ان کے ٹینکوں، ان کے میزائل اور ان کے ہیلی کاپٹروں کی ضرورت ہے، ہم ان دشمنوں جن کے بارے میں اللہ نے فرمایا یہ تمہارے دوست نہیں ہو سکتے ہم ان کے ہتھیاروں کے بغیر اپنی حفاظت نہیں کر سکتے، کیا یہ اس رسولؐ کی قوم کے لیے ڈوب مرنے کا مقام نہیں جن کے گھر میں کھانے کے لیے ایک کھجور نہیں ہوتی تھی لیکن دیوار پر 9 تلواریں اور 7 زرہیں لٹک رہی ہوتی تھیں، جو اس قدر پریکٹیکل تھے کہ زندگی میں 27 غزوات میں خود شریک ہوئے، جو تاجر بھی تھے، معلم بھی تھے اور مبلغ بھی تھے۔
جنہوں نے زندگی میں ایک لمحہ ضایع نہیں کیا، جو گھوڑے سے اترتے تھے تو صفہ کے اصحاب کو پڑھانے لگتے تھے، وہاں سے فارغ ہوتے تھے تو بیماروں کی عیادت کرتے تھے، وہاں سے نکلتے تھے تو بازاروں میں تاجروں کے مسائل سنتے تھے، وہاں سے نکلتے تھے تو مسجد آ جاتے تھے،جو رات کے وقت اہل خانہ کی تربیت فرماتے تھے اور اگر پھر بھی وقت بچ جاتا تو وہ اپنے جوتے گانٹھ لیتے تھے، اپنا بستر ٹھیک کر لیتے تھے، اپنے جانوروں کے لیے رسیاں بنا لیتے تھے، جو پہلے 313 کا لشکر بناتے تھے، لشکر کو بدر کے میدان میں لاتے تھے اور پھر اللہ سے نصرت کی دعا کرتے تھے۔
جنہوں نے پوری زندگی پہلے عمل کیا اور پھر اللہ سے دعا کی لیکن ہم علم اور عمل کے بغیر دعا کے ذریعے اپنے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں، یہ کیسے ممکن ہے؟ یہ درست ہے شفاء کے لیے دعا چاہیے لیکن دوا بھی تو ضروری ہے، ہم نے دوا جیسی ضرورت تو ٹام، ڈک اور ہنری پر چھوڑ دی اور خود جائے نماز بچھا کر دعاؤں میں مصروف ہیں، ہم حجاز مقدس کی حفاظت کے لیے جہاز، ٹینک، توپیں اور مواصلاتی نظام اللہ کے ان دشمنوں سے لے رہے ہیں جن کے خلاف اللہ نے اسلام اتارا تھا اور نصرت کی اپیل اللہ تعالیٰ سے کر رہے ہیں، ہم دنیا کو ہدایت کے لیے سعودی عرب بلاتے ہیں لیکن سعودی عرب اپنی حفاظت کے لیے امریکی، برطانوی، فرانسیسی اور جرمن اسلحہ خریدتا ہے اور پھر ترکی اور پاکستان سے فوج مانگتا ہے۔
خدا کے لیے جاگ جائیے، ہم نے ہزار سال غلامی میں گزار دیے ہیں، ہم ہزار سال سے علم والوں، عمل والوں اور مضبوط دفاع والوں کی غلامی کر رہے ہیں، ہماری حالت یہ تھی پانچ سو گورے رائفلیں لے کر ہندوستان آئے اور پانچ سو رائفلوں کے ذریعے 25 کروڑ لوگوں کو غلام بنا لیا، چنگیز خان کے پاس دو دفاعی تکنیکس تھیں، تاتاری فوجی دوڑتے گھوڑے کی پیٹھ سے تیر چلانے کا فن جانتے تھے، یہ مہینے کا سفر دس دن میں بھی طے کرلیتے تھے اور انھوں نے ان دو تکنیکس کے ذریعے پوری اسلامی دنیا کو کھوپڑیوں کا مینار بنا دیا، برطانیہ نے فرانس اور روس کو ساتھ ملایا اور 600 سال پرانی عثمانی خلافت کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔
فرڈی نینڈ معیشت کو ہتھیار بناتا ہے اور ہمیں کان سے پکڑ کر اسپین سے نکال دیتا ہے اور ہمارا بادشاہ مراکش میں بھیک مانگتا مانگتا مر جاتا ہے، ہم ہزار سال سے آکسفورڈ اور کیمبرج کی علمی غلامی بھی کر رہے ہیں، ہم دو سو سال سے ہارورڈ کے غلام بھی ہیں، ہم معیشت میں بھی عیسائی، یہودی اور چینی کمپنیوں کے غلام ہیں اور ہم امن، سکون اور انصاف کے لیے بھی یورپ کی وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں اور کبھی امریکا اور کینیڈا کی شہریت مانگتے ہیں۔
خدا کے لیے جاگ جائیے، اللہ کے نظام میں پہلے علم آتا ہے، پھر عمل کی باری آتی ہے اور پھر دعا کے لیے ہاتھ اٹھتے ہیں، دعا سے پہلے عمل کریں، علم حاصل کریں ورنہ ہمیں اسی طرح کعبہ کی حفاظت کے لیے مسٹر میک ڈونیل، مسٹر ڈگلس اور مسٹر ڈیوڈ کی منتیں کرنا پڑیں گی، ہم اسی طرح ہاتھ باندھ کر کھڑے رہیں گے اور دنیا ہمیں جوتے مارتی رہے گی۔
کیا ڈاکٹر برق واقعی نادم تھے؟
جاوید چوہدری منگل 28 اپريل 2015

آپ ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی زندگی اور ان کے علمی کام کا جائزہ لیجیے، آپ کی زیادہ تر کنفیوژن ختم ہو جائے گی، باقی کنفیوژن کے خاتمے کے لیے میری خدمات حاضر ہیں، ڈاکٹر برق1901ء میں پیدا ہوئے، خاندان مذہبی بھی تھا اور سید بھی۔
ڈاکٹر صاحب کا شمار اسلامی دنیا کے ان چند اسکالرز میں ہوتا ہے جو مدارس سے نکل کر یونیورسٹی تک پہنچے، وہ عربی زبان میں گولڈ میڈلسٹ تھے اور انگریزی زبان پر اس قدر دسترس رکھتے تھے کہ اپنا تھیسس انگریزی میں لکھا اور آکسفورڈ اور ہارورڈ یونیورسٹی نے پاکستان بننے سے سات سال قبل یعنی 1940ء میں ان کی پی ایچ ڈی کی ڈگری کی تصدیق کی، وہ پاکستان بننے سے قبل ان بیس عالموں میں شمار ہوتے تھے جن کے پاس پی ایچ ڈی کی ڈگری تھی، ڈاکٹر صاحب نے زندگی میں 17 کتابیں اور سیکڑوں مضامین لکھے۔
’’دو اسلام‘‘ ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی پہلی تحقیقی کتاب تھی، یہ کتاب 1949ء میں شایع ہوئی، یہ کتاب اسلامی تاریخ میں طویل مدت بعد نئی تحقیق کی شکل میں سامنے آئی، وہ عالموں کا زمانہ تھا، اس زمانے میں ’’دو اسلام‘‘ کے بارے میں دو آراء سامنے آئیں، علماء کرام ، صوفیاء کرام اور پڑھے لکھے طبقے نے کتاب کو بے انتہا پسند کیا جب کہ مولوی حضرات، ملاؤں اور جعلی پیروں کی طرف سے اس پر شدید نقطہ چینی ہوئی لیکن اس تنقید کے باوجود یہ کتاب مسلسل شایع ہوتی رہی، ڈاکٹر صاحب کی دوسری تصنیف ’’دو قرآن‘‘ تھی، یہ کتاب 1942ء میں برصغیر کے مشہور دینی اور علمی جریدے ’’ البینان‘‘ میں قسط وار شایع ہوئی۔
’’دو قرآن‘‘ کی اقساط 14 ماہ تک جاری رہیں، یہ اقساط بعد ازاں کتاب کی شکل میں شایع ہوئیں،ڈاکٹر صاحب کی تیسری تصنیف ’’ایک اسلام‘‘ تھی، یہ کتاب 1952ء میں شایع ہوئی، آپ اگر دو اسلام، دو قرآن اور ایک اسلام کے بارے میں تحقیق کریں تو یہ تینوں کتابیں 1940ء سے لے کر 1952ء کے دوران لکھی گئیں اور یہ شایع ہوئیں، یہ تینوں کتابیں اسلام کے علمی پہلو پر مبنی تھیں، یہ انسان کو کام پر راغب کرتی تھیں، یہ مسلمانوں کو اللہ کی فلاسفی بتاتی تھیں۔
ان کتب کا مرکزی نقطہ عمل، کام، سعی اور تحقیق تھا، ڈاکٹر صاحب اہل ایمان کو یہ بتانا چاہتے تھے یہ دنیا اس کی ہے جو محنت کرے گا، آپ کو کھیتوں سے لے کر فیکٹریوں تک اور اسکولوں سے لے کر لیبارٹری تک دن رات ایک کرنا ہو گا، آپ تب جا کر زندگی میں آرام اور آسائش پا سکیں گے، اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا رب ہے، یہ ٹام کا بھی اتنا ہی خدا ہے جتنا یہ عبدالرحمن کا ہے، اللہ محنت پسند کرتا ہے، یہ محنت کرنے والوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا، لوئی پاسچر ہو، نیوٹن ہو، مادام کیوری ہو یا آئن سٹائن ہو یا پھر الخوارزمی، بو علی سینا اور امام غزالی ہوں دنیا میں جو محنت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے نوازے گا۔
ڈاکٹر صاحب چاہتے تھے مسلمان خانقاہوں تک محدود نہ ہوں، یہ وظائف کے ذریعے دنیا مسخر کرنے کی کوشش بھی نہ کریں،یہ محنت کریں، علم حاصل کریں اور اپنی دنیا آپ پیدا کریں، ڈاکٹر صاحب تاریخ اسلام کے نباض تھے، وہ سمجھتے تھے غیر مسلموں کے ہاتھوں مسلمانوں کی 128 ریاستیں تباہ ہوئیں، چنگیز خان، ہلاکو خان اور فرڈی نینڈ نے مسلمانوں کی ایسی ایسی لائبریریاں جلا کر راکھ بنا دیں جن میں صحابہؓ کے ہاتھوں سے لکھے قرآن مجید اور اماموں کے ہاتھوں سے تحریر احادیث کے نسخے تھے،عیسائیوں نے مسجد قرطبہ کو چرچ بنا دیا، ہلاکو خان نے مساجد میں گھوڑے باندھے لیکن مسلمانوں کی مدد کے لیے آندھیاں آئیں۔
زلزلے اترے اور نہ ہی دشمن کا راستہ روکنے کے لیے سیلاب بھجوائے گئے، ہلاکو خان، چنگیز خان اور فرڈی نینڈ کا دور قطب اور ابدال کا زمانہ تھا، آپ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ،حضرت داتا گنج بخش ؒ ،حضرت معین الدین چشتی ؒاجمیری اور حضرت نظام الدین اولیاءؒ کا زمانہ نکالیں، ان عظیم روحانی شخصیات کے مقابر اس وقت شاد اور آباد تھے، ہلاکو خان نے فروری1258ء میں بغداد پر حملہ کیا، اس وقت حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کے مزار پر سیکڑوں زندہ پیر موجود تھے لیکن مسلمان تمام تر برکات کے باوجود سقوط بغداد سے بچ سکے۔
خوارزم کی ریاست بچا سکے اور نہ ہی ہندوستان کو ان ظالم حملہ آوروں سے بچا سکے جنہوں نے لاہور سے لے کر دلی تک مسلمانوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، ہم مسلمان اپنی تمام تر روحانی قوت کے باوجود انگریزوں سے ہندوستان بچا سکے، غرناطہ اور نہ ہی خلافت عثمانیہ، ہم ساڑھے 13 سو سال مار کھاتے رہے، ڈاکٹر صاحب کا خیال تھا مسلمانوں کو اسلام کا اصل پیغام سمجھنا ہوگا، انھیں علم، دفاع اور معیشت تینوں پر توجہ دینی چاہیے، انھیں دعا سے قبل کھیت میں ہل جوتنا ہو گا، زمین میں بیج بونا ہو گا اور کھیت کو پانی دینا ہو گا ورنہ دوسری صورت میں صرف دعا سے فصل نہیں اگ سکے گی۔
ڈاکٹر غلام جیلانی برق کا یہ پیغام ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے اجنبی تھا، ہم ہندوستانی مسلمانوں کو ایک طویل عمل کے ذریعے عملی اسلام سے دور کر دیا گیا تھا اور ہم نے یقین کر لیا تھا اللہ نے دنیا غیر مسلموں اور آخرت مسلمانوں کے لیے وقف کر دی ہے اور ہم اگر آخرت میں سرفراز ہونا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں دنیا میں رسوا ہونا پڑے گا۔
ہمارے ذہن میں یہ راسخ کر دیا گیا تھا یہ دنیا دنیاوی کتوں کے لیے ہے چنانچہ ہم نے دفاع، علم، تحقیق، انڈسٹری اور معیشت دنیاوی کتوں پر چھوڑ دی اور اپنے لیے ان کتوں کی غلامی پسند کر لی یوں دنیاوی کتے اہل ایمان کے حکمران بن گئے، دنیا مسائل کا حل تلاش کرتی رہی، یہ اینٹی بائیوٹک، گاڑیاں، جہاز، کیڑے مار ادویات اور میزائل بناتی رہی اور ہم وظائف، پھونکوں اور تعویذوں کے ذریعے دشمنوں کی توپوں میں کیڑے پڑنے کا انتظار کرتے رہے، ہمیں یقین دلا دیاگیا تھا، تم صرف عبادت کرو، وظائف اور پھونکیں مارو اور غیروں کو کام کرنے دو چنانچہ پورا عالم اسلام دنیاوی کتوں کا غلام ہو کر رہ گیا۔
ہم نے اپنی غلامی کو امر ربی بھی بنا لیا تھا، ہم اسے اللہ کا حکم سمجھ کر چپ چاپ بیٹھ گئے تھے،ہم نے اپنے زوال، اپنی غربت اور اپنی مصیبتوں کو روحانیت کی شکل بھی دے دی تھی، ڈاکٹر صاحب کی سوچ سمجھوتے کی غلامی کے جوہڑ میں بھاری بھرکم پتھر ثابت ہوئی اور ملک پاکستان میں ان پر اعتراضات شروع ہوگئے، لوگوں نے دعویٰ کیا ’’ڈاکٹر غلام جیلانی برق روحانیت کے خلاف ہیں، یہ احادیث کو بھی تسلیم نہیں کرتے‘‘ یہ پروپیگنڈا غلط تھا کیونکہ ڈاکٹر صاحب نے زندگی کا بڑا حصہ احادیث پر صرف کیا تھا، یہ سید زادے بھی تھے۔
ان کے والد کا نام محمد قاسم شاہ تھا، یہ گاؤں لسبال میں امام مسجد بھی تھے اور یہ بیعت بھی کرتے تھے، ڈاکٹر صاحب نے1960ء میں روحانیت کی مخالفت کا داغ دھونے کے لیے ’’من کی دنیا‘‘ لکھی، یہ کتاب روحانیت کے بارے میں تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے’’من کی دنیا‘‘ میں ان مغربی علماء اور اسکالرز کے حوالے دیے جو مسلمان نہیں تھے لیکن اس کے باوجود اسلام کی روحانیت سے اتفاق کرتے تھے، یہ کتاب 1960ء میں شایع ہوئی۔
آپ اب ڈاکٹر غلام جیلانی برق کے کام کا جائزہ لیجیے، ’’دو اسلام‘‘ 1949ء میں شایع ہوئی۔ ’’دو قرآن‘‘ 1942ء میں البینان میں شایع ہونے لگی۔ ’’ایک اسلام‘‘ 1952ء میں شایع ہوئی اور ’’من کی دنیا‘‘ 1960ء میں سامنے آئی، ڈاکٹر غلام جیلانی برق 12 مارچ 1985ء تک حیات رہے، ڈاکٹر صاحب 1960ء کے بعد 1985ء تک 25 سال حیات رہے، اس عرصے میں انھوں نے سیکڑوں صفحات پر مشتمل مضامین اور دس کے قریب کتابیں لکھیں، ڈاکٹر صاحب کے انتقال تک ان کی چاروں کتب شایع ہوتی رہیں۔
ڈاکٹر صاحب کی حیات میں ’’دو اسلام‘‘ کا آخری ایڈیشن 1981ء میں شایع ہوا لیکن ڈاکٹر صاحب نے انتقال تک اپنی کسی تحریر، اپنے کسی انٹرویو میں یہ نہیں فرمایا ’’ میں اپنی سابق کتابوں پر نادم ہوں یا میرا سارا کام دور جاہلیت میں لکھا گیا‘‘ میں چیلنج کرتا ہوں آپ ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی کتاب ’’ من کی دنیا،، یا ان کی 1985ء تک کی تحریروں سے مجھے وہ فقرہ یا نوٹ نکال کر دکھا دیجیے جس میں انھوں نے ’’دواسلام‘‘ ’’دو قرآن‘‘ اور ’’ایک اسلام‘‘ پر ندامت کا اظہار کیا ہو یا اسے اپنے دور جاہلیت کا کام قرار دیا ہو۔
ہم ایک لمحے کے لیے یہ فرض بھی کر لیں ڈاکٹر غلام جیلانی برق 1960ء میں ’’من کی دنیا‘‘ لکھتے وقت اپنی ماضی کی کتب پر نادم ہو گئے تھے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے ڈاکٹر صاحب نے من کی دنیا میں اس کا اعتراف کیوں نہیں کیا؟ یہ 1981ء تک اپنی دور جاہلیت کی پیداوار کو شایع کیوں کرواتے رہے؟ ڈاکٹر صاحب اپنے پبلشر کو ایک خط لکھ دیتے اور کتابوں کی اشاعت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جاتی۔
ڈاکٹر صاحب اپنے کسی مضمون میں اعتراف جرم کر لیتے۔ یہ اپنی آٹو بائیوگرافی ’’میری داستان حیات‘‘ ہی میں اپنی ’’جہالت‘‘ کا اعتراف کر لیتے یا اپنے کام، اپنی تحقیق پر عالم اسلام سے معذرت کر لیتے تو آج صورتحال مختلف ہوتی مگر ڈاکٹر صاحب نے ’’من کی دنیا‘‘ سے لے کر اپنے آخری مضمون تک کسی جگہ یہ اعتراف نہیں کیا، یہ آخری وقت تک اپنی کتابیں بھی شایع کراتے رہے اور ان کتب کی رائلٹی بھی وصول کرتے رہے لیکن میرے دوست کو اچانک کشف ہوا۔
ڈاکٹر صاحب 1960ء میں اپنے 1949، 1950 اور 1952ء کے کام پر نادم تھے یا یہ عمر عزیز کے آخر میں اپنے اس کام کو ’’دور جاہلیت‘‘ کا کارنامہ قرار دیتے تھے جس نے لسبال کے مولوی غلام جیلانی کو عالم اسلام کا عظیم اسکالر ڈاکٹر غلام جیلانی برق بنایا، ایسا اسکالر جس کی محفل میں مولانا مودودی سے لے کر ڈاکٹر باقر، ڈاکٹر عبداللہ، شورش کاشمیری، پروفیسر اشفاق علی خان، جنرل عبدالعلی ملک، مولانا زاہد الحسینی، پروفیسر ڈاکٹر اجمل، ڈاکٹر حمید اللہ، پروفیسر سعادت علی خان، عنایت الٰہی، مولانا عبدالماجد دریا آبادی، حفیظ جالندھری، طفیل ہوشیار پوری، جنرل شیریں دل خان نیازی، پروفیسر سعداللہ کلیم، صوفی غلام مصطفی تبسم، شیخ عبدالحکیم، کرنل محمد خان، جنرل شوکت، جنرل شفیق الرحمن، احمد ندیم قاسمی اور جسٹس کیانی جیسے علماء، ادباء اور استاد بیٹھتے تھے، یہ محفلیں بھی ڈاکٹر صاحب کی آخری سانس تک جاری رہیں۔
یہ بڑے لوگ تھے اور ڈاکٹر صاحب نے ان میں سے بھی کسی کے سامنے اپنے ’’دور جاہلیت‘‘ کے کام پر ندامت کا اظہار نہیں کیا، پھر میرے دوست کو کیسے معلوم ہو گیا؟ میرا خیال ہے یہ میرے دوست کی روحانی طاقت ہے جس نے عالم ارواح میں جھانک کر معلوم کر لیا 1985ء میں انتقال فرمانے والے ڈاکٹر غلام جیلانی برق اپنے کام پر نادم ہیں۔
میری اپنے دوست سے درخواست ہے آپ اب مہربانی فرما کر علامہ اقبالؒ کی روح سے بھی رابطہ کریں، ہو سکتا ہے علامہ صاحب بھی’’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ جیسے ترانے پر کف افسوس مل رہے ہوں، آپ اپنی روحانیت کے ذریعے قوم کو گوادر کاشغر روٹ پر قائداعظم کی رائے سے بھی مطلع فرما دیں تا کہ قوم بانی پاکستان کے تازہ ترین خیالات سے مستفید ہو جائے اور اگر ہو سکے تو ملکہ سبا کو بھی اطلاع کر دیں آپ کے یمن پر حوثیوں کا قبضہ ہو چکا ہے۔
’’دو اسلام‘‘
جاوید چوہدری اتوار 26 اپريل 2015

ڈاکٹر غلام جیلانی برق برصغیر کا عظیم دماغ تھے‘ یہ 1901ء میں اٹک میں پیدا ہوئے‘ والد گاؤں کی مسجد کے امام تھے‘ ڈاکٹر صاحب نے ابتدائی تعلیم مدارس میں حاصل کی‘ مولوی فاضل ہوئے‘ منشی فاضل ہوئے اور ادیب فاضل ہوئے‘ میٹرک کیا اور میٹرک کے بعد اسلامی اور مغربی دونوں تعلیمات حاصل کیں۔
عربی میں گولڈ میڈل لیا‘ فارسی میں ایم اے کیا اور 1940 میں پی ایچ ڈی کی‘ امام ابن تیمیہ پر انگریزی زبان میں تھیسس لکھا‘ امامت سے عملی زندگی شروع کی‘ پھر کالج میں پروفیسر ہو گئے‘ آپ کے تھیسس کو آکسفورڈ اور ہارورڈ یونیورسٹی نے قبولیت بخشی‘ اسلام پر ریسرچ شروع کی‘ 1949ء میں پاکستان کی تشکیل سے دو سال بعد ’’دو اسلام‘‘ کے نام سے معرکۃ الآراء کتاب لکھی اور پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔
یہ کتاب‘ کتاب نہیں تھی ایک عالمی انقلاب تھا۔ ’’دو اسلام‘‘ کے بعد ’’قرآن‘‘ اور ’’من کی دنیا‘‘ لکھی اور اسلامی دنیا کے پیاسے ذہنوں کو سیراب کر دیا‘ میں جب بھی ’’دو اسلام‘‘ اور ’’دو قرآن پڑھتا ہوں اور آج کے پاکستان کی عدم برداشت‘ مذہبی تشدد اور مکالمے کا قبرستان دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں ماضی کا پاکستان دانش‘ برداشت‘ علم اور مکالمے میں آج کے پاکستان سے کتنا آگے تھا تو میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔
ڈاکٹر غلام جیلانی برق اور ان کا پاکستان کس قدر بالغ تھا آپ یہ جاننے کے لیے ’’دو اسلام‘‘ کا صرف ابتدائیہ ملاحظہ کیجیے ‘ میں اس ابتدائیہ کو چند جگہوں سے ایڈٹ کر رہا ہوں کیونکہ آج کا مسلمان ڈاکٹر برق کے مسلمانوں سے بہت پیچھے ہے‘ ڈاکٹر صاحب جیسے دانشوروں اور مسلم اسکالرز کی باتیں صرف ماضی میں ہی لکھی اور بیان کی جا سکتی تھیں‘ ہم لوگ آج ان کا تصور تک نہیں کر سکتے‘ کیوں؟ کیونکہ آج کے مسلمان میں سب کچھ ہے اگر نہیں ہے تو اسلام نہیں۔
یہ 1918 ء کا ذکر ہے‘میں والد صاحب کے ساتھ امرتسر گیا‘ میں چھوٹے سے گاؤں کا رہنے والا ، جہاں نہ بلند عمارات، نہ مصفا سڑکیں، نہ کاریں، نہ بجلی کے قمقمے اور نہ اس وضع کی دکانیں‘ دیکھ کر دنگ رہ گیا‘ لاکھوں کے سامان سے سجی دکانیں اور بورڈ پر کہیں رام بھیجا سنت رام لکھا تھا‘ کہیں دْنی چند اگروال‘ کہیں سنت سنگھ سبل اور کہیں شادی لال فقیر چند۔ ہال بازار کے اس سرے سے اس سرے تک کسی مسلمان کی کوئی دکان نظر نہیں آئی‘ ہاں مسلمان ضرور نظر آئے‘ کوئی بوجھ اٹھا رہا تھا۔
کوئی گدھے لاد رہا تھا‘ کوئی کسی ٹال پہ لکڑیاں چیر رہا تھا اور کوئی بھیک مانگ رہا تھا‘ غیر مسلم کاروں اور فٹنوں پر جا رہے تھے اور مسلمان اڑھائی من بوجھ کے نیچے دبا ہوا مشکل سے قدم اٹھا رہا تھا۔ ہندوؤں کے چہرے پر رونق‘ بشاشت اور چمک تھی اور مسلمان کا چہرہ فاقہ‘ مشقت‘ فکر اور جھریوں کی وجہ سے افسردہ و مسخ ۔ میں نے والد صاحب سے پوچھا !کیا مسلمان ہر جگہ اسی طرح زندگی بسر کر رہے ہیں؟والد صاحب: ہاں !میں نے عرض کیا‘ اللہ نے مسلمان کو بھی ہندو کی طرح دو ہاتھ، دو پاؤں اور ایک سر عطا کیا ہے تو پھر کیا وجہ ہے ہندو تو زندگی کے مزے لوٹ رہا ہے اور مسلمان ہر جگہ حیوان سے بدتر زندگی بسر کر رہا ہے۔
والد صاحب: یہ دنیا مردار سے زیادہ نجس ہے اور اس کے متلاشی کتوں سے زیادہ ناپاک ہیں۔ اللہ نے یہ مردار ہندوؤں کے حوالے کر دیا ہے اور جنت ہمیں دے دی ہے‘ کہو کون فائدے میں رہا ؟ ہم یا وہ؟ میں بولا ’’اگر دنیا واقعی مردار ہے تو پھر آپ تجارت کیوں کرتے ہیں اور مال تجارت خریدنے کے لیے امرتسر تک کیوں آئے ؟ ایک طرف دنیاوی ساز و سامان خرید کر منافع کمانا اور دوسری طرف اسے مردار قرار دینا ، عجیب قسم کی منطق ہے‘‘ والد صاحب: بیٹا ! بزرگوں سے بحث کرنا سعادت مندی نہیں‘ جو کچھ میں نے تمہیں بتایا ہے وہ ایک حدیث کا ترجمہ ہے۔حدیث کا نام سن کر میں ڈر گیا اور بحث بند کر دی‘ سفر سے واپس آ کر میں نے گاؤں کے مْلا سے اپنے شبہات کا اظہار کیا۔
اس نے بھی وہی جواب دیا‘ میرے دل میں اس معمے کو حل کرنے کی تڑپ پیدا ہوئی لیکن میرے قلب و نظر پہ تقلید کے پہرے بیٹھے تھے‘ علم کم تھا اور فہم محدود۔ اس لیے معاملہ الجھتا گیا‘میں مسلسل چودہ برس تک حصول علم کے لیے مختلف علماء و صوفیاء کے ہاں رہا‘ درس نظامی کی تکمیل کی‘ سیکڑوں واعظین کے واعظ سنے‘ بیسیوں دینی کتابیں پڑھیں اور بالآخر مجھے یقین ہو گیا کہ اسلام رائج کا ما حاصل یہ ہے۔
توحید کا اقرار اور صلوٰۃ‘ زکوٰۃ‘ صوم اور حج کی بجا آوری‘ اذان کے بعد ادب سے کلمہ شریف پڑھنا‘جمعرات‘ چہلم‘ گیارہویں وغیرہ کو باقاعدگی سے ادا کرنا‘ قرآن کی عبارت پڑھنا‘ اللہ کے ذکر کو سب سے بڑا عمل سمجھنا‘ قرآن اور درود کے ختم کرانا‘ حق ہو کے ورد کرنا‘ مرشد کی بیعت کرنا‘ مرادیں مانگنا‘ مزاروں پر سجدے کرنا‘ سڑکوں اور بازاروں میں سب کے سامنے ڈھیلا کرنا‘ تعویذوں کو مشکل کشا سمجھنا‘کسی بیماری یا مصیبت سے نجات کے لیے مولوی جی کی دعوت کرنا‘گناہ بخشوانے کے لیے قوالی سننا‘ غیر مسلم کو ناپاک و نجس سمجھنا‘طبیعیات ، ریاضیات، اقتصادیات ، تعمیرات وغیرہ کو کفر خیال کرنا‘غور و فکر اور اجتہاد و استنباط کو گناہ قرار دینا‘ صرف کلمہ پڑھ کر بہشت میں پہنچ جانااور ہر مشکل کا علاج عمل اور محنت کی بجائے دعاؤں سے کرنا ۔میں علمائے کرام کے فیض سے جب تعلیمات اسلامی پر پوری طرح حاوی ہو گیا تو یہ حقیقت واضح ہوئی خدا ہمارا‘ رسول ہمارا‘ فرشتے ہمارے‘ جنت ہماری‘ حوریں ہماری‘ زمین ہماری‘ آسمان ہمارا الغرض سب کچھ کے مالک ہم ہیں اور باقی قومیں اس دنیا میں جھک مارنے آئی ہیں۔
ان کی دولت‘، عیش اور تنعم محض چند روزہ ہے۔ وہ بہت جلد جہنم کے پست ترین طبقے میں اوندھے پھینک دیے جائیں گے اور ہم کمخواب و زربفت کے سوٹ پہن کر سرمدی بہاروں میں حوروں کے ساتھ مزے لوٹیں گے۔
’’زمانہ گزرتا گیا‘انگریزی پڑھنے کے بعد علوم جدیدہ کا مطالعہ کیا‘ قلب و نظر میں وسعت پیدا ہوئی‘ اقوام و ملل کی تاریخ پڑھی تو معلوم ہوا مسلمانوں کی 128 سلطنتیں مٹ چکی ہیں‘ حیرت ہوئی کہ جب اللہ ہمارا اور صرف ہمارا تھا تو اس نے خلافت عباسیہ کا وارث ہلاکو جیسے کافر کو کیوں بنایا؟ ہسپانیہ کے اسلامی تخت پہ فرونیاں کو کیوں بٹھایا؟ مغلیہ کا تاج الزبتھ کے سر پر کیوں رکھ دیا؟ بلغاریہ‘ ہنگری‘ رومانیہ‘ سرویا‘ پولینڈ‘ کریمیا‘ یوکرائین‘ یونان اور بلغراد سے ہمارے آثار کیوں مٹا دیے؟ ہمیں فرانس سے بیک بینی دو گوش کیوں نکالا اور تیونس، مراکو‘ الجزائر اور لیبیا سے ہمیں کیوں رخصت کیا؟ میں رفع حیرت کے لیے مختلف علماء کے پاس گیا لیکن کامیابی نہ ہوئی۔
میں نے اس مسئلے پر پانچ سات برس تک غور و فکر کیا لیکن کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا‘ میںایک دن سحر کو بیدار ہوا‘ طاق میں قرآن شریف رکھا تھا‘ میں نے اٹھایا ، کھولا اور پہلی آیت جو سامنے آئی وہ یہ تھی‘ (ترجمہ) کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے ہم ان سے پہلے کتنی اقوام کو تباہ کر چکے ہیں‘ ہم نے انھیں وہ شان و شوکت عطا کی تھی جو تمہیں نصیب نہیں ہوئی۔
ہم ان کے کھیتوں پر چھما چھم بارشیں برساتے تھے اور ان کے باغات میں شفاف پانی کی نہریں بہتی تھیں لیکن جب انھوں نے ہماری راہیں چھوڑ دیں تو ہم نے انھیں تباہ کر دیا اور ان کا وارث کسی اور قوم کو بنا دیا‘‘۔میری آنکھیں کھل گئیں‘ اندھی تقلید کی وہ تاریک گھٹائیں جو دماغی ماحول پر محیط تھیں یک بیک چھٹنے لگیں اور اللہ کی سنت جاریہ کے تمام گوشے بے حجاب ہونے لگے۔ میں نے قرآن میں جا بجا یہ لکھا دیکھا ’’یہ دنیا دار العمل ہے‘ یہاں صرف عمل سے بیڑے پار ہوتے ہیں‘ ہر عمل کی جزا و سزا مقرر ہے جسے نہ کوئی دعا ٹال سکتی ہے اور نہ دوا‘‘۔
’’لیس للانسان الا ماسعی ۔ انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے (القرآن)۔ میں سارا قرآن مجید پڑھ گیا اور کہیں بھی محض دعا یا تعویذ کا کوئی صلہ نہ دیکھا‘ کہیں بھی زبانی خوشامد کا اجر زمردیں محلات‘ حوروں اور حجوں کی شکل میں نہ پایا‘ یہاں میرے کانوں نے صرف تلوار کی جھنکار سنی اور میری آنکھوں نے غازیوں کے وہ جھرمٹ دیکھے جو شہادت کی لازوال دولت حاصل کرنے کے لیے جنگ کے بھڑکتے شعلوں میں کود رہے تھے۔
وہ دیوانے دیکھے جو عزم و ہمت کا علم ہاتھ میں لیے معانی حیات کی طرف باانداز طوفان بڑھ رہے تھے اور وہ پروانے دیکھے جو کسی کے جمالِ جاں افروز پہ رہ رہ کے قربان ہو رہے تھے۔قرآن مجید کے مطالعے کے بعد مجھے یقین ہو گیا مسلمان ہر جگہ محض اس لیے ذلیل ہو رہا ہے کہ اس نے قرآن کے عمل، محنت اور ہیبت والے اسلام کو ترک کر رکھا ہے۔ وہ اوراد و اوعیہ کے نشے میں مست ہے اور اس کی زندگی کا تمام سرمایہ چند دعائیں اور چند تعویذ ہیں اور بس۔ اور ساتھ ہی یقین ہو گیا کہ اسلام دو ہیں‘ ایک قرآن کا اسلام جس کی طرف اللہ بلا رہا ہے اور دوسرا وہ اسلام جس کی تبلیغ ہمارے اسّی لاکھ مْلاقلم اورپھیپھڑوںکاسارازورلگا کر کر رہے ہیں‘‘۔
برق کیمبل پور۔25 ستمبر 1949ء
اسلامی جمہوریہ چین
جاوید چوہدری جمعـء 24 اپريل 2015

