مولانا منصور احمد

آپ کو بھی مبارک ہو !
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 476)
فتح و شکست ‘ عزت و ذلت اور عروج و زوال ‘ ایک سچا مسلمان ان میں سے کسی کا غلام نہیں ہوتا کیونکہ اُس کے پیش نظر تو ہر وقت اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہوتا ہے :
ولا تھنوا ولا تحز نوا وانتم الاعلون ان کنتم مؤمنین (اٰل ِ عمران ۱۳۹)
( تم نہ تو کمزور پڑو اور نہ غمگین رہو ۔ اگر تم واقعی مؤمن رہو تو تم ہی سر بلند ہو گے )
یہ ایک آیت ِ کریمہ مسلمانوں کو ایک ایسا ٹھوس اور فولادی نظریہ عطا کرتی ہے کہ پھر اُس کی زندگی ‘ جس حال میں بھی گزرے ‘ اُس کا مقصد صرف ایمان پر استقامت اور اللہ کے دین کی سر بلندی ہوتی ہے ۔ وہ بزبانِ حال یہی کہتا ہے:
میری زندگی کا مقصد ‘ تیرے دین کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں ‘ میں اسی لیے نمازی
ہاں ! لیکن یہ فطرت بھی اللہ تعالیٰ نے ہی بنائی ہے کہ مسلمان فتوحات پر خوش ہوتا ہے اور اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے اسی لیے فتح اور نصرت کی کتنی ہی دعائیں خود پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔ خاص طور پر جب وہ فتح ظاہری اسباب ‘ مادی وسائل اور ’’زمینی حقائق ‘‘ کے برعکس صرف ’’ آسمانی حقائق‘‘ پر مبنی ہو تو اہل ِ ایمان کی خوشی دوبالا ہو جاتی ہے ۔
ہمارے پڑوس میں صلیبی افواج تیرہ سال کے ذلت آمیز ‘ رسوا کن اور عبرتناک زخم لے کر رخصت ہو رہی ہیں اور وہ فقیرانِ خدا مست کہ اس جنگ کے آغاز میں چند اللہ والوں کے سوا ( اور مجھے کہنے دیجئے کہ جن میں سرِ فہرست صاحب ِ عزیمت و استقامت مولانا محمد مسعود ازہر حفظہ اللہ تعالیٰ تھے )کوئی اور دانشوران کی ایسی بے مثال تاریخی کامیابی کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا ‘ آج ملت اسلامیہ کے سامنے سرخرو ہو رہے ہیں تو ایسے حالات میں قرآن مجید کے اس ادنیٰ طالب علم کی زبان پر بلا اختیار یہ آیات ِ مبارکہ جاری ہو جاتی ہیں اور ایک وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے :
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الم غلبت الروم فی ادنی الارض وھم من بعد غلبھم سیغلبون فی بضع سنین للہ الامرمن قبل و من بعد ویومئذ یفرح المومنون بنصر اللہ ینصر من یشاء وھو العزیز الرحیم وعداللہ لا یخلف اللہ وعدہ‘ ولکن اکثر الناس لا یعلمون
ترجمہ : ’’الٓم … رومی لوگ قریب کی سر زمین میں مغلوب ہو گئے ہیں اور وہ اپنے مغلوب ہونے کے بعد چند سالوں میں غالب آجائیں گے ۔ سارا اختیار اللہ کا ہی ہے ‘ پہلے بھی اور بعد میں بھی ۔ اور اُس دن ایمان والے اللہ کی دی ہوئی فتح سے خوش ہوں گے ۔ وہ جس کو چاہتا ہے فتح دیتا ہے اور وہی صاحب ِ اقتدار بھی ہے ‘ بڑا مہربان بھی ۔ یہ اللہ کا کیا ہوا وعدہ ہے ‘ اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔‘‘( الروم : ۱تا ۶)
ان آیات ِ کریمہ کا پس ِ منظر پڑھیں تو خدائی وعدوں کی صداقت پر دل عش عش کر اٹھتا ہے ۔ یوں لگتا ہے جیسے زمانے نے اپنی طنابیں کھینچ دی ہیں ‘ حالات اور واقعات سمٹ کر ایک جیسے ہو گئے ہیں ‘ صرف کرداروں اور میدانوں کا فرق حائل ہے اور بار بار کانوں میں یہ آواز گونج رہی ہے :
’’ وعد اللّٰہ لا یخلف اللّٰہ وعدہ ولکن اکثر الناس لا یعلمون ‘‘
حالات اور واقعات تو آپ اخبارات میں پڑھ ہی لیں گے ۔ آئیں ! کچھ دیر قرآن مجید کی اس عظیم الشان پیشین گوئی سے اپنے دل و دماغ کو منور کریں ۔
ان آیات ِ مبارکہ کا ایک خاص تاریخی منظر نامہ ہے‘ جسے پڑھ کر آج بھی انسان کا دل ‘ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کی عظمت سے لبریز ہو جاتا ہے اور وہ ان کی صداقت کا معترف ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔
جس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت عطاہوئی ، اُس وقت دنیا میں دو بڑی طاقتیں تھیں ، ایک ایران کی حکومت جو مشرق کے علاقے میں پھیلی ہوئی تھی ، اور اُس کے ہر بادشاہ کو ’’کسریٰ ‘‘ کہا جاتا تھا ، یہ لوگ آتش پرست تھے ، یعنی آگ کو پوجتے تھے ۔ دوسری بڑی طاقت روم کی تھی جو مکہ مکرمہ کے شمال اور مغرب میں پھیلی ہوئی تھی ۔ شام ، مصر ، ایشیائے کو چک اور یورپ کے علاقے اسی سلطنت کے ماتحت تھے ، اور اس کے ہر بادشاہ کو ’’قیصر ‘‘ کہا جاتا تھا ، اور ان کی اکثریت عیسائی مذہب پر تھی ۔
جس زمانے میں یہ سورت نازل ہوئی ہے ، اُس وقت ان دونوں طاقتوں کے درمیان شدید جنگ ہو رہی تھی ، اور اس جنگ میں ایران کا پلہ ہر لحاظ سے بھاری تھا ، اور اُس کی فوجوں نے ہر محاذ پر روم کی فوجوں کو شکست دے کر اُن کے بڑے بڑے شہر فتح کر لئے تھے ، یہاں تک کہ وہ بیت المقدس میں عیسائیوں کا مقدس ترین کلیسا تباہ کر کے رومیوں کو مسلسل پیچھے دھکیلتی جارہی تھیں ، اور روم کے بادشاہ ہرقل کو جائے پناہ تلاش کرنا مشکل ہو رہا تھا ۔ ایران کی حکومت چونکہ آتش پرست تھی ، اس لئے مکہ مکرمہ کے بت پرستوں کی ہمدردیاں اُس کے ساتھ تھیں ، اور جب کبھی ایران کی کسی فتح کی خبر آتی تو مکہ مکرمہ کے بت پرست اُس پر نہ صرف خوشی مناتے ، بلکہ مسلمانوں کو چڑاتے کہ عیسائی لوگ جو آسمانی کتاب پر ایمان رکھتے ہیں ، مسلسل شکست کھاتے جا رہے ہیں اور ایران کے لوگ جو ہماری طرح کسی پیغمبر یا آسمانی کتاب کو نہیں مانتے ، اُنہیں برابر فتح نصیب ہو رہی ہے ۔
اس موقع پر یہ سورت نازل ہوئی ، اور اُس کے بالکل شروع میں یہ پیشینگوئی کی گئی کہ روم کے لوگ اگرچہ اس وقت شکست کھا گئے ہیں ، لیکن چند سالوں میں وہ فتح حاصل کر کے ایرانیوں پر غالب آجائیں گے ، اور اُس دن مسلمان اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے ۔ اس طرح اس سورت کے شروع میں بیک وقت دو پیشینگوئیاں کی گئیں ۔ ایک یہ کہ روم کے جو لوگ شکست کھا گئے ہیں ، وہ چند سالوں میں ایرانیوں پر غالب آجائیں گے ، اور دوسرے یہ کہ مسلمان جو اس وقت مکہ مکرمہ کے مشرکین کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکار ہیں ، اُس دن وہ بھی مشرکین پر فتح منائیں گے ۔ یہ دونوں پیشین گوئیاں اُس وقت کے ماحول میں اتنی بعید اَز قیاس تھیں کہ کوئی بھی شخص جو اُس وقت کے حالات سے واقف ہو ، ایسی پیشینگوئی نہیں کر سکتا تھا ۔ مسلمان اُس وقت جس طرح کافروں کے ظلم و ستم میں دبے اور پسے ہوئے تھے ، اُس کے پیش نظر بظاہر کوئی امکان نہیں تھا کہ وہ اپنی فتح کی خوشی منائیں ۔ دوسری طرف سلطنت ِ روما کا حال بھی یہ تھا کہ اُس کے ایرانیوں کے مقابلے میں ابھرنے کا دور دور کوئی اندازہ نہیں کیا جا سکتا تھا ۔
چنانچہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بھی ایرانیوں کی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا ، یہاں تک کہ وہ قیصر کے پایۂ تخت قسطنطنیہ کی دیواروں تک پہنچ گئے ، اور انہوں نے قیصر ہر قل کی طرف سے صلح کی ہر پیشکش کو ٹھکرا کر یہ جواب دیا کہ انہیں ہرقل کے سر کے سوا کوئی اور پیشکش منظور نہیں ہے ، جس کے نتیجے میں ہرقل تیونس کی طرف بھاگنے کا منصوبہ بنانے لگا ۔ لیکن اس کے فوراً بعد حالات نے عجیب و غریب پلٹا کھایا ، ہرقل نے مجبور ہو کر ایرانیوں پر عقب سے حملہ کیا جس میں اُسے ایسی کامیابی حاصل ہوئی جس نے جنگ کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیا ۔ اس پیشینگوئی کو ابھی سات سال گزرے تھے کہ رومیوں کی فتح کی خبر عرب تک پہنچ گئی ۔ جس وقت یہ خبر پہنچی ، یہ ٹھیک وہ وقت تھا جب بدر کے میدان میں سردارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش مکہ کے لشکر کو عبرتناک شکست دی تھی اور مسلمانوں کو اس فتح پر غیر معمولی خوشی حاصل ہوئی تھی۔ اس طرح قرآن کریم کی دونوں پیشینگوئیاں کھلی آنکھوں اس طرح پوری ہوئیں جن کا بظاہر حالات کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا ، اور اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن ِ کریم کی سچائی روزِ روشن کی طرح واضح ہو گئی ۔
مسلمانوں پر جو آزمائشیں آتی ہیں اور وہ وقتی طور پر شکست کھا جاتے ہیں تو اس کے پیچھے بھی اللہ تعالیٰ کی بے شمار مصلحتیں اور حکمتیں ہوتی ہیں ‘ جن کو ہم اپنی ناقص عقل سے نہیں سمجھ سکتے ۔ لیکن آج اتنا تو ہر انسان کو کھلی آنکھوں نظر آرہا ہے کہ تیرہ سال پہلے جب صلیبی افواج ہمارے پڑوس میں دندناتے ہوئے آئیں تھیں تو کتنے ہی لوگوں نے صرف طور طریقے اور عادات واطو ارہی نہیں‘ عقائد و نظریات تک بدل لیے تھے ۔ حالانکہ اقبال مرحوم تو پہلے ہی بتا چکے تھے :
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
اگر وہ جڑوں سے اکھیڑ دینے والی آزمائشوں کی آندھیاں نہ چلتیں ‘ حالات کی تندو تیز ہوائیں اپنا رخ تبدیل نہ کرتیں اور مقتل گاہیں عاشقانِ حق کی لاشوں سے نہ سجتیں تو آج ہمیں صلیبی افواج کی یہ ذلت اور رسوائی دیکھنا بھی نصیب نہ ہوتی ۔
صلیبی افواج نے جاتے جاتے اس صدی کا سب سے بڑا لطیفہ بھی ایجاد کر دیا ہے ۔ اخبارات لکھ رہے ہیں کہ ’’ نامعلوم مقام ‘‘ پر انہوں نے اپنا پرچم لپیٹا اور خوب ’’ جشن فتح ‘‘ منایا ۔ یہ جشن بھی خوب رہا کہ برسوں سے خود اس جنگ میں ناکامی کا اعتراف کرتے رہے ۔ سینکڑوں فوجی مردار کروائے ‘ ہزاروں جسمانی معذور کروائے ‘ بے شمار سورمائوں نے خود کشی کی اور لا تعداد ذہنی اعتبار سے مفلوج ہوئے ، کیا یہ ہی وہ فتح ہے ‘ جس کا یہ عالمی عیار اور مکار جشن منا رہے ہیں ۔ وہ بھی کہیں کھلے بندوں نہیں ‘ بلکہ چوہوں کی طرح بلوں میں چھپ کر ۔ شاید کہ ان کے ہاں فتح کا مطلب یہی ہے کہ :
جان بچی سو لاکھوں پائے
لوٹ کے بدھو گھر کو آئے
صلیبی افواج کو بھی ایسی ہی ’’ فتح ‘‘ ملی ہے کہ دنیا والوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ‘ جس کا وہ ’’جشن ‘‘ منا رہے ہیں…
دو بچے آپس میں لڑ پڑے ۔ ایک نے دوسرے کی خوب تواضع کی اور درگت بنائی ، مار کھانے والا گھر پہنچا تو گھر والوں نے پوچھا بیٹا کیا ہو گیا تھا ؟ تو اس نے بڑے فخر سے جواب دیا :
’’ میں نے اسے پکڑ کر اپنے اوپر گرا لیا اور اپنی ناک اس کی دانتوں میں دے دی ۔ پھر میں نے اس کی کہنی اپنی پسلیوں میں چبھودی اور دھڑام سے اس کا مکا اپنی کمر میں رسید کیا ، پھر زور سے اس کا تھپڑ اپنے منہ پر مارا اور پھر جو میں نے اس کی ٹھوکر اپنے پیٹ پر لگائی تو بس ‘‘ ۔
جی ہاں! اگر جیت اور فتح اسی کو کہتے ہیں تو یہ لوگ جشن ِ فتح منانے میں برحق ہیں ورنہ تو…
زخموں سے بدن گلزار سہی ‘ تم اپنے شکستہ تیر گنو !
خود اہلِ ترکش کہہ دیں گے یہ بازی کس نے ہاری
والی کیفیت ہے ۔
بہرحال یہ عظیم خوشی اور فتح اُن اسلام کے قابل فخر فرزندوں کے نام ہے ‘ جنہوں نے اپنے مقدس لہو سے گلشنِ اسلام کی آبیاری کی اور اکیسویں صدی کی ٹیکنالوجی کو اپنے ایمانی جذبے سے شکست دی ۔ یہ فتح اُن والدین کے نام ہے جنہوں نے اپنے جگر گوشے پیارے آقا حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی عظمت پر ہنستے مسکراتے قربان کر دئیے ۔ یہ فتح اُن تمام اہلِ ایمان کے نام ہے جنہوں نے ہر دم اپنے جذبۂ نصرت کو جواں رکھا اور اپنی دعائوں میں اہلِ عزیمت و استقامت کو یاد رکھا … آپ سب کو مبارک ہو ! بہت مبارک ہو !
٭…٭…٭

