جواہرِ جہاد (قسط۲۲)

جواہرِ جہاد (قسط۲۲)
از: امیر المجاہدین حضرت اقدس مولانا محمد مسعود ازہر صاحب دامت برکاتہم العالیہ
(شمارہ 597)
مظلوموں کی اقوام متحدہ
یہودیو! اللہ تعالیٰ تمہیں غارت کرے تم تو بہت کمینے، رذیل اور بدبخت ہو… جہنم کے کیڑے، زمین کا کینسر، حرام خور اور حرام کار یہودیو! تمہیں تو بہادروں کی طرح جنگ کرنے کا طریقہ بھی نہیں آتا… ہائے کاش، ہائے کاش فلسطین تک کا راستہ کھلا ہوتا… اقوام متحدہ سے کوئی شکوہ نہیں، اُسے مسلمانوں کے خون سے کیا غرض… عالمی برادری سے کوئی شکوہ نہیں وہ تو خود خونِ مسلم کی پیاسی ہے… مسلمان حکمرانوں سے کوئی شکوہ نہیں اُن بے چاروں کو امریکہ اور یورپ کی پوجا سے فرصت ہی کہاں کہ اپنے دین، اپنے ایمان اور مسلمانوں کی فکر کرسکیں… کسی سے کوئی شکوہ نہیں… مسلمان تو مسلمانوں کو پکڑ کر انعام لے رہے ہیں، پلاٹ خرید رہے ہیں، حرام جائیدادیں بنا رہے ہیں… اور کافروں کو خوش کر رہے ہیں… ہاں فلسطین کے بھائیو! ہاں فلسطین کی بہنو!… کسی سے کوئی شکوہ نہیں… تم بھی مظلوم ہو اور ہم بھی مظلوم… ایسا کرتے ہیں کہ ہم تمہارے لئے گڑگڑا کر دعائیں مانگیں اور تم ہمارے لئے دعا مانگو… ہم نیت رکھیں اور کوشش کریں کہ تمہاری مدد کو پہنچیں گے اور تم بھی یہی نیت اپنے دلوں میں بسالو… آئو ہم سب مل کر مظلوموں کی اپنی ایک ’’اقوام متحدہ‘‘ بنالیں… آئو ہم تم مل کر مظلوموں کی ایک اپنی عالمی برادری جمالیں… ظالموں کے پاس پیسہ اور تیل ہے تو… الحمدللہ ہمارے پاس ایمان ہے اور خون ہے… ظالموں کے پاس اسلحہ ہے تو ہمارے پاس اپنے رب کا عظیم نام ہے… اور انشاء اللہ آخری فتح تو ہماری ہی ہونی ہے… خون دینے میں کوئی حرج نہیں یہ خون رب نے پیدا فرمایا ہے اُس کی راہ میں بہہ جائے تو پاک ہے ورنہ ناپاک رہتا ہے… جانیں کھونے میں کوئی حرج نہیں اس لئے کہ عرش بہت بڑا ہے اور جنت بہت وسیع ہے… اور شہداء تو فرشتوں کے ساتھ اُڑتے پھرتے رہتے ہیں…
انڈیا کے مشرک، اسرائیل کے یہودیوں سے اتحاد کر چکے ہیں… آئو مظلومو! ہم بھی اتحاد بنالیں… دعائوں والا اتحاد، محبتوں والا اتحاد… اور ہجرت و نصرت والا اتحاد… فلسطین کے شہیدو! ہمارا سلام قبول کرو… فلسطین کے غازیو! ہماری دعائیں تمہاری طرف روانہ ہیں… اور ان دعائوں کے پیچھے الحمدللہ عمل کا جذبہ بھی زندہ ہے… رنگ و نور پڑھنے والے بھائیو! اور بہنو!… آئو جہادِ فلسطین کی بھی نیت کرلیں… اگر نیت سچی ہوئی تو انشاء اللہ یہودیوں پر زلزلہ آجائے گا… نیت کرنے کے بعد وہاں کے مجاہدین اور مظلوموں کے لئے دعا کرو… اور اللہ پاک سے مانگو کہ وہ راستے کھول دے… جس طرح ظالم ایک دوسرے کی مدد کو فوراً پہنچ جاتے ہیں… ہمارا مالک ایسی نصرت فرمائے کہ ہم مسلمان بھی ایک دوسرے کی نصرت کو پہنچ سکیں… اور اس کے لئے ہماری ایک نسل کو قربانی دینا ہوگی… جی ہاں موجودہ ظالمانہ عالمی نظام کو توڑنے کے لئے قربانی… اے مسلمانو! اس نظام میں ہمارے لئے کوئی جگہ نہیں ہے… اس نظا م میں خود کو فٹ کرنے کی سوچ ختم کرو… اور ایک ہی سوچ بنالو کہ اس نظام کو توڑنا ہے… پاش پاش کرنا ہے… وہ دیکھو! ہماری نسل کے شہداء کے ہر اول دستے نے اس نظام کی جڑوں کو کھود ڈالا ہے… آگے بڑھو… اسی دستے کے بعد والوں میں نام لکھوا لو… بس ایک نسل کی قربانی… اور پھر انشاء اللہ دین اسلام کی بہاریں اور قرآن پاک کی بہاریں… اللہ اکبر کبیرا…