آپ کو چین سے ڈیل کرنے کے لیے چینی کریکٹر کو سمجھنا ہو گا، چین کا کریکٹر چار اصولوں پر استوار ہے، برداشت، تسلسل، خود انحصاری اور عاجزی، یہ چاروں خوبیاں چین کے بانی ماؤزے تنگ میں بھی موجود تھیں۔
آپ ماؤزے تنگ کی برداشت ملاحظہ کیجیے،دنیا کا بہادر سے بہادر ترین انسان بھی اکلوتی اولادکی موت پر آنسو، خارش کے وقت ہاتھ اور لطیفے کے وقت قہقہہ کنٹرول نہیں کر سکتالیکن چین کے بانی ماؤزے تنگ کو ان تینوں پر کنٹرول تھا، کوریا کے ساتھ جنگ ہوئی، ماؤ نے اپنا اکلوتا بیٹا جنگ میں بھجوا دیا، بیٹے کی نعش واپس آئی، یہ کہہ کر رونے سے انکار کر دیا ’’میں اس غم میں اکیلا نہیں ہوں، میرے جیسے ہزاروں والدین کے بچے اس جنگ میں مارے گئے ، میں پہلے ان کے آنسو پونچھوں گا‘‘ ماؤ نے اسّی سال کی عمرمیں سردیوں کی یخ رات میں اعلان کر دیا میں دریائے شنگھائی تیر کر عبور کروں گا۔
سارا شہر جنوری کی اس رات دریا کے کنارے اکٹھا ہو گیا، بابا جی پل پر پہنچے، کپڑے اتارے اور منجمد دریا میں چھلانگ لگا دی، تیر کر دوسرے کنارے پہنچے اور وہاں سے تیرتے ہوئے واپس لوٹے۔ لوگ حیران رہ گئے، ماؤ کو انگریزی زبان پر عبور تھا، مغرب میں چھپنے والی ہر اچھی کتاب منگوا کر پڑھتے تھے، رچرڈ نکسن1972ء میں ماؤزے تنگ سے ملنے گئے تو ماؤ نے انھیں ان کی کتابیں دکھائیں، نکسن یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کیونکہ ماؤزے تنگ نے نا صرف ان کی کتابیں پڑھ رکھی تھیں بلکہ اوراق پر ’’فٹ نوٹس‘‘ بھی تھے اور بعض جگہوں پر سوالیہ نشان بھی لیکن اس تمام تر انگریزی دانی کے باوجود ماؤزے تنگ نے پوری زندگی کسی دوسرے شخص کے سامنے انگریزی کا ایک لفظ نہیں بولا۔
اس کی وجہ چین اور چینی زبان سے محبت تھی، وہ کہتے تھے’’ میں دنیا کو بتانا چاہتا ہوں چین گونگا نہیں ، اس کی ایک زبان ہے اوراگر دنیا ہمارے قریب آنا چاہتی ہے، یہ ہمیں سمجھنا چاہتی ہے تو اسے ہماری زبان سمجھنا اور جاننا ہوگی‘‘۔ ماؤزے تنگ نے پوری زندگی کسی دوسرے ملک کا دورہ نہیں کیا، انھوں نے کبھی کسی دوسری زمین پر پاؤں نہیں رکھا، وہ کہتے تھے میں چین کا لیڈر ہوں، چین میں رہوں گا چنانچہ ان کی جگہ چو این لائی دوسرے ممالک کے دورے کرتے تھے اور آپ برداشت کی انتہا دیکھئے، وہ انگریزی زبان سمجھتے تھے لیکن جب انھیں انگریزی زبان میں کوئی لطیفہ سنایا جاتا تھا وہ خاموش بیٹھے رہتے تھے۔
قہقہہ تو دور، ان کی آنکھوں کا رنگ تک تبدیل نہیںہوتا تھا لیکن جونہی اس لطیفے کا چینی زبان میں ترجمہ کیا جاتا تھا ،وہ کھلکھلا کر ہنستے تھے اور ان کا قہقہہ وہاں موجود تمام لوگوں سے بلند ہوتا تھا ، یہ وہ لیڈر شپ تھی جس نے جنگ، اسلحہ اور فوج کے بغیر چین کو دنیا کی ابھرتی ہوئی سپر پاور بنا دیا، جس نے اپنے ازلی دشمنوں کو ’’میڈ اِن چائنا‘‘ پر مجبور کر دیا لہٰذا آج امریکا کے قومی دن پربھی آتش بازی کا سامان چین سے منگوایا جاتا ہے اور امریکی جھنڈوں اور امریکی سوینیئرز تک کے نیچے ’’میڈ اِن چائنا‘‘ لکھا ہوتا ہے اور آپ دنیا کے کسی کونے میں چلے جائیں۔
آپ مصنوعات کی کسی دکان میں قدم رکھ کر دیکھیں، آپ ’’میڈ اِن چائنا‘‘ سے نہیں بچ سکیں گے، آپ چین کا کمال دیکھئے، چین کی 70 فیصد آبادی لادین ہے لیکن یہ پوری اسلامی دنیا کو تسبیح اور جائے نماز سپلائی کرتی ہے، چین دنیا میں سب سے زیادہ جائے نماز، تسبیحات اور احرام بناتا ہے، یہ کیا ہے؟ یہ سب چین کی اس قیادت کا کمال ہے جس کے پاس پوری زندگی تین جوڑے کپڑے، جوتوں کے دو جوڑے اور ایک سائیکل تھی اور جس نے زندگی کی آخری ساعتیں تین مرلے کے گھر میں گزاری تھیں۔
آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی پاکستان چین کی پہلی کھڑکی تھا، چین کے لوگوں نے پاکستان کے ذریعے دنیا کو دیکھنا شروع کیا ، پی آئی اے پہلی انٹرنیشنل ائیر لائن تھی جس کے جہاز نے چین کی سرزمین کو چھوا، اس لینڈنگ پر پورے چین میں جشن منایا گیا ، پاکستان نے ایوب خان کے دور میں چین کو تین جہاز فروخت کیے ۔
ان میں سے ایک جہاز ماؤزے تنگ استعمال کرتے تھے، اس جہاز پر آج بھی ’’کرٹسی بائی پاکستان‘‘ لکھا ہے۔ پاکستان پہلا ملک تھا جس نے چینی مصنوعات کی امپورٹ کی اجازت دی اور ہم ایک طویل عرصے تک چین کے ریزر اور سوئیاں استعمال کرتے رہے، پاکستان نے چین کے مسلمانوں کو حج اور عمرے کی سہولت بھی دی ۔
چین کے حاجی بسوں کے ذریعے پاکستان پہنچتے تھے اور پاکستان انھیں حجاز مقدس تک پہنچانے کا بندوبست کرتا تھا اور پاکستان کا ویزہ کبھی چین کے لوگوں کی سب سے بڑی خواہش ہوتا تھا لیکن آج وہ چین دنیا میں ترقی کی انتہا کو چھو رہا ہے، یہ چین 46 ارب ڈالر کے منصوبے لے کر پاکستان آتا ہے تو ہم اسے اپنی تاریخ کا اہم ترین واقعہ قرار دیتے ہیں، چین آگے نکل گیا جب کہ ہم اپنے ہی مزار کے مجاور بن کر رہ گئے،ہم نے کبھی چین کی ترقی اور اپنی تنزلی کا جامع تجزیہ نہیں کیا، ہم نے کبھی ان وجوہات کا جائزہ نہیں لیا جن کے باعث چین چین ہو گیا۔
جن کے باعث چین نے چاند تک ’’میڈ اِن چائنا‘‘ کی مہر پہنچا دی، جن کے ذریعے چین نے نا صرف اپنے سوا ارب لوگوں کو روزگار، صحت، تعلیم اور شاندار زندگی فراہم کی بلکہ وہ دنیا بھر کے ساڑھے چھ ارب لوگوں کی ماں بھی بن گیا۔ہم نے کبھی چین کی ترقی کا سائنسی بنیادوں پر تجزیہ نہیں کیا، آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو پورے یورپ میں ایسے 39شہر ہیں جن کی آبادی دس لاکھ سے زیادہ ہے جب کہ چین نے پچھلے تیس برسوں میں 160ایسے نئے شہر آباد کیے ہیں جن کی آبادی دس لاکھ سے زائد ہے اور ان میں دنیا کی تمام جدید سہولتیں موجود ہیں، آج مرسیڈیز کاروں کا سب سے بڑا کارخانہ چین میں ہے ۔
آج یورپ، امریکا اور پاکستان میں ایسی سبزیاں اور فروٹ ملتا ہے جس پر چائنا کا سٹیکر لگا ہوتا ہے اور آج دنیا کی 36ہزار ملٹی نیشنل کمپنیاں چین میں فیکٹریاں لگانے پر مجبور ہیں لیکن ہم نے کبھی چین کی اس ترقی کی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی اپنے زوال کے شواہد اکٹھے کیے، ہم نے کبھی نہیں سوچا چین کی ترقی کے چار اصول تھے۔
مخلص لیڈر شپ، ان تھک محنت، اپنی ذات پر انحصار اور خودداری۔ چین نے کبھی دوسری اقوام کے سامنے کشکول نہیں رکھا ، اس نے ہمیشہ اپنے وسائل پر انحصار کیا، یہ لوگ پندرہ، پندرہ گھنٹے کام کرتے ہیں اور جب اس کام سے فارغ ہوتے ہیں تو دوسروں کے کام میں ہاتھ بٹاتے ہیں اور ان کی لیڈر شپ نے اپنا تن، من اور دھن قوم پر وار دیا ، ان کے لیڈر کا جنازہ تین مرلے کے مکان سے نکلا اور اس نے پوری زندگی کسی دوسرے ملک میں قدم نہیں رکھا ، ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا چین کی یہ چاروں خوبیاں ہماری سب سے بڑی کمزوریاں ہیں، ہم نے کشکول کو اپنی معیشت بنا رکھا ہے، ہم دوسروں کے وسائل پر انحصار کرتے ہیں۔
ہم دنیا میں سب سے زیادہ چھٹیاں کرنے والے لوگ ہیں اور ہماری ساری لیڈر شپ کی جڑیں ملک سے باہر ہیں، ان کی اولادیں اور گھر تک دوسرے ملکوں میں ہیں چنانچہ ہم آج افغانستان سے لے کر روانڈا تک دوسرے ملکوں کے محتاج ہیں، ہم سانس تک ادھار کی لیتے ہیں ، ہمیں روٹی بھی دوسرے فراہم کرتے ہیں۔
کاش ہم چین کے صدر شی چن پنگ سے عرض کرتے جناب آپ ہمیں 46 ارب ڈالر کے منصوبے نہ دیں، آپ ہمیں عزت کی روٹی کھانے اور غیرت کے ساتھ زندہ رہنے کا درس دے دیں، آپ ہمیں مچھلی نہ دیں آپ ہمیں مچھلی پکڑے کا طریقہ سکھا دیں۔ کاش ہم چین کے لیڈر سے پاکستان کو چین بنانے کا گر سیکھ لیتے کیونکہ قوموں کو امداد اور سمجھوتے نہیں چاہیے ہوتے، انھیں عزت اور غیرت کی گھٹی درکار ہوتی ہے اور ہم نے آج تک کسی سے یہ دولت نہیں لی۔
ہم نے آج تک کسی قوم، کسی ملک سے یہ ہنر سیکھنے کی کوشش نہیں کی، آپ یقین کیجیے ہم 68 سال سے مردار خور اور بھکاریوں کی زندگی گزار رہے ہیں، ہم کبھی افغانستان میں امریکا اور روس کی پھینکی ہڈیاں چوستے ہیں، کبھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے پنجر پر بیٹھ کر گوشت نوچتے ہیں اور کبھی سعودی عرب یمن جنگ سے فائدہ اٹھانے کے منصوبے بناتے ہیں، دنیا جب ان تمام بحرانوں سے نکل جاتی ہے، یہ اپنے معاملات، اپنے مسائل حل کر لیتی ہے تو ہم کشکول بن کر دوستوں سے دوستی کی خیرات کی اپیل کرنے لگتے ہیں۔
ہم نے آج تک خود کو قوم سمجھا اور نہ ہی قوم کی طرح اپنی نسلوں کی پرورش کی، ہم 18 کروڑ بھکاری ہیں اور ہم ہر سال ان بھکاریوں میں پانچ دس لاکھ نئے بھکاریوں کا اضافہ کر دیتے ہیں اور یہ بھکاری بھی بڑے ہو کر اپنے بزرگوں کی طرح دنیا کی طرف دیکھنے لگتے ہیں، کاش ہم آج ہی جاگ جائیں، ہم آج ان 46 ارب ڈالروں کو آخری امداد، آخری سرمایہ کاری سمجھ کر اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کا فیصلہ کر لیں، ہم یہ اعلان کر دیں، ہم دنیا کے لیے اگلا چین ثابت ہوں گے، ہم بیس تیس سال بعد وہاں ہوں گے جہاں دنیا ہمارے صدر کو وہ مقام دے گی جو ہم نے آج شی چن پنگ کو دیا، کاش ہم اپنے نیچے والے ہاتھ کو اوپر والا ہاتھ بنا لیں، کاش ہم چین بن جائیں، اسلامی جمہوریہ چین۔

زیادہ جذباتی نہ ہوں
جاوید چوہدری جمعرات 23 اپريل 2015

گوہر ایوب پاکستان کے پہلے فوجی حکمران فیلڈ مارشل ایوب خان کے صاحبزادے ہیں، یہ تین نسلوں سے سیاستدان ہیں، گوہر ایوب کے والد 11سال پاکستان کے صدر رہے، چچا سردار بہادر خان سیاستدان، پارلیمنٹ کے رکن اور1962ء میں اپوزیشن لیڈر رہے، گوہر ایوب خود پانچ بار قومی اسمبلی کے رکن رہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی بھی بنے، وزیر خارجہ بھی رہے اور پانی و بجلی کے وزیر بھی بنے، آج کل ان کے صاحبزادے عمر ایوب قومی اسمبلی کے رکن ہیں، مجھے پچھلے دنوں گوہر ایوب کی کتاب ’’ایوان اقتدار کے مشاہدات‘‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا، گوہر ایوب نے کتاب میں چینی قیادت کے ساتھ ملاقاتوں کے چند واقعات بھی تحریر کیے، یہ واقعات چینی کریکٹر کو ظاہر کرتے ہیں، ہم اگر چین کی سرمایہ کاری اور چین کے صدر شی چن پنگ کے دورے کوسمجھنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان واقعات کا تجزیہ کرنا ہوگا، یہ تجزیہ ہمیں چین کو سمجھنے میں مدد دے گا۔
گوہر ایوب 1966ء میں ایم این اے تھے ، عبدالجبار خان اس وقت قومی اسمبلی کے اسپیکر تھے، اسپیکر صاحب بارہ ارکان اسمبلی کا وفد لے کر چین کے دورے پر گئے، چین میں وفد کی چیئرمین ماؤزے تنگ اور وزیراعظم چو این لائی سے ملاقات ہوئی، ماؤزے تنگ سے ملاقات کے دوران گوہر ایوب نے چیئرمین سے پوچھا ’’ مغربی میڈیا آج کل چین کی شدید مخالفت کر رہا ہے‘‘ ماؤزے تنگ نے جواب دیا ’’ ہم مغربی میڈیا کی نکتہ چینی سے خوش ہوتے ہیں کیونکہ یہ اعتراضات ثابت کرتے ہیں ہماری ڈائریکشن ٹھیک ہے اور اس سے ہمارے دشمنوں کو تکلیف ہو رہی ہے‘‘ ماؤزے تنگ کا کہنا تھا ’’ مغربی میڈیا جب ہماری تعریف کرتا ہے تو میں چو این لائی سے پوچھتا ہوں۔
ہم نے کون سی ایسی غلطی کر دی جس کی وجہ سے ہمارے دشمن ہماری تعریف کر رہے ہیں‘‘ ماؤزے تنگ نے پاک انڈیا جنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’ ہمارے ہاتھوں میں دس انگلیاں ہیں، ہم اگر ان دس انگلیوں پر ضرب لگائیں تو ہمیں زیادہ تکلیف نہیں ہوگی لیکن اگر کوئی شخص ہماری ایک انگلی کاٹ دے تو ہم پوری زندگی یہ نقصان پورا نہیں کر سکیں گے‘‘ ماؤزے تنگ کا کہنا تھا ’’ آپ پورے بھارت پر حملہ نہ کریں، آپ اس کی کوئی ایک کمزوری تلاش کریں اور پھر اس کمزوری پر بھرپور حملہ کریں۔
بھارت یہ نقصان کبھی پورا نہیں کر سکے گا‘‘۔گوہر ایوب کو اس دورے کے دوران وزیراعظم چو این لائی نے بیگم کے ساتھ چین آنے کی دعوت دی، گوہر ایوب اس دعوت کو رسمی سمجھ کر بھول گئے لیکن یہ 1967ء میں لندن تھے تو انھیں چو این لائی کا دوبارہ پیغام ملا ، گوہر ایوب اس دعوت پر مئی 1967ء کو بیجنگ چلے گئے، یہ ائیر پورٹ پر اترے تو انھیں ایک بڑا گلدستہ پیش کیا گیا، گلدستے کے ساتھ ایک پرچی تھی، پرچی پر گوہر ایوب کے والد ایوب خان کی سالگرہ کی مبارکباد تحریر تھی، گوہر ایوب حیران رہ گئے کیونکہ 14 مئی ان کے والد کی پیدائش کا دن تھا اور گوہر ایوب کو بھی والد کی سالگرہ یاد نہیں تھی۔
چو این لائی نے گوہر ایوب کو گریٹ ہال آف پیپل میں لنچ دیا، لنچ پر دونوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا،گوہر ایوب نے گفتگو کے دوران وزیراعظم سے درخواست کی ’’ ہم انگریزی میں گفتگو کر سکتے ہیں‘‘ چو این لائی مسکرائے اور چینی زبان میں گفتگو جاری رکھی، گوہر ایوب نے 1971ء کی جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے انکشاف کیا ’’ فوجی قیادت نے بھٹو صاحب کو بھارت کے خلاف امداد کے لیے چین بھجوایا، چینی قیادت نے جواب دیا، آپ صلح کے ذریعے معاملہ طے کرنے کی کوشش کریں، آپ صلح کرنا چاہیں تو ہم تعاون کے لیے تیار ہیں، پیغام بہت واضح تھا لیکن فوج نے صلح کے لیے تعاون کو فوجی تعاون سمجھ لیا چنانچہ جب بھارتی فوج ڈھاکا کی طرف بڑھی تو ہمارے فوجی زعماء اسے چینی فوج سمجھ کر استقبال کے لیے روانہ ہو گئے اور گرفتار کر لیے گئے۔
گوہر ایوب کی کتاب میں چین سے متعلق اور بھی بے شمار واقعات ہیں مگر ہم سر دست صرف ان تین واقعات کا تجزیہ کرتے ہیں، یہ تین واقعات چینی کردار کو سمجھنے کے لیے کافی ہوں گے، آپ اگر تاریخ میں چالیس پچاس سال پیچھے چلے جائیں تو آپ کو چین اور مغرب ایک دوسرے کے جانی دشمن نظر آئیں گے، 1960ء اور 1970ء کی دہائی میں دنیا کی کوئی ائیر لائین چین جاتی تھی اور نہ ہی چین کے جہازوں کو ائیر پورٹ پر اترنے کی اجازت دی جاتی تھی۔
یہ وہ وقت تھا جب کوئی مغربی صحافی چین کی تعریف کرتا تھا تو چینی قیادت ایک دوسرے سے پوچھتی تھی ’’ہم سے کوئی غلطی تو نہیں ہو گئی،، لیکن آج پچاس سال بعد یورپ اور امریکا کی 36 ہزار بڑی کمپنیاں چین میں موجود ہیں، چین دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر بھی بن چکا ہے اور یہ خیال بھی اب حقیقت ہو چکا ہے ’’چین نے جس دن اپنی فیکٹریوں کا سوئچ آف کر دیا، دنیا اس دن رک جائے گی‘‘۔ سوال یہ ہے چین نے یہ کمال کیا کیسے؟ اس کا جواب ماؤزے تنگ کی مثال میں چھپا ہے، چیئرمین نے گوہر ایوب سے کہا تھا ’’آپ دشمن کی کمزوری تلاش کریں، اس کمزوری پر بھرپور حملہ کریں، دشمن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا‘‘ چین نے 30 سال اہل مغرب کو اسٹڈی کیا اور یہ اس کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ’’معیشت مغرب کی کمزوری ہے۔
ہم اگر مغرب کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں تو ہمیں ان کی اس کمزوری پر بھر پور حملہ کرنا ہوگا‘‘ چین نے اس کے بعد معیشت کو میدان جنگ بنا لیا، چینی قیادت نے اپنے لوگوں کو جدید ہنر سکھائے، فیکٹریاں قائم کیں، سستی مصنوعات تیار کرائیں، عالمی منڈیوں کا رخ کیا اور پھر دنیا کو حیران کر دیا، آج مغرب ہو، شمال ہو، جنوب ہو یا مشرق ہو پوری دنیا چین کے قبضے میں ہے۔
آپ چین کے معاشی حملے کا نتیجہ ملاحظہ کیجیے، امریکا جیسی سپر پاور اس وقت چین کی 12 کھرب ڈالر کی مقروض ہے،یہ 2010ء تک کی صورتحال تھی، چین نے 2010ء کے بعد پالیسی میں ایک اور تبدیلی کی، چین 2010ء تک براہ راست سرمایہ کاری نہیں کرتا تھا، یہ 2010ء تک دوستوں کو مچھلی دینے کے بجائے انھیں مچھلی پکڑنے کا طریقہ سکھاتا تھا لیکن پھر چین نے اندازہ لگایا سرمایہ کاری اس وقت دنیا کی دوسری بڑی کمزوری ہے۔
دنیا سرمایہ کاروں کو ویزے بھی دیتی ہے، شہریت بھی، قرضے بھی اور پاسپورٹ بھی، آپ کے پاس اگر دو لاکھ پاؤنڈ ہیں تو آپ انگلینڈ کی شہریت حاصل کر سکتے ہیں، آپ چار پانچ لاکھ ڈالر کا بندوبست کرلیں تو آپ کینیڈا اور امریکا کی نیشنلٹی حاصل کر سکتے ہیں اور آپ پانچ لاکھ یورو جمع کر لیں تو آپ کو یورپ کے کسی بھی ملک میں شہریت مل جائے گی، چین نے دنیا کا سب سے بڑا سرمایہ کار ملک بننے کا فیصلہ کر لیا اور چین نے سرمایہ کاری شروع کر دی۔
چین کی سرمایہ کاری دو حصوں پر مشتمل ہے، یہ یورپ اور امریکا کو قرضے دیتا ہے، امریکا چین کا 12کھرب ڈالر کا مقروض ہو چکا ہے جب کہ یورپی یونین چینی قرضوں میں دھنستی جا رہی ہے، دوسرے حصے میں اس نے غریب ممالک کے انفرا سٹرکچر میں سرمایہ کاری شروع کر دی، چین کا فوکس ہمسایہ ممالک اور افریقہ ہے، چین نے افریقہ میں1995ء میں 6 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی، یہ سرمایہ کاری2010ء تک 130 بلین ڈالر تک پہنچی اور یہ 2014ء میں 200 بلین ڈالر ہو چکی ہے۔
چین کینیا سے لے کر نائیجیریا تک افریقہ کے تمام اہم ممالک کی معاشی شہ رگ اپنے ہاتھ میں لے چکا ہے، افریقہ کے بعد ہمسایہ ممالک چین کا فوکس ہیں، آپ بھارت کی مثال لیجیے، بھارت کے ساتھ چین کے خوفناک تنازعے چلتے رہے، یہ دونوں ممالک 55 سال سے برسر پیکار رہے لیکن آج چین بھارت میں 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے، چینی صدر پاکستان سے پہلے بھارت گئے، یہ تین دن بھارت رہے اور انھوں نے وہاں پاکستان سے دو گنے منصوبوں کا افتتاح کیا، چین منگولیا، تاجکستان، افغانستان، ایران، ازبکستان، قزاقستان اور آذربائیجان میں بھی بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے ، پاکستان بھی اس سرمایہ کار پالیسی کا حصہ ہے۔
پاکستان سینٹرل ایشیا، گرم سمندر، بھارت اور چین کے درمیان واقع ہے، یہ چین، بھارت اور سینٹرل ایشیا تینوں کے لیے انتہائی اہم ہے چنانچہ چینی صدر نے پاکستان میں بھی 46 ارب ڈالر کے منصوبوں کا افتتاح کیا، ہم اس کامیابی پر بغلیں بجا رہے ہیں، ہم شاید اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں، یہ سرمایہ کاری صرف پاکستان کی محبت اور ہمارے 68 سال کے تعلقات کا نتیجہ ہے جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ بھارت، منگولیا، تاجکستان اور افغانستان چین کے دوست نہیں تھے مگر چین نے ہم سے پہلے وہاں سرمایہ کاری شروع کی۔
افریقہ کا کوئی ملک چین کا دوست نہیں رہا مگر چین افریقہ کے 34 ممالک میں ہم سے کئی گنا زیادہ سرمایہ کاری کر چکا ہے، یہ حقائق ثابت کرتے ہیں یہ سرمایہ کاری چین کی پالیسی ہے اور یہ پالیسی ماؤزے تنگ کی اس پالیسی کو ظاہر کرتی ہے ’’آپ دشمن کی کمزوری پر بھرپور حملہ کریں‘‘ اور یہ حملہ بنیادی طور پر سرمایہ کاری نظام پر حملہ ہے۔گوہر ایوب کے بیان کردہ واقعات یہ بھی ثابت کرتے ہیں چین نے کبھی اپنی زبان پر کمپرومائز نہیں کیا، یہ دوستوں کے ساتھ بھی چینی زبان میں گفتگو کرتے ہیں، یہ چین کی اس پالیسی کا نتیجہ ہے آج پوری دنیا چینی زبان سیکھنے پر مجبور ہے۔
ہم بھی اپنے بچوں کو چائنیز سکھا رہے ہیں، یہ واقعات ثابت کرتے ہیں چینی قیادت دوستوں کی سالگرہ تک یاد رکھتی ہے، یہ لوگ ہر چیز، ہر بات کا ریکارڈ رکھتے ہیں چنانچہ آپ انھیں دھوکا نہیں دے سکتے اور آخری بات ہم 1971ء کی جنگ کے دوران غلط تھے چنانچہ چین نے دوست ہونے کے باوجود ہماری مدد نہیں کی، ہم مستقبل میں بھی جہاں غلط ہوں گے یہ ہماری جسمانی مدد نہیں کرے گا۔
پاک چین معاہدے ایک نئی اوپننگ ہیں، ہمیں اس اوپننگ کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے لیکن یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے بین الاقوامی تعلقات کا صرف ایک اصول ہوتا ہے اور وہ اصول ’’مفادات‘‘ ہے۔ چین کو اگر ہم سے فائدہ ہوگا تو یہ ان معاہدوں کو آگے بڑھائے گا ورنہ دوسری صورت میں سرمایہ کاری واپس چلی جائے گی اور ہمارے ہاتھ میں کاغذ کے چند ٹکڑے اور چینی صدر کے ساتھ چند تصاویر رہ جائیں گی یا پھر ہمالیہ سے اونچی، سمندروں سے گہری اور شہد سے میٹھی دوستی کے دعوے رہ جائیں گے۔
ہم آپ کی حفاظت نہیں کر سکتے
جاوید چوہدری منگل 21 اپريل 2015

