جواہرِ جہاد (قسط۲۳)
از: امیر المجاہدین حضرت اقدس مولانا محمد مسعود ازہر صاحب دامت برکاتہم العالیہ
(شمارہ 598)
’’مسلمان‘‘ جاگ رہا ہے
الحمد للہ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے… صیہونیت کا جال ٹوٹ رہا ہے… انگریزی استعمار کے بُرے اثرات ختم ہو رہے ہیں…اور’’مسلمان‘‘ جاگ رہا ہے… یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے… جو ’’جہاد‘‘ کی محنت اور شہداء کے خون کی برکت سے نازل ہو رہا ہے… الجزائر میں بھی تحریک پُھوٹ پڑی ہے اوریمن بھی ’’ اللہ اکبر‘‘ کے نعروں سے گونج رہا ہے… الحمد للہ ایسے حالات آرہے ہیں کہ ’’ یہودی‘‘ چلاّ اٹھے ہیں، اسرائیل لرز رہا ہے اور کافروں کے تھنک ٹینک اپنا سر کُھجا رہے ہیں… آپ یقین کریں یہ سب کچھ ’’ جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کی برکت سے ظاہر ہو رہا ہے… جی ہاں مختصر سے جہاد کے نتائج اپنا رنگ دکھا رہے ہیں… تھوڑا سا پیچھے مڑ کر دیکھیں… یوں لگتا تھا کہ ساری دنیا کافروں نے آپس میں بانٹ لی ہے اور اب مسلمانوں کے مقدّر میں… موت ہے یا غلامی… ایک طرف سوویت یونین تھا، جس کا فوجی اور نظریاتی سیلاب مسلمانوں کو بہالے جا رہا تھا… کیا بخارا اور کیا سمر قند… کیا قفقاز اور کیا داغستان… کیا ترکمانستان اور کیا تاجکستان… ہر طرف سوویت یونین کے جھنڈے لہرا رہے تھے… کیمونزم کی درانتی نے سروں کی فصلیں کاٹیں اور کیمونسٹوں کے ہتھوڑ ے نے مسلمانوں کو پیس ڈالا… لاکھوں، کروڑوں مسلمانوں کو شہید کیا گیا… اور کروڑوں کو بددین بنا دیا گیا… آہ، حدیث و تفسیر کے اماموں کی اولاد بددینی اور کفر کا شکار بن گئی… کیمونزم آدھی دنیا پر چھا گیا… اور باقی آدھی دنیا صیہونیت اور سرمایہ داری کے استعمار میںلپیٹ لی گئی… اُس وقت میرے آقا مدنی ﷺ کی اُمت پر عجیب حالات تھے…
یوں لگ رہا تھا کہ بس اس ’’اُمت‘‘ کے دن پورے ہو چلے… اور تو اور دینی رہنما بھی غلامی پر صابر، شاکر ہو بیٹھے… مسلمانوں کے اپنے بچے کیمونسٹ بن گئے اور وہ سرخ جھنڈے لیکر اپنے ملکوں میں سوویت یونین کے استقبال کی تیاریاں کر رہے تھے… اُس وقت جہاد ہو تو رہا ہو گا مگر اُس کا کہیں تذکرہ نہیں تھا… یقینا کچھ گمنام مجاہدین، حضرت امام شامل کی طرح اسلام کی شمع کے گرد پروانوں کی طرح شہید ہو رہے ہوں گے… میرے آقا مدنیﷺ کا ’’وعدہ‘‘ ہے کہ جہاد کبھی بند نہیں ہو گا… جی ہاں دجّال کے خاتمے تک یہ عظیم عمل جاری رہے گا… کتنے خوش نصیب ہیں وہ مسلمان جو آقا مدنیﷺکے وعدے کی ’’تصدیق‘‘ بنتے ہیں… یا اللہ ہمیں اُن ہی میں زندہ رکھنا اور اُنہیں میں مارنا… مگر اُس وقت جہاد کی عمومی فضاء نہیں تھی… گلیوں میں الجہاد، الجہاد کے نعرے نہیں تھے… دنیا کے اکثر ممالک مسلمانوں کی گردن پر پائوں رکھ کر مطمئن بیٹھے تھے… اور