(رنگ و نور/ ج،۴/ مظلوموں کا اتحاد)
کیا دین اسلام جہاد کے بغیر مکمل ہے؟…
اللہ تعالیٰ جس سے خیر کا ارادہ فرماتے ہیں، اُسے دین کی سمجھ عطا فرماتے ہیں… کیا ’’دین اسلام‘‘ جہاد کے بغیر مکمل ہے؟… نہیں، ہرگز نہیں… جو دین قرآن پاک ہمیں سکھاتا ہے اس میں جہاد و قتال کا واضح حکم موجود ہے… جو دین رسولِ پاک ﷺ نے اُمت تک پہنچایا اس میں جہاد کا حکم اہمیت کے ساتھ موجود ہے… جس دین پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے عمل کرکے کامیابی حاصل کی اس میں جہاد کا حکم نماز، روزے اور حج زکوٰۃ ، کی طرح ہے… پھر یہ کون لوگ ہیں جو خود کو مسلمان کہتے ہیں اور جہاد کے خلاف بولتے اور لکھتے ہیں؟… بمبئی میں ایک چھوٹا سا واقعہ ہوگیا اور ہر طرف سے جہاد کے خلاف ’’بکواسات‘‘ شروع ہو گئیں… جی ہاں میں بالکل صاف الفاظ میں کہہ رہا ہوں کہ بمبئی کا واقعہ بہت معمولی نوعیت کا ہے… کیا اس کاروائی کا جہاد سے تعلق ہے؟… مگر پاکستان کے حکمران اور صحافی انڈیا کے خوف سے تھر تھر کانپنے لگے… ارے کیسے مسلمان ہو جو مشرکین سے ڈرتے ہو؟… اپنے ناموں کے ساتھ ’’محمد‘‘ ’’علی‘‘ ’’سید‘‘ شاہ اور گیلانی جیسے اونچے القاب بھی لکھتے ہو اور گائے کا پیشاپ پینے والوں سے ڈرتے ہو؟… بے فکر رہو انڈیا پاکستان پر حملہ نہیں کرے گا… وہ تو بغیر لڑے پاکستان کو فتح کرتا جا رہا ہے… پاکستان میں انڈین لابی بہت طاقتور ہو چکی ہے… انڈیا نے یہاں کے حکمرانوں کی مدد سے کشمیر کے بارڈر پر باڑ لگائی… پاکستان کے پانیوں پر قبضہ کیا… اور تجارت اور فنکاری کی آڑ میں اس ملک پر اپنے پنجے گاڑ دئیے… پرویز مشرف کا آٹھ سالہ دور پاکستان پر انڈیا کے قبضے کا دور تھا… اور اب بھی وہ سلسلہ جاری ہے… وہاں کا وزیر خارجہ ہمارے صدر کو دھمکی دیتا ہے تو اگلے دن صدر صاحب کے خفیہ ایلچی من موہن سنگھ کے پائوں پکڑنے پہنچ جاتے ہیں ؎
حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھرسے
ٹھیک ہے میں مانتا ہوں کہ غلط دہشت گردی ’’اسلام‘‘ نہیں ہے… مگر یہ تو بتائو کہ بے غیرتی اور بے عزتی کی اجازت کونسا’’اسلام‘‘ دیتا ہے… ؟
