نیک اعمال اور ان کے فضائل
کلام ہادیٔ عالمﷺ (شمارہ 462)
چاشت کی نماز کی مزید فضیلت
حضرت معاذ بن انس الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:جو شخص صبح کی نماز سے فارغ ہونے کے بعداپنے مصلے پر بیٹھا رہا یہاں تک کہ( سورج نکلنے کے بعد) اس نے دورکعت چاشت کی پڑھ لیں( اور جتنی دیریہ بیٹھا رہا) خیر کی بات کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا تو بخش دئیے جاتے ہیں اس کے گناہ اگرچہ سمندر کی جھاگ سے بھی زیادہ ہوں۔(ابو دائود)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا کہ آپﷺ فرماتے تھے : جس نے چاشت کی بار ہ رکعتیں پڑھیں تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں سونے کا محل بنادیں گے۔( ابن ماجہ، ترمذی)
حضرت نعیم بن ھمار رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سناکہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتے ہیں کہ اے ابن آدم! تجھے عاجز نہ کریں چار رکعت دِن کے شروع میں، میں تیری دن کے آخر تک کفایت کروں گا۔( یعنی دن بھر کی حاجتیں پوری کروں گا) (ابو دائود)
عصرسے پہلے چاررکعتوں کی فضیلت
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ رحم فرمائیں اس شخص پر جو عصر( کی فرض نماز سے) پہلے چاررکعت پڑھے۔( ابو دائود، ترمذی )
ایک معبود کے لئے سجدہ کرنے کی فضلیت
حضرت معدان بن ابی طلحہ الیعمری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں ثوبانؓ سے ملا جو رسول اللہﷺ کے آزاد کردہ غلام تھے، میں نے کہا کہ مجھ کو ایسا عمل بتائیے کہ جس پر میں عمل کروں تاکہ اللہ تعالیٰ مجھ کو جنت میں داخل فرمادیں یا( یوں) کہا کہ میں نے اللہ جلّ شانہٗ کی بارگاہ میں سب سے محبوب عمل کے متعلق پوچھا پس وہ خاموش ہوگئے پھر میں نے پوچھا پھر وہ خاموش ہوگئے پھر میں نے تیسری مرتبہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے بھی یہی سوال رسول اللہﷺ سے کیا تھا تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ تو زیادہ سجدے کرنے کو لازم پکڑبے شک تو اللہ تعالیٰ کے لئے جو بھی سجدہ کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے تیرا ایک درجہ بلند فرمادیں گے اور ایک گناہ ( اعمال نامے سے) مٹادیں گے۔
معدان نے کہا کہ پھر میں ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے ملا اور میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے بھی مجھ کو وہی بات بتائی جیساکہ ثوبانؓ نے مجھ کو بتائی تھی۔(مسلم)
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جو بھی کوئی مسلمان بندہ اللہ تعالیٰ کے لئے سجدہ کرے گا تو اللہ تعالی ضرور اس کے لئے ایک نیکی لکھ دیں گے اور اس کی وجہ سے اس کی ایک برائی( اعمال نامہ سے) مٹادیں گے اور اس کاایک درجہ بلند کردیں گے پس تم سجدوں کی کثرت کرو۔( ابن ماجہ)
حضرت ربیعہ بن کعب الاسلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریمﷺ کے ساتھ رات کو رہتا تھا اور میں آپﷺ کے لئے وضو کا پانی اور ضرورت کی دوسری چیزیں لے آتا تھا۔ پس ( ایک رات)آپ ﷺنے فرمایا:سوال کر( یعنی مانگ، جوکچھ مانگنا چاہتا ہے) میں نے کہا کہ میں جنت میں آپﷺ کی رفاقت مانگتا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا: اس کے علاوہ ( اور کیا مانگتا ہے) میں نے کہا( پھر بھی) وہی مانگتا ہوں( یعنی جنت میں آپﷺ کی رفاقت) آپﷺ نے فرمایا( تو پھر) اپنے نفس کے مقابلہ میں سجود کی کثرت کر کے میری مدد کر۔(مسلم)
ف: یعنی مطلب یہ ہے کہ میں بھی تمہارے لئے دعا کروں گا تم بھی کوشش کرو کہ( اس لائق ہوجائو جس کا سوال کررہے ہو اور اس کے لئے زیادہ سجدے کرنے چاہئیں تاکہ میری رفاقت کے لائق بن جائو، نفس تمہارا اس میں رکاوٹ ڈالے گا تم اس کی بات نہ ماننا اورنوافل پڑھنا۔ معلوم ہوا کہ محض دوسروں کی دعائوں کے سہارے پر رہنا درست نہیں ہے خود بھی عبادت اور اطاعت کے لئے نفس کو آمادہ کر کے دینی احکام پر چلتے رہنا ضروری ہے۔
ف: سجدہ کی کثر ت سے مراد زیادہ نوافل پڑھنا ہے۔
حضرت ابو فاطمہ رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ میں نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول! مجھے ایسا عمل بتائیں کہ جس پر میں جمارہوں اور اس میں لگارہوں۔آپﷺ نے فرمایا: سجدوں کولازم پکڑ( یعنی زیادہ نفل نمازیں پڑھ) پس بے شک جب تواللہ کے لئے سجدہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ( اس کے بدلہ ایک درجہ بلند فرمائیں گے اور ایک گناہ کو ( اعمال نامہ سے) مٹا دیں گے۔( ابن ماجہ)
گھروں میں نفل نماز کی فضیلت
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایاکہ حضور اقدس ﷺ نے(مسجد کے اندر) ایک چٹائی کا حجرہ بنا لیا تھا جس میں نماز پڑھتے تھے۔
کچھ لوگ موقعہ نکال کر حاضر ہوئے اور آپﷺ کی نماز کی ا قتداء کرلی( یہ نماز نفل تھی)ا س کے بعد پھر ایک رات کو حاضر ہوئے (تاکہ آپﷺ کی اقتداء میں نفل نماز پڑھیں)آپﷺ نے دیرلگائی اور باہر تشریف نہ لائے تو ان حضرات نے آوازیں بلند کیں اور دروازے کو کنکریاں ماریں (تاکہ آپﷺ کو معلوم ہوجائے کہ ہم لوگ حاضر ہیں) آپﷺ غصہ کی حالت میں ان کے پاس باہر تشریف لائے اورارشاد فرمایا کہ تم جو کچھ کر رہے ہو ( یعنی اظہار شوق اور اقتداء کے لئے میرا انتظار) اس کی وجہ سے مجھے خیال ہوا کہ تم پریہ نماز فرض ہوجائے گی اور اگر فرض ہوگئی( تو پابندی سے) اس پر قائم نہ رہ سکوگے۔ لہٰذا تم(نفل) نماز اپنے گھروں میں پڑھا کرو کیونکہ انسان کی بہترین نماز وہ ہے جو اس کے گھر میں ہو ،ہاں فرض نماز اس سے مستثنیٰ ہے۔( وہ مسجد میں باجماعت ہونی چاہئے)(بخاری ومسلم)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے جب کوئی شخص مسجد میں اپنی نماز( فرض) پوری کرے تو اس کو چاہئے کہ اپنی نمازمیں سے کچھ حصہ گھر کے لئے بھی باقی رکھ لے، پس بے شک اللہ تعالیٰ اس کے گھر میں نماز پڑھنے کی وجہ سے خیر فرمائیں گے۔( مسلم)
٭…٭…٭
نیک اعمال اور ان کے فضائل
کلام ہادیٔ عالمﷺ (شمارہ 461)
حضرت ابوبردہ ؓجو ابو موسیٰ الاشعریؓ کے بیٹے ہیں، انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے عبداللہ بن عمرؓ نے کہا:کیا تو نے اپنے والد کو جمعہ کی گھڑی کے بارے بیان کرتے ہوئے سنا ہے جو وہ رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں؟ میں نے کہا :ہاں میں نے ان کو یہ بیان فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ(گھڑی خطبہ کے لئے) امام کے بیٹھنے سے لے کر نماز ختم ہونے تک ہے۔( مسلم)
حضرت عمروبن عوف المزنی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺنے ارشاد فرمایا:بے شک جمعہ میں ایک ایسی گھڑی ہے کہ جس میں کوئی بندہ کسی چیز کا سوال کرتا ہے تو اس کی مانگی ہوئی چیز اس کو دے دی جاتی ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول!وہ کون سی گھڑی ہے؟ فرمایا: نماز کھڑی ہونے کے وقت سے لے کر اس کے ختم ہونے تک۔( ابن ماجہ ،ترمذی)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ سے پوچھا گیا کہ جمعہ کا نام جمعہ کس وجہ سے رکھا گیا؟آپﷺ نے ارشاد فرمایا:اس لئے کہ اس دن میں تیرے باپ آدم علیہ السلام کی مٹی تیار کی گئی اور اس میں(صور پھونکنے کے بعد) مرجانا ہے اور پھر اُٹھنا ہے اور اس میں گرفت ہوگی اور اس میں تین آخری گھڑیاںہیں جن میںایک گھڑی ایسی ہے کہ جو آدمی اللہ تعالیٰ سے اس گھڑی میں دعا کرے تو اس کی یہ دعا ضرور قبول کی جائے۔(احمد)
حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: جمعہ کے دن کے اندر بارہ گھڑیاں ہیں، اسی میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ جو بھی کوئی مسلمان بندہ اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کا سوال کرتا ہواپایاجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو ضرور عطا فرمادیتے ہیں، پس تم اس گھڑی کو جمعہ کے دن عصر کے بعد آخری وقت میں تلاش کرو۔( ابو دائود،نسائی)
فجر اور اس کے علاوہ دوسری سنتوں کی فضیلت
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریمﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: فجر کی دورکعتیں دنیا اور جو کچھ اس میں ہے ان سب سے بہتر ہیں۔ (مسلم)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا:جو آدمی دن رات میں بارہ رکعتوں پر جمارہا تو جنت میں داخل ہوگا (بارہ رکعتوں کی تفصیل یہ ہے) چاررکعتیں ظہر سے پہلے اور دورکعتیں ظہر کے بعد اور دورکعتیں مغرب کے بعد اور دورکعتیں عشاء کے بعد اور دو رکعتیں فجر سے پہلے۔( نسائی ،ابن ماجہ، ترمذی)
حضرت اُم حبیبہؓ فرماتی ہیں جو حضورﷺ کی اہلیہ ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے چار رکعتوں کی ظہر سے پہلے اور چار رکعتوں کی ظہر کے بعد پابندی کی تو اللہ تعالیٰ اس پر ( دوزخ کی) آگ کو حرام فرمادیں گے۔( ابو دائود، نسائی، ابن ماجہ، ترمذی)
چاشت کی دورکعتوں کی فضیلت اور ان کی پابندی کی وصیت
حضرت ابو ہریرہؓ بیان فرماتے ہیں کہ مجھ کو میرے دوست (یعنی حضورپاکﷺ) نے تین چیزوں کی وصیت فرمائی۔ ہر مہینے تین دن کے روزے اور دورکعت چاشت کی نماز اور یہ کہ میں سونے سے پہلے وتر ادا کرلوں۔(بخاری ومسلم)
حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسو ل اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: تم پر صبح کو ہر جوڑ کی طرف سے صدقہ کرنا واجب ہوجاتا ہے (تاکہ ہر جوڑ کا شکریہ ادا ہوجائے) پس ہر سبحان اللہ صدقہ ہے اور ہر الحمداللہ صدقہ ہے اور ہر تہلیل یعنی لاالہ الا اللہ صدقہ ہے اور ہر تکبیر یعنی اللہ اکبر صدقہ ہے اور امر بالمعروف صدقہ ہے اور نہی عن المنکر صدقہ ہے اور کافی ہوجائے گا ان سب کی طرف سے دورکعتیں جو وقت ضحی میں( یعنی چاشت کے وقت) پڑھی جائیں۔( مسلم)
کافی ہوجانے کا مطلب یہ ہے کہ چاشت کی دورکعتیں ہر جوڑ کی طرف سے صدقہ کرنے کی جگہ بارگاہ الہٰی میں قبول کرلی جائیں گی۔
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ مجھ کو میرے دوست ( یعنی نبی کریمﷺ )نے تین باتوں کی وصیت فرمائی کہ ان کو ہرگزنہ چھوڑوں جب تک زندہ رہوں ۔ہرماہ کے تین روزے ،چاشت کی نماز اور یہ کہ اس وقت تک نہ سوئوں جب تک وتر کی نماز ادا نہ کرلوں۔( مسلم)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے دورکعت چاشت کی نماز کی پابندی کی، تو بخش دئیے جائیں گے اس کے گناہ اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں۔(ابن ماجہ)
اُمّ المومنین اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جو کوئی مسلمان بندہ اللہ کے لئے بارہ رکعت نماز نفل فرضوں کے علاوہ روزانہ پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنادیتے ہیں۔(مسلم)
٭…٭…٭
نیک اعمال اور ان کے فضائل
کلام ہادیٔ عالمﷺ (شمارہ 460)
ربنالک الحمد کہنے کی فضیلت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بلاشبہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:جب امام سمع اللّٰہ لمن حمدہ کہے تو اللھم ربناولک الحمد کہو پس جس کا(یہ کہنا فرشتوں کے کہنے کے موافق ہو گیا(یعنی جس وقت انہوں نے یہ الفاظ کہے اسی وقت مقتدی کی زبان سے بھی نکلے) تو اس کے پچھلے تمام گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ (بخاری و مسلم)
پانچوں نمازوں کی فضیلت
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺکو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ تم بتائو اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر ایک نہر بہہ رہی ہو اور وہ اس میں دن میں پانچ مرتبہ غسل کرتا ہو تو کیا اس پر کوئی میل باقی رہے گا؟ حاضرین نے عرض کیا:اس میل میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے گا۔ آپ نے فرمایا: پس یہی مثال ہے پانچ نمازوں کی کہ اللہ تعالیٰ اس سے سب گناہوں کو( پانچوں نمازوں کی وجہ سے) مٹا دیتے ہیں۔( بخاری ومسلم)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بے شک رسول اللہﷺ ارشاد فرمایا کرتے تھے:پانچوں نمازیں اور جمعہ دوسرے جمعہ تک اور رمضان دوسرے رمضان تک مٹا دینے والے ہیں ان ( گناہوں )کو جو ان کے درمیان ہوتے ہیں جب وہ بڑے گناہوں سے بچے (یعنی ان اعمال سے صغیرہ گناہوں کی معافی ہوجاتی ہے بڑے گناہوں کی معافی کے لئے توبہ شرط ہے)(مسلم)
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا:جس نے نماز کے لئے وضو کیااور اچھی طرح وضو کیا پھر فرض نماز( ادائیگی) کے لئے چلا اور اس کو جماعت کے ساتھ ادا کیا،( یافرمایا) کہ مسجد میں نماز ادا کی تو اس کے گناہوں کو بخش دیا جاتا ہے۔ ( مسلم)
اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا:جس نے وضو کو پورا کیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم فرمایاہے تو فرض نمازیں ان(صغیرہ) گناہوں کے لئے کفارہ ہیں جو ان کے درمیان ہوتے ہیں۔(بخاری ومسلم)
حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو حجۃ الوداع میں خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور پانچوں نمازیں ادا کرو اور ماہ (رمضان) کے روزے رکھو اور اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا کرو اور اپنے اُمراء کی اطاعت کرو تو تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجائو گے۔( ترمذی)
جمعہ کے دن کی فضیلت اور جمعہ کی جس گھڑی میں دعا قبول ہوتی ہے اس کا ذکر
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: سب سے زیادہ بہتر دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے جمعہ کا دن ہے اسی میں آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے اور اسی میں جنت میں داخل کئے گئے اور اسی میں جنت سے نکالے گئے اور قیامت قائم نہیں ہوگی مگر جمعہ کے دن۔( مسلم)
حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک افضل ایام میں سے جمعہ کا دن ہے اسی میں آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے اور اسی میں ان کی وفات ہوئی اور اسی میں صور پھونکا جائے گا اور اسی میں( صور پھونکنے کے بعد ساری مخلوق کا) مرجانا ہے، بس تم( اسی دن) مجھ پر درودکثرت سے بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درو د مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔صحابہؓ نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول! ہمارا درود آپﷺ پر کس طرح پیش کیا جائے گا حالانکہ آپ کا جسم مٹی میں مل کرگل چکا ہوگا ( آپﷺ نے اس کے جواب میں) ارشاد فرمایا:بے شک اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کے جسموں کو زمین پر حرام فرما دیا ہے اور بعض (راویوں نے یہ روایت اس طرح بیان کی) کہ اللہ پاک نے زمین پر حرام فرمادیا ہے کہ انبیاء کرام کے اجسام( مبارکہ) کو کھائے۔( ابودائود، نسائی، ابن ماجہ)
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جو آدمی جمعہ کے دن غسل کرتا ہے اور پاکی حاصل کرتا ہے جہاں تک ممکن ہو اور تیل لگاتا ہے اپنے تیل میں سے یا اپنے گھر کی خوشبولگاتا ہے(پھر نماز کے لئے) نکلتا ہے پس جدائی نہیں کرتا دوشخصوں کے درمیان پھر وہ(فرضوں سے پہلے) نماز پڑھتا ہے جو اس کے مقدر میں ہو، پھر چپ ہوجاتا ہے جب امام کلام کرتا ہے تو اس کی بخشش کردی جاتی ہے ان گناہوں کی جو اس جمعہ اور اس کے بعد آنے والے کے درمیان ہوتے ہیں ۔( بخاری)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:جس نے جمعہ کے دن جنابت( کے غسل کی طرح) غسل کیا پھر(جمعہ پڑھنے کے لئے) بہت جلدی گیا، تو گویا اس نے اللہ کی بارگاہ میں ایک اونٹ پیش کرنے کے برابر ثواب حاصل کیا اور جو آدمی اس کے بعد(جمعہ پڑھنے کے لئے) گیا تو گویا اس نے ایک گائے اللہ کی بارگاہ میں پیش کرنے کے برابر ثواب حاصل کیااور جو آدمی اس کے بعد( جمعہ پڑھنے کے لئے گیا) تو گویا اس نے ایک بڑے سینگ والا مینڈھا اللہ کی بارگاہ میں پیش کرنے کے برابر ثواب حاصل کیا اور جو آدمی اس کے بعد گیا تو گویا اس نے اللہ کی بارگاہ میں ایک مرغی کے برابرثواب حاصل کیااور جو آدمی اس کے بعد گیا تو گویااس نے ایک انڈا اللہ کی بارگاہ میں پیش کرنے کے برابر ثواب حاصل کیا۔ پس جب امام (خطبہ کے لئے) نکل آیا تو فرشتے حاضر ہوجاتے ہیں جو ذکر سنتے ہیں۔( بخاری ومسلم)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:جس نے وضو کیا اور اچھی طرح وضو کیا پھر وہ جمعہ کے لئے آیا پس اس نے(خطبہ کو) سنا اور( خطبہ کے درمیان) چپ رہا تو معاف کردئیے جاتے ہیں اس کے گناہ جو اس جمعہ اور اس کے بعد آنے والے جمعہ کے دوران ہوجائیں اور مزید تین دن کے بھی گناہ معاف ہوں گے اور جس نے(مسجد میں رہتے ہوئے) کنکریوں کو چھوا تو اس نے لغو کام کیا۔(مسلم)
حضرت اوس بن اوس ثقفی رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آ پﷺ نے ارشاد فرمایا:جس نے غسل دیا اور غسل کیا اور (جمعہ کی طرف) صبح کو چلا اور جلدی گیا اور امام سے قریب ہوا اور کوئی لغوبات نہیں کی تو اس کے ہر قدم کے بدلہ میں ایک سال کے روزے رکھنے اور ایک سال رات بھر نمازوں میںقیام کرنے کا ثواب ہوگا اور دوسری روایت ہے کہ پیدل چلا اور سواری نہیں کی۔(ابودائود،نسائی،ابن ماجہ، ترمذی)
غسل دیا کامطلب یہ ہے کہ اپنی بیوی سے ہم بستر ہو کر نفس و نظر کو محفوظ کر لیا اور اس طرح سے اس پر بھی غسل واجب کردیا۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسو ل اللہﷺ نے کہ بلاشبہ جمعہ میں ایک ایسی گھڑی ہے کہ اس میں جو کوئی مسلمان بندہ کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہا ہو ( اور) اللہ تعالیٰ سے اس وقت خیر کا سوال کررہا ہو تو اللہ تعالیٰ ضرور وہ خیر اس کو عطا فرمادیتے ہیں،راوی کہتے ہیں کہ حضور اقدسﷺ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ فرمایا کہ وہ گھڑی تھوڑی دیر ہوتی ہے۔( بخاری ومسلم)
٭…٭…٭
نیک اعمال اور ان کے فضائل
کلام ہادیٔ عالمﷺ (شمارہ 459)
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جس نے عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی تو گویا اس نے آدھی رات(نمازمیں) قیام کیا اور جس نے صبح کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی تو گویا اس نے پوری رات (نمازمیں) قیام کیا۔( مسلم )
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ (صحابہ کرامؓ میں) ایک شخص تھے میرے علم میں ایسا کوئی شخص نہیں جس کا گھر مسجد سے ان کے گھر کی نسبت زیادہ دور ہو اور (مسجد میں اُن کی نماز خطا نہیں ہوتی تھی( یعنی نہیں چھوٹتی تھی) ان سے کسی نے کہا یا میں نے کہا کہ اگر آپ کوئی گدھا خرید لیتے جس پر اندھیری میں اور گرمی میں سوار ہو کر آیا کرتے تو اچھا ہوتا، انہوں نے کہا کہ مجھے اس بات کی خوشی نہیں ہے کہ میرا گھر مسجد کے بغل میں ہو میں تو یہ چاہتا ہوں کہ میرے لئے مسجد کو چلنا لکھا جائے (اور ہر قدم پر نیکی ملے اور اپنے گھر جب واپس ہوں تو یہ میرے اس واپس ہونے کا ثواب بھی لکھا جائے۔ یہ سن کر حضورِ اقدسﷺ نے فرمایا:بے شک اللہ تعالیٰ نے تیرے لئے یہ سب کچھ جمع فرمادیا۔(یعنی تیرے عمل اور امید کے اعتبار سے سب کچھ دے دیا ) (مسلم )
حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں ہیں کہ ہمارے گھر مسجد سے دور تھے ہم نے ارادہ کیا کہ اپنے گھروں کو بیچ دیں تاکہ ہم مسجد سے قریب ہوجائیں پس رسول اللہﷺ نے ہم کو منع فرمایا اور ارشاد فرمایا:بے شک تمہارے لئے ہر قدم پر ایک درجہ ہے( یعنی جتنے قدم رکھو گے تم کو اسی قدردرجے ملیں گے)( مسلم)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے اپنے گھر میں پاکی حاصل کی( یعنی غسل یا وضو کیا) پھر اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر( یعنی مسجد) کی طرف چلاتا کہ اللہ تعالیٰ کے فرائض میں سے ایک فرض کو ادا کرے تو وہ جو بھی قدم رکھے گا ان میں سے ایک کے ذریعہ گنا ہ معاف ہوگا اور دوسرے کے ذریعہ درجہ بلند ہوگا۔( مسلم)