وہ کیلی فورنیا کے چھوٹے سے ٹاؤن ’’سین فرنیڈوویلی‘‘ میں پیدا ہوئی، وہ جوانی میں مذہب کی طرف راغب ہوئی، بائبل کا مطالعہ کیااور دکھی انسانیت کی خدمت کا فیصلہ کر لیا، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا لاس اینجلس سے میڈیکل ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کی اور 1985ء میں پاکستان آ گئی، وہ پاکستان کیوں آئی؟ یہ بھی ایک دلچسپ داستان ہے۔
1980ء کی دہائی ’’افغان وار کا دور تھا، امریکا میں روزانہ پاکستان، افغانستان اور افغان روس جنگ کی خبریں اور تجزیے شائع ہوتے تھے، وہ روز اخبارات اور ٹیلی ویژن پر پاکستان اور افغانستان کے بارے میں رپورٹس دیکھتی تھی، وہ یہ خبریں اور یہ رپورٹس پڑھتے پڑھتے پاکستان کی طرف متوجہ ہوئی اور ایک دن اپنا سامان باندھ کر کراچی آ گئی، کراچی اس کا دوسرا گھر بن گیا، کراچی میں اس نے پاکستانی سے شادی کی۔
اللہ تعالیٰ نے اسے دوبیٹیوں سے نوازا۔ اس نے 1996ء میں جناح میڈیکل کالج میں پڑھانا شروع کر دیا، یہ کالج میں ایسوسی ایٹ پروفیسر بھی تھی اور اسٹوڈنٹ افیئرز کی انچارج بھی۔ یہ 30 برسوں میں مکمل پاکستانی بن گئی، یہ اردو سمجھتی بھی تھی اور بولتی بھی تھی، یہ پاکستانی کھانے بھی کھاتی تھی اور یہ پاکستانی لباس بھی پہنتی تھی،پاکستان میں پچھلے دس برسوں سے دہشت گردی عروج پر ہے، امریکی اور یورپی باشندے دہشت گردوں کے خصوصی ٹارگٹ ہیں، امریکی سفارت خانے نے درجنوں مرتبہ اس سے رابطہ کیا اور اسے امریکا واپس جانے کا مشورہ دیا۔
امریکی سفارت کاروں نے اسے سیکیورٹی کا خصوصی بندوبست کرنے کی ہدایت بھی کی لیکن یہ نہ مانی، یہ معمول کے مطابق کالج آتی اور گھر واپس جاتی رہی، یہ کراچی کے مختلف علاقوں میں ویلفیئر کے چھوٹے بڑے منصوبے بھی چلا رہی تھی، یہ غریب مریضوں کا مفت علاج بھی کرتی تھی، یہ انھیں مفت ادویات بھی دیتی تھی اور یہ ان مریضوں کی مالی امداد بھی کرتی تھی۔
یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ 16 اپریل کا دن آ گیا، یہ کالج سے گھر جارہی تھی، یہ جب شہید ملت روڈ پر پہنچی تو دو نوجوان موٹر سائیکل پر آئے، گاڑی رکوائی اور اس پر فائر کھول دیا، اس کو دو گولیاں لگیں، ایک گال پر اور دوسری بازو پر۔ نوجوانوں نے گاڑی میں ایک کاغذ پھینکا اور فرار ہو گئے، کاغذ پر لکھا تھا ’’ ہم امریکا کو جلا دیں گے‘‘ داعش۔ پولیس آئی، ایمبولینس آئی، اسے اسپتال لے جایا گیا، اس کی جان بچ گئی مگر یہ زخمی ہے۔
اس کو تین زخم ہیں، گال پر، بازو پر اور روح پر۔ گال اور بازو کا زخم جلد ٹھیک ہو جائے گا لیکن روح کا زخم شاید ہمیشہ زندہ رہے گا اور یہ زخم اس سے مرتے دم تک یہ پوچھتا رہے گا ’’ تم نے اپنی عمر کا بڑاحصہ ایسے ملک میں کیوں ضایع کر دیا جس کے لوگ تمہیں 30 سال بعد بھی اپنا دشمن سمجھتے ہیں‘‘ مجھے یقین ہے ڈاکٹر ڈیبرا لوبو کی باقی زندگی اس سوال سے الجھتے گزرے گی۔
یہ ڈاکٹر ڈیبرا لوبو کی کہانی تھی، آپ اب برگریٹا ایل میبائی کی کہانی بھی ملاحظہ کیجیے، یہ خاتون سویڈن میں پیدا ہوئی، سویڈن میں جوان ہوئی اور پھر پاکستان آ گئی، یہ پاکستان میں یتیم بچوں کی بہبود پر کام کرتی تھی، یہ لاہور ماڈل ٹاؤن میں رہتی تھی، کچی آبادیوں اور کرسچین کالونیوں میں یتیم اور بے سہارا بچوں کو تعلیم اور تربیت دیتی تھی۔
یہ بھی مکمل طور پر پاکستانی ہو چکی تھی، آپ کو 2005ء کا زلزلہ یاد ہو گا، اس زلزلے نے پوری دنیا کو متاثر کیا، برگریٹا سویڈن گئی، اپنے تمام رشتے داروں، دوست احباب اور مخیر حضرات کے سامنے جھولی پھیلائی، تین کروڑ روپے جمع کیے اور یہ رقم لے کر پاکستان واپس آ گئی، یہ 2012ء میں 71 سال کی ہو گئی، یہ بیمار بھی رہنے لگی، اس کے عزیز رشتے دار اور دوست احباب اسے واپس بلانے لگے۔
سویڈن ایمبیسی بھی برگریٹا کو سیکیورٹی کا خیال رکھنے کا مشورہ دیتی رہی لیکن برگریٹا نے دوستوں کی بات مانی اور نہ ہی سفارت خانے کی یہاں تک کہ 3 دسمبر 2012ء کا دن آ گیا، برگریٹا ماڈل ٹاؤن میں اپنے گھر سے نکلی، یہ ابھی زیادہ دور نہیں گئی تھی کہ اس کی گردن پر گولی داغ دی گئی، برگریٹا گری اور اپنے ہی لہو میں تر ہونے لگی، یہ گولی ایک ستم ظریفی تھی مگر گولی سے بڑی ستم ظریفی لوگوں کا رویہ تھا، برگریٹا سڑک پر گری رہی لیکن کوئی شخص اس کی مدد کرنے، اسے اٹھانے، اسے اسپتال پہنچانے کے لیے تیار نہ ہوا، لوگ کھڑے ہو کر تماشا دیکھتے رہے۔
وہ چیختی رہی، اس کا لہو بہتا رہا، ایمبولینس اور پولیس آئی، برگریٹا کو اسپتال پہنچایا گیا، ٹیلی ویژن پر خبریں چلیں، سویڈن ایمبیسی کو اطلاع ہوئی، سفارت خانے نے اپنی حکومت سے رابطہ کیا، سویڈش حکومت نے برگریٹا کے لیے ائیر ایمبولینس بھجوائی، برگریٹا کو اسٹاک ہوم لے جایا گیا، اس کا علاج شروع ہوا لیکن جسم کا زخم چھوٹا اور روح کا گھاؤ گہرا تھا چنانچہ برگریٹا جانبر نہ ہو سکی، وہ چند دن بعد دارفانی سے کوچ کر گئی، اس کے خاندان نے اسے ایک خوبصورت اور خاموش قبرستان میں دفن کر دیا، وہ پاکستانی تھی لیکن پاکستانیوں نے ڈاکٹر ڈیبرا لوبو کی طرح اس کی بھی قدر نہ کی، یہ بھی اپنے خوابوں کے ساتھ مٹی میں مل گئی۔
یہ ہماری سنگدلی، بے مہری اور احسان فراموشی کی صرف دو کہانیاں ہیں، یہ کہانیاں پہلی اور آخری نہیں ہیں، ہمارے ملک میں ڈاکٹر ڈیبرا اور برگریٹا جیسے سیکڑوں لوگ آئے، ہماری خدمت کی اور ہم سے پتھر، گالیاں اور گولیاں کھا کر واپس چلے گئے، کیوں؟ میں آج تک اس کیوں کا جواب تلاش نہیں کر سکا، شاید اس کا جواب ہمارے رویئے ہیں، ہم ظالم لوگ ہیں۔
آپ کو یقین نہ آئے تو آپ اپنی تاریخ نکال کر پڑھ لیجیے، ریاست مدینہ سے لے کر یمن کے موجودہ بحران تک ساڑھے تیرہ سو سال میں ہماری 129 ریاستیں ختم ہوئیں، ہم نے حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت سے لے کر کل جلال آباد میں داعش کے حملے تک اپنی تلواریں نیام میں واپس نہیں رکھیں، ہم ساڑھے تیرہ سو سال سے اپنی اور اپنوں کی گردنیں کاٹتے آ رہے ہیں، ہم آج تک امن سے محروم ہیں، ہماری تاریخ میں امن اور سکون کے صرف 13 جزیرے ہیں اور یہ جزیرے بھی تین چار سال سے زیادہ لمبے نہیں ہیں، کیوں؟ کیونکہ ہم ظالم لوگ ہیں۔
اللہ نے ہمیں امن کا مذہب، سکون کا دین دیا تھا لیکن ہم آج تک سکون پا سکے اور نہ ہی امن۔ ہم جوں ہی کسی اسلامی ریاست میں داخل ہوتے ہیں، ہمیں وہاں جبربھی ملتا ہے، بدامنی بھی اور خوف بھی جب کہ اسلامی دنیا کی سرحدوں سے باہر امن بھی ہے، سکون بھی، انصاف بھی اور مساوات بھی،کیوں؟ کیونکہ ہم ظالم لوگ ہیں، ہم اس قدر ظالم لوگ ہیں کہ جب ڈاکٹر ڈیبرا اور برگریٹا جیسے چند لوگ اپنے معاشروں کی مساوات، انصاف، سکون اور امن چھوڑ کر ہماری خدمت کے لیے آتے ہیں، یہ ہمارے ان یتیم بچوں کے آنسو پونچھتے ہیں جنھیں ہم پیدا کر کے بھول گئے تھے۔
جنھیں ہم نے مسلمان ہونے کے باوجود اپنے بچوں کے برابر حقوق نہیں دیے، یہ یتیم عمر بھر یتیم اور مسکین رہے، یہ لوگ اسلامی ملکوں میں آ کر ان مسلمان مریضوں کا علاج کرتے ہیں جنھیں ہم اٹھارہ اٹھارہ کروڑ مسلمان مل کر ایک گولی، ایک نرس اور اسپتال کا ایک بستر فراہم نہیں کرسکتے، یہ لوگ ان اسلامی ملکوں میں آ کر ان مسلمان بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں جنھیں ہم جاہل رکھ کر مومن بنانا چاہتے ہیں اور یہ ان اسلامی معاشروں میں انسانیت کی تبلیغ کے لیے آتے ہیں ۔
جہاں آج بھی عورتوں کو قرآن مجید سے بیاہ دیا جاتا ہے، جہاں آج بھی ونی اور سوارہ جیسی رسمیں موجود ہیں اور جہاں آج بھی مسجدیں اللہ کے گھر کے بجائے سنیوں، وہابیوں اور شیعوں کی عبادت گاہیں ہیں لیکن ہم انھیں شکریہ کے بجائے گولی کا تحفہ دیتے ہیں، کیا ہم ظالم نہیں ہیں؟، آپ سکون سے بیٹھئے اور چند لمحوں کے لیے سوچئے ہم دنیا کے اتنے خلاف کیوں ہیں؟ ہم پہلے امریکا کے خلاف ہیں، پھر ہم یورپ، مشرق بعید اور سینٹرل ایشیا کے خلاف ہیں، پھرہم ایک دوسرے کے خلاف ہیں، ہم خود کو مانتے ہیں اور نہ ہی دوسرے اسلامی ملکوں کو مانتے ہیں، ایران کویت، عراق اور سعودی عرب کے خلاف ہے۔
سعودی عرب عجم کو نہیں مانتا، یمن کو قطر اور یو اے ای سے خطرہ ہے اور یو اے ای شیعہ انقلاب سے خوفزدہ ہے، ہم عیسائیوں، یہودیوں، ہندوؤں اور بدھوں کے بھی خلاف ہیں اور ہم مسلمان ہو کر مسلمانوں کے بھی خلاف ہیں،ہم سندھی ہیں تو ہم مہاجروں کو خوف سے دیکھتے ہیں، مہاجر ہیں توپنجابیوں،سندھیوں اور بلوچوں سے خائف ہیں، پنجاب سے سارے صوبوں کو اختلاف ہے اور پنجاب کو دوسروں صوبوں سے شکایات ہیں، ہم سید ہیں، ہم آرائیں ہیں، ہم گجر، جاٹ اور راجپوت ہیں اور ہم کمی اور چوہدری بھی ہیں، ہم سید اور راجپوت بھی ایک دوسرے کے خلاف ہیں ، ہم ایک دوسرے کے اسلام کے بھی خلاف ہیں۔
ہم دوسرے مسلمان کو کافر بھی سمجھتے ہیں اور اسے قابل گردن زنی بھی اور ہم اگر ان سب سے فارغ ہو جائیں تو ہم اپنے آپ کے بھی خلاف ہیں،آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے، ہم اگر اپنے آپ کے خلاف نہ ہوتے تو کیا ہم یوں اپنے اوپر سیکھنے کے دروازے بند کرتے؟ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو نئی بات سیکھنا چاہتے ہیں، جو اپنے جسم، اپنے ذہن اور اپنی روح کی عزت کرتے ہیں، ہم لوگ بس خلاف ہیں۔
آسمان سے لے کر زمین تک اور اوبامہ سے لے کر نقوی تک اور یمن سے لے کر سندھ تک اور سیدوں سے لے کر راجپوتوں تک اور اپنی بیگم سے لے کر ہمسایوں تک ہم سب کے خلاف ہیں اور انسان جب اتنے بڑے پیمانے پر خلاف ہو جائے تو پھروہ انسان نہیں رہتا، وہ ظالم ہو جاتا ہے، ایسا ظالم جسے ڈاکٹر ڈیبرا لوبو اور برگریٹا ایل میبائی نظر آتی ہیں اور نہ ہی ان کے احسانات دکھائی دیتے ہیں۔
میری ڈاکٹر ڈیبرا لوبو اور برگریٹا ایل میبائی جیسے تمام لوگوں سے درخواست ہے آپ اپنے اپنے ملک واپس چلے جائیں، ہم اپنے ملک میں آپ کی جان کی حفاظت نہیں کر سکیں گے کیونکہ ہم وہ لوگ ہیں جو ویکسین کو حرام اور پولیو کو حلال سمجھتے ہیں اور جس قوم کی نظر میں بیماریاں حلال اور علاج حرام ہوں اس قوم سے محسنوں کی عزت کی توقع فضول ہوتی ہے۔
چھوٹی چھوٹی باتیں
جاوید چوہدری اتوار 19 اپريل 2015

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور تھا، مارگلہ ٹاور۔ یہ ٹاور8 اکتوبر2005ء کے زلزلے میں زمین بوس ہو گیا اور اس کے ملبے میں74 مرد ، خواتین اور بچے دفن ہو گئے، مارگلہ ٹاور کی تیسری منزل پر ایک خاندان رہتا تھا، گھر میں چار لوگ تھے، گھر کا مالک، ان کی بیگم، والدہ اور 13 سال کا بیٹا۔ یہ خاندان بھی ملبے میں دب گیا، صاحب خانہ کو ہوش آیا تو اس نے خود کو ایک ستون کے قریب گرا پایا، بیوی کو آواز دی، بیوی بھی زندہ تھی، والدہ اور بیٹے کو بلایا، وہ دونوں معمولی زخمی تھے۔
یہ چاروں لوگ چند گز کے فاصلے پر تھے مگر ملبے کی وجہ سے ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتے تھے، صاحب خانہ کو اچانک یاد آیا ان کا موبائل فون ان کی جیب میں ہے، انھوں نے آڑھے ترچھے ہو کر جیب میں ہاتھ ڈالا، موبائل فون نکال کر دیکھا، فون آن بھی تھا اور سگنل بھی موجود تھے، صاحب خانہ نے دوست احباب کو فون کرنا شروع کر دیا، دوستوں کو اطلاع ہوئی تو یہ گھروں سے نکل کھڑے ہوئے، ریسکیو ورکر بھی ٹاور پہنچ گئے۔
وہ صاحب فون آن کرتے، دوستوں کو گائیڈ کرتے اور بیٹری بچانے کے لیے فون بند کر دیتے، دوست ریسکیو ورکرز کوان کی لوکیشن سمجھا دیتے، یہ سلسلہ دودن جاری رہایہاں تک کہ ریسکیو ورکرز ان تک پہنچ گئے، خاندان بچا لیا گیا، یہ خاندان اللہ کے کرم اور موبائل فون کی وجہ سے سلامت رہا، اگر اس وقت موبائل فون صاحب کی جیب میں نہ ہوتا تو یہ ریسکیو ورکرز اور دوستوں کو گائیڈ نہ کر سکتے اور یوں یہ اور ان کا خاندان دوسرے 74 لوگوں کے ساتھ ملبے میں دفن ہو جاتے، میں نے اس خاندان کی یہ کہانی 2005ء میں پڑھی اور میں نے اس کے بعد یہ معمول بنا لیا، میں اپنا فون ہر وقت ساتھ بھی رکھتا ہوں اور چارج بھی رکھتا ہوں۔
میں رات سونے سے قبل فون چارج کرتا ہوں اور اسے سرہانے کے نیچے رکھ کر سوتا ہوں، میں فون باتھ روم میں بھی ساتھ لے کر جاتا ہوں ، میرا آپ کو مشورہ ہے آپ بھی یہ معمول بنا لیں کیونکہ اس معمول کی وجہ سے آپ کسی بھی ایمرجنسی میں اپنے دوست احباب سے رابطہ کر سکیں گے، میں نے زندگی میں بے شمار لوگوں کو باتھ روموں میں پھنسے ہوئے دیکھا، لوگ فرش پر گرجاتے ہیں، زخمی ہوتے ہیں اور باہر بیٹھے لوگوں کو اطلاع تک نہیں ہوتی، ہمارے باتھ رومز کے دروازے بھی بعض اوقات جام ہو جاتے ہیں یا دروازہ کھولتے وقت ان کا ہینڈل نکل جاتا ہے یا ہم نے پورے جسم پر صابن لگا یا ہوتا ہے اور پانی ختم ہو جاتا ہے۔
ہمارے پاس اگر اس صورت حال میں موبائل فون ہو گا تو ہم کسی نہ کسی شخص کو اطلاع دے دیں گے ورنہ دوسری صورت میں ہم ہوں گے اورہماری ابتر حالت ہو گی۔ میں اپنا فون ہمیشہ سائیلنٹ رکھتا ہوں، اس کی وجہ ٹینشن ہے، میں محسوس کرتا ہوں ہم میں سے نوے فیصد لوگ دوسروں کو بلاوجہ فون کرتے ہیں، آپ کسی روز دن بھر موصول ہونے والی کالز کا ڈیٹا بنائیے، آپ دیکھیں گے آپ کو موصول ہونے والی نوے فیصد کالز بلا ضرورت اور بلا وجہ تھیں۔
ہم فون پر بات بھی اونچی آواز میں کرتے ہیں، آپ اپنے اردگرد دیکھئے وہاں اگر پانچ لوگ ہیں تو ان میں سے دو یا تین لوگوں کے فون مسلسل بج رہے ہوں گے اور وہ ’’ہاں جی‘‘ کا نعرہ لگا کر پورا ماحول آلودہ کر رہے ہوں گے، آپ کسی جگہ چلے جائیں آپ وہاں موبائل کی گھنٹی ضرور سنیں گے، یہ گھنٹیاں لوگوں کے اعصاب پر برے اثرات مرتب کر رہی ہیں، آپ بھی میری طرح اپنا فون سائیلنٹ کر کے دیکھئے، آپ کو بھی اپنے مسائل کم ہوتے نظر آئیں گے، میں ہمیشہ ’’کال بیک‘‘ کرتا ہوں، اس سے میرے فون کے بجٹ میں پچاس فیصد اضافہ ہو جاتا ہے لیکن زندگی میں سو فیصد سکون آ جاتا ہے۔
یہ ہماری زندگی کی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں، ہم ان باتوں سے زندگی کو زیادہ بہترین بنا سکتے ہیں، مثلاًمیرے دوستوں نے گاڑیوں میں ایک ایک اضافی فون رکھا ہے، یہ فون سستا ہوتا ہے، یہ ہر وقت چارج اور آن رہتا ہے، یہ نمبر صرف خاندان اور چند قریبی دوستوں کے پاس ہوتا ہے، یہ ایمرجنسی فون ہے، آپ بھی گاڑیوں یا موٹر سائیکلوں میں ایمرجنسی فون رکھیں، یہ فون ایمرجنسی میں آپ کا معاون ثابت ہو گا، آپ خواہ کسی بھی عمر کے انسان ہیں، آپ تھیلا، بیگ یا بریف کیس کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں، آپ کا ’’ہینڈ بیگ‘‘ آپ کا بہترین دوست ثابت ہو گا، آپ بیگ میں اپنی تمام ضروری اشیاء رکھیں۔
آپ اس میں تھوڑی سی نقدی رکھ لیں، آپ اس میں ایمرجنسی ادویات رکھیں، آپ اس میں موبائل کا چارجر رکھیں، آپ اس میں کنگھی، ٹشو پیپرز، چیونگم، ڈائری، کاغذ، قلم اور اپنی چیک بک بھی رکھیں، آپ اس میں اپنے تمام ایڈریسز اور اپنے دوست احباب کے ٹیلی فون نمبرز بھی رکھیں، یہ بیگ آپ کو ہر قسم کے مسائل سے بچائے گا، آپ کو مارکیٹ سے ہر قسم کے ہینڈ بیگ مل جاتے ہیں، آپ کندھے پر لٹکانے والا کپڑے اور چمڑے کا خوبصورت بیگ بھی لے سکتے ہیں اور لیپ ٹاپ بیگ بھی، بریف کیس بھی اور اسمارٹ ’’ہینڈ بیگ‘‘ بھی۔ یہ بیگ اٹھانے میں آسان، دیکھنے میں خوبصورت اور سائز میں چھوٹا ہونا چاہیے۔
آپ اپنے بچوں کو بھی بیگ کی عادت ڈالیں، یہ عادت انھیں ذمے دار بھی بنائے گی اور ان کی زندگی میں ڈسپلن بھی پیدا کرے گی، آپ کو اگر اللہ تعالیٰ نے گاڑی کی نعمت سے نواز رکھا ہے تو آپ پھر اس نعمت کی ڈکی کو ضرور استعمال کریں، آپ ڈکی میں چھتری، چھوٹا ٹول بکس، ٹارچ، آگ بجھانے کا سیلنڈر، جاگرز، رین کوٹ، پانی کی بوتلیں، بسکٹ کے ڈبے اور ایک گرم جیکٹ ضرور رکھیں، یہ بندوبست آپ اور آپ کے خاندان کو سفر کے دوران بہت فائدہ پہنچائے گا، میں ملکی حالات کی وجہ سے اپنے دوستوں کو ہمیشہ مشورہ دیتا ہوں آپ گاڑی کے فیول ٹینک کو کبھی آدھے سے نیچے نہ جانے دیں۔
فیول کی سوئی جوں ہی درمیان میں پہنچے، آپ فیول ٹینک فل کرا لیں، یہ عادت آپ کو مسائل سے بچائے گی کیونکہ ملک میں کسی بھی وقت ’’ فیول ایمرجنسی‘‘ ہو سکتی ہے، ملک کے مختلف علاقوں اور شہروں میں روزانہ وارداتیں ہوتی ہیں اور لوگ ان وارداتوں میں مال اور جان دونوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، ہمیں حالات کو ذہن میں رکھ کر چند چھوٹے چھوٹے اقدامات کرنے چاہئیں،مثلاً ہمیں دروازوں کی کنڈیاں مضبوط کر لینی چاہئیں، گھر کا مرکزی گیٹ دن کے وقت بھی بند رہنا چاہیے، آپ پوچھے بغیر کبھی دروازہ نہ کھولیں، گھر میں بھی دروازے بند کر کے سوئیں، کھڑکیوں پر لوہے کی مضبوط سلاخیں لگائیں اور آپ اگر ’’افورڈ‘‘ کر سکتے ہیں تو گھر کے کسی کونے میں ایک مضبوط ’’ایمرجنسی روم‘‘ ضرور بنائیں تا کہ ایمرجنسی میں آپ پورے خاندان کے ساتھ اس کمرے میں پناہ گزین ہو جائیں۔
اس کمرے میں بنیادی ضروریات بھی موجود ہونی چاہئیں، ٹیلی فون بھی اور ہتھیار بھی۔ آپ کوشش کریں رات کے وقت گھر کا کوئی نہ کوئی فرد جاگ رہا ہو، یہ آپ کی سیکیورٹی کے لیے اچھا ہو گا، آج کل موبائل فون پر ’’لوکیشن‘‘ کا آپشن موجود ہوتا ہے، آپ اپنی اور بچوں کی ’’لوکیشن‘‘ ہمیشہ آن رکھا کریں تا کہ خاندان، آپ اور آپ اپنے بچوں کی لوکیشن کا اندازہ لگا سکیں، ملکی حالات خراب ہیں، ملک میں دہشت گردی بھی ہے، اغواء برائے تاوان بھی اور لڑائی جھگڑے اور چھینا جھپٹی بھی ۔ ہمیں ان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے بھی چند چھوٹے چھوٹے اقدامات کرنے چاہئیں، آپ کا فرقہ یا آپ کا مذہب آج کے حالات میں آپ کو ٹارگٹ بنا سکتا ہے۔
آپ اگر عارضی طور پر ایسے اقدامات کر لیں جن سے دوسروں کو آپ کے مذہب یا فرقے کا اندازہ نہ ہو سکے تو یہ آپ، خاندان اور معاشرے تینوں کے لیے بہتر ہو گا، آپ اپنے نام کے ساتھ وہ سابقے اور لاحقے ختم کر دیں جن کی وجہ سے آپ غیر محفوظ ہو سکتے ہیں، آپ پورے خاندان کے ساتھ سفر نہ کریں اور اگر ضروری ہو تو آپ ایک گاڑی میں نہ بیٹھیں، خاندان کو دو حصوں میں تقسیم کریں اور انھیں دو ٹیکسیوں، دو رکشوں، دو بسوں، دو ٹرینوں اور دو گاڑیوں میں سوار کریں۔
آپ کے بجٹ میں تو یقینا اضافہ ہو جائے گا لیکن جان کی سلامتی بہرحال رقم سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے،آپ ہڑتالوں کے دنوں میں گھروں سے نہ نکلیں، مظاہروں کی جگہوں پر کبھی نہ جائیں، میں نے مظاہروں کے دوران ہمیشہ بے گناہ لوگوں کو زخمی ہوتے اور مرتے دیکھا ہے، مظاہرین زیادہ تر عام لوگوں کی گاڑیاں توڑتے ہیں، آپ ایسی جگہوں سے بچ کر رہیں، نماز مسجد کی بجائے گھر میں پڑھ لیں تو بہتر ہو گا، جمعہ کی نماز کا اہتمام بھی اگر دو تین خاندان مل کر صحن میں کر لیں تو یہ بھی بہتر ہو گا۔
آپ کوشش کریں آپ کے بچے باہر نہ جائیں، آپ گھر کے اندر ان کے بیٹھنے، کھیلنے اور ٹی وی دیکھنے کی جگہ بنا دیں، آپ انھیں اپنے دوستوں کو گھر بلانے کی اجازت دے دیں، بچوں کے دوستوں کے والدین کا نام، پتہ اور ٹیلی فون نمبر لے لیں، آپ کے بچے کا کوئی دوست جب آپ کے گھر آئے تو آپ اس کے والد کو فون کر کے اطلاع کر دیں، آپ کا فون بچے کے والدین کو بھی مطمئن کر دے گا اور آپ اپنے بچے کے دوستوں کے بیک گراؤنڈ سے بھی مطمئن ہو جائیں گے۔
آپ دوسرے والدین کو بھی یہ عادت ڈالیں وہ بھی آپ کو فون کر کے اطلاع دیں، والدین کی یہ ’’سوشل نیٹ ورکنگ‘‘ بچوں کے مستقبل کے لیے بہتر ہو گی اور آخری بات آپ کوشش کریں آپ اپنی آمدنی کا کم از کم بیس فیصد حصہ بچا کر رکھیں، یہ بچت آپ کو آسودگی بھی دے گی، اعتماد بھی اورحوصلہ بھی۔ آپ اگر اپنی آمدنی میں بچت نہیں کر سکتے تو آپ بچت کے لیے اضافی کام کریں، آپ پارٹ ٹائم کام کریں اور اس پارٹ ٹائم کام سے حاصل ہونے والی آمدنی بچا کر رکھیں، یہ بچی ہوئی آمدنی آپ کو درجنوں مسائل سے بچائے گی۔
یہ چھوٹی چھوٹی باتیں میرا ذاتی اور میرے دوستوں کا تجربہ ہیں، ہم نے ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے زندگی کے بے شمار سکھ حاصل کیے ہیں، آپ بھی کر سکتے ہیں۔
نوٹ: بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض نے کراچی کے بچے عرفان خان کے علاج کی ذمے داری اٹھا لی، خاندان کے بھارت کے سفر، رہائش اور دیگر اخراجات کا بندوبست بھی ہو چکا ہے۔ خاندان کی ضرورت پوری ہو چکی ہے چنانچہ احباب سے درخواست ہے آپ مزید رقم نہ بھجوائیں۔
پھر شہباز شریف،پھر ملک ریاض
جاوید چوہدری جمعرات 16 اپريل 2015

