جواہرِ جہاد (قسط۳۰)

جواہرِ جہاد (قسط۳۰)
از: امیر المجاہدین حضرت اقدس مولانا محمد مسعود ازہر صاحب دامت برکاتہم العالیہ
(شمارہ 606)
آزادی اور جہاد
اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو حقیقی مسلمان بنائے اور ہمیں خلافت اور آزادی کی نعمت عطاء فرمائے… عجیب بات ہے کہ بعض دیندار لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ… مسلمانوں کو نماز، روزہ، ذکر اذکار میں تو خوب لگنا چاہیے مگر حکومت اور خلافت حاصل نہیں کرنی چاہئے… یہ بالکل غلط، ناجائز اور حرام سوچ ہے… اﷲ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمدﷺ مسلمانوں کو دین بھی دے کر گئے اور دینی حکومت و خلافت بھی… اس لئے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپﷺ کے وصال کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ مسلمانوں کے لئے خلیفہ، حاکم اور حکمران کا تقرر کیا… کبھی اﷲ تعالیٰ توفیق دے تو قرآن پاک کی سورۃ النصر کو توجہ سے پڑھ لیں…یہ تین آیات کی مختصر سی سورۃ مبارکہ آپ کی آنکھیں کھول دے گی… مفسرین فرماتے ہیں کہ… سیدھے راستے ، سچے دین اور حق سے انسانوں کو ہٹانے والی چار چیزیںہیں:
(۱) شیطان (۲) نفس (۳) کفار جو طاقت رکھتے ہوں (۴) منافقین
اﷲ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو دین حق دے کر بھیجا… اور آپ کو ان چاروں سے مقابلے کا الگ الگ نصاب عطاء فرمایا… آپﷺ نے ان چاروں رکاوٹوں کو توڑا اور جہاد فی سبیل اﷲ کے ذریعہ خلافت کبریٰ اور حکومت قائم فرمائی… اورجب یہ ساری ترتیب اُمت کے حوالے فرما دی تو اﷲ تعالیٰ نے آپﷺ کو اپنے پاس بُلا لیا… اور پھر مسلمان اسی ترتیب اور نصاب کو لے کر آگے بڑھتے گئے اورچند سالوں میں انہوں نے دنیا کے ایک بڑے حصے پر اسلامی خلافت نافذ کر دی… زمین پر مسلمانوں کی خلافت اور حکومت صدیوں تک قائم رہی… پھر جب یہ نصاب کمزور ہونے لگا… ایمان کے قلعے میں ’’حبّ دنیا‘‘ اور بزدلی کی دراڑیں پڑ گئیں تو کفار نے چاروں طرف سے مسلمانوں کو گھیرنا شروع کیا… اور بالآخر مسلمانوں کا حکومتی زور ٹوٹتا چلا گیا… ملکوں کے مُلک اور علاقوں کے علاقے اُن کے ہاتھ سے نکلتے چلے گئے… خلافت کی آخری نشانی ترکی کی خلافت عثمانیہ ختم ہو گئی تو مسلمانوں پر… غلامی کا دور شروع ہو گیا جو آج تک جاری ہے…
ہم میں سے بہت سے مسلمان ان مُلکوں میں رہتے ہیں جہاں کافروں کی باقاعدہ حکومت ہے… یہ مسلمان بھی’’غلام‘‘ مگر ایسی نشہ آور غلامی کہ خود کو غلام نہیں سمجھتے، خوش نصیب سمجھتے ہیں… اناﷲ و انا الیہ راجعون… اور وہ مسلمان جو نام کے اسلامی ملکوں میں رہتے ہیں وہ بھی اپنے حکمرانوں کے توسّط سے کافروں کے غلام ہیں… بلکہ زیادہ سخت غلام… مگر جمہوریت کا تماشہ کہ یہ بھی خود کو ’’غلام‘‘ نہیں سمجھتے… بلکہ داڑھی، پگڑی والے دو چار افراد اسمبلی میں پہنچ جائیں تو اس کو بڑا کارنامہ سمجھا جاتا ہے… نہ قرآن نافذ، نہ اسلام نافذ… نہ حدود اﷲ قائم، نہ جہاد قائم… نہ قوانین اسلامی، نہ آئین قرآنی… پھر کیسی آزادی اور کونسی آزادی؟…
