جاوید چوہدری: زیرو پوائنٹ

آہ کراچی
جاوید چوہدری منگل 9 اکتوبر 2012
کراچی کیا تھا‘ یہ مجھے ایک سابق امریکی سفارت کار نے بتایا‘ میں2002ء میں سیر کے لیے امریکا گیا‘ میرے دوست مجھے نیویارک میں ایک بوڑھے امریکی سفارت کار کے گھر لے گئے‘ یہ صدر ایوب خان سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو تک پاکستان میں تعینات رہا اور جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد پاکستان سے لاطینی امریکا ٹرانسفر ہو گیا‘ یہ 2002ء میں ریٹائر زندگی گزار رہا تھا۔
میں اس کی اسٹڈی میں اس کے سامنے بیٹھ گیا ‘ وہ بیتے دنوں کی راکھ کریدنے لگا‘ اس نے بتایا کراچی60ء کی دہائی میں دنیا کے بہترین شہروں میں شمار ہوتا تھا‘ یہ پرامن ترین شہر تھا‘ دنیا جہاں کے سفارت کار‘ سیاح اور ہپی شہر میں کھلے پھرتے تھے‘ ہوٹلز‘ ڈسکوز اور بازار آباد تھے‘ کراچی کا ساحل دنیا کے دس شاندار ساحلوں میں تھا‘ پی آئی اے دنیا کی چار بڑی ائیر لائینز میں آتی تھی‘ یورپ‘ امریکا‘ مشرق بعید‘ عرب ممالک‘ سوویت یونین‘ جاپان اور بھارت جانے والے تمام جہاز کراچی اترتے تھے اور مسافر کراچی کے بازاروں میں ایک دو گھنٹے گزار کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوجاتے تھے‘ شہر میں ڈبل ڈیکر بسیں چلتی تھیں‘ حکومت نے انڈر گرائونڈ ٹرین کے لیے شہر میں کھدائی مکمل کروا دی تھی اور یوں کراچی ایشیا کا پہلا شہر بننے والا تھا۔
جس میں میٹرو کی سہولت ہوتی‘ کراچی کی روشنیاں رات کو دن میں بدل دیتی تھیں‘ ہم تمام سفارت کار کراچی کو روشنیوں کا شہر کہتے تھے‘ کراچی کے بیچ بھی لاجواب تھے‘ ہم گورے ہفتہ اور اتوار کا دن بیچ کی گرم ریت پر لیٹ کر گزارتے تھے‘ ہم ساحل کے ساتھ ساتھ سائیکل بھی چلاتے تھے‘ کراچی میں دنیا بھر سے بحری جہاز آتے تھے اور ان بحری جہازوں کے ذریعے ہزاروں مسافر کراچی آتے تھے‘ کراچی خطے کا جنکشن بھی تھا‘ یورپ سے لوگ ٹرین کے ذریعے استنبول آتے تھے‘ استنبول سے تہران‘ تہران سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے کراچی آتے تھے‘ کراچی میں رک کر ٹرین کے ذریعے انڈیا چلے جاتے تھے اور وہاں سے سری لنکا‘ نیپال اور بھوٹان تک پہنچ جاتے تھے۔
کراچی میں دنیا کی جدید ترین مصنوعات ملتی تھیں‘ میں نے زندگی کا پہلا ٹیپ ریکارڈر‘ پہلا رنگین ٹی وی اور پہلا ہیوی موٹر بائیک کراچی سے خریدا ‘ کراچی بڑی گاڑیوں کی بہت بڑی مارکیٹ ہوتا تھا۔ جاپان‘ یورپ اور امریکا سے مہنگی گاڑیاں کراچی آتی تھیں اور کراچی کے سیٹھ باقاعدہ بولی دے کر یہ گاڑیاں خریدتے تھے‘ کراچی کا ریلوے اسٹیشن دنیا کے بہترین اسٹیشنوں میں شمار ہوتا تھا‘ ٹرینیں جدید‘ صاف ستھری اور آرام دہ تھیں اور ٹرینوں کے اندر کھانا بھی صاف ستھرا اور معیاری ملتا تھا‘ ہم میں سے زیادہ تر سفارت کار ریٹائرمنٹ کے بعد کراچی میں قیام کے منصوبے بناتے تھے‘ ہم لوگ کراچی میں پراپرٹی خریدنے کی کوشش بھی کرتے تھے‘ شہر صاف ستھرا تھا‘ فضا بہت اچھی تھی‘ سردیوں اور گرمیوں دونوں میں درجہ حرارت معتدل رہتا تھا‘ بیورو کریسی پڑھی لکھی۔
محب وطن اور کوآپریٹو تھی اور حکومتی عہدیدار اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کلچرڈ تھے‘ میں نے ایوب خان کے ایک مشیر کے گھر اپنی زندگی کی سب سے بڑی پرائیویٹ لائبریری دیکھی تھی‘ لوگ بہت مہمان نواز تھے‘ شہر میں کسی قسم کی ٹینشن اور خوف نہیں تھا‘ کراچی کے کسی سفارتخانے کے سامنے سیکیورٹی گارڈ یا پولیس نہیں ہوتی تھی‘ ہم اپنے ہاتھ سے سفارتخانے کا گیٹ کھولتے تھے اور یہ گیٹ خود بند کرتے تھے‘ پاکستان کے لیے کسی ملک کے ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی‘ پاکستانی شہری جہاز میں سوار ہوتے تھے‘ یورپ کے ممالک میں اترتے تھے اور انھیں ائیرپورٹ پر ویزہ مل جاتا تھا‘ اس کی وجہ بہت دلچسپ تھی‘ پاکستان اس وقت دنیا کا واحد ملک تھا جس میں صرف ان لوگوں کو پاسپورٹ دیا جاتا تھا جو واقعی جینوئن مسافر ہوتے تھے‘ پاکستانی شہریوں کو پاسپورٹ کے حصول کے لیے اپنے خوش حال ہونے‘ صاحب جائیداد ہونے اور سفر کی وجوہات کے ثبوت دینا پڑتے تھے۔
چنانچہ پاکستان کے جس شہری کے پاس پاسپورٹ ہوتا تھا‘ اس کا مطلب ہوتا تھا ‘وہ صاحب حیثیت جینوئن مسافر ہے لہٰذا تمام ممالک اسے ’’ آن ارائیول‘‘ ویزہ دے دیتے تھے‘ پاکستان کا معیار تعلیم پورے خطے میں بلند تھا‘ طالب علم یورپ‘ عرب ممالک‘ افریقہ‘ مشرق بعید‘ ایران‘ افغانستان اور چین سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے پاکستان آتے تھے اور کراچی اور لاہور کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخل ہوجاتے تھے‘ امریکا اور یورپ کے پروفیسر روزگار کے لیے پاکستان کا رخ کرتے تھے‘ کراچی شہر میں ایک ہزار کے قریب غیر ملکی ڈاکٹر‘ طبیب اور پروفیسر تھے‘ پاکستان کا بینکنگ سسٹم جدید اور فول پروف تھا‘ بجلی‘ ٹیلی فون اور گیس کاانتظام بہت اچھا تھا‘ سیوریج سسٹم شاندار تھا‘ کراچی مںر بارش کے آدھ گھنٹے بعد سڑکیں خشک ہو جاتی تھیں‘ روزگار کے مواقع عام تھے‘ فیکٹریاں لگ رہی تھیں اور مال ایکسپورٹ ہو رہا تھا‘ ٹیلی ویژن نیا نیا آیا تھا چنانچہ کراچی کی چھتوں پر انٹینوں کی لمبی قطاریں دکھائی دیتی تھیں۔
ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے عہدیدار اس وقت امریکی ایمبیسی آتے تھے اور ہمیں کہتے تھے تم کسی طرح پاکستانی حکومت کو قرضہ لینے پر مجبور کرو‘ ہم وزیر خزانہ سے بات کرتے تھے تو وہ کہتا تھا ’’ہمیں ضرورت ہی نہیں‘ ہم پیسے لے کر کیا کریں گے‘‘یہاں پہنچ کر امریکی سفارت کار نے لمبی آہ بھری اور حسرت سے کہا ’’ ہم سفارت کار اس وقت ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کراچی 1980ء تک پہنچ کر دنیا کا سب سے بڑا شہر ہو گا یا لندن اور نیویارک اور ہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوتا تھا‘ ‘ اس کے بعد اس سفارت کار نے ایک اور لمبی آہ بھری اور کہا ’’ میں آج ٹی وی پر کراچی کے حالات دیکھتا ہوں یا پھر اس کے بارے میں خبریں پڑھتا ہوں تو مجھے بہت افسوس ہوتا ہے اور میں بڑی دیر تک سوچتا رہتا ہوں کیا واقعی یہ وہی شہر ہے میں جس میں پندرہ سال رہا اور میں جسے دنیا کا شاندار ترین شہر سمجھتا تھا‘‘۔
ہماری میٹنگ ختم ہو گئی لیکن دکھ کا نہ ختم ہونے والا احساس میرے ساتھ چپک گیا اور میں جب بھی کراچی کے بارے میں کوئی خبر پڑھتاتھا تو مجھے اس سفارت کار کی باتیں یاد آ جاتیں اور میں سوچتا‘ ہم نے ملک کو کیا سے کیا بنا دیا لیکن میرا یہ دکھ کل ماتم میں تبدیل ہو گا کیونکہ میں نے پڑھا کراچی دنیا کے دس خطرناک ترین شہروں میں شامل ہو چکا ہے۔ اس کا شمار اب بغداد‘ این ڈی جامینا(چاڈ)‘ عابد جان (آئیوری کوسٹ)‘ کابل‘ کنساشا (کانگو)‘ تبلیسی (جارجیا)‘ صنعا‘ نیروبی اور کونا گری (گنئی) میں ہوتا ہے‘ کراچی دنیا کے دس خطرناک ترین شہروں کی فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے‘ کراچی میں پچھلے دو برسوں میں صرف چھ سو غیر ملکی آئے ہیں اور یہ بھی سرکاری مہمان تھے اور انھیں بھاری سیکیورٹی میں ہوٹل اور اسٹیٹ گیسٹ ہائوس پہنچایا گیا ۔
کراچی دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں بھی شامل ہو چکا ہے‘ اس کے ساحل‘ فضا اور سڑکیں آلودگی کی انتہا کو چھو رہی ہیں‘ بارش کے بعد شہر میں نکلنا محال ہو جاتا ہے جب کہ شہر میں اسٹریٹ کرائم کی صورتحال یہ ہے کہ کراچی کے لوگ ہاتھ میں سستا موبائل‘ جیب میں اضافی پرس جس میں تین چار ہزار روپے ہوں اور کلائی پر سستی گھڑی پہن کر گھر سے نکلتے ہیں اور انھیں جس چوک پر ’’ سب کچھ ہمارے حوالے کر دو‘‘ کا حکم ہوتا ہے یہ چپ چاپ اپنی گھڑی‘ اپنا پرس اور اپنا موبائل حکم دینے والے کے حوالے کر دیتے ہیں لیکن یہ اس کے باوجود مارے جاتے ہیں کیونکہ لٹیرے صرف مال نہیں چھینتے بلکہ انھیں جان لینے کا مینڈیٹ بھی ہوتا ہے۔
کراچی شہر میں عام بڑی شاہراہوں تک پر سفر محال ہے‘ گاڑیاں چھیننا‘ موٹرسائیکل لے لینا اور کسی بھی راہ گیر کو اغوا کر لینا عام ہے‘ کراچی میں لاشوں کا موسم آتا ہے تو ہزار ہزار نعشیں گر جاتی ہیں اور اسپتالوں اور قبرستانوں میں نعشیں رکھنے کی گنجائش تک نہیں بچتی‘ شہر چار قسم کے مافیاز اور بھتہ گیروں میں تقسیم ہے اور ہر گروپ قانون اور حکومت سے مضبوط ہے اور حکومت کسی گروپ کے اشتہاری کو گرفتار کرنے کا رسک نہیں لے سکتی‘ 12 ربیع الاول اور محرم شہر پرخوف بن کر آتے ہیں‘ شہر کے تاجر اور صنعت کار حکومت کی بجائے مافیاز کو ٹیکس دیتے ہیں اور یہ جب تک ٹیکس دیتے رہتے ہیں یہ‘ ان کا مال‘ ان کا خاندان اور ان کی فیکٹری بچی رہتی ہے لیکن یہ جس دن اپنی مجبوری کا رونا روتے ہیں۔
یہ اس کے بعد باقی زندگی رو رو کر گزارتے ہیں چنانچہ ماضی کا شاندار ترین شہر کراچی آج ناسور بن چکا ہے اور اس ناسور سے آہستہ آہستہ خون اور پیپ ٹپک رہی ہے اور کوئی اس ناسور پر پٹی رکھنے کے لیے تیار نہیں‘ ملک کے تمام حکمران تماش بینوں کی طرح اس برباد ہوتے شہر کا نظارہ کر رہے ہیں جسے کبھی شہروں کی دلہن کہا جاتا تھا‘ مگر سوال یہ ہے کیا ہم اس شہر کو اسی طرح مرنے دیں گے اور اگر واقعی یہ شہر مر گیا تو کیا پاکستان قائم رہ سکے گا‘ یہ وہ سوال ہے جو آج کا ہر شہری پوچھ رہا ہے مگر کوئی اس کا جواب دینے کے لیے تیار نہیں کیونکہ بدنصیب ملکوں کے رہنما گونگے بہرے ہوتے ہیں اور بہروں اور گونگوں سے جواب نہیں ملا کرتے‘ یہ سوال کے جواب میں سوال پوچھتے ہیں اور سوالوں کی اس تکرار میں بدنصیبی کے اندھیرے گہرے ہو جاتے ہیں‘ کراچی کی بدنصیب فضائوں کی طرح۔
فراڈ
جاوید چوہدری ہفتہ 6 اکتوبر 2012
میرے ایک کزن کے ساتھ اسلام آباد کی مسجد میں ایک دلچسپ فراڈ ہوا‘ یہ ایف الیون کی مسجد میں جمعہ پڑھنے گیا۔
خطبہ جاری تھا اچانک پچھلی صف میں بیٹھے باریش نمازی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اسے بتایا اس کی قمیض پر گندگی لگی ہے‘ میرے کزن نے قمیض کا پچھلا دامن اٹھا کر دیکھا‘ دامن پر پرندے کی بیٹ لگی تھی‘ وہ اٹھا‘ استنجا خانہ گیا اور قمیض صاف کرنے لگا‘ بیٹ کی نشاندہی کرنے والا نمازی بھی استنجا خانے آ گیا اور قمیض صاف کرنے میں اس کی مدد کرنے لگا‘ اس دوران اس نمازی نے اسے بتایا ’’آپ کی پوری قمیض پیچھے سے بیٹوں سے بھری ہوئی ہے‘‘ میرے کزن نے قمیض اتار دی‘ اس کی قمیض پر واقعی بے شمار بیٹیں لگی تھیں۔
اس دوران جماعت کھڑی ہو گئی‘ میرا کزن اور وہ نمازی ٹینشن میں آ گئے اور وہ دونوں تیزی سے قمیض دھونے لگے‘ اس دوران ایک تیسرا نمازی بھی ان کی مدد کے لیے آ گیا‘ وہ بھی بیٹیں دھونے لگا‘ تیسرے نمازی نے میرے کزن کو بتایا آپ کی گھڑی گیلی ہو رہی ہے‘ آپ اسے اتار کر جیب میں ڈال لیں‘ میرے کزن نے فوراً گھڑی اتاری اور جیب میں ڈال لی‘ نماز کی پہلی رکعت ہو گئی‘ وہ تینوں قمیض دھوتے رہے‘ میرے کزن کے ہیلپرز نے اسی دوران بتایا آپ کی شلوار پر بھی بیٹیں لگی ہوئی ہیں‘ میرے کزن نے شلوار دیکھی‘ شلوار کی پشت پر واقعی بیٹیں تھیں‘ وہ مزید پریشان ہو گیا‘ دونوں نمازیوں نے انھیں مشورہ دیا آپ گھر چلے جائیں‘ کپڑے تبدیل کریں اور کسی دوسری مسجد میں نماز پڑھ لیں‘ آپ اس حال میں یہاں نماز نہیں پڑھ سکیں گے۔ میرے کزن نے گیلی قمیض پہنی اور گھر کی طرف دوڑ لگا دی۔
گھر پہنچ کر اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو گھڑی غائب تھی‘ وہ گھڑی بہت قیمتی تھی غالباً دس بارہ لاکھ روپے کی تھی‘ وہ بھاگ کر مسجد واپس گیا مگر وہ دونوں نمازی غائب ہو چکے تھے‘ ہم نے تحقیق کی تو پتہ چلا ملک میں یہ فراڈ عام ہے‘ یہ لوگ مختلف کیمیکل سے مصنوعی بیٹ بناتے ہیں‘ مسجد کی مختلف صفوں پر لگا دیتے ہیں اور پچھلی صف میں بیٹھ جاتے ہیں‘ نمازی جونہی اس جگہ بیٹھتا ہے اس کے کپڑے گندے ہو جاتے ہیں اور ا سکے ساتھ ہی ’’صفائی‘‘ کا کھیل شروع ہو جاتا ہے اور یوں وہ بیچارا پرس‘ انگوٹھی یا گھڑی سے محروم ہو جاتا ہے۔
آپ اب دوسرا فراڈ بھی ملاحظہ کیجیے‘ اسلام آباد میں پچھلے دنوں ایک ایم این اے اپنی قیمتی گاڑی سے محروم ہو گیا‘ ایم این اے کا جوان بیٹا والد کی ’’پراڈو‘‘ لے کر شہر میں گھوم رہا تھا‘ یہ رات کے وقت مارگلہ روڈ سے گزر رہا تھا‘ راستے میں پولیس کی گاڑی کھڑی تھی‘ پولیس نے ہاتھ دے کر گاڑی رکوائی‘ نوجوان سے گاڑی کے کاغذات مانگے‘ نوجوان نے ڈیش بورڈ سے کاغذات نکال کر دے دیے‘ پولیس نے کاغذ دیکھ کر نوجوان سے کہا ’’یہ گاڑی نان کسٹم پیڈ ہے‘ آپ کو گاڑی سمیت تھانے جانا پڑے گا‘‘ نوجوان گھبرا گیا‘ اس نے پولیس کو دھمکی اور رشوت دونوں سے رام کرنے کی کوشش کی مگر پولیس نہ مانی‘ آخر میں فیصلہ ہوا۔
پولیس گاڑی تھانے لے جائے گی‘ نوجوان گھر سے والد اور اصلی کاغذات لے آئے اور گاڑی لے جائے‘ نوجوان گاڑی سے اترا‘ پولیس کانسٹیبل گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی روانہ ہو گئی‘ گاڑی جانے کے چند منٹ بعد پولیس کی گاڑی اور دوسرے اہلکار بھی چلے گئے‘ نوجوان والد کے پاس گیا‘ والد نے پولیس کو فون کیا تو معلوم ہوا ان کی گاڑی اسلام آباد کے کسی تھانے میں موجود ہے اور نہ ہی کسی پولیس اہلکار نے وہ گاڑی روکی ہے‘ تحقیقات ہوئیں تو پتہ چلا وہ پولیس جعلی تھی اور وہ لوگ گاڑی چوری کر کے لے گئے ہیں۔ گاڑی چوری کی ایک اور واردات اس سے بھی کہںی زیادہ ڈرامائی تھی۔ ایک لڑکی اور لڑکے نے چکوال سے نئی گاڑی کرائے پر لی اور راولپنڈی کے لیے روانہ ہو گئے‘ ڈرائیور گاڑی چلانے لگا اور لڑکا اور لڑکی پچھلی سیٹ پر بیٹھے تھے‘ لڑکے اور لڑکی نے راستے میں غیر اخلاقی حرکات شروع کر دیں۔
ڈرائیور نوجوان تھا وہ کن انکھیوں سے بیک مرر سے یہ حرکات دیکھنے لگا‘ نوجوان نے اس دوران سر اٹھایا اور ڈرائیور کو بتایا ’’یہ خاتون آوارہ ہے‘ میر ا اس کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں‘ میں اس کے ساتھ گاڑی میں راولپنڈی تک جائوں گا اور وہاں سے اسی گاڑی میں واپس آ جائوں گا اور اس دوران وہ تمام ’’خدمات‘‘ حاصل کر لوں گا جس کے لیے میں نے اسے ’’ہائر‘‘ کیا ہے۔‘‘ نوجوان کا کہنا تھا ’’آج کل ہوٹل بھی مہنگے ہیں اور وہاں چھاپوں کا ڈر بھی ہوتا ہے جب کہ یہ تکنیک سستی بھی ہے اور محفوظ بھی۔‘‘ نوجوان نے ڈرائیور کو پیش کش کی ’تم بھی ’’موقع‘‘ کا فائدہ اٹھا سکتے ہو‘ تم پچھلی سیٹ پر اس کے ساتھ آ جائو اور میں گاڑی چلاتا ہوں۔
ڈرائیور یہ کھلی پیش کش سن کر بہک گیا اور وہ پچھلی سیٹ پر خاتون کے پاس آ گیا جب کہ نوجوان ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا‘ خاتون اس وقت نیم برہنہ تھی‘ ڈرائیور اس کے قریب ہوا‘ اس نے اس کے جسم پر منہ لگایا اور چند سیکنڈ میں بے ہوش ہو گیا‘ لڑکے اور لڑکی نے گاڑی روکی‘ ڈرائیور کو کھائی میں پھینکا اور گاڑی لے کر فرار ہو گئے۔ گاڑی چوری اور اغواء کی ایک اور واردات پچھلے دنوں میرے ایک جاننے والے کے ساتھ ہوئی‘ وہ دوست کی بارات میں شریک تھا‘ بارات تیار تھی‘ گاڑیاں روانگی کے لیے لائن میں کھڑی تھیں‘ باراتیوں میں سے اچانک ایک باراتی نے اس کی طرف مسکرا کر دیکھا‘ اشارہ کیا‘ گاڑی کا دروازہ کھولا اور ساتھ بیٹھ گیا‘ اس نے گاڑی میں بیٹھتے ہی ریوالور اس کے پیٹ کے ساتھ لگا دیا اور اسے قطار سے نکلنے کا حکم دے دیا‘ اس بے چارے نے گاڑی بارات سے نکال لی‘ تھوڑی دور جانے کے بعد اغواء کار کے مزید دو ساتھی گاڑی میں بیٹھ گئے‘ یہ شہر سے باہر آ گئے‘ اس کی تمام جیبیں خالی کیں‘ اس کا موبائل اور لیپ ٹاپ لیا‘ اسے ویران جگہ پر اتارا اور گاڑی لے کر فرار ہو گئے۔
ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں چار پانچ سال کے بچوں اور بچیوں کے اغواء کا سلسلہ بھی جاری ہے‘ اغواء کار اس کے لیے ایک تکنیک کثرت سے استعمال کرتے ہیں‘ اغواء کاروں کے گینگ کسی محلے میں کرائے پر مکان لے لیتے ہیں‘ یہ ایک دو ہدف طے کرتے ہیں‘ گھر والوں کی روٹین دیکھتے ہیں‘ بچہ یا بچی کی ریکی کرتے ہیں اور بچے یا بچی کو گھر کے سامنے سے (اٹھا) کر غائب ہو جاتے ہیں‘ یہ لوگ بچوں کو عموماً موٹر سائیکل پر اغواء کرتے ہیں‘ ایک اغواء کار موٹر سائیکل چلاتا ہے جب کہ دوسرا موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھ کر بچے کو اٹھاتا ہے۔
اس کی ناک پر کلوروفام میں بھیگا رومال رکھتا ہے‘ بچہ بے ہوش ہو جاتا ہے‘ وہ بچے کو کندھے سے لگاتا ہے اور یہ اسے اپنے گھر لے جاتے ہیں‘ بچے کے والد کو ملک کے دور دراز مقام سے تاوان کا فون آتا ہے‘ گھر میں کہرام برپا ہو جاتا ہے‘ اغواء کار اس دوران والدین پر نظر رکھتے ہیں‘ یہ پولیس کی آمد و رفت بھی نوٹ کرتے ہیں اور اغواء کار گینگ کی خواتین ہمدرد بن کر اس گھر میں بھی آتی جاتی رہتی ہیں اور یوں انھیں اندر کی اطلاعات ملتی رہتی ہیں‘ یہ تاوان وصول کرتے ہیں‘ بچے کو گھر کے سامنے اتارتے ہیں‘ واردات کے چند دن تک اسی گلی میں مقیم رہتے ہیں اور پھر اگلے ہدف کی طرف نقل مکانی کر جاتے ہیں‘ یہ اغواء کے دوران بچے کو بے ہوش رکھتے ہیں‘ اگر بچے کا سامنا ضروری ہو تو یہ چہرے کو ماسک سے چھپا لیتے ہیں یا پھر بچے کے سامنے ایسے شخص کو بھجواتے ہیں جسے بچے نے کبھی گلی میں نہ دیکھا ہو۔
بسوں میں دوران سفر نشہ آور بسکٹ‘ مٹھائی ‘ سافٹ ڈرنک یا چائے پلا کر لوٹنے کی وارداتیں بھی عام ہیں‘ یہ لوگ بھی گینگ کی شکل میں واردات کرتے ہیں‘ یہ بس میں عموماً اکیلے نہیں ہوتے‘ یہ ہدف کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں بیٹھ جاتے ہیں‘ ان کے ساتھی بس اور ٹرین میں خوانچہ فروش بن کر بھی گھومتے ہیں‘ آپ کے ساتھ بیٹھا مسافر آپ کے سامنے بسکٹ یا ٹافی خریدتا ہے‘ ایک خود کھاتا ہے اور دوسری آپ کو پیش کر دیتا ہے‘ آپ اسے منہ میں رکھتے ہیں اور آپ کا جسم دو سیکنڈ میں مفلوج ہو جاتا ہے اور یہ لوگ آپ کو قیمتی اشیاء سے محروم کر دیتے ہیں‘ اس نوعیت کی وارداتوں میں اکثر مسافر جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ملک میں سونے کا جھانسہ دے کر لوٹنے والے بھی عام پھر رہے ہیں‘ یہ مزدوروں کے بھیس میں لوگوں سے ملتے ہیں اور ان کو بتاتے ہیں ہمیں فلاں جگہ کھدائی کے دوران سونے سے بھری دیگ ملی ہے‘ ہم مزدور ہیں ہم سے کوئی شخص سونا نہیں خریدے گا‘ آپ ہم سے آدھی قیمت میں سونا لے لیں‘ یہ نمونے کے طور پر سونے کا اصلی سکہ بھی پیش کر دیتے ہیں اور یوں ہدف لالچ میں آ جاتا ہے اور لاکھوں روپے سے محروم ہو جاتا ہے۔
یہ وارداتیں عام ہیں چنانچہ آپ احتیاط سے کام لیں‘ آپ کی قمیض یا شلوار پر گندگی لگ جائے تو آپ نشاندہی کرنے والے پر اعتبار نہ کریں‘ اپنی گاڑی پولیس والوں کے حوالے بھی نہ کریں‘ پولیس گاڑی رکوائے تو کبھی گاڑی کا پورا شیشہ نہ کھولیں‘ ہو سکتا ہے وہ پولیس جعلی ہو‘ آپ کسی بھی غیر معمولی صورت حال میں اپنے قریبی ترین عزیز کو فون کر دیں تا کہ وہ آپ کی مدد کے لیے پہنچ جائے‘ باراتوں اور جلسوں ‘ جلوسوں کے دوران کسی اجنبی کو گاڑی میں نہ بٹھائیں‘ آپ چھوٹے بچوں کو کبھی گیٹ تک اکیلا نہ جانے دیں‘ آپ اپنے ہمسایوں کے ساتھ مل کر دن اور رات کے لیے مسلح گارڈ کا بندوبست کر لیں آپ بے شمار مصیبتوں سے بچ جائیں گے اور آپ سفر کے دوران ہمیشہ میزبان بنیں‘ کبھی مہمان بننے کی غلطی نہ کریں کیونکہ ایک بسکٹ کی مہمانی آپ کی جان بھی لے سکتی ہے اور آپ کے بھائی تک کے پاس بھی سونے کی دیگ ہو تو آپ اس سے بھی ڈر جائیں کیونکہ یہ سونا آپ کو سونے تک کے قابل نہیں چھوڑے گا۔

ساڑھے تین سو سال بعد
جاوید چوہدری جمعـء 5 اکتوبر 2012
فرانسیس برنیئر پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھا‘ یہ فرانس کا رہنے والا تھا اور یہ 1658ء میں ہندوستان آیا اور 1670ء تک بارہ سال ہندوستان میں رہا۔
یہ شاہ جہاں کے دور کے آخری دن تھے‘ برنیئر طبی ماہر تھا چنانچہ یہ مختلف امراء سے ہوتا ہوا شاہی خاندان تک پہنچ گیا ‘ اسے مغل دربار‘ شاہی خاندان‘ حرم سرا اور مغل شہزادوں اور شہزادیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا‘ برنیئر نے شاہ جہاں کو اپنی نظروں کے سامنے بے اختیار ہوتے اور اپنے صاحبزادے اورنگ زیب عالمگیر کے ہاتھوں قید ہوتے دیکھا‘ اس نے اورنگ زیب عالمگیر کی اپنے تینوں بھائیوں دارالشکوہ‘ سلطان شجاع اور مراد بخش سے جنگیں بھی دیکھیں اور بادشاہ کے ہاتھوں بھائیوں اور ان کے خاندانوں کو قتل ہوتے بھی دیکھا۔
اس نے دارالشکوہ کوگرفتار ہو کر آگرہ آتے اور بھائی کے سامنے پیش ہوتے بھی دیکھا اور اسے اورنگ زیب عالمگیر کے ساتھ لاہور‘ بھمبر اور کشمیر کی سیاحت کا موقع بھی ملا‘ فرانسیس برنیئر نے واپس جا کر ہندوستان کے بارے میں سفر نامہ تحریر کیا‘ یہ سفر نامہ 1671ء میں پیرس میں شائع ہوا‘ یہ بعد ازاں انگریزی زبان میں ترجمہ ہوا‘ برطانیہ میں چھپا اور اس کے بعد آئوٹ آف پرنٹ ہو گیا‘ مجھے چند دن قبل فرانسیس برنیئر کا یہ سفر نامہ پڑھنے کا موقع ملا‘ میں یہ کتاب پڑھ کر ورطہ حیرت میں چلا گیا کیونکہ فرانسیس برنیئر نے1660ء میں جو ہندوستان (اب پاکستان) دیکھا تھا وہ آج تک اسی اسپرٹ اور اسی کلچر کے ساتھ قائم ہے‘ ہم نے ساڑھے تین سو برسوں میں کچھ نہیں سیکھا۔
فرانسیس برنیئر نے ہندوستان کے بارے میں جگہ جگہ حیرت کا اظہار کیا‘ اس کا کہنا تھا‘ ہندوستان میں درمیانہ طبقہ (مڈل کلاس) سرے سے موجود نہیں‘ ملک میں امراء ہیں یا پھر انتہائی غریب لوگ‘ امراء محلوں میں رہتے ہیں‘ ان کے گھروں میں باغ بھی ہیں‘ فوارے بھی‘ سواریاں بھی اور درجن درجن نوکر چاکر بھی جب کہ غریب جھونپڑیوں میں رہتے ہیں اور ان کے پاس ایک وقت کا کھانا تک نہیں ہوتا‘ وہ کہتا ہے‘ ہندوستان میں خوشامد کا دور دورہ ہے‘ بادشاہ سلامت‘ وزراء‘ گورنرز اور سرکاری اہل کار دو دو گھنٹے خوشامد کراتے ہیں‘ دربار میں روزانہ سلام کا سلسلہ چلتا ہے اور گھنٹوں جاری رہتا ہے۔
لوگوں کو خوشامد کی اس قدر عادت پڑ چکی ہے کہ یہ میرے پاس علاج کے لیے آتے ہیں تو مجھے سقراط دوراں‘ بقراط اور ارسطو زمان اور آج کا بو علی سینا قرار دیتے ہیں اور اس کے بعد نبض کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہیں‘ بادشاہ سلامت دربار میں جب بھی منہ کھولتے ہیں تو درباری کرامات کرامات کا ورد شروع کر دیتے ہیں‘ لوگ جیبوں میں عرضیاں لے کر گھومتے ہیں اور انھیں جہاں کوئی صاحب حیثیت شخص دکھائی دیتا ہے یہ اپنی عرضی اس کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور وہ جب تک اس عرضی پر حکم جاری نہیں کرتا سائل وہاں سے ٹلنے کا نام نہیں لیتا‘ بازار بے ترتیب اور گندے ہیں۔
آپ کو ایک دکان سے پشمینہ‘ کمخواب‘ ریشم اور زری کا کپڑا ملے گا اور ساتھ کی دکان پر تیل‘ گھی‘ آٹا اور شکر بک رہی ہو گی‘ آپ کو کتابوں اور جوتوں کی دکانیں بھی ساتھ ساتھ ملیں گی‘ ہر دکان کا اپنا نرخ ہوتا ہے اور بھائو تائو کے دوران اکثر اوقات گاہک اور دکاندار ایک دوسرے سے الجھ پڑتے ہیں‘ شہروں میں حلوائیوں کی دکانوں کی بہتات ہے مگر آپ کو دکانوں پر گندگی‘ مکھیاں‘ مچھر‘ بلیاں اور کتے دکھائی دیتے ہیں‘ آپ کو ہندوستان بھر میں اچھا گوشت نہیں ملتا‘ قصائی بیمار اور قریب المرگ جانور ذبح کر دیتے ہیں۔
یہ لوگوں کو گدھے اور کتے کا گوشت بھی کھلا دیتے ہیں‘ ہوٹلوں کا کھانا انتہائی ناقص اور مضر صحت ہوتا ہے لہٰذا لوگ ریستورانوں کی بجائے گھر پر کھانا کھاناپسند کرتے ہیں‘ پھل بہت مہنگے ہیں‘ ہندوستان میں خربوزہ بہت پیدا ہوتا ہے لیکن دس خربوزوں میں سے ایک مٹھا نکلتا ہے‘ سردہ بہت مہنگا ہے‘ میں پونے چار روپے کا سردہ خریدتا ہوں‘ ملک میں شراب پر پابندی ہے لیکن چھپ کر سب پیتے ہیں‘ شراب شیراز سے اسمگل ہو کر آتی ہے اور شہروں میں عام ملتی ہے تاہم حکومت نے عیسائیوں کو شراب پینے کی اجازت دے رکھی ہے مگر یہ اکثر اوقات اپنی شراب مسلمانوں کو بیچ دیتے ہیں‘ ملک بھر میں جوتشیوں کی بھرمار ہے۔
یہ دریاں بچھا کر راستوں میں بیٹھ جاتے ہیں اور لوگ ان کے گرد گھیرا ڈال لیتے ہیں‘ ملک میں پینے کا صاف پانی نہیں ملتا چنانچہ امراء اونٹ پر پانی لاد کر سفر کے لیے نکلتے ہیں‘ ہندوستان کی مٹی ذرخیز ہے لیکن زراعت کے طریقے قدیم اور فرسودہ ہیں چنانچہ کسان پوری پیداوار حاصل نہیں کر پاتے‘ ہندوستان کی زیادہ تر زمینیں بنجر پڑی ہیں‘ لوگ نہروں اور نالیوں کی مرمت نہیں کرتے‘ چھوٹے کسان یہ سمجھتے ہیں اس سے جاگیرداروں کو فائدہ ہو گا اور جاگیردار سوچتے ہیں بھل صفائی پر پیسے ہمارے لگیں گے مگر فائدہ چھوٹے کسان اٹھائیں گے لہٰذا یوں پانی ضایع ہو جاتا ہے‘ لاہور کے مضافات میں ہر سال سیلاب آتا ہے اور سیکڑوں لوگوں کی ہزاروں املاک بہا لے جاتا ہے لیکن لوگ سیلابوں کی روک تھام کا کوئی بندوبست نہیں کرتے چنانچہ اگلے سال دوبارہ تباہی دیکھتے ہیں۔
فرانسیس برنیئر نے ہندوستان کے لوگوں کے بارے میں لکھا یہ کاریگر ہیں لیکن کاریگری کو صنعت کا درجہ نہیں دے پاتے لہٰذا فن کار ہونے کے باوجود بھوکے مرتے ہیں‘ یہ فنکاری کو کارخانے کی شکل دے لیں تو خوشحال ہو جائیں اور دوسرے لوگوں کی مالی ضروریات بھی پوری ہو جائیں‘ ہندوستان کے لوگ روپے کو کاروبار میں نہیں لگاتے‘ یہ رقم چھپا کر رکھتے ہیں‘ عوام زیورات کے خبط میں مبتلا ہیں‘ لوگ بھوکے مر جائیں گے لیکن اپنی عورتوں کو زیورات ضرور پہنائیں گے‘ ملک کا نصاب تعلیم انتہائی ناقص ہے‘ یہ بچوں کو صرف زبان سکھاتا ہے ان کی اہلیت میں اضافہ نہیں کرتا‘ خود اورنگزیب نے میرے سامنے اعتراف کیا ’’میں نے اپنے بچپن کا زیادہ تر وقت عربی زبان سیکھنے میں ضایع کر دیا‘‘ یہ لوگ فاقوں کو بیماریوں کا علاج سمجھتے ہیں چنانچہ بخار میں فاقے شروع کر دیتے ہیں۔
ملک میں رشوت عام ہے‘ آپ کو دستاویزات پر سرکاری مہر لگوانے کے لیے حکام کو رشوت دینا پڑتی ہے‘ صوبے داروں کے پاس وسیع اختیارات ہیں‘ یہ بیک وقت صوبے دار بھی ہوتے ہیں‘ خزانچی بھی‘ وکیل بھی‘ جج بھی‘پارلیمنٹ بھی اور جیلر بھی‘ سرکاری اہلکار دونوں ہاتھوں سے دولت لٹاتے ہیں‘ بادشاہ نے اپنے لیے 3 کروڑ 184 روپے کا (1660ء میں) تخت بنوایا‘ سرکاری عہدیدار پروٹوکول کے ساتھ گھروں سے نکلتے ہیں‘ یہ ہاتھیوں پر سوار ہو کر باہر آتے ہیں‘ ان کے آگے سپاہی چلتے ہیں‘ ان سے آگے ماشکی راستے میں چھڑکائو کرتے ہیں‘ ملازموں کا پورا دستہ مور جھل اٹھا کر رئیس اعظم کو ہوا دیتا ہے اور ایک دو ملازم اگل دان اٹھا کر صاحب کے ساتھ چلتے ہیں‘ یہ لوگ گھر بہت فضول بناتے ہیں۔
ان کے گھر گرمیوں میں گرمی اور حبس سے دوزخ بن جاتے ہیں اور سردیوں میں سردی سے برف کے غار‘ بادشاہ اور امراء سیر کے لیے نکلتے ہیں تو چھ چھ ہزار مزدور ان کا سامان اٹھاتے ہیں‘ ہندوستان کا اشرافیہ طوائفوں کا بہت دلدادہ ہے‘ ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں طوائفوں کے کوٹھے ہیں اور امراء اپنی دولت کا بڑا حصہ ان پر نچھاور کر دیتے ہیں‘ طوائفیں شاہی خاندان کی تقریبات میں بھی بلوائی جاتی ہیں اور دربار سے وابستہ تمام لوگ ان کا رقص دیکھتے ہیں‘ وزراء صبح اور شام دو مرتبہ بادشاہ کے سامنے حاضر ہوتے ہیں‘ بادشاہ کے حضور حاضری نہ دینے والے وزراء عہدے سے فارغ کر دیئے جاتے ہیں‘ ہندوستان میں گرد‘ غبار‘ گندگی‘ بو اور بے ترتیبی انتہا کو چھو رہی ہے اور جرائم عام ہیں‘ مجرم اول تو پکڑے نہیں جاتے اور اگر پکڑ لیے جائیں تو یہ سفارش یا رشوت کے ذریعے چھوٹ جاتے ہیں۔
یہ فرانسیس برنیئر کے سفرنامے کے چند حقائق تھے‘ آپ انھیں دیکھئے اور آج کے پاکستان پر نظر دوڑائیے آپ کو یہ جان کر اطمینان ہو جائے گا ہم نے الحمدللہ ساڑھے تین سو سال میں کچھ نہیں سیکھا‘ ہمارے کلچر‘ ہماری روایات اور ہمارے سماجی ڈھانچے میں 1660ء سے 2012ء تک کوئی تبدیلی نہیں آئی‘ ہم لوگ جس طرح شاہ جہاں اور اورنگزیب عالمگیر کے دور میں زندگی گزار رہے تھے ہم الحمدللہ آج بھی ویسے ہی ہیں‘ ہمارے ملک میں آج بھی گدھوں کا گوشت فروخت ہوتا ہے‘ ہمارے حکام آج بھی رشوت‘ خوشامد اور سفارش پر چل رہے ہیں۔
ہمارے لیڈر آج بھی ’’ سب کچھ ہیں‘‘ ہم آج بھی پروٹوکول کے سائرن سنتے ہیں‘ ہمارے ایوانوں میں آج بھی وسیع پیمانے پر فضول خرچی ہو رہی ہے‘ ہم آج بھی سیلابوں میں ڈوبتے اور مرتے ہیں‘ ہم آج بھی فاقے کو علاج سمجھتے ہںا‘ ہمارے حلوائیوں کی دکانوں پر آج بھی مکھیوں کا اقتدار قائم ہے اور ہمارے بازار آج بھی بے ترتیب اور نصاب تعلیم انتہائی ناقص ہے اور خوشامد آج بھی پرفارمنس سے زیادہ حیثیت رکھتی ہے‘ ہم نے الحمدللہ ساڑھے تین سو سال میں کچھ نہیں سیکھا اور ہم جس رفتار سے چل رہے ہیں ہم یقیناً اگلے ساڑھے تین سو سال میں بھی کچھ نہیں سیکھیں گے کیونکہ ملک میں آج بھی ایسے شاہ جہانوں کی حکومت ہے جو جاتی عمرہ کو محل بنا دیتے ہیں۔
لیکن رائے ونڈ میں بھینسیں کھلی پھرتی ہیں اور لوگ فیکٹریوں کا آلودہ پانی پیتے ہیں‘ یہ بلاول ہائوس‘ بے نظیر ہائوس اور زرداری ہائوس کو جدید ترین کاٹیج بنا لیتے ہیں لیکن کراچی‘ لاڑکانہ اور نواب شاہ کو بھلا دیتے ہیں‘ ان کے محلوں میں جشن چلتے ہیں لیکن شہر میںکئی لوگ مر جاتے ہیں اور کوئی حاکم منہ سے اف تک نہیں کرتا اورجب حکمران ایسے ہوں تو برا وقت قوموں کے نصیب میں آ کر ٹھہر جاتا ہے‘ یہ ساڑھے تین سو سال بعد بھی مرداروں کا گوشت کھاتی ہیں اور میاں صاحبان اور زرداری صاحبان کی خوشامد کرتی ہیں‘ اس کا کل اور آج برابر ہوتا ہے۔

ازبکستان (مجموعی طور پر)
جاوید چوہدری جمعرات 4 اکتوبر 2012
ازبکستان کے لوگ معاشی لحاظ سے غریب ہیں‘ کرنسی کی ویلیو بہت کم ہے۔
سرکاری بینک ایک ڈالر کے ایک ہزار نو سو چالیس سم دیتے ہیں جب کہ اوپن مارکیٹ میں ایک ڈالر کے دو ہزار سات سو سم ملتے ہیں‘ آپ سو ڈالر تبدیل کرائیں تو آپ کو دو لاکھ ستر ہزار سم مل جاتے ہیں‘ دنیا بھر میںلوگ کرنسی پرس میں رکھتے ہیں لیکن ازبکستان میں رقم شاپنگ بزگں اور تھیلوں میں ڈالی جاتی ہے‘ آپ پانی کی عام بوتل یا سافٹ ڈرنک کاٹین خریدیں آپ کو تین چار ہزار سم ادا کرنا پڑتے ہیں‘ پڑھے لکھے نوجوان لڑکوںلڑکیوں کی تنخواہیں ڈیڑھ سے دو سو ڈالر ہیں‘ یہ پندرہ سے اٹھارہ ہزار روپے بنتے ہیں لیکن ازبکستان کے لوگ اس کے باوجود مطمئن ہیں‘ ان کے چہروں پر آسودگی‘ اطمینان اور سکون ہے‘ آپ کو گلیوں میں بھکاری دکھائی نہیں دیتے‘ لوگ کسی کو دھوکا نہیں دیتے‘ ریستورانوں میں ٹپ کا رواج نہیں۔
ہم نے دو تین بار ویٹروں کو ٹپ دینے کی کوشش کی لیکن انھوں نے رقم لوٹا دی‘ ہوٹل سستے‘ ریستوران مناسب اور ٹیکسیاں عام ہیں‘ عام شہری سیاحوں کو دیکھ کر گاڑی روک لیتے ہیں اور یہ سیاحوں کو پانچ سے دس ہزار سم میں منزل پر پہنچا دیتے ہیں‘ عورتیں کام کرتی ہیں‘ ہم نے خوانچہ فروشی سے لے کر آفس تک خواتین کو کام کرتے دیکھا‘ ازبکستان میں انگریزی جاننے والے لوگ بہت کم ہیں لیکن اس کے باوجود کسی کو احساس کمتری نہیں‘ ہم ازبکستان میں غربت کے باوجود اطمینان دیکھ کر حیران رہ گئے۔
ریسرچ کی تو چار وجوہات سامنے آئیں‘ پہلی وجہ لاء اینڈ آرڈر تھی‘ ازبکستان میں ریاست کی گرفت بہت مضبوط ہے‘ حکومت قانون کی خلاف ورزی پر کسی کو رعایت نہیں دیتی‘ آپ نے قانون توڑا نہیں اور آپ جیل یا جلاوطنی کاشکار ہوئے نہیں‘ آپ ازبکستان میں مذہبی اختلاف اور سماجی تفاوت پر بات نہیں کر سکتے‘ عدالتیں مذہبی اختلافات کو ہوا دینے اور معاشرے کا امن خراب کرنے والوں کے معاملے میں ریاستی اداروں کو سپورٹ دیتی ہیں‘ یہ شدت پسندی پھیلانے والوں کو رعایت نہیں دیتیں‘ پورا ملک اسلحے سے پاک ہے۔
آپ کو پولیس کے ہاتھ میں بھی رائفل دکھائی نہیں دیتی‘ پولیس بھی رائفل غلاف میں لپیٹ کر باہر لاتی ہے‘ ازبکستان میں اگر کسی کے پاس اسلحہ برآمد ہو جائے تو وہ عبرت ناک انجام کا شکار ہو جاتا ہے‘ ملک میں قانون سب کے لیے برابر ہے اور کوئی اس سے بالاتر نہیں اور ملک میں ایسے مافیاز اور کارٹلز کا نام و نشان نہیں جو نظریہ ضرورت‘ سیاسی افہام و تفہیم اور جمہوری اتحاد کو بنیاد بنا کر قانون کی ناک موڑ لیں چنانچہ لوگ بے خوف اور بے خطر ہیں‘ ہم تاشقند کے قدیم محلے میں گئے‘ ہم نے وہاں دو دروازوں پر دستک دی۔
لوگوں نے نہ صرف ہمارے لیے دروازے کھولے بلکہ ہمیں گھر کے اندر بھی لے گئے اور اس وقت گھروں میں خواتین اور بچوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا‘ یہ اطمینان اور بے خوفی معاشرے میں قانون اور انصاف کی بالادستی کی دلیل ہے۔ دوسری وجہ روز مرہ کی اشیاء کی فراوانی اور سستا پن ہے‘ ازبکستان فروٹ پیدا کرنے والے دنیا کے چند بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے‘ اس کی چیری‘ خربوزہ‘ گرما‘ تربوز‘ آڑو‘ خوبانی اور سیب کا کوئی جواب نہیں۔
اناج‘ دالیں‘ سبزیاں اور گوشت بھی اضافی اور سستا ہے‘ ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں فروٹ‘ ڈرائی فروٹ‘ اناج اور گوشت کی بڑی بڑی مارکیٹیں ہیں اور ان مارکیٹوں میں اشیاء خورونوش پاکستان کے مقابلے میں تین سے چار گنا سستی دستیاب ہیں‘ ریستوران بھی سستے ہیں‘ ازبکستان کے فائیو اسٹار ریستوران میں تین چار لوگ پچاس سے ستر ڈالر میں کھانا کھا سکتے ہیں اور یہ کھانا تین چار کورس میں ہوتا ہے۔
تین‘ ازبک معاشرے میں توازن ہے‘ وہاں مذہبی طبقہ ڈنڈا لے کر پھر رہا ہے اور نہ ہی لبرل فاشسٹ معاشرے کو مادر پدر آزاد بنانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ مسجد اور ڈسکو دونوں موجود ہیں اور دونوں ایک دوسرے کو ڈسٹرب نہیں کرتے‘ مسجدیں بھی بھری ہوتی ہیں اور ڈسکو میں بھی جگہ نہیں ملتی‘ حکومت نے معاشرے کو مذہبی فسادات سے بچانے کے لیے خصوصی بندوبست کر رکھے ہیں‘ آپ مسجد میں نماز پڑھ سکتے ہیں یا پھر گھر میں‘ دفاتر اور کھلی جگہوں میں نماز کی ممانعت ہے‘ ازبکستان میں تبلیغ اور داڑھی پر بھی پابندی ہے‘ ملک کے زیادہ تر امام مسجد کلین شوں ہیں لیکن حکومت اب یہ پالیسی نرم کر رہی ہے‘ حکومت نے بخارا میں ایک مدرسہ قائم کر دیا ہے۔
اس میں سو طالب علم زیر تعلیم ہیں‘ یہ طالب علم تعلیم مکمل کرنے کے بعد مساجد سنبھالںت گے اور انھیں داڑھی رکھنے کی اجازت بھی ہو گی اور چوتھی وجہ‘ ازبکستان کے لوگ قناعت پسند ہیں‘ یہ بنیادی ضرورتوں تک محدود رہتے ہیں‘یہ دن کو کام کرتے ہیں اور شام کا وقت خاندان کے ساتھ گزارتے ہیں‘ ازبکستان میں چائے خانوں میں بیٹھنے کا رواج عام ہے‘ ہر محلے میں ایک سرکاری چائے خانہ ہے جس میں محلے کے بوڑھے جمع ہو جاتے ہیں اور سارا دن تاش اور شطرنج کھیل کر گزار دیتے ہیں‘ ازبک لوگوں نے خود کو لالچ اور نفسا نفسی سے بچا رکھا ہے‘ یہ بے مہار معاشی دوڑ کا شکار نہیں چنانچہ ازبک معاشرے میں اطمینان بھی ہے اور سکون بھی جب کہ ان کے مقابلے میں آپ پاکستانی معاشرے کو دیکھیں آپ کو ہر چہرے پر ٹینشن اور ڈپریشن نظر آئے گا۔
آپ کسی غریب کے پاس بیٹھ جائیں یا ارب پتی کے پاس وہ آپ کو شکوہ کرتا اور روتا دھوتا دکھائی دے گا‘ ہمارے ملک میں کوئی طبقہ ‘ کوئی کلاس خوش نہیں‘ ازبکستان کی مثال ثابت کرتی ہے اگر معاشرے میں لاء اینڈ آرڈر ہو‘ کھانے پینے کی اشیاء معیاری اور سستی ہوں‘ معاشرے میں توازن اور برداشت ہو اور لوگ حرص اور لالچ سے پاک ہوں تو ملک میں اطمینان بھی آ سکتا ہے اور سکون بھی اور اس کے لیے رقم چاہیے اور نہ ہی کوئی اکیسویں‘ بائیسویں ترمیم‘ آپ بس سرکاری مشنری کو ایکٹو کر دیں‘ میرٹ کا خیال رکھیں‘ لوگوں کی تربیت کریں اور ملک جنت بن جائے گا۔
مجھے ازبکستان کی دو روایات نے زیادہ متاثر کیا‘ پہلی روایت ان کی شادی بیاہ کا سسٹم ہے‘ یہ ہماری طرح جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے ہیں‘ بڑوں کا احترام کیا جاتا ہے‘ گھر کے بڑے مرد جب تک پلیٹوں میں کھانانہ ڈال لیں خواتین اس وقت تک کھانے کو ہاتھ نہیں لگاتیں‘ ہماری طرح ان کی شادی کی رسمیں بھی کئی دنوں تک چلتی ہیں لیکن ان کی ایک روایت ہم سے مختلف بھی ہے اور دلچسپ بھی‘ نکاح کے دن دلہے کے کنوارے دوست اپنی اپنی گاڑیاں لے کر دلہن کے گھر آتے ہیں۔
ان گاڑیوں میں کنوارے دوست کے علاوہ کوئی نہیں ہوتا‘ یہ لوگ دلہن کو لے کر شادی ہال کی طرف نکلتے ہیں تو دولہے کے دوستوں کی گاڑیوں میں دلہن کی کنواری سہیلیاں بیٹھ جاتی ہیں اور یوں دلہن کے گھر سے لے کر شادی ہال تک نئے رشتوں کی بنیاد پڑ جاتی ہے‘ رشتہ گھر کے بڑے طے کرتے ہیں لیکن لڑکی اور لڑکے کی رضامندی کو سو فیصد اہمیت دی جاتی ہے‘ ازبکستان کی دوسری روایت کا تعلق سیاحوں سے ہے‘ ازبکستان میں سیاح صرف ہوٹل میں رہ سکتے ہیں‘ یہ کسی کے گھر اقامت اختیار نہیں کر سکتے اور اگر کریں تو صاحب خانہ اس کی اطلاع پولیس اسٹیشن میں دینے کا پابند ہوتا ہے۔
ہوٹل کی انتظامیہ ہوٹل چھوڑنے پر سیاح کو رجسٹریشن سلپ دیتی ہے‘ سیاح کے پاس جب تک یہ سلپ نہ ہو اسے کوئی دوسرا ہوٹل کمرہ نہیں دیتا‘ سیاح ملک سے واپس جاتے ہوئے تمام رجسٹریشن سلپس ائیرپورٹ پر امیگریشن حکام کے حوالے کرتے ہیں‘ اگر ان کے پاس سلپس نہ ہوں تو یہ ازبکستان سے نکل نہیں سکتے‘ ازبک حکومت اس بندوبست کی وجہ سے ملک میں داخل ہونے والے تمام غیر ملکیوں کی حرکات و سکنات سے آگاہ ہوتی ہے چنانچہ یہ لوگ ریمنڈ ڈیوس جیسے جاسوسوں سے بچے ہوئے ہیں۔
ازبکستان میں ہر چیز سرکاری کنٹرول میں ہے‘ آپ حکومت کی اجازت کے بغیر جلسہ کر سکتے ہیں‘ جلوس نکال سکتے ہیں اور نہ ہی تقریر کر سکتے ہیں‘ اس کنٹرول کی وجہ سے پاکستان میں جس دن ناموس رسالتؐ پر ریلیاں ہو رہی تھیں اور ہمارے 31 لوگ شہید ہو رہے تھے اور عوام گاڑیاں‘ بینک‘ موٹر سائیکلز اور سماد گھروں کو آگ لگا رہے تھے‘ ازبکستان میں اس دن امن تھا اور لوگوں کو ٹیری جونز اور سام باسیل کا نام تک معلوم نہیں تھا‘ اس دن ازبکستان کے موبائل بھی چل رہے تھے اور یوٹیوب بھی جب کہ ہم نے اس دن اپنے ہی ملک میں تباہی پھیلا دی ۔
پاکستان اور ازبکستان کے درمیان صدیوں کا رشتہ ہے‘ ہماری زبان کے تیس فیصد الفاظ ازبک ہیں‘ ہمارے کھانوں‘ لباس اور فیملی سسٹم میں ازبکستان کی خوشبو موجود ہے‘ ازبکستان جغرافیائی لحاظ سے بھی پاکستان کے قریب ہے‘ ہم لاہور سے صرف اڑھائی گھنٹے میں تاشقند پہنچ جاتے ہیں‘ اکتوبر کے آخر میں اسلام آباد سے بھی فلائیٹس شروع ہو جائیں گی یوں فاصلہ مزید کم ہو جائے گا‘ ازبکستان قدرتی وسائل سے مالامال ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ سفارتی تنہائی کا شکار بھی ہے‘ یہ روس سے خوش نہیں‘ تاجکستان کے ساتھ اس کے آبی اختلافات ہیں‘ افغانستان کے طالبان بھی اسے تنگ کرتے رہتے ہیں۔
ازبک معاشرے میں امریکا کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے اور بھارت بھی اس کا اعتماد کھو چکا ہے‘ ازبکستان نے بھارت کے لیے سیاحتی ویزے تک بند کر دیے ہیں‘ ازبکستان ’’ لینڈ لاکڈ کنٹری‘‘ بھی ہے‘ اس کے پاس سمندر نہیں چنانچہ ہم اس صورتحال میں ازبکستان کے دوست بن سکتے ہں ‘ ازبکستان کو سمندر تک رسائی چاہیے‘ ہم اگر تھوڑا سا حوصلہ کریں‘ افغانستان اور ازبکستان کو میز پر بٹھائیں اور ترمز سے مزار شریف اور مزار شریف سے گوادر تک سڑک کھول دیں توازبکستان‘ افغانستان اور پاکستان تینوں خوشحال ہو سکتے ہیں۔
ہم ازبکستان کو گوادر تک رسائی دے کر اس سے گیس‘ بجلی اور اناج لے سکتے ہیں‘ ازبکستان کی عمر بمشکل 21 سال ہوئی ہے‘ اسے ترقیاتی کاموں کے لیے بیرونی ہاتھ چاہیے‘ ہم ازبکستان سے اپنے سفارتی رشتے مضبوط کر لیں تو ہمارے ہنر مند اور کمپنیاں ازبکستان میں بہت کام کر سکتی ہیں‘ ازبکستان ترکی کے بعد دنیا کا دوسرا ملک ہے جس کے عوام پاکستانیوں کا احترام کرتے ہیں‘ یہ ہمیں حاجی سمجھ کر ہمارے ہاتھ چومتے ہیں‘ ہم اس عقیدت‘ اس محبت کو سفارتی تعلق میں تبدیل کر سکتے ہیں‘ ہمارے سامنے تعلقات کا پورا سمندر کھلا ہے‘ ہم اگر اس میں غوطہ نہیں لگاتے تو ہم سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں ہو گا‘ قدرت بے وقوف انسانوں کو تو معاف کردیتی ہے لیکن یہ بے وقوف قوموں کو کبھی معاف نہیں کرتی اور ہم ازبکستان کو دوست نہ بنا کر بے وقوفی کریں گے۔

امام بخاری سمرقند میں
جاوید چوہدری پير 1 اکتوبر 2012
سمرقند کی تین بڑی نشانیاں ہیں‘ ریگستان اسکوائر‘ بی بی خانم مسجد اور حضرت امام بخاریؒ کا روضہ مبارک‘ ریگستان اسکوائر تین عظیم عمارتوں کا کمپلیکس ہے‘ اس میں ایک طرف الغ بیگ کا مدرسہ ہے۔
یہ مدرسہ امیر تیمور کے پوتے الغ بیگ نے 1417ء میں بنوایا‘ یہ سمرقند کی پہلی سائنس یونیورسٹی تھی‘ مدرسے میں پچاس حجرے تھے‘ ہر حجرے میں دو طالب علم رہتے تھے‘ یہ مدرسہ دن کو یونیورسٹی اور رات کو ہاسٹل بن جاتا تھا۔ الغ بیگ مدرسے کی امارت کسی ایسے شخص کے حوالے کرنا چاہتا تھا جومروجہ سائنسی علوم کا ماہر ہو‘ اس نے اعلان کیا دنیا کے اس عظیم مدرسہ کا امیر بھی عظیم ہو گا‘ یہ اعلان مدرسے کے سامنے اینٹوں کے ڈھیر پر بیٹھے درویش نے سن لیا‘ درویش کے کپڑے پھٹے تھے‘ وہ پائوں سے ننگا تھا اور اس کے بال خاک زدہ تھے۔
وہ درویش اٹھا اور بادشاہ سے کہا ’’ تم مجھ سے سوال کرو اور میں جواب دیتا ہوں‘‘ بادشاہ نے حیرت سے اس کی طرف دیکھااور فلکیات کا ایک مشکل ترین سوال اس کے سامنے رکھ دیا‘ درویش نے چند لمحوں میں جواب دے دیا‘ بادشاہ نے دوسرا سوال پوچھا‘ درویش نے اس کا جواب بھی دے دیا اور اس کے بعد بادشاہ سوال پوچھتا رہا‘ درویش جواب دیتا رہا یہاں تک کہ بادشاہ کے سوال ختم ہو گئے‘ بادشاہ نے درویش کا ہاتھ تھاما اور مدرسے کی عمارت اس کے حوالے کر دی‘ اس درویش کا نام مولانا محمد حوافی تھا اور یہ تا عمر اس مدرسے کے امیر رہے۔
مدرسہ الغ بیگ کے سامنے مدرسہ شیردار ہے‘ یہ مدرسہ 1619ء میں سمرقند کے مشہور سیاستدان‘ بخارا کے نائب امیر اور سترہویں صدی کے ازبک کمانڈر شریدار خان نے بنوایا‘ یہ مدرسہ شان اور شوکت میں الغ بیگ مدرسہ کا پوری طرح مقابلہ کرتا ہے اور ان دونوں مدارس کے پہلو میں مدرسہ طلہ کاری ہے‘ یہ مدرسہ بھی شیردار خان نے 1646ء میں بنوایا ‘ مدرسہ کے اندر طلائی مسجد ہے‘ مسجد کی اندرونی دیواروں اور چھت پر سونے کی طلہ کاری ہے اور اس طلہ کاری کی وجہ سے یہ پوری عمارت مدرسہ طلہ کاری کہلاتی ہے‘ یہ اسکوائر سمرقند بلکہ ازبکستان کی بین ا لاقوامی پہچان ہے۔
مسجد بی بی خانم بھی سمرقند کی عالمی پہچان ہے‘ یہ مسجد تیمور کی سب سے بڑی بیگم بی بی خانم سے منسوب ہے‘ یہ وہ خاتون ہے جس سے شادی کی وجہ سے تیمور اپنے آپ کو منگول خاندان کا حصہ قرار دیتا تھا‘ منگول زبان میں گور گان داماد کو کہتے ہیں اور تیمور بی بی خانم سے شادی کی وجہ سے گورگان کہلاتا تھا‘ مسجد بی بی خانم کے بارے میں دو روایات مشہور ہیں‘ پہلی روایت کے مطابق یہ مسجد بی بی خانم نے اپنے خاوند کو خوش کرنے کے لیے بنوائی ‘ تیمور ہندوستان فتح کرنے کے لیے سمرقند سے نکلا‘ اس کی غیر موجودگی میں بی بی خانم نے دنیا جہاں کے معمار بلوائے‘ اپنا سارا خزانہ ان کے حوالے کیا اور انھیں دنیا کی سب سے بڑی مسجد بنانے کا کام سونپ دیا‘ مسجد کی تعمیر شروع ہو گئی‘ بی بی خانم کام کے معائنے کے لیے روزانہ سائیٹ پر جاتی۔
اس دوران چیف انجینئر بی بی خانم پر عاشق ہو گیا اور اس نے شرط رکھ دی‘ میں امیر تیمور کی سمرقند آمد سے قبل یہ مسجد مکمل کروا دوں گا لیکن اس کے بدلے بی بی خانم کے گال کا بوسہ لوں گا‘ بی بی خانم نے اپنی تمام کنیزیں اسے پیش کر دیں لیکن چیف انجینئر نہ مانا لہٰذا بی بی خانم نے مجبوراً ہاں کر دی‘ چیف انجینئر نے امیر تیمور کے شہر میں پائوں رکھنے سے پہلے مسجد مکمل کر دی‘ وعدہ پورا کرنے کا وقت آیا تو بی بی خانم نے گال پر ہاتھ رکھ دیا‘ چیف انجینئر نے اس کے ہاتھ پر بوسہ لیا لیکن اس کے بوسے میں اتنی آگ تھی کہ بوسے کا نشان بی بی کے ہاتھ سے ہوتا ہوا گال پر ثبت ہو گیا‘ تیمور آیا تو وہ دنیا کی سب سے بڑی مسجد اور بی بی خانم کے گال کا نشان دیکھ کر حیران رہ گیا۔ مسجد کی تعمیر کا دوسرا واقعہ بھی حیران کن ہے۔
تیمور نے ہندوستان جانے سے قبل دنیا کی سب سے بڑی مسجد بنوانے کا فیصلہ کر لیا‘ اس نے اپنی پوری سلطنت سے ماہرین بلوائے اور انھیں یہ کام سونپ دیا‘ وہ کام کی نگرانی کے لیے روزانہ سائیٹ پر آتا تھا‘ بی بی خانم نے بھی اسی دوران مسجد کے سامنے اپنا مقبرہ بنوانا شروع کر دیا‘ مسجد مکمل ہوئی تو مقبرہ بھی مکمل ہو گیا‘ یہ واقعی دنیا کی سب سے بڑی مسجد تھی‘ مسجد کی ڈیوڑھی اور بیرونی دیواریں ابھی تک قائم ہیں‘ ڈیوڑھی 45 میٹر اونچی ہے اوراسے دیکھتے ہوئے حقیقتاً سر سے دستار گر جاتی ہے لیکن آپ قدرت کا کھیل دیکھئے مسجد کا ہال ابتدائی نمازوں کے دوران ہی گرنا شروع ہو گیا اور یہ چند ماہ بعد پوری طرح منہدم ہو گیا اسی دوران سمر قند کے لوگوں نے بی بی خانم کے مقبرے کی وجہ سے مسجد کو بی بی خانم سے منسوب کر دیا اور تاریخ آج تک اس نام کو لے کر آگے بڑھ رہی ہے۔
ہم لوگ مغرب کے وقت بی بی خانم مسجد پہنچے‘ سمرقند کی مسجدوں میں اس وقت اﷲ اکبر کی آوازیں گونج رہی تھیں لیکن مسجد بی بی خانم خاموش تھی ‘ ہمیں یہ خاموشی ایک عظیم نوحہ محسوس ہو رہی تھی‘ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے مسجد کی قدیم پیاسی دیواریں سورج کی لالی کے آخری قطرے بھی پی گئیں اور وہاں اس کے بعد سناٹے‘ گہرے تاسف اور تاریخ کے بین کے سوا کچھ نہیں بچا‘ ہم سے یہ سناٹا‘ یہ تاسف اور یہ بین برداشت نہ ہو سکا چنانچہ ہم بی بی خانم مسجد سے باہر آ گئے۔
مسجد کی ڈیوڑھی کے سامنے بی بی خانم کا مزار تھا‘ مزار کے چہرے پر گزرے دن کی تھوڑی سی روشنی باقی تھی‘ ہمیں یہ روشنی قہقہہ لگاتی اور پکار پکار کر یہ کہتی ہوئی محسوس ہوئی‘ مسجدیں بنانے والے مسجدیں بنواتے ہوئے بھول جاتے ہیں یہ عمارتیں تو بنوا سکتے ہیں لیکن ان عمارتوں کو اﷲ کی رضا کے بغیر حکم اذان نہیں دے سکتے‘ اﷲ نہ چاہے تو مسجدیں مزاروں کے نام منسوب ہو جاتی ہیں اور اگر اﷲ کی رضا شامل ہو تو مزار مسجدیں بن جاتے ہیں۔
حضرت امام بخاریؒ کے ذکر کے بغیر سمرقند کا تذکرہ مکمل نہیں ہوتا‘ حضرت امام بخاریؒ کا اصل نام محمدبن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ بن بروزۃ البخاری تھا لیکن تاریخ نے انھیں امام بخاری کا نام دیا‘ یہ بخارا میں پیدا ہوئے اور صحیح بخاری مرتب کرنے کے بعد دوبارہ بخارا تشریف لے آئے مگر امیر بخارا کو ان کی مقبولیت نہ بھائی چنانچہ یہ سمرقند کے مضافات میں اپنے ایک عزیز کے گھر منتقل ہو گئے اور یہ 870ء میں 60 سال کی عمر میںاسی جگہ انتقال فرما گئے‘ امام کو ان کے حجرے میں دفن کر دیا گیا‘ وقت گزرتا رہا۔
تیمور آیا‘ اس نے آپؒ کا مقبرہ تعمیر کروایا‘ تیمور گزر گیا اور اس کے گزرنے کے ساتھ ہی مقبرے کی نگہداشت بھی ختم ہو گئی‘ عمارت گری اور آہستہ آہستہ مقامی قبرستان میں گم ہو گئی‘ روس نے 1868ء میں سمرقند پر قبضہ کر لیا‘ سمرقند کی تمام عبادت گاہیں‘ روضے اور مزارات پابندی کا شکار ہو گئے اور یوں امام بخاریؒ کا مزار گمنامی کی مزیدگرد میں گم ہو گیا۔ روس نے 1961ء میں انڈونیشیا کے صدر سوئیکارنو کو دورے کی دعوت دی مگر صدر سوئیکارنو نے شرط رکھ دی وہ روسی صدر سے ملاقات سے قبل امام بخاریؒ کے مزار پر حاضری دیں گے۔
سوویت یونین کے لیے یہ دورہ انتہائی ضروری تھا مگر یہ اس وقت تک امام بخاریؒ کے نام سے واقف نہیں تھے چنانچہ ڈھونڈمچی اور یہ ڈھونڈ روسی اہلکاروں کو سمرقند لے آئی‘ مزار اس وقت کسی سربراہ مملکت کی وزٹ کے لیے مناسب نہیں تھا‘ روسی حکومت نے بچنے کی کوشش کی لیکن سوئیکارنو کا اصرار قائم رہا‘ سوئیکارنو جون 1961ء کے شروع میں ماسکو پہنچا ‘ حکومت نے اسے ٹرین پر سوار کر دیا‘ یہ ٹرین چار دن بعد سمرقند پہنچی۔
روسی حکام اس دوران مزار کی حالت ٹھیک کرتے رہے لیکن اس کے باوجود سوئیکارنو جب وہاں پہنچا تو وہ مزار کی حالت دیکھ کر رو پڑا اور اس نے روسی حکام سے کہا ’’تم اس عظیم انسان کی عظمت سے ذرا برابر واقف نہیں ہو‘‘ اس نے روس کو پیشکش کی ’’ تم یہ مزار مجھے بیچ دو‘ میں مزار کی مٹی کے برابر سونا دینے کے لیے تیار ہوں‘‘ وہ مزار پر دس گھنٹے قرآن خوانی بھی کرتا رہا‘ روسی حکومت نے اس واقعے کے بعد مزار کی تعمیر نو کروائی اور امام بخاری ؒ کے روضے کو زائرین کے لیے کھول دیا‘ ازبکستان کی موجودہ حکومت نے مزار کی توسیع بھی کی اور اس کی تزئین و آرائش بھی۔
حضرت امام بخاریؒ کا اصل مزار عمارت کے تہہ خانے میں ہے‘ تہہ خانہ بند رہتا ہے لیکن ہمیں تہہ خانے کے اندر جانے اور حضرت امام بخاریؒ کے پائوں میں بیٹھ کر دعا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی‘ میں نے اصل روضے کی تصویر بھی بنا لی‘ حکومت نے بخارا میں امام بخاری میوزیم بنا دیا ہے ‘ اس میں امام بخاری سے منسوب چند اشیاء اور اوراق بھی رکھے ہوئے ہیں لیکن صیح بخاری کا اصل نسخہ وہاں بھی نہیں‘ صحیح بخاری کی ایک نقل تاشقند میں بھی موجود ہے‘ تاشقند میں خست امام کمپلیکس میں قرآن میوزیم ہے‘ اس میوزیم میں حضرت عثمان غنیؓ کے زیر استعمال رہنے والے قرآن مجید ہیں۔
ان میں وہ قرآن مجید بھی شامل ہے جس کی تلاوت کرتے ہوئے آپؓ کو شہید کر دیا گیا تھا‘ قرآن مجید کے اس نسخے پر بھی حضرت عثمانؓ کے لہو کے نشان ہیں‘ قرآن مجید کا یہ نسخہ فتوحات کے دوران امیر تیمور کے ہاتھ لگ گیا تھا اور یہ مختلف خاندانوں سے ہوتا ہوا ازبک حکومت کے پاس پہنچ گیا‘ اسی قسم کا ایک نسخہ استنبول کے توپ کاپی میوزیم میں بھی موجود ہے‘ میرے پاس ان دونوں نسخوں کی تصاویر موجود ہیں‘ دونوں نسخوں میں اصل کون سا ہے‘ ہم سرے دست اس کا فیصلہ نہیں کر سکتے لیکن تاشقند کا قرآن مجید بظاہر زیادہ قدیم دکھائی دیتا ہے۔
میوزیم میں صحیح بخاری کا ایک نسخہ بھی موجود ہے لیکن یہ اصل کی کاپی محسوس ہوتا ہے‘ اصل صحیح بخاری کہاں ہے؟ کیا یہ دنیا میں کہیں موجود ہے‘ ہم حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن جہاں تک امام بخاریؒ کی محنت اور کاوش کا تعلق ہے یہ دنیا کی آنکھ سے کبھی اوجھل نہںں ہو گی‘ اﷲ تعالیٰ دائمی ہے اور دنیا کا جو شخص اﷲ کی ذات میں گم ہو جاتا ہے اس کا نام بھی دائمی ہو جاتا ہے‘ امام بخاریؒ بھی اﷲ تعالیٰ اور رسول اﷲ ﷺ کی ذات میں گم ہو گئے تھے چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے بارہ سو سال بعد ان کا نام اور ان کا روضہ دونوں زندہ رکھے۔
سمرقند کے زیادہ تر بادشاہ زمین کا پیوند ہو چکے ہیں اور وقت کی بارشوں نے ان کا نام تک دھو دیا مگر امام بخاریؒ کے نام کی خوشبو سمرقند میں آج تک زندہ ہے اور آپ اگر امام کے مزار پر کھڑے ہوں تو آپ کو محسوس ہوتا ہے امام بخاریؒ سمرقند کی وجہ سے قائم نہیں ہیں بلکہ سمرقند امام بخاریؒ کی وجہ سے زندہ ہے ‘ امام نہ ہوتے تو آج سمرقند افراسیاب کے قدیم کھنڈرات میں گم ہو گیا ہوتا اور تاریخ اس کا نام تک فراموش کر چکی ہوتی۔