محمد عرفان خان،14 سال کے محمد عرفان خان اور میاں شہباز شریف اور ملک ریاض تینوں کی کہانی میں ایک قدر مشترک ہے،یہ تینوں ایک ہی کہانی کے تین کردار ہیں اور ہم چاہیں بھی تو ہم ان تینوں کو ایک دوسرے اور ایک تیسرے سے الگ نہیں کر سکتے،محمد عرفان خان کون ہے! یہ چودہ سال کا خوبصورت لڑکا تھا،یہ آج بھی ہے لیکن یہ اب اتنا خوبصورت نہیں جتنا یہ 8 ماہ پہلے تک تھا،یہ کراچی میں رہتا ہے،یہ والدین کی اکلوتی اولاد ہے۔
یہ اگست 2014ء تک عام نوجوان بچوں کی طرح بھاگتا،دوڑتا اور چھلانگیں لگاتا تھا،یہ تعلیم کے میدان میں بھی بہت آگے تھا،والدین،دوست احباب اور رشتے دار اسے دیکھتے تھے تو وہ اس پر نثار ہو جاتے تھے لیکن پھر ایک انہونی ہوئی،عرفان خان کے جسمانی اعضاء میں تبدیلی آنے لگی اور والدین کے دیکھتے ہی دیکھتے اس کی ٹانگیں،اس کے پاؤں کی انگلیاں اور اس کے گھٹنے مڑ گئے،یہ کھڑا ہونے سے معذور ہوگیا،ڈاکٹروں سے رابطہ کیا گیا،ٹیسٹ ہوئے مگر بیماری کی وجوہات معلوم نہ ہو سکیں۔
اس دوران عرفان کے ہاتھ،ہتھیلیاں اور ہاتھ کی انگلیاں بھی مڑ گئیں،یہ اب کوئی چیز پکڑ نہیں سکتا تھا،پھر اس کے حلق کے اندر تبدیلیاں آئیں اور یہ نگلنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہو گیا،پھر اس کی زبان سوجھ گئی اور قدرت نے اس کی بولنے کی صلاحیت بھی چھین لی،پھر اس کے پورے جسم پر خارش ہونے لگی،خارش کے ساتھ ہی اس کی نیند بھی جاتی رہی،یہ نیند سے بھی محروم ہو گیا،عرفان آٹھ مہینوں میں انسان سے سبزی بن گیا،یہ اب پاؤں پر کھڑا ہو سکتا ہے،ہاتھوں سے کوئی چیز پکڑ سکتا ہے‘کھانے کی کوئی چیز نگل سکتا ہے اور نہ ہی سو سکتا ہے۔
یہ ایک عجیب و غریب بیماری تھی،ڈاکٹروں اور والدین نے ریسرچ کی تو پتہ چلا عرفان خان پر ’’ولسن ڈزیز‘،کا حملہ ہوا،یہ بیماری 1912ء میں دریافت ہوئی،دنیا میں اس وقت اس کے ایک سے تین کروڑ مریض ہیں،ولسن ڈزیز کا اگر شروع میں علاج نہ کیا جائے تو مریض 9 ماہ سے تین سال کے درمیان سسک سسک کر فوت ہو جاتا ہے،ڈاکٹروں نے علاج تلاش کیا،پتہ چلا بھارت کے شہر ممبئی کے اسپتال ’’جاس لاک‘،میں ایک ڈاکٹر ہیں،ابھانگرال۔ یہ ولسن بیماری کے ایکسپرٹ ہیں۔
یہ اس سے قبل نریندرا نام کے ایک بھارتی مصور کا علاج کر چکے ہیں،نریندرا پر بھی 12 سال کی عمر میں ولسن بیماری کا حملہ ہوا اور یہ بھی عرفان خان کی طرح معذور زندگی گزارنے لگا،والدین اور ڈاکٹروں کو ولسن ڈزیز کا علم ہوا تو انھوں نے ریسرچ شروع کی اور یہ بہت جلد ڈاکٹر نگرال تک پہنچ گئے‘ڈاکٹر نگرال نے نریندرا کا علاج شروع کیا،علاج کامیاب ہوگیا،یہ اب اپنے پاؤں پر بھی کھڑا ہوتا ہے‘یہ بولتا بھی ہے اور یہ چیزیں بھی پکڑتا ہے۔
نریندرا نے اپنی تعلیم بھی مکمل کی اور یہ بھارت کا ایک کامیاب مصور بھی بنا،یہ خبر عرفان خان کے والدین کے لیے خوش خبری تھی،ڈاکٹر نگرال سے رابطہ ہوا تو پتہ چلا،علاج پر 30 لاکھ روپے خرچ ہوں گے،یہ خبر ولسن بیماری سے بڑی بیماری ثابت ہوئی،عرفان خان کے والدین کراچی کے سفید پوش لوگ ہیں،یہ اتنی بڑی رقم ’’افورڈ‘،نہیں کر سکتے اور یہاں سے میاں شہباز شریف اور ملک ریاض کی کہانی شروع ہوئی۔
عرفان خان کے والدین نے ایک مشترکہ دوست کے ذریعے مجھ سے رابطہ کیا،ان کا کہنا تھا،میں عرفان کا کیس میاں شہباز شریف کو پہنچا دوں یا پھر ملک ریاض کو۔ میری ہنسی نکل گئی،میرا دوست مائینڈ کر گیا،اس نے مجھ سے ہنسنے کی وجہ پوچھی،میں نے اس سے عرض کیا ’’ہم بہت دلچسپ لوگ ہیں،میں نے آج تک کسی شخص کے منہ سے میاں شہباز شریف اور ملک ریاض کے لیے کلمہ خیر نہیں سنا،لوگ ان دونوں کو سرعام برا بھلا کہتے ہیں۔
یہ ان دونوں سے تعلق کی وجہ سے مجھے بھی گالیاں دیتے ہیں،میں ملک ریاض کی وجہ سے 17 سال سے گالیاں کھا رہا ہوں اور لوگ میاں شہبازشریف کی وجہ سے مجھے 10 سال سے برا بھلا کہہ رہے ہیں لیکن جب بھی کوئی شخص کسی مہلک مرض کا شکار ہوتا ہے،کسی کو مالی امداد کی ضرورت پڑتی ہے،کسی بیوہ،کسی یتیم بچے اور کسی بزرگ کو اعانت کی ضرورت پڑتی ہے یا پھر کسی شخص کے ساتھ ظلم ہوتا ہے۔
لوگ مجھے فون کرتے ہیں اور میاں شہباز شریف یا ملک ریاض سے رابطے کی فرمائش کرتے ہیں،میں لوگوں کے اس رویے پر حیران ہوں،میاں شہباز شریف اور ملک ریاض اگر غلط ہیں،یہ اگر برے ہیں تو پھر لوگوں کو مشکل وقت میں پورے ملک میں صرف یہ دو لوگ کیوں نظر آتے ہیں اور اگر یہ اچھے ہیں‘یہ درد دل رکھتے ہیں،یہ دکھی انسانیت کا ساتھ دیتے ہیں،یہ عرفان خان جیسے بچوں کی مدد کرتے ہیں تو پھر لوگ انھیں برا بھلا کیوں کہتے ہیں،یہ انھیں گالی دیتے وقت ان کی اچھائیوں،ان کی خوبیوں کو کیوں فراموش کر دیتے ہیں،یہ لوگ ان کے بارے میں اتنے سخت گیر کیوں ہیں؟‘،میرا دوست خاموش رہا،میں نے اس سے عرض کیا’’ آپ حقیقت ملاحظہ کیجیے،عرفان کا تعلق صوبہ سندھ اور کراچی شہر سے ہے،کراچی اڑھائی کروڑ لوگوں کا شہر ہے۔
آصف علی زرداری اور سید قائم علی شاہ سندھ کے والی وارث ہیں،میاں شہبازشریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہیں اور ملک ریاض کا نوے فیصد کاروبار پنجاب تک محدود ہے،یہ پچھلے سال پنجاب اور وفاقی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے کراچی گئے،یہ وہاں کاروبار کی کوشش کر رہے ہیں لیکن جب عرفان پر ولسن بیماری کا حملہ ہوا تو اس کے والدین کو بھی پورے کراچی اور پورے سندھ کے بجائے یہ دو لوگ نظر آئے،کیوں؟ کیا یہ ان دونوں کے درد دل اور انسانیت کی خدمت کا اعتراف نہیں‘،میرا دوست خاموش رہا،میں نے اس سے عرض کیا ’’ آئیے ہم ایک تجربہ کرتے ہیں۔
ہم عرفان خان کے علاج کے لیے مختلف مخیر حضرات سے رابطہ کرتے ہیں اور ان سے عرفان کے علاج کی ذمے داری اٹھانے کی درخواست کرتے ہیں اور پھر دیکھتے ہیں ملک میں کس میں اتنا حوصلہ ہے ‘یہ اللہ کے نام پر اکیلا تیس لاکھ روپے خرچ کر دے،کس میں اتنی جان ہے یہ اس بچے کو بھارت بھجوائے،علاج کرائے اور اسے اس کے پاؤں پر کھڑا کر دے،آئیے ہم تجربہ کرتے ہیں،ہم سید قائم علی شاہ سے رابطہ کرتے ہیں،ہم آصف علی زرداری کی منت کرتے ہیں،ہم بلاول زرداری بھٹو کو فون کرتے ہیں،ہم سندھ کے وزیر صحت مہتاب حسین داہر سے درخواست کرتے ہیں۔
ہم میاں منشاء سے اپیل کرتے ہیں‘ہم ملک کے پہلے دس امراء کے پاس جاتے ہیں،ہم ان کی ٹھوڑی،ان کے گھٹنوں کو ہاتھ لگاتے ہیں،ہم ہاتھ باندھ کر ان کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ان سے درخواست کرتے ہیں،آپ خدا کے لیے عرفان کی زندگی بچا لیں اور پھر اس منت،اس درخواست کا نتیجہ دیکھتے ہیں،چلیے ہم عمران خان سے رابطہ کرتے ہیں،ہم علامہ طاہر القادری،ہم مولانا فضل الرحمن،ہم سراج الحق،ہم پرویز خٹک،ہم ڈاکٹر عبدالمالک،ہم محمود اچکزئی،ہم چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی اور ہم اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق سے رابطہ کرتے ہیں،ہم ان سے درخواست کرتے ہیں۔
آپ خدا کے لیے عرفان کے علاج کی ذمے داری اٹھا لیں،آپ اگر قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی صرف ایک دن کی تنخواہ عرفان کے لیے وقف کر دیں تو یہ بچہ بچ جائے گا،چلیے ہم وزیراعظم سے درخواست کرتے ہیں،آپ اس بچے کا علاج بھی کرائیں اور آپ ملک کے چاروں صوبوں کے دو،دو ڈاکٹروں کوملک سے باہر بھجوا کر ’’ولسن ڈزیز‘،کے علاج کی ٹریننگ دلائیں تاکہ مستقبل میں اگر کوئی بچہ اس بیماری کا شکار ہو تو اس کا علاج ملک میں ممکن ہو،آپ آئیے میرا ساتھ دیجیے،ہم عرفان کا پرچم اٹھا کر ملک کے ہر ایوان میں جاتے ہیں،ہم ہر دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔
ہم ہر اس گلی‘ہر اس کوچے اور ہر اس غار میں آواز دیتے ہیں جہاں ہماری آواز سنی اور سنائی جا سکتی ہے اور ہم اس کے بعد نتیجہ دیکھتے ہیں‘‘میرے دوست نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا’’ عرفان کے پاس زیادہ دن نہیں ہیں،ہم یہ تجربہ نہیں کر سکیں گے،میری درخواست ہے،آپ تجربہ کرنے کے بجائے میاں شہباز شریف اور ملک ریاض سے رابطہ کریں تاکہ بچے کا علاج ہو سکے‘،میں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔
میں یہ کالم ملک کے کسی ایسے تیسرے شخص کے لیے لکھ رہا ہوں جو پچھلی دو دہائیوں سے سامنے نہیں آیا،میں اٹھارہ کروڑ لوگوں کے اس ملک میں ملک ریاض اور میاں شہباز شریف کے علاوہ کوئی ایسا شخص تلاش کر رہا ہوں جو عرفان جیسے بچوں کی اپیل پر آنکھ بند کر کے اپنے اکاؤنٹس کے منہ کھول دے،جو یہ سوچے بغیر دوسرے کی مدد کرے ’’عرفان کا تعلق میرے صوبے سے نہیں،میں پنجاب کا بجٹ سندھ کے شہری پر کیوں لگاؤں‘،جو اٹھے اور یہ اعلان کرے میں دھرنوں پر ایک ایک ارب روپے خرچ کر سکتا ہوں تو کیا میں عرفان کے لیے 30 لاکھ روپے کا بندوبست نہیں کر سکتا؟ اور جو یہ کہے’’ میں نے اللہ کے دیے ہی سے دینا ہے،میرے پاس کیا تھا،میرے پاس کیا رہ جائے گا‘،کیا اٹھارہ کروڑ لوگوں کے اس ملک میں میاں شہباز شریف اور ملک ریاض کے علاوہ بھی کوئی زندہ شخص موجود ہے۔
اگر ہاں تو محمد عرفان خان اس کا انتظار کر رہا ہے۔ (آپ اگر عرفان کے علاج کی مالی سکت رکھتے ہیں تو آپ مہربانی فرما کر 0300-8208203 پر عرفان کے خاندان سے رابطہ کر لیں)۔
نوٹ:۔ ولسن ڈزیز اعصاب کی بیماری ہے،یہ جینز کے ’’ڈس آرڈر‘،سے پیدا ہوتی ہے‘یہ بیماری جسم میں تانبے کی مقدار بڑھا دیتی ہے،یہ تانبا انسان کے جگر،گردوں اور دماغ کو بری طرح متاثر کرتا ہے،ہم میں سے 100 لوگوں میں سے کسی ایک میں ولسن بیماری کے اثرات ہوتے ہیں،مرد اور عورت اگر دونوں ولسن بیماری کے اثرات رکھتے ہوں تو ان کی اولاد میں ولسن ڈزیز کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
دنیا کے ایک لاکھ انسانوں میں ایک سے چار لوگ اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں،یہ بیماری امریکی ڈاکٹر سمیئل الیگزینڈر ولسن نے 1912ء میں دریافت کی ،ڈاکٹر ولسن 1878ء میں برطانیہ میں پیدا ہوئے،امریکا نقل مکانی کی اور یہ 1937ء میں انتقال کر گئے لیکن دنیا کو ولسن بیماری کی معلومات دے گئے‘یہ بیماری بعد ازاں ڈاکٹر ولسن کی وجہ سے ولسن ڈزیز کہلائی،ولسن ڈزیز کا علاج نیوزی لینڈ کے نیورالوجسٹ ڈریک ڈینی براؤن نے 1951ء میں دریافت کیا،دنیا میں اس وقت ولسن ڈزیز کے ایک کروڑ سے تین کروڑ مریض ہیں،یورپ میں ہر سال بارہ ہزار مریض سامنے آتے ہیں۔
ہم اگر ملک میں شادی سے قبل میڈیکل ٹیسٹ لازمی قرار دے دیں تو ہم اپنے بچوں کو ولسن ڈزیز،تھیلیسیمیا اور ہیپاٹائیٹس جیسے دو درجن امراض سے بچا سکتے ہیں مگر شاید گوادر کاشغر روٹ جیسے بڑے بڑے منصوبوں میں مصروف وزیراعظم کے پاس اس معمولی انسانی المیے کے لیے وقت نہیں،ہم سعودی عرب کی مدد کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا سکتے ہیں لیکن شادی سے قبل میڈیکل ٹیسٹ کو لازمی قرار دینے کے لیے قومی اسمبلی میں ایک قرارداد نہیں لا سکتے۔ہم زندہ قوم ہیں اور زندہ قوموں کے پاس اپنے زندہ لوگوں کے لیے وقت اور سرمایہ نہیں ہوا کرتا۔
ہم انکار نہیں کر سکیں گے
جاوید چوہدری منگل 14 اپريل 2015

آپ کو یمن سعودی عرب ایشو اور پاکستان کی مجبوری سمجھنے کے لیے تھوڑا سا ماضی میں جانا ہو گا، آپ چند لمحوں کے لیے 1999ء میں آ جائیے۔
8مئی 1999ء کو کارگل کی پہاڑیوں پر قبضہ ہوا جس کے بعد پاک فوج اور بھارتی فوج میں لڑائی شروع ہوگئی، جنگ میں ایک ایسا موقع آیا جب امریکی مصنوعی سیاروں نے سی آئی اے اور پینٹا گان کو اطلاع دی، پاکستان اپنے جوہری ہتھیار اور میزائل سرحد پر منتقل کر رہا ہے، امریکا نے اس اطلاع کے بعد خطے میں براہ راست مداخلت کا فیصلہ کر لیا، امریکی صدر بل کلنٹن اور میاں نواز شریف کے درمیان رابطہ ہوا اور میاں نواز شریف 4 جولائی 1999ء کو واشنگٹن روانہ ہو گئے۔
میاں صاحب امریکا پہنچے تو بروس ریڈل اسٹوری میں داخل ہوا، بروس ریڈل 1999ء میں ساؤتھ ایشیا ایشوز پر بل کلنٹن کے معاون خصوصی تھے، یہ نیشنل سیکیورٹی کونسل میں ساؤتھ ایشیا کے سینئر ڈائریکٹر بھی تھے۔ میاں نواز شریف اور بل کلنٹن کے درمیان وہائٹ ہاؤس کے بلیئرہاؤس میں ملاقات ہوئی، بروس ریڈل ملاقات کے دوران وہاں موجود رہا، یہ ملاقات کے نوٹس بھی لیتا رہا، امریکی صدر نے ملاقات کے دوران بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو جگایا، پاکستان اور بھارت کے وزراء اعظم کے درمیان بات چیت کرائی اور پاکستان سے کارگل سے فوجیں ہٹانے کا وعدہ لیا، بروس ریڈل نے 2002ء میں بل کلنٹن اور میاں نواز شریف کی اس ملاقات کے بارے میں American Diplomacy and the 1999 Kargil Summit at Blair House کے ٹائٹل سے ایک طویل مضمون لکھا، یہ مضمون آج بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے۔
یہ چشم کشا مضمون تھا، آپ کو اس مضمون میں اپنی قیادت کے اعصاب اور معیار کا اندازہ ہوتا ہے، میں مضمون میں درج بروس ریڈل کے تین تاثرات آپ کے سامنے رکھتا ہوں، بروس ریڈل نے مضمون کے آٹھویں صفحے پر لکھا ’’نواز شریف اپنی بیگم اور بچوں کو واشنگٹن ساتھ لائے تھے، یہ وزیراعظم کی پریشانی کا اشارہ تھا، ان کا خیال تھا یہ اس ملاقات کے بعد شاید پاکستان واپس نہ جا سکیں یا پھر فوج نے انھیں ملک چھوڑنے کا اشارہ دے دیا تھا‘‘ بروس ریڈل نے صفحہ 9 پر انکشاف کیا ’’ مجھے امریکا میں سعودی عرب کے سفیر پرنس بندر بن سلطان نے بتایا، نواز شریف نے ان سے ملاقات بھی کی۔
نواز شریف دو معاملات پر بہت پریشان تھے، ایک ،اپنے اقتدار اور دوسرے آرمی چیف کی طرف سے دھمکی۔ آرمی چیف وزیراعظم کو کارگل پر سخت موقف اختیار کرنے پر مجبور کر رہے تھے‘‘۔ بروس ریڈل نے صفحہ 15 پر لکھا ’’ میاں نواز شریف نے ستمبر 1999ء میں اپنے بھائی شہباز شریف کو واشنگٹن بھیجا، ہم ملاقات کے دوران شہباز شریف سے یہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے وزیراعظم مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ہم سے کیا چاہتے ہیں جب کہ میاں شہباز شریف صرف یہ ڈسکس کررہے تھے، امریکا ان کے بھائی کو اقتدار میں رکھنے کے لیے کیا مدد کر سکتا ہے‘‘۔
آپ میاں نواز شریف کے صرف اس امریکی دورے کا تجزیہ کریں تو آپ کو پاکستانی سیاست میں امریکا اور سعودی عرب کے موجودہ عمل دخل کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا، کارگل پر میاں نواز شریف اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے درمیان تنازعہ پیدا ہوا، میاں صاحب واشنگٹن گئے، صدر بل کلنٹن اور سعودی سفیر بندر بن سلطان سے ملاقات کی اور بل کلنٹن اور پرنس بندر بن سلطان نے انھیں جان اور خاندان کی سلامتی کی یقین دہانی کرائی۔
جنرل مشرف نے 12 اکتوبر 1999ء کو ’’ٹیک اوور‘‘ لیا، میاں نواز شریف خاندان سمیت گرفتار ہوئے، مقدمات قائم ہوئے اور یہ بڑی تیزی سے بھٹو جیسے انجام کی طرف بڑھنے لگے لیکن پھر میاں نواز شریف کے ضامن آگے بڑھے، بل کلنٹن نے اپنی بائیو گرافی میں لکھا ’’میں نواز شریف کو بچانے کے لیے پاکستان گیا اور جنرل مشرف سے ملاقات کی‘‘ جب کہ بروس ریڈل نے ایک دوسرے مضمون میں لکھا، میں نے شریف کی جان بخشی کے لیے پرنس بندر بن سلطان کی مدد لی۔
سعودی عرب کے شاہ فہد نے زور لگایا اور جنرل پرویز مشرف مان گئے، تحریری معاہدے کا وقت آیا تو سعودی عرب نے لبنان کی حریری فیملی کو آگے کر دیا، ہوا بازی پر وزیراعظم کے موجودہ خصوصی مشیر شجاعت عظیم اس وقت حریری خاندان کے ذاتی پائلٹ تھے، شجاعت عظیم نے خصوصی کردار ادا کیا۔
جنرل پرویز مشرف اور میاں نواز شریف کے درمیان دس سال کا معاہدہ طے پایا اور میاں نواز شریف 10دسمبر 2000ء کو سعودی شاہ کے خصوصی طیارے پر حجاز مقدس چلے گئے اور سات سال سعودی میزبانی کا لطف اٹھاتے رہے، بل کلنٹن کی جنوری 2001ء میں صدارتی مدت ختم ہوئی، یہ آکسفورڈ میں لیکچر دینے گئے، بل کلنٹن نے وہاں تقریر کے دوران انکشاف کیا ’’ میں نے نواز شریف سے وعدہ کیا تھا اور میں نے صدارتی مدت ختم ہونے سے پہلے یہ وعدہ پورا کر دیا‘‘۔
آپ یہ کہانی چند لمحوں کے لیے یہاں روکیں اور متحدہ عرب امارات اور بے نظیر بھٹو کے تعلقات کی نوعیت ملاحظہ کریں، محترمہ بے نظیر بھٹو نے 1999ء میں ملک چھوڑا، پاکستان میں ان کے خلاف کرپشن، منی لانڈرنگ اور اختیارات سے تجاوز کے درجنوں مقدمات قائم تھے، یہ پاکستان سے نکلیں اور دوبئی کو اپنا مستقل گھر بنا لیا، یہ 8 سال دوبئی میں مقیم رہیں۔
میاں نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف محترمہ کے لیے یو اے ای پردباؤ ڈالتے رہے لیکن یو اے ای کا حکمران محترمہ کو سپورٹ کرتا رہا، جنرل مشرف کو 2007ء میںفارغ کرنے اور محترمہ کو اقتدار میں لانے کا فیصلہ ہوا توجنرل مشرف اور محترمہ کے درمیان یو اے ای کے ذریعے این آر او کروایا گیا، جنرل مشرف خصوصی طیارے پر ابوظہبی آئے اورمحترمہ سے ملاقات ہوئی، متحدہ عرب امارات اس معاہدے کا ضامن تھا، آصف علی زرداری بھی 2004ء میں جیل سے رہا ہو کر دوبئی آ چکے تھے، محترمہ پاکستان آئیں اور 27 دسمبر 2007ء کو شہید کر دی گئیں۔
آصف علی زرداری پاکستان آئے اور عنان اقتدار سنبھال لی، آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف نے جنرل مشرف کے خلاف مواخذے کا فیصلہ کیا، جنرل مشرف نے زرداری اور نواز شریف کے ضامنوں سے رابطہ کیا، امریکا، برطانیہ، سعودی عرب اور یو اے ای ایکٹو ہوئے، جنرل مشرف کا میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری سے معاہدہ ہوا، جنرل مشرف نے صدارت سے استعفیٰ دیا اور یہ بھی دوبئی اور لندن کے باسی ہو گئے، سعودی شاہی خاندان ان کا کیئر ٹیکر ہو گیا۔
جنرل مشرف نے لندن میں 1.3 ملین پاؤنڈ کا فلیٹ خریدا، فلیٹ کی قیمت یو اے ای کے ایک شہزادے نے ادا کی، شاہ عبداللہ آخری وقت تک جنرل مشرف کے سپورٹر رہے، حکومت نے 2008ء میں جنرل کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا تو شاہ عبداللہ نے جنرل کیانی کو ریاض طلب کیا اور ان سے کہا ’’ مشرف میرا صدر ہے اسے کوئی تکلیف ہوئی تو میں اپنا ذاتی جہاز بھجوا کر اسے اسی محل میں رکھوں گا جہاں میں نے نواز شریف کو رکھا تھا‘‘ یہ پیغام صدر زرداری صاحب کو بھی دیا گیا، آپ کو یاد ہو گا۔
چوہدری نثار نے 2009ء میں قومی اسمبلی میں جیب سے ایک کاغذ نکالا اور لہراکر کہا ’’ یہ ہے آرٹیکل سکس کا وہ مسودہ جس کے تحت ہم جنرل مشرف کے خلاف کارروائی کریں گے‘‘۔ یہ کاغذ لہرانے کے چند دن بعد برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ پاکستان آئے،لاہور میں جاتی عمرہ میں میاں نواز شریف سے ملاقات کی اور میاں نوازشریف جنرل مشرف ایشو پر خاموش ہو گئے۔
پاکستان میں تین مضبوط ترین سفیر ہوتے ہیں، امریکی سفیر، برطانوی سفیر اور سعودی سفیر، آپ کو یقین نہ آئے تو آپ انٹرنیٹ پر سعودی سفیر کی دعوت کی تصویریں نکال کر دیکھ لیں، سعودی سفیر عبدالعزیز الغدیر نے27 اگست 2009ء کو پاکستانی سیاستدانوں کو افطار ڈنر پرمدعو کیا، اس دعوت میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سمیت وہ تمام لوگ موجود تھے جو عام حالات میں ایک دوسرے کی طرف دیکھنا بھی مناسب نہیں سمجھتے، نواز شریف بھی وہاں تھے اور چوہدری شجاعت بھی، آج بھی سعودی عرب، امریکا اور یو اے ای جنرل مشرف کے ضامن ہیں اور یہ اس ضمانت کا کمال ہے ۔
جنرل مشرف آرٹیکل سکس کی کارروائی کے باوجود کراچی میں آرام دہ زندگی گزار رہے ہیں اور میاں نوازشریف کوشش کے باوجود ان کا بال تک بیکا نہیں کر سکتے۔آپ پاکستانی معاشرے پر بھی سعودی عرب کی نوازشات فراموش نہیں کر سکتے، ہم نے افغان جہاد سعودی عرب کے پیسے سے لڑا تھا، ہمارے نیو کلیئر پروگرام میں سعودی عرب کی معاونت تھی، سعودی عرب نے ایٹمی دھماکوں کے بعد تین سال تک پاکستان کو مفت پٹرول دیا، سعودی عرب سے زکوٰۃ اور صدقات بھی آتے ہیں اور یہ مدارس میں تقسیم ہوتے ہیں۔
ہمارا سعودی عرب سے فوجی تعاون بھی چل رہا ہے، پاکستان کے سیاستدانوں بزنس مینوں، بیوروکریٹس اور سابق فوجی افسروں نے یو اے ای میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، پاکستان میں دوبئی سے روزانہ 29فلائٹس آتی اور جاتی ہیں، کراچی میں ایسے بزنس مین بھی ہیں جو صبح پاکستان آتے ہیں اور رات کو واپس دوبئی چلے جاتے ہیں اور ہمارے 30 لاکھ ہنرمند عرب ممالک میں کام کر رہے ہیں۔
یہ ساری مجبوریاں مل کر کیا بتاتی ہیں، یہ بتاتی ہیں، ہم چوں کریں یا چاں کریں ہمیں بہر حال سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا، ہمارے حکمران زیادہ دیر تک سعودی عرب کے سامنے انکار نہیں کر سکیں گے، آج مولانا فضل الرحمن جو فرما رہے ہیں کل ملک کے تمام سیاستدان یہی فرمائیں گے۔
ہم سعودی عرب کی بات مانیں گے، ہم اپنی فوج گلف بھجوائیں گے اور ہم نے اگر انکار کیا تو پھر ہمیں واقعی بھاری قیمت چکانا ہو گی اور اس قیمت کا آغاز نواز شریف،آصف علی زرداری اور جنرل مشرف سے ہو گا، کیا ہم یہ سزا بھگت لیں گے، ہم عوام شاید یہ بھگت لیں لیکن ہمارے حکمران نہیں بھگت سکیں گے،کیوں؟ کیونکہ یہ دوبئی اور سعودی عرب کے محلات کے دروازے بند نہیں ہونے دیں گے۔
یہ امریکا اور برطانیہ کے ائیر پورٹس پر اپنی انٹری بھی ’’بین،، نہیں ہونے دیں گے لہٰذا ہو گا کیا؟ ہو گا یہ حوثی باغیوں کی طرف سے مکہ مدینہ پر حملے کا ایک جعلی بیان آئے گا اور پاکستانی حکومت کو سعودی عرب کی مدد کا جواز مل جائے گا، ہم سعودی عرب کی مدد کریں گے اوریوں ہمارا تیسرا ہمسایہ ایران بھی ہم سے ناراض ہو جائے گا، ہم ایک اور جنگ میں گر جائیں گے، آخری جنگ میں، ہمیں یہ جنگ بالآخر لڑنا ہو گی کیونکہ بھکاری قوموں کے پاس کبھی دوسرا آپشن نہیں ہوا کرتا، ہمارے پاس بھی دوسرا آپشن نہیں۔
باپ بننا آسان، والد بننا مشکل
جاوید چوہدری اتوار 12 اپريل 2015