اُنہیں کسی طرح کی ’’مزاحمت‘‘ کا کوئی خطرہ نہیں تھا… اہلِ دل مسلمان… امت مسلمہ کے ایمان کو بچانے کے لئے پُرامن دعوتی کوششوں میں لگے ہوئے تھے… اور کفر کا سیلاب مشرق و مغرب میں تیزی سے مسلمانوں کو روندتا جا رہا تھا… تب مدینہ منورہ سے کچھ آنسو عرش کی طرف اٹھے… قرآن پاک نے روشنی کی ایک شعاع مشرق کی طرف برسائی… کعبۃ اللہ اور حجر اسود سے ہدایت کے شرارے دریائے آمو کی طرف بڑھے… تب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کر دیا تو… اللہ پاک نے اُمت مسلمہ کو ’’ جہاد فی سبیل اللہ‘‘ عطاء فرمادیا… اللہ اکبر کبیرا… یہ عجیب جہاد تھا… چودہ سو سال بعد مسلمانوں نے غزوہ بدر کا ایک اور رنگ دیکھا… جگہ جگہ ’’شہداء احد‘‘ کی یاد یں تازہ ہوئیں… اُس زمانے جب پاکستان کا آسان بارڈر عبور کر کے افغانستان میں داخل ہوتے تھے تو ایک عجیب سی خوشبو محسوس ہوتی تھی… جس سے بھی پوچھا اس نے تصدیق کی کہ واقعی یہ خوشبو آتی ہے… میران شاہ کی طرف سے افغانستان میں داخل ہوتے ہی ژاور کے علاقے میں… ایک اجتماعی قبر تھی… یہ پچاس عربی مجاہدین تھے جو سوویت بمباری سے اکٹھے ہی شہید ہوئے تھے… کوئی مصر کا تھا تو کوئی تیونس کا… کوئی الجزائر کا تھا تو کوئی یمن کا… کوئی شام کا تھا تو کوئی سعودیہ کا… کوئی مراکش کا تھا تو کوئی لبنان و فلسطین کا… ان کی قبروں سے کئی لوگوں نے راتوں کو تلاوت کی آواز سنی… ویسے جو بھی وہاں سے گزرتا عجیب سکون پاتا… اُس سے تھوڑا پہلے ایک پہاڑی کے اوپر بنگلہ دیش کے ایک مجاہد’’ مفتی ابوعبیدہ‘‘کی قبر تھی… وہاں سے تہجد کے وقت تلاوت کی آواز کئی لوگوں نے بار بار سُنی… بے شک اللہ تعالیٰ شہداء کے عمل کو ضائع نہیں فرماتا… یہ جہاد افغانستان کا پہلا مرحلہ تھا… ابتداء میں کیمونسٹ غالب نظر آ رہے تھے۔ بستیوں کی بستیاں بمباری سے ملیا میٹ کر دی گئیں۔ غزنی کے کئی دیہات ایسے تھے جہاں کے سب مکین شہید کر کے اجتماعی قبروں میں چُھپا دیئے گئے… مسلمان تیزی سے مر رہے تھے… مگر اسلام زندہ ہو رہا تھا… افغانستان کے اس مبارک جہاد میں اللہ تعالیٰ نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو شرکت کی سعادت بخشی… شہداء کا خون بڑھتا گیا تو مجاہدین کی تعداد اور قوت میں اضافہ ہوتا گیا… جہاد بھی عجیب عمل ہے اس میں جتنا زیادہ نقصان ہو یہ اتنا طاقتور ہوتا چلا جاتا ہے… اُس زمانے کے پُرنور مجاہدین یاد آتے ہیں تو دل عقیدت سے بھر جاتا ہے… میران شاہ کے تبلیغی مرکز کے قریب ایک بڑے مجاہد کی قبر ہے… مولانا فتح اللہ حقانی شہید… ان کی شہادت کے بعد ’’ حقانی‘‘ مجاہدین کا سلسلہ ایسا مضبوط ہوا کہ افغانستان کے پانچ صوبوں سے اس نے کیمونزم کے ہر دھبّے کو دھو ڈالا… کم عقل لوگ پوچھتے ہیں کہ جہاد کا کیا نتیجہ نکلا؟