سمرقند
جاوید چوہدری جمعـء 28 ستمبر 2012
ازبکستان کے پاس اگر کچھ نہ ہوتا تو بھی اس کی شہرت‘ معیشت اور عزت کے لیے سمرقند کافی تھا‘ ازبک زبان میں سمرقند کا مطلب ملاقات کی جگہ یا میٹنگ پلیس ہے۔
یہ شہر دو ہزار سات سو پچاس سال پرانا ہے‘ یہ ماضی میں سلک روٹ کا بڑا جنکشن تھا‘ یہ شہر سنٹرل ایشیا کے پر فضا ترین مقام پر بنایا گیا اور یہ تاریخ کے تمام بڑے فاتحین کی گزر گاہ تھا۔
سکندر اعظم نے سمرقند کو 329 قبل مسیح میں فتح کیا اور یہ اس کی خوبصورتی اور جغرافیائی پوزیشن دیکھ کر حیران رہ گیا‘ سمر قند افغانستان اور اس کے بعد ہندوستان کا دروازہ تھا۔
دنیا کے تمام بڑے فاتحین سمرقند سے گزر کر افغانستان‘ ایران اور ہندوستان میں داخل ہوتے تھے‘ نبی رسالتؐ کی رحلت کے بعد حضرت قثم بن عباسؓ سمرقند تشریف لائے اور سنٹرل ایشیا میں اسلام کی اشاعت کا آغاز کیا‘ حضرت قثمؓ نبی اکرمؐ کے چچا حضرت عباس ؓ کے صاحبزادے بھی تھے۔
آپؐ کے کزن بھی اور آپؓ ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے نبی اکرمؐ کو لحد میں اتارا‘ سمرقند کے گستاخوں کو حضرت قثمؓ کی تبلیغ پسند نہ آئی چنانچہ انھوں نے آپؓ کو عین نماز کے دوران شہید کر دیا‘ آپؓ کا سر مبارک تن سے جدا کر دیا گیا لیکن جب تدفین کے وقت سر مبارک جسم اطہر کے قریب رکھا گیا اور آپؓ کو لحد میں اتارا گیا تو آپؓ کا جسد مبارک غائب ہو گیا‘ سمر قند کے لوگوں کا خیال ہے حضرت قثم بن عباسؓ ابھی تک زندہ ہیں چنانچہ یہ انھیں شاہ زندہ کہتے ہیں۔
یہ کہانی کس قدر سچ ہے ہم یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں تاہم سمرقند میں حضرت قثمؓ کا مزار موجود ہے‘ یہ ایک طویل کمپائونڈ ہے جس میں امیر تیمور کے خاندان سمیت بے شمار نامور لوگوں کی قبریں ہیں اور ہر قبر عظیم تعمیراتی شاہکار ہے‘ یہ چھوٹے بڑے درجنوں مقبروں کا مجموعہ ہے اور آپ جب اس کمپائونڈ میں داخل ہوتے ہیں تو ہر مقبرہ آپ کی توجہ کھینچ لیتا ہے اور آپ اس کے بنانے والے کو داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے‘ چنگیز خان نے 1220 میں سمر قند فتح کیا‘ سمرقند کا نام اس وقت افراسیاب تھا۔
اس نے افراسیاب کی ساری آبادی قتل کر دی‘ تمام عمارات اور مکانات تاراج کر دیئے اور اس کے بعد شہر کو آگ لگا دی لیکن اسے حضرت قثم بن عباسؓ کے روضہ مبارک کی طرف آنکھ اٹھانے کی جرأت نہ ہوئی‘ یہ سمر قند کی واحد عمارت تھی جو چنگیز خان کی بربریت سے محفوظ رہی‘ میں‘ قمر راٹھور اور ڈاکٹر رازق داد 25 ستمبر کی شام حضرت قثم ؓ کے روضے پر حاضری کے لیے پہنچے‘ آپ کے روضہ مبارک سے عجیب خوشبو آ رہی تھی۔
ہم نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو آنکھیں تر ہو گئیں اور دل حلق میں دھڑکنے لگا‘ تیمور بھی آپؓ سے گہری عقیدت رکھتا تھا‘ تیمور کے خاندان کے بے شمار لوگ شاہ زندہ کے دائیں بائیں مدفون ہوئے اور یہ نبی رسالتؐ کے کزن کی ہمسائیگی کی بدولت خود کو بخشش کا حق دار سمجھ رہے ہیں۔
سمر قند کا اصل دور تیمور سے شروع ہوا‘ تیمور 1336 میں کیش نام کے گائوں میں برلاس قبیلے میں پیدا ہوا‘ اس کا والد معمولی جاگیر دار تھا لیکن اﷲ تعالیٰ نے تیمور کو بے انتہا صلاحیتوں سے نواز رکھا تھا‘ یہ دونوں ہاتھوں سے لڑ سکتا تھا‘ اس کے حوصلے غیر متزلزل تھے‘ یہ بے خوف اور بے رحم بھی تھا اور یہ اس کے ساتھ ساتھ علم اور عالموں کا بھی شیدائی تھا۔
اس نے اپنے گائوں کے اردگرد شہر سبز کے نام سے شاندار شہر تعمیر کروایا‘ یہ نابغہ روز گار شہر تھا اور تیمور اپنی بائیو گرافی میں بار بار اس کی تعریف کرتا ہے لیکن اس نے اپنی ریاست کا دارالحکومت سمر قند ہی کو بنایا‘ سمرقند تیمور کے دور میں دنیا کا خوبصورت ترین شہر تھا‘ شہر کے چاروں اطراف چودہ بڑے بڑے باغ بنائے گئے‘ پورے شہر میں ہزاروں درخت لگائے گئے اور سڑکوں اور گھروں کو انگور کی بیلوں سے چھپا دیا گیا۔ تیمور اپنے سمر قند کو بہشت برزمین کہتا تھا اور یہ غلط بھی نہیں تھا۔
تیمور کی سلطنت روس سے دہلی اور آذر بائیجان سے لے کر بغداد‘ شام اور قاہرہ تک پھیلی تھی لیکن سمر قند اس کی جان تھا‘ تیمور کی بارہ بیویاں اور چار مرد بچے تھے‘ یہ ایک دن شطرنج کھیل رہا تھا‘ اس کے ہاتھ میں شاہ تھا‘ عین اس وقت اس کی لونڈی اندر آئی اور اسے بیٹے کی ولادت کی خوش خبری سنائی۔
تیمور نے ہاتھ میں پکڑے شاہ کی طرف دیکھا اور اس بیٹے کا نام شاہ رخ رکھ دیا‘ یہ بیٹا اس کے انتقال کے بعد اس کی سلطنت کا وارث بنا‘ تیمور کا ایک بیٹا جوانی میں بلڈ کینسر سے مر گیا‘ دوسرا بیٹا دہلی کی فتح کے دوران مارا گیا‘ تیسرا بیٹا بھی بیماری کا شکار ہو گیا اور پیچھے رہ گیا شاہ رخ۔ یہ درویش صفت انسان تھا‘ تیمور اپنی وسیع سلطنت اس کے حوالے نہیں کرنا چاہتا تھا چنانچہ اس نے اپنے پوتے محمد سلطان کی تربیت شروع کر دی۔
یہ تیمور کی کاپی تھا لیکن بدقسمتی سے یہ ولی عہد بھی تیمور کی زندگی میں وفات پا گیا‘ تیمور نے سمرقند میں اس کا خوبصورت مقبرہ بنوایا‘ تیمور نے اپنی زندگی میں شہر سبز میں اپنی قبر تعمیر کروا دی تھی لیکن آپ قدرت کے فیصلے دیکھئے‘ یہ قبر آج تک خالی پڑی ہے کیونکہ تیمور 1405 میں چین کی مہم کے دوران قزاقستان میں سردی لگنے کی وجہ سے بیمار ہوا اور راستے ہی میں فوت ہو گیا‘ اس کی لاش سمر قند لائی گئی اور اسے اس کے پوتے محمد سلطان کے پہلو میں دفن کر دیا گیا۔
تیمور کا پوتا الغ بیگ سمر قند کا حکمران بنا تو اس نے تیمور کا عالی شان مقبرہ تعمیر کروا دیا‘ اس کے ساتھ شاہی خانقاہ بنوائی‘ شاہی مدرسہ بنوایا اور اپنے دادا کی قبر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندگی بخش دی‘ یہ مقبرہ آج تک سمرقند میں موجود ہے اور ہر سال لاکھوں سیاح اس کی ’’ زیارت‘‘ کے لیے آتے ہیں‘ سمرقند کے لوگ تیمور کے مقبرے کو ’’گور تیمور‘‘ کہتے ہیں‘ یہ عالی شان عمارت ہے جو دیکھنے والے کو پہلی نظر میں کھینچ لیتی ہے۔
مقبرے کی دیواروں اور چھت پر سونے‘ سبز اور نیلے پتھروں سے قرآنی آیات لکھی ہیں‘ تیمور کی قبر کا پتھر آذربائیجان سے لایا گیا‘ یہ گہرے سبزرنگ کا پتھر ہے جو سورج کی روشنی کے ساتھ ساتھ رنگ بدلتا ہے‘ نادرشاہ درانی نے جب سمر قند فتح کیا تو وہ یہ پتھر اکھاڑ کر ساتھ لے گیا تھا لیکن راستے میں اس کی بیٹی بیمار ہو گئی چنانچہ اس نے یہ پتھر واپس بھجوا دیا‘ تیمور کے محلات اور دربار ختم ہو گیا لیکن اس کی قبر ابھی تک موجود ہے اور دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔
الغ بیگ تیمور کا پوتا اور شاہ رخ کا بیٹا تھا‘ یہ فطرتاً سائنس دان تھا‘ یہ فلکیات میں خصوصی دلچسپی رکھتا تھا‘ اس نے سمر قند میں شاندار مدرسہ تعمیر کروایا‘ یہ سنٹرل ایشیا میں ماڈرن سائنسز کا پہلا مدرسہ تھا‘ طالب علم اس میں آٹھ سال پڑھتے تھے‘ یہ چار سال دینی تعلیم حاصل کرتے تھے اور چار سال دنیاوی علوم بالخصوص سائنس کے مضامین۔ الغ بیگ نے فلکیات اور زمین پر ریسرچ کی اور کمال کر دیا۔
اس نے قدیم شہر افراسیاب کے کھنڈرات کے قریب عظیم رصدگاہ تعمیر کروائی‘ الغ بیگ اور اس کے سائنس دان اس رصد گاہ میں زمین کی ہیت اور ستاروں پر ریسرچ کرتے رہے‘ اس نے زمین کے اندر چوتھائی چاند کی طرز کی خندق کھودی‘ پتھروں سے خندق کی تعمیر کروائی‘ اس کے کناروں پر ڈگریاں بنائیں‘ چھت پر سوراخ کیا اور اس سوراخ سے ستاروں کی چال نوٹ کرتا رہا۔
اس نے سال کو 365 دنوں میں بھی تقسیم کیا‘ آج کے کیلنڈر اور الغ بیگ کے کیلنڈر میں صرف 58 سیکنڈ کا فرق تھا‘ اس نے 1018 ستارے بھی دریافت کیے اور اس نے سورج‘ چاند اور زمین کا آپس میں تعلق بھی تلاش کر لیا‘ الغ بیگ حکمران کم اور سائنس دان زیادہ تھا‘ یہ اگر چند سال مزید زندہ رہتا تو یہ دنیا کے عظیم سائنس دانوں میں شمار ہوتا لیکن 1449 میں اس کے صاحبزادے نے اسے اس وقت قتل کروا دیا جب یہ حج کے لیے مکہ جا رہا تھا‘ الغ بیگ کو بعد ازاں تیمور کے ساتھ دفن کر دیا گیا۔
الغ بیگ کے بعد اس کی رصد گاہ تباہ کر دی گئی‘ سائنس دانوں کو قتل کر دیا گیا مگر اس کا ایک شاگرد علی اس کی کتاب لے کر ترکی بھاگ گیا‘ یہ کتاب دو سوسال بعد انگریزوں کے ہاتھ لگی اور یہ کتاب دیکھ کر حیران رہ گئے‘ آکسفورڈ پریس نے 1665 میں یہ کتاب شائع کر دی اور یوں الغ بیگ کی ریسرچ نے دنیا کو حیران کر دیا۔1900 کے شروع میں روس کے ایک آرکیالوجسٹ نے اس کتاب کی روشنی میں الغ بیگ کی رصد گاہ کے مقام کا تعین کیا‘ کھدائی شروع کروائی اور اس نے مٹی میں دفن رصدگاہ تلاش کر لی۔
یہ رصد گاہ آج بھی موجود ہے اور دنیا اس کا نظارہ کر کے حیران رہ جاتی ہے‘ ہم 25 ستمبر کی شام الغ بیگ کی رصدگاہ میں گھوم رہے تھے‘ میں نے اپنی روسی گائیڈ کو الغ بیگ کی کتاب دکھائی اور اس سے سوال کیا ’’ تیمور کے درجنوں پوتے اور نواسے تھے لیکن تاریخ صرف الغ بیگ کو جانتی ہے‘ کیوں؟‘‘ اس نے کندھے اچکا کر جواب دیا ’’ آئی ڈونٹ نو‘‘ میں نے عرض کیا ’’ صرف اور صرف اس کتاب کی وجہ سے۔
الغ بیگ تیمور کی نسل کا واحد بادشاہ تھا جس نے فلکیات کے علم میں اضافہ کیا اور اس اضافے کو کتاب کی شکل دی چنانچہ یہ اپنی اس چھوٹی سی کتاب کی وجہ سے آج بھی زندہ ہے جب کہ اس کے باقی تمام بھائی اور کزن اپنی اپنی سلطنتوں کے ساتھ دفن ہو چکے ہیں‘‘ میں نے اس سے عرض کیا ’’ کتابیں سلطنتوں سے زیادہ مضبوط ہوتی ہیں‘ سلطنتیں‘ ملک اور ان کے حکمران ختم ہو جاتے ہیں‘ ان کی قبروں کے نشان بھی مٹ جاتے ہیں لیکن کتابیں خود بھی زندہ رہتی ہیں اور یہ اپنے مصنفوں کو بھی زندہ رکھتی ہیں اور الغ بیگ اور تیمور دونوں اس کی زندہ مثال ہیں‘‘۔

بخارا کا آدھا چاند
جاوید چوہدری جمعرات 27 ستمبر 2012
رات بارہ بجے بخارا کے آسمان پر آدھا چاند ٹنکا ہوا تھا‘ ہوا میں خنکی تھی اور گلیوں میں سناٹا اور اندھیرا اور ہم تین اجنبی اس اندھیرے‘ اس سناٹے میں تاریخ کے نقش ٹٹول رہے تھے۔
بخارا کی وہ رات ہمارے کانوں میں سرگوشیاں کر رہی تھی‘ اس زمین‘ اس کائنات میں کوئی شخص‘ کوئی کامیابی اور کوئی کامرانی دائمی نہیں‘ اس کائنات کی ہر چیز بے ثبات‘ فانی اور عارضی ہے۔
دنیا میں اگر کسی چیز کو ثبات اور دائم حاصل ہوتا تو وہ ماضی کا بخارا ہوتا اور اس بخارے کی چھوٹی اینٹوں کی گلیوں میں امام بخاریؒ کے قدموں کی آہٹ ہوتی‘ بوعلی سینا کے لڑکھڑاتے قدم ہوتے یا پھر خوارزمی اور البیرونی کی سوچ میں ڈوبی ہوئی شکلیں ہوتیں یا پھر چنگیز کے دھاڑتے ہوئے لشکری ہوتے یا پھر امیر تیمور کی پھنکار ہوتی یا پھر انعم بیگ کا علم پرور دور ہوتا یا پھر بی بی خانم کی عقیدت ہوتی۔
یہ سب کچھ بخارا کے نیلے آسمان اور آدھے چاند کے ساتھ ٹھہر گیا ہوتا اور ہم تین اجنبی بخارا کی قدیم گلیوں میں گھومتے ہوئے تاریخ کے ان چمکتے دمکتے ادوار کی لو محسوس کر رہے ہوتے لیکن بخارا تو وہاں موجود تھا۔
مگر ماضی تبدیل ہوتے دنوں اور کروٹ لیتے کیلنڈروں میں کہیں گم ہو گیا تھا اور جاتے ہوئے اپنے روشن چہرے بھی ساتھ لے گیا تھا اور پیچھے پرانی عمارتوں کے کھنڈروں‘ چھوٹی اینٹ کی گلورں‘ اندھی دیواروں اور بخارا کے قدیم دنوں کی ادھوری کہانیوں کے سوا کچھ نہیں بچا تھا اور ہم تین اجنبی تاریخ کے اس عظیم عبرت سرائے میں رات 12 بجے آدھے چاند کی ہمراہی میں پرانے نقش کھوج رہے تھے۔
بخارا محض ایک شہر نہیں‘ یہ تاریخ کا عظیم نوحہ بھی ہے‘ یہ بے ثبات دنیا کی بے ثباتی کی دلیل بھی ہے اور ہم تین اجنبی اس وقت اس بے ثباتی کے گواہ تھے‘ ڈاکٹر رازق داد خان ہمیں تاشقند میں ملے‘ یہ پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں‘ اٹک کے خان خاندان کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں‘ 1994ء میں تاشقند آئے اور پاکستان اور ازبکستان کے درمیان تقسیم ہو گئے۔
یہ آدھا وقت پاکستان گزارتے ہیں اور آدھا تاشقند میں‘ یہ طبی آلات کا کاروبار بھی کرتے ہیں‘ ان کی بیگم ازبک ہیں‘ یہ ہمیں ڈھونڈتے ہوئے ہوٹل پہنچ گئے‘ ان سے ملاقات ہوئی اور دوستی ہو گئی‘ یہ 24 ستمبر کی صبح ہمیں بخارا کے لیے ائیرپورٹ چھوڑنے آئے اور ہمارے ساتھ ہی بخارا آ گئے۔
یوں ڈاکٹر رازق‘ قمر راٹھور اور میں‘ بخارا کے تین اجنبی پاکستانی بن گئے اور 25 ستمبر کی صبح جب بخارا سے سمر قند کے لیے روانہ ہوئے تو اپنی روح بخارا کی گلیوں میں چھوڑ آئے‘ بخارا کبھی علم کا مکہ ہوتا تھا‘ اسلام نے آنکھ حجاز میں کھولی تھی لیکن اس کی علمی پرورش بخارا میں ہوئی تھی‘ یہ شہر ایشیا کا مرکز تھا‘ یہ شاہراہ ریشم پر تھا‘ ہندوستان‘ ایران اور افغانستان سے آنے والے تمام تجارتی قافلے بخارا سے ہو کر گزرتے تھے۔
مسافر ارض روم کا ہو‘ مزار شریف یا کابل کا یا پھر اس کی منزل شیراز‘ خراسان‘ کاشغر‘ خیوایا باکو ہو یا پھر اس نے ملتان‘ دہلی یا سورت جانا ہو وہ بخارا سے گزرے بغیر اپنا سفر جاری نہیں رکھ سکتا تھا‘ بخارا اس کا جنکشن ہوتا تھا‘ اسلام حجاز سے نکلا تو بخارا اسلام کی درس گاہ بن گیا‘ مسلمانوں کے ہر حکمران نے اس شہر میں اپنے نام کا مدرسہ بنوایا اور اس مدرسے میں علم‘ ادب اور سائنس کی تعلیم شروع ہو گئی۔
ایک وقت تھا جب بخارا میں دو سو مدارس تھے‘ یہ مدارس اس دور کی یونیورسٹیاں تھے‘ آپ تصور کیجیے جس شہر میں دو سو یونیورسٹیاں ہوں اور ان یونیورسٹیوں میں اپنے دور کے عظیم لوگ تعلیم دیتے ہوں اس شہر کی علمی اور ادبی فضا کیا ہو گی‘ یہ شہر بغداد اور قاہرہ کا ہم پلہ تھا اور اس دور کے طالب علم بغداد‘ قاہرہ اور بخارا کے درمیان گردش کرتے تھے۔
شہر میں سیکڑوں کاروان سرائے اور خانقاہیں بھی تھیں‘ کاروان سرائوں میں تجارتی قافلے ٹھہرتے تھے جب کہ خانقاہوں میں درویش اور اعلیٰ خاندانوں کے چشم و چراغ۔ شہر میں عالی شان مساجد کا جال بچھا تھا‘ بخارا‘ سمر قند اور تاشقند کے لوگ آسمانی‘ نیوی بلیو اور ہلکا سبزرنگ پسند کرتے تھے چنانچہ ان کی عمارتوں پر ان تینوں رنگوں کے موزیک ہوتے تھے۔
یہ چکور اینٹیں بناتے تھے اور سمر قند اور بخارا کی تمام عمارتیں ان چکور اینٹوں سے سے بنی تھیں‘ امام بخاری ؒ بھی اسی قسم کی کسی عمارت میں علم بانٹتے تھے‘ یہ 194 ہجری (810ء) میں بخارا کے مضافات میں پیدا ہوئے‘ یہ 16 سال کی عمر میں مکہ تشریف لے گئے اور چالیس سال مکہ‘ مدینہ‘ طائف‘ جدہ‘ بصرہ اور کوفہ میں احادیث جمع کرتے رہے۔
انھوں نے احادیث کی پہلی تصدیق شدہ کتاب صحیح بخاری مرتب کی اور واپس بخارا آ گئے اور مدرسے میں طالب علموں کو تعلیم دینا شروع کر دی‘ یہ بخارا میں بہت مقبول تھے‘ امیر بخارا کو آپ کی مقبولیت پسند نہ آئی‘ اختلافات پیدا ہوئے اور ان کے نتیجے میں امام بخاریؒ سمر قند ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے‘ یہ سمر قند کے مضافات میں اپنے ننھیال کے گائوں خرتنگ میں تشریف لے آئے اور وفات کے بعد یہیں مدفون ہوئے‘ مجھے ان کے مزار پر حاضری اور دعا کی سعادت بھی نصیب ہوئی‘ امام بخاریؒ اس شہر کے عظیم اساتذہ میں سے ایک تھے اور یہ شہر کے عظیم مدارس میں سے ایک مدرسے کے استاد تھے۔
بخارا مدارس کا شہر تھا‘ یہ مدارس ’’بورڈنگ ہائوس‘‘ ہوتے تھے‘ پوری دنیا سے طالب علم آتے تھے اورپانچ چھ برس تک ان مدارس میں رہتے تھے‘ بخارا کے مدارس دو منزلہ تھے‘ یہ چکور عمارتیں تھیں جن کے درمیان میں طویل صحن ہوتا تھا‘ کمرے صحن کے چاروں اطراف بنائے جاتے تھے‘ صحن میں انگور کی بیلیں‘ سیب‘ چیری اور شہتوت کے درخت ہوتے تھے۔
طالب علم ان درختوں کی گھنی چھائوں میں پڑھتے تھے اور کمروں میں رہتے تھے‘ کمرے ہوا دار اور روشن تھے اور انھیں سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈا رکھنے کا خصوصی بندوبست تھا‘ کمرے دو منزلہ بھی تھے‘ طالب علم بالائی منزل سونے کے لیے استعمال کرتے تھے اور نچلی منزل ان کی اسٹڈی ہوتی تھی‘ ایک کمرے میں دو طالب علم رہتے تھے‘ ہر مدرسے کی اپنی مسجد تھی‘ حکومت طالب علموں کو وظائف بھی دیتی تھی‘ ازبک حکومت نے چند مدارس کو ہوٹل میں تبدیل کر دیا ہے۔
ہم لوگ بھی اسی نوعیت کے ایک مدرسہ ہوٹل میں رہے‘ اس مدرسہ ہوٹل کی دیواروں‘ دروازوں اور کھڑکیوں سے ماضی کی خوشبو آتی تھی‘ چھت پر لکڑی کا برآمدہ تھا اور اس برآمدے میں صبح کے وقت ناشتہ کرنا شاندار روحانی تجربہ تھا‘ ماضی کے حکمران اور حکمران خاندان اپنی حیثیت کے مطابق بخارا میں مدارس قائم کر دیتے تھے‘ یہ مدارس ان کی دنیا اور آخرت دونوں کے لیے نعمت ثابت ہوتے تھے‘ یہ لوگ انتقال کے بعد دفن بھی انھیں مساجد اور مدارس میں ہوتے تھے چنانچہ مدارس اور مساجد میں بے شمار بے نام قبریں ہیں۔
بخارا کے کورڈ بازار بھی رومانوی ہیں‘ ماضی میں دنیا جہاں سے تجارتی قافلے بخارا آتے تھے اور اپنی مصنوعات سے ان بازاروں کو بھر دیتے تھے‘ یہ بازار آج دو اڑھائی ہزار سال بعد بھی قائم ہیں‘ بخارا کے حمام بھی موجود ہیں اور ان حماموں کے کنوئوں کا ٹھنڈا پانی بھی‘ مں بخارا میں ازبک حکومت کو داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔
ازبک حکومت نے قدیم بخارا کو نہ صرف دوبارہ زندہ کر دیا ہے بلکہ یہ پرانی عمارتوں کی ’’ ٹیک کیئر‘‘ بھی کر رہی ہے چنانچہ یہاں روزانہ سیکڑوں ہزاروں سیاح آتے ہیں اور امام بخاری اور بو علی سینا کے شہر کی زیارت کرتے ہیں‘ بخارا کے لوگ بھی عاجز اور مہمان نواز ہیں‘ یہ سیاحوں بالخصوص مسلمان سیاحوں کا بہت احترام کرتے ہیں۔
بخارا کا ذکر دو عمارتوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتا‘ ایک مینار ہے اور دوسری زیارت گاہ‘ بخارا کا مینار عظیم بھی ہے‘ پرشکوہ بھی اور شاندار بھی‘ یہ عظیم مساجد اور مدارس کے عین درمیان ایستادہ ہے‘ اس مینار کی عظمت کے لیے صرف ایک واقعہ کافی ہو گا‘ چنگیز خان نے 1220ء میں بخارا فتح کیا‘ فتح کے بعد اس نے پورا شہر گرا دیا۔
شہر کی آدھی آبادی قتل کروا دی لیکن یہ جب بخارا کے مینار کے پاس پہنچا تو اس کا شکوہ دیکھ کر حیران رہ گیا اور اس نے کہا آج پورا بخارا میرے قدموں میں گرا ہوا ہے لیکن میں اس مینار کے قدموں میں ہوں لہٰذا عظیم چنگیز خان اس مینار کی عظمت کے سامنے جھک رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی چنگیز خان مینار کے سامنے جھک گیا۔
مینار کی عظمت آج بھی قائم ہے‘ بخارا کی سب سے بڑی زیارت گاہ حضرت بہائوالدین نقش بندؒ کا مزار ہے‘ آپؒ کامل ولی تھے‘ بخارا کے لوگ اور نقش بندی آپؒ کے مزار کی زیارت کو چھوٹا حج کہتے ہیں‘ مزار کے ساتھ پانی کا حوض ہے جسے یہ لوگ متبرک پانی سمجھتے ہیں‘ مزار پر سیاہ رنگ کا پتھر لگا ہے‘ یہ لوگ اس پتھر کو سنگ مراد کہتے ہیں‘ ان کا خیال ہے اس پتھر کو چھو کر دعا کرنے سے مراد پوری ہو جاتی ہے‘ مزار کے احاطے سے باہر پانچ چھ سو سال پرانے درخت کا تنا پڑا ہے۔
نقش بندی لوگوں کا عقیدہ ہے آپ اگر تین بار اس تنے کے نیچے سے گزر جائیں تو آپ کی مراد پوری ہو جاتی ہے‘ زائرین نے درخت پر ہاتھ پھیر پھیر کر اسے سنگ مر مر کی طرح ملائم کر دیا ہے‘ زیارت گاہ پر زائرین کا رش ہوتا ہے‘ ہمیں بھی مزار پر حاضر ہونے اور دعا کی سعادت نصیب ہوئی لیکن بخارا کا آدھا چاند اور رات کے سناٹے کا کوئی بدل نہیں تھا‘ ہم آدھی رات کو گلیوں میں گھوم رہے تھے‘ خنک ہوا شمال سے جنوب کی طرف چل رہی تھی اور اس میں خنکی کے ساتھ ساتھ گئے دنوں کی خوشبو بھی تھی۔
ان گئے دنوں کی خوشبو جب بو علی سینا‘ البیرونی‘ الخوارزمی اور امام بخاری اس شہر کی گلیوں میں علم بانٹتے تھے اور علم کے پیاسے دیوانہ وار اس شہر کی طرف دوڑتے تھے اور جب تاریخ بخارا سے شروع ہوتی اور بخارا پر آ کر مکمل ہوتی تھی اور جب علم اور ثقافت بخارا پہنچ کر رک جاتی تھی اور جب تجاری قافلوں کے جانور بھی اس شہر میں آ کر اپنی جنگلی خو بھول جاتے تھے اور وہ بھی تہذیب اور شائستگی کے ساتھ چلنے لگتے تھے اور جب علم و ادب کا سورج اس شہر کی گلیوں سے طلوع ہوتا تھا اور یورپ کی سرحدوںپر پہنچ کر ڈوب جاتا تھا اور جب علم اور وقت کا دوسرا نام بخارا ہوتا تھا اور یہ سارے گئے دن اور ان تمام گئے دنوں کی یہ ساری خوشبوئیں اس وقت بخارا کی ہوائوں میں تھیں اور ہم تین اجنبی اور بخارا کا آدھا چاند ان خوشبوئوں میں بہہ رہے تھے‘ تاریخ کی ندی میں لمحہ موجود کے بے آسرا تنکے کی طرح۔