’’ہمارے آبائی علاقے میں ہماری خاندانی مخالفت تھی، ہمارا مخالف خاندان دہائیوں سے ہمارے خلاف لڑ رہا تھا، یہ تگڑے زمیندار تھے، بیورو کریسی میں بھی ان کی رشتے داریاں تھیں اور یہ افرادی قوت کے لحاظ سے بھی مضبوط تھے،مخالف خاندان کا ایک جوان اٹھا اور بڑی تیزی سے ہمیں نقصان پہنچانے لگا، میں پریشان ہو گیا، میں نے ایک دن اپنے ایک بزرگ دوست سے مشورہ کیا،میں نے ان سے کہا، ہم نے اگر اس کو نہ روکا تو یہ ہمیں لے کر بیٹھ جائے گا۔
میرے بزرگ دوست ہنسے اور انھوں نے کہا، صدیق تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں،یہ زیادہ دنوں تک نہیں بچ سکے گا، میں نے وجہ پوچھی، بزرگ ہنس کر بولے، یہ نوجوان طاقتور بھی ہے، دولت مند بھی اور غصیلا بھی۔ میرا تجربہ ہے جہاں یہ تینوں چیزیں جمع ہو جائیں، وہاں بربادی کے سوا کچھ نہیں بچتا، میں نے وضاحت چاہی ، بزرگ نے جواب دیا، طاقت اور دولت نشہ ہوتی ہے، یہ نشہ انسان میں غرور پیدا کرتا ہے، آپ کی شخصیت میں اگر پہلے سے غصہ موجود ہو تو یہ غصہ غرور کو دس گنا بڑھا دیتا ہے۔
آپ آگ کا گولہ بن جاتے ہیں، میں نے زندگی میں ہمیشہ مغرور غصیلے لوگوں کو غیر طبعی موت مرتے دیکھا، یہ نوجوان بھی مغرور اور غصیلا ہے، یہ بہت جلد مارا جائے گا، مجھے ان سے اتفاق نہیں تھا لیکن میں احترام میں خاموش رہا، ہمارے بزرگ کی بات ایک سال بعد سچ ثابت ہوگئی، ہمارا مخالف اپنے مزارعے کے ہاتھوں مارا گیا‘‘۔
مجھے یہ واقعہ صدیق کانجو صاحب نے سنایا تھا، کانجو صاحب ملک کے مشہور سیاست دان تھے، یہ لودھراں کی تحصیل کہروڑ پکا کے رہنے والے تھے، وہاں ان کا خاندانی گاؤں اور وسیع جاگیر تھی، یہ 1977ء میں سیاست میں آئے، تین بار قومی اسمبلی کے رکن بنے، یہ پاکستان مسلم لیگ ن میں تھے، میاں نواز شریف نے اپنے سابق دور حکومت میں انھیں خارجہ امور کا وزیرمملکت بنا دیا، گوہر ایوب اس دور میں وزیر خارجہ ہوتے تھے۔
صدیق کانجو کی وجہ سے گوہر ایوب اور میاں نواز شریف کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہوگئیں، ان غلط فہمیوں کے نتیجے میں گوہر ایوب نے اگست 1998ء میں وزارت خارجہ کا قلم دان چھوڑ دیا اور یہ پانی و بجلی کے وزیر بن گئے، کانجو صاحب انگلش لٹریچر میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے، وہ دیر تک انگلش ڈرامہ نویسوں، ناول نگاروں اور شاعروں کے حوالے دیتے رہتے تھے، میاں نواز شریف 1997-99ء میں جلد غصے میں آ جاتے تھے، آپ اگر نواز شریف کی پچھلی حکومت کا تجزیہ کریں تو آپ کو محسوس ہو گا میاں صاحب کے اس دور کے زیادہ تر فیصلوں کی بنیاد غصہ تھی، یہ غصہ بالآخر میاں صاحب کی حکومت نگل گیا، صدیق کانجو نے بعد ازاں پاکستان مسلم لیگ ق جوائن کر لی، یہ 2001ء کی بات ہے۔
میں نے ان سے میاں صاحب کی حکومت کے خاتمے کی وجہ پوچھی، کانجو صاحب نے یہ واقعہ سنایا اور جواب دیا ’’میاں صاحب میں تکبر کے ساتھ ساتھ غصہ پیدا ہو گیا تھا چنانچہ ان کا غصہ اور تکبر پوری حکومت کو لے کر بیٹھ گیا اور ہم بھی میاں نواز شریف کے ساتھ فارغ ہو گئے‘‘ صدیق کانجو یہ واقعہ سنانے کے چند دن بعد قتل ہو گئے، وہ 2001ء کے بلدیاتی الیکشن کی مہم پر تھے، مہم کے دوران حملہ ہوا، کانجو صاحب کو گولی لگی اور وہ دنیا سے رخصت ہو گئے،آپ ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے، صدیق کانجو کا انتقال ٹھیک اس جگہ ہوا جہاں سے انھوں نے 1977ء میں سیاست شروع کی ، مجھے آج بھی ان کا افسوس ہے، وہ اچھے، سمجھ دار اور ریفائن سیاستدان تھے، وہ اگر ہمارے سیاسی افق پر قائم رہتے تو ملک کو بہت فائدہ ہوتا مگر بہرحال یہ دنیا سرائے ہے اور اس کے ہر مسافر نے بالآخر رخصت ہو جانا ہے۔
صدیق کانجو نے ایک سے زائد شادیاں کر رکھی تھیں، ان کی خاندانی بیگم گاؤں میں رہتی تھیں جب کہ دوسری بیگم کا تعلق لاہور سے تھا، یہ آج بھی کیولری گراؤنڈ میں رہتی ہیں، لاہور والی بیگم صاحبہ کے تین بچے ہیں، دو بیٹے، ایک بیٹی۔ بیٹوں میں ایک کا نام مصطفی کانجو ہے، یہ ’’چیکو‘‘ کے نام سے مشہور ہے،چیکو نے ایچی سن کالج سے تعلیم حاصل کی، یہ اس وقت 34 برس کا جوان ہے، صدیق کانجو کے بعد جائیداد تقسیم ہوئی ، کیولری گراؤنڈ کا گھر ’’چیکو‘‘ کی والدہ کے حصے میں آگیا، یہ اس وقت لاہور کی مشہور سوشل خاتون ہیں، چیکو بڑے باپ کا بیٹا تھا، اس نے زندگی میں طاقت بھی دیکھی اور دولت بھی۔مزاج بھی غصیلا تھا، یہ آدھی زندگی گزار چکا ہے لیکن یہ ابھی تک ’’سیٹل‘‘ نہیں ہوا، یہ نشے کا عادی بھی ہے۔
بدتمیز بھی ہے اور بد کلام بھی۔ یکم اپریل بدھ کی شب چیکو نے وہ کام کیا جس کا حوالہ صدیق کانجو صاحب نے 15 سال قبل دیا تھا، چیکو اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ گھر واپس آرہا تھا، یہ نشے میں دھت تھا، گاڑی گلی میں مڑنے لگی تو دوسری طرف سے ایک چھوٹی گاڑی آ رہی تھی، اس گاڑی میں دو خواتین سوار تھیں، جگہ تنگ تھی، گاڑیاں گزارنے کی کوشش میں دونوں گاڑیوں کے سائیڈ شیشے ٹکرا گئے، چیکو کو غصہ آ گیا،چیکو نے شیشہ نیچے کیا اور خواتین کو ماں بہن کی گالیاں دینا شروع کر دیں، خواتین بھی غصے میں آ گئیں، بات آگے بڑھ گئی، چیکو گاڑی سے اترا، گلی میں کھڑا ہوا اور چیخنا شروع کر دیا، گلی کے چوکیدار، محلے میں کام کرنے والے ملازمین اور آس پاس کے گارڈز وہاں پہنچ گئے۔
چیکو کو بدتمیزی کرتے دیکھا تو وہ اسے سمجھانے کی کوشش کرنے لگے، چیکو مزید بگڑ گیا اور اس نے انھیں بھی گالیاں دینا شروع کر دیں، وہ چیکو کو سمجھارہے تھے لیکن طاقت، دولت، غرور اور غصہ چاروں ایک جگہ جمع ہو چکے تھے، چیکو کا غصہ آسمان کو چھونے لگا، وہ سیدھا گھر گیا، گرل فرینڈ کو اتارا، بیڈروم سے کلاشنکوف اٹھائی، ملازموں اور گارڈز کو ساتھ لیا اور جھگڑے کی جگہ پہنچ گیا، وہ خواتین جن سے چیکو کا جھگڑا ہوا تھا وہ جا چکی تھیں لیکن محلے کے ملازمین اور چوکیدار وہیں موجود تھے، چیکو نے ملازمین کو گالیاں دیں اور اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔
ایک 13 سال کا بچہ زین موٹر سائیکل پر وہاں سے گزر رہا تھا، وہ بچہ یتیم تھا اور دو بہنوں اور ماں کا اکیلا سہارا تھا، چیکو کی گولی زین کی گردن پر لگ گئی، زین نیچے گرا اور تڑپنے لگا، وہاں سے حسنین بھی گزر رہا تھا، یہ محلے میں گھریلو ملازم تھا، ایک گولی حسنین کے پیٹ میں بھی لگ گئی، وہ بھی گر کر تڑپنے لگا، چیکو نے دو لوگوں کو گرتے دیکھا تو وہ اپنے ملازمین کو وہیں چھوڑ کر بھاگ گیا، اس نے کلاشنکوف گھر میں پھینکی اور اپنے گاؤں کہروڑ پکا چلا گیا، پولیس ایکٹو ہوئی، مصطفی کانجو عرف چیکو گاؤں سے گرفتار ہوا، لاہور لایا گیا، حوالات میں بند کیا گیا اور میڈیا کو اس کی شکل دکھائی گئی۔
یہ اس وقت جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہے، قتل ثابت ہو چکا ہے، یہ اعتراف جرم کر چکا ہے، خاندان معافی، صلح اور خون بہا کی کوشش کر رہا ہے لیکن زین کی والدہ نہیں مان رہی لہٰذا یہ کیس اگر اسی طرح چلتا رہا تومصطفی کانجو کو سزائے موت ہو جائے گی، یہ پھانسی چڑھ جائے گا۔
ہم اب اس واقعے کا نفسیاتی تجزیہ کرتے ہیں، چیکو کو وراثت میں دولت اور طاقت ملی تھی، اس نے بچپن میں والد کا دبدبہ اور نام دیکھاتھا، یہ اس دبدبے کے ساتھ جوان ہوا، غصہ فطرت میں تھا، والد فوت ہوا تو کروڑوں روپے کی جائیداد مفت ہاتھ آ گئی، یہ بری صحبت کا شکار بھی ہو گیا، شراب کا عادی ہوا، بے راہ روی کے کیچڑ میں گرا اور مکمل طور پر خراب ہو گیا، یہ تمام خرابیاں جمع ہوتی رہیں یہاں تک کہ یکم اپریل 2015ء کا دن آگیااور ایک معمولی واقعے نے چیکو کو قاتل بنا دیا، آج وہ گاڑی گھر پر کھڑی ہے جس کا شیشہ ٹکرانے پر چیکو غصے سے پاگل ہو گیا، یہ گاڑی سال چھ مہینے میں بک بھی جائے گی۔
وہ دونوں خواتین اپنے گھر میں بیٹھی ہیں جن کی چیکو سے تو تکار ہوئی تھی، یہ خواتین بھی بہت جلد یہ واقعہ بھول جائیں گے، گلی کے وہ تمام ملازمین بھی اپنی اپنی زندگی میں مگن ہیں جنھوں نے اس دن چیکو کو سمجھانے کی کوشش کی، گلی کے لوگ بھی آہستہ آہستہ یہ واقعہ بھول جائیں گے بس پیچھے رہ جائے گا تو وہ چیکو ہو گا اور کال کوٹھڑی ہو گی، آپ اگر مجھ سے پوچھیں تو میں چیکو کو کم اور مرحوم صدیق کانجو کو زیادہ مجرم سمجھتا ہوں کیونکہ کانجو صاحب نے چیکو کے لیے دولت اور دبدبہ چھوڑتے وقت یہ نہیں سوچا تھا ’’ کیایہ بچہ اس کا اہل بھی ہے ؟‘‘ اور’’ یہ دولت کہیں اسے کال کوٹھڑی تک تو نہیں لے جائے گی؟‘‘ مجھے افسوس سے کہنا پڑے گا، کانجو صاحب سمیت ہم میں سے زیادہ تر لوگ یہ نہیں سوچتے چنانچہ ہمارے امراء کے زیادہ تر بچے سڑکوں پر حادثوں میں مرتے ہیں یا یہ قاتل بن جاتے ہیں۔
سزائے موت پاتے ہیں یا پھر پوری دولت خون بہا میں مقتول خاندان کو دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں یا پھر نشے کے ہاتھوں برباد ہو جاتے ہیں یا پھر بزرگوں کی سو سال کی کمائی طوائفوں کے قدموں میں نچھاور کر دیتے ہیں، یہ وہ کہانی ہے جو ہمارے خطے میں سیکڑوں سال سے دہرائی جا رہی ہے، ہم لوگ جتنی محنت دولت کمانے پر کرتے ہیں، ہم اگر اس کا ایک چوتھائی حصہ اپنے بچوں کی پرورش پر لگا دیں تو ہمارے بچے ذمے دار بھی ہوں، یہ غصہ بھی کنٹرول کر لیں اور یہ باعزت زندگی گزارنے کا فن بھی سیکھ لیں لیکن ہم بدقسمتی سے اپنا تمام وقت اور تمام توانائی دولت اور طاقت جمع کرنے پر ضایع کر دیتے ہیں۔
ہم اس دوڑ میں زندگی کی سرحدیں عبور کر جاتے ہیں اور ہمارے بعد ہماری پوری زندگی کی جمع پونجی ہمارے ایک داماد، ہمارے ایک چیکو اور ہمارے ایک نالائق سالے کا نوالہ ثابت ہوتی ہے، ہم جس بچے کو گود میں کھلاتے رہے، وہ بچہ زندگی کا آخری حصہ کال کوٹھڑی میں گزارتا ہے، کاش ہم یہ سمجھ لیں باپ بننا آسان لیکن والد بننا انتہائی مشکل ہوتا ہے، کاش ہم بچے پیدا نہ کریں، ہم انسان پیدا کریں لیکن یہ کام بہت مشکل ہے کیونکہ انسان پیدا کرنے کے لیے آپ کا انسان ہونا ضروری ہے اور ہم پوری دنیا کو انسان دیکھنا چاہتے ہیں لیکن خود انسان بننے کے لیے تیار نہیں ہیں چنانچہ پھر ہمارے لخت جگر چیکو بن جاتے ہیں۔
کوئی فرق نہیں
جاوید چوہدری جمعـء 10 اپريل 2015

آپ پھر ایک بارآدھے گھنٹے کے لیے برآمدے میں بیٹھئے، ایک بار پھر جوتے اتاریئے، ٹانگیں سیدھی کیجیے، اپنی پشت سیٹ کے ساتھ لگائیے، لمبی سانس لیجیے اور آپ ایک بار پھر وقت کو 10 اپریل سے 10 اگست تک پیچھے لے جائیے اور نئے پاکستان اور پرانے پاکستان کا تجزیہ کیجیے، آپ بھی میری طرح اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے میاں نواز شریف کو اب قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کی بات نہیں کرنی چاہیے، آپ بھی مان جائیں گے میاں نواز شریف کے منہ سے اب قانون اور آئین کی باتیں اچھی نہیں لگتیں۔
آپ دل پر ہاتھ رکھئے اور جواب دیجیے، آٹھ ماہ میں پاکستان کی کون سی گلی، کون سا مقام اور کون سا ایوان تھا جس میں قانون اور آئین کو بوٹوں تلے نہیں روندا گیا،قانون اور آئین کی کہاں کہاں تذلیل نہیں ہوئی؟ یہ آئین ایک بدنصیب آئین ہے، جنرل ضیاء الحق آئیں تو یہ اسے کاغذ کے چند ٹکڑے قرار دیتے ہیں اور جنرل پرویز مشرف آئیں تو یہ اس میں اپنی خواہش کے تمام پودے لگادیتے ہیں۔
آئین کے ساتھ یہ ظلم افسوس ناک تھا لیکن قوم کو میاں نواز شریف سے آئین شکنی اور قانون سے مذاق کی توقع نہیں تھی، پارلیمنٹ ملک کا مقدس ترین ایوان اور آئین مقدس ترین دستاویز ہوتی ہے لیکن پچھلے آٹھ ماہ میں پارلیمنٹ اور آئین دونوں کو جتنا ذلیل کیا گیا یہ ذلت ماضی کی ذلت سے مختلف تھی، ماضی میں آئین کو صرف طالع آزما روندتے تھے لیکن اس بار یہ قبلہ اپنے متولیوں کے ہاتھوں پامال ہوا، ہم عمران خان کو چند لمحوں کے لیے سائیڈ پر رکھ دیتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف نے جو کیا آپ چند لمحوں کے لیے بھول جائیے ، آپ آٹھ ماہ میں صرف حکومت کی قانون شکنیاں اور آئین کی پامالیاں ملاحظہ کیجیے، آپ حیران رہ جائیں گے، ماڈل ٹاؤن میں کیا ہوا؟ کیا 17 جون 2014ء کو ماڈل ٹاؤن میں گولی نہیں چلی، کیا یہ گولی 12 گھنٹے نہیں چلتی رہی، کیا میڈیا عوام کو فائرنگ اور پولیس آپریشن نہیں دکھاتا رہا، کیا وزیراعلیٰ اس فائرنگ اور پولیس آپریشن سے واقعی ناواقف تھے؟ کیا پولیس ان کی اجازت کے بغیر فائرنگ کرتی رہی، کیا اس فائرنگ میں14 بے گناہ عورتیں اور مرد نہیں مارے گئے اور کیا 100 لوگ زخمی نہیں ہوئے؟
آپ دل پر ہاتھ رکھئے اور جواب دیجیے حکومت نے اس سانحے پر اب تک کیا کیا؟ کیا وزیراعظم نے اپنے بھائی سے استعفیٰ لیا؟ اور کیا یہ واقعہ اگر کسی دوسرے صوبے میں ہوتا یا پنجاب میں کسی دوسری جماعت کی حکومت ہوتی یا میاں نواز شریف اپوزیشن میں ہوتے تو کیا ان کا رویہ یہی ہوتا؟ کیا یہ حکومت سے استعفیٰ نہ مانگتے، کیا یہ عدالتی کمیشن کا مطالبہ نہ کرتے اور کیا یہ ملزموں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کا مطالبہ نہ کرتے؟ آپ دل پر ہاتھ رکھئے اور جواب دیجیے سیشن کورٹ نے 16 اگست 2014ء کو وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب سمیت 21 لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی۔
حکومت نے آج تک اس ایف آئی آر کا کیا کیا؟ کیا ملک میں قتل کی ایف آئی آر کے بعد ملزموں کو گرفتار نہیں کیا جاتا؟ اگر ہاں تو یہ21 لوگ گرفتار کیوں نہیں ہوئے؟ وزیراعظم اور وفاقی وزراء کو تھانوں اور عدالتوں میں پیش کیوں نہیں کیا گیا؟یقینا حکومت کا جواب ہوگا ملزموں کو مجرم ثابت کرنا علامہ طاہر القادری کا کام تھا اور علامہ صاحب ملک سے باہر ہیں۔
یہ جواز اگر درست ہے تو پھر حکومت عام مقدموں میں عام لوگوں کو یہ سہولت کیوں نہیں دیتی؟ ہماری پولیس عام ملزموں کو ایف آئی آر کے ساتھ ہی گرفتار کر لیتی ہے، چالان پیش ہوتے ہیں اور مدعی خواہ ملک میں ہوں یا ملک سے باہر ملزم بہرحال جیل میں رہتے ہیں پھر وزیراعظم، وزیراعلیٰ اور باقی 19ملزموں کو کیوں رعایت دی گئی؟ کیا یہ قانون کی خلاف ورزی اور قانون کا سیدھا سادا مذاق نہیں۔
آپ یہ بھی چھوڑ دیجیے، آپ قانون شکنی کا ایک اور ثبوت ملاحظہ کیجیے، حکومت نے آٹھ ماہ کے دوران علامہ طاہر القادری اور عمران خان پردرجن بھر پرچے درج کرائے، ان پرچوں میں غداری، ریاست سے بغاوت،دہشت گردی، قتل، اقدام قتل اور کارسرکار میں مداخلت جیسے سنگین الزامات بھی شامل ہیں، قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق نے بھی عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے خلاف قومی اسمبلی پر حملے کی ایف آئی آر کٹوائی ، یہ پاکستان کی تاریخ میں اس نوعیت کی پہلی ایف آئی آر تھی لیکن علامہ صاحب کی گرفتاری تو دور حکومت نے ان کے ساتھ خفیہ مذاکرات کیے۔
خفیہ معاہدہ کیا اور انھیں باعزت طریقے سے ملک سے باہر جانے کی اجازت دے دی، کیوں؟ حکومت نے عمران خان کے خلاف بھی آدھا درجن پرچے درج کرا رکھے ہیں لیکن عمران خان 6 اپریل کو اسی قومی اسمبلی میں آئے جس پر حملے کے خلاف ایاز صادق نے ایف آئی آر درج کرائی تھی، ایاز صادق نے اپنے ملزم کو گرفتار کرایا اور نہ ہی حکومت نے جسارت کی۔
کیوں؟ آپ جواب دیجیے! وزیراعظم سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر پر بھی خاموش رہتے ہیں اور یہ علامہ طاہر القادری اور عمران خان کے خلاف ہونے والے پرچوں پر بھی زبان نہیں کھولتے؟ کیوں؟ کیونکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن ہو یا پھر علامہ صاحب اور خان صاحب کے خلاف ایف آئی آرز ہوں وزیراعظم کے لیے خاموشی فائدہ مند ہے، یہ انھیں سوٹ کرتی ہے چنانچہ حکومت قانون کی کھلی خلاف ورزی پر خاموش بیٹھی ہے اور یہ ہمیشہ خاموش بیٹھی رہے گی۔
آپ آئین کی بالادستی کا مذاق بھی ملاحظہ کیجیے، عمران خان نے 18 اگست کو 30 ایم این ایز کے ساتھ قومی اسمبلی سے استعفیٰ دیا، استعفے باقاعدہ اسپیکر کے چیمبر میں جمع کرائے گئے، عمران خان اور ان کے ساتھی کنٹینر اور ٹیلی ویژن چینلز پر8ماہ اپنے استعفوں کی تصدیق کرتے رہے، یہ لوگ 29 اکتوبر کو اسپیکر کے چیمبر بھی گئے لیکن اسپیکر نے غیر آئینی جواز پر یہ استعفے مسترد کر دیے۔
آئین کے آرٹیکل 64 کی شق ٹو کے مطابق قومی اسمبلی کا کوئی رکن چالیس دن ایوان سے غیر حاضر رہے تو یہ مستعفی سمجھا جاتا ہے ،پاکستان تحریک انصاف کے ارکان سات ماہ تین دن ایوان سے غائب رہے لیکن اسپیکر صاحب نہ صرف خاموش رہے بلکہ جب عمران خان اپنے ارکان کے ساتھ 6 اپریل کو قومی اسمبلی میں داخل ہو ئے تو اسپیکر نے انھیں رکن اسمبلی بھی تسلیم کر لیا، ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتیں انھیں قومی اسمبلی کا رکن ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں مگر حکومت اور اسپیکر دونوں انھیں ایوان میں خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔
کیوں؟ میاں صاحب آئین کی اس خلاف ورزی پربھی خاموش ہیں؟ کیوں؟ کیونکہ یہ خاموشی بھی وزیراعظم، حکومت اور پاکستان مسلم لیگ ن کو سوٹ کرتی ہے۔آپ یہ رویہ دیکھئے اور اس کے بعد آپ دوسرا رویہ دیکھئے، حکومت نے حکومتی احکامات نہ ماننے، ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے اور حلف سے بے وفائی کرنے پر ایس ایس پی محمد علی نیکوکارا کو نوکری سے برخاست کر دیا، ان پر الزام تھا یہ 30 اگست کی رات مظاہرین پر لاٹھی چارج، فائرنگ اور آنسو گیس کے بعد چارج چھوڑ گئے۔
انھوں نے موبائل بند کیا اور یہ چنیوٹ میں اپنے گاؤں چلے گئے، یہ یقینا جرم ہو گا لیکن کیا قانون صرف نیکوکارا کے لیے ہے، کیا ڈسپلن کی خلاف ورزی پر صرف نیکوکارا کو فارغ ہونا چاہیے؟ وہ لوگ جنہوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ملزم گرفتار نہیں کیے ،وہ آج تک نوکریوں سے کیوں برخاست نہیں ہوئے، وہ لوگ جنہوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی جوڈیشل رپورٹ باہر نہیں آنے دی، وہ جنہوں نے ایف آئی آرز کے باوجود علامہ طاہر القادری کو باہر جانے دیا۔
وہ جو آج تک ان تین پولیس اہلکاروں کے قاتل گرفتار نہیں کر سکے جنھیں احتجاج کے دوران کیلوں والے ڈنڈوں سے شہید کر دیا گیا تھا، وہ جنہوں نے اسلام آباد میں ایس ایس پی عصمت اللہ جونیجو کو سڑک پر ڈنڈے اور ٹھڈے مارے تھے اوروہ جنہوں نے پارلیمنٹ کی عمارت، ایوان صدر اور پی ٹی وی پر حملہ کرنے والوں کو گرفتار نہیں کیا، وہ مجرم کہاں ہیں اور ان مجرموں کو گرفتار نہ کرنے والے آج تک آزاد کیوں پھر رہے ہیں؟ کیا یہ حکومت کا کھلا تضاد نہیں ؟ کیا یہ زیادتی نہیں؟
کیا یہ حقیقت نہیں حکومت عمران خان پر 6 مہینے پرچے کراتی رہی لیکن جب پی ٹی آئی مذاکرات کی میز پر آگئی تو حکومت نے پارلیمنٹ ہاؤس پرحملہ تک معاف کر دیا، کیا وزیراعظم نے آج تک اسپیکر ایاز صادق سے پوچھا ’’آپ نے پی ٹی آئی کے ارکان کے استعفے قبول کیوں نہیں کیے؟،، کیا آپ نے پوچھا ’’اسپیکر نے مستعفی ارکان کو قومی اسمبلی میں کیوں آنے دیا،، نہیں! ہرگز نہیں، آپ پوچھیں گے بھی نہیں کیونکہ یہ خاموشی آپ کو سوٹ کرتی ہے۔
میاں صاحب آپ پوری زندگی قانون، قانون اور آئین آئین کا راگ الاپتے رہے لیکن جب اپنی باری آئی تو آپ میں اور جنرل پرویز مشرف میں اور جنرل ضیاء الحق اور جنرل یحییٰ خان میں کوئی فرق نہیں تھا، وہ بھی آئین کو کاغذ کا ٹکڑا سمجھتے تھے اور آپ نے بھی قانون اور آئین کو روندنے میں چند سیکنڈ لگائے۔
میاں صاحب ثابت ہوگیا آپ کو اگر سوٹ کرتا ہو تو قانون کی کوئی خلاف ورزی، خلاف ورزی نہیں ہوتی اور آئین کی کوئی پامالی، پامالی نہیں ہوتی اور اگر آپ کو سوٹ نہ کرتا ہو تو آپ قانون اور آئین کی طرف اٹھنے والی کوئی ٹیڑھی آنکھ برداشت نہیں کرتے، یہ ثابت ہو گیا آپ کی نظر میں اگر کوئی یونیفارم میں آئین میں تبدیلی کرے تو وہ قانون شکن اور طالع آزما ہے اور اگر آپ آئین اور قانون کا تماشہ بنا دیںتو یہ جمہوریت ہوتی ہے۔
چنانچہ معاف کیجیے گا، آپ میں اور عمران خان میں کوئی فرق نہیں، وہ کنٹینر پر کھڑے ہو کر قانون اور آئین کا مذاق اڑاتے رہے اور آپ پارلیمنٹ ہاؤس میں بیٹھ کر یہ فریضہ سر انجام دیتے رہے ، آئین اور قانون آپ کا کچھ بگاڑ سکا اور نہ ہی عمران خان کا، اگر بگڑا تو صرف محمد علی نیکوکارا جیسے لوگوں کا بگڑا کیونکہ اگر آپ قانون اور آئین توڑ یں تو یہ جمہوریت ہوتی ہے اور اگر نیکو کارا اپنی گردن بچانے کی کوشش کرے تو یہ جرم ہوتا ہے۔
واہ سبحان اللہ! آپ کو آئین اور قانون کی بالا دستی مبارک ہو۔

تبدیلی آ چکی ہے
جاوید چوہدری جمعرات 9 اپريل 2015

آپ آدھ گھنٹے کے لیے برآمدے میں بیٹھئے، جوتے اتار کر ٹانگیں سیدھی کیجیے، اپنی پشت سیٹ کے ساتھ لگائیے، ایک لمبی سانس لیجئے اور وقت کو آج 9 اپریل2015ء سے ’’ریوائنڈ‘‘ کرتے ہوئے واپس 10 اگست 2014ء تک لے جائیے اور نئے پاکستان اور پرانے پاکستان کا تجزیہ کیجیے، آپ تن، من اور دھن سے دھرنے کو سپورٹ کرنے والے بزنس مینوں، سیاستدانوں اور میڈیا پرسنز کے خیالات نکالیے اور اس کے بعد ان چند اینکر پرسنز، کالم نگاروں، سیاستدانوں اور بزنس مینوں کی معروضات کا پوسٹ مارٹم کیجیے جو تواتر سے یہ عرض کر رہے تھے، یہ تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی، حکومت نہیں جائے گی۔
عمران خان اپنا کوئی وعدہ پورا نہیں کر سکیں گے اور اسٹیبلشمنٹ میاں نواز شریف کو فارغ نہیں کرنا چاہتی، یہ اس تحریک کے ذریعے حکومت کو صرف رگڑا لگائے گی، آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے، میری آٹھ ماہ میں کون سی بات غلط ثابت ہوئی اور دھرنے کو سپورٹ کرنے والے جغادریوں کی کون سی پیشن گوئی سچ نکلی،آپ جواب دیجیے کیا 14 اگست2014ء کو عمران خان کے ساتھ دس لاکھ لوگ باہر نکلے،کیا قافلے کے ساتھ ایک لاکھ موٹر سائیکل تھے۔
کیا لوگ پورے پاکستان سے اسلام آباد آئے، کیا سول نافرمانی کی کال کامیاب ہوئی، کیا عمران خان کے اعلان کے بعد عوام نے ٹیکس دینا بند کیا، کیا پورے ملک نے بجلی کے بل جلائے، کیا پی ٹی آئی کے تمام ارکان نے بجلی کے کنکشن کٹوائے، کیا لوگوں نے سرکاری بینکوں کا بائیکاٹ کیا، کیا لوگوں نے ہنڈی کے ذریعے پیسے بھجوائے، کیا ایمپائر کی انگلی اٹھی، کیا ایک بال سے دو وکٹیں گریں، کیا میاں نواز شریف نے استعفیٰ دیا، کیا اسلام آباد میں ایس ایس پی اور آئی جی کا عہدہ مستقل خالی رہا۔
کیا خیبر پختونخوا کی حکومت ختم ہوئی، کیا ’’کے پی کے،، کی اسمبلی ٹوٹی، کیا وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے گورنر ہاؤس کا بائیکاٹ کیا، کیا یہ خود کو’’کامن انٹرسٹ‘‘ سے باہر رکھ سکے، کیا جماعت اسلامی، پاکستان مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم نے اسمبلیوں سے استعفے دیے، کیا بیوروکریسی نے حکومتی احکامات ماننے سے انکار کیا، کیا فوج پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑی ہوئی، کیا اسمبلیاں ٹوٹیں، کیا دنیا بھر سے لوگ آئے اور آکر دھرنے میں شامل ہوئے، کیا دھرنا میاں نواز شریف کے استعفیٰ تک قائم رہا، کیا مظاہرین پارلیمنٹ ہاؤس، وزیراعظم ہاؤس، ایوان صدر اور پی ٹی وی پر قبضہ برقرار رکھ سکے۔
کیا سپریم کورٹ نے حکومت کے خلاف سوموٹو نوٹس لیا اور کیا لوگوں نے اسمبلیوں کی عمارتوں کو گرایا، جلایا اور تباہ کیا اور کیا عمران خان اپنے ارکان کو قومی اسمبلی سے مستقل باہر رکھ پائے؟ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے، وہ لوگ کہاں ہیں جنہوں نے سروں پر کفن باندھے، جنہوں نے انقلاب کے بغیر زندہ واپس نہ جانے کی قسم کھائی تھی، انقلابی کزن کہاں ہیں، خندقیں کھودنے، قبریں بنانے، کفن سینے، ماتھوں پر شہادت لکھنے اور ریڈ زون میں اذانیں دینے والے مجاہدین کہاں ہیں، ڈنڈے اٹھانے، ڈنڈوں پر کیلیں لگانے اور پولیس اہلکاروں کی سرعام تلاشی لینے والے کہاں ہیں۔
وہ ٹائیگرز اور ٹائیگریسز کہاں ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا تھا ’’میں انھیں زیادہ دیر تک نہیں روک سکوں گا‘‘ ملک کے ظالمانہ، بے ایمانہ اور بہیمانہ نظام کو زندہ دفن کرنے والے کہاں ہیں اور پارلیمنٹ کو ناجائز، دھاندلی زدہ، کرپٹ اور ربڑ اسٹیمپ کہنے والے بھی کہاں ہیں، آپ دل پر ہاتھ رکھئے اور جواب دیجیے 18 اگست کو قومی اسمبلی سے استعفے کا اعلان ہوا، 30 ارکان نے استعفیٰ دے دیا، تین ارکان گلزار خان، مسرت احمد زیب اور ناصر خان خٹک نے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا، یہ آخری وقت تک قومی اسمبلی میں ڈٹے رہے۔
پارٹی انھیں غدار، بکاؤ اور مفاد پرست کہتی رہی لیکن 7 اپریل کو پی ٹی آئی کے تمام ’’مستعفی‘‘ ارکان قومی اسمبلی میں ان تین غیر مستعفی غدار ارکان کے ساتھ بیٹھ گئے، دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے کون سچا ثابت ہوا، یہ تین ارکان یا 30 ارکان، کیا یہ سچ نہیں آپ نے ساڑھے سات ماہ پارلیمنٹ کو ناجائز قرار دیا اور پانچ مارچ کو سینیٹ کو صاف اور پاک قرار دے دیا، کیا یہ سچ نہیں چار سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کے ’’نوٹی فکیشن‘‘ کے ساتھ ہی پوری تحریک ختم ہو گئی،کیا یہ سچ نہیں عوام کی لاشیں گرتی رہیں، 14لاہور میں مر گئے، تین پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے مارے گئے۔
حق نواز فیصل آباد میں مر گیا اور 7 ملتان میں لوگوں کے پیروں تلے کچلے گئے لیکن انقلاب مذاکرات کرتا رہا، علامہ طاہر القادری اور ان کے جانثار 68 دن کنٹینروں اور خیموں میں محصور رہے، یہ خندقوں میں گر کر مرتے رہے، یہ دھول، مٹی، بارش اور یخ ہوائیں سہتے رہے اور انقلاب کے کزن رات کو بنی گالہ تشریف لے جاتے اور اگلی شام نہا دھو کر واپس آ جاتے! کیا عدالتوں کو جانبدار قرار نہیں دیا گیا، کیا ٹریبونلز کو سست اور حکومت کا حصہ نہیں کہا گیا اور پھر یہ لوگ انھی ٹریبونل میں پیش نہیں ہوئے؟ کیا افتخار محمد چوہدری کو برا بھلا نہیں کہا گیا اور پھر عدالتوں میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔
کیا حنیف عباسی کو ایفی ڈرین عباسی نہیں کہا گیا اور جب حنیف عباسی نے ہتک عزت کا دعویٰ دائر کیا تو آپ عدالت ہی میں پیش نہیں ہوئے، کیا وہ جاوید ہاشمی جسے پارلیمنٹ ہاؤس پر حملے سے اختلاف پر پارٹی صدارت سے فارغ کر دیا گیا تھا، کیا آج ان کا موقف درست اور پارٹی کی رائے غلط ثابت نہیں ہوئی؟ کیا آج پارٹی کے وہ تمام نوجوان ایم این اے سچے ثابت نہیں ہوئے جو کور کمیٹی کے اجلاس میں سینئر قیادت کو غلط فیصلوں سے روکنے کی کوشش کرتے تھے،کیا شہریار آفریدی، مراد سعید، علی محمد خان اور شوکت یوسفزئی ٹھیک اور باقی غلط ثابت نہیں ہوئے، کیا یہ درست نہیں پارٹی دو حصوں میں تقسیم ہے۔
ناتجربہ کار مجاہدوں کا گروپ قیادت سے غلطیاں کرا رہا ہے جب کہ مخدوم شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، شفقت محمود، اسحاق خاکوانی، اعظم سواتی اور غلام سرور خان جیسے تجربہ کار لوگ غلطیوں کی آگ بجھانے کی کوشش کرتے ہیں اور کیا یہ درست نہیں آپ نے جس میڈیا گروپ کا سات ماہ بائیکاٹ کیے رکھا، آپ کے ورکر جس کے دفتر پر حملے کرتے رہے۔
آپ بالآخر اس سے بھی یوٹرن پر مجبور ہوئے، آپ نے جس پارلیمنٹ کو جعلی، کرپٹ اور جلا دینے کے قابل قرار دیا تھا آپ اس میں جانے، بیٹھنے اور کارروائی کا حصہ بننے پر مجبور ہوئے، کیا یہ حقیقت نہیں آپ میڈیا کے جن لوگوں کو اپنا دوست قرار دیتے تھے وہ آج آپ کے خلاف سلطانی گواہ بن رہے ہیں، وہ آج سوشل میڈیا پر آپ کی وڈیوز جاری کر رہے ہیں، وہ آج آپ کی آڈیو ٹیپ میڈیا پر نشر کر رہے ہیں اور وہ میڈیا پرسنز، اینکر پرسنز اور کالم نگار جنھیں آپ آٹھ ماہ تک گالیاں دیتے رہے وہ آج آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، وہ آج بھی آپ کو سپورٹ کر رہے ہیں۔
تجربہ ہمیشہ علم اور عقل سے بڑا ہوتا ہے،مجھے پہلے دن سے اس تحریک کی ناکامی کا یقین تھا، کیوں؟ صرف تجربہ، میں نے 1992ء میں صحافت جوائن کی، میں نے ان 23 برسوں میں سات بڑے سیاسی بحران دیکھے، میرے سامنے 1992ء میں نواز شریف کی حکومت گئی، سپریم کورٹ سے نواز شریف کی حکومت پھر بحال ہوئی، میاں نواز شریف نے ’’میں استعفیٰ نہیں دوں گا‘‘ کا اعلان کیا اور پھر جنرل عبدالوحید کاکڑنے چھڑی کے اشارے سے نواز شریف اور غلام اسحاق خان دونوں کو فارغ کر دیا۔
میں نے بے نظیر کی دوسری حکومت کو بنتے، فاروق احمد لغاری کو صدر بناتے اور پھر فاروق بھائی کو فارغ بھائی بنتے دیکھا، میں نے میاں نواز شریف اور فاروق لغاری میں خفیہ سمجھوتہ بھی دیکھا، نواز شریف کی دوسری حکومت بنتے دیکھی، جنرل مشرف اور نواز شریف کے اختلافات دیکھے، نواز شریف کی حکومت فارغ ہوتی دیکھی،میاں نواز شریف اور بے نظیر کی پارٹی ٹوٹتے دیکھی، جنرل مشرف کو صدر بنتے دیکھا، جمہوریت کے صاحبزادوں کو اسمبلیوں میں جنرل مشرف کی وردی کے حق میں قراردادیں پاس کرتے دیکھا، جنرل مشرف کو افتخار محمد چوہدری کے ہاتھوں خوار ہوتے دیکھا، سیاسی قائدین کو افتخار محمد چوہدری کا جھنڈا اٹھاتے اور پھر یہ جھنڈا گراتے دیکھا، میرے سامنے نواز شریف اور زرداری بھائی بھائی بنے اور پھر میاں شہباز شریف کو زرداری کو گوالمنڈی چوک پر الٹا لٹکانے کا اعلان کرتے بھی دیکھا اور پھر دونوں بھائیوں کو زرداری صاحب کی دعوت کرتے بھی دیکھا، میں نے ایم کیو ایم کے خلاف بھی تین آپریشن دیکھے اور پھر ان آپریشنز کے نتائج کو سیاسی بھٹی میں راکھ ہوتے بھی دیکھا، یہ میرے سیاسی تجربات تھے اور یہ تجربات چیخ چیخ کر بتا رہے تھے عمران خان اور علامہ طاہر القادری استعمال ہو رہے ہیں۔
دھرنے کا مقصد پاکستان کو تبدیل کرنا نہیں بلکہ عمران خان سمیت ملک کی ساری سیاسی قیادت کو نیچے لگانا اور اس میڈیا کو نکیل ڈالنا ہے جو کسی کے قابو نہیں آ رہا، آپ کو یقین نہ آئے تو آپ دھرنے سے پہلے کے پاکستان اور دھرنے کے بعد کے پاکستان کا تجزیہ کر لیجئے۔
واہ سبحان اللہ
جاوید چوہدری منگل 7 اپريل 2015