اس وقت بھی پاکستانی حکمرانوں کے کم ازکم دو خفیہ وفد ’’انڈیا‘‘ پہنچ کر اُن کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش میں ہیں… اور خفیہ طور پر انڈیا کو طرح طرح کی یقین دہانیاں الگ کرائی جارہی ہیں… آخر یہ سب کیا ہے؟… ملک کی اتنی بڑی فوج کس کام کے لئے ہے؟… اسلحے کے اتنے ذخیرے کس لئے جمع کئے گئے ہیں؟… ملک کا ساٹھ فی صد بجٹ دفاع پر کس لئے خرچ ہو رہا ہے؟… جب ہمارے حکمرانوں نے ہر کسی کے نیچے لگ کر رہنا ہے… غیروں کے دبائو پر اپنوں کی گردنیں دبانی ہیںتو پھر ’’دفاع ‘‘پر اتنی رقم خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟… کوئی ہے جو مسلمانوں کا سوچے؟… کوئی ہے جو دین ِاسلام کے بارے میں سوچے؟… عراق میں بمبئی جیسے واقعات ہر دن میں دس بار ہوتے ہیں… اور اب تک دس لاکھ افراد مارے جا چکے ہیں… افغانستان کے طالبان کا اس کے سوا کیا قصور تھا کہ وہ اصلی اور سچے مسلمان تھے… آخر طالبان نے دنیا کا کیا بگاڑہ تھا کہ نائن الیون سے پہلے بھی کوئی ملک اُن کی جائز حکومت کو تسلیم نہیں کر رہا تھا؟… امریکہ کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ دن رات ہمارے قبائلی علاقوں پر بمباری کر رہا ہے… انڈیا کو اس کی اجازت کس نے دی کہ وہ افغانستان کے ہر بڑے شہر میں قونصل خانے، جاسوسی کے اڈے اور مسلمانوں کے خلاف کیمپ قائم کر رہا ہے… دنیا تو اس وقت مسلمانوں کے خون سے بھری پڑی ہے… کشمیر میں سیاسی احتجاج کا جواب بھی گولی سے دیا جاتا ہے… اور فلسطین کے مسلمانوںکو زندہ رہنے کا حق تک حاصل نہیں… ہر طرف ظلم، بربریت اور دہشت ہے… ظالموں نے پاکستان کو کھوکھلا کر دیا… اور اب بمبئی کے واقعہ کی آڑ میں اسے مزید کھوکھلا کرنے کی کوشش جاری ہے… پاکستان کی عوام اور فوج ایک دوسرے کو مار رہی ہے… آخر کیوں؟… یہ سب کچھ غیر ملکی کافروں کے دبائو کو قبول کرنے کا نتیجہ ہے… انہوں نے آکر دبائو ڈالا اور ہم نے فوراً اپنے کسی فرد پر ظلم شروع کر دیا… اور پھر اس ظلم کا بدلہ آیا… اور یوں مسلمان ایک دوسرے کے قاتل بن گئے… بمبئی کے دس حملہ آور اگر پاکستان حکومت نے بھیجے ہوتے تو وہ اتنا ڈرتی اور گھبراتی؟… ہماری حکومت تو انڈیا کے بدمعاشوں کے لئے اداکارہ ’’میرا‘‘ کو بھیجتی ہے… جبکہ انڈیا یہاں ’’کشمیر سنگھ‘‘ اور ’’سربجیت سنگھ‘‘ کو بھیجتا ہے… ہر ملک کے باشندے غیر قانونی طور پر دوسرے ملکوں میں داخل ہوتے رہتے ہیں… وہ دوسرے ملکوں میں جرائم بھی کرتے ہیں اور سزا بھی پاتے ہیں… انڈیا کی تہاڑ جیل میں ہر وقت پانچ سو سے زیادہ غیر ملکی قیدی ہوتے ہیں… اپنے ملک کی سرحدوں کو مضبوط رکھنا ہر ملک کی داخلی ذمہ داری ہوتی ہے… اگر چند پاکستانی بمبئی میں گھس گئے تو انڈیا کا کام تھا کہ اُن کو روکتا… جب انہوں نے وہاں جنگ برپا کی تو انڈیا کا کام تھا کہ اُن کا مقابلہ کرتا… انڈیا کے ہزاروں فوجیوں نے ساٹھ گھنٹے تک بہادری کے ساتھ مقابلہ کرکے نو جنگجو مار دیئے اور ایک پکڑ لیا… بس بات ختم ہوگئی… مگر ہمارے حکمران معلوم نہیں کس مٹی کے بنے ہیں… فوراً ہی منّت، ترلے، وفود، پابندیاں اور صفائیاں شروع ہو گئیں… ابھی معلوم نہیںکہ ذلت اور رسوائی کے اور کون کون سے قدم اٹھائے جائیں گے… دوماہ قبل ہندئوں کی مسلح تنظیم ’’بجرنگ دل‘‘ نے کئی عیسائیوں کو قتل کر دیا… اور عیسائیوں کے گھرو ں کو جلا دیا… دنیا بھر سے شور اُٹھا کہ ’’بجرنگ دل‘‘ پر پابندی