تاشقند
جاوید چوہدری منگل 25 ستمبر 2012
تاشقند سے میرا پہلا تعارف پاکستانی تاریخ کی کتابوں سے ہوا تھا‘ میری نسل کے لوگ بچپن میں جب بھی 1965ء کی جنگ کا احوال پڑھتے تھے تو انھیں دو فقرے ضرور سہنا پڑتے تھے۔
رات کی سیاہی میں بزدل دشمن نے لاہور پر حملہ کر دیا اور دوم فیلڈ مارشل ایوب خان نے 10 جنوری 1966ء کو جیتی ہوئی جنگ تاشقند میں میز پر ہار دی‘ بڑے ہوئے تو پتہ چلا 1965ء کی جنگ ہم نے شروع کی تھی۔
ہم نے اکھنور کا محاذ کھولا اور ٹنشن آہستہ آہستہ جنگ کی شکل اختیار کر گئی‘ یہ بھی معلوم ہوا ذوالفقار علی بھٹو نے تاشقند کے معاہدے کا بھرپور سیاسی فائدہ اٹھایا‘ ایوب خان اس وقت تک جسمانی اور سیاسی لحاظ سے کمزور ہو چکے تھے۔
ملک میں ان کے خلاف نفرت بھی پائی جاتی تھی‘ ذوالفقار علی بھٹو نے معاہدہ تاشقند کو غیرت کا پرچم بنایا اور بدنصیب جذباتی قوم کے سر پر لہرانا شروع کر دیا اور ہم لوگ کیونکہ ہر جذباتی نعرے اور دعوے کو حقیقت مان لیتے ہیں چنانچہ ہم نے بھٹو صاحب کا پرچم بھی تھام لا ‘ بھٹو پوری زندگی دعویٰ کرتے رہے ’’ میں آپ کو بتائوں گا تاشقند میں کیا ہوا تھا‘‘ اور قوم پوری زندگی بھٹو کی پٹاری کھلنے کا انتظار کرتی رہی لیکن تاشقند میں کیا ہوا قوم کو آج تک معلوم نہ ہو سکا۔
مزید بڑے ہوئے تو معلوم ہوا معاہدے کے لیے بھارت کی طرف سے وزیراعظم لال بہادر شاستری تاشقند آئے تھے‘ پاکستان کی طرح معاہدے کے بعد بھارت میں بھی شور ہو گیا‘ شاستری نے میدان میں جیتی ہوئی جنگ میز پر ہار دی‘ عوام نے وزیراعظم ہائوس کا گھیرائو کر لیا‘ شاستری نے خیریت معلوم کرنے کے لیے گھر فون کیا‘ بیٹی نے رو رو کر کہا ’’ باپو آپ نے قوم کی ناک کٹوا دی‘‘ شاستری نے اسے اطمینان دلانے کی کوشش کی‘ بیٹی نے باپ کے بجائے عوامی رائے پر یقین کیا‘ شاستری جی عوام کی غلط فہمی کو دل پر لے گئے۔
معاہدے کی رات انھیں دل کا دورہ پڑا اور وہ ہوٹل تاشقند میں آنجہانی ہو گئے‘ میں نے کل ہوٹل تاشقند کا بیرونی دورہ کیا اور شاستری کے کمزور دل سے اظہار یکجہتی کے لیے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی۔
اس رات کی ایک اور لائن بھی تاریخ میں محفوظ ہو گئی‘ کسی نے آدھی رات بھٹو کا دروازہ بجایا‘ بھٹو نے اندر سے پوچھا ’’ ہوز دیئر‘‘ جواب آیا ’’ باسٹرڈ از ڈائیڈ‘‘ بھٹو نے پوچھا ’’ وچ ون‘ ان کا یا ہمارا‘‘۔ ہم لوگ مزید بڑے ہوئے تو امیر تیمور کی بائیو گرافی پڑھنا شروع کر دی اور امیر تیمور کے ساتھ ساتھ ازبکستان کے رومان میں بھی گرفتار ہو گئے اور دل میں جاگتی آنکھوں اور دوڑتے قدموں کے ساتھ بخارا اور سمرقند دیکھنے کی خواہش کا بیج بو دیا۔
یہ بیج وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تناور درخت بن گیا یہاں تک کہ 6 ستمبر 2012ء آ گیا اور میں نے ایک بار پھر معاہدہ تاشقند کا واویلا سنا اور اس کے ساتھ ہی ازبکستان جانے کا فیصلہ کر لیا‘ میرے دوست قمر راٹھور کو علم ہوا تو یہ بھی میرے ساتھ شامل ہو گئے‘ ازبکستان کے سفیر تبدیل ہو گئے تھے‘ ویزہ قونصلر ظفر صاحب بھی اسلام آباد میں نہیں تھے‘ میں نے ازبک ائیر لائن کے حامد محمود سے درخواست کی اور انھوں نے بڑی مشکل سے ایک دن میں ویزے کا بندوبست کیا اور یوں ہم دونوں 21 ستمبر کو تاشقند پہنچ گئے۔
تاشقند پاکستان سے بہت نزدیک ہے‘ فلایٹ صرف ڈھائی گھنٹے میں لاہور سے تاشقند پہنچ جاتی ہے‘ پاکستان اور تاشقند کا ٹائم بھی یکساں ہے‘ پاکستان میں بارہ بجتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی تاشقند میں بھی بارہ بج جاتے ہیں‘ وقت کی اس یکسانیت کے بارے میں معلوم ہوا‘ ازبکستان کی حکومت اور عوام پاکستان کو بہت پسند کرتے تھے‘ ازبکستان 29 اگست 1991ء میں آزاد ہوا۔
آزادی کے بعد معیاری وقت کے تعین کا مرحلہ آیا تو ازبکستان نے چپ چاپ پاکستان کے معیاری وقت کو اپنا معیاری وقت بنا لیا‘ ازبکستان نے 1995ء میں اپنی کرنسی ’’ سم‘‘ لانچ کی‘ اس وقت ایک ڈالر 35 روپے میں آتا تھا‘ ازبکستان نے بھی ڈالر کا ایکس چینج ریٹ 35 سم طے کر دیا۔
1995-96ء میں ازبکستان میں 60 ہزار پاکستانی تھے اور یہ لوگ پاکستانیوں کو بہت پسند کرتے تھے لیکن افغانستان میں طالبانائزیشن کے بعد ازبکستان کے پاکستان سے تعلقات خراب ہو گئے‘ طالبان نے اس دور میں سمرقند اور بخارہ پر قبضے کا اعلان کر دیا تھا اور ازبکستان کی حکومت کا خیال تھا پاکستان اور آئی ایس آئی طالبان کو سپورٹ کر رہی ہے۔
ازبکستان نے پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کرنا شروع کیا اور ایک وقت ایسا آیا جب تاشقند میں صرف 14 پاکستانی رہ گئے اور ان میں سے بھی 9 سفارتکار تھے‘ یہ اختلافات جنرل پرویز مشرف کے دور تک جاری رہے‘ جنرل مشرف کے دور میں تعلقات دوبارہ بحال ہوئے اور اب برف آہستہ آہستہ پگھل رہی ہے۔
تاشقند ایک دلچسپ شہر ہے‘ شہر انتہائی خوبصورت اور صاف ستھرا ہے‘ ازبک لوگ بھی فطرتاً صاف ستھرے لوگ ہیں‘ یہ گھروں‘ ماحول اور گلی کوچوں کی صفائی کا خصوصی خیال رکھتے ہیں‘ ازبک بچیاں شام کو جھاڑو لے کر گھر سے نکلتی ہیں اور گلی صاف کرتی ہیں‘ تمام دفاتر میں ہفتے کے دن صفائی کی جاتی ہے اور اس میں باس سے لے کر ملازمین تک حصہ لیتے ہیں‘ لاء اینڈ آرڈر مثالی ہے۔
عوام پورے ملک میں بلا خوف پھرتے ہیں‘ نوجوان لڑکیاں آدھی آدھی رات کو اکیلی گھومتی ہںو اور کوئی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا‘ ٹریفک رولز پر سختی سے عمل ہوتا ہے‘ آپ وزیر ہوں یا جنرل ٹریفک رولز کی خلاف ورزی پر آپ کو ہر حال میں سزا ہو گی۔ آزادی کے بعد ازبکستان میں بھی طالبانائزیشن شروع ہو گئی تھی۔
ملک میں بم دھماکے اور قتل وغارت گری بھی ہوئی لیکن حکومت نے امن خراب کرنے والے لوگوں کو اڑا کر رکھ دیا‘ ملک میں منشیات‘ اسلحہ اور تبلیغ تینوں پر سخت پابندی ہے‘ یہ ان تینوں ’’ جرائم‘‘ پر ملزموں کو سزائے موت تک دے دیتے ہیں‘ دفاتر اور کھلی جگہوں پر نماز ادا نہیں کی جا سکتی‘ آپ مسجد یا گھر میں نماز پڑھ سکتے ہیں‘ داڑھی رکھنے پر پابندی تھی لیکن اب آہستہ آہستہ اس قانون میں نرمی کی جا رہی ہے‘ داڑھی پر پابندی کی وجہ سے مسجدوں کے امام بھی داڑھی کے بغیر نماز پڑھاتے ہیں۔
ملک میں گاڑی چوری کی سزا بھی موت ہے لہٰذا ملک میں گاڑی چوری کا واقعہ نہیں ہوتا‘ حکومت کے پاس دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے وسیع اختیارات ہیں اور عدالتیں اس معاملے میں حکومتی کام میں مداخلت نہیں کرتیں‘ ڈرائیونگ لائسنس کے لیے مکینک ہونا ضروری ہوتا ہے‘ حکومت کی کوشش ہوتی ہے صرف ان لوگوں کو لائسنس دیے جائیں جو ایمرجنسی میں گاڑی ٹھیک کر سکیں اور گاڑی کو ورکشاپ تک پہنچا سکیں‘ لوگ محنتی ہیں‘
بالخصوص عورتیں کام کرتی ہیں‘ آپ کو فٹ پاتھ پر خوانچہ فروشوں سے لے کر آفس تک ہر جگہ خواتین کام کرتی دکھائی دیتی ہیں‘ چارسو تاشقند کا قدیم ترین بازار ہے‘ اس بازار میں مصالحہ جات اور ڈرائی فروٹ کی دو ہزار سال پرانی مارکیٹ ہے‘ اس مارکیٹ پر خواتین کا قبضہ ہے‘ یہ سبز رنگ کی گول مارکیٹ ہے جس کے اندر سیکڑوں اوپن دکانیں ہیں اور کائونٹر نما دکانوں پر مصالحہ جات اور ڈرائی فروٹ کے کنستر اور ٹوکریاں رکھی ہیں‘ چارسو میں فروٹس‘ سبزی اور گوشت کی بھی سیکڑوں دکانیں ہیں۔
ازبکستان کی کرنسی بہت سستی ہے‘ ڈالر کے گورنمنٹ اور اوپن مارکیٹ ریٹ میں بہت فرق ہے‘ حکومت ایک ڈالر کے انیس سو سم دیتی ہے جب کہ اوپن مارکیٹ میں ایک ڈالر کے 27 سو سم مل جاتے ہیں‘ آپ سو ڈالر تبدیل کراوئیں تو آپ کو دو لاکھ ستر ہزار سم مل جائیں گے‘ میں نے دنیا میں ازبکستان سے زیادہ کسی جگہ کرنسی کی اتنی بے قدری نہیں دیکھی‘ لوگ تھیلوں اور شاپنگ بیگز میں نوٹ ڈال کر پھرتے ہیں‘ افراط زر انتہائی زیادہ ہے‘ آپ کو پانی کی بوتل تین چارہزار سم میں ملتی ہے۔
آپ ایک وقت کا کھانا تیس چالیس ہزار سم میں کھاتے ہیں لیکن افراط زر کے باوجود کھانے پینے کی اشیاء بہت سستی ہیں‘ ازبکستان میں فروٹ ارزاں اور وافر ہے‘ اناج اور گوشت بھی پاکستان سے سستا ہے‘ کھانے پینے کی اشیاء کی کوالٹی بہت اچھی ہے‘ ملاوٹ اور جعلی اشیاء کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ لوگ بے انتہا مہمان نواز ہیں‘ آپ کسی کے گھر چلے جائیں وہ آپ کو چائے پلائے بغیر نہیں جانے دے گا‘ معاشرہ محفوظ ہے چنانچہ لوگ اجنبیوں کے لیے گھروں کے دروازے کھول دیتے ہیں۔
خست امام شہر کا قدیم علاقہ ہے‘ یہ امام کفل ششی کا علاقہ ہے‘ امام صاحب امیر تیمور سے قبل اس علاقے میںآئے تھے اور انھوں نے ہزاروں لوگوں کو اسلام کے دائرے میں داخل کیا تھا‘ امیر تیمور نے خست امام کا مزار بنوایا‘ موجودہ حکومت نے مزار کے سامنے شاندار مسجد بنوائی‘ یہ مسجد بھی عجوبہ ہے‘ خست امام میں حضرت عثمان غنی ؓ کا قرآن مجید بھی زیارت کے لیے موجود ہے‘ ازبک لوگوں کا دعویٰ ہے یہ وہ قرآن مجید ہے جس کی تلاوت کرتے ہوئے حضرت عثمان غنیؓ شہید ہوئے تھے‘ اسی قسم کا ایک قرآن مجید استنبول کے توپ کاپی میوزیم میں بھی موجود ہے‘ ان دونوں میں اصل کون سا ہے اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔
خست امام کے دائیں بائیں تاشقند کا قدیم شہر واقع ہے‘ یہ شہر کچی مٹی سے بنا ہوا ہے‘ گلیاں تنگ مگر صاف ستھری ہیں‘ ہر گھر میں صحن ہے اور صحن میں انگور کی بیلیں‘ خوبانی‘ آلو بخارہ اور سیب کے درخت ہیں‘ گھروں کے کمرے مستطیل ہوتے ہیں اور صحن کے چاروں اطراف بنائے جاتے ہیں‘ کمروں کے سامنے طویل برآمدہ ہوتا ہے اور برآمدے میں ایک بڑا تخت ہوتا ہے جس پر سارا خاندان کھانا کھاتا ہے‘ تاشقند کے ہر محلے میں ایک سرکاری گھر ہوتا ہے‘ یہ گھر دراصل اولڈ پیپل ہوم ہوتا ہے‘ محلے کے بوڑھے اس گھر میں جمع ہو جاتے ہیں۔
یہ سارا دن یہاں شطرنج اور تاش کھیلتے ہیں‘ گھر میں چھوٹا سا کچن بھی ہوتا ہے‘ یہ اس کچن میں چائے اور کھانے کا بندوبست کر لیتے ہیں‘ یہ لوگ اسلام سے بے انتہا محبت کرتے ہیں‘ کھانے کے بعد دعا ان کا معمول ہے‘ یہ قبرستان کے قریب سے گزرتے ہوئے بھی ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہیں‘ رحمت ان کا خدا حافظ ہے۔
یہ رخصت ہوتے ہوئے ایک دوسرے کو رحمت کہتے ہیں اور سینے پر ہاتھ باندھ کر سلام کرتے ہیں‘ معاشرہ لبرل ہے لوگ ایک دوسرے کے معاملات میں ناک نہیں گھسیڑتے‘ مسجد اور کلب ساتھ ساتھ چل رہے ہیں اور کوئی دوسرے کے راستے میں نہیں آ رہا۔ امیر تیمور اپنے ازبکستان کو دنیا کا خوبصورت ترین ملک کہتا تھا اور اس ملک میں داخل ہونے کے بعد آپ کو تیمور کا دعویٰ غلط نہیں لگتا۔
لوگ اور ماحول دونوں انتہائی خوبصورت اور پرکشش ہیں۔میں آج حضرت امام بخاری اور حضرت بہائوالدین نقش بند کے بخارہ پہنچ گیا ہوں‘ اگلے کالم میں بخارہ کا احوال لکھوں گا۔
درمیانی راستہ
جاوید چوہدری بدھ 19 ستمبر 2012
لکھنو کے نواب کبوتر باز بھی ہوتے تھے‘ وہ طوائفوں کے کوٹھوں کے مستقل مہمان بھی ہوتے تھے‘وہ عشق میں زمین جائیداد‘ روپیہ پیسہ اور آبائو اجداد کی عزت لٹانے کے ماہر بھی تھے اور بلا کے ضدی اور ہٹ دھرم بھی ہوتے تھے‘ لکھنو کے نواب ضد میں بعض اوقات اپنا سب کچھ لٹا دیتے تھے۔
جوش ملیح آبادی بھی ان نوابوں میں شامل تھے‘ یہ ملیح آباد کے پٹھان تھے‘ خاندانی نواب تھے اور انھوں نے شاعرہونے کے باوجود نوابی میں زندگی گزاری تھی۔ جوش صاحب کی آٹو بائیو گرافی ’’ یادوں کی بارات‘‘ ہندوستان کی دس عظیم کتابوں میں شمار ہوتی ہے‘ یہ کتاب محض ایک کتاب نہیں بلکہ پورا جہاں ہے اور آپ اگر ایک بار یہ کتاب پڑھ لیں تو آپ اسے دوبارہ پڑھے بغیر نہیں رہ سکتے۔
دنیا میں تین قسم کی کتابیں ہوتی ہیں‘ بہترین‘ اچھی اور بری۔ بہترین کتاب وہ ہوتی ہے آپ جسے بار بار پڑھتے ہیں‘ اچھی کتاب وہ ہوتی ہے جسے آپ پورا پڑھ جاتے ہیں اور بری کتاب وہ ہوتی ہے جسے قاری پورا نہیں پڑھ سکتا۔
جوش ملیح آبادی کی بائیو گرافی بار بار پڑھنے والی کتاب ہے‘ جوش ملیح آبادی نے اپنی کتاب میں لکھنو کے بے شمار نوابوں کا ذکر کیا‘ ان میں ایک ایسے نواب بھی تھے جو اپنی ہٹ کے بہت پکے تھے‘ وہ اگر ایک بار کوئی بات ٹھان لیتے تھے تو یہ موقف سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹتے تھے‘ وہ مرنے اور مارنے کے لیے تیار ہو جاتے تھے لیکن اپنی بات کا شملہ نیچے نہیں ہونے دیتے تھے۔
جوش ملیح آبادی نے لکھا نواب صاحب کا جائیداد کے معاملے پر اپنے بھائی سے جھگڑا ہو گیا‘ بھائی نے اپنا حصہ مانگا‘ نواب صاحب نے انکار کر دیا‘ بھائی عدالت چلا گیا‘ جج نے جائیداد کے بٹوارے کا حکم دے دیا‘ نواب صاحب نے حکم ماننے سے انکار کر دیا‘ جج نے توہین عدالت لگا دی‘ نواب صاحب جیل چلے گئے‘ قید کاٹ کر واپس آئے تو باہر آتے ہی جائیداد پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔
جج نے دوبارہ طلب کر لیا‘ جج نے نواب صاحب سے پوچھا‘ آپ نے بھائی کی جائیداد دوبارہ چھین لی‘ نواب صاحب نے اکڑ کر جواب دیا‘ ہاں چھین لی‘ جج نے کہا‘ آپ جانتے ہیں آپ نے دوسری بار عدالت کے حکم کی خلاف ورزی کی‘ نواب صاحب نے اسی لہجے میں جواب دیا ’’ ہاں کی‘‘ جج نے کہا‘ آپ کو معلوم ہے آپ کو اس پر دوبارہ سزا ہو سکتی ہے‘ نواب صاحب نے جواب دیا ہاں تو آپ سزا دے دیجیے لیکن یہ یاد رکھیے میں جیل سے جب بھی باہر آئوں گا‘ میں اس جائیداد پر قبضہ کر لوں گا‘ جج اس جواب پرغصے میں آ گیا اور اس نے نواب صاحب کو ایک بار پھر سزا سنا دی۔
جج کا حکم ختم ہوا تو نواب نے اپنے ذاتی ملازم کو جج کے سامنے کیا اور دبنگ آواز میں بولے ’’ آپ اسے بھی میرے ساتھ جیل بھجوا دیں‘ میں جیل میں اکیلا بور ہو جاتا ہوں‘‘ جج نے مسکرا کر جواب دیا ’’ہم کسی کو بلا جرم جیل نہیں بھجوا سکتے‘‘ یہ سن کر نواب صاحب کی آنکھوں میں شرارت آ گئی‘ انھوں نے ذاتی ملازم کو مخاطب کر کے حکم دیا ’’ چل بے کلوے‘ نیچے کر پائجامہ اور کردے حجور کی عدالت میں پساب‘‘ کلوے نے حکم سنتے ہی فوراً پائجامہ نیچے کیا اور بھری عدالت میں شڑاپ شڑاپ پیشاب کر دیا‘ عدالت میں شور ہو گیا‘ جج کا رنگ فق ہو گیا اور ہرکارے کلوے کی طرف دوڑ پڑے‘ نواب صاحب نے جج کی طرف دیکھا اور قہقہہ لگا کر بولے ’’ لیجیے حجور ہو گیا جرم‘ آپ اب کلوے کو بھی میرے ساتھ اندر کر سکتے ہیں‘‘۔
کلوا نواب صاحب کا جانثار تھا‘ نواب خواہ دہلی کے ہوں‘ لکھنو ‘ حیدرآباد کے یا پھر سندھ کے‘ ان کے پاس ایسے درجنوں جانثار ہوتے ہیں‘ نواب ان لوگوں کو ہر مشکل وقت میں خطرے کے سامنے دھکیل دیتے ہیں اور یہ جانثار سامنے سانڈ ہو یا تیر اپنا سینہ کھول کر خطرے کے دوبدو ہو جاتے ہیں۔ ہمارے پیر‘ وڈیرے اور سیاستدان بھی کلوے جیسے جانثاروں کے معاملے میں خودکفیل ہیں‘ یہ بھی حسب ضرورت اپنے جانثاروں کو حکم دیتے رہتے ہیں اور یہ دہکتی ہوئی آگ میں چھلانگ لگا دیتے ہیں۔
آپ پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر میاں نواز شریف تک ملک کے تمام لیڈروں کے اردگرد ایسے درجنوں جانثار نظر آئیں گے ‘ یہ جانثارخدمت کے دوران اکثر عزت‘ دولت‘ عہدے اور جان سے گزر جاتے ہیں اور ان کی قربانیوں کے بعد لیڈر صاحبان ان کے نام تک بھول جاتے ہیں‘ میں نے زندگی میں سیکڑوں ایسے جانثار دیکھے ہیں جنہوں نے لیڈر کی خوشنودی کے لیے اپنے گھر بار تک قربان کر دیے لیکن رہنمائوں نے قربانی کے بعد انھیں یا ان کے لواحقین کو ملاقات تک کا شرف نہ بخشا‘ رہنمائوں کا یہ رویہ بھی درست ہوتا ہے کیونکہ ان کے پاس کلوئوں کی پوری فوج ہوتی ہے۔
یہ جس کلوے کو آنکھ کا اشارہ کرتے ہیںوہ سینہ کھول کر باہر نکل جاتا ہے اور اسے اگر اپنے رہنما کو خوش کرنے کے لیے دوسرے رہنمائوں کو ماں بہن کی گالی دینا پڑے‘ کسی صحافی کی کردار کشی کرنا پڑے‘ کسی لائیو شو میں مخالف کو مکا دکھانا پڑے‘ کسی جج کے ساتھ بدتمیزی کرنا پڑے‘ فوج‘ عدلیہ یا میڈیا کو للکارنا پڑے یا پھر ملک توڑنے کی دھمکی دینا پڑے وہ ایک منٹ نہیں لگاتا۔
میرے ایک سیاستدان دوست کہا کرتے ہیں‘ ہم سینیٹر‘ ایم این اے‘ ایم پی اے اور سیاسی ورکر اپنے اپنے لیڈروں کے مزارعے ہوتے ہیں‘ یہ ہمیں جس کوے کو سفید کرنے کا حکم دیتے ہیں‘ ہم روغن کا ڈبہ اور برش لے کر چل پڑتے ہیں اور اس دوران اگر ہمارے لیڈر کی سوچ بدل جائے تو ہم کوے کو آدھا سفید‘ آدھا سیاہ چھوڑ کر واپس آ جاتے ہیں اور بعض اوقات ہمیں اپنا ہی کیا ہوا رنگ اپنی زبان سے صاف کرنا پڑ جاتا ہے لیکن ہم بغیر سوچے سمجھے یہ بھی کر جاتے ہیں۔
میرے دوست کی رائے درست ہے‘ ہمارے لیڈروں کی جیب میں بے شمار کلوے ہوتے ہیں اور یہ انھیں جب بھی‘ جہاں بھی جاں نثاری کا حکم دیتے ہیں‘ یہ اسی وقت شڑاپ شڑاپ …… کر دیتے ہیں اور اس حرکت کے نتیجے میں عزت‘ مال‘ آزادی‘ ایمان اور بعض اوقات جان سے بھی گزر جاتے ہیں لیکن انھیں ذرا برابر ملال نہیں ہوتا۔
آپ اب اس پس منظر میں این آر او کیس کو رکھ کر دیکھیے‘ یہ کیس صحیح تھے یا غلط‘ اس کے محرک صدر فاروق لغاری تھے یا سیف الرحمن خان‘ آپ چند لمحوں کے لیے اس بحث سے باہر آ جائیے‘ آپ بس یہ دیکھیے‘ یہ مقدمے بنے‘ سوئس حکومت نے 60 ملین ڈالرز منجمد کیے‘ صدر پرویز مشرف کے دور میں سوئس عدالتوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو طلب کیا۔
یہ دونوں وکیلوں کے ذریعے عدالتوں میں پیش ہوئے‘ عدالتیں فیصلے تک پہنچیں لیکن فیصلہ آنے سے پہلے 5 اکتوبر 2007ء کو پرویز مشرف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان این آر او ہو گیا‘ وفاق نے ان مقدموں کی پیروی بند کر دی‘ 2008ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بنی‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سندھ ہائی کورٹ گئے۔
سندھ ہائی کورٹ نے اٹارنی جنرل کو سوئس مقدمات رکوانے کا حکم دیا اور 20 مئی 2008ء کو اٹارنی جنرل ملک قیوم نے سوئس اٹارنی جنرل کو خط لکھا اور یوں یہ مقدمات بند ہو گئے‘ سوئس اکائونٹس سے 60 ملین ڈالرز نکالے گئے‘ اس دوران این آر او سپریم کورٹ میں چیلنج ہو گیا اور سپریم کورٹ نے طویل سماعتوں کے بعد 16 دسمبر 2009ء کو این آر او کالعدم قرار دے دیا اور وفاقی حکومت کو حکم دیا یہ سوئس حکام کے نام ملک قیوم کا خط واپس لے لے لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے عدالت کا یہ فیصلہ قبول کرنے سے انکار کر دیا اور سپریم کورٹ کے سامنے جانثاروں کا لشکر کھڑا کر دیا ۔
یہ لوگ عدالت کے اندر اور باہر اپنی آن‘ بان‘ شان عزت اور جان کے ڈھیر لگاتے چلے گئے‘ جانثاروں کے اس کھیل میں یوسف رضا گیلانی جیسے جانثار نے اپنا عہدہ‘ عزت سادات اور سیاست تک قربان کر دی اور یہ آج حیرت سے لوگوں کی بدلتی ہوئی آنکھیں اور اپنے بیٹے کو عدالت کے سامنے ہتھکڑی لگتے ہوئے دیکھ رہے ہیں‘ جانثاروں کے اس کھیل میں بابر اعوان خود کو بچا گئے ورنہ یہ آج اپنے لائسنس سے بھی ہاتھ دھو چکے ہوتے اور ان کے پاس گیلانی صاحب کی بانھوں میں باہیں ڈال کر پھرنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا۔
یوسف رضا گیلانی کے بعد راجہ پرویز اشرف کی باری تھی مگر راجہ صاحب چالاک نکلے اور انھوں نے جانثاری کا ڈھول وزیر قانون فاروق ایچ نائیک کے گلے میں ڈال دیا جس پر عدالت نے وزیراعظم کو پچھلی گلی سے نکلنے کا موقع دیا اور اب قانون کے وفاقی وزیر فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑے ہیں۔ فاروق ایچ نائیک جانتے ہیں حکومت جوں ہی ملک قیوم کا خط واپس لے گی صدر کے خلاف مقدمات کھل جائیں گے ۔ نائیک صاحب یہ بھی جانتے ہیں حکومت کو اب صدر صاحب کی قربانی دینا پڑے گی یا پھر وزیر قانون کی۔
تاہم یہ سوال ابھی جواب طلب ہے کہ فاروق ایچ نائیک کو چھوٹے سائیں نے عدالت کے سامنے کھڑا کیا یا پھر بڑے سائیں نے یا پھر یہ قربانی کے لیے خود باہر نکل آئے‘ فیصلہ بہرحال صدر نے کیا یا پھر وزیراعظم نے مگر یہ طے ہے سپریم کورٹ‘ وزیراعظم اور اٹارنی جنرل ڈیڑھ ماہ سے جس درمیانی راستے کا ذکر کر رہے تھے کل سے وہ درمیانی راستہ فاروق ایچ نائیک ثابت ہو رہے ہیں اور اگر فاروق ایچ نائیک نے اس راستے میں سے کوئی اور راستہ نکالنے کی کوشش کی تو یہ بھی فارغ ہو جائیں گے اور باقی بھی اور پھر راستہ رہے گا اور نہ ہی درمیان۔
لادن ایسے پیدا ہوتے ہیں
جاوید چوہدری منگل 18 ستمبر 2012
راج پال لاہور کا ایک کتب فروش تھا‘ یہ ہندوئوں کی متعصب جماعت آریہ سماج کا ممبر تھا‘ آریہ سماج 1875ء میں بمبئی میں بنی‘ اس کا بانی سوامی دیا نند سرسوتی تھا۔
یہ قدیم ویدیوں کو دنیا کے تمام مذاہب کا ماخذ قرار دیتا تھا‘ اس کا نعرہ تھا ’’ ہندوستان صرف ہندوئوں کا‘‘ چنانچہ یہ عیسائیوں اور مسلمانوں دونوں کو ہندوستان سے نکالنا چاہتا تھا‘ اس نے مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانے کی کوششیں بھی شروع کر دیں‘ یہ اس کوشش کو ’’شدھی‘‘ کہتا تھا‘ دیانند اور اس کے شاگردوں نے مسلم علماء سے مناظروں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا جس نے ہندوستان کی سماجی زندگی میں ابال پیدا کر دیا۔
آریہ سماج ہندوستان کے مختلف علاقوں سے ہوتی ہوئی لاہور پہنچی اور دیانند نے اس شہر کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنا لیا‘ پنجاب مسلم اکثریت کا صوبہ تھا‘ اس صوبے کے دارالحکومت میں آریہ سماج کے قیام سے لاہور میں لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہو گیا‘ ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان فسادات ہونے لگے ‘ انگریز انتظامیہ کو یہ فسادات روکنے کے لیے بڑے جتن کرنا پڑتے تھے‘ دیانند سرسوتی نے ’’ سیتارتھ پرکاش‘‘ کے نام سے ایک متنازعہ کتاب بھی لکھی۔
اس کتاب کا چودھواں باب عیسائیت اور اسلام کے خلاف تھا‘ آج کا لبرل سے لبرل مسلمان بھی یہ باب پڑھتے ہوئے اپنے جذبات قابو میں نہیں رکھ سکتا‘ راج پال اس متعصب تنظیم کا فعال رکن تھا‘ یہ لاہور میں کتابیں بیچتا تھا لیکن اس کا زیادہ تر وقت مسلمانوں کے خلاف شرانگیزی میں گزرتا تھا‘ 1925-26ء میں اس کے ذہن میں شیطانی خیال آیا‘ اس نے متنازعہ اسلامی کتب سے مختلف واقعات اور ضعیف احادیث جمع کیں۔
ان میں اضافہ اور کمی کی‘ ان کو ان کے پس منظر سے الگ کیا‘ انھیں کتابی شکل دی اور 1928ء میں رنگیلا رسول (نعوذباللہ) کے نام سے انتہائی واہیات اور گستاخانہ کتاب شایع کر دی‘ آریہ سماج کے کارکنوں نے یہ کتاب چند دن میں ہندوستان بھر میں پھیلا دی‘ مسلمانوں کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آیا‘ ہندوئوں نے بے حسی کا مظاہرہ کیا اور یوں فسادات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
امیر شریعت عطاء اللہ شاہ بخاریؒ اور مولانا ظفر علی خان ؒ سمتے اس وقت کے عظیم سیاسی اور مذہبی رہنمائوں نے راج پال کے خلاف جلسے اور جلوس شروع کر دیے‘ لاہور کی فضا مکدر ہو گئی چنانچہ پولیس نے راج پال کو گرفتار کر لیا‘ انگریز سماجی لحاظ سے توہین رسالت‘ توہین مذہب اور توہین خدا کا قائل نہیں چنانچہ یہ مذہبی توہینوں کے خلاف قانون نہیں بناتا۔
یہ مذہب کو ذاتی فعل سمجھتا ہے اور اس کا خیال ہے انسان کو ہر قسم کی مذہبی آزادی ہونی چاہیے لیکن انگریز ہمیشہ یہ بھول جاتا ہے مذہب کا دائرہ واحد ایسا دائرہ ہے جس میں غیر مذہب کا پائوں آنے پر انسان انسان کو قتل کردیتا ہے اور مسلمان اللہ تعالیٰ‘ نبی اکرمؐ اور قرآن مجید کی حرمت کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں‘ مسلمان ہربات‘ ہر چیز پر سمجھوتہ کر لے گا لیکن برے سے برا مسلمان بھی نبی رسالتؐ کی حرمت پر کبھی کمپرومائز نہیں کرتا‘ عشق رسولؐ مسلمان کی وہ دکھتی رگ ہے جسے چھیڑنے والے کو یہ کبھی معاف نیںؐ کرتا‘ ہم 1926ء مںی واپس آتے ہیں۔
پولیس نے نقص امن کے جرم میں راج پال کو گرفتار کر لیا لیکن مقدمہ عدالت میں پہنچا تو معلوم ہوا انڈین ایکٹ میں مذہبی جذبات کی توہین کے بارے میں کوئی دفعہ ہی نہیں ہے چنانچہ راج پال کے وکیل نے دلائل دیے اور جج نے راج پال کی رہائی کا حکم دے دیا‘ راج پال کی رہائی لاہور کے مسلمانوں کے زخمی دلوں پر نمک کی بارش ثابت ہوئی اور یہ سسکیاں لے لے کر رونے لگے جب کہ ہندوئوں نے خوشی کے شادیانے بجانا شروع کر دیے۔
ہندوئوں کا خیال تھا‘ یہ فیصلہ ہندوستان میں ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہو گا اور ہندو اب کھل کر نبی رسالتؐ کے خلاف گستاخی کر سکیں گے اور کوئی قانون اب انھیں روک نہیں سکے گا کیونکہ ان کے پاس عدالت کا حکم نامہ موجود ہے‘ اس ساری صورتحال نے ایک غریب ترکھان کو عالم اسلام کی عظیم شخصیت بنا دیا‘ اس شخص کا نام علم دین تھا‘ یہ دھیاڑی دار ترکھان تھا‘ یہ اوزار لے کر روز گھر سے نکلتا تھا۔
دن کو ایک آدھ روپے کی مزدوری مل جاتی تھی تو کر لیتا تھا ورنہ دوسری صورت میں خالی ہاتھ گھر واپس چلا جاتا تھا‘ یہ 6ستمبر 1929 ء کو مزدوری کے لیے گھر سے نکلا‘ راستے میں امیر شریعت عطاء اللہ شاہ بخاری اور مولانا ظفر علی خان راجپال کی گستاخانہ حرکت کے خلاف تقریر کر رہے تھے‘ علم دین تقریر سننے کے لیے رک گیا‘ خطاب کے چند فقروں نے اس کی ذات میں طلاطم برپا کر دیا‘ اس نے اسی وقت بازار سے چاقو خریدا‘ سیدھا راج پال کی دکان پر گیا‘ راج پال کو اطمینان سے قتل کیا اور خود کو پولیس کے حوالے کر دیا اور تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غازی علم دین شہید کے نام سے روشن ہو گیا۔
غازی علم دین شہید کے خلاف مقدمہ چلا اور انھیں 31 اکتوبر 1929ء کو میانوالی جیل میں پھانسی دے دی گئی‘ غازی علم دین شہید پھانسی پا گئے لیکن عشق رسولؐ آج تک زندہ ہے اور یہ قیامت تک زندہ رہے گا۔
ہم اگر آج 2012ء میں بیٹھ کر اس واقعے کا تجزیہ کریں تو تین چیزیں سامنے آتی ہیں۔ اول‘ راجہ پال 1929ء کا جنونی‘ شدت پسند اور دہشت گرد تھا‘ اس کی متعصبانہ‘ جنونیت سے بھرپور اور دہشت گردانہ سوچ نے پورے ہندوستان میں فسادات شروع کرا دیے اور ان فسادات میں اس سمیت بے شمار لوگ مارے گئے۔ دوم‘ انگریز سرکار نے توہین رسالت‘ مذہبی توہین اور نظریاتی چھیڑ چھاڑ کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا تھا۔
قانون کی اس کمی نے راج پال جیسے لوگوں کو شہ دی‘ اس نے کتاب لکھی‘ گرفتار ہوا اور بعد ازاں قانون کی کمی کی وجہ سے رہا ہو گیا‘ راج پال کی رہائی نے جلتی پر تیل کا کام کیا‘ انگریز حکومت اگر اس مسئلے کو حقیقی مسئلہ سمجھتی‘ یہ توہین رسالت کے خلاف سخت قانون بناتی اور اس پر سختی سے عمل کرواتی تو راج پال کو ایسی کتاب لکھنے کی جرأت ہوتی‘ یہ جیل سے رہا ہوتا اور نہ ہی یہ عبرت ناک انجام کو پہنچتا اور سوم‘ رسول اللہ ﷺ ایسی بابرکت ذات ہیں جن کے بارے میں توہین اسلامی دنیا کا عام سا مزدور بھی برداشت نہیں کرتا اور یہ توہین اسے چند لمحوں میں غازی علم دین شہید بنا دیتی ہے۔
نبی اکرمؐ کی ذات بابرکت پر جان دینے اور جان لینے کے لیے کسی مسلمان کا عالم‘ حافظ یا پرہیز گار ہونا ضروری نہیں‘ لبرل سے لبرل‘ ماڈرن سے ماڈرن‘ پڑھے لکھے سے پڑھا لکھا اور گنہگار سے گنہگار مسلمان بھی توہین رسالت پر تڑپ اٹھتا ہے اور یہ یورپ‘ امریکا‘ کینیڈا اور جاپان جیسے ماڈرن ممالک میں رہنے کے باوجود گستاخوں کو قتل کرنے کے لیے گھر سے نکل کھڑا ہوتا ہے اور اس کے بعد سلمان رشدی ہو‘سام باسیل یا پھر ٹیری جونز ہو‘ ان لوگوں کو جان بچانے کے لیے حلیہ بھی بدلنا پڑتا ہے‘ مکان اور شہر بھی تبدیل کرنا پڑتے ہیں اور اپنا نام بھی چینج کرنا پڑتا ہے۔
یورپ اور امریکا کے دانشور ہمیشہ یہ سوال کرتے ہیں اسامہ بن لادن اور ڈاکٹر ایمن الظواہری جیسے ماڈرن‘ تعلیم یافتہ اور شہزادے عالمی دہشت گرد کیسے بن جاتے ہیں‘ یہ آج تک اس بات پر بھی حیران ہیں کہ نائن الیون میں شامل 19 نوجوانوں میں سے کسی کی داڑھی نہیں تھی‘ ان میں سے کوئی شخص کسی اسلامی مدرسے سے فارغ التیلںر نہیں تھا‘ یہ تمام نوجوان جدید تعلیم یافتہ تھے اور ان میں سے چند کے بارے میں یہ اطلاعات بھی ملی تھیں کہ یہ شراب خانوں میں بھی دکھائی دیتے تھے اور ڈسکوز میں بھی لیکن دنیا کی سب سے بڑی دہشت گردی کا ذریعہ بن گئے۔
یورپ اور امریکا کے دانشور دہائیوں سے وہ جذبہ‘ وہ چیز تلاش کر رہے ہیں جو عام سے مسلمان کو غازی علم دین شہید اور سعودی شہزادے کو اسامہ بن لادن بنا دیتی ہے‘ وہ چیز‘ وہ جذبہ نبی اکرمؐ کی ذات سے محبت ہے‘ یہ محبت وہ عمل انگیز ہے جو عام گنہگار مسلمان کو غازی اور شہید کے مرتبے پر فائز کر دیتی ہے‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ ’’ انو سینس آف مسلمز‘‘ جیسی متنازعہ اور بدبودار فلم کے چند ٹریلرز کے بعد پوری دنیا میں ہونے والے واقعات کی فلم دیکھ لیں‘ بن غازی سے لے کر قاہرہ اور کینیڈا سے لے کر کراچی تک کیا ہو رہا ہے؟
مسلمان سڑکوں پر کیوں ہیں اور امریکا اپنے سفارتکاروں کی حفاظت کے لیے مسلم ممالک میں فوج کیوں بھجوا رہا ہے؟ اور آپ احتجاج میں شامل لوگوں کو بھی دیکھئے‘ آپ کو ان میں مدارس کے بچے کم اور لبرل مسلمان زیادہ ملیں گے‘ یہ تمام لوگ غازی علم دین شہید ہیں اور یہ اس بدبودار فلم کے خالق ماڈرن راج پال کو تلاش کر رہے ہیں۔
یہ لوگ جس دن اس راج پال تک پہنچ گئے یہ اس کا وہی حشر کریں گے جو غازی علم دین شہید نے 1929ء میں راج پال کا کیا تھا چنانچہ آپ اگر مستقبل میں نائن الیون اور نئے اسامہ بن لادن سے بچنا چاہتے ہیں تو اپنے اپنے راج پالوں کے خلاف قانون سازی کر لیں ورنہ دوسری صورت میں صلیبی جنگوں کا ایک ایسا نیا سلسلہ شروع ہو جائے گا جس کا ہر دن نائن الیون ہو گا اور ہر سپاہی غازی علم دین شہید اور اسامہ بن لادن۔
برداشت
جاوید چوہدری اتوار 16 ستمبر 2012
وہ یہودی تھا اور اسلام پر پی ایچ ڈی کر رہا تھا‘ میری اس سے پیرس میں ملاقات ہوئی‘ پراس میںدنیا کا بہت بڑا اسلامک سینٹرہے اوریہ سینٹر علم کا خزانہ ہے‘ فرانسیسی ماضی میں بے شماراسلامی ممالک کے حکمران رہے‘ یہ ان ممالک سے قلمی نسخے‘ قدیم کتابیں اور قدیم مکتوبات جمع کرتے رہے‘ پیرس لاتے رہے اور پیرس میں اسلامک سینٹر بنا کر یہ خزانہ اس میں رکھ دیا۔
یہ عمارت دریائے سین کے کنارے واقع ہے‘ عمارت وسیع بھی ہے‘ خوبصورت بھی‘ جدید بھی اور آٹھ دس منزلہ بھی۔ عمارت کی چھت پر چار شاندار کیفے اور ریستوران ہیں‘ آپ چھت پر بیٹھ کر کافی بھی پی سکتے ہیں‘ کھانا بھی کھا سکتے ہیں اور پیرس شہر اور دریائے سین کا نظارہ بیت کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر حمید اللہ کا زیادہ تروقت اسی سینٹر میں گزرتا تھا‘ وہ سینٹر کے قریب رہتے تھے ‘ ان کی مسجد بھی سینٹر سے چند قدم کے فاصلے پر تھی‘ میں جب بھی پیرس جاتا ہوں۔
اس سینٹر کا چکر ضرور لگاتا ہوں‘ میں اسلام پر قدیم اور جدید کتابیں دیکھتا ہوں‘ شام کو سینٹر کی چھت پر بیٹھ کر کافی پیتا ہوں‘ اسلامی دنیا کی عقل پر ماتم کرتا ہوں اور یہ سوچتا ہوا لفٹ سے نیچے آ جاتا ہوں ’’اسلامی ممالک میں ایسا سینٹر کیوں نہیں؟‘‘ ہم نے علم کا یہ خزانہ کیوں جمع نہیں کیا اور ان لوگوں نے عیسائی ہونے کے باوجود اسلامی کتابیں کویں جمع کر رکھی ہیں۔
وہ یہودی ربی مجھے اس سینٹر کی چھت پر ملا ‘ وہ اپنی نشست سے اٹھا‘ مجھے اسلام علیکم کہا اور عربی میں گفتگو شروع کر دی‘ میں نے اس سے معذرت کی اور عرض کیا ’’میں عربی نہیں جانتا‘‘ اس نے پوچھا ’’کیا آپ مسلمان ہیں؟‘‘ میںنے جواب دیا ’’الحمداللہ‘‘۔ اس نے حیرت سے پوچھا ’’پھر آپ کو عربی کیوں نہیں آتی‘‘ میں نے عرض کیا ’’میں پاکستانی مسلمان ہوں اور پاکستان میں بچوں کو عربی کے بجائے انگریزی پڑھائی جاتی ہے‘‘ اس کے ساتھ ہی اس نے بھی قہقہہ لگایا اور میں نے بھی۔ وہ مجھے مصری مسلمان سمجھ کر میرے پاس آیا تھا‘ یورپ اور امریکا کے عیسائی اور یہودی مصریوں کو بہت پسند کرتے ہیں‘ اس کی شاید دو وجوہات ہیں۔
پہلی وجہ‘ مصری لوگوں میں ہمارے مقابلے میں زیادہ برداشت ہوتی ہے‘ یہ لوگ ہر قسم کی بات سہہ جاتے ہیں جب کہ ہم جلد بھڑک اٹھتے ہیں۔ دوسری وجہ‘ یہودیت اور عیسائیت دونوں نے اس خطے سے جنم لیا ‘ ماضی میں شام‘ لبنان‘ فلسطین اور اردن مصر کا حصہ ہوتے تھے چنانچہ یہودیت ہو یا عیسائیت ان کی بنیاد مصری علاقوں میں پڑی لہٰذا یہ لوگ مصریوں سے ڈائیلاگ میں سہولت محسوس کرتے ہیں۔
مصری لوگ ہمارے مقابلے میں زیادہ پڑھے لکھے بھی ہیں‘ یہ دین‘ سائنس اور ادب تینوں شعبوںمیں مسلم ممالک سے آگے ہیں‘ یورپ اور امریکا کے دانشور انھیں پسند کرتے ہیں مگرمیں پاکستانی بھی نکلا اور مجھے عربی بھی نہیں آتی تھی لیکن اس کے باوجود کیونکہ وہ میرے پاس آ چکا تھا چنانچہ اس نے واپس جانا خلاف تہذیب سمجھا اور وہ میرے پاس بیٹھ گیا۔ میں نے اس سے پوچھا ’’کیا آپ مسلمان ہیں؟‘‘ اس نے مسکرا کر جواب دیا ’’نہیں میں جارڈن کا یہودی ہوں۔
میں ربی ہوں اور پیرس میں اسلام پر پی ایچ ڈی کر رہا ہوں‘‘ میں نے پوچھا ’’تم اسلام کے کس پہلو پر پی ایچ ڈی کر رہے ہو‘‘ وہ شرما گیا اور تھوڑی دیر سوچ کر بولا ’’میں مسلمانوں کی شدت پسندی پر ریسرچ کر رہا ہوں‘‘ میں نے قہقہہ لگایا اور اس سے پوچھا ’’تمہاری ریسرچ کہاں تک پہنچی؟‘‘ اس نے کافی کا لمبا سپ لیا اور بولا ’’میری ریسرچ مکمل ہو چکی ہے اور میں اب پیپر لکھ رہا ہوں‘‘ میں نے پوچھا ’’تمہاری ریسرچ کی فائنڈنگ کیا ہے؟‘‘ اس نے لمبا سانس لیا‘ دائیں بائیں دیکھا‘ گردن ہلائی اور آہستہ آواز میں بولا ’’میں پانچ سال کی مسلسل ریسرچ کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں مسلمان اسلام سے زیادہ اپنے نبی سے محبت کرتے ہیں۔
یہ اسلام پر ہر قسم کا حملہ برداشت کر جاتے ہیں لیکن یہ نبی کی ذات پر اٹھنے والی کوئی انگلی برداشت نہیں کرتے‘‘ یہ جواب میرے لیے حیران کن تھا‘ میں نے کافی کا مگ میز پر رکھا اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا‘ وہ بولا ’’میری ریسرچ کے مطابق مسلمان جب بھی لڑے‘ یہ جب بھی اٹھے اور یہ جب بھی لپکے اس کی وجہ نبی اکرمﷺ کی ذات تھی‘ آپ خواہ ان کی مسجد پر قبضہ کر لیں‘ آپ ان کی حکومتیں ختم کر دیں۔
آپ قرآن مجید کی اشاعت پر پابندی لگا دیں یا آپ ان کا پورا پورا خاندان مار دیں یہ برداشت کرجائیں گے لیکن آپ جونہی ان کے رسولﷺ کا نام غلط لہجے میں لیں گے‘ یہ تڑپ اٹھیں گے اور اس کے بعد آپ پہلوان ہوںیا فرعون یہ آپ کے ساتھ ٹکرا جائیں گے‘‘ میں حیرت سے اس کی طرف دیکھتا رہا‘ وہ بولا ’’میری فائنڈنگ ہے جس دن مسلمانوں کے دل میں رسولؐ کی محبت نہیں رہے گی اس دن اسلام ختم ہو جائے گا۔
چنانچہ آپ اگر اسلام کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کومسلمانوں کے دل سے ان کا رسول نکالنا ہوگا‘‘ اس نے اس کے ساتھ ہی کافی کا مگ نیچے رکھا‘ اپنا کپڑے کا تھیلا اٹھایا‘ کندھے پر رکھا‘ سلام کیا اور اٹھ کر چلا گیا لیکن میں اس دن سے ہکا بکا بیٹھا ہوں‘ میں اس یہودی ربی کو اپنا محسن سمجھتا ہوں کیونکہ میںاس سے ملاقات سے پہلے تک صرف سماجی مسلمان تھا لیکن اس نے مجھے دو فقروں میں پورا اسلام سمجھا دیا‘ میں جان گیا رسول اللہﷺ سے محبت اسلام کی روح ہے اور یہ روح جب تک قائم ہے اس وقت تک اسلام کا وجود بھی سلامت ہے‘ جس دن یہ روح ختم ہو جائے گی اس دن ہم میں اور عیسائیوں اور یہودیوں میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔
ہم سب مسلمان جتنے بھی گناہگار‘ لبرل‘ ماڈرن اور برداشت کے چیمپئن ہو جائیں‘ ہم نبی اکرمﷺ کی ذات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے کیونکہ ہم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی حد تک حضرت اویس قرنیؓ ہے۔ حضرت اویس قرنیؓ ایک آدھ بار کے علاوہ کبھی یمن سے باہر نہیں نکلے‘ آپ کی والدہ عیل تھیں چنانچہ آپ والدہ کی خدمت کرتے رہے اور رسول اللہﷺ کی ذات سے عشق۔ اللہ تعالیٰ کو یہ خدمت اور یہ عشق اس قدر بھایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اویس قرنیؓ کو آپؐ کے دیدار کے بغیر صحابی ڈکلیئر کر دیا‘ آپ رسول اللہﷺ سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ آپ کو معلوم ہوا جنگ احد میں رسول اللہﷺ کا دانت مبارک شہید ہوگیا۔
آپ نے اپنے تمام دانت توڑ دیے۔ حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں آپؓ نے خلیفہ کو کوئی مشورہ دینا تھا‘ آپؓ نے حضرت عمر فاروقؓ کو مدینہ کی سرحد پر بلوایا‘ خود مدینہ کی حد سے باہر کھڑے رہے اور حضرت عمرؓ کو مدینہ کی حدود میں کھڑا کر کے مخاطب ہوئے‘ حضرت عمرؓ نے اس عجیب و غریب حرکت کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا ’’عمر! میں اس زمین پر کیسے پائوں رکھ سکتا ہوں جس میں نبی اکرمﷺ آرام فرما رہے ہیں‘‘ ہم مسلمان حضرت ابودجانہؓ بھی ہیں‘ حضرت ابودجانہؓ احد کے میدان میں آپ ﷺ کی حفاظت کر رہے تھے‘ رسول اللہﷺ پر تیر برس رہے تھے‘ حضرت ابودجانہؓ نے محسوس کیا میں اگر لڑوں گا تو میری پشت آپﷺ کی طرف ہو جائے گی اور یہ بے ادبی ہو گی چنانچہ آپؓ اپنا سینہ رسول اللہﷺ کی طرف کر کے کھڑے ہو گئے اور آپؓ نے تمام تیر اپنی پشت پر سہے۔
ہم سب کے اندر بھی ایسا ہی جذبہ موجزن ہے‘ تیر لوہے کا ہو یا توہین کا ہم اسے اپنی پشت اور سینے دونوں پر سہتے ہیں لیکن توہین یا زیادتی کا کوئی تیر رسول اللہﷺ کی ذات کی طرف نہیں جانے دیتے۔ یورپ اور امریکا کو اگر یقین نہ آئے تو یہ پاکستان سے لے کر طرابلس تک پھییس آگ دیکھ لے‘ یہ آگ ’’انوسینس آف مسلمز‘‘ نام کی اس فلم کے بعد بھڑکی جو ٹیری جونز جیسے بدبودار پادری کی تحریک پر سام باسیل جیسے یہودی ڈائریکٹر نے بنائی اور اس کے لیے سو متعصب یہودیوں نے 50لاکھ ڈالرز سرمایہ فراہم کیا۔
یہ فلم محض فلم نہیں بلکہ یہ توہین کا وہ گٹر ہے جس کا ڈھکنا متعصب یہودیوں اور عیسائیوں نے عالم اسلام کی برداشت دیکھنے کے لیے کھولا چنانچہ آج پوری دنیا میں امریکی اور یورپی سفارتکاروں کی زندگی دائو پر لگ گئی۔ آپ حد ملاحظہ کیجیے‘ لیبیا کے مسلمانوں نے اس بن غازی میں امریکی سفیر کو قتل کر دیا جس پر اس وقت امریکا کا قبضہ ہے جب کہ لیبیا‘ مصر‘ تیونس‘ لبنان‘ اردن‘ انڈونیشیا‘ ملائشیا‘ نائیجریا‘ مراکش‘ بنگلہ دیش اور پاکستان میں امریکی سفارتکار منہ چھپاتے پھر رہے ہیں‘ اہل مغرب کو ان واقعات سے سبق سیکھنا چاہیے اور انھیں ٹیری جونز اور سام باسیل جیسے لوگوں کے خلاف قانون سازی کرنی چاہیے۔
انھیں فیصلہ کرنا چاہیے یورپ اور امریکا کا کوئی شہری ہمارے رسولﷺ کی توہین نہیں کرے گا ورنہ دوسری صورت میں جو لوگ رسول اللہﷺ کی محبت میں اپنے منہ کے سارے دانت توڑ سکتے ہیں وہ گستاخوں کے دانتوں کے ساتھ ساتھ جبڑے بھی توڑ دیں گے۔ آپ ہم سب کی برداشت کا امتحان لے لیں لیکن آپ ہمارے عشق کا امتحان نہ لیںکیونکہ ہم عشق رسولﷺ میں جان دینے والے لوگ ہیں‘ ہم گستاخیاں برداشت نہیں کریں گے۔
ویک اپ کال
جاوید چوہدری جمعرات 13 ستمبر 2012
یہ پرانی بات ہے‘ بہت پرانی بادشاہوں کے دور کی بات۔
ا یران کاایک بادشاہ ظالم بھی تھا‘ لالچی بھی‘ عیاش بھی اور منتقم مزاج بھی‘ وہ بادشاہ بنا تو اس نے ملک میں ظلم کا بازار گرم کر دیا‘ لوٹ مار‘ عیاشی اور انتقام میں بھی جت گیا‘ ملک کے حالات خراب ہو گئے‘ بازار سنسان ہو گئے‘ لوگ نقل مکانی کرنے لگے‘ کھیت اور کارخانے اجڑ گئے اور ملک میں خشک سالی اور قحط پڑ گیا لیکن بادشاہ کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔
ہم انسان بڑی دلچسپ مخلوق ہیں‘ ہم اپنے حالات کو پوری دنیا کے حالات سمجھ لیتے ہیں‘ ہمارے نل سے صاف اور ٹھنڈا پانی آرہا ہو تو ہم سمجھتے ہیں پوری دنیا کے نل چل رہے ہیں اور ان سے بھی صاف اور ٹھنڈا پانی بہہ رہا ہے‘ ہمارے دستر خوان گرم ہوں تو ہم سمجھتے ہیں دنیا کے تمام بھوکوں کو کھانا مل رہا ہے اور اگر ہم امن‘ سکون اور اطمینان سے رہ رہے ہوں تو ہم سمجھتے ہیں دنیا کے کسی شخص کو کوئی مسئلہ‘ کوئی آزار‘ کوئی پریشانی نہیں۔
ہم انسان زندگی کو کبھی اپنی ناک سے الگ کر کے نہیں دیکھتے‘ شاید یہی وجہ ہے عوام جب روٹی روٹی کا نعرہ لگاتے ہیں تو بادشاہ لوگ حیرت سے پوچھتے ہیں اگر انھیں روٹی نہیں مل رہی تو یہ کیک کیوں نہیں کھا لیتے‘ بادشاہ لوگ ٹھیک کہتے ہیں کیونکہ ان بیچاروں کو علم ہی نہںں ہوتا کہ دنیا میں روٹی بھی مسئلہ ہے‘ ہم انسان اگر عیاشی میں غلطاں ہوں تو ہم قدرت کے انتقام‘ برے دنوں کی چاپ اور اپنے سر پر لٹکتی ہوئی مصیبت کی تلوار کو محسوس نہیں کر پاتے‘ ہم یہ سمجھ بیٹھتے ہیں عیش و طرب کا یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا اور ہمارا اقبال کبھی سرنگوں نہیں ہو گا لیکن قدرت کسی کی رشتے دار نہیں ہوتی۔
یہ کائنات اللہ تعالیٰ کے چند اصولوں پر استوار ہے اور اللہ تعالیٰ کسی شخص کے لیے اپنے اصول نہیں توڑتا۔ وہ بادشاہ بھی ایسا ہی کوتاہ فہم تھا‘ وہ سمجھتا تھا اس کا اقتدار‘ اس کا اقبال اور اس کا اختیار کبھی زوال پذیر نہیں ہو گا‘ وہ دنیا میں اسی طرح عشا کرتا رہے گا‘ بادشاہوں کے مختلف اشغال میں شکار بھی شامل ہوتا ہے‘ آپ اگر بااختیار ہوں‘ با اقتدار ہوں اور آپ کے پاس دولت بھی ہو تو آپ کا دل بے اختیار شکار کی طرف مائل ہو جاتا ہے کیونکہ آپ جب معصوم جانوروں کو اپنے کتوں کے جبڑوں میں تڑپتے دیکھتے ہیں یا آپ کا بے رحم تیر ہرن کی گردن سے پار ہوتا ہے یا آپ کی رائفل سے نکلنے والی گولی چیتے اور شیر جیسے جانوروں کو زمین پر تڑپنے پر مجبور کر دیتی ہے تو آپ کے اقتدار‘ آپ کے اختیار کا نشہ بڑھ جاتا ہے‘ آپ خود کو زمین کا خدا سمجھنے لگتے ہیں۔
وہ بادشاہ بھی شکار کے لیے جاتا تھا اور جنگل میں کئی ہفتوں تک شکار کھیلتا تھا‘ وہ معمول کے مطابق ایک بار شکار کے لیے گیااور ماضی کی کہانیوں کی طرح وہ بھی راستہ بھول گیا‘ وہ ساتھیوں سے الگ ہوا‘ اس کے گارڈز‘ اس کا لشکر کسی دوسری سمت نکل گیا اور بادشاہ کا گھوڑا اسے جنگل کے کسی اندھیرے گوشے میں لے گیا‘ بادشاہ تھک چکا تھا‘ وہ سستانے کے لیے ایک درخت کے نیچے لیٹ گیا اور اسے نیند نے زیر کر لیا۔
بادشاہ نے نیند کے دوران اپنی سانس کو اکھڑتے پایا‘ اسے محسوس ہوا جیسے وہ کسی سخت شکنجے میں پھنس گیا ہے اور وہ شکنجہ اسے آہستہ آہستہ دبا رہا ہے اور کسی بھی وقت اس کی جان نکل جائے گی‘ اس نے ہڑ بڑا کر آنکھیں کھولیں تو اس نے ایک انتہائی خوفناک منظر دیکھا‘ بادشاہ کو ایک دیو ہیکل اژدھے نے جکڑ رکھا تھا‘ بادشاہ کے پورے جسم سے اژدھا لپٹا تھااور اژدھا پھن پھلا کر اس کے منہ کے سامنے کھڑا تھا‘ بادشاہ کے منہ پر اژدھے کی پھنکاروں کی پھوار پڑ رہی تھی اور بادشاہ بار بار اژدھے کی زبان کو اپنے گالوں‘ اپنے ماتھے‘ اپنے ہونٹوں تک آتا ہوا محسوس کر رہا تھا‘ بادشاہ کی جان نکل گئی‘ وہ اپنا آخری وقت اپنے سامنے دیکھ رہا تھا۔
اژدھا ایک پہر تک بادشاہ کے بدن سے لپٹا رہا‘ وہ بار بار اپنی زبان بادشاہ کے گالوں سے رگڑتا تھا اور اس کے جسم کو اپنے شکنجے میں کستا تھا‘ شام کو اچانک اژدھے نے آسمان کی طرف دیکھا‘ گردن ہلائی‘ اپنے بل کھولے اور آہستہ آہستہ سرکتا ہوا جنگل میں غائب ہوگیا‘ بادشاہ سجدے میں گرا اور اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا‘ بادشاہ کے ساتھی چند لمحے بعد اس کے پاس پہنچ گئے۔
بادشاہ محل میں واپس آیا اور اس نے اسی وقت عیش‘ حرص‘ ظلم‘ ناانصافی اور بے ایمانی ترک کر دی‘ اس نے اپنی باقی زندگی ملک اور قوم کے لیے وقف کر دی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کا ملک دوبارہ خوشحال اور پرامن ہو گیا اور لوگ دوسرے ملکوں سے نقل مکانی کر کے اس کے ملک میں آباد ہونے لگے جب کہ بادشاہ پوری زندگی اس اژدھے کا شکریہ ادا کرتا رہا‘ وہ اسے قدرت کی وارننگ‘ قدرت کی ’’ ویک اپ کال‘‘ سمجھتا تھا‘ اس کا خیال تھا قدرت نے اس اژدھے کے ذریعے اسے یہ پیغام دیا تھا تمہاری موت اور زندگی میں آدھ انچ کا فاصلہ ہے۔
اگر یہ اژدھا اپنے جسم کو آدھ انچ ٹائٹ کر لے یا اپنا منہ آدھ انچ آگے بڑھا دے اور اپنے دانت تمہارے گال پر گاڑ دے تو تم چند لمحوں میں زندگی کی سرحد عبور کر جائو گے‘بادشاہ کا خیال تھا’’ اس اژدھے نے مجھے پیغام دیا یہ زندگی اور یہ اقتدار اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور اگر تم نے اس امانت کی قدر نہ کی تو اللہ تم پر مصیبتوں کے ایسے بے شمار اژدھے اتار دے گا اور اس کے بعد تمہیں دنیا میں کسی جگہ پناہ نہیں ملے گی‘‘۔
بادشاہ کا خیال درست تھا کیونکہ قدرت ہمیشہ انتقام لینے سے قبل ویک اپ کال یا وارننگ دیتی ہے‘ یہ انسان کو مختلف حیلوں‘ مختلف بہانوں سے پیغام دیتی ہے تم قدرت کے شکنجے سے زیادہ دور نہیں ہو‘ تم سنبھل جائو اور دنیا میں وہ کام کرو تمہیں جس کے لیے بھیجا گیا ہے‘ اگر انسان اس وارننگ‘ اس ویک اپ کال پر جاگ جائے تو بسم اللہ ورنہ دوسری صورت میں قدرت کا شکنجہ اپنے باغیوں کو کس لیتا ہے اور پھر اس شخص کو دو ارب کہکشائوں کی اس کائنات میں چھپنے کے لیے دس فٹ جگہ نہیں ملتی۔
آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ صدام حسین‘ حسنی مبارک‘ کرنل قذافی اور صدر زین العابدین کی مثال لے لیجئے‘ یہ تمام لوگ آج کی مثالیں ہیں اور آپ اپنی آنکھوں سے چند دنوں میں بشار الاسد کا حشر بھی دیکھ لیں گے‘ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے قدرت کی ویک اپ کال پرآنکھ نہیں کھولی تھی چنانچہ یہ اپنے ہی ملک میں عبرت کا نشان بن گئے۔ قدرت ہمارے حکمرانوں کو بھی سیلابوں‘ ڈینگی‘ جعلی ادویات اور آگ کی شکل میں بار بار ’’ویک اپ کال‘‘ دے رہی ہے‘ یہ ہمیں بھی بار بار بتا رہی ہے آپ بھی انسان ہیں اور آپ بھی قدرت کے انتقام سے زیادہ دور نہیں ہںح لیکن افسوس ہمارا حکمران طبقہ اس’’ ویک اپ کال‘‘ پر توجہ نہیں دے رہا۔
آپ ہر سال آنے والے سیلابوں کو دیکھئے‘ کیا یہ سیلاب بار بار یہ پیغام نہیں دے رہے‘ آپ اپنا نظام ٹھیک کر لیں‘ آپ ڈیم بنا لیں‘ آپ پانی کو روکیں ورنہ دوسری صورت میں دریا جب اپنے کناروں سے باہر نکلتا ہے تو پھر یہ کسی کی پرواہ نہیں کرتا‘ یہ راستے میں آنے والے ہر انسان کو بہا لے جاتا ہے‘ لاہور میں تین دن قبل جوتوں کی فیکٹری میں آگ لگی اور فیکٹری کا مالک اپنے بیٹے سمیت 25 لوگوں کے ساتھ جل کر مر گیا۔
کراچی میں گارمنٹس فیکٹری میں آگ لگی اور289 لوگ زندہ جل کر مر گئے‘ یہ تینوں واقعات حکمرانوں کو چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں ہمارے ملک میں سیلاب سے بچنے‘ آگ میں پھنسے لوگوں اور ملبے تلے دبے انسانوں کو نکالنے کا کوئی انتظام موجود نہیں مگر حکمران کانوں میں روئی ڈال کر بیٹھے ہیں۔
آپ تصور کیجیے اگر خدانخواستہ اس سیلاب نے کسی دن وزیراعظم ہائوس‘ ایوان صدر‘ پارلیمنٹ ہائوس‘ گورنر ہائوسز‘ چیف منسٹر ہائوسز یا رائے ونڈ کا رخ کر لیا یا کسی دن خدانخواستہ ایوان صدر‘ وزیراعظم ہائوس یا رائے ونڈ میں آگ لگ گئی تو کیا حکمران طبقے کا حشر بھی کراچی کے فیکٹری ورکروں جیسا نہیں ہو گا؟کیا یہ لوگ بھی مظفر گڑھ‘ ڈی جی خان‘ روجھان‘ خیر پور‘ عمر کوٹ‘ شاہیوالی‘ چوٹی زیریں او رراجن پور کے مظلوم لوگوں کی طرح پانی میں نہیں بہہ جائیں گے؟
یہ زلزلے‘ یہ سیلاب‘ یہ آگ اور یہ وبائیں انھیں بار بار یہ بتا رہی ہیں اب بھی وقت ہے آپ لوگ اب بھی سنبھل جائیں‘ آپ سسٹم کو ٹھیک کر لیں ورنہ آپ بھی پانچ فٹ دس انچ کے عام انسان ہیں‘ آگ‘ پانی اور وبا آپ کے لیے بھی اتنی ہی خطرناک ہے جتنی یہ کشمور‘ کراچی اور لاہور کے مظلوم شہریوں کے لیے ثابت ہوئی ہے اور اگر قدرت نے آپ پر آدھ انچ کا دائرہ تنگ کر دیا تو شاید آپ کے خاندان میں تین لاکھ روپے کی امداد لینے والا بھی کوئی نہ بچے کیونکہ آگ‘ پانی اور وباء دنیا کے کسی بادشاہ کے اقتدارکو نہیں مانتی ‘ یہ اللہ کے عذاب ہیں اور اللہ کے عذاب انسانی سروں سے گزرتے ہوئے کبھی شناختی کارڈ چیک نہیں کرتے‘ بادشاہ ہوں یا گدا گریہ سب کو بہا لے جاتے ہیں۔
علماء کرام آگے آئیں
جاوید چوہدری جمعرات 13 ستمبر 2012
رمشا اسلام آباد کی ایک مسیحی بچی ہے‘ یہ اپنے خاندان کے ساتھ جی الیون سیکٹر کی کچی آبادی میں رہتی تھی‘ رمشا کے خاندان کے لوگ سینیٹری ورکرز ہیں‘ یہ لوگوں کے گھروں میں صفائی کرتے ہیں۔
16 اگست کوملک حماد نام کا ایک شخص راکھ لے کر علاقے کی مسجد جامعہ امینیہ آیا اور امام خالد جدون کو راکھ دکھا کر دعویٰ کیا کہ رمشا نے قرآنی آیات جلائی ہیں اور یہ ان آیات کی راکھ ہے‘ امام نے محلے کے لوگوں کو بتایا‘محلے میں شور ہو گیا‘ لوگ جمع ہوئے اور انھوں نے رمشا اور اس کے خاندان کا گھیرائو کر لیا‘ پولیس آئی اور رمشا کو گرفتار کرکے لے گئی‘ رمشا پر مقدمہ بن گیا‘ یہ واقعہ اگلے دن اخبارات میں شایع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے عالمی شکل اختیار کر گیا۔
تحقیقات ابھی جاری تھیں کہ یکم ستمبر کو مدرسے کے نائب مہتمم حافظ زبیر چشتی نے انکشاف کیا‘ امام مسجد خالد جدون نے ایشو کو بڑھانے کے لیے راکھ میں قرآنی اوراق خود شامل کیے تھے‘ حافظ زبیر کے بقول امام صاحب کا خیال تھا اس سے کیس مضبوط ہو جائے گا۔حافظ زبیر نے انکشاف کیا خالد جدون جب یہ حرکت کر رہے تھے تو اعتکاف میں بیٹھے دو افراد نے انھیں سمجھانے کی کوشش بھی کی لیکن امام صاحب نہ مانے‘ حافظ زبیر کے اعترافی بیان کے بعد یکم ستمبر کو رات 11 بجے امام مسجد خالد جدون کو گرفتار کر لاا گیا۔
اس دوران چھ امریکی سینیٹروں نے صدر زرداری کو رمشا کی رہائی کے لیے خط بھی لکھ دیا‘ رمشا بے گناہ ثابت ہو گئی جس کے بعداسے رہا کر دیا گیا اور9 ستمبر کو اسے وزیراعظم کے مشیر برائے اقلیتی امور پال بھٹی کی رہائش گاہ منتقل کر دیا گیا۔10 ستمبر کو سینیٹ کی پارلیمانی کمیٹی میں انکشاف ہوا رمشا مسیح کیس میں اسلام آباد پولیس نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جلد بازی میں توہین رسالت کی ایف آئی آر درج کر دی اورایف آئی آر درج کرنے سے قبل سیشن جج تک سے اجازت نہیں لی گئی جس کے بعد یہ کیس بظاہر ختم ہو گیا لیکن یہ پوری دنیا میں پاکستان کی بے عزتی کا باعث بن گیا۔
رمشا کیس جیسے واقعات ملک کے اندرشدت بھی بڑھا رہے ہیں اور پاکستان کا بین الاقوامی امیج بھی خراب کر رہے ہیں‘ یہ درست ہے ہمارے ملک کے بعض اقلیتی شہری ہماری مذہب سے وابستگی اور عقیدت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں‘ یہ لوگ بعض اوقات جان بوجھ کر ایسے کلمات بول دیتے ہیں جس سے مسلمان شہریوں کی دل آزاری ہو‘اس کے بعد لوگ جمع ہو جاتے ہیں‘ اس شخص کے خلاف مقدمہ درج ہوجاتا ہے‘ یہ جیل چلا جاتا ہے‘ عالمی میڈیا اس خبر کو اچھالتا ہے اور اس شخص کوبعد ازاں خاندان سمیت کسی یورپی ملک میں ساشسی پناہ مل جاتی ہے۔
یہ لوگ مغربی ممالک کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے بھی بعض اوقات قرآنی اوراق‘ احادیث کی کتب اور مشہور اسلامی کتابوں کی بے حرمتی کر دیتے ہیں اور یہ واقعہ پورے ملک کو جذباتی کر دیتا ہے‘ ہم مرنے اور مارنے پر تیار ہو جاتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے ہم بھی غفلت کا مظاہرہ کر رہے ہیں‘ ہماری طرف سے بھی کوتاہی ہو رہی ہے‘ ہم مسلمان ہیں‘ ہم اسلامی معاشرے میں رہ رہے ہیں چنانچہ قرآن مجید‘ احادیث اور اسلامی کتب کی حفاظت ہماری ذمے داری ہے‘ رمشا جیسے غیر مسلموں کی نہیں‘ پاکستان کی آبادی اٹھارہ کروڑ ہو چکی ہے‘ ہمارے ملک میں 8 کروڑ گھر ہیں ‘ ہر گھر میں قرآن مجید‘ احادیث کی کتب اور اسلامی کتابیں موجود ہیں۔
ہم میں سے نوے فیصد لوگ ان کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور یہ کتابیں اپنی طبعی عمر پوری کر کے بوسیدہ بھی ہوتی ہیں‘ یہ پھٹ بھی جاتی ہیں اور یہ خراب بھی ہوتی ہیں لیکن ہم نے آج تک ان کتابوں اور ان اوراق کو ڈس پوز آف کرنے کا کوئی جدید طریقہ وضع نہیں کیا‘ ماضی میں مقدس اوراق کو پاک پانی میں بہا دیا جاتا تھا یا پھر کسی صاف جگہ پر دفن کر دیا جاتا تھا لیکن آج ملک کے زیادہ تر شہروں کا پانی گندہ ہو چکا ہے‘ ہم لوگوں نے ندیوں‘ نالوں ‘ نہروں اور دریائوں میں سیوریج ڈال دیا ہے‘ کراچی کے سمندر تک میں سیوریج کا پانی شامل ہے چنانچہ ملک کے کسی شہر کے قریب ایسا صاف پانی دستیاب نہیں جس میں قرآن مجید کے اوراق بہائے جا سکیں۔
دوسرا‘ پانی کی گزرگاہوں کے ساتھ ساتھ شہر‘ قصبے اور دیہات آباد ہو چکے ہیں‘فرض کیجیے ہم میں سے اگر کوئی شخص قرآنی اوراق پانی میں بہا بھی دے تو یہ اوراق چند میل بعد کسی نہ کسی گائوں‘ قصبے یا شہر کے قریب پہنچ کر کنارے سے لگ جائیں گے یا پھر جھاڑیوں میں الجھ جائیں گے اور ہم جب جھاڑیوں یا کناروں سے یہ اوراق جمع کریں گے توکیا اس سے ہمارے جذبات کو مزید ٹھیس نہیں پہنچے گی؟ ملک میں ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ کسی گائوں‘ قصبے یا شہر کے قریب ندی‘ نالے‘ نہر یا دریا کے کنارے سے مقدس اوراق ملے‘ لوگ جمع ہوئے اور انھوں نے صرف شک کی بنیاد پر لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔
ماضی میں مقدس اوراق کو صاف جگہوں پر دفن بھی کر دیا جاتا تھا‘ اس کے لیے عموماً قبرستان کا انتخاب کیا جاتا تھا لیکن اب آبادی کے پھیلائو کی وجہ سے شہروں‘ قصبوں اور دیہات میں صاف جگہیں کم رہ گئی ہیں‘ شہروں کے مضافات عموماً کچرے کے ڈپو یا پھر ڈمپنگ سائیٹس بن چکی ہیں یا پھر وہاں سیوریج کے پانی کے جوہڑ بنے ہیں‘ قبرستانوں کی صورتحال بھی تسلی بخش نہیں‘ قبرستانوں میں جنگلی جانور پھرتے رہتے ہیں اور ان سے مردے تک محفوظ نہیں ہیں لہٰذا آپ اگر قبرستان میں مقدس اوراق دفن کرتے ہیں تو بعض اوقات جانور انھیں کھود کر نکال لیتے ہیں اور یوں ان کی بے حرمتی ہوتی ہے‘ عام لوگوں کی زندگی بھی مصروف ہو چکی ہے۔
یہ بھی قرآنی اوراق اور احادیث کو صاف پانی میں بہانے یا صاف جگہ دفن کرنے کا تردد نہیں کرتے‘ ہم معاشرے سے بھی ڈرتے ہیں‘ ہمارا خیال ہے اگر کسی نے ہمیں قرآنی اوراق پانی میں بہاتے یا قبرستان میں دفن کرتے دیکھ لیا تو وہ ہم پر کفر یا توہین کا فتویٰ نہ لگا دے چنانچہ زیادہ تر لوگ اس تکلیف سے بچنے کے لیے پرانی اسلامی کتب ردی میں بیچ دیتے ہیں یا پھر رمشا مسیح جیسی بچیوں کے حوالے کر دیتے ہیں‘ رمشا جیسی بچیاں یہ اوراق ردی ڈپو یا کباڑیئے کے گودام میں بیچ دیتی ہیں یا پھر کسی ویران جگہ میں جلا دیتی ہیں‘ ہم میں سے اگر کوئی مسلمان انھیں یہ اوراق جلاتے ہوئے دیکھ لے یا پھر ہمیں یہ کباڑیئے کے گودام میں نظر آ جائیں تو ہم اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتے اور یوں رمشا کیس جیسے واقعات سامنے آ جاتے ہیں۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور میں اس ملک کے ہر مسلمان کو اس بے حرمتی کا ذمے دار سمجھتا ہوں‘ قرآن مجید‘ احادیث کی کتب اور اسلامی کتابیں ہمارے لیے معتبر ہیں چنانچہ ان کے تقدس کا خیال رکھنا بھی ہماری ذمے داری ہے‘ ہمارے علماء کرام کو وقت کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر اس مسئلے کا کوئی حل تجویز کرنا چاہیے‘قرآنی اوراق کو صاف پانی میں بہانے کا آپشن اب تقریباً ختم ہو چکا ہے‘ قبرستانوں میں بھی مقدس اوراق کی بے حرمتی کا احتمال ہے چنانچہ علماء کرام کو اس کا کوئی جدید حل نکالنا ہو گا‘ میرے ذہن میں اس کے دو تین حل آتے ہںھ لیکن فلہن بہرحال علماء کرام نے کرنا ہے‘ ہم شہروں‘ قصبوں اور دیہات میں مقدس اوراق کی تدفین کے لیے جگہ مخصوص کر سکتے ہیں۔
یہ جگہ قبرستان کا کوئی خاص کونا بھی ہو سکتی ہے‘ علماء کرام جگہ تجویز کرنے کے بعد اس کی باقاعدہ حد بندی کر دیں‘ اس حد پر بورڈ لگا دیا جائے اور تمام مساجد میں ہر جمعہ کو اس جگہ کے بارے میں باقاعدہ اعلان کیا جائے‘ مساجد کے صحنوں میں بھی مقدس اوراق کی تدفین کی جگہ بنائی جا سکتی ہے‘ آج کل ایسی مشینیں بھی آ گئی ہیں جو کاغذ کو باریک ذروں میں تبدیل کر دیتی ہیں‘ اگر علماء کرام اور مفتی حضرات اتفاق کریں کہ اگر کاغذ اس قدر باریک ذروں میں تقسیم ہو جائے کہ کوئی لفظ پڑھا نہ جا سکے اور کاغذ کے ان ذروں کو بعد ازاں برنر میں جلا دیا جائے تو یہ توہین نہیں ہو گی تو مقدس اوراق کو ’’ ڈس پوز آف‘‘ کرنے کے لیے مساجد میں بھی یہ مشینیں لگائی جا سکتی ہیں۔
مخیر حضرات یہ مشینیں مساجد میں لگوا دیں‘ لوگ اوراق لائیں اور امام مسجد یا مسجد کمیٹی کی موجودگی میں ان اوراق کو ’’ڈس پوز آف‘‘ کر دیں اور ہم اس ضمن میں سعودی حکومت اور سعودی علماء کی مدد بھی لے سکتے ہیں۔دنیا میں سب سے زیادہ قرآن مجید سعودی عرب میں شایع ہوتے ہیں‘ اشاعت کے دوران اکثر اوقات اوراق خراب ہو جاتے ہیں‘ سیاہی پھیل جاتی ہے‘ پرنٹنگ کوالٹی ٹھیک نہیں ہوتی یا کٹائی یا جلد سازی کے دوران آیات کٹ جاتی ہیں توبعض اوقات وہ نسخہ ’’ڈس پوز آف‘‘ کرنا پڑجاتا ہے‘ سعودی عرب نے علماء کرام اور مفتی حضرات کی مدد سے اس کا باقاعدہ ایک سسٹم بنا رکھا ہے‘ ہمارے علماء اگر مناسب سمجھیں تو یہ بھی پاکستان میں یہ سسٹم لگا سکتے ہیں‘ ہم ہر شہر‘ ہر قصبے کی میونسپل کمیٹی میں یہ سسٹم لگوا دیں۔
ہفتے کا کوئی ایک دن مخصوص کر لیں‘ اس دن علماء کرام وہاں موجود ہوں اور لوگ ان کی نگرانی میں مقدس اوراق کو ’’ڈس پوز آف‘‘ کر دیں‘ ہمارے اخبارات‘ رسائل اور جرائد میں بھی آیات اور احادیث چھپتی ہیں‘ ہم روزانہ مقدس ہستیوں کے نام بھی شایع کرتے ہیں‘ ہم اسلامی ملک ہونے کی وجہ سے اخبارات اور رسائل کو آیات اور احادیث کی اشاعت سے نہیں روک سکتے کیونکہ ہم کچھ بھی کر لیں ہمارے مضمون نگار‘ کالم نگار اور رپورٹر احادیث اور آیات کا حوالہ ضرور دیں گے‘ پاکستان میں جمعہ‘ رمضان‘ محرم‘ عید معراج النبی اور مقدس ہستیوں سے منسوب دنوں میں مذہبی نوعیت کے مضامین بھی شایع ہوں گے۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے یہ اخبارات بھی دوسرے اخبارات کے ساتھ ردی میں فروخت ہوتے ہیں اور وہاں ان کی بے حرمتی بھی ہوتی ہے‘ ہم لوگ اخبارات اور رسائل کے یہ اوراق بھی اس ذریعے سے ڈس پوز آف کر سکتے ہیں لیکن اس کے لیے علماء کرام اور مفتی حضرات کو آگے آنا ہو گا‘ہم لوگ انجانے میں گنہگار بھی ہو رہے ہیں اور ہماری غفلت کی وجہ سے رمشا جیسے واقعات بھی سامنے آ رہے ہیں جس سے معاشرے میں شدت بھی آ رہی ہے اور ہم عالمی سطح پر بدنام بھی ہو رہے ہیں چنانچہ علماء کرام اپنا کردار ادا کریں‘ یہ مقدس اوراق کی تدفین یا ’’ڈس پوز آف‘‘ کا کوئی سسٹم بنائیں ورنہ ہم اسی طرح لڑتے رہیں گے اور مرتے رہیں گے۔
کھڑکیاں
جاوید چوہدری منگل 11 ستمبر 2012
یہ عام سی کہاوت تھی اور اخبار کے کسی عام سے صفحے پر چھپی تھی لیکن یہ میری رہنما بن گئی ہے اور میں آج تک اس کے سحر سے نہیں نکل سکا۔
یہ چین کے کسی قدیم فلسفی کا قول تھا۔اس کا کہنا تھا ’’تم اگر علم حاصل کرنا چاہتے ہو تو ہزار کتابیں پڑھو اور ہزار میل سفر کرو‘‘ یہ یقیناً اس دور کا قول تھا جب کتابیں ہاتھ سے لکھی جاتی تھیں اور یہ صرف بادشاہوں‘ گورنرز اور جاگیرداروں کی ملکیت ہوتی تھیں اور کسی خوش نصیب ہی کو ان تک رسائی نصیب ہوتی تھی‘ یہ وہ دور تھا جب طالب علموں کو کتاب پڑھنے کے لیے سو سو میل دور جانا پڑتا تھا‘ یہ کتاب کے مالک تک پہنچتے تھے اور کتاب پڑھنے کے لیے سال سال جانوروں کو چارہ ڈالتے تھے‘ اس دور میں امام بخاری اور مولانا روم جیسے عالم بھی کتابوں کے لیے رئوسا کے محتاج تھے چنانچہ اس دور میں یقیناً ہزار کتابوںکا مطالعہ علم تک رسائی تھی۔
اس دور میں سفر بھی ایک مشکل فعل تھا‘ شہروں‘ شہروں جتنے ملک ہوتے تھے‘ ہر ملک کا بادشاہ‘ قانون‘ زبان اور تمدن مختلف ہوتا تھا‘ راستوں کا علم نہیں تھا‘ سفر کے ذرایع محدود تھے‘ آپ گھوڑے یا خچر پر سفر کر سکتے تھے اور یہ بھی عموماً راستے میں مر جاتے تھے‘ روپیہ‘ پیسہ اور خوراک ساتھ لے جانا مشکل ہوتا تھا‘ راستوں میں جنگل بھی ہوتے تھے اور ڈاکو بھی‘ مسافر جانوروں سے بچتا تھا تو ڈاکوئوں کے ہتھے چڑھ جاتا تھا‘ ان سے بچ جاتا تو کسی ظالم بادشاہ کی تلوار کا رزق بن جاتا اور اس سے بھی محفوظ رہتا تو بھوک اور پیاس سے مر جاتاتھا۔
راستے میں دریا اور سمندر بھی آتے تھے اور انھیں عبور کرنا تقریباً ناممکن ہوتا تھا چنانچہ لوگ جس بستی‘ جس گائوں یا جس شہر میں پیدا ہوتے تھے یہ پوری زندگی اسی میں گزار دیتے تھے حتیٰ کہ یہ پہاڑ کی دوسری طرف جھانکنے تک کی ہمت نہیں کرتے تھے‘ اس دور میں ہزار میل واقعی طویل سفر ہوتا تھا چنانچہ چین کے اس فلسفی نے ہزار کتابوں اور ہزار میل سفر کو علم کی بنیاد بنا دیا لیکن یہ قول جب ہماری نسل تک پہنچا تو اس وقت کتاب بھی عام ہو چکی تھی اور ہزار میل سفربھی ہماری روٹین بن چکا تھا چنانچہ میں نے ہزار کتابوں کو دس ہزار کتابںو اور ہزار میل کو دس ہزار میل بنا لیا۔
ہم تاریخ کے شاندار ترین دور میں زندہ ہیں‘ آج ہر وہ چیز عام انسان کی دسترس میں ہے جو سو سال پہلے تک صرف بادشاہوں‘ راجائوں اور وڈیروں کی ملکیت ہوتی تھی‘ آج سے سو سال پہلے معالج اور ادویات بادشاہوں تک محدود تھیں‘ آج سے دو سو سال پہلے تک تعلیم صرف امراء کے لیے تھی‘ آج سے ڈھائی سو سال پہلے تک سفر صرف بڑے لوگ کر سکتے تھے اور وہ بھی لشکر بنا کر چلتے تھے اور آج سے پانچ سو سال پہلے تک کتابیں صرف بادشاہوں کی دسترس میں ہوتی تھیں لیکن آج یہ تمام نعمتیں عام ہیں‘ آج صدر اوبامہ اور کینیا کا باراک حسین دونوں ایک ہی کتاب پڑھتے ہیں‘ دونوںایک ہی دوا کھاتے ہیں‘ دونوں یکساں قسم کے اسکول جاتے ہیں اور دونوں دنیا کو ایک سرے سے دوسرے سرے تک دیکھ سکتے ہیں اور اگر یہ ریکوائرمنٹس پوری کر لیتے ہیں تو انھیں دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی چنانچہ آج کے انسان پر علم کے تمام دروازے کھلے ہیں‘ ہم میں سے ہر شخص ہر قسم کا علم حاصل کر سکتا ہے۔
میں نے کوٹیشن پڑھی تو کتاب اور سفر دونوں کو زندگی کا حصہ بنا لیا‘ میں 1984ء میںمیٹرک کا طالب علم تھا‘ میں اس وقت سوات‘ کاغان اور سکردو تک پہنچ گیا‘ میں 1986ء میں گلگت سے بائی روڈ کاشغر چلا گیا اور کراچی‘ کوئٹہ اور زیارت سے اکیلا ہو آیا۔ آپ اگر بچے ہیں یا آپ کے بچے میٹرک یا ایف اے کے طالب علم ہیں تو آپ سمجھ سکتے ہیں پندرہ سولہ سال کی عمر میں بسوں‘ وینوں اور ٹرینوں پر اکیلے سفرکتنا مشکل ہوتا ہے لیکن مںں ایف اے تک آدھا ملک اکیلے گھوم چکا تھا‘ میں 1992ء میں عملی زندگی میں آیا تو میں نے سب سے پہلے پاسپورٹ بنوایا اور 1993ء میں سفر شروع کر دیے۔
میرے پاس جوں ہی ٹکٹ کے پیسے جمع ہو جاتے تھے میں کسی نہ کسی ملک کی طرف نکل جاتا تھا‘ میں وہاں کیمپنگ سائیٹس‘ یوتھ ہاسٹلوں اور وائے ایم سی اے میں رہتا تھا‘ پیدل سفر کرتا تھا‘ چنے اور چھلیاں کھاتا تھا اور لفٹ لے لے کر شہر شہر گھومتا تھا‘ 1997ء میں خوشحالی شروع ہوئی تو میں ہاسٹلوں سے ہوٹلوں میں شفٹ ہونے لگا‘ 2000ء میں زندگی تبدیل ہو گئی تو میں نے سیاحت میں بھی اضافہ کر دیا‘ میں دنیا کو ایک سرے سے دیکھ رہا ہوں اور آہستہ آہستہ دوسرے سرے کی طرف بڑھ رہا ہوں‘ میرے ان سفروں نے میرا مشاہدہ اور وژن بدل دیا‘ میں نے دنیا میں ابھرتی ہوئی قومیں بھی دیکھیں اور ان قوموں کے وہ اصول بھی جن کی وجہ سے یہ تیزی سے ابھر رہی ہیں اور مجھے زوال پذیر معاشروں میں بھی جھانکنے کا موقع ملا اور ان کے زوال کی وجوہات کے مشاہدے کا اتفاق بھی ہوا۔
میں نے ان سفروں کے دوران ماحول کو صاف رکھنے‘ دوسروں کی رائے کا احترام کرنے‘ دوسروں کے مذاہب کو برداشت کرنے‘ مسکرانے‘ قہقہہ لگانے اور خوش رہنے کے اصول بھی سیکھے اور جیو اور جینے دو کا فلسفہ بھی۔ میں آج دعوے سے کہتا ہوں میں اگر مسلسل سفر نہ کرتا تو میں مینڈک کی طرح کنوئیں تک محدود رہتا اور اس کے دائرے میں ٹراتا رہتا اور اپنی اس ٹرٹراہٹ کو دنیا کی سب سے بڑی حقیقت سمجھ کر دوسروں کی ٹرٹراہٹ کا مذاق اڑاتامگر ان سفروں نے مر ے اندر برداشت بھی پیدا کی اور لچک بھی اور آج مجھے دوسرے انسان بھی انسان دکھائی دیتے ہیں‘ مںی لوگوں کا فیصلہ مذہبی‘ نسلی اور لسانی بنیادوں پر نہیں کرتا‘ میری نظر میں دوسرے لوگ بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنا میں خود کو سمجھتا ہوں۔
کتابیں دوسرا معمول تھا جس نے مجھے زندگی کے سارے رنگ ٹٹولنے‘ ساری آوازوں کے ذائقے چکھنے‘ ساری خوشبوئوں کے لمس چھونے اور سارے خوابوں کی دھوپ چھائوں دیکھنے کا موقع دیا۔ کتاب‘ فلم اور سفر آج کے دور کے تین عظیم تحفے ہیں‘ ہم اگر آج ان سے دور ہیں تو پھر ہم 2012ء میں 1480ء کی زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ اس دور میں یہ تینوں سہولتیں نہیں تھیں‘ہمارے پاس کتاب تھی‘ فلم تھی اور نہ ہی سفر تھے‘ یہ حقیقت ہے ہم اچھی کتاب سے جو کچھ سیکھ سکتے ہیں وہ شاید ہم عمر بھر کے تجربوں سے بھی نہ سیکھ سکیں۔
ہمیں ایک معیاری فلم جو کچھ سکھا سکتی ہے وہ ہمیں شاید سو کتابیں مل کر نہ سکھا سکیں اور ہم ملک سے باہر جا کر دس دنوں میں جو کچھ سیکھتے ہیں وہ شاید ہمیں سو فلمیں‘ سو کتابیں اور سو سال کے تجربے بھی نہ سکھا سکیں‘ یورپ کے لوگوں نے باررڈرز کھلنے‘ سیجنکنٹریز بننے اور ایک دوسرے کے ملک میں سفر کرنے سے جو کچھ سیکھا وہ یہ دو ہزار سال کی تاریخ میں نہیں سیکھ سکے اور آج جو کچھ سنٹرل ایشیا کی مسلمان ریاستیں اور مشرقی یورپ کے ملک سیکھ رہے ہیں یہ سوویت یونین کے 80 سالوں میں اس سے محروم رہے۔
یہ آہنی پردے کے دوسری طرف موجود لوگوں کو اسی سال تک اپنا جانی دشمن سمجھتے رہے لیکن یہ پردہ جوں ہی ہٹا یہ دوسری طرف اپنے جیسے لوگوں کو دیکھ کر حیران رہ گئے اور آج یہ ان لوگوں کے ساتھ خوش بھی ہیں اور انھیں اپنا دوست بھی سمجھ رہے ہیں‘ آج یورپ اور سوویت یونین کی پرانی ریاستوں کے درمیان جنگیں اور نفرت ختم ہو چکی ہے اور عوام ایک دوسرے سے خوش بھی ہیں اور ایک دوسرے کی اکانومی اور معاشرت کو سپورٹ دینے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔
میں دل سے یہ سمجھتا ہوں ہمارے بارڈر کھلنے چاہئیں‘ ہمارا افغانستان‘ تاجکستان‘ ایران‘ ترکی‘ چین اور انڈیا سے عوامی رابطہ استوار ہونا چاہیے‘ ہم اپنی گاڑیوں میں امرتسر‘ دہلی‘ آگرہ‘ احمد آباد اور ممبئی جائیں اور بھارت کے لوگ ذاتی سواریوں پر لاہور‘ اسلام آباد‘ پشاور‘ کراچی اور کوئٹہ آئیں‘ ہم سری نگر دیکھیں اور وہ جھیل سیف الملوک آئیں‘ ہم کابل‘ مزار شریف‘ تہران‘ مشہد‘ انقرہ‘ قونیہ اور استنبول جائیں‘ بائی روڈ دوشنبے جائیں‘ وہاں سے بخارا اور سمر قند جائیں اور گھومتے ہوئے کاشغر اور کاشغر سے گلگت تک آ ئیں اور ہماری طرح چین کے مسلمان‘ تاجکستان کے تاجک‘ ازبکستان کے ازبک‘ ایران کے ایرانی‘ ترکی کے ترک اور انڈیا کے انڈین پورا پاکستان گھوم کر دیکھیں‘ ہمارا خطے کے دوسرے لوگوں کے ساتھ انٹرایکشن ہو‘ اس انٹرایکشن سے خطے میں استحکام بھی آئے گا اور ہم ایک دوسرے سے سیکھیں گے بھی اور ہماری برداشت میں بھی اضافہ ہو گا۔
کل پاکستان اور بھارت کے درمیان ویزے میں نرمی کا معاہدہ ہوا‘ اس معاہدے کے تحت ممبئی کراچی فیری اور دہلی اسلام آباد فضائی سروس شروع ہوگی‘ تاجروں کو 10 شہروں کے لیے ایک سال کا ملٹی پل ویزا جب کہ چھوٹے تاجروں کو5 شہروں کا 30 روز کے لیے ویزا جاری ہو گا اور فنکاروں کو ٹرپل انٹری ویزا ملے گا جب کہ سیاحتی ویزا چھ ماہ کے لیے پانچ مقامات کا ہوگا‘ یہ خوش آیند ڈویلپمنٹ ہے کیونکہ ہم اس سے ہسٹریا کی اس کیفیت سے نکل سکتے ہیں جس نے 65برس سے اس خطے کو غلام بنا رکھا ہے۔
آج اگر امریکا اور روس دوست بن سکتے ہیں‘ برطانیہ اور فرانس بھائی بھائی بن سکتے ہیں اور جرمنی اور پولینڈ کے بارڈر کھل سکتے ہیں تو ہم ایک دوسرے کے اچھے ہمسائے کیوں نہیں بن سکتے‘ ہم ایک دوسرے کے ساتھ پرامن طریقے سے کیوں نہیں رہ سکتے۔ بارڈر کھڑکیاں ہوتے ہیں اور ہم جب تک کھڑکیاں نہیں کھولتے ہم تازہ ہوائوں سے محروم رہتے ہیں اور تازہ ہوائوں کے بغیر معاشرے چل سکتے ہیں اور نہ ہی افراد‘ کھڑکیاں کھولتے رہیں تا کہ عوام پٹوں کے دوسری طرف موجود انسانوں کو محسوس کر سکیں‘ انھیں یہ معلوم ہو سکے دوسری طرف ہمارے جیسے انسان ہیں‘ نفرت نہیں۔
ایٹم بم
جاوید چوہدری ہفتہ 8 ستمبر 2012
آپ بل گیٹس کے بچوں کی مثال لیجئے‘ بل گیٹس کے تین بچے ہیں‘ جنیفر کیتھرائن ‘ روری جان اورفوبی ایڈلی ۔ یہ تینوں بچے بالترتیب 16سال‘ 14سال اور 9سال کے ہیں‘ یہ تنووں اس بل گیٹس کے بچے ہیں جو 14 سال تک دنیا کا امیر ترین شخص رہا‘ یہ دنیا کا اسٹار بھی ہے‘ دنیا کے چھ‘ ساڑھے چھ ارب لوگ اس کی عزت کرتے ہیں‘ دنیا جہاں کے حکمران‘ لیڈر اور صحافی بل گیٹس سے ملاقات کرنا‘ اس کے ساتھ تصویر بنوانا اور اسے اپنے ملک میں دعوت دینا اعزاز سمجھتے تھے چنانچہ اس کے بچوں کو منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہونا چاہیے تھا لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔
بل گیٹس کے تینوں بچے عام امریکی بچوں سے کمتر زندگی گزار رہے ہیں‘ یہ ریستورانوں میں کھانا نہیں کھاتے‘ ماں نے پوری زندگی انھیں صرف اتنے پیسے دئیے جن سے یہ اسکول میں سستا برگر خرید سکتے ہیں‘ پھل کھانے کے لیے انھیں ماں سے فرمائش کرنا پڑتی ہے‘ یہ سیر کے لیے گھر کے قریب ترین پارک میں جاتے ہیں‘ یہ بچے چھوٹی عام سی چیز خریدنے کے لیے بھی ماں سے پیسے مانگتے ہیں اور ماں پیسے دینے سے پہلے ان سے باقاعدہ پوچھ گچھ کرتی ہے اور بچوں کو بعض اوقات انکار بھی ہو جاتا ہے۔
بل گیٹس نے خود ایک انٹرویو میں کہا تھا میں نے اپنے بچوں کو ابھی تک آئی پیڈ‘ آئی پاڈ اور آئی فون لے کر نہیں دیا۔ بل گیٹس اور ملینڈا گیٹس بچوں کو زیادہ پیسے دینے کے قائل نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے دنیا کا ہر بچہ اپنے حصے کی دولت لے کر پیدا ہوتا ہے چنانچہ اس بچے کو اپنے حصے کی دولت خود تلاش کرنی چاہئے‘ ماں باپ کی دولت ماں باپ کی ہوتی ہے یا پھر عوام کی ملکیت چنانچہ بل گیٹس اور اس کی بیگم نے دنیا کی سب سے بڑی چیئرٹی آرگنائزیشن بنائی اور اپنی دولت کا 80 فیصد حصہ چیئرٹی میں لگا دیا اور یوں بل گیٹس دنیا کا سب سے زیادہ چیئرٹی کرنے والا شخص بن گیا۔
کیا ہم سب بھی اپنے بچوں کی ایسی تربیت کر رہے ہیں؟ میرا خیال ہے نہیں‘ ہم نے نئی نسل کی تربیت پرسرے سے کام ہی نہیں کیا چنانچہ ہمارے بچے تہذیب‘ شائستگی اور محنت سے باغی ہیں‘ آپ دس منٹ کے لیے بچوں کے درمیان بیٹھ جائیں‘ آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ مجھے یونیورسٹیوں کے لڑکے اور لڑکیاں فون کرتے ہیں‘ میں ان کا طرز تکلم‘ ان کی گفتگو کا لیول اور ان کے لہجے کی شدت دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہوں اور سوچتا ہوں یہ بے چارے کیسے زندگی گزاریں گے؟ زندگی کے لیے سکون‘ خوشی‘ اطمینان‘ سہولت اور کامیابی چاہیے اور اگر آپ بدتمیز ہوں‘ شائستگی سے دور ہوں‘ آپ میں محنت کا جذبہ نہ ہو اور آپ شکی‘ چڑچڑے‘ حاسد اور جذباتی ہوں تو آپ کی زندگی سے اطمینان‘ خوشی اور سکون خارج ہو جاتا ہے اور یوں آپ جیتے جی جہنم میں چلے جاتے ہیں۔
دنیا میں پڑھا لکھا شخص وہ ہوتا ہے جو لرن (سیکھنا) کر سکتا ہو‘ پھر ان چیزوں کو ڈی لرن (حافظے سے خارج) کر سکتا ہوجو اس نے غلط سیکھ لی تھیں اور پھر اچھی چیزیںری لرن (دوبارہ سیکھنا) کر سکتا ہو اور اس کے لیے سائنسی بنیادوں پر تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسان کا دماغ سافٹ وئیر اور جسم ہارڈ وئیر ہوتا ہے‘ ہم زندگی میں وہ کچھ کرتے ہیں جو ہمارا دماغ یا ہمارے دماغ کا سافٹ وئیر ہمیںکہتا ہے اور ہمارا سافٹ وئیر ماحول سے بنتا ہے‘ ہمارا دماغ ماحول سے بے شمار ایسی غلط چیزیں سیکھ لیتا ہے جو ہماری زندگی اجیرن کر دیتی ہیں اور ہم جب تک ان چیزوں کو ڈی لرن نہیں کرتے اور اس کے بعد اصل بات ری لرن نہیں کرتے ہم اس وقت تک سکون سے زندگی نہیں گزار سکتے۔
ہمیں اپنے بچوں کو لرن‘ ڈی لرن اور ری لرن کایہ میتھڈ سکھانا چاہئے۔کیا ہم انھیں یہ سیکھا رہے ہیں؟ نہیں ہر گز نہیں چنانچہ ہمارے بچے شیعہ اور سنی بن رہے ہیںاوریہ والدین کے خیالات کو نظریہ اور فلسفہ مان رہے ہیں۔ دنیا دس ہزار سال کی ریکارڈ تاریخ میں اس نتیجے پر پہنچی ہے بچوں کو گیم میں ضرور حصہ لینا چاہئے‘ اگر بچہ کوئی گیم نہیں کر رہا تو وہ صحت مند نہیں‘ ہر بچے کو مطالعہ بھی کرنا چاہئے‘ ہر بچے کو میوزک ضرور سننا چاہئے‘ فلم ضرور دیکھنی چاہئے‘ سیر کے لیے پارک ضرور جانا چاہئے‘ کوئی پرندہ یا جانور ضرور پالنا چاہئے۔
اسے سماجی قوانین مثلاً زیبرا کراسنگ سے سڑک پار کرنا‘ ٹشو پیپر‘ ریپر اور لفافہ سڑک‘ گلی یا فٹ پاتھ پرنہ پھینکنا‘ آہستہ آواز میں بات کرنا‘ دوسروں کو سر‘ جناب یا انکل کہہ کر مخاطب کرنا‘ دوسروں کے نظریات‘ خیالات اور احساسات کا احترام کرنا‘ دوسروں کی ذاتی زندگی میں ناک نہ گھسیڑنا اور کسی سے اس کا مذہب یا مسلک نہ پوچھنا جیسی سماجی عادتوں کا پابند ہونا چاہئے‘کیا ہمارے بچے کھیلنے کے لیے روزمیدان میں جاتے ہیں‘ کیا یہ لائبریریوں کے باقاعدہ ممبر ہیں‘ کیا یہ کتابیں خریدتے ہیں‘کیا یہ پرندے یا جانور پالتے ہیں اور کیا یہ دوسروں سے تہذیب اور شائستگی کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں۔
اس ہر کیا کا جواب ناں ہوگا۔امریکا میں ہر بچے کو ٹول باکس دیا جاتا ہے اور اسے اسکول میں پانچ سال کی عمر میں مکینک‘ الیکٹریشن‘ ترکھان اور پینٹر بنا دیا جاتا ہے‘ آپ نے ہالی وڈ کی فلموں میں اکثر لوگوں کو اپنی چھت‘ دیوار اور لان میں کام کرتے دیکھا ہو گا‘ آپ لوگوں کو اپنی گاڑی خود ٹھیک کرتے بھی دیکھتے ہوں گے اور آپ انھیں اپنے گھر‘ اپنے کمرے میں روغن کرتے بھی دیکھتے ہیں‘ یہ حرکات صرف فلموں تک محدود نہیں بلکہ ہر امریکی عملی زندگی میں بھی یہ کرتا ہے اور اسے اسکول میں اس کی باقاعدہ ٹریننگ دی جاتی ہے۔
مجھے شکاگو سے ڈھائی گھنٹے کی ڈرائیونگ پر ایک گائوں میں رات گزارنے کا اتفاق ہوا‘ میرے میزبان گھرانے میں تین لوگ تھے‘ جان‘ اس کی بیگم کیتھی اور ان کا جوان بیٹا پیٹر۔ یہ تین لوگ ساڑھے بارہ سو ایکڑ (ایک ہزار دوسو ایکڑ) زمین سنبھالتے تھے‘ یہ زمین خود اپنے ہاتھوں سے ہموار کرتے تھے‘ اس میں بیج ڈالتے تھے‘ پانی دیتے تھے‘ کھاد اور ادویات ڈالتے تھے‘ فصل کاٹتے تھے‘ اس کو پیک کرتے تھے اور خود منڈی تک چھوڑ کر آتے تھے‘ یہ اپنے آلات اور مشینیں بھی خود ٹھیک کرتے تھے۔
میں نے تحقیق کی تو معلوم ہوا گائوں میں دو سو گھرانے ہیں اور یہ تمام لوگ ہزار ہزار‘ دو دو ہزار ایکڑ زمین سنبھال رہے ہیں‘ یہ کیا ہے؟ یہ وہ تربیت ہے جو امریکی معاشرہ اپنے بچوں کو دیتا ہے‘ یہ انھیں بچپن ہی میں محنت کی لت لگا دیتا ہے چنانچہ ان کے بچے پوری زندگی محنت کرتے ہیں‘ امریکا کے 90 فیصد لوگ روزانہ ورزش کرتے ہیں‘ آپ امریکی صدور اور وزیروں کو جاگنگ کرتے دیکھتے ہیں‘ آپ انھیں درخت کاٹتے‘ پکنک مناتے‘ کھانا پکاتے اور کپڑے دھوتے بھی دیکھتے ہیں‘ یہ کیا ہے ؟یہ ان کے بچپن کی وہ عادت ہے جو پوری زندگی ان کے ساتھ رہتی ہے۔
امریکا کا ہر باپ خواہ وہ بل گیٹس ہی کیوں نہ ہو‘ خواہ وہ بش یا بل کلنٹن ہی کیوں نہ ہو یہ اپنے بچوں کو جاب ضرور کرواتا ہے‘ کیوں؟ تا کہ ان کا بچہ لوگوں کے ساتھ کام کرنا سیکھ جائے‘ یہ ملازمین کے مسائل کا ادراک کر سکے اور یہ جب اپنا کام شروع کرے یا کمپنی یا پارٹی سنبھالے تو اسے عام آدمی کی نفسیات اور مسائل کا ادراک ہو‘ اسے دوسروں سے کام لینے کا سلیقہ ہولیکن کیا ہم بھی ایسا کرتے ہیں؟ کیا ہمارے خوشحال خاندانوں کے بچوں کو ملازمتیں کروائی جاتی ہیں؟
یورپ اور امریکا کے والدین اپنے بچوں کو گاڑیاں نہیں دیتے‘ یہ انھیں بڑے بڑے گھر بھی بنا کر نہیں دیتے‘ یہ بچوں کو اعلیٰ تعلیم دیتے ہیں اور اس کے بعد انھیں گاڑی اور گھر کے حصول کے لیے معاشرے میں دھکیل دیتے ہیں اور یہ بچے اپنی گاڑی‘ اپنا گھر خود حاصل کرتے ہیں‘ والدین وہاں بچے کو آزاد سوچ بھی دیتے ہیں‘ یہ انھیں بچپن ہی میں باور کرا دیتے ہیں یہ تمام آسائشیں‘ یہ تمام چیزیں ہماری ہیں‘ یہ تمہیں نہیں ملیں گی اور ان کے حصول کے لیے تمہیںخود محنت کرنا پڑے گی چنانچہ ان کے بچے جوان ہوتے ہی اپنا کنواں کھودنا شروع کر دیتے ہںں جب کہ ہمارے ملک میں والدین کو مرنے تک اپنے بچوں کی راہنمائی اور مدد کرنا پڑتی ہے ‘ کیوں؟ کیونکہ ہم انھیں خود مختار ہونے کی سوچ ہی نہیں دیتے چنانچہ ہمارے بچے معاشرے اور ملک دونوں کے لیے مسئلہ بنتے جا رہے ہیں۔
کاش حکومت اور والدین بچوں کی تربیت پر بھی توجہ دیں‘ یہ جان لیں تعلیم سب کچھ نہیں ہوتی تربیت اس سے زیادہ ضروری ہوتی ہے‘ تعلیم کے ساتھ اگرتربیت نہ ہو تو بچہ ایسا ایٹم بم ثابت ہوتا ہے جس کے ساتھ فیوز نہیں ہے‘ ہمیں آج کے دورمیں تعلیم یافتہ کے ساتھ تربیت یافتہ بچے چاہئیں ورنہ یہ بچے اس ملک بلکہ دنیا کے لیے خطرناک ثابت ہوں گے‘ یہ خود آرام سے رہیں گے اور نہ ہی دنیا کو سکون سے رہنے دیں گے۔