اور انہی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص صبح کو یا شام کو مسجد کی طرف چلا اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں مہمانی تیار فرمائیں گے۔( بخاری ومسلم)
حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بلاشبہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:جو شخص اپنے گھر سے خوب اچھی طرح وضو کرکے فرض نماز ( کی ادائیگی) کے لئے نکلا پس اس کا اجر مثل احرام باندھے ہوئے حج کرنے والے شخص کے اجر کے برابر ہوگا اور جو شخص اپنے گھر سے چاشت کی نماز کے لئے نکلا، نہیں کھڑا کیا ا س کو مگر اسی نے ( یعنی صرف چاشت کی نماز ہی کے لئے نکلا) تو اس کا ثواب عمرہ کرنے والے کے برابر ہوگا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز جن کے درمیان کوئی لغوبات نہ ہو علیین میں لکھی جانے والی کتاب ہے۔( ابودائود)
حضرت بریدہ بن الحصیب الاسلمی رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اندھیرے میں مساجد کی طرف چلنے والوں کو قیامت کے دن پورے نور کی بشارت دے دو۔( ابو دائود، ترمذی)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: اندھیروں میں مساجد کی طرف خوب زیادہ چلنے والے اللہ تعالیٰ کی رحمت میں گھس جانے والے ہیں۔( ابن ماجہ)
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:چاہیے کہ اندھیرے میں مساجد کی طرف چلنے والوں کو قیامت کے دن پورے نور کی خوشخبری دی جائے ۔( ابن ماجہ)
جماعت کے ساتھ پہلی صف میں نماز پڑھنے کی فضیلت
حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم کو رسول اللہﷺ نے ایک دن صبح کی نماز پڑھائی پھر فرمایا: کیا فلاں حاضر ہے؟ ہم نے کہا :نہیں! پھر فرمایا:کیا فلاں حاضر ہے؟ ہم نے کہا: نہیں، ارشاد فرمایا:یہ دونوں نمازیں منافقین پر بھاری ہیں اور اگر تم یہ جان لیتے کہ ان دونوں میں کتنا بڑا اجر ہے تو ان دونوں نمازوں میں حاضر ہوتے اگرچہ گھٹنوں کے بل آنا پڑتا اور بلاشبہ صف اول فرشتوں کی صف کی طرح ہے اور اگر تم اس کی فضیلت کو جان لیتے تو ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے اور بلاشبہ ایک آدمی کی نماز دوسرے آدمی کے ساتھ( یعنی دوآدمیوں کی جماعت) زیادہ پاکیزہ ہے( یعنی زیادہ اجر وثواب والی ہے) اکیلے نماز پڑھنے سے اور ایک آدمی کی نماز دوآدمیوں کے ساتھ( باجماعت پڑھنا) زیادہ پاکیزہ ہے ( یعنی زیادہ اجر وثواب والی ہے) ایک آدمی کے ساتھ مل کر نمازپڑھنے سے اور( جماعت میں) جتنے آدمی زیادہ ہوںگے وہ جماعت اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب ہوگی۔( ابو دائود، ابن ماجہ)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر تم صف اول کو( یعنی اس کے اجروثواب کو جان لیتے) تو تم قرعہ ڈالتے۔ ( اور قرعہ کے ذریعہ حاصل کرنے کی کوشش کیا کرتے)( مسلم)
اور انہی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: مردوں کی صفوں میں سب سے بہتر صف پہلی صف ہے اور مردوں کی صفوں میں سب سے زیادہ بری صف آخری ہے (کیونکہ اس میںسب سے کم ثواب ہے) اور عورتوں کی صفوں میں سب سے بہتر صف آخری صف ہے اور عورتوں کی صفوں میں سب سے بری صف پہلی صف ہے۔ (کیونکہ وہ مردوں کی صف سے قریب ترہوتی ہے) (مسلم)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: عورت کی نماز اس کے گھر کے اندرونی حصہ میں پڑھنا صحن میں نماز پڑھنے سے افضل ہے اور اس کی نماز خوب اندر والے کمرے میں پڑھنا گھر کے ابتدائی کمرہ میں پڑھنے سے افضل ہے۔( ابو دائود)
نماز میں آمین کہنے کی فضیلت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو پس جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہوجائے تو اس کے پچھلے تمام گناہوں کو بخش دیا جائے گا۔ (بخاری ومسلم)
٭…٭…٭
نیک اعمال اور ان کے فضائل
کلام ہادیٔ عالمﷺ (شمارہ 458)
حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے بیان فرمایا کہ میں نے نبی کریمﷺکو فرماتے ہوئے سنا: قیامت کے دن اذان دینے والے لوگوں میں سے سب سے زیادہ لمبی گردنوں والے ہوں گے۔( مسلم)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: مؤذن کی بخشش کی جاتی ہے جہاں تک اس کی آواز جاتی ہے اور اس کے لئے ہر تر اور خشک چیز گواہی دیتی ہے اور نماز کی جماعت میں شامل ہونے والے کے لئے پچیس نمازوں کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے اور اس سے ( اس کے وہ گناہ) جو دونوں نمازوں کے درمیان سرزد ہوں مٹادیتے ہیں۔( ابو دائود)
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بلاشبہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے بارہ سال تک اذان دی تو اس کے لئے جنت واجب ہوگئی اور اس کے اذان دینے کے بدلہ میں ہر دن ساٹھ نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور ہراقامت کے بدلہ میں تیس نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں۔( ابن ماجہ)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ( ایک مرتبہ) ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے پس حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان دینے کے لئے کھڑے ہوئے جب وہ خاموش ہوگئے (یعنی اذان دے چکے) تو رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے ایساہی کہا جیسے اس نے( یعنی حضرت بلالؓ نے) تویقینی طور پر وہ جنت میں داخل ہوگا ۔ (نسائی)
اذان اور اقامت کے درمیان دعا کی فضیلت
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:اذان اور اقامت کے درمیان دعا رد نہیں کی جاتی۔( ابودائود، نسائی، ترمذی)
مسجد بنانے کے فضیلت
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میںنے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:جس شخص نے اللہ کی رضا کے لئے مسجد بنوائی تو اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی مثل اس کے لئے گھر بنادیں گے۔( بخاری و مسلم)
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جس شخص نے مسجد بنائی اور اس میں اللہ کے نام کو یاد کیا جاتا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنادیں گے۔( ابن ماجہ)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:جس نے مسجد بنائی( جو اتنی چھوٹی ہو) جیسے قطاۃ جانور کے بیٹھنے کی جگہ ہو یا ا س سے بھی چھوٹی تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر بنادیں گے۔
مسجد کو صاف کرنے کا اجر
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:میری امت کے ثواب مجھ پر پیش کئے گئے حتی کہ وہ کوڑا کرکٹ جو کسی شخص نے مسجد سے باہر نکالا ہو(یعنی اس کا ثواب بھی پیش کیا گیا اور میری اُمت کے گناہ مجھ پر پیش کئے گئے پس میں نے کوئی گناہ اس سے بڑھ کر نہیں دیکھا کہ کسی نے کوئی سورۃ یا آیت قرآن کی یاد کی اور پھر اس کو بھول گیا۔( ابو دائود)
نماز کے لئے مسجد کو جانے کا ثواب اور جماعت کی فضیلت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:جماعت کے ساتھ جو نماز پڑھی جائے اس کا ثواب پچیس گنا زیادہ کردیا جاتا ہے اس نماز کے مقابلہ میں جو اس نے گھر میں پڑھی یا بازار میںپڑھی، اور یہ یوں ہے کہ جب اس نے وضو کیا اور اچھی طرح وضو کیا پھر مسجد کی طرف نکلا( اس حال میں کہ) وہ مسجد کی طرف صرف نماز کے لئے نکلتا ہے تو نہیں اُٹھاتا ہے کوئی قدم مسجد کی طرف مگر بلند کیا جاتا ہے اس کے لئے اس کی وجہ سے ایک درجہ اور مٹادی جاتی ہے اس کی وجہ سے ایک برائی، پس جب وہ نماز پڑھتا ہے تو برابر فرشتے اس کے لئے رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ اپنے مصلے پر رہتا ہے( ان کی دعا اس طرح ہوتی ہے کہ) اے اللہ!اس پر رحمت بھیج ، اے اللہ! اس پر رحم فرما اور برابر نماز میں ہوتا ہے جب تک کہ وہ دوسری نماز کا انتظار کرتا رہتا ہے۔(بخاری ومسلم)
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بلاشبہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:جماعت کی نماز ( تنہا نماز پڑھنے کے مقابلہ)ستائیس درجہ افضل ہے۔( بخاری ومسلم)
حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:سب سے بڑا آدمی نماز میں ثواب کے اعتبار سے وہ ہے جو پیدل چل کر سب سے زیادہ دور سے مسجد کو آیا ہو اور جو شخص نماز کے انتظار میں رہتا ہے یہاں تک کہ اس کو ادا کر لیتا ہے امام کے ساتھ، زیادہ اجر و الا ہے اس شخص سے جو نماز پڑھتا ہے( اکیلے) اور پھر سوجاتا ہے ۔(بخاری ومسلم)
نیک اعمال اور ان کے فضائل
کلام ہادیٔ عالمﷺ (شمارہ 457)
اذان کی فضیلت اور جو شخص اذان سنے وہ کیا کہے
حضرت ابو سعید خدریؓ کی نبی کریم ﷺ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:مؤذن کی آواز جہاں تک جاتی ہے اور جو جن و انسان اور ( ان کے علاوہ ) جو کوئی دوسری چیز اس آواز کو سن لیتی ہے تو قیامت کے دن یہ سب اس کے لئے گواہی دیں گے۔( بخاری)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:اگر لوگ اس بات کو جان لیں کہ اذان دینے میں اور صفِ اول میں(نماز پڑھنے میں) کتنا ثواب ہے پھر نہ پائیں( ان دونوں چیزوں کو) مگر اس طرح کہ قرعہ ڈالیں تو ضرور قرعہ ڈال کر ان کو پانے کی کوشش کریںاور اگر لوگ اس بات کو جان لیں کہ صبح سویرے (نماز کے لئے) جانے میں کتنا بڑا ثواب ہے تو اس کی طرف ہر ایک شخص سبقت لے جانے کی کوشش کرے اور اگر لوگ جان لیں اس بات کو کہ کتنا بڑا ثواب ہے عشاء اور صبح کی نماز میں تو لوگ ان دونوں نمازوں کے لئے ضرور آئیں اگرچہ ان کو گھٹنوں پر چل کر آنا پڑے۔( مسلم وبخاری)
حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:جو شخص اذان سننے کے بعد یہ دعا پڑھے:
اللھم رب ھذہ الدعوۃ التامۃ والصلوٰۃ القائمۃ اٰت محمداالوسیلۃ والفضیلۃ وابعثہ مقامامحموداالذی وعدتہ
(اے اللہ! اس پوری پکار کے رب اور قائم ہونے والی نماز کے رب محمدﷺکو وسیلہ عطافرما( جو جنت کا ایک درجہ ہے) اور ان کو فضیلت عطا فرما اور ان کو مقام محمود پر پہنچا جس کا تو نے اُن سے وعدہ فرمایا ہے)
تو اس کے لئے میری شفاعت ہوگئی۔
یہ دعا اذان کا جواب دینے کے بعد پڑھے۔ بعض روایات میں اس کے آخر میں
وازقناشفاعتہ یوم القیمۃ انک لاتخلف المیعاد
کے الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں۔( حصن حصین)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بے شک نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:جو شخص ثواب کی اُمید رکھتے ہوئے سات سال تک اذان دے تو اس کے لئے آگ سے چھٹکارا لکھ دیا جاتا ہے۔(ترمذی)
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جب تم مؤذن کی آواز سنو تو وہی الفاظ کہتے جائو جو وہ کہتا ہے اس کے بعد میرے اوپر درودبھیجوکیونکہ جو شخص میرے اوپر درود بھیجے اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا، اس کے بعد میرے لئے اللہ سے وسیلہ کا سوال کرو کیونکہ وسیلہ جنت میں ایک ایسا درجہ ہے جو اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک ہی بندے کو ملے گا اور میں اُمید کرتا ہوں کہ وہ ایک بندہ میں ہی ہوں۔ پس جس نے میری لئے اللہ سے وسیلہ کا سوال کیا، اس کے لئے میری شفاعت ضروری ہوگئی۔( مسلم)
حضرت عمر بن الخطاب رضی للہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:جب مؤذن اللہ اکبر اللہ اکبر کہے۔ تو تم بھی(اس کے جواب میں) اللہ اکبر اللہ اکبر کہو پھر( جب مؤذن) اشھد ان لا الہ الا اللہ کہے تو تم بھی اشھدان لاالہ الا اللہ کہو پھر (جب مؤذن) اشھدان محمد اً رسول اللہ کہے تو تم بھی اشھدان محمداً رسول اللہ کہوپھر (جب مؤذن) حی علی الصلوٰۃ کہے تو تم لاحول ولاقوۃ الا باللہ کہو پھر (جب مؤذن) حی علی الفلاح کہے تو تم لاحول و لاقوۃ الاباللہ کہو پھر (جب مؤذن) اللہ اکبر کہے تم بھی اللہ اکبر کہو پھر (جب مؤذن) لاالہ الا اللہ کہے تو تم بھی لا الہ الا اللہ دل( کے خلوص) کے ساتھ کہو تو جنت میں داخل ہوجائو گے۔( مسلم)
حضرت سعدبن ابی وقاصؓ بیان کرتے ہیں کہ بلاشبہ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:جو شخص مؤذن کی آواز سن کر یوں کہے:
وانااشھد ان لاالہ الااللّٰہ وحدہ لاشریک لہ وان محمداً عبدہ ورسولہ،رضیت باللّٰہ ربا و بمحمد رسولاوبالاسلام دینا (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سواکوئی معبود نہیں وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمدمصطفیٰﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں میں راضی ہوں اللہ کو رب ماننے پر اور محمدﷺ کو رسول ماننے پر اور اسلام کو دین ماننے پر)
تو اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔( مسلم)
نیک اعمال اور ان کے فضائل
کلام ہادیٔ عالمﷺ (شمارہ 456)
وضو کی فضیلت
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:جو شخص وضو کرے اور اچھی طرح وضو کرے تو اُس کی خطائیں اُس کے جسم سے نکل جاتی ہیں حتیٰ کہ اُس کے ناخنوں کے نیچے سے بھی۔( مسلم)
فائدہ:اس حدیث مبارک سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں:ایک تو یہ کہ وضو اچھی طرح کرنا چاہیے اور اچھی طرح وضو کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وضو کے تمام اعضاء کو اچھی طرح دھویا جائے جس کا کامل مسنون درجہ ہرعضو کوتین باردھونا ہے اور اس میں یہ احتیاط بھی ضروری ہے کہ کوئی حصہ خشک نہ رہے۔
دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ وضو بڑی اہم عبادت اور باعث ثواب چیز ہے، اس کی وجہ سے انسان کی خطائیں اوراس کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، صغیرہ گناہ تو وضو سے ہی معاف ہوجاتے ہیں اوراگر وضوکرتے وقت اللہ تعالی کی طرف دھیان اور دل سے توبہ واستغفار جاری ہوتو امید ہے کہ کبیرہ گناہ بھی اس سے معاف ہوجائیں گے۔ ان شاء اللہ
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جب مسلمان بندہ،یا فرمایا: مومن بندہ وضو کرتا ہے اور اپنے چہرہ کو دھوتا ہے تو اس کے چہرہ سے ہر وہ گناہ پانی کے ساتھ نکل جاتا ہے،یا فرمایا:پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ نکل جاتا ہے جو آنکھوں کے دیکھنے سے ہوا( یعنی خلاف شریعت جو نظر استعمال کی) پھر جب وہ اپنے ہاتھوں کو دھوتا ہے تو ہر وہ گناہ جو ہاتھوں سے پکڑنے کی وجہ سے صادر ہوا ہوپانی کے ساتھ،یا فرمایا: پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ نکل جاتا ہے پھر جب وہ اپنے پائوں کو دھوتا ہے تو ہر وہ گناہ کہ جس کی طرف وہ چلاتھا پانی کے ساتھ، یا فرمایا:پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ نکل جاتا ہے یہاں تک کہ یہ شخص گناہوں سے پاک صاف ہو کر نکل جاتا ہے۔( مسلم)
حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:تم میں سے جو آدمی اپنے وضو کے پانی کو قریب کرے، پھر کلی کرے اور ناک میں پانی ڈالے، پھر ناک صاف کرے تو اس کے چہرے اور منہ سے گناہ گر جاتے ہیں اور ناک کے سوراخوں سے بھی، پھر جب اس نے اپنے چہرہ کو دھویا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو حکم فرمایا ہے تو اس کے گناہ چہرہ سے اور اس کے جبڑوں کی دونوں جانبوں سے پانی کے ساتھ گر جاتے ہیں پھر جب وہ اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک دھوتا ہے تو اس کے گناہ اس کے ہاتھوں سے اور اس کی انگلیوں سے پانی کے ساتھ گر جاتے ہیں پھر جب اپنے سرکا مسح کرتا ہے تو اس کے گناہ اس کے سر اور اس کے بالوں کے اطراف سے پانی کے ساتھ گرجاتے ہیں پھر جب وہ اپنے قدموں کو ٹخنوں تک دھوتا ہے تو اس کے گناہ اس کے پائوں سے اور اس کی انگلیوں سے پانی کے ساتھ گر جاتے ہیں پھر اگر وہ کھڑا ہوااور نماز پڑھی پھر اللہ کی حمدوثنا بیان کی اور بڑائی بیان کی ایسی حمدوثنااور بڑائی کہ جس کا حق تعالیٰ شانہٗ اہل ہے اور اپنے دل کو اللہ جلّ شانہٗ کے لئے فارغ کرلیا تو وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک صاف ہوگیا جس طرح کہ وہ اس وقت پاک تھا جب وہ اپنی والدہ( کے پیٹ سے) پیدا ہوا تھا ۔( مسلم)
ناگوار حالت میں وضو کرنے کی فضیلت
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ بلاشبہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:کیا میں تم کو ایسی چیز نہ بتائوں کہ جس سے اللہ تعالیٰ گناہوں کو مٹادیتے ہیں اور درجات کو بلند کردیتے ہیں؟ تو صحابہؓ کہنے لگے:اے اللہ کے رسول!ضرور بتلائیے۔ آپﷺنے ارشاد فرمایا: ناگواریوں پر خوب اچھی طرح سے وضو کرنا اور مسجدوں کی طرف کثرت سے آناجانا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار میں بیٹھے رہنا، پس تم اس پر جمے رہو۔ پس تم اس پر جمے رہو۔( مسلم)
۱)ناگواریوں کا مطلب یہ ہے جیسے سخت سردی میں ٹھنڈے پانی سے وضوکرنا یا سخت گرمی میں گرم پانی سے وضو کرنا۔
۲)ہم نے جورباط کاترجمہ لکھا ہے وہ عربی لغات کے قریب ہے۔
وضو کے بعدکلمہ شہادت پڑھنے کی فضیلت
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے وضو کیا اور اچھی طرح وضو کیا پھر ( وضو سے فارغ ہونے کے بعد) اشھدان لاالہ الااللّٰہ وحدہ لاشریک لہ وان محمداعبدہ ورسولہ،اللھم اجعلنی من التوابین واجعلنی من المتطھرین پڑھا تو اس کے لئے کھول دئیے جائیں گے جنت کے آٹھوں دروازے،جس دروازہ سے چاہے گا داخل ہوجائے گا۔(مسلم وترمذی)
نوٹ:اللھم اجعلنی من التوابین آخر تک مسلم شریف میں یہ الفاظ نہیں ہیں البتہ ترمذی میں یہ الفاظ ہیں۔
تحفۂ رمضان …برکتوں کاخزانہ
کلام ہادیٔ عالمﷺ (شمارہ 455)
روزہ دار کی دعا اور اس کی فضیلت
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:تین آدمی (ایسے) ہیں جن کی دعا رد نہیں کی جاتی۔(۱)امام عادل (یعنی منصف صاحب اقتدار اعلیٰ) (۲)روزہ دار جب تک کہ افطار نہ کرے(۳)مظلوم کی دعا کو اللہ تعالیٰ بادلوں کے نیچے سے قیامت کے دن اوپر اُٹھالیں گے اور اس کے لئے آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور ( اللہ تعالیٰ) فرماتے ہیں کہ میری عزت کی قسم!میں ضرور تیری مدد کروں گااگرچہ کچھ عرصہ کے بعد ہو۔( ابن ماجہ، ترمذی)
مظلوم کی دعا اللہ تعالیٰ ضرور قبول فرماتے ہیں اور اس کی مدد کبھی جلدی ہوجاتی ہے کبھی دیر میں، ہرصورت میں اللہ تعالیٰ کی حکمت ہوتی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا :افطار کے وقت روزہ دار کی دعا رد نہیں کی جاتی۔( ابن ماجہ)
روزہ دار کے لئے کس چیز سے افطار کرنا مستحب ہے
حضرت سلمان بن عامر الضبیؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا :جب تم میں سے کوئی افطار کرے تو اس کو چاہئے کہ کھجور سے افطار کرے اگر (کھجور ) نہ ملے تو پانی سے افطار کرے کیونکہ بے شک وہ پاک کرنے والا ہے۔( ابودائود، ترمذی، نسائی ، ابن ماجہ)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نماز(مغرب) سے قبل ترکھجور سے افطار فرماتے تھے اگر تر کھجور نہ ہوتی تو پھر چھوہاروں سے( افطار فرماتے تھے) اور چھوہارے نہ ہوتے تو(پھر) چند گھونٹ پانی پی لیتے تھے۔( ابودائود،ترمذی)
لیلۃ القدر کی فضیلت اور وہ کب تلاش کی جائے
