جواہرِ جہاد (قسط۲۹)

جواہرِ جہاد (قسط۲۹)
از: امیر المجاہدین حضرت اقدس مولانا محمد مسعود ازہر صاحب دامت برکاتہم العالیہ
(شمارہ 605)
صاحب الجہاد ﷺ
یہ بھاری پتھر تم سے نہ اٹھایا جائے گا
اﷲ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ پھر’’خوشی‘‘ کا دن آرہا ہے… جی ہاں’’عیدالاضحیٰ‘‘ پوری شان کے ساتھ تشریف لار ہی ہے… مرحبا، صد مرحبا… میں کچھ لوگوں کو دیکھتا ہوں تو اُن پر’’ترس‘‘ آتا ہے… وہ بیچارے کتنی تکلیف میں ہیں… اور دوسرے کچھ لوگوں کو دیکھتا ہوں تو ’’رشک‘‘ آتا ہے کہ ما شاء اﷲ کتنے خوش ہیں اور کتنے کامیاب… اچھا اس بات کو یہاں روک کرماضی کی طرف چلتے ہیں… مدینہ منورہ میں کچھ لوگ تھے جن تک ’’اسلام‘‘ تو پہنچ گیا مگر وہ اسلام تک نہ پہنچ سکے یعنی دل سے مسلمان نہ ہوئے… بس اُن کو مجبوراً خود کو’’مسلمان‘‘ کہلوانا پڑا… اُن کے نام بھی اسلامی، خاندان بھی اسلامی… اوراٹھنابیٹھنا بھی مسلمانوں کے ساتھ… اور مردم شماری میںبھی ان کا شمار مسلمانوں میں… دراصل وہ’’بیچارے‘‘ پھنس گئے تھے… وہ تو اسلام کے قریب بھی نہ آتے مگر کیا کرتے کہ اسلام خود ان تک پہنچ گیا… اب ان کی ایک ہی خواہش تھی کہ کسی طرح اسلام سے جان چھوٹے تو وہ کافروں والی’’آزاد زندگی‘‘ گزاریں… جی ہاں لبرل بالکل لبرل… وہ دن رات اسی فکر میں جلتے تھے کہ معلوم نہیں کب مسلمان کمزور ہوں گے اور کب اسلام ختم ہو گا… وہ مسجد میں بھی آتے تھے… جمعہ کا خطبہ بھی سنتے تھے… بعض اوقات مجبوراً غزوات میں بھی چل پڑتے تھے… مگر اُن کی جان عذاب میں آگئی تھی… انہیں مسلمان اچھے نہیں لگتے تھے… پھر بھی انہیں مسلمانوں کے ساتھ رہنا پڑتا… انہیں کافروں سے بہت پیار تھا مگر وہ کھل کر ان کے ساتھ شامل نہیں ہو سکتے تھے… مسلمانوں کو جب کوئی فتح ملتی تو یہ لوگ ڈر کی وجہ سے سہم جاتے اور موت انہیں آنکھوں کے سامنے نظر آتی… لیکن جب مسلمانوں پر کوئی ظاہری مصیبت پڑتی تو وہ بہت خوش ہوتے… اور انہیں امید کی روشنی نظر آنے لگتی کہ عنقریب ہم ’’لبرل‘‘ اور آزاد زندگی گزار سکیں گے…
کئی بار تو انہیں اپنی منزل بہت قریب نظر آئی اور انہوں نے اچھی خاصی خوشی منا ڈالی… غزوہ بدر کے موقع پر جب نہتے مسلمان ابو جہل کے مسلح لشکر کے سامنے آئے تو اس طبقے کو خیال ہوا کہ اب جان چھوٹی… مگر مسلمان پہلے سے زیادہ طاقتور ہو کر مدینہ منورہ لوٹ آئے… غزوہ اُحد کے موقع پر اس طبقے نے خوشی کی مٹھائیاں بانٹ لیں اور مستقبل کے سہانے خواب بھی دیکھ لئے مگر مسلمان سنبھل گئے… پھر غزوہ احزاب شروع ہوا تو ان لوگوں کی جان میں جان آئی… اخبارات تو اُس زمانے میں تھے نہیں کہ وہ ’’کالم‘‘ لکھتے… ٹی وی چینل بھی نہیں تھے کہ اُس پر آکر مسلمانوں کے مکمل خاتمے کی پیشین گوئیاں کرتے… ہوٹل بھی نہیںتھے کہ وہاں سیمینار