پاکستان تحریک انصاف کا المیہ
جاوید چوہدری جمعـء 7 ستمبر 2012
لاہور میںاس رمضان کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے مقامی رہنمائوں نے عوامی افطاری کا بندوبست کر رکھا تھاجس میں شاہ محمودقریشی اور میاں اظہر نے خطاب کرنا تھا۔
عوام افطار پارٹی میں شریک ہوئے‘ منتظمین نے کھانے پینے کا سامان لگانا شروع کر دیا‘ افطار میں ابھی آدھ گھنٹہ باقی تھا‘ عوام نے کھانے پینے کا سامان دیکھا تو یہ بپھر گئے اور انھوں نے کھانا ’’لوٹنا‘‘ شروع کر دیا‘ یہ ٹرے‘ دیگ اور دیگچوں میں ہاتھ ڈال کر کھانا نکالنے لگے‘ یہ ایک دوسرے سے الجھ بھی رہے تھے‘ ایک دوسرے کو گالیاں بھی دے رہے تھے اور ایک دوسرے کے کپڑے بھی پھاڑ رہے تھے ‘کھانے کی لوٹ مار میں شامل لوگوں نے اس دوران کھانا بھی شروع کر دیا یوں افطار سے پندرہ بیس منٹ پہلے تحریک انصاف کی افطاری شروع ہو گئی اور مغرب کی اذان کے وقت جب لاہور کے شہریوں نے پہلی کھجور اٹھائی تو پاکستان تحریک انصاف کی افطاری نقطہ انجام کو پہنچ چکی تھی۔
یہ عوامی بدنظمی کا پہلا واقعہ نہیں تھا‘ اس سے قبل 20 دسمبر 2011ء کو عوام قصور کے جلسے میں جلسہ گاہ کی 30 ہزار کرسیاں اٹھا کر لے گئے‘ یہ کرسیاں خورشید محمود قصوری نے منگوائی تھیں اور ان کا مقصد عوام کو کھڑے رہنے کی دقت سے بچانا تھا‘ قصوری صاحب افورڈ کر سکتے ہیں چنانچہ انھوں نے 30 ہزار کرسیاں خریدیں اور اپنے حلقے کے عوام کو باعزت طریقے سے بیٹھنے کے لیے فراہم کر دیں لیکن عین جس وقت عمران خان قوم سے خطاب کر رہے تھے عوام کرسیاں لوٹ رہے تھے اور آپ اسی طرح راولپنڈی کے 27مئی 2012ء کے جلسے کی صورتحال بھی دیکھئے۔
یہ جلسہ بھی عمران خان کے کامیاب ترین جلسوں میں شمار ہوتا ہے لیکن جلسے کے دوران عمران خان کے متوالوں نے اپنی عمر بھر کی محرومیوں کا بدلہ لیاقت باغ سے لینا شروع کر دیا‘ انھوں نے پارک کے پودے‘ درخت‘ لائیٹس اور گملے توڑ دیئے‘ انھوں نے مری روڈ پر بھی تباہی مچادی‘ یہ تینوں واقعات باقاعدہ رپورٹ بھی ہوئے اور پاکستان کے ٹیلی ویژن چینلز نے اٹھارہ کروڑ عوام کو براہ راست بھی دکھائے ‘ آپ اس وقت بھی یو ٹیوب پر ان کی ’’ زیارت‘‘ کر سکتے ہیں اور عمران خان کی پوری پارٹی کے پاس ان حملوں کا کوئی جواز نہیں۔
یہ حقیقت ہے عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان میں تیزی سے مقبول ہو رہی ہے‘ یہ تیسری پارٹی بن کر ابھری ہے اور اس وقت تیسری جماعت کی شدید ضرورت ہے اور اگر پاکستان تحریک انصاف ملک کی دونوں بڑی جماعتوں کو ’’ ری پلیس‘‘ کر لیتی ہے تو پاکستان کے سنبھلنے اور ترقی کرنے کے امکانات پیدا ہو جائیں گے‘ یہ بھی حقیقت ہے عمران خان ان تھک‘ بے خوف اور اسٹریٹ فارورڈ شخص ہیں‘ یہ معاشی لحاظ سے کرپٹ بھی نہیں ہیں‘ ان کا انٹرنیشنل ایکسپوژر بھی ہے اور یہ میاں برادران اور زرداری خاندان کی طرح کسی ایسی لمبی چوڑی فیملی کے مالک بھی نہیں ہیں جو اقتدار میں آ کر تباہی پھیلا دے گی۔
یہ بھی حقیقت ہے پاکستان کا نوجوان طبقہ تیزی سے عمران خان کے گرد جمع ہو رہا ہے‘ عمران خان نے نوجوانوں کو ووٹ بنوانے کا حکم دیا تو دس سے پندرہ ہزار نوجوانوں نے روزانہ اپنا ووٹ رجسٹر کروایا‘ یہ بھی حقیقت ہے اگر عمران سمجھ داری سے چلے تو یہ اس الیکشن میں دونوں جماعتوں میں ’’ڈنٹ‘‘ ڈالیں گے اور اگلا الیکشن ’’ کلین سویپ‘‘ کر جائیں گے اور یہ بھی حقیقت ہے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے صاف ستھرے لوگ ‘یہ خواہ رضا ربانی ہوں‘ ذوالفقار مرزا ہوں‘ مہتاب عباسی ہوں‘ خواجہ آصف ہوں یا پھر ہمایوں اختر ہوںیہ اگلے چند برسوں مںے عمران خان کے ساتھ شامل ہو جائیں گے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے عمران خان کو اگر مستقبل میں کسی سے خطرہ ہے تو یہ اس کے متوالے ہیں اور عمران خان کو ابھی سے ان کے بارے میں کوئی پالیسی بنانا پڑے گی۔
پاکستان تحریک انصاف نوجوانوں میں مقبول ہے‘ پاکستان تحریک انصاف میںدوسری جماعتوں کے مقابلے میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے نوجوانوں کی باقاعدہ تربیت نہیں ہوئی‘ پاکستان میں ایوب خان کے بعد نوجوانوں کی تربیت کا کوئی بندوبست نہیں کیا گیا‘ پوری قوم بچوں کو تعلیم دینے میں جت گئی لیکن یہ بھول گئی اگر تعلیم کے ساتھ تربیت نہ ہو تو تعلیم قوموں کے بحران میں اضافہ کر دیتی ہے چنانچہ ہمارے نوجوانوں کی اکثریت کو ’’ بی ہیو‘‘ کرنا نہیں آتا‘ یہ آرگومنٹ کو بدتمیزی تک لے جاتے ہیں‘ یہ اختلاف کو دشمنی سمجھ لیتے ہیں اور یہ گالی دینے‘ توڑ پھوڑ کرنے اور ہاتھ گریبان تک لے جانے کو آزادی سمجھتے ہیں اور عمران خان ان جذباتی اور بے تربیت لوگوں میں پھنس چکے ہیں اور ان نوجوانوں کی جذباتیت اور حرکتوں کی وجہ سے ان کی پارٹی مذاق بنتی جا رہی ہے۔
آپ اس کا مظاہرہ پاکستان تحریک انصاف کے جلسوں میں بھی دیکھ رہے ہیں اور انٹرنیٹ پر بھی۔ عمران خان کے چاہنے والے فیس بک‘ ٹیوٹر اور بلاگز میں پاکستان تحریک انصاف سے اختلاف کرنے یا عمران خان کو مشورے دینے والوں کو ماں بہن کی گالی دیتے ہیں اور یہ گالی دینے والے عام‘ جاہل یا کم پڑھے لکھے نوجوان نہیں ہیں‘ یہ پاکستان کے ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہیں جن کے پاس کیویںٹر بھی ہے‘ جو انٹرنیٹ کا بل بھی ادا کر سکتے ہیں‘ جنہوں نے اپنے موبائل میںانٹرنیٹ کی سہولت بھی ایکٹو کرا رکھی ہے‘ جنھیں انگریزی پڑھنی اور لکھنی بھی آتی ہے اور جو سوشل میڈیا کی رسائی اور طاقت سے بھی واقف ہیں۔
اب سوال یہ ہے اگر یہ پڑھے لکھے نوجوان عمران خان کو سامنے رکھ کر کالم نگاروں‘ اینکر پرسنز اور عمران خان سے اختلاف کرنے والے سیاستدانوں کو ماں بہن کی گالیاں دیں گے تو اس سے عمران خان کے امیج کو کس قدر ٹھیس پہنچے گی؟ یہ عوام میں کس قدر بدنام ہوں گے آپ اس کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں۔ میرا فیس بک پیج پاکستان کا تیسرا یا چوتھا بڑا پیج ہے‘ اس میں اڑھائی لاکھ لوگ ہیں‘ میں اپنے پیج پر روزانہ’’ اعلیٰ تعلیم یافتہ ‘‘نوجوانوں کے تاثرات پڑھتا ہوں ‘ نوجوان نسل کے مستقبل پر ماتم کرتا ہوں اور ساتھ ہی عمران خان کے انجام سے ڈر جاتا ہوں کیونکہ عمران خان جب ان نوجوانوں کے ووٹ سے ملک کے حکمران بنیں گے تو یہ لوگ چھ ماہ بعد ان کے ساتھ وہ سلوک کریں گے جو انھوں نے لاہور کی افطاری‘ قصور کے جلسے اور راولپنڈی کی ریلی میں کھانے‘ کرسیوں اور درختوں‘ پودوں اور مری روڈ کے ساتھ کیا تھا اور جو یہ سوشل میڈیا پر عمران خان کے ہمدردوں کے ساتھ کرتے ہیں۔
یہ رویہ انتہائی نامناسب ہے لیکن میں اس میں نوجوانوں کو زیادہ ذمے دار نہیں سمجھتا‘ یہ بے چارے ہیں کیونکہ انھیں آج تک کسی نے تربیت ہی نہیں دی‘ یہ اسکول میں بھی تربیت سے محروم ہیں اور گھر اور معاشرے میں بھی۔ ہم لوگ بچوں کوبات کرنے‘ اختلاف کرنے اور ملک کی چیزوں کو سنبھالنے کی ٹریننگ ہی نہیں دیتے‘ ہم نے آج تک انھیں بتایا ہی نہیں آپ جلسہ گاہ سے ایک کرسی اٹھا کر لے جائیں تو آپ کو پانچ چھ سو روپے کا فائدہ ہو گا لیکن ملک کا کروڑوں اربوں روپے کا امیج خراب ہو جائے گا اور آپ جب کسی کو گالی دیتے ہیں تو آپ پورے معاشرے کو بیمار کر دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
یہ بے چارے ان باتوں اور ان حرکتوں کے رد عمل سے واقف ہی نہیں ہیں‘ ہماری حکومتوں نے تربیت پر توجہ نہیں دی چنانچہ آج حالات یہ ہو گئے ہیں ملک میں ہر شخص کے منہ پر دس دس گالیاں لکھی ہیں اور ہماری زبانیں شعلے اگل رہی ہیں‘ یہ لوگ عمران خان کو دل سے چاہتے ہیں چنانچہ اگر عمران خان ان لوگوں کی تربیت پر توجہ دیں‘ یہ ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں اپنی مدد آپ کے تحت ٹریننگ سینٹر بنا ئیں‘ یہ سینٹر ان کے پہلی‘ دوسری اور تیسری صف کے لیڈر چلائیں اور یہ لوگ وہاں نوجوانوں کو تہذیب اور شائستگی کے دو دو ہفتے کے تربیتی کورسز کروائیں‘ یہ انھیں جاب حاصل کرنے‘ چھوٹے کاروبار کرنے‘ تہذیب کے ساتھ گفتگو کرنے اور دوسروں کے خیالات کی قدر کرنے کی تربیت دیں تو ملک میں بھی انقلاب آ سکتا ہے اور عمران خان کی پارٹی کی جڑیںبھی مضبوط ہو سکتی ہیں۔
عمران خان کی پارٹی ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے جس کے پاس پڑھے لکھے لوگ ہیں‘ خان صاحب ان لوگوں کو یہ ٹاسک دے سکتے ہیں‘ یہ اپنے کارکنوں سے یہ حلف بھی لے سکتے ہیں ہم میں سے کوئی شخص گالی دے گا‘ ہم کسی چیز پر حملہ کریں گے اور نہ ہی ہم کوئی چیز توڑیں گے‘ میں سمجھتا ہوں اگر عمران خان اس قوم کو قطار بنانے کا طریقہ سکھا دیں‘ یہ اپنی پارٹی کے کارکنوں کو قائل کر لیں‘ ہمارا ہر کارکن قطار میں کھڑا ہو گا خواہ یہ قطار ایک آدمی پر ہی مشتمل کیوں نہ ہو اور ہم بارشوں اور بہار کے موسم میں پورے ملک میں کروڑوں پودے لگائیں گے اور ان پودوں کی حفاظت بھی کریں گے اور ہم میں سے ہر شخص گلی محلے میں صفائی رکھے گا تویقین کیجیے عمران خان واقعی ملک میں سوشل سونامی لے آئیں گے لیکن عمران خان بدقسمتی سے اس پر توجہ دینے کی بجائے سیاست کی اس پٹڑی پر چڑھ رہے ہیں جس نے پرانی پارٹیوں کو برباد کر دیا اور یہ روایتی سیاست پاکستان تحریک انصاف کا المیہ بن رہی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کا المیہ
جاوید چوہدری بدھ 5 ستمبر 2012
میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صدر آصف علی زرداری کا ’’ فین‘‘ ہوتا جا رہا ہوں‘ ہم مانیں نہ مانیں لیکن یہ پاکستان کی تاریخ کے کامیاب ترین سیاستدان ہیں۔
انھوں نے ساڑھے چار سال میں پاکستان اور عالمی سیاست کے مہروں کو ماہر شطرنج باز کی طرح کھیلا اور انھیں ایسی صورتحال میں لے گئے جہاں سے نکلنا شاید اب ان کے لیے ممکن نہ ہو‘ صدر آصف علی زرداری نے پاکستان مسلم لیگ ن کے گلے میں پنجاب کا ڈھول باندھ دیا‘ اس ڈھول کی وجہ سے یہ آج تک کھل کر پیپلز پارٹی کی مخالفت نہیں کر سکی‘ اے این پی کو خیبر پختونخواہ دے دیا گیا‘ بلوچستان کی حکومت بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتوں میں تھوڑی تھوڑی تقسیم کر دی گئی‘ بلوچستان اسمبلی میں 65 ارکان ہیں‘
صدر نے 41 کو وزیر بنا دیا جب کہ باقی مشیروں کے عہدوں پر فائز ہیں چنانچہ وہاں حکومت کا کوئی مخالف نہیں رہا‘ ایم کیو ایم کا کراچی اور حیدر آباد میں ہولڈ ہے‘ اسے سندھ اور وفاق کی حکومتوں میں شامل کر لیا گیا‘ جے یو آئی خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے چند علاقوں میں مضبوط ہے‘ صدر نے اسے وفاق اور بلوچستان کے اقتدار میں شامل رکھا‘ مولانا فضل الرحمان 14 دسمبر 2010ء کو اتحاد سے الگ ہو گئے لیکن انھیں آج بھی سرکاری سیکیورٹی اور بلوچستان حکومت میں حصہ مل رہا ہے‘
پاکستان مسلم لیگ ق گو زرداری گو کے نعرے لگاتی تھی صدر نے اس کی ساری ’’مانگیں‘‘ پوری کر کے اس کو بھی اتحاد میں شامل کر لیا اور آج پاکستان کی نائب وزارت عظمیٰ سے لے کر 15 وفاقی وزارتیں اور مشاورتیں ان کے پاس ہیں‘ صدر نے مسلم لیگ فنگشنل‘ فاٹا کے اراکین اسمبلی اور آزاد ارکان اسمبلی کو بھی اقتدار میں شامل کر رکھا ہے‘ پاکستان میں ہر جمہوری حکومت کو فوج اور امریکا سے خطرہ رہتا ہے لیکن صدر نے انھیں بھی اپنا پارٹنر بنا لیا‘
یہ فوج کا ہر مطالبہ مان لیتے ہیں‘ یہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو ان کی مرضی کے مطابق ایکسٹینشن تک دے دیتے ہیں چنانچہ فوج بھی ان کی پارٹنر ہے‘ یہ امریکا کو پورے ملک میں کھل کھنےچن کا موقع بھی فراہم کر رہے ہیں‘ امریکا اگر ایبٹ آباد میں اپنے فوجی اتارنا چاہے تو بھی حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا لہٰذا امریکا بھی صدر کے ساتھ اقتدار میں شامل ہے۔
صدر نے تمام اسٹیک ہولڈرز کو صرف راضی نہیں رکھا بلکہ انھوں نے ان تمام کے سروں پر ایک ایک تلوار بھی لٹکا رکھی ہے‘ یہ تلوار کمزور دھاگے سے بندھی ہے اور یہ لوگ جانتے ہیں جس دن انھوں نے صدر کو زیادہ تنگ کیا یہ دھاگہ توڑ دیں گے اور یوں ان کی گردن ماری جائے گی مثلاً پاکستان مسلم لیگ ن کے سامنے پاکستان تحریک انصاف کا آرا لگا دیا گیا ہے اور یہ آرا بڑی تیزی سے ن لیگ کی شاخیں اور تنے کاٹ رہا ہے‘
پاکستان تحریک انصاف کی ٹانگ پر ایجنسیوں اور ملک ریاض کا پٹاخہ باندھ دیا گیا ہے‘ عمران خان جب بھی صدر آصف علی زرداری کے قلعے میں نقب لگانے کی کوشش کرتے ہیں‘ ان کی ٹانگ پر بندھا کوئی نہ کوئی پٹاخہ پھٹ جاتا ہے اور پاکستان تحریک انصاف چھلانگیں لگانے لگتی ہے‘ ایم کیو ایم کے سر پر ذوالفقار مرزا کی تلوار لٹک رہی ہے‘ ایم کیو ایم جوں ہی حکومت کو آنکھیں دکھاتی ہے‘ ذوالفقار مرزا ٹیلی ویژن اسکرین پر آجاتے ہیں‘ یوسف رضا گیلانی مضبوط ہونے لگے تو ان کے گلے میں حج اور ایفی ڈرین کے استرے باندھ دیے گئے‘
پاکستان مسلم لیگ ق کے لیے پنجاب بینک سکینڈل اور این آئی سی ایل کافی تھے‘ میاں برادران جب بھی صدر کی کرپشن کا معاملہ اٹھاتے ہیں‘ رحمان ملک میاں برادران کی فائلیں کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور پیچھے رہ گیا امریکا‘ فوج اور عدلیہ تو صدر نے ان کا بھی ٹھیک ٹھاک بندوبست کر رکھا ہے۔ امریکا اور فوج کو آمنے سامنے بٹھا کر میز پر ریمنڈ ڈیوس‘ ایبٹ آباد آپریشن‘ سلالہ چیک پوسٹ حملہ‘ نیٹو سپلائی اور شمالی وزیرستان آپریشن کی چھریاں اور کانٹے رکھ دیے گئے اور یہ ان چھری کانٹوں سے ایک دوسرے پر حملے کر رہے ہیں‘
عدلیہ کو بیک فُٹ پر لانے کے لیے ڈاکٹر ارسلان کیس میدان میں آ گیا اور اب میڈیا کو لگام ڈالنے کے لیے سوشل میڈیا استعمال کیا جا رہا ہے‘ حکومت عنقریب کالم نگاروں اور اینکر پرسنز کے بارے میں ایسی ایسی معلومات ’’لیک‘‘ کرے گی کہ بیچارے باقی زندگی وضاحت کرتے کرتے گزار دیں گے اور رہ گئے میڈیا مالکان تو ان کے لیے ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کافی ہو گا چنانچہ صدر نے تمام خطرات کو مفادات اور تلواروں میں الجھا کر اپنی اپنی جگہ ’’ فکس‘‘ کر دیا ہے اور سیاست کا مطلب اگر بلاشرکت غیرے اقتدار ہے تو صدر آصف علی زرداری تاریخ کے کامیاب ترین سیاستدان ہیں اور ہمیں یہ ماننا پڑے گا۔
یہ حقیقت ہے ملک کا کوئی طبقہ ان سے خوش نہیں لیکن کوئی انھیں ہٹا نہیں سکتا اور یہ آج بھی ملک کے مضبوط ترین شخص ہیں اور اگر آج بے نظیر بھٹو زندہ ہوتیں تو ان کی حکومت بمشکل دو سال نکال پاتی اور یہ آج جیل میں ہوتیں یا پھر دوبارہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہوتیں‘ یہ صدر آصف علی زرداری ہیں جو پارٹی کو بھی چلا رہے ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی کی تاریخ میں پہلی بار حکومت کو پانچویں سال تک بھی لے آئے ہیں لیکن‘ لیکن اور لیکن! یہ بھی حقیقت ہے پاکستان پیپلز پارٹی نے ساڑھے چار برسوں میں اس ملک کو چلنے کے قابل نہیں چھوڑا‘ یہ ملک تباہی کے اس گڑھے تک پہنچ گیا ہے جہاں سے اب شاید فرشتے بھی اسے واپس نہ لا سکیں‘ ہمیں دوبارہ ٹریک پر آنے کے لیے یہ ملک ایک بار پھر بنانا پڑے گا‘ اس کے تمام ادارے توڑنا پڑیں گے اور اس کے بعد ان اداروں کی نئی بناکد رکھنا پڑے گی اور یہ شاید خونی انقلاب یا ایٹمی جنگ کے بغیر ممکن نہ ہو۔
پاکستان پیپلز پارٹی ایسا کیوں کر رہی ہے اور کیا یہ جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے یا پھر کوئی مجبوری ہے؟ میرا خیال ہے یہ پاکستان پیپلز پارٹی کی مجبوری ہے اور یہ مجبوری ایک المیہ ہے اور اس المیے کا نام این آر او اور سوئس اکائونٹس ہیں‘ یہ ایڑی کا وہ تیر ہے جو پوری یونانی سلطنت کو تباہی کے دھانے پر لے آیا ہے اور ہم روزانہ اس گڑھے کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں‘ صدر آصف علی زرداری کی سب سے بڑی مجبوری سوئس اکائونٹس ہیں اور یہ اس مجبوری کی وجہ سے اہل لوگوں کو بڑے عہدوں پر تعینات کرنے کا رسک نہیں لے سکتے۔
لہٰذا یہ ہر اس شخص کو وزیر اعظم بنا دیں گے جو صدر کے سوئس اکائونٹس بچانے کے لیے تن‘ من اور عزت کی قربانی دے دے گا‘ آپ جب وفاداری کو اہلیت پر فوقیت دیں گے تو آپ کو اٹھارہ کروڑ لوگوں میں اہل وزیراعظم کہاں سے ملے گا‘ صدر کراچی کے حالات بھی ٹھیک نہیں کر سکتے کیونکہ اس کے لیے آپ کو اپنے اتحادی ناراض کرنا پڑیں گے اور یہ اتحادی اتحاد سے نکل کر آپ کے لیے مسائل پیدا کر دیں گے چنانچہ آپ لوگوں کو کراچی میں مرتے دیکھیں گے اور دیکھتے چلے جائیں گے‘
آپ پاکستان مسلم لیگ ق اور اے این پی کو ان کی مرضی کی وزارتیں دیں گے اور یہ لوگ جس نااہل شخص کو کہیں گے آپ اسے وزیر بنائیں گے کیونکہ دوسری صورت میں یہ ناراض ہو جائیں گے اور یوں آپ کے سوئس اکائونٹس کھل جائیں گے چنانچہ ریلوے تباہ ہو جائے یا انڈسٹری بیٹھ جائے یا اوورسیز پاکستان کی وزارت سسکنے لگے آپ اتحادیوں کے وزیر نہیں ہٹا سکتے‘ آپ اپنی پارٹی کے ایم این اے اور ایم پی اے کی ناراضگی سے بچنے کے لیے ان کے سی این جی اسٹیشن بھی بند نہیں کرا سکتے‘
آپ نوید قمر کو دفاعی پیداوار بڑھانے‘ احمد مختار کو بجلی پیدا کرنے اور مخدوم امین فہیم کو صنعتی پیداوار میں اضافے کا حکم نہیں دے سکتے‘ آپ ایم کیو ایم‘ پاکستان مسلم لیگ ق‘ فاٹا اور آزاد ارکان کے پریشر گروپس سے بھی وزارتوں کا حساب نہیں مانگ سکتے‘ آپ فوج کو دائرے میں بھی نہیں رکھ سکتے‘ آپ امریکا کو ملکی سیاست سے باہر بھی نہیں نکال سکتے‘ آپ اپنے دوستوں کو بھی لوٹ مار سے باز نہیں رکھ سکتے اور آپ راجہ پرویز اشرف کے رشتے داروں کو بھی سی ڈی اے کے پلاٹس میں مار دھاڑ سے نہیں روک سکتے کیونکہ آپ جہاں سختی کریں گے‘
آپ کے سیاسی اور ذاتی ساتھی آپ کا ساتھ چھوڑ جائیں گے اور یوں آپ کا احتساب شروع ہو جائے گا چنانچہ آصف زرداری صدر رہنے اور اپنے اکائونٹس بچانے کے لیے ہر قسم کا سمجھوتہ کر جاتے ہیں اور یہ مجبوری پاکستان اور پاکستان پیپلز پارٹی کا سب سے بڑا المیہ بن چکی ہے‘ کاش آصف علی زرداری اس مجبوری سے چھٹکارہ پا سکتے‘ کاش یہ 60 ملین ڈالر کی قربانی دے دیتے تو آج ان کی ذہانت اس ملک کے کام آ رہی ہوتی‘ یہ ملک بچ جاتا لیکن صدر صاحب اپنے 60 ملین ڈالر بچانے کے لیے ملک اور جمہوریت دونوں قربان کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں اور یہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان دونوں کے لیے بڑا المیہ ہے۔

ن لیگ کا المیہ
جاوید چوہدری پير 3 ستمبر 2012
سلیمان شہباز وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے چھوٹے صاحبزادے ہیں‘ یہ شہباز شریف فیملی کا بزنس چلارہے ہیں‘ یہ زیرک بزنس مین ہیں اور ان کے دور میں خاندان کے بزنس میںاضافہ ہوا‘ اس اضافے کی وجہ علم اور محنت ہے‘ یہ بزنس اور مینجمنٹ کی نئی نئی تکنیکس سھتے رہتے ہیں‘ یہ کبھی ہاورڈ یونیورسٹی کے بزنس اسکول چلے جاتے ہیں‘ کبھی آکسفورڈ اور کیمبرج کے بزنس اسکولز میں شارٹ کورس کرتے ہیں اور کبھی جرمنی کے بڑے تعلیمی اداروں میں ایک دو ہفتوں کے لیے داخلہ لے لیتے ہیں‘ یہ بزنس‘ مینجمنٹ کے عالمی فورمز کے ممبر بھی ہیں اور یہ ان فورمز کے ذریعے بھی کاروباری دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں‘
آج سے چند برس قبل سلیمان شہباز کو محسوس ہوا میرے پاس دنیا جہاں کا جدید علم ہے‘ میں جدید ترین ٹیکنالوجی اور تحقیق سے فائدہ اٹھا رہا ہوں لیکن میری ٹیم بہت پیچھے ہے‘ یہ تیس چالیس سال پرانے علم کے ذریعے کام چلا رہے ہیں‘ یہ ملک سے کبھی باہر گئے اور نہ ہی انھوں نے کبھی بزنس اور مینجمنٹ کا تازہ ترین علم سیکھا چنانچہ میں خواہ کتنا بھی سیکھ لوں یا پڑھ لوں میں ان سے اپنی مرضی کے نتائج حاصل نہیں کر سکوں گا‘ سلیمان شہباز نے اس کے بعد دو تجربے کیے‘
انھوں نے ’’ لمز‘‘ سے خصوصی کورسز تیار کرائے‘ اپنے تمام اہم ملازمین کو لے کر ’’ لمز‘‘ گئے اور ان سب کو بزنس مینجمنٹ کا مختصر کورس کروایا۔ دوسرا سلیمان شہباز نے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو بھرتی کرنا شروع کر دیا‘ یہ ہر سال دنیا کے اعلیٰ تعلمیا اداروں سے ڈگریاں لینے والے نوجوانوں کو بھرتی کرتے ہیں‘ یہ دونوں تجربات کامیاب ہوئے اور میاں شہباز شریف اور میاں سلیمان شہباز کا کاروبار دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرنے لگا‘ سلیمان شہباز آج بھی اپنے ملازمین کو اندرون ملک اور بیرون ملک شارٹ کورسز کراتے ہںم‘ یہ خود بھی کورسز کرتے ہیں‘ یہ اپنی فیکٹریوں کے لیے جدید ترین مشینیں اور کمپیوٹر سسٹم بھی خریدتے ہیں اور یہ دنیا بھر میں ہونے والے ٹیکنالوجی میلوں میں بھی شریک ہوتے ہیں‘ یہ ایکسپرٹس سے بھی ملتے ہیں اور کاروبار کے لیے ٹیکنیکل ایڈوائزر کی مدد بھی لیتے ہیں۔
یہ کامیاب اور شاندار کاروباری اپروچ ہے اور میاں سلیمان شہباز اگر آج یہ اپروچ چھوڑ دیں‘ یہ نئے نئے کورسز نہ کریں‘ یہ اپنے ملازمین اور ساتھیوں کی صلاحیت میں اضافے پر توجہ نہ دیں‘ یہ نئی مشینوں اور نئی ٹیکنالوجی نہ خریدیں‘ یہ جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو جاب نہ دیں اور یہ کاروبار کی دنیا میں ہونے والی نئی ریسرچ کا مطالعہ نہ کریں تو مجھے یقین ہے سلیمان شہباز اور میاں شہباز شریف کا کاروبار انحطاط کا شکار ہو جائے گا‘
ملازمین کا جذبہ ماند پڑ جائے گا‘ مشینیں خراب ہونے لگیں گی‘ پیداوار کم ہو جائے گی‘ کوالٹی گر جائے گی اور اس کے بعد ایک ایسا وقت آ جائے گا جب میاں صاحب کا کاروبار بند ہو جائے گا یا پھر انھیں بند کرنا پڑے گا۔یہ وہ حقیقت ہے جس سے میاں سلیمان شہباز شریف واقف ہںے لیکن ان کے بزرگوں میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف نے ابھی تک اس حقیقت کو تسلیم نہیں کیا‘ یہ ابھی تک پارٹی کو پرانے خطوط پر چلا رہے ہیں‘ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں دنیا میں پچھلے دس برسوں میں بے انتہا تبدیلی آگئی ہے‘ دنیا میں علم‘ ٹیکنالوجی‘ سوچ اور سیاست پوری طرح تبدیل ہو چکی ہے‘
سن 2000ء تک ایک دنیا تھی اور 2000ء کے بعد اب دوسری دنیا ہے اور یہ حیقت ہے 2000ء کی دنیا کے لوگ 2012ء میں اس وقت تک نہیں چل سکیں گے جب تک یہ جدید ترین علم‘ ٹیکنالوجی‘ میڈیا اور جدید عالمی سیاست کو نہیں سمجھیں گے‘ دنیا آئی پیڈ اور آئی فون کے بعد ٹچ اسکرین پر شفٹ ہو چکی ہے‘ ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ پوری سائنس بن چکی ہے‘ میڈیا بوتل کا وہ جن ہے جو باہر آنے کے بعد کبھی بوتل میں واپس نہیں جائے گا اور ایمانداری اور اہلیت سیاست کے دو ایسے مرکزی ستون بن چکے ہیں جن کے بغیر اب سیاست ممکن نہیں رہی لیکن سوال یہ ہے‘ کیا میاں نوازشریف‘ میاں شہباز شریف اور پاکستان مسلم لیگ ن ان تبدیلیوں کو محسوس کر رہی ہے؟
کیا اس نے اپنی سیاسی فیکٹری کے ملازمین‘ سپروائزرز‘ شفٹ انچارج‘ اکائونٹنٹس اور جی ایمز کی جدید ترین ٹریننگ اور تربیت کا بندوبست کیا؟ کیا میاں برادران نے اپنی استطاعت بڑھانے کا انتظام کیا‘ کیاپاکستان مسلم لیگ ن نے اپنے ایم پی اے‘ ایم این اے اور اپنے کارکنوں کو شارٹ کورسز کروائے‘ کیا انھوں نے اپنی پارٹی میں نئے اور اہل لوگ شامل کیے اور کیا انھوں نے ملک کے بڑے بڑے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی ٹیم بنائی اور کیا اس ٹیم کو جدید ٹریننگ دلائی؟ اس کا جواب بدقسمتی سے ناں ہے اور عوام کو 1999ء کے میاں نواز شریف اور 2012ء کے میاں نواز شریف میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا‘ یوں محسوس ہوتا ہے میاں نواز شریف نے سیکھنے کے 13 قیمتی سال ضایع کر دیے ہیں اور یہ آج بھی سیاست کے دھاگے کو اسی جگہ سے گرہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں جہاں سے یہ 1999ء میں ٹوٹا تھا‘ یہ آج بھی بیان بازی اور الزام بازی کی سیاست کر رہے ہیں‘
یہ آج بھی اپنے پرانے حواریوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور یہ حواری میاں صاحب کا موڈ دیکھ کر اذان کا وقت طے کرتے ہیں‘ میاں صاحب کو گرمی لگ رہی ہو تو ان میں سے ہر شخص اپنی قمیض کے دامن کو پنکھا بنا لیتا ہے اور میاں صاحب اے سی بند کرنے کا اشارہ کر دیں تو یہ تھیلے سے سویٹر نکال لیتے ہیں‘ میاں صاحب اشارہ کر دیں تو چوہدری نثار علی اور خواجہ آصف جیسا انتہائی سمجھ دار شخص سرفروش بن جاتا ہے اور بدنامی کے جوہڑ میں چھلانگ لگا دیتا ہے۔
میاں صاحب آج بھی سیدھی تنقید پسند نہیں کرتے‘ یہ آج بھی میڈیا کو دوست اور دشمن صحافیوں میں تقسیم کرتے ہیں‘ میاں صاحب کی پوری پارٹی میں وزیر کے معیار کے سات لوگ نہیں ہیں اور جو ہیں انھوں نے بھی پچھلے پندرہ برسوں میں کوئی کورس نہیں کیا‘ یہ بھی ٹچ اسکرین سے دور 2000ء سے پہلے کے دور میں زندگی گزار رہے ہیں‘ پوری پارٹی میں دو لوگوں کے سوا کوئی شخص کتاب نہیں پڑھتا‘ ن لیگ کے زیادہ تر رہنمائوں کا اخبارات کا مطالعہ کلپنگ اور سمری تک محدودہے اور یہ سمری اور کلپنگ بھی ان کے اپنے بیانات سے متعلق ہوتی ہے‘ میاں نواز شریف سمیت پارٹی کا کوئی شخص نوبل پرائز یافتہ لوگوں سے نہیں ملا‘
یہ آج تک دنیا میں کمال کرنے والے لوگوں سے نہیں ملے اور ان میں سے کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا میں نے پورا پاکستان عام شہری کی حیثیت سے پھرا ہے‘ ان میں سے کسی شخص نے پچھلے پندرہ برسوں میں عام شہری کی حیثیت سے ٹرین بس میں سفر نہیں کیا‘ یہ کسی شہر کے اندر پیدل نہیں پھرے‘ یہ عام شخص کی حیثیت سے کسی گائوں میں نہیں رہے‘ یہ عام شہری کی حیثیت سے تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک میں بھی نہیں گئے اور انھوں نے چھوٹے ہوٹلوں میں رہ کر ان ممالک کی ترقی کا مشاہدہ بھی نہیں کیااور پوری پارٹی میں کوئی بھی شخص پی ایچ ڈی اورپروفیسر نہیں‘
پارٹی کے کسی دفتر میں لائبریری نہیں اور پارٹی کے لیے کبھی کسی لیکچر کا بندوبست نہیں کیا گیا‘ پارٹی قائدین کی گفتگو موٹروے اور ایٹمی دھماکوں سے شروع ہوتی ہے‘ ذرا دیر کے لیے بارہ اکتوبر کے شب خون پر رکتی ہے‘ جلاوطنی تک جاتی ہے اور اس کے بعد چارٹرآف ڈیموکریسی‘ مری ڈکلیریشن اور این آر او کے ماتم پر آ کر ختم ہو جاتی ہے‘ پاکستان مسلم لیگ ن نے آج تک ملک کے کسی بڑے مسئلے اور اس کے حل کے لیے کوئی پیپر شایع نہیں کیا‘ کوئی فورم نہیں بنایا‘پارٹی کی کارکردگی چھ قسم کے بیانات کو بارہ لاکھ مرتبہ دہرا دینا ہے یا پھر میاں شہباز شریف کی پنجاب میں شبانہ روز محنت ہے‘ یہ حقیقت ہے میاں شہباز شریف نے پنجاب کے بڑے شہروں کی حالت بدل دی اور پنجاب انفرااسٹرکچر اور امن و امان میں دوسرے صوبوں سے بہت آگے ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے یہ کارکردگی صرف ایک شخص کے گرد گھومتی ہے‘
آپ آج میاں شہباز شریف کو ہٹا دیں کل لاہور‘ فیصل آباد‘ سیالکوٹ‘ راولپنڈی اور ملتان پرانی پوزیشن پر واپس آ جائیں گے‘ آپ کو پوری پارٹی میں میاں شہباز شریف کی ’’ ری پلیسمنٹ‘‘ نہیں ملے گی چنانچہ اگر آج مسلم لیگ ن کی حکومت آ جائے تو مجھے خطرہ ہے یہ چھ ماہ میں اس پوزیشن پر آ جائے گی جس پر آج پاکستان پیپلز پارٹی ہے اور میاں نواز شریف بھی عدلیہ اور میڈیا سے الجھ رہے ہوں گے چنانچہ میری ن لیگ سے درخواست ہے آپ پارٹی کو بے شک ری پبلکن‘ ڈیموکریٹک پارٹی‘ لیبر پارٹی‘ کنزرویٹو پارٹی یا جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نہ بنائیں لنکر آپ کم از کم اسے اتفاق گروپ کی اسپرٹ سے تو چلا لیں‘ آپ سلیمان شہباز کی طرح لوگوں کی اہلیت میں اضافہ کریں کیونکہ اہلیت کے بغیر آج کے دور میں ایک فیکٹری یا کمپنی چلانا مشکل ہوتا ہے اور آپ پورا ملک چلانا چاہتے ہیں‘
یہ کیسے ممکن ہو گا اور اگر آج نعروں اور خوابوں سے لوگوں کو بہلایا جا سکتا یا ترقی کی جا سکتی تو پاکستان پیپلز پارٹی عوام میں کبھی نامقبول نہ ہوتی کیونکہ جتنے اچھے اور اعلیٰ پائے کے نعرے پیپلز پارٹی کے پاس ہیں اتنے کسی سیاسی جماعت کے پاس نہیں چنانچہ اگر پلزرٹ پارٹی نعروں کے ذریعے تبدیلی نہیں لا سکی تو میاں صاحب کیا تبدیلی لائیں گے لہٰذا آپ سلیمان شہباز کے تجربے ہی سے سیکھ لیں!
بچھڑاہواگھر
جاوید چوہدری ہفتہ 1 ستمبر 2012
ترکی کی موجودہ حکومت نے دنیا میں گورننس کا تصور بدل دیا‘ طیب اردگان اور عبداللہ گل کی حکومت سے پہلے دنیا کا خیال تھا ملک کی پرانی سیاسی جماعتیں اور تجربہ کار سیاستدان ہی قوم کا مقدر بدل سکتے ہیں لیکن جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے ثابت کر دیا قوم کی حالت بدلنے کے لیے سیاسی تجربہ اور طویل جمہوری جدوجہد ضروری نہیں‘ آپ ایماندار ہیں‘ اہل ہیں اور محنت کر سکتے ہیں تو آپ مرد بیمار کو دس سال مں دنیا کی پندرہویں معاشی طاقت بھی بنا سکتے ہیں اور استنبول جیسے اس شہر کو دس بڑی سیاحتی منازل میں بھی شامل کر سکتے ہیں جو 2002ء تک دنیا کے غیر محفوظ ترین شہروں میں شمار ہوتا تھا‘ یہ انقلاب استنبول کی میئر شپ سے شروع ہوا‘ طیب اردگان مارچ 1994ء میں استنبول شہر کے میئر بن گئے‘ اس وقت یہ شہر مافیاز کا گڑھ تھا‘ شہر میں کرائے کے قاتل پھرتے تھے ‘
یہ کراچی کی طرح چند ہزار روپے کے موبائل فون کے لیے لوگوں کو سرے عام گولی مار دیتے تھے‘ پورے شہر میں منشیات اور طوائف بازی عام تھی‘ استنبول یورپ کا آلودہ ترین شہر بھی تھا‘ لوگوں کو پینے کا صاف پانی تک دستیاب نہیں تھا اور گلیوں‘ بازاروں اور چوکوں میں کوڑے کے ڈھیر لگے ہوتے تھے‘ پبلک ٹرانسپورٹ کا نام و نشان نہ تھا اور یہ شہر انسانی اسمگلروں کا دارالحکومت بھی بن چکا تھا‘ استنبول شہر کی میونسپل کارپوریشن بھی دو بلین ڈالر خسارے میں تھی لیکن طیب اردگان آئے اور کمال کر دیا‘ انھوں نے 4 سال میں نہ صرف شہر کو کرائم فری بنا دیا بلکہ پورے شہر کی حالت بدل دی‘ استنبول یورپ کے صاف ترین شہروں میں بھی شمار ہونے لگا اور خسارے کی شکار میونسپل کارپوریشن بھی چار بلین ڈالر منافع میں چلی گئی‘
ترکی میں انقلاب کے بعد سے فوج کا غلبہ تھا‘ عوام کے مقدر کا فیصلہ فوج کرتی تھی‘ فوج مذہب‘ اسلام اور علماء کرام کے خلاف تھی‘فوج مساجد‘ قرآن مجید اور پردے کی بھی مخالف تھی لیکن طیب اردگان کی گورننس نے فوج کے 70 سالہ اقتدار کو پسپائی پر مجبور کر دیا‘ لوگوں نے جسٹس پارٹی کو جنرل الیکشن نومبر 2002ء میں 34.28 فیصد‘ 2007ء میں 46.58 فیصداور 2011ء کے الیکشن میں 49.83 فیصد ووٹ دیئے اور یہ عوامی حمایت سے اقتدار میں آتی چلی گئی یہاں تک کہ آج ترکی میں نہ صرف اسلام کی نشاۃ ثانیہ ہو رہی ہے بلکہ پردہ بھی واپس آ چکا ہے‘
مساجد بھی آباد ہو چکی ہیں اور بیس بیس طاقتور فوجی جرنیل کورٹ مارشل کے عمل سے بھی گزر رہے ہیں اور یہ انقلاب صرف دس سال میں آیا‘ اس انقلاب کی واحد وجہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی گورننس تھی‘ ترک عوام نے دیکھا وہ مسائل جو ملک کی لبرل‘ امریکا کی حمایت یافتہ اور فوجی حکمرانوں کی پروردہ سیاسی جماعتیں 70سال میں حل نہیں کر سکیںوہ مسائل اسلام پسندوں نے صرف پانچ چھ برسوں میں جڑوں سے اکھیڑ دیئے چنانچہ عوام ان کے ساتھ شامل ہوتے چلے گئے اور آج یہ لوگ ترکی کے اقتدار کے بلاشرکت غیرے مالک ہیں اور یہ ملک کو ترقی کے ٹریک پر آگے سے آگے لے جا رہے ہیں۔
ہم ترکی سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں‘ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ ہمارا ترکی کے ساتھ صدیوں کا رابطہ ہے‘ ہندوستان کے زیادہ تر حکمرانوں کا تعلق ترک خاندانوں سے تھا‘ ترک برصغیر میں دو ہزار سال سے آ رہے ہیں چنانچہ پاکستان کی زیادہ تر نسلوں میں ترک خون کی آمزںش ہے‘ ہم سب آدھے سے زیادہ ترک ہیں‘ ہمارے کھانے‘ ہماری زبان اور ہمارے جذبات پچاس فیصد ترک ہیں‘ اردو کا لفظ ہی ترکی ہے‘ ہماری زبان کے 30 فیصد الفاظ ترک ہیں چنانچہ ہم سماجی‘ نظریاتی اور نفسیاتی لحاظ سے ترکی کے بہت قریب ہیں‘ ترکی دنیا کے ان چند ممالک میں بھی شمار ہوتا ہے جہاں آج بھی پاکستان کی عزت برقرار ہے‘دوسری وجہ جذباتی اور روحانی ہے‘ ترک اور پاکستانی قوم دو ایسی اسلامی قومیں ہیں جنھیں رسول اللہﷺ کی بشارت ہے‘
ترکوں نے قسطنطنیہ فتح کرنے کے لیے مسلسل 821 سال کوشش کی یہاں تک کہ حضرت ابو ایوب انصاریؓ سلطان محمد ثانی کے خواب میں آئے اور اپنے مدفن کی نشاندہی کی اور سلطان محمد فاتح نے 21 سال کی عمر میں قسطنطنیہ فتح کر لیا‘ سلطان فاتح کے بعد تمام عثمانی سلطانوں کی تاج پوشی حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر ہوتی رہی چنانچہ قسطنطنیہ کی فتح کی وجہ سے ترک نبی اکرمؐ کی بشارت کے دائرے میں آتے ہیں شاید یہی وجہ ہے یہ اسلام سے بے انتہا محبت کرتے ہیں‘ پاکستانی قوم بھی غزوہ ہند کی وجہ سے نبی اکرمؐ کی بشارت سے بہرہ مند ہو گی‘ یہ غزوہ بھی احادیث سے باقاعدہ ثابت ہوتا ہے‘ ترکی اور پاکستان میں قربت کی چند مزید وجوہات بھی موجود ہیں مثلاً استنبول 1924ء تک اسمبول (اسلام بول) کہلاتا تھا‘ اتاترک نے اس کا نام اسمبول سے استنبول رکھ دیا‘ اسلام بول یا اسمبول کا مطلب وہی ہے جو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کا ہے‘
عثمانی خلافت کے شاہی نشان میں دو جھنڈے تھے‘ ایک سرخ جھنڈا اور دوسرا سبز جھنڈا‘ یہ خلافت 1924ء میں ختم ہو گئی‘ اس کے بعد ترک ری پبلک بنی‘ اتاترک نے عثمانی خلافت کے سرخ جھنڈے کو ترکی کا سرکاری جھنڈا بنا دیا لیکن 25 سال بعد ترک خلافت کے نشان میں موجود سبز جھنڈا پاکستان کا پرچم بن گیا‘ آپ آج بھی ترک خلافت کا سرکاری نشان نکال کردیکھ لیں آپ کو اس میں پاکستان کا جھنڈا ملے گا‘ برصغیر کی مسلمان خواتین نے 1919ء کی تحریک خلافت کے دوران ترک بھائیوں کو زیورات بھجوائے تھے‘ یہ زیورات آج بھی انقرہ میوزیم میں موجود ہیں‘ ترکوں نے آج تک 1919ء کی یہ قربانی فراموش نہیں کی‘ محمد اقبال ترکوں کا پسندیدہ ترین نام ہے‘ یہ آج بھی اپنے بچوں کا نام محمد اقبال رکھتے ہیں‘ ترکوں نے قونیہ میں مولانا روم کے مزار کے سامنے علامہ اقبال کی علامتی قبر بنا رکھی ہے‘
اس قبر پر محمد اقبال لاہوری لکھا ہے اور ترک روزانہ اس علامتی قبر پر فاتحہ پڑھتے ہیں‘ ترک پاکستان سے کس قدر محبت کرتے ہیں آپ اس کا اندازہ 2010ء کے سیلاب سے لگا لیجیے‘ طیب اردگان کی اہلیہ 2010ء کے سیلاب کے دوران پاکستان تشریف لائیں اور انھوں نے اپنا وہ نیکلس پاکستانی سیلاب زدگان کو دے دیا جو طیب اردگان نے شادی کے موقع پر انھیں دیا تھا‘اس وقت کے چیئرمین نادرا علی ارشد حکیم نے اس نیکلس کو 16 لاکھ میں خریدکر سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو پیش کردیا‘ ایمن اردگان کو ان خدمات پر پاکستان کے سب سے بڑے سویلین ایوارڈ ہلال پاکستان سے نوازا گیا‘ ترکی کے فارن منسٹراحمد دیوتوگلو کی اہلیہ ڈاکٹر سلمیٰ سیلاب کے دس دن نوشہرہ کے کیمپ میں رہیں اور یہ اپنے ہاتھوں سے سیلاب زدگان کی مدد کرتی رہیں اور ان سب سے بڑھ کر آپ پاکستان کا ہزار روپے کا نوٹ نکال کر دیکھئے‘
آپ کو اس نوٹ کے دائیں سرے پر سرخ رنگ کا جھنڈا نظر آئے گا‘ یہ ترکی کا جھنڈا ہے‘ یہ جھنڈا ٹیکنیکل فالٹ کی وجہ سے نوٹ پر چھپ گیا تھا‘ یہ نوٹس میں آیا تو حکومت نے اسے جوں کا توں رہنے دیا اور یوں یہ دنیا کا واحد نوٹ ہے جس پر کسی دوسرے ملک کا جھنڈا چھپا ہے‘ کیا یہ تمام واقعات محض اتفاق ہیں یا پھر قدرت بھی پاکستان اور ترکی کو قریب دیکھنا چاہتی ہے‘ میرا خیال ہے قدرت ان دونوں ممالک کو ساتھ ساتھ دیکھنا چاہتی ہے چنانچہ ہمیں ترکی کے لیے اپنے دروازے کھول دینے چاہئیں اور ترکوں کو بھی اپنے بچھڑے ہوئے بھائیوں کو بھینچ لینا چاہیے‘ ترکی زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کر رہا ہے‘ اس کی انڈسٹری‘ تعلیم‘ صحت اور ہیومن ریسورس چاروں شعبے ترقی کر رہے ہیں‘ ہمیں ان چاروں شعبوں میں ان کی مدد لینی چاہیے‘ ترکی اور پاکستان کو ایران کو ساتھ ملا کر روڈ نیٹ ورک بھی تشکیل دینا چاہیے تاکہ تینوں ممالک کا ایک دوسرے سے انٹرایکشن بڑھ سکے‘ یہ رابطہ پورے خطے کی حالت بدل دے گا‘ ہمارا وژن بھی کھلے گا اور ہماری سیاسی قیادت بھی طیب اردگان جیسے لوگوں سے بہت کچھ سیکھ سکے گی چنانچہ ہماری ترقی کے لیے ترکی بہت ضروری ہے۔
طیب اردگان جیسے لیڈر چاہئیں
جاوید چوہدری جمعرات 30 اگست 2012
سلطان احمد استنبول کا قدیم علاقہ ہے‘ استنبول کی نیلی مسجد‘ آیا صوفیہ‘ عثمانی سلطانوں کا محل توپ کاپی اور قسطنطنیہ کا زیر زمین آبی چرچ اسی علاقے میں ہیں‘ دنیا بھر سے ہر مہینے دس سے چودہ لاکھ سیاح استنبول آتے ہیں اور سلطان احمد ان کا پہلا پڑائو ہوتا ہے چنانچہ سلطان احمد کے علاقے میں سیکڑوں ہوٹل اور ریستوران ہیں‘ اس علاقے کی ہر دوسری عمارت ہوٹل اور پہلی عمارت ریستوران ہے۔ بلیو ماسک ترکوں نے 1616 میں بنوائی تھی اور یہ استنبول کی اسلامی پہچان ہے۔
آیا صوفیہ عیسائی پادریوں نے 537 میں بنایا تھا‘ یہ استنبول کی فتح کے بعد مسجد میں تبدیل ہو گیا‘ اتاترک نے اسے عجائب گھر بنا دیا اور یہ اب سیاحوں کی زیارت گاہ بن چکا ہے‘ آیا صوفیہ کی چھتوں پر حضرت عیسیٰ ؑ ‘ حضرت مریم ؑ اور انجیل مقدس کے ابواب کے تصویری نقش بھی کندہ ہیں اور اﷲ اور رسولؐ کے نام بھی۔ توپ کاپی عثمانی سلطانوں کا محل تھا‘ یہ محل آیا صوفیہ کے پہلو میں باسفورس کے کنارے پر بنایا گیا اور یہ 1856 تک عثمانی سلطانوں کا مسکن رہا‘ اس کا شاہی ٹیرس باسفورس کی طرف کھلتا ہے‘ آپ اس ٹیرس پر کھڑے ہو کر باسفورس اور استنبول کے ایشیائی ساحلوں کا نظارہ کر سکتے ہیں‘
یہ محل بھی عجائب گھر کی شکل اختیار کر چکا ہے‘ اس کے ایک کمرے میں مقدس نوادرات ہیں‘ مجھے دوسری بار ان نوادرات کی زیارت کی سعادت حاصل ہوئی‘ میں نے کھلی آنکھوں سے حضرت دائود ؑ کی تلوار‘ حضرت موسیٰ ؑ کا عصاء‘ حضرت یوسف ؑ کی دستار‘ حضرت ابراہیم ؑ کا پیالہ‘ نبی اکرمؐ کے دندان مبارک‘ موئے مبارک اور آپؐ کے استعمال میں رہنے والا پیالہ‘ حضرت ابو بکر صدیقؓ‘ حضرت عمرؓ‘ حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علیؓ کی تلواروں‘ حضرت خالد بن ولیدؓ‘ حضرت جعفر طیارؓ اور دوسرے نامور صحابہؓ کی تلواروں کی زیارت کی‘ مجھے نبی رسالتؐ کی تلواروں اور کمان کی زیارت بھی نصیب ہوئی اور سب سے بڑھ کر میں نے حضرت عثمان غنی ؓ کا وہ قرآن مجید بھی دیکھا آپؓ شہادت کے وقت جس کی تلاوت فرما رہے تھے‘
آپؓ کے لہو کے نشانات ابھی تک قرآن مجید کے اوراق پر موجود ہیں‘ زائرین ان مقدس نوادرات کی تصاویر نہیں بنا سکتے لیکن میں نے محافظوں کی نظروں سے بچ کر ان کی تصاویر اتار لیں‘ توپ کاپی میوزیم میں خانہ کعبہ کا پرانا پرنالہ (میزاب رحمت)‘ خانہ کعبہ کا دروازہ اور دروازے کے پرانے تالے بھی موجود ہیں‘ مجھے ان کی زیارت کی سعادت بھی نصیب ہوئی‘ سلطان احمد میں زیر زمین آبی چرچ بھی ہے‘ آپ سیڑھیاں اتر کر اس عمارت میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کو ستونوں کا وسیع جنگل دکھائی دیتا ہے‘ یہ ستون صاف شفاف پانی میں کھڑے ہیں‘ یہ استنبول کے قدیم باشندوں کا چرچ بھی تھا‘ بادشاہ کی خفیہ پناہ گاہ بھی اور ہنگامی حالت میں شہر کا آبی ذخیرہ بھی۔
سلطان احمد سیاحوں کا پہلا پڑائو ہوتا ہے چنانچہ اس علاقے میں سیکڑوں ہوٹل اور ریستوران ہیں‘ یہ ریستوران اور ہوٹل صاف ستھرے‘ سستے اور معیاری ہیں اور انھیں دیکھ کر ایک لمحے کے لیے بھی یہ احساس نہیں ہوتا آپ کسی اسلامی ملک میں گھوم رہے ہیں‘ استنبول میں دن کے وقت گرمی ہوتی ہے لیکن اس گرمی کے باوجود آپ کو وہاں وہ مکھیاں‘ مچھرا ور کاکروچ دکھائی نہیں دیتے جو اسلامی ملکوں کا انتخابی نشان ہیں‘ ریستوران کے شیف آپ کے سامنے کھانا بناتے ہیں اوریہ حفظان صحت کے عین مطابق صاف ستھرا ہوتا ہے‘ شام کے وقت گلیوں میں میز لگ جاتے ہںی اور سلطان احمد کا پورا علاقہ ریستوران بن جاتا ہے‘ تمام ہوٹلوں نے عمارتوں کی چھتوں کو ٹیرس بنا رکھا ہے‘ آپ چھتوں پر بیٹھ کر آیا صوفیہ‘ نیلی مسجد اور باسفورس کے کناروں کی سرگوشیاں سن سکتے ہیں‘
آپ چاند کو وارفتگی کے عالم میں نیچے جھکتے اور گولڈن ہارن کی جلتی بجھتی روشنیوں کو بوسا دیتے بھی دیکھ سکتے ہیں‘ استنبول کے لوگ انتہائی مہذب‘ مہمان نواز‘ ہمدرد اور منکسرالمزاج ہیں‘ میں نے پورے شہر میں کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جس کے کپڑے میلے ہوں‘ گداگر بھی خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں‘ ریستورانوں کے ویٹرز تک نہائے دھوئے اور صاف ستھرے نظر آتے ہیں‘ شہر کے زیادہ تر مکین شام اور رات کے وقت گھر کے سامنے میز کرسی لگا کر بیٹھ جاتے ہیں‘ یہ شطرنج کھیلتے ہںل‘ ترکش چائے پیتے ہیں اور آپس میں گپ شپ کرتے ہیں۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ اور سلطان فاتح مسجد کے قدیم علاقوں کی شامیں بھی بہت اچھی ہوتی ہیں‘ علاقے کے زیادہ تر مرد و زن حضرت ابو ایوب انصاریؓ اور سلطان فاتح کے مزار پر آ جاتے ہیں‘
یہ مزار پر سلام کرتے ہیں اور مساجد کے باہر فواروں اور بنچوں پر بیٹھ جاتے ہیں‘ یہ وہاں کھانا بھی کھاتے ہیں‘ چائے کافی بھی پیتے ہیں اور آئس کریم کا لطف بھی اٹھاتے ہیں‘ استنبول میونسپل کارپوریشن نے تمام مساجد اور مزارات کے احاطوں کو تفریح گاہ میں تبدیل کر دیا ہے‘ مساجد کے چاروں اطراف فرش پر ٹائلز لگا دی گئی ہیں‘ خوبصورت اور آرام دہ بنچ بنا دیے گئے ہیں اور روشنی کا مناسب بندوبست کر دیا گیا ہے چنانچہ ہر شام سیکڑوں لوگ یہاں آ جاتے ہیں‘ میری میاں شہباز شریف اور دیگر صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سے درخواست ہے آپ سلطان ایوب اور سلطان فاتح کے علاقوں میں خصوصی ٹیمیں بھجوا کر وہاں کا مشاہدہ کروائیں اور حضرت داتا گنج بخش ؒ‘ بری امام سرکارؒ اور پیر غازیؒ کے مزارات کی شیپ بدل دیں‘ آپ ان مزارات کو بھی اتنا خوبصورت اور آرام دہ بنا سکتے ہیں کہ لوگ شام کے وقت فیملیز کے ساتھ یہاں آ کر بیٹھ جائیں۔
استنبول کے ماڈرن علاقے کا نام تاقسیم ہے‘ یہ ایک طویل واکنگ اسٹریٹ ہے جس کے دائیں بائیں دنیا کے مشہور برانڈز کے آئوٹ لیٹ‘ ریستوران‘ بارز اور ڈسکوز ہیں‘ استنبول کے زیادہ تر سیاح رات کو اس علاقے میں شفٹ ہو جاتے ہیں اور اس اسٹریٹ میں حقیقتاً کھوے سے کھو اچھلتا ہے‘ تاقسیم میں بیی سیکڑوں کی تعداد میں ہوٹلز ہیں‘ پورے شہر میں سیاحتی کمپنیوں کا جال بچھا ہے‘ آپ کو ہر گلی‘ ہر سڑک سے ترکی کے مختلف ٹورز مل جاتے ہیں‘ استنبول شہر کے لیے بھی دن اور رات کے درجنوں ٹورز دستیاب ہیں‘ باسفورس اور گولڈن ہارن کے کروز ٹورز کمال ہیں‘
آپ ڈنر کروز بھی لے سکتے ہیں‘آپ اس کروز کے دوران جہاز کے عرشے پر سمندر کے عین درمیان ڈنر کرتے ہیں‘ آپ کے اوپر استنبول کا آسمان سایہ کناں ہوتا ہے‘ نیچے باسفورس کے نیلے پانی ہوتے ہیں اور دائیں بائیں تاحد نظر استنبول کی روشنیاں اور آپ ان روشنیوں کے درمیان پانی پر ڈولتے ہوئے آہستہ آہستہ آگے بڑھتے ہیں‘ استنبول شہر میں میٹرو اور بس سروس بھی ہے‘ میٹرو کا کرایہ بھی کم ہے‘ آپ دو لیرا میں شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سفر کر سکتے ہیں‘ بس سروس پورے شہر میںدستیاب ہے اور آپ دن بھر کا ٹکٹ لے کر کسی بھی منزل کی کوئی بھی بس پکڑ سکتے ہںر‘ شہر میں میٹرو کروز بھی چلتے ہیں‘
ان کایک طرفہ کرایہ بھی دو لیرا ہے‘ آپ دو لیرے خرچ کر کے سمندری سفر کا لطف لے سکتے ہیں‘ استنبول کا گرینڈ بازار دنیا کی سب سے بڑی کورڈ مارکیٹ ہے‘ یہ بازار آنتوں کی طرح چھوٹی چھوٹی گلیوں پر مشتمل ہے‘ گرینڈ بازار میں ساڑھے چار ہزار دکانیں ہیں اور آپ کو یہ ساری دکانیں دیکھنے کے لیے کم از کم تین چار دن چاہئیں‘ اس مارکیٹ میں جیولری‘ کارپٹس اور گھریلو زیبائش کی پرانی چیزیں پاکستان سے جاتی ہیں لیکن بدقسمتی سے یہ اشیاء ترکی کے نام سے بکتی ہیں‘ حکومت اگر تھوڑی سی توجہ دے تو یہ ان اشیاء کا انٹرنیشنل برانڈ بنا سکتی ہے اور یہ اشیاء طریقے اور سلیقے کے ساتھ ترکی ایکسپورٹ ہو سکتی ہیں۔
استنبول کے لوگ لبرل اور معتدل ہیں‘ شہر میں سکرٹس بھی نظر آتے ہیں اور اسکارف بھی‘ خرابات بھی آباد ہیں اور مسجدیں بھی‘ مرد اور خواتین دونوں مسجدوں میں نمازیں ادا کرتے ہیں‘ افطاری بھی مسجدوں کے باہر فرش پر لمبے لمبے دستر خوانوں پر ہوتی ہے اور ان دستر خوانوں پر پورے پورے خاندان نظر آتے ہیں‘ شراب نوشی پر پابندی نہیں لیکن شراب کی مشہوری اور اس کے سرے عام استعمال کی ممانعت ہے چنانچہ آپ کو سڑکوں پر شراب اور شرابی دونوں نظر نہیں آتے۔ ترکوں کی آنکھوں میں حیا ہے‘ آپ کو کوئی مرد کسی خاتون کو گھورتا ہوا دکھائی نہیں دیتا‘ سکرٹ والے اسکارف پر اعتراض نہیں کرتے اور اسکارف اور داڑھیوں والے سکرٹ کی طرف اشارہ نہیں کرتے‘ شیعہ سنی محض اختلاف ہے دشمنی نہیں بنا‘ کوئی شخص کسی کے مذہبی جذبات کو ہوا دینے کی کوشش نہیں کرتا‘
لائبریریوں اور کتاب خانوں کی بہتات ہے‘ لوگ حماموں میں جانا پسند کرتے ہیں‘ کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں کنٹرول ہیں‘ یہ لوگ فراڈ اور ہیرا پھیری کو پسند نہیں کرتے‘ پاکستان اور پاکستانیوں کا احترام کرتے ہیں‘ یہ لوگ انگریزی نہیں جانتے لیکن آپ اشاروں کے ذریعے کام چلا سکتے ہیں‘ شہر کرائم فری ہے‘ پولیس پورے شہر میں سادہ کپڑوں میں پھرتی ہے اور یہ غیر محسوس طریقے سے جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کر لیتی ہے‘ ترکی میں لوڈ شیڈنگ‘ پالوشن‘ شورشرابا اور افراتفری بھی نہیں ‘ معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے‘ترکی دنیا کی پندرہویں بڑی معیشت بن چکا ہے اور اس نے ترقی کا یہ سفر صرف دس برسوں میں مکمل کیا۔ دنیا جہاں کی کمپنیاں ترکی آرہی ہیں اور ترکی کی ترقی میں حصہ ڈال رہی ہیں‘ غرض آپ استنبول شہر میں گھومیں تو آپ کو یقین آ جاتا ہے آج کے دور میں بھی شراب اور فحاشی کے بغیر ترقی ممکن ہے اور یہ ترقی مسلمان بھی کر سکتے ہیں‘
آپ کو یہ یقین بھی آ جاتا ہے اگر کرائم کا گولڈن ہارن دس سال میں دنیا کی دس بڑی سیاحتی منازل میں شامل ہو سکتا ہے تو ہم بھی لاہور‘ کراچی‘ کوئٹہ‘ پشاور اور اسلام آباد کو دنیا کے لیے قابل قبول بنا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے طیب اردگان اور عبداللہ گل جیسے لیڈر چاہئیں‘ ہم اگر انا اور ضد میں لتھڑے لیڈروں سے جان چھڑا لیں اور کسی ایک طیب اردگان کا بندوبست کرلیں تو ہم بھی دس سالوں میں ترکی بن سکتے ہیں ورنہ دوسری صورت میں ہمیں روانڈا بنتے دیر نہیں لگے گی۔
البم
جاوید چوہدری بدھ 29 اگست 2012
ترک بادشاہوں کو اسلام سے خصوصی محبت تھی‘ یہ محبت عقیدت کی جھیل میں جنم لیتی تھی اور تصوف کے پالنے میں پلتی تھی اور یہ لوگ جب جوان ہوتے تھے تو یہ زندگی کے ہر لمحے کو اس محبت کی تصویر میں سمونے میں لگ جاتے تھے۔
سلطان محمد ثانی استنبول کا فاتح تھا‘ سلطان نے 21 سال کی عمر میں استنبول جیسا ناقابل تسخیر شہر فتح کر کے تاریخ کو حیران کر دیا‘ نوجوان سلطان نے دنیا کی عسکری تاریخ میں پہلی بار بحری جہاز پہاڑ پر چڑھا دیے اور پہاڑ سے سرکا کر دوبارہ سمندر میں اتار دیے‘ یہ 1453ء کے شروع میں استنبول پہنچا تو استنبول کے شہریوں نے حسب معمول گولڈن ہارن کے دھانے پر آہنی زنجیر چڑھا دی اور باسفورس میں مسالہ ڈال کر سمندر کو ’’ آگ‘‘ لگا دی‘ سلطان کے ساتھ 80 ہزار فوجی تھے‘ سلطان نے فوجیوں کو حکم دیا‘ یہ استنبول کے ایشیائی ساحلوں پر اتریں‘ پہاڑوں پر چڑھیں‘ جنگل کاٹیں‘ پہاڑ کی ڈھلوانوں پر تختے لگائیں‘ ان تختوں پر جانوروں کی چربی ملیں اور جب یہ کام مکمل ہو جائے تو واپس آ کر سلطان کو اطلاع دیں‘ استنبول سات پہاڑیوں پر پھیلا ہوا شہر ہے‘ یہ شہر 1453ء تک صرف یورپی سائیڈ کی پہاڑیوں تک محدود تھا جب کہ ایشیائی پہاڑیوں نے اس وقت گہرے جنگلوں کا لباس پہن رکھا تھا‘ سلطان کے حکم پر جنگل کاٹا گیا‘
درختوں کے تنے کاٹ کر تختے بنائے گئے‘ یہ تختے پہاڑ کی چوٹی تک نصب کر دیے گئے‘ سلطان نے مشاہدہ کیا اور یہ تختے اب پہاڑ کی دوسری طرف گولڈن ہارن تک لگانے کا حکم دے دیا‘ اس حکم کی تعمیل بھی ہوئی‘ سلطان نے تختوں پر جانوروں کی چربی لگوائی اور اس کے بعد حکم دیا بحری جہازوں کو پہاڑ تک لایا جائے پھر انھیں رسوں سے باندھ کر کھینچا جائے‘ پہاڑ کی چوٹی تک لایا جائے اور بعد ازاں انھیں رسوں کے ساتھ باندھ کر پہاڑ کی دوسری سمت سمندر میں اتار دیا جائے اور یہ کام صرف ایک رات میں مکمل ہونا چاہیے‘ سلطان کے اس عجیب و غریب حکم کی تعمیل بھی ہوئی‘ قسطنطنیہ کے شہری مزے سے سوتے رہے اور ترک فوج اپنے جہاز پہاڑ پر چڑھا کر گولڈن ہارن میں اتارتی رہی‘ اگلی صبح قسطنطنیہ کے عوام کی آنکھ کھلی تو وہ گولڈن ہارن میں ترکوں کے جہاز دیکھ کر حیران رہ گئے‘ یہ عزم کی جادوگری تھی اور یہ جادوگری نہ صرف استنبول کی فتح کا باعث بنی بلکہ اس نے اسلامی سلطنت آسٹریا کی دیواروں تک پھیلا دی‘
ترکی حکومت نے استنبول میں توپ کاپی پینوراما کے نام سے ایک تھری ڈی تھیٹر تعمیر کروایا‘ یہ گنبد نما عمارت ہے جس کے عین درمیان میں دائرے کی شکل کا ایک وسیع ٹیرس ہے‘ اس ٹیرس کے چاروں اطراف گنبد کی طرح گولائی میں سینما اسکرین ہے اور اس اسکرین پر سلطان فاتح کے حملے کی منجمد فلم چلتی ہے‘ یہ آواز‘ تصویر اور رنگوں کا ایک ایسا خوبصورت جال ہے جو آپ کو ٹیرس پر چڑھتے ہی اس عظیم جنگ کا حصہ بنا دیتا ہے‘ آپ کے سامنے گولے پھٹتے ہیں‘ لوگ فصیلوں سے گرتے ہیں‘ سلطان فاتح استنبول کے قلعے کی طرف اشارہ کرتا ہے‘ قلعے کے سپاہی قلعہ بچانے کے لیے جانیں دیتے ہیں‘ قلعے کی دیواریں ٹوٹتی ہیں‘
آپ ٹوٹی ہوئی دیواروں کے پیچھے 1453ء کا استنبول دیکھتے ہیں اور آپ کے کانوں میں سلطان فاتح کے جنگی بینڈ کی مسلسل آوازیں آتی ہیں‘ یہ زمین سے لے کر آسمان تک ایک وسیع تھری ڈی عسکری پینٹنگ ہے اور روشنی اور آواز کی وجہ سے آپ ایک سیکنڈ میں اس پینٹنگ کا حصہ بن جاتے ہیں‘ میں نے اس نوعیت کا پینوراما دوسری بار دیکھا‘ مجھے پہلا تجربہ بیلجیم کے شہر واٹرلو میں ہوا تھا‘ بیلجیم کی وزارت سیاحت نے واٹرلو کے تاریخی میدان میں واٹرلو جنگ کا تھری ڈی پینوراما تھیٹر بنا رکھا ہے‘ میں یہ تھیٹر اور اس تھیٹر میں نپولین کی جنگ کا آخری حصہ دیکھ کر حیران رہ گیا لیکن توپ کاپی پینوراما واٹرلو کے پینوراما سینٹر سے زیادہ اچھا اور ایڈوانس ہے اور آپ اگر استنبول میں اس کی وزٹ نہیں کرتے تو آپ کی سیر مکمل نہیں ہوتی۔
میں واپس سلطان فاتح کی طرف آتا ہوں‘ سلطان فاتح نے استنبول کی فتح کے بعد شہر میں چالیس عظیم مساجد بنوائیں‘ اس نے حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار کے ساتھ سلطان ایوب کے نام سے انتہائی خوبصورت مسجد بنوائی‘ سلطان فاتح کی کامیابی سے قبل آیا صوفیہ استنبول شہر کی خوبصورت ترین عمارت تھی‘ یہ یورپ کا عظیم ترین چرچ تھا‘ یہ تعمیراتی معیار‘ خوبصورتی اور شکوہ میں ویٹی کن سٹی کے سینٹ پیٹرز چرچ کے برابر تھا‘ سلطان فاتح نے اس عمارت کو بھی استنبول کی فتح کی طرح چیلنج بنا لیا چنانچہ اس نے استنبول میں آیا صوفیہ کی طرز پر مساجد بنوانا شروع کر دیں‘ یہ مساجد آیا صوفیہ کی طرح زمین سے دس بارہ میٹر بلند چبوتروں پر بنائی گئیں‘ ان کے مینار آیا صوفیہ کی طرح نوکیلے اور بلند تھے‘
ان کے گنبد بھی آیا صوفیہ کی طرح وسیع اور حیران کن حد تک اونچے تھے اور ان کے اندر بھی آیا صوفیہ کی طرح رنگین شیشے لگے تھے اور انتہائی بلندی پر اندر کی طرف گیلریاں بھی تھیں‘ یہ آیا صوفیہ کی طرح پُرشکوہ مگر محبت اور عقیدت میں گندھی ہوئی عمارتیں ہیں‘ سلطان فاتح نے شہر کے وسط میں اپنے نام سے بھی ایک مسجد تعمیر کروائی‘ یہ مسجد1463ء میں شروع ہوئی اور 1470ء میں مکمل ہوئی‘ یہ مسجد سلطان فاتح مسجد کہلاتی ہے‘ سلطان فاتح کا مزار بھی اسی مسجد کے پہلو میں ہے‘ سلطان کے مزار کے ساتھ اس کے خاندان اور دوستوں کا چھوٹا سا صاف ستھرا قبرستان بھی ہے‘ یہ مسجد تعمیراتی شاہکار ہے‘ یہ آپ کو شہر کے دو چوتھائی حصے سے دکھائی دیتی ہے اور آپ کی نظر جونہی اس کے نیلے گنبد اور سلیٹی میناروں پر پڑتی ہے‘
یہ مسجد آپ کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اور آپ جوں ہی اس مسجد کی دہلزو پر قدم رکھتے ہیں آپ مسجد سلطان فاتح کے شکوہ میں گم ہو جاتے ہیں‘ یہ مسجد عقیدت اور محبت کی عظیم تحریر ہے جسے سلطان فاتح 49 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے استنبول کی سنہری زمین پر لکھ گیا تھا‘ یہ مسجد ایک روایت بھی تھی اور سلطان فاتح کے بعد آنے والے زیادہ تر ترک حکمرانوں نے اس روایت پر عمل کیا‘ یہ اپنی زندگی میں اپنے مزار کی جگہ منتخب کرتے تھے‘ اس جگہ کے ساتھ سلطان فاتح جیسی مسجد بنواتے تھے‘ فوت ہوتے تھے اور اس مسجد کے پہلو میں دفن ہو جاتے تھے‘ ان مساجد کے صدقے ان کے مزار آج تک قائم ہیں اور لوگ تین چار سو سال بعد بھی ان کے مزارات پر فاتحہ پڑھ رہے ہیں‘ سلطانوں کے بعد شاہی خاندانوں نے بھی اپنی اپنی استطاعت کے مطابق استنبول میں مساجد تعمیر کروائیں‘ یہ مساجد بھی آیا صوفیہ اور مسجد سلطان فاتح کی طرز پر تعمیر ہوئیں اور یہ بھی دیکھنے کے لائق ہیں‘
سلطان فاتح اور سلطان ایوب (حضرت ابو ایوب انصاریؓ) کے بعد سلیمانیہ مسجد ( یہ مسجد مشہور ترک بادشاہ سلیمان دی گریٹ نے بنوائی تھی‘ سلطان سلیمان کا مزار بھی سلطان فاتح کی طرح مسجد کے پہلو میں ہے) اور شہزادی مسجد زیارت کے لائق ہے‘ میں دنیا جہاں میں پھرا ہوں اور میں نے دناج کی درجنوں بڑی مسجدیں دیکھی ہیں لیکن استنبول کی مساجد کا کوئی مقابلہ نہیں کیونکہ ترک سلطان صرف مسجدیں نہیں بنواتے رہے بلکہ یہ مسجدوں کی شکل میں اسلام سے اپنی محبت زمین پر رقم کرتے رہے۔
استنبول کی شامیں بھی دلچسپ تجربہ ہیں‘ میں مغرب سے ذرا پہلے کمرے سے نکل جاتا تھا اور کبھی سلطان احمد کے قدیم علاقے میں بلیو ماسک (نیلی مسجد)‘ آیا صوفیہ‘ باسفورس کے کنارے‘ گولڈن ہارن کے ساحل اور کبھی سلطان ایوب کی قدیم مارکیٹ اور کبھی گرینڈ بازار کی تنگ و تاریک گلیوں میں کھڑا ہو جاتا تھا‘ مغرب کے وقت استنبول کی مسجدوں سے اذان کی آواز آتی تھی اور پورے استنبول کی فضا اس آواز سے معطر ہو جاتی تھی‘ باسفورس کی شام دنیا کی خوبصورت ترین شاموں میں شمار ہوتی ہے‘
دنیا بھر سے لاکھوں سیاح اس شام کے نظارے کے لیے استنبول آتے ہیں‘ یہ لوگ شام سے پہلے کروز اور بحری جہازوں پر سوار ہو جاتے ہیں یا پھر کسی پہاڑ کی چوٹی پر کسی ریستوران کے ٹیرس پر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر اپنے سامنے استنبول کے افق پر شام کو قطرہ قطرہ اترتے دیکھتے ہیں‘ دنیا کے تمام افق مغرب کے وقت سرخ ہو جاتے ہیں لیکن استنبول کے افق کی لالی دنیا میں کسی دوسری جگہ دکھائی نہیں دیتی‘ آپ کے سامنے زمین کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سرخ آگ کی ایک پٹی ہوتی ہے‘ اس پٹی کے اوپر اندھیرے کی چادر آہستہ آہستہ اترتی ہے جب کہ پٹی کے نیچے باسفورس کے سنہری پانی ہلکورے لیتے ہیں اور ان ہلکورے لیتے پانیوں میں استنبول کی روشنیاں چراغ کی طرح ایک ایک کر کے روشن ہوتی جاتی ہیں اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جب افق کی سرخ لالی آسمان کے اندھیرے اور استنبول کی تیز روشنیوں میں تحلیل ہو جاتی ہے اور آپ جب یہ منظر اذان کے پس منظر میں دیکھتے ہیں تو آپ کی روح کی گہرائیاں تک روشن ہو جاتی ہیں‘
آپ سرشاری کے ایک ایسے عمل سے گزرتے ہیں جس کا ذائقہ آپ پوری زندگی فراموش نہیں کر پاتے‘ آپ تصور کیجیے یورپ کے خوبصورت ترین شہروں جیسا ایک صاف ستھرا‘ مہذب اور منظم شہر ہو اور اس شہر میں اذان کی آواز ہو اور یہ آواز ہزاروں سال پرانی گلیوں سے چھلنی سے گرتے سفید آٹے کی طرح گرتی ہو‘ باسفورس کے ٹھنڈے پانیوں سے گلے ملتی ہو اور پھر اوپر سرخ افق پر پہنچ کر شام کی لالی کے آتشی چہرے پر ٹھہر جاتی ہو تو آپ اس وقت کیا محسوس کریں گے اور میں استنبول میں یہ منظر روز دیکھتا تھا اور یہ اذانیں‘ یہ شامیں اور باسفورس میں نہائے ہوئے یہ منظر میری زندگی کا البم بن چکے ہیں‘ سنہری یادوں کا البم اور یہ البم شاید اب پوری زندگی میری روح میں زندہ رہے‘ دھڑکتی زندہ جاوید تصویروں کی طرح زندہ۔
استنبول میں چھ دن
جاوید چوہدری پير 27 اگست 2012
حضرت ابو ایوب انصاریؓ عظیم المرتبت صحابی بھی تھے اور مدینہ میں رسول اﷲ ﷺ کے میزبان بھی۔آپؐ نے ایک بار استنبول (قسطنطنیہ) کے بارے میں فرمایا، میری امت کا جو شخص یہ شہر فتح کرے گا، میں اسے جنت کی بشارت دیتا ہوں‘ حضرت امیر معاویہؓ نے40 ہجری میں قسطنطنیہ پر حملہ کرنے کے لیے ایک بیڑا تشکیل دیا‘ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی عمر اس وقت 73 برس سے زائد تھی مگر ذوق جہاد جوان تھا‘ آپ قسطنطنیہ کی مہم کے دوران سخت بیمار ہو گئے‘ جب زندگی کی امید نہ رہی توآپؓ نے وصیت فرمائی ’’جب میں مر جائوں تو میرا جنازہ دشمن کی سرزمین میں جہاں تک لے جا سکو لے جانا اور جب آگے بڑھنے کا کوئی امکان نہ رہے تومجھے اس جگہ دفن کر دینا‘‘ آپؓ 57 ہجری میں انتقال کر گئے ‘ آپ کی وصیت کی تعمیل ہوئی‘ آپؓ کے ساتھیوں نے آپؓ کو قسطنطنیہ کی فصیل کے نیچے دفن کر دیا‘ سلطان محمد فاتح نے 1453ء میں استنبول فتح کیا تو اس نے آپؓ کا مزار بنوایا اور اس کے ساتھ ایک شاندار مسجد تعمیر کروائی‘ یہ مسجد اور یہ مزار آج استنبول کی بارونق ترین جگہ ہے اور 21 اگست کو میں اس جگہ پہنچ گیا۔
ماضی کا قسطنطنیہ اور حال کا استنبول کرہ ارض کا واحد شہر ہے جو یورپ کو ایشیا سے جدا کرتا ہے‘ اس کا ایک حصہ براعظم ایشیا جب کہ دوسرا یورپ میں شامل ہے‘ ان دونوں حصوں کو آبنائے باسفورس جدا کرتی ہے‘ یہ پانی کی باریک پٹی ہے‘ جو بحر مرمرا اور بلیک سی کو ملاتی ہے اور استنبول شہر کو بھی دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے‘ ایک حصہ ایشیا میں رہ جاتا ہے جب کہ دوسرا یورپ کا دروازہ بن جاتا ہے‘ آبنائے باسفورس سے پانی کی ایک اور پٹی نکلتی ہے جو یورپی حصے کو مزید دو حصوں میں تقسیم کر دیتی ہے‘ یہ پٹی بیل کے سینگ کی طرح ہے چنانچہ یہ گولڈن ہارن کہلاتی ہے‘ یہ گولڈن ہارن ماضی میں شہر میں داخلے کا واحد راستہ تھا۔
استنبول کے پرانے باشندوں نے گولڈن ہارن میں لوہے کی ایک مضبوط زنجیر لگا رکھی تھی‘ یہ زنیر پانی میں ڈوبی رہتی تھی‘ یہ لوگ جب زنجیر لگا دیتے تھے تو کوئی بحری جہاز استنبول کی حدود میں داخل نہیں ہو سکتا تھا‘ ان لوگوں نے ایک عجیب و غریب مسالہ بھی بنا رکھا تھا‘ یہ بارود میں ایسے کیمیکل ملاتے تھے جنھیں پانی بھی نہیں بجھا سکتا تھا‘ مسالے کا فارمولہ بازنطینی بادشاہوں کے خاندان میں صدیوں سے چلا آرہا تھا‘ بادشاہ مرنے سے قبل ولی عہد کو یہ فارمولہ بتا جاتا تھا اور نیا بادشاہ مرنے تک اس فارمولے کو سینے میں چھپائے رکھتا تھا‘ یہ لوگ گولڈن ہارن کی زنجیر کھینچ دیتے تھے جس کے بعد دشمن کے بحری جہاز آبنائے باسفورس میں رک جاتے‘ یہ اس کے بعد آبنائے باسفورس میں یہ مسالہ چھڑکتے تھے اور اسے آگ لگا دیتے تھے۔
یہ ایسی آگ ہوتی تھی جو پانی کی سطح پر جلتی تھی اور اسے کوئی بجھا نہیں سکتا تھا‘ یہ جادوئی آگ دشمن کے جہازوں کو سپاہیوں اور اسلحہ سمیت جلا کر راکھ بنا دیتی تھی۔ استنبول شہر کے گرد سنگی فصیل بھی تھی‘ یہ فصیل پانی کی حد تک تھی‘ اگر کوئی دشمن زنجیر توڑ کر اور جادوئی آگ سے بچ کر استنبول تک پہنچ بھی جاتا تھا توبھی اس کے لیے جہازوں میں کھڑے ہو کر فصیل توڑنا اور بازنطینی سپاہیوں سے لڑنا مشکل تھا چنانچہ اس قدرتی دفاع کی وجہ سے استنبول ناقابل تسخیر تھا‘استنبول کی ان خوبیوں کی وجہ سے رومن ایمپائر کے مشہور بادشاہ کانسٹائن نے 330ء میں اس شہر کو رومی سلطنت کا دارالحکومت بنا لیا اور یہ شہر کانسٹائن کی وجہ سے قسطنطنیہ مشہور ہو گیا‘ یہ شہر 1453ء تک رومن اور بازنطینی ریاست کا دارالحکومت رہا۔
یہ ریاست تین چوتھائی یورپ اور ایک تہائی ایشیا تک پھیلی تھی‘ یہ شہر ناقابل تسخیر ہونے کے ساتھ ساتھ تہذیب اور تمدن کا گہوارہ بھی تھا‘ آیا صوفیہ اس شہر کا سب سے بڑا چرچ تھا‘ یہ عمارت آج تک اس شہر کی پہچان ہے‘ یہ روم سے لے کر استنبول اور استنبول سے لے کر ٹوکیو تک دنیا کی واحد عمارت تھی جس میں 31 میٹر گول اور زمین سے 54 میٹر بلند گنبد تھا‘ شاہ جہان نے 1653ء میں تاج محل میں پہلا گنبد بنوایا‘ شاہ جہان کو گنبد کا یہ تصور شیرازی نام کے آرکی ٹیکٹ نے دیا ‘ یہ معمار استنبول میں رہا تھا اور یہ آیا صوفیہ کے گنبد سے متاثر تھا۔ آیا صوفیہ تعمیراتی شاہکار ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کی عظیم لائبریری بھی تھا‘ اس میں دو لاکھ کے قریب کتب تھیں‘ ان کتابوں میں یونانی فلاسفروں کے قلمی نسخے بھی تھے‘ عربی کی کتابیں بھی‘ ہندوستان کے قدیم مذاہب کی کتب بھی اور یورپ کے قدیم سائنس دانوں‘ دانشوروں اور علم نجوم کے ماہرین کے قلمی نسخے بھی۔
عیسائی پادری 1453ء میں سقوط قسطنطنیہ کے بعد یہ کتب یورپ لے گئے اور ان کتابوں کے طفیل تاریکی میں ڈوبایورپ روشن ہو گیا‘ یہ لوگ کھانے پکانے‘ رہنے سہنے اور ایسے گھر بنانے کے بھی ماہر تھے جو گرمیوں میں ٹھنڈے اور سردیوں میں گرم رہتے تھے‘ یہ پینے کے صاف اور میٹھے پانی کے ذخیرے بنانے کے ماہر بھی تھے اور یہ سائنسی لحاظ سے بھی دنیا سے بہت آگے تھے‘ شاید اسی لیے نبی اکرمؐ نے فرمایا میری امت کا جو شخص قسطنطنیہ فتح کرے گا میں اسے جنت کی بشارت دیتا ہوں۔ ہمارے جیسے ناقص عقل شخص کے ذہن میں اس بشارت کی دو وجوہات آتی ہیں۔ اول‘ یہ شہر ناقابل تسخیر تھا اور ظاہر ہے جو شخص اسے تسخیر کرتا وہ عسکری لحاظ سے انتہائی زیرک اور شاندار شخص ہو تا اور دوسرا یہ شہر تہذیب اور تمدن کا مرکز تھا چنانچہ اس کی تسخیر سے مسلمانوں کے تمدن اور تہذیب پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے تھے اور حضرت ابو ایوب انصاریؓ اس پہلے لشکر کے سپاہی تھے جو استنبول کی تسخیر کے لیے حجاز سے نکلا۔
میں حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے معترف ہوں ‘یہ دنیا میں کوشش اور جدوجہد کا عظیم استعارہ ہیں‘ آپؓ نے ثابت کر دیا انسان کے لیے اگر کوئی کام ناممکن ہو تو بھی اسے کوشش ضرور کرنی چاہیے‘ انسان اس کوشش میں کامیاب ہو یا نہ ہو لیکن انسان کی کوشش اس کو تاریخ کا حصہ ضرور بنا دیتی ہے‘ رسول اللہ ﷺ کے صحابہؓ کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی‘ یہ ایک لاکھ صحابہؓ زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہو گئے‘ ہم ان میں بمشکل چند سو کے نام جانتے ہیں‘ ان صحابہؓ میں حضرت ابو ایوب انصاریؓ بھی شامل تھے لیکن حضرت ابو ایوب انصاریؓ 73 سال کی عمر میںمدینہ منورہ سے نکلے اور ایک بظاہر ناممکن کام شروع کر دیا‘اللہ تعالیٰ کو آپؓ کی یہ ادا اس قدر پسند آئی کہ اس نے آپؓ کے مزار کو نام اور شناخت دے دی اور یہ شناخت تا قیامت قائم رہے گی اور میرے جیسے گناہگار مسلمان جب بھی استنبول جائیں گے یہ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے دربار میں بھی حاضر ہوں گے اور آپؓ سے کوشش اور ہمت کا سبق بھی سیکھیں گے۔
میں پچھلے سال جون میں ایک رات کے لیے استنبول رکا تھا‘ میں قازقستان جا رہا تھا اور استنبول میں رات بھر کا اسٹاپ اوور تھا‘ میں پوری کوشش کے باوجود حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر حاضری نہ دے سکا جس کا مجھے قلق تھا‘ مجھے اس عید پر چھ دن مل گئے‘ عید کے پروگرام ریکارڈڈ تھے چنانچہ میں نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور عید سے اگلے دن استنبول پہنچ گیا‘ میں چھ دن استنبول رہا اور کل عین اس وقت اسلام آباد پہنچ گیا جب سپریم کورٹ راجہ پرویز اشرف کو 18 ستمبر تک مہلت دے رہی تھی‘ میں نے استنبول میں یہ چھ دن پیدل‘ میٹرو‘ بسوں اور ٹیکسیوں میں گزارے اور پوری طرح استنبول کے فسوں میں گرفتار ہو گیا‘ یہ شہر محض ایک شہر نہیں یہ ایک ایسی جادو گری ہے جو آپ کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیتی ہے‘ میں نے بچپن میں ’’ایک بار دیکھا ہے اور دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے‘‘ کا فقرہ پڑھا تھا لیکن میں نے استنبول میں پہلی بار اس کا مشاہدہ کیا‘ ترکی تاریخ بھی ہے‘ جغرافیہ بھی اور ترقی کی عظیم مثال بھی اور پاکستان جیسے بند معاشروں اور تیزی سے تنزلی کی طرف سرکنے والے ممالک کو ترکی کو رول ماڈل بنا لینا چاہیے‘ یقین کیجیے ہمارا بیڑا بھی پار ہو جائے گا۔
یہ ملک آج سے دس سال قبل تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا تھا‘ اس کی حالت آج کے پاکستان سے زیادہ پتلی تھی‘ ترک سرمایہ کار ملک چھوڑ کر بھاگ رہے تھے اور سیاح ائیرپورٹ کے اندر لٹ جاتے تھے‘ ترکی کی جیلیں مجرموں سے بھری پڑی تھیں‘ استنبول شہر انسانی اسمگلروں کا گڑھ بن چکا تھا‘ یہ منشیات اسمگلروں کا گولڈن ہارن بھی کہلاتا تھا لیکن پھر طیب اردگان اور عبداللہ گل جیسے کٹڑ مسلمان سامنے آئے‘ انھوں نے عنان اقتدار سنبھالی اور آج دس سال بعد یہ ملک نہ صرف دنیا کی 15 ویں بڑی معیشت ہے بلکہ یہ دنیا کے پرامن ترین‘ تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک اور دنیا کی پانچویں بڑی سیاحتی منزل بن چکا ہے‘ استنبول شہر میں ہر مہینے دس سے بارہ لاکھ لوگ سیاحت کے لیے آتے ہیں اور اگر ان میں سے ہر شخص صرف ایک ہزار ڈالر خرچ کرے تو آپ اس ہزار ڈالر کو بارہ لاکھ سے ضرب دے کر اس شہر کی معیشت کا اندازہ لگا لےجیر۔
یہ شہر اسلام اور لبرل ازم دونوں کا خوبصورت ملاپ ہے‘ اس شہر میں دنیا کی شاندار ترین مساجد ہیں‘ یہ مسلمان بادشاہوں نے بنوائی تھیں اور یہ شکوہ‘ وسعت اور خوبصورتی میں آیا صوفیہ سے زیادہ شاندار ہیں‘ ان مساجد سے اذان کی صدا اٹھتی ہے تو اللہ اکبر کی آواز خوشبو کی طرح باسفورس کی ٹھنڈی ہوائوں میں گھل کر پورے شہر کو معطر کر دیتی ہے لیکن ساتھ ہی خواتین جینز‘ شارٹس اور اسکرٹس میں پورے شہر میں آزاد پھرتی ہیں اور کسی کو ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی‘ شہر میں ہر دوسری عورت نے سر پر اسکارف لے رکھا ہے اور یہ جینز پر لمبی شرٹ پہن کر پھر رہی ہے اور ہر پہلی عورت مکمل مغربی لباس میں ملبوس ہے لیکن کسی کو کوئی اعتراض نہیں‘ میں نے ان عورتوں کو حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر مردوں کے ساتھ کھڑے ہو کر دعا کرتے بھی دیکھا اور مساجد میں نماز پڑھتے بھی اور اس پر بھی کسی کو اعتراض نہیں تھا‘ کیوں نہیں تھا؟ میں حیران ہوں۔
(جاری ہے)
کھلا دل
جاوید چوہدری ہفتہ 18 اگست 2012
ہمارے سامنے ذہنی معذور نوجوان بیٹھا تھا‘ وہ نوجوان ہوش اور حواس سے بہت دور دنیا کے ہر تقاضے سے محروم تھا‘ چاولوں کی پلیٹ اس کے سامنے پڑی تھی اور وہ جانوروں کی طرح دونوں ہاتھوں سے چاول پھانک رہا تھا‘ آدھے چاول اس کے منہ سے واپس پلیٹ میں گر جاتے تھے اور آدھے وہ چپڑ چپڑ نگل جاتا تھا‘ اس کے منہ سے رال بھی ٹپک رہی تھی اور ناک کے ایک سوراخ سے سیاہ گندی رطوبت سرک کر ہونٹ پر آ کر ٹھہر گئی تھی اور اس کے منہ چلانے کے ساتھ ہر بار یوں محسوس ہوتا تھا یہ رطوبت اس کے منہ میں چلی جائے گی‘ اس کے سر پر کھمبیوں جیسے بڑے بڑے پھوڑے تھے اور ان پھوڑوں سے پیلے رنگ کی گاڑھی پیپ نکل رہی تھی اور پیپ پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں‘ وہ بھنبھناہٹ سے تنگ آ کر مکھیاں اڑاتا تھا تو یہ کمرے کا چکر لگا کر دوبارہ اس کے سر پر بیٹھ جاتی تھیں‘ اس کی گردن پر میل تارکول کی طرح جمی تھی اور کپڑوں سے بُوکے بھبھوکے اٹھ رہے تھے‘ ناخن لمبے اور ناتراشیدہ تھے اور ان میں میل جمی تھی‘ اس کی ایڑھیاں پھٹی تھیں‘ پائوں پر کیچڑ کی تہیں جمی تھیں اور رہ گیا اس کا جسم تو شاید اسے نہائے کئی برس ہو چکے تھے۔
غرض وہ ہر لحاظ سے بدبو‘ کراہت اور بدصورتی کا خوفناک نمونہ تھا‘ ہم صاف ستھرے‘ پڑھے لکھے اور جمالیاتی حسوں سے لبریز لوگ تھے اور بابا جی کے پاس روح کی گتھیاں سلجھانے کے لیے آئے تھے‘ بابا جی ہمارے درمیان موجودتھے‘ ہم نرم اونی قالین پر گائو تکیوں کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھے تھے‘ ہمارے سامنے چائے کے کپ پڑے تھے‘ درمیان میں مٹھائی کی طشتری تھی اور ہم روح کی باریکیوں پر گفتگو کر رہے تھے۔
ہمارے ساتھ نفسیات کے ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر بھی تھے‘ یہ تصوف پر ریسرچ کر رہے تھے اور یہ اس ریسرچ کے سلسلے میں دنیا جہاں کی سیر کر چکے تھے‘ وہ ہمیں بتا رہے تھے روح کا وزن 21 یا 67 گرام ہوتا ہے‘ یہ جب انسان کے جسم سے نکلتی ہے تو انسان کا وزن 21 یا 67 گرام کم ہو جاتا ہے‘ بابا جی بڑے غور سے یہ گفتگو سن رہے تھے لیکن ڈاکٹر کی گفتگو میں تسلسل نہیں آ رہا تھا‘ ہم سننے والے بھی ڈسٹرب تھے ۔
آپ خود اندازا کیجیے آپ خوبصورت علمی ماحول میں بیٹھے ہوں اور آپ کے اردگرد اسکالر لوگ جمع ہوں لیکن ان اسکالرز کے عین درمیان ایک پاگل نوجوان بیٹھا ہو اور یہ نوجوان دونوں ہاتھوں سے چاول پھانک رہا ہو اور مکھیاں اڑاتا ہو اور اس کے بدن سے بو کے بھبھوکے اٹھتے ہوں اور اس کے سر سے پیپ بہہ بہہ کر ماتھے پر گر رہی ہو اور ناک کی رطوبت ہونٹوں پر آ کر رک گئی ہو اور گردن پر جی ہاں گردن پر میل کی لکیریں کھدی ہوں اور ان لکیروں کے درمیان سے اس کی خارش زدہ سرخ جلد نظر آتی ہو تو کیا آپ روح اور روحانیت جیسے حساس موضوع پر گفتگو کر سکیں گے‘ کیا آپ ڈسٹرب نہیں ہونگے‘آپ بھی یقینا ڈسٹرب ہونگے۔
لہٰذا ہم بھی پریشان تھے اور ہماری یہ پریشانی باربار ہماری گفتگو کا ربط توڑ رہی تھی اور ہم بے چینی میں بار بار کروٹیں بدلتے تھے‘ بابا جی ہماری پریشانی بھانپ گئے‘ انھوں نے خادم کو اشارہ کیا‘ خادم گرم پانی کی بالٹی لے آیا‘ اس نے وہ بالٹی پاگل نوجوان کے قریب رکھ دی‘ وہ اس کے بعد اسٹیل کی ایک خالی پرات لایا‘ صاف ستھرا تولیا لایا‘ باریک ململ کا ایک تھان لایا اور یہ سارا سامان بھی پاگل نوجوان کے قریب رکھ دیا‘ اس کے بعد بابا جی اپنی جگہ سے اٹھے‘ نوجوان کے پاس آئے‘ خادم سے اس کے سامنے سے چاولوں کی پلیٹ اٹھوائی‘ نوجوان کے منہ پر پیار سے ہاتھ پھیرا‘ تھان سے ململ کا بڑا سا ٹکڑا پھاڑا‘ اس کا گولہ بنایا‘ بالٹی میں ڈبویا اور ململ سے نوجوان کا سر اور منہ صاف کرنے لگے‘ وہ ململ پانی میں ڈبوتے تھے‘ اس کے سر اور منہ پر پھیرتے تھے اور اس کے بعد پرات میں نچوڑ دیتے تھے۔
پانی میں شائد لیموں اور شیمپو گھلا ہوا تھا‘ ہمیں دور سے شیمپو اور لیموں کی خوشبو آ رہی تھی‘ یہ منظر پہلے منظر سے زیادہ عجیب تھا۔ آپ خود اندازا کیجیے ‘ ایک نہایت ہی معزز اور پڑھا لکھا صوفی بزرگ اپنی نشست گاہ میں قالین پر ایک مجذوب نوجوان کا منہ دھو رہا تھا اور وہ نوجوان خوشی سے دانت نکال رہا تھا۔ باباجی نے اسے گردن تک صاف کیا‘ اس کے بعد اس کے ہاتھ اور پائوںدھوئے اور اس کے بعد خادموں کو اشارہ کیا‘ خادم بالٹی‘ پرات‘ ململ کا تھان اور اس نوجوان کو اٹھا کر باہر لے گئے‘ بابا جی نے تولیے سے ہاتھ صاف کیے اور دوبارہ ہمارے درمیان بیٹھ گئے۔ ہم حیرت سے ان کی طرف دیکھ رہے تھے‘ وہ مسکرائے اور ہماری طرف دیکھ کر بولے ’’یہ پاگل پاگل نہیں‘ یہ میرا اللہ سے براہ راست رابطہ ہے ‘ یہ میری روحانیت‘ میرا تصوف ہے‘‘ ہم نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا‘ وہ بولے ’’ہمارے دل اور روح کے درمیان ایک راستہ ہوتا ہے‘ یہ ہدایت‘ سلوک اور مسرت کا راستہ ہے‘ آپ جب اس راستے پر پائوں رکھ دیتے ہیں تو آپ اللہ کے نور اور خوشبو کو اپنے ارد گرد محسوس کرتے ہیں‘ یہ خوشبو اور نور آپ کو وہ مسرت دیتا ہے جو آپ کو زندگی کی کوئی دوسری کامیابی‘ دنیا کی کسی دوسری لذت میں نہیں ملتی چنانچہ آپ دنیا اور اس کے تقاضوںسے لا تعلق ہو جاتے ہیں‘ تصوف دنیا کی مکروہات سے لاتعلقی کا نام ہے۔
صوفی موم کے اس کاغذ کی طرح ہوتا ہے جسے آپ رنگوں کے ڈرم میں ڈبو دیتے ہیں لیکن آپ اسے جونہی باہر نکالتے ہیں اس کے جسم پر کسی رنگ کا چھینٹا تک نہیں ہوتا‘ صوفی رنگوں کی اس دنیا میں رہتا ہے لیکن موم کے کاغذ کی طرح اس پر بھی دنیا کا کوئی رنگ نہیں چڑھتا لیکن موم بننے کے لیے دل کا وہ راستہ کھولنا پڑتا ہے جو روح کی طرف نکلتا ہے‘‘ ہم نے پوچھا ’’یہ راستہ کہاں ہوتا ہے‘‘ وہ بولے ’’ یہ راستہ دل کی اتھاہ گہرائیوں میں ہوتا ہے اور انسان اس وقت تک اس راستے تک نہیں پہنچ پاتا جب تک یہ اپنا دل کھلا نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ کی وسعت کی کوئی انتہا نہیں‘ یہ اپنے بدترین دشمنوں کو بھی رزق‘ صحت‘ زندگی‘ عزت‘ شہرت اور دولت دیتا ہے۔
یہ خدائی کے دعویداروں کو بھی کسی چیز کی کمی نہیں آنے دیتا‘ یہ ہرن کو بھی بڑے پیار سے پالتا ہے اور خنزیر کو بھی خوراک‘ پانی‘ پناہ اور زندگی دیتا ہے‘ یہ آپ پر بھی مہربان ہے اور یہ اس پاگل نوجوان کی ضرورتوں سے بھی واقف ہے‘ یہ مائیکرو اسکوپک جرثوموں سے لے کر وہیل مچھلیوں تک سب پر کرم اور رحم کرتاہے اور یہ اپنے بڑے سے بڑے گستاخ پر بھی زندگی کی رسی دراز رکھتا ہے‘ اللہ تعالیٰ وسیع القلب ہے اور یہ وسیع القلب لوگوں کو پسند کرتا ہے چنانچہ آپ جب اپنا دل کھولنے لگتے ہیں‘ آپ دل میں وسعت پیدا کر لیتے ہیں تو آپ کے دل میں چھپا وہ راستہ کھل جاتا ہے جو آپ کو روح کی طرف لے جاتا ہے اور آپ اس کے بعد روح کے اس گلستان میں اتر جاتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ کا نور اور خوشبو دونوں ہیں‘‘۔ ہم حیرت سے ان کی طرف دیکھتے رہے۔
بابا جی نے فرمایا ’’آپ جب تک اپنا دل کھلا نہیں کرتے‘ آپ کے پہلو میں پہنچ کر جب تک ہندو‘ سکھ‘ عیسائی‘ بودھ‘ ملزم‘ مجرم‘ گناہگار اور دنیادارسب سکون محسوس نہیں کرتے‘ یہ خود کو محفوظ نہیں سمجھتے‘ آپ پر اس وقت تک روحانیت کے دروازے نہیں کھل سکتے ‘‘ بابا جی بولے ’’آپ کی نظر میں یہ نوجوان پاگل یا مجذوب تھا لیکن یہ میرے لیے روحانی سکون‘ روحانی وظفہا اور روحانی منزل تھا‘ یہ میرے دل کی وسعت کا امتحان تھا‘ میں اگراس سے نفرت کرتا‘ اس سے پرہیز کرتا یا میرے دل میں کراہت پیدا ہو جاتی تو شائد اللہ تعالیٰ مجھ سے ناراض ہو جاتا اور مجھ سے اپنا نور اور اپنی خوشبو چھین لیتا ‘ یہ نوجوان جب تک میرے پاس بیٹھا رہا میں اپنا دل ٹٹول ٹٹول کر دیکھتا رہا اور مجھے محسوس ہوا میرے دل میں کسی جگہ اس کے بارے میں کوئی کراہت نہیں ‘ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اس شکر کے بدلے میں نے اپنے ہاتھ سے اس کا سر‘ منہ‘ ہاتھ اور پائوں دھوئے‘ میرے ملازم اب اسے نہلا رہے ہیں۔
یہ نہلا نے کے بعد اسے میرے کپڑے پہنائیں گے اور میں اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائوں گا‘ یہ اللہ کے کرم کا چھوٹا سا شکر ہوگا‘‘ باباجی نے لمبی سانس لی اور آہستہ سے بولے ’’آپ کو اولیائے کرام کے ڈیروں‘ مزاروں اور گدیوں پر ایسے درجنوں مجذوب ملیں گے‘ یہ مجذوب ان کے ولی ہونے کی نشانی ہوتے ہیں‘ ولی کا دل کھلا ہوتا ہے ‘ یہ کبھی ان سے کراہت محسوس نہیں کرتا چنانچہ مجذوب لشکروں کی شکل میں ان کے ڈیروں پر آتے رہتے ہیں جب کہ آپ ان مجذوبوں کو کبھی کسی دنیادار کی دہلیز پر نہیں دیکھیں گے کیوں؟ کیونکہ دنیادار کا دل تنگ ہوتا ہے‘ یہ ایسے لوگوں کو برداشت نہیں کرتا چنانچہ دنیا دار اللہ کے نور اور خوشبو سے بھی دور ہوتے ہیں اور روحانی منازل سے بھی‘‘ بابا جی رکے‘ لمبا سانس لیا اور بولے ’’روح کے دروازے کی چابی اکثر ان لوگوں کے پاس ہوتی ہے جن سے دنیا کو کراہت آتی ہے‘ آپ اگر روح کے سمندر میں ڈوبنا چاہتے ہیں تو اپنا دل کھلا کریں اور ان لوگوں کا منہ دھوئیں جو خود اپنا منہ نہیں دھو سکتے ‘ آپ کو اللہ تعالیٰ مل جائے گاورنہ آپ عبادات کی گلیوں میں پھرتے رہیں گے اور اللہ تعالیٰ آپ سے دور‘ دور اور دور ہوتا جائے گا یہاں تک کہ آپ اللہ کی الف تک نہیں پا سکیں گے۔