دنیا میں اللہ کا گھر … جنت میں آپ کا گھر
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 486)
کسی کی عزت اور اس کے مقام کا اندازہ کرنا ہو تو فوراً ذہن اس طرف جاتا ہے کہ اس کا تعلق کس کے ساتھ ہے؟ اس کی نسبت کن لوگوں سے ہے ۔
اگر ہم مسجد کی عظمت و مرتبت کو معلوم کرنا چاہیں تو قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ مسجد تو وہ مقام بلند ہے جس کی عظمتوں ، رفعتوں کے سامنے دنیا کا ہر ذرہ ہیچ ہے، اس لئے کہ مسجد کی نسبت خالق کائنات اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی طرف ہے، مسجد کسی انسان اور جن یا کسی نورانی اور خاکی مخلوق کا گھر نہیں بلکہ اللہ جل جلالہ کا گھر ہے۔
اسی طرح روایات میںمساجد کو بیت اللہ کی بیٹیاں قرار دیا گیا ہے، اور اللہ تعالیٰ کو مساجد اتنی محبوب ہیں کہ ربِ کائنات نے دنیا میں اُنہیں تمام جگہوں سے افضل ترین جگہ قرار دیا ہے ۔ کئی سال پہلے آنے والے سونامی کے طوفان نے جو قیامت خیز تباہی مچائی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، انہی دنوں قومی اخبارات اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے یہ خبر بھی بہت مشہور ہوئی تھی کہ ایک جگہ چاروں طرف تباہی اور ہولناکی کے دلدوز مناظر ہیں لیکن درمیان میںمسجد ویسے ہی محفوظ ہے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کرجب سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہوگا،جب ستارے بے نور ہو کر بکھر جائیں گے ،جب آسمان ریزہ ریزہ ہو جائے گا،جب زمین پھٹ جائے گی ،جب پہاڑ دھنی ہوئی روئی کی طرح اڑنے لگیں گے،جب سمندر آگ سے بھڑکا دئیے جائیں گے،جب حاملہ عورتیں اپنے حمل گرا دیں گی،جب ماں دودھ پیتے بچے کو بھلا دے گی،جب باپ بیٹے کو پہچاننے سے انکار کردے گا،جب توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا،جب کائنات کا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ ایسے عجیب و غریب حالات میں بھی مسجدیں باقی ہوںگی، جب سب کچھ مٹی کا ڈھیر بن چکا ہوگا تب بھی مسجد اسی شان کے ساتھ قائم ہوگی اور پھر تمام مساجد کو جمع کرکے بیت اللہ سمیت جنت کا حصہ بنا دیا جائے گا۔
دین اسلام نے مسجد کو مسلم معاشرے کا مرکز و محور قرار دیا ہے، اس لئے کہ مساجد شعائر اللہ ہیں…مساجد بیوت اللہ ہیں…مساجد جنت کے باغات ہیں…مساجد سے ملت کی شناخت ہوتی ہے…مساجد نزولِ رحمت کے مراکز ہیں…مساجد سے امن و محبت کا درس ملتا ہے…مساجد سے نیکی اور خیر خواہی جنم لیتی ہے…مساجد سے فتنہ و شر کا قلع قمع کیا جاتا ہے…مساجد سے اتحاد و اتفاق پروان چڑھتا ہے…مساجد سے مساوات اور بھائی چارے کی فضا بنتی ہے…جہاںمسجد نہیںہوگی وہاںفتنہ و فساد ہوگا، لڑائی جھگڑے ہونگے امن و سکون اور اطمینان مفقود ہوگا، نہ جان محفوظ ہوگی نہ ایمان محفوظ ہوگا ہمارے لئے ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ مشعل راہ ہے۔
سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو سب سے پہلے جس چیزکا خیال آیا وہ مسجد ہی تھی، چاہئے تو یہ تھا کہ سب سے پہلے اپنے گھر کی فکر کرتے، اپنی رہائشگاہ کی بنیاد رکھتے، کاشانۂ نبوی کو تعمیر کیا جاتا۔
لیکن قربان جائیں اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل پر کہ سب کچھ پس پشت ڈال کر مسجد کیلئے زمین قیمتاً خرید رہے ہیں، پھر پلاٹ خریدنے کے بعد نہ صرف اپنے جانثاروں کو مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا بلکہ خود بھی بنفس نفیس تعمیر میںشریک ہیں، اپنے آپ کو مشقت میںڈال کر اینٹ اور پتھر اٹھا اٹھا کر لارہے ہیں، چہرہ مبارک غبار آلود ہے، کپڑے مٹی سے اٹے ہوئے ہیں۔ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ:
’’جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو آپ نے نماز ادا کرنے کیلئے مسجد تعمیر کرنے کا ارشاد فرمایا۔ اس سے پہلے مسلمان ایک حویلی میں نماز ادا کرتے تھے جہاں بھیڑ بکریاں باندھی جاتی تھیں۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مکان کے سامنے ایک زمین کا ٹکڑا (پلاٹ) تھا جو دو یتیم بچوں کی ملکیت تھا، ان بچوں کا نام سہل اور سہیل تھا اور یہ دونوں حضرت سعد بن زرارہؓ کی پرورش میں تھے، یہ مقدس جگہ ایک کھجوروں کے باغ پر مشتمل تھی جہاں کھجوروں کو خشک کرکے چھوہارے بنائے جاتے تھے۔ کچھ مشرکوں کی پرانی قبریں بھی تھیں اور زمین ناہموار تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یتیم بچوں کو فرمایا کہ یہ زمین ہمیں فروخت کردو۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہاں مسجد بنائیں۔ اُن بچوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! ہم یہ زمین بلا معاوضہ آپ کو پیش کرتے ہیں مگر آپ نے بلاقیمت اُسے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیمتاً وہ زمین خرید لی اور وہاں مسجد تعمیر فرمائی۔‘‘
مسجد کی تعمیر کا منظر کیا تھا؟ پڑھیں اور اندازہ لگائیں کہ مسجدیں بنانا کتنا بڑا اعزاز ہے؟ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بتاتے ہیںکہ :
’’صحابہ کرامؓ کچھ اینٹیں اٹھاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اُن کی مدد فرماتے تھے۔ میں نے دیکھا کہ آپ نے اتنی زیادہ اینٹیں اُٹھا رکھی ہیں کہ آپ کے سینہ مبارک تک پہنچی ہوئی ہیں۔ میں یہ سمجھا کہ شاید یہ اینٹیں زیادہ بھاری ہوگئی ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے حبیب! یہ اینٹیں مجھے عنایت فرما دیں، میںپہنچا دیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اینٹیں تو بہت ہیں، تم جائو اس کے علاوہ وہاں سے اور اُٹھا لائو، یہ میرے لئے چھوڑ دو۔‘‘(حیاۃ الصحابہ ؓ ۳؍۱۱۴)
رحمت العالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ طرزِ عمل اس لیے اختیار فرمایا تاکہ امت اس سبق کو ذہن نشین کرلے کہ مسلم معاشرے کی بنیاد مسجد ہے، مسلمانوں کی طاقت اور قوت مسجد سے ہے، مسجد ہے تو سب کچھ ہے اگر مسجد نہیں تو کچھ بھی نہیں۔
اللہ تعالیٰ کے حکم اور رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو دیکھتے ہوئے ہر دور میں مسلمانوں نے مسجدیں تعمیر کیں اور کئی مساجد تو اپنی تاریخی اور تعمیراتی حیثیت سے شاہکار قرار پائیں۔ مسلمانوں نے کسی دور میں بھی مساجد کو گرانے یا ویران کرنے کا تصور تک نہیں کیا۔ مسلمانوں کا یہ امتیاز رہا کہ وہ جہاں کہیں گئے اور جس خطے اور علاقے میں پہنچے پہلے انہوں نے وہاں جا کر اللہ کے گھر کی بنیاد ڈالی، ایسے سنگین اور خطرناک حالات میں جب ان کی جانوں پر بنی ہوئی تھی، مال کی کمی تھی، فقر و فاقہ کا دور دورہ تھا لیکن انہوں نے اس فریضے کو نہیں بھلایا۔
اس سلسلے کا ایک دلچسپ اور سبق آموز واقعہ استاذِ محترم حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زیدمجدہم نے بیان فرمایا۔ وہ کہتے ہیں:
’’آج سے کئی سال پہلے مجھے جنوبی افریقہ جانے کا اتفاق ہوا۔ لوگوں نے بتایا کہ یہ دراصل (ملایا کے) وہ لوگ ہیں کہ جب انگریزوں نے ملایا کی ریاست پر قبضہ کیا تھا اور ان کو غلام بنایا تھا تو یہ لوگ تھے جو انگریزوں کی حکومت کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ چنانچہ یہ لوگ انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کیلئے جہاد کرتے رہے، چونکہ یہ لوگ بے سروسامان تھے۔ ان کے پاس وسائل کم تھے۔ اس لئے انگریز ان پر غالب آگئے اور انگریزوں نے ان کو گرفتارکرکے ان کے پائوں میں بیڑیاںڈال کر اور غلام بنا کر کیپ ٹائون لے آئے اس طرح ان (ملایا کے مسلمانوں) کی ایک بڑی تعداد یہاں پہنچ گئی۔ آج یہ انگریز اور مغربی ممالک والے بڑی رواداری اور جمہوریت اور آزادی اظہارِ رائے کا سبق دیتے ہیں۔ لیکن اس وقت ان کا یہ حال تھا کہ جن کو غلام بنایا تھا، ان کے پائوں میں بیڑیاں ڈال دی تھیں اور ان کو اپنے دین اور عقیدے کے مطابق نماز پڑھنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔ وہ اگر اپنے گھر میں بھی نماز پڑھنا چاہتے تو اس کی بھی ان کو اجازت نہیں تھی۔ اگر کوئی شخص نماز پڑھتا ہوا پایا جاتا تو اس کے اوپر ہنٹر برسائے جاتے۔ ان لوگوں سے دن بھر محنت مزدوری کے کام لئے جاتے۔ مشقت والے کام ان سے لئے جاتے اور شام کو جب کھانا کھانے کے بعد رات کو ان کے آقا سو جاتے تو سوتے وقت ان کے پائوں سے بیڑیاں کھول جاتے تاکہ یہ اپنی بیرکوں میں جا کر سو جائیں۔ لیکن جب ان کی بیڑیاں کھول دی جاتیں اور ان کے آقا سو جاتے تو یہ لوگ چپکے چپکے ایک ایک کرکے وہاں سے نکل کر قریب کی پہاڑی کی چوٹی پر جا کر پورے دن کی نمازیں جماعت سے اکٹھی ادا کرتے۔ اسی طرح یہ لوگ ایک عرصہ تک نمازیں ادا کرتے رہے۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ کیپ ٹائون پر ڈچ قوم نے حملہ کردیا تاکہ کیپ ٹائون پر قبضہ کرلیں چونکہ ملایا کے یہ لوگ بڑے جنگ جو تھے اور بڑے بہادر تھے اور ان کی بہادری کے کرشمے انگریز دیکھ چکے تھے اس لئے انگریزوں نے ان سے کہا کہ ہمارے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کیلئے ہم تمہیں آگے کرتے ہیں۔ تم ان سے مقابلہ کرو اور لڑو تاکہ یہ لوگ کیپ ٹائون پر قبضہ نہ کرلیں۔ ان ملایا کے مسلمانوں نے ان سے کہا کہ تم حکمرانی کرو یا ڈچ حکمرانی کریں، ہمارے لئے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ صرف آقائوں کی تبدیلی کی بات ہے، آج تم آقا ہو کل کو ان کا قبضہ ہوا تو وہ آقا بن جائیں گے۔ ان کے آنے یا نہ آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ ہم ان سے لڑیں تو ہم ان سے لڑنے کیلئے تیار ہیں لیکن ہمارا ایک مطالبہ ہے وہ یہ کہ اس کیپ ٹائون کی زمین پر ہمیں نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے اور ایک مسجد تعمیر کرنے کی اجازت دی جائے۔ دیکھئے انہوں نے پیسے کا کوئی مطالبہ نہیں رکھا آزادی کا مطالبہ نہیں کیا کوئی اور دنیاوی مطالبہ نہیں۔ مطالبہ کیا تو صرف یہ کہ ہمیںمسجد تعمیر کرنے کی اجازت دی جائے۔ چنانچہ انہوں نے بڑی بہادری سے ڈچ قوم کا مقابلہ کیا۔ حتیٰ کہ انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا اور ان کو فتح حاصل ہوگئی۔ تو انہوں نے کہا کہ ہم نے جو مسجد تعمیر کرنے کی اجازت کا مطالبہ کیا تھا وہ پورا کیا جائے۔ چنانچہ ان کو اجازت مل گئی اور پورے کیپ ٹائون میں پہلی مسجد اس حالت میں تعمیر کی گئی کہ ان بیچاروں کے پاس نہ آلات و اسباب تھے اور نہ تعمیر کرنے کیلئے سرمایہ تھا۔ یہاں تک کہ قبلہ کا صحیح رخ معلوم کرنے کا بھی کوئی ذریعہ نہ تھا۔ محض اندازے سے قبلہ کا رخ تعین کیا۔ چنانچہ اس کا رخ قبلہ کی صحیح سمت سے ۲۰ یا ۲۵ ڈگری ہٹا ہوا ہے۔ آج اس مسجد میں صفیں ٹیڑھی کرکے بنائی جاتی ہیں تو انہوں نے نہ تو یہ مطالبہ کیا کہ ہمیں رہنے کیلئے مکان دو، نہ یہ مطالبہ کیا کہ ہمیں پیسے دو، نہ یہ مطالبہ کیا کہ ہمارے کھانے پینے کا بندوبست کرو ، بلکہ پہلا مطالبہ یہ کیا کہ ہمیں مسجد بنانے کی اجازت دو۔ یہ ہے ایک امت مسلمہ کی تاریخ کہ اس نے مسجد کی تعمیر کو ہر چیز پر مقدم رکھا اور ان حالات میں بھی مسجد کی تعمیر کے فریضے کو نہیں چھوڑا۔‘‘
مسجد کی تعمیر میں حصہ لینے والوں کو بشارت کتنے پیارے انداز میں سنائی گئی ہے :
عَنْ عُثْمَانَ رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنم بَنٰی ِﷲِ مَسْجِدًا ،بَنَی اﷲُ لَہٗ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ(متفق علیہ بحوالہ مشکوۃ المصابیح ص۶۸)
ترجمہ…’’حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے صرف اﷲ کی رضا حاصل کرنے کے لئے مسجد بنائی تو اﷲ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر بنا دیتا ہے‘‘۔
اس حدیث پاک کا مفہوم بالکل واضح ہے کہ جس نے صرف اﷲ تعالیٰ کی رضا مندی اور خوشنودی حاصل کرنے کے لئے مسجد تعمیر کی تو اس کے بدلے جنت میں اس کے لئے گھر بنایا جائے گا۔ جنت کیا ہے ؟ اس کی اصل حقیقت تو اس فانی دنیا میں سمجھ آہی نہیں سکتی ۔ جیسے ماں کے پیٹ میں موجود بچے کو اگر دنیا جہان کی کہانیاں سنائی جائیں تو وہ اس کے ادراک اور شعور سے بہت بلند ہوں گی یا جس طرح کسی اَن پڑھ دیہاتی کو جس کی پوری زندگی چھوٹے سے گائوں میں گزری ہو اگر کوئی شخص دنیا کے ترقی یافتہ شہروں کے ماحول اور وہاں دستیاب سہولیات کے بارے میں بتانے لگے تو یہ سادہ دل دیہاتی ضرور اسے جھوٹا سمجھے گا۔
البتہ جنت کی اہمیت اور وقعت کا معمولی سا اندازہ اس فرمان رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے لگایا جا سکتا ہے جس میں ارشاد ہے:
’’تمہارے ایک کوڑے ( جس کے ذریعے پٹائی کی جاتی ہے ) کے برابر جنت کی جگہ ‘دنیا اورجو کچھ اس میں ہے سب سے بہتر ہے ‘‘
مندرجہ بالا حدیث شریف میں اس بات کی طرف اشارہ فرمایا گیا کہ مسجد بنانے کا یہ ثواب تب ہی حاصل ہوگا جب خالص اﷲ تعالیٰ کے لئے مسجد بنائی ہو ۔ لوگوں سے واہ واہ کروانے ‘اپنی عزت و شہرت اور یاد گا ر قائم کرنے کے لئے نہ ہو ۔ اس لئے حافظ ابن حجر ؒ اور دیگر کئی اکابرین امت نے اس بات کو سخت نا پسند کیا ہے کہ مسجدوں کے دروازے پر مسجد بنانے والا اپنا نام لکھوائے کہ یہ چیز اُس کے ثواب کو غارت کر دے گی ۔ محدثین کرام ؒ نے دیگر کئی احادیث کی روشنی میںیہ بھی فرمایا ہے کہ یہ اجر و ثواب مستقل اور بڑی مسجدبنانے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اگر کوئی شخص اپنی وسعت کے مطابق چھوٹی مسجد ہی بنا دے یا کسی زیر تعمیر مسجد میں اپنا حصّہ لگا لے تو وہ بھی۔ انشاء اﷲ ۔اس ثواب سے محروم نہیں رہے گا ۔
’’الرحمت ‘‘ کی تعمیر ِ مساجد مہم اپنے عروج پر ہے اور جنت میں گھر حاصل کرنے والے خوش نصیب اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ سب کی کاوشوں کو قبول فرمائے ۔(آمین ثم آمین)
٭…٭…٭
اسلام اور پاکستان
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 485)
عرب کے جو علاقے اس وقت ظالم اور غاصب اسرائیل کے قبضے میں ہیں ‘ اُن میں سے ایک مشہور بندرگاہ’’ ایلہ‘‘ بھی ہے ۔ اُمت مسلمہ کی عمومی غفلت اور عربوں کی خصوصی کوتاہیوں نے یہ دن دکھایا ہے کہ فلسطین کے باشندے خود اپنی ہی سرزمین پر جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ ’’ ایلہ‘‘ بحیرئہ قلزم کی شاخ ’‘’ خلیج عقبہ ‘‘ کے کنارے پر واقع ہے اور اس سر زمین سے ایک دلچسپ اور سبق آموز واقعہ منسوب ہے ‘ جس کی طرف قرآنِ مجید نے سورئہ بقرہ کی آیت ۶۵ اور ۶۶ میں اور سورئہ اعراف کی آیت ۱۶۲تا ۱۶۴میں اشارہ کیا ہے ۔ قرآن مجید کی سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ وہ کتابِ ہدایت ہے ‘ اس کی ایک ایک آیت میں ہمارے لیے بے شمار اَسباق پنہاں ہیں ‘ پھر خاص طور پر یہ واقعہ ہمارے موجودہ حالات سے کافی مماثلت رکھتا ہے۔
اس واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور سے ہفتے بھر میں جمعہ کا دن ہی محترم چلا آرہا تھا ۔ یہودیوں نے اپنی ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سے سیدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اصرار کیا کہ ان کیلئے ہفتے ( سبت) کا دن عبادت و برکت کیلئے مقرر کیا جائے ۔ وحیٔ الٰہی کی روشنی میں سیدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ہفتے کا دن ان کیلئے مقرر فرما دیا اور ساتھ ہی یہ تاکید بھی کر دی کہ اس دن کی حرمت و عظمت کو قائم رکھیں ۔ اس دن میں ان کیلئے خریدو فروخت ، زراعت و تجارت اور شکار جیسی تمام معاشی سرگرمیاں ممنوع قرار پائیں ۔
ساحلِ سمندر پر واقع بستی میں رہنے والے یہودیوں نے حیلہ سازی سے اس حکم کو مذاق بنا لیا ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ ڈھیل دی کہ ہفتہ کے دن مچھلیاں بکثرت نظر آتیں اور دوسرے دنوں میں اتنی مچھلیاں نظر نہ آتیں ۔ پہلے پہل تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کا حکم توڑنے کیلئے حیلے بہانوں کا سہارا لیا ۔ کبھی ہفتے والے دن مچھلیاں آجاتیں تو یہ راستے میں رکاوٹ بنا کر اُن کی واپسی کا راستہ بند کر دیتے اور اتوار کے دن خوب شکار کرتے ۔ کبھی ایسا کرتے کہ ہفتے کے دن کسی بڑی مچھلی کی دُم میں رسی اٹکا کر اسے زمین کی کسی چیز سے باندھ دیا اور اتوار کے دن اُسے پکر کر پکا لیا ۔ پھر جب ان حیلوں بہانوں سے اُن کا حوصلہ بڑھا اور انہوں نے دیکھا کہ ابھی تک کوئی عذاب نہیں آیا تو وہ کھلم کھلا شکار کرنے لگے اور احکامِ الٰہی کو پامال کرنے لگے ۔
رفتہ رفتہ ’’ ایلہ‘‘ کے رہنے والے تین گروہوں میں تقسیم ہو گئے ۔ ایک گروہ تو وہ تھا جو مسلسل نافرمانی پر کمر باندھے ہوئے تھے اور احکامِ الٰہی کھلم کھلا توڑ رہا تھا ۔ دوسرا گروہ اُن لوگوں کا تھا جو شروع میں ان نافرمانوں کو سمجھاتے رہے ‘ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے روکتے رہے لیکن جب وہ نہ مانے تو یہ مایوس ہو کر بیٹھ گئے اور انہوں نے سمجھانا ‘ نصیحت کرنا اور گناہوں کے برے انجام سے ڈرانا چھوڑ دیا ۔ تیسرا گروہ اُن باہمت لوگوں کا تھا جنہوں نے ایسے حالات میں بھی ہار نہیں مانی اور وہ اللہ تعالیٰ کے باغیوں کو نصیحت اور فہمائش کرتے رہتے ۔ حالات کی سنگینی دیکھ کر مایوس نہ ہوتے بلکہ ہر صبح ایک نئے حوصلے‘ نئے ولولے اور بلند ہمت سے اپنا یہ فریضہ سرا نجام دیتے ۔ ان میں سے پہلے گروہ کو سزا کے طور پر شکلیں مسخ کر کے بندر بنا دیا گیا ۔ دوسرے گروہ کے لوگ چونکہ خاموش رہے ‘ اس لیے قرآن کریم بھی ان کے بارے میں خاموش ہے اور تیسرے گروہ کے لوگوں کی قرآن میں تعریف کی گئی ‘قرآن مجید بتاتا ہے کہ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ ان لوگوں میں سے دوسرے گروہ کے لوگ جو حوصلے ہار چکے تھے ‘ تیسرے گروہ کے اولو العزم لوگوں سے کہتے کہ تمہیں ان ہٹ دھرم اور ضدی لوگوں کو سمجھانے سے کیا ملتا ہے ؟ دیکھتے نہیں ہو کہ یہ مسلسل نا فرمانیوں پر کمر بستہ ہیں ‘ جن کا نتیجہ سوائے عذابِ الٰہی کے اور کچھ نہیں ہے ۔ جیسے ہم گھروں میں چپ ہو کر بیٹھ چکے ہیں ‘ تم بھی ایسا ہی کیوں نہیں کر لیتے ۔ تیسرے گروہ کے جواں ہمت لوگوں نے مایوسی میں لپٹی ان باتوں کا جو زبردست چشم کشا اور بصیرت افروز جواب دیا ‘ جسے بتانے کیلئے یہاں یہ پورا واقعہ لکھا گیا ‘ قرآن مجید کے الفاظ میں وہ جواب یہ ہے :
’’ قالو ا معذرۃ ً الی ربکم و لعلھم یتقون (الاعراف ۶۴)
اس قرآنی جملے کا مفہوم یہ ہے کہ ان لوگوں نے جواب میں یہ کہا کہ: یہ روک ٹوک اور نصیحت ہم اس لیے کر تے ہیں کہ ہم تمہارے رب کے سامنے بری الذمہ ہو جائیں کہ ہم نے ہر طرح کے حالات میں اپنا فرض ادا کیا تھا اور شاید ان میں سے کچھ لوگ ہی راہِ راست پر آکر پرہیز گاری اختیار کر لیں ۔
اللہ تعالیٰ نے اُن عظیم لوگوں کا یہ عارفانہ اور حکیمانہ جواب نقل فرما کر حقیقت میں ہر صاحبِ ایمان کو متنبہّ فرمایا ہے کہ جب معاشرے میں برائی کا دور دورہ ہو جائے ، احکامِ الٰہی کھلم کھلا پامال ہونے لگیں ‘ اسلامی فرائض کا انکار بلکہ استہزاء عام ہو جائے تو ایک مسلمان کا فرض یہ نہیں کہ وہ اپنے آپ کو بچالے ‘صرف اپنی ذات کی حد تک نیک ہو جائے اور پھر اپنے گھر میں بند ہو کر بیٹھ جائے بلکہ نافرمانوں کو اللہ کی نافرمانی کے برے انجام سے ڈرانا ، انہیں حوصلہ ، ہمت اور خیر خواہی سے نصیحت کرتے رہنا اور اپنی یہ کوششیں مسلسل جاری رکھنا بھی اُس کی ذمہ داری میں شامل ہے ۔ اسی طرح یہاں یہ بھی پتہ چل گیا کہ حق کے داعی کو کبھی بھی حالات سے دل گرفتہ ہو کر اور لوگوں کے رویے سے مایوس ہو کر نہیں بیٹھنا چاہیے بلکہ اس امید کے ساتھ اپنا پیغام پوری قوت کے ساتھ پہنچاتے رہنا چاہیے کہ شاید کوئی ایک اللہ کا بندہ ہی بات سمجھ لے ۔ بے شک مایوس وہ ہو ‘ جس کا رب نہ ہو ۔
موجودہ حالات میں ہم میں سے ہر شخص اپنے گردو پیش میں دیکھ سکتا ہے کہ کس طرح دینی احکام پامال ہو رہے ہیں ‘ مسلمان کہلانے والے شعائر اسلامی داڑھی ‘ پردہ اور دیگر فرائض کا مذاق اڑا رہے ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچ رہی ہے کہ حق کی طرف بلانے والے ‘ سچائی کا پیغام سنانے والے ‘ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنانے والے بھی حالات کی تیز و تند ہوائوں کے سامنے ہتھیار ڈال رہے ہیں تو یہ وقت حوصلے ہارنے اور ہمتیں پست کرنے کا نہیں ۔ یہ تو وقت ہے ایک نئے حوصلے ‘ نئے عزم اور نئے جذبے سے کام لینے کا ۔ مخالفت کی آندھیاں ‘ وساوس کے طوفان اور شیطانی خیالات کے پہاڑ ‘ یہ کبھی بھی اہل ِ ایمان کے عزائم کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکے اور وہ یہ کہتے ہوئے ان سے گزر گئے کہ ’’ یہ تو چلتی ہیں ‘ تجھے اونچا اڑانے کیلئے ‘‘ ۔
ارض ِ وطن پر آج کل اہلِ حق کے لیے آزمائشوں کا موسم آیا ہوا ہے اور مذہبی طبقے کو ہی نہیں بلکہ اسلام کو ہی (نعوذ باللہ) ساری خرابی کی بنیاد باور کروایا جا رہا ہے۔حالانکہ حقیقت حال اس کے بالکل برعکس ہے‘ ہماری تمام مصیبتوں کی بنیاد اسلام سے بے وفائی ہے۔ پاکستان کی بنیادوں کو اپنے لہو اور جذبوں سے سینچنے والی نسل کے افراد یکے بعد دیگرے بڑی تیزی سے اُٹھتے جارہے ہیں لیکن اب بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جنہوں نے اپنی نوعمری میں اپنی آنکھوں کے سامنے اس مملکت کو وجود میں آتے دیکھا۔ وہ آج بھی بتاتے ہیں کہ تحریکِ پاکستان کے دوران جس نعرے نے جذبات کو مہمیز بخشی، بے بس اور کمزور لوگوں کو ہندوئوں اور انگریزوں سے ٹکرانے کا حوصلہ بخشا، وہ یہ ایمان افروز الفاظ تھے ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘
آپ پاکستان کے حصول کیلئے کی جانے والی جدوجہد کی تاریخ کو شروع سے آخر تک پڑھ جائیں، آپ کو ہر قدم پر اسلام اور مسلمانوں کا حوالہ ملے گا۔ خواہ وہ اقبال مرحوم کا خطبہ الہ آباد ہو یا شیر بنگال کی قرار دادِ پاکستان، وہ بانیٔ پاکستان کی تقریریں ہوں یا ہجرت کرنے والے خاندانوں کی لہو رنگ داستانیں، آپ کو کہیں کسی موقع پر بھی سیکولرازم نامی چڑیا کا پَر بھی نظر نہیں آئے گا۔ یاد رہے کہ اقلیتوں کے حقوق کی بات الگ ہے اور سیکولرازم الگ۔ اسلام تو اپنے دیس میں بسنے والے پر امن غیر مسلموں(ذمّیوں) کے حقوق کا بھی سب سے بڑا محافظ اور داعی ہے لیکن سیکولرازم تو اسلام کے خلاف ایک نظریہ اور تحریک کا نام ہے۔ اس لئے امن و امان کے مسئلہ کو بہانہ بنا کر سیکولرازم کو ثابت کرنا، بدیہی حقائق کا منہ چڑانا ہے۔
زکی کیفیؔ مرحوم نے انہی واقعات کو کیا خوبصورت تعبیر بخشی تھی:
اسلام کی بنیاد پہ یہ ملک بنا ہے
اسلام ہی اس ملک کا سامانِ بقاء ہے
بنیاد پہ قائم نہ رہے گا تو فنا ہے
دنیا کی نگاہوں سے نہیں بات یہ مستور
ہم لائیں گے اس ملک میں اسلام کا دستور
یہاں یہ بات ذکر کر دینا بھی مناسب ہوگا کہ کسی ملک میں جو بھی قانون بنتے ہیں، اُن سب کی بنیاد اُس مملکت کا دستور ہوتا ہے۔ دستور میں اُس ملک کے نصب العین کی پوری تفصیل اور وضاحت درج ہوتی ہے، دستور کے خلاف قانون سازی اُس مملکت کی اساس سے انحراف سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کے دستور کا ابتدائی حصہ ایک قرار داد پر مشتمل ہے جس کو ۱۹۴۹ء میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے منظور کیا تھا۔ اس کو عام طورپر ’’قرار دادِ مقاصد‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے صرف دو مختصر اقتباسات نذر قارئین ہیں، جن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان اپنے ابتدائی دنوں میں ’’اسلامی مملکت‘‘ تھا یا بعض لوگوں کے زعم کے مطابق ’’سیکولر اسٹیٹ‘‘۔ اقتباسات مندرجہ ذیل ہیں:
’’اس کائنات کا حقیقی حاکم صرف اللہ ہے اور اس نے پاکستان کے باشندوں کی وساطت سے مملکت پاکستان کو جو اختیارات دئیے ہیں وہ ایک مقدس امانت ہیں، جنہیں اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘‘
’’آزاد و خود مختار مملکتِ پاکستان کے دستور میں اسلام کے اصولوں کے مطابق جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور معاشرتی انصاف کا پورا پورا خیال رکھا جائے گا اور مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی زندگیوں کو قرآن و سنت کی روشنی میں اسلامی تقاضوں کے مطابق ڈھال سکیں۔‘‘
قربان جائیں رب کی قدرت اور اُس کی رحمت پر! جس نے دینِ اسلام میں ایسی لچک رکھی ہے کہ اس کو جتنا دبایا جاتا ہے یہ اتنا ہی اُبھر کر سامنے آتا ہے۔ کافی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ میں بی بی سی سن رہا تھا، جس میں ترکی کے معروف شہر انقرہ سے ایک صحافی وہاں کی موجودہ صورتحال پر رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ ’’آج بھی ترکی کے اَسّی فیصد عوام پکے مسلمان ہیں اور وہ ملک میں اسلامی نظام قائم کرنا چاہتے ہیں، صرف بیس فیصد شہری علاقوں میں بسنے والے لوگ ایسے ہیں جو ترکی کو سیکولراسٹیٹ دیکھنا چاہتے ہیں اور انہیں ترک فوج کی حمایت حاصل ہے‘‘
اللہ اکبر! کمال اتاترک کی سرزمین، جہاں صدیوں سے رائج اسلامی قانون کو منسوخ کرکے سوئٹز رلینڈ کے کفریہ قوانین مسلط کئے گئے، انگریزی ہیٹ عوام کے سروں پر مسلط کرنے کیلئے سینکڑوں بے گناہوں کا قتل عام کیا گیا، اذان پر پابندی عائد کردی گئی، مدارس اور تمام دینی ادارے ختم کردئیے گئے، ترکی زبان کا رسم الخط عربی سے بدل کر رومن کردیا گیا، ترکی کے وزیراعظم عدنان مندریس مرحوم کو فوج نے صرف اس جرم میں پھانسی پر چڑھا دیا کہ وہ پارلیمنٹ اور عوام کے ذریعے ترکی کو اسلامی ریاست بنانے کی ’’سازش‘‘ کر رہے تھے۔ مگر پون صدی گزرنے کے باوجود کسی مُلّا کے مطابق نہیں، بی بی سی کے کہنے کے موافق،آج بھی اسلام وہاں کے عوام کے دلوں پر حکمرانی کررہاہے۔
ترکی کے عوام جب اتنے طویل عرصے تک سیکولرازم کا مقابلہ کر سکتے ہیں تو پاکستان کی زمین اتنی بانجھ تو نہیں ہوئی کہ سات آٹھ سال کے عرصے میں یہاں اسلام کے نام لیوا ختم ہو جائیں۔ یہاں کی مائوں نے بچوں کے کانوں میں اذان اور قرآن کی لوری دینی تو نہیں چھوڑدیں کہ کوئی بزور طاقت انہیں بے دین اور ملحد بناتا رہے۔ یہاں ابھی دینی ادارے، تنظیمیں اور شخصیات تو ختم نہیں ہوئیں کہ اس ملک کا حلیہ ہی تبدیل کردیا جائے اور کوئی بولنے والا بول نہ سکے۔
اللہ تعالیٰ گمراہ لوگوں کو ہدایت اور راہِ حق پر چلنے والوں کو استقامت عطا فرمائے ۔(آمین ثم آمین)
٭…٭…٭
گمراہ لوگوں سے بچیں !
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 484)
جب بھی علماء اور اہل حق پر آزمائش کا وقت آتا ہے تو بہت سے گمراہ طبقات کی بن آتی ہے اور انہیں امت کو راہِ راست سے ہٹانے کی کھلی چھوٹ مل جاتی ہے۔آج کل نا اہلیت کے ساتھ اجتہاد کے شوق میں بہت سے لوگ امت کے اجماعی مسائل کو روندنے پر تلے ہوئے ہیں اور بہت سے لوگ تو یہ بھی سمجھتے ہیں کہ امت مسلمہ کے چودہ سو سالہ متفقہ مؤقف سے الگ راہ اپنانے میں کوئی حرج نہیں ہے اور شاید علماء نے از خود ہی اس راہ پر پہرے بٹھا دئیے ہیں ورنہ قرآن و سنت میں تو جا بجا تفکر و تدبر کی تلقین کی گئی ہے ۔
جب کہ حقیقت ِ واقعہ یہ ہے کہ یہ ایک شیطانی مغالطہ اور شدید گمراہی ہے ۔ قرآن مجید آج کسی پر نازل نہیں ہوا اور نہ ہی احادیث مبارکہ آج پہلی مرتبہ کسی نے سنی ہیں ۔ یہ دین مسلسل اور متواتر دین ہے ۔ صاحب قرآن حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمِ الٰہی ’’ لتبین للناس ‘‘ کو بجا لاتے ہوئے حضرات ِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے سامنے اس دین کی عملی تفصیلات اپنے قول و عمل سے پیش فرمائیں اور پھر یہ سارا سلسلہ نسل درنسل چلتے ہوئے ہم تک پہنچا ۔ ہر دور اور ہر علاقے میں اس دین کو سمجھنے ‘ عمل کرنے اور پھیلانے والے بے شمار مفسر ین‘ محدثین اور فقہاء موجود رہے‘ جنہوں نے اپنی پوری زندگیاں انہی اعلیٰ اور پاکیزہ مقاصد کیلئے وقف کر دیں اور ان حضرات کا تحریر کر دہ عظیم الشان اسلامی لٹریچر کا پورا کتب خانہ اس بات کا گواہ ہے کہ قرآن و سنت کا کوئی گوشہ ان کی آنکھوں سے اوجھل نہیں رہا ۔
پھر آج ایک شخص جس کا عمل بھی ناقص ‘ علم بھی ناقص ‘ فہم بھی ناقص ‘اخلاص بھی ناقص اور نسبت بھی ناقص‘ دنیا کے دس دھندے نمٹانے کے ساتھ ‘ ایک دو اردو ترجمے دیکھ کر یا دو چار عربی الفاظ سیکھ کر یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ میں نے جو کچھ قرآن و سنت سے سمجھا ہے ‘ وہ تو برحق اور درست ہے اور چودہ سو سال سے پوری امت (نعوذ باللہ تعالیٰ) گمراہی اور غلط فہمی کا شکار تھی ۔
بہر حال ہم اس سلسلے میں اختصار کو ملحوظ رکھتے ہوئے چند باتیں عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ اہلِ ایمان پورے شرح صدر کے ساتھ اجماعی مسائل پر عمل کرتے رہیں اور کسی گمراہ کے جال میں پھنس کر اپنا ایمان برباد نہ کر ڈالیں ۔
قرآن مجید نے بالکل واضح اور دو ٹوک الفاظ میں بتایا ہے کہ آخرت میں جو سزا ‘ پیارے آقا صلی اللہ علیہ سلم کی مخالفت کرنے والوں کو ملے گی ‘ وہ ہی سزا اُن لوگوں کو ملے گی جو مسلمانوں کا اجماعی اور متفقہ دینی طریقہ چھوڑ کر کوئی دوسرا راستہ اختیار کر لیں گے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ م بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَھَنَّمَ ط وَسَآئَ تْ مَصِیْرًا
(النساء ۔ ۱۱۵)
( اور جو شخص رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخالفت کرے گا ‘ اس کے بعد کہ ہدایت کا راستہ اُس پر واضح ہو چکا ہے اور وہ ایمان والوں کے راستہ کے خلاف چلے گا تو ہم اس کو (دنیا میں) جو کچھ وہ کرتا ہے‘ کرنے دیں گے اور (آخرت میں ) اس کو جہنم میں داخل کر دیں گے اور وہ بہت بری جگہ ہے ) ۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ‘ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:
ان اللہ لا یجمع امتی ۔ اوقال : امۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ علی ضلالۃ ، وید اللہ علی الجماعۃ ،ومن شذ شذ الی النار (جامع الترمذی، الفتن، باب ماجاء فی لزوم الجماعۃ )
( بے شک اللہ تعالیٰ میری امت کو ‘ یا یہ الفاظ فرمائے کہ اللہ تعالیٰ ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو گمراہی پر جمع نہیں کریں گے ۔ اور اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے اور جو اکیلا کسی راہ پر چلے گا ‘ وہ اکیلا ہی آگ میں جائے گا ) ۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:
’’ ان امتی لا تجتمع علی ضلالۃ ، فاذارایتم اختلافاً ، فعلیکم بالسواد الاعظم‘‘( سنن ابن ماجہ ، ابواب الفتن ، باب السواد الاعظم )
( بے شک میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہو گی ۔ لہٰذا جب تم کوئی اختلاف دیکھو تو بڑے گروہ کو لازم پکڑو )
بہت سے قابلِ احترام دوست واحباب جنہوں نے مختلف دینی موضوعات پر از خود مطالعہ کیا ہوتا ہے ‘ یا مختلف عصری اداروں سے اسلامی معلومات پر مبنی کورس کیا ہوتا ہے ، وہ فتویٰ ‘ تقلید ‘ اجتہاد ‘ عُرف ‘ علّت ‘ حاجت ‘ ضرورت ‘ مقاصد ِ شریعت اور دیگر ایسے گہرے سنجیدہ علمی موضوعات پر ’’ ناقص لٹریچر ‘‘ پڑھنے کی وجہ سے چند درچند غلط فہمیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ان کی طرف سے دینی مسائل میں رائے زنی ایک عام بات ہے ‘ جسے یہ اپنے خیال میں ’’اجتہاد‘‘ سمجھتے ہیں ۔ پھر جب جسارت زیادہ بڑھتی ہے تو بسا اوقات امت مسلمہ کے متفقہ اور اجماعی مسائل پر بھی تیشہ زنی کی نوبت آجاتی ہے ۔چنانچہ ہندو پاک کے ایک معروف مقرر ‘ جو اپنے فی البدیہہ جوابات اور غیر مسلموں کے ساتھ بحث و مباحثہ کی بدولت کافی عرصہ تک الیکٹرانک میڈیا پر چھائے رہے ہیں ‘ وہ کہتے ہیں :
’’فتویٰ دینے کی اجازت ہر کسی کو ہے کیونکہ فتویٰ دینے کا مطلب ہے اپنی رائے دینا ‘‘ ۔
حالانکہ قرآن و سنت کا ایک ابتدائی طالب علم بھی جانتا ہے کہ فتویٰ دینا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے اور اس کیلئے ’’ اہل ِ افتائ‘‘ میں سے ہونا ضروری ہے ۔ ہر کس و ناکس جسے علومِ دینیہ میں کوئی مہارت نہ ہو اُسے فتویٰ جاری کرنے کی اجازت دینے کا مطلب تو گمراہی کے دروازے کو مکمل طور پر کھول دینے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ بہت سے لوگ یہی چاہتے ہیں ۔
دنیا کے ہر کام کے لیے اہلیت کا کوئی نہ کوئی معیار ضرور مقرر ہوتا ہے ۔ ڈاکٹر بننے کے لیے برسوں کی پُر مشقت پڑھائی کے ساتھ عملی تجربہ لازمی خیال کیا جاتا ہے۔ یہی حال باقی کاموں کا بھی ہے اور ایسے موقعے پر کوئی بھی شخص یہ نہیں کہتا کہ کیا میڈیکل پر ڈاکٹروں کی ٹھیکیداری ہے ‘ علاج کرنے کا حق تو ہر شخص کو ہونا چاہیے ۔ اس لیے کہ ہر شخص یہ بات جانتا ہے کہ اگر نا اہل افراد نے علاج معالجہ کا کام شروع کر دیا تو وہ سوائے قبرستان آباد کرنے کے اور کوئی خدمت سر انجام نہیں دیں گے ۔ لیکن جب یہی بات دین کے بارے میں علماء سمجھاتے ہیں کہ دینی مسائل بتانے کے لیے بھی کچھ اہلیت درکار ہے جو برسہابرس کی محنت طلب پڑھائی اور کسی عالم با عمل کے پاس رہے بغیر حاصل نہیںہو سکتی ‘ تو اسے تنگ نظری خیال کیا جاتا ہے ۔ کیا یہی عقل و دانش کا تقاضا اور عدل و انصاف کا پیمانہ ہے ۔
اسلاف ِ امت نے دینی مسائل بتانے کے کام کی اہمیت کو بڑے واضح اور دو ٹوک الفاظ میں بیان کیا ہے ۔ چنانچہ امام نووی ؒ نے ’’المجموع شرح المہذب‘‘ کے مقدمہ میں فرمایاہے :
’’ دیکھو فتویٰ دینا ایک بہت عالی مرتبہ‘ بہت زیادہ پیش آنے والا اورانتہائی فضیلت والا کام ہے کیونکہ مفتی انبیاء کرام علیہم السلام کا وارث ہے اور فرضِ کفایہ(وہ فرض جسے چند لوگ ادا کر لیں تو باقی سے بھی مواخذہ نہیں ہوگا) کو ادا کرنے والا ہے لیکن ساتھ ہی یہ کام بہت سے خطرات (اور غلطیاں) پیش آنے کی جگہ بھی ہے ، اسی لیے علماء نے کہا ہے :
المفتی موقّع عن اللہ سبحانہ و تعالیٰ
(یعنی مفتی تواللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے دستخط کرنے والا ہے )۔
لہٰذا ایک مفتی پر لازم ہے کہ وہ منصب افتاء کی عظمت کا احساس کرے اور یہ بات یاد رکھے کہ فتویٰ دینے کا کا مطلب اپنی ذاتی آراء کا اظہار یا صرف عقل کے ذریعے فیصلہ کر لینا یا اپنے جذبات سے مغلوب ہو کر کوئی کام کر لینا نہیں ہے بلکہ افتاء تو ان شرعی احکام کو واضح کر کے بیان کرنے کا نام ہے جو اللہ پاک نے اپنے بندوں کیلئے ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں مقرر فرمائے ہیں ‘ وہ احکام جو بندوں کیلئے دنیا و آخرت میں ابدی سعادت کے ضامن ہیں‘‘ ۔
دینی مسائل پرگفتگو کرنے سے پہلے یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اس منصب کی عظمت و ہیبت کیلئے یہ بات کافی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت اور جانشینی ہے ۔
ابن قیم ؒ فرماتے ہیں:
’’ جب بادشاہوں کے ہاں ’’ توقیع ‘‘ (نمائندگی) کا منصب اور عہدہ ایسی چیز ہے جس کی فضیلت کا انکار نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس کی قدرو عظمت سے کوئی جاہل ہو سکتا ہے اور یہ مرتبہ بلند ترین عہدوں میں سے ہے ‘ تو آسمان و زمین کے پروردگار کی طرف سے’’توقیع‘‘ (نمائندگی) کا منصب کیسا عظمت والاہو گا ۔
لہٰذا جو شخص بھی اس منصب پر فائز ہو اسے چاہیے کہ وہ اس کیلئے خوب تیاری کر لے اور اس کا سامان اچھی طرح جمع کر لے اور اس مقام کی قدر کو پہچان لے جس میں وہ کھڑا کیا گیا ہے۔ حق بات کہنے میں اس کے دل میں کوئی تنگی نہیں ہونی چاہیے اور اس کو حق بات کا واضح اظہار کرنا چاہیے ۔ پس بے شک اللہ تعالیٰ وہی اس کا مدد گار اور اس کی راہنمائی کرنے والا ہے اور کیونکر(یہ کام عظیم ذمہ داری والا نہیں ہو گا) کہ یہ تو وہ منصب ہے جو خود اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے بیان فرمایا ہے ‘ پس اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
وَیَسْتَفْتُوْنَکَ فِی النِّسَآئِ قُلِ اللّٰہُ یُفْتِیْکُمْ فِیْھِن( النساء ۱۲۷)
ترجمہ : ’’اور وہ آپ سے فتویٰ طلب کرتے ہیں عورتوں کے بارے میں آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تمہیں فتویٰ دیتا ہے ان عورتوں کے بارے میں‘‘ ۔
اور جس منصب کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے اختیار کیا ہو تو یہ اس کے شرف اور جلالتِ شان کیلئے کافی ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے :
یَسْتَفْتُوْنَکَ قُلِ اللّٰہُ یُفْتِیْکُمْ فِی الْکَلٰلَۃِ (النساء ۱۷۶)
ترجمہ :’ ’آپ سے فتویٰ مانگتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تمہیں فتویٰ دیتا ہے‘ کلالہ کے بارے میں ‘‘۔
اس لیے مفتی کو جاننا چاہیے کہ وہ اپنے فتوے میں کس ذاتِ پاک کی نیابت کر رہا ہے اور اسے یقین رکھنا چاہیے کہ کل اُس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا اور وہ اللہ کے سامنے کھڑا کیا جائے گا‘‘ ۔ (اعلام الموقعین)
اسی طرح اس کام کی نزاکت کو بیان کرنے کیلئے وہ حدیث پاک کافی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی گئی ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اجرء کم علی الفتیا اجرء کم علی النار (سنن دارمی، باب الفتیا و مافیہ من الشدۃ )
(تم میں سے جو شخص فتویٰ دینے پر زیادہ جری ہے وہ تم میں سے سب سے زیادہ آگ پر جری ہے)
اللہ تعالیٰ ہم سب کی ہر گمراہ اور ہر گمراہی سے حفاظت فرمائے ۔(آمین ثم آمین)
٭…٭…٭
گناہ کو گناہ سمجھیں
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 483)
کسی شدید بیماری کا سب سے سنگین درجہ وہ ہوتا ہے جب بیمار اس کو بیماری تسلیم کرنے سے انکار کر دے یا اس کے مرض ہونے کا احساس اس کے دل سے مٹ جائے ۔ یہ کلیہ جسمانی بیماریوں کے بارے میں جتنا درست ہے ، روحانی امراض یا گناہوں کے بارے میں بھی اتنا ہی سچا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں بہت سی برائیاں ایسی رواج پا گئی ہیں کہ گھر گھر اُن کا چلن دیکھ کر اب دلوں سے اُن کے برائی ہونے کا احساس بھی مٹ رہا ہے ، اور افسوس تو یہ ہے کہ معاشرے کے دینی رہنما بھی تھک ہار کر اُن کے بارے میں کہنا سننا چھوڑتے جا رہے ہیں ۔
ایک بالکل واضح اور ظاہر سی بات ہے کہ انسان جوکچھ دیکھتا ہے ، سنتا ہے اور پڑھتا ہے اس کا اثر ضرور قبول کرتا ہے ۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جو بچے بہت دلچسپی سے ڈرامے اور فلمیں دیکھتے ہیں ، وہ انجانے میں پھر انہی کے کرداروں کی نقالی شروع کردیتے ہیں ۔ وہ بچے نہ بھی چاہیں تو ان کی زبانوں پر وہ ہی باتیں آجاتی ہیں جو انہوں نے دیکھی ہوتی ہیں ۔ پھر کبھی تویہ بھی ہوتا ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے بچے کا لباس ، شکل وصورت اور زبان خود بخود اسی سانچے میں ڈھلنے لگتی ہے جو وہ دیکھتا ، سنتا اور پڑھتا ہے۔
پھر یہ بھی دیکھیں کہ ہم لوگ کتنے عجیب ہیں ۔ کوئی چیز کھانے سے پہلے تو اچھی طرح دیکھتے ہیں کہ کہیں خراب نہ ہو ، بدبودار نہ ہو ۔ پھل ہیں تو گلے سڑے نہ ہوں ۔ ہم میں سے کوئی بھی شخص ایسی چیز شوق سے کھانا پسند نہیں کرے گا جو اس کے جسم اور صحت کے لئے نقصان دہ اور تباہ کن ہو ۔ اگر کبھی ہم گلاس میں پانی پینے لگیں اور پانی میں کوئی تنکا اور کچرا نظر آجائے تو ہم فوراًوہ پانی گرادیتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحبان بھی ہمیشہ اپنے مریضوں کو یہ تاکید کرتے رہتے ہیں کہ خراب اور مضر صحت چیزیں استعمال نہ کریں ۔ ہر ایسی چیز سے پرہیز کریں جو آپ کو بیمار کرسکتی ہو۔
کھانے پینے کے بارے میں تو ہم اتنی احتیاط کرتے ہیں لیکن دوسری طرف ہم خود دیکھنے، سننے اور پڑھنے کے بارے میں کوئی احتیاط نہیں کرتے ۔ جیسا ناول یا رسالہ ہمارے ہاتھ آجائے ہم پڑھ ڈالتے ہیں ، جو خرافات اور لغویات دیکھنے اور سننے کو مل جائیں ، بڑے شوق سے انہیں دیکھتے اور سنتے ہیں۔ ساتھ ساتھ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ بس یہ چند منٹوں کی تفریح ہی تو ہے اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ان چیزوں کے اثرات کتنے گہرے اور تباہ کن ہیں ۔ یہ ایمان لیواجراثیم ہماری روح اور ہمارے ایمانی جذبات کے لئے کتنے نقصان دہ ہیں ۔
آج انسانیت کے دشمنوں نے ایسی چیزیں گھر گھر پہنچادی ہیں ،جن کو دیکھنے ، سننے اور پڑھنے کے بعد انسان کے دل سے تقویٰ ، خوف خدا اور فکر آخرت سب کچھ رخصت ہوجاتا ہے ۔بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ وہ انسان رہتا ہی نہیں بلکہ شیطان بن جاتا ہے ۔ آخر آپ بھی تو اخبارات میں آئے روز چوری، ڈکیتی اور قتل وغارت گری کی خبریں پڑھتے ہیں ۔ بھلایہ کام کسی انسان کے ہوسکتے ہیں ؟ہر گز نہیں ۔ یہ انسان غلط چیزیں دیکھنے، بری باتیں سننے اور نقصان دہ رسالے پڑھنے سے ہی شیطان بنتے ہیں ۔
عام طور پر موجودہ دور کو ترقی اور تہذیب کا بہترین نمونہ خیال کیا جا تا ہے اور ہر شخص اس کا حصہ بننے کیلئے ہاتھ پائوں مارتا ہے حالانکہ ایک وقت تھا کہ صرف سترہ سال کا جوان محمد بن قاسمعرب سے مسلمان بہنوں کو راجا داہر کی قید سے آزاد کروانے اپنے پورے لشکر کے ساتھ سندھ ملتان پر حملہ آور ہوا تھا اور آج کا مسلمان کہلانے والا جوان ایسا ہے کہ خود اس کی گلی اور محلے کی مسلمان بہنیں اس سے محفوظ نہیں ۔ اتنی ترقی سے اتنا تنزّل ، اتنی بلندی سے اتنی پستی ، اتنے عروج سے اتنا زوال کیسے ہوا ؟ خدارا!کبھی غور کریں اور تنہائی میں بیٹھ کر سوچیں کہ یہ ہمارے غلط دیکھنے ، غلط سننے اور غلط پڑھنے کے ہی خوفناک نتائج تو نہیں ہیں؟
ُُپھر یہ بھی دیکھیں کہ ہم جو کچھ دیکھتے ‘ پڑھتے اور سنتے ہیں ‘ ہم سمجھتے ہیں کہ بس معاملہ یہیں ختم ، حالانکہ ایسا نہیں ہے یہ تو ہم ایک ریکارڈ مرتب کر رہے ہیں ۔ ہمارا ہر عمل محفوظ ہو رہا ہے ، ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں، سن رہے ہیں یا پڑھ رہے ہیں ،ان سب کا جواب بھی دینا ہے، قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے :
’’ یقین رکھو کہ کان ‘ آنکھ اور دل سب کے بارے میں ( تم سے) سوال ہو گا ‘‘ ( بنی اسرائیل ۳۶)
دنیا کے کسی کمپیوٹر کے ریکارڈ میں تو غلطی ممکن ہے لیکن ہمارے ان کا موں کا جوریکارڈ مرتب ہو رہا ہے اُس میں غلطی کا کوئی امکان نہیں ۔ یہ ریکارڈ بھی ایک جگہ نہیں کئی جگہ محفوظ ہو رہا ہے ۔ ہماری آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے اور ہمارے کان جو کچھ سنتے ہیں یہ سب کچھ سب سے پہلے تو فرشتے لکھ لیتے ہیں ۔ قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ:
’’ حالانکہ تم پر کچھ نگراں (فرشتے ) مقرر ہیں ‘ وہ معزز لکھنے والے ‘ جو تمہارے سارے کاموں کو جانتے ہیں ‘‘ ( الانفطار ۔۱۲)
پھر یہ زمین جسے ہم بے حس سمجھتے ہیں ‘ یہ بھی ہماری ایک ایک خبر اپنے سینے میں محفوظ کر رہی ہے ۔ قرآن مجید انسانوں کو تنبیہ کرتے ہوئے کہتا ہے :
’’ اس دن زمین اپنی ساری خبریں بتا دے گی کیونکہ تمہارے پروردگار نے اُسے یہی حکم دیا ہو گا ‘‘ ۔ ( الزلزال ۔۴،۵)
پھر یہ گواہیاں تو انسان کے اپنے وجود سے الگ ہیں ۔ شاید انسان ان کو جھٹلانے کی ناکام کوشش کرے لیکن ذرا سوچیں ! اُس وقت کیا ہو گا ‘ جب خود ہماری آنکھ بول پڑے گی کہ اس بندے نے مجھ سے کیا کیا دیکھا ہے ، جب ہمارے کان بول پڑیں گے کہ یہ ہمارے ذریعے کیا کیا سنتا رہا ۔ بھلا اُس وقت ہماری شرمندگی کا کیا ٹھکانہ ہو گا ۔ منہ چھپانے کیلئے کوئی جگہ بھی نہیں ہو گی ۔ ذرا پڑھیں توسہی ‘ قرآن مجید ہمیں یہی باتیں سمجھا رہا ہے :
’’ یہاں تک کہ جب وہ اُس (آگ ) کے پاس پہنچ جائیں گے تو اُن کے کان‘ اُن کی آنکھیں اور اُن کی کھالیں اُن کے خلاف گواہی دیں گی کہ وہ کیا کچھ کرتے رہے ہیں ۔ وہ اپنی کھالوں سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی ؟ وہ کہیں گی کہ ہمیں اُسی ذات نے بولنے کی طاقت دے دی ہے ، جس نے ہر چیز کو گویائی عطا فرمائی ۔ ‘‘ ( حم سجدہ ۔ ۲۰،۲۱)
ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ تم خود اپنا حساب کر لو ‘ اس سے پہلے کہ تم سے حساب لیا جائے ۔ ذرا چند لمحے کیلئے سوچیں کہ اگر ابھی میری آنکھ وہ سب کچھ بتانا شروع کر دے جو میں نے اس سے دیکھا ‘ پڑھا یا میرا کان وہ سب کچھ سنا ڈالے ، جو اس کے ذریعے میں نے سنا تو میرے پاس اللہ تعالیٰ کے ہاں پیش کرنے کیلئے کیا عذر ہو گا اور جب ہم خود کو کوئی قابل تسلی جواب نہیں دے سکتے تو بارگاہِ الٰہی میں کیسے جواب دیں گے ؟ پھر کیا اب بھی ہم اپنے طرزِ عمل کو بدلنے کیلئے تیار ہیں یا نہیں ؟
ایک بات یہ بھی سوچیں کہ یہ آنکھ ، کان اور دل و دماغ سب نعمتیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی ہیں ۔ نعمت پر شکر ادا کرنا ‘ ہر شریف اور سلیم الفطرت آدمی اس کو اپنا فرض سمجھتا ہے ۔ اتنی عظیم نعمتیں کہ دنیا کی ساری سائنس اور سائنسدان مل کر بھی ان میں سے کسی ایک کا متبادل نہیں بنا سکتے ۔ ہم جب ان نعمتوں کو غلط استعمال کرتے ہیں تو کتنے ناشکرے پن کا ثبوت دیتے ہیں ۔
دینی اور اخلاقی انحطاط کے اس دور میں ایک گروہ مسلسل اس شکست خوردہ ذہنیّت کے پر چار میں مصروف ہے کہ معاشرے میں جو برائی بھی کثرت سے رواج پاتی جائے اُسے حلال کرتے جائو ، گویا جو بیماری پھیل کر و بائے عام کی شکل اختیار کر لے ، اُسے بیماری ماننے ہی سے انکار کر دو ، اور ضمیر کی جو آواز کبھی کبھی ابھر کر عیش و نشاط میں خلل ڈال سکتی تھی ، اُسے جھوٹی تسلیوں سے تھپک تھپک کر سلادو ۔
زمانے کے الٹے بہائو پر بہنے اور مصنوعی تاویلات کے ذریعے اُسے برحق قرار دینے کا یہ طرز عمل کئی سنگین گناہوں اور غلطیوں کے بارے میں بھی اختیار کیا جا رہا ہے اور علماء کو بڑے زور و شور کے ساتھ یہ مشورے دئیے جا رہے ہیں کہ چونکہ ان کی وباء گھر گھر پھیل چکی ہے ، اس لئے اب اُنہیں ناجائز قرار دینے کے فتوے واپس لے لینے چاہئیں اور انہیں حلال طیب قرار دے دینا چاہیے ۔ بلکہ بعض حضرات تو علماء کی اس ’’تنگ نظری‘‘ پر ملامت کرتے نہیں تھکتے کہ اکیسو یں صدی کے اس دور میںوہ ان گناہوں کو جائز کہنے پر کیوں آمادہ نہیں؟۔ شاید اسی کو کہتے ہیں :
عذر گناہ بدتر از گناہ
ان ’’ وسیع النظر ‘‘ دانشوروں نے غالباً کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں فرمائی کہ اگر کسی چیز کے رواجِ عام سے مرعوب ہو کر اُسے درست تسلیم کرنے کا یہ سلسلہ شروع سے جاری ہوتا تو آج دنیا انبیاء علیہم السلام کی پاکیزہ تعلیمات سے یکسر محروم ہوتی ۔ انبیاء علیہم السلام تو مبعوث ہی ایسے مواقع پر ہوتے ہیں جب برائیوں کا رواج بڑھ کر بظاہر ناقابلِ علاج نظر آنے لگتا ہے ۔ لیکن وہ اس رواجِ عام کے آگے ہتھیار ڈالنے کے بجائے اپنے عزم محکم اور جہدِ پیہم سے وقت کے دھارے کو موڑتے ہیں اور زندگی کے آخری سانس تک باطل سے سمجھوتہ نہیں کرتے ۔
ان ’’ روشن خیال ‘‘ حضرات نے کبھی اس پہلو پر بھی شاید غور نہیں فرمایا کہ برائیوں کے رواجِ عام کو ان کی سندِ جواز دینے کا طریقۂ کار معاشرے کو کہاں سے کہاں پہنچا سکتی ہے ؟ اور مغرب کی جن اقوام نے اس طرزِ عمل کو اپنایا ہے وہ رفتہ رفتہ کس طرح انسانیت اور شرافت کی ایک ایک قدر کو نوچ کر پھینک چکی ہیں اور ’’رواجِ عام ‘‘ کی دلیل کی بدولت اُن کے جسم پر اخلاق و مروت کا کوئی جامہ سلامت نہیں رہا ۔
پھر انسان کسی گناہ کو گناہ سمجھ کر اس میں مبتلا ہو جائے ، اور دل میں اپنے کئے پر نادم ہو ، تو یہ اس بات سے ہزار درجہ بہتر ہے کہ گناہ کرنے کے بعد اُس پر سینہ زوری بھی کرے اور اُسے اپنی غلطی ماننے کے لئے تیار نہ ہو ۔ پہلی صورت میں گناہ صرف ایک ہے ، اور عجب نہیں کہ ندامت کی بنا پر کبھی اُس سے تائب ہونے یا اُسے چھوڑنے کی توفیق بھی ہو جائے ، لیکن دوسری صورت میں جتنا سنگین معاملہ گناہ کے ارتکاب کا ہے ، اس سے کہیں زیادہ سنگین گناہ کو برحق ثابت کرنے کا ہے ، ایسے شخص کو عموماً توبہ کی توفیق بھی نہیں ہوتی ، اور بعض صورتوں میں تو یہ سینہ زوری گناہ سے بڑھ کر کفر کی سرحد میں داخل ہو جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اُس سے محفوظ رکھے (آمین)
آخری بات یہ عرض کرنی ہے کہ ہمارا یہ میڈیا جو ہمارے دل و دماغ میں زہر انڈیل رہا ہے ‘ اس کے وار کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہ کریں ۔ اس نے ارتداد اور فسق و فجور کی جو لہر معاشرے میں پیدا کر دی ہے ‘ اُس سے غافل نہ ہوں ۔ یہ فحاشی اور عریانی کی جس آگ کو ہوا دے رہا ہے اُس سے اپنے کردار ‘ اپنے گھر اور اپنے دل و دماغ کو بچائیں ۔ آپ کا دل و دماغ تب ہی صحیح فیصلہ اور تجزیہ کرے گا جب آپ اُسی آنکھ اور کان کے ذریعے درست معلومات دیں گے ۔ اگر آپ نے یہ معلومات اُسے یہودیوں کے پروردہ میڈیا کے ذریعے پہنچائیں تو اس کے نتیجے میں فاسد اور خراب سوچ ہی جنم لے گی ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہر قسم کی گمراہیوں سے ہم سب کو محفوظ فرمائے ۔ (آمین ثم آمین)
٭…٭…٭
چند یادیں …چند باتیں
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 482)
یہ غالبا ً۲۰۰۴ ء کی بات ہے جب بندہ سالانہ دورہ تفسیر پڑھانے کے سلسلے میں مولاناعبد الوحید شہید ؒ کی خدمت میں حیدر آباد حاضرتھا ۔ ایک شام اچانک انہوں نے یہ نویدجاں فز اسنائی کہ قریب ہی ایک جامعہ میں ، نمازمغرب کے بعد ختم بخاری شریف کی تقریب ہے ، وہاں شرکت کرنی ہے مجھے آج نہ تو جامعہ کا نام یاد ہے،نہ ہی اس کا محل وقوع لیکن جو بات یاد ہے وہ شاہد کبھی بھلائے نہ بھول سکے ۔نماز مغرب کے بعد تلاوت ، حمدونعت اور دیگر ابتدائی کام ہوئے۔ پھر اچانک ایک نورانی شکل کے بزرگ منبر پر جلوہ افروز ہوئے ۔ سفید ‘اجلے کپڑے ‘ خوبصورت چہرہ ‘ متناسب جسم ، عمر رسیدہ لیکن ضعف و نقاہت کے دور دور بھی کوئی آثار نہیں ۔ بیان شروع ہوا تو ایسے محسوس ہوا جیسے منہ سے لفظ نہیں نکل رہے ‘ موتی جھڑ رہے ہیں ۔ ’’ ازدِل خیزد‘ بردِل ریزد‘‘ کی تصویر کھلی آنکھوں سامنے تھی اور ہر طرح کے تصنع و تکلف سے خالی خطابت سن کر یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے سمندر کی پر سکون لہریں رواں دواں ہوں ۔
اخلاص وللہیت سے لبریز ایسی من موہنی گفتگو اور اتنی سلیس اور شگفتہ اردو کہ آج بھی وہ تقریر گویا کانوں میں گونج رہی ہے ۔ آج کی طرح اُن دنوں میں مدارسِ دینیہ کے خلاف حکومتی اور صحافتی سطح پر ایک طوفانِ بد تمیزی برپا تھا ۔ اس لیے پورا بیان ہی علمِ دین کی فضیلت ‘ مدارسِ دینیہ کی اہمیت اور طلبہ و علماء کی عظمت پر تھا ۔ یہ اُس ہستی کی پہلی زیارت تھی ‘ جن کا نام ہم بچپن سے سنتے آرہے تھے اور میری مراد حکیم العصر ‘ مدرسِ بے بدل ‘ ولیٔ کامل حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانویؒ کی ذات ِ گرامی ہے ۔
حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانوی ؒ ایک فرد نہیں‘ پوری انجمن تھے ۔ وہ دریا نہیں ‘ ایک سمندر تھے ۔ وہ اسلام کے اُن باوفا اور پر خلوص خدّام میں سے تھے ‘ جن کی مثالیں ہر زمانے میں خال خال ہی ملتی ہیں ۔ اُنہوں نے اپنا تن من دھن سب کچھ اسلام پر قربان کر دیا اور دینی تعلیم کیلئے ابتداء سے ہی ایسے کڑے امتحانات سے گزرے ‘ جنہیں سوچ کر بھی دانتوں کو پسینہ آجاتا ہے ۔
وہ اس دورِ قحط الرجال میں اسلاف ِ امت کی آبرو تھے ۔ وہ جن بزرگوں کاتذکرہ بڑی وارفتگی سے کرتے ‘ خود بھی علم و عمل میں اُن کی ہو بہو تصویر تھے ۔ بہت سے لوگوں کو مشہور اداروں اور نامور جامعات سے پہچانا جاتا ہے ‘ جب کہ آپ خود اپنے علاقے کی شناخت اور پہچان تھے ۔ اگر آپ نے باب العلوم کہروڑ پکا کو اپنی تشریف آوری کا شرف نہ بخشا ہوتا ‘ تو مجھ جیسے سینکڑوں نہیں ہزاروں لاکھوں افراد نے اس دور افتادہ قصبے کا نام بھی نہ سن رکھا ہوتا ۔
اللہ تعالیٰ کا اپنا ایک نظام ہے ۔ کچھ بزرگوں کا فیض اُن کی نسبی اولاد سے عام ہوتا ہے اور کچھ کاروحانی اولاد سے ۔ حضرت لدھیانویؒ کی نسبی اولاد نہیں تھی لیکن چشمِ فلک نے یہ نظارہ دیکھا کہ ایک لاکھ سے زائد افراد کا مجمع آپ کے جنازے میں شریک تھا ‘ درجنوں افراد بلک بلک کر رو رہے تھے اور اُن کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔ یہ سب آپ کی روحانی اولاد تھی ‘ جن پر آپ نے ہمیشہ جان چھڑکی اور اپنی بے لوث محبت نچھاور کی ۔
آج کے دورِ مادیّت نے ہمیں جہاں بہت سی دیگر اچھی روایات سے محروم کر دیا ‘ وہاں استاذ و شاگرد کا تعلق بھی مفادات کی بھینٹ چڑھ گیا ۔ کالج اور یونیورسٹی نے تو عرصہ ہوا اس رشتے کے تقدس کو بھلا دیا لیکن اب تو مدارس میں بھی کہیں کہیں وہ ہی رنگ جھلکنے لگا ہے ۔ حضرت لدھیانوی ؒ جس دور اور جس ماحول کے نمائندے تھے ‘ اُس میں استاذ و شاگرد کا باہمی تعلق ‘ اولاد اور والدین کی محبت سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہوتا تھا ۔ اُن کے ہاں یہ تعلق ضابطے کا نہیں‘ بلکہ مکمل طور پر رابطے کا تھا ۔ یہ اپنے شاگردوں کو صرف اوقات ِ تدریس میں گھڑی دیکھ کر سبق ہی نہیں پڑھاتے تھے بلکہ اُن کے اندر چھپے ہوئے جوہر قابل کو نمایاں کرتے ۔ طلبہ کے جذبوں کو مہمیز دیتے اور اُنہیں خود اعتمادی کے زیور سے آراستہ کرتے ۔
ویسے تو آج تمام ہی دینی تحریکات کی نظریں آپ کی طرف اٹھتی تھیں ۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے تو آپ باقاعدہ امیر تھے ۔ جہاد اور مجاہدین سے محبت کا اظہار آپ اپنے خطبات اور مجلس میں بڑے بھر پور انداز سے فرماتے ۔ تصوف و سلوک میں آپ قطب الارشاد حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ سے بیعت اور حضرت سید انور حسین نفیس شاہؒ کی خلافت سے سرفراز تھے ۔ ان سب نسبتوں کے امین ہونے کے باوجود آپ بنیادی طور پر ایک ’’مدرس‘‘ تھے ۔ ایسے کامیاب اور صاحب ِ اسلوب مدرس کہ آپ کے شاگرد اب آپ کے دروس کو ترستے ہوئے یوں کہتے ہیں :
آئے عشاق ‘ گئے وعدئہ فردالے کر
اب ڈھونڈ اُنہیں چراغِ رخِ زبیالے کر
مدرس کسے کہتے ہیں ؟ جو اپنے سے پہلی نسلی سے وراثت ِ نبوت لے کر اُسے اگلی نسل تک منتقل کر تا ہے ۔ جو صرف الفاظ و نقوش ہی نہیں ‘ معانی اور کیفیات تک اپنے شاگردوں کے دلوں میں اتار دیتا ہے ۔ جو اپنے طلبہ کو خدا شناسی ‘ خود شناسی اور خود اعتمادی کے جوہر سے مالا مال کر دیتا ہے اور اُس کے سینے کو دین کی محبت اور عظمت سے ایسا لبریز کر دیتا ہے کہ پھر وہ دنیا کی کسی چکا چوند سے متاثر نہیں ہوتا ۔ وہ بظاہر تو بسم اللہ کے گنبد کا مکین اور مدرسہ کی چار دیواری تک محدود ہوتا ہے لیکن اُس کی نظر زمانے کی رفتار اور اُس کا ہاتھ اہل ِ زمانہ کی نبض پر ہوتا ہے ۔
آج تو کچھ لوگ یوں سمجھتے ہیں کہ دین صرف کیسٹ سن کر ‘ انٹرنیٹ پر لیکچر سماعت کر کے یا زیادہ سے زیادہ بس گھر بیٹھے کتابوں کا مطالعہ کر کے سیکھا جا سکتا ہے ۔ شاید دین کی مبادیات کے بارے میں تو یہ بات کسی حد تک درست ہو لیکن ٹھوس علمِ دین کسی صاحب کمال کے سامنے زانوائے تلمذ تہہ کیے بغیر کبھی نہیں نصیب ہو سکتا ۔ بلکہ امیر المجاہدین حضرت مولانا محمد مسعود ازہر حفظہ اللہ تعالیٰ نے تو ایک نشست میں مفتیٔ اعظم پاکستان حضرت اقدس مفتی ولی حسن صاحب ؒ کا یہ ملفوظ سنایا تھا کہ استاذ دورانِ درس جب کتاب کا صفحہ پلٹتا ہے ‘ اُس سے جو ہلکی اور معمولی سی آہٹ پیدا ہوتی ہے ‘ اُس سے بھی اُستاذ کی نسبت شاگرد کو منتقل ہوتی ہے ۔ اکبر الہ آبادی مرحوم نے کیا خوب بات کہی تھی :
کورس تو الفاظ سکھاتے ہیں
آدمی ، آدمی بناتے ہیں
خود تو ہم ابھی تک کام کے آدمی نہ بن سکے لیکن الحمد للہ تعالیٰ اپنی زندگی میں دوسروں کو کام کا بنانے والے کئی ’’آدمی‘‘ دیکھنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے روکھا سوکھا کھا کر اور چھوٹا موٹا پہن کر بھی مدارسِ دینیہ کو آباد رکھا ۔ انہوں نے اپنوں کی بے التفا تی اور غیروں کے طعنے سن کر بھی مسند ِ تدریس کو بے آبرو نہ ہونے دیا ۔ مصائب کی آندھیاں آئیں اور بڑے بڑے لوگوں کے نظریات تنکوں کی طرح بکھر گئے…
لیکن یہ حضرات کبھی بے دل ہوئے نہ اپنے مشن سے دستبردار ہوئے ۔ آج جتنے کامیاب علماء کرام ‘ امت کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں ‘ ان میں سے ہر ایک کی کامیابی کے پیچھے کسی نہ کسی کامیاب مدرس کی پر خلوص دعائیں اور شبانہ روز کاوشیں کار فرماہیں ۔ حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانویؒ ایسے ہی خدا ترس مدرسین کے قافلے کے فرد تھے جو اپنی نظر کیمیا اثر سے اپنے شاگردوں کی زندگیاں بدل ڈالتے ہیں اور جن کے چند بول سن کر طلبہ اپنی ساری پریشانیاں بھول جاتے ہیں ۔
کہتے ہیں کہ علامہ اقبال مرحوم کو جب حکومت نے ’’سر ‘‘ کا اعزاز دینے کی پیش کش کی تو انہوں نے اسے قبول کرنے کیلئے یہ شرط عائد کی کہ پہلے حکومت میرے استاذ کو شمس العلماء کا خطاب دے ۔ اس مطالبے پر یہ سوال آیا کہ ایسے پر وقار خطاب کیلئے تو لازمی ہے کہ اُن کی کوئی معروف اور مسلمہ تصنیف ہو ‘ جس سے اُن کا علمی مرتبہ اجاگر ہوتا ہو ۔ اگر آپ کے استاذِ محترم کی کوئی ایسی کتاب ہے تو بتائیے ۔ اقبال مرحوم نے اس کے جواب میں کہا کہ ہاں میرے استاذ کی ایک ہی تصنیف ہے اور وہ میں خود ہوں ۔ اقبال جیسے ہونہار شاگرد کی یہ گواہی باکمال استاذ کے حق میں کافی مانی گئی اور اُنہیں بھی شمس العلماء کا خطاب دے دیا گیا ہے ۔
اس بات کو لکھنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ حضرت لدھیانوی ؒ نے ‘ بندہ کے علم کی حد تک کوئی باقاعدہ کتاب تصنیف نہیں فرمائی لیکن اُن کے تصنیف کردہ انسان ‘ بلاشبہ اُن کے باکمال ہونے کی گواہی دے رہے ہیں ۔ آج اُن کے شاگرد ہی نہیں ‘ کئی شاگردوں کے شاگرد بھی شیخ الحدیث‘‘ جیسے جلیل القدر منصب پر فائز خدمات ِ دینیہ میں مصروف ہیں ۔ آپ نے ساٹھ برس سے زائد علوم دینیہ کی تدریسی خدمات سرانجام دی ہیں‘ جن میں سے چالیس سال سے زائد عرصے تک ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ ‘ الجامع الصحیح للامام البخاری ‘‘ آپ کے زیر ِ درس رہی ہے ۔
ہمارے استاذِ محترم حضرت اقدس شیخ الحدیث مولانا سحبان محمود صاحب ؒ اپنی دعائوں میں بڑے والہانہ انداز میں ایک دعا یہ مانگا کرتے تھے ’’ اے اللہ! چلتے ہاتھ پائوں اٹھانا ‘‘ یعنی کسی کا محتاج نہ بنانا ۔ خود حضرت ؒ کے حق میں بھی اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرمایا اور حضرت لدھیانوی ؒ کا آخری دن دیکھیں تو بالکل اسی دعا کی عملی تعبیر نظر آتی ہے ۔ دن گیارہ بجے ‘ بخاری شریف کا درس دیا ۔ ساڑھے گیارہ بجے کے لگ بھگ اپنے علاقے کے کسی صاحب کا جنازہ پڑھایا ۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد ملتان پہنچے ‘ جہاں وفاق المدارس کا اہم اجلاس جاری تھا ۔ اپنے صدارتی خطاب میں ایمان و ایقان افروز باتیں کیں اور چند منٹ بعد ہی اپنی نشست پر بیٹھے بیٹھے ایسے اپنی جان اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دی ‘ جیسے زبانِ حال سے کہہ رہے ہوں کہ اے اللہ ! دین کی سر بلندی کا جو عہد آپ سے کیا تھا ‘ آخری لمحے تک اُسے نبھا کر آپ کے حضور ‘ حاضر ہو رہا ہوں ۔ پہلے تھوڑا سا جھکے اور پھر رب کو نین کے سامنے جھکتے ہی چلے گئے ۔ رحمۃ اللہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ۔
حیدر آباد میں آپ کا بیان سنتے وقت جو پہلا تأثر دل میں آیا ‘ وہ یہی تھا :
خدا یاد آئے جن کو دیکھ کر وہ نور کے پتلے
نبوت کے یہ وارث ہیں یہی ہیں ظل رحمانی
یہی ہیں جن کے سونے کو فضیلت ہے عبادت پر
انہی کے اتقاء پر ناز کرتی ہے مسلمانی
انہی کی شان کو زیبا نبوت کی وراثت ہے
انہی کا کام ہے دینی مراسم کی نگہبانی
حضرت قیس بن عاصم رضی اللہ عنہ ، اُن بانصیب افروز میں سے جنہوں نے زمانۂ جاہلیت میں بھی اپنے اوپر شراب حرام کر رکھی تھی ‘ جب ان کا انتقال ہوا تو عبدہ بن طبیب نے ان کا بڑا جاندار مرثیہ کہا ‘ جس کا ایک شعر یہ ہے :
وماکان قیس ھلکہ ھلک واحد
ولکنہ بنیان قوم تھدما
(قیس کا مرجانا ‘ صرف ایک شخص کی موت نہیں ہے ‘ وہ تو پوری قوم کی بنیاد تھی ‘ جو منہدم ہو گئی ) ۔
بلاشبہ حضرت اقدس مولانا عبدالمجید لدھیانویؒ کا رخصت ہو جانا ‘ صرف ایک شخص کا دنیا سے چلا جانا نہیں بلکہ ایک عہد اور دور کا خاتمہ ہے ، جس کی خوبصورت یادیں ہمیشہ دلوں میں بسی رہیں گی اور طلبۂ علوم دینیہ کیلئے نشانِ منزل کا کام دیں گی ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ۔
٭…٭…٭
کشمیر کی آزادی ‘ ایک قومی فریضہ
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 481)
ریاست جمو ں و کشمیر میں اسلامی عہد کی تاریخ‘ چودہویں صدی کے ابتدائی دور سے لے کر انیسویں صدی کے ابتدائی دور تک پانچ صدیوں پر پھیلی ہوئی ہے اور یہ بلاشبہ ریاست کی تاریخ کا سب سے زیادہ روشن اور تابناک باب ہے ۔ اس کے بعد اسلام اور مسلمانوں کی یہ ریاست کبھی کسی ایک طاغوتی اور سامراجی قوت کے پنجہ غلامی میں گرفتار ہوتی رہی اور کبھی کسی دوسری قوت کے ۔ یوں مسلمانانِ کشمیر کی غلامی کی جس طویل شب کا آغاز ۱۸۱۹ء میں ریاست میں اسلامی عہد کے خاتمے سے ہوا تھا ‘ اس کی صبح روشن اب تک طلوع نہیں ہو سکی ۔
ریاست جموں و کشمیر کی مسلسل غلامی کے اس طویل عمل میں عالمی سامراجی کفریہ قوتوں کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کی کہانی عالم اسلام کے دوسرے حصوں میں ‘ ان طاقتوں کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کی داستان سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے چنانچہ یہ برطانوی سامراج ہی تھا جس نے ۱۸۴۶ء میں بیعنامہ امر تسر کے ذریعے اس اسلامی ریاست کو اس کے باشندوں سمیت پچھتر لاکھ روپے نانک شاہی کے بدلے میں ڈوگرہ مہاراجہ گلاب سنگھ کے ہاتھوں فروخت کر دیاتھا ۔ یعنی تقریباً سات روپے فی انسان کے حساب سے ایک پوری ریاست کے انسانوں کی خرید و فروخت کا یہ معاہدہ تاریخ انسانی میں اپنی نوعیت کا واحد انتہائی شرمناک معاہدہ ہے ‘جس کی نظیر پوری تاریخ میں کہیں اور نہیں ملتی ۔
ریاست کی تاریخ میں برطانوی سامراج کا شرمناک کردار ۱۹۴۷ء میں اس وقت ایک بار پھر کھل کر سامنے آگیا‘ جب مسلمانانِ کشمیر کی آزادی کی وہ طویل جدو جہد کامیابی کے آخری مراحل میں داخل ہوئی ‘ جس کا آغاز ۱۹۳۱ء میں مسلم کانفرنس کے پرچم تلے اسلام کے نام پر اور مسلم قومیت کے تصور کی بنیاد پر ہوا تھا ۔ چونکہ اس تحریک کا جذبہ محرک اسلام اور صرف اسلام تھا اس لئے اس کی منزل واضح طور پر برصغیر میں اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والی مملکت پاکستان تھی اور اس وقت کی مسلمانانِ کشمیر کی ملی تنظیم آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے جسے اس وقت ان کی ملی پارلیمان کی حیثیت حاصل تھی ‘ ۱۹؍جولائی ۱۹۴۷ء کو کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد منظور کر کے اس تحریک کی منزل کا رسمی طور پر بھی اعلان کر دیا تھا ۔
پاکستان کے لبر اور سیکولر ذہن رکھنے والے دانشور اور نام نہاد سول سوسائٹی کے لادین عناصر جتنا بھی زور لگا لیں ‘وہ اس حقیقت کو نہیں بدل سکتے کہ پاکستان ‘ صرف اور صرف اسلام کے نام پر ہی وجود میں آیا تھا ۔ تحریک ِ آزادی کی تاریخ کا ایک ایک ورق اور جدوجہدِ آزادی پر قربان ہونے والے سولہ لاکھ شہداء کے لاشے اس بات کی گواہی دیں گے کہ یہ ملک نفاذ اسلام کیلئے حاصل کیا گیا تھا اور اس وقت مسلم لیگ کی قیادت نے یہی نصب العین مسلمانانِ ہند کے سامنے رکھا تھا۔ بہرحال کشمیر کی اسی اسلامی نظریے کو سامنے رکھتے ہوئے اہلِ کشمیر کی اس قومی قرارداد میں کہا گیا تھا :
’’ برصغیر کی ریاستوں کے عوام کو امید تھی کہ وہ برطانوی ہندوستان کے دوسرے باشندوں کے دوش بدوش قومی آزادی کے مقاصد کو حاصل کریں گے اور تقسیم ہندوستان کے ساتھ جہاں برطانوی ہندوستان کے تمام باشندے آزادی سے ہمکنار ہوئے، وہاں ۳ جون ۱۹۴۷ء کے اس اعلان نے برصغیر کی نیم مختار ریاستوں کے حکمرانوں کے ہاتھ مضبوط کئے ہیں اور جب تک یہ مطلق العنان حکمران وقت کے جدید تقاضوں کے ساتھ سر تسلیم خم نہ کریں گے‘ ہندوستانی ریاستوں کے عوام کا مستقبل بھی بالکل تاریک رہے گا ان حالات میں ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے سامنے صرف تین راستے ہیں …
(۱) ریاست کا بھارت سے الحاق
(۲) ریاست کا پاکستان سے الحاق
(۳) کشمیر میں ایک آزاد خود مختار ریاست کا قیام
مسلم کانفرنس کا یہ کنونشن بڑے غور و خوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ جغرافیائی ‘ اقتصادی ‘ لسانی و ثقافتی اور مذہبی اعتبار سے ریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہایت ضروری ہے کیونکہ ریاست کی آبادی کا ۸۰ فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے اور پاکستان کے تمام بڑے دریا جن کی گزر گاہ پنجاب ہے ‘ ان کا منبع وادی کشمیر میں ہے اور ریاست کے عوام بھی پاکستان کے عوام کے ساتھ مذہبی ‘ ثقافتی اور اقتصادی رشتوں میں مضبوطی سے بندھے ہوئے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ریاست کا الحاق پاکستان سے کیا جائے ۔ یہ کنونشن مہاراجہ کشمیر سے پر زور مطالبہ کرتا ہے کہ کشمیری عوام کو داخلی طور پر مکمل خود مختاری دی جائے اور مہاراجہ ریاست کے آئینی سربراہ کی حیثیت اختیار کرتے ہوئے ریاست میں ایک نمائندہ قانون ساز اسمبلی کی تشکیل کریں اور دفاع ‘ مواصلات اور امور خارجہ کے محکمے پاکستان دستور ساز اسمبلی کے سپرد کئے جائیں ۔کنونشن یہ قرار دیتا ہے کہ اگر حکومت کشمیر نے ہمارے یہ مطالبات تسلیم نہ کئے اور مسلم کانفرنس کے اس مشورے پر کسی داخلی یا خارجی دبائو کے تحت عمل نہ کیا گیا اور ریاست کا الحاق ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی کے ساتھ کر دیا گیا تو کشمیری عوام اس فیصلے کی مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوں گے اور اپنی تحریک آزادی پورے جوش و خروش سے جاری رکھیں گے ‘‘۔
یہ تاریخی قرار داد آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے اجلاس خاص (کنونشن) نے ۱۹ جولائی ۱۹۴۷ء کو سری نگرمیں پاس کی تھی ۔ مگر عین اس مرحلے پر جب یہ تحریک اپنی منزل سے ہمکنار ہونے کو تھی ‘ سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے خوفناک جال پھیلا کر اس تحریک کو اپنی منزل سے بیگانہ کر دیا گیا ۔
اگست ۱۹۴۷ء میں دو قومی نظریے کی بنیاد پر برصغیر جنوبی ایشیاکی تقسیم عمل میں آئی ۔ اصول تقسیم کے مطابق تمام مسلم اکثریتی علاقوں اور ریاستوں کو پاکستان کا حصہ بننا تھا لیکن اس مملکت کو کمزور رکھنے کے لئے ہندو اور انگریزوں نے باہم گٹھ جوڑ کے ذریعے غالب مسلم اکثریت کی ریاست جموں و کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کی ناپاک سازش تیار کی ۔ اس سازش کی تکمیل کے لئے بھارت کو کشمیر تک پہنچنے کا راستہ دینے کی غرض سے عین آخری لمحوں میں ’’ریڈ کلف ایوارڈ‘‘ کے ذریعے پنجاب کے مسلم اکثریتی ضلع گوردا سپور کو بھارت میں شامل کرنے کا غیر منصفانہ فیصلہ کیا گیا اور کشمیر کے بھگوڑے ہندو مہاراجہ سے ریاست کے بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط لے کر بھارتی فوجوں کے سری نگر میں اتارے جانے کا جواز مہیا کیا ۔ یوں سامراجی قوتوں کا یہ گھنائو نا کھیل ریاست جموں و کشمیر کو بھارت کی غلامی میں دھکیل دینے پر منتج ہوا ۔ اس موقع پر جہاں برطانوی استعمار کی مسلم دشمنی کھل کر سامنے آئی وہاں بھارتی سامراج کی ہوس ملک گیری اور منافقت پر مبنی دوہرے معیار کا بھی پوری طرح اظہار ہوا ۔ بھارتی سامراج نے کشمیر پر اپنا ’’حق ‘‘ ثابت کرنے کے لئے ہندو راجہ کی بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز کو ذریعہ بنایا حالانکہ یہاں کے ۸۵ فیصد باشندے مسلمان تھے لیکن حیدر آباد اور جوناگڑھ کے مسلمان نوابوں کے پاکستان کے ساتھ الحاق کو یہ دلیل دے کر مسترد کر دیا کہ ان ریاستوں کے باشندوں کی غالب اکثریت غیر مسلم ہے ۔
کشمیری مسلمان بھارت کی اس مکارانہ پالیسی کو اول روز سے ہی بھانپ گئے تھے۔ لہٰذا انہوں نے ۱۹۴۷ء میں ریاست کو کفر اور کفار کی غلامی سے نجات دلانے کے لئے دیسی ساخت کی بندوقوں ، برچھیوں اور بھالوں کو ہاتھ میں لے کر علم جہاد بلند کیا اور مختصر سے عرصے میں ریاست کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ آزاد کروانے میں کامیاب ہو گئے ۔ پوری ریاست کی بھارتی غلامی سے آزادی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کی منزل چند قدم کے فاصلے پر تھی جب بھارت جنگ بندی کی فریاد لے کر اقوام متحدہ کے پاس پہنچا ۔ جنگ بند ہوئی ‘ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے ہندو پاک کی قراردادوں پر دستخط بھی ثبت ہوئے ،اقوام متحدہ کی زیر نگرانی رائے شماری قبضہ کشمیر کا حل قرار پایا ۔ بھارت رائے شماری کے متوقع نتائج سے واقف تھا اس لئے وہ بین الاقوامی سطح پر کئے ہوئے وعدوں سے مکر گیا اور ۶۰ سال سے زائد کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود وہ اہل کشمیر کو یہ حق دینے سے برابر انکار کر رہا ہے اور یہ حق مانگنے والوں پر عرصہ حیات تنگ کر رہا ہے ۔ انہیں مسلسل ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ‘چنانچہ اس دوران جس نے بھی حق خودار ادیت کا مطالبہ کیا اسے پابند سلاسل کر دیا گیا ۔ جس نے بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کی بات کی اسے تعذیب و تشدد کی چکی میں پیسا گیا اور اپنے تسلیم شدہ بنیادی انسانی حقوق کا مطالبہ کرنے والوں کے ساتھ یہ سب کچھ وہ ملک کرتا رہا ‘ جسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کازعم ہے ۔ اس نام نہاد جمہوریت کی آڑ میں اس نے کشمیر میں ’’رائے شماری ‘‘ کا مطالبہ کرنے والی ہر آواز کو ’’خاموش ‘‘ کرنے کا کھیل گزشتہ ۶۰ سال سے جاری رکھا ہوا ہے ۔ جمہوریت کی قبا پہنے یہ دیو استبداد اپنے درندہ صفت فوجی اور نیم فوجی دستوں کے ذریعے اب تک ہزاروں گھرخاکستر کر چکا ہے ۔ اسلام کی ہزاروں بیٹیوں کے دامن عصمت کو تار تار کر چکا ہے ۔ ہزاروں مسلمان مردوں ‘ عورتوں اور بچوں کی زندگی کے چراغ گل کر چکا ہے ۔ لیکن کیونکہ اس نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا ڈھونگ رچا رکھا ہے ‘ اس لئے عالمی برادری کو نہ مسلمانانِ کشمیر کی چیخیں ہی سنائی دے رہی ہیں اور نہ اس سر زمین پر گرنے والا مسلمانوں کا لہو ہی دکھائی دے رہا ہے ۔ انصاف دلانے والے عالمی ادارے خاموش ہیں اس لئے کہ ان کے انصاف کے پیمانے زمان و مکان کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں ۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ مقبوضہ ریاست میں کمزور سمجھ کر دبائے گئے بزرگوں ‘ عورتوں اور بچوں کی صدائیں عرش الٰہی کو ہلاکے رہیں گی اور مسلمانانِ کشمیر کا وہ مقدس لہو جو دریائے جہلم کے بہتے پانی کو سرخ کر کے پاک سرزمین کو سیراب کر رہا ہے نہ صرف اہل پاکستان بلکہ پوری امت مسلمہ کو جھنجوڑ کر جگانے میں کامیاب ہو جائے گا ۔