لگائی جائے… انڈین حکمرانوں نے جواب دیا کہ یہ ممکن نہیں کیونکہ یہ لوگ دیش (ملک) کے وفا دار ہیں… اٹل بہاری واجپائی کے دور حکومت میں ایک غیر ملکی صحافی نے اعتراض اٹھایا کہ آپ فلاں شدت پسند رہنما سے ملے ہیں… واجپائی نے کہا! میں اُس سے ملا ہوں، آئندہ بھی ملوں گا وہ بھارتی ہے اور ہمیں اپنے لوگوں سے ملنے کا حق ہے … مگر پاکستان کے حکمران احساس کمتری کی رسوائی میں مبتلا ہیں… یہ اول تو کسی بھی ایسے مسلمان سے ملتے نہیں جو جہاد کو مانتا ہو اور اگر کبھی مجبوری سے مل لیں تو آخر میں درخواست کرتے ہیں کہ یہ ملاقات میڈیا پر نہ آئے ہمیں کافروں کے سامنے جوابدہ ہونا پڑتا ہے… انڈیا اس وقت چاروں طرف سے پاکستان کو گھیر چکا ہے… بلوچستان پر حکومتی مظالم نے وہاں کے کئی لوگوں کو انڈیا کی گود میں ڈال دیا ہے… کراچی کا ایک بڑا طبقہ لندن سے آنے والے ایک اشارے پر پاکستانی پرچم پھینک کر انڈین ترنگا اٹھانے کی مکمل تیاری میں ہے… اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب میں ہندئوں کی سرگرمیاں مکمل تیزی سے جاری ہیں… پاکستان کے کئی صحافی انڈیا سے باقاعدہ اجرت اور تنخواہ لیتے ہیں… اسلام آباد میں انڈین لابی بہت مضبوط ہو چکی ہے… افغانستان میں انڈیا نے جگہ جگہ اپنے عسکری اور جاسوسی اڈے کھول لئے ہیں… کشمیر کی تحریک کو ختم کرنے کے لئے پاکستان کے حکمران تیار بیٹھے ہیں… امریکہ کے ایک تھنک ٹینک نے اگلے بیس سال میں بھارت کے سپر پاور بننے کی پیشین گوئی بھی کردی ہے… جی ہاں پاکستان جسے کسی زمانے میں مسلمانوں کا اسرائیل کہا جاتاتھا اپنے نظریات سے ہٹ کر انڈیا کے گھیرے میں ہے… انڈیا کا مطالبہ ہے کہ پاکستان اپنے بعض شہریوں کو اغوا کرکے انڈیا کے حوالے کرے… تاکہ پاکستان میں ایک اور جنگ بھڑک اُٹھے… پاکستان کے جاگیرداروں اور پلاٹوں، پلازوں کے عاشق آفیسروں کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اُن کے حکمران ہندو ہوں یا مسلمان… اُنہیں بس پیسہ چاہیے اور عیاشی… جی ہاںمیں پھر کہہ رہا ہوں کہ پاکستان پوری طرح انڈیا کے گھیرے میں آچکا ہے… بس کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ ایسا ہو… یہ لوگ جہاد کی بات کرتے ہیں… اب انہیں لوگوں کا گلا دبایا جا رہا ہے تاکہ پاکستان پر انڈیا کے قبضے کی آخری رکاوٹ ختم کی جاسکے… اب پاکستان میں ایسی کوئی ’’مسلم لیگ‘‘ باقی نہیں ہے جو انڈیا کی چالوں کو سمجھتی ہو… کچھ پرانے مسلم لیگی پرانی باتیں کرتے رہتے ہیں مگر وہ بھی جہاد کے نام سے چڑتے ہیں… جبکہ نئی مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل مشاہد حسین اسوقت بھی بھارت کے خفیہ دورے پر ہیں… یہ وہ صورتحال ہے جو سب کو نظر آرہی ہے… مگر یادرکھیں کہ اصل حقیقت کچھ اور ہے… خراسان کی طرف سیاہ جہادی پرچم لہرانے کا وقت تیزی سے قریب آرہاہے… ہندوستان کی زمین پر مسلمان فاتحین کا خون اور مسلمان اولیاء کی قبریں ہیں… یہ پورا خطہ مسلمانوں