ہم بہت با کمال لوگ ہیں،ہمیں اٹھارہ کروڑ لوگوں کے اس ملک میں دو سال سے ایک وزیرخارجہ نہیں ملا،ہماری وزارت خارجہ 22 ماہ سے دو مشیروں کے درمیان میدان جنگ ہے،طارق فاطمی باس ہیں یا سرتاج عزیز پوری وزارت اور دنیا کے 110 ممالک میں قائم پاکستانی مشن کنفوژن میں ہیں مگر ہم خارجہ امور میں پوری دنیا کی رہنمائی کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔
ہم عراقی امور کے بھی ماہر ہیں،ہم شام،اردن اور مصر کی صورتحال کے بھی ایکسپرٹ ہیں اور ہم نے یمن کے حالات ٹھیک کرنے کا بیڑا بھی اٹھا لیا ہے،ہم کتنے با کمال لوگ ہیں؟ہمارے وزیراعظم آج تک بلوچستان کے ناراض رہنماؤں کو منانے کوئٹہ نہیں گئے،یہ پشاور بھی تشریف نہیں لے جاتے،خیبر پختونخواکے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے 8 ماہ وزیراعظم ہاؤس میں قدم نہیں رکھا اور پی ٹی آئی نے 8 ماہ قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کیے رکھا،یہ استعفے دے کر گھر بیٹھے رہے لیکن وزیراعظم یمن اور سعودی عرب کے ایشو پر ترکی تشریف لے جاتے ہیں۔
یہ ترک وزیراعظم احمد داؤد اوغلو اور صدر طیب اردگان سے ملاقات کرتے ہیں یہ ثالثی کا کردار ادا کرنے کی حامی بھی بھرتے ہیں،وزیراعظم نے آج تک اپنا وفد بنی گالہ نہیں بھجوایا لیکن یہ وزیردفاع،مشیر خارجہ اور افواج پاکستان کے سنیئر افسروں کا وفد سعودی عرب بھجواتے دیر نہیں لگاتے،ہم آج تک پاکستان کے متحارب گروپوں میں صلح نہیں کرا سکے مگر خلیج میں ثالثی کے لیے تیار بیٹھے ہیں،ہم کتنے باکمال لوگ ہیں،طالبان نے 10 اکتوبر 2009ء کو جی ایچ کیو پر حملہ کر دیا۔
ہمیں طالبان کو پسپا کرنے کے لیے 12گھنٹے لڑنا پڑ گیا اور آخر میں ہم طالبان سے مذاکرات کے لیے ملک اسحاق کو جیل سے نکال کر راولپنڈی لانے پر مجبور ہو گئے،ہم مہران بیس بچا سکے،پریڈ لین مسجد کی حفاظت کر سکے اور نہ ہی کامرہ ائیر بیس،واہ آرڈیننس فیکٹری،ایف آئی اے،اسپیشل برانچ،آئی بی اور آئی ایس آئی کے دفاتر بچا سکے،ہم پولیس ٹریننگ سینٹروں کی حفاظت کر سکے اور ہم ائیر پورٹس،مسجدوں،امام بارگاہوں اور بازاروں کو بھی نہیں بچا سکے۔
ہم آرمی پبلک اسکول کی حفاظت بھی نہیں کر سکے،ہمارے ملک میں افطاری کے وقت اسلام آباد کا ایک فائیو اسٹار ہوٹل اڑا دیا گیا،ہم اس کی حفاظت نہ کر سکے،ہمارے ملک میں اسامہ بن لادن چھ سال چھاؤنی ایریا کے قریب چھپا رہا،ہمیں خبر نہ ہوئی،امریکی ہیلی کاپٹر افغانستان سے ایبٹ آباد پہنچ گئے لیکن ہمیں کانوں کان خبر نہ ہوئی،ہم اسلام آباد کو دھرنے سے بھی نہیں بچا سکے،عمران خان اور علامہ طاہر القادری پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پہنچ گئے،پارلیمنٹ ہاؤس کا جنگلہ ٹوٹا،ایوان صدر کا گیٹ توڑا گیا،پی ٹی وی کی عمارت پر قبضہ ہوا،سپریم کورٹ کی دیواروں پر شلواریں لٹکائی گئیں۔
عمران خان نے سول نافرمانی کا اعلان کیا،بجلی کے بل پھاڑے،وفاقی دارالحکومت میں مظاہرین کیمروں کے سامنے پولیس اہلکاروں کی تلاشی لیتے رہے،مظاہرین نے ایس ایس پی کو ڈنڈوں اور ٹھڈوں سے مارا،لاہور میں ماڈل ٹاؤن میں 14 لوگوں کو گولی مار دی گئی،یوحنا آباد میں دو بے گناہوں کو قتل کیا گیا،سڑکوں پر گھسیٹا گیا اور لاشوں کو آگ لگا دی گئی اور کراچی میں 258 لوگوں کو فیکٹری کے دروازے بند کر کے زندہ جلا دیا گیا،ہم ان میں سے کسی کی حفاظت نہ کر سکے لیکن ہم سعودی عرب کی حفاظت کے لیے تیار بیٹھے ہیں،ہم بار بار اعلان کر رہے ہیں ہم سعودی عرب پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔
ہمارے ملک میں بچے مر رہے ہیں،خواتین پامال ہو رہی ہیں،بوڑھوں کو سڑکوں پر گھسیٹا جا رہا ہے اور اندھوں تک پر لاٹھیاں برسائی جاتی ہیں،ہمارے پاس ان کے لیے وقت نہیں ہوتا،ہم آج تک عمران خان سے حکومتی رٹ نہیں منوا سکے لیکن ہم یمن کی دستوری حکومت کو منوانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں،ہم یمن کے باغیوں سے نبٹنے کے لیے کمر کس رہے ہیں،ہم سے اپنی حفاظت ہوتی نہیں مگر ہم سعودی عرب کی حفاظت ضرور کریں گے،واہ کیا بات ہے ہم کتنے با کمال لوگ ہیں۔
ہم کتنے با کمال لوگ ہیں،ہم آج تک میاں نواز شریف،عمران خان،الطاف حسین اور مولانا فضل الرحمٰن کو اکٹھا نہیں بٹھا سکے،وزیراعظم 6 اپریل کے جوائنٹ سیشن سے ’’بچنے‘،کی کوشش کرتے ہیں،اپوزیشن کے احتجاج پر جوائنٹ سیشن کی کارروائی پانچ بجے تک موخر کر دی جاتی ہے لیکن ہم یمن کے ایشو پر سعودی عرب اور ایران کو اکٹھا بٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں،وزیراعظم ایرانی وزیرخارجہ سے ملاقات کرتے ہیں،ہم انقرہ تشریف لے جاتے ہیں۔
ہم یمن کے باغیوں سے رابطہ کر لیتے ہیں ،ہم ایران کو سمجھا لیتے ہیں لیکن مولانا فضل الرحمٰن اور عمران خان کو سمجھا پاتے ہیں اور نہ ہی الطاف حسین سے رابطہ کر پاتے ہیں،ہم کتنے باکمال لوگ ہیں،ملک میں ستمبر 2014ء میں سیلاب آئے عمران خان دھرنے میں ڈٹے رہے،16 دسمبر کو آرمی پبلک اسکول پر حملہ ہوا،عمران خان اے پی سی میں شریک ہوئے،21 ویں ترمیم کی حمایت کی مگر قومی اسمبلی نہیں آئے لیکن آپ یمن اور سعودی عرب کی محبت ملاحظہ کیجیے عمران خان جوڈیشل کمیشن کے بغیر اپنے ارکان کے ساتھ 6 اپریل کے جوائنٹ سیشن میں تشریف لے گئے۔
ہم کتنے با کمال لوگ ہیں ہمارے ملک میں بارہ برسوں میں ساڑھے سات ہزار دھماکے،حملے اور خودکش حملے ہوئے،60 ہزار بے گناہ اور معصوم لوگ مارے گئے،کراچی کے حالات کس سے پوشیدہ ہیں،ایک تہائی شہر نو گو ایریا بن چکا ہے،ملک میں کرپشن،بے روزگاری اور لاقانونیت آسمان کو چھو رہی ہے،ارکان پارلیمنٹ کی ڈگریاں جعلی نکل آتی ہیں،ہم روڈ ایکسیڈنٹ میں دنیا کے پانچ بڑے ملکوں میں شمار ہوتے ہیں،ملک میں پوری پوری بس مسافروں سمیت جل کر راکھ ہو جاتی ہے اور پٹرول کا بحران بھی کسی سے پوشیدہ نہیں لیکن قوم آج تک ان ایشوز پر اکٹھی نہیں ہوئی۔
ہمارے علماء کرام،سول سوسائٹی اور لبرل طبقے کسی ایشو پر باہر نہیں آئے ،ہم نے 60 ہزار لاشیں تک فراموش کر دیں لیکن سعودی عرب اور یمن کے معاملے میں ملک کا بچہ بچہ بول رہا ہے،ہمارے لوگ فوج کو سعودی عرب بھجوانے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور ہم کتنے با کمال لوگ ہیں،ہم نے آج تک کسی عوامی ایشو پر کوئی اے پی سی بلوائی اور نہ ہی پارلیمنٹ کا کوئی جوائنٹ سیشن بلایا،آپ پندرہ سال کی پارلیمانی تاریخ نکال کر دیکھ لیجئے۔
کیا لوڈ شیڈنگ،تعلیم،بیوروکریسی،پولیس،بے روزگاری اور لا اینڈ آرڈر پر کوئی اجلاس ہوا؟ کیا کسی نے پارلیمنٹ کا کوئی مشترکہ اجلاس بلایا؟ نہیں بلایا،کسی نے تکلیف گوارہ نہیں کی لیکن یمن اور سعودی عرب کے ایشو پر ہم نے جوائنٹ سیشن بھی بلا لیا اور عمران خان روزہ توڑ کر قومی اسمبلی بھی پہنچ گئے واہ کیا بات ہے۔
یہ کیا ہے؟ یہ ہمارا نیشنل کریکٹر ہے،ہم سے اپنا پرنالہ سیدھا نہیں ہوتا لیکن ہم دنیا کے سمندروں کا راستہ بدلنا چاہتے ہیں ہم سے کراچی،کوئٹہ اور پشاور سنبھالا نہیں جاتا،ہمیں ساری رات ماڈل ٹاؤن میں چلنے والی گولیاں سنائی نہیں دیتیں،ہم ریڈزون کو مظاہرین سے بچا نہیں سکتے،ہم سے سرکاری عمارتوں کی حفاظت ہوتی نہیں،ہم نیکٹا کو فعال نہیں کر پاتے ،ہم ضرورت کے مطابق بجلی پیدا نہیں کر پا رہے۔
ہم سے کراچی شہر کے پانچ لاکھ کنڈے اتارے نہیں جاتے،ہم عوام کو ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر گاڑی چلانے سے نہیں روک پاتے،ہم سے بارش کی پیش گوئی ہوتی نہیں،ہم چار مہینے خشک سالی سے مرتے ہیں اور چار مہینے سیلابوں میں ڈبکیاں کھاتے ہیں،ہم سے ریلوے اور پی آئی اے چلائی نہیں جاتی،ہم سے سرکاری زمین سے قبضے نہیں چھڑائے جاتے،ہم سے پولیس کا ایک ایس ایس پی سنبھالا نہیں جاتا،ہم دھرنوں کے پیچھے چھپے خفیہ ہاتھوں کی نشاندہی نہیں کر پاتے،ہم آج تک ملک میں موجود مدارس اور مساجد کا ڈیٹا جمع نہیں کر سکے۔
آج بھی نادرا کے پاس چھ کروڑ شہریوں کا ریکارڈ موجود نہیں،ہم آج تک لوگوں سے ممنوعہ بور کا اسلحہ واپس نہیں لے سکے،ہم آج بھی جناح گراؤنڈ اور کریم آباد میں ایک دوسرے کے گریبان پھاڑتے ہیں،ہم آج تک کتوں اور گدھوں کے گوشت کی خریدوفروخت نہیں روک سکتے،ہم آج تک عوام کو میٹرو بسوں کی افادیت نہیں سمجھا سکے،ہم آج تک ملک میں موٹر سائیکل کا ضابطہ اخلاق طے نہیں کرپائے،ہم آج تک انتخابی اصلاحات نہیں کر سکے۔
ہم آج تک یونیورسٹی کے امتحانات کو صاف اور شفاف نہیں بنا سکے،ہم آج تک ملک میں جعلی مصنوعات نہیں روک سکے اور ہم آج تک ’’ون ویلنگ‘،پر پابندی نہیں لگا سکے،ہمارا حال یہ ہے ہمیں محرم،23 مارچ کی پریڈ اور 14 اگست کی تقریبات بچانے کے لیے موبائل فون بند کرنا پڑتے ہیں،ہمارے ملک میں آج بھی گورنر،و زیراعلیٰ،وزیراعظم،صدر اور دیگر وی وی آئی پیز کا قافلہ گزارنے کے لیے ایمبولینس روک دی جاتی ہے،ہم آج بھی سلیوٹ کو ایفی شینسی سمجھتے ہیں۔
ہم ملک میں گیس پوری نہیں کر پائے اور ہمیں زرعی ملک ہونے کے باوجود دوسرے ممالک سے خوراک امپورٹ کرنی پڑتی ہے لیکن آپ اپنے ’’پنگے‘،ملاحظہ کیجیے ہم نے 1980ء میں اس وقت اپنا سر افغانستان کے بیلنے میں دے دیا،اور نائین الیون کے بعد جب ترکی اور لبنان جیسے ملکوں نے غیر جانبداری کا اعلان کر دیا،ہم نے اس وقت دہشت گردی کے امریکی بھانبڑ میں چھلانگ لگا دی اور اب جب ہمیں بجٹ بنانے کے لیے بھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سامنے کشکول پھیلانا پڑتا ہے ہم اس وقت یمن کے دہکتے انگارے منہ میں ڈالنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔
امریکا سعودی عرب کا دیرینہ دوست ہے امریکا نے سعودی عرب سے ٹریلین ڈالر کمائے،یہ آج سعودی عرب کو فوج دینے کے لیے تیار نہیں مگر ہم اعلان کررہے ہیں ’’ہم سعودی عرب پر آنچ نہیں آنے دیں گے‘،واہ ہم کتنے با کمال لوگ ہیں ہمیں ناک صاف کرناآتا نہیں اور ہم چاند کو پالش کرنے کے لیے گھر سے نکل رہے ہیں،واہ سبحان اللہ۔
محسن کشوں کے اس ملک میں
جاوید چوہدری اتوار 5 اپريل 2015

گیٹ پر تالا تھا، میں پریشان ہو گیا، منگل کا دن تھا، سرکاری چھٹی بھی نہیں تھی، گیٹ کے ساتھ میوزیم کا بورڈ بھی تھا لیکن گیٹ بند تھا، گیٹ کے بعد لان تھا، لان کے ساتھ برگد کے بوڑھے درخت تھے اور ان درختوں اور اس لان کے ساتھ وہ پرشکوہ عمارت تھی جسے قائداعظم محمد علی جناح نے 1944ء میں اپنی رہائش کے لیے منتخب کیا، یہ اس وقت کراچی کی شاندار عمارتوں میں شمار ہوتی تھی، یہ عمارت1865ء میں تعمیر ہوئی۔
موسس سوماکی نے ڈیزائن کیا، یہ بعد ازاں فلیگ اسٹاف ہاؤس بنی اور سندھ کے جنرل کمانڈنگ آفیسر کی سرکاری رہائش گاہ قرار پائی، فلیگ اسٹاف ہاؤس میں جنرل ڈگلس گریسی جیسے لوگ رہائش پذیر ہوئے، یہ گھر 1940ء میں پارسی تاجر سہراب کاؤس جی نے خرید لیا، قائداعظم کو قیام پاکستان کے آثار نظر آئے تو آپ نے 1944ء میں یہ عمارت سہراب کاؤس جی سے ایک لاکھ 5ہزار روپے میں خرید لی، دہلی سے قائداعظم کی رہائشگاہ کا سامان یہاں شفٹ ہوا اور یہ عمارت قائداعظم کے نام منسوب ہو گئی، قائداعظم کے انتقال کے بعد یہ عمارت محترمہ فاطمہ جناح کا گھر بن گئی، فاطمہ جناح 9 جولائی 1967ء تک یہاں مقیم رہیں۔
ان کا انتقال اسی گھر کی بالائی منزل پر ہوا، جنازہ بھی یہیں سے اٹھا، یہ گھر 1984ء میں قائداعظم اور فاطمہ جناح کی یادوں کا عجائب گھر بنا دیا گیا، میں منگل کے دن کراچی میں قائداعظم میوزیم پہنچا لیکن گیٹ پر تالا دیکھ کر پریشان ہو گیا، مجھے رینجرز کا ایک جوان دور کھڑا دکھائی دیا، وہ دور سے چلایا ’’میوزیم بند ہے،، میں نے چلا کر پوچھا ’’کیوں؟،، اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، وہ مجھے ہاتھ کے اشارے سے آگے جانے کی ہدایت کرنے لگا مگر میں ڈھیٹ بن گیا، وہ غصے کے عالم میں گیٹ پر آیا، مجھے پہچانا اور اس کا رویہ تبدیل ہو گیا۔
اس نے گیٹ کھول دیا، میں نے گیٹ پر تالے کی وجہ پوچھی، اس کا جواب تھا ’’ سیکیورٹی ریزن، ویسے بھی یہاں کون آتا ہے‘‘ میرے دکھ میں اضافہ ہو گیا، میں نے پورچ میں عمارت کی تصویر لینی چاہی تو رینجر نے روک دیا، میری حیرت میں مزید اضافہ ہو گیا، میں نے وجہ پوچھی، جواب ملا ’’میوزیم میں فوٹو کھینچنا منع ہے‘‘ میری ہنسی نکل گئی، میں نے اس سے کہا ’’بھائی صاحب انسان اگر میوزیم میں تصویر نہیں بنائے گا تو کہاں بنائے گا‘‘ وہ بیچارہ خاموش ہو گیا، یہ میری زندگی کا پہلا میوزیم تھا جس میں تصویر کشی سے روک دیا گیا، آپ دنیا بھر کے عجائب گھروں میں تصویریں بناتے ہیں۔
یہ تصویریں آپ کا اثاثہ ہوتی ہیں لیکن یہ پاکستان ہے جہاں میوزیمز میں تالے بھی ہوتے ہیں اور تصویر کشی بھی جرم ہوتی ہے، سامنے برآمدہ تھا، برآمدے سے گزر کر عمارت کے پیچھے گیا، عمارت کے پیچھے سرونٹ کوارٹرز اور عمارت کے منیجر کا دفتر ہوتا تھا، یہ حصہ آج کل میوزیم کے ملازمین کے زیر استعمال ہے، میوزیم میں داخلہ بیک سائیڈ سے ہوتا ہے، میں وہاں پہنچا تو یہاں بھی دروازے پر تالا لگا تھا، میں نے دائیں بائیں دیکھا، ایک صاحب دور برآمدے میں بیٹھے تھے۔
میں نے ہاتھ سے انھیں اشارہ کیا اور چلا کر پوچھا ’’ یہ تالا کون کھولے گا‘‘ اس نے بھی چلا کر جواب دیا ’’چوکیدار نماز پڑھنے گیا ہے‘‘ میں برآمدے میں نیچے بیٹھ گیا اور اپنے آپ سے پوچھا ’’اگر ہمارے قائد زندہ ہوتے تو کیا کوئی سرکاری ملازم سرکاری عمارت کو تالا لگا کر چابی جیب میں ڈالکر نماز پڑھنے چلا جاتا؟‘‘ جواب خاموشی کے سوا کچھ نہ تھا۔
عمارت کے کیئر ٹیکر رشید صاحب بھلے آدمی ہیں، یہ 35 برس سے یہاں خدمات سرانجام دے رہے ہیں، ان کے لہجے میں درد بھی تھا اور یاس بھی۔ وہ نماز پڑھ کر میرے پاس آئے اور قائداعظم کی رہائش گاہ کا دروازہ کھول دیا، قائد کی خوشبو کا جھونکا دوڑ کر باہر نکلا، میں نے دہلیز کے اندر قدم رکھ دیے، اندر کی دنیا عجیب تھی، آپ نے اگر یہ دیکھنا ہو ہمارے قائد کس قدر نفیس اور اعلیٰ ذوق کے حامل تھے تو آپ کو ایک بار! صرف ایک بار ان کی رہائشگاہ کی زیارت اور ان کے زیر استعمال سامان کو دیکھنا چاہیے۔
آپ ان کے حسن ذوق کے عاشق ہو جائینگے، دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی برتنوں کی الماری تھی، یہ برتن قائد کے زیر استعمال رہے، برتنوں میں جاپان اور چین کی طرف سے تحفے میں دیا گیا چینی کا ٹی سیٹ بھی تھا، چائے کے دو کپ اسی طرح رکھے تھے جس طرح 65 سال پہلے رکھے جاتے تھے، یہ زہر کی نشاندہی کرنے والے کپ تھے۔
کپ میں اگر زہریلا مادہ ڈال دیا جاتا تو یہ کپ فوراً ٹوٹ جاتے، برتنوں کی الماری سے دائیں جانب قائد کی اسٹڈی تھی، اسٹڈی میں امریکی ٹیلی فون سیٹ بھی تھا اور قائد کی اسٹڈی ٹیبل، کرسی، ہاتھ دھونے والا پیالہ، آپ کے جرمن شیفرڈ کا پیتل کا مجسمہ، کتابوں کا ریک، کتابوں کی الماری، الماری میں کتابیں اور صوفہ سیٹ بھی تھا، سینٹرل ٹیبل پر شیشے کے نیچے قائد اعظم کے وزٹنگ کارڈز بھی رکھے تھے، ڈائننگ ہال میں بھی برتنوں کی الماری تھی اور الماری پر ہاتھ دھونے والا بڑا پیالہ رکھا تھا، دیوار پر قائداعظم اور فاطمہ جناح کی تصویر لگی تھی، یہ تصویر اسٹڈی کے صوفے پر لی گئی تھی۔
وہ صوفہ آج بھی اسی پوزیشن میں پڑا ہے، ڈائننگ ہال میں بارہ افراد کے لیے ڈائننگ ٹیبل تھی، یہ ٹیبل ممبئی کے کسی رئیس نے قائد کو گفٹ کی، ڈائننگ ہال میں شیشے کے دو شو کیس بھی تھے، یہ دونوں قیمتی لکڑی سے بنے تھے، ایک شو کیس میں برتن تھے جب کہ دوسرے پر ڈرائی فروٹ کی ٹرے پڑی تھی، کارنس پر لیمپ رکھا تھا اور دیوار پر قائد اعظم کا وہ مشہور پورٹریٹ تھا جس میں آپ نے آنکھ پر ایک شیشے کی عینک لگا رکھی تھی، ڈائننگ ہال کے ساتھ لکڑی کی سیڑھیاں اوپر جاتی ہیں، آپ سیڑھیوں کے سامنے کھڑے ہوں تو آپ کو سیڑھیوں کے نیچے گلابی رنگ کے تین صوفے اور کوٹ لٹکانے والا ہینگر نظر آئے گا۔
یہ جگہ قائد کے دور میں ویٹنگ روم تھی ۔ سیڑھیوں پر قائد اعظم کی تین تصویریں ہیں، وہ ایک تصویر میں فاطمہ جناح اور اپنی صاحبزادی دینا واڈیا کے ساتھ کھڑے ہیں، کیئر ٹیکر رشید صاحب نے بتایا ’’قائد کی صاحبزادی دینا واڈیا2004ء میں جنرل مشرف کے دور میں کراچی تشریف لائیں، وہ سیڑھیوں پر اس تصویر کے سامنے رک گئیں اور دیر تک روتی رہیں‘‘ یہ تصویر دیکھ کر میری آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے، قائد اعظم کی دوسری تصویر جوانی کی تھی جب کہ وہ تیسری تصویر میں محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑے تھے، آپ جب بالائی منزل پر پہنچتے ہیں تو بائیں جانب محترمہ فاطمہ جناح کا بیڈ روم آتا ہے۔
یہ اسی حالت میں ہے جس میں محترمہ نے اسے آخری صبح چھوڑا تھا، محترمہ کے سلیپر تک بیڈ روم کے ساتھ پڑے ہیں، بیڈ کی پائنتی پر دو کرسیاں اور درمیان میں گول میز ہے، میز پر دھات کا پیالہ رکھا ہے، کمرے میں لکڑی کے شو کیس اور ریک بھی ہیں جب کہ ڈریسنگ ٹیبل پر لالٹین کی وہ تصویر پڑی ہے جو ایوب خان کے خلاف الیکشن کے دوران محترمہ فاطمہ جناح کا انتخابی نشان تھی، کوریڈور کی دیوار پر وہ تصویر بھی لگی ہے جس میں مسلم لیگی رہنماؤں نے محترمہ کو ایوب خان کے خلاف الیکشن کے لیے تیار کیا تھا، فاطمہ جناح کے کمرے کے ساتھ ان کا ڈریسنگ روم اور واش روم ہے، یہ دونوں بھی اصلی شکل میں موجود ہیں۔
آپ کوریڈور میں دائیں جانب جائیں تو پہلے ایک سٹنگ روم آئے گا، جہاں ایک چھوٹی ڈائننگ ٹیبل اور دو کرسیاں رکھی ہیں، کمرے کے دونوں کونوں میں کارنس ہیں اور کارنس پر دھات کے گل دان رکھے ہیں، کارنس کے درمیان دروازہ ہے، یہ دروازہ قائد اعظم کے بیڈ روم اورا سٹنگ روم میں کھلتا ہے، اسٹنگ روم میں قائد کے صوفے، ایزی چیئر، چھڑیاں، شمعدان، کتابوں کی الماری، شوکیس ، کاغذات کی الماریاں اور ڈریسنگ ٹیبل ہے، الماری میں ہاتھی دانت کی بنی خوبصورت چھڑی بھی موجود ہے، ساتھ ہی قائد اعظم کا بیڈ روم اور باتھ روم ہے، قائد اعظم کا بیڈ سنگل ہے، بیڈ کی ایک سائیڈ ٹیبل پر آپ کی بیگم رتی بائی کی فریم شدہ تصویر رکھی ہے، دوسری سائیڈ ٹیبل پر سیاہ رنگ کا ٹیلی فون سیٹ دھرا ہے۔
اس کے ساتھ فرشی ٹیبل لیمپ ہے، دیوار کے ساتھ دوسرا چھوٹا ٹیبل ہے جس پر جگ اور گلاس رکھا ہے، ایک ایزی چیئر بھی ہے، سنگل صوفہ پڑا ہے، صوفے کے سامنے میز پر قرآن مجید کا نسخہ رکھا ہے، قرآن مجید کی جلد چاندی کی ہے، ایک کونے میں کتابوں کی الماری ہے اور اس کے ساتھ کاغذات کا باکس ہے، یہ باکس کا فور سے بنایا گیا تھا، آپ باکس کھولیں تو آپ کو کافور کی خوشبو بھی آتی ہے، بیڈ روم کے ساتھ قائد کا باتھ روم ہے، باتھ روم انتہائی ماڈرن تھا۔
اس میں سفید باتھ ٹب بھی تھا، سفید واش بیسن بھی اور سفید امپورٹڈ کموڈ بھی، باتھ روم کے ساتھ قائد اعظم کے کپڑوں کی الماری ہے، رشید صاحب نے خصوصی مہربانی فرمائی اور الماری کھول دی، الماری میں قائد اعظم کے کپڑے لٹکے ہوئے ہیں، یہ کپڑے دیکھ کر میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے، میں اندر سے دکھی ہو گیا، باتھ روم کے کونے میں گندے کپڑوں کی ٹوکری بھی رکھی ہے اور باہر ریک پر قائد اعظم کے دو جوتے بھی پڑے ہیں، یہ دونوں جوتے ہینڈ میڈ اور قیمتی ہیں۔
میں قائد اعظم کی رہائش گاہ کی سیڑھیوں پر بیٹھ گیا، میں نے کیئر ٹیکر سے پوچھا ’’کیا لوگ قائد اعظم کے گھر کی زیارت کے لیے آتے ہیں‘‘ وہ دکھی آواز میں بولا ’’سال چھ مہینے میں کوئی ایک آدھ بندہ آ جاتا ہے اور بس‘‘ میرے آنسو دوبارہ رواں ہو گئے، میں روح تک قائد اعظم سے شرمندہ ہو گیا، قائد اعظم کے پاکستان میں اٹھارہ کروڑ لوگ رہتے ہیں، یہ اٹھارہ کروڑ لوگ اس ملک کے ’’بینی فشری‘‘ ہیں، ایم کیو ایم ملک کے بانیان کی جماعت کہلاتی ہے، مسلم لیگ قائد اعظم کی جماعت ہے۔
جماعت اسلامی اور دوسری مذہبی سیاسی جماعتیں قائد اعظم کو رحمت اللہ علیہ کہتی ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی چالیس سال سے روح پاکستان کے دعوے کر رہی ہے لیکن اس ملک میں قائد اعظم کا کوئی نہیں، ان کے گھر پر تالے پڑے ہیں اور کمرے بے چراغ ہیں، افسوس قائد اعظم سب کے ہیں لیکن میاں نواز شریف، عمران خان، آصف علی زرداری اور الطاف حسین سے لے کر ممنوں حسین تک قائد اعظم کا کوئی نہیں، یہ لوگ اس شخص کے گھر کا دروازہ تک نہیں کھولتے جس کے صدقے یہ آج حکمران ہیں، محسن کشوں کے اس ملک میں قائد کا گھر بے چراغ بھی ہے اور ویران بھی۔
دنیا کی بہترین یونیورسٹی
جاوید چوہدری جمعـء 3 اپريل 2015