افغانستان کے جہاد نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک نئے اعتماد سے سرشار کر دیا تھا‘ کہ اگر نہتے افغان مجاہدین دنیا کی سب سے بڑی جنگی طاقت کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں تو کشمیری مسلمان جہاد کے جذبے سے سرشار ہو کر بھارت سے کیوں آزادی حاصل نہیں کرسکتے ۔
کشمیری مسلمانوں نے کبھی بھی بھارت کے غاصبانہ قبضے کو قبول نہیں کیا طویل ڈوگرہ راج ہی کے دور سے ہندوئوں کی بالادستی اور ان کے جبرو تشدد کی وجہ سے مسلمانوں کو ان سے نفرت تھی ۔ برصغیر ہندو پاک کی آزادی سے قبل ہی کشمیری مسلمانوں نے ڈوگرہ راج کے خلاف آزادی اور حقوق کی جدوجہد شروع کر رکھی تھی ۔ بھارت اور پاکستان کی آزادی کے موقع پر کشمیری مسلمانوں نے ڈوگرہ راج کا طوق اتار پھینکنے اور بحیثیت مسلمان اپنا تشخص بحال کرنے کے لئے بھرپور کوشش کی ۔
۱۴؍ اگست ۱۹۸۹ء کشمیر کی تاریخ میں اہم حیثیت رکھتا ہے ۔ یوم آزادی پاکستان کے دن مقبوضہ کشمیر کے ہر مسلمان نے اپنے مکان پر پاکستان کا جھنڈا لہرایا ۔ بازاروں ‘ گلیوں ‘ میدانوں اور تعلیمی اداروں میں مارچ ہوئے اور پاکستانی پرچم کو سلامی دی ۔ اس طرح مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں نے پاکستان کے ساتھ اپنی محبت ‘ عقیدت اور یکجہتی کا اظہار کیا اور بھارتی استعمار پر یہ ثابت کر دیا کہ چالیس سال کا طویل عرصہ اور بھارتی فوج کے مظالم ‘ کشمیریوں کے دل سے اسلام اور پاکستان کی محبت ختم نہیں کر سکے ۔
دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں نے بھی مسئلہ کشمیر کو عالم اسلام کا اہم مسئلہ گردانا اور اپنے اپنے ملک میں اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوششیں تیز کر دیں اور الحمدللہ یہ جہاد کامیابی کی منازل تیزی سے طے کر رہا ہے ۔ اب وہ دن دور نہیں جب بھارتی استعمار سرنگوں ہو گا اور کشمیری مسلمانوں کی قربانیاں رنگ لائیں گی، کشمیر کو آزادی نصیب ہو گی اور یہاں اسلامی نظام نافذ ہو گا ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ
٭…٭…٭
کر لے جو کرنا ہے آخر موت ہے
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 480)
خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز انتقال کر گئے ۔ نوے سال کی عمر تھی اور یہ عمر عام طور پر جانے کی ہی ہوتی ہے ۔ وہ صرف سعودی عرب کے بادشاہ ہی نہ تھے ‘ دنیا کے تیسرے سب سے امیر ترین فرد تھے‘ جن کی دولت کا اندازہ بیس بلین ڈالر سے بھی زیادہ کا لگایا گیا ہے ۔
ان کے سفرِ آخرت پر لکھنے والوں اور کہنے والوں نے بہت تبصرے کیے:
کسی نے کہا : ’’امت ایک عظیم قائد سے محروم ہو گئی ‘‘۔
کسی نے کہا : ’’وقت کا ایک مدبّر حکمران اٹھ گیا ‘‘۔
کسی نے کہا : ’’ عالمی برادری کا دوست رخصت ہوا ‘‘۔
کسی نے کہا :’’ سعودی عرب کی ترقی کا سہرا انہی کے سر ہے ‘‘۔
کسی نے کہا : ’’ وہ عالم اسلام کی ترقی کیلئے ہمیشہ کوشاں رہے ‘‘۔
کسی نے کہا :’’ پاکستان کو وہ اپنا دوسرا گھر سمجھتے تھے‘‘۔
غرض جس کے دل میں جو آیا اُس نے کہہ دیا اور لکھ دیا ۔ جانے والوں کا حال ‘ اُن کے مالک کے سپرد ‘ جو دلوں کے بھید بھی جانتا ہے اور تمام خفیہ اور اعلانیہ اعمال بھی ۔ لیکن ایک بات کسی نے نہیں کہی اور اہل قلم یہ کہہ بھی نہیں سکتے ۔ یہ بات تو صرف اہل دل ہی کہہ سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں ہوں حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب ؒ پر کہ ایسے مواقع کیلئے کیا پیاری بات کہہ گئے :
ملے خاک میں اہلِ شاں کیسے کیسے
مکیں ہو گئے لا مکاں کیسے کیسے
ہوئے نام وَر بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
زمیں کے ہو گئے لوگ پیوند کیا کیا ؟
ملوک و حضور و خداوند کیا کیا ؟
دکھائے گا تو زور تا چند کیا کیا ؟
اجل نے پچھاڑے تنومند کیا کیا ؟
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
اَجل نے کسریٰ ہی چھوڑا نہ دارا
اسی سے سکندر سا فاتح بھی ہارا
ہر اک لے کے کیا کیا نہ حسرت سدھارا
پڑا رہ گیا سب یوں ہی ٹھاٹھ سارا
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
اس دنیا سے شاہوں کے جنازے بھی اٹھتے ہیں اور فقیروں کے بھی ‘ یہاں نہ اُمراء ہمیشہ رہیں گے نہ درویش ۔ اس کائنات کا نظام ہی ایسا ہے کہ :
یہ دنیا اے لوگو ! جھولے کی ایک سواری ہے
اترنا اور چڑھنا سب نے باری باری ہے
وہ انسان جو پوری عمر اپنے آپ کو بنانے کی فکر میں لگا رہتا ہے ۔ کیا کیا حسرتیں پا لتا ہے اور کیا کیا منصوبے بناتا ہے ۔ کیسے کیسے اپنے آپ کو سنوارتا ہے اور کیسے کیسے اپنی شان اونچی کرنے کے چکر چلاتا ہے ۔ اس کیلئے کبھی شیطان کی تابعداری کرتا ہے تو کبھی نفس کی غلامی ۔ اسی زندگی کو رنگین بنانے کیلئے کبھی کفار کے سامنے سرجھکاتا ہے تو کبھی مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتا ہے لیکن آہ ! موت آتی ہے تو سب کچھ ملایا میٹ کر دیتی ہے ۔ سارے منصوبے خاک میں مل جاتے ہیں اور سارے عزائم دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں ۔
بادشاہوں کے خالی ہاتھ اٹھتے ہوئے جنازے اور کچی قبریں ہم سے بہت کچھ کہہ رہی ہیں ۔
ذرا سنیں تو وہاں سے کیا آواز آرہی ہے :
تونے منصب بھی اگر پایا تو کیا
گنجِ سیم و زر بھی ہاتھ آیا تو کیا
قصرِ عالی شان بھی بنوایا تو کیا
دبدبہ بھی اپنا دکھلایا تو کیا
ایک دن مرنا ہے آخرموت ہے
کر لے جو کرنا ہے آخر موت ہے
قیصر اور اسکندر و جم چل بسے
زال اور سہراب و رستم چل بسے
کیسے کیسے شیرو ضیغم چل بسے
سب دکھا کر اپنا دم خم چل بسے
ایک دن مرنا ہے آخر موت ہے
کر لے جو کرنا ہے آخر موت ہے
کیسے کیسے گھر اجاڑے موت نے
کھیل کتنوں کے بگاڑے موت نے
پیلتن کیا کیا بچھاڑے موت نے
سروقد قبروں میں گاڑے موت نے
ایک دن مرنا ہے آخرموت ہے
کر لے جو کرنا ہے آخر موت ہے
دنیا کی مختصر سی زندگی اور مال و دولت اور جاہ و حشم اور عہدوں کے لیے کتنی فکر مندی اور کتنی دوڑ دھوپ ہے ۔ اور برزخ و قبر میں جو طویل زندگی گزارنی ہے جو سینکڑوں سال بھی ہو سکتی ہے اور ہزاروں سال بھی ، اس کے لیے کچھ بھی فکر نہیں ۔ فکر مند ہونا تو درکنار ، رات و دن ایسے اعمال میں مبتلا ہیں جن سے قبروں میں عذاب ہوتا ہے ۔ نمازیں چھوڑ رہے ہیں ، روزے کھا رہے ہیں ، سود لے رہے ہیں ، حرام آمدنی سے سب پیٹ بھر رہے ہیں اور حرام پیسہ سے حاصل کیا ہوا لباس پہن رہے ہیں ، طہارت کا ہوش نہیں ، پیشاب کر کے بلا اِستنجا ہی اٹھ جاتے ہیں ، غیبتیں ہیں ، چغلیاں ہیں ، حقوق العباد اپنے سر لیے ہوئے ہیں ، اور طرح طرح کے معاصی اور مظالم اور گناہوں میں مبتلا ہیں ، موت اور موت کے بعد آرام سے رہنے اور عذاب سے محفوظ ہونے کے لیے نہ کوئی محنت ہے اور نہ عمل ، نہ اپنا محاسبہ ہے نہ مراقبہ ۔ صدر صاحب دنیا سے سدھارے ، منصف صاحب اپنی زندگی سے ہارے ، وزیر صاحب چل بسے ، کوٹھیوں پر لوگ جمع ہیں ، نعش پر ہوائی جہاز سے پھول برسائے جا رہے ہیں ، اخبارات میں خوب کالم چھپ رہے ہیں ، ریڈیو اور ٹی وی سے موت کی خبر یں نشر ہو رہی ہیں ، لوگ سمجھ رہے ہیں کہ ان کی موت بڑی قابلِ رشک ہے ۔ یہ کوئی نہیں سوچتا کہ مرنے والا مؤمن ہے یا کافر ، صالح ہے یا فاسق و فاجر ۔ اگر کفر پر مرا ہے تو ہمیشہ کے لیے بڑے درد ناک عذاب میں جا رہا ہے ۔ قیامت تک برزخ میں مبتلائے عذاب رہے گا ۔ پھر قیامت کے دن جو پچاس ہزار سال کا ہو گا مصیبتوں میں مبتلا ہو گا ، پھر دوزخ میں داخل ہو گا جس کی آگ دنیاوی آگ سے انہتر گنا زیادہ گرم ہے ، اس میں سے کبھی بھی نکلنا نہ ہو گا ، بھلا ایسے شخص کی موت و حیات کیسے قابلِ رشک ہو سکتی ہے ؟ یہ ہوائی جہازوں کے پھول برزخ کے مبتلائے عذاب کو کیا نفع دیں گے ؟ اور اخبارات کے اداریے نیز ٹی وی اور ریڈیو کے اعلانات برزخ میں اس کے لیے کیا فائدہ مند ہوں گے ؟ خوب غور کرنے کی بات ہے ۔
اگر مرنے والا فاسق و فاجر تھا ، بے نماز ی تھا ، غاصب و ظالم تھا ، رشو تیں لیتا تھا ، ظالمانہ فیصلے کرتا تھا ، حج فرض تھا مگر حج نہ کیا تھا ، ہر سال زکوٰۃ فرض ہوتی تھی مگر ادا نہ کرتا تھا ، رمضان کے روزے کھا جاتا تھا اور ساتھ ہی بڑے عہدوں پر فائز تھا ، پارلیمنٹ کا ممبر تھا ، پھر وزیر اور صدر بھی بن گیا تھا ، اس کے یہ عہدے ، کوٹھیاں اور بنگلے ، نوٹوں کے بنڈل قبر میں باعث ِ عذاب بن رہے ہیں اور صحافی لوگ ماتمی سرخیاں قائم کر کے موت کی خبریں شائع کر رہے ہیں ۔ شاعر مرثیہ لکھ رہے ہیں ، مرنے والا جو حرام مال آل و اولاد کے لیے چھوڑ گیا وہ اس کی وجہ سے مبتلائے عذاب ہے اور دنیا والے شاباش دے رہے ہیں کہ واہ واہ خوب مال چھوڑا ۔ سنگ ِ مَر مَر کی قبر بنائی جا رہی ہے جو حرام مال چھوڑا ہے اس سے دیگیں پک رہی ہیں ، اسی حرام مال سے فقیر کو کھلائے جا رہے ہیں ، وارثوں کو یہ ہوش نہیں کہ پکی قبر بنانا شرعاً ممنوع ہے اور حرام مال سے شرعاً ایصال ثواب نہیں ہوتا ۔ کیا پکی قبر کی وجہ سے وہ عذاب سے چھوٹ جائے گا ؟ کیا حرام مال کی دیگیں کھلانے سے قبر کا عذاب ختم ہو جائے گا ؟ ہرگز نہیں ، ہر گز نہیں ، جس نے زندگی میں اپنی قبر کا فکر نہ کیا اور موت کے بعد کے لیے نہ سوچا ، بد اعمالی میں مبتلا رہا ، اس کو اخباروں کے اداریے اور شاعروں کے مرثیے اور حکومتوں کے سربراہوں کے تعزیتی پیغامات عذاب سے نہیں بچا سکتے ۔ ہر شخص خود اپنی فکر کرے ، یہی موت کے بعد کی کامیابی کا ذریعہ ہے ، بے فکری و بال ہے اور باعثِ عذاب ہے ۔
حدیث شریف میں ہے کہ (قبر تک ) میت کے ساتھ تین چیزیں جاتی ہیں جن میں سے دو واپس آجاتی ہیں اور ایک وہیں رہ جاتی ہے ( پھر اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ ) میت کے ساتھ اس کے گھر والے اور اس کا مال (جنازہ کی چارپائی وغیرہ ) اور اس کا عمل جاتا ہے ، پھر اس کا مال اور گھر والے تو واپس ہو جاتے ہیں اس کا عمل ساتھ رہ جاتا ہے ۔ ( مشکوٰۃ المصابیح ص ۴۴۰)
گھر والے تو اسی دنیا میں جدا ہو گئے ، قبر میں ڈال کر چلے گئے ، وہ آگے کیا ساتھ دیں گے ؟ آل و اولاد کے لیے ، کنبہ اور خاندان کے لیے ، قوم اور وطن کے لیے آدمی کیا کیا جتن کرتا ہے ؟ بڑے بڑے گناہوں میں مبتلا ہوتا ہے ، حرام مال کماتا ہے ، رشوتیں لیتا ہے ، اپنی موت کی بعد کی زندگی کے لیے عذاب مول لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں کامیاب زندگی گزار رہا ہوں ۔ یہ اپنی جان پر ظلم ہے ، بہت بڑی غفلت ہے اور نادانی ہے ، بے وقوفی اور حماقت ہے ۔
یہ روز اٹھتے جنازے اور آباد ہوتے قبرستان مجھے اور آپ کو یہی بات سمجھا رہے ہیں کہ ابھی تمہاری مہلت ِ عمل باقی ہے تمہارے لیے توبہ کا دروازہ کھلا ہے اور تم اپنے لیے جو اعمال چاہو ‘ ابھی جمع کر سکتے ہو۔ نجانے کب تم پر بھی یہ وقت آجائے ‘ تب حسرت و ندامت سے کچھ نہ بنے گا ۔ اسی بات کی مسلسل یاد دہانی کیلئے ہی تو ہمیںہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا تعلیم فرما گئے :
’’اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لِیْ فِی الْمَوْتِ وَ فِیْ مَابَعْدَ الْمَوْت ‘‘۔
اللہ کریم تمام مسلمانوں کی کامل مغفرت فرمائے اور ہمیں نیک اعمال اور نیک انجام سے نوازے ۔(آمین)
٭…٭…٭
میرے نبیﷺ سے میرا رشتہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 479)
ـ’’یہ سب ملاّ کا کیا دھرا ہے ،،
’’یہ سارے مسائل مدارس کی پیداوار ہیں ،،
’’مساجد کے لاؤڈ اسپیکر ہی سے انتہاء پسندی جنم لیتی ہے ،،
’’پاکستان کے مولویوں نے آج تک اسے ترقی کرنے ہی نہیں دی ،،
’’اکیسویں صدی میں بھلا شدت پسندی کے خیالات کیسے چل سکتے ہیں ،،
یہ اور اس طرح کی باتیں سن کر ایسے لگتا ہے کہ پاکستان کی ساری بجلی کوئی ملاّاستعمال کر رہاہے ،ساری گیس کسی مدرسہ نے روک رکھی ہے اور پیٹرول تو شاہد ان اداروں کے طلبہ پی گئے ہیں ۔
پھر یہ سیاستدان اور دوسرے تمام طبقات جنہوں نے مل کر ملک کا بیڑا غرق کیا ہے یہ سب لوگ بھی تو بچپن میں کلمہ ،نماز اور پارہ پڑھنے مدرسہ ہی جایا کرتے تھے ۔
اس لئے اگر ذراہمت کر کے ملاّکو قابو کر لیا جائے ،مدارس پر پہرے بٹھادیئے جائیں اور پاکستان کے دینی طبقے کو بہانے بہانے سے ستایا جائے تو شاہدپاکستان ترقی کی راہوں پر دوڑنے لگے گا اور پوری دنیا میں امن وسکون کا بول بالا ہوجائے گا ۔
پاکستان لا دین طبقہ کو، جو ہے تو بہت کم لیکن میڈیا میں اپنے اثر ورسوخ کی وجہ سے نظر بہت زیادہ آتا ہے تو اس وقت شدید صدمہ پہنچا جب پیرس میں گستاخان رسول کو قتل کرنے والے ـ’’کو اسی برادران ،،کا کوئی تعلق پاکستان کے مدارس ،مساجد اور مولویوں سے نہیں نکلا ،اپنے کالموں اور اپنے تجزیوں میں مولویوں پر برسنے کا ایک اچھا خاصا موقع ان کے ہاتھ سے نکل گیا اور پھر اس وقت تو ان کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب انہیں پتہ چلا کہ ناموس رسالت پر مرمٹنے والے تو مہذب ،ترقی یافتہ، تعلیم یافتہ یورپ میں بھی ایک دو نہیں درجنوں کے حساب سے موجود ہیں ۔
یہ بے چارے تو اھل پاکستان کو یہ سمجھاتے سمجھاتے تھک گئے کہ سارا قصور مولویوں کا ہے ورنہ باقی تو ساری دنیا امن کی داعی ہے ۔بھارت جو ہماری سرحدوں پر بمباری کررہاہے تو وہ صرف مذاق ہے ۔یورپ جو توہین رسالت کا مرتکب ہو رہاہے تو شاہد یہ بھی علماء کی من گھڑت باتیں ہیں جو وہ دنیا بھر کے امن کو داؤپر لگانے کیلئے بنا رہے ہیں ۔باقی امریکہ ،وہ بھلا کبھی کوئی غلطی کرسکتا ہے ،ممکن ہی نہیں ۔ بہرحال پیرس واقعہ کے بعد ان کی حالت بہت قابل ترس ہے ۔ یہ عقل کے اندھے بھول گئے ہیں کہ ملاّمولوی اور مدرسہ تو صرف قرآن اور اسلام کے خادم ہیں ،اسلام کا محافظ تو رب العالمین جلّ شانہ ہے جو بڑی قدرت ،بڑی طاقت اور بڑی حکمت کا مالک ہے، وہ جب چاہتا ہے یورپ کے اندھیروں سے ہدایت کے ایسے چراغ روشن کردیتا ہے کہ عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں ۔وہ اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور ناموس کے تحفظ کے لئے وہاں سے لوگ پیدا کرتا ہے جہاں کسی کا تصور بھی نہیں گیاہوتا ۔
یہ ۲۰مارچ ۲۰۰۶کا واقعہ ہے …
جرمنی سے شائع ہونے والے ایک قدیم اخبار ’’ڈائیولٹ‘‘(Die Welt) کے مرکزی دفتر میں ایک نوجوان داخل ہوا اور بغیر رُکے ہوئے اخبار کے ایڈیٹر ’’ہینرک بروڈر‘‘ (Henryk Broder) کے کمرے کی طرف بڑھا، جہاں وہ شخص اپنے دفتری کاموں میںمشغول تھا۔ نوجوان کے عمارت میں داخل ہوتے ہی سیکورٹی اہلکار اس کی طرف لپکے اور اسے پکڑنے کی کوشش کی۔ لیکن نوجوان پورے رُعب اور اعتماد کے ساتھ دھاڑا اور انہیں للکارتے ہوئے کہا اگر انہوںنے اسے پکڑنے کی کوشش کی تو وہ اپنے جسم کے ساتھ بندھا ہوا بارود اڑا ڈالے گا اور وہ سب اس کے ساتھ موت کے گھاٹ اتر جائیں گے۔یہ بات سنتے ہی سیکورٹی اہلکار گھبرا کر پیچھے ہٹ گئے اور نوجوان بھاگتا ہوا ایڈیٹر کے کمرے میں داخل ہوگیا۔ پل بھر میں اس نے کپڑوں میں چھپایا ہوا ’’ہنٹر نائف‘‘نامی خاص شکاری خنجر نکالا اور ایڈیٹر کی گردن پر وار کرنے کو لپکا۔ مگر اس سے پہلے کہ وہ اپنے شکار کا کام تمام کرتا، دفتر کا دیگر عملہ جمع ہوگیا اور اس نے نوجوان کو قابو کرلیا۔ تاہم اتنا ضرور ہوا کہ اس دوران خنجر کا ایک وار ایڈیٹر کی گردن پر گہرا زخم کر چکا تھا۔ نوجوان نے ایڈیٹر پر مزید وار کرنے کیلئے اپنے آپ کو لوگوں کے چنگل سے چھڑانے کی بھرپور کوشش کی، لیکن وہ ایسا نہ کر سکا اور کچھ ہی دیر بعد اس کے ہاتھوں میں جرمن پولیس کے مسلح اہلکار ہتھکڑیاں ڈال رہے تھے۔
یہ نوجوان امتِ مسلمہ کا قابل فخر سپوت اور مایہ ناز فرزند غازی عامر چیمہ تھا اور وہ اخبار جس کے ایڈیٹر پر عامر چیمہ نے قاتلانہ حملہ کیا، ان ذرائع ابلاغ میں سے ایک تھا، جنہوںنے کائنات کی سب سے معزز و محترم ہستی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کا ارتکاب کیا یا اس ناپاک جسارت کی حمایت کی۔ عامر چیمہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں میں سے وہ ایک مردِ جری نکلا جس نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت پر حملہ آور ہونے والوں کو ختم کر ڈالنے کا عزم کیا… یہ سوچے بغیر کہ خود اس کا اپنا انجام کیا ہوگا؟
جرمن پولیس نے عامر چیمہ کو گرفتار کیا اور تین دن بعد جب اس مردِ جری کو عدالت میں پیش کیا گیا تو یورپ کے دل میں خنجر پیوست کرنے والے گوروں کے اس ’’مجرم‘‘ کے ساتھ ساتھ عدالت کے رُوبرو اس کا وہ تحریری بیان بھی پیش کیا گیا، جس میں اس نے کہا تھا کہ:
’’میں اقرار کرتا ہوں کہ میں نے اخبار ’’ڈائیولٹ‘‘ کے ایڈیٹر ’’ہینرک بروڈر‘‘ پر قاتلانہ حملہ کیا۔ یہ شخص ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کا ذمہ دار تھا اور اگر مجھے آئندہ موقع ملا تو میں ایسے ہر شخص کو قتل کر ڈالوں گا۔‘‘
اسی طرح مظفر علی شمسی صاحب کی روایت ہے :
تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء میں ایک عورت اپنے بیٹے کی بارات لے کر دہلی دروازہ کی جانب آرہی تھی، سامنے سے تڑ تڑ کی آواز آئی، معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کیلئے لوگ سینہ تانے بٹن کھول کر گولیاں کھا رہے ہیں تو بارات کو معذرت کرکے رخصت کردیا۔ بیٹے کو بلا کر کہا کہ بیٹا آج کے دن کیلئے میں نے تمہیں جنا تھا۔ جائوآقا صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت پر قربان ہو کر دودھ بخشوا جائو۔ میں تمہاری شادی اس دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں کروں گی اور تمہاری بارات میں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کو مدعو کروں گی۔ جائو پروانہ وار شہید ہو جائوتاکہ میں فخر کرسکوں کہ میں بھی شہید کی ماں ہوں۔ بیٹا ایسا سعادت مند تھا کہ تحریک میں ماں کے حکم پر آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کیلئے شہید ہوگیا۔ جب لاش لائی گئی تو گولی کا کوئی نشان پشت پر نہ تھا۔ سب سینہ پر گولیاں کھائیں۔ فرحمۃ اﷲ رحمۃ واسعۃً
یورپ کی سرزمین سے ہمارے سامنے آنے والے یہ تمام واقعات بتارہے ہیں کہ اصل مسئلہ اسلام نہیں ،اسلام دشمنی ہے ،اصل مجرم مسلمان نہیں ،مسلمان کے ساتھ غیر منصفانہ اور بے رحمانہ سلوک کرنے والے درندے ہیں ۔دنیا کا امن داؤپر لگا نے والے اھل توحید نہیں ،انتہاء پسند صلیبی دہشت گرد ہیں ۔ نفرتوں کے بیج بونے والے مدارس اور ملاّنہیں ،گستاخ رسول صحافی ،کا رٹونسٹ اور ان کی حمایت کرنے والے ہیں ۔
باقی مسلمان جب تک اس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان باقی ہے ،تو وہ خواہ یورپ کا ہو یا افریقہ کا ، ایشیا کا ہو یا امریکہ کا ، اس کا جذبہ اور نظریہ یہی ہوتا ہے … ؎
میرے نبی سے میرا رشتہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے
لب پہ نعت نبی کا نغمہ ،کل بھی تھا اور آج بھی ہے
اور کسی جانب کیوں جائیں ؟اور کسی کو کیوں دیکھیں ؟
اپنا سب کچھ گنبد خضرائ، کل بھی تھا اور آج بھی ہے
پست وہ کیسے ہوسکتا ہے ،جس کو حق نے بلند کیا
دونوںجہاں میں ان کا چرچا کل بھی تھا اور آج بھی ہے
یورپ کے ’’ بھنگی،،مظاہرے کر کے مسلمانو ں سے یہ مطالبہ منوانا چاہتے ہیں کہ جس طرح ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مریم علیہا السلام کے بارے میں بے غیرت ہوچکے ہیں اور کوئی ان کو کچھ بھی کہتا رہے ،ہمیں کوئی تکلیف نہیں ہوتی ،اسی طرح مسلمان بھی اپنے پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے بے حس بن جائیں لیکن اس بارے میں تمام مسلمانوں کا متفقہ جواب یہی ہے کہ یہ ناممکن ہے ،کیو ں ؟اس لئے کہ …
نماز اچھی ،حج اچھا ،روزہ اچھا اور ،زکوٰۃ اچھی
مگر میں باوجود اس کے مسلمان ہو نہیں سکتا
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجۂ بطحائﷺ کی حرمت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
جی ہاں !یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب تک کعب بن اشرف کی ذریت پیدا ہوتی رہے گی ،محمد بن مسلمہ ؓ کے روحانی فرزند بھی جنم لیتے رہیں گے اور ہر دور میں کوئی نہ کوئی غازی علم دین اٹھ کر گنبدخضراء کی طرف بھونکنے واے کتوں کو جہنم واصل کرتا رہے گا ۔انشاء اللہ تعالیٰ
٭…٭…٭
مذمت ‘ لیکن کس کی؟
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 478)
۷؍ جنوری ۲۰۱۵ء کو فرانس کے دارالحکومت پیرس کے مضافات میں واقع ہفت روزہ ’’ شارلی ہیبڈو ‘‘ کے صدر دفتر پر دو بھائیوں سعید اور شریف ( اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرمائے) نے اُس وقت حملہ کر دیا ‘ جب رسالے کا مدیر اپنے عملے ساتھ اجلاس میں مصروف تھا ۔ اس حملہ میں ایک درجن سے زائد افراد مارے گئے جن میں وہ تین ملعون کارٹونسٹ بھی تھے ‘ جنہوں نے توہین رسالت پرمبنی خاکے بنائے تھے ۔
اس واقعہ کے بعد پورے یورپ میں غم و غصے کی ایک لہر دوڑ گئی اور دس لاکھ سے زائد افراد نے ’’یونٹی مارچ‘‘ کے ذریعے مارے جانے والوں کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کیا ۔ ان مظاہرین میں دنیا کے ساٹھ ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی ‘ جن میں مسلمانوں کا قاتل‘ غزہ میں انسانی جرائم کا مرتکب اسرائیلی وزیراعظم بھی شامل تھا۔
آج کل دنیا بھر سے مذمت کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا ہے اور اب تک یہ زبانی جمع خرچ جاری ہے ۔ ہم بھی اس موقع پرمذمت کرتے ہیں‘ مذمت ہی نہیں ’’چار حرف‘‘ بھیجتے ہیں لیکن کس پر اور کیوں؟
اس کو سمجھنے کیلئے آپ کو پہلے یورپ کا منافقانہ رویہ دیکھنا ہو گا ۔ پیرس میں پیش آنے والا واقعہ کا ایک مخصوص پسِ منظر ہے ‘ جسے ہم کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کر سکتے ۔ اس رسالے نے ۶؍ فروری ۲۰۰۶ء کو ڈنمارک کیاخبار میں شائع شدہ ‘ محسن انسانیت پیغمبر ِ اسلام سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ۔ ہماری جان آپ پر قربان۔ کے توہین آمیز خاکے شائع کیے تھے ، جس سے د نیا بھر کے ایک ارب سے زائد مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی تھی ۔ پھر یہ ہی نہیں ، یہ منحوس ہفت روزہ تسلسل سے ان خاکوں کو آزادیٔ صحافت کے نام پر شائع کرتا رہا ہے اور اس بارے میں اس کے مدیر نے کسی تنبیہ ‘ دھمکی یا سنجیدہ نصیحت کو خاطر میں نہیں لایا ۔ بلکہ اُس وقت ڈنمارک میں تعینات اسلامی ممالک کے سفیروں نے جب وہاں کے حکومتی سربراہ کو ملاقات کی درخواست دی تو اس نے بڑے تکبر اور رعونت سے ملنے سے انکار کر دیا ۔صرف یہ مسئلہ ایک دو یورپی ممالک کا نہیں بلکہ یورپی یونین کی طرف سے یہ انتبا ہ جاری کیا گیا کہ اگر اس مسئلہ پر ڈنمارک کی اشیاء درآمد کرنے پر پابندی عائد کی گئی تو پوری یورپی یونین اس ملک کا بائیکاٹ کرے گی ۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ بالواسطہ توہین رسالت کی حمایت میں ہی کیا گیا ۔
بہت سے مسلمان ‘ جنہیں شاید نام نہاد مسلمان کہا جائے تو زیادہ درست ہو گا ، وہ بھی اس موقع پر ’’آزادیٔ صحافت ‘‘ اور ’’آزادیٔ اظہار رائے‘‘ کے حوالے دینا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے آپ کو توہین رسالت کے مسئلہ پر غیر جانبدار ثابت کرنے کے لیے عجیب و غریب بے ڈھنگی باتیں بناتے ہیں‘ حالانکہ … ؎
نماز اچھی، حج اچھا، روزہ اچھا اور زکوٰۃ اچھی
مگر میں باوجود اس کے مسلماں ہو نہیں سکتا
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ بطحا اکی حرمت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
سوچنے کی بات یہ ہے کہ یورپ سے در آمد شدہ یہ نعرے صرف مسلمانوں کا تعلق نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کمزور کرنے کیلئے استعمال ہوتے ہیں ۔ ورنہ خود یورپی دنیا والے یہودیوں کے خود ساختہ واقعات ’’ہولو کوسٹ‘‘ کے خلاف کسی بات کو سننے کیلئے تیار نہیں ۔ اگر کوئی صحافی اس بارے میں سوال اٹھائے تو اُسے باقاعدہ سزادی جاتی ہے ۔
کیا یہ خبر ان نام نہاد مسلمانوں کے علم میں نہیں کہ ابھی حال میں ہی فرانس کے ایک جریدے نے برطانیہ کے ولی عہد شہزادہ ولیم کی خلوت گاہ کی چند قابل اعتراض تصاویر جب شائع کیں تو ملکۂ برطانیہ کے دفتر سے اس پر سخت احتجاج کیا گیا اور فرانس کی ایک عدالت نے ’’آزادیٔ صحافت ‘‘ کی ہر دلیل کو مسترد کرتے ہوئے جریدے کے خلاف فیصلہ کردیا اور اس کی اشاعت معطل کر دی گئی ۔ کیا ان اسلام کے دعویداروں کے دل میں توہین رسالت سے اتنی چبھن ، تکلیف اور کڑھن بھی نہیں ہوتی ، جتنی برطانوی دفتر خارجہ کو شہزادہ ولیم کی قابلِ اعتراض تصاویر سے ہوئی ؟ تف ہے ایسے لوگوں کے دعویٔ ایمان اور نسبت ِ اسلام پر ۔
پھر منافقت کا ایک مزید اظہار دیکھیں کہ اسی فرانسیسی جریدے ’’ شارلی ہیبڈو ‘‘ میں لکھنے والی اسّی سالہ صحافی ’’موریس سائینٹ ‘‘ کو ۲۰۰۹ء میں ایک مضمون لکھنے پر برطرف کر دیا گیا تھا ۔ اس مضمون کا ایک معمولی سا حصہ یہودیوں کے خلاف تھا ، جریدے کے مدیر نے اس صحافی سے معافی کا مطالبہ کیا ، جسے اُس نے مسترد کر دیا اور بالآخر اسے اس جریدے سے نکال دیا گیا ۔
آج کی تازہ ترین خبر کے مطابق اب اسی منحوس جریدے نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے اگلے شمارے کے سرورق پر توہین آمیز خاکہ شائع کرے گا اور اس شمارے کی اشاعت ساٹھ ہزار کے بجائے تیس لاکھ کی تعداد میں کی جائے گی ۔ کیا یہ سرا سر فتنہ انگیز ی نہیں اور کیا مغربی دنیا یہ سمجھتی ہے کہ وہ ایک ارب سے زائد مسلمانوں کی دل آزاری کر کے آرام اور سکون کا سانس لے سکے گی ۔
’’ ایں خیال است و محال است و جنوں ‘‘
اسلام مشرق و مغرب اور شمال و جنوب کی تفریق کا قائل نہیں۔ اُس کی نظر میں گورے اور کالے، عرب اور عجم سب کا یکساں مقام ہے۔ عزت اور سرفرازی صرف تقویٰ اختیار کرنے والوں کیلئے ہے۔ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ جیسے مغرب کی سمت سورج بھی جا کر بے نور ہو جاتا ہے ویسے ہی دورِ حاضر میںوہاں کے باشندگان بھی اپنی اسلام دشمنی اور کور باطنی کی وجہ سے ظلمت ِ شب کو بھی شرما رہے ہیں۔
عجیب بات ہے کہ یورپ نے بارہا اپنے چہرے سے انسانی حقوق اور لبرل ازم کا ماسک اُتارا تاکہ دنیا بھر کے مسلمان اُس کی حقیقت سے واقف ہو جائیں لیکن افسوس کہ ’’شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں‘‘ نے پھر بھی اُسے پہچاننے میں غلطی کی۔ متحدہ ہندوستان میں انگریزی اقتدار کی چیرہ دستیاں ہوں یا عصرِ حاضر میںانسانیت کُشی کا سب سے منظم منصوبہ گوانٹاناموبے، ہر ایک کے پیچھے انہی کے ہاتھ کارفرما ہیں جن کی خوبیاں گنواتے ہم نہیں تھکتے۔
گزشتہ ایک صدی سے زائد کے طویل عرصے میںمغرب نے انسانیت کے خلاف جو جرائم کئے ہیں اُن کی فہرست بہت طویل ہے اور شاید ایک ضخیم کتاب بھی اس کیلئے ناکافی ہو۔ لیکن ان تمام شیطانی حربوں میں سب سے گھنائونا، ناقابل برداشت اور ناقابل معافی جرم حالیہ دنوں میں سید البشر، امام الانبیاء فخر دو عالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے بارے میں توہین آمیز اسکیچز کی اشاعت ہے۔ ۲۰۰۶ء میں اس فعلِ بد کا آغاز یورپی ملک ڈنمارک سے ہوا، بعد ازاں ناروے، سویڈن اور اسپین بھی اس میں ملوث ہوگئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورا یورپ پہلو بہ پہلو اِن دلخراش واقعات میں شریک ہوگیا۔
یہ قابل گردن زنی جرم اتناشدید اور المناک ہے کہ اس کیلئے مذمت کے تمام الفاظ کم معلوم ہوتے ہیں، اگر اسلام نے ایسے مواقع پر سزا کے بجائے گالی کے بدلے گالی کا قانون بنایا ہوتا تو ہم بھی ’’جواب آں غزل‘‘ کے طور پر بہت کچھ لکھ سکتے تھے لیکن اتنا کہے بغیر تو پھر بھی چارہ کار نہیں کہ یہ بدترین انسانوں کا بدترین فعل ہے اور اس کے ذریعے انہوںنے محض اپنے خبثِ باطن کا مظاہرہ کیا ہے۔ بھلا وہ معاشرہ جس نے انسانیت کو فراموش کردیا ہو، جن کے یہاں ماں، بہن اور بیوی میں فرق مٹ چکا ہو، جن کے ہاں ساٹھ فیصد سے زائد آبادی اپنے اپنے باپ کی تلاش میں سرگرداں ہو، جن کے شہروں میں دنیا کی بدترین جرائم گاہیں قائم ہوں، جو خنزیر کھا کھا کر اُسی کی طرح بے غیرت ہوچکے ہوں، جو امّ الخبائث (شراب) پی پی کر خباثت اور غلاظت کی گٹھڑی بن چکے ہوں اور جن کے ہاں شرافت ناموس اور غیرت جیسے الفاظ ڈکشنریوں سے نکال دئیے گئے ہوں اُن کی طرف سے چاند پر تھوکنا، چاند کو کیا نقصان دے سکتا ہے۔
مغربی دنیا اور اُس کے کاسہ لیس ہر موقع پر عالم اسلام کو یہ باور کرواتے آئے ہیں کہ وہ عالمی امن کے دعویدار بلکہ ٹھیکیدار ہیں اور ان کے تمام مخالفین بالخصوص مسلمانوں کی جہادی تحریکیں عالمی امن کے دشمن ہیں لیکن موجودہ صورتحال میں یہ جھوٹ بھی اپنی موت آپ مرچکا ہے کیونکہ یورپ یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ ایک مسلمان کتنا ہی گنہگار اور تباہ حال کیوں نہ ہو وہ اپنے آقا و مولیٰ حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن اقدس کی طرف بڑھا ہوا ہاتھ اور اُٹھی ہوئی آنکھ برداشت نہیں کر سکتا۔ ایک مسلمان جتنا بھی بے بس اور بس کس ہو وہ عالم تصور میں ہی سہی اس اُدھار کو چکانے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔مغربی دنیا کے لیڈرز آج بتائیں کہ جب ان کی عوام لاکھوں مسلمانوں کے دل کی دھڑکنوں سے باخبر ہوتے ہوئے بھی یہ گھنائونا جرم کرتے ہوئے نہیں ہچکچاتی اور وہ خود ان مجرموں کی مکمل پشت پناہی کرتے ہیں تو عالمی امن کی ضمانت آخر کیوں اور کیسے دی جا سکتی ہے؟
مغربی دنیا کی طرف سے اس موقع پر آزادیٔ اظہار رائے کا حوالہ دینا درحقیقت اپنی حماقت کا بھرپور ثبوت فراہم کرنے کے مترادف ہے، اگر آپ اسی آزادیٔ اظہار رائے کے تحت کسی کے باپ یا بزرگ کو گالی نہیں دے سکتے، کسی شریف آدمی پر کیچڑ نہیں اُچھال سکتے اور کسی شخص کے جذبات کو مجروح نہیں کر سکتے تو پھر مسلمانوں کے عظیم پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرکے لاکھوں انسانوں کے جذبات مجروح کرنے کی ناپاک جسارت کو کیسے درست کہا جا سکتا ہے۔ لیکن مسلمانوں کے خلاف یورپ کا نسلی اور مذہبی تعصب انہیں یہ سب حقائق بھلا دیتا ہے۔
تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا باب کسی قلم کی سیاہی سے نہیں لکھا جاسکتا، اس داستان کو رقم کرنے کا اعزاز تو ڈیڑھ ہزار برس سے غازیوںاور شہیدوں کے مقدس لہو کی سرخی ہی کو حاصل ہے اور یقینا جب تک اس دھرتی پر ایک بھی کلمہ گو باقی ہے وہ پوری ہمت، شجاعت اور دلیری کے ساتھ اپنے پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کا تحفظ کرتا رہے گا، ہم تو صرف مسلمانوں کو قرآن مجید کی وہ آیت یاد دلانا چاہ رہے ہیں جومغربی دنیا کے اصل مقصد اور دلی خواہش کو بے نقاب کررہی ہے:
’’اکثر اہل ِ کتاب تو اپنے حسد کی وجہ سے حق ظاہر ہونے کے بعد بھی یہ چاہتے ہیںکہ کسی طرح سے تمہیں ایمان لانے کے بعد پھر کفر کی طرف لوٹا کر لے جائیں۔‘‘(البقرۃ:۱۰۹)
اقبال مرحوم کے الفاظ میں :
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمد ا اس کے بدن سے نکال دو!
مسلمانوں کو ان کے دین سے برگشتہ کرنا یہی مغربی دنیا کا وہ اساسی اور بنیادی مقصد ہے جس کے لئے وہ ہر قسم کی سیاسی، اقتصادی، سماجی اور عسکری کوششیں کررہے ہیں اس لئے ناموسِ مصطفی ا کے تحفظ کا عمومی راستہ یہی ہے کہ مسلمان عملی طور پر دامنِ مصطفی ﷺ سے وابستہ ہو جائیں اور دشمنانِ رسول کی ہر عادت اور ہر نشانی کا بائیکاٹ کردیں خواہ وہ اُن کی مصنوعات ہوں، اُن کی شکل و صورت ہو یا اُن کی تہذیب و تمدن کا کوئی حصہ۔
جی ہاں! ہم بھی مذمت کرتے ہیں لیکن صرف اُن ملعون اور بد بخت لوگوں کی جو ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کر کے اپنی ذلت اور رسوائی کا سامان ہی نہیں جمع کر رہے بلکہ اپنے آپ کو انسانیت سے بھی گرا ہوا ثابت کر رہے ہیں ۔ اسی طرح اُن نام نہاد مسلمانوں کی جو کلمہ تو پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیﷺکے نام کا پڑھتے ہیں لیکن اُن کے نزدیک توہینِ رسالت کا مسئلہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا ‘ حالانکہ یہ وہ مسئلہ ہے جس پر کوئی مسلمان غیر جانبدار نہیں رہ سکتا۔
اللہ تعالیٰ ہر دور کے شہدائِ ناموس رسالت کو پوری امت ِ مسلمہ کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے کہ یہی وہ لوگ ہیں جو زندگی کی بازی ہار کر عشق کی بازی جیت گئے۔
٭…٭…٭
آج کے سوالات اور ہمارا طرزِ عمل
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 477)
آج بہت سے سوالات ‘ دل و دماغ کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں ۔ مثلاً فوجی عدالتیں کیوں ناگزیر ہیں ؟ کیا موجودہ سول عدلیہ اتنی نا اھل ‘ نکمی اور بے کار ہے کہ وہ اس وقت ملک کے سب سے اہم ترین مسئلہ ’’دہشت گردی‘‘ سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتی یا خدانخواستہ کچھ طاقتیں ‘ پاکستان میں بھی مصر اور ترکی کے واقعات اور حالات پیدا کرنا چاہتی ہیں ۔
پھر اگر جمہوریت کے دعویداروں کیلئے ، فوجی عدالتوں کا قیام ہی تمام مسائل کا حل ہے تو ان عدالتوں کا دائرہ کار تجویز کرتے وقت کس شیطانی ذہنیت سے ‘ ان کا شکنجہ صرف مذہبی طبقے پر ہی کسا گیا ہے ۔ کون نہیں جانتا کہ بلوچستان اور کراچی میں سالہا سال سے بدامنی اور قتل و غارت گری کا راج ہے ۔ سینکڑوں نہیں‘ ہزاروں انسان لسانیت ‘ قومیت اور رنگ و نسل کے نام پر قتل ہو چکے ہیں ۔ لیکن ان کے قاتلوں کو اس ’’نئے انتظام ‘‘ سے بچانے کیلئے بڑی ڈھٹائی سے کچھ سیاستدان سر گرمِ عمل ہیں ۔