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:جس شخص نے لیلۃ القدر میں قیام کیا ایمان کے ساتھ اور ثواب کی امید رکھتے ہوئے تو اس کے گذشتہ سب گناہوں کو بخش دیا جائے گا۔( بخاری ومسلم)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ بلاشبہ نبی کریمﷺ کے بعض صحابہ کو لیلۃ القدر دکھائی گئی( رمضان کی) آخری سات راتوں میں ( یعنی۲۳ سے ۲۹ تک) پس رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:میں دیکھتا ہوں کہ تمہارا خواب موافق پڑے گا(رمضان کی آخری سات راتوں میں) چنانچہ جو کوئی اس کو تلاش کرنا چاہے تو اس کو چاہئے کہ اس کو آخری سات راتوں میں تلاش کرے( یعنی ان راتوں میں قیام کرنے کی کوشش کرے، ان ہی راتوں میں سے کوئی رات شب قدر ہوگی )( بخاری و مسلم )
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ کے ساتھ رمضان کے درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا،پس آپﷺ( رمضان کی) بیس کی صبح تشریف لائے اور ہم کو خطبہ دیا اور فرمایا:مجھے لیلۃ القدر دکھائی گئی پھر میں اس کو بھول گیا یابھلا دیا گیا۔لہٰذا اب تم اس کو (رمضان کے) آخر عشرہ کی طاق راتوں میں تلا ش کرو۔(بخاری ومسلم)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ بلاشبہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری دس دنوں کی طاق( راتوں میں یعنی ۲۱،۲۳ ،۲۵ ، ۲۷ ،۲۹) میں تلاش کرو۔( بخاری ومسلم)
حضرت عبادۃ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ (گھر سے باہر) تشریف لائے تاکہ ہم کولیلۃ القدر کی خبردیں،پس فلاں فلاں دومسلمانوں میں جھگڑا ہو گیا۔ آپﷺ نے فرمایا:میں( گھر سے باہر) آیا تھا تاکہ تم لوگوں کولیلۃ القدر کی خبردوں،پس فلاں اور فلاں (دومسلمانوں) آپس میں لڑنے لگے جس کی وجہ سے( لیلۃ القدر کی خبر) اُٹھالی گئی( یعنی طے شدہ طورپر جو تاریخ بتادی گئی تھی وہ ذہن میں نہیں رہی) اور قریب ہے کہ( اس کے اُٹھالینے میں) تمہارے لئے خیر ہو چنانچہ اس کو( یعنی لیلۃ القدر کو) نویں،ساتویں اور پانچویں(رات کو) تلاش کرو۔ ( بخاری)
روایت میں نویں(رات) سے مراد مہینے کی باقی راتوں میں سے نویں رات مراد ہے(یعنی اکیسویں کی رات )اس طرح ساتویں اور پانچویں رات کامطلب سمجھ لیا جائے کہ ساتویں رات ۲۳ اور پانچویں رات سے ۲۵ کی رات مراد ہے (راتوں کی یہ تفسیر) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے ظاہر ہوتی ہے۔
رمضان کے آخری عشرہ کا اہتمام اور اس میں اعتکاف کرنا
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہے کہ جب (رمضان المبارک) کا آخری عشرہ آتا تو حضورﷺاپنی تہبندمبارک کو کس لیتے تھے اور (پوری)رات جاگتے تھے اور اپنے گھر والوں کوبھی جگاتے۔(بخاری ومسلم)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے ( بخاری ومسلم)
حضرت عائشہؓ سے اسی طرح مروی ہے( جس طرح حضرت ابن عمرؓ نے روایت کی ہے) اور اس میں(یہ بھی ہے) کہ حضور اقدسﷺ نے اپنی وفات تک اعتکاف فرمایا اس کے بعد آپﷺکی ازواج مطہراتؓ نے اعتکاف فرمایا۔( بخاری ومسلم)
تحفۂ رمضان …برکتوں کاخزانہ
کلام ہادیٔ عالمﷺ (شمارہ 454)
حضرت ابو ہریرہؓ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:دین برابر غالب رہے گا جب تک کہ لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے اس لئے کہ یہود اور نصاریٰ ( افطار میں) دیر کرتے ہیں۔( ابو دائود)
شوال کے چھ روزوں کی فضیلت
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بلاشبہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد ماہ شوال سے چھ روزے رکھ لئے اور ہر سال ایساہی کرتا رہا تو یہ اس کے لئے ایسا ہوگا جیسے پوری عمر روزے رکھے۔( مسلم)
حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:جس شخص نے عید الفطر کے بعد چھ روزے رکھ لئے تو یہ اس کے لئے پورے سال کے روزے ہوں گے۔ جو شخص ایک نیکی( کا کام) کرتا ہے( اللہ تعالیٰ اس کو اس کے بدلے میں) دس نیکیوں کا اجروثواب عطا فرماتے ہیں ( ابن ماجہ)
تیس روزے رمضان کے اور چھ روزے شوال کے کل ۳۶ روزے ہوئے، ایک روزہ پر دس روزوں کا ثواب اللہ تعالیٰ عطا فرماتے ہیں تو اس حساب سے ۳۶ روزوں کے ۳۶۰ روزے ہوں گے اور سال میں اتنے ہی دن ہوتے ہیں۔ لہٰذا پورا سال روزے رکھنے کا ثواب ملے گا۔
اللہ کے راستے میں روزہ رکھنے کی فضیلت
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:جس شخص نے اللہ کے راستے میں ایک دن کا روزہ رکھا تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو ستر سال کی مسافت کے بقدر دوزخ کی آگ سے دور فرمادیں گے۔( بخاری ومسلم)
امام بخاریؒ نے اس حدیث کو کتاب الجہاد میں ذکر کیا ہے اور امام مسلمؒ نے کتاب الصوم میں، لیکن ترجمۃ الباب دونوں کا ایک ہی ہے یعنی فضل الصوم فی سبیل اللہ، لفظ فی سبیل اللہ سے مراد عرف عام کی وجہ سے جہاد لیا گیا یعنی جو شخص جہاد کی مشغولیت ہوتے ہوئے روزہ بھی رکھ لے ( بشرطیکہ اعمال جہاد میں ضعف پیدا نہ ہوجائے) تو اس کے روزہ رکھنے کی یہ فضیلت ہے جو حدیث بالا میں ہے، اس میں بیک وقت دوعبادتیں جمع ہوجاتی ہیں جہاد بھی اور روزہ بھی، بعض حضرات نے فی سبیل اللہ سے طاعت اللہ مراد لیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے روزہ رکھے اگرچہ جہاد میں مشغول نہ ہو، لفظ فی سبیل اللہ کے عموم سے یہ بھی بعید نہیں ہے۔( دیکھو فتح الباری ج ۶ ص ۴۸)
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا:جس شخص نے اللہ کے راستے میں ایک دن کا روزہ رکھا اللہ تعالیٰ اس کو جہنم سے سوسال کی مسافت ( کے بقدر) دور فرما دیں گے۔( نسائی )
حضرت عقبہ بن عامرؒ کی روایت جو نسائی شریف میں ہے اس میں لفظ فی سبیل اللہ وارد ہوا ہے۔ اس کے بارے میں بھی یہی تفصیل سمجھ لینی چاہئے۔سوسال اور سترسال کثرت کے لئے ہے لہٰذا اس میں کوئی تعارض نہیں ہے۔
روزے میں کن باتوں سے بچنا لازم ہے
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:جو شخص (روزے کی حالت میں) جھوٹی بات اور جھوٹے عمل کو نہ چھوڑے( یعنی غیر شرعی کاموں سے نہ بچے) تو اللہ تعالیٰ کو( اس بات کی) کوئی حاجت نہیں کہ وہ شخص اپنے کھانے پینے کو چھوڑ دے۔( بخاری)
روزہ افطار کرانے کی فضیلت
حضرت زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:جو شخص کسی روزہ دار کو افطار کرائے تو روزہ دار کے ثواب سے کمی کئے بغیر افطار کرانے والے کو اسی قدر اجر ملے گا جتنا اجر روز دار کو ملے گا۔( ابن ماجہ، ترمذی، نسائی)
واضح رہے کہ روزہ افطار کرانے سے روزہ کا ثواب مل جائے گالیکن اس سے فرض روزہ ساقط نہ ہوگا کوئی شخص یہ نہ سمجھے کہ میں نے روزہ افطار کرادیا اب خود روزہ کیوں رکھے ، ثواب ملنا اور چیز ہے اور فرض ادا ہونا دوسری بات ہے۔
روزہ دار کے پاس کھایاجائے تواس کی کیا فضیلت ہے؟
حضرت اُم عماریہ انصاریہ رضی اللہ عنہا جو کعب کی بیٹی ہیں وہ فرماتی ہیں کہ ایک بار بلاشبہ نبی کریمﷺ میرے پاس تشریف لائے میں نے کھانا پیش کیا آپﷺنے فرمایا:تو ( بھی) کھا ،میں عرض کیا کہ میں روزے سے ہوں پس رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ روزہ دارپر فرشتے رحمت کی دعا کرتے ہیں جب اس کے پاس کھایا جائے۔( ترمذی، ابن ماجہ)
حضرت بریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک دن حضرت بلالؓ کو صبح کے کھانے کی دعوت دی۔حضرت بلالؓ نے عرض کیا کہ میں روزے سے ہوں، اس پر رسول اللہﷺ نے ارشادفرمایا کہ ہم اپنا رزق کھارہے ہیں اور بلالؓ کا رزق جنت میں باقی ہے۔پھر ارشاد فرمایا:اے بلالؓ کیا تمہیں معلوم ہے بے شک روزہ دار کی ہڈیاں تسبیح کرتی ہیں اور اس کے لئے فرشتے استغفار کرتے ہیں جب تک کہ اس کے پاس کھایا جائے۔
تحفۂ رمضان …برکتوں کاخزانہ
کلام ہادیٔ عالمﷺ (شمارہ 453)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ کے راستے میں ایک جیسی دوچیزیں خرچ کرے گا تو جنت کے دروازوں سے بلایا جائے گا، اے اللہ کے بندے!اس میں خیر ہے، پس جو کوئی نمازوالوں میں سے ہوگا تو اسے نماز والے ’’دروازے‘‘ سے بلایا جائے گا اور جو کوئی ’’جہاد‘‘ کرنے والوں میں سے ہوگا تو بابُ الجہادسے بلایاجائے گا اور جو کوئی روزہ رکھنے والوں میں سے ہوگا تواسے ’’ریّان‘‘ نامی دروازے سے بلایا جائے گا اور جو کوئی صدقہ کرنے والوں میں سے ہوگا تواسے بابُ الصدقہ سے بلایا جائے گا۔ (یہ سن کر) ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول! آپ پرمیرے ماں باپ قربان ہوں!سب دروازوں میں سے بلائے جانے کی ضرورت نہیں( کیونکہ جنت میں تو ایک ہی دروازے سے داخل ہوجانا بھی بڑی نعمت ہے)مگر کیا کوئی ایسا شخص( بھی) ہے جسے ان سب دروازوں سے بلایا جائے گا؟ آپﷺ نے فرمایا: جی ہاں! اور میں امید کرتا ہوں کہ تم انہی میں سے ہوگے۔( بخاری ومسلم)
فائدہ:بظاہر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک حدیث میںتو یہ بتایا گیا ہے کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں اور اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہرنیک عمل کا الگ الگ دروازہ ہے؟ تو اس سلسلے میں محدثین کرام نے بتایا ہے کہ اس مذکورہ بالا حدیث میں جن دروازوں کا تذکرہ ہے اس سے اندرونی دروازے مراد ہیں جیسے کسی قلعہ کے بڑے بڑے پھاٹک نما آٹھ گیٹ ہوں پھر آگے عمارت میں داخل ہونے کے لئے کثیر تعداد میں دروازے ہوں،اسی طرح گویا جنت کے مرکزی دروازے آٹھ ہوں گے اور آگے ہرخاص نیک عمل کے لحاظ سے اندرونی دروازے الگ الگ ہوں گے۔ واللہ اعلم
اس حدیث کے سلسلے میں دوسری بات یہ ہے کہ ہر نیک عمل کا الگ دروازہ ہونا اور اس نیک عمل کی وجہ سے اس دروازے سے بلائے جانے کا جس ’’عمل‘‘ سے تعلق ہے اِس سے وہ عمل مراد ہے جس سے عمل کرنے والے کا خاص تعلق ہو اور اپنی زندگی میں اس خاص عمل میں بہ نسبت دوسرے اعمال کے زیادہ مشغول رہتا ہو اور ظاہر ہے کہ یہ بات مسنون اور نفل اعمال میں ہوتی ہیں کیونکہ فرائض اور واجبات کو تو عموماًدیندار لوگ ادا کر ہی لیتے ہیں اور اس میں کثرت کی خصوصیت نہیں نکل سکتی، اس لیے حاصل یہ ہوا کہ ہر عبادت میں فرائض کے علاوہ کے نوافل کا بھی خاص اہتمام کرنا چاہئے۔
تیسری بات یہ کہ اس حدیث میںیہ جو فرمایاگیا کہ بعض خوش نصیبوں کو ہر دروازے سے بلایا جائے گا تو یہ ان کے خاص اعزاز و اکرام کے طو پر ہوگا، ورنہ داخلہ تو ایک ہی دروازہ سے ہوگا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے رمضان المبار ک کے روزے رکھے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی امید رکھتے ہوئے تو اس کے گذشتہ گناہ معاف کردئیے جائیں گے۔( بخاری ومسلم)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہارے پاس رمضان کا مبارک مہینہ آیا ہے اللہ تعالیٰ نے تم پر اس( ماہ مبارک ) کے روزے فرض کئے ہیں۔ اس میں آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور اس میں بڑے بڑے سرکش شیاطین کو بیڑیوں میں جکڑ دیا جاتا ہے،اللہ تعالیٰ نے اس میں ایک ( ایسی) رات رکھی ہے جو ہزار مہینوں سے بہترہے جو شخص اس کی خیر سے محروم ہو گیا تو وہ محروم( ہی) ہوگیا( جو شخص ذراسی مشقت برداشت کر کے اتنی بڑی خیر نہ لے سکا اس کی محرومی کا کیا ٹھکانہ ہے)( نسائی)
حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ(جب ) رمضان المبارک کا مہینہ آیا تو رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:بے شک یہ مہینہ تمہارے پاس آپہنچا ہے اور اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو شخص اس رات ( کی خیرسے) محروم ہوگیا تو وہ ساری خیر سے محروم ہو گیا اور اس کی خیر سے وہی محروم ہوتا ہے جو پورا پورا محروم ہو۔( ابن ماجہ)
سحری کھانے اور اس میں تاخیر کرنے اور افطاری کرنے اور اس میں جلدی کرنے کی فضیلت
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: تم سحری کھایا کرو پس بے شک سحری( کھانے ) میں برکت ہے۔( بخاری ومسلم)
حضرت عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں سحری کھانے کا فرق ہے ۔ (یعنی ہم سحری کھاتے ہیں اور اہل کتاب نہیں کھاتے)( مسلم)
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بلاشبہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:لوگ ہمیشہ خیر کے ساتھ رہیں گے جب تک وہ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔( بخاری ومسلم)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ( میرے نزدیک ) سب سے زیادہ محبوب بندے وہ ہیں جو افطار میں جلدی کرنے والے ہیں۔( ترمذی)
رسول اللہﷺ کے صحابہؓ میں سے ایک صحابی فرماتے ہیں کہ میں نبی کریمﷺ کے پاس داخل ہوا۔ آپﷺ سحری کھا رہے تھے پس آپﷺ نے فرمایا(سحری) برکت ہے جو اللہ تعالیٰ نے خاص تم کوعطا کی ہے پس اس کو نہ چھوڑو۔( نسائی)
حضرت ابوعطیہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں اور مسروقؓحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے( اور) ہم نے عرض کیا:اے اُمّ المومنین!رسول اللہﷺ کے اصحاب میں دو آدمی( یعنی دوصحابہ ایسے ہیں) کہ ایک ان میں سے افطار اور نماز(مغرب) میں جلدی کرتا ہے اور دوسرا افطار اور نماز میں دیر کرتا ہے تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ وہ کون ہے جو افطار اور نماز میں جلد ی کرتا ہے ہم نے کہا کہ( جلدی کرنے والے) عبداللہ بن مسعودؓ ہیں، حضرت عائشہؓ نے فرمایا:رسول اللہﷺ بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔ ( مسلم)
٭…٭…٭
تحفۂ رمضان …برکتوں کاخزانہ
کلام ہادیٔ عالمﷺ (شمارہ 452)
رمضان اور روزوں کے فضائل
(۱)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جب رمضان المبارک کا( مہینہ) آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے۔( بخاری و مسلم )
(۲)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ماہِ رمضان کی جب پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنات کو بیڑیوں میں جکڑ دیا جاتا ہے اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں(حتی کہ) ان میں سے کوئی ایک دروازہ (بھی)نہیں کھولاجاتا اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں (حتی کہ) ان میں سے کوئی ایک دروازہ (بھی)بند نہیں کیا جاتا اور ایک پکارنے والاکہتا ہے: اے خیر کے طلبگار! آگے بڑھ اور اے شر کے چاہنے والے !رُک جا۔ اور (رمضان میں)اللہ پاک کی طرف سے بہت سے لوگوں کو(جہنم سے) آزاد کیا جا تا ہے اور ایسا(رمضان کی) ہر رات میں ہوتا ہے۔( ترمذی ،ابن ماجہ)
روزوں کی فضیلت
(۳)حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: ابن آدم کے ہر عمل کا ثواب بڑھا دیا جاتا ہے، ایک نیکی کا ثواب دس سے لے کر سات سو تک (بڑھا دیا جاتا ہے) (مگر روزے کے بارے میں) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: روزہ میرے لئے ہے اور میں خود ہی ( اپنے بندے کو) اس کا ثواب عطا کروں گا ( اس لئے کہ وہ ) میری وجہ سے اپنی خواہش (کو پورا کرنے ) اور کھانے کو چھوڑتا ہے۔
روزہ دار کے لئے دوخوشیاں ہیں: ایک خوشی تو افطار کے وقت ہوتی ہے اور( دوسری) خوشی اُس وقت ہوگی جب وہ( قیامت کے دن) اپنے رب سے ملاقات کرے گا۔( روزہ کی وجہ سے ) اس کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بڑھ کر( پسندیدہ) ہے۔
دوسری روایت میں الفاظ یوں ہیںکہ روزہ (گناہوں سے بچنے کے لئے) ڈھال ہے، پس جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ اس دن خواہشاتِ نفس والی(حلال) باتیں(یعنی اپنی بیوی سے صحبت)بھی نہ کرے اور نہ کسی سے جھگڑا کرے۔ اگر کوئی دوسرا آدمی اس سے گالی گلوچ کرنے لگے یا اس سے لڑنے لگے تو اسے یوں کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں(لڑنا جھگڑنامیرا کام نہیں ہے) (بخاری ومسلم)
(۴) حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:بلاشبہ جنت میں ایک دروازہ ہے جس کو ’’ریّان‘‘ کہا جاتا ہے۔قیامت کے دن روزہ دار اس دروازے سے(جنت میں) داخل ہوں گے اور ان کے علاوہ کوئی اور شخص اس دروازے سے جنت میں داخل نہ ہوسکے گا۔(اُس دن) پکارا جائے گا: کہاں ہیں روزہ دار؟ بس(اس پکار کے بعد) وہ روزہ دار اُس دروازے سے (جنت)میں داخل ہوں گے، (پھر) جب آخری روزہ دار(بھی) داخل ہوجائے گا تو یہ دروازہ بند کر دیا جائے گا،پھر کوئی اور شخص اس سے داخل نہ ہو سکے گا۔(مسلم)
فائدہ:اس حدیث میں جن روزہ داروں کا تذکرہ ہے اس سے وہ خاص روزہ دار مراد ہیں جو فرض روزوں کے علاوہ نفل روزے بھی کثرت سے رکھتے ہوں، روزوں سے انہیں خاص شغف اور تعلق ہو، یہاں تک کہ یہ روزہ ان کی پہچان، نشانی اوران کی امتیازی صفت بن گیاتو ایسے لوگوں کو اس ’’ریّان‘‘ نامی دروازے سے جنت میں داخل کیا جائے گا۔
ریّان کا معنیٰ ہے ’’بہت زیادہ تروتازگی والا‘‘ چونکہ روزہ داراللہ تعالیٰ کی رضاء کے لیے سخت بھوک، پیاس اور گرمی وغیرہ برداشت کرتا ہے تو اس کے اس پُرمشقت عمل کے بدلے میں قیامت کے دن اسے جنت کے ایسے دروازے سے داخل کیا جائے گا جو اسے تروتازگی اور فرحت سے سرشار کردے گا۔ واللہ اعلم
(۵)حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے پاس آیا( اور) عرض کیا: مجھے آپ ایسا عمل بتلائیے، جسے میں آپﷺ سے حاصل کروں۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: روزے رکھتے رہا کروکیونکہ اس کی مثل کوئی (عبادت) نہیں۔( نسائی)
فائدہ:حدیث مبارک سے معلوم ہوا کہ روزہ بڑی شان اور امتیاز والی عبادت ہے، فرض روزے تو رکھنے ہی ہوتے ہیں مگر اس کے علاوہ بھی مسنون اور نفل روزے رکھنے کا خاص اہتمام کرنا چاہئے کہ نبی کریمﷺ نے اپنے صحابی کو اس کی خاص تاکید فرمائی اور ساتھ یہ بھی واضح فرمایا کہ یہ ایک مثالی عبادت ہے اوراس میں جو خاص شان پائی جاتی ہے وہ کسی اورعمل میں نہیں پائی جاتی۔
٭…٭…٭
الا عتصام بالکتاب والسنۃ
کلام ہادیٔ عالمﷺ (شمارہ 451)
حضرت ابوہریرہؓ کی اس حدیث میں ان اصحاب عزیمت کو خوشخبری سنائی گئی ہے کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو فی سبیل اللہ شہید ہونے والوں کادرجہ اور اجرو ثواب ملے گا۔
مشکوٰۃ المصابیح میں حضرت ابو ہریرہؓ ہی کی روایت سے حدیث ان الفاظ میں نقل کی گئی ہے
’’من تمسک بسنتی عند فسادامتی فلہ اجرمأۃ شہید‘‘
یعنی جو شخص میری امت کے فساد و بگاڑ کے وقت میری سنت اور میرے طریقہ پر مضبوطی سے قائم رہے گا اسے سو شہیدوں کادرجہ اور اجروثواب ملے گا۔
یہاں یہ بات خاص طور سے قابل لحاظ ہے کہ عام طور پر سنت کا لفظ ایک مخصوص اور محدود معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے مگر حدیث میں’’ سنت‘‘ سے مراد آپﷺکا طریقہ اور آپﷺ کی ہدایت و تعلیم ہے جس میں عقائد اور فرائض و واجبات بھی شامل ہیں۔
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جس نے میری کوئی سنت زندہ کی جو میرے بعد مردہ ہوگئی تھی تو اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ ہوگا۔( ترمذی)
رسول اللہﷺ کی کسی ہدایت اور کسی سنت پر جب تک عمل ہو رہا ہے اور وہ رواج میں ہے تو وہ زندہ ہے اور جب اس پر عمل متروک ہوجائے اور رواج میں نہ رہے تو گویا اس کی زندگی ختم کردی گئی۔ اب آپﷺکا جو وفادار اُمتی آپﷺ کی اس سنت اور ہدایت کو پھر سے عمل میں لانے اور رواج دینے کی جدوجہد کرے اس کے لئے اس حدیث میں آپﷺ نے فرمایا ہے کہ اس نے مجھ سے محبت کی اور اب وہ آخرت اور جنت میں میرے ساتھ اور میرا رفیق ہوگا۔
حضرت بلال بن حارث المزنی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جس نے میری کوئی سنت زندہ کی جو میرے بعد ختم کردی گئی تھی( متروک ہوگئی تھی) تو اس شخص کو ان تمام بندگانِ خدا کے اجروثواب کے برابر اجروثواب ملے گا جو اس پر عمل کریں گے بغیر اس کے کہ ان عمل کرنے والوں کے اجروثواب میں کچھ کمی کی جائے ۔ ( جامع الترمذی)