اجتماعی زیادتی کاواقعہ رواں برس اگست میں اس وقت پیش آیاجب خواتین اپنی فیملیز کیساتھ شادی کی تقریب سےواپس لوٹ رہی تھیں۔ فوٹو: فائل www.facebook.com/javed.chaudhry
وہ صبح نکلتا تھا اور سورج ڈوبنے کے بعد واپس آتا تھا، وہ ہوٹل پہنچ کر گرم باتھ لیتا تھا اور لمبے گیلے بال جھٹکتا ہوا ٹیرس میں بیٹھ جاتا تھا، ٹیرس میں اس کے دو شغل تھے، وہ ’’شغل مے‘‘ کرتا تھا اور کھانا کھاتا تھا اور رات جب گہری ہو جاتی تھی تو وہ لڑکھڑاتے قدموں سے کمرے میں جاتا تھا اور بیڈ پر گر جاتا تھا، وہ ہمارے ہوٹل کا واحد مسافر تھا جس کا دروازہ 24 گھنٹے کھلا رہتا تھا۔
وہ رات سوتے وقت دروازہ بند نہیں کرتا تھا اور وہ جب صبح اٹھ کر جنگل میں جاتا تھا تو اس وقت بھی اس کا دروازہ کھلا رہتا تھا، ہم ہوٹل میں 14 لوگ تھے، ہم سب ’’ بلیک فاریسٹ‘‘ کی سیر کے لیے آئے تھے، ہوٹل جنگل میں تھا، ہمارے ہوٹل سے جنگل کے لیے سات راستے نکلتے تھے، یہ راستے مسافروں کو ایسی سمتوں میں لے جاتے تھے جن پر جھیلیں بھی تھیں، گھپ سیاہ جنگل بھی اور غاروں کے ان دیکھے سلسلے بھی، ہم سب جنگل میں جاتے تھے مگر جمی کا انداز سیاحت عجیب تھا۔
وہ ناشتے کے بعد نکلتا تھا اور شام کو واپس آتا تھا، وہ ہم سب سے الگ تھلگ بھی رہتا تھا، ہوٹل کی جرمن مالکہ نے ایک رات لان میں ’’بون فائر،، کا بندوبست کیا، وہ بھی اس رات ہمارے ساتھ بیٹھا تھا، میں اس کے ساتھ بیٹھ گیااور گپ شپ شروع کر دی، پتہ چلا وہ امریکی ہے، والدین یہودی تھے لیکن وہ پہلے عیسائی ہوا، پھر بودھ مت قبول کیا، پھر کسی ہندو جوگی کے قابو آ گیا اور آج کل وہ مکمل لادین ہے، میں نے پاکستانی نفسیات کے مطابق اس سے پوچھا ’’ آپ کرتے کیا ہیں‘‘ جمی نے جواب دیا ’’ میں سیاحتی کمپنیوں کے لیے مضامین لکھتا ہوں۔
پیسے جمع کرتا ہوں اور سفر کرتا ہوں‘‘ جمی نے بتایا، وہ 70 ممالک اور 150 حیران کن جگہوں کی سیر کر چکا ہے، یہ رویہ غیر معمولی تھا، ہم انسان ایک ’’سیٹل لائف‘‘ گزارنا چاہتے ہیں لیکن وہ عام لوگوں سے بالکل مختلف تھا، وہ ایک غیر روایتی اور غیر معمولی زندگی گزار رہا تھا،میں نے اس سے پوچھا ’’تمہارے اس پاگل پن کی وجہ کیا ہے؟‘‘ وہ ہنسا اور بولا ’’ میں ایک عام جاہل انسان تھا لیکن پھر میں نے ایک دن کسی میگزین میں ایک چینی محاورہ پڑھا اور میری زندگی بدل گئی اور میں غیر معمولی اور غیر روایتی زندگی گزارنے لگا‘‘۔
وہ خاموش ہو گیا، میں نے پوچھا ’’وہ محاورہ کیا تھا‘‘ وہ بولا ’’ چینی محاورہ تھا ’’سفر دنیا کی بہترین یونیورسٹی ہے‘‘ یہ فقرہ سیدھا میرے دل پر لگا، میں نے نوکری سے استعفیٰ دیا، سامان پیک کیا، بینک سے سارے پیسے نکالے اور سفر پر روانہ ہو گیا، میں اب سفر کرتا ہوں اور ان سفروں کی کہانیاں اور رودادیں لکھتا ہوں اور مطمئن زندگی گزارتا ہوں‘‘۔
جمی اگلے دن سوئٹرز لینڈ چلا گیا لیکن اپنا تاثر ہمیشہ کے لیے چھوڑ گیا، میں جب بھی دنیا کے ان دیکھے اور منفرد شہروں کی طرف روانہ ہوتا ہوں تو جمی اور اس کے منہ سے نکلا محاورہ ’’ سفر دنیا کی بہترین یونیورسٹی ہے‘‘ میرے ساتھ سفر کرتا ہے۔
میں نے ہر بار یہ محاورہ سچ ہوتے دیکھا، یہ حقیقت ہے ہم سفر سے جو کچھ سیکھتے ہیں وہ ہم کسی دوسرے عمل سے نہیں سیکھ سکتے، میں نے ازبکستان کے اس سفر سے بھی چند نئی چیزیں سیکھیں، مثلاً پاکستانی ثقافت اور زبان پر ازبکستان کے گہرے اثرات ہیں، ہماری اردو، پشتو، پنجابی، بلوچی اور سندھی میں ازبک زبان کے پانچ ہزار الفاظ ہیں، ہمارے کھانے بھی مشترک ہیں مثلاً پلاؤ ازبکستان سے ہندوستان آیا ، یہ لوگ آج بھی پلاؤ بڑے شوق سے بناتے ہیں اور کھاتے ہیں۔
یہ شادی کی تقریب کا آغاز پلاؤ سے کرتے ہیں، یہ صبح سویرے تمام مہمانوں کو ناشتے میں پلاؤ کھلاتے ہیں، نان کا لفظ اور نان دونوں ازبکستان سے آئے، یہ لوگ چائے کو چائے کہتے ہیں اور یہ چائے کے روزانہ ساٹھ ستر کپ پی جاتے ہیں لیکن ان کی چائے ہم سے مختلف ہوتی ہے، یہ گرین ٹی اور قہوے کو چائے کہتے ہیں چنانچہ ازبک چائے معدے کے لیے بہت اچھی ہوتی ہے، یہ کباب کو کباب ہی کہتے ہیں اور ان کے کباب ہمارے کبابوں جیسے ہوتے ہیں، یہ سلاد کو سالاد کہتے ہیں، ہم حلیم کو کشمیری ڈش سمجھتے تھے جب کہ یہ ازبک ڈش ہے اور یہ آج بھی ازبکستان میں بنائی اور کھائی جاتی ہے۔
یہ لوگ حلیم کو حلیم ہی کہتے ہیں، یہ لوگ سوجی اور جو کا حلوہ بناتے ہیں، یہ سوجی کو بڑے پتیلے میں ڈال کر اسے چولہے پر رکھتے ہیں اور اسے پوری رات گھوٹتے رہتے ہیں، یہ حلوہ سمالک کہلاتا ہے، میں بچپن میں یہ حلوہ اپنے گاؤں میں کھاتا تھا، ہم پنجابی میں اسے ’’کڑاہی‘‘ کہتے ہیں، سمالک اور کڑاہی دونوں کے بنانے کا طریقہ یکساں ہے اور آپ اعتراض، کیونکہ، لیکن، البتہ، مکان، دکان، مسجد، قلم، کاغذ، رحمت، دیوار، قلعہ، شوربہ اور پیالہ جیسے الفاظ دیکھئے، یہ الفاظ بھی اردو اور ازبک زبان میں مشترک ہیں۔
یہ روایات اور الفاظ ہزار سال کے اس رابطے کا نتیجہ ہیں جو ماضی میں ہمارے اور ازبک خطے کے درمیان موجود تھا، پاکستان کے چودہ بڑے شہر شاہراہ ریشم پر واقع تھے، ملتان اور بخارہ اور سمرقند کے درمیان زمینی روٹ تھا، آپ اگر ازبکستان جائیں تو آپ کو سمرقند، بخارہ اور خیوا کے قلعوں، محلات اور مدارس میں نیلے اور سبز رنگ کی چھوٹی ٹائلیں نظر آئیں گی، یہ ٹائلیں ملتان سے ایران، افغانستان اور ازبکستان پہنچیں اور ان سے آج بھی ملتان کی خوشبو آتی ہے۔
ہندوستان کو تاریخ میں تین بڑے ازبک فاتحین بھی ملے، خوارزم شاہ ہندوستان آیا اور پنجاب اور سندھ فتح کیا، امیر تیمور ہندوستان آیا اور دہلی تک کا علاقہ فتح کیا، ظہیرالدین بابر ہندوستان آیا اور ہندوستان میں مغل سلطنت کی بنیاد رکھی، امام ترمذی، بہاؤالدین نقش بندی، الخوارزمی اور الیبرونی نے بھی ہندوستان پر گہرے اثرات چھوڑے، اسداللہ غالب کے پڑدادا بھی ازبکستان سے تعلق رکھتے تھے، یہ تاشقند سے ہندوستان آئے چنانچہ ہمارے ازبکستان سے گہرے اور تاریخی تعلقات ہیں مگر افسوس ہم یہ تعلقات آگے نہ بڑھا سکے۔
آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی ازبکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کے ساتھ ہمارا وقت کا کوئی فرق نہیں، پاکستان اور ازبکستان کی گھڑیوں میں ایک وقت ہوتا ہے،یہ ہم سے دو گھنٹے کے فاصلے پر بھی واقع ہے، ازبکستان کے پاس بجلی اور گیس دونوں وافر مقدار میں ہیں، ہمیں یہ دونوں درکار ہیں لیکن ہم تعلقات نہیں بڑھا رہے۔
ازبک ائیر لائین پچھلے سال تک پاکستان آتی تھی اور لوگ چالیس ہزار روپے میں پاکستان سے ازبکستان پہنچ جاتے تھے لیکن ازبک ائیر لائین نے پاکستان کا آپریشن بند کر دیا، پاکستان کو یہ آپریشن دوبارہ شروع کرانا چاہیے، ویزوں کے معاملے میں بھی دونوں ملک سرد مہری کا شکار ہیں، پاکستان ایمبیسی ازبک شہریوں کو ویزے نہیں دیتی، جواب میں ازبک حکومت نے بھی ویزہ پالیسی سخت کر دی، یہ پالیسی بھی نرم ہونی چاہیے، پاکستان کو ہمسایہ ممالک کے ساتھ سیاحتی تعلقات بڑھانے چاہئیں، ہم کنوئیں کے مینڈک بن چکے ہیں، ہم جب تک دوسرے معاشروں میں جھانک کر نہیں دیکھیں گے ہمیں دنیا اور زندگی سمجھ نہیں آئے گی۔
حکومت معاشرے کو کھولے، یہ سینٹرل ایشیا اور سارک ممالک کے لیے نئی ویزہ پالیسی بنائے، ہم شدید لوڈ شیڈنگ کا شکار ہیں جب کہ ازبکستان کے پاس بجلی فالتو ہے، ازبکستان افغانستان کو بجلی فراہم کر رہا ہے، کابل تک ٹرانسمیشن لائین موجود ہے، ہم ازبکستان سے سستی بجلی خرید سکتے ہیں، ہمیں زیادہ لمبی لائین بھی نہیں بچھانی پڑے گی، ازبکستان ’’ لینڈ لاکڈ‘‘ ملک ہے، ہم کراچی اور گوادرمیں اسے سہولت دے سکتے ہیں، ازبکستان میں کاروبار کے وسیع مواقع موجود ہیں۔
حکومت تاجروں اور صنعت کاروں کوسہولتیں دے رہی ہے، ہمارے صنعت کار وہاں فیکٹریاں لگا سکتے ہیں، ازبکستان سبزیوں اور فروٹس میں خودکفیل ہے، ہم سبزی اور فروٹ کی کارگو سروس شروع کر سکتے ہیں، یہ دونوں ملک مل کر بہت آگے بڑھ سکتے ہیں لیکن اس کے لیے سنجیدہ کوشش کرنا ہو گی۔
ہماری حکومت کو چاہیے یہ ازبکستان میں ایک دو پاکستانیوں کو اعزازی قونصلر تعینات کر دے، یہ لوگ پاکستان اور ازبکستان کو قریب لے آئیں گے، ڈاکٹر رازق داد ازبکستان میں پاکستانی تاجر ہیں، یہ دو دہائیوں سے وہاں آباد ہیں، یہ روسی اور ازبک زبانیں جانتے ہیں، یہ مقامی لوگوں اور سیاستدانوں میں بھی مقبول ہیں، ہماری حکومت ان کی مدد لے سکتی ہے، ڈاکٹر صاحب یہ خدمات فی سبیل اللہ سرانجام دیں گے۔
مجھے ازبک ڈائننگ ٹیبل نے بہت متاثر کیا، یہ لوگ کھانے پینے کے شوقین ہیں، یہ گھر میں موجود کھانے کی تمام اشیاء میز پر رکھ دیتے ہیں، یہ لوگ دو دو گھنٹے کھاتے ہیں مگر اس کے باوجود صحت مند رہتے ہیں، کیوں؟ کیونکہ ان کی خوراک قدرتی اور سادہ ہوتی ہے، یہ سلاد اور فروٹ زیادہ کھاتے ہیں، یہ کھانے کے دوران مسلسل گرین ٹی بھی پیتے ہیں، یہ آلو، گندم، چاول، گھی اور تیز مصالحے استعمال نہیں کرتے، مین کورس یا مین ڈش صرف ایک ہوتی ہے۔
باقی سوپ، سلاد،فروٹ، جوس اور ڈبل روٹی کے ٹکڑے ہوتے ہیں، یہ کھانے کے دوران ہنستے کھیلتے بھی ہیں اور موسیقی سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں، ازبک لوگ ریلکس بھی رہتے ہیں، یہ خود بھی خوش رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی خوش رکھتے ہیں، ہم اگر سیکھنا چاہیں تو ہم ازبک قوم سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں چنانچہ ہمیں ازبکستان کی طرف کھلنے والی تمام سرحدیں کھولنی چاہئیں تا کہ ہمارے لوگ بھی دیکھ سکیں، سفر دنیا کی کتنی بڑی یونیورسٹی ہے اور یہ یونیورسٹی انسان کو کس طرح سکھاتی ہے۔
ازبک الیکشن
جاوید چوہدری جمعرات 2 اپريل 2015

تاشقند میں اچانک برف باری شروع ہوگئی، میں، عیش محمد اور ترجمان شہباز الیکشن سینٹر سے نکلے تو شہر پر برف کے سفید گالے نازل ہو رہے تھے، پورا شہر سفید ہو چکا تھا، یہ بہار کی برف باری تھی، تاشقند کے لوگ بھی اس معجزے پر حیران تھے۔
تاشقند میں 19 مارچ کو نوروز کا جشن ہوا، نوروز سینٹرل ایشیا میں سردیوں کے خاتمے کا اعلان ہوتا ہے، نوروز کے بعد برف باری اور سردی کا امکان نہیں ہوتا لیکن 29 مارچ کو صدارتی الیکشن کے دن اچانک برف باری شروع ہوگئی، آسمان سے روئی زمین پر برسی اور شہر آدھ گھنٹے میں سفید ہو گیا۔
ازبکستان میں 29 مارچ 2015ء کو چوتھا صدارتی الیکشن تھا، ازبک حکومت نے الیکشن کی مانیٹرنگ کے لیے 44 ممالک سے 300 مبصرین کو دعوت دی، پاکستان سے 9 مبصرین مانیٹرنگ کے لیے ازبکستان گئے، میں بھی اس وفد میں شامل تھا، حکومت نے مبصرین کو شاندار سہولتیں دے رکھی تھیں، ازبکستان پہنچنے والے ہر مبصر کو گاڑی، ڈرائیور، پروٹوکول آفیسر اور ایک ترجمان کی سہولت حاصل تھی۔
یہ تین لوگ دن رات مبصر کے ساتھ رہتے تھے، مبصرین کے لیے فائیو اسٹار ہوٹل بک تھے، یہ مبصر کارڈ دکھا کر پورے ملک میں کسی بھی جگہ وزٹ کر سکتے تھے، ملک بھر کے لیے ہوائی سفر، ٹرین کا سفر اور لوکل ٹرانسپورٹ فری تھی، یہ لوگ سرکاری دفاتر میں بھی جا سکتے تھے اور وہاں سے بھی ہر قسم کی معلومات حاصل کر سکتے تھے، مبصرین مارچ کے ابتدائی دنوں سے یکم اپریل تک کسی بھی وقت ازبکستان پہنچ سکتے تھے اور ازبک مہمان نوازی سے لطف اندوز ہو سکتے تھے۔
مجھے ہوٹل میں ایسے مبصرین بھی ملے جو پورے مہینے سے ازبکستان کے مہمان تھے، یہ لوگ الیکشن کی مانیٹرنگ کے چکر میں نہ صرف پورے ملک کی سیر کر رہے تھے بلکہ زندگی کی تمام ناآسودہ حسرتیں بھی پوری کر رہے تھے، میں 25 مارچ کو تاشقند پہنچا، حکومت کی طرف سے عیش محمد اور شہباز دو معاون ملے، ڈرائیور ان کے علاوہ تھا، شہباز نوجوان طالب علم تھا، یہ یونیورسٹی میں انٹرنیشنل ریلیشنز کا طالب علم تھا۔
حکومت نے مبصرین کی ترجمانی کا فریضہ یونیورسٹی کے طالب علموں کو سونپ رکھا تھا، مجھے یہ تکنیک اچھی لگی کیونکہ بیرونی دنیا سے اس انٹرایکشن سے طالب علموں کے وژن میں بھی اضافہ ہوا اور دنیا بھر کے مبصرین کو بھی ازبکستان کی نئی نسل کو سمجھنے کا موقع ملا، عیش محمد وزارت اطلاعات میں آفیسر تھا، حکومت نے پروٹوکول کی ذمے داری سرکاری افسروں کو سونپ رکھی تھی، شہباز اور عیش محمد دونوں مہمان نواز، مہذب اور زندہ دل انسان تھے، میں نے ان کی کمپنی کو پانچ دن خوب انجوائے کیا، ازبکستان میں پانچ سال بعد صدارتی الیکشن ہوتے ہیں۔
عوام صدر کا انتخاب براہ راست کرتے ہیں، صدر اسلام کریموف دسمبر 1991ء سے ازبکستان کے صدرہیں، یہ ازبکستان کے بانی بھی ہیں، اسلام کریموف نے 1991ء میں ازبکستان کو سووویت یونین سے آزادی دلائی ، یہ ازبکستان میں تاحال پاپولر ہیں، صدر کے عہدے کے لیے چار امیدوار تھے، صدر اسلام کریموف بھی الیکشن لڑ رہے تھے، ان کے علاوہ نریمان عمروف امیدوار تھے، یہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، حاتم جان کتمانوف پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی کے امیدوار تھے اور اکمل صیدوف ڈیموکریٹک پارٹی آف ازبکستان کے امیدوار تھے۔
ازبکستان 12 صوبوں اور ایک نیم خود مختار علاقے قراقل پاکستان پر مشتمل ہے، وفاقی دارالحکومت تاشقند کو بھی صوبے کی حیثیت حاصل ہے یوں ازبکستان میں 14 انتظامی یونٹس ہیں، ان 14 یونٹس میں نو ہزار 60 الیکشن سینٹر بنائے گئے، کل ووٹرز 2 کروڑ 8 لاکھ 79 ہزار 52 ہیں۔ مجھے پانچ دنوں میں ازبکستان کے الیکشن سسٹم کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور میں ازبکستان کے سینٹرل الیکشن کمیشن کی کارکردگی کی تعریف پر مجبور ہو گیا، ازبک لوگ الیکشن سینٹر کو الیکشن پریسنگ کہتے ہیں۔
یہ پریسنگ ہماری طرح اسکولوں، کالجوں، سرکاری عمارتوں اور بعض شہروں اور قصبوں میں پرائیویٹ عمارتوں میں قائم کیے جاتے ہیں، میں نے پریسنگ میں پانچ اہم چیزیں دیکھیں، پریسنگ میں بچوں کا کمرہ تھا، یہ کھلونوں سے بھرا ہوا کمرہ تھا، اس میں جھولے بھی تھے اور بچوں کے بیڈ بھی۔ ایک، ملک کے ہر پریسنگ میں بچوں کا کمرہ تھا، یہ کمرہ چھوٹے بچوں اور ان کی ماؤں کے لیے تھا، مائیں بچوں کو اس کمرے میں چھوڑتی تھیں اور ووٹ دینے کے لیے قطار میں کھڑی ہو جاتی تھیں۔
بچوں کے کمرے میں بچوں کی نگرانی کے لیے باقاعدہ آیائیں تھیں،دو، ہر پریسنگ میں ابتدائی طبی امداد کا کمرہ بھی تھا، یہ میڈیکل سینٹر عارضی طور پر بنایا گیا تھا اور اس کا مقصد ایمرجنسی کی صورتحال میں ووٹروں کو ابتدائی طبی امداد دینا تھا، تین، پریسنگ میں ایک طویل وائیٹ بورڈ لگا تھا جس پر حلقے کے تمام ووٹرز کے نام، شناختی کارڈ نمبر اور ووٹر نمبر درج تھے، آپ کسی بورڈ کے سامنے کھڑے ہو کر حلقے کے تمام ووٹرز کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتے تھے۔
چار،بیلٹ باکس ڈبے کے بجائے ڈرم جیسا تھا،یہ ڈرم سامنے سے شفاف تھا، پورے حلقے کے ووٹرز کے لیے ایک ڈرم کافی تھا، یہ اچھا انتظام تھا کیونکہ دوسرا بیلٹ باکس نہیں ہو گا تو جعلی ووٹ بھی نہیں نکلیں گے اور پانچ، ووٹنگ کا وقت صبح چھ سے رات دس بجے تک تھا، حکومت نے ووٹروں کی سہولت کے لیے تین دلچسپ انتظامات کر رکھے تھے۔
ازبکستان کے تمام سفارت خانوں میں ووٹ ڈالنے کا بندوبست تھا، دنیا کے دوسرے ممالک میں موجود ازبک شہریوں نے ان ملکوں میں اپنے اپنے اپنے سفارت خانوں میں ووٹ کاسٹ کیے، وہ لوگ جو الیکشن کے دن ملک میں موجود نہیں تھے وہ 19 مارچ سے 29 مارچ تک اپنا ووٹ ڈال سکتے تھے، یہ لوگ اپنے علاقے کی پریسنگ میں جاتے تھے، اپنا ووٹ حاصل کرتے تھے، امیدوار کے نام پر مہر لگاتے تھے، ووٹ لفافے میں بند کر کے اس پر سیل لگاتے تھے اور یہ سیل شدہ لفافہ انچارچ کے پاس چھوڑ جاتے تھے۔
29 مارچ کے دن پریسنگ انچارج نے چاروں امیدواروں کے نمایندوں کے سامنے یہ لفافے کھولے اور ووٹ بیلٹ باکس میں ڈال دیے، الیکشن کمیشن نے بیماروں، انتہائی بوڑھوں اور اسپتالوں میں داخل مریضوں کے لیے بھی ووٹنگ کا بندوبست کر رکھا تھا، ملک کی ہر پریسنگ میں ایک سیل شدہ ڈبہ تھا، الیکشن کا عملہ یہ سیل شدہ ڈبہ لے کر اسپتالوں، محلوں اور گھروں میں جاتا تھا اور مریضوں اور بوڑھوں کو ووٹ کی سہولت دیتا تھا، الیکشن کمیشن نے مبصرین کے لیے بریفنگ کا بندوبست کیا، یہ بریفنگ پریس سینٹر میں ہوئی، الیکشن کے دن مبصرین اور میڈیا کو تین بار پریس سینٹر بلایا گیا، بریفنگ الیکشن کمشنر مرزا الغ بیگ نے دی۔
یہ بریفنگ مکمل طور پر ازبک زبان میں تھی، فارن میڈیا اور غیر ملکی مبصرین کو ساؤنڈ سسٹم دے دیے گئے، ساؤنڈ سسٹم میں تین زبانوں کا آپشن تھا، ہم لوگ اپنی مرضی کی زبان میں بریفنگ کا ترجمہ سنتے رہے، بریفنگ کے دوران کسی قسم کے سوال کی اجازت نہیں تھی، الیکشن کمشنر بریفنگ دیتا تھا اور بریفنگ ختم ہو جاتی تھی۔
ملک کے 14 ریجن کے انچارج بھی وڈیو لنک کے ذریعے بریفنگ میں موجود ہوتے تھے، الیکشن کمشنر جس انچارج کو کہتا تھا وہ وڈیو لنک کے ذریعے اپنے ریجن کی بریفنگ دینے لگتا تھا، میڈیا یہ بریفنگ براہ راست نشر کر رہا تھا، یہ بندوبست بھی اچھا تھا کیونکہ اس سے وقت بھی بچا اور قوم بھی کنفیوژن سے پاک رہی، ہماری بریفنگ میں بریفنگ کم اور سوال زیادہ ہوتے ہیں، یہ سوال بریفنگ کا رخ بھی تبدیل کر دیتے ہیں اور فضا کو بھی خراب کر دیتے ہیں۔
ہم اپنے صحافی بھائیوں کو اکثر ریلوے کے وزیر سے خارجہ امور کے سوال پوچھتے اور وزیر خارجہ سے ’’لوڈ شیڈنگ کب ختم ہو گی اور جوڈیشل کمیشن کب بنے گا،، جیسے سوال کرتے دیکھتے ہیں، یہ غیر متعلقہ سوال اور ان غیر متعلقہ سوالوں کے جواب ملک میں کنفیوژن پھیلاتے ہیں، ازبکستان میں الیکشن بریفنگ کے دوران کسی سوال کی اجازت نہیں تھی چنانچہ وہاں اس دن کوئی کنفیوژن پیدا ہوئی اور نہ ہی کوئی بریکنگ نیوز چلی، ہماری حکومت کو بھی کوئی ایسا فارمولا طے کرنا چاہیے جس کے ذریعے ہماری بریفنگ صرف بریفنگ رہے۔
یہ پریس کانفرنس نہ بنے اور پریس کانفرنس ، پریس کانفرنس ہو یہ بریفنگ نہ بن جائے، ہم لوگ انگریزی بولنے کے خبط میں بھی مبتلا ہیں، ہمارے حکمران ہر بریفنگ اور ہر پریس کانفرنس میں انگریزی بولنے کی کوشش کرتے ہیں اور اچھے خاصے نالائق ثابت ہوتے ہیں، ازبکستان میں کسی بریفنگ میں انگریزی نہیں بولی گئی، میں سینٹرل الیکشن کمیشن میں الیکشن کمشنر سے ملاقات کے لیے گیا، الیکشن کمشنر مرزا الغ بیگ پڑھے لکھے انسان ہیں، یہ تین سینئر ممبرز کے ساتھ میرے سامنے بیٹھ گئے۔
یہ لوگ ازبک زبان میں بات کرتے رہے، میرا ترجمان اس کا انگریزی میں ترجمہ کردیتا تھا، میں انگریزی میں جواب دیتا تھا اور ترجمان اس کا ازبک میں ترجمہ کر دیتا تھا، ہماری اس کمیونیکیشن سے الیکشن کمشنر کی بے عزتی ہوئی اور نہ مجھے کوئی دقت یا کوفت ہوئی، ہم ایسا کیوں نہیں کرتے؟ہم اپنی زبان سے اتنے شرمندہ کیوں ہیں؟ میں آج تک یہ نہیں سمجھ سکا۔
یہ الیکشن بھی صدر اسلام کریموف 90 اعشاریہ 39 فیصد ووٹ لے کر جیت گئے، یہ اسلام کریموف کی مقبولیت کا ثبوت ہے، کریموف ازبکستان میں بہت پاپولر ہیں، یہ کیوں پاپولر ہیں، میں پانچ دن لوگوں سے یہ سوال پوچھتا رہا، ازبکستان غریب اسلامی ملک ہے، کرنسی زمین کو چھو رہی ہے، آپ ایک امریکی ڈالر دیتے ہیں اور آپ کو اوپن مارکیٹ سے چار ہزار ازبک سم ملتے ہیں۔
آپ چار ہزار سم کے کاغذ کا ریٹ نکالیں تو یہ نوٹوں کی مالیت سے تین گنا زیادہ ہو گا، لوگوں کی زیادہ سے زیادہ تنخواہ تین سے چار سو ڈالر ہے لیکن اس کے باوجود اسلام کریموف مقبول ہیں، کیوں؟ پہلی وجہ امن تھا، اسلام کریموف ملک میں امن قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے ، ازبکستان دنیا کے ان چند اسلامی ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں لاء اینڈ آرڈر کا کوئی مسئلہ نہیں، آپ دن ہو یا رات ملک کے کسی حصے میں نکل جائیں آپ کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھے گا۔
ملک میں جرائم اور اسلحہ زیرو پرسنٹ ہے، اسلام کریموف نے ملک میں لبرل اور مذہبی دونوں طبقوں کو قابو میں رکھا ہوا ہے، لبرل مسجد پر اعتراض نہیں کر سکتے اور مذہبی لوگ موسیقی، رقص اور شراب خانوں کی طرف انگلی نہیں اٹھا سکتے، مساجد اور مدارس حکومتی کنٹرول میں ہیں۔
ملک میں کھانے پینے کی اشیاء کی فراوانی ہے ، یہ اشیاء سستی بھی ہیں اور ملک میں بجلی، گیس اور پانی کی سہولتیں پوری آبادی کو یکساں حاصل ہیں اور یہ بھی بہت سستی ہیں چنانچہ لوگ اسلام کریموف سے خوش ہیں۔ یہ 77 سال کی عمر میں عوام کے سامنے رقص بھی کر لیتے ہیں اور لوگ انھیں ناچتا دیکھ کر خوش بھی ہوتے ہیں چنانچہ یہ جیت گئے۔
الخوارزمی کیا سوچ رہا تھا
جاوید چوہدری منگل 31 مارچ 2015