آئینی ترمیم کے مسودہ میں مذہب ‘ فرقہ اور مدارس کا تذکرہ صاف بتا رہا ہے کہ ہدف تبدیل ہو رہا ہے ۔ مسئلہ دہشت گردی کے بجائے کچھ اور ہے ۔ داڑھی ، پگڑی ، ٹوپی ، مدرسہ ، مسجد اور ان سے وابستہ تمام افراد کو صاف نظر آرہا ہے :
ہوائوں کا رخ بتا رہا ہے ‘ ضرور کوئی طوفان آرہا ہے
نگاہ رکھنا سفینے والو ‘ موجیں اٹھتی ہیں کس جانب سے پہلے
وہ طلبہ جن کے ہاتھ پاکستان کے اندر ہر قسم کی بدامنی اور دہشت گردی سے پاک ہیں‘ وہ ادارے جو پاکستان سے محبت کا درس اپنے طلبہ کو گھول گھول کر پلاتے ہیں ‘ وہ علماء جو پاکستان کو مسجد کی طرح مقدس سمجھتے ہیں اور وہ مجاہدین جو ہر مشکل لمحہ میں پاکستان کیلئے بے لوث محافظ کا کردار ادا کرتے رہے ہیں‘ ان طبقات کو مشکوک بنانے والی سول سوسائٹی کا اپنا کردار کیا ہے ؟ اور ان کی سازشوں کے ڈانڈے کہاں سے ملتے ہیں ؟
یہ ایسے آسان سوالات ہیں ‘ جن کا جواب پاکستان سے محبت رکھنے والا ہر مخلص مسلمان بخوبی جانتا ہے لیکن افسوس کہ ہمارے حکمران طبقات سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی آزمائش کا بازار گرم کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے حالات میں اہل ایمان کوصبر و استقامت کا سبق پھر یاد کرنا چاہیے اور اپنے اسلاف کی عظیم روایات کے مطابق دین کی اشاعت اور اس کے تحفظ کا فریضہ سر انجام دیتے رہنا چاہیے ۔ یہ حالات اہل ایمان کے لیے کوئی اجنبی نہیں ‘ اس دین کا تو آغاز ہی ایسے مشکل حالات سے ہوا تھا کہ آج اُن کو پڑھ کر اور سن کر بھی دانتوں کو پسینہ آجاتا ہے ۔
’’ حضرت ابو عبداللہ خباب بن اَرت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شکایت کی جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے سایہ میں ایک چادر کا تکیہ بنا کے ٹیک لگائے ہوئے تھے ۔ ہم نے عرض کیا ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کیوں نہیں فرماتے ۔ ہمارے لئے دعا کیوں نہیں فرماتے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم سے پہلے لوگوں کو زمین میں گڑھا کھود کر اس میں گاڑ دیا جاتا ۔ پھر آرالے کر اُس کے سر پر رکھ کر دو ٹکڑے کر دیا جاتا اور لوہے کی کنگھیوں سے اس کے گوشت اور ہڈیوں کے اوپر والے حصے کو چھیدا جاتا مگر یہ تمام تکالیف اس کو دین سے نہ روک سکتیں ۔ قسم بخدا! اللہ تعالیٰ اس دین کو ضرور غالب فرمائے گا یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء سے حضرموت تک اکیلا سفر کرے گا اور اسے اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہ ہو گا اور نہ بھیڑئیے کا ڈر ہو گا اپنی بکریوں پر ۔ لیکن تم جلدی سے کام لیتے ہو ‘‘۔(صحیح البخاری ‘ کتاب علامات النبوۃ ‘ باب ما لقی النبیﷺ واصحابہ من المشرکین بمکۃ)
اہل ِ ایمان کی تاریخ صبرو استقامت کے واقعات سے لبریز ہے اور خاص طور پر مندرجہ ذیل ایمان افروز واقعہ تو ایسا ہے کہ سخت سے سخت حالات میں بھی اس کے پڑھنے سے دل میں ایمان کی محبت اور اس کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کا جذبہ بیدار ہو جاتا ہے ۔ اسی لیے یہ مفصل واقعہ نذرِ قارئین ہے ۔
قرآنِ مجید تیسویں پارے کی سورۃ البروج میں یہ آیاتِ مبارکہ ہیں :
قتل اصحب الاخدودo النار ذات الوقودo اذہم علیہا قعودo وہم علی مایفعلون بالمؤمنین شہودo وما نقموا منہم الا ان یؤمنوا باﷲ العزیز الحمیدo
ترجمہ: ’’کہ خندق والے یعنی بہت سے ایندھن کی آگ والے ملعون ہوئے جس وقت وہ لوگ اس کے آس پاس بیٹھے ہوئے تھے اور وہ جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ کر رہے تھے، اس کو دیکھ رہے تھے اور ان کافروں نے ان مسلمانوں میں اور کوئی عیب نہیں پایا تھا سوائے اس کے کہ وہ خدا پر ایمان لے آئے تھے جو زبردست لائق حمدہے۔‘‘(البروج ۴تا ۸)
ان ’’خندق والوں‘‘ کا واقعہ تفصیل سے حدیث شریف کی کئی کتابوں میں منقول ہے۔ ہم صحیح مسلم کی روایت کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں،حضرت صہیب رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا:
تم سے پہلی (قوموں میں) ایک بادشاہ تھا، جس کے پاس ایک جادوگر تھا جب وہ جادوگر بوڑھا ہوگیا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں تو آپ میرے ساتھ ایک لڑکے کو بھیج دیں تاکہ میں اسے جادو سکھا دوں تو بادشاہ نے ایک لڑکا جادو سیکھنے کیلئے اس بوڑھے جادوگر کی طرف بھیج دیا۔ جب وہ لڑکا چلا تو اس کے راستے میں ایک راہب تھا تو وہ لڑکا اس راہب کے پاس بیٹھا اور اس کی باتیں سننے لگا جو کہ اسے پسند آئیں، پھر جب بھی وہ جادوگر کے پاس آتا اور راہب کے پاس سے گزرتا تو اس کے پاس بیٹھتا (اور اس کی باتیں سنتا) اور جب وہ لڑکا جادوگر کے پاس آتا تو وہ جادوگر (دیر سے آنے کی وجہ سے) اس لڑکے کو مارتا تو اس لڑکے نے اس کی شکایت راہب سے کی تو راہب نے کہا کہ اگر تجھے جادوگر سے ڈر ہو تو کہہ دیا کر کہ مجھے میرے گھر والوں نے (کسی کام کیلئے) روک لیا تھا اور جب تجھے گھر والوں سے ڈر ہو تو کہہ دیا کر کہ مجھے جادوگر نے روک لیا تھا۔
اسی دوران ایک بہت بڑے درندے نے لوگوں کا راستہ روک لیا۔ (جب لڑکا اس طرف آیا) تو اس نے کہا: میں آج جاننا چاہوں گا کہ جادوگر افضل ہے یا راہب افضل ہے؟ اور پھر اس لڑکے نے ایک پتھر پکڑا اور کہنے لگا: اے اﷲ! اگر تجھے جادو گر کے معاملہ سے راہب کا معاملہ زیادہ پسندیدہ ہے تو اس درندے کو ماردے تاکہ (یہاں راستہ سے) لوگوں کا آنا جانا شروع ہو اور پھر وہ پتھر اس درندے کو مار کر اسے قتل کردیا اور لوگ گزر گئے۔ پھر وہ لڑکا راہب کے پاس آیا اور اسے اس کی خبر دی تو راہب نے اس لڑکے سے کہا: اے میرے بیٹے! آج تو مجھ سے افضل ہے، کیونکہ تیرا معاملہ اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ جس کی وجہ سے تو عنقریب ایک مصیبت میں مبتلا کردیا جائے گا۔ پھر اگر تو(کسی مصیبت) میں مبتلا کردیا جائے تو کسی کو میرا نہ بتانا اور وہ لڑکا مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو صحیح کردیتا تھا۔ بلکہ لوگوں کی ساری بیماریوں کا علاج بھی کرتا تھا۔
بادشاہ کا ایک ہم نشین اندھا ہوگیا۔ اس نے لڑکے کے بارے میں سنا تو وہ بہت سے تحفے لے کر اس کے پاس آیا اور کہنے لگا: اگر تم مجھے شفا دے دو تو یہ سارے تحفے جو میں یہاں لے کر آیا ہوں وہ سارے تمہارے لیے ہیں۔ اس لڑکے نے کہا: میں تو کسی کو شفا نہیں دے سکتا بلکہ شفاء تو اﷲ تعالیٰ دیتا ہے۔ اگر تو اﷲ پر ایمان لے آئے تو میں اﷲ تعالیٰ سے دعا کروں گا کہ وہ تجھے شفا دے دے۔ پھر وہ (شخص) اﷲ پر ایمان لے آیا تو اﷲ تعالیٰ نے اسے شفا عطا فرمادی۔ پھر وہ آدمی (جسے شفا ہوئی) بادشاہ کے پاس آیا اور اس کے پاس بیٹھ گیا جس طرح کہ وہ پہلے بیٹھا کرتا تھا۔ بادشاہ نے اس سے کہا کہ کس نے تجھے تیری بینائی واپس لوٹادی؟ اس نے کہا: میرے رب نے۔ اس نے کہا: کیا میرے علاوہ تیرا اور کوئی رب بھی ہے؟ اس نے کہا: میر ا اور تیرا رب اﷲ ہے۔ پھر بادشاہ اس کو پکڑ کر اسے عذاب دینے لگا تو اس نے بادشاہ کو اس لڑکے کے بارے میں بتلادیا۔ (اس لڑکے کو بلایا گیا) پھر جب وہ لڑکا آیا تو بادشاہ نے اس لڑکے سے کہا کہ اے بیٹے! کیا تیرا جادو اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ اب تو مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو بھی صحیح کرنے لگ گیا ہے؟ اور ایسے ایسے کرتا ہے؟ لڑکے نے کہا: میں تو کسی کو شفا نہیں دیتا، بلکہ شفا اﷲ تعالیٰ دیتاہے۔ بادشاہ نے اسے پکڑ کر عذاب دیا، یہاں تک کہ اس نے راہب کے بارے میں بادشاہ کو بتادیا (پھر راہب کو بلوایا گیا) راہب آیا تو اس سے کہا گیا کہ اپنے مذہب سے پھر جا۔ راہب نے انکار کردیا۔ پھر بادشاہ نے آرا منگوایا اور اس راہب کے سر پر رکھ کر اس کا سر چیر کر اس کے دو ٹکڑے کردیے۔ پھر بادشاہ کے ہم نشین کو بلایا گیا اور اس سے بھی کہا گیا کہ تو اپنے مذہب سے پھر جا، اس نے بھی انکار کردیا۔ بادشاہ نے اس کے سر پر بھی آرا رکھ کر سر کو چیر کر اس کے دو ٹکڑے کروادئیے۔
(پھر اس لڑکے کو بلایا گیا) وہ آیا تو اس سے بھی یہی کہا گیا کہ اپنے مذہب سے پھر جا۔ اس نے بھی انکار کردیا۔ تو بادشاہ نے اس لڑکے کو اپنے کچھ ساتھیوں کے حوالے کرکے کہا: اسے فلاں پہاڑ پر لے جاؤ اور اسے اس پہاڑ کی چوٹی پر چڑھاؤ۔ اگر یہ اپنے مذہب سے پھر جائے تو اسے چھوڑ دینا اور اگر انکار کردے تو اسے پہاڑ کی چوٹی سے نیچے پھینک دینا۔ چنانچہ بادشاہ کے ساتھی اس لڑکے کو پہاڑ کی چوٹی پر لے گئے تو اس لڑکے نے کہا: اے اﷲ! تو مجھے ان سے کافی ہے۔ (جس طرح چاہے مجھے ان سے بچالے) اس پہاڑ کی چوٹی پر فوراً ایک زلزلہ آیا۔ جس سے بادشاہ کے وہ سارے ساتھی گر گئے اور وہ لڑکا چلتے ہوئے بادشاہ کی طرف آگیا۔ بادشاہ نے اس لڑکے سے پوچھا کہ تیرے ساتھیوں کا کیا ہوا؟ لڑکے نے کہا: اﷲ پاک نے مجھے ان سے بچالیاہے۔
بادشاہ نے پھر اس لڑکے کو اپنے کچھ ساتھیوں کے حوالے کرکے کہا: اسے ایک چھوٹی کشتی میں لے جا کر سمندر کے درمیان پھینک دینا اگر یہ اپنے مذہب سے نہ پھرے۔ بادشاہ کے ساتھی اس لڑکے کو لے گئے تو اس لڑکے نے کہا: اے اﷲ! تو جس طرح چاہے مجھے ان سے بچالے۔ پھر وہ کشتی بادشاہ کے ان ساتھیوں سمیت الٹ گئی اور وہ سارے کے سارے غرق ہوگئے اور لڑکا چلتے ہوئے بادشاہ کی طرف آگیا۔ بادشاہ نے اس لڑکے سے کہا: تیرے ساتھیوں کا کیا ہوا؟ اس نے کہا: اﷲ تعالیٰ نے مجھے ان سے بچالیا۔ پھر اس لڑکے نے بادشاہ سے کہا: تو مجھے قتل نہیں کرسکتا، جب تک اس طرح نہ کرے جس طرح کہ میں تجھے حکم دوں۔ بادشاہ نے کہا : وہ کیا؟ اس لڑکے نے کہا: سارے لوگوں کو ایک میدان میں اکٹھا کرو اور مجھے سولی کے تختے پر لٹکاؤ۔ پھر میرے ترکش سے ایک تیر کو پکڑو، پھر اس تیر کو کمان کے چلہ پر رکھو اور پھر کہو: اس اﷲ کے نام سے جو اس لڑکے کا رب ہے، پھر مجھے تیر مارو، اگر تم اس طرح کرو تو مجھے قتل کرسکتے ہو؟
پھر بادشاہ نے لوگوں کو ایک میدان میں اکٹھا کیا اور پھر اس لڑکے کو سولی کے تختے پر لٹکادیا۔ پھر اسکے ترکش میں سے ایک تیر لیا، پھر اس تیر کو کمان کے چلہ پر رکھ کر کہا: اس اﷲ کے نام سے جو اس لڑکے کا رب ہے۔ پھر وہ تیر اس لڑکے کو مارا تو وہ تیر اس کے لڑکے کے کنپٹی میں جاگھسا تو لڑکے نے اپنا ہاتھ تیر لگنے والی جگہ پر رکھا اور مرگیا تو سب لوگوں نے کہا: ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے، ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے، ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے۔ بادشاہ کو اس کی خبر دی گئی اور اس سے کہا گیا: تجھے جس بات کا ڈر تھا اب وہی بات آن پہنچی کہ لوگ ایمان لے آئے۔
تو پھر بادشاہ نے گلیوں کے دھانوں پر خندقیں کھودنے کا حکم دیا۔ پھر خندقیں کھودی گئیں اور ان خندقوں میں آگ جلادی گئی۔ بادشاہ نے کہا:
جو شخص اپنے دین سے واپس بادشاہ کے مذہب کی طرف لوٹ کر نہ آئے اس کو آگ میں ڈال دو یا ان سے کہا گیا کہ آگ میں داخل ہوجاؤ تو ان لوگوں نے اپنے آپ کو آگ میں ڈال دیا۔ (یا بادشاہ کے لوگوں نے ان لوگوں کو خندق میں ڈال دیا)۔ یہاں تک کہ ایک عورت آئی اور اس کے ساتھ ایک بچہ بھی تھا۔ وہ عورت خندق میں گرنے سے گھبرائی تو اس عورت کے بچے نے کہا: اے امی جان! صبر کر، کیونکہ تو حق پر ہے‘‘۔ (صحیح المسلم ،کتاب الزھد والرقاق ، باب قصۃ اصحاب الاخدود والراھب والغلام )
اللہ تعالیٰ پاکستان کو ہر قسم کے فتنوں سے محفوظ فرمائے اور تمام اہلِ پاکستان کو امن ‘ سلامتی اور عافیت سے نوازے (آمین )۔
٭…٭…٭
آپ کو بھی مبارک ہو !
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 476)
فتح و شکست ‘ عزت و ذلت اور عروج و زوال ‘ ایک سچا مسلمان ان میں سے کسی کا غلام نہیں ہوتا کیونکہ اُس کے پیش نظر تو ہر وقت اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہوتا ہے :
ولا تھنوا ولا تحز نوا وانتم الاعلون ان کنتم مؤمنین (اٰل ِ عمران ۱۳۹)
( تم نہ تو کمزور پڑو اور نہ غمگین رہو ۔ اگر تم واقعی مؤمن رہو تو تم ہی سر بلند ہو گے )
یہ ایک آیت ِ کریمہ مسلمانوں کو ایک ایسا ٹھوس اور فولادی نظریہ عطا کرتی ہے کہ پھر اُس کی زندگی ‘ جس حال میں بھی گزرے ‘ اُس کا مقصد صرف ایمان پر استقامت اور اللہ کے دین کی سر بلندی ہوتی ہے ۔ وہ بزبانِ حال یہی کہتا ہے:
میری زندگی کا مقصد ‘ تیرے دین کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں ‘ میں اسی لیے نمازی
ہاں ! لیکن یہ فطرت بھی اللہ تعالیٰ نے ہی بنائی ہے کہ مسلمان فتوحات پر خوش ہوتا ہے اور اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے اسی لیے فتح اور نصرت کی کتنی ہی دعائیں خود پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔ خاص طور پر جب وہ فتح ظاہری اسباب ‘ مادی وسائل اور ’’زمینی حقائق ‘‘ کے برعکس صرف ’’ آسمانی حقائق‘‘ پر مبنی ہو تو اہل ِ ایمان کی خوشی دوبالا ہو جاتی ہے ۔
ہمارے پڑوس میں صلیبی افواج تیرہ سال کے ذلت آمیز ‘ رسوا کن اور عبرتناک زخم لے کر رخصت ہو رہی ہیں اور وہ فقیرانِ خدا مست کہ اس جنگ کے آغاز میں چند اللہ والوں کے سوا ( اور مجھے کہنے دیجئے کہ جن میں سرِ فہرست صاحب ِ عزیمت و استقامت مولانا محمد مسعود ازہر حفظہ اللہ تعالیٰ تھے )کوئی اور دانشوران کی ایسی بے مثال تاریخی کامیابی کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا ‘ آج ملت اسلامیہ کے سامنے سرخرو ہو رہے ہیں تو ایسے حالات میں قرآن مجید کے اس ادنیٰ طالب علم کی زبان پر بلا اختیار یہ آیات ِ مبارکہ جاری ہو جاتی ہیں اور ایک وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے :
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الم غلبت الروم فی ادنی الارض وھم من بعد غلبھم سیغلبون فی بضع سنین للہ الامرمن قبل و من بعد ویومئذ یفرح المومنون بنصر اللہ ینصر من یشاء وھو العزیز الرحیم وعداللہ لا یخلف اللہ وعدہ‘ ولکن اکثر الناس لا یعلمون
ترجمہ : ’’الٓم … رومی لوگ قریب کی سر زمین میں مغلوب ہو گئے ہیں اور وہ اپنے مغلوب ہونے کے بعد چند سالوں میں غالب آجائیں گے ۔ سارا اختیار اللہ کا ہی ہے ‘ پہلے بھی اور بعد میں بھی ۔ اور اُس دن ایمان والے اللہ کی دی ہوئی فتح سے خوش ہوں گے ۔ وہ جس کو چاہتا ہے فتح دیتا ہے اور وہی صاحب ِ اقتدار بھی ہے ‘ بڑا مہربان بھی ۔ یہ اللہ کا کیا ہوا وعدہ ہے ‘ اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔‘‘( الروم : ۱تا ۶)
ان آیات ِ کریمہ کا پس ِ منظر پڑھیں تو خدائی وعدوں کی صداقت پر دل عش عش کر اٹھتا ہے ۔ یوں لگتا ہے جیسے زمانے نے اپنی طنابیں کھینچ دی ہیں ‘ حالات اور واقعات سمٹ کر ایک جیسے ہو گئے ہیں ‘ صرف کرداروں اور میدانوں کا فرق حائل ہے اور بار بار کانوں میں یہ آواز گونج رہی ہے :
’’ وعد اللّٰہ لا یخلف اللّٰہ وعدہ ولکن اکثر الناس لا یعلمون ‘‘
حالات اور واقعات تو آپ اخبارات میں پڑھ ہی لیں گے ۔ آئیں ! کچھ دیر قرآن مجید کی اس عظیم الشان پیشین گوئی سے اپنے دل و دماغ کو منور کریں ۔
ان آیات ِ مبارکہ کا ایک خاص تاریخی منظر نامہ ہے‘ جسے پڑھ کر آج بھی انسان کا دل ‘ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کی عظمت سے لبریز ہو جاتا ہے اور وہ ان کی صداقت کا معترف ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔
جس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت عطاہوئی ، اُس وقت دنیا میں دو بڑی طاقتیں تھیں ، ایک ایران کی حکومت جو مشرق کے علاقے میں پھیلی ہوئی تھی ، اور اُس کے ہر بادشاہ کو ’’کسریٰ ‘‘ کہا جاتا تھا ، یہ لوگ آتش پرست تھے ، یعنی آگ کو پوجتے تھے ۔ دوسری بڑی طاقت روم کی تھی جو مکہ مکرمہ کے شمال اور مغرب میں پھیلی ہوئی تھی ۔ شام ، مصر ، ایشیائے کو چک اور یورپ کے علاقے اسی سلطنت کے ماتحت تھے ، اور اس کے ہر بادشاہ کو ’’قیصر ‘‘ کہا جاتا تھا ، اور ان کی اکثریت عیسائی مذہب پر تھی ۔
جس زمانے میں یہ سورت نازل ہوئی ہے ، اُس وقت ان دونوں طاقتوں کے درمیان شدید جنگ ہو رہی تھی ، اور اس جنگ میں ایران کا پلہ ہر لحاظ سے بھاری تھا ، اور اُس کی فوجوں نے ہر محاذ پر روم کی فوجوں کو شکست دے کر اُن کے بڑے بڑے شہر فتح کر لئے تھے ، یہاں تک کہ وہ بیت المقدس میں عیسائیوں کا مقدس ترین کلیسا تباہ کر کے رومیوں کو مسلسل پیچھے دھکیلتی جارہی تھیں ، اور روم کے بادشاہ ہرقل کو جائے پناہ تلاش کرنا مشکل ہو رہا تھا ۔ ایران کی حکومت چونکہ آتش پرست تھی ، اس لئے مکہ مکرمہ کے بت پرستوں کی ہمدردیاں اُس کے ساتھ تھیں ، اور جب کبھی ایران کی کسی فتح کی خبر آتی تو مکہ مکرمہ کے بت پرست اُس پر نہ صرف خوشی مناتے ، بلکہ مسلمانوں کو چڑاتے کہ عیسائی لوگ جو آسمانی کتاب پر ایمان رکھتے ہیں ، مسلسل شکست کھاتے جا رہے ہیں اور ایران کے لوگ جو ہماری طرح کسی پیغمبر یا آسمانی کتاب کو نہیں مانتے ، اُنہیں برابر فتح نصیب ہو رہی ہے ۔
اس موقع پر یہ سورت نازل ہوئی ، اور اُس کے بالکل شروع میں یہ پیشینگوئی کی گئی کہ روم کے لوگ اگرچہ اس وقت شکست کھا گئے ہیں ، لیکن چند سالوں میں وہ فتح حاصل کر کے ایرانیوں پر غالب آجائیں گے ، اور اُس دن مسلمان اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے ۔ اس طرح اس سورت کے شروع میں بیک وقت دو پیشینگوئیاں کی گئیں ۔ ایک یہ کہ روم کے جو لوگ شکست کھا گئے ہیں ، وہ چند سالوں میں ایرانیوں پر غالب آجائیں گے ، اور دوسرے یہ کہ مسلمان جو اس وقت مکہ مکرمہ کے مشرکین کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکار ہیں ، اُس دن وہ بھی مشرکین پر فتح منائیں گے ۔ یہ دونوں پیشین گوئیاں اُس وقت کے ماحول میں اتنی بعید اَز قیاس تھیں کہ کوئی بھی شخص جو اُس وقت کے حالات سے واقف ہو ، ایسی پیشینگوئی نہیں کر سکتا تھا ۔ مسلمان اُس وقت جس طرح کافروں کے ظلم و ستم میں دبے اور پسے ہوئے تھے ، اُس کے پیش نظر بظاہر کوئی امکان نہیں تھا کہ وہ اپنی فتح کی خوشی منائیں ۔ دوسری طرف سلطنت ِ روما کا حال بھی یہ تھا کہ اُس کے ایرانیوں کے مقابلے میں ابھرنے کا دور دور کوئی اندازہ نہیں کیا جا سکتا تھا ۔
چنانچہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بھی ایرانیوں کی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا ، یہاں تک کہ وہ قیصر کے پایۂ تخت قسطنطنیہ کی دیواروں تک پہنچ گئے ، اور انہوں نے قیصر ہر قل کی طرف سے صلح کی ہر پیشکش کو ٹھکرا کر یہ جواب دیا کہ انہیں ہرقل کے سر کے سوا کوئی اور پیشکش منظور نہیں ہے ، جس کے نتیجے میں ہرقل تیونس کی طرف بھاگنے کا منصوبہ بنانے لگا ۔ لیکن اس کے فوراً بعد حالات نے عجیب و غریب پلٹا کھایا ، ہرقل نے مجبور ہو کر ایرانیوں پر عقب سے حملہ کیا جس میں اُسے ایسی کامیابی حاصل ہوئی جس نے جنگ کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیا ۔ اس پیشینگوئی کو ابھی سات سال گزرے تھے کہ رومیوں کی فتح کی خبر عرب تک پہنچ گئی ۔ جس وقت یہ خبر پہنچی ، یہ ٹھیک وہ وقت تھا جب بدر کے میدان میں سردارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش مکہ کے لشکر کو عبرتناک شکست دی تھی اور مسلمانوں کو اس فتح پر غیر معمولی خوشی حاصل ہوئی تھی۔ اس طرح قرآن کریم کی دونوں پیشینگوئیاں کھلی آنکھوں اس طرح پوری ہوئیں جن کا بظاہر حالات کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا ، اور اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن ِ کریم کی سچائی روزِ روشن کی طرح واضح ہو گئی ۔
مسلمانوں پر جو آزمائشیں آتی ہیں اور وہ وقتی طور پر شکست کھا جاتے ہیں تو اس کے پیچھے بھی اللہ تعالیٰ کی بے شمار مصلحتیں اور حکمتیں ہوتی ہیں ‘ جن کو ہم اپنی ناقص عقل سے نہیں سمجھ سکتے ۔ لیکن آج اتنا تو ہر انسان کو کھلی آنکھوں نظر آرہا ہے کہ تیرہ سال پہلے جب صلیبی افواج ہمارے پڑوس میں دندناتے ہوئے آئیں تھیں تو کتنے ہی لوگوں نے صرف طور طریقے اور عادات واطو ارہی نہیں‘ عقائد و نظریات تک بدل لیے تھے ۔ حالانکہ اقبال مرحوم تو پہلے ہی بتا چکے تھے :
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
اگر وہ جڑوں سے اکھیڑ دینے والی آزمائشوں کی آندھیاں نہ چلتیں ‘ حالات کی تندو تیز ہوائیں اپنا رخ تبدیل نہ کرتیں اور مقتل گاہیں عاشقانِ حق کی لاشوں سے نہ سجتیں تو آج ہمیں صلیبی افواج کی یہ ذلت اور رسوائی دیکھنا بھی نصیب نہ ہوتی ۔
صلیبی افواج نے جاتے جاتے اس صدی کا سب سے بڑا لطیفہ بھی ایجاد کر دیا ہے ۔ اخبارات لکھ رہے ہیں کہ ’’ نامعلوم مقام ‘‘ پر انہوں نے اپنا پرچم لپیٹا اور خوب ’’ جشن فتح ‘‘ منایا ۔ یہ جشن بھی خوب رہا کہ برسوں سے خود اس جنگ میں ناکامی کا اعتراف کرتے رہے ۔ سینکڑوں فوجی مردار کروائے ‘ ہزاروں جسمانی معذور کروائے ‘ بے شمار سورمائوں نے خود کشی کی اور لا تعداد ذہنی اعتبار سے مفلوج ہوئے ، کیا یہ ہی وہ فتح ہے ‘ جس کا یہ عالمی عیار اور مکار جشن منا رہے ہیں ۔ وہ بھی کہیں کھلے بندوں نہیں ‘ بلکہ چوہوں کی طرح بلوں میں چھپ کر ۔ شاید کہ ان کے ہاں فتح کا مطلب یہی ہے کہ :
جان بچی سو لاکھوں پائے
لوٹ کے بدھو گھر کو آئے
صلیبی افواج کو بھی ایسی ہی ’’ فتح ‘‘ ملی ہے کہ دنیا والوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ‘ جس کا وہ ’’جشن ‘‘ منا رہے ہیں…
دو بچے آپس میں لڑ پڑے ۔ ایک نے دوسرے کی خوب تواضع کی اور درگت بنائی ، مار کھانے والا گھر پہنچا تو گھر والوں نے پوچھا بیٹا کیا ہو گیا تھا ؟ تو اس نے بڑے فخر سے جواب دیا :
’’ میں نے اسے پکڑ کر اپنے اوپر گرا لیا اور اپنی ناک اس کی دانتوں میں دے دی ۔ پھر میں نے اس کی کہنی اپنی پسلیوں میں چبھودی اور دھڑام سے اس کا مکا اپنی کمر میں رسید کیا ، پھر زور سے اس کا تھپڑ اپنے منہ پر مارا اور پھر جو میں نے اس کی ٹھوکر اپنے پیٹ پر لگائی تو بس ‘‘ ۔
جی ہاں! اگر جیت اور فتح اسی کو کہتے ہیں تو یہ لوگ جشن ِ فتح منانے میں برحق ہیں ورنہ تو…
زخموں سے بدن گلزار سہی ‘ تم اپنے شکستہ تیر گنو !
خود اہلِ ترکش کہہ دیں گے یہ بازی کس نے ہاری
والی کیفیت ہے ۔
بہرحال یہ عظیم خوشی اور فتح اُن اسلام کے قابل فخر فرزندوں کے نام ہے ‘ جنہوں نے اپنے مقدس لہو سے گلشنِ اسلام کی آبیاری کی اور اکیسویں صدی کی ٹیکنالوجی کو اپنے ایمانی جذبے سے شکست دی ۔ یہ فتح اُن والدین کے نام ہے جنہوں نے اپنے جگر گوشے پیارے آقا حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی عظمت پر ہنستے مسکراتے قربان کر دئیے ۔ یہ فتح اُن تمام اہلِ ایمان کے نام ہے جنہوں نے ہر دم اپنے جذبۂ نصرت کو جواں رکھا اور اپنی دعائوں میں اہلِ عزیمت و استقامت کو یاد رکھا … آپ سب کو مبارک ہو ! بہت مبارک ہو !
٭…٭…٭
صدمہ ،صبر اور صحیح طرزعمل
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 475)
تاریخ کے بہت سے واقعات یادگار بن جاتے ہیں اور لوگ صدیوں تک انہیں لکھتے ،پڑھتے اور یاد کرتے رہتے ہیں ۔یادوں کے صفحات پر لکھے یہ گہرے نقوش ،پتھر کی لکیر سے زیادہ دیرپا اور انمٹ ہوتے ہیں ۔
اُن واقعات میں سے کچھ ایسے ہوتے ہیں‘ جنہیں پڑھ کر دل مسرور و شادمانی سے لبریز ہو جاتے ‘ سر فخر سے بلند ہو جاتے ہیں اور انسان ‘ انسانیت کے سامنے سرخرو ٹھہرتے ہیں ۔
جب کہ کچھ واقعات اس کے بالکل برعکس ایسے ہوتے ہیں‘ جنہیں پڑھ کر دل غمناک اور آنکھیں نمناک ہو جاتی ہیں‘ سر شرمندگی سے جھک جاتے ہیں اور انسان ‘ انسانیت کے سامنے شرمندہ اور رسوا ہو جاتا ہے ۔
افسوس کہ وطن ِ عزیز کے شب و روز ایک طویل عرصے سے پہلی قسم کے واقعات سے خالی اور دوسری قسم کے واقعات سے بھرے ہوئے ہیں ۔ تازہ ترین واقعہ سانحۂ پشاور ہے کہ جس پر ہر دل افسردہ ‘ ہر آنکھ نم اور ہر شخص مضطرب ہے ۔ یہ ایسا دلخراش المیہ ہے کہ جس پر اظہار ِ افسوس اور اظہار ِ مذمت کیلئے ہر لفظ کم محسوس ہوتا ہے ۔
اخبارت دیکھنے اور تبصرے سننے سے محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کا آسان ترین کام باتیں بنانا ہے ۔ لکھنے اور بولنے والے جب دردِ دل سے خالی اور انسانیت کے احساس سے عاری ہوں تو اُنہیں پتہ بھی نہیں چلتا کہ اُن کے کتنے الفاظ متأ ثرہ افراد کے غمزدہ دلوں کو کتنا مزید چھلنی کر دیتے ہیں ۔
اہلِ ایمان کے دل تو ہر مسلمان کے مرنے پر ٹوٹتے ہیں‘ خواہ وہ نام کا ہو یا کام کا ‘خواہ وہ پاکستان کا ہو یا شام کا اور خواہ اس کی شناخت کچھ بھی ہو ۔ وہ قبائلی علاقے کا ہو یا کسی صوبے کا ‘ وہ کسی مدرسہ کا فارغ التحصیل ہو یا کسی کالج یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ ۔ مسلمانوں کے مرنے پر خوشیاں تو وہ مناتے ہیں ‘ جن کے دل ‘ ایمان سے خالی اور جذبات ‘ انسانیت سے عاری ہوتے ہیں ۔
پھر بچے تو بچے ہوتے ہیں ‘ یہ کلیاں جب بن کھلے مرجھاجائیں تو کیا قیامت بیت جاتی ہے‘ بچے عام طور پر بڑوں سے جلدی سونے کے عادی ہوتے ہیں اور پھر جب ابدی نیند ہی سو جائیں تو دلوں پر کیا گزرتی ہے ‘ یہ تو کوئی ماں ہی بتا سکتی ہے ۔ نہیں! شاید وہ بھی نہیں کہ وہ ایسے میں بولنے کے قابل ہی کہاں رہ جاتی ہے ‘ ہاں اُس کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو ‘ اُس کے احساسات کی کچھ ترجمانی کر سکتے ہیں ۔
دنیا میں غم اور صدمے بہت ہیں‘ ہر ایک کا درد اور کسک بھی جدا ہے لیکن اولاد کا صدمہ دل کو ویران کرنے والا اور آنکھوں کو نچوڑنے والا ہے ۔ اللہ کے محبوب پیغمبر سیدنا حضرت یعقوب علیہ السلام جب اپنے صاحبزادے سیدنا حضرت یوسف علیہ السلام کی جدائی کے غم میں رو رو کر بینائی کھو بیٹھے اور پھر جب دوسرے بیٹے کی مصر میں گرفتاری کی خبر سنی تو بلا اختیار پکار اٹھے :
انما اشکو بثی وحزنی الی اللہ ( یوسف ۔۸۶)
( میں اپنے رنج اور غم کی فریاد صرف اللہ سے کرتا ہوں)
ہاں ! صبر ہی وہ کیمیا ہے جو انسان کے غم ‘ دکھ ‘ درد اور تکلیف کو بہترین اجرو ثواب میں بدل دیتا ہے اور پھر آسمان سے اُسے یہ آواز آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے :
انما یوفی الصبرون اجرھم بغیر حساب
( بلاشبہ صبر کرنے والوں کو اُن کا اجر بلا حساب دیا جائے گا )( الزمر :۱۰)
جی ہاں ! صبر ہی وہ مرہم جو ہر غم کا مداوا اور ہر درد کی دوا ہے ورنہ دل پھٹ جاتے اور کلیجے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے ۔ پھر اس صبر پر ملنے والا اجر بھی اتنا ہے کہ کوئی اُس کا حساب کتاب ہی نہیں ہے ۔
اللہ تعالیٰ کتنا کریم ہے کہ پہلے خود ہی نعمت عطا فرماتا ہے،پھر جب اُس نعمت کو واپس لیتا ہے اور اُس کا بندہ ناشکری میں مبتلا ہونے کے بجائے صبر کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رکھتا ہے تو وہ اپنی رحمت کی انتہا ء کر دیتا ہے ۔
ایک حدیث ِ قدسی ہے ،جو سیدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺسے نقل فرمائی ہے کہ :
’’ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرا ایسا ایمان والا بندہ ، جس کا میں دنیا والوں میں سے سب سے محبوب شخص اٹھا لوں اور وہ اس پر (صبر کر کے) ثواب کا یقین رکھے ‘ تو اُس کا بدلہ سوائے جنت کے اور کچھ نہیں ہے۔‘‘ (البخاری ‘کتاب الرقاق ‘ باب العمل یبتغی بہ وجہ اللہ تعالیٰ)
ہمارے لیے اور تمام اہلِ ایمان کیلئے سانحۂ پشاور ایک صدمہ ہے ‘ ایک سانحہ ہے اور لرزا دینے والا حادثہ ہے ۔ یہ ایک بار نہیں ‘ ہزار بار قابلِ مذمت اور لائق نفرین واقعہ ہے ۔ اسی لیے علماء کرام نے فوری طور پر اپنے جذبات کا اظہار کیا ‘ متاثرہ خاندانوں سے تعزیت کی اور اس بات کا برملا اعلان کیا کہ ہمارے لیے باجوڑ مدرسہ کے شہید طلبہ ‘ لال مسجد کے شہید طلبہ و طالبات ، جامعہ تعلیم القرآن کے شہید طلبہ اور آرمی پبلک سکول کے شہید طلبہ میں رنگ ‘ قوم ‘ نسل اور مذہب کی کوئی تفریق نہیں ہے ۔ یہ سب مسلمان بچے ہیں اور ان سب کی شہادتوں سے ہمارے دل صد پارہ ہیں ۔
اس تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اس قیامت خیز حادثے کو کچھ لوگوں نے اپنی سیاسی دوکان چمکانے کا ہی نہیں‘ دین اور اہلِ دین کے خلاف اپنے دلی بغض و عناد نکالنے کا ذریعہ بنا لیا ہے ۔ ان کے دلوں میں کوئی غم اور کوئی افسردگی نہیں ۔ یہ تو شعائر اللہ کی توہین کرکے اور ہر پگڑی داڑھی والے کو قاتل گردن زدنی قرار دے کر ‘ یہود و نصاریٰ سے اپنے رکے ہوئے وظائف بحال کروانا چاہتے ہیں ۔
ایک خود ساختہ جلا وطن شخص ’’ مسجد ضرار ‘‘ کا تذکرہ کرتے ہوئے بھول گیا کہ ’’مسجد ِ ضرار ‘‘ بھی ایک خود ساختہ جلا وطن شخص کا ہی ’’کارنامہ ‘‘ تھا ۔ آج کل بلا سوچے سمجھے بہت سے لوگ ’’مسجد ِ ضرار ‘‘ کا نام استعمال کرتے ہیں اور اس بہانے ایک دوسرے کے خلاف دل کی بھڑاس نکالتے ہیں ۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قارئین کے سامنے اس سلسلے کی کچھ مستند معلومات پیش کر دی جائیں ۔
قرآن مجید ‘ پارہ ۱۱؍سورۃ التوبۃ کی آیات نمبر ۱۰۷تا ۱۱۰ میں مسجدِ ضرار کا تذکرہ ہے ‘ جس کا مختصر واقعہ یہ ہے کہ مدینہ طیبہ میں ایک شخص ابو عامر نامی زمانۂ جاہلیت میں نصرانی ہو گیا تھا اور ابو عامر راہب کے نام سے مشہور تھا ، یہ وہی شخص ہے جن کے لڑکے حنظلہ رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں جن کی لاش کو فرشتوں نے غسل دیا اس لئے غَسیل ملائکہ کے نام سے معروف ہوئے ، مگر باپ اپنی گمراہی اور نصرانیت پر قائم رہا ۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ تشریف لائے تو ابو عامر راہب حاضر خدمت ہوا اور اسلام پر اعتراضات کئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب پر بھی اس بد نصیب کو اطمینان نہ ہوا ، بلکہ یہ کہا کہ ہم دونوں میں جو جھوٹا ہو وہ مرد ود اور احباب و اقارب سے دور ہو کر مسافرت میں مرے ، اور کہا کہ آپ کے مقابلہ میں جو بھی دشمن آئے گا میں اس کی مدد کروں گا ، چنانچہ غزوئہ حنین تک تمام غزوات میں مسلمانوں کے دشمنوں کے ساتھ قتال میں شرکت کی ، جب ہوازن کا بڑا اور قوی قبیلہ بھی شکست کھا گیا تو یہ مایوس ہو کر ملک شام بھاگ گیا ، کیونکہ یہی ملک نصرانیوں کا مرکز تھا وہیں جا کر اپنے احباب و اقارب سے دور مر گیا ، جو دعا کی تھی وہ اس کے سامنے آگئی ، جب کسی شخص کی رسوائی مقدر ہوتی ہے تو وہ ایسے ہی کام کیا کرتا ہے ، خود ہی اپنی دعا سے ذلیل و خوار ہوا ۔
مگر جب تک زندہ رہا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں لگا رہا ، چنانچہ قیصر ملک ِ روم کو اس پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ اپنے لشکر سے مدینہ پر چڑھائی کر دے ، اور مسلمانوں کو یہاں سے نکال دے ۔
اسی سازش کا ایک معاملہ یہ پیش آیا کہ اس نے منافقین مدینہ کو جن کے ساتھ اس کا ساز باز تھا خط لکھا کہ میں اس کی کوشش کر رہا ہوں کہ قیصر مدینہ پر چڑھائی کرے ، مگر تم لوگوں کی کوئی اجتماعی طاقت ہونی چاہیے جو اس وقت قیصر کی مدد کر ے ، اس کی صورت یہ ہے کہ تم مدینہ ہی میں ایک مکان بنائو ، اور یہ ظاہر کرو کہ ہم مسجد بنا رہے ہیں تاکہ مسلمانوں کو شبہ نہ ہو پھر اس مکان میں تم اپنے لوگوں کو جمع کرو اور جس قدر اسلحہ اور سامان جمع کر سکتے ہو وہ بھی کرو ، یہاں مسلمانوں کے خلاف آپس کے مشورہ سے معاملات طے کیا کرو ۔
اس کے مشورہ پر بارہ منافقین نے مدینہ طیبہ کے محلہ قباء میں جہاں اول ہجرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا اور ایک مسجد بنائی تھی وہیں ایک دوسری مسجد کی بنیاد رکھی ‘ ان منافقین کے نام بھی ابن اسحاق وغیرہ نے نقل کیے ہیں ، پھر مسلمانوں کو فریب دینے اور دھوکے میں رکھنے کے لئے یہ ارادہ کیا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک نماز اس جگہ پڑھوا دیں ‘ تاکہ سب مسلمان مطمئن ہو جائیں کہ یہ بھی ایک مسجد ہے جیسا کہ اس سے پہلے ایک مسجد یہاں بن چکی ہے ۔
ان کا ایک وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ قباء کی موجودہ مسجد بہت سے لوگوں سے دور ہے ، ضعیف بیمار آدمیوں کو وہاں تک پہنچنا مشکل ہے اور خود مسجد قباء اتنی وسیع بھی نہیں کہ پوری بستی کے لوگ اس میں سما سکیں ‘ اس لئے ہم نے ایک دوسری مسجد اس کام کے لئے بنائی ہے تاکہ ضعیف مسلمانوں کو فائدہ پہنچے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مسجد میں ایک نماز پڑھ لیں تاکہ برکت ہو جائے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت غزوئہ تبوک کی تیاری میں مشغول تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ وعدہ کر لیا کہ اس وقت تو ہمیں سفر درپیش ہے واپسی کے بعد ہم اس میں نماز پڑھ لیں گے ۔
لیکن غزوئہ تبوک سے واپسی کے وقت جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ کے قریب ایک مقام پر فروکش ہوئے تو آیات ِ مذکورہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئیں جن میں ان منافقین کی سازش کھول دی گئی تھی ، آیات کے نازل ہونے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چند اصحاب جس میں عامر بن سکن اور وحشی قاتلِ حمزہ ؓ وغیرہ شریک تھے ، ان کو حکم دیا کہ ابھی جا کر اس مسجد کو ڈھادو ، اور اس میں آگ لگا دو ، یہ سب حضرات اُسی وقت گئے اور حکم کی تعمیل کر کے اس کی عمارت کو ڈھا کر زمین برابر کر دی ۔
ان تمام تفصیلات سے قارئین کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ مسجد ِ ضرار کی حقیقت کیا تھی اور آج کل کسی شرعی مسجد کو مسجد ِ ضرار کہنا کس قدر جسارت کی بات ہے ۔
آخری بات یہ ہے کہ یہ واقعہ جتنا افسوسناک ہے ‘ اتنا ہی افسوسناک اس واقعہ کی آڑ لے کر مساجد ‘ مدارس ‘ جہاد ‘ علماء اور مجاہدین کو نشانہ بنانا ہے ۔ الحمد للہ تعالیٰ تمام دینی طبقات کی حب الوطنی اور انسانیت دوستی ‘ ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے اور ان سب نے اپنے مقدس لہو سے اس سر زمین کی حفاظت کی ہے ۔ پاکستان کا تحفظ ‘ ان کے مفادات کا نہیں‘ عقیدے اور ایمان کا مسئلہ ہے ۔ یہ کسی بے پر کی ہانکنے والے کالم نگار یا بے بال و پر دانشور کے مجرم نہیں کہ کٹہرے میں کھڑے ہو کر اپنی صفائیاں پیش کرتے رہیں ۔ میں ایک میڈیا سے کٹا ہوا اور عوامی دنیا سے لا تعلق آدمی ہوں لیکن اتنا تو مجھے بھی اخبارات کے ذریعے معلوم ہے کہ یہ سطور لکھنے تک جتنے افراد کو سرکار نے اس سانحہ کے رد عمل میں پھانسی دی ہے‘ اُن میں سے کوئی ایک بھی کسی مدرسے کا فاضل یا تعلیم یافتہ نہیں تھا ۔ سب عصری تعلیم گاہوں یعنی سکول ‘ کالج اور یونیورسٹی کے فیض یافتہ تھے ۔ اس لیے عرض ہے :
آپ ہی اپنی ادائوں پر غور کریں
ہم جو عرض کریں گے تو شکایت ہو گی
اللہ کریم وطن ِ عزیز اور اہلِ وطن کو ہر قسم کے سانحات اور المیوں سے محفوظ فرما کر ہر طرح کی خیرو برکات سے نوازے اور ہمارے حکمرانوں کو ’’اچھے اور برے‘‘ کی تمیز بھی عطا فرمائے ۔
٭…٭…٭
بڑی سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 474)