اس حدیث کے مضمون کو اس مثال سے اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ فرض کیجئے کسی علاقے کے مسلمانوں میں زکوٰۃ ادا کرنے کا یا مثلاً باپ کے ترکہ میں بیٹیوں کو حصہ دینے کا رواج نہیں رہا، پھر کسی بندئہ خدا کی محنت اور جدوجہد سے اس گمراہی اور بے دینی کی اصلاح ہوئی اور لوگ زکوٰۃ اداکرنے لگے اور بیٹیوں کو شرعی حصہ دیاجانے لگا تو اس کے بعد علاقہ کے جتنے لوگ بھی زکوٰۃادا کریں گے اور بہنوں اور بیٹیوں کو ان کا شرعی حق دیں گے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس عمل کا جتنا اجروثواب ملے گا اس سب کے مجموعہ کے برابر اس بندے کو عطا ہوگا جس نے ان دینی احکام و اعمال کو پھر سے زندہ کرنے اور رواج دینے کی جدوجہدکی تھی اور یہ اجرعظیم اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے خصوصی انعام کے طورپر عطا ہوگا،ایسا نہیں کہ عمل کرنے والوں کے اجر سے کاٹ کر اور کچھ کم کرکے دیا جائے۔
حضرت عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: دین اسلام جب شروع ہوا تو وہ غریب( یعنی لوگوں کے لئے اجنبی اور کسمپرسی کی حالت میں)تھا پس شادمانی ہوغربا کے لئے اور( غربا سے مراد) وہ لوگ ہیں جو اس فساد اور بگاڑ کی اصلاح کی کوشش کریں گے جو میرے بعد میری سنت( اور میرے طریقہ) میں لوگ پیدا کریں گے۔( جامع ترمذی)
ہماری زبان میں تو’’غریب‘‘ نادار اور مفلس آدمی کو کہا جاتا ہے لیکن اس لفظ کے اصل معنیٰ ایسے پردیسی کے ہیں جس کا کوئی شناسا اور پر سان حال نہ ہو۔
رسول اللہﷺ کے اس ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ جب اسلام کی دعوت کا آغاز ہوا تھا اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپﷺ نے اہل مکہ کے سامنے اسلام پیش کیا تھا تو اس کی تعلیم، اس کے عقائد ، اس کے اعمال اور اس کا نظام زندگی لوگوں کے لئے بالکل نامانوس اور اجنبی تھے اور وہ اس وقت ایسے غریب الوطن پردیسی کی طرح تھا جس کا کوئی جاننے پہچاننے والا اور کوئی اس کی بات پوچھنے والا نہ ہو،پھر رفتہ رفتہ یہ صورت حال بدلتی رہی لوگ اس سے مانوس ہوتے رہے اور اس کو اپناتے رہے،یہاں تک کہ ایک وقت آیا کہ پہلے مدینہ منورہ کے لوگوں نے اجتماعی طور پر اس کو سینہ سے لگایا…
الا عتصام بالکتاب والسنۃ
کلام ہادیٔ عالمﷺ (شمارہ 450)
حقیقی مومن
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی حقیقی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہشات میری لائی ہوئی ہدایت و تعلیم کے تابع نہ ہوجائیں۔(شرح السنہ)
حدیث کا پیغام اور مدعا یہ ہے کہ حقیقی مومن وہی ہے جس کا دل و دماغ اور جس کی خواہشات ورجحانات آپﷺ کی لائی ہوئی ہدایت و تعلیم( کتاب و سنت) کے تابع ہو جائیں یہ آپﷺ پر ایمان لانے اور آپﷺ کو خدا کا رسول مان لینے کا لازمی اور منطقی نتیجہ بھی ہے۔ اگر کسی کا یہ حال نہیں تو سمجھنا چاہئے کہ اس کو حقیقی ایمان بھی نصیب نہیں ہوا ہے، وہ اس کی فکر اور اپنے کو اس معیار پر لانے کی کوشش کرے۔
سنت رسولﷺ واجب الاتباع ہے
حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: سن لو اور آگاہ رہو کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے (ہدایت کے لئے) قرآن بھی عطاہوا ہے اور اس کے ساتھ اس کے مثل اور بھی ،آگاہ رہو کہ عنقریب بعض پیٹ بھرے لوگ پیدا ہوں گے جو اپنے شاندار تخت یا مسہری پر( آرام کرتے ہوئے) لوگوں سے کہیں گے کہ بس اس قرآن ہی کو لے لو اور اس میں جس کو حلال بتایا گیا ہے اس کو حلال جانو اور جو حرام قرار دیا گیا ہے اس کو حرام سمجھو(یعنی حلال وحرام بس وہی ہے جس کو قرآن میں حلال یا حرام بتایا گیا ہے، اس کے سواکچھ نہیں) پھر رسول اللہﷺ نے( اس گمراہانہ نظریہ کی تردید کرتے ہوئے) فرمایا واقعہ یہ ہے کہ جن چیزوں کو اللہ کے رسول نے حرام قرار دیا ہے وہ بھی انہی چیزوں کی طرح حرام ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں حرام قرار دیا ہے۔(ابو دائود والدارمی وابن ماجہ)
اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہﷺ پر جو وحی آتی تھی، اس کی دوصورتیں تھیں، ایک متعین الفاظ اور عبارت کی شکل میں، اس کو’’ وحی متلو‘‘ کہاجاتا ہے( یعنی وہ وحی جس کی تلاوت کی جائے) یہ حیثیت قرآن مجید کی ہے، دوسری صورت وحی کی یہ ہوتی تھی کہ آپﷺ کو مضمون کا القا اور الہام ہوتاتھا آپ ان معانی کو اپنے الفاظ میں بیان فرماتے یا عمل کے ذریعہ تعلیم دیتے تھے اس کو’’ وحی غیر متلو‘‘ کہاجاتا ہے یعنی وہ وحی جس کی تلاوت نہیں کی جاتی،اس کا نام حدیث ہے، رسول اللہﷺ کی دینی ہدایات و ارشادات کی حیثیت یہی ہے۔ اس کی بنیاد بھی وحی الہٰی پر ہے اور وہ قرآن ہی کی طرح واجب الاتباع ہے۔
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ پر یہ چیز منکشف فرمادی تھی کہ آپ کی اُمت سے ایسے لوگ اُٹھیں گے جو یہ کہہ کر لوگوں کو گمراہ اور اسلامی شریعت کو معطل کریں گے کہ دینی احکام بس وہی ہیں جو قرآن میں ہیں اور جو قرآن میں نہیں ہے وہ دینی حکم ہی نہیں ہے، رسول اللہﷺ نے اس حدیث میں اُمت کو اس فتنہ سے باخبر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ مجھے ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن بھی عطا ہوا ہے اور اس کے ساتھ اس کے علاوہ وحی غیر متلو کے ذریعہ بھی احکام دئیے گئے ہیں اور وہ قرآن کریم ہی کی طرح واجب الاتباع ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ حدیث نبوی کے حجت دینی ہونے کے منکر ہیں وہ اسلامی شریعت کے پورے نظام سے آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ قرآن مجید میں صرف اصولی تعلیم اور احکام ہیں، ان کے بارے میں وہ ضروری تفصیلات جن کے بغیر ان احکام پر عمل نہیں ہو سکتا، رسول اللہﷺ کی فعلی یا قولی احادیث ہی سے معلوم ہوتی ہیں، مثلاً قرآن مجید میں نماز کا حکم ہے۔ لیکن نمازکس طرح پڑھی جائے یہ قرآن میں کہیں نہیں ہے، یہ ساری تفصیلات احادیث ہی سے معلوم ہوتی ہیں، اسی طرح مثلاً قرآن مجید میں زکوٰۃ کا حکم ہے لیکن یہ نہیں بتلایا گیا کہ زکوٰۃ کس حساب سے نکالی جائے اور ساری عمر میں ایک دفعہ نکالی جائے یا ہر سال یا ہرمہینے نکالی جائے۔ یہی حال اکثر و بیشتر قرآنی احکام کا ہے۔
الغرض حدیث کے حجت دینی ہونے کا انکار انجام کے لحاظ سے پورے نظام دینی کا انکار ہے، اس لئے رسول اللہﷺ نے اس کے بارے میں اُمت کو خاص طور پر آگاہی دی ہے۔ یہ حدیث اس حیثیت سے حضورﷺ کا معجزہ بھی ہے کہ اس میں آپﷺ نے اُمت میں پیدا ہونے والے اس فتنہ( انکار حدیث)کی اطلاع دی ہے، جس کا آپﷺ کے زمانے میں بلکہ صحابہ وتابعین اور تبع تابعین کے زمانوں میں تصور تک نہیں کیا جاسکتا تھا۔( معارف الحدیث جلد ۸)
فتنہ و فساد کے دور میں سنت رسول ﷺ سے وابستگی
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو شخص میری امت کے فسادو بگاڑ کے وقت میری سنت اور میرے طریقہ سے وابستہ رہے اور اس کو مضبوطی سے پکڑے رہے،اس کے لئے شہید کا ثواب ہے۔ (رواہ الطبرانی فی الاوسط)
متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ پر منکشف کیا گیا تھا کہ اگلی اُمتوں کی طرح آپﷺکی اُمت میں بھی فساد و بگاڑ آئے گا اور ایسے دور بھی آئیں گے جب اُمت میں بے راہ روی اور نفس و شیطان کی پیروی عام ہوجائے گی اور اس کی غالب اکثریت آپ ﷺ کی ہدایت و تعلیم اور آپﷺ کے طریقہ کی پابند نہیں رہے گی۔ ظاہر ہے کہ ایسے فاسد ماحول میں اور ایسی ناموافق فضا میں آپﷺ کی ہدایت اور سنت و شریعت پر قائم رہ کر زندگی گزارنا بڑی عزیمت کا کام ہوگا اور ایسے بندوں کو بڑی مشکلات کا سامنا اور بڑی قربانیاں دینی ہوں گی۔
الا عتصام بالکتاب والسنۃ
کلام ہادیٔ عالمﷺ (شمارہ 449)
مسلم شریف کی ایک حدیث میں جو حضرت عبداللہ بن عمروبن عاصؓ سے مروی ہے، جناب رسول اللہﷺ کا ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:جب تم مؤذن کو اذان کہتے ہوئے سنو تو تم بھی اسی طرح کہو جس طرح مؤذن کہتا ہے گویا کہ ہر مسلمان کو حکم ہے کہ وہ اذان سنتے وقت اس ایمانی دعوت کے ہر جزو اور ہر کلمے کی اپنے دل اور اپنی زبان سے تصدیق کرے۔ اس کے بعد ( یعنی جب اذان ختم ہو جائے) تو اذان کہنے والا اور سننے والے مجھ پر درود بھیجیں، اس لئے کہ جو آدمی مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس دفعہ درود بھیجتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ سے میرے لئے’’ وسیلہ‘‘ کا خاص درجہ اور مرتبہ مانگو۔ بیشک وہ جنت میں ایک درجہ ہے جو اللہ کے بندوں میں سے ایک بندے کے لائق ہے اور مجھے امید ہے کہ وہ میں ہوںگا۔ پس جس نے میرے لئے ’’ وسیلہ‘‘کی دعا کی،میری شفاعت اس کے لئے واجب ہوگئی۔( مسلم ومشکوٰۃ) ’’ وسیلہ‘‘ اور’’ فضیلہ‘‘ اور ’’مقام محمود‘‘ کو نسا مقامِ اختصاص ہے اس کا ذکر تو اپنے مقام پر آئے گا یہاں اس حدیث کے ذکر کرنے کا یہ مقصد ہے کہ حضور اقدسﷺ نے اذان کے بعد ہر مومن کو جو درود شریف اور دعاء وسیلہ پڑھنے کے لئے ارشاد فرمایا یہ اذان کا حصہ نہیں بلکہ اذان کے ختم ہوجانے کے بعد اذان پڑھنے والے اور اذان سننے والے ہر مومن کو درود شریف اور دعا پڑھنے کی تعلیم دی گئی ہے۔
اذان کے سلسلہ کی ساری احادیث کو پیش نظر رکھا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ حضورﷺ نے دردو شریف کو اذان کا حصہ یا جزو نہیں بتلایا۔ ویسے دردو شریف کے فضائل اپنی جگہ بے حدو حساب ہیں لیکن اس دورفتن میں بعض لوگ اذان کے ساتھ دردو شریف ملا کر اس طرح پڑھتے ہیں جیسے یہ بھی اذان کا جزو ہو۔ پھر اس پر اصرار بھی کرتے ہیں کہ ایسا نہ کرنے والے کو مطعون کرتے ہیں۔ یہی دین میں اپنی طرف سے اضافہ ہے اور اسی کا نام’’احداث فی الدین‘‘ ہے اسی لئے نبی کریمﷺ نے فرمایا:’’من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھورد‘‘( بخاری) فرمایا کہ جس کسی نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی بات ایجاد کی جو اس میں نہیں تو اس کی وہ بات رد ہے۔ جب خود حضور اکرمﷺ نے اذان سے پہلے یا بعد بلند آواز سے دردو شریف پڑھنے کا حکم نہیں فرمایا تو اب اپنی خواہش سے اذان میں اضافہ کرنا اور جو ایسا نہ کرے اسے اسلام ہی سے خارج کرنا کونسا ایمان و اسلام ہے۔
یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص نماز میں بحالت قیام سورۂ فاتحہ اور قرآن پڑھنے کے بجائے دردو شریف پڑھنے لگے یا رکوع اور سجدہ میں بجائے تسبیحات کے قرآن مجید کی آیات پڑھنے لگے جبکہ خود نبی اکرمﷺ نے بحالت رکوع و سجدہ قرآن شریف پڑھنے سے منع فرمایا ہے جیسا کہ مسلم شریف کی ایک حدیث میں رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے کہ مجھے اس کی ممانعت ہے کہ رکوع و سجدہ کی حالت میں قرآن مجید کی تلاوت کروں۔ ( صحیح مسلم) اور جب ایسا کرنے والے شخص کو کہا جائے کہ تم نماز اس طرح پڑھو اور رکوع اور سجدہ میں تسبیحات’’ سبحان ربی العظیم‘‘ اور’’ سبحان ربی الا علیٰ‘‘ پڑھو۔ تو وہ اس کے جواب میں کہے کہ میں نے کوئی غلط کلمہ نہیں کہا بلکہ نماز میں بحالت قیام دردوشریف ہی تو پڑھا ہے اور اس کے ساتھ دردو شریف کے فضائل کی کتاب کھول کر بیٹھ جائے اور یہ بھی کہے کہ میں نے رکوع وسجدہ میں قرآن شریف ہی تو پڑھا ہے اور قرآن کے فضائل بیان کرنے لگے تو ظاہر ہے کہ اسے ہر سمجھدار مسلمان احمق اور جاہل ہی کہے گاکیونکہ اس نے نبی اکرمﷺ کے بتلائے ہوئے طریقہ عبادت میں تحریف کردی اور اسے بدل کر اپنی رائے دین میں داخل کردی۔ یہی احداث فی الدین ہے اسی کو بدعت کہا گیا ہے اور فرمایا ہے کل بدعۃ ضلالۃ و کل ضلالۃ فی النار۔
بدعت کا راز
حضرت ابو بکر صدیقؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ابلیس نے کہا گناہ کراتے کراتے میں نے آدمیوں کی کمریں توڑدیں اور توبہ کر کرکے انہوں نے میری کمرتوڑ دی، جب میں نے یہ مصیبت دیکھی تو میں نے ان کو بدعتوں میں پھنسا دیا تاکہ وہ یہی سمجھتے رہیں کہ وہ بڑے اچھے کام کرر ہے ہیں، اس لئے تو بہ ہی نہ کرنے پائیں۔(الترغیب والترہیب رواہ ابن عاصم)
اس حدیث سے بدعت کی ایجاد کا راز کھل گیا، جن حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بدعتی کی توبہ قبول نہیں ہوتی جب تک کہ وہ اپنی بدعت سے توبہ نہ کرے، اس کی ایک توجیہہ بھی نکل آئی کہ بدعتی جب اپنی بدعت کو سنت اور حسنہ سمجھتا ہے تو اس سے توبہ ہی نہیں کرتا۔ اگر توبہ کرتا تو قبول ہوتی۔( جواہر الحکم)
الا عتصام بالکتاب والسنۃ
کلام ہادیٔ عالمﷺ (شمارہ 448)
آج اگر کوئی شخص نماز مغرب کی تین کے بجائے چار رکعت اور صبح کی دوکے بجائے تین یا چار رکعت پڑھنے لگے یا روز ہ مغرب تک رکھنے کے بجائے عشاء کے بعد تک رکھے تو ہر سمجھ دار مسلمان اس کو غلط اور ناجائز کہے گا حالانکہ اس غریب نے بظاہر کوئی گناہ کا کام نہیں کیا کچھ تسبیحات زیادہ پڑھیں، کچھ اللہ کا نام زیادہ لیا پھر اس کو بالاتفاق برا اور ناجائز سمجھنا کیا صرف اسی لئے نہیں کہ اس نے آنحضرتﷺ کے بتلائے اور سکھائے ہوئے طریقہ عبادت پر زیادتی کر کے عبادت کی صورت بدل ڈالی اور ایک طرح سے اس کا دعویٰ کیا کہ شریعت کو آنحضرتﷺ نے مکمل نہیں کیا تھا اس نے کیا ہے یا معاذاللہ آپﷺ نے ادائے امانت میں کوتاہی اور خیانت برتی ہے کہ یہ نئے اور مفید طریقے عبادت کے نہیں بتلائے۔ حقیقت یہ ہے کہ عبادات شرعیہ میں اپنی طرف سے قیدوں، شرطوں کا اضافہ شریعت محمدیہ کی ترمیم اور تحریف ہے اس لئے اس کو شدت کے ساتھ روکا گیا ہے اور ہر صاحب علم کا فرض ہے کہ بدعات و محدثات کا ردکرے اور سنت رسول اللہﷺ کوقائم کرے۔ محدث آجریؒ کی کتاب السنۃ میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
جب میری اُمت میں بدعتیں پیدا ہوجائیں اور میرے صحابہؓ کو برا کہا جائے تو اس وقت کے عالم پر لازم ہے کہ اپنے علم کو ظاہر کرے اور جو ایسا نہ کرے گا اس پر لعنت ہے اللہ کی اور فرشتوں کی اور سب انسانوں کی ۔ عبداللہ بن حسن ؒ نے فرمایا کہ میں نے ولید بن مسلم سے دریافت کیا کہ حدیث میں اظہار علم سے کیا مراد ہے ، فرمایا:اظہار سنت، حضرت حسن بصریؒ نے فرمایا کہ بدعت والا آدمی جتنا زیادہ روزہ اور نماز میں مجاہدہ کرتاجاتا ہے اتنا ہی اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے نیزیہ بھی فرمایا کہ صاحب بدعت کے پاس نہ بیٹھو کہ وہ تمہارے دل کو بیمار کردے گا۔( الاعتصام للشاطبی)
بدعت کی ایک مثال
آنحضرتﷺ نے ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کو اذان کی جو تلقین فرمائی وہ اس طرح ہے،حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اذان پڑھنا مجھے رسول اللہﷺ نے بہ نفس نفیس سکھایا۔ مجھ سے فرمایا کہو:
اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر،اشہدان لاالہ الااللّٰہ، اشہدان لاالہ الااللّٰہ، اشہدان محمداً رسول اللّٰہ، اشہدان محمداًرسول اللّٰہ… آپﷺ نے فرمایا:پھر دوبارہ یہی کہو۔اشہد ان لاالہ الااللّٰہ،اشہدان لاالہ الااللّٰہ،اشہدان محمداً رسول اللّٰہ، اشہد ان محمداً رسول اللّٰہ، حی علی الصلوٰۃ حی علی الصلوٰۃ، حی علی الفلاح، حی علی الفلاح ، اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر،لاالہ الااللّٰہ( رواہ مسلم)
٭حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے مجھے اذان سکھائی انیس کلمے اور اقامت سترہ کلمے۔ (مسند احمد، جامع ترمذی، سنن ابو دائود، سنن نسائی، مسند دارمی، ابن ماجہ)
حضرت ابو محذورہؓ کی پہلی روایت میں اذان کے پورے انیس کلمے ہیں، کیونکہ شہادت کے چاروں کلمے اس میں مکرر آئے ہیں اور اقامت میں سترہ کلمے اس طرح ہوں گے کہ شہادت کے کلمے مکررنہ ہونے کی وجہ سے چار کلمے کم ہوجائیں گے اور’’ قدقامت الصلوٰۃ‘‘ دوکلموں کا اضافہ ہوجائے گا اس کمی بیشی کے بعد ان کی تعداد پوری سترہ ہوجائے گی۔
جن احادیث میں حضرت بلالؓ کو اذان بتلائے جانے کا ذکر ہے اور جو اذان خواب میں حضرت عبداللہ بن زید بن عبدربہؓ اور حضرت عمرؓ کو بتلائی گئی اس میں شہادت کے چار چار کلمات ہیں۔ اس طرح اذان کے پندرہ کلمات بنتے ہیں اور اقامت کے ساتھ سترہ کلمات بنتے ہیں۔
ان احادیث میں جس اذان کا ذکر کیا گیا ہے وہ اللہ اکبر سے شروع ہوئی ہے اور لا الہ الا اللہ پر ختم ہوتی ہے۔ لیکن اب بعض لوگ اذان کے ساتھ دردوشریف پڑھنا لازمی سمجھتے ہیں جیسا کہ دردوشریف اذان کا جزیا حصہ ہو۔
اس طرح اذان کے سترہ سے زیادہ انیس یااکیس کلمے بن جاتے ہیں، جبکہ اذان کے سترہ کلمے ہیں اور اگر شہادت کے کلمے مکررہوں تو انیس کلمے ہوں گے۔
اذان کے ساتھ دردوشریف کے اس اضافے کا مطلب یہ بنتا ہے کہ حضوراقدسﷺ نے معاذاللہ ناقص اذان بتلائی تھی اور اب اس اضافے کے ساتھ اذان کو مکمل کیا گیا ہے۔
الا عتصام بالکتاب والسنۃ
کلام ہادیٔ عالمﷺ (شمارہ 447)
نہ اللہ و رسول اللہﷺ کی طرف سے صراحۃً یااشارۃً ان کا حکم دیا گیا ہو، نہ شرعی اجتہاد و استحسان اور قواعد شریعت پر ان کی بنیاد ہو، حدیث کے الفاظ’’ فی امرناھذا’’ اور ’’مالیس منہ‘‘ کا مقصد و مطلب یہی ہے۔ پس دنیا کی وہ ساری چیزیںاور ایجادات وغیرہ جن کو کوئی دینی چیز اور وسیلہ رضائے الہٰی و باعث ثواب نہیں سمجھا جاتا ان کا اس حدیث سے کوئی تعلق نہیں ہے لہذا شرعی اصطلاح کے لحاظ سے ان کو بدعت نہیں کہاجائے گا جیسے نئی نئی قسم کے لباس،مکانات،ذرایع سفر وغیرہ اور دنیا کی وہ تمام چیزیں جن کوکوئی بھی امر دینی نہیںسمجھتا ان سے بھی اس حدیث کا کوئی تعلق نہیں۔ ہاں جن چیزوں کو امردینی سمجھا جائے اور ان سے ثواب آخرت کی اُمید کی جائے وہ اس حدیث کا مصداق اور قابل رد اور بدعت ہیں۔موت اور غمی کے سلسلہ کی زیادہ رسوم اسی قبیل سے ہیں،جیسے تیجہ، چاوتھہ، چالیسواں، برسی، جمعرات کے روز مردوں کے لئے فاتحہ، بڑے پیر صاحب کی گیارہویں، بارہویں،رجب کے کونڈے، قبروں پر میلے ٹھیلے لگانا ان سب چیزوں کو امر دینی سمجھا جاتا ہے اور ثواب آخرت کی ان سے امید رکھی جاتی ہے اس لئے یہ سب حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا مصداق اور مردودبدعات و محدثات ہیں۔
پھر ان عملی بدعات سے زیادہ مہلک و ہ بدعات ہیں جو عقائد کے قبیل سے ہیں جیسے رسول اللہﷺ اور اولیاء اللہ کو عالم الغیب اور حاضرناظر سمجھنا، یعنی جیسے اللہ جلّ شانہٗ ہر جگہ موجود ہیں اور ہر جگہ ہر کسی کی دعا اور پکار کو سنتے اور فریادرسی کرتے ہیں ایسے ہی پیر اور پیغمبر بھی کرتے ہیں یہ عقیدہ بدعت ہونے کے ساتھ ساتھ شرک بھی ہے کیونکہ حق تعالیٰ کی ذات اور صفات میں کوئی مخلوق بھی شریک نہیں ہے۔ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قل لایعلم من فی السمٰوٰت والارض الغیب الااللّٰہ
( کہہ دیجئے کہ جتنے لوگ آسمان و زمین کے اندر ہیں ان میں سے غیب کو کوئی بھی نہیں جانتا سوا اللہ کے)شرک کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اور اس کی کتاب کا علان ہے کہ اس جرم کے مجرم اللہ کی مغفرت و بخشش سے قطعی محروم اور ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے’’ ان اللّٰہ لایغفران یشرک بہ و یغفر مادون ذلک لمن یشائ‘‘ ( معارف الحدیث)
بدعات کیوں ممنوع ہیں
بدعت کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اگر عبادات میں اپنی طرف سے قیدیں، شرطیںاور نئے نئے طریقے ایجاد کرنے کی اجازت دے دی جائے تو دین کی تحریف ہوجائے گی کچھ عرصہ کے بعد یہ بھی پتہ نہ لگے گا کہ اصل عبادت جو رسول اللہﷺنے بتلائی تھی وہ کیا اور کیسی تھی۔پچھلی اُمتوں میں تحریف دین کی سب سے بڑی وجہ یہ ہوئی کہ انہوں نے اپنی کتاب اور اپنے پیغمبر کی بتلائی ہوئی عبادات میں اپنی طرف سے عبادات کے لئے نئے نئے طریقے نکال لئے اور ان کی رسم چل پڑی، کچھ عرصہ کے بعد اصل دین اور نوایجاد چیزوں میں کوئی امتیاز نہ رہا۔
مثلاًدردوشریف پڑھنے کی بڑی فضیلت ہے۔ خوداللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’ان اللّٰہ وملئکتہ یصلون علی النبی یاایھاالذین امنواصلواعلیہ وسلموا تسلیما‘‘