… سبحان اللہ جہاد کے نتائج تو سورج کی روشنی سے بھی زیادہ چمک رہے ہیں… جو ربّ کریم آنسو کے قطرے کو رائگاں نہیں فرماتاوہ اپنی خاطر بہنے والے خون کو بھی ضائع نہیں فرماتا… یہ جہادکی برکت تھی کہ سوویت یونین ختم ہو گیا اور اُس کا خونی انقلاب اپنی موت آپ مر گیا… اب تو آپ کسی عالم سے ’’ کیمونزم‘‘ کے خلاف بیان نہیں سنتے… کیونکہ اس کی ضرورت ہی نہیں رہی… ورنہ بیس ، تیس سال پہلے تو امت کا درد رکھنے والے اکابر اور علماء اس فتنے سے اتنے پریشان تھے کہ دن رات اس کے خلاف لکھتے اور بولتے تھے… صوبہ سرحد کے شہر پشاور میں ایک بزرگ تھے وہ اپنی خانقاہ میں بھی کیمونزم کے خلاف بیان فرماتے تھے… کیونکہ اُس وقت یہ فتنہ مسلمانوں کے ایمان کو کھا رہا تھا… یہ جہاد کی برکت تھی کہ بخارا کی مساجد دوبارہ کُھل گئیں، یہ جہاد کی برکت تھی کہ سمرقند میں اذانیں گونجنے لگیں… یہ جہاد کی برکت تھی کہ کشمیری مسلمان انگڑائی لیکر کھڑے ہوئے اور بھارت ماتا کے پجاریوں کو دن کے تارے دکھا دیئے…
افسوس کہ مسلمانوں نے ابھی تک بھارت کے خطرے کو نہیں سمجھا… یقین کریں اسلام اور مسلمانوں کے لئے بھارت کا خطرہ کسی بھی طرح اسرائیل، امریکہ اور نیٹو کے خطرے سے کم نہیں ہے… مگر ہندو ’’ میٹھا زہر‘‘ ہے… ’’ میٹھا زہر‘‘ کڑوے زہر سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے… مگر اُس کی مٹھاس کی وجہ سے لوگ اُسے زہر نہیں سمجھتے… بھارت کئی جنگوں میں پاکستانی حکمرانوں کو شکست دیکر اب اکھنڈ بھارت کے خواب دیکھ رہا تھا کہ جہاد کشمیر نے اُس کے پائوں کے نیچے زمین کو ہِلا دیا… جہاد تو مسلمانوں میں غیرت، زندگی اور حرارت پید اکرتا ہے… طالبان کے زمانے میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا، اور طالبان نے ہتھیار ڈالنے کی بجائے ’’اعلان جہاد‘‘ کر دیا تو پوری دنیا کے مسلمان غیرت سے سرشار ہو گئے… اُن دنوں پاکستان میں انتخابات ہوئے تو لوگوں نے ہر ڈاڑھی پگڑی والے کو بے حساب ووٹ ڈالے۔اگلے الیکشن میں وہ ماحول نہ رہا تو نتائج بھی بدل گئے۔ پچھلے چند سالوں میں جہاد کی برکت سے لاکھوں افراد مسلمان ہوئے ہیں… پاکستان میں مدارس کا جال بھی جہاد کی شمع روشن ہونے کے بعدوسیع ہوا…باقی کام توپہلے بھی ہورہے تھے مگر پھربھی مدارس کم تھے… کراچی کے نامورمدارس میں دورۂ حدیث کے طلبہ کی تعداد پچاس سے اوپرنہیں جاتی تھی… مگرجب جہادنے دینی غیرت کوجگایاتواب ہرطرف مدارس ہی مدارس نظرآرہے ہیں …اورکئی مدارس میں صرف دورۂ حدیث کے طلبہ کی تعدادپانچ سو سے اوپرہے… جہاد نے الحمدللہ دین کے ہرشعبے کو قوت دی…جہادنے عالم اورمولوی کوشان دی…جہاد نے ’’طالبعلم ‘‘کے اندرخودداری اوراعتماد پیداکیا…جہاد نے مساجداورمدارس کوجُھولی چندے سے اٹھا کرفائیواسٹار عمارتوں سے بھی اونچا کردیا…جہاد کاہردن کفرکے لئے خسارے کااورمسلمانوں کے لئے فائدے اورترقی کاپیغام لاتاہے…جہادجیسے جیسے طویل ہوتا جا رہا ہے اُس کے اثرات پھیلتے جارہے ہیں…مصرکے تازہ فرعون کوغرق ہونے میں کتنے دن لگے؟