آج کل سیاسی احتجاج کا موسم جو بن پر ہے اور اس کی آڑ میں تمام دینی‘اخلاقی بلکہ اب تو انسانی روایات کو بھی بے دردی سے روندا جا رہا ہے ۔یوں لگتا ہے کہ دجالی قوتیں پاکستان کے عمومی مزاج ‘ غیرت و حمیت اور شرم و حیاکو مٹانے کیلئے پوری قوت سے میدان میں اُتر آئی ہیں اور نا عاقبت اندیش سیاسی قیادت اور مادر پدر آزاد میڈیا ‘ ان قوتوں کیلئے ہر ا ول دستے کا کردار ادا کر رہے ہیں ۔

آج سے چند سال پہلے تک وطن عزیز میں جن مناظر کا تصور تک محال تھا ‘ آج نہ صرف یہ کہ شہر شہر ‘ قریہ‘ قریہ اور ہر گلی کوچے میں اُن کو عام کیا جا رہا ہے بلکہ کچھ لوگ تو اس گندگی پر سیاست اور جمہوری حقوق کا ’’چاندی ورق‘‘ چپکانا چاہتے ہیں ۔ ہمیں بہت سوچ بچار کے بعد بھی یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ آخر ’’آزادی‘‘ اور ’’ترقی‘‘ کیلئے سرِ عام فحاشی کا بازار گرم کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ اسی طرح انتخابات میں دھاندلی اور غریب لوگوں کے اوپر عرصۂ حیات تنگ کر دینے ‘ شہروں کو بند کر دینے اور مریضوں کو ایمبولینسوں میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے پر مجبور کر دینے کے درمیان کیا تعلق ہے ؟