کریکٹر
جاوید چوہدری جمعرات 16 اگست 2012
ندیم افضل چن پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے ایم این اے بھی اور پنجاب کے ایک نامور سیاسی خاندان کی دوسری نسل بھی۔ یہ سچے اور کھرے انسان ہیں‘ یہ پہلے ایم این اے ہیں جنہوں نے آج سے تین سال پہلے اعتراف کیا تھا عمران خان دونوں سارسی جماعتوں میں ڈنٹ ڈالیں گے‘ ہم ندیم افضل سے سو اختلاف کر سکتے ہیں‘ ہمیں ان سے شخصی‘ سیاسی اور نظریاتی اختلافات بھی ہو سکتے ہیں لیکن یہ ان چند سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں جن پر ابھی تک کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگا‘ ندیم افضل چن کے بعد صمصام بخاری بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔
ندیم افضل چن چند دن قبل کسی ٹاک شو میں گفتگو کررہے تھے‘ ندیم افضل نے پروگرام میں جوش سے ریمارکس دیے ’’ پارلیمنٹ کو کوئی شخص بالادست ماننے کے لیے تیار نہیں‘‘ یہ ریمارکس دیتے ہوئے ندیم افضل کے لہجے میں جوش بھی تھا اور بے چارگی بھی۔ ندیم افضل چن کی بات رسوائی کی حد تک درست ہے۔ یہ سچ ہے پارلیمنٹ ملک کا معتبر اور بالادست ترین ادارہ ہوتا ہے اور قومیں اس ادارے کی حرمت‘ عزت اور توقیر پر ہمیشہ فخر کرتی ہیں لیکن پاکستان میں بدقسمتی سے یہ ادارہ بے توقیری‘ بے عزتی اور بے حرمتی کا شکار ہے اور آج ملک کا کوئی ادارہ اس کی بالادستی ماننے کے لیے تیار نہیں لیکن سوال یہ ہے پارلیمنٹ اس بے حرمتی کا کیوں شکار ہے؟
سرکاری ادارے‘ سرکاری شخصیات اور عوام پارلیمنٹ کا احترام کیوں نہیں کرتے‘ اس کی وجہ بہت سادہ اور سیدھی ہے‘ انسان کریکٹر کی وجہ سے شخصیات اور اداروں کا احترام کرتا ہے‘ اگر کریکٹر نہ ہو تو انسان بڑے سے بڑے عالم‘ بڑے سے بڑے حکمران اور بڑی سے بڑی شخصیت کی بالادستی تسلیم نہیں کرتا‘ آج شام میں بشار الاسد کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ اس سے پہلے کرنل قذافی‘ حسنی مبارک‘ زین العابدین اور صدام حسین کے ساتھ کیا ہوا؟ اور آج جنرل پرویز مشرف کس بات کی سزا بھگت رہے ہیں؟
یہ کریکٹر کی کمی تھی جس کی وجہ سے آج وہ تمام لوگ دنیا بھر میں رسوا ہو رہے ہیں یا پھر عبرت کی موت مارے گئے ہیں جو دنیا کے سب سے بڑے وی آئی پی کہلاتے تھے اور ان کے جہاز گزارنے کے لیے سیکڑوں کمرشل فلائیٹس کے رخ بدل دیے جاتے تھے اور یہ کبھی دنیا کے بالادست ترین لوگ سمجھے جاتے تھے لیکن پھر ان کے ساتھ کیا ہوا؟ صدام حسین کو جیل میں پھانسی دے دی گئی‘ کرنل قذافی کو ان کے اپنے عوام نے سڑک پر مار دیا ۔حسنی مبارک کو اسٹریچر پر عدالت لایا جاتا ہے‘ زین العابدین جان بخشی کے لیے ساری جمع پونجی دینے کے لیے تیار ہیں‘ بشار الاسد خود کو بچانے کے لیے اپنے ہی شہریوں پر گولہ باری کرا رہے ہیں اور پرویز مشرف ریڈوارنٹ سے بچنے کے لیے لندن اور دوبئی کے درمیان بھاگتے پھر رہے ہیں‘ یہ لوگ کبھی دنیا بھر کے لیڈر ہوتے تھے لیکن صرف کریکٹر کی کمی کی وجہ سے ذلیل اور رسوا ہو گئے۔
سوال یہ ہے کریکٹر ہوتاکیا ہے؟ آپ اس کے لیے قائداعظم کی مثال لیجیے‘ قائداعظم کلین شیو تھے‘ یہ شیو کے معاملے میں اس قدر حساس تھے کہ انھوں نے زندگی کے آخری دن بھی شیو کے بغیر کراچی جانے سے انکار کر دیا‘ قائداعظم نے زندگی میں کوئی عمرہ ‘کوئی حج نہیں کیا تھا‘ یہ تبلیغ پر بھی نہیں گئے‘ انھوں نے زندگی میں کوئی مسجد‘ کوئی مدرسہ بھی نہیں بنوایا‘ یہ عربی اور اردو زبان بھی روانی سے پڑھ اور بول نہیں سکتے تھے‘ آپ سے نماز کی باقاعدگی اور روزے کے تسلسل کی شہادت بھی نہیں ملتی اور آپ قرآن مجید اور احادیث کا مطالعہ بھی انگریزی زبان میں کرتے تھے‘ قائداعظم کا لباس مغربی‘ معاشرت مغربی‘ زبان مغربی‘ خوراک مغربی اور پرورش مغربی تھی‘ قائداعظم نے کتے بھی پال رکھے تھے‘
آپ کی کتوں کے ساتھ تصاویر بھی ہیں اور آپ نے زندگی میں کوئی اسلامی کتاب بھی نہیں لکھی لیکن اس کے باوجود ہندوستان کے کروڑوں مسلمان آپ کے راستے میں پلکیں بچھاتے تھے‘ لوگ آپ کے ہاتھ چومنے کے لیے ایک دوسرے کے کپڑے پھاڑ دیتے تھے اور آج بھی لوگ جوتے اتار کر آپ کے مزار میں داخل ہوتے ہیں‘ کیوں؟ لوگ ایک کلین شیو شخص کا اتنا احترام کیوں کرتے ہیں؟ اس کی وجہ آپ کا کریکٹر ہے۔ کریکٹر یا کردار دس چیزوں سے بنتا ہے اور قائداعظم میں یہ دس کی دس خوبیاں موجود تھیں‘ کریکٹر کی پہلی خوبی ایمانداری ہوتی ہے‘ قائداعظم ایمانداری کی انتہا کو چھو رہے تھے‘ قائد کی ذات پر بے ایمانی کا چھوٹاسا چھینٹا بھی نہیں تھا‘
یہ کیس لڑنے کے لیے آگرہ گئے‘ مسلم لیگ نے وہاں جلسہ رکھ لیا‘ قائداعظم نے یہ کہہ کر اس جلسے میں شرکت سے انکار کر دیا ’’ میں موکل کے خرچ پر آگرہ آیا ہوں‘ یہاں کیس کے علاوہ ہر قسم کی سرگرمی بے ایمانی ہو گی‘ آپ مجھے جب بلائیں میں ذاتی خرچ پر یہاں آئوں گا لیکن آج نہیں‘‘ قائداعظم کا آخری سانس تک کوئی فارن اکائونٹ تھا‘ کوئی فارن پراپرٹی تھی اور آپ نے نہ ہی کسی این آر او پر سائن کیا تھا‘ یہ اپنی ساری جائیداد بھی تین تعلیمی اداروں کے لیے وقف کر گئے اور ان میں سے ایک ادارہ بھارت میں تھا۔ کردار کی دوسری خوبی بے خوفی ہوتی ہے‘ قائداعظم ہر قسم کے خوف سے آزاد تھے‘ یہ کبھی مولویوں کے فتوئوں سے گھبرائے‘ انگریزوں کی طاقت سے خائف ہوئے‘ کانگریس کی سیاست بازی سے پریشان ہوئے اور نہ ہی خاکساروں کے قاتلانہ حملوں سے ڈرے۔
یہ آخری وقت تک اللہ کے بھروسے پر گارڈز اور سیکیورٹی کے بغیر زندگی گزارتے رہے۔ وقت کی پابندی کردار کی تیسری خوبی ہوتی ہے‘ قائداعظم نے آخری سانس تک وقت کی پابندی کی‘ گھڑی کی سوئیاں غلطی کر سکتی تھیں لیکن قائداعظم وقت سے دائیں بائیں نہیں ہوتے تھے۔ قانون کی پابندی کردار کی چوتھی خوبی ہوتی ہے‘ قائداعظم نے پوری زندگی قانون کی پابندی کی‘ یہ قانون انگریز کا تھا یا پاکستان کا‘ قائداعظم نے کبھی قانون کی لکیر پر پائوں نہیں آنے دیا اور یہ وہ خوبی تھی جس کی وجہ سے قائداعظم کبھی جیل نہیں گئے۔
کریکٹر کی پانچویں خوبی فراخ دلی ہوتی ہے‘ قائداعظم کا دل تنگ نہیں تھا‘ یہ لوگوں کو فرقوں‘ مذاہب اور کمیونٹیز میں تقسیم نہیں کرتے تھے۔ اٹل اصول کریکٹر کا چھٹا‘ وژن ساتواں‘ تعلیم آٹھواں‘ محنت نواں اور امید دسواں اصول ہوتی ہے‘ قائداعظم نے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا‘ الیکشن جیتنے‘ حکومت برقرار رکھنے‘ عدالتی فیصلوں سے بچنے اور اپنی دولت بچانے کے لیے کبھی اصول پر کمپرومائز نہیں کیا‘ آپ کا وژن بھی بہت صاف تھا اور آپ پوری زندگی اس وژن کی تبلیغ کرتے رہے‘ آپ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور آپ کے ساتھی بھی جدید تعلیمی اداروں سے نکل کر آئے تھے‘ آپ نے کسی جعلی ڈگری ہولڈر کو قریب نہیں پھٹکنے دیا‘ آپ نے پوری زندگی محنت کی‘ آپ کی زندگی کا کوئی لمحہ ضایع نہیں ہوا اور آپ نے کبھی امید کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔
پوری دنیا یہ سمجھتی تھی پاکستان ممکن نہیں لیکن آپ ٹی بی کے مرض اور کافراعظم جیسے خطابوں کے باوجود کبھی مایوس نہیں ہوئے۔ کریکٹر کی یہ خوبیاں تھیں جن کے باعث ہندوستان کے تمام علماء‘ مفتیان‘ گدی نشین‘ الحاج‘ جاگیردار اور امیرشریعت ایک طرف اور کلین شیو قائداعظم دوسری طرف اور لوگ دیوانہ وار کلین شیو قائداعظم کے پیچھے پیچھے۔ یہ کریکٹر تھا جس نے تاجر خاندان کے ایسے وکیل بچے کو ہندوستان کے مسلمانوں کا لیڈر بنا دیا جس نے زندگی کا دو تہائی حصہ انگریزی تہذیب میں گزارا اورجو سوچتا تک انگریزی اسٹائل میں تھا جب کہ بڑے بڑے عربی دان اور پرہیز گار پیچھے رہ گئے۔
دنیا میں عزت اور بالادستی کریکٹر کو ملتی ہے اور ہمارے لیڈر اور ہماری پارلیمنٹ بدقسمتی سے کریکٹر میں مار کھا رہی ہے چنانچہ لوگ اور ادارے اس کا احترام نہیں کر رہے۔ یہ اس کی بالادستی نہیں مان رہے‘ آپ خود سوچئے آپ جب پارلیمنٹ کو صدر آصف علی زرداری کے خلاف ڈھال بنا دیں گے‘ آپ ایک شخص کے لیے پوری جمہوریت کو دائو پر لگا دیں گے اور پارلیمنٹ جب جعلی ڈگری ہولڈروں‘ دوہری شہریت کے حامل ارکان‘ ایفی ڈرین اور حج کرپشن میں ملوث سیاستدانوں‘ رینٹل پلانٹس کرپشن میں سزا یافتہ اور بار بار پارٹیاں تبدیل کرنے والے لوگوں کے لیے دروازے کھول دے گی‘ آپ جب لوگوں کو بے نظیر بھٹو کا قاتل بھی قرار دیں گے اور ان کے ساتھ مل کر حکومت بھی بنائیں گے ‘ حکومت جب پارلیمنٹ کی تین تین قراردادوں پر عمل نہیں کر ے گی اور آپ جب ریمنڈ ڈیوس کے ایشو پر شاہ محمود قریشی کو فارغ کر دیں گے تو ملک کا کون سا شہری پارلیمنٹ‘ سیاست اور جمہوریت کا احترام کرے گا؟ پاکستان کا کون سا شہری اس بے دست پارلیمنٹ کی بالادستی مانے گا؟ ہماری پارلیمنٹ ایک دن! جی ہاں صرف ایک دن کریکٹر کا مظاہرہ کرے عوام آپ کا شکوہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں گے۔ لوگ پارلیمنٹ کی دیواریں تک چومیں گے لیکن آپ اگر یہ چاہیں کہ آپ جمہوریت کو مفاد کے بازار میں بھی نچاتے رہیں اور لوگ اس کے پائوں بھی چومیں تو یہ ممکن نہیں ہوگا۔
اب ٹلی نہیں بجے گی
جاوید چوہدری بدھ 15 اگست 2012
شیخ رشید میں تین خوبیاں ہیں‘ یہ پسپا نہیں ہوتے یعنی ’’گیو اپ‘‘ نہیں کرتے‘ یہ راولپنڈی شہر کے بلاشرکت غیرے مالک ہوتے تھے‘ یہ جس کھمبے پر ہاتھ رکھ دیتے تھے لوگ اس کھمبے کو چومنا شروع کر دیتے تھے لیکن پھر شیخ رشید اسی شہر میں اچھوت بن گئے‘ لوگ لال حویلی کو نفرت سے دیکھ کر گزرنے لگے اور شیخ رشید پر جنازوں تک میں شرکت پر پابندی لگ گئی‘ راولپنڈی کے شہریوں نے ان کی دو بار ضمانت ضبط کرا دی لیکن اس افسوسناک انجام کے باوجود شیخ رشید سیاست سے مایوس نہیں ہوئے‘ یہ سیاسی میدان میں ڈٹے رہے اور اپنے وقت کا انتظار کرتے رہے‘ شیخ رشید کی جگہ کوئی دوسرا شخص ہوتا تو وہ ’’ گیو اپ‘‘ کر جاتا اور لون تیل کی دکان کھول لیتا‘ دوسری خوبی شیخ رشید کو بولنا آتا ہے۔
یہ رونق لگانے کے ماہر ہیں‘ یہ آج بھی تقریر کے ذریعے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کر لیتے ہیں‘ یہ ٹیلی ویژن اسکرین اور مائیک کو بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں 2008ء میں عوام نے جب انھیں بری طرح مسترد کر دیا تھا تو شیخ رشید نے ٹیلی ویژن چینلز کو اپنا اکھاڑہ بنا لیا اور عوام کو آہستہ آہستہ اپنے لفظوں‘ اپنے فقروں کے جال میں پھانستے چلے گئے‘ لوگ شیخ رشید کو دیکھنے لگے‘ پروگرام کی ریٹنگ میں اضافہ ہوتا رہا اور یوں شیخ رشید کی مارکیٹ بڑھتی رہی‘ یہاں تک کہ شیخ رشید کی سیاست دوبارہ زندہ ہو گئی اور یہ لیاقت باغ کو التحریر اسکوائر بنانے میں مصروف ہو گئے اور تیسری شیخ رشید سیاست کے بہت اچھے کھلاڑی ہیں‘ یہ جانتے ہیں پیپلز پارٹی کا وقت کب اسٹارٹ ہوا۔
میاں برادران کب پاپولر ہوئے اور عمران خان نے کس وقت ان دونوں جماعتوں میں ڈنٹ ڈال دیا چنانچہ یہ پاکستان پیپلز پارٹی‘ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف تینوں سے فائدہ اٹھاتے رہے‘ یہ جانتے ہیں پاکستان مسلم لیگ ن‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف تینوں راولپنڈی سے الیکشن جیت سکتی ہیں لیکن انھیں کوئی فیس نہیں مل سکتا اور وفاقی دارالحکومت اور جی ایچ کیو کی قربت کی وجہ سے ان جماعتوں کو راولپنڈی سے شیخ رشید جیسا کوئی نامور کھلاڑی چاہیے چنانچہ شیخ رشید نے اپنے دروازے تینوں پارٹیوں کے لیے کھولے رکھے‘ یہ پاکستان مسلم لیگ ن سے بھی رابطے میں رہے۔
یہ صدر آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی سے بھی ملتے رہے اور یہ عمران خان کے سینے سے بھی لگتے رہے لیکن یہ کسی جماعت میں شامل نہیں ہوئے‘ یہ پاکستان پیپلز پارٹی میں بھٹو خاندان کے خلاف طویل زبان درازیوں اور پارٹی کی پاپولیرٹی میں کمی کی وجہ سے شامل نہیں ہوئے‘ یہ جانتے ہیں پیپلز پارٹی انھیں کبھی دل سے قبول نہیں کرے گی‘ یہ یہ بھی جانتے ہیں پیپلز پارٹی اگلا الیکشن نہیں جیت سکے گی چنانچہ شیخ رشید ہارنے کے لیے پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت شیخ رشید کو پارٹی میں شامل کرنا چاہتی ہے میاں نواز شریف‘ میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار تینوں انھیں پارٹی میں واپس لینا چاہتے ہیں‘ اس کی دو وجوہات ہیں۔
شیخ رشید ایک ایسا تیر ہے جسے کوئی بھی جماعت کسی بھی وقت پاکستان مسلم لیگ ن کے خلاف استعمال کر سکتی ہے اور یہ ن لیگ کے مشکیزے میں سوراخ کر سکتا ہے‘ آپ اس سلسلے میں 24 فروری 2010ء کے ضمنی الیکشن کی مثال لے سکتے ہیں‘ این اے 55 کے ضمنی الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی نے شیخ رشید کو سپورٹ کیا اور شیخ رشید نے تقریباً یہ سیٹ حاصل کر لی تھی لیکن میڈیا کی مخالفت اور میاں برادران کے جلسوں کی وجہ سے شیخ رشید یہ سیٹ ہار گئے تاہم انھوں نے 42 ہزار 5سو 30 ووٹ حاصل کر لیے‘ میاں برادران کا خیال ہے 2013ء کے الیکشن میں بھی ایسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف دونوں شیخ رشید کو سپورٹ کر دیں گی‘ حنیف عباسی کی شہرت کو ایفی ڈرین کی وجہ سے نقصان پہنچ رہا ہے اور شکیل اعوان شریف آدمی ہے چنانچہ شیخ رشید میدان مار جائے گا۔
دوسرا پاکستان مسلم لیگ ن میں بولنے والے لوگ بہت کم ہیں‘ چوہدری نثار علی‘ خواجہ آصف اور احسن اقبال میڈیا سے دور ہوتے جا رہے ہیں‘ یہ اپنی قیادت کا کھل کر دفاع بھی نہیں کرتے‘ یہ جلسوں کے لوگ بھی نہیں ہیں‘ مسلم لیگ ن کی بی ٹیم کمزور اور ان پاپولر ہے‘ یہ میڈیا اور جلسوں میں مار کھا جاتی ہے‘ شیخ رشید ان دونوں کاموں کے ماہر ہیں لہٰذا اگر شیخ رشید پارٹی میں واپس آ جاتے ہیں تو ن لیگ کو لائوڈ اسپیکر بھی مل جائے گا اور ن لیگ کے لیے راولپنڈی بھی محفوظ ہو جائے گا‘ میاں برادران نے محتاط الفاظ میں حنیف عباسی اور شکیل اعوان کو بھی اعتماد میں لے لیا تھا لیکن میاں نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز شریف اور بیگم کلثوم نواز نے شیخ رشید کی مخالفت کر دی۔
حسین نواز 12 اکتوبر 1999ء کے بعد شیخ رشید کے کردار سے مطمئن نہیں ہیں‘ حسین نواز اور بیگم کلثوم نواز اس دن کو بھی فراموش کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جب بیگم کلثوم نے شیخ رشید سے مدد مانگی‘ شیخ رشید نے انھیں لال حویلی بلایا اور وہاں ان سے رعونت سے بھرے لہجے مںے کہا ’’نواز شریف اور شہباز شریف باہر نہیں آئیں گے‘ آپ وقت ضایع کر رہی ہیں‘ آپ چپ چاپ ملک سے نکل جائیں‘‘ بیگم کلثوم نواز کے لیے شیخ رشید کا لہجہ اور رویہ انتہائی افسوسناک تھا چنانچہ یہ روتی ہوئیں لال حویلی کی سیڑھیوں سے اتریں‘ بیگم کلثوم نواز اور حسین نواز کو یہ بات بھی نہیں بھولتی چنانچہ یہ شیخ رشید کے سخت مخالف ہیں۔
میاں برادران صرف حسین نواز اور بیگم کلثوم نواز کی وجہ سے شیخ رشید کو پارٹی میں واپس نہیں لے پا رہے۔ باقی رہ گئی پاکستان تحریک انصاف‘ عمران خان شیخ رشید کو اپنی پارٹی میں شامل کرنا چاہتے ہیں لیکن شیخ رشید جب تک ن لیگ سے پوری طرح مایوس نہیں ہو جاتے یا عمران خان کے سونامی کو سڑکوں پر موجیں مارتے نہیں دیکھ لیتے یا پھر راولپنڈی کی ٹکٹوں کی یقین دہانی نہیں کروا لیتے اس وقت تک عمران خان کی کشتی میں سوار نہیں ہوں گے‘ یہ اس وقت تک لیلیٰ کی طرح مجنوں کو اپنی گلی کے سو چکر لگواتے رہیں گے اور عمران خان یہ چکر لگا رہے ہیں۔
شیخ رشید میں ان خوبیوں کے ساتھ چند خامیاں بھی ہیں اور یہ خامیاں ان کی شخصیت کی کشتی کے چھید ثابت ہو رہی ہیں‘ شیخ رشید ذہنی لحاظ سے 80ء کی دہائی سے آگے نہیں نکل سکے‘ یہ آج بھی یہ سمجھتے ہیں عوام کا حافظہ بہت کمزور ہے اور لوگ چند ماہ میں سید پرویز مشرف کی شان میں ان کے منہ سے نکلنے والے سہرے بھول جائیں گے‘ شیخ رشید یہ بات سوچتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں عوام کا حافظہ ضرور کمزور ہے لیکن میڈیا اور سوشل میڈیا کا حافظہ بہت مضبوط ہے‘ یہ عوام کو اب کبھی ماضی بھولنے نہیں دیں گے‘ میڈیا کے پاس شیخ رشید کے ایسے سیکڑوں کلپس موجود ہیں جو شیخ رشید کی سیاست کو جوہڑ سے باہر نہیں نکلنے دیں گے۔
شیخ رشید جب بھی اپنے پر پھڑپھڑائیں گے کوئی اینکر یا سوشل میڈیا کا کوئی گرو ماضی کا کیچڑ ان کے پروں سے باندھ دے گا اور یوں ان کی پرواز ’’ٹھس‘‘ ہو جائے گی‘ دوئم‘ میڈیا 2008ء کے بعد شیخ رشید کا سب سے بڑا سپورٹر تھا‘ یہ ریٹنگ کے چکر میں شیخ رشید کو زندہ ہونے کا موقع دیتا رہا‘ میڈیا نے شیخ رشید کو تمام سیاسی جماعتوں سے زیادہ کوریج اور اہمیت بھی دی‘ میڈیا آج بھی انھیں یک طرفہ بولنے کا موقع دیتا ہے لیکن شیخ رشید نے ذاتی اکڑ‘ بدتمیزی‘ اور ’’ ون او ون‘‘ کی ضد کی وجہ سے تمام سینئر اینکرز کو ناراض کر دیا جس کی وجہ سے یہ اب صف دوم کے اینکرز اور پروگراموں تک محدود ہو گئے ہیں اور یہ بڑی تیزی سے صف سوم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
شیخ رشید کے اس کامیاب سفر کی وجہ سے سینئر اینکرز نے ان کے ماضی کے درجنوں کلپس جمع کر رکھے ہیں‘ آپ نے ان کلپس کی ایک جھلک پچھلے ہفتے اس وقت ملاحظہ کر لی ہو گی جب پاکستان تحریک انصاف نے شیخ رشید کے ساتھ سیاسی اتحاد بنانے اور 13 اگست کے جلسے میں شرکت کا فیصلہ کیا‘ اس اعلان کے فوراً بعد عمران خان اور شیخ رشید کے کلپس میڈیا اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگے اور پاکستان تحریک انصاف چند گھنٹوں میں ’’بیک فٹ‘‘ پر چلی گئی‘ تحریک انصاف نے سیاسی اتحاد کی تردید کر دی جب کہ عمران خان کی شمولیت کے باوجود شیخ رشید کا 13 اگست کا جلسہ ناکام ہو گیا‘ پاکستان تحریک انصاف کے اپنے کارکن جلسے میں شریک نہیں ہوئے۔
عمران خان کی شہرت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور یوں لیاقت باغ لیاقت باغ ہی رہا‘ یہ التحریر اسکوائر نہ بن سکا‘ پاکستان تحریک انصاف بھی اب شیخ رشید سے دور ہٹ جائے گی‘ شیخ رشید ایک اچھے سیاستدان تھے لیکن یہ انا‘ تکبر‘ بدتمیزی اور ماضی کی سیاسی غلطیوں کی وجہ سے ایک ایسا لوہا بن چکے ہیں جو ہر اس لکڑی کو ڈبو دے گا جو اسے اپنے اوپر بیٹھنے کی اجازت دے گی‘ شیخ رشید کے پاس اب صرف ایک آپشن بچا ہے یہ قوم اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں اور اس کے بعد اپنی زندگی فلاح عامہ کے کاموں کے لیے وقف کر دیں اور یہ اس وقت کا انتظار کریں جب لوگ انھیں صدق دل سے معاف کر دیں ورنہ دوسری صورت میں شیخ رشید کی ٹلی دوبارہ نہیں بج سکے گی کیونکہ سیاست میں اب بے اصولی اور جوڑ توڑ کی گنجائش نہیں رہی‘ اس ملک میں اب صرف اور صرف اصول زندہ رہیں گے اور جو شخص اصول قربان کر کے سمجھوتہ کرے گا عوام اسے مسترد کر دیں گے خواہ وہ شخص عمران خان ہی کیوں نہ ہو۔