کیا آزادی اسی کا نام ہے کہ… ہمیں کسی نہ کسی طرح زندہ رہنے دیا جائے یا نماز ادا کرنے دی جائے؟… تیس سال تک مصر پر ایک شیطان فرعون کی حکومت تھی… حُسنی مبارک!… نام تو یہ بھی مسلمانوں جیسا ہے مگر اُس کے دور حکومت میں کون سا کفر ہے جو وہاں آزاد نہیں تھا… ان مُلکوںمیں فوجیں مسلمانوں کی ہیں مگروہ لڑتی ہمیشہ کافروں کے لئے ہیں… معاشی نظام بھی کافروں کی طرف سے آتا ہے اور سیاسی و عدالتی نظام بھی انہی کا مسلّط ہے … بہت عجیب لگتا ہے جب کوئی دانشور کہتا ہے کہ … مسلمانوں کی ترقی… سائنس، ٹیکنالوجی اور جدید اعلیٰ تعلیم میں ہے… کونسی ترقی اور کیسی ترقی؟… آزادی حاصل کئے بغیر نہ سائنس سے ترقی مل سکتی ہے اور نہ جدید ٹیکنالوجی سے اور نہ جدید تعلیم سے… ہم نہ سائنس کے مخالف ہیں اور نہ ٹیکنالوجی کے دشمن… ہم نہ جدید تعلیم کو حرام سمجھتے ہیں اور نہ جدید چیزوں کے استعمال کو… لیکن جب ایک قوم پوری طرح سے غلام ہو تو اُس کے سائنسدان اور اُس کے جدید تعلیم یافتہ لوگوں سے فائدہ کون اٹھائے گا؟… آپ آج کسی جگہ صرف پانچ پکّے مسلمان ، نماز کے پابند… اورجہاد کے ماننے والے سائنسدان بٹھا دیں کہ وہ مسلمانوں کے لئے کوئی اسلحہ ایجاد کریں… کیا اس کو برداشت کیا جائے گا؟… ہم میں سے تو جو بھی اعلیٰ جدید تعلیم حاصل کرتا ہے… وہ انہی دشمنوں کا نوکر، غلام، ایجنٹ اور اثر زدہ بن جاتا ہے…کیمرج اور ھارورڈ سے تعلیم حاصل کرنے والے کتنے مسلمانوں نے اسلام کی کوئی خدمت کی؟… ہم میں سے تو کوئی کمپیوٹر کا ماہر پیدا ہو جائے تو وہ اسے فوراً اپنے پاس اٹھا کر لے جاتے ہیں کہ… مسلمانوں کے کسی کام نہ آئے… ٹیکنالوجی اور جدید اعلیٰ تعلیم تو وہ جال ہیں جن میں انہوںنے مسلمانوں کی اعلیٰ صلاحیت کو بُری طرح شکار کر رکھا ہے…
اور اُس کا طریقہ یہ ہے کہ… مسلمانوں میں ایسے دانشور بٹھا دیئے ہیں جو دن رات یہی لکھ اور بول رہے ہیںکہ… مسلمانوں کی ترقی جدید اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے… اور ٹیکنالوجی سیکھنے میں ہے… اُن کے اس پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر جو مسلمان اعلیٰ تعلیم اور ٹیکنالوجی کے لئے کافروں کے پاس جاتے ہیں وہ پھرلوٹ کر واپس ہی نہیں آتے… بلکہ انہی کے بن کر رہ جاتے ہیں… اور پھر ان میں سے بعض کو حکمران بنا کر مسلمانوں پر مسلّط کر دیا جاتا ہے… اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کو آزادی عطاء فرمائے… پھر وہ اسلامی ماحول میں ایک طالب علم کو ضروری دینی تعلیم کے ساتھ… سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم دیں… پھر دیکھیں کہ مسلمان کیا کیا ایجاد کرتے ہیں… اور کہاں