خیوا کے گرد طویل فصیل ہے، فصیل کی لمبائی دو ہزار دو میٹر، اونچائی دس میٹر اور چوڑائی آٹھ میٹر ہے، فصیل پر تین گھوڑے بیک وقت دوڑ سکتے ہیں، فصیل پر باہر کی جانب چھوٹے چھوٹے کوارٹرز بنے ہیں، یہ کوارٹرز کوارٹرز نہیں ہیں، یہ دراصل قبریں ہیں ،ماضی میں امراء شہر میں رہتے تھے اور غرباء شہر کے باہر۔ بادشاہ شہر کے باہر آباد غریبوں میں سے اہم ترین لوگوں کو فصیل پر دفن ہونے کی اجازت دے دیتے تھے، ازبکستان اور پاکستان کی قبروں میں مماثلت ہے۔
ازبک بھی قبر پر تعویز بناتے ہیں اور ہم بھی لیکن ازبک قبروں کے تعویز ہم سے بلند اور خوبصورت ہوتے ہیں، یہ مردے کی تدفین کے بعد قبروں کے گرد چار سے آٹھ فٹ اونچی دیواریں کھینچتے ہیں، دیواروں پر تکونی چھت ڈالتے ہیں اور چھت اور دیواروں کو چاروں اطراف سے بند کر دیتے ہیں۔ یوں قبر دور سے کمرہ دکھائی دیتی ہے، ازبکوں نے یہ فن ترکوں سے سیکھا اور ترکوں نے شاید یہ طرز گور استنبول کے عیسائیوں سے حاصل کیا، خیوا کی فصیل پر قبریں تھیں، یہ کون لوگ تھے؟ تاریخ خاموش ہے۔
قلعے کے چار دروازے تھے، یہ آج بھی قائم ہیں، طالب دروازہ داخلے کا سب سے بڑا ذریعہ تھا، یہ آج بھی مرکزی حیثیت رکھتا ہے، گیٹ کے اندر دوسری فصیل ہے، اس کے نیچے گارڈز کے کوارٹرز ہیں، طالب گیٹ کے اندر خان آف خیوا کا سرکاری محل تھا، خان چنگیز خان کے حملے سے قبل خوارزم شاہ کہلاتے تھے لیکن یہ منگولوں کی آمد کے بعد خان بن گئے، خان کا محل قلعے کی مقدس ترین جگہ تھا، یہ بنیادی طور پر دربار تھا، خان اس عمارت میں عمائدین، وزراء، سفیروں اور خیوا کے عام لوگوں سے ملاقات کرتا تھا، دربار کے لیے تین دروازے تھے، بادشاہ بڑے دروازے سے اندر داخل ہوتا تھا، دوسرا دروازہ سفیروں، وزراء عمائدین کے لیے تھا جب کہ تیسرا دروازہ چھوٹا بھی تھا اور تنگ بھی، یہ عام لوگوں کے لیے تھا، برآمدے کے سامنے، شاہی صحن کے ایک کونے سے سیڑھیاں اوپر جاتی ہیں، سیڑھیاں اونچی بھی ہیں اور سیدھی بھی، یہ سیڑھیاں چھت پر لے جاتی تھیں، چھت پر جھروکا تھا، جھروکے سے پورا شہر دکھائی دیتا تھا، میں ہانپتا، کانپتا جھروکے تک پہنچ گیا، سامنے پورا خیوا شہر بکھرا ہوا تھا، خیوا ماضی میں میناروں، درس گاہوں اور بازاروں کا شہر تھا، مینار آج بھی قائم ہیں۔
یہ مینار آپ کو جھروکے سے صاف نظر آتے ہیں، ماضی میں خیوا میں80 مدارس تھے یہ مدارس اس وقت کی یونیورسٹیاں تھے، پوری دنیا سے طالب علم خیوا آتے تھے، طالب علم مدرسے ہی میں رہتے تھے اور یہیں پڑھتے تھے، ماضی میں پورا ازبکستان یونیورسٹی تھا، آپ بخارہ چلے جائیں، آپ سمر قند کو دیکھ لیجیے اور آپ خیوا کی تاریخ کھنگال لیجیے آپ کو ازبکستان میں سیکڑوں ہزاروں درس گاہیں ملیں گی اور ہر درس گاہ میں امام بخاری، امام ترمذی اور الخوارزمی اور البیرونی جیسے استاد بھی ملیں گے، خیوا البیرونی اور الخوازمی جیسے دانشوروں اور مورخین کا شہر تھا، شہر میں آج بھی 27 مدارس موجود ہیں، یہ شہر میٹھے کنوؤں کاروان سراؤں، بازاروں اور حماموں کا شہر بھی تھا، گیٹ کے سامنے میدان تھا۔
تاجر میدان میں اونٹ اور گھوڑے باندھ کر شہر میں آ جاتے تھے، حمام میں جاتے تھے، بازاروں کا چکر لگاتے تھے، قہوہ خانوں اور ریستورانوں میں بیٹھتے تھے، سامان تجارت بیچتے تھے اور آگے روانہ ہو جاتے تھے، بازاروں کے آثار آج بھی موجود ہیں، ماضی کے مکانات بھی ہیں اور ان میں ساڑھے تین ہزار لوگ بھی رہتے ہیں، یہ لوگ، یہ مکان، شام کا وقت اور قلعے کی گلیوں سے گزرتی یخ ہوا انسان کو ماضی میں لے جاتی ہے، وہ ماضی جس میں آپ الخوارزمی کو گلی کی نکڑ میں بیٹھ کر الجبرا کی بنیاد ڈالتے دیکھتے ہیں، آپ بو علی سینا کو نبض پر ہاتھ رکھ کر دل کی رگیں ٹٹولتے دیکھتے ہیں اور آپ البیرونی کو مور کے پر سے تاریخ الہند کے نئے باب تحریر کرتے دیکھتے ہیں۔
دنیا میں ہزاروں مساجد ہیں لیکن خیوا کی جامع مسجد جیسی کوئی دوسری مثال نہیں ہو گی، ہم مسلمان مسجد قرطبہ کے فین ہیں لیکن تعمیراتی عقیدت کے لحاظ سے جامع مسجد خیوا قرطبہ کی مسجد سے کہیں بہتر اور شاندار ہے، یہ مسجد ہزار سال قبل بنی، بنانے والوں نے213 بلند اور مضبوط درخت کاٹنے، درختوں کی لکڑی خشک کی، دنیا بھر سے 213 ماہر نقاش جمع کیے، درخت ان نقش گروں کے حوالے کر دیے گئے، ہر نقاش کے پاس ایک درخت اور پانچ سال تھے، نقاش پانچ سال اپنے اپنے درخت تراشتے رہے، اس پر پھول بوٹے بناتے رہے، یہ تنے پانچ سال بعد 213 ستون بن گئے، ستونوں کو فرش میں گاڑھا گیا اور ان پر لکڑی کی چھت ڈال دی گئی، جامع مسجد تیار ہوگئی۔
آپ مسجد میں داخل ہوتے ہیں تو ستونوں کا طویل جنگل آپ کی توجہ کھینچ لیتا ہے، ہر ستون دوسرے ستون سے مختلف ہے اور ہر مختلف ستون ایک مکمل فن پارہ ہے، آپ امام گاہ میں کھڑے ہوں تو آپ کو مسجد کے تمام ستون دکھائی دیتے ہیں، آپ مسجد کے کسی ستون کے قریب چلے جائیں ،آپ کو وہاں سے امام گاہ اور امام کی جائے نماز دونوں دکھائی دیں گی، امام گاہ میں بازگشت کا قدیم نظام بھی تھا، آپ امام کی جگہ کھڑے ہو کر سرگوشی بھی کریں تو آپ کی آواز پوری مسجد میں گونجے گی، مسجد کی چھت میں تین جگہوں پر تین چکور سوراخ ہیں، یہ سوراخ روشنی کے لیے بنائے گئے تھے، یہ روشنی پوری مسجد کو روشن رکھتی تھی، مسجد اب مسجد نہیں رہی، یہ میوزیم بن چکی ہے چنانچہ لوگ جوتوں سمیت عمارت میں داخل ہو جاتے ہیں۔
میری گائیڈ بھی اسکرٹ کے ساتھ جوتوں میں اندر چلی گئی، میں کیونکہ کمزور دل مسلمان ہوں چنانچہ میں نے اپنے جوتے دہلیز پر اتار دیے اور ننگے پاؤں اندر داخل ہو گیا، فرش خوفناک حد تک ٹھنڈا تھا، میں خیوا کی جامع مسجد کے اندر چلتے پھرتے بار بار سوچتا تھا، یہ مسجد تعمیراتی لحاظ سے قرطبہ سے کہیں بہتر ہے لیکن اسے وہ مقبولیت نہیں مل سکی جو مسجد قرطبہ کو نصیب ہوئی، کیوں؟
شاید اس کی وجہ یورپ اور سقوط قرطبہ تھا، اندلس کا زخم آج بھی مسلمانوں کے دلوں میں تازہ ہے اور مسجد قرطبہ اور غرناطہ کے محلات اس زخم کی آخری نشانیاں ہیں، قرطبہ یورپ میں عیسائیوں کے عین درمیان بھی موجود ہے اور ہم یورپ کی وجہ سے بھی اس کی قدر کرتے ہیں جب کہ خیوا کی جامع مسجد مسلمان ملک میں واقع ہے اور مسلمان اپنے ممالک میں موجود یادگاروں کی اتنی عزت نہیں کرتے جتنی یہ غیروں کے آثار قدیمہ کو دیتے ہیں، یہ مسجد حقیقتاً تعمیراتی معجزہ ہے اور میں اپنے آرکیٹکٹ دوست اعجاز قادری کو مشورہ دوں گا وہ ایک بار خیوا ضرور جائیں اور خیوا کی جامع مسجد دیکھیں، یہ بھی حیران رہ جائیں گے۔
خان آف خیوا کا حرم سرا بھی قابل دید تھا، اس میں 163 کمرے ہیں، آپ مختلف برآمدوں، دلانوں اور ڈیوڑھیوں سے ہوتے ہوئے آخر میں بادشاہ کے حرم میں پہنچ جاتے ہیں، یہ ایک چکور کمپلیکس ہے، آپ جوں ہی آخری ڈیوڑھی سے گزر کر کمپلیکس میں داخل ہوتے ہیں تو آپ ایک وسیع صحن میں پہنچ جاتے ہیں، صحن کے چاروں اطراف کمرے ہیں، دائیں جانب کمروں کے پانچ سیٹ ہیں، آخری سیٹ بادشاہ کی خواب گاہ تھا، یہ سونے کے کمرے اور ڈرائنگ روم پر مشتمل تھا، بادشاہ کے چیمبر کے ساتھ قطار میں چار مزید چیمبرز ہیں، یہ بادشاہ کی چار ملکاؤں کے کمرے تھے، ملکاؤں کے چیمبرز کے بعد کچن تھا اور کچن کے ساتھ کمروں کی لمبی قطار ہے۔
یہ کنیزوں کے کمرے تھے، میں نے خاتون گائیڈ سے پوچھا ’’کیا بادشاہ کو واش روم کی ضرورت نہیں پڑتی تھی‘‘ خاتون شرما گئی، اس نے منہ پر ہاتھ رکھا اور انگلی سے صحن کی طرف اشارہ کیا، وہاں فوارے کے آثار تھے، گائیڈ نے بتایا ’’بادشاہ فوارے پر نہاتا تھا جب کہ باقی ضروریات کے لیے غلام اور کنیزیں تھیں، وہ سونے اور چاندی کی بالٹیاں لے کر آتی تھیں اور لے کر واپس چلی جاتی تھیں،، میری ہنسی نکل گئی، خاتون گائیڈ نے وجہ پوچھی، میں نے مسکرا کر عرض کیا، انگریزوں نے شاید اسی صورتحال کے لیے ’’ ہولی شٹ‘‘ کی اصطلاح ایجاد کی۔
آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو دنیا میں ایک اور پاکستان بھی ہے، یہ ازبکستان میں ہے اور یہ ہمارے پاکستان سے پہلے وجود میں آیا تھا، قراقل پاکستان ازبکستان کا رقبے کے لحاظ سے بڑا صوبہ ہے، یہ صوبہ تقریباً آزادی حاصل کر چکا ہے، یہ نیم خود مختار علاقہ ہے، یہ لوگ ازبک کرنسی استعمال کرتے ہیں، یہ ازبکستان کے الیکشنوں میں بھی شریک ہوتے ہیں لیکن یہ اس کے باوجوداپنی الگ پارلیمنٹ بھی رکھتے ہیں اور اپنا آئین بھی۔ قراقل پاکستان کی سرحدیں خوارزم صوبے کے ساتھ ملتی ہیں، خشک سمندر ارل سی اسی علاقے میں واقع ہے، قراقل معدنیات سے بھرپور مگر غیر ترقی یافتہ علاقہ ہے، ہمیں پڑھایا جاتا ہے، بانیان پاکستان نے پاکستان میں شامل صوبوں کے ابتدائی لفظ جوڑ کر لفظ پاکستان بنایا، یہ بات اگر درست ہے تو پھر ہم سے پہلے قراقل پاکستان کیوں تھا؟ کہیں ایسا تو نہیں بانیان پاکستان نے پاکستان کا لفظ قراقل پاکستان سے لیا ہو؟
آپ اگر تحقیق کرنا چاہیں تو آپ قراقلی ٹوپی پر تحقیق کرلیں، یہ ٹوپی بھی قراقل پاکستان سے ہمارے خطے میں آئی تھی اور یہ قراقل کی وجہ سے قراقلی کہلاتی ہے۔اور پھر خیوا کے قلعے کے سامنے شام اتر رہی تھی، میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا الخوارزمی کے مجسمے تک پہنچ گیا، الخوارزمی نیم ایستادہ حالت میں بیٹھا تھا اور اس کے چہرے پر فکر کی درجنوں لکیریں بکھری تھیں۔ ’’الخوارزمی کیا سوچ رہا ہے؟‘‘ میں نے اپنے آپ سے پوچھا، میرے اندر سے آواز آئی، یہ سوچ رہا ہے ’’مسلمان بھی کیا قوم ہیں، میں نے انھیں الجبرا جیسا علم دیا، پوری دنیا نے فائدہ اٹھایا، یہ چاند تک پہنچ گئی لیکن مسلمان آج بھی نقل لگائے بغیر الجبرا کے امتحان میں پاس نہیں ہوسکتے، یہ کیا قوم ہیں، یہ نکاح ہو، علم ہو یا جنگ ہر میدان میں ناکام ہو جاتے ہیں‘‘۔
(نوٹ: میرے پچھلے کالم کے چند حقائق پر احباب نے اعتراض کیا، یہ اعتراضات درست ہیں، یہ درست ہے سلطان صلاح الدین ایوبی جلال الدین مینگو باردی کی پیدائش سے پہلے انتقال کر گئے لیکن ایوبی ریاست ان کے انتقال کے بعد بھی موجود رہی، یہ لوگ ایوبی کہلاتے تھے، ایوبیوں نے سلجوقوں کے ساتھ مل کر مینگو باردی کے خلاف اتحاد بنایا اور جلال الدین کو شکست دی، سلطان صلاح الدین کے ایک صاحبزادے نے جلال الدین کے قتل کے بعد خوارزمی فوج کو اپنے لشکر میں شامل کر لیا، یہ خوارزمی فوجی یوروشلم گئے اور ایک ایوبی آقا کے حکم پر سلطان صلاح الدین کے فتح شدہ بیت المقدس کا قبضہ دوسرے ایوبی بھائی سے لے لیا، میں یہ تفصیل کالم میں نہیں لکھ سکا جس پر معذرت خواہ ہوں، میں رہنمائی کرنے والے احباب کا بھی مشکور ہوں۔)

خیوا میں
جاوید چوہدری اتوار 29 مارچ 2015

خیوا کی فضا میں بہادر مگر بد نصیب جلا الدین کی اداسی آج تک موجود تھی۔
ہم خیوا کے قلعہ کے سامنے کھڑے تھے، ’’یہ طالب گیٹ‘‘ تھا ٗ خیوا کے چاردروازوں میں سے ایک دروازہ، گیٹ کی بلندی دستار گرا رہی تھی۔ میں بالآخر خیوا کے اس قدیم شہر پہنچ گیا جس کا فسوں اڑھائی ہزار سال سے مقناطیس کی طرح سیاحوں کو کھینچ رہا ہے، خیوا تاریخ کے اوراق میں گم فقط ایک خاموش شہر نہیں یہ ایک جادوگری بھی ہے، یہ الخوارزمی کا شہر تھا،جس نے دنیا کو 810ء میں الجبرا کی سائنس دی، یہ البیرونی کا شہر بھی تھا، البیرونی خراسان کے گاؤں بیرون میں پیدا ہوا۔
یہ بیرون سے نکلا، خیوا پہنچا اور یہاں علم و فضل کے موتی بانٹنے لگا، محمود غزنوی نے 1017ء میں خیوا فتح کیا تو یہ البیرونی کو غزنی لے گیا، البیرونی غزنی سے 1017ء میں ہندوستان گیا اور اس نے ہندوستان کے بارے میں تاریخ الہندکے نام سے شاندار کتاب لکھی، یہ کتاب ہندوستان کا پہلا تعارف تھی، یہ بو علی سینا کا شہر بھی تھا، یہ جلال الدین مینگو باردی کا شہر بھی تھا، وہ بدنصیب بہادر جس نے چنگیر خان کو پہلی اور آخری بار شکست دی۔
چنگیز خان کو زندگی میں صرف ایک بار شکست ہوئی اور یہ خیوا کے آخری حکمران خوارزم شاہ جلال الدین مینگو باردی نے دی ٗ چنگیز خان نے ایک دن کہا ’’کاش کوئی شخص میرے سارے بیٹے لے لے اور مجھے جلال الدین دے دے، میں پوری دنیا فتح کر لوں گا‘‘ یہ وہ بدنصیب بہادر تھا جس کے بارے میں علامہ اقبال نے ’’دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے، بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے،، جیسا عظیم شعر لکھا اور جس کے کارنامے پر چنگیز نے پینٹنگ بنوائی اور یہ پینٹنگ آج بھی برٹش میوزیم لندن میں موجود ہے۔
جلال الدین مینگو باردی کون تھا، یہ خیوا سے اٹک، کالا باغ اور بھکر کیسے پہنچا، اس نے لاہور کیسے فتح کیا، یہ اوچ شریف کیوں پہنچا اور یہ 32 سال کی عمر میں مرنے کے باوجود پوری زندگی چنگیز خان کے دل میں کیوں رہا، یہ ساری کہانی آگے آئے گی لیکن آپ پہلے خیوا کے بارے میں سنئے۔
خیوا ازبکستان کا جنوبی شہر ہے، یہ آج سے پانچ سو سال پہلے تک دنیا کا سب سے بڑا کلچرل سینٹر سمجھا جاتا تھا ٗ یہ شاہراہ ریشم پر واقع تھا ٗ یہ شہر حضرت نوح ؑ کے صاحبزادے سائم نے آباد کیا، آج بھی قلعے میں ان کے ہاتھ کا کھودا ہوا کنواں موجود ہے، آپ اگرسینٹرل ایشیاء کا نقشہ سامنے پھیلائیں تو آپ کو جہاں ازبکستان، قزاقستان اور ترکمانستان ملتے دکھائی دیں گے آپ کو خیوا کا شہر وہاں ملے گا، یہ شہر ماضی میں خوارزم نامی ملک کا دارالحکومت تھا، یہ ریاست سکندراعظم کے خیوا پر حملے سے 980 ء سال قبل قائم ہوئی، اس میں ترکمانستان، ایران، ازبکستان اور قزاقستان کے علاقے شامل تھے۔
خیوا ’’ارل سی،، کی ہمسائیگی میں بھی واقع ہے، ارل سی 1975ء تک صاف پانی کا سمندر تھا، سینٹرل ایشیاء کے دو بڑے دریا آمو اور سریا ہزاروں سال تک ارل سی میں گرتے رہے لیکن پھر ستر کی دہائی میں سوویت یونین نے ان دونوں دریاؤں کا رخ موڑ دیا اور پھر لاکھوں میل تک پھیلا سمندر خشک ہو گیا، آج 35 برس بعد ارل سی کی جگہ ایک طویل صحرا ہے۔
آپ کو اگر زندگی میں موقع ملے تو قزاقستان، ازبکستان یا ترکمانستان کے آخر میں ’’ارل سی،، تک ضرور جائیں اور اپنی کھلی آنکھوں سے خشک سمندر اور ریت کے اس خشک سمندر میں بحری جہازوں کے ڈھانچے دیکھیں ٗ آپ کے لیے یہ ’’لائف ٹائم‘‘ تجربہ ہو گا۔ ’’خیوا‘‘ تاریخ کا اہم ترین شہر تھا، یہ شہر سکندر اعظم نے 328 قبل مسیح میں فتح کیا جب کہ عرب 712 میں خیوا پہنچے، یہ شہر قیتبہ بن مسلم نے فتح کیا، دسویں صدی میں مقامی تاجروں نے علم بغاوت بلند کیا، آزادی حاصل کی، خوارزم کی ریاست قائم ہوئی اور حکمران خوارزم شاہ کہلانے لگے، خیوا کے گرد مضبوط اور طویل فصیل بنائی گئی۔
یہ فصیل آج بھی قائم ہے، یہ شہر تجارت، علم، سائنس اور کلچر کا عظیم مرکز تھا، شہر میں 80 مدارس تھے، 27 مدارس آج بھی سلامت ہیں، شہر کے اندر کارواں سرائے بھی تھے، محلات بھی ، حمام بھی اور بازار بھی، بادشاہ شروع میں خوارزم شاہ کہلاتے تھے لیکن چنگیز خان کی آمد اور قبضے کے بعد یہ خان کہلانے لگے، یہ خان سوویت یونین کا حصہ بننے تک موجود رہے اور یہ خان ہی کہلاتے رہے، یہ شہر 1017ء میں محمود غزنوی نے بھی فتح کیا، لیکن شہر کو اصل نقصان چنگیز خان نے پہنچایا، چنگیز چین سے سینٹرل ایشیا میں داخل ہوا، یہ جب دریائے آمو کے قریب پہنچا تو خوارزم میں علاؤ الدین دوم کی حکومت تھی۔
یہ بزدل اور سست شخص تھا تاہم اس کا بیٹا جلال الدین زیرک اور بہادر تھا، جلال الدین کا لقب مینگو باردی (ہمیشہ رہنے والا) تھا، جلال الدین نے والد کو سمجھایا ہمیں چنگیز خان کو دریائے آمو پر روکنا چاہیے، منگولوں کی فوج دریا پار کر کے تھک جائے گی، ہمیں اس وقت ان پر حملہ کر دینا چاہیے، مینگو باردی کی حکمت درست تھی لیکن خوارزم شاہ نہ مانا، خوارزم شاہ کا خیال تھا ہمیں چنگیز خان کو سمر قند اور بخارہ کی فوجوں سے لڑنے کا موقع دینا چاہیے، یہ فوجیں جب منگولوں کو کمزور کر دیں گی تو پھر ہم اس پر حملہ کریں گے، یہ حکمت عملی غلط ثابت ہوئی کیونکہ منگولوں نے دریائے آمو عبور کرتے ہی تباہی مچا دی۔
چنگیز خان سمر قند آیا اور اس نے پورا شہر جلا کر رکھ کر دیا اور آگے بڑھ گیا، بخارہ کے ساتھ بھی یہی ہوا، منگول اس کے بعد خیوا کی طرف بڑھے، شہر کا محاصرا ہوا تو خوارزم شاہ علاؤالدین عوام کو چھوڑ کر بھاگ گیا اور کیسپئن سی کے ویران جزیرے میں پناہ گزین ہو گیا، وہ جلاوطنی کے عالم میں انتقال کر گیا جب کہ چنگیز خان نے خیوا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، منگولوں نے کل آبادی قتل کر دی، شہر لوٹ لیا اور گھروں کو آگ لگا دی، خوارزم شاہ کے انتقال کے بعد جلال الدین بادشاہ بن گیا، وہ خیوا کی شکست سے اس قدر شرمندہ تھا کہ اس نے خوارزم شاہ کا لقب چھوڑ دیا اور سلطان کہلانے لگا۔
مینگو باردی افغانستان پہنچا، اس نے شمالی افغانستان کے قبائلی، تاجک قبائل اور خوارزمی قبائل پر مشتمل فوج بنائی، کابل کے شمال میں’’پروان‘‘ کے علاقے میں منگولوں سے لڑائی ہوئی اور جلال الدین یہ جنگ جیت گیا، یہ چنگیزی فوج کی پہلی اور آخری شکست تھی، شکست نے چنگیز خان کو حیران کر دیا اور وہ اپنے تینوں بیٹوں کے ساتھ طویل لشکر لے کر مینگوباردی کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوا، جلال الدین اس کا مقابلہ کرنا چاہتا تھا لیکن بد قسمتی سے سفید گھوڑے کی ملکیت پر اس کے سسر اور تاجک سردار کے درمیان اختلاف ہو گیا اور تاجک فوجی رات کے اندھیرے میں اسے اکیلا چھوڑ کر چلے گئے۔
جنگ ہوئی اور جلال الدین کو ہندوستان کی طرف بھاگنا پڑ گیا، درہ خیبر پار کیا اور وہ پنجاب کی طرف روانہ ہو گیا، چنگیز خان بھی اس کے تعاقب میں ہندوستان داخل ہو گیا، جلال الدین ڈی آئی خان بھی آیا، اس نے بھکر بھی فتح کیا، وہ آخر میں ایک ایسی جگہ پہنچ گیا جہاں آج کالا باغ کا قصبہ اور اٹک شہر آباد ہیں ٗ آپ اگر موٹروے کے ذریعے اسلام آباد سے پشاور کی طرف جائیں تو آپ جب دریائے سندھ کے قریب پہنچیں گے تو آپ کو موٹروے کے دائیں جانب ایک چھوٹا سا گاؤں نظر آئے گا، یہ گاؤں ’’ہنڈ‘‘ کہلاتا ہے، ہنڈ ماضی کا اہم ترین شہر تھا، یہ بودھ مت کے دور میں پشاور ویلی کا دارالحکومت تھا۔
یہ سلطنت افغانستان سے لے کر اٹک اور اٹک سے لے کر سوات تک پھیلی تھی، ہنڈ، اٹک اور کالا باغ کے ایریا میں جہاں دریائے کابل دریائے سندھ سے ملتا ہے جلال الدین وہاں کشتیوں کا پل تیار کرا رہا تھا لیکن پل مکمل ہونے سے قبل منگول فوج وہاں پہنچ گئی، منگولوں اور مینگو باردی کی فوجوں میں لڑائی ہوئی، مینگو باردی کو شکست ہو گئی۔
چنگیز خان اسے زندہ گرفتار کرنا چاہتا تھا، منگولوں نے جلال الدین مینگو باردی کو گھیر لیا، اس وقت اس کے تین اطراف منگول سپاہی تھے اور پشت پر دریائے سندھ پوری طغیانی کے ساتھ بہہ رہا تھا، جلاالدین نے گرفتار ہونے کے بجائے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور گھوڑے سمیت دریائے سندھ میں چھلانگ لگا دی، اور وہ گھوڑے کے ساتھ تیرتا ہوا دریائے سندھ کے پار پہنچ گیا، چنگیز خان اس بہادری پر حیران رہ گیا، اس نے اس وقت کہا ’’یہ اگر میرا بیٹا ہوتا تو میں پوری دنیا فتح کر لیتا‘‘ دریائے سندھ عبور کرنے کے بعد جلال الدین کی جلاوطنی کا طویل دور شروع ہو گیا۔
وہ دہلی گیا، سلطان التمش سے ملا، اس سے منگولوں کے خلاف مدد مانگی، التمش نے اس کے خلاف اعلان جنگ کر دیا، وہ لاہور سے نکلا، اوچ شریف پہنچا، ناصر الدین قباچر کو شکست دی اور سندھ کی طرف نکل گیا، وہ فوج جمع کرتا رہا وہ ایران پہنچا، 1224ء میں منگولوں پر حملہ کیا مگر کامیاب نہ ہو سکا، وہ وہاں سے کاکشیا پہنچا، آذر بائیجان فتح کیا۔
تبریز کو دارلحکومت بنایا، جارجیا فتح کیا، تبلیسی شہر کی اینٹ سے اینٹ بجائی، ترکی پہنچا، ترکی کے سلجوقوں کے ساتھ منگولوں کے خلاف اتحاد بنانے کی کوشش کی، دال نہ گلی، سلجوقوں نے بعد ازاں ایوبی فوج کے ساتھ جلال الدین کے خلاف اتحاد قائم کر لیا، یہ دونوں مل کر جلال الدین پر حملہ آور ہوئے، وہ سلجوقوں اور ایوبیوں کے خلاف زندگی کی آخری جنگ ہار گیا اور دیار بکر کی طرف نکل گیا، راستے میں اسے کردلٹیروں نے گھیر لیا اور اسے قتل کر دیا۔ یوں دنیا کا ایک ایسا عظیم مسلمان سپاہی 32 سال کی عمر میں لیٹروں کے ہاتھوں مارا گیا جس کی بہادری نے چنگیز خان تک کو حیران کر دیا تھا۔
جلال الدین کے مرنے کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس کے خوارزمی سپاہیوں کو اپنے لشکر میں شامل کرلیا، یہ سپاہی 1243ء میں یوروشلم پہنچے اور انھوں نے 1244ء میں بیت المقدس فتح کیا، بیت المقدس 1917ء تک مسلمانوں کے قبضے میں رہا۔ میں جمعہ 27 مارچ 2015 کی دوپہر جلا الدین مینگوباردی کے خیوا شہر پہنچ گیا، میں طالب گیٹ کے سامنے کھڑا تھا اور تا حد نظر خیوا کی فصیل۔