ہم سب مفتی ہیں
جاوید چوہدری منگل 14 اگست 2012
جنرل گل حسن قیام پاکستان کے وقت قائداعظم محمد علی جناح کے اے ڈی سی تھے‘ یہ اس وقت فوج میں کیپٹن تھے اور یہ قائداعظم کے پاس آنے سے قبل فیلڈ مارشل ولیم سلِم کے اے ڈی سی رہے تھے‘ فیلڈ مارشل ولیم سلِم اتحادی فوجوں کی مشرقی کمانڈ کے چیف تھے‘ قائداعظم نے گل حسن کو تجربے کی بنیاد پر اپنے ساتھ وابستہ کر لیا‘ اگست 1947ء میں پاکستان کی پہلی سرکاری تقریب تھی‘ یہ تقریب گورنر جنرل ہائوس کراچی میں منعقد ہو رہی تھی‘ قائداعظم نے دعوتی کارڈز جاری کرنے کا حکم دے دیا‘
یہ حکم جاری ہوا تو قائداعظم نے کیپٹن گل حسن کو طلب کیا اور انھیں ہدایت کی، گورنر جنرل ہائوس سے سب سے پہلے کراچی کے ہندو تاجروں کو دعوت نامے جاری ہونے چاہئیں‘ کراچی کے حالات اس وقت بہت مخدوش تھے‘ ہندو تاجر بھارت جا رہے تھے‘ کراچی کے مسلمان ان کی جائیدادوں پر قبضے کر رہے تھے‘ ہندوستان سے فسادات اور مسلمانوں کے قتل عام کی خبریں آ رہی تھیں‘ ان خبروں کی وجہ سے مسلمانوں میں شدید اضطراب پایا جاتا تھا‘قائداعظم کے عملے کو محسوس ہوا ان حالات میں ہندو تاجروں کو دعوتی کارڈ بھجوانا خطرناک ہو گا‘
کراچی کے مسلمان بالخصوص بھارت سے آنے والے مہاجرین ناراض ہو جائیں گے اور یوں قائداعظم کا امیج خراب ہو گا‘ عملے نے یہ تحفظات گل حسن کے ذریعے قائداعظم تک پہنچانے کا فیصلہ کیا‘ گل حسن قائداعظم کے پاس حاضر ہوئے اور ان سے عرض کیا ’’سرہندو تاجروں کو سرکاری تقریب میں بلانے سے آپ کا امیج خراب ہو گا‘‘ قائداعظم نے اس اعتراض کا کیا جواب دیا آپ یہ جاننے سے پہلے یہ ذہن میں رکھئے قائداعظم نے پاکستان دو قومی نظریئے کی بنیاد پر حاصل کیا تھا‘ قائداعظم نے ایک طویل سماجی مقدمے اور ان تھک نظریاتی جدوجہد کے بعد انگریزوں کو یقین دلایا تھا مسلمان اور ہندو دو مختلف قومیں ہیں اور یہ کبھی اکٹیا نہیں رہ سکتیں لیکن وہی قائداعظم پاکستان بننے کے بعد ہندو تاجروں کو مسلمانوں سے پہلے دعوتی کارڈز جاری کرانا چاہتے تھے اور آپ کا عملہ آپ کو اس سے باز رکھنا چاہتا تھا‘
قائداعظم نے گل حسن کی بات غور سے سنی اور اس کے بعد فرمایا ’’ پاکستان کسی ایک قوم کا ملک نہیں‘ یہ ہر اس شخص کا ملک ہے جو اس ملک کی حدود کے اندر رہ رہا ہے‘ وہ خواہ مسلمان ہو یا ہندو یا پھر کسی اور مذہب سے تعلق رکھتا ہو‘ پاکستان کی حدود میں اقلیتوں کو اکثریت سے زیادہ حقوق حاصل ہیں‘ میں اس لیے ہندو تاجروں کو مسلمانوںسے پہلے دعوت دینا چاہتا ہوں‘‘ قائداعظم کے اس فرمان کے بعد کراچی کے ہندو تاجروں کو مسلمان شہریوں سے پہلے دعوتی کارڈز جاری ہوئے اور ہندو تاجر یہ کارڈز وصول کر کے حیران رہ گئے۔
قائداعظم کی اقلیتوں کے بارے میں رائے کا ایک اور واقعہ بھی ملاحظہ کیجیے‘ قائداعظم کو سیکیورٹی کے لیے پولیس کی طرف سے دو آفیسر ملے تھے‘ یہ آفیسر قائداعظم کی حفاظت کرتے تھے‘ ان میں سے ایک ڈی ایس پی تھا اور دوسرا اس کا اسسٹنٹ کم ڈرائیور۔ ڈی ایس پی پارسی تھا‘ بھارت کے ایک شدت پسند شخص نتھو رام گوڈسے نے 30 جنوری 1948ء کو مہاتما گاندھی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا‘ قائداعظم گاندھی کے بعد شدت پسندوں کا ہدف تھے‘ قائداعظم کے عملے نے محسوس کیا ان حالات میں پارسی آفیسر کو قائداعظم کے قریب نہیں رہنا چاہیے‘
یہ کسی بھی وقت قائداعظم کے لیے خطرہ بن سکتا ہے‘ گل حسن نے قائداعظم کے سامنے ایک دن اس خدشے کا اظہار کیا‘ قائداعظم برا مان گئے اور انھیں ڈانٹ کر کہا ’’ اس ملک کا ہر شہری پاکستانی ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو اور مجھے اگر اپنے پاکستانی بھائیوں پر اعتماد نہیں تو پھر مجھے ان کی رہنمائی کا کوئی حق نہیں ‘‘ قائداعظم کے اس فرمان کے بعد یہ ڈی ایس پی اس وقت تک قائداعظم کی حفاظت پر مامور رہا جب تک آپ علاج کے لیے زیارت شفٹ نہیں ہو گئے‘ یہ ڈی ایس پی اس وقت بھی قائداعظم اور محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ ہوتا تھا جب دونوں واک کے لیے اکیلے ملیر جاتے تھے اور اس وقت اے ڈی سی اور اس پارسی ڈی ایس پی کے سوا آپ کے قریب کوئی نہیں ہوتا تھا۔
آپ اقلیتوں کے بارے میں قائداعظم کے خیالات کی ایک مثال اور بھی ملاحظہ کیجیے‘ آپ زیارت میں علیل تھے تو آپ کوڈنہم نام کی ایک عیسائی نرس دی گئی تھی‘ یہ کٹڑ عیسائی تھی‘ قائد کے عملے کا خیال تھا یہ بھی قائداعظم کو نقصان پہنچا سکتے ہیں لیکن سسٹر ڈنہم آپ کی خدمت کے لیے زیارت آئی‘ نرس نے قائداعظم کا ٹمپریچر چیک کیا‘ قائداعظم نے اس سے اپنا ٹمپریچر پوچھا‘ نرس نے جواب دیا ’’ سر میں نرس ہوں اور طبی اخلاقیات کے مطابق میں مریض کی انفارمیشن مریض کے ساتھ شیئر نہیں کر سکتی‘ میں اپنی رپورٹ ڈاکٹر کو دوں گی اور اگر ڈاکٹر نے مناسب سمجھا تو یہ آپ کے ساتھ شیئر کر لے گا‘‘
قائداعظم کو عیسائی نرس کا یہ جواب بہت پسند آیا‘ آپ نے اس کا شکریہ بھی ادا کیا اور اس کی ایمانداری کی تعریف بھی کی ‘ یہ نرس اس وقت تک آپ کے ساتھ رہی جب تک آپ کراچی روانہ نہیں ہو گئے۔ آپ اب آئیے قائداعظم محمد علی جناح کے مذہبی نظریات کی طرف‘ یہ حقیقت ہے قائداعظم محمد علی جناح نماز پڑھتے تھے‘ آپ نماز کے دوران گڑگڑا کر دعا بھی کرتے تھے لیکن آپ نے کبھی اپنی نمازوں‘ اپنی دعائوں اور اپنی گڑگڑاہٹ کو نمائش کا ذریعہ نہیں بنایا‘ آپ صبح کے وقت گھر کے کسی الگ تھلگ کمرے میں چلے جاتے تھے‘ سجدے میں گر جاتے تھے اور اﷲ تعالیٰ سے رو رو کر دعا کرتے تھے‘ اس دوران کسی کو آپ کے کمرے میں آنے کی اجازت نہیں تھی‘
آپ مذہبی ریاکاری سے کس قدر دور تھے آپ اس کی دو مثالیں ملاحظہ کیجیے‘ قائداعظم کوئٹہ میں مقیم تھے‘ یحییٰ بختیار آپ کی تصویریں بنانے کے لیے کیمرا لے کر آپ کی رہائش گاہ پر چلے گئے‘ قائداعظم اس وقت احادیث کی کوئی کتاب پڑھ رہے تھے‘ یحییٰ بختیار نے کوشش کی وہ آپ کی کوئی ایسی تصویر بنا لے جس میں کتاب اور اس کتاب کا ٹائٹل فوکس ہو جائے‘ قائداعظم یحییٰ بختیار کی نیت بھانپ گئے چنانچہ آپ نے کتاب میز پر رکھ دی اور فرمایا ’’ میں اس مقدس کتاب کو پبلسٹی کا موضوع بنانا پسند نہیں کرتا‘‘
قائداعظم 3 مارچ 1941ء کو عصر کی نماز کے لیے لاہور ریلوے اسٹیشن کے سامنے کسی مسجد میں تشریف لے گئے‘ آپ داخل ہوئے تو مسجد کھچا کھچ بھری تھی‘ لوگوں نے قائداعظم کو دیکھ کر راستہ دینا شروع کر دیا مگر آپ پچھلی صف میں بیٹھ گئے‘ نماز کے بعد لوگ آپ کے جوتوں کی طرف لپکے مگر آپ نے فوراً جوتے اٹھا لیے‘ لوگ آپ کے ہاتھ سے جوتے چھیننے کی کوشش کرتے رہے لیکن آپ نے جوتا ہاتھ سے نہ جانے دیا اور مسجد سے باہر نکل کر اپنا جوتا خود پہنا۔
یہ دونوں واقعات قائداعظم کے مذہبی جذبات اور نظریات کی عکاسی کرتے ہیں‘ قائداعظم مذہب کو نمائش اور اختلافات کا ذریعہ بنانے کے خلاف تھے‘ یہ پاکستان کی حدود میں رہنے والے ہر شخص کو مذہب اور نظریات سے بالاتر ہو کر پاکستانی سمجھتے تھے اور یہ کسی کو مذہب کی بنیاد پر برا نہیں سمجھتے تھے‘ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کے جھنڈے تک میں اقلیت کی نمایندگی موجود ہے‘ ہمارے جھنڈے میں دو رنگ ہیں‘ سبز اور سفید‘ سبز رنگ مسلمانوں کی نمایندگی کرتا ہے جب کہ سفید اقلیتوں کی۔ سفید امن کا رنگ بھی ہے ۔
لہٰذا ہم اگر جھنڈے کو قائداعظم کی نظر سے دیکھیں تو اس کا مطلب ہو گا پاکستان میں مسلمان اکثریت اس وقت تک پرامن نہیں رہ سکتی جب تک ہم اس ملک میں اقلیتوں کو امن اور تحفظ فراہم نہیں کرتے لیکن آج پاکستان کے 65 ویں یوم آزادی پر ملک میں اقلیتوں کی کیا صورتحال ہے اس کے لیے تازہ ترین خبر کافی ہو گی‘ پاکستان کے 65 ویں یوم آزادی پر بلوچستان اور سندھ سے60 ہندو خاندان بھارت شفٹ ہو چکے ہیں اور مزید خاندان بھارت منتقل ہونے کی تیاری کر رہے ہیں‘ یہ ہندو خاندان علاقے کے زور آور اور عاقبت نا اندیش لوگوں سے تنگ ہیں‘ یہ لوگ انھیں اغواء بھی کرتے ہیں‘ ان سے بھتہ بھی وصول کرتے ہیں اور انھیں زبردستی مسلمان بنانے کی کوشش بھی کرتے ہیں‘
کیا یہ واقعہ افسوس ناک نہیں اور کیا یہ ملک کی 65 ویں سالگرہ پر قائداعظم کے فلسفے کی توہین نہیں؟ کیا ہم نے اعتدال کی چادر اتار کر شدت پسندی اور نفرت کی عبا نہیں اوڑھ لی اور کیا ہم ایک ایسے راستے پر نہیں چل نکلے جس کے آخر میں ہم سب کا اپنا اپنا اسلام ہو گا اور ہم دوسروں کو بندوق کی نوک پر اپنا اسلام قبول کرنے پر مجبور کریں گے اور جو شخص ہماری بات نہیں مانے گا ہم اسے گولی مار دیں گے اور گولی مارنے کے بعد خود کو مجاہد بھی قرار دیں گے‘کیاہمارے یہ رویئے ہیںد اس وحشت کی طرف نہیں لے جا رہے ہیں جس کے آخر میں آگ‘ خون اور نعشوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور انسانیت نے اس وحشت سے بڑی مشکل سے جان چھڑائی تھی‘
ہم نے اپنے قائد کے ملک کا احترام نہیں کیا ‘ قدرت احسان فراموشوں کو وحشی بنا دیتی ہے اور یہ قدرت کی طرف سے نافرمانی کی کم ترین سزا ہوتی ہے چنانچہ آج اس اسلامی ملک میں مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمان محفوظ ہیں اور نہ ہی غیر مسلم۔ ہم اپنے علاوہ ہر شخص کو قابل گردن زدنی سمجھ رہے ہیں‘ ہم سب اپنے تئیں مفتی ہیں اور ہمارے اندر کا مفتی ہمارے علاوہ تمام لوگوں کو کافر اور سزائے موت کا حق دار سمجھتا ہے چنانچہ ہم نعشوں پر اذان دینے اور نماز پڑھنے کی تیاری کر رہے ہیں اور یہ 65 سال بعد اس قائداعظم کے ملک کا نقشہ ہے جس نے پہلی سرکاری تقریب میں ہندوئوں کو مسلمانوں سے پہلے دعوت بھجوائی تھی اور جس نے مقدس کتابوں کو پبلسٹی کا ذریعہ بنانے سے انکار کر دیا تھا۔
گری دیواروں تلے
جاوید چوہدری جمعـء 10 اگست 2012
نوشیروان قدیم ایران کا مشہور بادشاہ تھا‘ یہ 531ء سے 579ء تک بادشاہ رہا‘ نوشیروان کے عدل نے اسے تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا۔
ہم سب دنیا میں آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں‘ ہم میں سے کوئی شخص اس دنیا میں ٹھہر نہیں سکتا‘ ہم ساٹھ ستر سال کی اس زندگی میں تین قسم کے کام کرتے ہیں‘ ہمارے پہلی قسم کے کام دنیا سے متعلق ہوتے ہیں۔
دوسری قسم آخرت سے متعلق ہوتی ہے اور تیسری قسم کے کاموں کا تعلق انسانیت سے ہوتا ہے۔ ہم دنیا سے رخصت ہو تے ہیں، دنیا اور آخرت سے متعلق تمام کامیابیاں پردے کے پیچھے چلی جاتی ہیں‘ ہم نے کتنی دولت کمائی‘ کتنے بڑے عہدے لیے اور ہم نے سیاسی‘ معاشی اور سماجی لحاظ سے کتنی کامیابیاں حاصل کیں‘ ہماری دو نسلوں کے بعد ان کا تذکرہ تک ختم ہو جاتا ہے۔ ہم نے کتنی نمازیں پڑھیں‘ ہم نے کتنے روزے رکھے۔
ہم نے کتنے عمرے اور حج کیے اور ہمارے ماتھے پر کتنا بڑا محراب تھا‘ لوگ چند برس بعد یہ بھی بھول جاتے ہیں لیکن انسانیت کے لیے خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے۔ امام بخاری نے چھ لاکھ احادیث جمع کیں‘ یہ انسانیت کی خدمت تھی‘ امام بخاری آج ساڑھے گیارہ سو برس بعدبھی زندہ ہیں۔ مولانا روم نے1263ء میں تصوف میں محبت کے 40 اصول متعارف کرائے وہ بھی آج تک زندہ ہیں۔ ابن خلدون نے 1373ء میں اسلامی تاریخ لکھی‘ معاشرت کا مقدمہ تحریر کیا ۔
یہ بھی آج تک زندہ ہیں اور ان سے پہلے ہومر‘ سقراط‘ بقراط‘ افلاطون اور ارسطو زندہ ہیں اور ہمارے بعد چکن برائلر‘ گندم کی نئی قسمیں‘ کینسر کی دوا اور شیعہ سنی کے درمیان محبت ایجاد کرنے والوںکا نام سیکڑوں ہزاروں سال تک زندہ رہے گا۔ نوشیروان بھی ایک ایسا ہی شخص تھا‘ اس نے انصاف کا سستا‘ آسان اور تیز سسٹم ایجاد کیا تھا لہٰذا یہ آج14 سو سال بعدبھی زندہ ہے لیکن نوشیروان ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔
یہ زندگی کے ابتدائی برسوں میں عام راجہ‘ مہاراجہ اور بادشاہ تھا‘ یہ بادشاہ بنا تو اس نے بھی وہ تمام کام شروع کر دیے جو بادشاہ لوگ کیا کرتے ہیں‘ اس کوکوئی باغ پسند آ گیا‘ کسی کا محل‘ گھوڑا‘ کاروبار‘ دکان یا بوای پسند آ گئی تو اس نے اس پر قبضہ کر لیا‘ اس کو کسی شخص کا چہرہ اچھا نہ لگا اس کا سر قلم کروا دیا‘ کوئی بھیڑیں چرانے والا پسند آ گیا اسے مشیر بنا دیا‘ کسی وزیر‘ مشیر یا سفیر کا مشورہ پسند نہ آیا تو اسے جیل میں پھینکوا دیا۔
مفت روٹی کا آئیڈیا آیا تو پورے ملک میں مفت روٹی کے تنور لگوا دیے‘ خزانہ خالی ہوا تو تمام زمینوں‘ کارخانوں اور بازاروں پر قبضہ کر لیا اور فوج بنانے کا خبط سوار ہوا تو ملک کے تمام نوجوان بھرتی کر لیے‘ وغیرہ وغیرہ۔ نوشیروان کے ان اقدامات نے ایران کو بھی اس سطح تک پہنچا دیا جہاں ماشاء اللہ آج ہمارا ملک ہے‘ ایران دیوالیہ ہو گیا‘ شہر اجڑ گئے‘ دیہات ویران ہو گئے‘ کھیت خشک ہو گئے‘ کنوئوں کا پانی اتر گیا‘ دریا‘ ندی اور نالے غائب ہو گئے‘ کاروبار بند ہوگئے اور سرمایہ کار نقل مکانی کر گئے گویا ایران پاکستان بن گیا۔
نوشیروان ویرانی اور اجاڑ کے اس موسم میں ایک دن شکار کے لیے نکلا‘ اس کا ایک مشیر بھی اس کے ساتھ تھا‘ یہ مشیر جانوروں اور پرندوں کی بولی سمجھتا تھا‘ دونوں دیہات کی طرف نکل گئے‘ راستے میں ایک ویران گائوں آگیا‘ نوشیروان سستانے کے لیے گائوں میں رک گیا‘ گائوں مںو کوئی بندہ بشر تھا اور نہ ہی ڈھورڈنگر۔ نوشیروان ایک اجاڑ درخت کے نیچے لیٹ گیا‘ اس درخت پر دو الو بیٹھے تھے‘ الو نوشیروان کو دیکھتے تھے اور ایک دوسرے کے کان میں کھسر پھسر کرتے تھے۔
نوشیروان نے اپنے مشیر کو بلوایا اور اس سے پوچھا ’’یہ الو آپس میں کیا گفتگو کر رہے ہیں‘‘ مشیر نے غور سے الوئوں کی بات چیت سنی اور شرما گیا۔ بادشاہ نے پوچھا ’’یہ کیا کہہ رہے ہیں‘‘ مشیر نے بادشاہ سے عرض کیا ’’حضور یہ دونوں بزرگ الو ہیں‘ یہ اپنے بچوں کا رشتہ طے کر رہے ہیں‘ ایک الو دوسرے الو سے مطالبہ کر رہا ہے‘ میں جہیز میں ایسے بیس اجڑے ہوئے گائوں لوں گا جب کہ دوسرا دس دینا چاہتا ہے‘ لین دین کی یہ بحث پچھلے دو دنوں سے جاری ہے۔
لیکن یہ اب این آر او پر پہنچ گئے ہیں‘‘ مشیر خاموش ہوگیا‘ بادشاہ نے پوچھا ’’یہ کس سمجھوتے پر پہنچے ہیں‘‘ مشیر کے ماتھے پر پسینہ آ گیا اور اس نے عرض کیا ’’حضور یہ گستاخی ہے ‘ میں آپ کے سامنے یہ جرات نہیں کر سکتا‘‘ بادشاہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور اس نے سختی سے کہا ’’تم بتائو‘ یہ ہمارا حکم ہے‘‘ مشیر نے جان کی امان طلب کی اور ڈرتے ڈرتے عرض کیا ’’جناب لڑکی والے الو نے لڑکے والے الو سے کہا تم نیچے دیکھو‘ ہمارے درخت کے نیچے نوشیروان بیٹھا ہے‘ ایران اس کی مہربانی سے تیزی سے اجڑ رہا ہے‘ تم اس کے اقتدار کی طوالت کی دعا کرو۔
یہ بادشاہ سلامت رہا تو میں تمہیں بیس کیا دو سو گائوں جہیز میں دے دوں گا‘‘ یہ بات بات نہیں تھی‘ یہ تیر تھا اور وہ تیر سیدھا نوجوان بادشاہ کے دل سے پار ہو گیا‘ وہ اٹھا‘ گھوڑے پر بیٹھا‘ شہر واپس آیا‘ دربار میں گیا اور وہاں سے ایک نئے نوشیروان کا آغاز ہو گیا‘ نوشیروان نے پورے ملک میں انصاف قائم کر دیا‘ چپڑاسی سے لے کر بادشاہ تک ہر شخص انصاف کے سامنے جواب دہ تھا‘ انصاف قائم ہوا تو ملک میں امن ہو گیا‘ امن ہوا تو کھیتیاں‘ بازار‘ صنعتیں اور منڈیاں آباد ہو گئیں‘ منڈیاں آباد ہوئیں تو لوگ خوشحال ہو گئے‘ خوشحالی آئی تو اطمینان آ گیا‘ اطمینان آیا تو فنون لطیفہ کی آنکھ کھل گئی اورمصوروں نے تصویریں بنانا شروع کر دیں۔
شاعر شعر کہنے لگے‘ موسیقار دھنیں بنانے لگے‘ محقق تحقیق کرنے لگے‘ ادیب ادب تخلیق کرنے لگے اور اداکار اداکاری کے جوہر دکھانے لگے‘ یہ مناظر ہمسایہ ممالک کے عوام نے دیکھے تواس نے اپنے ظالم بادشاہوں کے خلاف بغاوت کر دی اور یوں وہ تمام ملک جنگ و جدل کے بغیر نوشردوان کے ملک کا حصہ بن گئے‘ اس طرح نوشیروان کی سلطنت کابل سے اناطولیہ اور تاشقند سے مقدونیہ تک پیلی گئی اور نوشیروان محض نوشیروان نہ رہا نوشیروان عادل ہو گیااور دنیا آج 14 سوسال بعد بھی اسے عادل کہتی ہے۔
آج پاکستان بھی نوشیروان کا قدیم ایران ہے‘ ہمارے ملک میں بھی اجاڑ پھیل رہا ہے اور ہر اجڑے ہوئے برباد ادارے‘ ہر خشک دریا‘ ہر ٹوٹے ڈیم‘ لوڈشیڈنگ کے شکار ہر شہر اور بربادی کی دھول میں دفن ہر قصبے کی منڈیر پر الو بیٹھے ہیں اور یہ الوایک دوسرے کو تسلی دے رہے ہیں ’’تم فکر نہ کرو اگریہ حکمران سلامت رہے تو میں تمہیں بیس کیا دو سو شہر دے دوں گا‘‘
لیکن اس ملک میں ان الوئوں کی سرگوشیاں سننے والا کوئی نوشیروان موجود نہیں‘ یہ سب غاصب ذہنیت کے بیمار لوگ ہیں جن کی زندگی کا مقصد صرف اقتدار‘ دولت‘ اختیار اور اپنی ناآسودہ خواہشات کو گنے کا رس پلانا ہے‘ ان سب نے لائف جیکٹس پہن رکھی ہیں چنانچہ ان کی بلا سے یہ کشتی ڈوب جائے یا تر جائے۔ یہ اپنے مستقبل‘ یہ اپنے کل سے مطمئن ہں ‘ یہ لوگ کشتی ڈوبنے کے بعد کسی پرامن‘ ٹھنڈے اور خوشحال جزیرے میں چلے جائیں گے اور باقی زندگی واک‘ گالف‘ بیچ اور اپنی کامیابیوں کی داستانیں سنا کر گزار دیں گے۔ صدر آصف علی زرداری اٹھارہویں‘ انیسویں اور بیسویں ترمیم کا تذکرہ کرتے رہیں گے۔
یوسف رضا گیلانی آغاز حقوق بلوچستان‘ گلگت بلتستان کو صوبے کا اسٹیٹس اور صوبہ سرحد کو خیبرپختونخوا کا نام دینے کا تذکرہ کرتے رہیں گے اور ساتھ ہی آہ بھر کر کہیں گے ’’ سپریم کورٹ نے میرے ساتھ بڑی زیادتی کی‘‘۔ میاں نواز شریف موٹروے‘ ایٹمی دھماکوں‘ پرویز مشرف کا غاصبانہ اقدام‘ سسیی روٹی‘ سستی ٹیکسی اور فری لیپ ٹاپ کا راگ الاپتے رہیں گے۔ میاں شہباز شریف کے لیے آشیانہ اسکیم اور دانش اسکول کافی ہیںاور پیچھے رہ گئیں۔
چھوٹی پارٹیاں تو ایم کیو ایم جاگیرداروں اور سرمایہ داروں‘ پاکستان مسلم لیگ ق میاں برادران ‘جے یو آئی اسلام دشمن قوتوں‘ اے این پی جنرل ضیاء الحق اور بلوچ جماعتیں خفیہ اداروں کو گالیاں دے کر وقت گزار لیں گی لیکن اس ملک کے عوام کہاں جائیں گے۔ ان بیچاروں کا کا بنے گا جو بھوکی بلیوںکی طرح ہر درویش کو نجات دہندہ سمجھ کر اس کے پیچھے پیچھے چل پڑتے ہیں‘ یہ بے چارے کہاں جائیںگے‘ یہ کس کے سہارے زندگی گزاریں گے۔
یہ حقیقت ہے پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن دونوں نے عوام کو مایوس کر دیا اور لوگ اب پاکستان تحریک انصاف کی طرف دیکھ رہے ہیں لیکن اگر عمران خان بھی شیخ رشید احمد جیسے پاکستانی فرزندوں کے ساتھ جلسے کرتے رہے‘ یہ بھی ان کے ساتھ سیاسی اتحاد بناتے رہے اور یہ بھی میاں برادران اور چوہدری نثار کے ذاتی کردار پر حملے کرتے رہے تو یہ بھی اپنی مقبولیت کو گرہن لگا لیںگے اور ان کا چاند بھی چڑھنے سے پہلے ڈوب جائے گا۔
ہماری ناک سے پانی ابھی نیچے ہے‘ ہم ابھی تک سانس لے رہے ہیں‘ ہماری قیادت اگر آج نوشیروان بننے کا اعلان کر دے‘ صدر آصف علی زرداری‘ میاں نوازشریف‘ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف اپنے جرائم کا اعتراف کر لیں‘ یہ سپریم کورٹ اور قوم سے معافی مانگ لیں اور یہ اعلان کر دیں۔
ہم آج سے وہ نہیں ہیں جو ہم کل تھے تو یقین کیجیے پورے اٹھارہ کروڑ لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے اوریہ لوگ اس اجڑتے ہوئے ملک کی جڑوں کو دوبارہ ہرا کر دیں گے۔ ورنہ دوسری صورت میں صدر زرداری کا بانس رہے گا اور نہ ہی میاں صاحب کی بانسری اور ہم عوام بھی اجڑے دیسوں کی گری دیواروں تلے دفن ہو جائیں گے کیونکہ لیڈروں کی غلطیوں کی سزا بہرحال قوموں ہی کو بھگتنا پڑتی ہے۔
پابندی
پاکستان میں رمضان میں ریستوران‘ ہوٹلز‘ چائے خانے اور کافی شاپس دن بھر بند رہتی ہیں‘ یہ شام پانچ چھ بجے کھلتی ہیں اور اگلی صبح سحری تک کھلی رہتی ہیں لیکن سات اگست کو اسلام آباد میں کافی شاپس اور ریستوران دن کے وقت بھی کھلے تھے ‘ یہ دروازے تک پیک بھی تھے اور اسلام آباد کے زیادہ تر شہری کافی شاپس‘ ریستوران اور چائے خانوں میں جمع تھے‘ اسلام آباد کے دفاتر میں بھی خاصا رش تھا‘ یہ رش پاکستان کی ہاکی ٹیم کی وجہ سے تھا‘ پاکستان کی ٹیم سات اگست کو آسٹریلیا سے میچ کھیل رہی تھی‘ یہ اولمپکس 2012ء کا 26واں ہاکی میچ تھا۔
پاکستان اگر یہ میچ جیت جاتا تو ہم سیمی فائنل میں پہنچ جاتے اور یہ بری خبروں میں لتھڑے اس معاشرے کے لیے خوشی کی بہت بڑی خبر ہوتی لیکن ایک گھنٹے 10 منٹ میں اس ہجوم پر اوس پڑ گئی‘ آسٹریلیا نے میچ شروع ہوتے ہی ہماری ٹیم کو دھونا شروع کیا اور یہ دھوتی چلی گئی‘ آسٹریلیا کی ٹیم نے پہلے ہاف میں پاکستان کے خلاف چار گول کر دیے‘ ہمارا میچ اخلاقاً ہاف تک ختم ہو گیا تھا لیکن اس کے باوجود ہمارے اندر امید کی چنگاری قائم رہی اور پاکستانی قوم یہ توقع لگائے بیٹھے رہی ہماری ٹیم شاید شاید دوسرے ہاف میں کوئی کرشمہ دکھا دے اور ہم ہارا ہوا میچ جیت جائیں لیکن جب بدقسمتی کے بادل چھاتے ہیں تو یہ چھاتے چلے جاتے ہیں۔
چنانچہ آسٹریلیا نے دوسرے ہاف میں مزید تین گول کر دیے اور یوں پاکستان سات کے مقابلے میں صفر گول سے ہار گیا۔ یہ ہار محض ایک ہار تھی ۔ کھیل ہار اور جیت کی گیم ہوتے ہیں‘ کھلاڑیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے جو کھلاڑی ہارنا نہیں جانتا وہ کبھی جیت نہیں سکتا‘ کھیل انسان کو ہار برداشت کرنے کا حوصلہ دیتے ہیں اور ہر ہار کے بعد کھلاڑی میں جیتنے کی امنگ بڑھا دیتے ہیں اور یہ پلٹ کر جھپٹتا ہے چنانچہ ہمیں بھی اچھی اسپورٹس مین اسپرٹ کے ساتھ اس ہار کو حوصلے کے ساتھ برداشت کر لینا چاہیے لیکن اس حقیقت کے باوجود یہ ہار ہمارے منہ پر خوفناک طمانچہ ہے۔
پاکستان کبھی ہاکی میں ورلڈ چیمپئن ہوتا تھا اور سائوتھ افریقہ سے لے کر آسٹریلیا تک اس کی کامیابی کے جھنڈے لگتے تھے‘ ہمارے ہاکی کے کھلاڑی بے شمار نئی اختراعوں کے موجد ہیں‘ ہمارے کھلاڑیوں شہناز شیخ‘ حسن سردار‘ کلیم اللہ‘ سمیع اللہ اور شہباز سینئر نے دنیا میں بے شمار ریکارڈز قائم کیے ہیں‘ حسن سردار کو 1982ء میں بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا تھا‘ دنیا سمیع اللہ کو فلائنگ ہارس کے نام سے پکارتی تھی اور سہیل عباس دنیا کے بہترین پنلٹی کارنر اسپیشلسٹ ہیں‘ سہیل عباس نے سب سے زیادہ گول کرنے کا عالمی ریکارڈ بنایا تھا لیکن ہماری ہاکی ٹیم آج پاکستانی عوام کو ایک پل کی خوشی نہیں دے سکی اور ہم آج دنیا میں شرمندہ شرمندہ پھر رہے ہیں۔
کیا یہ بدقسمتی نہیں اور کیا ہمیں اس بدقسمتی پر اداس نہیں ہونا چاہیے!۔
اولمپکس دنیا میں کھیلوں کا سب سے بڑا مقابلہ ہوتا ہے‘ قومیں دہائیوں تک اس مقابلے کی تیاری اور انتظار کرتی ہیں اور جب ان کے کھلاڑی سونے‘ چاندی اور کانسی کے تمغے لے کر واپس لوٹتے ہیں تو پوری قوم ان کا استقبال کرتی ہے لیکن ہم بدقسمتی سے سیاست‘ معیشت‘ صنعت‘ ادب‘ فنون لطیفہ اور معاشرت کے ساتھ ساتھ کھیلوں میں بھی بری طرح مار کھا رہے ہیں‘ پاکستان 1948ء سے اولمپکس میں شریک ہو رہا ہے لیکن ہم نے 64 برسوں میں صرف دس تمغے حاصل کیے ہںک۔
ان تمغوں میں بھی 8 ہاکی سے حاصل ہوئے‘ ان میں سونے کے تین‘ چاندی کے تین اور کانسی کے دو تمغے شامل ہیں‘ ہم نے ان کے علاوہ آج تک ریسلنگ اور باکسنگ میں صرف دو تمغے حاصل کیے ہیں اور یہ میڈل بھی کانسی کے ہیں۔ آپ المیہ دیکھئے‘ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے چھٹے بڑے ملک پاکستان نے 1992ء کے بعد پچھلے بیس برسوں میں اولمپکس میں کوئی تمغہ حاصل نہیں کیا جب کہ ہمارے مقابلے میں امریکا نے 2010ء تک 2549‘ سوویت یونین (روس) نے 1204‘ برطانیہ نے 737‘ فرانس نے 730‘ جرمنی نے 719 اور چین نے 429 تمغے حاصل کیے۔
یہ بڑے ملک ہیں اور ہمارا ان کے ساتھ مقابلہ نہیں ہو سکتا لیکن آپ تیسری دنیا کے ممالک کی صورتحال بھی ملاحظہ کر لیجیے‘ یوگو سلاویہ نے 84‘ ازبکستان نے 18‘ ترکی نے 82‘ تھائی لینڈ نے 21‘ سائوتھ افریقہ نے 70‘ نائیجیریا نے 23‘ منگولیا نے 19‘ قزاقستان نے 45‘ ایران نے 42‘ بھارت نے 20 اور برازیل نے 91 میڈل حاصل کیے ہیں۔ لندن اولمپکس میں چین اب تک 73‘ امریکا 70‘ برطانیہ 48‘ قزاقستان 7‘ ایران 8‘ سائوتھ افریقہ 4 اور کینیا 5 میڈل حاصل کر چکا ہے۔ 2012ء کے اولمپکس میں 205 ممالک کے کھلاڑی شریک ہیں۔
دنیا کے دس ہزار 9 سو 60ایتھلیٹ ان مقابلوں میں شامل ہیں‘ ان 205 ممالک میں پاکستان اور پاکستان کے کھلاڑی بھی ہیں لیکن ہمارا نام بدترین ٹیموں میں آ رہا ہے اور یہ سلسلہ 1992ء سے جاری ہے مگر 18کروڑ لوگوں کے اس جوہری ملک کی کسی شخصیت کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی۔ یوں محسوس ہوتا ہے ہم نے ہر قسم کی ذلت سے سمجھوتہ کر لیا ہے اور ہم جب تک دس بیس جوتے نہ کھا لیں ہمارا دن طلوع نہیں ہوتا۔
یہ درست ہے ہم دہشت گردی کا شکار ہیں‘ ہماری معیشت دم توڑ رہی ہے‘ ہماری پارلیمنٹ ملک کو اچھی جمہوری روایات نہیں دے سکی‘ ہماری سیاسی جماعتیں منافقت کی انتہا کو چھو رہی ہیں‘ ہم لوڈ شیڈنگ‘ لاقانونیت‘ بے انصافی اور افراتفری کا شکار بھی ہیں لیکن ہم کھیل میں تو دنیا کا مقابلہ کر سکتے ہیں‘ ہم اسپورٹس میں تو اپنی صلاحیتیں ثابت کر سکتے ہیں‘ ہمیں اس سے کس نے روکا ہے؟
ہم اگر اولمپکس میں شامل ممالک کو دیکھیں اور خود سے سوال کریں کیا ایران‘ قزاقستان‘ منگولیا‘ نائیجیریا‘ ازبکستان‘ یوگوسلاویہ اور کینیا ہم سے بہتر ملک ہیں‘ ہمارا جواب نفی میں ہو گا کیونکہ ان ممالک کی معیشت‘ ان کی صنعت اور ان کی سوسائٹی میں ہم سے زیادہ خرابیاں ہیں لیکن یہ ممالک ان خرابیوں کے باوجود کھیلوں میں ہم سے بہت آگے ہیں‘ آپ ان ممالک کے میڈلز کا پاکستان کے تمغوں سے تقابل کر لیں آپ کو زمین آسمان کا فرق دکھائی دے گا۔ نائیجیریا‘ کینیا اور منگولیا میں لوگ آج بھی منرل واٹر کی بوتلوں پر رسیاں باندھ کر جوتے بناتے ہیں اور وہاں لوگ آج بھی گھوڑوں‘ تانگوں اور بھینسوں پر سفر کرتے ہیں مگر یہ ملک بھی کھیلوں میں ہم سے بہت آگے ہیں۔
ہم ہاکی میں ہار گئے‘ کوئی بات نہیں‘ ٹیمیں مختلف کھیلوں میں ہارتی رہتی ہیں لیکن لندن اولمپکس 2012ء میں 40 قسم کے کھیل ہیں اور یہ وہ کھیل ہیں جنھیں سیکھنے کے لیے کسی قسم کے سرمائے کی ضرورت نہیں ہوتی‘ آپ نے ملک بھر سے ایسے بچے اور بچیاں سلیکٹ کرنی ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے عام لوگوں سے زیادہ اسٹیمنا دے رکھا ہے‘ ان بچوں اور بچیوں کو روزانہ پریکٹس کرانی ہے‘ ان کی خوراک کا بندوبست کرنا ہے اور انھیں موٹی ویشن دینی ہے اور بس۔ پاکستان میں ریسلنگ‘ باکسنگ‘ جمناسٹک‘ بیڈمنٹن اور ٹیبل ٹسن کا بے شمار ٹیلنٹ ہے‘ آپ نے ان لوگوں کو منتخب کرنا ہے‘ ان کی سرکاری سرپرستی کرنی ہے اور اس کے بعد انھیں عالمی فورم پر کھڑا کر دینا ہے۔
فٹ بال دنیا کا مقبول ترین کھیل ہے‘ یورپ اور امریکا میں فٹ بال کے ایسے ایسے کلب ہیں جن کا سالانہ بجٹ اور بچت پاکستان کے مجموعی قرضوں کے برابر ہوتی ہے‘ ہم فٹ بال کو اپنی اولین ترجیح بنا سکتے ہیں‘ ہم فٹ بال کے عالمی سطح کے سو کھلاڑی تیار کریں اور پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر لیں‘ انسان کو تیراکی کے لیے کیا چاہیے؟ سوئمنگ پولز‘ تکنیک اور پریکٹس‘ کیا ہم اٹھارہ کروڑ لوگوں کے اس ملک سے عالمی سطح کے 18 تیراک نہیں نکال سکتے؟ کیا ہم ایک درجن تیراک تیار نہیں کر سکتے؟ اس کے لیے تو کسی اٹھارہویں‘ انیسویں یا بیسویں ترممی یا پھر دوتہائی اکثریت کی ضرورت نہیں‘ اس کے لیے تو کوئی اے پی سی بھی نہیں بلوانی اور اس کے راستے میں فوج اور سپریم کورٹ بھی رکاوٹ نہیں بنے گی‘ پھر ہم ایسا کیوں نہیں کر رہے؟۔
ہم یہ کیوں نہیں کرتے؟ اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اول ہم اس ملک میں کوئی مثبت کام نہیں کرنا چاہتے‘ ہم اس ملک کے ہر شعبے کو اپنے ہاتھوں مارنا اور دفن کرنا چاہتے ہیں‘ دوم ہم ایک ایسی بے صلاحیت قوم ہیں جو ہمیشہ ’’ ہم بہت باصلاحیت ہیں‘‘ کے نعرے لگاتی ہے مگر جب میدان میں اترنے کا وقت آتا ہے تو یہ سات سات گول کروا کر دانت نکال دیتی ہے۔ مجھے بعض اوقات محسوس ہوتا ہے ہم میں یہ دونوں خامیاں موجود ہیں‘ ہم صلاحیت میں بھی مار کھا رہے ہیں اور نیت میں بھی اور اس معاملے میں بھی ہماری قوم اور ہماری حکومت دونوں مجرم ہیں۔
قوم سردیوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج کرتی ہے اور گرمیاں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف نعرے لگاکر گزار دیتی ہے اور رہ گئی حکومت تو کھیل اور کھلاڑی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہیں چنانچہ ہم بری طرح مار کھا رہے ہیں اور شرم کی بات یہ ہے ہمیں شرم بھی نہیں آ رہی۔ آپ اس وقت بھی اسپورٹس فیڈریشن کی فہرست نکال کر دیکھ لیں‘ آپ کو ملک میں اسپورٹس کی وزارتیں بھی ملیں گی‘ فیڈریشنز بھی اور بورڈز بھی اور یہ ہر سال اربوں روپے بھی کھا رہے ہیں لیکن کارکردگی ملاحظہ کیجیے‘ ہم نے 1992ء کے بعد اولمپکس سے ایک بھی تمغہ حاصل نہیں کیا۔
کیا اس شاندار کارکردگی کے بعد ان بورڈز‘ فیڈریشنز اور وزارتوں کی کوئی جسٹی فیکیشن رہ جاتی ہے؟ اگر نہیں تو پھر ہم ان لوگوں کو کروڑوں روپے کی تنخواہیں اور مراعات کیوں دے رہے ہیں ‘ ہم اگر اسپورٹس میں کینیا اور نائیجیریا کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو پھر ہمیں ان بورڈز کی کیا ضرورت ہے؟ کیا اس سوال کا جواب کسی کے پاس ہے؟ اگر نہیں تو مہربانی فرما کر اس ملک میں اسپورٹس پر بھی پابندی لگا دیں اور اس فقرے پر بھی کہ ’’ہم بڑی باصلاحیت قوم ہیں‘‘ کیونکہ دنیا ہمارے اس دعوے کا روز مشاہدہ کر رہی ہے اور ہم پر ہنس رہی ہے۔ ہم کیسے لوگ ہیں‘ ہم بجلی بنا رہے ہیں اور نہ ہی کھلاڑی مگر اس کے باوجود یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں ’’ہم بہت باصلاحیت ہیں‘‘ یہ رینٹل راجائوں کا ملک ہے‘ اس میں ایسے دعوے لطیفوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔
بیمار قوم
جاوید چوہدری منگل 7 اگست 2012
اعجاز قادری میرے دوست ہیں‘ یہ پیشے کے لحاظ سے ’’آرکی ٹیکٹ‘‘ ہیں‘ یہ ماڈرن تھیم میں کام کرتے ہیں اور کمال کر دیتے ہیں‘ یہ محض معمار نہیں ہیں‘ یہ دانشور بھی ہیں اور دنیا کے تقریباً تمام معاملات پر ان کی اپنی رائے ہوتی ہے۔ ہم زندگی میں اس وقت تک خودمختار اور آزاد نہیں ہو سکتے ہم جب تک زندگی کے مختلف زاویوںپر ذاتی رائے نہیں بنا لیتے‘ ہمارے زیادہ تر اختلافات کی وجہ ہماری ادھار لی ہوئی سوچ ہوتی ہے۔
آپ نے اکثر لوگوں کو سنا ہو گا فلاں شخص ‘کمیونٹی‘ قبیلہ یا فرقے کے لوگ برے ہیں‘ آپ ان سے نفرت کی وجہ پوچھیںتو وہ آپ کو کسی دوسرے شخص‘ کتاب یا خبر کا ریفرنس دیں گے آپ ان سے پوچھیں‘ ایک کتاب‘ ایک واقعے یا ایک شخص کی وجہ سے پورا فرقہ‘ پورا قبیلہ یا پوری کمیونٹی بری کیسے ہو سکتی ہے؟ ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہو گا لیکن وہ اپنی بات منوانے کے لیے آپ سے الجھ پڑیں گے۔ آپ نے لوگوں کواکثر کہتے سنا ہو گا پولیس کے لوگ برے ہوتے ہیں‘ کاروباری لوگ لالچی ہوتے ہیں‘ شاعر ادیب مجذوب ہوتے ہیں‘ پروفیسرغیر حاضر دماغ ہوتے ہیں۔
سیاستدان جھوٹے ہوتے ہیں‘ صحافی کرپٹ ہوتے ہیں‘ مولوی شدت پسند ہیں‘ یہودی بے ایمان ہیں‘ عساپئی مسلمانوں کے خلاف ہیں اور امریکا ہمارا دشمن ہے وغیرہ وغیرہ‘ میرا چیلنج ہے آپ ایسے دعوے کرنے والوں سے وجہ پوچھ لیں یہ آپ کو کوئی ٹھوس وجہ نہیں بتا سکیں گے‘ یہ ادھار لی ہوئی نفرت ہے جسے ہم آگے پھیلا رہے ہیں‘ ہم کیونکہ چیزوں کے بارے میں ذاتی رائے نہیں بناتے‘ ہم سنی سنائی باتوں کو اپنا موقف بنا لیتے ہیں چنانچہ ہم میں ضد ہے‘ ہم ادھار لی ہوئی رائے پر ڈٹ جاتے ہیں اور یوں کشمکش شروع ہو جاتی ہے مگر اعجاز قادری پاکستان کے ان دو تین فیصد لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جن کی ہر معاملے میں ذاتی رائے ہے۔
لہٰذا یہ اطمینان سے دوسروں کی بات بھی سن لیتے ہیں اور دوسروں پر اپنے رائے زبردستی ٹھونسنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ میں اعجاز قادری کو چند دن قبل پاکستان کے ایک کاروباری شخص کی دولت کے بارے میں بتا رہا تھا‘ میں نے انھیں بتایا یہ پاکستان کا امیر ترین شخص ہے‘ یہ ذاتی جہاز میں سفر کرتا ہے‘ اس نے دس کروڑ کی گاڑی خریدی‘ پاکستان کے آٹھ بڑے شہروں میں اس کے دفاتر اور گھر ہیں اور اس نے ایک منیجر صرف اپنی چیک بکس سنبھالنے کے لیے رکھا ہوا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اعجاز قادری نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’ میں اٹھارہ کروڑ کے اس ملک مںک کسی شخص کو امیر نیںق سمجھتا۔
یہ غریبوں بلکہ مفلسوں کا ملک ہے‘‘ میں نے پوچھا ’’ وہ کیسے؟‘‘ اعجاز قادری نے جواب دیا ’’کیا اس امیر شخص میں ایک ملین ڈالر کی پینٹنگ خریدنے کا حوصلہ ہے؟‘‘ میں خاموش رہا‘ وہ بولے ’’ میں اس ملک میں اس شخص کو امیر سمجھوں گا جو ایک دو ملین ڈالر کی پنٹنگ خرید سکے گا‘‘ میں نے قہقہہ لگایا کیونکہ میں ان کی بات سمجھ گیا تھا۔
اعجاز قادری کی بات شاید آپ کو عجیب لگے ‘ آپ بھی میری طرح دس بیس کروڑ روپے کی تصویر کو دولت کا زیاں سمجھیں گے‘ آپ بھی اسے انسانیت کی توہین کہیں گے لیکن جدید دنیا میں یہ ’’جرم‘‘ روز ہوتا ہے‘ دنیا یہ سمجھتی ہے معاشرے اس وقت تک سوشالائزیشن کی بلندی تک نہیں پہنچتے یہ جب تک تخلیق کاروں اور ان کی تخلیقات کو صنعتوں‘ کانوں اور ہائوسنگ سوسائٹیوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ آپ دنیا کے بیس بڑے ممالک کے مصوروں‘ ادیبوں‘ پروفیسروں‘ اداکاروں‘ گلوکاروں اور کھلاڑیوں کا پروفائل نکال لیں آپ کو ان میں سے ہر شخص ہمارے صدر زرداری اور نواز شریف سے کئی گنا امیر ملے گا۔
آپ اس کے بعد دنیا کے بیس غیر ترقی یافتہ‘ غریب اور مفلوک الحال ممالک کے تخلیق کاروں کے نام اور پروفائل دیکھیں آپ کو ان بیس ممالک میں بین الاقوامی میایر کا کوئی مصور‘ ادیب‘ شاعر‘ اداکار‘ گلوکار اور کھلاڑی نہیں ملے گا‘ اگر ملا بھی تو وہ ہمارے پٹھانے خان‘ ریشماں‘ مہدی حسن‘ صادقین اور لہری کی طرح ایڑھیاں رگڑ رہا ہو گا یا پھر کسی ایسے ملک میں پناہ گزین ہو گا جہاں فن اور فن کار کی قدر ہوتی ہے‘فن اور فنکاروں کی قدر دنیا میں ترقی اور بدحالی کا ایک بڑا معیار ہے‘ دنیا کے جس ملک میں ان لوگوں کی قدر ہوتی ہے وہ ملک آگے بڑھ جاتا ہے اور جس ملک میں ان لوگوں کی بے توقیری اور بے قدری ہوتی ہے وہ ملک جہالت اور بدحالی کے گڑھے میں گر جاتا ہے۔
آپ کو ایتھوپیا‘ روانڈا‘ برونڈی‘ افغانستان اور پاکستان کے فنکار ایسی ہی صورتحال کا شکار دکھائی دیں گے ۔ یورپ میں2011ء میں ’’دی کارڈ پلیئرز‘‘ نام کی پینٹنگ 254 ملین ڈالر میں فروخت ہوئی تھی‘ یہ تصویر فرانسیسی آرٹسٹ پال کازین نے 1890 ء میں بنائی تھی‘ یہ ماسٹر پیس تھا اور یہ ماسٹر پیس ڈھائی ارب روپے میں فروخت ہوا‘ امریکا کے ایک مصور جیکسن پولاک کی ایک پینٹنگ “No,s 1948″ 160 ملین ڈالر میں فروخت ہوئی ‘ زرداری صاحب نے سوئس اکائونٹس میں 60 ملین ڈالر چھپائے تھے جب کہ پولاک کی ایک تصویران سے تین گنا زیادہ قیمت میں بکی۔
امریکا کے 82 سالہ مصور جیسپر جانز نے اپنی پینٹنگ ’’ فالس اسٹارٹ‘‘ 80 ملین ڈالر میں فروخت کی تھی‘ امریکی کھلاڑی پیٹن میننگ نے 2011ء میں 23 ملین ڈالر معاوضہ لیا‘امریکی مصنف جان گرشم کی کتابوں کی 25 کروڑ کاپیاں فروخت ہوئیں‘ اس نے ان کتابوں سے 600 ملین ڈالر کمائے‘ امریکا کے دوسرے بڑے مصنف جیمز بی پیٹر سن نے 71 ناول لکھے‘ اس نے ان ناولوں پر 2011ء میں 84 ملین ڈالر رائیلٹی لی‘ ٹام کروز نے اس سال 75 ملین ڈالر اور لیونارڈو ڈی کیپریو نے پچھلے سال 77 ملین ڈالر معاوضہ لیا‘ انجلینا جولی اور سارہ جیسیکا پارکر سالانہ تیس تیس ملین ڈالر معاوضہ لے رہی ہیں‘ میاں بردران پر کرپشن کے کل چارجز انجلینا جولی کے ایک سال کے معاوضہ کے برابر ہیں۔
امریکی گلوکارہ ماریہ کیری نے امریکی شو میں جج بننے کا معاوضہ 18 ملین ڈالر لیا‘ یہ رقم پاکستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی کے اکیڈمک بجٹ کے برابر ہے اور امریکی فلم ڈائریکٹر جیمز کیمرون نے پچھلے سال 257 ملین ڈالر‘ کامیڈین جیف ڈن ہم نے 23 ملین ڈالر اور بون جوی بڈنن نے 125 ملین ڈالر کمائے‘ آپ امریکا کے ان 13 تخلیق کاروں کا ایک سال کا معاوضہ جمع کر لیں تو یہ ہماری مجموعی برآمدات کے برابر ہو جائے گا جب کہ ان کی عمر بھر کی کمائی ہمارے سارے قرضے ادا کرنے کے لیے کافی ہو گی۔
ہم اب پوچھ سکتے ہیں امریکا اور یورپ کے امراء ایک معمولی تصویر 254 ملین ڈالر میں کیوں خریدتے ہیں‘ یہ بنیادی طور پر تصویر یا مصور‘ کتاب یا مصنف‘ اداکاری یا اداکار اور نغمے یا گلوکار کی قیمت نہیں ہوتی یہ اِس فن موسیقی‘ فن اداکاری‘ فن تحریر اور فن مصوری کی اُس عظمت کا اعتراف ہے جس تک پہنچنے کے لیے انسان کو دس ہزار سال لگ گئے‘ پال کازین کی پینٹنگ ’’ دی کارڈ پلیئرز‘‘ قطر کے شاہی خاندان نے خریدی تھی‘ یہ خریداری شاہی خاندان کی طرف سے مصور اور مصوری دونوں کی عظمت کا اعتراف ہے‘ دنیا کا کوئی صدر‘کوئی وزیراعظم‘کوئی بزنس ٹائی کون کسی اداکار‘ رائٹر‘ مصور‘ موسیقار‘ گلو کار یا کھلاڑی کے ساتھ تصویر بنواتا ہے تویہ ایک خاموش اعتراف ہوتا ہے کہ میری ساری سیاسی جدوجہد ایک طرف اور اس شخص کی اداکاری‘ تحریر‘ رنگ‘ آواز اور بائولنگ دوسری طرف۔ یہ قیمت قیمت نہیں ہوتی‘ یہ اعتراف فن ہوتی ہے اور یہ رویہ معاشروں کی بلوغت‘ سولائزیشن کی ترقی اور جمالیاتی حسوں کی بلندی کو ثابت کرتا ہے۔
دنیا وہاں جارہی ہے اور ہم 2012ء میں یہ بحث کر رہے ہیں‘ ہمارے میڈیا نے راجیش کھنہ کو سارا دن کوریج کیوں دی ؟راجیش کھنہ اداکار تھا‘ اداکاری سولائزیشن اور تہذیب کی علامت ہے اور مہذب معاشرے راجیش کھنہ جیسی علامتوں کو عزت دیتے ہیں‘ راجیش کھنہ محض ایک اداکار تھا‘ وہ کوئی مذہبی اسکالر نہیں تھا‘ اس نے صرف فن اداکاری کی خدمت کی‘ اس نے کسی مذہب کی کوئی خدمت نہیں کی‘ اسلام کی اور نہ ہی ہندوازم کی بالکل اسی طرح جس طرح پال کازین‘ جیکسن پولاک یا انجلینا جولی عیسائیت کی کوئی خدمت نہیں کر رہے یا مائیکل جیکسن نے انجیل کی ترویج میں کسی قسم کی خدمات سرانجام نہیں دیں اور ہماری نورجہاں اور مہدی حسن نے اسلام کے لیے کچھ نہیں کیا۔
راجیش کھنہ اداکار تھا‘ اس نے اداکاری میں کمال کر دیا۔ سارک ممالک کے ڈیڑھ ارب لوگ مذہب اور نظریات سے بالاتر ہو کر اس کی اداکاری کے فین تھے اور اس کی موت پر ساتوں ممالک نے اس کو ٹری بیوٹ پیش کیا لیکن ہم پوچھ رہے ہیں ہمارے میڈیا نے اس کو کیوں کوریج دی۔ ہم بڑی دلچسپ قوم ہیں‘ ہم مہدی حسن کو علاج کے بغیر مار دیتے ہیں‘ منیر نیازی کو معاشرتی بے نیازی میں ڈبو دیتے ہیں‘ ہم سے حبیب جالب کتابوں کی رائیلٹی مانگتا مانگتا مر جاتا ہے‘ ہم فیض صاحب کو جلا وطن کر دیتے ہیں‘ ہم علامہ اقبال کو مولویوں کے حوالے کر دیتے ہیں‘ ہم مولانا مودودی کے خلاف نعرے ایجاد کرتے ہیں‘ہم جاوید غامدی کو ملائیشیا میں پناہ لینے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔
ہم اپنے اداکاروں‘ گلوکاروں‘ مصوروں‘ ادیبوں اور شاعروں کو جیتے جی مار دیتے ہیں‘ ہمارے نصرت فتح علی خان اور قتیل شفائی روٹی اور عزت کے لیے انڈیا جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں‘ ہم کسی عالم کو برداشت کرتے ہیں اور نہ ہی گلوکار کو اور ساتھ ہی راجیش کھنہ کے بارے میں پوچھتے ہیں‘ اس نے اسلام کی کیا خدمت کی؟ کیا ہم نفسیاتی طور پر بیمار نہیں ہو چکے؟ ہم تخلیقی اور تہذیبی لحاظ سے روانڈا نہیں ہو چکے؟ ہاں ہم ہو چکے ہیں کیونکہ ہم اس ملک میں کسی ایسے شخص کو عزت نہیں دیتے جسے پوری دنیا باعزت سمجھتی ہے‘ جاوید غامدی بھی اس ملک سے ہجرت پر مجبور ہو جاتے ہیں اور مہدی حسن کا علاج بھی انڈیا کرتا ہے! ہم بیمار قوم ہیں۔

تصوف
جاوید چوہدری اتوار 5 اگست 2012
حضرت بابا فرید گنج شکرتصوف کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے دور کے رئوسا میں بھی شمار ہوتے تھے‘ آپ کا تجارتی مال بحری جہازوں پرجاتا تھا‘ آپ ایک بار مریدوں کے حلقے میں بیٹھے تھے‘ آپ کا ایک خادم حاضر ہوا‘ آپ کے کان پر جھکا اور آپ سے عرض کیا‘ آپ کے مال کا ایک جہاز سفر پر رواں دواں تھا‘ طوفان آیا اور آپ کا جہاز ڈوب گیا‘‘ آپ نے ایک سیکنڈ توقف کیا اور پھر بآواز بلند فرمایا ’’شکر الحمدﷲ‘‘ اور اس کے بعد دوبارہ واعظ اور نصیحت میں مصروف ہو گئے۔
تھوڑی دیر بعد وہ خادم دوبارہ حاضر ہوا‘ آپ کے قریب پہنچا‘ کان پر جھکا اور عرض کیا ’’میں معذرت چاہتا ہوں‘ ہماری خبر غلط تھی‘ جہاز نہیں ڈوبا‘ ہمارا مال سلامت ہے‘‘ آپ نے چند سیکنڈ توقف کیا اور دوبارہ بآواز بلند فرمایا ’’شکر الحمدﷲ‘‘ اور ایک بار پھر واعظ اور نصیحت میں لگ گئے۔ آپ کے مریدین اس واقعے پر حیران تھے‘ مریدوں نے پوچھا ’’حضور آپ کو دو متضاد خبریں ملیں مگر آپ نے دونوں خبروں پر شکر ادا کیا‘
اگر گستاخی نہ ہو تو کیا ہم اس کی وجہ جان سکتے ہیں‘‘ حضرت بابا فرید گنج شکر نے فرمایا ’’مجھے جب خادم نے جہاز ڈوبنے کی اطلاع دی تو میں نے اپنے دل کو ٹٹول کر دیکھا اس میں اس خبر پرملال‘ پریشانی‘ دکھ یا تکلیف کا سایہ تو نہیں آیا‘ میں نے دیکھامیرے دل میں اس نقصان پر کوئی دکھ یا پریشانی نہیں تھی‘
میں نے اس کرم پر اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ دوسری بار جب خادم نے اطلاع دی میرا مال محفوظ ہے تو میں نے اپنے دل کو دوبارہ ٹٹول کر دیکھا‘ میرے دل میں کہیں اس خبر پر غرور‘ فخر‘ خوشی اور لالچ کا جذبہ تو نہیں آگیا‘میں نے دیکھا میرا دل اس خبر پر بھی نارمل تھا چنانچہ میں نے اس کرم پر بھی اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ حضرت بابا فرید گنج شکر کا یہ واقعہ تصوف ہے۔
ہماری زندگی کے دو بڑے مسئلے ہیںخوف اور لالچ ۔ ہماری زندگی خوف سے بھی خراب ہوتی ہے اورپھر لالچ سے بھی۔ ہمیں خوف اور لالچ دونوں سمجھوتے پر مجبور کرتے ہیں‘ خوف ہماری زبان کو جکڑ لیتا ہے‘ یہ ہمیں سچ بولنے سے روکتا ہے‘ یہ ہمیں اﷲ کی وسیع زمین میں دوڑنے‘ بھاگنے‘ چلنے پھرنے اور زمین کی ہیئت محسوس کرنے سے باز رکھتا ہے‘ یہ ہمیں پناہ گاہوں کا اسیر بناتا ہے‘ ہم قلعوں‘ محلوں اور مضبوط فصیلوں کے اندر محصور ہو جاتے ہیں‘ دروازوں اور دیواروں پر فوجیں بیٹھا دیتے ہیں‘ ہم اکیلے سفر نہیں کرتے‘ ہمیں پروٹوکول بھی چاہیے ہوتا ہے اور سیکیورٹی بھی لیکن ہم اس کے باوجود ڈرتے رہتے ہیں‘
یہ خوف آہستہ آہستہ ہمیں نفسیاتی مریض بنا دیتا ہے اور ہم رات کے اندھیرے سے بھی ڈرتے ہیں‘ بارش سے بھی خوفزدہ ہوجاتے ہیں‘ ہمیں سردی اور گرمی بھی خوفزدہ کرتی ہے‘ ہمارے لیے بہار بھی ’’پولن انرجی‘‘ بن جاتی ہے‘ ہم پانی سونگھ سونگھ اور چکھ چکھ کر پیتے ہیں‘ ہم خوراک کی کوالٹی کے بارے میں مشکوک ہو جاتے ہیں‘ ہم دوائوں اور ڈاکٹروں سے بھی مطمئن نہیں ہوتے‘ ہم آپریشن بھی امریکا اور برطانیہ سے کراتے ہیں‘ ہم گاڑیاں بھی بلٹ پروف استعمال کرتے ہیں اور ہم بنکر جیسے بیڈ رومز میں سوتے ہیں لیکن ہمیں اس کے باوجود نیند نہیں آتی۔یہ خوف ہماری زندگی کو جہنم بنا دیتا ہے۔ لالچ بھی اسی طرح ہماری زندگی کے تمام تارپور ہلا دیتا ہے‘
ہم اپنی زندگی کے ایک ایک پل‘ ایک ایک رشتے کو دکان بنا دیتے ہیں‘ ہم سبزی خریدنے جاتے ہیں تو ہم اس میں سے منافع نکالنے لگتے ہیں‘ ہم اجنبی سے ملتے ہیں تو اس سے محفوظ سرمایہ کاری کے طریقے جاننے لگتے ہیں‘ ہم اپنی رقم سے زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کے لیے بکنا بدلتے رہتے ہیں‘ ہم روپوں کو ڈالر اورڈالرزکو یورو میں تبدیل کرتے رہتے ہیں‘ ہم اپنے ہر سلام‘ ہر معانقے اور ہر ملاقات میں فائدہ تلاش کرتے ہیں اور لالچ کے اس سفر کے آخر میں ہم اپنے دائیں بائیں‘ اوپر نیچے فائدے کے انبار لگا دیتے ہیں‘ ہمیں ہر جگہ‘ ہر طرف فائدہ ہی فائدہ دکھائی دینے لگتا ہے اور ہم اس فائدے کے حصول اور تحفظ کے لیے بے شمار سمجھوتے کرتے ہیں‘
ہم اس کے لیے اپنے جذبات‘ اپنے خیالات‘ اپنا ایمان‘ اپنی آزادی اور اپنا سکون تک قربان کر دیتے ہیں لیکن آخر میں یہ خوف اور یہ لالچ ہمیں نفسیاتی مریض بنا دیتا ہے‘ ہم بے سکون‘ بے آرام اور ڈپریس ہو جاتے ہیں لیکن ہم میں سے جو لوگ اپنے لالچ اور اپنے خوف کو شکست دے دیتے ہیں جو ان سے آزاد ہو جاتے ہیں وہ صوفی ہوتے ہیں اور جو خوف اور لالچ سے نکلنے لگتے ہیں وہ تصوف کے راستے پر چلنے لگتے ہیں چنانچہ تصوف فیئر اور گریڈ ۔ خوف اور لالچ سے رہائی ہے اور یہ دونوں شیطان کے بڑے ہتھیار ہیں۔
شیطان کے دو بڑے ہتھیار ہیںخوف اور لالچ‘ یہ انسان کو ان ہتھیاروں کے ذریعے زیر کرتا ہے‘ آپ حضرت آدمؑ کی پیدائش کے بعد اﷲ تعالیٰ اور شیطان کا مکالمہ ملاحظہ کیجیے‘ شیطان نے مردود ہونے کے بعد اﷲ تعالیٰ سے تاقیامت زندگی مانگی‘ اﷲ تعالیٰ نے عنایت کر دی ‘شیطان نے اس کے بعد اﷲ تعالیٰ کو چیلنج کیا‘ مجھے آپ کی قسم میں نسل انسانی کو گمراہ کروں گا‘ سوائے ان لوگوں کو جو آپ کے منتخب کردہ ہیں۔ اب سوال یہ ہے یہ منتخب کردہ لوگ کون ہیں؟ یہ لوگ انبیائے کرام ہیں‘ اﷲ تعالیٰ کا کوئی نبی شیطان کا شکار نہیں ہوا‘ کیوں؟
کیونکہ اﷲ کے تمام انبیاء شیطان کے دونوں ہتھیاروں خوف اور لالچ سے محفوظ تھے ‘انبیاء کے دل میں کیونکہ لالچ اور خوف کا بیج نہیں ہوتا چنانچہ شیطان ان دونوں جذبوں کو پانی اور خوراک دے کر درخت نہیں بنا سکتا تھا لہٰذا یہ نبیوں پر کبھی وار نہیں کر سکا۔ انبیائے کرام شیطان سے باقاعدہ مکالمے کرتے رہے ہیں‘ یہ اس سے سوال جواب تک کرتے رہے ہیں اوروہ مکالمے میں ہمیشہ بے بس رہا۔ انبیائے کرام کے بعد صوفیائے کرام اﷲکے منتخب بندے ہوتے ہں لیکن کیونکہ یہ نبوت کی مٹی سے نہیں بنے ہوتے چنانچہ یہ کڑے مجاہدوں کے بعد دل کو لالچ اور خوف سے پاک کرتے ہیں‘
شیطان اس مجاہدے کے دوران خوف اور لالچ کے ہزاروں بہروپ بھرکر ان پر حملے کرتا ہے اور یہ بعض اوقات کامیاب بھی ہو جاتا ہے لیکن معرفت کے راستے کے مسافر پھر اﷲتعالیٰ کے کرم سے جلد سنبھل جاتے ہیں ‘ اپنی مشقت اور مجاہدوں میں اضافہ کر دیتے ہیں یہاں تک کہ لالچ اور خوف ان کے دل کی نسوں تک سے نکل جاتا ہے اور یوںیہ منزل تک پہنچ جاتے ہیں لیکن یہ لوگ کامیابی کے تخت پر بیٹھنے کے باوجود اپنے دل کے دروازے کی مسلسل حفاظت کرتے ہیں‘ یہ عمر بھر اس اندیشے کا شکار رہتے ہیں کہ شیطان کہیںکسی گمان‘ کسی خیال کی شکل میں دل میں نہ اتر آئے‘
یہ دل میں لالچ اور خوف کا بیج نہ بو دے چنانچہ یہ شیطان کے وار سے بچنے کے لیے روز مجاہدے‘ مشاہدے اور وظیفے کے عمل سے گزرتے ہیں‘ یہ روزتنی ہوئی رسی پر چلتے ہیں اور اب سوال پیدا ہوتا ہے تصوف اور روحانیت میں کیا فرق ہے؟ یہ فرق جاننا بھی بہت ضروری ہے۔
تصوف رسم نبوت کا تسلسل ہے‘ صوفیائے کرام مختلف ادوار میں اسلام کو آسان‘ قابل فہم اور عام انسانوں کے لیے قابل قبول بناتے ہیں‘ یہ وقت کی تبدیلیوں کو سامنے رکھ کر مذہب کی جدیدتشریح کرتے ہیں‘ یہ ہر دور کے انسانوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہیں جب کہ روحانیت اپنے باطن کو مطمئن رکھنے کا کھیل ہے‘ ہمیں پوری دنیا میں ہزاروں روحانی شخصیات ملتی ہیں‘ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے دل کو لالچ اور خوف سے آزاد کر لیتے ہیں لیکن ان کے پاس کیونکہ مذہب کا علم نہیں ہوتا چنانچہ یہ مذہب کی تشریح اور وضاحت نہیں کر پاتے مگر یہ اپنے آپ اور اپنے اردگرد موجود لوگوں پر اثر انداز ضرور ہوتے ہیں‘
یہ خود بھی مطمئن رہتے ہیں اور دوسروں کے دل پر بھی اطمینان کا سایہ ڈال دیتے ہیں۔ آپ اگر روحانیت میں مذہب یا شریعت ڈال دیں تو یہ تصوف ہو جاتا ہے اور آپ اگر صوفی سے شریعت یا مذہب نکال دیں تو یہ روحانی بزرگ بن جاتا ہے لیکن ظاہری اور باطنی لحاظ سے ہوتے دونوں یکساں ہیں‘ دونوں کی زندگی میں اطمینان‘ سکون اور مسرت ہوتی ہے اور دونوں ماحول پر اثرانداز ہوتے ہیں مگر ایک مذہبی صوفی ہوتا ہے اور دوسرا دنیاوی۔ اب سوال یہ ہے ہمیں تصوف کی ضرورت کیا ہے ؟۔ ہم جب اپنے دل کو لالچ اور خوف سے پاک کر لیتے ہیںتو ہمیں چندانعامات ملتے ہیں‘ ان انعامات میں سکون‘ اطمینان‘ تسکین‘ مسرت‘ حوصلہ‘ برداشت اور ماضی‘ حال اور مستقبل دیکھنے والی آنکھ شامل ہوتی ہے‘
صوفی کے اندر کسان کی وہ حس بیدار ہو جاتی ہے جو سٹہ دیکھ کر بیج اور پھل دونوں کا اندازا لگا لیتی ہے۔ صوفی میں مچھیرے کی وہ حس بیدا ر ہو جاتی ہے جو پانی دیکھ کر اس کی تہہ میں چھپی مچھلیوں کا ذائقہ جان لیتی ہے اور صوفی میں بندہ صحرائی کی وہ حس جاگ جاتی ہے جو ریت سونگھ کر بتا دیتی ہے پانی کتنے کلومیٹر دور ہے۔
روحانیت میں اس حس کو کشف کہا جاتا ہے لیکن صوفیائے کرام اسے مداری کا کھیل سمجھتے ہیں کیونکہ یہ جانتے ہیں اطمینان قلب اور کشف میں اتنا فرق ہوتا ہے جتنا اسٹیٹ بینک اور روپے میں ۔ صوفی کبھی روپے کے سکے پر نہیں ٹھہرتا ہے‘ یہ سیدھا اسٹیٹ بینک جاتا ہے جب کہ روحانی ماہر روپے کا سکہ جیب میں ڈال کر چھلانگیں لگانے لگتے ہیں‘ یہ اسٹیٹ بینک کی تلاش میں نکلتے ہیں اور روپے کا سکہ جیب میںڈال کر واپس آ جاتے ہیں۔
تصوف اطمینان کا کُل ہے اور روحانیت اس کُل کا ایک جزو۔
شوکت خانم کو بچائیں
جاوید چوہدری جمعـء 3 اگست 2012
میرے ایک دوست عبدالستار ایدھی کے خلاف ہیں‘ وہ ایک دن مجھ سے کہنے لگے ایدھی صاحب ’’ فیئر ‘‘ انسان نہیں ہیں‘ میں نے پوچھا‘ کیسے؟ وہ بولے‘ ایدھی صاحب مولانا کہلاتے ہیں لیکن یہ نماز نہیں پڑھتے‘ ان کے خیالات بھی باغیانہ اور اینٹی اسلام ہیں‘ یہ حسن پرست بھی ہیں‘ ایدھی صاحب نے بڑھاپے میں نوجوان لڑکی سے شادی کر لی‘ وہ ٹرسٹ کے کروڑوں روپے لے کر بھاگ گئی اور ایدھی صاحب نے اپنا پورا خاندان بھی فائونڈیشن میں کھپا رکھا ہے وغیرہ وغیرہ‘
میں نے اپنے دوست سے عرض کیا‘ آپ کے سارے اعتراضات درست ہوں گے لیکن عبدالستار ایدھی نے اس کے باوجود جو کمال کیا وہ اس ملک کے اٹھارہ کروڑ فیئر لوگ مل کر نہیں کر سکے‘ ایدھی صاحب نے دنیا کی سب سے بڑی پرائیویٹ ایمبولینس سروس بنائی‘ یہ سروس پورے ملک میں ہر شخص کو دستیاب ہے‘ ملک کے کسی کونے میں آگ لگ جائے‘ گاڑیاں ٹکرا جائیں‘ ٹرین اور بس کا تصادم ہو جائے‘ بم پھٹ جائے‘ سیلاب آ جائیں‘ زلزلہ آ جائے‘ سرکاری عمارت گر جائے یا پھر کوئی طیارہ تباہ ہو جائے عبدالستار ایدھی کی ایمبولینس سب سے پہلے وہاں پہنچتی ہے۔
ایدھی صاحب نے اس کے علاوہ درجنوں یتیم خانے بھی کھول رکھے ہیں‘ انھوں نے پاگلوں کے لیے رہائش گاہیں بنا رکھی ہیں اور ان کے اولڈ ہومز میں ایسے بوڑھے رہ رہے ہیں جن کی اولاد تک انھیں چھوڑ گئی ہیں‘ عبدالستار ایدھی نے ایسے سولہ ہزار بچے پالے ہیں جنہیں ان کے والدین پیدا ہونے کے بعد کچرا گھروں اور مسجدوں کی دہلیز پر پھینک گئے تھے‘ ایدھی صاحب نے ایسے بچے پالنے کا کام اس وقت شروع کیا تھا جب کراچی کے ایک امام نے مسجد کی دہلیز پر پڑے بچے کو ناجائز قرار دے کر قتل کرنے کا فتویٰ جاری کر دیا تھا۔
ایدھی صاحب نے یہ بچے پالے اور آج ان میں سے ایک بچہ پاکستان کے بہت بڑے بینک کا سینئر وائس پریذیڈنٹ ہے‘ ان میں سے بے شمار بچے ڈاکٹر‘ انجینئر‘ وکیل اور استاد بنے‘ ایدھی صاحب نے گندے نالوں میں اتر کر اٹھارہ ہزار نعشیں نکالیں‘ یہ وہ نعشیں تھیں جن کی بدبو کی وجہ سے ان کے اپنے ان کے قریب نہیں جاتے تھے‘ بیٹا باپ کی نعش دفن کرنے کے لیے تیار نہیں ہوا‘ باپ بیٹے کی نعش کو ہاتھ لگانے پر رضامند نہیں ہوا اور بھائی بھائی کی تدفین کرنے کے لیے تیار نہیں تھا لیکن عبدالستار ایدھی نہ صرف نالے میں اترتے بلکہ نعش کو نکال کر اپنے ہاتھ سے ایمبولینس میں بھی رکھا‘ اسے غسل بھی دیا‘ کفن بھی پہنایا۔
جنازہ بھی پڑھایا اور اس بدبودار نعش کو اپنے ہاتھوں سے دفن بھی کیا‘ عبدالستار ایدھی کے علاوہ یہ اعزاز ملک کے کسی ایسے شخص کو حاصل نہیں ہوا جو مولانا بھی کہلاتا ہو‘ نمازیں بھی پڑھتا ہو‘ اس نے اپنے خاندان کو ٹرسٹ کا حصہ بھی نہ بنایا ہو اور جو حسن پرست بھی واقع نہ ہوا ہو‘ میرے دوست میری اس دلیل کے باوجود معترض تھے‘ میں نے ان سے عرض کیا ہم بدقسمتی سے ایک منفی قوم ہیں‘ ہم موم کے داغ فوراً دیکھ لیتے ہیں مگر ہمیں موم بتی کی روشنی دکھائی نہیں دیتی‘ ہمیں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کا عبدالستار ایدھی نظر نہیں آتا لیکن ہم اس کی حسن پرستی فوراً بھانپ لیتے ہیں۔
ہم ایدھی صاحب کو کبھی اٹھارہ ہزار بدبودار نعشوں کی تدفین پر مبارکباد پیش نہیں کریں گے لیکن ہمیں ان کی قضا ہوتی نمازیں فوراً نظر آ جائیں گی اور ایدھی صاحب نے پاکستان جیسے منفی‘ مشکل اور جہالت سے لبالب ملک میں جو کمال کیا ہے ہمیں یہ کمال نظر نہیں آئے گا لیکن ہم ان کے خاندان کو چند سیکنڈ میں فائونڈیشن میں گھسا ہوا دیکھ لیں گے‘ یہ ہے ہماری سوچ‘ یہ ہیں ہمارے رویے۔
میرا دوست خاموش ہو گیا لیکن ہمارے قومی رویے آج تک چیخ رہے ہیں‘ ہم من حیث القوم کامیابی‘ ترقی اور ہیرو شپ کے خلاف ہیں‘ آپ اپنے دائیں بائیں دیکھ لیجیے اور فیصلہ کیجیے‘ ہم میں سے کتنے لوگ دوسروں کی کامیابی اور ترقی کو برداشت کر پاتے ہیں‘ کیا ہم اپنی تمام صلاحیتیں باعزت لوگوں کو بے عزت کرنے میں صرف نہیں کر دیتے؟ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو ایدھی صاحب جیسا بڑا کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟کوئی نہیں ! اور ہم میں ایدھی صاحب کی ٹانگیں کھینچنے والے کتنے لوگ ہیں؟ ہم میں سے یقیناً ہر شخص ایدھی صاحب کو بدنام کرنے اور ان کی فائونڈیشن کو ناکام ثابت کرنے کی پوری کوشش کررہا ہے۔
یہ ممکن ہے ایدھی صاحب بھی غلطیاں کرتے ہوں‘ ان سے بھی کوتاہیاں ہوتی ہوں کیونکہ یہ انسان ہیں اور انبیاء اور صوفیاء کرام کے علاوہ ہر انسان غلطی اور کوتاہی کرتا ہے‘ ہماری بنیاد ہی غلطی سے پڑی تھی چنانچہ ایدھی صاحب بھی انسانی فطرت اور انسانی غفلت کی وجہ سے غلطی کر سکتے ہیں لیکن ان کی تمام غلطیاں ایک طرف اور نالے میں اتر کر نعش نکالنا اور اس کو اسلامی طریقے سے دفن کرنا دوسری طرف۔ ہم آج تک کسی زخمی کو ایمبولینس فراہم نہیں کر سکے جبکہ ایدھی صاحب لاکھوں زخمیوں کی مدد کر چکے ہیں‘ یہ اس لحاظ سے ہم سے بہت افضل ہیں اور ہمیں ان کے اس ’’ تقویٰ‘‘ کا اعتراف کرنا چاہیے۔
لیکن کیونکہ ہم ایک احسان فراموش اور منفی قوم ہیں چنانچہ ہم عبدالستار ایدھی کی ذات اور کام میں بھی کیڑے نکال لیتے ہیں۔ اسی قسم کا ایک ملتا جلتا کارنامہ کل پاکستان مسلم لیگ ن نے شوکت خانم کینسر اسپتال کے معاملے میں سرانجام دیا‘ کل خواجہ آصف نے بھری پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا عمران خان نے شوکت خانم اسپتال کے 3 ملین ڈالر ملک سے باہر منتقل کیے تھے اور یہ رقم باقاعدہ کاروبار میں لگائی گئی‘ خواجہ آصف نے دعویٰ کیا یہ صدقات‘ خیرات اور زکوٰۃ کی رقم تھی‘ خواجہ آصف بلاشبہ پاکستان کے چند باعزت سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں۔
لوگ پارٹی سے بالاتر ہو کر خواجہ آصف کی عزت کرتے ہیں‘یہ پڑھے لکھے‘ مہذب اور دلیر انسان بھی ہیں‘ میں دل سے ان کا معترف ہوں لیکن لوگوں کو خواجہ صاحب کی یہ پریس کانفرنس پسند نہیں آئی‘ خواجہ صاحب کو یہ پریس کانفرنس نہیں کرنی چاہیے تھی‘ پاکستان مسلم لیگ ن کو یہ کام بھی رانا ثناء اللہ کو سونپ دینا چاہیے تھا یا پھر عابد شیر علی زیادہ مناسب بائولر تھے، خواجہ صاحب کو اس بائونسر کے لیے اپنی عزت داغ دار نہیں کرنی چاہیے تھی‘ یہ درست ہے شوکت خانم کینسر اسپتال نے 30 لاکھ ڈالرز بیرون ملک انویسٹ کر رکھے ہیں لیکن یہ انڈومنٹ فنڈ ہے۔
دنیا کے تمام بڑے فلاحی ادارے اس نوعیت کا فنڈ قائم بھی کرتے ہیں اور یہ فنڈ انویسٹ بھی کیا جاتا ہے تا کہ ادارہ اس فنڈ سے حاصل ہونے والی آمدنی سے اپنے قدموں پر کھڑا ہو سکے‘ یہ چندے کے گرداب سے باہر آ سکے۔ شوکت خانم نے بھی انڈومنٹ فنڈ قائم کیا اور یہ ادارے کے کاغذات میں بھی شامل ہے اور یہ شوکت خانم کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے لیکن پاکستان مسلم لیگ ن نے اس کو سیاست بازی کا ذریعہ بنا دیا‘ ہم عمران خان کی سیاست اور شخصیت پر ہزاروں انگلیاں اٹھا سکتے ہیں‘ ہم اس پر اعتراض بھی کر سکتے ہیں اور اس پر گندگی بھی اچھال سےتل ہیں کیونکہ یہ انسان بھی ہے اور سیاستدان بھی اور سیاست اور انسان دونوں ہر دور میں سوالیہ نشان رہے ہیں۔
سیاست سفید کپڑے پہن کر تارکول کے کھلے ڈرموں کے درمیان سے گزرنے کا کھیل ہے جس میں آپ نے ہاتھ ‘پائوں اور منہ کے ساتھ ساتھ کپڑے بھی بچانا ہوتے ہیں لیکن جہاں تک شوکت خانم جیسے اداروں کا معاملہ ہے یہ سیاست بازی سے بالاتر ہونے چاہئیں‘ ہم عمران خان سے لاکھ اختلاف کر سکتے ہیں لیکن جہاں تک شوکت خانم کینسر اسپتال اور نمل یونیورسٹی کا معاملہ ہے عمران خان نے یہ ادارے قائم کر کے کمال کر دیا۔ پاکستان جیسے ملک جس میں لوگ کینسر کے مرض کے بعد علاج کے لیے باہر جاتے تھے یا پھر خود کو چپ چاپ موت کے حوالے کر دیتے تھے۔
اس ملک میں کینسر کا خیراتی اسپتال بنانا مینڈک تولنے سے کم مشکل کام نہیں تھا مگر عمران خان نے یہ کارنامہ سرانجام دیا۔ اس ملک میں درجن بھر سے زیادہ سیاسی جماعتیں‘ پچاس سے زائد بڑے لیڈر اور دو ہزار ایم این اے‘ ایم پی اے اور سینیٹرز ہیں لیکن ان میں سے کتنے لوگوں نے شوکت خانم اور نمل جیسے ادارے بنائے۔ ہمارے ملک میں حکومتیں تک ایسا اسپتال نہیں بنا سکتیں۔ عمران خان نے یہ کارنامہ سرانجام بھی دیا اور یہ 18 برسوں سے یہ اسپتال چلا بھی رہے ہیں‘ پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کو عمران خان کا مقابلہ سیاست کے مداان میں کرنا چاہیے۔
آپ اس کی ذات پر جتنا چاہے کیچڑ اچھالیں‘ سیتا وائٹ کو بلیک اینڈ وائٹ کرنے کی کوشش کریں یا عمران خان سے اس کی آمدنی کے ذرایع پوچھیں‘ آپ اس کی حسن پرستی کے قصے بھی اچھالیں لیکن خدا را شوکت خانم اسپتال کو بدنام نہ کریں کیونکہ یہ ملک کے ہزاروں کینسر مریضوں کی امید گاہ ہے اور اگر یہ اسپتال بند ہو گیا تو ہزاروں لاکھوں مریض مر جائیں گے اور یہ گناہ آپ کی زندگیوں کا سکون چاٹ لے گا‘ آپ بد دعائوں کے اسیر ہو جائیں گے‘ عمران خان برا ہو سکتا ہے لیکن شوکت خانم کینسر اسپتال خراب نہیں‘ یہ کامیابی کی عظیم مثال ہے اور ہمیں اس مثال کا احترام کرنا چاہیے۔