نبی کریمﷺ پر دردووسلام پڑھنے کے بڑے فضائل ہیں جو حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں۔ لیکن کسی حدیث میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ دردو شریف کھڑے ہو کر پڑھنا لازمی ہے بلکہ ہر حالت میں ہر پاک جگہ پر پڑھا جاسکتا ہے۔ نمازمیں’’ التحیات‘‘ میں پڑھا جاتا ہے۔لیکن بعض لوگوں نے ایک مخصوص طریقہ ایجاد کیا ہے کہ دردوشریف کھڑے ہو کر اور یک زبان ہو کر پڑھا جاتا ہے۔ کچھ لوگ مسنون الفاظ کے ساتھ پرھنے کے بجائے اور اردواشعار میں پڑھتے ہیں اور اسے لازمی قرار دیتے ہیں جبکہ شریعت میں اس کی کوئی پابندی نہیں ہے اور جو ایسا نہ کرے اسے مطعون کرتے ہیں جس کامطلب یہ ہوتا ہے کہ ان کا نوایجاد طریقہ ہی اصل دین ہے جو اس کی پیروی نہ کرے وہ مسلمان ہی نہیں ہے اس قسم کی اور بھی مثالیں ہیں۔ ایک طرف تو قرآن مجید کا یہ اعلان ہے کہ’’ الیوم اکملت لکم دینکم‘‘اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے آج تمہارادین مکمل کردیا ہے، دوسری طرف عبادات کے لئے نئے نئے طریقے نکال کر عملاً یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ شریعت اسلام کی تکمیل آج ہو رہی ہے۔ کیا کوئی مسلمان جان بوجھ کر اس کو قبول کر سکتا ہے۔
عبادت کا جو طریقہ رسول اللہﷺ اور صحابہ کرامؓ نے اختیار نہیں کیا وہ دیکھنے میں کتنا ہی دلکش اور بہتر نظر آئے وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہﷺ کے نزدیک اچھا نہیں۔
اسی لئے حضرت امام مالکؒ نے فرمایا :’’جس نے اسلام میں کوئی بدعت پیدا کی اور اس کو وہ اچھا سمجھتا ہے، وہ اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ محمدﷺ نے( نعوذ باللہ) پیغام پہنچانے میں خیانت کی، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے تمہارا دین مکمل کردیا، پس جو بات عہد رسالت میں دین نہیں تھی وہ آج بھی دین نہیں بن سکتی۔( الاعتصام امام شاطبیؒ)
الا عتصام بالکتاب والسنۃ
کلام ہادیٔ عالمﷺ (شمارہ 446)
اور کتب حدیث کی تالیف اور ان کی شرحیں لکھنا اور فقہ کی تدوین اور مختلف زبانوں میں حسب ضرورت دینی موضوعات پر کتابوں کی تصنیف و اشاعت کا اہتمام اور دینی مدارس اور کتب خانوں کا قیام وغیرہ۔ یہ سب چیزیں بھی بدعت کی اس تشریح کی بنا پر اس کے دائرے میں نہیں آئیں گی کیونکہ اگرچہ یہ عہد نبوی میں نہیں تھیں لیکن جب اہم دینی مقاصد کی تحصیل و تکمیل اور دینی احکام کی تعمیل کے لئے یہ ضروری اور ناگزیر ہوگئیں تو یہ شرعاً مطلوب اور مامور بہ ہوگئیں۔ جس طرح وضو کرنا شریعت کا حکم ہے لیکن جب اس کے لئے پانی کا تلاش کرنا یا کنوئیں سے نکالنا ضروری ہو تو وہ بھی شرعاً واجب ہوگا، دین و شریعت کا مسلمہ اصول ہے کہ کسی فرض وواجب کے ادا کرنے کے لئے جوکچھ کرنا ضروری اور ناگزیر ہو وہ بھی واجب ہے۔ لہٰذااس طرح کے سارے اُمور جن کا اوپر ذکر کیا گیا بدعت کی اس تشریح کی بنا پر اس کے دائرے ہی میں نہیں آتے بلکہ یہ سب شرعی مطلوبات اور واجبات ہیں۔
بدعت کی یہی تشریح و تعریف صحیح ہے اور اس بنا پر ہر بدعت ضلالت ہے جیسا کہ زیر تشریح حدیث میں فرمایا گیا ہے’’ کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ ہر بدعت گمراہی ہے۔( معارف الحدیث)
اس موضوع پر نویں صدی ہجری کے ممتاز عالم امام ابو اسحاق ابراہیم شاطبیؒ نے اپنی کتاب’’ الاعتصام‘‘ میں بڑی فاضلانہ اور محققانہ بحث کی ہے اور بدعت کے حسنہ اور سیئہ والے نظریہ کو بڑے محکم دلائل سے رد کیا ہے اور یہی نظر یہ امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ کا بھی ہے۔
حضرت مجدد الف ثانیؒ کا ارشاد
امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی قدس سرہ مکتوبات شریف میں تحریر فرماتے ہیں:
علماء کہتے ہیں کہ بدعت دوقسم کی ہے۔’’ بدعت حسنہ‘‘ اور بدعت سیئہ‘‘ بدعت حسنہ اس نیک عمل کو کہتے ہیں جو آنحضرتﷺ اور خلفائے راشدین کے زمانہ کے بعد پیدا ہواہو اور وہ سنت کو رفع نہ کرے۔ یہ فقیر ان بدعتوں میں سے کسی بدعت میں حسن اور نورانیت کا مشاہدہ نہیں کرتا اور ظلمت و کدورت کے سواکچھ محسوس نہیں کرتا۔( دفتر اول مکتوب نمبر ۸۶)
دوسری جگہ فرماتے ہیں:
جب تک کہ بدعت حسنہ کے اسم ورسم سے ایسا اجتناب اختیار نہ کریں جیسا کہ بدعت سنیہ سے کرنا چاہئے تب تک اس دولت ایمان کی خوشبو جان کے دماغ میں نہیں پہنچتی۔ آج یہ بات بہت مشکل معلوم ہوتی ہے کیونکہ تمام عالم دریائے بدعت میں غرق ہے اور بدعت کے اندھیروں میں پھنسا ہوا ہے، کس کی مجال ہے کہ بدعت کی مخالفت اور سنت کی حمایت میں زبان کھولے، اس وقت کے اکثر علماء بدعتوں کے رواج دینے والے اور سنتوں کے مٹانے والے ہیں۔( دفتر دوم مکتوب نمبر۵۶)
ایک اور مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں:
ہرزمانے میں عموماً اور غربت اسلام کے اس دور میں خصوصاً دین کی بقاوقیام سنتوں کی ترویج اور بدعتوں کی تخریب سے وابستہ ہے۔ بعض اگلوں نے بدعات میں کوئی حسن دیکھا ہوگا کہ اس کے بعض افراد کو انہوں نے مستحسن قرار دیا۔ اس فقیر کو ان سے اس مسئلے میں اتفاق نہیں،میں کسی فرد بدعت کو’’ حسنہ‘‘ نہیں سمجھتا اور سوائے ظلمت و کدورت کے مجھے ان میں کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ حضورﷺ کا ارشاد ہے:’’ ہر بدعت گمراہی ہے‘‘ فقیر کے نزدیک اسلام کی اس غربت کے زمانے میں سلامتی سنت سے اور خرابی و بربادی بدعت سے وابستہ ہے، خواہ کوئی بدعت ہو، بدعت اس فقیر کو کدال کی صورت میں نظرآتی ہے جو کہ اسلام کی بنیاد کو ڈھا رہی ہے اور سنت ایک درخشاں ستارے کے رنگ میں دکھائی دیتی ہے جو گمراہی کی شب تاریک میں رہنمائی کرتا ہے،حق تعالیٰ سبحانہ علماء وقت کو توفیق دے کہ کسی بدعت کے حسنہ ہونے کے متعلق زبان نہ کھولیں اور کسی بدعت کے ارتکاب کا فتویٰ نہ دیں، اگرچہ وہ بدعت ان کی نظر میں’’ فلق صبح‘‘ کی طرح روشن ہو کیونکہ شیطانی مکرکوماسوائے سنت میں بڑا دخل ہے ۔( دفتر دوم، مکتوب نمبر۲۳)
حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:جس کسی نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی بات ایجاد کی جو اس میں سے نہیں تو اس کی وہ بات رد ہے۔( صحیح بخاری و مسلم)
بدعات محدثات کے بارے میں رسول اللہﷺ کا یہ ارشاد بنیادی حیثیت رکھتا ہے،اس میں ان بدعات اور نوایجاد باتوں کو جن کا اعمال یا عقائد سے تعلق ہو، قابل رد اور مردود قرار دیا گیا ہے جو دین میں ایجاد کی جائیں اور ان کو امردینی یعنی رضائے الہٰی اور ثواب اخروی کا وسیلہ سمجھ کر اپنایا جائے جبکہ فی الواقع ان کی یہ حیثیت نہ ہو…
الا عتصام بالکتاب والسنۃ
کلام ہادیٔ عالمﷺ (شمارہ 445)
کتاب اللہ اور حدیث رسول اللہ کا اتباع کرنا عین ایمان ہے
حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے(اثنائے خطبہ میں) ارشاد فرمایا کہ…امابعد! سب سے بہتر بات اور سب سے اچھا کلام کتاب اللہ ہے اور سب سے بہتر طریقہ( اللہ کے رسول) محمدﷺکا طریقہ ہے اور بدترین امور وہ ہیں جو دین میںایجاد کر لئے جائیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔(صحیح مسلم)
حضرت جابرؓ کی یہ حدیث صحیح مسلم میں خطبہ جمعہ کے باب میں متعدد سندوں سے روایت کی گئی ہے۔ آپﷺ کا یہ ارشاد جو امع الکلم میں سے ہے، بہت مختصر الفاظ میں اُمت کو وہ ہدایت دے دی گئی ہے جو قیامت تک راہ راست پر رکھنے اور ہر طرح کی گمراہی سے بچانے کے لئے کافی ہے۔ اعتقادات اعمال، اخلاق اور جذبات وغیرہ کے بارے میں انسانوں کو جس مثبت یا منفی ہدایت( امر بالمعروف یا نہی عن المنکر) کی ضرورت ہے یقینا کتاب اللہ اور سنت و طریق محمدی اس کے پورے کفیل ہیں۔ اس کے بعد گمراہی کا ایک دروازہ یہ رہ جاتا ہے کہ اللہ و رسول اللہﷺ نے جن باتوں کو دین قرار نہیں دیا ان کو دین کا رنگ دے کر دین میں شامل کیا جائے اور قرب و رضائے الہٰی اور فلاح اُخروی کا وسیلہ سمجھ کر اپنا لیا جائے۔ دین کے رہزن شیطان کا سب سے خطرناک جال یہی ہے۔ اگلی اُمتوں کو اس نے زیادہ تراسی راستے سے گمراہ کیا ہے۔
آپﷺاپنے مواعظ و خطبات میں بار بار ارشاد فرماتے تھے کہ بس کتاب اللہ اور میری سنت کا اتباع کیا جائے۔ صرف وہی حق و ہدایت ہے اور اسی میں خیر وفلاح ہے اور بدعات اور اپنے پاس سے گھڑی ہوئی باتوں سے اپنے دین کی حفاظت کی جائے۔
بدعت خواہ ظاہری نظر میں کیسی ہی حسین و جمیل معلوم ہو،فی الحقیقت وہ صرف ضلالت اور ہلاکت ہے۔ آپﷺ کا یہ ارشاد جو بقول حضرت جابرؓ آپ ﷺجمعہ کے خطبوں میں بار بار فرماتے تھے اس کا یہی پیغام ہے اور اس میں یہی آگاہی ہے۔
بدعت کیا ہے
امام ابو اسحاق ابراہیم شاطبیؒنے اپنی کتاب’’ الاعتصام ‘‘ میں بدعت کی جو تعریف لکھی ہے اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
’’اصل لغت میں بدعت ہر نئی چیز کو کہتے ہیں خواہ عبادات سے متعلق ہو یا عادات سے، اور اصطلاح شرح میں ہر ایسے نو ایجاد طریقہ عبادت کو بدعت کہتے ہیں جو زیادہ ثواب حاصل کرنے کی نیت سے رسول اللہﷺ اور خلفاء راشدین کے بعد اختیار کیا گیا ہو اور آنحضرتﷺ اور صحابہ کرامؓ کے عہد مبارک میں اس کا داعیہ اور سبب موجود ہونے کے باوجود نہ قولاً ثابت ہو نہ فعلاً نہ صراحۃًنہ اشارۃً۔‘‘
اس تعریف سے معلوم ہوا کہ عادات اور دنیوی ضروریات کے لئے جو نئے نئے آلات اور طریقے روز مرہ ایجاد ہوتے رہتے ہیں ان کا شرعی بدعت سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ وہ بطور عبادت اور بہ نیت ثواب نہیں کئے جاتے یہ سب جائز اور مباح ہیں بشرطیکہ وہ کسی شرعی حکم کے مخالف نہ ہوں۔ نیز یہ بھی معلوم ہو گیا کہ جو عبادت آنحضرتﷺ یا صحابہ کرامؓ سے قولاً ثابت ہو یا فعلاً، صراحۃً یا اشارۃً وہ بھی بدعت نہیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہو گیا کہ جس کام کی ضرورت عہد رسالت میں موجودنہ تھی بعد میں کسی دینی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے پیدا ہوگئی وہ بھی بدعت میں داخل نہیں جیسے مروّجہ دینی مدارس، تعلیمی تبلیغی انجمنیں اور دینی نشرواشاعت کے ادارے اور قرآن و حدیث سمجھنے کے لئے صرف و نحو اور ادب عربی اور فصاحت و بلاغت کے فنون یا مخالف اسلام فرقوں کا رد کرنے کے لئے منطق اور فلسفہ کی کتابیں یا جہاد کے لئے جدید اسلحہ اورجدید طریق جنگ کی تعلیم وغیرہ کہ یہ سب چیزیں ایک حیثیت سے عبادات بھی ہیں اور نبی کریمﷺاور صحابہ کرامؓ کے عہد میں موجود بھی نہ تھیں مگر پھر بھی ان کو بدعت اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ ان کا سبب داعی اور ضرورت اس عہد مبارک میں موجود نہ تھی بعد میں جیسی جیسی ضرورت پیدا ہوتی گئی علماء اُمت نے اس کو پورا کرنے کے لئے مناسب تدبیریں اور صورتیں اختیار کرلیں۔
لیکن یہ سب چیز نہ اپنی ذات میں عبادت ہیں نہ کوئی ان کو اس خیال سے کرتا ہے کہ ان میں زیادہ ثواب ملے گا بلکہ وہ چیزیں عبادت کا ذریعہ اور مقدمہ ہونے کی حیثیت سے عبادت کہلاتی ہیں گویا کہ یہ احداث فی الدین نہیں( یعنی دین میں اضافہ نہیں کیا گیا) بلکہ ’’احداث للدین‘‘ ہے (یعنی دین کے قائم کرنے کے لئے بطور وسیلہ کے ان کو اختیار کیا گیا ہے) اور احادیث میں ممانعت’’ احداث فی الدین‘‘ کی آئی ہے یعنی خدا اور رسول اللہﷺ کے مقرر کردہ دین میں زیادتی کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔( سنت و بدعت)
بعض شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ بدعت کی دوقسمیں ہیں، ایک وہ جو کتاب و سنت اور اصول شریعت کے خلاف ہو وہ’’بدعت سیئہ‘‘ ہے اور رسول اللہﷺ نے اسی کے بارے میں فرمایا’’ کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ مطلب یہ کہ ہر بدعت سیئہ گمراہی ہے اور دوسری قسم بدعت کی وہ ہے جو کتاب و سنت اور اصول شریعت کے خلاف نہ ہو بلکہ مطابق ہو وہ’’ بدعت حسنہ‘‘ ہے اور یہ بدعت حسنہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے کبھی واجب ہوتی ہے، کبھی مستحب اور کبھی مباح و جائز۔ پس قرآن مجید پر اعراب اور فصل و وصل وغیرہ کی علامات لکھنا تاکہ عوام بھی قرآن مجید کی صحیح تلاوت کرسکیں۔
٭…٭…٭
مسئلہ قدر کی توضیح
کلام ہادیٔ عالمﷺ (شمارہ 444)
حضرت شاہ ولی اللہؒ کا ارشاد
حضرت شاہ ولی اللہ محدثؒ’’ حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:تقدیر پر ایمان لانا بڑی نیکیوں میں سے ایک نیکی ہے۔ وہ اس طرح ہے کہ مسلمان اس پر ایمان لانے کی وجہ سے اس تدبیر کو نظر میں رکھتا ہے جو تمام عالم کو سمیٹے ہوئے ہے جو شخص اس پر ٹھیک ٹھیک اعتقاد رکھتا ہے تو وہ ان چیزوں پر نظر رکھتا ہے جو خدا کے قبضے میں ہیں اور دنیا و مافیھا کو اس کے عکس کی طرح سمجھتاہے اور قضاء الہٰی کی وجہ سے بندوں کے اختیارات کو ایسا سمجھتا ہے جیسے آئینہ میں صورت کا عکس ہوتا ہے اور اس سے یہاں کی تدبیر و حدانی کے انکشاف میں بڑی مدد پہنچتی ہے اگرچہ کامل انکشاف عالم معاد (آخرت) ہی میں ہوگا اور حضور اقدسﷺ نے اس کی عظمت پر لوگوں کو تنبیہ فرمادی جبکہ یہ ارشاد فرمایا کہ جو شخص نیکی وبدی کی تقدیر پر ایمان نہیں لایاتومیں اس سے جداہوں،نیزآپﷺنے فرمایاکہ آدمی مومن نہیں ہوتا جب تک کہ نیکی اور برائی کی تقدیرپر ایمان نہ لائے اور جب تک کہ اس کا یقین نہیں کرتا کہ جو اس کو پیش آتا ہے وہ ٹلنے والا نہیں اور جو نہیں پیش آتا ہے وہ ہرگز پیش نہیں آئے گا۔ واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ کا علم ازلی ذاتی ہر اس چیز کو محیط ہے جو پیدا ہوچکی یا جو پیدا ہوگی اور یہ محال ہے کہ کسی چیز کی اس کو خبر نہ ہو یا کوئی ایسی چیز پیدا ہوجائے جس کو وہ نہ جانتا ہو، اگر ایسا ہو تووہ جہل ہوگاعلم نہ ہوگا۔(حجۃ اللہ البالغہ)
بعض شبہات کا ازالہ
مسئلہ تقدیر سے متعلق تین قسم کے شبہات لوگوں کو پیش آتے ہیں:
اول یہ کہ دنیا میں اچھا برا جو کچھ ہوتا ہے اگر یہ سب اللہ ہی کی تقدیر سے ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کو مقدر کیا ہے، تو پھر اچھائیوں کے ساتھ تمام برائیوں کی ذمہ داری بھی( معاذ اللہ) اللہ تعالیٰ پر آئے گی۔
دوسرے یہ کہ جب سب کچھ پہلے سے من جانب اللہ مقدر ہوچکا ہے اور اس کی تقدیر اٹل ہے تو بندے اسی کے مطابق کرنے پر مجبور ہیں۔ لہٰذا انہیں کوئی جزا سزا نہیںملنی چاہئے۔
تیسرا شبہ یہ کیا جاتا ہے کہ جو کچھ ہونا ہے جب وہ سب پہلے سے مقدر ہی ہوچکا ہے اور اس کے خلاف کچھ ہو ہی نہیں سکتا تو پھر کسی مقصد کے لئے کچھ کرنے دھرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ لہٰذا دنیا یاآخرت کے کسی کام کے لئے محنت اور کوشش فضول ہے۔
لیکن اگر غور کیاجائے تو معلوم ہوگا کہ یہ تینوں شبے تقدیر کے غلط اور ناقص تصور سے پیدا ہوتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی تقدیر اس کے علم ازلی کے مطابق ہے اور اس کارخانہ عالم میں جو کچھ جس طرح اور جس صفت کے ساتھ اور جس سلسلہ سے ہورہا ہے وہ بالکل اسی طرح اور اسی صفت اور اسی سلسلہ کے ساتھ اس کے علم ازلی میں تھا اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس کو مقدر فرمایا ہے۔
جو شخص بھی اپنے اعمال و افعال پر غور کرے گا وہ بغیر کسی شک و شبہ کے اس حقیقت کو محسوس کرے گا کہ اس دنیا میں ہم جو بھی اچھے یا برے عمل کرتے ہیں وہ اپنے ارادے اور اختیار سے کرتے ہیں،ہر کام کے کرنے کے وقت اگر ہم غور کریں تو یقینی طور پر محسوس ہوگا کہ ہم کو یہ قدرت حاصل ہے کہ چاہیں تو اس کو کریں اور چاہیں تو نہ کریں۔ پھر اس قدرت کے باوجود ہم اپنے خداداد ارادے اور اختیار سے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں اور تمام کام کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کو ازل میں اسی طرح ان کا علم تھا اور پھر اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو مقدر فرمایا اور اس پورے سلسلے کے وجود کا فیصلہ فرمادیا۔
بہرحال اللہ تعالیٰ نے صرف ہمارے اعمال ہی کو مقدر نہیں فرمایا ہے بلکہ جس ارادہ اور اختیار سے ہم عمل کرتے ہیں وہ بھی تقدیر میں آچکا ہے ۔ گویا تقدیر میں صرف یہی نہیں ہے کہ فلاں شخص فلاں اچھا یا براکام کرے گا بلکہ تقدیر میں یہ پوری بات ہے کہ فلاں شخص اپنے ارادہ اور اختیار سے ایسا کرے گا پھر اس سے یہ نتائج پیدا ہوں گے پھر اس کو یہ جزایا سزا ملے گی۔
الغرض ہم کو اعمال میں جو ایک گو نہ خود اختیاری اور خود ارادیت حاصل ہے جس کی بنا پر ہم کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں وہ بھی تقدیر میں ہے اور ہمارے اعمال کی ذمہ داری اسی پر ہے اور اسی کی بنا پر انسان مکلف ہے اور اسی پر جزاو سزا کی بنیاد ہے۔ تقدیر نے اس خود اختیاری اور خود ارادیت کو باطل اور ختم نہیں کیابلکہ اس کو اور زیادہ ثابت اور مستحکم کر دیا ہے لہٰذا تقدیر کی وجہ سے نہ تو ہم مجبور ہیں اور نہ ہمارے اعمال کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ پر ہوتی ہے، ایسے ہی جن مقاصد کے لئے ہم جو کوششیں اور تدبیریں کرتے ہیں تقدیر میں بھی ہمارے ان مقاصد کو ان ہی تدبیروں اور کوششوں سے وابستہ کیا گیا ہے۔ تقدیر میں صرف یہ نہیں ہے کہ فلاں شخص کو فلاں چیز حاصل ہوجائے گی بلکہ جس کوشش اور جس تدبیر سے وہ چیز اسی دنیا میں حاصل ہونے والی ہوتی ہے، تقدیر میں بھی وہ اسی تدبیر سے بندھی ہوئی ہے۔ تقدیر میں اسباب و مسببات کا پورا سلسلہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح کہ اس دنیامیں ہے۔( معارف الحدیث)
حضرت ابو خزامہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا:کیا ارشاد ہے اس بارہ میں کہ جھاڑ پھونک کے وہ طریقے جن کو ہم دکھ درد میں استعمال کرتے ہیں یا دوائیں جن سے ہم اپنا علاج کرتے ہیں یا مصیبتوں اور تکلیفوں سے بچنے کی وہ تدبیریں جن کو اپنے بچائو کے لئے استعمال کرتے ہیں، کیا یہ چیز اللہ کی قضا و قدر کو لوٹا دیتی ہیں ؟ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:یہ سب چیزیں بھی اللہ کی تقدیر سے ہیں۔(مسند احمد، ترمذی، ابن ماجہ)
٭…٭…٭
مسئلہ قدر کی توضیح
کلام ہادیٔ عالمﷺ (شمارہ 443)
اس سے اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اس کاتصرف غایت سرعت اور تاثیر سے نافذ ہوتا ہے اور رحمان کی طرف اضافت اس کی وسعتِ رحمت اور اس کی رحمت کے اس کے غضب پر غالب ہونے کی وجہ سے ہے با وجود یکہ علیم کا غضب سخت ترین ہوتا ہے، پس اس تعریف سے دونوں طرف اشارہ ہے صفت جمال اور صفت جلال کی طرف ۔
اس کے بعد حضورنبی اکرمﷺ نے امت کی تعلیم اور حق تعالیٰ کی جناب میں ادب سکھانے کی غرض سے فرمایا:
اے خدایا! اے دلوں کو طاعت یا معصیت کی طرف پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنی طاعت کی طرف پھیردے اور ہمیں اس پر ثابت قدم رکھ۔
یہاں حضور اقدسﷺ نے صیغہ جمع کا امت کو دعا میں شامل کرنے کے لئے فرمایا بلکہ درحقیقت یہ دعا امت ہی کے لئے فرمائی، درانحالیکہ آنحضورﷺکو اعتدال و استقامت حا صل تھی ہی، اسے سے پھر نا کیا معنی رکھتا ہے۔ (اشعتہ اللمعات فارس جلد اول)
حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی تخلیق سے پچاس ہزار برس پہلے تمام مخلوقات کی تقدیریں لکھ دی ہیں اور فرمایا، اس کا عرش پانی پر تھا۔ (مسلم)
اس حدیث میں جس کتابتِ تقدیر کا ذکر کیا گیا ہے اس کی حقیقت و نوعیت تو اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں، عربی زبان میں کسی چیز کے طے کردینے اور معین و مقرر کر دینے کو بھی کتابت سے تعبیر کیا جاتا ہے، چنانچہ قرآن مجیدمیں اس معنی کے اعتبار سے روزہ کی فرضیت کو ’’کتب علیکم الصیام‘‘ سے اور قصاص کے حکم کو ’’کتب علیکم القصاص‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، پس اگر حدیث مذکور میں بھی کتابت سے یہی مراد ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار برس پہلے تمام مخلوقات کی تقدیریں معین کیں، اور جو کچھ ہونا ہے اس کو مقرر فرمایا، اس معنی کا ایک قرینہ یہ بھی ہے کہ بعض روایات میں بجائے’’ کتب‘‘ کے’’قدر‘‘ کالفظ بھی آیا ہے۔