کر کے اکٹھے ناچتے… موبائل فون بھی نہیں تھے کہ وہ ابو سفیان کے لشکر کو’’خوش آمدید‘‘ کے میسج بھیجتے… مگر اُن کے پاس زبانیں تھیں جو انہوں نے خوب چلائیں اور مجلسیں تھیں جو انہوں نے خوب گرمائیں… آپس میں ملتے اور قہقہے لگاتے کہ لوبھائی روم فارس فتح کرنے کی ڈینگیں مارنے والے اب امن کے ساتھ بیت الخلاء بھی نہیں جا سکتے… ابوسفیان کا دس ہزار کا اتحادی لشکر مدینہ منورہ کے سر پربیٹھا تھا اور مسلمان ہر طرف سے شدید محاصرے میں تھے… تب یہ ’’بیچارے ‘‘ لوگ بہت خوش تھے… کبھی تو خط لکھ کر اتحادی لشکرکو بتاتے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں… اور کبھی آپس میں بیٹھ کر مجلس گرماتے کہ یار… ہمیں چاہئے کہ حضرت محمد(ﷺ) کو (نعوذ باﷲ) پکڑ کر مشرکین کے حوالے کر دیں… ہم ایک شخص کی وجہ سے اپنا شہر تو تباہ نہیں کرواسکتے… اِن کو مشرکین کے حوالے کر دیں گے تو پھر ہم امن کے ساتھ اپنی’’لبرل‘‘ زندگی گزاریں گے… انہیں سو فیصد امید تھی کہ اس بار اُن کا مسئلہ حل ہو جائے گا… مگر ہائے، بیچارے… چند دنوں کے بعد اُن کی تمام امیدیں دم توڑ گئیں اوراتحادی لشکر… شکست کی کالک اپنے منہ پر سجائے واپس چلا گیا… مگر یہ لوگ بھی اپنی ’’بدقسمتی‘‘ میں پکے تھے… انہیں امید تھی کہ چلیں آج نہیں تو کل مسلمان ختم ہو جائیں گے… جب غزوہ تبوک کا وقت آیاتو ان کی امیدیں پھر بیدار ہونے لگیں… اُن کے تجزیہ نگار دانشور کہنے لگے کہ رومیوں کا لشکر مسلمانوں کو باندھ کر لے جائے گا… مگر ہائے حسرت، ہائے ناکامی… مسلمان دومۃ الجندل کی غنیمت لے کر واپس آگئے… اور یہ طبقہ اپنی حسرتوں کو اپنے ساتھ لے کر مرکھپ گیا…
دنیا میں بھی خسارہ اور آخرت میں تو سراسر خسارہ… مسلمان آگے بڑھتے گئے اور دنیا کے حکمران بن گئے… پاکستان میں بھی طویل عرصہ سے ایک طبقہ یہ اُمید لگائے بیٹھا ہے کہ… عنقریب دیندار مسلمان ختم ہو جائیںگے… عنقریب دینی مدارس پر تالے ڈال دیئے جائیںگے… عنقریب اس ملک میں جہاد کا نام لینا بھی ممنوع قرار پائے گا… اور عنقریب مجاہدین کی نسل تک ختم ہو جائے گی… اُن کی تمنا ہے کہ اس ملک میں اذان کی آواز نہ گونجے… کوئی مولوی عالم نظر نہ آئے… کوئی مجاہدیہاں تکبیر بلند نہ کرے… وہ چاہتے ہیں کہ اس ملک میں شراب آزاد ہو… ہر شہر میں بڑے بڑے نائٹ کلب ہوں… مردوں اور عورتوں کو راستوں پرگدھوں کی طرح آپس میں’’روشن خیالی‘‘ کرنے کی آزادی ہو… اور یہ ملک یورپ اور بھارت کی تصویر بن جائے… پاکستان کا یہ طبقہ کافی طاقتور ہے مگر پھر بھی’’بے چارہ‘‘ ہے… ایوب خان کے زمانے میں ان کو امید تھی کہ پاکستان مکمل’’لبرل ملک‘‘ بن جائے گا… اور ایوب خان تمام مولویوں کو سمندر میں پھینک دے گا… مگر ہائے حسرت کہ کام نہ بنا… ایوب خان نے اپنے کانوں سے’’ایوب کتا ہائے ہائے‘‘ کے نعرے سنے… اور پھر ایک مولوی نے اس کی نماز جنازہ بھی پڑھا دی… ضیاء الحق کے زمانے میں یہ طبقہ کچھ مایوس رہا… مگر پرویز مشرف کے دور میں اس کی امیدیں آسمانوں تک جا پہنچیں… پرویز مشرف بھی چلا گیا… اب ان کی امیدیں موجودہ حکومت اور امریکہ سے وابستہ ہیں… افغانستان پر امریکہ نے حملہ کیا تو یہ لوگ خوشی سے مرے جارہے تھے… اُن دنوں اخبارات میں ان کے کالم قابو سے باہر نکل رہے تھے… اُن کا خیال تھا کہ امریکہ افغانستان اور پاکستان کے تمام داڑھی، پگڑی والوں کو مار دے گا… مگر ہائے حسرت، ہائے ناکامی… آج امریکہ مذاکرات کے لئے داڑھی، پگڑی والوں کو ڈھونڈ رہا ہے…
مجھے ترس آتا ہے اُن صحافی مردوں اور عورتوں پر جنہوں نے یہ امید لگا رکھی ہے کہ… جہادبند ہو جائے گا، مساجد ویران ہو جائیں گی… اذان پرمیوزک کی آواز غالب آجائے گی…ارے بدنصیبو! اگر تمہیں ہزار سال کی زندگی مل جائے، قارون کے خزانے مل جائیں اور فرعون کی طاقت مل جائے… تب بھی تمہارے یہ خواب پورے ہونے والے نہیں ہیں…
تم لوگ تو خواہ مخواہ کی آگ میں جل رہے ہو… اگر تمہیں اسلام، قرآن اور جہاد سے اتنی ہی نفرت ہے تو پھر کافروں کے ملکوں میں جابسو… وہاں خنزیر کا گوشت بھی ملتا ہے اور شراب بھی… اور سڑکوں پر ’’روشن خیالی‘‘ کی بھی اجازت ہے… ہاں اتنی پریشانی ضرور ہے کہ تمہیں وہاں بھی کسی نہ کسی جگہ اذان کی آواز سننے کو ملے گی… تب اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لینا… اورتمہیں داڑھی ،پگڑی والے بھی ملیں گے تب اپنا راستہ بدل لینا… ارے کم عقل لوگو! آخرت کا تو تم نے سوچا نہیں مگر جہاد کے خلاف کام کر کے اپنی دنیا کیوں برباد کر رہے ہو؟… یہ بھاری پتھر تم سے نہیں اٹھایا جائے گا… تم عبداﷲ بن ابی اور ابن سبا سے زیادہ سازشی اور میر جعفر اور میر صادق سے زیادہ عیار نہیں ہو… تم نے تو ایک ایسے گناہ کو اپنا مشن بنا لیا ہے جو گناہ تمہارے بس میں ہی نہیں ہے… تم سمجھتے ہو کہ انگریزی اخبارات میں مجاہدین کے خلاف’’جاسوسی کالم‘‘ لکھو گے تو تمہارے کہنے پر امریکہ والے اُن مجاہدین کو ختم کر دیں گے… عجیب بے وقوفی ہے اور عجیب بد نصیبی… پاکستان میں کئی’’تھنک ٹینکس‘‘ بن گئے… یہ سارا دن کافروں کو بتاتے رہتے ہیں کہ پاکستان میں فلاں مجاہد ہے… فلاں مدرسہ خطرناک ہے اور فوج میں فلاں آفیسر دیندار ہے… پاکستان کے کئی صحافی مرد اور عورتیں باقاعدہ سی آئی اے، موساد اور را کے لئے کام کرتے ہیں… ان سب کو یہ امید ہے کہ بس اب چند دن میں مجاہدین ختم ہوجائیں گے… یہ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ پچھلے نو سال میں مدارس کی تعداد بھی بڑھ گئی ہے… اور جہاد بھی زیادہ مضبوط ہو گیا ہے… اسلام اور جہاد تو ہمیشہ مشکل حالات میں پھلتے پھولتے ہیں… لال مسجد پرآپریشن ہوا تو ان لوگوں نے خوشی میں اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے… مگر نتیجہ کیا نکلا؟ لال مسجد آج بھی آباد ہے… ایک جامعہ حفصہؓ کی جگہ کئی جامعہ حفصہ ز بن چکے ہیں… اور مسلمانوں کو ایک اور شہید کا مزار مل گیا ہے… سوات آپریشن شروع ہوا تو ان لوگوں کی امیدیں آسمان تک جا پہنچیں کہ اب پورے ملک سے اسلام کا خاتمہ ہوجائے گا… پاک انڈیا مذاکرات شروع ہوتے ہیں تو یہ لوگ خوشی سے چھلانگیں لگانے نکل پڑتے ہیں… مگر پھر آخر میں سوائے حسرت کے کچھ ہاتھ نہیں آتا… آج کل پھر یہ طبقہ خوشی اور امید میںمست ہے… ان کے دانشور کھوجی کتوں کی طرح دُم اٹھا کر حکومت کو ہر تنظیم، ہر مدرسے اور ہرمرکز پر حملے کے لئے بلار ہے ہیں… ان کے صحافی مرد اورعورتیں اپنے گناہوں کی ناپاکی کو سیاہی بنا کر کالم لکھ رہے ہیں… اور ان کے بااثر لوگ امریکہ اور حکومت کو اپنا آپریشن پھیلانے کے مشورے دے رہے ہیں… ارے بے چارو! امریکہ بھی تمہاری طرح’’بے چارہ‘‘ ہے وہ تمہارا نوکر تو نہیں کہ تمہارے کہنے پر اپنا مزید نقصان کرے… وہ تو اب طالبان سے مذاکرات کے لئے بے چین ہے… اور حکومت تو تمہارے مشورے مان مان کر تھک چکی ہے… اُسے بھی اب تمہارے مشوروں سے موت کی بو آنا شروع ہو گئی ہے … وہ دیکھو! عیدالاضحیٰ پوری شان کے ساتھ آرہی ہے… یہ کرسمس نہیں ’’عیدالاضحیٰ‘‘ ہے قربانی والی عید… ہاں قربانی والی… وہ دیکھو لاکھوں مسلمان احرام باندھنے کی تیاری کر رہے ہیں… وہ تمہارے’’گورو‘‘ شیطان کو پتھر ماریں گے… وہ دیکھو فلسطین کے بیٹوں اور بیٹیوں نے عید پر قربانی دینے کے لئے اپنے ماتھوں پر کلمہ طیبہ کی پٹی باندھ کر… راکٹ اٹھا لئے ہیں… وہ دیکھو! افغانستان میں فدائیوں کی یلغار ہے…وہ دیکھو! کشمیر پھر انگڑائی لے رہا ہے اور بی ایس ایف کے ڈی آئی جی کی چتاجل رہی ہے…عیدالاضحی آرہی ہے… ماشاء اﷲ پوری شان کے ساتھ آرہی ہے… مجھے اُن بد نصیب لوگوں پر ترس آرہا ہے جو حسرت اور ناکامی کی آگ میں جل رہے ہیں… اﷲ تعالیٰ اُن کو اور ناکامیاں دکھائے… اور مجھے اُن لوگوں پر رشک آرہا ہے جو اپنی جانوں کو تکلیف میں ڈال کر… اسلام کی خدمت کر رہے ہیں… مسلمانوں کی خدمت کر رہے ہیں… جو اسلام کے ایک ایک حکم کی پہرے داری کر رہے ہیں… جو شرعی جہاد کی شمع اپنے خون سے جلا رہے ہیں… جو ہردن اجر وثواب کماتے ہیں… اور ہررات نیکیاں سمیٹتے ہیں… اﷲ تعالیٰ اُن پر رحمت فرما رہا ہے… اُن کا کام بڑھتا جار ہا ہے… اور اُن کی کامیابیوں میں بھی دن رات اضافہ ہو رہا ہے… یہ وہ لوگ ہیں جو’’ایثار‘‘ کرتے ہیں… خود کم کھاتے ہیں اپنا حصہ دوسروں کو کھلاتے ہیں… جو مال کا ایثار بھی کرتے ہیں اور جان کا بھی… یا اﷲ ہمیں بھی قبولیت کے ساتھ ان لوگوںمیںشامل فرما…
(رنگ و نور/ ج،۵/ ’’بے چارے‘‘)
٭…٭…٭