قومی حکومت
جاوید چوہدری جمعرات 2 اگست 2012
عبداللہ یوسف پاکستان کے باصلاحیت ترین افسروں میں شمار ہوتے ہیں‘ یہ پیشے کے لحاظ سے چارٹرڈ اکائونٹنٹ تھے لیکن حادثاتی طور پر سول سروس میں آ گئے اور مختلف محکموں اور وزارتوں سے ہوتے ہوئے 22ویں گریڈ تک پہنچ گئے‘ جنرل پرویز مشرف نے انھیں 14جون 2006ء کو ایف بی آر کا چیئرمین لگا دیا‘ عبداللہ یوسف نے اس عہدے پر کمال کر دیا‘
ایف بی آر ان سے قبل ٹیکسوں اور ڈیوٹیز کی مد میں سالانہ 360 ارب روپے جمع کرتا تھا عبداللہ یوسف نے یہ آمدن ہزار ارب روپے تک پہنچا دی‘ یہ بہت بڑی کامیابی تھی‘ اس کامیابی کے لیے عبداللہ یوسف نے چند اقدامات کیے‘ انھوں نے سرمایہ کاری کے راستے کی رکاوٹیں ختم کر دیں‘ ملک میں سرمایہ کاری ہوئی‘ پیداوار میں اضافہ ہوا اور اس سے ٹیکس کولیکشن بڑھی‘ کسٹم کا نظام کمپیوٹرائزڈ کر دیا جس سے کسٹم کی لیکیج ختم ہوگئی اور انکم ٹیکس ریفارمز کیں‘ انکم ٹیکس آفیسر (آئی ٹی او) کا رول ختم کر دیا‘
انکم ٹیکس دینے والوں کو خود اپنا امین بنا دیا‘ انھیں اجازت دے دی وہ اپنی ریٹرن خود تیار کریں گے‘ جمع کرائیں گے اور اس کو حتمی سمجھا جائے گا‘ ان اصلاحات کی وجہ سے ٹیکس پیئرز‘ سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کا اعتماد بڑھا‘ ٹیکس‘ ڈیوٹیز اور کسٹم میں اضافہ ہوا اور ملکی خزانے پر اس کے خوشگوار اثرات دکھائی دینے لگا‘ یوں عبداللہ یوسف ایف بی آر کی تاریخ کے کامیاب ترین چیئرمینوں میں شمار ہونے لگے‘ عبداللہ یوسف واقعی ایک شاندار‘ باصلاحیت اور محب وطن پاکستانی ہیں‘ یہ 23 جولائی 2008ء کو ریٹائر ہو گئے‘
یہ آج کل بجلی پیدا کرنے والے پرائیویٹ اداروں (آئی پی پیز) کی ایڈوائزری کونسل کے چیئرمین ہیں۔
مجھے فوزیہ وہاب نے عبداللہ یوسف سے متعارف کرایا تھا‘ فوزیہ وہاب نے ایک دن پروگرام کے وقفے میں عبداللہ یوسف کی بے انتہا تعریف کی‘ ان کا کہنا تھا‘ میرا بس چلے تو میں عبداللہ یوسف کو دوبارہ ایف بی آر کا چیئرمین بنوا دوں‘ میں نے کہا ’’بنوا دیں‘ کیا مشکل ہے‘‘ وہ بولیں ’’ہمارے لوگوں کا خیال ہے اس سے ہمارا پبلک امیج خراب ہو گا‘‘ مجھے چند دن بعد عبداللہ یوسف فلائٹ میں مل گئے‘ وہ غالباً کراچی جا رہے تھے‘
میں ان کی سیٹ پر گیا‘ ان سے گفتگو شروع ہوئی اور اس کے بعد میرا ان سے رابطہ استوار ہو گیا‘ عبداللہ یوسف صاحب نے آج سے ساڑھے تین سال پہلے پیش گوئی کی تھی بجلی اس حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ بن جائے گی‘ میں نے ان سے وجہ پوچھی تو انھوں نے بتایا ’’یہ لوگ اس مسئلے پر سنجیدگی نہیں دکھا رہے‘ یہ فرنس آئل پر ڈی پینڈ کرتے جا رہے ہیں‘ دنیا میں پٹرولیم مصنوعات کے ریٹس بڑھ رہے ہیں‘ ڈالر عنقریب ہمارے کنٹرول سے باہر ہو جائے گا‘ بجلی کا شارٹ فال بڑھ جائے گا‘ عوام سڑکوں پر آئیں گے اور حکومت کے لیے انھیں واپس بھجوانا مشکل ہو جائے گا‘‘ میں نے اس وقت عبداللہ یوسف سے اتفاق نہیں کیا تھا
لیکن آج ان کی تمام پیش گوئاےں سچ ثابت ہو رہی ہیں‘ حکومت نے آئی پی پیز کو 265 ارب روپے ادا کرنے ہیں‘ آئی پی پیز پی ایس او سے فرنس آئل خریدتے ہیں‘ آئی پی پیز آج تک پی ایس او سے 232 ارب روپے کا فرنس آئل لے چکے ہیں‘ یہ رقم ادا نہیں ہوئی‘ پی ایس او ریفائنریوں اور ڈسٹری بیوشن اداروں کا 180 ارب دبا کر بیٹھی ہے‘ ریفائنریوں کے پاس پیسے نہیں ہیں چنانچہ ان کی پیداوار آدھی ہو گئی‘ حکومت بیرون ملک سے ریفائن پٹرولیم مصنوعات خریدنے پر مجبور ہے‘ یہ پٹرول مہنگا پڑتا ہے لہٰذا قیمت بڑھانا پڑتی ہے اور یوں ملک خرابی کے بھنور مںپ پھنس چکا ہے۔
بجلی بنانے کا دوسرا بڑا ذریعہ قدرتی گیس ہے‘ ملک میں روزانہ 1920 ایم ایم سی ایف گیس نکلتی ہے‘ اس کا ایک چوتھائی حصہ سی این جی میں خرچ ہو جاتا ہے‘ یہ 500 ایم ایم سی ایف گیس اگر پاور پلانٹس کو دے دی جائے تو اس سے بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہو سکتا ہے لیکن حکومت میں سی این جی اسٹیشنز بند کرنے کی ہمت نہیں‘ اس کی وجہ پریشر گروپ ہیں‘ ملک کے 90 فیصد سی این جی اسٹیشن سیاستدانوں‘ بیوروکریٹس اور فوجی افسروں کے ہیں‘ یہ لوگ طاقتور بھی ہیں اور بااثر بھی‘ یہ اسٹیشن بند نہیں ہونے دے رہے اور پیچھے رہ گئی
ہائیڈرو انرجی پانی سے بجلی کی پیداوار کم ترین سطح پر آ چکی ہے‘ ہم پانی سے روزانہ صرف چھ ہزار میگاواٹ پیدا کر رہے ہیں‘ نئے ڈیم بن نہیں رہے اور اگر بن رہے ہیں تو ان کی رفتار بہت سست ہے‘ سرکاری محکموں اور صوبائی حکومت نے واپڈا کے 350 ارب روپے ادا کرنا ہیں‘ حکومت اپنے ہی اداروں اور اپنی ہی حکومت سے یہ رقم وصول نہیں کر پا رہی چنانچہ ملک احتجاج اور غصے سے ابل رہا ہے‘ لوگ چالیس درجے سینٹی گریڈ کے گرم دن اور جسم کے آخری مسام تک حبس میں بھیگی راتوں کے ساتھ کہاں جائیں؟ عوام غصے سے ابل رہے ہیں‘
حکومت بے بس ہے اور دنیا ساتویں جوہری طاقت کا تماشا دیکھ رہی ہے‘ حکومت پرائیویٹ پاور کمپنیوں کو فوری طور پر 265 ارب ادا کر دے تو بھی اسے سسٹم چلانے کے لیے روزانہ ایک ارب روپے چاہئیں‘ حکومت 265 ارب روپے کہاں سے لائے گی اور اس کے بعد روزانہ ایک ارب کا بندوبست کہاں سے کرے گی‘ ملک میں کسی کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں! لیکن ہم اس کے باوجود ملک کو اس صورتحال سے نکال سکتے ہیں‘ ہم منہ تک پانی میں ڈوبے ملک کو سیلاب سے نکال سکتے ہیں لیکن اس کے لیے سیاسی جماعتوں کو قربانی دینا ہو گی‘ انھیں حقائق تسلیم کر کے بولڈ فصلےی کرنا ہوں گے۔
پاکستان باصلاحیت لوگوں کا ملک ہے لیکن یہ باصلاحیت لوگ ٹکڑیوں میں تقسیم ہیں‘ چند لوگ پاکستان پیپلز پارٹی میں ہیں‘ چند ن لیگ میں‘ چند ق لیگ میں اور چند ایم کیو ایم‘ تحریک انصاف‘ جے یو آئی اور جماعت اسلامی میں ہیں‘ ہماری بیوروکریسی میں بھی عبداللہ یوسف جیسے بے شمار لوگ ہیں‘ ہمارے ملک میں ڈاکٹر عبدالقدیر‘ ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور ڈاکٹر عطاء الرحمان جیسے لوگ بھی موجود ہیں‘ ہمارے پاس ڈاکٹر اشفاق حسین‘ شوکت ترین اور عمر ایوب جیسے معاشی ماہر بھی ہیں اور ہمارے ہزاروں ایسے ڈاکٹر اور انجینئر بھی دنیا بھر میں بکھرے ہوئے ہیں جنھیں ترقی یافتہ اقوام لاکھوں ڈالر تنخواہ بھی دے رہی ہیں اور سر آنکھوں پر بھی بٹھاتے ہیں‘
ہمارے چالیس پچاس لاکھ پاکستانی بیرون ملک آباد ہیں‘ یہ لوگ سرمایہ کاری کمپنی بنا سکتے ہیں‘ اس کے شیئرز خرید سکتے ہیں اور یوں ملک میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہو سکتی ہے‘ ہم ملک میں ایسے آٹھ دس بین الاقوامی شہر بھی بنا سکتے ہیں جو پاکستان کا حصہ ہوں گے لیکن ان میں قوانین بین الاقوامی چلیں‘ یہ شہر سندھ اور بلوچستان کی کوسٹل لائن پر بھی بن سکتے ہیں اور گلگت سے لے کر ست باڑو تک بھی اور دیوسائی جیسے دنیا کے بلند ترین میدان میں بھی۔ ہم سینٹرل ایشیا‘ بھارت اور چین کی صنعتوں کے لیے ملک میں چھوٹے پرزوں اور آلات کی سیکڑوں فیکٹریاں بھی لگا سکتے ہیں اور ہم پاکستان کے تعلیمی اداروں کو تیسری دنیا کے غریب طالب علموں کے لیے آکسفورڈ بھی بنا سکتے ہیں
لیکن یہ تمام کام اس وقت ممکن ہیں جب تمام سیاسی جماعتیں اپنا اپنا ٹٹلن ایک جگہ پول کر دیں‘ یہ پاکستان کے باصلاحیت لوگوں کو پاکستان کا اثاثہ سمجھیں‘ انھیں پارٹی کا غلام نہ جانیں اور ہم میرٹ پر لوگوں کو سیاسی اور انتظامی عہدے دیں‘ ایم کیو ایم کے مصطفیٰ کمال کامیابی کی ایک بڑی مثال ہیں‘ ہم ان سے کام کیوں نہیں لیتے؟ ڈاکٹر عطاء الرحمان نے پرویز مشرف کے دور میں کمال کر دیا تھا‘ عبداللہ یوسف بھی ایک مثال ہیں‘ جماعت اسلامی کے سراج الحق‘ جاوید ہاشمی‘ شاہ محمود قریشی اور اسد عمر صلاحیت اور کامیابی کی مثالیں ہیں‘
ہمارے ملک میں ڈاکٹر عبدالقدیر اور ثمر مبارک مند ہیں اور ان سب سے بڑھ کر اسحاق ڈار ہیں اور ہمایوں اختر اور جہانگیر ترین بھی باصلاحیت اور ایماندار لوگ ہیں‘ ہم ان سب کی مدد کیوں نہیں لیتے؟ ہماری سیاسی جماعتیں اگر اٹھارہویں‘ انیسویں اور بیسویں ترمیم پر اکٹھی بیٹھ سکتی ہیں تو یہ پاکستان بچانے کے لیے ایک جگہ جمع کیوں نہیں ہو سکتیں؟ یہ صرف صلاحیت اور میرٹ کی بنیاد پر فیصلے کیوں نہیں کر سکتیں؟ میرا خیال ہے ہماری سیاسی جماعتوں کو مل کر ایک قومی حکومت تشکیل دے دینی چاہیے‘ یہ حکومت ٹیکنوکریٹس اور ماہرین پر مشتمل ہو‘
یہ حکومت پانچ سال کے لیے بنے‘ اس دوران ملک میں سیاست بازی پر پابندی لگا دی جائے‘ یہ حکومت ملک کو پٹڑی پر لائے‘ پاکستان کے مسائل حل کرے‘ اس دوران اگر حالات کنٹرول میں آ جائیں تو ملک پارٹی پالٹیکس کی طرف واپس چلا جائے ورنہ دوسری صورت میں اس حکومت کو مزید پانچ سال دے دیے جائیں‘ یہ حکومت انتظامی عہدوں پر باصلاحیت اور ماہر لوگ لگائے اور یہ لوگ ملک کا کلچر اور حالت دونوں تبدیل کر دیں‘
یہ ایک اچھا سلوشن ہو گا‘ ہمارے حالات خراب ہیں اور ان خراب حالات میں اگر سیاسی جماعتوں نے دل کھلا کر کے ٹیکنوکریٹس گورنمنٹ یا قومی حکومت نہ بنائی تو یہ حکومت کوئی اور بنا لے گا اور اگر کسی اور نے یہ حکومت بنائی تو ملک سے سیاسی جماعتوں کا رول ختم ہو جائے گا‘ عوام انھیں دوبارہ موقع نہیں دے گی چنانچہ سیاسی جماعتوں کو چاہیے یہ حالات کی نزاکت کو سمجھیں اور خود ہی آگے بڑھ کر بلی کے گلے میں گھنٹی باندھ دیں ورنہ دوسری صورت میں بلی رہے گی اور نہ ہی گھنٹی۔
فرض کفایہ
جاوید چوہدری منگل 31 جولائ 2012
ہمیں بچپن میں بتایا جاتا ہے آپ جہاں جنازہ دیکھیں آپ چپ چاپ اس میںشامل ہو جائیں‘ جنازہ گاہ جائیں‘ جنازہ پڑھیں اور دعا کر کے واپس آ جائیں‘ ہمارے بزرگ بچوں کو آج بھی بتاتے ہیں۔ ہمارے بعض فرائض فرض کفایہ ہوتے ہیں‘ یہ وہ فرائض ہوتے ہیں جسے کسی بستی‘ محلے یا کموانٹی کا کوئی ایک فرد ادا کر دے تو پوری کمیونٹی‘ پورا محلہ اور پوری بستی ثواب میں شریک ہو جاتی ہے اور جنازہ بھی اسی نوعیت کا فرض کفایہ ہے‘ میں بھی بچپن میں یہ فرض کفایہ ادا کرتا تھا‘
میں یہ فرض شعور کی زندگی تک ادا کرتا رہا لیکن جب بڑا ہوا تو معلوم ہوا کفایہ بھی ہماری زندگی میں اہم ہوتے ہیں لیکن دنیا اور آخرت میں کامیابی کے لیے ٹھوس اور حتمی فرائض ادا کرنا زیادہ ضروری ہیں‘ آپ کی بستی‘ آپ کا محلہ اور آپ کی کمیونٹی اگر دنیا اور آخرت کے بنیادی فرائض سے روگردانی کرتی رہے گی تو آپ خواہ کتنے ہی فرض کفایہ ادا کر لیں لوگوں کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی‘
لوگ دنیا اور آخرت دونوں میں مصائب کا شکار رہیں گے‘ مجھے بحر شعور میں غوطہ زن ہونے کے بعد معلوم ہوا دنیا میں طاقت‘ اجتماعی کوشش‘ ایمان‘ ایمانداری‘ نیکی‘ علم اور عبادت ایسے بنیادی فرائض ہیں جن کی کمی فرائض کفایہ کا ثواب ضایع کر دیتی ہے‘ آپ اگر تقویٰ کے بنیادی اصولوں سے دور ہیں‘ آپ علم کو اپنا اوڑھنا بچھونا نہیں بناتے‘ آپ کی زندگی کا پیالہ نیکی سے خالی ہے‘آپ برائی کے خلاف اجتماعی کوشش نہیں کرتے اور آپ جسمانی‘ سماجی اور قومی لحاظ سے کمزور ہیں تو فرائض کفایہ آپ کی زندگی میں کوئی خوش گوار تبدیلی نہیں لاسکیں گے‘
یہ شاید اور شاید دنیا اور آخرت میں بھی آپ کے کام نہ آسکیں‘ فرائض کفایہ چائے پر بالائی کی وہ باریک تہہ ہوتے ہیں جو صرف اس وقت مزہ دیتے ہیں جب کپ میں چائے موجود ہو‘ یہ گلاب جامن پر چاندی کے ورق کی طرح ہوتے ہیں‘ یہ گلاب جامن کا مزہ بڑھا دیتے ہیں‘ یہ کچی لسی کی طرح ہوتے ہیں‘ یہ آم کھانے کے بعد ہی مزہ دیتی ہے اور یہ آدھی رات کے نفل کی طرح ہوتے ہیں‘یہ ہمیں فرض نماز کے بعد زیادہ طمانیت بخشتے ہیں‘یہ عجیب لگتا ہے معاشرہ بے ایمان ہو اور ہم فرض کفایہ سے ثواب کشید ہونے کا انتظار کررہے ہوں۔
میں بحر شعور میں غوطے کھانے کے بعد فرائض کفایہ سے آزاد ہو گیالیکن مجھے آج محسوس ہوتا ہے ہمارے معاشرے نے میڈیا کو فرض کفایہ بنا لیا ہے‘ پاکستان میں اگر شیعہ کمیونٹی پر قاتلانہ حملے شروع ہو جائیں تو گالیاں میڈیا کو پڑتی ہیں‘ ملک کا ہر دوسرا شیعہ شہری سوشل مڈ یا کی مدد لیتا ہے‘ ہمیںگالیاں دے کر پوچھتے ہیں میڈیا اہل تشیع کے قتل پر کیوں خاموش ہے؟
اس طرح اگر حضرت عمر فاروق کے یوم شہادت پر ٹی وی خصوصی پروگرام نہیں کرتے‘ یا کالم نگار کالم نہیں لکھتے یا حکومت خصوصی تقریب نہیں مناتی تو سنی کمیونٹی ہمارے خلاف مورچے بنا لیتی ہے‘ ملک میں لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے‘ سیلاب آتے ہیں‘ زلزلے کے متاثرین کو چیک نہیں ملتے‘ ملتان کے شہری مخدوم عبدالقادر گیلانی کو ایم این اے منتخب کر لیتے ہیں‘ حکومت سپریم کورٹ کے احکامات نہیں مانتی‘
ڈاکٹروں کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوتا یا پھر پنجاب حکومت نرسوں پر لاٹھی چارج کر دیتی ہے تو گالی ہمیں پڑتی ہے‘ ایس ایم ایس‘ فیس بک‘ ٹویٹر‘ بلاگز اور فون کالز کے ذریعے ہمیں برا بھلا کہا جاتا ہے‘ کیوں؟ مجھے آج تک اس کا کوئی جواب نہیں ملا! کیا اس صورتحال کے ذمے دار ہم ہیں یا پھر چینلز پر جو کچھ ہو رہا ہے یہ ہماری مرضی سے ہوتا ہے! شاید عوام یہ سمجھتے ہیں! پاکستان کا میڈیا آج کل پھر عوام کا ہدف ہے‘
اس کی دو تازہ ترین وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ برما کے مسلمان ہیں‘ ہمیں ہر دوسرا شخص لعن طعن کر رہا ہے‘ ہم برما میں مسلمانوں کے قتل پر خاموش کیوں ہیں‘ ہمیں برا بھلا کہنے والا ہر شخص برما کے شہید مسلمانوں کے الگ فگر دیتا ہے‘ کوئی پوچھتا ہے بے حس میڈیا 20 ہزار برمی مسلمانوں کے قتل پر کیوں خاموش ہے؟ کوئی کہتا ہے برما میں چالیس ہزار‘ اسی ہزار اور ایک لاکھ مسلمان قتل ہو چکے ہیں لیکن بے غیرت‘
یہودی ایجنٹ اور بکائو میڈیا خاموش ہے وغیرہ وغیرہ‘ دوسرا ایشو راجیش کھنہ کی موت ہے‘ لوگ ہم سے پوچھتے ہیں میڈیا نے راجیش کھنہ کی موت کو پورا دن کوریج دی‘ راجیش کھنہ نے اسلام کی کیا خدمت کی تھی؟ اور اس کے ساتھ ہی ہمیں بھارتی ایجنٹ بھی قرار دے دیا جاتا ہے‘ میں ان اعتراضات پر سوچتا ہوں کیا برمی مسلمانوں کے قتل پر آواز اٹھانا صرف میڈیا کی ذمے داری ہے؟ کیا اٹھارہ کروڑ عوام‘ حکومت‘ اپوزیشن‘ تحریک انصاف‘ جماعت اسلامی‘ جمعیت علماء اسلام‘ ایم کیو ایم ‘پاکستان دفاع کونسل اور علماء کرام کی کوئی ذمے داری نہیں بنتی؟
کیا مسلمانوں کی سیاسی آرگنائزیشن او آئی سی‘ مسلمانوں کے روحانی مرکز سعودی عرب‘ اسلامی دنیا کے لیڈر ترکی‘ مصر کے نئے اسلامی صدر محمد مرسی‘ اسلامی دنیا کی اسٹاک ایکسچینج یو اے ای اور اسلامی دنیا کی ابھرتی ہوئی معاشی طاقت ملائشیا کی کوئی ذمے داری نہیں بنتی‘ ہںیا بتائیے برما کے مسلمانوں کے قتل پر پاکستان پیپلز پارٹی‘ پاکستان مسلم لیگ ن‘ ق لیگ‘ تحریک انصاف‘ جمعیت علما اسلام‘ جماعت اسلامی اور ملک بھر کے علماء نے کتنے جلوس نکالے‘ کتنے جلسے کیے‘ کتنے لانگ مارچ کیے؟
پاکستان کی کتنی مذہبی‘ سماجی اور سیاسی جماعتوں نے اس قتل عام پر برما کے سفارتخانے‘ یو این کے مشن اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے دفاتر کے سامنے دھرنے دیے اور ترکی‘ ملائیشیا‘ مصر‘ سعودی عرب اور یو اے ای کا’’ بے شرم‘ بے غیرت اور یہودی میڈیا‘‘ اس پر کیوں خاموش ہے؟ ہمارے عوام پاکستان اور اسلامی دنیا کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی خاموشی پر کیوں چپ ہیں؟
انھیں ان کی ’’بے شرمی‘‘ کیوں دکھائی نہیں دیتی؟ وغیرہ وغیرہ‘ مزید کیا برما میں واقعی بیس‘ چالیس یا اسی ہزار یا ایک لاکھ مسلمان مارے گئے ہیں‘ اس کی تصدیق کون کرے گا؟ کیا ہم سوشل میڈیا پرگردش کرنے والی چند نامعلوم میلز کو خبر بنا دیں اور پورے پاکستان کو رمضان کے مہینے میں اداس کر دیں اور آخر میں پتہ چلے یہ واقعات یا ان میں سے اکثر واقعات غلط تھے اوریہ انٹرنیٹ دہشت گردوں نے جان بوجھ کر پھیلائے تھے‘ کیا ہم خود کو اچھا مسلمان‘ آزاد میڈیا اور عوامی جذبات کا امین ثابت کرنے کے لیے سوشل میڈیا کے اس پروپیگنڈے کی رو مںن بہہ جائیں‘ ہم کیا کریں؟
کیا ہم بے حس‘ سوئے ہوئے اور بنیادی فرائض سے غافل معاشرے میں فرض کفایہ بن جائیں اور لوگ آرام سے سوتے رہیں‘ اٹھیں‘ ہمیں اجنبی لوگوں کا جنازہ پڑھتے دیکھیں‘ تالی بجائیں اور دوبارہ سو جائیں‘ کیا آپ میڈیا کا یہ کردار دیکھنا چاہتے ہیں؟ ہم آتے ہیں اب راجیش کھنہ کی طرف۔ میں راجیش کھنہ کے معاملے میں ’’ لو اینڈ ہیٹ‘‘ (محبت اور نفرت) کا شکار ہوں‘ وہ ایک سپر اسٹار تھا‘ آج بھی پاکستان کے لاکھوں لوگ اس کی اداکاری کے پرستار ہیں‘
آج بھی پاکستان میں راجیش کھنہ کی فلموں کی سی ڈیز لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوتی ہیں‘ میں راجیش کھنہ کی اداکاری کاخود بھی شیدائی ہوں اور میرے خیال میں ایسے فنکار کو یہ پذیرائی ملنی چاہیے تھی لیکن جہاں تک راجیش کھنہ کی ذات کا معاملہ ہے میں اس سے شدید نفرت کرتا ہوں‘ اس کی وجہ 1971ء کی پاک بھارت جنگ تھی‘ ہمارے90 ہزار فوجی جنگ کے بعد بھارت کے قبضے میں چلے گئے تھے‘
بھارتی حکومت نے ہمارے فوجیوں کو ملک کے بڑے بڑے شہروں میں سڑکوں پر گھمایا تھا‘ بھارتی عوام اس دوران قطاروں میں کھڑے ہو کر پاکستان کے خلاف نعرے لگاتے تھے‘ اس قسم کی ایک پریڈ کے تماشائیوں میں راجیش کھنہ بھی شامل تھا‘ ہمارے فوجی جب اس کے قریب پہنچے تو راجیش کھنہ نے نفرت سے ان پر تھوک دیا تھا ‘ یہ وہ واقعہ ہے جس کی وجہ سے میں اس کی ذات سے نفرت کرتا ہوں لیکن جہاں تک اس کے آرٹ کا معاملہ ہے میں دل سے اس کا گرویدہ ہوں۔ ہم مان لیتے ہیں راجیش کھنہ کی موت کو سارا دن کوریج نہیں ملنی چاہیے تھی
لیکن سوال یہ ہے کیا پاکستان میں راجیش کھنہ کے چاہنے والے نہیں ہیں؟کیا اس کی فلموں کی سی ڈیز نہیں بکتیں ‘ کیا ہم میں سے اکثر لوگ راجیش کھنہ پر فلمائے گئے گانے نہیں سنتے اور کیا ان میں سے اکثر گانے پاکستانی اور ہندوستانی مسلمان شاعروں نے نہیں لکھے اور کیا ان لکھنے والوں‘ سننے والوں‘ دیکھنے والوںاور سی ڈیز خریدنے والوں پر کوئی فرض عائد نہیں ہوتا؟ اگر ہوتا ہے تو پھر صرف میڈیا بے غیرت یا بے شرم کیوں ہے؟ اور کیا ٹی وی پر ایک گھنٹہ کام کرنے والے اینکر ٹی وی انڈسٹری کی پوری پالیسی کے ذمے دار ہیں؟ کیا ٹی وی کے تمام مواد کا فیصلہ ہم چند لوگ کرتے ہیں؟
جی نہیں! ہم وہاں صرف ایک گھنٹے کا پروگرام کرتے ہیں اور ہم نے اگر کبھی اپنے پروگرام میں راجیش کھنہ کو اتنی اہمیت دی تو ہم آپ کے مجرم ہوں گے‘ آپ ہم سے پہلے اپنا فرض ادا کریں‘ برما کے مسلمانوں کے لیے اپنے ٹھنڈے کمروں سے باہر آئیے‘ بھارتی فلمیں دیکھنا اور گانے سننا بند کریں اور اس کے بعد ہم سے فرض کفایہ کی توقع کریں‘ ہم آپ کو مایوس نہیں کریں گے لیکن آپ سوئے رہیں اور کبھی کبھی اٹھ کر ہمیں بے غیرت اور بے شرم کہتے رہیں‘ یہ زیادتی ہے‘ یہ ظلم ہے اور فرائض سے غافل معاشروں میں میڈیا جیسی مشینوں کو فرض کفایہ بنا دینا اس سے بھی بڑا ظلم اور زیادتی ہے۔
بابوسرٹاپ
جاوید چوہدری اتوار 29 جولائ 2012
ہم نے واپسی پر راستہ بدل لیا‘ ہم فیری میڈوز سے پیدل جیپ اسٹاپ تک پہنچے‘ جیپ اسٹاپ سے رائے کورٹ برج آئے‘ رائے کوٹ برج پر ہمارے ڈرائیورہمارا انتظار کر رہے تھے‘ یہ رمضان کا پہلا دن تھا ‘ رائے کوٹ بریج پر درجہ حرارت چالیس ڈگری سینٹی گریڈ تھا‘ یہ عجیب جادونگری تھی‘ فیری میڈوز اور رائے کورٹ برج میں بیس کلومیٹر کا فاصلہ تھا لیکن درجہ حرارت میں دوہزار کلومٹرت کا فرق تھا‘ فیری میڈو زمیں شدید سردی تھی‘ ہم رات کے وقت لکڑیاں جلا کر آگ تاپتے رہے تھے
ہمیں دو دو کمبل میں بھی سردی لگ رہی تھی لیکن 20 کلومیٹر کے فاصلے پر رائے کورٹ میں شدید گرمی تھی اور ہم نہانے کے لیے پانی تلاش کر رہے تھے‘ ہمیں پانی مل گیا لیکن وہ پانی نہانے کے قابل نہیں تھا‘ رائے کورٹ کے تمام ہوٹل دریائے سندھ سے پانی پمپ کرتے ہیں اور یہ پانی‘ پانی کم اور کیچڑ زیادہ ہوتا ہے ‘ اس پانی سے نہانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا چنانچہ ہم پسینے‘ بو اور خارش کے ساتھ آگے چل پڑے‘ ہم نے واپسی کے لیے راستہ بدل لیا‘ ہم چلاس‘ ایبٹ آباد اور ٹیکسلا کے بجائے بابوسرٹاپ کی طرف مڑ گئے‘ بابوسرٹاپ شمالی علاقہ جات کا بلند ترین درہ ہے‘
اس کے ایک طرف گلگت بلتستان کے علاقے ہیں اور انتہائی بلندی کے دوسری طرف کاغان کی وادیاں ہیں‘ بابوسرٹاپ پر سال کے بارہ مہینے برف کی تہیں جمی رہتی ہیں‘ ہم چلاس سے پہلے بابوسرٹاپ کی طرف مڑ گئے‘ علاقہ انتہائی خوبصورت تھا‘ لوگوں نے پہاڑوں کی ڈھلوانیں کاٹ کر کھیت بنا رکھے تھے‘ ان کھیتوں کے درمیان پانی کے جھرنے بہہ رہے تھے اور بھیڑیں چر رہی تھیں‘ ہمارے بالکل سامنے بابو سرٹاپ کی سفید پوش چوٹیاں تھیں لیکن سڑک‘ جی ہاں سڑک انتہائی خراب تھی‘ چلاس سے بابوسرٹاپ فقط 43 کلومیٹر دور ہے لیکن سڑک کی شکستگی کی وجہ سے ہم نے یہ فاصلہ چار گھنٹوں میں طے کیا‘
راستے میں اکثر مقامات پرسڑک کا نام و نشان تک نہیں تھا اور ہم نوکیلے پتھروں پر ڈرائیو کرنے پر مجبور تھے‘ راستے میں ایسی جگہیں بھی تھیں جہاں ہمیں دریا کے پانی یا لکڑی کے تنگ اور کمزور پلوں سے گزرنا پڑا اور موت اور زندگی کے درمیان چند چھٹیوں اور ایک آدھ غفلت کا فاصلہ رہ گیا۔ ہم بہرحال اس اذیت ناک سفر کے بعد شام چھ بجے بابوسرٹاپ پہنچ گئے‘ ہمارے دائیں ہاتھ برف کی دیوار تھی اور بائیں ہاتھ گلگت بلتستان کی وادیاں اور پہاڑ تھے۔
ہم وہاں رک گئے‘ ٹھنڈی ہوا ہمارے جسم سے الجھ رہی تھی اور ٹوٹی پھوٹی سڑک ہمارے قدموں میں بکھری ہوئی تھی‘ سورج کے سرخ ہونٹ سبز پہاڑوں کے ماتھے کی طرف بڑھ رہے تھے اور تیز ہوا بوسوں کی طرح ہمارے بدن پر برس رہی تھی‘ یہ بھی میری زندگی کا ایک شاندار لمحہ تھا‘ یہ بھی تصویر بن کر میرے حافظے کے البم میں محفوظ ہو گیا
لیکن اس سے بھی زیادہ شاندار منظر ہم سے پانچ منٹ کے فاصلے پر تھا ہم جونہی بابوسرٹاپ کے دوسری طرف مڑے‘ دریائے کنہار کی وادی نے اپنا گھونگھٹ ہمارے سامنے کھول دیا اورہمارے منہ سے بے اختیار چیخ نکل گئی‘ یہ ایک لائف ٹائم تجربہ تھا‘ ہمارے سامنے درجنوں سفید پوش پہاڑیاں تھیں‘ پہاڑیوں کی چوٹیوں پر برف تھی‘ ڈھلوانوں پر سبزہ تھا اور سبزے کی آخری لائین پر پانی تھا‘ یہ لازوال منظر تھا‘ ہمیں اس قسم کے منظر عموماً تصویروں‘ ٹیلی ویژن اسکرینوں اور انٹرنیٹ پر ملتے ہیں اور ہم سوچتے ہیں کیا ہم بھی ان جگہوں پر جا سکیں گے؟
یہ پیکچرپوسٹ کا منظر تھا‘ ہمارے قدموں میں دور تک ایک ندی بہہ رہی تھی‘ یہ ندی زاویوں‘ دائروں اور لکیروں میں بہہ رہی تھی اور اونچائی سے یوں محسوس ہوتی تھی جیسے کسی شرارتی بچے نے چالیس پچاس فٹ لمبی پنسل سے زمین پر ٹیڑھی میڑھی لکیر کھینچ دی ہو‘ پانی کو اس لکیر سے عشق ہو گیا ہو اور یہ اب اس ٹیڑھی میڑھی لکیر کے وجود میں ہلکورے لے رہا ہے۔ یہ منظر میری زندگی کے تمام دیکھے‘
چکھے اور چھوئے مناظر کا باپ تھا‘ میں نے اپنی آنکھوں‘ دل اور یادداشت کو کیمرہ بنا لیا اور یہ منظر تہہ در تہہ میرے وجود کا حصہ بنتا چلا گیا‘ مجھے وہاں سے آئے ہوئے آٹھ دن ہو چکے ہیں لیکن میں ابھی تک اپنے وجود میں اس منظر کی ٹھنڈک‘ اس کی مٹھاس اور اس کی مقناطیت کو محسوس کر رہا ہوں‘ مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے میرے جسم پر بابوسرٹاپ کا سبزہ اگ رہا ہے اور دریائے کنہار کی ہوائیں پیانو پر دستک دیتی‘ لمبی‘ نرم اور نازک انگلیوں کی طرح اس سبزے کو گدگدا رہی ہیں اور میرے وجود کی اندھی تہوں سے رنگوں میں بھیگے نغمے ابل رہے ہیں‘ موسیقی صرف آواز نہیں ہوتی یہ رنگ بھی ہوتی ہے اور منظر صرف چار سو تیرہ رنگوں کا مجموعہ نہیں ہوتے یہ گیت‘ نغمہ اور الاپ بھی ہوتے ہیں‘ ذائقہ صرف کھٹاس‘ مٹھاس اور ترش نہیں ہوتا یہ بچھڑے ہوئے‘
آپ کی زندگی سے الگ ہوئے اور آپ کے وجود کے اندر گم بے نام رشتوں کی سلگتی ہوئی یاد بھی ہوتا ہے اور پیچھے رہ گیا ٹچ توصرف انگلیوں کے محسوسات فیلنگ نہیں ہوتے یہ روحانی تجربے بھی ٹچ ہوتے ہیں۔ میں نے بابوسرٹاپ تک پہنچنے سے پہلے یہ سب کچھ صرف سن رکھا تھا لیکن میں نے اسے محسوس اس دن کیا تھا ‘ اسے دیکھا اس دن تھا‘ اتوار کی شام‘ بابوسرٹاپ پر۔ وہ آنکھوں سے لے کر روح تک ایک ایسا سرشار کر دینے والا لمحہ تھا جس پر سیکڑوں شاعروں کی تمنائیں قربان کی جا سکتی ہیں اور ہزاروں آرٹسٹ اور موسیقاروں کا فن خیرات کیا جا سکتا ہے۔ میں دم بخود رہ گیا اور جب ہوش آیا تو میری زندگی سے پندرہ منٹ غائب ہو چکے تھے‘ وہ منظر میری زندگی کے پندرہ منٹ جذب کر چکا تھا۔
بابوسرٹاپ سے ناران تک ایک گھنٹے کا سفر ہے لیکن سڑک کی کمیابی کی وجہ سے ہم نے یہ سفر ڈھائی گھنٹے میں طے کیا‘ افطار راستے میں دریائے کنہار کے کنارے ہوا‘ ہم ناران پہنچے تو رات کے ساڑھے نو بج چکے تھے‘ ہمارا ’’نائٹ اِسٹے‘‘ ناران میں تھا‘ ہمیں چار دن کی مشقت کے بعد پہلی بار نہانے کے لیے پانی ملا اور ہم نے اس کے ساتھ وہی سلوک کیا جو پانی کو ترسا ہوا ہاتھی چشمے کے ساتھ کرتا ہے‘
ہم اگلے دن اسلام آباد کے لیے نکل کھڑے ہوئے‘ ناران سے بالا کوٹ تک دونوں اطراف کے پہاڑ سبز بھی ہیں‘ سیراب بھی اور خوبصورت بھی۔ آپ روزانہ سبزہ دیکھتے ہیں لیکن آپ نے کبھی ایک ہی جگہ چار قسم کا سبزہ نہیں دیکھا ہوگا۔ کاغان ویلی میں یہ منظر عام ہے‘ لوگوں نے پہاڑ کاٹ کر کھیت بنا رکھے ہیں‘ یہ کھیت سبزے کی لمبی اور اونچی سیڑھیاںہیں اور ان پر جب سورج کی روشنی پڑتی ہے تو یہ ریشم کی طرح اپنا رنگ بدلتے ہیں اور آپ ایک جھلک میں سبزے کی چار تہیں دیکھتے ہیں اور آپ کویہ منظربابوسرٹاپ سے بالا کوٹ تک مسلسل ملتا ہے ۔
میں نے دنیا پھری ہے اور میں دنیا پھر رہا ہوں‘ میں نے اﷲ تعالیٰ سے ہمیشہ عزت‘ علم‘ خوشحالی‘ آزادی اور سیاحت کی دعا کی ‘ اﷲ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور مجھے ان پانچوں راستوں پر چڑھا دیا‘ میں دنیا دیکھ رہا ہوں اور اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کر رہا ہوں‘ میں اپنے تجربے کی بنیاد پر دعویٰ کرتا ہوں‘ میں نے جو قدرتی حسن پاکستان میں دیکھا یہ نعمت مجھے دنیا کے کسی کونے میں نہیں ملی‘ یورپ میں بلند ترین پہاڑ کی اونچائی پانچ ہزار میٹر ہے جب کہ پاکستان میں ساڑھے سات ہزار میٹرکے تیس پہاڑ موجود ہیں‘ دنیا میں آٹھ ہزار میٹرکے چودہ اونچے پہاڑ ہیں‘
ان میں سے پانچ پاکستان میں ہیں‘ پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جس میں ہر قسم کی زمین موجود ہے‘ ہمارے ملک میں ڈیڑھ گھنٹے کی فلائٹ کے بعد موسم بدل جاتا ہے‘ جیکب آباد میں پچاس سینٹی گریڈ گرمی پڑتی ہے اور عین اس وقت نانگاپربت‘ کے ٹو‘ ہندوکش اور راکاپوشی کا درجہ حرارت منفی پچاس سینٹی گریڈ ہوتا ہے‘ ملک میں بیک وقت صحرا بھی ہیں‘ سمندر بھی‘ دریا بھی‘ میدان بھی‘ سبز پہاڑ بھی‘ خشک اور بنجر چوٹیاں بھی اور ان کے ساتھ ایسی چوٹیاں اور برف کی ایسی غاریں بھی جن میں آج تک کسی انسان نے قدم نہیں رکھا‘
اس میں جدید ترین تہذیب پانچ ہزار سال پرانی سولائزیشن کے ساتھ سانس لیتی ہے‘ اس میں موہنجو داڑو ہے‘ بدھوں کی قدیم یونیورسٹی ٹیکسلا بھی‘ رام اور لچھمن کی جنم بھومی بھی اور ایسے پہاڑ بھی ہیں جن کے پتھروں پر آج تک طوفان نوح کے نشان موجود ہیں‘ ہم میں بس ایک خامی ہے‘ ہم نے آج تک اس پوٹینشل کو استعمال نہیں کیا‘ ہم سیاحت کو انڈسٹری نہیں بنا سکے ‘ ہمارا کے ٹو اکیلا ہمارے تمام قرضے اتار سکتا ہے لیکن ہم نے کبھی اس کی طرف توجہ ہی نہیں دی‘ آج بھی کے ٹو بیس کیمپ پہنچنے کے لیے چودہ دن پیدل سفر کرنا پڑتا ہے‘ ہم کم از کم اس تک سڑک ہی بنا دیں‘
وہاں ریستوران اور پبلک ٹوائلٹس ہی بنا دیں‘ ہم فیری میڈوز سے بھی اربوں روپے کما سکتے ہیں لیکن وہاں سڑک ہی نہیں! ہمارے مقابلے میں نیپال نے مائونٹ ایورسٹ کی چوٹی تک رسے کی سیڑھیاں بچھا دی ہیں اور آج ایک بچہ بھی مائونٹ ایورسٹ کی بلندیاں چھو سکتا ہے‘ دنیا بھر سے ہزاروں سیاح اور کوہ پیما ہر سال نیپال جاتے ہیں اور نیپال کو کئی ملین ڈالر دے کر واپس جاتے ہیں۔ پاکستان کبھی دنیا کی دس بڑی سیاحتی منازل میں شامل ہوتا تھا لیکن آج کوہ پیما تک پاکستان نہیں آتے۔ دہشت گردی اور سہولیات کی کمی یہ دونوں چیزیں ان کے راستے کی رکاوٹ بن گئی ہیں‘
پاکستان کا لوکل سیاح بھی گرم تپتے ہوئے شہروں سے نکلنا چاہتا ہے لیکن اس کے لیے رہنمائی کا کوئی نظام ہے اور نہ ہی سڑک‘ رہائش گاہ اور باتھ روم چنانچہ یہ کڑاہی گوشت کھا کر اپنی گرمیاں لاہور ہی میں گزار دیتا ہے‘ ہم اگر سیاحتی صنعت کو ڈویلپ کریں تو ہم خوشحال بھی ہو سکتے ہیں اور دنیا میں ہمارا امیج بھی بہتر ہو سکتا ہے لیکن اس کے لیے وژن اور فوکس چاہیے اور ہماری قیادت میں ان دونوں کا فقدان ہے‘ یہ اپنی حرص کے نانگا پربت کو پائجامہ پہنانے میں مصروف ہیں‘ انھیں پاکستان کا نانگا پربت خاک نظر آئے گا۔

نانگا پربت
جاوید چوہدری جمعرات 26 جولائ 2012
اور ایک موڑ کے بعد جی ہاں صرف ایک موڑ کے بعد ہم فیری میڈو میں تھے‘ پہاڑوں میں گم ہزاروں سال پرانی جنت ہمارے سامنے تھی‘ ہم سولہ سترہ ہزار فٹ کی بلندی پر تھے‘ دنیا کا عظیم پہاڑ نانگا پربت ہمارے سامنے تھا‘ اس کے بدن سے آہستہ آہستہ بادلوں کی چادر سرک رہی تھی‘ سورج کی روشنی اور نانگا پربت کے کنوارے بدن کے اتصال سے ماحول میں چاندی سی بکھری ہوئی تیک‘ نانگا پربت کی چوٹی بادلوں سے گتھم گتھا تھی‘ ہمارے لیے بادل اور چوٹی میں تفریق مشکل تھی‘ نانگا پربت کے قدموں میں ایک طویل گلیشیئر سجدہ کناں تھا‘ گلیشیئر کا سرنانگا پربت کے قدموں میں تھا اور پائوں تیس چالیس کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے فیری میڈو تک پہنچ گئے تھے۔
یہ شادی شدہ گلیشیئر تھا‘ سفید اور برائون‘ مقامی لوگ سفید گلیشیئر کو مرد اور برائون کو عورت گلیشیئر سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے یہ دونوں گلیشیئر مل جائیں تو ان کے سائز میں اضافہ ہو جاتا ہے‘ یہ گلیشیئر بھی جوڑا تھا‘ اس کاسر سفید تھا جب کہ نچلا دھڑا برائون تھا‘ ہم شروع میں اسے چٹانوں‘ پتھروں اور بجری کا ڈھیر سمجھے لیکن جب غور کیا تو پتھروں کے اس ڈھیر سے تین چار چشمے نکل رہے تھے‘ لوگوں نے بتایا یہ سیکڑوں سال پرانا گلیشیئر ہے جس کی پرانی برف پگھلنے سے قبل سردیاں شروع ہو جاتی ہیں اور اس کے اوپر برف کی نئی تہہ جم جاتی ہے۔
ہمارے سامنے چیڑھ اور پائن کا طویل جنگل تھا‘ جنگل پر پہاڑ سایہ کئے ہوئے تھے اور جنگل اس سائے سے بھاگ کر دھوپ کا منہ چومنے کی کوشش کر رہے تھے‘ ہمارے دائیں اور بائیں پہاڑ تھے‘ ان پہاڑوں کی اترائیوں پر بھی جنگل تھا اور جنگل کی انتہائی بلندیوں پر برف نے سفید عبا اوڑھ رکھی تھی اور تیسری طرف جنگل کے درمیان فیری میڈو تھا‘ پریوں کا مسکن‘ پریوں کی چراہ گاہ‘ ایک چھوٹا سا سرسبز میدان جس کے آخری کنارے پر لکڑی کے چند درجن مکان تھے‘ مکانوں کے گرد نصف درجن جھرنے‘ ندیاں اور چشمے بہہ رہے تھے‘ چشموں کے اردگرد گھوڑے اور بھیڑیں چر رہی تھیں۔
بھیڑوں سے ذرا سے فاصلے پر ایک ندی دائرے میں گھومتی ہوئی ایک ایسی جھیل میں اتر رہی تھی جس میں سبز اور نیلا رنگ ایک دوسرے کے ساتھ اٹھکھیلیاں کر رہا تھا‘ جھیل کی سطح پر درختوں کا سبز بور تیر رہا تھا اور ہوا بور کو گد گدا کر کبھی دائیں لے جاتی تھی اور کبھی بائیں‘ ہمارے پیچھے اترائیاں تھیں اور ان اترائیوں کی سلوں پر جنگل تھا اور جنگل میں جگہ جگہ سے دھواں اٹھ رہا تھا‘ یہ یقیناً چولہوں کا دھواں تھا جو آسمان کی طرف اٹھ کر ماحول کو مزید رومانٹک بنا رہا تھا۔
فیری میڈو ایک طویل‘ جیتی جاگتی اور دھڑکتی ہوئی پینٹنگ تھی اور میں اس وقت اس پینٹنگ کا حصہ تھا‘ میرے قدم زمین پر جمے ہوئے تھے اور میری آنکھوں میں بے یقینی کا صحرا تھا اور میں خود کو اس صحرا کی ریت میں اڑتا ہوا محسوس کر رہا تھا‘ میں نے اس کیفیت میں کتنی صدیاں گزار دیں میں کائونٹ نہیں کر سکتا تھا‘ میں اس کیفیت میں رہنا چاہتا تھا لیکن عین اس وقت جنگل سے نیلے پروں والا ایک پرندہ نکلا‘ اس نے فیری میڈو کی فضا میں ’’اڈاری‘‘ ماری اور ہوا میں تیرتا ہوا میرے سامنے گھاس پر بیٹھ گیا اور مجھے اپنی حیرت کی دوربین سے دیکھنے لگا۔
اس کے دیکھنے میں کوئی ایسا منتر تھا جس نے مجھے جگا دیا اور میںٹوٹی ہوئی نیند کے نشے میں دائیں بائیں دیکھنے لگا‘ فیری میڈو واقعی فیری میڈو تھا‘ اس میں ایسی بے شمار خوبیاں تھیں جس سے امریکا اور یورپ محروم تھا اور شاید ان خوبیوں ہی کی وجہ سے آسٹرین کوہ پیما ہرمن بوہل نے 1953ء میں اسے فیری میڈو کا نام دیا تھا۔
فیری میڈو میں تین چار ہوٹل ہیں‘ یہ ہوٹل جنگل کی لکڑی سے بنائے گئے ہیں‘ یہ ہٹ کی شکل میں ہیں اور ان میں جدید زندگی کی تقریباً تمام سہولیات موجود ہیں‘ ہم ’’ رائے کوٹ سرائے‘‘ میں ٹھہر گئے‘ ہمارے ہٹس سے نانگا پربت پوری طرح نانگا نظر آتا تھا‘ نانگا پربت محض ایک پہاڑ نہیں‘ یہ ایک طلسم ہے جوہر دیکھنے والی آنکھ کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے‘ یہ طلسم دو سو سال سے کوہ پیمائوں کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے لیکن جو بھی اس کی طرف جاتا ہے وہ واپس نہیں آتا۔
اسی وجہ سے اسے کلر مائونٹین (قاتل پہاڑ) کہا جاتا ہے‘ نانگا پربت شمالی علاقہ جات کی چار اطراف سے ’’ اپروچ ایبل‘‘ ہے لیکن فیری میڈو اس کی مشکل ترین اپروچ ہے‘ کوہ پیما 1850ء میں فیری میڈو کی طرف سے اس پہاڑ سے متعارف ہوئے‘ 1895ء میں برطانوی کوہ پیما اے ایف ممری اسے سر کرنے کے لیے نکلا لیکن ٹیم سمیت اس کی برف میں دفن ہو گیا اور اس کے بعد کوہ پیمائوں کی قطار لگ گئی جو گیا وہ واپس نہ آیا‘ آج تک نانگا پربت کے گلیشیئر ان کوہ پیمائوں کے انحصار اور باقیات اگلتے رہتے ہیں۔
یہ اعضاء نانگا پربت کی طرف سے دنیا کو چیلنج ہوتا ہے تم میں اگر ہمت اور جرأت ہے تو آئو اور میرے ننگے جسم کو ہاتھ لگا کر دکھائو‘ آج تک صرف دو ٹیمیں اس کے دامن عظمت کو ہاتھ لگانے میں کامیاب ہوئی ہیں‘ ایک 1953ء اور دوسری 1995ء میں ‘باقی تمام حملہ آور اس کی برف میں ہڈیاں بن کر دفن ہو گئے‘ فیری میڈو میں سردی تھی‘ دن کے وقت درجہ حرارت چار پانچ ڈگری سٹیت گریڈ ہوتا تھا اور رات کو یہ منفی میں چلا جاتا تھا اور ہم لکڑیاں جلا کر ہاتھ تاپنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔
ہمیں سلیپنگ سوٹ ہونے کے باوجود کمبل اوڑھنے پڑتے تھے‘ وہاں موبائل فون سروس بھی نہیں چنانچہ ہم موبائل پلوشن سے بھی بچے رہے‘ بجلی کی ضرورت ٹربائن پوری کر رہی تھی‘ ہوٹل کے مالک رحمت نے چشمے پر ٹربائن لگا رکھی تھی‘ یہ ٹربائن پورے گائوں کو بجلی دے رہی تھی‘ پانی ٹھنڈا تھا چنانچہ ہم مقامی آبادی کی طرح نہانے کے دکھ سے بھی آزاد ہو چکے تھے‘ ٹیلی ویژن بھی نہیں تھا چنانچہ بلڈ پریشر بھی نارمل رہا‘ میرا بیٹا فائز اور میری بیوی کا بھائی احمد دونوں تقریباً ہم عمر ہیں‘ یہ چیڑھ کے درخت کی طرح لمبے اور مضبوط ہیں۔
یہ ہمارے لیڈر بن گئے اور ہم گرتے پڑتے ان کے پیچھے پیچھے چلتے رہتے‘ ہم فیری میڈو میں دو دن رہے‘ یہ دو دن ہم نے ’’ چِل‘‘ کرتے ہوئے گزار دیئے‘ فیری میڈو سے ایک گھنٹے کی مسافت پر بیال کیمپ آتا ہے‘ یہ نانگا پربت کا ’’ سیکنڈ لاسٹ‘‘ کیمپ ہے‘ اس کا راستہ دنیا کے خوبصورت ترین راستوں میں شمار ہوتا ہے‘ ہم گھنے درختوں کے سائے میں چشموں کے ٹھنڈے پانیوں میں نہائی ہوائوں کے ساتھ ساتھ سوا گھنٹے میں بیال کیمپ پہنچے‘ یہ درختوں کے درمیان نسبتاً کھلی جگہ ہے جہاں کسی مہربان نے ہٹس بنا رکھے ہیں‘ ہم ہٹس کے درمیان بینچوں پر بیٹھ گئے‘ وہ مہربان شخص بھی آ گیا‘ اس نے کچن کھولا اور ہمارے لیے کھانا بنانا شروع کر دیا۔
دنیا کی چھت پر ماش اور چنے کی دال اور اس کے ساتھ پتلی روٹیاں بہت بڑی نعمت تھیں اور ہم اپنی ہمت تک اس نعمت کا لطف اٹھاتے رہے‘ بیال سے تین ساڑھے تین گھنٹے کی مسافت پر نانگا پربت کا بیس کیمپ تھا‘ یہ سیدھی اور مشکل چڑھائی تھی اور ہمارے اندر اس چڑھائی کی ہمت نہیں تھی‘ فائز اور احمد نے کوشش کی لیکن یہ بھی ایک گھنٹہ بعد واپس لوٹ آئے‘ ان کا کہنا تھا بیال کے بعد پانی اور آکسیجن دونوں ختم ہو جاتی ہیں‘ آپ نانگا پربت کے بیس کیمپ جانا چاہتے ہیں تو آپ کے پاس پانی کا ذخیرہ ہونا چاہیے چنانچہ ہم شام پانچ بجے بیال سے واپس فرکی میڈو چل پڑے لیکن ہم اپنا دل‘ اپنا احساس بیال ہی چھوڑ آئے۔
ہمیں بیال کا ایک شاندار دن ملا تھا‘ اس دن نانگا پربت پائوں سے لے کر چوٹی تک ننگا تھا اور ہم کھلی آنکھوں سے اس کا نظارہ کرتے رہے تھے اور اس نظارے کے دوران کسی وقت میرا دل میرے سینے سے نکلا اور طوفان میں بکھرتی‘ سرکتی ریت کی طرح بیال کی فضا میں گم ہو گیا۔ مںی دل کو قابو میں رکھنے والا شخص ہوں‘ میری یہ گرفت میرے روحانی استادوں کی مہربانی ہے‘ انھوں نے جذبات اور میرے دل کے درمیان چھوٹے چھوٹے چھاننے لگا دیے ہیں لہٰذا جذبے خواہ کتنے ہی بے مہار اور بدمست کیوں نہ ہوں یہ کسی نہ کسی چھاننے سے الجھ جاتے ہیں اور میرا دل ان کی تابکاری سے محفوظ رہتا ہے۔
میرے استاد کہتے تھے دل کعبہ ہوتا ہے‘ اس کے اندر داخل ہونے کا حق صرف اللہ کو ہوتا ہے‘ انسانی ہاتھ اسے صرف چھو سکتے ہیں‘ اس کے غلاف کو چوم سکتے ہیں اس کے اندر نہیں جا سکتے۔ اپنے دل کو اللہ کا گھر سمجھو‘ کسی شخص‘ کسی بت کو اس کے اندر نہ گھسنے دو‘ میں نے ان سے کہا آپ میری مدد کریں‘ میرے استادوں نے میری درخواست مان لی اور میرے دل کے راستے میں چھاننے لگا دیے لیکن شائد یہ لوگ چھاننے لگاتے ہوئے بھول گئے میں دل کو انسانوں سے تو محفوظ کر لوں گا لیکن فیری میڈو اور بیال جیسی ان حسینائوں کا کیا کروں گا جہاں پریاں بھی مبہوت ہو جاتی ہیں اور تحیر کی مستی اسرار کے لبادے اتار کر نانگا پربت کے سامنے ننگی ناچنے لگتی ہیں۔
میرا دل اس لمحے جب بادلوں کی ساری چادریں نانگا پربت کے بدن سے سرک گئی تھیں عین اس وقت‘ اس لمحے میری سینے سے نکلا اور ٹھنڈی ہوا بن کر بیال کی وادی میں بکھر گیا۔ میں واپس آ گیا لیکن میرا دل ابھی تک بیال کے اس چوبی بینچ پر پڑا ہے جہاں سے نانگا پربت اپنے تمام زاویوں کے ساتھ کھلا دکھائی دیتا ہے یا پھر شاید میرا دل اس بینچ پر نہ ہو وہ ندی کے ٹھنڈے پانیوں پر الٹے پائوں چلتا ہوا نانگا پربت کے پیروں تک چلا گیا ہو اور وہ اسے پائوں پکڑ کر کہہ رہا ہو مجھے بھی یہیں کہیں رکھ لو‘ اے ایف ممری کی جمی ہوئی ہڈیوں اور کاوین کی برف آنکھوں کے ساتھ یہیں کہیں‘ جہاں زندگی کی کوئی ٹائم لائن‘ کوئی ڈیڈ لائن نہیں‘ جہاں کوئی بل‘ کوئی فون کال اور اور کوئی گھورتی ہوئی آنکھ نہیں‘ جہاں کسی کا انتظار نہیں اور جہاں کوئی کسی کا انتظار نہیں کر رہا‘ جہاں وقت برف میں جم کر ٹھہر گیا ہے اور اگلے ہزاروں برسوں تک ٹھہرا رہے گا۔

رائے کوٹ سے فیری میڈو تک
جاوید چوہدری جمعرات 26 جولائ 2012
ہم چلاس کی گرم اور بے آرام رات کے بعد اگلی صبح رائے کوٹ برج روانہ ہو گئے‘ رائے کوٹ برج چلاس سے 58 کلومیٹر دور ہے لیکن سڑک کی خرابی کی وجہ سے ہم نے یہ فاصلہ ڈیڑھ گھنٹے میں طے کیا‘ راستے میں وہ مقام بھی آیا جہاں 28 فروری 2012ء کو نامعلوم لوگوں نے بس روک کر مسافروں کو نیچے اتارا‘ ان کے شناختی کارڈ چیک کیے‘ ان میں سے اہل تشیع کو الگ کیا‘ ایک قطار میں کھڑا کیا اور گولی مار دی‘ اس سانحے میں 18 لوگ مارے گئے‘ حملہ آوروں نے اس کے بعد گاڑیوں کو آگ لگائی اور انھیں دھکا دے کر دریا میں پھینک دیا‘ ہم نے اپنی آنکھوں سے جلی ہوئی بس کا ڈھانچہ دریا کے کنارے گرا ہوا دیکھا۔
ہم سڑک کے اس موڑ سے گزرتے ہوئے حیران تھے‘ انسان نظریاتی اختلافات میں کہاں تک چلا جاتا ہے؟ یہ قتل کو عبادت سمجھ لیتا ہے‘ مجھے یقین ہے یہ لوگ جن مقدس ہستیوں کے نام پر قتل و غارت گری کر رہے ہیں وہ ہستیاں بھی ان سے خوش نہیں ہوں گی کیونکہ مذہب انسان کو درندگی سے انسانیت کی طرف لاتا ہے لیکن جو انسان اسے دوبارہ درندگی کی طرف لے جاتے ہیں وہ انسان اللہ اور اس کی برگزیدہ ہستیوں کے مقرب نہیں ہو سکتے‘ ہم بہرحال جلی گاڑیوں کے موبل آئل کے نشانوں اور ٹوٹے ہوئے شیشوں کی کرچیوں کے قریب سے گزرتے ہوئے رائے کوٹ برج پہنچ گئے‘ شاہراہ قراقرم رائے کوٹ کے مقام سے دیوہیکل پل کے ذریعے دائیں پہاڑوں سے بائیں پہاڑوں کے بدن پر منتقل ہو جاتی ہے اور دریائے سندھ بھی اس کے ساتھ ہی دائیں طرف شفٹ ہو جاتا ہے۔ یہ مقام فیری میڈوز کا بیس کیمپ ہے‘ یہاں سے اصل سفر شروع ہوتا ہے۔
رائے کوٹ برج پر درمیانے درجے کے چند ہوٹل اور ریستوران بھی موجود ہیں اور یہاں کرائے پر گیراج بھی مل جاتے ہیں‘ عام گاڑیاں یہاں سے اوپر نہیں جا سکتیں چنانچہ لوگ اپنی گاڑیاں یہاں چھوڑ جاتے ہیں اور باقی سفر مقامی جیپوں پر طے ہوتا ہے‘ ہم نے اپنی گاڑیاں واپس چلاس بھجوا دیں اور سامان مقامی جیپوں پر رکھ دیا‘ رائے کوٹ برج پر مقامی لوگ دوسری جنگ عظیم کی پرانی جیپوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں‘ یہ لوگ فیری میڈوز اور تاتو گائوں سے تعلق رکھتے ہیں ‘ اس سڑک پر ان کا ہولڈ ہے‘ آپ ان کی مدد اور رضامندی کے بغیر فیری میڈوز نہیں جا سکتے‘ یہ لوگ اس سڑک کو اپنی ملیتک سمجھتے ہیں چنانچہ آپ رائے کوٹ برج پر ان کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں‘ ان لوگوں نے جیپوں کی آمد و رفت کا باقاعدہ سسٹم بنا رکھا ہے‘ یہ اپنی اپنی باری پر مسافر اٹھاتے ہیں‘ یہ اس باری کو ’’نمبر‘‘ کہتے ہیں‘
انھوں نے ریٹس بھی طے کر رکھے ہیں‘ یہ چودہ کلومیٹر سفر کا فی جیپ چھ ہزار روپے چارج کرتے ہیں‘ ہمیں شروع میں یہ ریٹ زیادہ لگا لیکن ہم جب تاتو گائوں پہنچے تو ہمیں یہ لوگ اس کرائے کے حق دار محسوس ہوئے‘ رائے کوٹ برج سے تاتو گائوں تک سڑک کے نام پر ایک پل صراط ہے جس پر زندگی اور موت کے درمیان صرف آدھ انچ کا فاصلہ ہوتا ہے‘ یہ سڑک ہزاروں فٹ اونچے پہاڑوں کے درمیان چھوٹے بڑے پتھروں کا خوفناک راستہ ہے‘ آپ کے دائیں ہاتھ پر آسمان تک پہاڑ ہوتے ہیں‘ بائیں جانب ہزاروں فٹ کی گہرائی میں طوفانی نالا بہتا ہے اور اس نالے کے بعد دوسرا ہزاروں فٹ اونچا پہاڑ شروع ہو جاتا ہے اور آپ کی قدیم جیپ پتھروں پر ہچکولے لیتی ہوئی اوپر کی طرف سرکتی ہے‘ سفر کے دوران پتھر ٹائروں کے نیچے آتے ہیں‘ اپنی جگہ چھوڑتے ہیں اور ہوا میں اچھلتے ہوئے ہزاروں فٹ تک ٹھوکریں کھاتے ہوئے نالے کی جھاگ میں گم ہو جاتے ہیں‘ یہ بے آب و گیاہ پہاڑ ہیں جن پر سبزے‘ پانی اور سائے کا دور دور تک کوئی نشان نہیں‘ آپ پانی کو دور پہاڑوں کے قدموں میں بہتا ہوا دیکھ سکتے ہیں لیکن آپ اس تک پہنچ نہیں سکتے‘ آپ کے اوپر تیز گرم جھلستا ہوا سورج چمکتا ہے‘
نیچے چھوٹے چھوٹے پتھر جیپ کے ٹائروں سے الجھتے ہیں اور بائیں ہاتھ موت آپ کے ساتھ ساتھ دوڑتی ہے اور آپ خوف کے اس میدان جنگ میں قدیم جیپ اور بے حسی کی حد تک لاپرواہ ڈرائیور کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں‘ ہم دو جیپوں میں سوار آگے پیچھے اس سڑک پر رواں دواں تھے اور ہمارے دل سینے کے پنجرے سے آزاد ہونے کے لیے پسلیوں پر مسلسل ٹھوکریں مار رہے تھے اور ہم ان ٹھوکروں کی صدا کنپٹیوں تک میں محسوس کر رہے تھے‘ یہ میری زندگی کا خطرناک ترین سفر تھا‘ میں نے اس سفر کے دوران سکون اور اطمینان کا ایک سانس تک نہیں لیا‘ میں بار بار اپنی جیپ اور اپنے آگے چلتی دوسری جیپ کی طرف دیکھتا تھا اور سوچتا تھا‘ میں کتنا بے وقوف ہوں‘ میں پورے خاندان کے مردوں کو لے کر موت کے اس تنے ہوئے رسے پر آ گیا ہوں‘ یہ سوچ ہر دوسرے منٹ بعد میری ریڑھ کی ہڈی پر آبشار کی طرح اوپر سے نیچے بہتی تھی اور میں سیٹ پر بے چینی سے کروٹیں بدلتا تھا لیکن ہمارا ڈرائیور ہر قسم کے خوف سے آزاد جیپ آسمان کے رخ پر چڑھاتا جا رہا تھا۔
رائے کوٹ سے تاتو گائوں تک تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ لگتا ہے‘ تاتو اس سفر کا واحد اسٹاپ اوور ہے‘ یہ چھوٹا سا گائوں ہے جو سلفر کے گرم چشمے کی وجہ سے تاتو (گرم) کہلاتا ہے‘ مقامی لوگوں کا دعویٰ ہے گائوں میں ایک ایسا گرم چشمہ ہے جس کے پانی میں اگر انڈہ رکھا جائے تو یہ پانچ منٹ میں ابل جاتا ہے‘ طوفانی نالہ تاتو پہنچ کر گائوں کے لیول پر آ جاتا ہے یا پھر گائوں چڑھائی چڑھ کر نالے کے لیول پر آباد ہے۔ بہرحال جو بھی ہے تاتو خوف کے سفر میں امن کا بہت بڑا جزیرہ ہے اور ہم نے اس جزیرے پر پہنچ کر اطمینان کا لمبا سانس لیا۔ دنیا کی یہ خطرناک ترین سڑک بریگیڈیئر اسلم نے بنوائی تھی اور مقامی آبادی اپنے وسائل سے اس کی نگہداشت کر رہی ہے‘ یہ خود ہی پتھر جوڑ کر شکستہ سڑک کی مرمت کر لیتے ہیں‘ 2001ء میں اس علاقے میں زلزلہ آیا تھا
جس کے نتیجے میں تاتو گائوں‘ سڑک اور پل ٹوٹ گئے تھے اور دنیا سے علاقے کا رابطہ منقطع ہو گیا تھا‘ یہ رابطہ کئی سال تک منقطع رہا بعدازاں یونیورسٹی آف لاہور نے تاتو گائوں کے نزدیک پل بنا دیا اور یوں مسافروں کی فیری میڈوز تک دوبارہ رسائی شروع ہو گئی‘ تاتو گائوں سے دس منٹ بعد سڑک ختم ہو جاتی ہے‘ ہماری جیپوں نے ہیںو وہاں اتار دیا‘ ہمارا آدھا سفر ابھی باقی تھا‘ یہ سفر اب ذاتی پائوں اور ٹانگوں پر طے ہونا تھا‘ سڑک کے ’’ اینڈ پوائنٹ‘‘ پر پورٹر اور گھوڑے دستیاب تھے لیکن گھوڑوں کا سفر پیدل سفر سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ اگلا راستہ صرف دو فٹ چوڑا ہے اور گھوڑے کی معمولی سی غلطی آپ اور گھوڑے دونوں کو ہزاروں فٹ گہری کھائی کا رزق بنا سکتی ہے‘ ہم نے سامان پورٹرز کو اٹھوایا اور اپنے اپنے ’’ریک سیک‘‘ اٹھا کر اس پتلے راستے پر چلنا شروع کر دیا‘ یہ راستہ جیپ ٹریک سے بھی زیادہ خطرناک اور مشکل تھا‘ یہ سیدھی چڑھائی تھی‘ فضا میں آکسیجن کی کمی تھی‘ دائیں بائیں ہولناک پہاڑ تھے‘ نیچے کھائی تھی‘ کھائی میں نالہ بہہ رہا تھا اور نالے کی شوریدہ آواز ماحول میں مزید خوف گھول رہی تھی‘ میں مستقل ایکسرسائز کرتا ہوں اور میرا خیال ہے میرا اسٹیمنا بہت اچھا ہے لیکن وہ چڑھائی میری اوقات سے کہیں زیادہ تھی چنانچہ میری ٹانگیں اور میرے پھیپھڑے دس منٹ میں جواب دے گئے اور میں باقی سفر بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر طے کرنے پر مجبور ہو گیا۔
میرے بیٹے نے میرا بیگ بھی اٹھا لیا‘ یہ دو بیگ اور مجھے تینوں کو گھسیٹنے پر مجبور ہو گیا‘ یہ مشکل سفر تھا لیکن سفر کے مناظر انتہائی خوبصورت تھے‘ ہم جنگل میں پہنچ چکے تھے‘ ہمارے دائیں بائیں چیڑھ اور پائن کا جنگل تھا‘ ہمارے بایاں پہاڑ وادی کی شکل اختیار کر رہا تھا اور یہ وادی اور پہاڑ کی اترائی پر بھی گھنا جنگل تھا‘ ہمیں دور آسمان کی سرحدوں پر نانگا پربت کی چوٹی بھی نظر آ رہی تھی‘ ماحول میں خنکی بھی آ چکی تھی اور ہمارے راستے میں جگہ جگہ پانی کے جھرنے بھی تھے‘ یہ جھرنے دائیں جانب کے پہاڑوں سے نکل کر بائیں جانب گہرائی میں گر رہے تھے‘ ہم بائیں جانب کے پہاڑوں سے بھی آبشاریں گہرائی میں گرتی ہوئی دیکھ رہے تھے‘ ماحول کی خوبصورتی آہستہ آہستہ خوف کی جگہ لے رہی تھی اور ہم پریشانی سے تحیر کی دنیا میں اتر رہے تھے‘
ہم جنت کے دروازے پر کھڑے تھے‘ زمین کی اس جنت کے دروازے پر جس کو ان انگریزوں نے پریوں کی چراگاہ (فیری میڈو) کہا تھا جن کا ہر شہر‘ ہر وادی اور پہاڑ کا ہر بیس کیمپ انسانی صناعی کا شاہکار ہے‘ جنہوں نے اپنی زمین کے ہر ٹکڑے کو جنت بنا رکھا ہے‘ یہ لوگ اگر غربت‘ بیماری‘ جہالت اور گندگی کے شکار ہمارے ملک کے ایک حصے کو فیری میڈو کا خطاب دے رہے ہیں تو پھر یقیناً اس جگہ میں کوئی ایسی خوبی ضرور ہو گی جو یورپ میں نہیں اور جس نے انگریزوں تک کو مبہوت کر دیا تھا اور یہ لوگ بھی بے تاب ہو کر اسے پریوں کا مسکن کہنے پر مجبور ہو گئے تھے‘ وہ خوبی کیا تھی اس سوال کا جواب ایک موڑ کے فاصلے پر تھا اور ہم بڑی تیزی سے اس موڑ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ (جاری ہے)