دوسری بات اس حدیث کے متعلق یہ بھی ملحوظ رہنی چاہئے کہ پچاس ہزار برس سے مراد عربی محاورہ کے مطابق طویل زمانہ بھی ہو سکتا ہے، نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا۔ مطلب یہ کہ عرش اور پانی اس وقت پیدا کئے جا چکے تھے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے تحریر فرمایا:
’’جس طرح ہماری قوتِ خیالیہ میں ہزاروں چیزوں کی صورتیں اور ان کے متعلق معلومات جمع رہتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ نے عرش کی قوتوں میں سے کسی خاص قوت میں (جس کو ہماری قوت خیالیہ کے مشابہ سمجھنا چاہئے) تمام مخلوقات اور ان کے تمام احوال اور حرکات و سکنات کو، غرض جو کچھ عالَم وجود میں آنے والا ہے اس سب کو عرش کی اس قوت میں ثبت فرما دیا، گویا دنیا کے پردے پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب عرش کی قوت میں اسی طرح موجود و محفوظ ہے۔ جس طرح ہمارے خیال میں لاکھوں صورتیں اور ان کے متعلق معلومات ہوتی ہیں۔‘‘ (حجتہ اللہ البالغہ)
حضرت شاہ صاحب کے نزدیک تمام مخلوقات کی تقدیر لکھنے سے یہی مراد ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ ہم لوگ (مسجد نبوی میں بیٹھے) قضا وقدر کے مسئلہ میں بحث مباحثہ کر رہے تھے کہ اسی حال میں رسول اللہﷺباہر تشریف لائے ( اور ہم کو یہ بحث کرتے دیکھا) تو آپ بہت برافروختہ اور غضبناک ہوئے یہاں تک کہ چہرہ مبارک سرخ ہوگیا اور اس قدر سرخ ہوا کہ معلوم ہوتا تھا کہ آپ کے رخساروں پر انار نچوڑ دیا گیا ہے، پھر آپ نے ہم سے فرمایا: کیا تم کو یہی حکم کیا گیا ہے، کیا میں تمہارے لئے یہی پیام لایا ہوں (کہ تم قضا وقدر جیسے اہم اور نازک مسئلوں میں بحث کرو) خبردار! تم سے پہلی امتیں اسی وقت ہلاک ہوئیں جبکہ انہوں نے اس مسئلہ میں حجت و بحث کو اپنا طریقہ بنا لیا۔ میں تم کو قسم دیتا ہوں، میں تم پر لازم کرتا ہوں کہ اس مسئلہ میں ہرگز حجت اور بحث نہ کیا کرو۔ (ترمذی)
قضا و قدر کا مسئلہ بلاشبہ مشکل اور نازک مسئلہ ہے لہٰذا مؤمن کو چاہئے کہ اگر یہ مسئلہ اس کی سمجھ میں نہ آئے تو بحث اور حجت نہ کرے، بلکہ اپنے دل و دماغ کو اس پر مطمئن کر لے کہ اللہ کے صادق و مصدوق رسول اللہﷺنے اس مسئلہ کو اسی طرح بیان فرمایا ہے۔ لہٰذا ہم اس پر ایمان لائے۔
تقدیر کا مسئلہ تو اللہ تعالیٰ کی صفات سے تعلق رکھتا ہے اس لئے اس کو نازک اور مشکل ہونا ہی چاہئے ہمارا حال تو یہ ہے کہ اس دنیا کے بہت سے معاملات اور بہت سے رازوں کو ہم میں سے بہت سے نہیں سمجھ سکے، پس اللہ کے سچے پیغمبر (علیہ الصلوٰۃ و السلام) نے ایک حقیقت بیان فرمادی تو جن لوگوں کی سمجھ میں نہ آئے ان کے لئے بھی ایمان لانے کے بعد صحیح طریق کار یہی ہے کہ وہ اس کے بارے میں کوئی بحث اور کٹ حجتی نہ کریں بلکہ اپنی عقل اور اپنے ذہن کی نار سائی کا اعتراف کرتے ہوئے اس پر ایمان لائیں۔
اس حدیث میں ممانعت حجت اور نزاع سے فرمائی گئی ہے پس اگر کوئی تقدیر کے مسئلہ پر ایک مؤمن کی طرح قطعی ایمان رکھتے ہوئے صرف اطمینان قلبی کے لئے کسی اہل علم و فضل سے سوال کرے تو اس کی ممانعت نہیں ہے جیسا کہ بعض احادیث میں خود رسول اللہﷺنے صحابہ کرام کو اس کے بعض پہلوئوں کو سمجھایا ہے۔
٭…٭…٭
مسئلہ قدر کی توضیح
کلام ہادیٔ عالمﷺ (شمارہ 442)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
تم میں سے ہر ایک کا ٹھکانا دوزخ کا اورجنت کا لکھا جا چکا ہے (یعنی جو شخص دوزخ میں یا جنت میں جہاں بھی جائے گا، اس کی وہ جگہ پہلے سے مقدر اور مقرر ہوچکی ہے)
صحابہ نے عرض کیا، تو کیا ہم اپنے اس نوشتۂ تقدیر پر بھروسہ کر کے نہ بیٹھ جائیں اور سعی و عمل چھوڑدیں (مطلب یہ کہ جب سب کچھ پہلے ہی سے طے شدہ او ر لکھا ہوا ہے تو پھر ہم سعی وعمل کی دردسری کیوں مول لیں) آپﷺ نے فرمایا:
نہیں عمل کئے جائو کیونکہ ہر ایک کو اسی کی توفیق ملتی ہے جس کے لئے وہ پیدا ہوا ہے۔ پس جو کوئی نیک بختوں میں سے ہے تو اس کو سعادت اور نیک بختی کے کاموں کی توفیق ملتی ہے اور جوکوئی بدبختوں میں سے ہے اس کو شقاوت اور بدبختی والے کاموں کی توفیق ملتی ہے۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
’’فاما من اعطیٰ وتقیٰ وصدق بالحسنی فسنیسرہ للیسری و امامن بخل واستغنیٰ و کذب بالحسنیٰ فسنیسرہ للعسری۔‘‘ (واللیل)
جس نے راہ خدا میں دیا اورتقوی اختیار کیا اور اچھی بات کی تصدیق کی (یعنی دعوت اسلام کو قبول کیا) تو اس کو ہم چین و راحت کی زندگی یعنی جنت حاصل کرنے کی توفیق دیں گے اور جس نے بخل سے کام لیا اور مغرور اور بے پرواہ رہا اور اچھی بات کو یعنی دعوت ایمان کو جھٹلایا تو اس کے واسطے ہم تکلیف کی اور دشواری والی زندگی (یعنی دوزخ) کی طرف چلنا آسان کر دیں گے۔ (بخاری و مسلم)
رسول اللہﷺکے جواب کا حاصل یہ ہے کہ اگرچہ ہر شخص کے لئے اس کا آخری ٹھکانہ دوزخ یا جنت میں پہلے سے مقرر ہوچکا ہے لیکن اچھے یا برے اعمال سے وہاں تک پہنچنے کا راستہ بھی پہلے سے مقدر ہے اور تقدیرالہیٰ میں یہ بھی طے ہوچکا ہے کہ جو جنت میں جائے گا وہ اپنے فلاں فلاں اعمال خیر کے راستے سے جائے گا اور جو جہنم میں جائے گا وہ اپنی فلاں فلاں بد اعمالیوں کی وجہ سے جائے گا۔ پس جنتیوں کے لئے اعمال خیر اور دوزخیوں کے لئے اعمال بد بھی مقدر و مقرر ہیں اس لئے ناگزیر ہیں۔ نبی اکرمﷺکے اس جواب کا ماحصل بھی وہی ہے جو اوپر والی حدیث میں آپ کے جواب کاتھا۔ (معارف الحدیث)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
ہر چیز تقدیر سے ہے یہاں تک کہ آدمی کا ناکارہ اور ناقابل ہونا اور قابل و ہوشیار ہونا بھی تقدیر ہی سے ہے۔ (مسلم)
مطلب یہ ہے کہ آدمی کی صفات قابلیت و ناقابلیت، صلاحیت وعدم صلاحیت، عقل مندی و بے وقوفی وغیرہ بھی اللہ کی تقدیر ہی سے ہیں۔ الغرض اس دنیا میں جو کوئی جیسا اور جس حالت میں ہے وہ اللہ کی قضا وقدرکے ماتحت ہے۔
اس حدیث میں ’’العجز‘‘ سے مراد کاموں کی انجام دہی میں ناتوانی اور بیچارگی اور ضعف رائے اور قلت عقل وغیرہ کا ظاہر ہونا اور’’ الکیس‘‘ سے مراد توانائی اور مضبوطی سے اور عزم صحیح سے کاموں کا سرانجام دینا ہے۔ یعنی یہ سب باتیں بھی تقدیر الٰہی سے ہیں۔ (اشعتہ اللمعات)
حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
بنی آدم کے تمام قلوب اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں ایک دل کی طرح وہ جس طرح (اور جس طرف) چاہتا ہے اس کو پھیر دیتا ہے، پھر رسول اللہﷺنے فرمایا:
اے دلوں کے پھیرنے والے! ہمارے دل اپنی طاعت و بندگی کی طرف پھیر دے۔ (رواہ مسلم)
اللہ تعالیٰ کے افعال و صفات کو سمجھنے سمجھانے کے لئے چونکہ الگ کوئی زبان نہیں ہے اس لئے مجبوراً اللہ تعالیٰ کے لئے بھی ان ہی الفاظ و محاورات کا استعمال کیا جاتا ہے جو دراصل انسانی افعال و صفات کے لئے وضع کئے گئے ہیں۔ اس حدیث میں یہ جو کہا گیا ہے کہ بنی آدم کے قلوب اللہ تعالیٰ کی انگلیوں کے درمیان ہیں تو اس کامطلب صرف یہی ہے کہ انسانوں کے دل اللہ تعالیٰ کے اختیار اور اس کے قبضہ تصرف میں ہیں۔ وہی جدھر چاہتا ہے انہیں پھیر دیتا ہے۔
حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
دل اللہ تعالیٰ کے تصرف میں ہیں ایک دل کی طرح، وہ جیسا چاہتا ہے ان کو پھیر دیتا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ حق تعالیٰ تمام چیزوں میں یکدم تصرف کرنے پر قادر ہے یا یہ کلام بندوں کی عادت اور فہم کے مطابق ہے کہ ان کے نزدیک ایک چیز میں تصرف کرنا متعدد یا اشیا میں تصرف کرنے کی نسبت آسان ہے لیکن حق تعالیٰ کے نزدیک سب برابر ہے۔ ایسا نہیں کہ اس کے لئے متعدد اشیاء میں تصرف کرنا مشکل ہو اور ایک چیز میں تصرف کرنا آسان ہو اور حق تعالیٰ کی انگلیوں کا اطلاق متشا بہات پر ہوتا ہے اور متشابہات میں دو مذہب ہیں۔ بعض علما توقف کرتے ہیں اور حقیقت حال کو حق تعالیٰ کے حوالہ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔ اور بعض علما تاویل کرتے ہیں اور اس سے حق تعالیٰ کی صفت جلال و جمال اور قہر ولطف مراد لیتے ہیں کہ صفت جمال سے تو دلوں کو طاعت کی طرف پھیرتے ہیں اور صفت جلال سے معصیت کی طرف۔
٭…٭…٭
مسئلہ قدر کی توضیح
کلام ہادیٔ عالمﷺ (شمارہ 441)
اللہ تعالیٰ نے اس بات کو ظاہر کر دیا کہ ان مخفی تغیرات میں جو بحالت ضعف انسان پر طاری ہوتے ہیں اور اس حالت میں جو عقل و بلوغ اور حد تکلیف کو پہنچنے کے بعد ہوتی ہے کیا نسبت ہے؟ اس وقت یہ صورت حیوانیہ انسانیہ ہڈی اور مغز اور گوشت پوست اور رگوں اور بالوں اور جگر اور قوت اورعقل و فکر وشہوت اور ہر قسم کے تصرف اور پکڑنے کی طاقت پر اور ان تمام چیزوں جو حسن صنعت کو ظاہر کرتی ہیں، مشتمل ہوتی ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم‘‘
بیشک ہم نے انسان کو سب سے اچھی شکل و صورت میں پیدا کیا ہے۔
پھر اس پہلی حالت کو (جو رحم مادر میں ہوتی ہے) دوسری حالت سے اور پہلی پیدائش کو اس دوسری صورت سے کیا نسبت ہے؟ ( بہجۃ النفوس جلد اول)
فائدہ: انسان کی ابتداء خلقت ایسی عجیب ہے کہ اگر روز مرہ مشاہدہ میں نہ آیا کرتی تو لوگ دور دور سے بچہ کو دیکھنے آیا کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلی وحی میں اسی کی طرف ہم کو متوجہ کیا ہے:
’’اقراء باسم ربک الذی خلق، خلق الانسان من علق‘‘ اپنے رب کا نام لے کر پڑھئے جس نے تمام مخلوق کو پیدا کیا، انسان کو خون بستہ سے پیدا کیا۔
پس ہر صاحب ایمان کو اور سالکینِ راہ حق کو خصوصاً ان حالات و تغیرات میں غور کرنا چاہئے اور ان سے عبرت حاصل کر کے معرفت کو ترقی دینا چاہئے کہ انسان ابتدا میں کیا ہوتا ہے اور جوانی میں کیا سے کیا ہوجاتا ہے؟ پھر اس غفلت کو بھی دیکھو کہ انسان کتنی جلدی اپنی ابتدا کو بھول جاتا ہے اور جوانی کے غرور وتکبر میں مبتلا ہو کر اپنے خالق و مالک ہی کی یاد سے فافل ہوجاتا ہے۔ ’’فاعتبروا یااولی الابصار۔‘‘ عبرت لینے والے عبرت حاصل کرتے ہیں اور نصیحت قبول کرنے والے نصیحت حاصل کرتے ہیں اور غفلت والے جہالت کی تاریکیوں ہی میںرہ جاتے ہیں۔ ان کو سوائے خواہش نفس کے کچھ نظر نہیں آتا علوم و معارف کے بارہ میں وہ ایسے ہیں جیسے جانور۔ ’’ان ھم الا کالانعام بل ھم اضل۔‘‘ (بہجۃ النفوس ملخصاً)
مسئلہ قدر کی توضیح
حدیث مذکورہ بالا میں حضور نبی اکرمﷺنے یہ جو فرمایا کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص جنتیوں کے سے عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ جنت کے قریب ہوجاتا ہے پھر نوشتۂ تقدیر غالب آتا ہے اور دوزخیوں کے سے عمل کرنے لگتا ہے اور انجام کار دوزخ میں چلاجاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ تقدیرِ الٰہی برحق ہے اور تقدیر پر ایمان لانا ضروریاتِ دین میں سے ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ تقدیر پر ایمان لانا اس قدر ضروری ہے کہ اگر تم احد پہاڑ کے برابر سونا راہ خدا میں خرچ کردو، تو اللہ کے یہاں و ہ قبول نہ ہوگا جب تک کہ تم تقدیر پر ایمان نہ لائو اور تمہارا پختہ اعتقاد یہ نہ ہوکہ جو کچھ تمہیں پیش آتا ہے تم کسی طرح اس سے چھوٹ نہیں سکتے تھے اور جو حالات تم پر پیش نہیں آئے وہ تم پر آہی نہیں سکتے تھے (یعنی جو کچھ ہوتا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر اور مقرر ہوچکا ہے) اور اگر تم اس کے خلاف اعتقاد رکھتے ہوئے مرگئے تویقینا تم دوزخ میں جائو گے۔ یہی قول حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت حذیفہؓ اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا بھی ہے کہ ان حضرات نے رسول اللہﷺسے اسی طرح سنا ہے۔ (مسند احمد، ابودائود، ابن ماجہ)
نیزرسول اللہﷺنے ایک حدیث میں فرمایا:
’’جف القلم بما ھو کائن‘‘ جو کچھ ہونے والا ہے قلم اس کو لکھ کر خشک ہوچکا ہے تو صحابہ نے عرض کیا، ’’ففیما العمل یارسول اللہ‘‘ پھر اب عمل کی کیا ضرورت رہی جو مقدر ہوچکا وہی ہو کر رہے گا۔ حضورﷺنے فرمایا: ’’اعلموا فکل میسر لما خلق لہ‘‘ کام ضرور کرتے رہوکیونکہ جس کو جس کام کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس کے لئے وہی کام آسان کردیا جاتا ہے۔ پس جس کے لئے طاعات آسان کردی گئیں، اس کو خوش ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو سعادت کے ساتھ پیدا کیا ہے اور جس کے لئے گناہ آسان کر دئیے گئے کہ معاصی سے اس کو نفرت اور انقباض نہیں ہوتا، اس کو ڈرنا چاہئے کہ کہیں شقاوت کے لئے پیدا نہ کیا گیا ہو اور ڈرکر گناہوں سے توبہ کرنا اور طاعات کا اہتمام کرنا چاہئے کیونکہ اعتبار خاتمہ کا ہے جس کی اخیر حالت اچھی ہے وہ کامیاب ہے جس کی اخیرحالت بری ہے اس پر ناکامی کا اندیشہ ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب تقدیر کے بعد بھی عمل کی ضرورت ہے تو تقدیر کا مسئلہ بیان کرنے کا کیا فائدہ؟ جواب یہ ہے کہ اس کافائدہ یہ ہے کہ انسان دنیوی معاملات میں ناکامی کے وقت زیادہ غمزدہ اور رنجیدہ نہ ہو بلکہ دل کو تسلی دے لے کہ مقدر یوں ہی تھا۔ تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ جو آدمی انتہائی محنت اور مشقت برداشت کرنے اور ہر طرح کی کوشش کرنے کے باوجود بھی کسی کام میں ناکا م ہو جاتا ہے تو اسکی تسلی مسئلہ تقدیر ہی سے ہوتی ہے یا جو شخص اپنے کسی بیمار عزیز کی دوا دارو میں پوری کوشش ختم کرکے ناکام ہوجاتا ہے تو اس کی تسکین بھی مسئلہ تقدیر ہی سے ہوتی ہے، جو شخص اس مسئلہ تقدیر کا معتقد نہ ہوگا وہ اکثر ایسے موقعے پر خود کشی کر لیا کرتا ہے۔ نیز یہ فائدہ بھی ہے کہ انسان کامیابی کے بعد اپنے اوپر نظر نہ کرے بلکہ اللہ تعالیٰ پر نظر کرے کہ اللہ نے میرے مقدر میں کامیابی رکھی تھی اس لئے کامیاب ہوا خود کچھ نہیں کرسکتا تھا، اگر مسئلہ تقدیر سامنے نہ ہو تو کامیابی کے بعد انسان فرعون بے سامان اور پورا شیطان بن جائے اور بھی نہ معلوم اس میں کتنی حکمتیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں، بندہ اس کے اسرار کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ (بہجۃ النفوس)
تقدیر الہٰی کا ماننا شرط ایمان ہے
کلام ہادیٔ عالمﷺ (شمارہ 440)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے صادق و مصدوق پیغمبرﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک کا مادہ تخلیق اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس روز تک نطفہ کی شکل میں جمع رہتاہے(یعنی چالیس روز تک کچھ تغیر نہیں ہوتا صرف خون میں کچھ غلظت آجاتی ہے،یہی نطفہ ہے)پھر اس کے بعد اتنی ہی مدت منجمد خون کی شکل میں رہتا ہے یہ عَلَقَہ ہے اور اتنے ہی دنوں وہ گوشت کا لوتھڑارہتا ہے یہ مُضْغَہ ہے( اس مدت میں اعضاء کی تشکیل اور بدن کی بناوٹ شروع ہوجاتی ہے) پھر اللہ تعالیٰ چارباتوں کا حکم دے کر ایک فرشتہ کو بھیجتا ہے یہ فرشتہ اس کی زندگی کے (۱)اعمال(۲) اس کی مدت عمر(۳) وقت موت (۴) اس کا رزق لکھتا ہے اور یہ کہ بد بخت ہے یانیک بخت، پھر اس میں روح ڈالی جاتی ہے۔ پس قسم اس ذات کی جس کے سوا کوئی عبادت و بندگی کے لائق نہیں ،کبھی ایسا ہوتا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص جنتیوں کے سے عمل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے پھر نوشتہ تقدیر آگے آجاتا ہے اور وہ دوزخیوں کے عمل کرنے لگتا ہے اورانجام کاردوزخ میں چلا جاتا ہے اور اسی طرح تم میں سے کوئی دوزخیوں کے سے عمل کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے پھر نوشتہ تقدیر آگے آتا ہے اور وہ جنتیوں کے عمل کرنے لگتاہے اورجنت میںپہنچ جاتاہے۔( بخاری و مسلم)
اس حدیث کی ابتداء میں تخلیق انسانی کے ان چند مرحلوں کا ذکر ہے جن سے انسان نفخ روح تک رحم مادر میں گزرتا ہے۔ اس کے بعد رسو ل اللہﷺ نے اس نوشتہ تقدیر کا ذکر فرمایا ہے جو اللہ تعالیٰ کا مقرر کیا ہوا فرشتہ نفخ روح کے وقت ہرپیدا ہونے والے انسان کے متعلق لکھتا ہے،جس میں اس کے اعمال ،اس کی مدت حیات اور وقت موت وروزی اور نیک بختی یا بدبختی کی تفصیل ہوتی ہے۔
حضورﷺکا خاص منشا اسی نوشتہ کے متعلق یہ بیان فرمانا ہے کہ یہ ایسا قطعی اور اٹل ہوتا ہے کہ ایک شخص جو اس نوشتہ میں دوزخیوں میں لکھا ہوتا ہے، بسااوقات وہ ایک مدت تک جنتیوں کی سی پاکبازانہ زندگی گزارتا ہے یہاں تک کہ وہ جنت سے بہت ہی قریب ہوجاتا ہے، لیکن پھر اس کے رویہ میں ایک دم تبدیلی ہوجاتی ہے او ر وہ دوزخ میں لے جانے والے برے اعمال کرنے لگتا ہے اور اسی حال میں مرکر بالآخر دوزخ میں چلا جاتا ہے اور اس کے برعکس ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک آدمی جو فرشتہ کے نوشتہ میں اہل جنت میں لکھا ہوتا ہے، وہ ایک عرصہ تک دوزخیوں کی سی زندگی گزارتا رہتا ہے اور دوزخ کے اتنا قریب ہوجاتا ہے کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان گو یاایک ہاتھ سے زیادہ فاصلہ نہیں رہتا۔ لیکن پھر ایک دم وہ سنبھل جاتا ہے اور اہل جنت کے اعمال صالحہ کرنے لگتا ہے اور اسی حال میں مرکر جنت میں چلاجاتا ہے۔
اس حدیث کا خاص سبق یہ ہے کہ کسی کو بداعمالیوں میں دیکھ کر اس کے قطعی دوزخی ہونے کا حکم نہ لگانا چاہئے، کیا معلوم زندگی کے باقی حصے میں اس کا رخ اور رویہ کیا ہونے والا ہے، اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آج اعمال خیر کی توفیق کسی کومل رہی ہے تو اس پر اس کو مطمئن نہ ہوجانا چاہئے بلکہ برابر حسن خاتمہ کے لئے فکر مندرہنا چاہئے۔( معارف الحدیث)
انسانوں پر اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم
حدیث مذکورہ بالا میں جو تخلیق انسانی کے مراحل بیان فرمائے گئے ہیں جن سے انسان نفخ روح تک رحم مادر میں گزرتا ہے ان امور کی ہمیں خبر دینے کی کیا حکمت ہے؟
تومنجملہ اور حکمتوں کے ایک یہ ہے کہ اس میں ہماری ابتداء پیدائش کو اور ہمارے ضعف کو بتلایا گیا ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کا ہمارے اوپر کیسا لطف وکرم ہے اور اس کے الطاف کس طرح ہم کو گھیرے ہوئے ہیں اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کرام کوتمام احوال میں ہمارے لئے مسخر فرمادیا ہے، یعنی ان کو ہمارے کام میں لگا رکھا ہے ہماری عقل و شعور کی حالت میں بھی اور بے عقلی اور عدم شعور کی حالت میں بھی۔
اللہ تعالیٰ کی عنایات والطاف ہمارے اوپر اس وقت سے ہیں جب ہم کواپنی خبر بھی نہ تھی اور حقیقت تو یہ ہے کہ ہم کو اپنی پوری خبر اب بھی نہیں کیونکہ انسان جسم کا نام نہیں بلکہ روح کا نام ہے اور روح کی حقیقت کسی کو آج تک معلوم نہیں یہ ایک سر بستہ راز ہے جس کی خبر انبیاء علیہم السلام کو ہو تو ہو، بس اللہ ہی کو ہماری حقیقت کا حال معلوم ہے اور وہی اپنی مہربانی سے ہماری تمام ضروریات کا انتظام فرماتے ہیں۔
انسان کی پیدائش جن طبقات سے گزر کرہوتی ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی عجیب قدرت کا ظہور ہے۔ ان تغیرات و ادوار میں جن سے اللہ تعالیٰ نے ہماری پیدائش کو شروع کیا اللہ تعالیٰ کی قدرت ہمارے اندر اور تمام مخلوقات کے اندر ظاہر ہوتی ہے اور عقل کی رسائی کو اس قدرت کے ادر اک سے روک دیا گیا ہے سوا اس حصہ کے جس تک رسائی اپنے فضل سے اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی اور جس کی یہ قدرت ہے اس نے اپنی ذات و صفات کے احاطہ سے مخلوق کی اُمید کو قطع کر دیا ہے۔
دین آسان ہے
کلام ہادیٔ عالمﷺ (شمارہ 429)