کا تھا… اور پھر انشاء اللہ مسلمانوں کا ہو جائے گا… میں خواب نہیں دیکھ رہا حقیقت عرض کر رہا ہوں… وہ مسلمان جن کا ایمان جہاد کی حرارت سے مضبوط ہو چکا ہے اُن کو اب زندہ رہنے کی فکر نہیں رہی… ہر بزدلی اور ہر بے غیرتی کی بنیاد زندہ رہنے کی فکر ہے… کون سپر پاور ہے اور کون منی پاور مجاہدین نے سب کے نقشے پھاڑ دئیے ہیں… قرآن پاک کے اوراق سے جہاد کی آیتیں ایک نور کی طرح ساری دنیا پر چھارہی ہیں… دنیا کے ملکوں کے پاس آگ ہے اور آگ تو پانی کا مقابلہ بھی نہیں کرسکتی چہ جائیکہ وہ جہادی نور کا مقابلہ کرسکے… شہداء کا خون ہر اسلحے کا توڑہے … اور پوری دنیا کی ہلاکت کا سامان خود اس دنیا میں موجود ہے… ہم نہ کسی کو دھمکی دیتے ہیں اور نہ خوف پھیلاتے ہیں… ہم تو امن کے بھوکے اور محبت کے علمبردار ہیں… ہم ساری دنیا کو ایمان، اسلام اور استسلام کی طرف بلاتے ہیں… ہم ساری دنیا سے کہتے ہیں کہ اس دنیا کی رحمت حضرت محمد ﷺ کے دامن میں ہے… آئو اس دامن کی پناہ میں آجائو امن اور رحمت مل جائے گی…
مگر ہم کیا کریں ظلم و شہوت کے پجاری ہمیں زندہ رہنے ہی نہیں دیتے… سب کو بولنے کی اجازت ہے مگر ہماری باتوں پر پابندی ہے… گدھوں اور کتوں کی طرح بدکاری کی اجازت ہے جبکہ حیاء کی بات پر پابندی ہے… ہر چور ڈاکو اور مافیا سرغنہ آزاد ہے جبکہ ہم یا جیلوں میں ہیں یا دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں…
ہم کہتے ہیں کہ ہماری بات سنو تو جواب میں گالیاں دی جاتی ہیں… ہم کہتے ہیں کہ ہم سے بات کرو تو گولی اور ہتھکڑی سے جواب ملتا ہے… ملا محمد عمر مجاہد کا کیا جرم تھا؟… عرب ممالک کے شرابی حکمرانوں کے ستائے نورانی چہرہ مہاجرین کا کیا جرم تھا؟… پابندیوں کے ستائے ہوئے اللہ اللہ پکارنے والے جیش محمد ﷺ کے دیوانوں کا کیا جرم تھا؟… ہاں اگر آقا مدنی ﷺ کے دین کی بات کرنا جرم ہے تو یہ جرم انشاء اللہ مرکر بھی نہیں چھوڑیں گے… ہاں! اگر آقا مدنی ﷺ کے خیمے کی پہرے داری کرنا جرم ہے تو ہماری یہی خواہش ہے کہ اس مبارک خیمے کی پہرے داری میں جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے… شراب، ڈانس اور جاگیر کے عاشقو تمہیں کیا پتا؟ اس پہرے داری میں کیا مزہ ہے… ہر ظلم ہم پر، ہر پابندی ہم پر ، ہر طعنہ ہم پر… تب مرنے کے سوا اور کیا کیا جائے؟… ان حالات میں اگر مجاہدین کو موت لذیذ معلوم ہوتی ہے تو اُن کا کیا قصور ہے؟…
اُمت ِ مسلمہ کی طرف سے دنیا بھر کے ظالموں سے ایک اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر صاف صاف کہتا ہوں کہ… بالآخر تم ہار جائو گے اور اسلام جیت جائے گا… اسلام غالب آئے گا… آجائو امن کی طرف… اور امن ایمان میں ہے… آجائو سلامتی کی طرف… اور سلامتی اسلام میں ہے… آجائو محبت کی طرف… اور محبت مدینہ پاک میں ہے… بیشک دن اور رات کے آنے جانے میں عقل والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔
(رنگ و نور/ ج،۴/ آؤ امن کی طرف)