فیری میڈوز
جاوید چوہدری پير 23 جولائ 2012
میں پاکستان کے شمالی علاقوں میں آخری مرتبہ 2005ء میں گیا‘ یہ سکردو‘ خپلو‘ شگر اور دیوسائی کی وزٹ تھی اور میں اس وزٹ کے دوران ان علاقوں کے سحر میں گم ہو کر رہ گیا‘ خاص طور پر شنگریلا میں گزرا ہوا وقت میری زندگی کے خوبصورت ترین دن تھے‘ شنگریلا ائیر مارشل اصغر خان کے بھائی بریگیڈیئر اسلم نے آباد کیا تھا‘ بریگیڈیئر اسلم جمالیات حس سے مالا مال انسان تھے‘
انھوں نے سکردو کے مضافات میں کچورا کے مقام پر شنگریلا کے نام سے ایک چھوٹی سی جنت آباد کی‘ یہ حقیقتاً دنیا کی خوبصورت ترین جگہوں میں شمار ہوتی ہے‘ مجھے 2005ء میں اس جنت میں دو دن گزارنے کا موقع ملا‘ میں آج تک اس جنت کے سحر سے آزاد نہیں ہو سکا‘ 2005ء کے بعد میری زیادہ تر گرمیاں بیرون ملک گزر جاتی تھیں لیکن میں اس کے باوجود شمالی پاکستان کو بھول نہ سکا‘ میں جہاں بھی گیا میں غیر ارادی طور پر اس مقام کا تقابل پاکستان کے شمالی علاقوں سے کرتا رہا اور آخر میں ہر بار اس نتیجے پر پہنچتا رہا ہمارے علاقے یورپ سے زیادہ خوبصورت ہیں‘ اﷲ تعالیٰ نے شمالی پاکستان کی صورت میں زمین پر جنت کا عکس اتارا ہے اور ہم میں سے جس شخص نے جاگتی آنکھوں سے یہ جنت نہیں دیکھی وہ بدنصیب انسان ہے‘ میں نے ان گرمیوں میں اس بدنصیبے کو خوش نصیبی میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔
ہم نے بارہ لوگوں کا گروپ بنایا‘ اس گروپ میں ہم چار بھائی‘ میرے دو بیٹے‘ میری بیوی کے دو بھائی‘ ہمارے دو ڈرائیور‘ ہمارا ایک خانساماں اور ایک سیکیورٹی گارڈ شامل تھا‘ ہم لوگ بدھ اٹھارہ جولائی کی صبح دو جیپوں پر فیری میڈوز کے لیے روانہ ہو گئے‘ فیری میڈوز گلگت بلتستان کے پہاڑوں میں شنگریلا جیسی جنت ہے جسے انگریزوں نے 1850ء کے قریب دریافت کیا تھا‘ میں نے بے شمار ملکی اور غیر ملکی سفرناموں میں اس کا تذکرہ پڑھا تھا چنانچہ ہم لوگ فیری میڈوز کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے‘ ہم پانچ گھنٹے کے سفر کے بعد دن بارہ بجے شاہراہ قراقرم پر پہنچے‘ یہ شاہراہ چین اور پاکستان کے انجینئروں کا کمال ہے‘ یہ 1300 کلو میٹر (806 کلو میٹر پاکستان اور 494 کلو میٹر چین)لمبی شاہراہ ہے جو حویلیاں سے شروع ہوتی ہے اور چین کے شہر کاشغر پہنچ کر ختم ہوتی ہے‘ یہ کبھی دنیا کی شاندار اور حیران کن سڑکوں میں شمار ہوتی تھی کیونکہ چین اور پاکستان کے 25ہزار کارکنوں نے یہ سڑک سنگلاخ پہاڑ توڑ توڑ کر بنائی تھی ‘
اس کی تعمیر کے دوران 408 لوگ مارے گئے ‘ یہ 1979ء میں چین کا جدید ترین دنیا کے ساتھ پہلا زمینی رابطہ تھا‘ اس سڑک نے پاکستان اور چین کے لوگوں کی زندگی میں شاندار کردار ادا کیا ‘ ہم اگر باقی کردار کو فراموش بھی کر دیں تو بھی اس سڑک کے چین کے مسلمانوں پر احسانات کو نہیں بھول سکتے‘ چین 80 کی دہائی تک دنیا سے کٹا ہوا تھا‘ دنیا کی کوئی فلائٹ چین جاتی تھی اور نہ ہی چین کی کوئی فلایٹ دنیا کے دوسرے ملکوںمیں اترتی تھی چنانچہ چین کے مسلمان عمرہ اور حج کی نعمت سے محروم تھے‘ چین میں قرآن مجید کی اشاعت پر بھی پابندی تھی لہٰذا چین کے مسلمانوں کی نسلیں قرآن مجید کی زیارت کے بغیر دنیا سے رخصت ہو جاتی تھیں‘ اس سڑک نے چین کے مسلمانوں پر عمرہ‘ حج اور قرآن مجید کا راستہ کھول دیا‘ چینی مسلمان شاہراہ قراقرم پر بسوں‘ گھوڑوں اور پیدل سفر کرتے ہوئے راولپنڈی آتے اور یہاں سے پی آئی اے کے ذریعے مکہ اور مدینہ پہنچ جاتے‘ یہ لوگ واپسی پر پاکستان سے قرآن مجید کے نسخے بھی لے کر جاتے‘ چینی حاجیوں نے پاکستان میں چینی مصنوعات بھی متعارف کروائیں‘ یہ لوگ زاد راہ کے لیے چینی مصنوعات پاکستان لاتے تھے‘
راولپنڈی میں کالج روڈ پر ان کی سراہیں ہوتی تھیں‘ یہ لوگ فلایٹ تک ان سرائوں میں رہتے تھے‘ یہ لوگ دن کو اپنا سامان سرائے کے باہر سجا کر بیٹھ جاتے تھے‘ پاکستانی شہری یہ سامان خریدتے تھے اور شام کے وقت یہ سرائے کے اندر چلے جاتے تھے‘ اس سامان میں سنہری رنگ کا سیفٹی ریزر بھی ہوتا تھا‘ پاکستان کی ایک پوری نسل نے اس سیفٹی کے ذریعے شیو کی‘ میں نے اپنی ابتدائی شیوز بھی اسی سیفٹی سے کی تھیں‘ اس سنہری سیفٹی میں جیلٹ کا بلیڈ لگایا جاتا تھا‘ تام چینی کے فوجی مگ میں گرم پانی ڈالا جاتا تھا‘ چینی برش مگ میں ڈبو کر گیلا کیا جاتا تھا‘ یہ برش سفید خوشبودار شیونگ سوپ پر رگڑا جاتا تھا‘ برش کے بالوں سے کون آئس کریم جیسی جھاگ لپٹ جاتی تھی‘ ہم لوگ اس دوران بایاں ہاتھ مگ میں ڈبو ڈبو کر چہرے پر ملتے رہتے تھے‘ ہم یہ سمجھتے تھے اس سے شیو نرم ہو جاتی ہے‘ ہم اس عمل سے فارغ ہو کر غور سے برش پر جمی جھاگ دیکھتے تھے‘ جھاگ سے ایک عجیب سی خوشبو آتی تھی‘
یہ خوشبو آج بھی نہانے کے سستے صابنوں سے آتی ہے‘ میں کوشش کے باوجود آج تک اس خوشبو کا نام دریافت نہیں کر سکا‘ خوشبو کی ایک لمبی سانس کے بعد ہم لوگ جھاگ والا برش منہ پر رگڑنے لگتے تھے‘ جھاگ منہ پر شفٹ ہونے لگتی تھی‘ اس دوران برش خشک ہو جاتا تھا تو ہم اسے پانی کے مگ میں ڈبو کر ’’ری فریش‘‘ کر لیتے تھے‘ منہ پر جب جھاگ کی آدھ انچ تہہ جم جاتی تھی تو ہم مگ سے سفٹی نکالتے اور شیشے کو گھورتے ہوئے شیو شروع کر دیتے‘ میری نسل شیو کے بال اور سیفٹی پر لگی جھاگ اتارنے کے لیے سیفٹی کو بار بار کپ میں ڈبوتی تھی اور اسے بعد ازاں سنک کے کناروں پر مار مار کر بلیڈ کی دھار سے چپکے بال اور جھاگ اتارتی تھی‘ یہ سیفٹی ہمارا چین کے ساتھ پہلا باقاعدہ تجارتی تعارف تھا اور یہ تعارف شاہراہ قراقرم کی مہربانی سے ہوا تھا۔
یہ دنیا کی عظیم شاہراہ ہے‘ اس شاہراہ کے ایک طرف بلند و بالا پہاڑ ہیں‘ یہ سڑک سانپ کی طرح ان پہاڑوں سے لپٹی ہوئی ہے‘ اس کے دوسرے کنارے پر گہرائی میں دریائے سندھ بہتا ہے اور دریائے سندھ کے بپھرے پانیوں کے دوسرے کنارے سے پہاڑوں کا ایک اور سلسلہ شروع ہوتا ہے‘ یہ سڑک اور دریائے سندھ پہاڑوں کی دو انتہائی بلند دیواروں کے درمیان بہتے ہیں اور یہ دیواریں اور دریا سیکڑوں میل تک اس سڑک کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور اس ساتھ کو پانی کی شوریدہ آواز لے کی شکل دے دیتی ہے‘ یہ لے آخری منزل تک مسافر کے ساتھ ساتھ بہتی ہے‘ یہ سڑک دنیا کاآٹھواں عجوبہ تھی لیکن یہ عجوبہ بھی اس وقت ملک کے دوسرے عجوبوں کی طرح بدقسمتی کا شکار ہے‘ سڑک بری طرح ٹوٹ پھوٹ چکی ہے‘ حکومت بلکہ حکومتیں اپنی اپنی مار دھاڑ میں مصروف ہیں چنانچہ کوئی شاہراہ قراقرم کی طرف دھیان نہیں دے رہا‘ اسلام سے گلگت تک 628 کلو میٹر کا فاصلہ ہے‘ یہ اسلام آباد سے ملتان جتنا فاصلہ بنتا ہے‘
چلاس ایبٹ آباد کے بعد دوسرا بڑا شہر ہے‘ یہ شہر ہماری پہلی منزل تھا‘ یہ اسلام آباد سے لاہور جتنا دور ہے لیکن ہمیں وہاں پہنچنے کے لیے مسلسل 14 گھنٹے سفر کرنا پڑا‘ ہمارے پاس فوربائی فور گاڑیاں تھیں لیکن اس کے باوجود یہ سفر انتہائی کٹھن تھا‘ آپ اندازہ لگا لےجیی عام گاڑیوں پر یہ سفر کتنا لمبا اور دشوار ہوتا ہو گا‘ میری صدر‘ وزیراعظم‘ وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ اور وزیراعلیٰ گلگت بلتستان سے درخواست ہے آپ ایک بار اس سڑک پر ضرور سفر کریں‘ آپ کو دنیا کے آٹھویں انسانی معجزے کی اصل صورتحال نظر آ جائے گی‘ چلاس ہماری پہلی منزل تھا‘ یہ شاہراہ قراقرم پر نسبتاً بڑا شہر ہے‘
چلاس چاروں طرف سے خشک‘ بنجر اور سنگلاخ پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے‘ چلاس کے پہاڑ سارا دن سورج کی حدت چوستے ہیں اور رات کے وقت یہ حدت آہستہ آہستہ چلاس کے مکانوں‘ چلاس کے لوگوں اور چلاس کے سینے سے گزرتے دریا پر چھڑکتے رہتے ہیں‘ چلاس میں جون جولائی میں درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ کے آگے پیچھے رہتا ہے چنانچہ وہاں شدید گرمی پڑتی ہے اور یہ گرمی چلاس کے دن اور رات دونوں کو بے آرام بنا دیتی ہے‘ رہی سہی کسر شیعہ سنی فسادات نے پوری کر دی ہے‘ گلگت اور چلاس تاریخ کے بدترین فسادات سے گزر رہے ہیں‘ علاقے کے شیعہ اور سنی ایک دوسرے کو بہیمانہ طریقہ سے قتل کر رہے ہیں‘ چلاس کی فضا میں فسادات کی آگ کی یہ حدت بھی صاف محسوس ہوتی ہے‘ ہم رات کے نو بجے چلاس پہنچے‘ چلاس کی فضا میں شام غریباں کا سکوت اور ڈری ہوئی‘ سہمی ہوئی زندگی کا سوگ تھا‘یہ شہر‘ شہر کم اور جنازہ گاہ زیادہ محسوس ہوتا تھااور ہم حیران پریشان چلاس کے درمیان کھڑے تھے۔
(جاری ہے)
جوتے
جاوید چوہدری منگل 17 جولائ 2012
مصری شہری کے چہرے پر وحشت بھی تھی اور نفرت بھی‘ اس کے ایک ہاتھ میں جوتا تھا اور دوسرے ہاتھ میں پلے کارڈ‘ جوتا ہلیری کی تصویر پر عین اس کے چہرے پر تھا جب کہ پلے کارڈ اس نے اپنی چھاتی سے لگا رکھا تھا‘ میں نے پلے کارڈ کی تحریر پڑھی تو میرے ماتھے پر پسینہ آ گاک‘ یہ چیختی دھاڑتی تصویر بین الاقوامی وائر سروس اے ایف پی نے جاری کی‘ یہ 14 جولائی 2012ء کو ہلیری کلنٹن کے مصر کے دورے کے دوران عوامی احتجاج کی ایک تصویر تھی‘ مجھے ہلیری کلنٹن‘ مصری نوجوان اور اس کے ہاتھ میں پکڑے جوتے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی‘ میری بلا سے پورا مصر سارا دن ہلیری کلنٹن کے خلاف نعرے لگاتا رہے یا اس کے پوسٹر پر جوتے برساتا رہے لیکن جہاں تک اس پلے کارڈ اور اس پلے کارڈ کی عبارت کا تعلق ہے مجھے اس سے بہت ’’ کنسرن‘‘ تھا کیونکہ یہ ہماری ٹھیک ٹھاک تذلیل ہے۔
پلے کارڈ تھا اور پلے کارڈ پر لکھا تھا ’’ میسج ٹو ہلیری‘ ایجپٹ ول نیور بی پاکستان‘‘ (ہلیری کے لیے پیغام‘ مصر کبھی پاکستان نہیں بنے گا‘‘۔مجھے یہ عبارت پڑھ کر محسوس ہوا مصری شہری نے اپنا جوتا ہلیری کلنٹن کے منہ پر نہیں رکھا بلکہ یہ جوتا ہم سب کے منہ پر دھرا ہے اور اس کے تلوے سے لگا گند ہمارے منہ میں جا رہا ہے۔ یہ جوتا ثابت کر رہا ہے ہم ذلت کی اس آخری حد سے بھی نیچے جا چکے ہیں جہاں اس مصر کے شہری بھی ہمیں جوتے مار رہے ہیں جو کبھی پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کا قبلہ سمجھتا تھا۔
مجھے یقین ہے اگر ساٹھ کی دہائی میں جوان ہونے والی نسل کا کوئی شخص یہ تصویر دیکھ لے تو اسے یقین نہیں آئے گا یہ وہی پاکستان ہے جسے دنیا تیز ترین ترقی کی مثال کہتی تھی‘ مجھے آج بھی واشنگٹن کا وہ بوڑھا سفارت کار یاد ہے جس نے صدر ایوب خان کے دور میں پاکستان میں ذمے داری نبھائی تھی اور اس نے واشنگٹن میں مجھ سے کہا تھا‘ ہم ساٹھ کی دہائی میں سوچتے تھے 1980 میں لندن‘ واشنگٹن اور کراچی میں سے کون سا شہر پہلے نمبر پر ہو گا۔
مجھے انڈونیشیا کا وہ وزیر خزانہ بھی یاد ہے جس نے نواز شریف کے دوسرے دور میں جکارتہ کا دورہ کرنے والے پاکستانی وفد سے کہا تھا مجھے پانچ دیہات نے چندہ جمع کر کے میڈیکل کی تعلیم کے لیے پاکستان بھجوایا تھا۔ انڈونیشیا کے لوگ پاکستان کے تعلیمی اداروں کو ایشیا کی آکسفورڈ اور کیمبرج سمجھتے تھے لیکن آج آپ لوگ مجھ سے مدد لینے جکارتہ آئے مجھے بڑی شرم آرہی ہے‘ ہم پاکستان کو کبھی اس مقام پر نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ مجھے مصر کا وہ اسکالر بھی یاد ہے جس نے دس سال قبل اسلام آباد میں کہا تھا ہم لوگ پاکستان کو ہر فیلڈ میں اپنا لیڈر سمجھتے تھے‘ ہمارا نوجوان پاکستان کے تعلیمی اداروں میں داخلہ لینا اعزاز سمجھتا تھا‘ ہم نے سوان ڈیم بنانے کے لیے پاکستانی انجینئروں کی مدد لی تھی لیکن آج ہم اپنے لیڈر پاکستان کو چھوٹے چھوٹے ملکوں کے قدموں میں جھکا دیکھتے ہیں تو ہمیں بہت شرم آتی ہے‘ افسوس آپ کیا تھے اور کیا ہو گئے۔
ہم اگر پاکستان کا سنہری دور تلاش کریں تو ہمیں ماننا پڑے گا ہم نے ایوب دور میں ریکارڈ ترقی کی‘ اس دور میں بڑے بڑے ڈیم بنے‘ ریلوے ٹریک بچھے‘ لاہور سے خانیوال تک بجلی کی ٹرین چلی‘ یہ ٹرین کراچی تک جانی تھی اور اس کے بعد اس نے لاہور سے لنڈی کوتل کی طرف جانا تھا‘ ملک کا نہری نظام وسیع ہوا جس کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ زمین سیراب ہوئی‘ بجلی شہروں سے دیہات میں پہنچی‘ گیس ملک کے کونے کونے تک آئی‘ کراچی شہر میں اس دور میں زیر زمین ٹرین کے لیے کھدائی ہو چکی تھی‘ سڑکیں وسیع ہوئیں ‘ ملک کے آخری کونے تک سڑک پہنچی‘چیئر لفٹس لگیں‘ پی آئی اے دنیا کی بہترین ائیر لائن بنی‘ ہماری انڈسٹری پانچویں گیئر میں چلی گئی‘ ہماری بندر گاہ سے روزانہ سڑکہوں بحری جہاز میڈ ان پاکستان لے کر دوسرے ملکوں میں جانے لگے‘ پاکستان نے ٹریکٹر بنانا شروع کر دیے ‘ ہمارے تعلیمی ادارے ایشیا کی بہترین درس گاہ بن گئے‘
ہم دنیا کو ہر سال سیکڑوں ڈاکٹر اور انجینئر دینے لگے‘ پاکستان کی عزت اور شہرت کا یہ عالم تھا جرمنی کو پانچ لاکھ ورکرز کی ضرورت تھی‘ جرمن حکومت نے پاکستان سے درخواست کی‘ جرمن حکومت پاکستانی شہریوں کو شہریت اور دوہری تنخواہ دینے کے لیے تیار تھی‘ جرمنی ان شہریوں کی صحت‘ تعلیم اور انشورنس کی ذمے داری بھی اٹھانے کے لیے تیار تھا لیکن ہماری حکومت نے انکار کر دیا‘ حکومت کا کہنا تھا ہم اپنے ورکرز کسی دوسرے ملک کو نہیں بیچیں گے‘ جرمنی نے ہمارے انکار کے بعد ترکی سے رابطہ کیا اور ترکی نے ہم سے کم پیکیج پر اپنے پانچ لاکھ ورکررز جرمنی بھجوا دیے‘ یہ پانچ لاکھ ترک آج 50 لاکھ ہو چکے ہیں اور یہ جرمنی میں جرمنوں کے بعد دوسری بڑی آبادی ہیں۔ ہماری فارن پالیسی کا یہ عالم تھا صدر ایوب خان جولائی 1961ء کو امریکا کے دورے پر گئے تو صدر کینیڈی اپنی پوری کابینہ کے ساتھ ایوب خان کے استقبال کے لیے ائیر پورٹ پر موجود تھے‘
صدر ایوب خان کو ائیر پورٹ سے اسٹیٹ گیسٹ ہائوس تک پروٹوکول دیا گیا‘ امریکی شہری سڑک کے دونوں کناروں پر پھول لے کر کھڑے تھے اور یہ سارا راستہ صدر ایوب پر پھول برساتے رہے‘ ایوب خان کے دور میں عرب امارات کے حکمران خلیفہ النہیان پاکستان کے دورے پر آئے تو ان کا استقبال راولپنڈی کے ڈی سی نے کیا اور صدر ایوب خان نے انھیں ملاقات تک کا وقت نہ دیا‘ ایوب خان کے دور میں پاکستان میں ٹیلی ویژن بھی آیا‘ نیو کلیئر پروگرام بھی شروع ہوا‘
فیملی پلاننگ کا سلسلہ بھی شروع ہوا‘ سیاحت کی وزارت بھی بنی اور چین کے ساتھ ہمارے رابطے بھی مضبوط ہوئے‘ غرض ہم اگر پاکستان کی تاریخ سے ایوب خان کا دور نکال دیں تو ہمارے پاس کچھ نہیں بچتا‘ ذوالفقار علی بھٹو بلا شبہ پاکستان کے بہت بڑے لیڈر تھے لیکن انھوں نے پاکستان کے معاشی پہیے کو چالیس اور پچاس کی دہائی میں واپس دھکیل دیا تھا‘ یہ مزدور کی زبان کو آواز دینے میں کامیاب ہوگئے لیکن انھوں نے وہ فیکٹریاں بند کروا دیں جہاں سے مزدور کی زبان کو رزق کا ذائقہ ملتا تھا‘ پاکستان کی آنے والی حکومتوں نے بدقسمتی سے ترقی کایہ سلسلہ آگے بڑھانے کے بجائے اس ملک کو برباد کر دیا۔
ہم اگر 1968ء سے 2012ء تک پاکستان کے 44 سالہ دور کا جائزہ لیں تو ہمیں ایوب خان کے بعد کراچی کی اسٹیل مل اور موٹروے کے علاوہ کوئی بڑا منصوبہ نظر نہیں آتا‘ کراچی کی اسٹیل مل کی آج کیا حالت ہے یہ پوری دنیا جانتی ہے اور ہم نے اگر موٹر وے پر بھی توجہ نہ دی تو یہ بھی اگلے پانچ سالوں میں جی ٹی روڈ بن جائے گی‘ ڈیمز مٹی سے بھرچکے ہیں اور ٹربائینز بجلی پیدا کرنے کے بجائے شعلے اگل رہی ہیں‘ بجلی سے چلنے والی ٹرین بند ہو چکی ہے اور لوگ اس کی اربوں روپے کے تار تک لے گئے ہیں‘ ریلوے اور پی آئی اے کی حالت پوری دنیا کے سامنے ہے اور رہ گئے ہمارے تعلیمی ادارے تو یہ ڈگریاں چھاپنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کر رہے۔ ہمارے ایم اے پاس نوجوان کی استطاعت یورپ کے پرائمری پاس بچے کے برابر ہوتی ہے‘ یہ ڈی جنریشن کیوں ہے؟ ہم آسمان سے زمین کی تہوں کی طرف کیوں بڑھ رہے ہیں‘
اس کی بڑی وجہ ہماری لیڈر شپ ہے‘ ہم حساس ترین عہدوں پر نااہل ترین شخص کو بٹھا دیتے ہیں اور اس کے بعد ہوا میں ڈولتے جہاز کو اللہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں‘ ہمیں ماننا پڑے گا پاکستان میں ایوب خان سے پرویز مشرف تک آمریت کے ادوارمعاشی لحاظ سے بہت اچھے تھے‘ ملک نے ان ہی ادوار میں ترقی کی‘ ہمیں ٹھنڈے دل سے ان وجوہات کا جائزہ لینا ہو گا اور اس کے بعد ان کی خوبیوں کو سیاسی کلچر کا حصہ بنانا ہو گا مثلاً ہمارے آمر بہترین لوگوں کی ٹیم بناتے تھے‘ صدر ایوب خان‘ جنرل ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی ٹیم بہت اچھی تھی جب کہ ان کے مقابلے میں ہماری سیاسی جماعتوں میں اہلیت اور ٹیلنٹ دونوں کی کمی ہے‘ پاکستان پیپلز پارٹی کی وزارتی ٹیم کو ملک ساڑھے چار سال سے بھگت رہا ہے‘
اس میں ایسے ایسے شاندار وزیر بھی شامل ہیں جو کرپشن کو اپنا حق سمجھتے ہیں‘ پاکستان مسلم لیگ ن کی حالت اس سے بھی پتلی ہے‘ 2008ء میں پیپلز پارٹی نے انھیں پندرہ وزارتیں دی تھیں‘ ن لیگ کو پوری پارٹی سے پندرہ وزیر نہیں ملے تھے‘ یہ بمشکل سات وزیر لا سکے۔ پنجاب مںل وزیر اعلیٰ نے درجن بھر وزارتیں اپنے پاس رکھی ہوئی ہیں‘کیوں؟ کیونکہ ن لیگ کے پاس وزارتی اہلیت کے ایم پی اے ہی نہیں ہیں‘ ان کے سب سے بڑے وزیر رانا ثناء اللہ ہیں‘ آپ ان کی بین الاقوامی اہلیت سے پوری طرح واقف ہیں‘ یہ ن لیگ کے ڈاکٹر مہاتیر محمد ہیں۔
یہی صورتحال دوسری جماعتوں کی ہے‘ یہ بھی ایسے جاہلوں کو ٹکٹ دینے پر مجبور ہیں جن کے پاس بیس تیس ہزار ووٹ ہوں اور یہ باقی کمی دھاندلی سے پوری کر سکتے ہوں اور یہ کامیاب امیدوار کامیابی کے بعد کیا کرتے ہیں‘ یہ اٹھارہ گھنٹے اپنی اس قیادت کی تعریف کرتے ہیں جو معیشت کی م تک سے واقف نہیں اور جس کی تقریروں کا نوے فیصد حصہ ماضی کے کارناموں اور آمروں کے شب خون کے نوحوں پر مشتمل ہوتا ہے چنانچہ آج ملک اس سطح پر پہنچ گیا ہے جہاں مصر کے شہری ہلیری کلنٹن کے پوسٹروں کو جوتے مارتے ہوئے کہہ رہے ہیں ہم تمہیں ایک پیغام دینا چاہتے ہیں مصر کبھی پاکستان ثابت نہیں ہوگا۔
مجھے اس جوتے اور اس پیغام کا افسوس نہیں‘ مجھے افسوس اس بات کا ہے ہم جوتے کھانے کے باوجود آنکھ کھولنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ ہم گدھوں کی طرح ان جوتوں کو بھی اپنے لیے اعزاز سمجھ رہے ہیں‘ ہم درگت بننے پر بھی خوش ہیں۔

انکل نسیم انور بیگ
جاوید چوہدری جمعرات 12 جولائ 2012
میرے کندھوں پر دو زندہ انسانوں کا بوجھ ہے لیکن دنیا انھیں زندہ نہیں مان رہی ایک فوزیہ وہاب ہیں اور دوسرے نسیم انور بیگ۔ یہ دونوں آگے پیچھے انتقال کر گئے لیکن ان کی محبتیں‘ ان کے احسانات اور ان کی ذات کی دھوپ ابھی تک میرے دل کی کھڑکی کے پٹوں پر موجود ہے اور یہ دھوپ شاید کبھی میرے دل سے اتر نہیں سکے گی۔
نسیم انور بیگ شہد اور ملائی سے بنے ہوئے ایسے شاندار انسان تھے جن کا ساتھ دنیا میں کم کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ ہم انکل کو انکل جی کہتے تھے‘ یہ عقل‘ دانش‘ روحانیت اور عمر چاروں میں بزرگ تھے‘ انکل جی پاکستان بننے سے قبل ایم اے کر چکے تھے‘ یہ تحریک پاکستان کے سرگرم رکن بھی رہے اور پاکستان کو تعمیر کرنے والی ٹیم کے اوپننگ بیٹسمین بھی۔ انکل کی زندگی کا بڑا حصہ پیرس میں یونیسکو کی نوکری میں گزرا‘ یہ یو این کی انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کا حصہ تھے‘ یہ اور ان کی مرحومہ اہلیہ آنٹی اختر کی زندگی کا بھرپور دور پیرس میں گزرا‘ اللہ تعالیٰ نے انھیں اولاد کی نعمت سے محروم رکھا لیکن دونوں اس کے باوجود بے انتہا مطمئن اور مسرور تھے۔ پیرس میں انکل کی اسلامی دنیا کے معروف اسکالر ڈاکٹر حمیداللہ سے ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں‘ انکل ایک ملاقات کا اکثر حوالہ دیتے تھے‘ ان کا فرمانا تھا‘ میں نے ایک دن ڈاکٹر حمیداللہ کو کھانے کی دعوت دی
میں وقت مقررہ پر ڈاکٹر صاحب کے استقبال کے لیے اپنے اپارٹمنٹس کی عمارت سے نیچے آ گیا‘ ہماری عمارت کے سامنے فٹ پاتھ پر لکڑی کا ایک بینچ تھا‘ میں نے دیکھا ڈاکٹر حمیداللہ اس بینچ پر بیٹھے ہیں‘ میں تیزی سے ان کی طرف بڑھا‘ ان کا ہاتھ تھاما اور ان سے عرض کیا‘ آپ یہاں کیوں بیٹھ گئے‘ ڈاکٹر حمیداللہ نے مسکرا کر جواب دیا ’’میں ذرا جلدی پہنچ گیا تھا‘ میں نے سوچا یہ میری غلطی ہے چنانچہ مجھے انتظار کرنا چاہیے‘‘ انکل جی کے بقول اس جواب نے ان پر گھڑوں پانی ڈال دیا‘ دنیا کا اتنا بڑا اسکالر اور مجھ جیسے عاجز کے دروازے پر بھاان ہے‘ انکل جی ڈاکٹر حمیداللہ کی عاجزی پر آخری وقت تک شرمندہ تھے‘ وہ فرمایا کرتے تھے‘ میں نے اس کے بعد جب بھی ڈاکٹر صاحب کو تکلیف دی‘ میں آدھ گھنٹہ پہلے نیچے آ کر اس بنچ پر بیٹھ جاتا تھا
وہ ڈاکٹر صاحب کے بارے میں بتایا کرتے تھے ’’ہم جب ان سے پیرس میں قیام کے بارے میں پوچھتے تھے تو وہ فرماتے تھے‘ مجھے یہاں وہ تمام اسلامی کتابیں دستیاب ہیں جو بدقسمتی سے کسی اسلامی ملک میں نہیں مل سکتیں چنانچہ میں صرف کتابوں کی وجہ سے یہاں رہنے پر مجبور ہوں‘‘ انکل جی نے بتایا ’’ ڈاکٹر حمیداللہ ایک کمرے کے فلیٹ میں اکیلے رہتے تھے‘ ان کے کمرے میں بستر کے علاوہ کتابیں ہی کتابیں تھیں‘ میاں نواز شریف پہلے دور میں ڈاکٹر صاحب کے پاس آئے اور ان کے لیے ملازم کے بندوبست کا حکم جاری کر دیا لیکن ڈاکٹر صاحب نے معذرت کر لی‘ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا ’’یہ ملازم میری زندگی مشکل بنا دے گا کیونکہ مجھے اس کے بارے میں بھی سوچنا پڑے گا‘‘ انکل جی جوانی میں قدرت اللہ شہاب کے دوست بن گئے‘ شہاب صاحب نے ان کی ذات پر گہرے اثرات مرتب کیے‘ شہاب صاحب ہالینڈ میں سفارت کے دوران اکثر انکل جی کے پاس آ جایا کرتے تھے
انکل جی اور آنٹی اختر شہاب صاحب کو اپنا فکری اور روحانی پیر سمجھتے تھے‘ انکل جی پیرس میں 35 سال قیام کے بعد90ء کی دہائی میں پاکستان واپس آ گئے‘ پروین شاکر روڈ پر ان کا شاندار گھر تھا‘ آنٹی جی انتقال کر چکی تھیں‘ انکل تنہا تھے لیکن انھوں نے بڑے دلچسپ طریقے سے اس تنہائی کو محفل میں بدل دیا‘ انھوں نے اپنی 14نشستوں کی ڈائننگ ٹیبل کو کلب بنا دیا‘ یہ روز شام کو تیار ہو کر اس ٹیبل پر بیٹھ جاتے اور ان کے اردگرد اسلام آباد کے سیاسی‘ فکری اور روحانی لیڈروں کی محفل سج جاتی‘ لوگ آتے‘ انکل جی کی میز پر بیٹھتے اور رات گئے تک مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے رہتے۔ انکل جی بڑے اچھے سامع تھے‘ یہ چپ چاپ لوگوں کو بولتے‘ کھاتے اور پیتے دیکھتے تھے اور خوش ہوتے رہتے تھے۔
میں 1994ء میں پہلی بار اس ٹیبل پر بیٹھا‘ مجھے صدیق راعی صاحب وہاں لے کر گئے تھے‘ ممتاز مفتی اور صدیق راعی شہاب صاحب کے شاگرد تھے‘ یہ دونوں نسیم انور بیگ کا احترام کرتے تھے اور میں ان دونوں کا شاگرد تھا‘ میں1994ء میں صدیق صاحب کے ذریعے انکل کے پاس پہنچا‘ انکل نے پیار سے میری طرف دیکھا‘ میرے کندھے پر بوسا دیا اور مجھے اپنا بچہ بنا لیا‘ میں اس کے بعد ان کی میز کا مستقل زائر بن گیا‘ میں ہر شام سات بجے ان کے گھر پہنچ جاتا اور نو ساڑھے نو بجے تک ان کے گھر رہتا۔ انکل میں چار خصوصیات تھیں‘ یہ سچے عاشق رسول تھے‘ عشق رسول ان کی شخصیت میں خون کی طرح دوڑتا تھا‘
یہ نبی اکرم کا نام لیتے تھے اور چند لمحوں کے لیے اس نام میں گم ہو جاتے تھے اور پھر گھبرا کر یوں اوپر دیکھتے تھے جیسے یہ بڑی مشکل سے ایک لمبے اور گہرے خواب سے نکلے ہیں۔ دوسرا ان کی ذات میں حلیمی اور عاجزی کوٹ کوٹ کر بھری تھی‘ یہ آپ کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے اس قدر نرم‘ اس قدر میٹھے ہو جاتے تھے کہ آپ کو ان کا اختلاف اتفاق محسوس ہونے لگتا تھا۔ تیسرا یہ اپنی مرحومہ اہلیہ سے بے انتہا محبت کرتے تھے‘ یہ اپنے گھر کو اپنا گھر نہیں کہتے تھے‘ یہ اسے آنٹی اختر کا گھر کہتے تھے‘ میں نے زندگی میں بے شمار لوگوں کو اپنی بیویوں سے محبت کرتے دیکھا لیکن مجھے اپنے اردگرد نسیم انور بیگ جیسا دوسرا خاوند نظر نہیں آیا‘ آنٹی انھیں اولاد کی نعمت نہیں دے سکیں لیکن انکل جی نے زندگی اور زندگی کے بعد ان سے شکوہ نہیں کیا
یہ ہر سال مئی میں پورے اہتمام سے اپنی مرحومہ اہلیہ کی برسی مناتے تھے اور اس برسی میں ان کے تمام شاگرد‘ مرید اور دوست شریک ہوتے تھے اور چار‘ یہ انتقال تک زندگی سے ریٹائر نہیں ہوئے‘ یہ 88 سال کی عمر میں بھی انتہائی متحرک تھے‘ ان کے دور کو گزرے زمانے ہو چکے تھے‘ ان کے دور کا میوزک‘ ان کے دور کی کتابیں‘ ان کے دور کے لباس‘ ان کے دور کی زبان اور ان کے دور کے لوگ سب دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن انکل قائم رہے‘ یہ خود کو ہر دور میں ایڈجسٹ کرتے رہے اور ان کی میز اور محفل دونوں جاری اور ساری رہیں۔
انکل جی کے بعض فقرے آفاقی حیثیت رکھتے ہیں مثلاً وہ اکثر کہا کرتے تھے ’’ بعض سوال جوابوں سے زیادہ معزز ہوتے ہیں‘ یہ سوال دہراتے رہا کرو‘‘ وہ پاکستان کے خلاف بات کرنے والے لوگوں کو ’’ سقراط بقراط‘‘ کہتے تھے اور ان کا کہنا تھا ’’اللہ تعالیٰ کی ذات سقراطوں بقراطوں کی رائے دیکھ کر فیصلے نہیں کرتی‘‘ وہ اکثر کہا کرتے تھے ’’اللہ تعالیٰ کی ذات فنکشنل ہے‘ یہ کسی بھی وقت اپنا فنکشن کر گزرے گی‘‘ وہ کہا کرتے تھے ’’ہندو اور یہودی دونوں پاکستان کے خلاف ہیں مگر پاکستانی ان کی سازشوں سے واقف نہیں ہیں‘‘ وہ پاکستان کے پہلے دانش ور تھے جنہوں نے انکشاف کیا اسرائیل بھارت کا دوست بن چکا ہے اور پاکستان ان دونوں کا مشترکہ ٹارگٹ ہے۔ انکل جی میں ایک عجیب طرح کی روحانیت بھی تھی‘ ان کی ذات میں ایک مقناطیسی کشش تھی‘ آپ کی ذات میں اگر تلاش کا لوہا موجود تھا اور آپ کسی حادثے یا اتفاق کی وجہ سے انکل جی تک پہنچ گئے تو ان کی ذات کی کشش آپ کو اپنا مستقل مرید بنا لیتی تھی‘ آپ اس کے بعد ان کی میز سے اٹھ نہیں سکتے تھے‘ میں 1994ء سے 2008ء تک انکل جی کی میز سے بندھا رہا لیکن پھر ٹیلی ویژن کی نوکری انکل جی اور میرے درمیان حائل ہو گئی‘ وہ شام کو ٹیبل پر بیٹھتے تھے اور میں شام کو ٹی وی پر مصروف ہو جاتا تھا چنانچہ ملاقاتیں کم ہو گئیں لیکن محبت اور عقیدت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا‘ میں جب بھی انکل جی کے گھر کی طرف رخ کرتا یا ان کے گھر کے قریب سے گزرتا‘ مجھے وہاں سے ٹھنڈی اور میٹھی ہوا کا جھونکا آتا تھا اور میری روح کی آخری نس تک سرشار ہو جاتی تھی‘ میں ان سے ملاقات نہیں کر پاتا تھا لیکن ان کی یاد‘ ان کی محبت سے غافل نہیں تھا‘ میں اچانک ان کے گھر پہنچ جاتا تھا اور ان کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر عرض کرتا تھا ’’انکل جی یاد رکھیے‘ میں آپ کا آخری بچہ ہوں اور آخری بچے لاڈلے بھی ہوتے ہیں اور گستاخ بھی‘‘ اور وہ مجھے اٹھا کر سینے سے لگا لیتے تھے‘ میں شاید گستاخ بھی ہوں اور بے وفا بھی اور شاید میرے اندر تعلقات نبھانے کی خوبی بھی نہیں لیکن میں خود کو محبت سے باز نہیں رکھ سکتا اور میں انکل جی سے محبت کرتا تھا‘ کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا اور میں کبھی محبت کی اس آنچ کو نیچے نہیں آنے دوں گا۔
مجھے ان کا آخری پیغام مئی کے پہلے دن موصول ہوا‘ وہ آنٹی اختر کی برسی پر مجھے اپنے گھر میں دیکھنا چاہتے تھے‘ میں نے وعدہ بھی کر لیا لیکن میں برسی کے دن مصر میں تھا چنانچہ میں ان کے دیدار اور گرمجوشی سے محروم رہا‘ میں واپس آیا تو شرمندگی کی وجہ سے ان کے گھر نہ جا سکا‘ میرا خیال تھا وہ میری گستاخی کو ذرا سا بھول جائیں گے تو میں دست بوسی کے لیے حاضر ہو جائوں گا لیکن وہ موقع نہ آسکا‘ انکل جی کا 24 جون 2012ء کو انتقال ہو گیا‘ یہ اِس دنیا سے اُس دنیا چلے گئے جہاں یہ کھلی آنکھوں سے نبی کریمؐ کا دیدار کر سکتے ہیں‘ جہاں سے اپنی بچھڑی ہوئی اہلیہ آنٹی اختر سے مل سکتے ہیں اور جہاں یہ اپنے دوست اور پیرو مرشد قدرت اللہ شہاب سے گلے شکوے کر سکتے ہیں‘ انکل جی چلے گئے لیکن ان کے چاہنے والے‘ ان سے محبت کرنے والے ابھی دنیا میں موجود ہیں اور دنیا میں جب تک چاہنے والے موجود رہتے ہیں اس وقت تک کوئی شخص مرتا نہیں ‘ وہ جانے کے باوجود دنیا میں رہتا ہے اور انکل جی بھی ہمارے ساتھ‘ ہمارے پاس موجود ہیں‘ اپنی مہکتی یادوں‘ ٹھنڈی مہربان مسکراہٹوں اور عاجزی کی شہد میں لپٹی باتوں کے ساتھ اور ہم ان باتوں‘ ان مسکراہٹوں اور ان مہکتی یادوں کو کبھی مرنے نہیں دیں گے کیونکہ یہ ہماری زندگی کا زاد راہ ہے اور زاد راہ کے بغیر دھوپ سے بنی اس دنیا میں زندگی گزارنا آسان نہیں ہوتا اور رہ گئی میری بہن فوزیہ وہاب تو ہم ان کی یادیں کل تازہ کریں گے۔

یہ بھی چلے جائیں گے
جاوید چوہدری پير 9 جولائ 2012
پروفیسر وارث میر محض استاد یا پروفیسر نہیں تھے‘ یہ عہد ساز دانشور بھی تھے‘ میں بدقسمتی سے پروفیسر وارث میر کا عملی طالب نہیں رہا کیونکہ میں جب یونیورسٹی کی عمر کو پہنچا تواس وقت پروفیسر وارث میر کو انتقال فرمائے تین سال ہو چکے تھے لیکن میں علمی لحاظ سے ان کا شاگرد ہوں‘ میں نے بچپن میں ان کی سیکڑوں تحریریں پڑھیں‘ وارث میر جیسے لوگ اس ملک سے مفقود ہوتے جا رہے ہیں‘یہ ملک اب جہالت کے ایسے چھوٹے چھوٹے جوہڑوں میں تبدیل ہو چکا ہے جس کے مینڈکوں کو عمر بھر دوسرے جوہڑوں میں جھانکنے تک کی توفیق نہیں ہوتی‘ لوگ یہاں سنی یا شیعہ پیدا ہوتے ہیں‘ یہ اب بریلوی یا وہابی ہوتے ہیں‘ یہ مادر پدر آزاد لبرل ہوتے ہیں یا قدامت پسند ہوتے ہیں.
یہ آمریت کو اس ملک کے تمام مسائل کا حل سمجھتے ہیں یا پھر یہ آمرانہ سوچ کے قائدین کی ایسی پارٹیوں کو جمہوریت سمجھتے رہتے ہیں جن کا مقصد زرداری صاحب یا میاں صاحب کو اقتدار تک پہنچانا ہوتا ہے‘ یہ لوگ کبھی دوسرے جوہڑ میں جھانک کر نہیں دیکھتے‘ یہ ایک لمحے کے لے نہیں سوچتے ہو سکتا ہے دوسرے جوہڑ کے باسی بھی ٹھیک ہوں یا ان سے مکالمہ کرنے میں کیا حرج ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس جوہڑانہ سوچ کی وجہ سے ملک میں وارث میر جیسے ایسے وسیع المطالعہ اور وسیع القلب لوگ کم ہوتے جا رہے ہیں
جو دلیل کی بنیاد پر محبت یا نفرت کرتے ہیں‘ جو محض تعصب کی بنیاد پر بھٹو کے شیدائی اور جنرل ضیاء الحق کے مخالف نہیں ہیں بلکہ ان کے پاس دلیل بھی ہے اور یہ اس دلیل کو بلا خوف و تردید بیان بھی کرتے ہیں‘ وارث میر ایک ایسے ہی شخص تھے جن کے پاس دلیل بھی تھی اور دلیل کو بیان کرنے کا حوصلہ بھی اور یہ دونوں خوبیاں جب ایک جگہ جمع ہو جاتی ہیں تو یہ جان لے لیتی ہیں‘ پڑھنے والے کی یا پھر کہنے والی کی اور وارث میر اس مہلک خوبی کا ایک شکار تھے‘ یہ 9 جولائی 1987ء کو محض 48 سال کی عمر میں جان کی بازی ہار گئے لیکن اپنے پیچھے نہ مٹنے والی‘ نہ ختم ہونے والی سوچ چھوڑ گئے‘ وارث میر کے صاحبزادے ملک کے نامور صحافی ہیں‘ میری ان سے درخواست ہے یہ وارث میر کی تحریروں کو گاہے بگاہے شایع کراتے رہیں تا کہ وارث میر کی سوچ نئے لوگوں تک پہنچ سکے‘ انھیں معلوم ہو سکے ہمارے ملک میں بھی کیسے کیسے لوگ تھے‘ ایسا نہ ہو وارث میر جیسے کردار بھی نفسا نفسی کی گرد میں گم ہو جائیں اور ان کی مسند پر بھی ہمارے جیسے فکری بونے بیٹھ جائیں۔
ہمارے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی وارث میر کے شاگرد تھے‘ یوسف رضا گیلانی نے 1976ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ابلاغیات میں ایم اے کیا تھا‘ وارث میر اس وقت پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے استاد تھے‘ یوسف رضا گیلانی نے یقیناً وارث میر کے کالم اور تحریریں بھی پڑھی ہوں گی‘ وارث میر کی تحریروں میں ایک ایسی تحریر بھی تھی جس سے یہ نیجہ نکلتا تھا کہ بااختیار لوگ چلے جاتے ہیں اور ان کے ساتھ ہی ان کا اقتدار‘ طاقت‘ ظلم اور زیادتی بھی رخصت ہو جاتی ہے لیکن مظلوموں کی آہیں‘ مزاحمت کرنے والوں کی جدوجہد اور دانشوروں کی سچی تحریریں باقی رہ جاتی ہیں‘ انھیں کوئی نہیں مٹا سکتا‘ مجھے وہ کالم اور اس کالم کے الفاظ یاد نہیں ہیں لیکن اس کا لب لباب ابھی تک یاد ہے‘ وہ کالم جنرل ضیاء الحق کے جابرانہ دور پر لکھا گیا تھا ‘ وارث میر کے کہنے کا مطلب تھا یہ دور اپنے ہر قسم کے مظالم کے ساتھ ختم ہو جائے گا لیکن اس دور میں ہونے والے ظلم‘ لکھی جانے والی تحریریں اور جمہوریت کے لیے ہونے والی مزاحمت باقی رہ جائے گی‘
اسے کوئی نہیں مٹا سکے گا‘ مجھے یقین ہے یوسف رضا گیلانی نے یہ تحریر یا وارث میر کی اس نوعیت کی تحریریں نہیں پڑھی ہوں گی ورنہ یہ آج اقتدار کے ایوانوں سے اپنا پتہ نہ پوچھ رہے ہوتے‘ انھیں لوگوں کو بار بار یہ نہ بتانا پڑتا میں نے ملک کے لیے بے شمار کارنامے سرانجام دیے ہیں اور یہ آج معزول ہونے کے باوجود پوری قوم کے ہیرو ہوتے لیکن ایسا نہیں ہوا اور یہ آج مانگے ہوئے پروٹوکول یا خیرات میں ملی ہوئی سیکیورٹی کے ساتھ لاہور اور ملتان جاتے ہیں یا اسلام آباد شہر میں نکلتے ہیں‘ آج یوسف رضا گیلانی کے تمام کارنامے صرف ان کی ذات تک محدود ہیں یا پھر یہ ایسی چند کہانیاں ہیں جن کا کوئی انت‘ کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔دنیا میں اقتدار یا حکومت کا پورا نظریہ تبدیل ہو چکا ہے‘
لوگوں کو اب آمریت یا جمہوریت نہیں چاہیے‘ لوگ اب پارٹیوں اور پارٹیوں کی قیادت کو پیر ماننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں‘ دنیا کے زیادہ تر سیاسی اور سماجی نظریات بھی بدل چکے ہیں‘ دنیا اب سرمایہ داری اور سوشلزم کی جنگ سے بھی باہر آ چکی ہے اور لوگ اب قدامت اور لبرل ازم کے رومانس سے بھی باہر ہیں‘ لوگوں کو اب امن‘ انصاف‘ ترقی کے مساوی مواقع‘ تعلیم‘ صحت اور ایک بے خوف زندگی چاہیے‘ یہ اپنے گھروں کے سامنے سے کچرے کے انبار اٹھتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں‘ یہ لمبی‘ چوڑی اور سیدھی سڑک چاہتے ہیں‘ یہ گائوں میں آکسفورڈ اور کیمبرج جیسی تعلیم چاہتے ہیں اور یہ خوشحالی اور کامیابی کے بے روک‘ بے ٹوک راستے چاہتے ہیں اور اس کے لیے انھیں لیڈر شپ چاہیے‘ یہ اب قائد عوام یا قائداعظم ثانی کی گلوری میں نہیں رہ سکتے‘ یہ اب میاں صاحب دے نعرے وجن گے یا جئے بھٹو کے ورد سے بھی متاثر نہیں ہوتے‘ یہ آصف علی زرداری کو شہید بی بی اور یوسف رضا گیلانی کو شہادت گاہ جمہوریت کی بنیاد پر ایک آدھ بار اقتدار میں لے آتے ہیں
لیکن یہ ان کی بیڈگورننس کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور اقتدار کے دوران اگر انھیں پارٹی کا سربراہ ہٹا دے‘ سپریم کورٹ معطل کر دے یاپھر ان کا مینڈیٹ فوجی بوٹوں تلے کچلا جائے عوام ان کی مدد کے لیے آگے نہیں بڑھتے اور یوسف رضا گیلانی کے ساتھ بھی یہی ہوا اور اب راجہ صاحب کے ساتھ بھی یہی ہو گا اور اگر میاں نواز شریف بھی اقتدار میں آگئے تو یہ بھی اسی انجام کا شکار ہوں گے‘ کیوں؟ کیونکہ ان کے پاس کوئی ماہر ٹیم نہیں‘ یہ ٹیم بنانے کی صلاحیت سے بھی عاری ہیں چنانچہ یہ باری باری یونانی المیے کا شکار ہوتے جا رہے ہیں‘ ان کی ایڑھیوں میں بیڈ گورننس کے تیر لگتے جا رہے ہیں اور یہ تیزی سے میدان سے نکل رہے ہیں۔
دنیا بدل چکی ہے اور دنیا میں اب صرف ایسے لوگ اچھے لیڈر ثابت ہو رہے ہیں جن میں تین خوبیاں ہوتی ہیں‘یہ ایماندار ہوں‘ ان کی ایمانداری پر ذاتی مفاد کا کوئی دھبہ نہ ہو‘ یہ اپنی نیک نامی اور سیاست کو اپنی اولاد اور خاندان سے بچا لیں‘ دوم یہ وسیع المطالعہ ہوں‘ یہ دنیا جہاں کی کتابیں پڑھتے ہوں‘ یہ دنیا بھر میں ہونے والی ترقی کا تحریری تجزیہ کر سکتے ہوں اور تین یہ اہل ایماندار اور ماہر لوگوں کی ٹیم بنا سکتے ہوں‘ آپ پوری دنیا کا تجزیہ کر لیں آپ کو دنیا کے ہر ترقی پذیر ملک کی عنان ان لوگوں کے ہاتھ میں نظر آئے گی جن مںد یہ تینوں خوبیاں ہوں گی لیکن کیا پاکستان میں بھی آپ کو کسی سیاستدان میں لیڈر شپ کی یہ خوبیاں نظر آتی ہیں؟ کیاآپ کو کسی لیڈر‘ کسی سیاستدان کے تن پر ایمانداری کی چادر دکھائی دیتی ہے؟
اگر ہاں تو کیا آپ کو یقین ہے یہ چادر اقتدار کے بعد بھی ان کے تن پر رہے گی اور کوئی عبدالقادر یا موسیٰ اسے نوچ نہیں لے گا؟ ہمارا کون سا لیڈر ہے جسے پڑھنے لکھنے کا شوق ہے‘کتاب تو دور کی بات یہ فائل تک نہیں پڑھ سکتے‘ میں ہر سیاستدان‘ بیورو کریٹ اور اعلیٰ کاروباری شخصیات سے ملاقات کے دوران پوچھتا ہوں آپ آج کل کون سی کتاب پڑھ رہے ہیں‘ مجھے اس کا جواب ہمیشہ نفی میں ملتا ہے‘ یہ لوگ اخبار بھی صرف سرخیوں تک پڑھتے ہیں جب کہ صدر بارک اوباما جیسے مصروف ترین صدر نے 16 نومبر 2010ء کو امریکی بچوں کے لیے قومی ہیروز کی ایک کتاب لکھی تھی‘ یہ کتاب “Of Thee I Sing: A Letter to My Daughters,” کے نام سے چھپی اور امریکی بچے یہ کتاب پڑھ رہے ہیں ‘ صدر اوباما نے کتاب لکھنے سے قبل یقیناً ان ہیروز کو پڑھا بھی ہو گا‘ کیا پاکستان کے کسی لیڈر کو بھی یہ توفیق ہو سکتی ہے؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا! اور رہ گئی ٹیم تو یہ لوگ نااہل ترین لوگوں کو اعلیٰ ترین منصب دینے کے ماہر ہیں‘ یہ اہلیت کی بنیاد پر عہدوں کا فیصلہ نہیں کرتے‘ قائدین سے وفاداری‘ قائد کے دربار میں خاموشی‘ خوشامد اور بے وقوفی کی بنیاد پر کرتے ہیں‘ یہ اقتدار میں آ کر پرانی مہربانیوں کا بدلہ بھی اعلیٰ عہدوں کی شکل میں اتارتے ہیں‘ میرا دعویٰ ہے
پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کے پاس دس وزارتوں کے لیے دس اہل ترین وزیر نہیں ہیں اور ہماری کسی سیاسی جماعت کا کوئی قائد کسی بین الاقوامی یونیورسٹی میں ایک گھنٹہ لیکچر نہیں دے سکتا لہٰذا پھر نتیجہ کیا نکلے گا‘ وہی نکلے گا جو یوسف رضا گیلانی کا نکلا‘ یہ سابق ہو کر چلے گئے اور لوگ دو ہفتوں میں ان کا نام تک بھول گئے یاراجہ پرویز اشرف کا نکلے گا ‘آج لوگ وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی ان کا نام بھول جاتے ہیں‘ یہ کسی بھی قومی اور عالمی فورم پر لوگوں کا سامنا نہیں کر سکتے چنانچہ یوسف رضا گیلانی کی طرح یہ بھی آئے اور یہ بھی اب چلے جائیں گے اور پیچھے صرف آہیں اور ماتم رہ جائے گا لیکن افسوس اس ماتم اور ان آہوں کا تجزیہ کرنے کے لیے قوم میں وارث میر جےسس لوگ بھی ختم ہو گئے ہیں‘ ہم سیاست اور ادب دونوں محاذوں پر مار کھا رہے ہیں۔
کتابوں کے بغیر
جاوید چوہدری ہفتہ 7 جولائ 2012
نام تھا ولیم بیل، ڈاکٹر ولیم جیمز بیل، وہ نباتات کا ماہر تھا، مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا، وہ گھڑی کی سوئیوں کے ساتھ چلتا تھا، وہ یونیورسٹی جاتا تھا، طالب علموں کو لیکچر دیتا تھا اور شام کو گھر واپس آ جاتا تھا، اللہ تعالیٰ نے اسے خصوصی ذہانت سے نواز رکھا تھا، وہ بیج کو دیکھ کر بتا دیتا تھا اس کا سٹہ کتنا بڑا ہو گا اور اس میں کتنے دانے ہوں گے، وہ پودوں کے حسب نسب کا حافظ بھی تھا، لوگ اس کے سامنے پودے کا نام لیتے تھے اور وہ اس کی پوری تاریخ بیان کر دیتا تھا۔
اس کے طالب علم بھی اس کا بے انتہا احترام کرتے تھے، وہ وقت کا پابند تھا، عاجز تھا، لوگوں کی غلطیاں کھلے دل سے معاف کر دیتا تھا، فیملی مین تھا، خاندان کو بھرپور وقت دیتا تھا، یار باش تھا، دوستوں کو مکمل کمپنی دیتا تھا اور ریسرچ کا شیدائی تھا، اسے جب بھی وقت ملتا تھا وہ لیبارٹری یا لائبریری کی طرف نکل جاتا تھا گویا ڈاکٹر ولیم جیمز بیل ایک بھرپور مطمئن زندگی گزار رہا تھا لیکن پھر ایک چھوٹا سا واقعہ پیش آیا اور اس کی زندگی کا دھارا بدل گیا۔
یہ 1870ء کی بات تھی، وہ ایک نباتاتی تجربے کے لیے مشی گن کے کسی گاؤں میں گیا، اس کے طالب علم بھی اس کے ساتھ تھے، یہ لوگ کھیت میں کام کر رہے تھے، گاؤں کا ایک کسان انھیں دیکھ رہا تھا، کسان نے اچانک ان لوگوں سے پوچھا ’’آپ کیا کر رہے ہیں‘‘ طالب علموں نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے چپ کرایا اور پھر بتایا ’’تم نہیں جانتے یہ کون ہیں‘‘۔ کسان نے احمقوں کی طرح گردن ہلا کر جواب دیا ’’نہیں، میں نہیں جانتا یہ کون ہیں‘‘ طالب علموں نے بتایا ’’یہ ڈاکٹر ولیم بیل ہیں۔
نباتات کے ایکسپرٹ‘‘ کسان نے ڈاکٹر کا نام پہلی بار سنا تھا لیکن وہ طالب علموں کے احترام اور پروفیسر کی شخصیت سے متاثر ہوگیا، وہ آگے بڑھا، پروفیسر کے قریب پہنچا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا ’’پروفیسر صاحب پھر آپ میرا ایک مسئلہ حل کر دیں‘‘ پروفیسر نے مسکراتی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا اور کہا ’’جی فرمائیے‘‘ کسان نے عرض کیا ’’میں جو بھی فصل بوتا ہوں اس میں غیر ضروری جڑی بوٹیاں اور گھاس اگ آتی ہے، یہ گھاس اور یہ بوٹیاں میری فصل کو تباہ کر دیتی ہیں، ان بوٹیوں کو تلف کرنے میں میرا بہت وقت اور سرمایہ ضایع ہو جاتا ہے۔
کیا آپ مجھے ان سے بچاؤ کا کوئی طریقہ بتا سکتے ہیں؟ اگر یہ ممکن نہیں تو کیا آپ مجھے یہ بتا سکتے ہیں، میں انھیں کتنی بار اکھاڑوں جن کے بعد یہ دوبارہ نہ اگ سکیں‘‘ یہ سوال بہت مشکل تھا، دنیا میں انسان نے جب سے کھیتی باڑی شروع کی، یہ اس وقت سے فالتو جڑی بوٹیوں سے لڑ رہا ہے، آپ اپنے لان میں پھول اگاتے ہیں لیکن پھول کے ساتھ گھاس اور جڑی بوٹیاں بھی آگ آتی ہیں، آپ کھیت میں مکئی، گندم یا جو بوتے ہیں مگر ان کے ساتھ کانٹے دار ڈھیٹ جڑی بوٹیاں بھی نکل آتی ہیں اور آپ اپنے فارم ہاؤس میں سبزیاں لگاتے ہیں لیکن ان کے ساتھ کڑوی اور زہریلی کھمبیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔
یہ کھمبیاں، یہ جڑی بوٹیاں اور یہ گھاس فصل کی خوراک، پانی اور کھاد چوس لیتی ہیں اور یوں کسان کو توقع سے کم فصل ملتی ہے، یہ ایک دائمی مسئلہ ہے اور انسان روز اول سے اس مسئلے سے نبرد آزما ہے، انسان نے جس دن اس مسئلے پر قابو پا لیا اس دن زمین کی پیداوار میں تیس فیصد اضافہ ہو جائے گا یعنی ہم آج کے مقابلے میں تیس فیصد زیادہ اناج، سبزیاں اور پھل بھی حاصل کریں گے اور کسانوں کی کاسٹ اور اناج کی قیمت بھی تیس فیصد کم ہو جائے گی اور یہ اتنا ہی بڑا زرعی انقلاب ہو گا جتنا بڑا انقلاب ’’شیل گیس‘‘ ثابت ہوئی، آپ اندازہ کیجیے۔
امریکا دنیا میں تیل کا سب سے بڑا خریدار تھا لیکن شیل گیس کی ایک ٹیکنالوجی نے دنیا کے سب سے بڑے آئل امپورٹر کو دنیا کا سب سے بڑا آئل ایکسپورٹر بنا دیا، یہ اس ٹیکنالوجی کا کمال ہے کہ دنیا میں 115 ڈالر فی بیرل بکنے والا پٹرول چھ ماہ میں 30 ڈالر فی بیرل پر آ گیا، پٹرول کی قیمت 85 ڈالر کم ہو گئی، کیا یہ انقلاب نہیں؟ سائنس دان اگر اسی طرح فصلوں کی جڑی بوٹیاں اور گھاس کو تلف کرنے کا طریقہ بھی ایجاد کر لیتے ہیں تو دنیا کے وہ تمام ملک جو اس وقت خوراک درآمد کرنے پر مجبور ہیں وہ چھ ماہ میں خوراک برآمد کرنے کے قابل ہو جائیں گے اور اگر یہ ممکن نہ ہوا تو بھی خوراک کی کمی کے شکار ملک خود کفیل ضرور ہو جائیں گے چنانچہ کسان کا سوال بروقت بھی تھا اور ضروری بھی۔
ڈاکٹر ولیم بیل نے سوال سنا، مسکرایا اور جیب میں ہاتھ ڈال کر بولا ’’میں معافی چاہتا ہوں، میرے پاس اس مسئلے کا کوئی حل نہیں‘‘ کسان نے یہ جواب سن کر قہقہہ لگایا اور بولا ’’ پھر تم خود کو کس چیز کا ایکسپرٹ کہتے ہو، تم کم از کم پروفیسر کہلانا بند کر دو‘‘ کسان یہ کہہ کر چلا گیا لیکن اس کے لفظ ڈاکٹر ولیم جیمز بیل کے دل میں ترازو ہو گئے، اس نے جیب سے رومال نکالا، ہاتھ صاف کیے، طالب علموں کو ساتھ لیا اور یونیورسٹی میں واپس آگیا۔
پروفیسر اس کے بعد سات سال تک سوچتا رہا یہاں تک کہ اس نے انسانی تاریخ کا طویل ترین تجربہ کرنے کا فیصلہ کر لیا، یہ تجربہ 1879ء میں شروع ہوا اور یہ 2100ء میں 237 برس بعد مکمل ہو گا، ڈاکٹر ولیم جیمز بلا نے 23 قسم کی جڑی بوٹیاں اور گھاس منتخب کی، ان کے پچاس پچاس صحت مند بیج لیے، ان بیجوں کو 20 بوتلوں میں ڈالا، بوتلوں میں نم دار مٹی ڈالی، ان کے منہ کھلے رکھے، ان میں سے چند بوتلیں سیدھی اور چند الٹی رکھ دیں، ان میں سے چند مٹی میں دبا دی گئیں، چند کھلے آسمان کے نیچے رکھ دی گئیں اور چند تنگ و تاریک کمروں میں بند کر دی گئیں اور ان میں سے چند گرم جگہوں اور چند ٹھنڈے مقامات پر رکھ دی گئیں، یہ بوتلیں ڈھائی سو سال کے لیے رکھی گئی ہیں۔
ان میں سے ہر بوتل پانچ سال بعد کھولی جاتی ہے، اس کا کیمیائی اور نباتاتی جائزہ لاس جاتا ہے اور اس میں آنے والی تبدیلیاں نوٹ کی جاتی ہیں، ڈاکٹر ولیم جیمز بیل 1920ء تک ان بوتلوں کا جائزہ لیتے رہے، یہ اس دوران اپنے جیسا ایک اور پاگل بھی تلاش کرتے رہے، انھیں یہ پاگل ڈاکٹر ہنری ڈارلنگٹن کی شکل میں مل گیا، ڈاکٹر ہنری پروفیسر ولیم کا شاگرد تھا، پروفیسر کو اس میں وہ مستقل مزاجی اور ایمانداری نظر آئی جو ایسے تجربات کے لیے ضروری ہوتی ہے۔
پروفیسر ولیم نے مرنے سے پہلے یہ 20 بوتلیں اور اپنی رپورٹ پروفیسر ڈارلنگٹن کے حوالے کر دی، پروفیسر ڈارلنگٹن نے مرنے سے قبل اپنے دو شاگردوں رابرٹ نبڈورسکی اور جین زیوارٹ کو اعتماد میں لے لیا، یہ دونوں بھی مرنے تک ان بوتلوں کی حفاظت کرتے رہے، یہ بوتلیں آج کل ڈاکٹر فرینک ٹیلوسکی کی تحویل میں ہیں اور یہ ان میں آنے والی تبدیلیاں نوٹ کر رہے ہیں، یہ بھی تین شاگرد تیار کر رہے ہیں، یہ تینوں شاگرد ٹیلوسکی کے مرنے سے پہلے یہ منصوبہ اپنے ہاتھ میں لے لیں گے اور یہ لوگ تجربے کی اس مشعل کو موت سے پہلے اگلی نسل کو سونپ جائںی گے۔
یہ 20 بوتلیں 137 برس سے محفوظ چلی آ رہی ہیں، ان 137 برسوں میں دنیا میں زلزلے بھی آئے، طوفان بھی، سیلاب بھی، سونامی بھی اور سیاسی انقلاب بھی، دنیا میں دو عالمی جنگیں بھی ہوئیں اور تین بڑے اقتصادی بحران بھی آئے لیکن سائنس دانوں کی چار نسلوں نے اس تجربے اور ان 20 بوتلوں پر آنچ نہیں آنے دی، یہ جان کی طرح ان کی حفاظت کرتے رہے، ان 137 برسوں میں 23 قسم کے پودوں میں سے صرف دو انواع کے پودے پیدا ہوئے، ان میں سے ایک پودے کا نام ’’موتھ بوٹی‘‘ ہے، موتھ بوٹی کے 50 بیج بوتل میں رکھے گئے تھے، ان میں سے 23 بیج نہ صرف پھوٹ پڑے بلکہ یہ جوان بھی ہو گئے جب کہ دوسری قسم کی بوٹی کا صرف ایک بیج پھوٹا، آج تک پندرہ بوتلیں کھولی جا چکی ہیں، پانچ بوتلیں باقی ہیں۔
یہ بوتلیں بیس بیس سال کے وقفے سے کھولی جائیں گی، آخری بوتل 2100 ء میں کھلے گی جس کے بعد یہ تجربہ مکمل ہو جائے گا، اس تجربے کے ذریعے یہ اندازہ کیا جا رہا ہے، کس بوٹی میں کتنی دیر تک افزائش کی صلاحیت زندہ رہتی ہے، اس سے ان جڑی بوٹیوں کے فیز کی عمر کا حساب لگایا جائے گا، یہ تخمینہ جب مکمل ہو جائے گا تو سائنس دان اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے، کسان کس بوٹی کو کتنی بار اکھاڑے تو یہ ختم ہو جائے گی، کون سی بوٹی کتنے عرصے تک کس کھیت میں زندہ رہے گی اور کس بوٹی کو مارنے کے لیے کون سا بیج کتنا عرصہ بویا جائے اور کس فصل سے پرہیز کیا جائے، یہ بیی معلوم ہو جائے گا کون سا بیج کس موسم اور کس درجہ حرارت میں فنا ہوتا ہے اور کون کس درجہ حرارت میں زیادہ افزائش پاتا ہے۔
یہ تاریخ انسانی کا طویل ترین تجربہ ہے، آپ اس تجربے میں شریک ہونے والے سائنس دانوں کا ظرف اور اخلاص ملاحظہ کیجیے، ان میں سے ہر شخص یہ جانتا ہے میں اس تجربے کے اگلے فیز تک زندہ نہیں رہوں گا لیکن یہ اس کے باوجود اپنی پوری زندگی اس میں جھونک دیتا ہے اور دنیا سے چپ چاپ رخصت ہو جاتا ہے، آپ ان لوگوں کا کمال دیکھئے، ڈاکٹر ولیم جیمز بیل سے لے کر ڈاکٹر فرینک ٹیلوسکی تک ان میں سے ہر سائنس دان یہ جانتا تھا، یہ دنیا کی قیمتی ترین تحقیق ہے اور سائنس دانوں کی آخری ٹیم اس سے اربوں ڈالر کمائے گی لیکن یہ لوگ اس کے باوجود ریسرچ کی یہ مشعل اگلی سے اگلی نسل کو منتقل کرتے چلے آ رہے ہیں۔
یہ خود بھوکے رہتے ہیں، یہ خود پیسے پیسے کو ترستے رہتے ہیں لیکن یہ نسل انسانی کو خوش حالی اور مطمئن بنانے کا سلسلہ جوڑتے چلے آ رہے ہیں، یہ کیا کمال لوگ ہیں، یہ جان دیتے جا رہے ہیں لیکن یہ مشعل تحقیق آگے بڑھاتے جا رہے ہیں مگر ہم ان لوگوں کو کافر سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کو مومن، ہم خود کش حملوں کے باوجود شہید ہیں اور علم اور ایثار کے یہ پیکر لیبارٹریوں میں جان دینے کے بعد بھی جہنمی ہیں، یہ کہاں کا انصاف ہے۔
یہ کہاں کا قانون ہے، ہم اگر مومن ہیں تو پھر ہماری میراث کہاں ہے؟ اور اگر یہ علم ہماری کھوئی ہوئی میراث ہے جس کی حفاظت ڈاکٹر ولیم بیل جیسے لوگ 137 برس سے کر رہے ہیں تو پھر ہم مومن ابن مومن کیوں کہلاتے ہیں؟ ڈاکٹر ولیم بیل کی یہ بوتلیں یہ سوال اگلے 85 برسوں تک نبی اکرمؐ کی امت سے پوچھتی رہیں گی، ہے کوئی سچا عاشق رسولؐ جس کے پاس اس کا جواب ہو؟

www.facebook.com/javed.chaudhry
میں عرض کر رہا تھا، امیر تیمور نے زندگی میں 42 ملک فتح کیے‘ بے تحاشا دولت بھی لوٹی‘ تیمور کے سوانح نگار لکھتے ہیں وہ اپنی دولت گھوڑوں اور گڈوں پر لادتا تھا اوریہ سیکڑوں گڈے اور گھوڑے قطار میں سمر قند پہنچتے تھے اور یہ کسی ایک مہم کی دولت ہوتی تھی۔ وہ دنیا کا نامور فاتح بھی تھا‘ اس نے زندگی کے پچاس سال تلوار سے کھتےمر ہوئے گزار دیے۔ وہ دنیا کے ان چند نادر لوگوں میں بھی شمار ہوتا تھا جو اپنے دونوں ہاتھوں سے بیک وقت کام لے سکتے تھے‘ وہ ایک ہاتھ میں تلوار اٹھاتا تھا اور دوسرے ہاتھ میں کلہاڑا اور دونوں ہاتھوں سے لوگوں کے سر اتارتا چلا جاتا تھا‘ وہ دائیں اور بائیں دونوں ہاتھوں سے لکھ بھی سکتا تھا اور اس نے حیران کن حافظہ بھی پایا تھا‘وہ ایک بار کی سنی اور پڑھی ہوئی بات کبھی نہیں بھولتا تھا‘ اس کی یہ ساری کامیابیاں‘ یہ ساری اچیومنٹس خاک میں مل گئیں۔ اس کی ناختم ہونے والی دولت اور اس کے 42 مفتوح ممالک یہ سب زمین کا رزق بن گئے لیکن تیمور کی ایک چیز زمانے کی دست برد سے بچ گئی اور وہ اس کے ہاتھ کی لکھی ہوئی کتاب تھی‘ اس کی سوانح عمری ’’میں ہوں تیمور‘‘۔ امیر تیمور نے غالباً یہ کتاب فارسی زبان میں لکھی تھی‘ یہ ادھوری کتاب ہے جو تیمور کی موت 1405ء کے وقت ختم ہو گئی اور قلمی نسخہ کی صورت میں مختلف ہاتھوں سے ہوتی ہوئی 1783ء میں برطانیہ میں پہلی بار شایع ہوئی اور اس کے بعد 40زبانوں میں ترجمہ ہوئی اوریہ 229 برسوں سے شایع ہو رہی ہے اور مسلسل پڑھی جا رہی ہے۔
یہ بنیادی طور پر کتاب کی عظمت ہے‘ علم اور کتاب کو زوال نہیں ہوتا‘ دنیا میں تیمور جیسے لوگوں کی سلطنتیں ختم ہو جاتی ہیں لیکن ان کے ہاتھوں سے نکلے ہوئے صفحات ضایع نہیں ہوتے‘ یہ اس وقت تک دنیا میں رہتے ہیں جب تک پڑھنے والوں کی تشنگی باقی رہتی ہے‘ پڑھے لکھے اور ان پڑھ شخص میں صرف کتاب کا فرق ہوتا ہے۔ امیر تیمور جیسے لوگوں کی نگارشات دنیا میں ان پڑھ اور پڑھے لکھوں میں تفریق ہوتی ہیں اورقدرت اس تفریق کو برقرار رکھنے کے لیے ان کتابوں کو زندہ رکھتی ہے۔ آپ معاشروں کا تجزیہ کر لیں‘ آپ کو ان تمام معاشروں میں امن‘ سکون‘ کوالٹی آف لائف‘ برداشت‘ خوشی اور روحانی مسرت ملے گی جہاں کثرت سے کتابیں پڑھی جاتی ہیں اس کے برعکس جن ممالک میں کتابیں کم چھپتی ہیں‘ جہاں لائبریریاں مفقود ہوتی ہیں۔ وہاں روحانی کشیدگی بھی پائی جاتی ہے‘ وہاںغم اور غصہ بھی ہوتا ہے‘ برداشت کی کمی بھی‘ بے سکونی اور بدامنی بھی اور وہاں کے لوگ زندگی کی تمام نعمتیں پانے کے باوجود ناآسودہ بھی ہوتے ہیں۔ آپ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں آپ کو اپنے دائیں بائیں ایسے ہزاروں لوگ ملیں گے جن پر اللہ تعالیٰ کا ہر قسم کا کرم ہے‘ یہ دولت مند بھی ہیں‘ عزت دار بھی‘ بااثر بھی‘ صحت مند بھی اور بااقتدار بھی لیکن اس کے باوجود ان کی زندگی میں کوئی رنگینی نہیں‘ آپ انیںی ہمہ وقت مردم بیزار اور شاکی پائیں گے‘ اس کی بڑی وجہ کتاب سے دوری ہے‘ آپ زندگی میں ہر چیز حاصل کر سکتے ہیں لیکن آپ کتابوں کے بغیر ان چیزوں کو انجوائے نہیں کر سکتے‘ آپ کی کامیابیوں میں رس‘ مزہ اور ذائقہ کتابیں ہی ڈالتی ہیں‘ کتابیں اگر جنگی کامیابیوں‘ اقتدار اور دولت سے بڑی نہ ہوتیں تو دنیا کے نامور جنگجو‘ فاتح‘ بادشاہ اور دولت مندکبھی کتابیں نہ لکھتے یا نہ لکھواتے۔ آپ سکندر اعظم سے لے کر بل گیٹس تک دنیا بھر کے کامیاب لوگوں کے پروفائل نکال کر دیکھ لیں‘ آپ کو ہر بڑا اور کامیاب شخص دنیا میں کتاب چھوڑ کر جاتا ہوا نظر آئے گا‘ یہ کتاب اس کی کامیابیوں کا گر بھی ہوتی ہے اور اس کی ناکامیوں کا تجزیہ بھی اور زندگی کی اصل حقیقت بھی اور ہم جب تک ان کتابوں کا مطالعہ نہیں کرتے‘ ہم اس وقت تک زندگی‘ کامیابی اور ناکامی کی اصل جہتوں تک نہیں پہنچ پاتے۔
مطالعہ ایک عادت ہوتی ہے اور یہ عادت بھی دوسری عادتوں کی طرح باقاعدہ ڈالنا پڑتی ہے‘ آپ جب تک کتاب کو اپنی روزانہ مصروفیات کا حصہ نہیں بناتے‘ آپ اسے زندگی کے ڈسپلن میں نہیں لاتے‘ اس وقت تک کتابیں آپ کی عادت نہیں بنتیں۔ یورپ کے لوگ بچوں کو اسکول میں داخل کرانے سے پہلے کتابوں کی عادت ڈالتے ہیں‘ یہ بچوں کو بک شاپس لے کر جاتے ہیں‘ انھیں چھوٹی چھوٹی کتابیں خرید کر دیتے ہیں‘ یہ انھیں لائبریری لے کر جاتے ہیں اور انھیں وہاں سے کتاب حاصل کرنے کا طریقہ بتاتے ہیں‘ یہ انھیں گھر سے نکلتے ہوئے کتاب ساتھ رکھنے کی عادت بھی ڈالتے ہیں‘ آپ اگر کبھی یورپ‘ امریکا یا کسی دوسرے ترقی یافتہ ملک میں جائیں تو آپ کو لوگ ٹرینوں‘ بسوں‘ بس اسٹاپس اور پارکوں میں بیٹھ کر پڑھتے نظر آئیں گے‘ آپ کو ہر شخص کے ہاتھ میں اخبار دکھائی دے گا یا کتاب اور اسے جہاں جگہ ملے گی وہ بیٹھ کر کتاب یا اخبار کھولے گا اور پڑھنا شروع کر دے گا۔ یورپ اور امریکا میں زیادہ تر کتابوں کی پہلی اشاعت دس لاکھ کاپیوں پر مشتمل ہوتی ہے اور ان کی اشاعت بعدازاں کروڑوں تک پہنچ جاتی ہے۔ امریکا کی آبادی 31کروڑ 38لاکھ ہے لیکن وہاں ایسی ایسی کتابیں بھی موجود ہیں جو چالیس‘ چالیس کروڑ کی تعداد میں شایع ہوئیں ‘ ہم میں سے بھی ہر اس شخص کو مہینے میں تین چار کتابیں خریدنی چاہئیں جو پرائمری تک پڑھا لکھا ہے یا جو حروف اور اعدادو شمار پڑھ سکتا ہے۔ انگریزی کی شد مد رکھنے والے کو اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی کتابیں بھی خریدنی چاہئیں کیونکہ یورپ اور امریکا علم میں ہم سے بہت آگے ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں کوبھی کتابوں کی عادت ڈالنی چاہیے‘ ہم چھوٹے بچوں کو کتابیں خرید کر دیں اور ان سے وقتاً فوقتاً کتابوں کے بارے میں پوچھتے بھی رہیں‘ ہم جس طرح ہر ہفتے یا ہر مہینے گھر کا سودا خریدتے ہیں‘ ہمیں اسی طرح کتابوں کی دکانوں پر بھی جانا چاہےھ اور وہاں سے گھر کے تمام افراد کے لیے کتابوں کی خریداری کرنی چاہیے‘ یہ درست ہے دوسری ضروریات کی طرح کتابیں بھی مہنگی ہو رہی ہیں لیکن مہنگی ہونے کے باوجود یہ آج بھی کپڑوں‘ جوتوں اور کڑاہی گوشت سے سستی ہیں‘ آپ بازار سے جوتا خریدتے ہیں تو اسے صرف آپ ہی استعمال کر سکتے ہیں‘ آپ کا جوتا آپ کا بیٹا یا بیگم نہیں پہن سکتی‘ اسی طرح آپ بھی اپنی بیگم کا جوتا پہن کر باہر نہیں آ سکتے لیکن آپ کی خریدی ہوئی کتاب آپ کی بیگم اور بچے بھی پڑھ سکتے ہیں‘ آپ کی کپڑوں اور جوتوں کی الماری ختم ہو جائے گی‘ آپ کے کپڑے‘ جوتے اور کھانا پرانا ہو جائے گا لیکن کتابیں پوری زندگی باسی اور پرانی نہیں ہوں گی‘ یہ عمر بھر آپ کا ساتھ دیں گی۔ ہم گھروں اور دفتروں میں ٹوائلٹ بھی بناتے ہیں اور کچن بھی۔ ہمیں ان کے ساتھ اسٹڈی یا چھوٹی سی لائبریری ضرور بنانی چاہیے‘ ہمارے گھر میں اگر اس کی گنجائش نہیں تو بھی ہم گھر کی کسی کھڑکی کے ساتھ کتابوں کی ایک دو شلف بنا سکتے ہیں‘ ہم گھر کے کسی روشن کونے میں ایک میز اور ایک کرسی رکھ سکتے ہیں اور اسے اپنی اسٹڈی ڈکلیئر کر سکتے ہیں‘ ہم گھر سے نکلتے ہوئے تسبیح اور کتاب دونوں ساتھ رکھ سکتے ہیں‘ تسبیح ہمارا اﷲ تعالیٰ سے رابطہ قائم کرے گی‘ ہم چلتے پھرتے‘ خریداری کرتے ہوئے‘ دفتر اور دکان پر کام کرتے ہوئے تسبیح پڑھتے رہیں اور جوں ہی بیٹھنے کی فرصت ملے تو کتاب کھول لیں‘ اس سے ہمارا وقت بھی بچ جائے اور ہم فضول حرکتوں‘ لایعنی گفتگو سے بھی محفوظ رہیںگے۔ علم حاصل کرنے کا ایک طریقہ سوال بھی ہے‘ ہمارے ذہن میں روزانہ چار ہزار سوال پیدا ہوتے ہیں‘ ہم اگر جیب میں چھوٹی سی ڈائری رکھ لیں اور ہر سوال اس ڈائری میں لکھ لیں اور ہمیں جوں ہی فرصت ملے ہم کتابوں‘ انٹرنیٹ اور عالموں کے ذریعے ان سوالوں کا جواب تلاش کر لیں تو ہمارے نالج بیس میں اضافہ ہو سکتا ہے‘ ہم ہفتے میں چند گھنٹے پڑھے لکھے لوگوں میں بیٹھ جائیں تو اس سے بھی ہمارے علم میں اضافہ ہو گا لیکن یہ پڑھے لکھے لوگ کسی ایک خاص طبقے سے نہیں ہونے چاہئیں‘ ان میں سائنس دان‘ مورخ‘ ادیب‘ مذہبی اسکالرز‘ بیوروکریٹس اور سیاستدان بھی ہونے چاہئیں تا کہ آپ کے پاس ہر قسم کا نالج آ سکے‘ آپ اگر ہر بار ایک ہی قسم کے لوگوں سے ملیں گے تو اس سے آپ کی سوچ محدود ہو جائے گی اور محدود سوچ بے علمی سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے ۔ آپ روزانہ تھوڑی دیر کے لیے ٹی وی بھی دیکھیں اور ہفتے میں ایک آدھ معیاری فلم بھی‘ روزانہ اخبار بیی پڑھیں اور انٹرنیٹ کا استعمال بھی کریں کیونکہ یہ بھی علم کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔
آپ یاد رکھیے آپ کے پاس صرف دو آپشن ہیں‘ آپ ان پڑھ جانور جیسی زندگی گزاریں جو کھاتا‘ پیتا اور بچے پیدا کرتا ہوا دنیا سے رخصت ہو جاتا یا پڑھے لکھے انسان جیسی زندگی جو کھانے‘ پےنا اور بچے پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ زندگی کا مقصد بھی ڈھونڈتا ہے‘ جو اس کھانے‘ پینے اور بچے پیدا کرنے کے عمل کو بامقصد اور شاندار بنا لیتا ہے اور یہ عمل کتابوں کے بغیر ممکن نہیں ہوتا‘ کتابوں کے بغیر زندگی کھٹے آم کی طرح ہوتی ہے ‘ جس میں سب کچھ ہوتا ہے لیکن ذائقہ نہیں ہوتا۔