۴﴾قولہﷺ ’’ ولن یشادالدین احدالاغلبہ‘‘ یعنی اتنی شدت دین میں اختیار کرنا کہ مقصود دین پر غالب آجانا ہو تو اس میں کامیابی نہ ہوگی اور نتیجہ میں دین سے مغلوب ہی ہونا پڑے گا، معلوم ہوا کہ جو شدت اس درجہ کی نہ ہوتو وہ اس نہی میں داخل نہیں بلکہ اس کا محمود ہونا بھی ثابت ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا:’’ مومن قوی بہتر ہے مومن ضعیف سے اور یوں خیرو بھلائی دونوں میں ہے‘‘ معلوم ہوا ضعیف کا مرتبہ قوی سے گھٹا ہوا ہے کیونکہ قوی کے دین میں قوت اور ہمت میں بلندی ہوتی ہے، تاہم ضعیف بھی اگر بقدر استطاعت اخلاص نیت کے ساتھ دین کے ضروری احکام بجالائے کا تو وہ بھی خیر و فضیلت سے خالی نہیں ہے ، نیزیہ بھی معلوم ہوا کہ شرعاً مطلوب یہی ہے کہ یقین وعمل کا کمال حاصل کیا جائے مگر شدت و سختی کے ساتھ نہیںبلکہ قوت و نرمی کے ساتھ، عاجزی و فروتنی کے ساتھ۔
نیز نوافل و مستحباب میں اس قدر توغل کیا جائے کہ فرائض و واجبات کی ادائیگی میں خلل پڑے درست نہیں کیونکہ سب سے بڑا اور اصلی درجہ کا تقرب الی اللہ فرائض و واجبات ہی کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے، حضرت عمرؓسے فرمایا کہ صبح کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنا مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے کہ ساری رات﴿نفلی﴾ عبادت کروں اور صبح کی نماز رہ جائے۔
صرف عزیمت پر عمل کرنا اور شرعی رخصتوں سے فائدہ نہ اُٹھانا بھی شدت فی الدین ہے جو شخص دین کو بغیر کتاب و سنت کے دوسرے علوم عقلیہ کے ذریعہ حاصل کرے وہ بھی مشادۃ میں داخل ہے کیونکہ اس طرح حق کا پوری طرح اس پر انکشاف نہ ہو سکے گا اور دین کا حصول اس پر دشوار ہوجائے گا۔
جو شخص دین کے تمام مسائل پر عمل اس شرط پر کرنا چاہے کہ سب مجمع علیہ ہوں تو وہ بھی ناکام ہوگا ،دین پر عمل دشوار ہوجائے گا کیونکہ بہت سے مسائل ایسے ملیں گے جن پر اجماع نہیں ہوسکا۔
جو شخص مقدورات الہٰیہ اور فرائض خداوندی سے دل تنگ ہو کر تسلیم و انقیاد، صبرورضا اختیار نہ کرے گا اس پر بھی دین غالب آجائے گا کیونکہ وہ ان کو ناقابل برداشت مشقت اور دین میں شدت سمجھے گا اور ہمت ہار دے گا جس کی وجہ سے مزید سخت احکام دین اس پر عائد ہوں گے ، جیسا کہ بنی اسرائیل کو جہاد کا حکم ہوا تو ان پر گراں گزرا، اپنے نبی علیہ السلام سے کہا کہ آپ اور آپ کا رب جا کر کافروں سے لڑیں ہم تو یہاں بیٹھیں گے، تو اس کی سزا میں چالیس سال وادی تیہ میں بھٹکتے پھرے۔ جو لوگ مصائب و شدائد پر صبر کرتے ہیں اور ہر حال میں تسلیم و انقیاد کا وتیرہ اختیار کرتے ہیں، ان پر خدا کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔الغرض مقدرو مقدور تو بدل نہیں سکتے اس لئے دین میں شدت سمجھنا یا دین کے کاموں میں شدت اختیار کرنا سخت غلطی ہے۔
۵﴾قولہﷺ’’ فسددواوقاربوا‘‘ یہ دونوں لفظ ہم معنی بھی بولے جاتے ہیں، مراد اس سے درمیانی حالت ہوگی کیونکہ ان کے معنی اعلیٰ سے قریب اور ادنیٰ سے اوپر کے ہوتے ہیں۔ سداد سے مراد اصلاح حال ہے کہ نفس کو تسلیم و انقیاد کا خوگر کیا جائے اور مقاربت اس سے قریبی حالت اختیار کرنا جبکہ سداد کا مقام حاصل نہ کر سکے۔
سداد سے مراد اپنے نفس کی اصلاح اتباع سنت سے کرنا اور مقاربت اس سے قریب رہنا ہے جبکہ سداد دشوار ہو، اگر مقاربت بھی نہ ہو سکے تو اس کو حاصل کرنے کے لئے نفس کا مجاہدہ کیا جائے۔
تسدید سے مراد نفس کو لمبی امیدیں باندھنے سے روکنا ہے، مقاربت کا معنی یہ ہے کہ اگر سداد کا اعلیٰ مرتبہ حاصل نہ ہو سکے تو اس سے قریب تور ہو۔
تسدید سے مراد حقیقت رضا کی تحصیل ہے اور مقاربت سے مراد صبر علی الشدائد ہے، ترک حظوظ و لذات نفسانی کے عمل خیر میں لگے رہو، اگر نہ ہو سکے تو ریاضت و مجاہدات کے ذریعہ اس درجہ کا قرب حاصل کرو۔
۶﴾قولہﷺ’’ وابشروا‘‘بشارت کا تعلق تسدید اور مقاربت سابق سے ہے اور بشارتیں دوقسم کی ہیں:
ایک معلوم ومحدود کہ ایک نیکی پر دس گنا ثواب، ستر گنا، سوگنا، سات سو گنا تک اس کے بعد’’ واللّٰہ یضاعف لمن یشاء‘‘ ﴿ جس کو خدا چاہے اس سے زیادہ دے سکتے ہیں﴾
دوسری قسم وہ ہے کہ اس کی تعیین و تحدید کچھ بھی نہیں کی گئی،مثلاً’’ فلا تعلم نفس مااخفی لھم من قرۃ اعین جزاء بما کانوایعملون‘‘ ﴿ ان لوگوں کے نیک اعمال پر جو کچھ اجرو ثواب اور آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والی عجیب و غریب نعمتیں ہم نے چھپا رکھی ہیں ان کو ہمارے سوا کوئی نہیں جانتا﴾ یہاں دونوں کی بشارت مراد ہو سکتی ہے۔ واللّٰہ ذوا لفضل العظیم
٭.٭.٭
دین آسان ہے
کلام ہادیٔ عالمﷺ (شمارہ 432)
اس طرح کہ اس کی طرف سے کوئی مانع نہیں ہے سوائے اس کے کہ خارجی اسباب کی وجہ سے وہ عمل نہ کر سکے، لیکن اگر خارجی اسبا ب مہیا ہو جائیں تو اس کام کو کرگزرے، اس قسم کے عزم پر مواخذہ ہے کیونکہ یہ اعمال قلب میں سے ہے جیسا کہ عقائد یا اخلاق بد اور انسان پر اعمال قلب کی وجہ سے مواخذہ ہے جیساکہ بدنی اعمال پر مواخذہ ہے۔ لیکن جاننا چاہیے کہ گناہ کا عزم عین معصیت نہیں ہے کہ جس کا وہ ارادہ رکھتا ہے مثلاً عزم زنا معصیت ہے اور انسان پر اس کی وجہ سے مواخذہ ہے لیکن زنا نہیں ہے اور اس کا مواخذہ زنا کے مواخذہ کی طرح نہیں ہے بلکہ بذات خود معصیت ہے اور زنا کے درجہ سے کمتر ہے( اشعۃ اللمعات فارسی شرح مشکوٰۃ ص ۸۶)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کے اصحاب میں سے کچھ لوگ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپﷺ سے دریافت کیا کہ ہمارا حال یہ ہے کہ بعض اوقات ہم اپنے دلوں میں ایسے برے خیالات اور وسوسے پاتے ہیں کہ ان کو زبان سے کہنا بھی بہت برا اور بہت بھاری معلوم ہوتا ہے، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا واقعی تمہاری یہ حالت ہے؟ انہوں نے عرض کیا: ہاں، یا رسول اللہ! یہی حال ہے۔آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ تو خالص ایمان ہے۔( مسلم)
مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کی یہ کیفیت کہ وہ دین و شریعت کے خلاف وساوس سے اتنا گھبرائے اور ان کو اتنا برا سمجھے کہ زبان سے ادا کرنابھی اس کو گراں ہو، یہ خالص ایمانی کیفیت ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺکی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا کہ کبھی کبھی میرے دل میں ایسے برے خیالات آتے ہیں کہ جل کر کوئلہ ہوجانا مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں ان کو زبان سے نکالوں۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کی حمد اور اس کا شکر ہے جس نے اس کے معاملہ کو وسوسہ کی طرف لوٹا دیا ہے۔( رواہ ابودائود)
مطلب یہ ہے کہ غمگین اور فکر مند ہونے کی بات نہیں، بلکہ اس پر اللہ کا شکر کرو کہ اس کے فضل و کرم اور اس کی دستگیری نے تمہارے دل کو ان برے خیالات کے قبول کرنے اور اپنانے سے بچا لیا ہے اور بات وسوسہ کی حد سے آگے نہیں بڑھنے دی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے کسی کسی کے پاس شیطان آتا ہے اور کہتا ہے کہ فلاں چیز کو کس نے پیدا کیا؟ فلاں چیز کو کس نے پیدا کیا؟( یہاں تک کہ یہی سوال اللہ تعالیٰ کے متعلق بھی دل میں ڈالتا ہے کہ جب ہر چیز کا کوئی پیدا کرنے والا ہے تو پھر) اللہ کا پیدا کرنے والا کون ہے؟ پس سوال کا سلسلہ جب یہاں تک پہنچے تو چاہئے کہ بندہ اللہ سے پناہ مانگے اور رک جائے۔( بخاری و مسلم)
مطلب یہ ہے کہ اس قسم کے وسوسے اور سوالات شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں اور جب شیطان کسی کے دل میں اللہ تعالیٰ کے متعلق ایسا جاہلانہ اور احمقانہ سوال ڈالے تو اس کا سید ھا اور آسان علاج یہ ہے کہ بندہ شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے اور خیال کو اس طرف سے پھیرلے، یعنی اس مسئلہ کو قابل توجہ اور لائق غور ہی نہ سمجھے اور واقعہ بھی یہی ہے کہ اللہ جب اس ہستی کا نام ہے جس کا وجود اس کی ذاتی صفت ہے اور جو تمام موجودات کو وجود بخشنے والا ہے، اس کے متعلق یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔
مومن کا رویہ اس قسم کے سوالات اور وساوس کے بارے میں یہ ہونا چاہئے کہ وہ سوال کرنے والے آدمی سے یا وسوسہ ڈالنے والے شیطان سے کہہ دے کہ اللہ اور ان کے رسولوں پر ایمان کی روشنی مجھے نصیب ہوچکی ہے، اس لئے میرے لئے یہ سوال بالکل قابل غور نہیں۔( معارف الحدیث)
وساوس کا علاج
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں کہ وساوس کا علاج یہ نہیں کہ تم ان کے دفع کرنے کا اہتمام اور قصد کرو کیونکہ یہ تو بجلی کا تار ہے، دفع کے قصد سے بھی ہاتھ لگائو گے تو چمٹ جائے گا، بلکہ اس کا علاج وہ ہے جو حدیث میں آیا ہے جو دواجزء سے مرکب ہے۔
دین آسان ہے
کلام ہادیٔ عالمﷺ (شمارہ 433)
’’ فلتسعذباللّٰہ ثم لینتہ‘‘
ایک یہ کہ تعوذ باللہ میں مشغول ہو، اس کا حاصل یہی ہے کہ اپنی توجہ کو دوسری طرف مشغول کرو، ذکر اللہ میں لگ جائو، دوسرا جزویہ ہے کہ وسوسہ کی طرف التفات نہ کرے۔قصداًادھر توجہ نہ کرے ۔ ’’ و لینتہ‘‘ سے مراد یہی ہے ، وسوسہ کا دفع کرنا مراد نہیں کیونکہ اول تو انتہا’’ لازم‘‘ ہے جس کا معنی ہے باز آمدن یعنی رک جانا، متعدی نہیں ہے جس کا معنی دفع کرناہے۔ دوسرے تجربہ ہے کہ نفع عدم التفات ہی سے ہوتا ہے نہ کہ قصد دفع سے، اس لئے حدیث کے وہی معنی مراد لینا پڑیں گے جو وسوسہ کے دفع میںنا فع ہیں۔
فرمایا: بدگمانی کا جو ابتدائی درجہ ہے جو بطور وسوسہ کے ہوتا ہے گو اس میں گناہ نہیںمگر علاج اس کا بھی ضروری ہے تاکہ اس میں ترقی نہ ہوجائے پھر معاصی کی طرف مفضی نہ ہوجائے، اس کا خاص علاج یہ ہے کہ جب بدگمانی کا وسوسہ آئے فوراً کسی خیال محمود کی طرف ذہن کو منتقل کر لو اور کام میں لگ جائو اور کام میں لگ جانے کے بعد بھی اگر کچھ خیال رہے تو وہ خیال اصلاً مضر نہیں، اس سے بے فکر رہو۔
حاصل یہ کہ بدگمانی میں گناہ کا درجہ تو وہ ہے جو ذہن میں اعتقاد راسخ ہو، اگر راسخ نہ ہو تو مضر نہیں مگر علاج اس کا بھی ضروری ہے ،پھر اگر علاج کے بعد بھی کچھ اثر رہے تو وہ مضر نہیں، یہی علاج ہے وساوس کا۔( افادات حضرت تھانویؒ )
منافقانہ اعمال و عادات
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں(۱) بات کرے توجھوٹ بولے(۲) وعدہ کرے تو پورا نہ کرے (۳) امانت میں خیانت کرے۔دوسری حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت اس طرح ہے کہ نبیﷺنے فرمایا:جس شخص میں چار باتیں ہوں گی وہ خالص منافق ہوگااور جس میں ان چاروں میں سے کوئی ایک خصلت ہوگی تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہوگی حتی کہ وہ اس سے باز آجائے۔(۱) امانت میں خیانت کرے (۲) باتوں میں جھوٹ بولے (۳) عہد کو پورا نہ کرے (۴) کسی سے جھگڑا کرے تو آپے سے باہر ہو کر بدزبانی پر اُترآئے۔( بخاری و مسلم)
حقیقی اور اصلی نفاق تو یہ ہے کہ آدمی نے دل سے تو اسلام قبول نہ کیا ہو بلکہ دل سے خدا ورسول کا منکر ہو، لیکن کسی وجہ سے یا مسلمانوں کے غلبہ اور ان کے ڈر کی وجہ سے اپنے کو مومن و مسلم ظاہر کرتا ہو، جیسا کہ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں عبداللہ بن ابی وغیرہ منافقین کا حال تھا یہ نفاق دراصل بدترین قسم کا کفر ہے، ایسے منافقین کے بارے میں قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:
’’ ان المنافقین فی الدرک الا سفل من النار‘‘
بیشک یہ منافقین دوزخ کے سب سے نیچے کے طبقے میں ڈالے جائیں گے۔
لیکن بعض بری عادتیں اور بدخصلتیں بھی ایسی ہیں جن کو ان منافقین سے خاص نسبت اور مناسبت ہے اور وہ دراصل منافقین ہی کی خصلتیں ہیں اور کسی صاحب ایمان میں یہ نہیں ہونی چاہئیں، اگر بدقسمتی سے کسی مسلمان میں ان میں سے کوئی عادت پائی جائے تو سمجھا جائے گا کہ اس میں یہ منافقانہ عادت ہے اور اگر کسی میں بدبختی سے منافقوں والی یہ ساری عادتیں جمع ہوجائیں تو سمجھا جائے گا کہ وہ شخص اپنی سیرت میں پورا منافق ہے۔
الغرض ایک تو ایمان و عقیدے والا نفاق ہے جو کفر کی بدترین قسم ہے لیکن اس کے علاوہ کسی شخص کی سیرت کا منافقوں والی سیرت ہونا بھی ایک قسم کا نفاق ہے، اس لئے ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ جس طرح وہ کفر و شرک اور اعتقادی نفاق کی نجاست سے بچے، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وہ منافقانہ سیرت اور منافقانہ اعمال و عادات سے بھی اپنے کو محفوظ رکھے۔
اس حدیث میں رسول اللہﷺ نے خصائل نفاق میں سے چار کا ذکر فرمایا ہے۔(۱)خیانت (۲) جھوٹ (۳) عہد شکنی(۴) بدزبانی،اور فرمایا ہے کہ جس شخص میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہو اس کو سمجھنا چاہئے کہ اس میں ایک منافقانہ خصلت ہے اور جس میں یہ چاروں خصلتیں جمع ہوں وہ اپنی سیرت میں خالص منافق ہے۔
دونوں روایتوں کے مجموعہ سے پانچ خصلتیں معلوم ہوئیں،مقصد یہ ہے کہ مومن کو ایسی باتوں سے سخت پرہیز کرنا چاہئے:
۱…جھوٹ یعنی خلاف واقعہ بات کہنا خدا کو نہایت ناپسند ہے وہ خود سچا ہے اور سچائی اس کو محبوب ہے، جھوٹ کے ناپسند ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس سے فتنے پھیلتے ہیں ، دلوں میں برائیاں پیدا ہوتی ہے، غلط خبروں سے لوگ مغالطوں میں پڑتے ہیں اور ایک غلط بات سے بعض اوقات ہزاردوسری غلطیاں رونما ہوجاتی ہیں،اسی لئے حدیث میں ہے جو شخص خدا اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ صرف اچھی بات زبان سے نکالے ورنہ خاموش رہے…
منافقانہ اعمال و عادات
کلام ہادیٔ عالمﷺ (شمارہ 434)
ایک حدیث میں ہے کہ لوگوں کی بہت بڑی تعداد جہنم میں اوندھے منہ صرف اس لئے ڈالی جائے گی کہ انہوں نے دنیامیںاپنی زبانوں پر کنٹرول نہیں کیا تھا،جھوٹ، غیبت، فتنہ انگیزی، لعن طعن، سب و شتم وغیرہ کرتے رہے تھے۔ قرآن مجید میں ہے:
’’قل لعبادی یقول التی ھی احسن،ان الشیطان ینزغ بینہم،ان الشیطان کان للانسان عدواًمبینا‘‘
( میرے بندوں کو کہہ دیجئے کہ ہمیشہ اچھی باتیں کیا کریں کیونکہ شیطان گھات میں ہے، ہر وقت ان میں جھگڑے ڈلوانے کی فکروسعی کرتا رہتا ہے وہ انسانوں کا کھلا دشمن ہے)
غرض اکثر فتنہ و فساد جھوٹی اور غلط خبروں سے پھیلتے ہیں ،اسی حدیث میں ہے کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہ بھی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات کو بے تحقیق بیان کردے لہٰذاہمیشہ سچی پکی اور تحقیق شدہ بات زبان سے نکالنی چاہئے بلکہ سچی بات بھی جوفتنہ و فساد یا لوگوں کی آپس میں نفرت ودشمنی کا باعث ہو نہ کہنی چاہئے کیونکہ لوگوں میں صلح واصلاح کی باتیں کرنا اسلامی شریعت کا اہم فریضہ ہے اور ’’فسادذات البین‘‘ کی باتیں کرنا حرام و ناجائز ہیں۔ اس لئے اگر جھوٹ بول کر لڑنے والوں کے قلوب میں صلح و صفائی کی صورت نکالی جا سکے تو ایسے وقت جھوٹ بولنا بھی جائز ہے۔
حضرت مولانا محمد انور شاہ صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ جب بات کہے تو سچ کہے مگر یہ ضروری نہیں کہ کوئی بات سچ معلوم ہو تو اس کو ضرورہی کہہ دے، کیونکہ بعض اوقات سچی بات کہنا بھی فتنہ کا سبب بن جاتا ہے، ایک مسئلہ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ جھوٹ وہی قابل مواخذہ ہے کہ جان بوجھ کر کوئی خلاف واقعہ بات کہی جائے،لہٰذااگرایک محتاط آدمی کسی غلطی کی وجہ سے خلاف واقعہ بات کہہ دے تو وہ مواخذہ سے بری ہوگا کیونکہ وہ اپنی معلومات کی حدتک اس کو صحیح ہی سمجھ کر کہہ رہا ہے۔
۲)وعدہ کا ایفا نہ کرنا، یہ بھی سخت گناہ ہے اور مومن کی شان سے بعید ہے ،اسی لئے علامات نفاق سے قرار پایا، پھر اس کی دو صورتیں ہیں، اگر وعدہ کرنے کے وقت ہی اس کو پورا کرنے کی نیت نہ تھی تو خلاف وعدہ کرنے سے مکروہ تحریمی کا گناہ ہوگا اور اگر نیت اس وقت پورا کرنے ہی کی تھی مگر کسی مانع و مجبوری سے پورا نہ کرسکا تو اس میں کوئی گناہ نہیں، اسی طرح زید بن ارقمؓ سے مرفوعاً ابو دائودو ترمذی میں بھی وارد ہے۔نیز وعید کا خلاف کرنا بھی درست بلکہ مستحب ہے، وعید یہ ہے کہ کسی مسلمان کو غصہ یا مصلحت سے ڈرایا دھمکایا کہ تجھے فلاں نقصان پہنچائوں گا تو ایسے وعدہ کا خلاف کرنا بہتر ہے۔
۳)امانت میں خیانت کرنا۔ اس میں مال ومتاع کی امانت بھی داخل ہے اور کسی نے راز کی بات کہی تو اس کا بھی یہی حکم ہے کہ اس کو دوسروں پر ظاہر کرنا خیانت کے حکم میں ہوگا۔ ’’المجالس بالامانۃ‘‘ یعنی مجلسوں کی بات بھی ان خاص مجلس والوں کے درمیان بطور امانت ہے، مجلس کے باہر کے لوگوں پر ظاہر کرنا درست نہیں۔
۴)جب کسی سے معاہدہ کرے تو غدر کرے،وعدہ اور معاہدہ میں فرق ہے۔ فرق یہ ہے کہ وعدہ ایک طرف سے ہوتاہے اورمعاہدہ دونوںطرف سے ہوتاہے، معاہدوں کی پابندی اسلام اور مسلمانوں کا وہ خصوصی اور امتیازی و صف ہے کہ دوسرے مذاہب وملل میں اس کی نظیر نہیں ملتی،اس لئے نقض عہد نفاق کی بڑی علامت قرار دیا گیا۔
۵)کسی سے جھگڑا ہویا اختلاف پیش آئے تو بیہودہ گوئی، بے تہذیبی پر آجائے، یہ بھی مومن کی شان سے بعید ہے۔ حدیث میں ہے کہ حاملین قرآن کو جاہلوں کی طرح نہیں جھگڑنا چاہئے، یعنی ان کا اخلاقی کردار بہت بلند ہونا چاہئے۔ یہ منافقوں اور جاہلوں کی خصلت ہے کہ جھگڑے کے وقت اول فول بکنے لگیں۔
بعض محققین کے اقوال
علامہ بدالدین عینیؒ نے تحریر فرمایا کہ ایک جماعت علماء نے اس حدیث کو مشکل احادیث میں شمار کیا ہے، کیونکہ جو خصلتیں اس میں منافقین کی بتلائی گئی ہیں وہ بعض مسلمانوں میں بھی پائی جاتی ہیں کیونکہ دل و زبان کی گہرائی و سچائی کے لحاظ سے یقینا مسلمان ہیںاور یہ بھی اجماع ہے کہ ان امور کے ارتکاب سے بھی ان پر کفرو نفاق کا حکم نہیں لگ سکتا نہ ان کو جہنم کے درک اسفل کا مستحق گردانا گیا ہے جو منافقوں کا مقام ہوگا۔ پھر اس حدیث کا صحیح مصداق کیا ہے، علامہ عینیؒ نے لکھا کہ علماء محققین کے اس میں حسب ذیل متعدد اقوال ہیں:
ا)امام محی الدین نوویؒ نے فرمایا کہ حدیث میں کوئی اشکال نہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب خصلتیں نفاق کی ہیں اور ایسی خصلتوں والا منافق سے مشابہ ہے کیونکہ نفاق،باطن کے خلاف امر کو ظاہر کرناہے جو ان خصلتوں والے میں بھی موجود ہے، پس ان خصلتوں والا دراصل اسلام کی خاص اصطلاح کامنافق نہیں ہے جوکفر کو چھپاتا ہے بلکہ اس کے نفاق کا تعلق خاص اس خصلت سے ہے جس سے وہ جھوٹ بولتا ہے، جس سے وعدہ خلافی کرتا ہے، جس سے معاہدہ کرکے توڑتا ہے یا جس سے امانت میں خیانت کرتا ہے وغیرہ۔
منافقانہ اعمال و عادات
کلام ہادیٔ عالمﷺ (شمارہ 435)
۲… بعض علماء کاقول ہے کہ اس نفاق کے حکم میں وہ لوگ داخل ہیں جو اکثری طور پر ان خصائل کے عادی ہیں لیکن جن سے شاذو نادر کبھی ایسی خصلتوں کا ظہور ہوتا ہے وہ اس حدیث کا مصداق نہیں ہیں۔
۳…علامہ خطابیؒ نے فرمایا کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے ان بری خصلتوں سے ڈرانے اورا حتراز کرنے کی غرض سے ایسا فرمایا ہے تاکہ لوگ ایسی خصلتوں کے عادی نہ ہوں جن سے نفاق کی حدتک پہنچ سکتے ہیں۔ باقی نادر وغیر اختیاری صورتیں مراد نہیں۔ جس طرح حدیث میں ہے’’ التاجر فاجرواکثرمنافقی امتی قراء ھا‘‘(تجارت پیشہ فسق و فجور کے مرتکب ہیں اور میری اُمت کے اکثرمنافق قاری ہیں) اس میں بھی تاجر کو جھوٹ سے اور قاریوں کو ریا سے ڈرانابچانا ہے، ورنہ سب تاجر فاجرو کذاب نہیں ہوتے اور نہ سب قاری غیر مخلص وریا کار ہوتے ہیں۔
۴… بعض علماء کا قول ہے کہ یہ حدیث ایک مخصوص منافق کے بارے میں وارد ہے مگر آنحضرتﷺ کسی کو متعین کر کے اس کا عیب نہیں بتلایا کرتے تھے اس لئے عام الفاظ سے فرمایا۔
۵…بعض علماء نے کہا کہ اس حدیث میں زمانہ رسالت کے وہ منافق مراد ہیں جنہوں نے ایمان کا دعویٰ کیا مگر جھوٹے تھے، وہ اپنے دین کے امین بنائے گئے تھے مگر اس میں خیانت کی،حضور اکرمﷺ سے نصرت ِ دین کا وعدہ کیا تھا مگر اس کو پورا نہ کیا، اسی مراد کو اکثر ائمہ نے پسند کیا۔ یہی قول عطاء بن ابی رباح کا اس حدیث کی تفسیرمیںہے، اسی شرح کو حسن بصریؒ نے اختیار کیا تھا۔ یہی مذہب ابن عمر، ابن عباس اور سعید بن جبیر رضی اللہ عنہم کا ہے۔ مقصد ان سب کا یہ تھا کہ اس حدیث سے کسی مسلمان میں ایسی خصلتیں دیکھ کر اس کو منافق کہنا درست نہیں ہے۔