ہمارا مقصد کسی ایک سیاسی لیڈر کو نشانہ بنانا نہیں ہے کہ ’’ اس حمام میں سب ہی برہنہ ہیں‘‘ اور اپنی اپنی مرتبہ سب نے یہی ’’کارہائے خیر‘‘ سر انجام دئیے ہیں ۔ کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور اس کے منہ کو خون کی چاٹ لگی ہوتی ہے ۔ ان باتوں کا عملی مصداق اگر آپ نے دیکھنا ہو تو آج کے اخبارات میں شائع شدہ لاہور کے احتجاج کی تصاویر دیکھ لیں‘ جس میں کہیں آپ کو بلبلاتے مریض راستہ مانگتے نظر آئیں گے تو کہیں قوم کی مائیں‘ بہنیں اور بیٹیاں ہاتھ جوڑے ’’دیوانوں‘‘ کی منت زاری کرتی نظر آئیں گی ۔ کہیں بے سرو سامان مسافر حیران پریشان کھڑے نظر آئیں گے تو کہیں غریب ریڑھی بان اور خوانچہ فروش اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی کو بچانے کے جتن کرتے دکھائی دیں گے ۔

افسوس اور صدافسوس اس بات پر ہے کہ یہ کام اُس مذہب اسلام کے نام لیوا کر رہے ہیں ‘ جس نے انسانوں کو تو کیا حیوانات کو بھی بلاوجہ تکلیف دینے سے منع کیا ہے ۔ جن کی تاریخ کمزوروں پر رحم کھانے اور کمزور و ناتواں لوگوں کے ساتھ نیکی کرنے کے واقعات سے بھری پڑی ہے ۔

پیاسے کتے کو پانی پلانے کے سبب بدکار عورت کی مغفرت :

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک بد کار عورت کی مغفرت کر دی گئی ۔ ( سبب یہ ہوا کہ ) وہ ایک کتے کے پاس سے گزری جو شدت ِ پیاس کے سبب زبان نکالے کنوئیں کے کنارے پر کھڑا تھا ۔ قریب تھا کہ اسے پیاس مار ڈالتی ۔ اس عورت نے اپنا موزہ اتارا اور اُسے دوپٹہ سے باندھ کر کنوئیں سے پانی نکالا اور کتے کو پلا دیا بس اس عمل کی بدولت اس کی مغفرت ہو گئی ۔ ( مشکوۃ المصابیح )

تکلیف دینے والی ٹہنی ہٹا دینے کے سبب مغفرت :

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک شخص گزر رہا تھا کہ راستے میں اسے ایک درخت کی ٹہنی پر نظر پڑی اس نے کہا کہ میں مسلمانوں کے راستے سے اس ٹہنی کو ضرور ہٹا دوں گا تاکہ انہیں تکلیف نہ ہو ۔ بس اس عمل کے سبب اس کی مغفرت ہو گئی ۔ ( مشکوٰۃ المصابیح )

ایک بلی کے بچہ کے ساتھ حسن ِ سلوک کی وجہ سے مغفرت :

’’حضرت بایزید بسطامی رحمہ اللہ (م ۲۶۱ھ ) کو کسی نے بعد وفات کے خواب میں دیکھا پوچھا آپ کے ساتھ کیا معاملہ ہوا ۔ فرمایا جب میں پیش کیا گیا تو پوچھا گیا کہ اے بایزید کیا لائے ، میں نے سوچا کہ نماز روزہ وغیر ہ سب اعمال تو اس قابل نہیں کہ پیش کروں ‘ البتہ ایمان تو بفضلہ تعالیٰ ہے ، اس لیے عرض کیا کہ توحید : ارشاد ہوا ’’ اما تذکر لیلۃ اللبن ‘‘ یعنی دودھ والی رات یاد نہیں ؟

قصہ یہ ہوا تھا کہ حضرت بایزید بسطامی رحمہ اللہ کے ایک شب پیٹ میں درد ہوا تو اُن کی زبان سے نکل گیا کہ دودھ پیا تھا اس سے درد ہو گیا ۔ اس پر شکایت ہوئی کہ درد کو دودھ کی طرف منسوب کیا اور فاعلِ حقیقی کو بھول گئے حالانکہ ؎

درد از یار ست درماں نیز ہم

پھر ارشاد ہوا کہ اب بتلائو کیا لائے ، عرض کیا اے اللہ کچھ نہیں ، فرمایا کہ ایک عمل تمہارا ہم کو پسند آیا ہے اس کی وجہ سے بخشتے ہیں ، ایک مرتبہ ایک بلی کا بچہ سردی میں مر رہا تھا تم نے اس کو لے کر اپنے پاس لٹا لیا ، رہ گئی ساری کی ساری بزرگی اور تمام حقائق اور دقائق و معارف سب کا لعدم ہو گئے ‘‘۔

اس کے بر خلاف ظالموں کا جو انجام ‘ آخرت میں ہو گا وہ تو ہو گا ہی لیکن دنیا میں بھی کبھی کبھی اس کا عبرتناک نظارہ کروادیا جاتا ہے ۔وہ لوگ جن کے رعب داب کی یہ حالت ہوتی ہے کہ عام انسانوں پر اُن کے دیکھتے ہی کپکپی طاری ہو جاتی ہے اور ان کے خوف سے لوگ ہر دم لرزتے رہتے ہیں ‘ اُن کا انجام کتنا خوفناک اور المناک ہوتا ہے ، حضرت مولانا مناظر احسان گیلانی ؒ نے ’’مقالات ِ احسانی میں اس سلسلے کے کئی واقعات لکھے ہیں‘ آپ ؒ تحریر فرماتے ہیں :

الذہبی نے مختصر دول الاسلام میں نقل کیا ہے کہ الواثق باللہ کا جب خادم خاص جو ’’الواثقی ‘‘ کے نام سے مشہور تھا ، اس کا بیان ہے کہ واثق جب بیمار ہوا تو اس کی تیمار داری مجھ ہی سے متعلق تھی ۔ حالت واثق کی جب خراب ہوئی تو میں نے دیکھا کہ اس پر غشی طاری ہو گئی ہے ۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ ختم ہو گیا ہے ۔ پاس میں جو لوگ تھے ،ان کو بلایا اور ایک نے دوسرے کو اشارہ کیا کہ واثق کے قریب جا کر واقعی دیکھے کہ اس کی روح پرواز کر چکی یا کچھ زندگی کی رمق باقی ہے ، لیکن کسی کو اس کے قریب جانے کی ہمت نہ پـڑتی تھی ۔ آخر میں ہی دل کو مضبوط کر کے آگے بڑھا ۔ میں نے آہستہ سے اس کی ناک پر سانس کا پتہ چلانے کے لیے انگلی رکھی کہ اچانک واثق نے آنکھیں کھول دیں ۔ الواثقی کہتا ہے کہ نہ پوچھو کہ اس واقعہ کا مجھ پر کیا اثر مرتب ہوا ۔ اس کے الفاظ ہیں ’’ فکدت ان اموت ‘‘ (اتنا گھبرایا کہ قریب تھا کہ میں خود مر جاتا ) گھبراہٹ اس بات کی تھی کہ موت کے انتساب کو واثق کی زندگی ہی میں گویا ممکن قرار دے دیا ( کیونکہ بادشاہوں اور امراء کے لیے سب سے بری اور قابل نفرت شے تو موت ہے جو دنیا کے عیش و عشرت اور تمام لذتوں سے ان کے تعلق اور رشتہ کو منقطع کر دیتی ہے) باز پرس کے خوف نے اس پر یہ ہیبت طاری کی ، لیکن خیر گذری کہ واثق کی آنکھیں آخری دفعہ کھلی تھیں اور پھر ہمیشہ کے لیے بند ہو گئیں ۔

الواثقی کہتا ہے کہ ڈر کے مارے میں گر پڑا تھا ۔ تلوار تک ٹوٹ گئی اور میرے بدن میں کچھ گھس بھی گئی ۔ بہر حال الواثق واقعی اس کے بعد مر گیا ۔ تب واثقی نے یہ یقین کر لینے کے بعد کہ درحقیقت اب خلیفہ کی روح پرواز کر چکی ہے ، لاش پر چادر ڈال دی ۔ اس عرصہ میں واثقی کو محسوس ہوا کہ آنکھوں کے سامنے کوئی چیز حرکت کر رہی ہے ۔ وہ پھر گھبرایا یا چادر اٹھائی تو دیکھتا ہے کہ ایک چوہا واثق کی آنکھیں نکالے بھاگے جاتا ہے۔ بے ساختہ زبان پر واثقی کے جاری ہو گیا ـ : لا الہ الا اللہ یہی آنکھ تھی جس کی معمولی حرکت سے کچھ دیر پہلے میں مرنے کے قریب ہو گیا تھا ، گر پڑا ، تلوار ٹوٹی اور چند لمحوں کے بعد اسی آنکھ کو ایک چوہا نکال کر لے بھاگا ۔

مزید لکھتے ہیں کہ … ’’ سیدنا سعید بن جبیر تابعی ؒ کو انتہائی بے دردی کے ساتھ حجاج نے جب شہید کیا اور اس کے بعد ایک خاص قسم کے جنون میں مبتلا ہو گیا ۔ سوتا تھا کہ خواب میں بھی سعید ہی نظر آتے تھے اور کہتے کہ کس جرم میں تونے مجھے قتل کیا ۔ اور آنکھ کھلتی تو اس وقت بھی حجاج کا بیان تھا کہ سعید کو سامنے کھڑا پاتا ہوں ۔ اسی زمانے میں حجاج کے پیٹ میں سرطانی پھوڑا نکالا جس کی سمیّت روز بروز بڑھتی جاتی تھی ۔ کہتے ہیں کہ اس اندرونی گھائو کی وجہ سے ایک اور بیماری اس پر مسلط ہوئی جسے زمہریرہ کہتے تھے یعنی ایسی سخت سردی اس کو محسوس ہوتی تھی کہ انگیٹھی کو بدن کے قریب کرتے کرتے یہاں تک متصل کر دی جاتی کہ کھال جلنے لگتی ، لیکن پھر بھی اس کی تشفی نہ ہوتی تھی ۔ اطباء نے جب تجویز کیا کہ پیٹ میں پھوڑا ہے تو جانچنے کے لیے روٹی کے ٹکڑے کو تاگے میں باندھ کر حجاج کو نگلوایا ۔ جب اندر چلا گیا تب جھٹکا دے کر ٹکڑا باہر نکالا تو وہ صرف کیڑوں سے بھرا ہوا تھا ۔ آخر مرض ناقابل علاج قرار پایا ۔

خواجہ حسن بصری ؒ کو اس نے بلایا تو رونے لگا اور گڑگڑا کر التجا کرنے لگا کہ میرے لیے دعا کیجئے ۔ خواجہ نے کہا کہ حجاج ! دیکھ اللہ والوں سے ہمیشہ میں نے تجھ کو نصیحت کی کہ دور رہنا ۔ سعید کے ساتھ تونے جو کچھ کیا اسی کا خمیازہ ہے۔ حجاج نے کہا کہ اب صحت کی دعا نہ کیجئے تاکہ میری مشکل آسان ہو ۔ حجاج مر گیا ۔ خواب میں مرنے کے بعد کسی نے دیکھا ۔ کہنے لگا کہ سعید کے بدلہ میں مجھے مسلسل قتل کیا جا رہا ہے ۔ قتل ہوتا ہوں ، پھر جلایا جاتا ہوں پھر قتل ہوتا ہوں ‘‘۔

اللہ کریم اپنے فضل و کرم سے ‘ سیاست اور جمہوریت کے نام پر جاری اس احمقانہ روش سے ہماری اور پوری قوم کی حفاظت فرمائے ۔ (آمین ثم آمین)
٭…٭…٭
شیطانی اثرات سے بچاؤ کا طریقہ
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 473)