کہاں تک پہنچتے ہیں…اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو وہ بے پناہ صلاحیتیں عطاء فرمائی ہیں، جن کا غیر مسلم تصور بھی نہیں کر سکتے… لیکن پہلے آزادی اور پھر باقی کام… یہی قرآن پاک کی ترتیب ہے… قرآن پاک کے اٹھائیس پاروں میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ ہے… جگہ جگہ فرعون کا تذکرہ ملتا ہے… یہ واقعہ صرف اس لئے بیان نہیں ہوا کہ… لوگوں کو تاریخ اور کہانی معلوم ہو جائے کہ ایک تھا فرعون اور ایک تھے موسیٰ علیہ السلام … یہ واقعہ دراصل احکام اور مفید اسباق سکھاتا ہے… اس میں ایک اہم ترین سبق… آزادی کی قدر و قیمت کا ہے… اور دوسرا سبق آزادی حاصل کرنے کا نصاب… اور بھی بے شمار اسباق جو نظر والوں کو قیامت تک حالات کے مطابق سمجھ آتے رہیں گے… بنی اسرائیل مصر میں حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں آئے… اور پھر رفتہ رفتہ مقامی آبادی اور قوم نے اُن کو غلام بنالیا… غلامی شروع میں بُری اور کڑوی لگتی ہے… لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ چرس، ہیروئن اور افیون کی طرح مزہ دینے لگتی ہے… جی ہاں! وہی مزا جو ہلاک کرتا ہے، ذلیل کرتا ہے، تباہ کرتا ہے اور ناکام کرتا ہے… ممکن ہے بنی اسرائیل نے شروع میں مزاحمت کی ہو لیکن قرآن پاک جس جگہ سے اُن کا قصہ شروع فرماتا ہے تو اُس وقت وہ… غلامی کے اُس مرحلے میں تھے جہاں غلامی خون میں رچ بس جاتی ہے… اورغلام قوم اسے اپنی تقدیر سمجھ کر ہمیشہ کے لئے قبول کر لیتی ہے… فرعون اُن کے بچوں کو ذبح کر رہا تھا… مگر مجال ہے کہ کوئی مزاحمت اٹھتی…ہر ایک نے اپنے بچے کی گردن فرعون کی تلوار کے لئے کھول رکھی تھی… فرعون اُن کی عورتوں کو اپنے گھروں کی نوکرانیاں بنا چکا تھا… مگر مجال ہے کہ بنی اسرائیل میں سے کسی کو اس پر کوئی غصہ آتا ہو کہ… ان کی بہن، بیٹی اور ماں دوسروں کے گھروں میں ذلت اور مشقت سے دوچار ہے…جب کسی قوم کے دل سے اپنی بیٹیوں اور عورتوں کا درد… اور ان کی حفاظت کا جذبہ نکل جائے تو واقعی یہ… غلامی کی سب سے بڑی بلا کے مسلّط ہونے کی علامت ہے… جیسے آج کل کے مسلمان… اُن کے بیٹے کفر اور ارتداد کی چھری سے ذبح ہو رہے ہیں… اور اُن کی عورتیں کافروں کی عملی اور فکری باندیاں بنی ہوئی ہیں… مگر کوئی غم نہیں، کوئی درد نہیں اور تحفظ کی کوئی فکر نہیں… بلکہ اس پر خوش ہیں، اور اسے عزت اور روشن خیالی کا نام دیتے ہیں… اﷲ تعالیٰ نے جب بنی اسرائیل پر رحم فرمانے کا ارادہ کیا تو… سب سے پہلے اُن کے لئے آزادی کی ترتیب بنائی… غلامی میں رہتے ہوئے نہ تو اُن کی مکمل اصلاح ممکن تھی… اور نہ اُن کو پورا دین سمجھانا ممکن تھا… آپ غور کریں… آج کے جدید تعلیم یافتہ مسلمان کو’’جہاد‘‘ سمجھانا کتنا مشکل ہے؟