مذکورہ توجیہ کی تائید اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت سعید بن جبیرکو اس حدیث کے سبب بڑی فکر ہوئی کہ یہ علامات نفاق کی ہیں اور بعض مسلمان بھی ان خصلتوں سے بچ نہیں پاتے، اس لئے انہوں نے حضرت ابن عمرؓ اور حضرت ابن عباسؓ سے سوال کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں بھی یہی فکرو پریشانی لاحق ہوئی تھی تو ہم نے خود رسول اللہﷺ سے سوال کر لیا تھا، اس پر حضور اقدس ﷺ نے ہنس کر فرمایا تھی: تمہیں ان خصلتوں سے کیا واسطہ؟ یہ تومنافقین کی مخصوص صفات ہیں، چنانچہ میں نے جو کہا: ’’ جب بات کرے تو جھوٹ بولے‘‘ یہ منافقوں کے اس واقعہ سے متعلق ہے جس کے بارے میں آیت’’ اذاجاء ک المنافقون‘‘ اتری ہے۔ کیا تم اس طرح ہو؟ ہم نے عرض کیا:’’ نہیں‘‘ آپﷺ نے فرمایا: پھر تمہیں کیا ڈر ہے تم تو ان باتوں سے بری ہو۔
اور یہ جو میں نے کہا کہ’’ وعدہ کرے تو خلاف کرے‘‘ تو اس کا مصداق وہ مضمون ہے جو آیت’’ ومنھم من عاھداللّٰہ لئن اتانا من فضلہ‘‘ میں بیان ہوا ہے، کیا تم ایسے ہو؟ ہم نے عرض کیا: نہیں، آپﷺ نے فرمایا: پھر تمہیں کیا فکر ہے، تم اس سے الگ ہو۔
فرمایا پھر یہ جو میں نے بتلایا کہ’’ جب امین بنایا جائے تو خیانت کرے‘‘ تو اس سے اشارہ اس آیت کے مضمون کی طرف ہے جو مجھ پر اُتری’’اناعرضناالامانۃ علی السمٰوات والارض والجبال الخ‘‘ پس ہر انسان کو اس کے دین کی امانت سونپی گئی ہے، غسل جنابت کرے گا، پاک ہو کر نماز روزہ صحیح طور سے ادا کرے گا۔ اب یہ اس کے اپنے ظاہر وباطن کے اعمال ہیں( یعنی پاکی ناپاکی یا نماز روزہ کی صحیح ادائیگی کا حال عالم الغیب خدا کے سوا کون جان سکتا ہے) منافق کے اس قسم کے سارے اعمال دھوکہ ہی دھوکہ ہوتے ہیں تاکہ مسلمان ان کے ظاہری اعمال کے سبب ان کو اپنے جیسا مخلص سمجھیں، حالانکہ وہ اپنے دین میں خیانت کر رہا ہے تو کیا تمہارا حال بھی ایسا ہے؟ہم نے عرض کیا:بالکل نہیں یا رسول اللہ! فرمایا: پھر تمہیں کیا غم ہے تم ان خصلتوں سے پاک صاف ہو۔
۶…حضرت حذیفہؓ نے فرمایا کہ نفاق اب نہیں رہا، وہ صرف حضور اکرمﷺ کے زمانے میں تھا کہ وہ لوگ کفر پر پیدا ہوئے تھے اور وہ ان کے دلوں میں رچا ہواتھا، مسلمانوں کے ڈر اور مصلحت وقت سے مجبور ہو کر اسلام ظاہر کرتے اور سارے اعمال نماز روزہ وغیرہ بھی ادا کرتے تھے۔ اب اسلام کی اشاعت پوری طرح ہوگئی، لوگ اسلام( دین فطرت) ہی پر پیدا ہوتے ہیں، اسی میں ہوش سنبھالتے ہیں، لہٰذااس کے بعد جو لوگ اسلام ظاہر کریں اور دل میں کفر ہو وہ تو منافق نہیں بلکہ مرتد کہلائیں گے۔
منافقانہ اعمال و عادات
کلام ہادیٔ عالمﷺ (شمارہ 436)
۷…قاضی عیاضؒ نے فرمایاکہ حدیث کا مقصد صرف ان چارپانچ خصلتوں کے اندر منافقین کے ساتھ تشبیہ دینا ہے، پورے اسلام کے ساتھ نفاق کرنے والوں کے نفاق سے تشبیہ دینا مقصودنہیں ہے اور ایسے خصائل والے مومن کو صرف اس شخص کے لحاظ سے ہی نفاق کی بات کرنے والا سمجھیں گے جس کے ساتھ وہ ایسا معاملہ کرے گا۔ یہ توجیہ اول توجیہ سے ملتی جلتی ہے۔
۸…علامہ قرطبیؒ نے فرمایا: نفاق سے مراد عمل کا نفاق ہے عقیدہ کا نہیں، جس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضرت حذیفہؓ سے فرمایا تھا کیا تم میرے اندر کچھ نفاق پاتے ہو؟ ظاہر ہے کہ اس سے مراد عمل ہی کا نفاق ہو سکتا تھا، عملی نفاق سے مراد اخلاص و احسان کی کمی ہوسکتی ہے، حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری میں اس کو سب سے احسن جواب بتایا ہے۔
۹… ان سب اقوال کے بعد محقق حافظ بدرالدین عینیؒ نے فرمایا: میں کہتا ہوں کہ المنافق میں الف لام اگر جنس کا ہے توحدیث کا منشا صرف تشبیہ وتمثیل ہی ہے، حقیقت کا اظہار ہرگز نہیں اور اگر عہد کا ہے تو اس سے مراد کوئی خاص متعین منافق ہے یاحضور اکرمﷺ کے زمانے کے منافق ہیں۔
۱۰…حضرت مولانا محمد انور شاہ صاحبؒ نے فرمایا کہ حدیث میں نفاق کی علامات و نشانیاں بتلائی ہیں، علل و اسباب نہیں بتائے۔ کسی چیز کی ابتدائی علامات و نشانیوں کے وجود سے یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز بھی متحقق ہوجائے جس کی یہ علامات ہیں، جیسے علامات قیامت کہ بہت پہلے سے اس کے آثار اور نشانیاں ظاہر ہورہی ہیں، اگر یہ سب اس کی علت ہوتیں تو قیامت کا وجود ضرورہوجاتا۔
غرض علامت کے وجود سے صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ نفاق کی خصلت بطور علامت پائی گئی اور اس کی وجہ سے اس شخص کو منافق نہ کہیں گے۔( انوارالباری ج ۲)
جہاد سے پہلو تہی کرنا نفاق کی علامت ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جو شخص اس حال میں مرا کہ نہ تو اس نے کبھی جہاد کیااور نہ اپنے جی میں اس کی تجویزیں سوچیں اور تمنا کی، تو وہ نفاق کی ایک صفت پر مرا۔( مسلم)
مطلب یہ ہے کہ ایسی زندگی جس میں دعویٰ ایمان کے باوجود نہ کبھی راہ خدا میں جہاد کی نوبت آئے اور نہ دل میں اس کاشوق اور اس کی تمنا ہو، یہ منافقوں کی زندگی ہے اور جو اسی حال میں اس دنیا سے جائے گا وہ نفاق کی ایک صفت کے ساتھ جائے گا۔
جہاد و قتال فی سبیل اللہ: اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمام نبی ورسول اسی لئے بھیجے گئے کہ وہ اس کے بندوں کو’’دین حق‘‘ یعنی زندگی کے اس خدا پر ستانہ اور انسانیت کے اعلیٰ طریقہ کی دعوت و تعلیم دیں اور اس پر چلانے کی کوشش کریں جو ان کے خالق و پروردگار نے ان کے لئے مقرر کیا ہے اور جس میں ان کی دنیا و آخرت کی صلاح و فلاح ہے اور جس پر چلنے والوں کے لئے خدا کی رضا و رحمت اور جنت کی ضمانت ہے۔
قرآن مجید کا بیان ہے کہ سب ہی انبیاء و رسل علیہم السلام نے اپنے اپنے دور اور دائرہ میں اسی کی دعوت دی اور اسی کے لئے جدوجہد کی لیکن قریباً سب ہی انبیاء کے ساتھ ایسا ہوا کہ ان کے زمانے اور ان کی قوم کے شریر اور بدنفس لوگوں نے نہ صرف یہ کہ ان کی دعوت حق کو قبول نہیں کیابلکہ شدید مخالفت کی اور اس مزاحمت کی وجہ سے دوسروں کا بھی راستہ روکا اور اگر ان کے ہاتھ میں طاقت تھی تو انہوں نے اللہ کے نبیوں اور ان پر ایمان لانے والوں کو ظلم و جبر کا بھی نشانہ بنایا۔
منافقانہ اعمال و عادات
کلام ہادیٔ عالمﷺ (شمارہ 437)
بلاشبہ انبیاء علیہم السلام اور ان کی دعوت حق کے دشمن، انسانوں اور انسانیت کے حق میں سانپوں اور اژدہوں سے بھی زیادہ زہریلے اور خطرناک تھے اس لئے اکثر ایسا ہوا کہ ایسے لوگوں اور ایسی قوموں پر خدا کا عذاب نازل ہوا اور صفحہ ہستی سے ان کا نام و نشان تک مٹادیا گیا اور وہ اسی کے مستحق تھے۔’’وماظلمھم اللّٰہ ولکن کانواانفسھم یظلمون‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیابلکہ وہ خود اپنے آپ پر ظلم کرنے والے تھے(کیونکہ انہوںنے دعوت حق کو ٹھکرادیاتھا) قرآن مجید میں حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کے شریر اور بد نفس مخالفین اور مکذبین کے حالات بڑی تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں۔
سب سے آخر میں خاتم النبیین سیدنا حضرت محمدﷺ مبعوث ہوئے، انبیاء سابقین کی طرح آپﷺنے بھی قوم کو دین حق کی دعوت دی، ان میں سے نیک فطرت اور سعادتمند بندگان خدانے آپﷺکی دعوت کو قبول کیا اور کفروشرک، فسق و فجور اور ظلم و عدوان کی جاہلی زندگی چھوڑ کر وہ خدا پر ستانہ پاکیزہ زندگی اختیار کر لی جس کی نبی اکرمﷺدعوت دیتے تھے، لیکن قوم کے اکثر بڑوں اور سرداروں نے شدید مخالفت کی اور مزاحمت کا رویہ اختیار کیا،خود رسول اللہﷺ کو بھی ستایا اور آپ ﷺ پر ایمان لانے والوں پر، خاص کر بیچارے غرباء اور ضعفاء پر مظالم و مصائب کے پہاڑ توڑے۔ مکہ کے یہ اشرار ابو جہل،ابو لہب وغیرہ بلاشبہ اس کے مستحق تھے کہ اگلی اُمتوں کے معاندین کی طرح ان پر بھی آسمانی عذاب نازل ہوتا اور ان کے وجود سے صفحہ ہستی کو پاک کردیا جاتا لیکن رسول اللہﷺکو اللہ تعالیٰ نے سیدالمرسیلن وخاتم النبیین کے علاوہ رحمۃ للعالمین بھی بنا کر بھیجا تھا اور اس بنا پر آپﷺ کے لئے طے فرما دیا تھا کہ آپﷺکے مخالفین اور مکذبین اور ستانے والے خبیث ترین دشمنوں پر بھی آسمانی عذاب نازل نہیں کیا جائے گا اور بجائے اس کے آپﷺپر ایمان لانے والوں ہی کے ذریعہ ان کا زور توڑاجائے گا اور’’ دین حق‘‘کی دعوت کا راستہ صاف کیا جائے گا اور انہی کے ہاتھوں سے ان مجرمین کو سزادلوائی جائے گی اوراس عمل میں ان کی حیثیت اللہ کے لشکریوں اور خداوندی کارندوں کی ہوگی،چنانچہ جب وہ وقت آگیا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے لئے مقرر تھا تو نبوت کے تیرھویں سال رسول اللہﷺ اور آپ پر ایمان لانے والوں کو مکہ معظمہ سے ہجرت کا حکم ہوا، یہ ہجرت دراصل دین حق کی دعوت کے اس دوسرے مرحلہ کی ا بتداتھی جس کے لئے ایمان لانے والے حاملین دعوت کو اللہ تعالیٰ کا حکم تھا کہ وہ مزاحمت کرنے والے اور اہل ایمان پر ظلم و ستم کرنے والے اشرارناہنجار کا زور توڑنے کے لئے اور دعوت حق کا راستہ صاف کرنے کے لئے حسب ضرورت اپنی جان اور اپنی ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیارہو جائیں اور میدان میں آجائیں ، اسی کا عنوان جہاد و قتال فی سبیل اللہ ہے اور اس راستہ میں اپنی جان قربان کر دینے کا نام شہادت ہے۔
الغرض کفرو اہل کفر کے خلاف اہل ایمان کی مسلح جدوجہد(خواہ اقدامی ہو یا دفاعی) اللہ ورسولﷺکے نزدیک اور شریعت کی زبان میں جب ہی’’ جہاد و قتال فی سبیل اللہ‘‘ہے جبکہ اس کا مقصد دین حق کی حفاظت و نصرت یا اس کے لئے راستہ صاف کرنا اور اللہ کے بندوں کو خدا کی رحمت کا مستحق بنانا اور جنتی بنانا ہو۔ لیکن اگر جنگ اور طاقت آزمائی کا مقصد ملک و مال ہو یا اپنی قوم یاوطن کاجھنڈااونچا رکھنا ہواور اس میں کفرو اسلام کا کوئی سوال نہ ہو، نہ کسی اسلامی ملک کی سرحدات کی حفاظت مقصود ہو، تو وہ ہرگز جہاد وقتال فی سبیل اللہ نہیں ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺ کی شریعت میں جہاد کا حکم و قانون اس لحاظ سے بڑی رحمت ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی دعوت حق کی تکذیب اور مزاحمت کرنے والوں پر جس طرح کے آسمانی عذاب پہلے آیا کرتے تھے اب قیامت تک کبھی نہ آئیں گے۔
جہادسے پہلوتہی کرنا نفاق کی علامت
کلام ہادیٔ عالمﷺ (شمارہ 438)
جہاد اور قتال فی سبیل اللہ کی اللہ اور اس کے رسولﷺ کے نزدیک کتنی اہمیت ہے اس کے لئے چند احادیث لکھی جاتی ہیں۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:اس پاک ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر یہ بات نہ ہوتی کہ بہت سے اہل ایمان کے دل اس پر راضی نہیں کہ وہ جہاد کے سفر میں میرے ساتھ نہ جائیںاور میرے پاس ان کے لئے سواریوں کا انتظام نہیں ہے( اگر یہ مجبوری حائل نہ ہوتی) تو میں راہ خدا میں جہاد کے لئے جانے والی ہر جماعت کے ساتھ جاتا( اور جہاد کی ہر مہم میں حصہ لیتا) قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میری دلی آرزو ہے کہ میں راہ خدا میں شہید کیا جائوں اور مجھے پھر زندہ کر دیا جائے اور میں پھر شہید کیا جائوں اور پھر مجھے زندہ کیا جائے اور میں پھر شہید کیا جائوں اور پھر مجھے زندگی عطا کی جائے اور پھر میں شہید کیا جائوں ۔( صحیح بخاری ومسلم)
اس حدیث کا مقصد ومدعا جہاد اور شہادت فی سبیل اللہ کی عظمت اور محبوبیت بیان فرمانا ہے، حضور اقدسﷺ کے ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ میرے دل کا داعیہ اور جذبہ تو یہ ہے کہ راہ خدا میں جہاد کے لئے جانے والے ہر لشکر اور ہر دستہ کے ساتھ جائوں اور ہر جہادی مہم میں میری شرکت ہو لیکن مجبوری یہ دامن گیر ہے کہ مسلمانوں میں بہت سے ایسے فدائی ہیں جو اس پر راضی نہیں ہوسکتے کہ میں جائوں اور وہ میرے ساتھ نہ جائیں اور میرے پاس ان سب کے لئے سواریوں کا بندوبست نہیں ہے، اس لئے ان کی خاطر میں اپنے جذبہ کو دبا لیتا ہوں اور انتہائی دلی خواہش کے باوجود ہر جہادی مہم میں نہیں جاتا ۔ آگے حضورﷺ نے اس سلسلہ میں اپنے دلی داعیہ اور جذبے کا اظہار فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا اور قسم کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ میری دلی آرزو یہ ہے کہ میں میدان جہاد میں دشمنان حق کے ہاتھوں قتل کیا جائوں ۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ مجھے پھر زندہ فرمائے اور میں پھر اس کی راہ میں اسی طرح قتل کیا جائوں اور پھر اللہ تعالی مجھے زندگی عطا فرمائے اور پھر اسی طرح شہید کیا جائوں اور پھر مجھے زندگی عطا ہو اور میں پھر اس کو قربان کروں اور شہید کیا جائوں۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:دوآنکھیں ایسی ہیں جن کو دوزخ کی آگ چھو بھی نہیں سکے گی۔ ایک وہ آنکھ جو اللہ کے خوف سے روئی ہو اور دوسری وہ آنکھ جس نے جہاد میں (رات کو جاگ کر) چوکیداری اور پہرہ داری کی خدمت انجام دی ہو۔(رواہ الترمذی)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا کہ ایک صبح کو راہ خدا میں نکلنا یا ایک شام کو نکلنا دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔(صحیح بخاری و مسلم)
مطلب یہ ہے کہ راہ خدا میں تھوڑے سے وقت کا نکلنا بھی اللہ کے نزدیک دنیا و مافیہا سے بہتر ہے اور یقین کرنا چاہئے کہ آخرت میں اس کا جو اجر ملے گا اس کے مقابلہ میں یہ ساری دنیا اور جو کچھ اس میں ہے ہیچ ہے۔ دنیا اور اس میں جو کچھ ہے فانی ہے اور وہ اجرلافانی ہے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:جنت کے دروازے تلواروں کے سائے تلے ہیں۔(مسلم)
مطلب یہ ہے کہ میدان جہاد میں جہاں تلواریں سروں پر کھیلتی ہیں( آج کل بم یا میزائل وغیرہ) اور اللہ کے راستہ میں جان کی بازی لگانے والے مجاہد شہید ہوتے ہیں ،وہیں جنت کے دروازے کھلے ہوئے ہیں، جو بندہ راہ خدا میں شہید ہوتا ہے وہ اسی وقت جنت کے دروازے سے اس میں داخل ہوجاتا ہے۔
حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جو بندہ صدق دل سے اللہ تعالیٰ سے شہادت کی استدعا کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کو شہیدوں ہی کے مقام و مرتبہ پر پہنچادیں گے اگرچہ اپنے بسترہی پر اس کا انتقال ہوا۔( صحیح مسلم)
اس حدیث سے معلوم ہواکہ جو بندے شہادت کے مندرجہ بالا فضائل پر نگاہ رکھتے ہوئے سچے دل سے اس کے طالب اور آرزو مند ہوں گے، اللہ تعالیٰ ان کی طلب اور نیت کی بنا پر ان کو شہیدوں ہی کا مقام و مرتبہ عطا فرمائیں گے۔
حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:راہ خدا میں شہید ہونا سب گناہوں کاکفارہ بن جاتا ہے سوائے قرض کے۔ (صحیح مسلم)
جہادسے پہلوتہی کرنا نفاق کی علامت
کلام ہادیٔ عالمﷺ (شمارہ 439)
مطلب یہ ہے کہ بندے سے اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل اور حقوق کی ادائیگی میں جو کوتاہیاں اور جو قصوروگناہ ہوئے ہوں گے، راہ خدا میں جان کی مخلصانہ قربانی اور فی سبیل اللہ شہادت ان سب کاکفارہ بن جائے گی، شہادت کے طفیل وہ سب معاف ہو جائیں گے، البتہ اس پر جو کسی کاقرض ہوگا یا اس کے علاوہ بھی بندوں کے جو حقوق ہوں گے وہ شہادت سے بھی معاف نہیں ہوں گے، لیکن اگر اس کی نیت ان حقوق کے ادا کرنے کی تھی اور فکر بھی تھی لیکن استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے پورے نہ کرسکا تو امید ہے کہ وہ ارحم الراحمین اپنے فضل سے اس کے حقوق کی ادائیگی کردیں گے، جیسا کہ حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ نے لکھا ہے:’’ اگر کوئی عمر بھر اس فکر میں لگا رہے کہ میرے ذمہ جو حقوق دوسروں کے ہیں کسی طرح ادا ہوجائیں مگر افلاس یا کسی عذر کی وجہ سے مجبور رہا تو اس صورت میں اللہ تعالیٰ کاوعدہ ہے کہ ہم خود حقوق ادا کریں گے اوراس شخص پر اصلاً مواخذہ نہ ہوگا۔‘‘( مآثر حکیم الامت ص ۳۸۷)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:راہ خدا میں شہید ہونے والا بندہ قتل کئے جانے کی بس اتنی ہی تکلیف محسوس کرتا ہے جتنی تکلیف تم میں سے کوئی آدمی چیونٹی کے کاٹ لینے کی محسوس کرتا ہے۔ ( جامع ترمذی، سنن نسائی، سنن دارمی)
جس طرح ہماری اس دنیا میں آپریشن کرتے وقت آپریشن کی جگہ کودوایا انجکشن کے ذریعہ سن کر کے چیر اپھاڑا جاتا ہے اور اس کی وجہ سے آپریشن کی تکلیف برا ئے نام ہی محسوس ہوتی ہے، اس طرح سمجھنا چاہئے کہ جب کوئی بندہ راہ خدا میں شہید کیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر ایسی کیفیت طاری کر دی جاتی ہے کہ اس کو اس سے زیادہ تکلیف محسوس نہیں ہوتی جتنی کسی کو چیونٹی کے کاٹنے سے ہوتی ہے۔
جامع ترمذی ہی کی دوسری حدیث میں ہے کہ جب کوئی بندہ راہ خدا میں شہید کیا جاتا ہے تو اسی وقت جنت میں اس کا جوٹھکانہ ہوتا ہے وہ اس کے سامنے کر دیا جاتا ہے۔ جنت کے اس نظارہ کی لذت و محویت بھی ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے قتل کی تکلیف کا محسوس نہ ہونا قرین قیاس ہے۔( معارف الحدیث جلد۸)
جہاد بندگان خدا کے حق میں رحمت ہے
حجۃ الاسلام حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں لکھتے ہیں:واضح ہو کہ تمام شریعتوں میں سب سے زیادہ کامل اور مکمل وہ شریعت ہے جس میں جہاد کا حکم پایا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کا اوامرونواہی کے ساتھ مکلف کرنا ایسا ہے کہ جیسے کسی شخص کے غلام مریض ہوجائیں تب وہ اپنے کسی خاص آدمی کو اس بات کا حکم دے کہ وہ ان کو کوئی دواپلادے، پس اگر وہ شخص دوا پلانے میں ان پر سختی کرے اور اس کو ان کے منہ میں ڈالے توایسا کرنا درست ہوگا۔ مگر رحمت کا مقتضیٰ یہ ہے کہ ان کے سامنے دوا کے فوائد بیان کر دے تاکہ خوشی کے ساتھ اس دوا کوپی لیں اور نیز اس دوا میں شہد شامل کردے تاکہ رغبت عقلیہ کے ساتھ رغبت طبعیہ بھی پائی جائے، پھر اکثر لوگ ایسے ہوتے ہیں اور ان پر ریاستوں کی محبت ادنیٰ درجہ کی شہوات اور درندوں جیسے اخلاق اور شیطانی وسوسے غالب ہوتے ہیں اور ان کے دلوں میں ان کے آباء کے رسوم ازحد پیوست ہوتے ہیں پس وہ ان فوائد کو نہیں سنتے اور نبیﷺ کے حکم پر یقین نہیں کرتے اور اس کی خوبی میں غور نہیں کرتے تو ان کے حق میں یہ رحمت نہیں ہے کہ ان پر حجت و دلیل پر ہی اکتفا کیا جائے بلکہ ان کے حق میں رحمت یہی ہے کہ ان پر جبر کیا جائے تاکہ خواہ مخواہ ان کے دلوں میں ایمان اس طرح سے داخل کیا جائے جس طرح زبردستی سے تلخ دوا پلائی جاتی ہے اور یہ جبر اور سختی بغیر اس کے ممکن نہیں ہے کہ جو مقابلہ میں قوت شدیدہ اور سامان قوی رکھتا ہے اس کو قتل کیا جائے یا ان کی قوت وشوکت کوتوڑ دیاجائے اور ان کے مال واسباب کو ضبط کیا جائے یہاں تک کہ وہ بالکل بے بس ہوجائیں پس اس وقت ان کے پیرو اور ان کی اولاد خوشی اور رغبت سے اسلام کو قبول کر سکتی ہے… اور اسی طرف نبی کریمﷺ نے اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے:’’ اللہ تعالیٰ کو وہ لوگ اچھے معلوم ہوں گے جو زنجیروں سے بندھے ہوئے جنت میں داخل ہوں گے۔‘‘ پس ان کے فاسد شہر جن پر نفوس سبعیہ( درندگی) کا غلبہ ہے اور ان کو نہایت درجہ کی قوت حاصل ہے وہ بمنزلہ مرض اکلہ کے ہے جو جسم انسانی میں ہوتا ہے اور جس میں عضو سڑ جاتا ہے جس کو قطع کئے بغیر انسان کا بدن درست نہیں رہ سکتا اور جو شخص اس کے مزاج کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوگا تو اس کے لئے اس سڑے ہوئے عضو کاقطع کرنا ضروری ہوگا اور جب تھوڑی سی برائی(تکلیف) سے خیر کثیر حاصل ہو تو اس برائی کا کرنا ضروری ہے۔( حجۃ اللہ البالغہ جلددوم)