…جی ہاں صرف ’’اٹھارہ دن‘‘…بی بی سی والوں نے اعتراف کیاہے کہ مصرکانظام ٹوٹناسوویت یونین کے ٹوٹنے کی طرح ہے… جس طرح سوویت یونین کی طاقت ناقابل شکست سمجھی جاتی تھی اسی طرح مصرکے نظام کوبھی دُوردورتک کوئی خطرہ نہیں تھا…لوگ پوچھیں گے کہ مصرمیں کون سامسلّح جہاد ہوا؟…کچھ لوگ اسے پرامن احتجاج کانتیجہ قراردیں گے…ان سے پوچھاجائے کہ مسلمانوں کے خون میں غیرت اورحرارت کس عمل نے پیدا کی؟…اپنے مقصد کے لئے کٹ مرنے کی سوچ کس محنت سے بیدار ہوئی؟…پُرامن احتجاج توبہت عرصے سے ہورہاتھا…یہ سب کچھ جہادی محنت، اورجہادی دعوت کانتیجہ ہے…ہم توبہت پہلے سے کہتے ہیں کہ مسلمانوں پرمسلّط منافقین کے خلاف مسلّح جہاد نہ کیاجائے بلکہ شرعی جہاد کوقوت دے کران پرزمین تنگ کردی جائے…جب کچھ مسلمان کفارکے خلاف لڑتے ہیں اوراپناخون دیتے ہیں توپوری قوم میں دینی غیرت اورزندگی پیدا ہوتی ہے…مبارک ہوافغانستان کے گم نام شہداء کو…سلام ہوفلسطین اورکشمیرکے شہداء کو…آفرین ہوچیچنیا،عراق اورقفقاز کے شہداء پر…مبارک ہوجہادی محنت میں کسی بھی طرح حصہ ڈالنے والے ہرمسلمان مرداورعورت کو…ماشاء اللہ جس نے بھی جہاد میں جوحصہ ڈالاوہ کام آگیا…لڑنے والے بھی مبارک،زخم کھانے والے اوراعضاء کٹوانے والے بھی مبارک…جیلیں ،قیدیں اورعقوبت خانے سہنے والے بھی مبارک…جہادی دعوت کے لئے زبان ،قلم اورمال لگانے والے بھی مبارک…ہاں بیشک جہاد نے مسلمانوں کومالامال کردیا…کوئی شہادت اورجنت پاگیا…اورکوئی جنت کے انتظار میں ہے…دنیاجس ظالمانہ شکنجے میں کسی ہوئی تھی وہ شکنجہ ٹوٹ رہاہے…ابھی فی الحال کسی جگہ اسلامی حکومت توقائم نہیں ہوگی مگرکفرکانظام بھی آزادی سے نہیں چل سکے گا…ابھی بڑے بڑے ملک ٹوٹیں گے…ابھی کفارگھبراہٹ میں مبتلاہوکرآپس میں لڑیں گے…ابھی توکئی مُلک چھوٹے مُلکوں کی شکل میں تقسیم ہوں گے…ابھی توافغانستان، کشمیر،عراق اورفلسطین کے علاوہ اورکئی جگہ جہادی محاذ کُھلیں گے…ابھی تو بعض اوقات کمزورمسلمانوں کوپھراندھیرانظرآئے گا…کیوںکہ بادلوں کازورٹوٹ بھی جائے توپھربھی اُن کاکوئی ٹکڑاسورج کے سامنے آکرروشنی کومدہم کردیتاہے…مگریادرکھنااسلام غالب ہونے کے لئے آیاہے…اوراسلام اپنے حتمی غلبے کی طرف بڑھ رہاہے…جہادسے دوستی کرنے والوتمہیں بہت مبارک ہو…بس اسی جہاد پرجمے رہنا…اللہ تعالیٰ سے جان ومال کاسوداکرنے والو…اس مبارک بازارسے بھاگ نہ جانا … تمہارا جہاد تو رب تعالیٰ کی رضاء …اورجنت خریدنے کے لئے ہے…مگراب تودنیامیں بھی اس کے نتائج تیزی سے ظاہرہورہے ہیں…
(رنگ و نور/ ج، ۶/ ترا جانا مبارک ہو