… آپ اُسے لاکھ بتائیں کہ جہاد اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے… یہ قرآن پاک کی سینکڑوں آیات میں بیان ہوا ہے… مگر اُس کی غلام سوچ اندر سے آواز لگاتی ہے کہ… غیر مسلموں کے ایٹم بم، طیارے، سیارچے اور عسکری طاقت… ان کے ہوتے ہوئے جہاد، خلافت اور نفاذ اسلام ناممکن ہے ناممکن… معلوم ہوا کہ غلاموں کو اﷲ تعالیٰ کی باتیں سمجھانا بہت مشکل کام ہے… خصوصی طور پر جب غلامی دل میں اُتر چکی ہو اور نظریئے میں شامل ہو چکی ہو… بنی اسرائیل بھی یہی سمجھتے تھے کہ فرعون کا غلام رہنا اب اُن کا ایسا مقدّر ہے جو کبھی نہیں ٹل سکتا… اور فرعونی اقتدار کے خاتمے کا سوچنا… پاگلوں والی بات ہے… اتنی بڑی طاقت، اتنی بڑی قوت ختم ہو جائے یہ بالکل ناممکن ، ناممکن… ہمارے بہت سے دانشور بھی آج یہی فیصلہ سنا رہے ہیں کہ امریکہ اوریورپ کا سورج کبھی غروب نہیں ہوگا… اس لئے اب ہماری نجات اُن کی غلامی میں ہے… پھر قرآن پاک بنی اسرائیل کی فرعون سے آزادی کا قصہ بار بار سناتا ہے… اور اس میں آزادی کی ترتیب بھی سمجھا دیتا ہے … اور پھر بنی اسرائیل کے واپس اپنے وطن ’’ارض مقدّس‘‘ تک پہنچنے کا قصہ اور نصاب… آپ یقین کریں ’’مصر سے لے کر ارض مقدس تک‘‘ وہ قصہ اور نصاب ہے جو کسی بھی غلام اور کمزور ترین قوم کو… طاقتور ترین دشمن سے آزادی حاصل کرنے کی کامیاب تدبیریں سکھاتا ہے… اور الحمدﷲ یہ پورا قصہ ہمارے پاس قرآن مجید میں موجود ہے… یہ اسلام پر اﷲ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جیسا بھی غلامی کادور آجائے قرآن پاک محفوظ رہتا ہے… جب قرآن پاک محفوظ رہتا ہے تو وہ مسلمانوں کو پھر غلبے اور آزادی کے راستے پر لے آتا ہے… اسی لئے بڑے بڑے طوفان آئے… بڑے خوفناک سونامی اسلام کے خلاف اٹھے… مگر جب ان طوفانوں کی گرد ختم ہوئی تو اسلام اور مسلمان زندہ نظر آئے… اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے اور اس وعدے میں اس بات کا اعلان ہے کہ… اسلام اور مسلمان قیامت تک رہیں گے… کیونکہ قرآن پاک’’آب حیات‘‘ ہے… وہ پانی جو مُردوں کو زندہ کر دے… یہ وہ صُور ہے جو پھونکا جاتا ہے تو غلامی کی قبروں میں دفن مُردے کپڑے جھاڑتے ہوئے… اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں… بنی اسرائیل کی آزادی کا نصاب پڑھیں… اس میں آپ کو ایمان، نماز اور جہاد چمکتے ہوئے نظر آئیں گے… الحمدﷲ مسلمانوں کے جہاد نے سوویت یونین کے سونامی کو واپس ماسکو بھیج دیا… اور اب یہی جہاد یورپی افواج کو پسپائی کی طرف دھکیل رہا ہے… جہاد کشمیر پر اپنوں کی چھری نہ چلتی تو اب تک برصغیر میں بھی آزادی کا بگل بج چکا ہوتا… پھر بھی دشمن خوش نہ ہوں کشمیری تو اپنی کانگڑی کی آگ کئی کئی دنوں تک ٹھنڈی نہیں ہونے دیتے اور بالآخر راکھ کے نیچے سے کوئی جلتا انگارہ برآمد کر ہی لیتے ہیں… تو ایسی قوم خونِ شہداء کی گرمی کو کہاں ٹھنڈاہونے دے گی۔
(ماخوذ از:رنگ و نور، ج، ۷’’ آزادی کی پہلی شرط‘‘)
٭…٭…٭