اس دنیا میں مختلف قسم کے لوگ آپ نے دیکھے ہوں گے ۔ کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں جو اپنی نادانی کی وجہ سے اپنا ایمان کھو بیٹھتے ہیں اور کچھ وہ ہوتے ہیں جو اپنی کم عقلی کی وجہ سے دنیا کا مال و متاع لٹا بیٹھتے ہیں لیکن ایک تیسری قسم بھی ہے ‘ جو پہلے دونوں سے زیادہ نادان اور بے وقوف ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو صرف اپنی دنیا ہی تباہ نہیں کرتے ‘ ساتھ ساتھ اپنا دین بھی تباہ کروا دیتے ہیں ۔
یہ کون لوگ ہیں ؟ آپ کے ذہن میں مختلف قسم کے خیالات آ رہے ہوں گے لیکن ان کی سب سے واضح مثال وہ سیدھے سادھے اور بھولے بھالے مرد و خواتین ہیں‘ جو طرح طرح کے توہمات کا شکار ہو کر اُن انسان نما شیطاطین کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں‘ جنہیں عام طور پر ’’عامل ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں ۔ بعض عامل حضرات بھی نیک‘ خدا ترس ‘ متقی پرہیز گار ‘ پابندِ شریعت اور متبع سنت ہوتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ہم یہاں اُن کی بات نہیں کر رہے اور نہ ہی وہ دوسروں کے ایمان اور دنیا کیلئے خطرناک ہوتے ہیں ۔ وہ توصرف خلقِ خدا کی خدمت اور ان کے ایمان کو بچانے کیلئے یہ راستہ چنتے ہیں ۔
بے عمل عامل حضرات لوگوں کے ساتھ کیا کچھ کرتے ہیں ‘ کس کس طرح سے اُنہیں رسوا کرتے ہیں اور کن کن حیلے بہانوں سے انہیں بے وقوف بناتے ہیں ۔ یہ ایک تکلیف دہ اور پریشان کن داستان ہے‘ جو ہر چند دن بعد پڑھنے اور سننے کو ملتی ہے ۔ کئی قومی اخبارات ‘ جو ایسے عاملوں کے اشتہارات بھی شائع کر تے ہیں‘ وہ بھی ان کے کالے کرتوتوں کی تفصیلات اپنے صفحات میں شائع کر چکے ہیں لیکن افسوس کہ ہمارے معاشرے میں بے عمل اور بد عمل عاملوں کے متاثرین میں مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے ۔ لوگ خود اخبارات میں دوسروں کی افسوسناک کہانیاں پڑھتے ہیں اور پھر خود بھی اس پھندے میں پھنس کرنشانِ عبرت بن جاتے ہیں ۔
شاید کئی قارئین کے ذہن میں یہ بات آئے کہ ایسا جہالت کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ اگر تو ان کی مراد اس سے یہ ہے کہ قرآن و سنت کونہ جاننے اورنہ پڑھنے کی وجہ سے ایسے واقعات جنم لیتے ہیںتویہ بات بالکل درست ہے لیکن اگر اُن کا خیال یہ ہے کہ ایسا دنیا وی علوم سے نا واقفیت کی وجہ سے ہوتا ہے تو ہم بہت معذرت کے ساتھ عرض کریں گے کہ ایسا ہرگز نہیں ۔ کتنے ہی دنیاوی طور پر پڑھے لکھے بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ جعلی پیروں ، فقیروں کے پیچھے مارے مارے پھرتے ہیں اور اپنی دین و دنیا ‘ دونوں سے ہی تہی دست اور تہی دامن ہو جاتے ہیں ۔
ایسے عاملوں کا نشانہ عام طور وہ لوگ بنتے ہیں‘ جن کا عقیدہ کمزور ہوتا ہے ۔ صبر ‘ استقامت اور اللہ تعالیٰ پر توکل و اعتماد کی لازمی ایمانی صفات سے محرومی کا نتیجہ پہلے تو ہمّ پرستی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ یہ بد عقیدگی انسان کو ایسی درگاہوں اور گدیوں پر لے جاتی ہے ‘ جہاں سے بخیریت و عافیت صرف مقدر والوں کے نصیب میں ہی ہوتی ہے ۔
ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم‘ ہمیں جو مضبوط اور مستحکم فولادی عقیدہ سمجھا کر گئے تھے ‘ اگر ہم اُس کو پلے سے باندھ لیں تو کبھی بھی توہم پرستی ‘ بد شگونی ‘ بد فالی اور ناجائز تعویذوں کے مکروہ دھندوں کا شکار نہ ہوں ۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے لڑکے ! میں تم کو چند باتیں سکھاتا ہوں …
(۱)… اللہ (کے حکم کی ) حفاظت کرو ۔ وہ تیری حفاظت کرے گا ۔
(۲)…اللہ تعالیٰ کے ( حق کی ) نگہبانی کر اس کو تو اپنے ساتھ پائے گا ۔
(۳)… جب تو سوال کرے تو اللہ ہی سے کر ۔
(۴) … جب تو مدد مانگے تو اللہ ہی سے مانگ ۔
(۵)… اور یقین کر کہ اگر سارے لوگ کسی چیز سے تجھے نفع پہنچانے کے لئے اکٹھے ہو جائیں تو وہ تمہیں کچھ نفع نہیں پہنچا سکتے ۔ مگر اتنا جتنا اللہ تعالیٰ نے تیرے لئے لکھ دیا ہو ۔
(۶)… اور اگر وہ تمہیں کچھ نقصان پہنچانے کے لئے تمام جمع ہو جائیں تو تمہیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے مگر اتنا جتنا اللہ تعالیٰ نے تیرے لئے لکھ دیا ۔ قلم اٹھائے جا چکے ۔ صحائف خشک ہو چکے ۔
( سنن تر مذی ‘ابواب صفۃ القیامۃ‘باب یمکن یا حنظلۃ ساعۃ و ساعۃ )
جو لوگ اللہ تعالیٰ پر اپنے عقیدہ کو مضبوط رکھتے ہیں اور ادھر اُدھر بھٹکتے نہیں پھرتے ‘اُن کیلئے احادیث مبارکہ میں بہت فضیلت آئی ہے ۔ ایک حدیث پاک ملاحظہ فرمائیں :
’’ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ پر امتیں پیش کی گئیں ۔ میں نے ایک پیغمبر کو دیکھا کہ ان کے ساتھ چھوٹی جماعت ہے اور ایک اور نبی ہیں کہ ان کے ساتھ ایک اور دو آدمی ہیں اور ایک نبی ہیں کہ جن کے ساتھ کوئی بھی نہیں ہے ۔ اچانک میرے سامنے ایک بہت بڑا گروہ ظاہر ہوا ۔ میں نے گمان کیا کہ وہ میری امت ہے ۔ مجھے کہا گیا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم ہے ۔ لیکن تم افق کی طرف دیکھو ۔ میں نے دیکھا تو ایک بہت بڑا گروہ نظر آیا ۔ پھر مجھے کہا گیا دوسرے کنارے کو دیکھو میں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا گروہ ہے ۔ مجھے بتلایا گیا کہ یہ تیری امت ہے ۔ ان کے ساتھ ستر ہزار ایسے لوگ ہیں جو جنت میں بلا حساب و عذاب داخل ہوں گے ۔ پھر آپ اٹھے اور گھر تشریف لے گئے ۔ لوگ ان کے متعلق گفتگو کرنے لگے جو جنت میں بلا حساب و عذاب داخل ہوں گے ۔ بعض نے کہا شاید وہ لوگ ہیں جو آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں ۔ بعض نے کہا شاید وہ لوگ ہیں جو اسلام میں پیدا ہوئے اور شرک نہیں کیا ۔ اسی طرح کی کئی چیزوں کا لوگوں نے تذکرہ کیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو فرمایا تم کس بحث میں مصروف ہو ؟ انہوں نے اطلاع دی ۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ ایسے لوگ ہیں جو جھاڑ پھونک نہ خود کرتے ہوں اور نہ کسی سے کرواتے ہیں اور نہ ہی شگون لیتے ہیں بلکہ اپنے رب پر کامل بھروسہ کرتے ہیں ۔ حضرت عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرمائیں کہ اللہ مجھے ان میں سے کر دے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو ان میں سے ہے ۔ پھر دوسرا شخص کھڑا ہوا ۔ اس نے بھی عرض کی کہ میرے لئے بھی دعا فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان میں کر دے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عکاشہ اس میں تم سے سبقت کر گئے ۔( صحیح البخاری ‘ کتاب الطب ‘ باب من اکتویٰ او کویٰ غیرہ )
توہم پرستی اور بد شگونی کے خیالات یہ ایسی دیمک ہے ‘ جو انسان کے ایمان کو اندر اندر سے چاٹ کر بالکل ختم کر دیتی ہے اور ایسا انسان پھر روحانی اعتبار سے بالکل کھوکھلا ہو جاتا ہے ۔ وہ بے چارا کالی بلی دیکھ کر راستہ بدل لیتا ہے ‘ کوا دیکھ کر اندازے قائم کر لیتا ہے‘ ہاتھ میں خارش ہو تو کچھ سمجھنے لگتا ہے‘ آنکھ پھڑکے تو اُس کا دل دھڑکنے لگتا ہے ۔ کبھی اپنی خیالی نحوست سے بچنے کیلئے گاڑی پر کالا کپڑا باندھ لیتا ہے ‘ کبھی گھر پر مٹی کی ہانڈی الٹی کر کے رکھ دیتا ہے اور کبھی اپنے ہاتھ میں قسما قسم کے دھاگے اور کپڑے پہن لیتا ہے۔
ان سب باتوں کی حقیقت کیا ہے ؟ صرف یہ کہ لوگوں نے اپنے دلوں میں ایک بات بٹھالی ہے اور ایک خیال قائم کر لیا ہے ورنہ یہ باتیں نہ تو قرآن مجید میں ہیں ‘ نہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نہ حضرات ِ صحابہ کرامؓ اور اہل بیت ؓ کی تعلیمات میں یہ باتیں ہیں اور نہ ہی اولیاء اللہ نے ان کی تعلیم دی ہے ۔ کبھی کہیں کوئی اتفاق ہو گیا ‘ بس جاہلوں نے اُسی کو عقیدے کا درجہ دیدیا
جب یہ پتہ چل گیا کہ تو ہم پرستی اور بد فالی وغیرہ محض خیالی قصے ہیں اور ناجائز تعویذ اور عملیات بھی شیطانی گورکھ دھندے ہیں تو پھر انسان مصائب و آفات سے بچنے کیلئے اپنے آپ اور اپنے گھر سے شیطانی اثرات دور کرنے کیلئے کیا کرے ۔
اس کا جواب بہت تفصیل چاہتا ہے لیکن اختصار کے ساتھ آج صرف دو احادیث مبارکہ پیش کرتا ہوں ‘ جن سے پتہ چلے گا کہ اصل کرنے کے کام کیا ہیں ؟
پہلی حدیث حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے منقول ہے کہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ اپنے گھروں میں بھی نماز پڑھو اور انہیں قبرستان نہ بنائو ‘‘ ۔
قبرستان ویرانی کی جگہ ہے اور اس سے بچنے کا بہترین طریقہ نماز کو قرار دیا گیا ہے ۔ اب اگر مرد کچھ نوافل گھر میں پڑھ لیں اور خواتین پابندی سے نماز ادا کریں تو گھر سے سارے گندے اثرات خود بخود ختم ہو جائیں گے ۔
دوسری حدیث حضرت ابو ہریرہ ؓ سے منقول ہے ‘ وہ کہتے ہیں کہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ اپنے گھروں کو قبرستان مت بنائو ! بے شک جس گھر میں سورۃ البقرہ پڑھی جاتی ہے ‘ شیطان وہاں سے بھاگ کھڑا ہوتا ہے‘‘ ۔ ( والحدیثان اخرجھما ا لا مام المسلم ؒ فی صحیحہ ‘ کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا ‘ استحباب صلاۃ النافلۃ فی بیتہ الخ)
آپ گھر میں قرآن مجید کی تلاوت کریں اور سورۃ البقرۃ پڑھیں ‘ شیطان بھی بھاگے گا اور شیطانی اثرات بھی دور ہوں گے ۔
شیطانی اثرات‘ اللہ کی نافرمانیوں سے آتے ہیں ۔ آ ج گھر گھر جس طرح نمازوں میں سستی ، حرام آمدنی ، بے پردگی ، گانے بجانے کی مکروہ آوازیں اور آلات ِ فحاشی عام ہیں‘ اسی لحاظ سے شیطانی اثرات بھی بڑھتے جا رہے ہیں ۔
ان شیطانی اثرات سے اگر ہم بچنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ان شیطانی کاموں کو چھوڑیں اور پھر برکت اور رحمت والے اعمال سے اپنے گھروں کو آباد کریں ۔ اس طرح ہم خود سچے اور کھرے عامل بن جائیں گے اور ہمیں کسی نام نہاد عامل کے پاس جانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ۔
٭…٭…٭
کامیاب لوگوں کی باتیں
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 472)
آئیں ! آج ہم اپنی بات کا آغاز صحیح البخاری میں بیان کیے گئے اس ایمان افروز واقعہ سے کرتے ہیں :
’’ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو سلیم ( کی طرف ) ستر (۷۰) افراد بنو عامر کے یہاں بھیجے تھے ۔ جب یہ سب حضرات ( برٔ معونہ پر ) پہنچے تو میرے ماموں ( حضرت حرام بن ملحان رضی اللہ عنہ ) نے کہا : میں ( بنو سلیم کے یہاں ) پہلے جاتا ہوں ۔ اگر مجھے انہوں نے اس بات پر امن دے دیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں اُن تک پہنچائوں ( تو بہت اچھا ) ورنہ تم لوگ میرے قریب ہی تو ہو ۔ چنانچہ وہ ان کے ہاں چلے گئے اور انہوں نے امن بھی دے دیا ۔ ابھی وہ قبیلے کے لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنا ہی رہے تھے کہ قبیلے والوں نے اپنے ایک آدمی ( عامر بن طفیل ) کو اشارہ کیا اور اُس نے آپ کے جسم پر ایسا نیزا مارا کہ آپ کے آر پار ہو گیا ۔ اس وقت میرے ماموں نے کہا :
فزت ورب الکعبۃ
( رب کعبہ کی قسم ! میں تو کامیاب ہو گیا ) ۔
اس کے بعد یہ قبیلے والے حضرت حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے باقی ساتھیوں کی طرف بڑھے ( جو مہم میں ان کے ساتھ تھے اور ان کی تعداد ستر تھی ) اور سب کو شہید کر دیا ۔
البتہ ایک صحابی ‘ جن کے پائوں میں کچھ لنگ تھا (کعب بن یزید ؓ ) ‘ پہاڑ پر چڑھ گئے ۔ ھمام ( جو اس حدیث کے راوی ہیں) بیان کرتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ ایک اور صاحب بھی ان کے ساتھ پہاڑ پر چڑھے تھے ( عمر و بن امیہ ضمری ؓ) اس کے بعد جبرئیل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ آپ کے ساتھی اللہ تعالیٰ سے جا ملے ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ خود بھی ان سے خوش ہوا ہے اور انہیں بھی خوش کر دیا ہے ‘‘ ۔( صحیح البخاری ‘ کتاب الجہاد ‘ باب من ینکب فی سبیل اللہ ‘ و کتاب المغازی ‘ باب غزوۃ الرجیع و رعل )
کامیابی کی راہوں پر چل کر دنیا سے رخصت ہوتے وقت اپنی کامیابی کا کھلم کھلا اعلان کرنے والے یہ اکیلئے حضرت حرام بن ملحان رضی اللہ عنہ ہی نہیں تھے ‘ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے غلام‘ سفرِ ہجرت کے خادم حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی انہی شہداء میں سے تھے ۔ ان کے قاتل ‘ جو بعد میں مسلمان ہوئے ‘ حضرت جبار بن سلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جب میں نے انہیں نیز ا مارا ‘ تو انہوں نے شہید ہوتے ہوئے کہا ’’ فزت واللہ ‘‘ ( اللہ کی قسم میں تو کامیاب ہو گیا )۔
میں بہت حیران ہوا کہ میں نے نیزا مارا ‘ وہ مرے لیکن پھر بھی کہتے ہیں کہ میں کامیاب ہو گیا ‘ اس کا کیا مطلب ؟ میں نے لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ کامیابی ’’ جنت‘‘ ہے ۔ تب مجھے بات سمجھ آئی اور میں مسلمان ہو گیا ۔
کامیاب لوگوں کا قافلہ جو چودہ سو برس پہلے اپنے سفر پر روانہ ہوا تھا ‘ آج بھی رواں دواں ہے ۔ پاکسان کے علماء میں سے کتنے بڑے بڑے نام ہیں جو اس قافلے کے شریک سفر ہو گئے ۔ سب کے نام لکھنا شروع کروں تو ڈر ہے کہ کہیں کوئی بڑا کام بھول نہ جائوں ۔ البتہ اتنا تو سب جانتے ہیں اس عظیم قافلے کے تازہ دم اور آخری راہرو سندھ کے مشہور عالم مولانا ڈاکٹر خالد محمود سومرو شہید ؒ ٹھہرے ہیں ۔
پاکستان کی سر زمین علماء کے مقدس لہو سے بار ہا گلِ گلزار ہوئی ہے اور اسلام دشمن لابی نے بارہا اپنے مہروں کو استعمال کر کے علمائِ حق کی لاشوں کو چوکوں چوراہوں اور مساجد و مدارس میں تڑپا یا ہے ۔ وہ جانتے ہیں کہ پاکستان کے گلی کوچوں سے لے کر ایوانہائے اقتدار تک جو صدائے حق بلند ہوتی ہے ‘ منبرو محراب سے قرآن و سنت کے زمزمے گونجتے ہیں اور دشمنان ِ اسلام کی سازشوں سے عوام کو آگاہ کر کے انہیں دینِ اسلام کی آغوش میں لایا جاتا ہے تو یہ سارا کام علمائِ حق ہی سر انجام دیتے ہیں ۔
انگریزی استعمار سے لے کر امریکی سامراج تک سب نے علماء کو اپنا دشمن سمجھا ہے اور علماء نے بھی کبھی اس دشمنی سے انکار نہیں کیا ۔ علماء نے ہر میدان میں خم ٹھونک کر مقابلہ کیا اور بڑی پامردی سے دشمن کے دانت کٹھے کیے ۔ یہی وجہ ہے کہ علماء آج بھی اُن کی آنکھوں میں خارکی طرح کھٹکتے ہیں ۔
دینی مدارس سے لے کر میدان جہاد تک‘ تحفظِ ختم نبوت سے لے کر دفاع ناموسِ صحابہ ؓ تک ‘تصوف و سلوک سے لے کر دعوت و تبلیغ تک اور خدمت ِ خلق سے لے کر پارلیمنٹ میں صدائے حق بلند کرنے تک علماء کی عظیم خدمات کے حسین نقوش ہر سمت پھیلے ہوئے ہیں ۔ اپنوں سے زیادہ غیر اس راز کو جانتے ہیں کہ یہ علماء ہی ہیں ‘ جو اُن کے مذموم عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔ وہ اس تاریخی حقیقت سے آگاہ ہیں کہ علماء نے ہی ہر دور میں ان کی فکری ‘ عملی اور عسکری یلغار کے سامنے بند باندھے ہیں اور یہ علماء ہی ہیں جو یہ کہتے ہوئے آزمائش کی بھٹیوں میں کود پڑتے ہیں :
آگ ہے ‘ نمرود ہے ‘ اولادِ ابراہیم ہے
کیا پھر کسی کو کسی کا امتحان مقصود ہے
علماء کی جرأت و استقامت کی گواہی صرف اپنوں ہی نے نہیں ‘ غیروں نے بھی دی ہے ۔ ایک انگریزٹامسن اپنی یاد داشتوں میں لکھتا ہے :
’’ دلی کے چاندی چوک سے پشاور تک درختوں پر علماء کی گردنیں ‘ جسم لٹکے ہوئے ملتے تھے ۔ روزانہ۸۰ ؍ علماء پھانسی پر لٹکائے جاتے تھے ۔ میں دلی کے ایک خیمے میں بیٹھا تھا ‘ مجھے گوشت کے جلنے کی بو آئی ‘ میں نے خیمے کے پیچھے جا کر نگاہ ڈالی تو کیا دیکھتا ہوں کہ آگ کے انگاروں پر تیس چالیس علماء کو ننگا کر کے ڈالا جا رہا ہے ‘ پھر دوسرے چالیس لائے گئے … ایک انگریز نے انہیں کہا کہ اگر تم انقلاب ۱۸۵۷ء میں شرکت سے انکار کر دو تو تمہیں چھوڑ دیا جائے گا ۔ ٹامسن قسم کھا کر کہتا ہے کہ سارے علماء جل کر مرتے گئے مگر کسی ایک نے بھی انگریز کے سامنے گردن نہیں جھکائی ( ۱۸۵۷ء کی کہانی ‘ انگریز ٹامسن کی زبانی ماخوذ از ماہنامہ دارالعلوم ‘ جلد ۹۷ ، شمارہ ،۱)
یہ علماء کی روشن اور قابلِ فخر تاریخ ہے اس لئے علماء کو کسی یہودی ایجنٹ یا بھارتی نمک خور سے حب الوطنی کا تصدیق نامہ لینے کی کبھی ضرورت تھی اور نہ ہو گی ۔
اگر آج صدیاں بیت جانے کے بعد بھی امام ابو حنیفہ ؒ کی استقامت کے واقعات‘ امام عبداللہ بن مبارکؒ کے مجاہدانہ کارنامے اور امام احمد بن حنبل ؒ کی حق گوئی و بے باکی کے تذکرے نہ صرف زندہ و تابندہ ہیں بلکہ سینکڑوں انسانوں کے دل و دماغ میں انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں تو مجھے یقین ہے کہ پاکستان کی سر زمین پر اپنے مقدس لہو سے عزیمت و استقامت کی بے مثال تاریخ رقم کر کے کفریہ عزائم کے سامنے سد سکندری بننے والے علماء کرام کے حالات بھی چراغ سحر کا کام دیں گے ۔ کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا سے جاتے ہیں تو یہ پیغام دیتے ہوئے جاتے ہیں :
ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدئہ عالَم دوامِ ما
٭…٭…٭
تب کیا ہو گا ؟
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 471)
حافظ الحدیث امام ابو عبد اللہ محمد بن یزید ابن ماجہ قزوینی ؒ کی سنن ‘ حدیث پاک کی مشہور کتاب ہے ۔ اکثر علماء کے نزدیک حدیث کی بلند پایہ اور صحیح ترین چھ کتب یعنی صحاح ستہ میں سے ایک ہے ۔
اس عظیم کتاب کی ایک حدیث پاک کے مطالعہ کے دوران امام ابن ماجہ رحمہ اللہ کا ذکر کردہ دلچسپ تبصرہ نظر سے گزرا ۔ یہ تبصرہ انہوں نے اپنے استاذ شیخ ابو الحسن طنافسیؒ سے اُن کے استاذ شیخ عبدالرحمن محاربی ؒ کے الفاظ میں یوں نقل فرمایا ہے :
’’ ینبغی ان ید فع ھذا الحدیث الی المؤدب حتی یعلمہ الصبیان فی الکتاب‘‘
( مناسب ہے کہ یہ حدیث بچوں کے اساتذہ کو دی جائے تاکہ وہ بچوں کو سکھا دیں بلکہ انہیں لکھوا دیں)۔
یہ پڑھ کر دل پر ایک چوٹ لگی کہ کیسے اچھے لوگ تھے اور کیسا بہترین ان کا ذوق ایمانی تھا ‘ اپنے بچوں کیلئے کیا خوب انتخاب تھا ۔آج ہم اپنے بچوں کو کیا تعلیم دلا رہے ہیں اور وہ عصری درس گاہوں میں کیا کچھ سیکھ رہے ہیں ‘ اس کی تفصیلات کی یہاں نہ گنجائش ہے ‘ نہ موقع ۔ لیکن دینی تعلیم اور اسلام کے بنیادی فرائض سے جو غفلت برتی جا رہی ہے ‘ اس کا ہم سب کو خوب اندازہ ہے ۔
اس حدیث پاک کو پڑھ کر خیال آیا کہ اس کا خلاصہ عام فہم الفاظ میں قارئین کے سامنے ضرور آنا چاہیے کہ آج کل جب مادی ترقی کو ہی سب کچھ خیال کیا جا رہا ہے اور دنیا کے چند ٹکوں کے بدلے میں ہر شخص اپنا ایمان بیچنے پر تلا ہوا ہے ‘ اس حدیث پاک میں اہل ایمان کیلئے استقامت کا عجیب پیغام ہے ۔ بعض جملے تو ایسے ہیں ‘ جن کی تشریح کیلئے بھی کئی صفحات درکار ہیں اور اہلِ علم نے ان کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے لیکن پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ِ مبارکہ کی لذت اور جامعیت کو تو ہر مسلمان محسوس کر سکتا ہے ۔
اس حدیث ِ پاک میں مختلف آزمائشوں اور اُن پر استقامت کے بارے میں معلومات کے ساتھ ساتھ فریضہ جہاد و قتال کے بارے میں بھی واضح طور پر یہ بتایا گیا ہے کہ اسلام کا یہ اہم ترین فریضہ ‘ قربِ قیامت تک جاری و ساری رہے گا ۔ اللہ تعالیٰ کے دو مقرب ترین بندے سیدنا حضرت عیسیٰ اور سیدنا حضرتِ مہدی ، دونوں ہی اس فریضے کو سر انجام دیں گے ۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں حضرات کے ساتھ اس فریضے کی ادائیگی میں وہی لوگ شامل ہو سکیں گے جو اسے برحق اور حکمِ الٰہی سمجھتے ہیں۔
آئیں اب اصل حدیث ِ پاک کا آسان ترجمہ اور خلاصہ پڑھتے ہیں:
حضرت ابو امامہ باہلی ؓ کہتے ہیں :
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خطبہ کا کم و بیش حصہ دجال کا واقعہ بیان کرنے ، اس سے ڈرانے میں ہی صرف کیا ۔ جس میں یہ بھی فرمایا کہ دنیا کی ابتداء سے لے کر انتہا تک کوئی فتنہ اس سے بڑا نہیں ۔ تمام انبیاء علیہم السلام اپنی اپنی امتوں کو اس سے آگاہ کرتے رہے ہیں ۔ میں سب سے آخری نبی ہوں اور تم سب سے آخری امت ہو وہ یقینا تم ہی میں آئے گا ۔ اگر میری موجودگی میں آگیا تب تو میں اس سے نمٹ لوں گا اور اگر بعد میں آیا تو ہر شخص کو اپنا آپا اس سے بچانا پڑے گا ۔ میں اللہ تعالیٰ کو ہر مسلمان کا خلیفہ بناتا ہوں ۔
وہ شام و عراق کے درمیان نکلے گا دائیں بائیں خوب گھومے گا ۔ لوگو! اے اللہ تعالیٰ کے بندو ! دیکھو ! دیکھو ! تم ثابت قدم رہنا ۔ سنو ! میں تمہیں اس کی ایسی صفت سناتا ہوں جو کسی نے اپنی امت کو نہیں سنائی ۔
وہ ابتداء ً دعویٰ کرے گا کہ میں نبی ہوں ، پس تم یاد رکھنا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں … پھر وہ اس سے بھی بڑھ جائے گا اور کہے گا میں خدا ہوں ، پس تم یاد رکھنا کہ خدا کو ان آنکھوں سے کوئی نہیں دیکھ سکتا ہاں مرنے کے بعد دیدار ِ باری تعالیٰ ہو سکتا ہے …اور سنو ! وہ کانا ہو گا اور تمہارا رب کانا نہیں ، اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوا ہو گا ۔ جسے پڑھا لکھا اور اَن پڑھ غرض ہر ایمان دار پڑھ لے گا ۔
اس کے ساتھ آگ ہو گی اور باغ ہو گا ۔ اس کی آگ دراصل جنت ہے اور اس کا باغ دراصل جہنم ہے ۔ سنو ! تم میں سے جسے وہ آگ میں ڈالے وہ اللہ تعالیٰ سے فریاد رسی چاہے اور سورئہ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے ، اس کی وہ آگ اس پر ٹھنڈک اور سلامتی بن جائے گی جیسے کہ خلیل اللہ علیہ السلام پر نمرود کی آگ ہو گئی تھی ۔
اس کا ایک فتنہ یہ بھی ہو گا کہ وہ ایک اعرابی سے کہے گا اگر میں تیرے مرے ہوئے ماں باپ کو زندہ کروں پھر تو تو مجھے رب مان لے گا ۔ وہ اقرار کرے گا ۔ اتنے میں دو شیطان اس کی ماں اور باپ کی شکل میں ظاہر ہوں گے اور اسے کہیں گے بیٹے ! یہی تیرا رب ہے تو اسے مان لے ۔
اس کا ایک فتنہ یہ بھی ہوگا کہ وہ ایک شخص پر مسلط کر دیا جائے گا ۔ اسے آرے سے چروا کر دو ٹکڑے کروا دے گا ۔ پھر لوگوں سے کہے گا کہ میرے اس بندے کو دیکھنا اب میں اسے زندہ کر دوں گا ۔ لیکن پھر بھی یہ یہی کہے گا اس کا رب میرے سوا اور ہے ، چنانچہ یہ اسے اٹھائے بٹھائے گا اور یہ خبیث اس سے پوچھے گا کہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ جواب دے گا میرا رب اللہ تعالیٰ ہے اور تو خدا کا دشمن دجال ہے ۔ خدا کی قسم ! اب تو مجھے پہلے سے بھی بہت زیادہ یقین ہو گیا ۔ دوسری سند سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ مومن میری تمام امت سے زیادہ بلند درجہ کا امتی ہوگا ۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو سن کر ہمارا خیال تھا کہ یہ شخص حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہی ہوں گے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت تک ہمارا یہی خیال رہا ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، اس کا ایک فتنہ یہ بھی ہو گا کہ وہ آسمان کو پانی برسانے کا حکم دے گا اور آسمان سے بارش ہو گی وہ زمین کو پیدا وار اگانے کا حکم دے گا اور زمین سے پیداوار ہو گی ۔
اس کا ایک فتنہ یہ بھی ہو گا کہ وہ ایک قبیلے کے پاس جائے گا اور وہ اسے نہ مانیں گے اسی وقت ان کی تمام چیزیں برباد اور ہلاک ہو جائیں گی … دوسرے قبیلے کے پاس جائے گا جو اسے خدا مان لے گا ۔ اسی وقت اس کے حکم سے ان پر آسمان سے بارش برسے گی اور زمین پھل اور کھیتی اگائے گی ان کے جانور پہلے سے زیادہ موٹے تازے اور دودھ والے ہو جائیں گے ۔
سوائے مکہ اور مدینہ کے تمام زمین (ممالک) کا دورہ کرے گا ۔ جب مدینہ کا رخ کرے گا تو یہاں ہر ہر راہ پر فرشتوں کو کھلی تلواریں لئے ہوئے پائے گا تو سنجہ ( کھاری تر زمین) کی انتہائی حد پر ظریب احمر(لال پہاڑی) کے پاس ٹھہر جائے گا ۔پھر مدینہ میں تین بھونچال آئیں گے اس وجہ سے جتنے منافق مرد اور جس قدر منافقہ عورتیں ہوں گی وہ سب مدینہ سے نکل کر اس کے لشکر میں مل جائیں گے اور مدینہ ان گندے لوگوں کو اس طرح اپنے میں سے دور پھینک دے گا جس طرح بھٹی لوہے کی میل کچیل کو الگ کر دیتی ہے ۔ اس دن کا نام یومِ الخلاص ہو گا ۔
ام شریک رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! اس دن عرب کہاں ہوں گے ؟ فرمایا : اولاً تو ہوں گے ہی بہت کم اور اکثریت ان کی بیت المقدس میں ہو گی ۔ ان کا امام ایک صالح شخص ہو گا جو آگے بڑھ کر صبح کی نماز پڑھا رہا ہوں گا جب حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام نازل ہوں گے ۔ یہ امام پچھلے پیروں پیچھے ہٹے گا ۔ تاکہ آپ علیہ السلام آگے بڑھ کر امامت کرائیں ، لیکن آپ علیہ السلام اس کی کمر پر ہاتھ رکھ کر فرمائیں گے کہ آگے بڑھو اور نماز پڑھائو اقامت تمہارے لئے کہی گئی ہے ۔ پس ان کا امام ہی نماز پڑھائے گا ۔
نماز سے فارغ ہو کر آپ علیہ السلام فرمائیں گے دروازہ کھول دو ۔ پس کھول دیا جائے گا ادھر دجال ستر ہزار یہودیوں کا لشکر لئے ہوئے موجود ہو گا جن کے سر پر تاج اور جن کی تلواروں پر سونا ہو گا ، دجال آپ علیہ السلام کو دیکھ کر اس طرح گھلنے لگے گا جس طرح نمک پانی میں گھلتا ہے اور ایک دم پیٹھ پھیر کربھاگنا شروع کر دے گا ۔ لیکن آپ علیہ السلام فرمائیں گے خدا نے مقرر کر دیا ہے کہ تو میرے ہاتھ سے ایک ضرب کھائے گا ، تو اسے ٹال نہیں سکتا ۔ چنانچہ آپ علیہ السلام اسے باب لد کے پاس پکڑ لیں گے اور وہیں اسے قتل کر دیں گے … اب یہودی بد حواسی سے منتشر ہو کر بھاگیں گے ، لیکن انہیں کہیں سر چھپانے کو جگہ نہ ملے گی ہر پتھر ، ہر درخت ، ہر دیوار اور ہر جانور بولتا ہو گا کہ اے مسلمان ! یہاں یہودی ہے آکر اسے مار ڈال ۔ ہاں ببول ( غرقد) کا درخت یہودیوں کا درخت ہے یہ نہیں بولے گا …
حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پھر عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام میری امت میں حاکم ہوں گے ، عادل ہوں گے ، امام ہوں گے ، باانصاف ہوں گے ، صلیب کو توڑیں گے ، خنزیر کو قتل کر یں گے ، جزیے کو ہٹا دیں گے ، حسد اور بغض بالکل جاتا رہے گا ۔ ہر زہریلے جانور کا زہر ہٹا دیا جائے گا ۔ بچے اپنی انگلی سانپ کے منہ میں ڈالیں گے لیکن وہ انہیں کوئی ضرر نہ پہنچائے گا ۔ شیروں سے لڑکے کھیلیں گے ، نقصان کچھ نہ ہو گا ۔ بھیڑیے بکریوں کے گلے ( ریوڑ ) میں اس طرح پھریں گے جیسے رکھوالا کتا ہو ۔ تمام زمین اسلام اور اصلاح سے اس طرح بھر جائے گی جیسے کوئی برتن پانی سے لبا لب پھر ا ہوا ہو ۔ سب کا کلمہ ایک ہو جائے گا ۔ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ ہو گی لڑائی اور جنگ بالکل موقوف ہو جائے گی ۔ زمین مثل سفیدچاندی کے منور ہو جائے گی ۔ ایک جماعت کو ایک انگور کا خوشہ پیٹ بھرنے کے لئے کافی ہو گا ، ایک انار اتنا بڑا ہو گا کہ ایک جماعت کھائے اور سیر ہو جائے ۔ بیل اتنی اتنی قیمت پر ملے گا اور گھوڑا چند درہموں پر ملے گا ۔ لوگوں نے پوچھا اس کی قیمت گر جانے کی کیا وجہ ہو گی ؟ فرمایا اس لئے کہ لڑائیوں میں اس کی سواری بالکل نہ لی جائے گی ۔ دریافت کیا گیا کہ بیل کی قیمت بڑھ جانے کی کیا وجہ ہے ؟ فرمایا اس لئے کہ تمام زمین میں کھیتیاں ہونی شروع ہو جائیں گی ۔
دجال کے ظہور سے تین سال پیشر سخت قحط سالی ہو گی ۔ پہلے سال بارش کا تیسرا حصہ بحکم خدا روک لیا جائے گا اور زمین کی پیداوار کا بھی تیسرا حصہ کم ہو جائے گا۔پھر دوسرے سال خدا آسمان کو حکم دے گا کہ بارش کی دو تہائیاں روک لے اور یہی حکم زمین کو ہو گا کہ اپنی پیداوار دو تہائی کم کر دے ۔ تیسرے سال آسمان سے بارش کا ایک قطرہ نہ برسے گا نہ زمین سے کوئی روئیدگی پیدا ہو گی ۔ تمام جانور اس قحط سے ہلاک ہو جائیں گے ، مگر جسے خدا چاہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ پھر اس وقت لوگ زندہ کیسے رہ جائیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان کی غذا کے قائم مقام اس وقت ان کا لا الہ الا اللہ کہنا اور اللہ اکبر کہنا اور سبحان اللہ کہنا اور الحمد للہ کہنا ہو گا ۔
امام ابن ماجہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میرے استاد نے اپنے استاد سے سنا وہ فرماتے تھے یہ حدیث اس قابل ہے کہ بچوں کے استاد اسے بچوں کو بھی سکھا دیں بلکہ لکھوائیں (تاکہ انہیں بھی یاد رہے ) ( السنن لابن ماجہ ‘ کتاب الفتن ، باب فتنۃ الدجال و خروج عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر قسم کے فتنوں سے بچا کر دین پر استقامت نصیب فرمائے (آمین ثم آمین)
٭…٭…٭
لمحات زندگی کی قدر کیجئے !
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 470)
آج ہم اپنی بات امام حرم شیخ سعود الشریم کے تھوڑا عرصہ پہلے دئیے گئے خطبہ جمعہ سے کرتے ہیں
’’امام الحرم المکی : شیخ سعودالشریم حفظہ اللہ نے خطبہ جمعہ میں فرمایا …
جو آدمی یہ خیال نہیں رکھتا کہ اس کی زندگی میں واٹسپ ، فیس بک اور ٹویٹر کے آنے کے بعد کیا منفی تبدیلی آئی ہے اس کو کیا کرنا چاہیے ملاحظہ کیجئے ۔
انہوں نے کہا کہ یہ سب کچھ انسانی عقل کے لئے ایک فکری یلغار ہے اور انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم ان چیزوں میں مگن ہو کر دین اسلام اور ذکر الٰہی سے دور ہو گئے ہیں اور ایسے لگتا ہے کہ جیسے ہم اللہ کے نہیں بلکہ واٹسپ ، فیس بک اور ٹویٹر کے بندے ہیں ۔
ہمارے دل پتھر کیوں ہو گئے ہیں ؟؟؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ واٹسپ اور دیگر چیزوں پہ مختلف قسم کے خوف ناک دل ہلا دینے والے واقعات اور مناظر دیکھ کر ہمارے دل ایسے حوادثات اور واقعات کو دیکھنے اور سننے کے عادی ہو چکے ہیں جنہوں نے ہمارے دلوں کو کر سخت کر دیا ہے کہ ہمیں کسی چیز کا ڈر نہیں رہا ۔
ہم ایک دوسرے سے جدا اور رشتے داروں سے کیوں کٹ گئے ہیں ۔
کیوں کہ ہمارے رابطے اب واٹسپ اور دیگر چیزوں تک محدود ہو گئے ہیں اور ہم اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کر اسی رابطے کو کافی سمجھتے ہیں لیکن دین اسلام نے ہمیں جو صلہ رحمی کا درس دیا ہے اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے ۔
ہم ایک دوسرے کی غیبت اور بہتان بازی کیوں کرتے ہیں جبکہ ہم آپس میں بیٹھے نہ ایک دوسرے کو دیکھا ؟؟؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں جب بھی کبھی کوئی میسج ملے جس میں کسی کی شخصیت یا کسی جماعت یا گروہ پر تنقید کی گئی ہو ہم بغیر کسی تحقیق کے اسے سینڈ کر کے غیبت اور بہتان بازی میں مبتلا ہو جاتے اور اس وجہ سے ہم کتنے گنہگار ہوتے ہیں اس کا ہمیں اندازہ نہیں ۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ چیزیں ہماری زندگی کا سب سے اہم حصہ بن چکی ہیں ۔
ہم دائیں ہاتھ سے کھاتے تو بائیں میں موبائل دوستوںکی مجلس ہے اور والدین کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے موبائل فون ہمارے ہاتھوں میں جبکہ ان کا احترام کرنا ہم پر فرض ہے ‘ ڈرائیونگ کر رہے ہیں تو موبائل ہمارے ہاتھوں میں حتی کہ ہماری اولاد ہماری شفقت اور محبت سے محروم ہو گئی ہے کیونکہ اس موبائل میں مصروف ہونے کی وجہ سے ہم ان سے بے پرواہ ہو گئے ہیں ۔
ان چیزوں سے سب کچھ اور اس سے بھی زیادہ نقصان ہوا ہے ۔
شیخ سعود الشریم نے فرمایا کہ جو اتنے نقصانات کے بعد بھی ان چیزوں کے دفاع میں بات کرتا ہے میں اس کو فضول سمجھتا ہوں ان الیکٹرانک اشیاء میں ترقی سے پہلے موبائل کو اتنی اہمیت حاصل نہیں تھی اور اب اگر ایک گھنٹہ ہم موبائل سے دور ہو جائیں تو ہماری جان پے بن جاتی ۔ کاش! کہ ہمیں اتنی فکر نماز اور قرآن کی لگ جائے کوئی ہے جو ان تمام باتوں کا انکار کر سکے ۔
کس کو نہیں پتہ کے ان چیزوں کے آنے سے ہماری زندگی میں یہ منفی تبدیلی آئی ہے ۔
آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ ذرا سوچیں … قبر میں ہمارا ساتھی کون ہو گا …
کیا واٹسپ ؟ … کیا ٹویٹر ؟ …
ہمیں اپنے اللہ سے ملاقات کی تیاری کرنی چاہیے اور کوشش کریں کہ کوئی چیز بھی ہمیں ہمارے دین سے غافل نہ کر سکے ہمیں نہیں پتہ کہ ہماری عمر کا کتنا حصہ باقی رہ گیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جس نے میری یاد میں غفلت کی ‘میں دنیا میں اس کا جینا محال کر دوں گا‘‘ ۔
موجودہ دور کے آلات نے ہمیں لمحات ِ زندگی کے بارے میں بالکل بے حس بنا دیا ہے اور ہم بلا سوچے سمجھے اپنی متاعِ زندگی کو بالکل لغو ‘ بیکار ‘ فالتو بلکہ نقصان دہ کاموں میں خرچ کرنے لگ گئے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ وقت کی نا قدری بھی ایک روگ ہے اور جس کو یہ لگ جائے تو یہ آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑتا ۔ اس خطرناک بیماری سے بچنے کیلئے بڑا عزم اور حوصلہ درکار ہوتا ہے ۔
رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کیسے کیسے لمحات ِ زندگی کی قدر و قیمت سمجھائی ۔ ایک حدیث پاک میں ایک صاحب کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
’’ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو ۔ بڑھاپے سے پہلے جوانی کو غنیمت سمجھو۔ بیماری سے پہلے ‘ صحت کو غنیمت سمجھو ۔ اپنی مالداری کو محتاجی سے پہلے غنیمت سمجھو ۔ اپنی فرصت کو مشغولی سے پہلے غنیمت سمجھو اور اپنی زندگی کو موت سے پہلے غنیمت سمجھو ‘‘۔ ( مشکاۃ المصابیح ‘ کتاب الرقاق )
مطلب یہ ہے کہ یہ پانچوں حالات ایسے ہیں کہ ان کا خاتمہ ہونے والا ہے ۔ اس وقت جوانی ہے ‘ لیکن جوانی کے بعد بڑھاپا آنے والا ہے ۔
یہ پانچوں چیزیں ایسی ہیں کہ ان کا خاتمہ ہونے والا ہے اس وقت جوانی ہے ، لیکن جوانی کے بعد بڑھاپا آنے والا ہے ، یہ جوانی ہمیشہ باقی رہنے والی نہیں ہے ، بلکہ یا تو اس کے بعد بڑھاپا آئے گا ۔ یا موت آئے گی ، تیسرا کوئی راستہ نہیں ہے ۔ اس لئے اس بڑھاپے سے پہلے اس جوانی کو غنیمت سمجھو ۔ یہ وقت ‘ توانائی ، اور صحت اللہ تعالیٰ نے اس وقت عطا فرمائی ہے ، اس کو غنیمت سمجھ کر اچھے کام میں لگا لو ۔ بڑھاپے میں تو یہ حال ہو جاتا ہے کہ نہ منہ میں دانت اور نہ پیٹ میں آنت ، اس وقت کیا کرو گے جب ہاتھ پائوں نہیں ہلا سکو گے ، شیخ سعدی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ ؎
وقت پیری گرگ ظالم میشود پرہیز گار
در جوانی توبہ کردن شیوہ پیغمبری
بڑھاپے میں تو ظالم بھیڑیا بھی پرہیزگار بن جاتا ہے ، کیوں ؟ اس لئے کہ کھاہی نہیں سکتا ، ظالم ہی نہ رہا ، اب کس کو کھائے گا ۔ ارے جوانی میں توبہ کرنا پیغمبروں کا شیوہ ہے ، اس لئے فرمایا کہ بڑھاپے سے پہلے جوانی کو غنیمت سمجھو ۔
اس وقت صحت ہے ، لیکن یاد رکھو ، کوئی انسان دنیا کے اندر ایسا نہیں ہے کہ صحت کے بعد اس کو بیماری نہ آئے ۔ بیماری ضرور آئے گی ۔ لیکن پتہ نہیں کب آجائے اس لئے اس سے پہلے اس موجودہ صحت کو غنیمت سمجھ لو ۔
اور اس وقت اللہ تعالیٰ نے مالی فراغت اور مالداری عطا فرمائی ہے ، کچھ پتہ نہیں کہ یہ کب تک کی ہے ، کتنے لوگ ایسے ہیں جن کے حالات بدل گئے ہیں ، اچھے خاصے امیر کبیر تھے ، مگر اب فقیر ہو گئے ۔ خدا جانے کب کیا حال پیش آجائے ، اس وقت کے آنے سے پہلے اس مالداری کو غنیمت سمجھو اور اس کو اپنی آخرت سنوارنے کے لئے استعمال کرلو ۔
اور اپنی فرصت کو مشغولی سے پہلے غنیمت سمجھو ، یعنی فرصت کے جو لمحات اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے ہیں ۔ یہ مت سمجھو کہ یہ ہمیشہ باقی رہیں گے ، کبھی نہ کبھی مشغولی ضرور آئے گی ۔ اس لئے اس فرصت کو صحیح کام میں لگا لو ۔ اور زندگی کو موت سے پہلے غنیمت سمجھو کہ موت پر تو عمل کار جسٹر ہی بند ہو جائے گا ۔
موجودہ دور میں اگر دیکھا جائے تو وقت کی بچت کرنا بہت آسان ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسی ایسی نعمتیں عطا فرما دی ہیں ‘ جو ہمارے آبائو اجداد کے وہم و گمان میں بھی نہ تھیں ۔ پہلے دور میں صرف چائے پکانے کیلئے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے تھے ۔ پہلے لکڑیاں لائی جائیں‘ پھر اُن کو سوکھایا جائے ‘ پھر ان کو سلگایا جائے پھر کہیں جا کر دھویں والی چائے تیار ہوتی تھی ۔ اب الحمد للہ تعالیٰ … ہر طرف گیس کے چولہے ہیں ۔ ادھر ان کا ذرا سا کان مروڑا اور اُدھر چائے تیار ۔ یہی حال کھانے پکانے کے تمام معاملات کا بلکہ زندگی کے تمام معمولات کا ہے ۔ سفر کتنا دشوار اور مشکل ترین ہوتا تھا ۔ بندہ اُس دن عدۃ الفقہاء حضرت مولانا عبدالحیٔ لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ کے خود نوشت حالات ِ زندگی پڑھ رہا تھا ۔ ایک حج کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ ہم لوگ رجب کے مہینے میں ہندوستان سے روانہ ہوئے اور حج کر کے بعافیت صفر کے مہینے میں واپس پہنچ گئے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ چھ سات ماہ صرف حج کیلئے درکار تھے ۔ مگر آج کتنی آسانی ہے ‘ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان فجر کی نماز اپنے گھر میں ادا کرتا ہے اور ظہر کی نماز مسجد ِ حرام یا مسجد نبوی شریف میں جا کر پڑھ لیتا ہے ۔
لیکن افسوس کہ ان تمام سہولتوں کے باوجود آج ہم عبادات اور طاعات میں پہلے لوگوں سے بہت پیچھے ہیں ۔ ہم میں ایسے ظالم بھی ہیں کہ جن کو فرض نماز کا کہا جائے تو کہتے ہیں فرصت نہیں ‘ وقت نہیں ۔ پہلے زمانے میں خواتین کو تمام امورِ خانہ داری خود ہی کرنے ہوتے تھے ‘ اس کے باوجود اُن کے پاس تلاوت ، نوافل اور ذکر اذکار کیلئے اتنا وقت ہوتا تھا کہ آج سن کر مردوں کو بھی شرم آجائے ۔ درحقیقت ہم اپنے لمحات زندگی کو قیمتی بنانے کے بجائے ان کو برباد کر نے پر تلے ہوئے ہیں ۔ شیطان نے ہمیں بھلادیا کہ ایک دن ہم نے مرنا بھی ہے اور اپنے لمحات ِ زندگی کا حساب بھی دینا ہے ۔
پہلے لوگوں کے صرف علمی کارنامے ہی انسان دیکھ لے تو شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے ۔ حضرت مولانا عبدالحیٔ لکھنوی ؒ کوئی اتنے زیادہ دور کے زمانے کے نہیں ۔ ۱۲۶۴ھ میں ولادت ہوئی اور ۱۳۰۴ھ میں وفات ہوئی ۔ اس طرح کل چالیس سال بھی عمر نہیں بنتی لیکن دیگر عبادات و اذکار کے ساتھ ساتھ ایک سو دس کتابیں تحریر فرمائیں ۔
اگر ہم اپنے لمحات ِ زندگی کو قیمتی بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں تین کام آج سے نہیں‘ ابھی سے کرنے چاہئیں :
(۱)… ہر کام میں نیت کی درستگی کہ جو بھی نیکی کا کام کریں گے ‘ اخلاص یعنی صرف رضائے الٰہی کے لیے کریں گے ۔ دنیا کے جو کام بھی حکمِ الٰہی کو پورا کرنے اور اتباع سنت کو پورا کرنے کی نیت سے کیے جائیں وہ بھی باعث اجروثواب بن جاتے ہیں ۔
(۲)… جتنا اور جب بھی وقت ملے ‘ اپنی زبان کو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے تررکھیں ۔ اس میں کوئی محنت لگتی ہے نہ خرچ اور وقت بھی قیمتی بنتا چلا جاتا ہے ۔ بہت سے علماء اور اکابر کو ہم نے دیکھا کہ جہاں ذرا فارغ ہوئے فوراً اپنے آپ کو ذکر میں مشغول کرلیا ۔
(۳)… تیسرا کام ‘ جو اتنا اہم ہے کہ پہلے دو کام بھی شاید اس کے بغیر ممکن نہیں‘ وہ یہ کہ انسان ہر قیمت پر اپنے آپ کو فضول باتوں اور بے کار کاموں سے بچائے۔ ہر وقت اس فکر میں رہے کہ میرا وقت فضولیات میں ضائع نہ ہو جائے ۔ لمحات ِ زندگی کو گن گن اور تول تول کر خرچ کرنے کی عادت بنائے ‘ جو وقت ضائع ہو جائے ‘ اُس پر ندامت اور شرمساری کے ساتھ توبہ کر کے دوبارہ نئے عزم کے ساتھ وقت کی حفاظت کیلئے کمر بستہ ہو جائے ۔ موبائل ‘ کمپیوٹر ‘ فیس بک ‘ واٹسپ اور دیگر ایسی چیزیں استعمال کرنے سے پہلے سوچ لے کہ مجھے اتنی دیر کیلئے ان کا استعمال کرنا دنیا یا آخرت کیلئے مفید ہے ۔ پھر اُس سے ایک منٹ زیادہ ان پر نہ لگائے ۔
موت دبے قدموں ہم میں سے ہر ایک کی طرف بڑھ رہی ہے اور ہم اپنی فضولیات میں مست و مگن ہیں ۔ ان فضولیات سے جان چھڑانے اور اپنے آپ کو صحیح عادات پر لانے کیلئے نفس کو کچھ مجاہدہ میں ڈالنا پڑتا ہے ‘ تب ہی یہ ٹھیک ہوتا ہے ۔
آئیں ! اپنی بے مقصد زندگی کو بامقصد بنانے کیلئے … فضولیات اور لغویات سے پر ہیز کرنے کی مشق کیلئے … عبادات اور ذکر اللہ سے اپنی زندگی سجانے کیلئے… اور لمحات ِ زندگی کو قیمتی بنانے کیلئے آج ہی ’’دورئہ تربیت ‘‘ میں شرکت کا عزم کریں ۔ یہ دورہ آپ سے آپ کا صرف ایک ہفتہ لے کر ایسی نعمتیں دے جائے گا ‘ جو سدا بہار ہوں گی ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ
٭…٭…٭
مسجد ِ اقصیٰ روتی ہے‘ امت مسلم سوتی ہے
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 469)
اسرائیلی فوجی ایک مرتبہ پھر قبلۂ اول مسجد اقصیٰ پر چڑھ دوڑے ہیں … اور اس مسجد کے دروازے اہلِ ایمان پر گذشتہ کئی دنوں سے بند ہیں ‘ صورتحال کچھ یوں ہے کہ ’’ مسجد ِ اقصیٰ روتی ہے ‘ امت ِ مسلم سوتی ہے‘‘ ۔ یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں کہ دشمن نے مسجد ِ اقصیٰ کے بیٹوں کو للکارا ہو ‘ لیکن پہلے اس پکار پر لبیک کہنے والوں کا تانتا بندھا ہوتا تھا …کسی شاعر نے کہا تھا :
اقصیٰ نے پکارا تو خون کھول اٹھا
تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آتے ہیں
ہر مختصر وقفے کے بعد یہودیوں کو مسجد ِ اقصیٰ کا وجود کھٹکنے لگتا ہے اور وہ اس کی شہادت کے درپے ہو جاتے ہیں ۔
اس کے پسِ پردہ یہودیوں کے کیا عزائم کارفرما ہیں؟ اس کیلئے ہمیں صیہونیت کے ماضی میں جھانکنا ہوگا، تاکہ ان کے مذموم عقائد و مقاصد سے آگاہی حاصل ہو اور قبلۂ اوّل کے خلاف اس گھنائونی سازش کی حقیقت سامنے آسکے۔
صہیونی تحریک روز اوّل ہی سے مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنے کے مذموم ارادے رکھتی ہے جو صہیونی دعوؤں کے مطابق دو ہزار سال قبل مسجد اقصیٰ کی جگہ کھڑا تھا اور جسے ۷۰ء میں مکمل طور پر تباہ کردیا گیا تھا۔ چنانچہ صہیونی تحریک کی طویل تاریخ میں یہودی رِبیّ اور تالمود کے فضلاء اس ہیکل کی جزئیات پر غور کرتے رہے ہیں اور ۱۹۴۹ء میں یہودی ماہرین تعمیر کی ایک کمیٹی نے ہیکل کا ایک تعمیراتی ڈیزائن اور خاکہ تیار بھی کرلیاتھا۔
۱۹۶۵ء میں جو عالمی میلہ نیویارک میں منعقد ہوا تھا اس میں یہودی تنظیموں کے اجلاس میں مسجد اقصیٰ کی جگہ تعمیر کیے جانے والے ہیکل کی نمائش کی گئی اور جب ۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے بیت المقدس پر قبضہ کرلیا تو عالمی صہیونی تنظیم نے مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل تعمیر کرنے کیلئے ایک خصوصی فنڈ کا اجراء کیا اور مختصر سی مدت میں بیس کروڑ ڈالر جمع ہوگئے۔ بیت المقدس پر یہودی قبضہ کے ساتھ ہی مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ حرم شریف میں یہودیوں کے اجتماع ہونے لگے، جن میں رقص وسرود اور غیر اخلاقی حرکات کے شرمناک مظاہرے ہوتے ہیں۔ مسجد اقصیٰ کے دروازے یہودی سیاحوں کیلئے کھلے ہیں۔ وہ اپنے کتوں کے ساتھ جوتے پہنے حدودِ مسجد میں گھومتے پھرتے ہیں اور قبۃ الصخراء اور مسجد کی حدود میں یہودی جوڑے کھلے بندوں بوس وکنار میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہودیوں نے ایک ماہ کے اندر اندر ’’البراق الشریف‘‘ کے سامنے والے چوک تک ایک نیا کشادہ راستہ تعمیر کرنے کیلئے مسلم اوقاف کی ایک مسجد اور ۱۳۵ عمارتوں کو ڈائنامیٹ سے اُڑادیا۔ البراق الشریف مسجد اقصیٰ کی مغربی دیوار سے ملحق ہے۔ یہ وہی مقام ہے جہاں سرور کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم نے شب معراج کے موقع پر اپنے براق کو باندھا تھا۔ یہودی اس جگہ کو ’’دیوارِ گریہ‘‘ کہتے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ دیوار گریہ پر یہودی دعویٰ کو ۱۹۳۰ء میں اقوام متحدہ کی مقرر کردہ عالمی کمیٹی رد کرچکی ہے۔
اسرائیل نے مارچ ۱۹۶۸ء میں اپنے ماہرینِ آثارِ قدیمہ کو مسجد اقصیٰ کے نیچے اور اس کے نواحی علاقے میں کھدائی پر مامور کردیا تاکہ یہودی ہیکل کے آثار تلاش کیے جاسکیں۔ وہ حرم الشریف کی حدود میں بھاری مشینری کے ساتھ داخل ہوئے اور جگہ جگہ سے اس مقدس مقام کی کھدائی ہونے لگی اور یہودیوں نے مسجد کے نیچے ایک سرنگ نکالی۔ چنانچہ ۱۰جون ۱۹۶۸ء کو یروشلم سنڈے پوسٹ نے ان ماہرین اور مشینوں کو حرم الشریف میں کھدائی کرتے ہوئے دکھایا اور دو صفحات پر پھیلے ہوئے اس تصویری فیچر کا عنوان ’’ہیکل کی دیواروں کی تلاش‘‘ قائم کیا۔ اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ لکھتا ہے:
’’۷۰ء میں ٹیٹوس کی آگ نے ہیکل کا کوئی نشان نہیں چھوڑا صرف ہیرود کی تعمیر کردہ دیواروں کے آثار باقی ہوں گے یا جیسا کہ ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ ایک صدی قبل مسیح میں ہیکل کے اردگرد چاروں طرف جو فٹ پاتھ تھا اس کے آثار یا اس فٹ پاتھ کی دریافت ہے۔ اس مہم کی نگرانی پروفیسر بینجمن مازار کررہے ہیں۔ پروفیسر مازار کے کاریگروں کی پوری توجہ دیوار گریہ اور اس سے متصل جنوبی دیوار کے ساتھ ستر میٹر کا رقبہ ہے۔‘‘
پروفیسر بینجمن نے یروشلم پوسٹ کے نمائندے کو بتایا کہ ’’ہم تیرھویں چودھویں صدی کی سطح سے ہیرود کے عہد کی گہرائی تک کھدائی کریں گے۔ بعد ازاں پہلے ہیکل کی بنیادیں تلاش کی جائیں گی۔‘‘
جیسا کہ اوپر کہا جاچکا ہے کہ صہیونیوں نے اپنی اس سیاسی اور مذہبی آرزو کو کبھی نہیں چھپایا کہ وہ مسجد اقصیٰ کو گراکر اس جگہ ہیکل تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی یہ خواہش اتنی ہی قدیم ہے جتنی صہیونی تحریک ہے۔ صہیونی ہمیشہ سے کہتے رہے ہیں کہ ’’یروشلم کے بغیر صہیون اور یہودی ہیکل کے بغیر یروشلم کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
۲۰نومبر ۱۹۳۰ء کو رومانیہ کے ربی اعظم ’’ابراہام روزنباش‘‘ نے مفتی اعظم فلسطین الحاج امین الحسینی کو ایک خط لکھا جس میں اس نے مسجد اقصیٰ کو یہودیوں کے حوالے کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ تاکہ یہودی مذہبی عبادات کرسکیں۔ اس قسم کا ایک خط اس نے حکومت فلسطین کے سیکریٹری جنرل کو بھی لکھا مگر دال نہ گلی۔ چنانچہ ۱۹۴۸ء کی جنگ میں یہودیوںنے دوبارہ مسجد اقصیٰ پر زبردست بمباری کی اور مسجد کے گنبد اور قبۃ الصخراء کو نشانہ بنا کر گولہ باری کی جس سے مسجد کی دیواروں ، قبۃ الصخراء اور گنبد اقصیٰ کو شدید نقصان پہنچا۔ یہودیوں نے اپنے حصول مقصد کیلئے جان کی بازی لگادی۔ ہزاروں افراد اس غرض کی خاطر جنگ میں جھونک دئیے لیکن فلسطینی مجاہدین نے ان کے ہر حملے کو پسپا کردیا۔ ہزاروں یہودی قتل ہوئے۔ آخر پسپا ہوگئے اور اقوام متحدہ کی تحریک پر فریقین میں جنگ بندی ہوگئی۔ تاہم تل ابیب میں ربی اعظم نے اعلان کیا:
’’اسرائیل کا دارالحکومت تل ابیب نہیں بیت المقدس ہوگا کیونکہ ہیکل سلیمانی اسی شہر میں تھا۔‘‘
صہیونیت ایک سیاسی ومذہبی تحریک ہے اور اس کا داعی اسرائیل مسلسل اپنے پوسٹ کارڈوں پر مسجد اقصیٰ اور دوسرے مسلم مقامات کی تصاویر چھاپتا رہا۔ ان پر یہودی پرچم لہراتا نظر آتا اور یہ تأثر دیا جاتا کہ یہ یہودی مقامات ہیں۔ آخر جون ۱۹۶۷ء کی جنگ میں یہودی نہ صرف مسجد اقصیٰ پر قابض ہوئے بلکہ جبرون میں سیدنا ابراہیم الخلیل علیہ السلام کا حرم شریف بھی ان کے قبضے میں چلا گیا۔ حرمِ خلیل اﷲ پر قبضہ کے فوراً بعد انہوں نے اس پر یہودی پرچم لہرا دیا اور عبرانی زبان میں جگہ جگہ تختیاں نصب کردیں کہ ’’یہ یہودی ملکیت ہے‘‘۔ مسلمانوں کا داخلہ اس مقدس مسجدمیں بند کردیا گیا۔ ان سے کہا گیا کہ وہ صرف جمعہ کی نماز یہاں اداکرسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اسے ایک ’’یہودی عجائب گھر‘‘ میں بدل کر یہودی سیاحوں کی سیرگاہ میں تبدیل کردیا گیا۔ مسلمانوں نے اس پر شدید احتجاج کیا لیکن ان کی قوت مدافعت جواب دے گئی اور یہودی اس پر اپنا قبضہ مستقل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
۲۱؍اگست ۱۹۶۹ء کو دنیائے اسلام کا المناک ترین سانحہ پیش آیا۔ اس روز ساڑھے تین گھنٹے تک مسجد اقصیٰ میں آگ بھڑکتی رہی جس سے جنوب مشرقی جانب عین قبلے کی طرف چھت کا بڑا حصہ گر پڑا۔ مسجد کا یہ حصہ عین اس مقام پر تھا جہاںسے سرور کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے سفر معراج کا آغاز فرمایا تھا۔ اس کے قریب ہی البراق (دیوار گریہ) ہے جو محفوظ رہی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کا یادگار منبر جل کر راکھ سیاہ ہوگیا اور دوسرے متعدد نوادر بھی آگ کی نذر ہوگئے۔ یہ آگ اسرائیل نے لگوائی تھی۔ گو اسرائیل نے اپنے جرم کو چھپانے کیلئے ایک شخص روہن کو گرفتار کیا اور اس پر مقدمہ چلایا لیکن اسے جو معمولی سزا دی گئی اس سے کوئی شبہ نہیں رہا کہ اس کے پیچھے صہیونی عزائم کارفرما تھے جو اس جگہ ہیکل کی تعمیر کے خواب صدیوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اس آتشزدگی کے بعد سرزمین القدس ایک بار پھر مسلمانوں کے خون سے لالہ زار ہوگئی جو اپنی بے بسی کے باوجود اسرائیل کے خلاف گلیوں میں نکل آئے تھے۔ مزید برآں سارے عالم اسلام میں غیض وغضب کی لہر دوڑ گئی لیکن تاحال مسجد اقصیٰ کے بام دور اس ایوبی کے منتظر ہیں جو اسے پھر کفار کے نرغے سے نجات دلا کر اس کی حرمت بحال کرے۔
۲۸ ستمبر ۲۰۰۰ء بروز جمعرات کو صابرہ اور شتیلہ کے مقام پر ہزاروں مسلمانوں کو قتل کرنے والے دہشتگرد یہودی جرنیل ایریل شیرون نے آنے والے اسرائیلی وزیراعظم کے انتخابات جیتنے کیلئے حزب مخالف کے لیڈر کی حیثیت سے اپنے گندے وجود سے مسجد اقصیٰ کے تقدس کو پامال کیا۔ ایریل شیرون کی اس ناپاک جسارت پر مسلمانوں نے اس کے خلاف زبردست احتجاج کیا۔ جس کے بعد یہودی دہشت گرد فوج اور مسلمانوں میں جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ ان خونی جھڑپوں میں (۲۸ ستمبر۲۰۰۰ء سے ۲۱؍اکتوبر۲۰۰۰ء تک) ۱۰۰ سے زائد نہتے مسلمان شہید اور ہزاروں زخمی ہوئے ہیں۔ فلسطین میں جاری انتفاضہ کی حالیہ تحریک شیرون ملعون کے مسجد اقصیٰ میں اسی داخلے کے بعد سے شروع ہوئی اور آج تک جاری ہے۔
ان مختصر سی تفصیلات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہودیوں نے مسجد اقصیٰ کو شہید کرنے اور اسے اپنے ناپاک پیروں تلے روندنے کی بارہا جسارت کی، لیکن تجربات نے یہ ثابت کردیا کہ یہودیوں کی ایسی کوئی بھی کھلی اور ظاہری کوشش کامیاب نہیں ہو سکی۔ چنانچہ انہوں نے اپنے ناپاک اور مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے مسجدِ اقصیٰ کے دروازے مسلمانوں پر بند کر کے خفیہ طورپراس کی عمارت کو کھوکھلا کرنے کیلئے عمارت کی بنیادوں میں چھپ چھپ کر سرنگیں کھودنے کا سلسلہ بھی برقرار رکھا ہوا ہے۔مسجدِ اقصیٰ آج بھی زبانِ حال سے مسلمان حکمرانوں اور عوام کو پکار رہی ہے ـ :
یہ مسلمانوں پہ اسرائیل کے ظلم و ستم؟
شرم اے شاہانِ دنیا، شرم اے اہلِ حرم
خون مسلماں کا یہاں اس درجہ ارزاں ہوگیا
دیکھتے ہی دیکھتے القدس ویراں ہوگیا
جو تجھے بیدار رکھتی تھی وہ غیرت کیا ہوئی
اے مسلماں! آج وہ تیری حمیت کیا ہوئی؟
اپنی عظمت خود ترے ہاتھوں سے تاراج کیوں
عیش و عشرت میں مگن ہے اس قدر تو آج کیوں؟
دندناتے پھر رہے ہیں تیرے ملکوں میں یہود
اس قدر کمزور و بے حس ہو گیا تیرا وجود؟
کی گئیں پامال تیری بیٹیوں کی عصمتیں
فوجِ صہیونی کے ہاتھوں اُف یہ تیری ذلتیں
اے مسلماں کیا ہوا وہ جوشِ ایمانی ترا؟
تجھ میں کیا باقی نہیں وہ عزم قربانی ترا
نام کے ڈنکے ترے بجتے تھے دنیا میں کبھی!
پھول کھلتے تھے قدم سے تیرے صحرا میں کبھی
ولولہ اک سرفروش کا وہ تیرے خوں میں تھا
تیری جانبازی کا چرچا گنبدِ گردوں میں تھا
جب تلک سینے میں تیرے گرمیٔ ایماں رہی
لرزہ براندام تجھ سے گردشِ دوراں رہی
وقف کر دے خود کو گر تو دین و ملت کے لئے
رحمت حق آئے بڑھ کر تیری نصرت کے لئے
اللہ تعالیٰ مسجدِ اقصیٰ اور اہل ِ فلسطین کی حفاظت فرمائے اور لال مسجد سے لے کر مسجد اقصیٰ تک ‘ اللہ کے گھروں کو ویران کرنے والوں کو نشانِ عبرت بنائے۔ (آمین)
٭…٭…٭
شوقِ شہادت… ایک سعادت
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 468)
محرم الحرام کا مہینہ بلاشبہ شہادتوں کا موسم ہے۔
اس مہینے کی یکم تاریخ کو امیر المؤمنین خلیفۂ دوم سیدنا حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی شہادت کا المناک سانحہ پیش آیا۔ اسی ماہ کی دس تاریخ کو نواسۂ رسول، جگر گوشۂ بتولؓ سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا جاں گداز واقعہ پیش آیا۔ یہ دونوں واقعات ایسے ہیں جنہوں نے تاریخ اسلام پر گہرے نقوش چھوڑے اور صدیوں بعد بھی ان گہرے زخموں کا درد اور کسک محسوس کی جا سکتی ہے۔
رحمتِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات نے جہاں مسلمانوں کیلئے زندگی کو قیمتی بنایا اور اس کو گزارنے کیلئے وہ طور طریقے سکھائے جن کی بدولت انسانی حیات کی قدروقیمت میں اضافہ ہوا تو وہاں ہی ایک مسلمان کی موت کو بھی بہت اعلیٰ اور ارفع بنا دیا۔ اگر ایک مسلمان دین کی خاطر اپنی گردن کٹواتا ہے اور اپنے لہو کا نذرانہ راہِ الٰہی میں پیش کرتا ہے تو وہ ایسا انمول اور بے بہا ہو جاتا ہے کہ لاکھوں زندگیاں بھی اُس کی ظاہری موت پر قربان کی جا سکتی ہیں۔ سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت دونوں ہی اسلام کا نصب العین اور طرّہ امتیاز ہیں۔
قرآن و سنت نے شہادت کے جو فضائل بتائے اور اس پر جو انعاماتِ الٰہی گنوائے، اُن پر یقین رکھنے والے حضرات کی ایسی بے مثال جماعت تیار ہوئی جن کیلئے شہادت سے بڑھ کر اور کوئی انعام نہیں تھا۔ اُن کے سپہ سالار برسرِ میدان دشمنوں کو کہتے تھے:
’’اللہ کی قسم! میرے ساتھ وہ لوگ ہیں جو موت سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسے تم لوگ شراب کو محبوب رکھتے ہو۔‘‘
آئیں! صحابہ کرامؓ کے شوقِ شہادت کی صرف دو جھلکیاں ملاحظہ کرلیتے ہیں:
(۱)سید الشہداء حضرت حمزہؓ کے بھانجے عبداللہؓ بن جحش اور سعد بن ابی وقاصؓ دونوں گہرے دوست تھے۔ جنگ احد شروع ہونے سے پہلے عبداللہ نے سعد سے کہا، آئو دونوں کہیں الگ تنہائی میں بیٹھ کر اللہ سے کچھ مانگیں اور ایک دوست دوسرے کی دعا پر آمین کہے۔
سعد فرماتے ہیں کہ ہم دونوں نے ایک گوشہ تنہائی تلاش کیا اور ایک طرف جا کر بیٹھ گئے۔ پھر میں نے دعا مانگی کہ اے اللہ آج ایسے دشمن سے مقابلہ ہو جو نہایت شجاع، دلیر اور بہادر ہو، بہت غصیلا بھی کہ غصہ میں آکر مجھ پر حملہ کرے، پھر میں اس کا اور وہ میرا مقابلہ کرے پھر اس کے بعد مجھے اس پر غلبہ عنایت فرما یہاں تک کہ میں اسے قتل کردوں۔ عبداللہ سعد کی دعا پر آمین کہتا رہا۔
پھر عبداللہ نے دعا مانگنا شروع کی کہ اے اللہ آج ایسے دشمن سے میرا مقابلہ ہو جو نہایت سخت ہو، زور آور اور غصے کا تیز ہو۔ وہ مجھ پر حملہ کرے اور اے اللہ میںمحض تیری ذات کیلئے اس پر حملہ کروں۔ آخر کار وہ مجھے قتل کردے۔ میری ناک کاٹ لے۔ میرے کان کاٹ دے اور میرے پروردگار جب میری اور تیری ملاقات ہو تو، مجھ سے پوچھے عبداللہ، تیری ناک اور تیرے کان کہاں گئے؟ تو میں عرض کروں تیری اور تیرے پیغمبر علیہ السلام کی راہ میں کاٹ دئیے گئے تھے، اور اے اللہ تو کہہ دے کہ عبداللہ تو نے سچ کہا۔
سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ کی روایت میں یہ لفظ ہے کہ عبداللہ بن جحش نے دعا مانگی اور کہا:
’’اے اللہ میں تجھے قسم دیتا ہوں کہ میں تیرے دشمنوں کا مقابلہ کروں پھر وہ مجھے قتل کردیں۔ میرا پیٹ چاک کردیں، میری ناک کاٹ دیں اور کان کاٹ لیں اور پھر جب آپ سے ملاقات ہو اور آپ مجھ سے پوچھیں ایسا کیوں ہوا؟ تو میں کہہ دوں محض تیری خاطر ‘‘
سعد اس دعا پر آمین کہتے رہے۔
عبداللہ کو اپنی اس دعا کی قبولیت کا اس قدر یقین ہوگیا تھا کہ وہ تھوڑی دیر بعد یہ کہنے لگے۔ میرے اللہ میں تیری قسم کھاتا ہوں کہ میں ضرور تیرے دشمنوں سے لڑوں گا یہاںتک کہ وہ مجھے قتل کردیں گے اور پھر میری ناک اور کان کاٹ لیں۔
معرکہ کارزار شروع ہوا، اور پہلے حضرت سعدرضی اللہ عنہ کی دعا کے آثار قبولیت نمایاں ہوئے۔ انہوں نے مکہ مکرمہ کے ایک قریشی سردار کو قتل کیا۔
پھر عبد اللہ بن جحش نے جو کچھ مانگا تھا، پورا ہوا، وہ اس جوش سے لڑے کہ تلوار ٹوٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی، دیر تک لڑتے رہے۔ پھر ابوالحکم ابن اخنس ثقفی سے مقابلہ ہوا اور اس کے ایک وار نے تمنائے شہادت کی تکمیل کردی۔ مشرکین نے ناک کاٹی پھر کان کاٹ ڈالے اور دھاگے میںپرو دئیے۔ سعد رضی اللہ عنہ نے یہ منظر دیکھا تو بے اختیار کہنے لگے۔ اللہ کی قسم عبداللہ تیری دعا میری دعا سے اچھی تھی۔
اس دعا کی قبولیت اللہ تعالیٰ کے ہاں اس قدر بھرپور طریقے سے ہوئی کہ مسلمانوں میں ان کا نام عبداللہ بن جحش المجدع فی سبیل اللہ (عبداللہ بن جحش، وہ جس کے ناک اور کان اللہ کے راستے میں کاٹے گئے)پڑ گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ پڑھایا اور اس ’’المجدع فی سبیل اللہ‘‘ کو اپنے چچا سید الشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ ایک ہی قبر میں دفن کردیا۔(اسد الغابہ)
(۲)بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار میں سے بارہ نقیب منتخب فرمائے۔ ان میں سے نو کا تعلق خزرج سے تھا اور تین کا قبیلۂ اوس سے۔ اوس کے سرداروںمیں سے ایک سعد بن خیثمہ بھی تھے۔ سعد خود بھی صحابہ میں سے تھے اور یہی شرف ان کے والد حضرت خیثمہ کو بھی حاصل تھا۔غزوۂ بدر کیلئے جب صحابہ کرام مدینہ منورہ سے نکل رہے تھے تو ان کے والد نے کہا:
’’بیٹا عورتوں اور بچوں کی حفاظت کیلئے ہم میں سے ایک کا گھر پر ٹھہرنا ضروری ہے تم یہ قربانی دو اور مجھے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جانے دو۔‘‘
اس پر حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اپنے والد محترم کو جو جواب دیا وہ ان کے ایمان اور اللہ سے گہرے تعلق کی روشن دلیل ہے۔ سعد نے بالکل انکار کردیا اور کہنے لگے:’’ابو جنت کے علاوہ اگر کوئی اور معاملہ ہوتا، تو میں یہ قربانی دیتا، لیکن مجھے اللہ سے پوری امید ہے کہ وہ اس سفر میں مجھے شہادت نصیب فرمائے گا۔‘‘
باپ نے بیٹے کی یہ بات سننے سے انکار کردیا اور بحث شروع ہوگئی۔ دونوں موت کی آغوش میںجانے کیلئے بے قرار ہیں اور پھر ہر ایک کی تمنا یہ ہے کہ کسی بھی طور وہ حق بندگی ادا کرے، قضیہ پھیلتا چلا گیا اور آخر کار باپ اور بیٹے نے قرعہ اندازی کا فیصلہ کرلیا کہ جس کا بھی نام نکلے اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھ کر قبول کرلیا جائے۔ قرعہ اندازی ہوئی تو حضرت سعد ؓ کا نام نکل آیا۔ شاداں و فرحاں ’’بدر‘‘ کی طرف روانہ ہوئے۔
اس پہلی رزم حق و باطل میں جن حضرات کو شہادت کی عظمت سے سرفراز فرمایا گیا ان میں سے ایک یہ بھی تھے۔ بدر میں پہنچے تو طعیمہ بن عدی سے مقابلہ ہوا۔ جس چیز پر قرعہ اندازی کی وہ مل گئی اور جس جنت کو وہ دیکھ رہے تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں وہاں پہنچادیا۔
کوئی آدمی اللہ تعالیٰ کیلئے اس قدر آسانی سے نہ صرف یہ کہ جان دے دے بلکہ اس مقصد کیلئے باپ بیٹے میں قرعہ اندازی ہونے لگے۔ اس دور میں یہ معاملہ سمجھنا اور سمجھانا بہت مشکل ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ ہم نے زندگی کو موت پر ترجیح دے رکھی ہے، جبکہ انہوں نے موت کو زندگی پر ترجیح دی تھی۔ ہمیں تو زندگی گزارنے کا ڈھنگ نہیں آتا انہیںجینے اور مرنے کے اصول و قواعد، اسباب وعلل تمام حقیقتیں معلوم تھیں، جن عظیم مقاصد کی تکمیل وہ کرنا چاہتے تھے۔ ان کا یقین اس راہ کی دشواریاں آسان کردیتا تھا۔ ہم اس یقین کاذکر تو کیا کریں ان مقاصد ہی کی خبر نہیں جن کیلئے وہ اپنی جان پرکھیل گئے۔ علامہ اقبال نے ایسے ہی حضرات کے بارے میں کہا تھا۔ ؎
اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دل فریب اس کی نگہ دل نواز
نرم دم گفتگو گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاک باز
حضرت سعدؓ بدر میںشہید ہوئے اس کے ایک سال بعد احد کا کارزار گرم ہوا۔ باپ خیثمہ رضی اللہ عنہ جو قرعہ اندازی میں رہ گئے تھے، اپنے بیٹے کو خواب میں دیکھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارکہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔
’’اللہ کے رسول میں نے کل رات اپنے بیٹے کو خواب میں دیکھا، نہایت حسین وجمیل شکل میںہے جنت کے باغات اور نہروں میں سیر وتفریح کر رہا اور کہتا ہے ابو آپ بھی یہیں آجائیں۔ دونوں جنت میں اکٹھے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے جو مجھ سے وعدہ کیا تھا وہ پورا ہوگیا۔‘‘
اپنی بات مکمل کی اور عرض کیا:
’’یا رسول اللہ ! مجھے بدر میں شرکت کی تمنا تھی، اس سعادت کو حاصل کرنے کیلئے مجھ میں اور میرے بیٹے میں قرعہ اندازی ہوئی، وہ جیت گیا، اس کے نام قرعہ نکلا اور وہ شہید ہوگیا، میں رہ گیا، اس کا بہت افسوس ہے‘‘
پھر اپنی عمر کا حال بیان کیا اور تمنا کی وہی عرض کی کہ…
’’اللہ کے رسول اب بیٹے سے ملنا چاہتا ہوں۔ بوڑھا ہوگیا ہوں، ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں اور اب تمنا یہ ہے کہ کسی طرح اپنے پروردگار سے جاملوں۔ یارسول اللہ دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ شہادت نصیب فرمائے اور میں اپنے بیٹے سعد سے جنت میں جا کر مل لوں۔‘‘
اس سچی طلب، جہاد کی تڑپ اور شہادت کی تمنا کیلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعا کرنے میں کیا چیز مانع ہو سکتی تھی۔
ابن قیم فرماتے ہیں:’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کیلئے دعا فرما دی اور وہ احد میں شہید ہوئے۔‘‘
باپ جو بوڑھا ہوچکا تھا، جس کی ہمت جواب دے رہی تھی اپنے بیٹے سعد کے پاس جنت میں پہنچ گیا۔ وہ خود بوڑھا تھا مگر شوق شہادت جوان تھا۔ جسم کمزور تھا مگر عزائم مضبوط تھے۔ جان سے باپ بیٹا دونوں گزر گئے مگر آن قائم رکھی۔اپنے بعد میں آنے والوں کو یہ نصیحت سکھانے کیلئے کہ
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا
وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے
اس جان کی تو کوئی بات نہیں
انہی اہل عزیمت کے وارث آج بھی کشمیر کے کوہساروں میں، افغانستان کے برف پوش پہاڑوں میں، فلسطین کے گلی کوچوں میں اور عراق و شام کے شہروں دیہاتوں میں جسموں پر اسلحہ سجائے اور دلوں میں آرزوئے شہادت لئے وقت کے ستم پیشہ کفار سے برسرِپیکار ہیں۔ آفرین ہے ان جوانوں پر جن کی جوانیاں قبلۂ اوّل کی حفاظت کیلئے، حرمین شریفین کے تحفظ کیلئے، بلادِ اسلامیہ کی آزادی کیلئے اور سب سے بڑھ کر فریضۂ جہاد کی بقاء اور آبیاری کیلئے کام آرہی ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ’’فاروقی‘‘ اور ’’حسینی‘‘ کہلانا سجتا ہے اور تاریخ میں عظمت و عزت کے تاج انہی پیشانیوں کا حسین جھومر بنیں گے۔
شہادتوں کا موسم پورے جوبن پر ہے، آزمائش کے طوفان پوری شدت سے رواں دواں ہیں، کفر کی آندھیاں مخلص و منافق اور کھرے و کھوٹے میں خطِ امتیاز کھینچ رہی ہیں۔ ایسے میں تاریخِ اسلام کے لاکھوں شہداء کا خون مسلمانوں کو اُن کی عزت اور آزادی کی راہ دکھا رہا ہے۔
صلائیِ عام ہے یارانِ نکتہ داں کیلئے
٭…٭…٭
روشن خیالی یا خود کشی؟
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 467)
ہمارا سال ماہِ محرم الحرام سے شروع ہو کر ‘ ماہِ ذی الحجہ پر اختتام پذیر ہوتا ہے ۔ اس سال میں بھی کل بارہ مہینے ہوتے ہیں ۔ عام طور پر مسلمانوں کو ان بارہ میں سے صرف چار کے نام آتے ہیں ۔ محرم اور ربیع الاول ‘ جلسے جلوسوں کی وجہ سے اور رمضان و ذی الحجہ عبادات کی وجہ سے یاد رہتے ہیں ۔ باقی عیسوی سال تو وہ بچوں ‘ بڑوں سب کو اچھی طرح معلوم بھی ہوتا ہے اور اُس کے مہینے ازبر بھی ہوتے ہیں ۔
اسلامی ہجری قمری سال مسلمانوں کی شناخت اور پہچان ہے ۔ اسی کی تاریخوں کے حساب سے ہی ہم رمضان کے روزے رکھتے ہیں اور حاجی حضرات ‘ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔ مسلمانوں کے بہت سے کاموں میں اسی کی تاریخیں کار آمد ہوتی ہیں ۔
زکوٰۃ کے بارے میں جو علماء کرام بتاتے ہیں کہ سال پورا ہونے کے بعد ہر صاحب نصاب پر فرض ہو جاتی ہے تو اُس سے بھی مراد یہی سال ہوتا ہے ‘ جنوری فروری والا عیسوی سال نہیں ۔ اسی طرح خواتین کی عدت ‘ جب مہینوں اور دنوں کے حساب سے ہوتی ہے تو اُس میں بھی اسی سال کے مہینے کام آتے ہیں ۔
مسلمانوں کے دینی مسائل عمومی ناواقفیت کی وجہ سے علماء کو یہ مسئلہ بھی بتانا پڑا کہ اس تقویم ( کلینڈر ) کی حفاظت مسلمانوں کے ذمے فرض ِ کفایہ ہے اور اگر اس کو عام طور پر بھلا دیا گیا تو تمام مسلمان گناہگار ہوں گے ۔
اسلامی سال کو سنہ ہجری اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کی نسبت سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر ہجرت کی طرف ہے اور یوں اسلامی سال کاآغاز ہر مسلمان کو اُن کے پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ عظیم قربانی یاد دلاتا ہے، جس کا صحیح احساس صرف وہ ہی لوگ کر سکتے ہیں جنہیں کبھی ہجرت جیسے عمل سے واسطہ پڑا ہو۔ اپنے گھر بار کو چھوڑ نا اپنے وطن، اپنے عزیزوں، دوستوں سے ترکِ تعلق کرنا اور اپنی حسین یادوں کو پائوں تلے کچل کر محض رضاء الٰہی کی خاطر کسی اجنبی جگہ مستقل ٹھکانہ بنا لینا، یہ سب کچھ قلم سے لکھ لینا اور زبان سے کہہ دینا تو آسان ہے لیکن اس آزمائش پرپورا اُترنا بڑا مشکل کام ہے۔
پھر مکۃ المکرمہ جیسا بابرکت شہر جسے ’’امّ القریٰ‘‘ کا لقب عطا ہوا ہے، بیت اللہ الحرام کا پڑوس، ابراہیم خلیل اللہ اور اسماعیل ذبیح اللہ علیہما السلام کی پاکیزہ یادوں کا امین اور برسہا برس سے مہبطِ وحی بننے کا اعزاز رکھنے والا مقدس شہر، اس کو چھوڑنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو جذبات تھے وہ اس محبت آفریں جملے سے جھلک رہے ہیںجو بیشتر کتب حدیث و تاریخ میں نقل کیا گیا ہے۔ آپ نے سرزمین مکہ کو مخاطب کرکے فرمایا تھا:
’’تو کتنا اچھا شہر ہے اور مجھے کس قدر عزیز و محبوب ہے، اگر میری قوم مجھے یہاں سے نہ نکالتی تو میں تیرے سوا کسی اور جگہ سکونت اختیارنہ کرتا۔‘‘(باب فضلِ مکہ، سنن ترمذی)
اس موقع کی مناسبت سے ہجرت نبوی کے مبارک واقعہ کا مختصر ذکر بھی مناسب معلوم ہوتا ہے ۔
جب کفار مکہ نے دارالندوہ کے اجلاس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہلاک کرنے کا منصوبہ بنا لیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو مکہ مکرمہ سے ہجرت کا حکم دیا ‘ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا زاد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلا کرتا کید کی کہ ’’ میرے بستر پر میری چادر اوڑھ کر لیٹ جائو اور صبح لوگوں کی امانتیں واپس کر کے یثرب چلے آنا ‘‘ ۔ پھر اسی رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم دروازے پر کفار کے مقرر کردہ قاتلوں کی آنکھوں میں دھول ڈالتے ہوئے اپنے گھر سے نکلے ‘ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ہاں پہنچے اور انہیں ساتھ لے کر شہر سے جنوب کو ہو لیے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مشرک عبداللہ بن اریقط سے کچھ رقم پر طے کر لیا تھا کہ وہ ان کو خفیہ راستوں سے مدینہ لے جائے گا ۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنی دونوں اونٹنیاں اس کے سپرد کر دی تھیں کہ وقت مقررہ تک وہ ان کو چراتا رہے اور سنبھال کر رکھے ۔ جب آپ مکہ مرکمہ سے نکلے تو علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ابو بکر رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل خانہ کے سوا کسی کو آپ کے نکلنے کا علم نہ تھا ۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی معیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار ثور پہنچے اور اس میں داخل ہو گئے ۔ جب مشرکین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے نکل جانے کا پتہ چلا تھا تو ابو جہل نے ان کی گرفتاری کے لیے سو اونٹ انعام مقرر کر دیا تھا ۔ قریش تلاش کرتے ہوئے اس پہاڑ پر بھی آ چڑھے تھے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے بلکہ وہ غار کے منہ کے پاس بھی پھرتے رہے لیکن وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکے ۔
سفر یثرب کے دوران میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کھوج لگانے والوں میں سراقہ بن مالک بن جعشم بھی تھے جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے ۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچے تو ان کے گھوڑے کے پائوں زمین میں دھنس گئے ۔ یہ معجزہ دیکھ کر اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے امان پا کر سراقہ لوٹ گئے ۔ یثرب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا شدت سے انتظار ہو رہا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہر کے نزدیک پہنچے تو مسلمانوں نے مسلح ہو کر حَرہ (ایک پتھریلے میدان) میں آپ کا باضابطہ استقبال کیا اور پھر اسلحہ کی چھائوں میں آپ کو لے کر مدینہ کی طرف چلے ۔ راستے میں آپ دائیں طرف کو مڑے اور بستی قباء میں بنو عمرو بن عوف کے ایک صاحب کلثوم بن ہِدم کے ہاں اترے ۔ یہ پیر کا دن تھا ‘ تاریخ ۸ ؍ربیع الاول تھی اور آپ کی بعثت کا تیرہواں سال تھا۔ مصنف ’’ رحمۃ للعالمین ‘‘ کے مطابق اس روز عیسوی تاریخ 23ستمبر 622ء تھی ۔ آپ قباء میں چودہ دن ٹھہرے جیسا کہ صحیح بخاری میں سید نا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔
قباء سے روانہ ہوئے تو تھوڑے ہی فاصلے پر نماز جمعہ کا وقت ہو گیا ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو سالم بن عوف کے علاقے میں ’’وادیٔ رَانوناء ‘ُ‘ کے مقام پر دوسرے حاضرین سمیت جمعہ ادا فرمایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقام پر ایک مسجد کی بنیاد رکھی جسے بعد میں ’’ مسجد جمعہ ‘‘ کہا جانے لگا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قباء سے مدینہ تشریف لانے کا ارادہ فرمایا تو اپنے ننھیال ’’ بنو نجار ‘‘ کو پیغام بھیجا ۔ وہ ہتھیار سجا کر آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہو کر ان کے جلو میں چلے ۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ کے پیچھے سوار تھے ۔ بنو نجار اور مسلمانوں کا ایک ہجوم‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد تھا ۔ کسی گھر کے پاس سے گزرتے تو اس گھر والے آپ سے اترنے کی درخواست کرتے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے :’’ میری اونٹنی کو چلنے دو ‘ یہ اللہ کے حکم سے رکے گی ‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی ’’قصوا ‘‘ چلتی رہی حتیٰ کہ جب وہ بنو مالک بن نجار کے محلہ میں پہنچی تو وہاں رکی جہاں بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کا دروازہ بنا ۔ اور وہ جگہ سیدنا ابو ایوب انصاری ؓ کے گھر کے سامنے تھی ۔ یوں ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میزبانی کا شرف ملا ۔
اس واقعۂ ہجرت کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ اسلامی عقیدہ اور عمل صالح کی خاطر ہر ایسی عزیز اور محبوب چیز جس کو ترجیح دینے اور اُس کے ساتھ چمٹے رہنا کا فطری جذبہ انسان میں ہوتا ہے، بے دریغ قربان کیا جاسکتا ہے لیکن اسلامی عقیدہ اور عملِ صالح کو ان میں سے کسی چیز کیلئے بھی نہیں چھوڑا جا سکتا۔
افسوس کہ حضرات ِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے جو تقویم بڑے اہتمام سے مسلمانوں کیلئے جاری کی تھی ‘ آج مسلمان اُس سے غافل اور بے خبر ہیں ۔
آپ نے یہ بات تو سن رکھی ہو گی کہ حضرت عمرؓ نے۱۷ھ میں حضرات صحابہ کرامؓ کو تاریخ متعین کرنے کے بارے میں مشورہ کیلئے مدعو کیا۔ اس مجلس مشاورت میں اکابر صحابہ شریک تھے مشورہ شروع ہوا تو چند لوگوں نے یہ رائے دی کہ مسلمانوں کی تاریخ کی ابتداء آنحضرت ﷺ کی ولادت باسعادت سے ہونی چاہئے مگر حضرت عمرؓ نے اس بات کو پسند نہیں فرمایا اس لیے کہ اس میں عیسائیوں کے ساتھ مشابہت تھی کہ وہ اپنی تاریخ کا آغاز حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت طیبہ سے کرتے تھے۔ مجلس میں ایک رائے یہ بھی سامنے آئی کہ رحمت عالم ﷺ کی وفات سے سنہ وار تاریخ شروع کی جائے اس بات کو بھی حضرت عمرؓ نے پسند نہیں فرمایا کیونکہ آپ ﷺ کی وفات ساری دنیا کیلئے بالعموم لیکن خاص طور پر جانثار صحابہؓ کیلئے بہت بڑا حادثہ اور عظیم مصیبت تھی اور اس طرح اس جان فگار حادثے کی بار بار یاد دہانی ہوگی اس لیے یہ رائے بھی قبول نہیں کی۔ بحث و مباحثہ کے بعد اس پر سب کا اتفاق ہوگیا کہ’’ہجرت‘‘ سے تاریخ مقرر ہونی چاہیے۔
اگر غور کیا جائے تو واقعی ہجرت میں چند فوائد اور واقعات ایسے ہیں جو کھلی آنکھوں نظر آتے ہیں مثلاً…
۱)ہجرت کے بعد مسلمانوں کو ایک مضبوط قلعہ اور مستحکم مرکز نصیب ہوا۔
۲)حق و باطل زمینی حقائق کے اعتبار سے بھی بالکل واضح اور جدا جدا ہوگئے۔
۳)شعائر اسلامی جیسے نماز جمعہ اور عیدین کی ادائیگی ممکن ہوئی۔
۴)مسلمانوںکوعبادت کی آزادی ملی اور آنحضرت ﷺ کی خدمت میں با آسانی آمد ورفت ممکن ہوئی۔
۵)اہل اسلام نے پہلے کی نسبت سکون کا سانس لیااور زندگی ایک ڈھب پر آگئی۔
۶)اسلامی طرز معاشرت کے خدو خال نمایاںہوئے اور اسلامی تہذیب کی مکمل شناخت لوگوں کے سامنے آئی۔
۷)اسلام کے معاشی اور اقتصادی احکامات کانفاذ اور ان پر عمل ممکن ہوا۔
۸)قرآن مجید اور احکام نبوی کا سیکھنا سکھانا آسان ہوااور ان کیلئے سازگار ماحول میسر آیا۔
۹)غیر مسلموں کو بھی کھلے دل سے اسلامی تعلیمات سمجھنے کا موقع ملا۔
۱۰)پہلی اسلامی حکومت قائم ہوئی جس کے سربراہ حضور اکرم ﷺ تھے۔
یہ تو طے ہوگیا کہ اسلامی کیلنڈر کا آغاز واقعہ ہجرت سے ہوا لیکن مہینوں کی ترتیب میں سب سے پہلے کس مہینے کو رکھا جائے یہ مسئلہ بھی حل طلب تھا۔ حضرت عبد الرحمنؓ بن عوف نے رجب المرجب سے ابتداء کرنے کی رائے دی کیونکہ حرمت والے مہینوں میں سب سے پہلے آتا ہے۔ حضرت طلحہؓ نے رمضان المبارک کی رائے دی کیونکہ اس ماہ کی بہت فضیلت ہے بعض حضرات نے ربیع الاول کی رائے دی کیونکہ اصل سفر ہجرت اسی ماہ میںہوا تھا۔
حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ نے ماہ محرم الحرام سے آغاز کرنے کی رائے دی اور اسی کو حضرت عمرؓ نے پسند فرمایا اسکی وجہ یہ تھی کہ آپ ﷺ نے ہجرت کا پختہ ارادہ اور عزم محرم کے مہینے میں ہی فرمایا تھا کیونکہ اس سے پہلے ذی الحجہ کے مہینے میں اہل مدینہ نے آپ ﷺ کے دست اقدس پر’’بیعت عقبہ ثانیہ‘‘ کی تھی۔ محرم میں ہی حضرات صحابہ کرامؓ کو ہجرت کی اجازت مل گئی تھی۔
حضرت عمرؓ نے اس موقع پر یہ بھی ارشاد فرمایا کہ
لوگ فریضۂ حج کے بعد محرم میں ہی واپس پہنچتے ہیں۔ اس لیے محرم الحرام ہی سے سال کا آغاز ہونا چاہیے بہرحال اس پر سب صحابہؓ کا اتفاق ہوگیا۔
میں اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ آج دنیا بھر کے باطل مذاہب و ادیان کے ماننے والے اپنی مِٹی ہوئی شناخت کو زندہ کر رہے ہیں ۔ بدھ مت کے پیرو کار دور سے پہچانے جاتے ہیں ۔ یہودی ربّی اپنی منحوس ٹوپیوں کے ساتھ نظر آتے ہیں ۔ عیسائی اپنی صلیب لٹکا کر فخر محسوس کرتے ہیں ۔ سکھوں کیلئے تو رائل آرمی میں بھی داڑھی اور پگڑی کی گنجائش نکال لی گئی ہے ۔ ہندو بھی اپنی مذہبی شناخت ظاہر کرنے پر نہیں شرماتا ‘ حالانکہ ان مذاہب کی اکثر موجودہ تعلیمات ‘ صرف سنی سنائی کہانیوں اور خیالی باتوں پر مشتمل ہیں ۔
جبکہ اہلِ اسلام کی تمام اصل روایات ‘ انتہائی ٹھوس اور مستند طریقے سے ثابت ہیں ۔ مسلمانوں کے ہاں تو ایسی من گھڑت باتوں کو بدعت کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے۔ صرف وہ وہی بات قابلِ قبول ہوتی ہے ‘ جو عقل و نقل اور روایت و درایت کی چھانیوں سے چھن کر آئے ‘ اور صحت کے کڑے معیار پر پورا اترے۔ اس کے باوجود آج کا مسلمان اپنی شناخت سے غافل اور اپنی پہچان سے بے خبر ہوتا جا رہا ہے ۔
ہمارا میڈیا ‘ ہمارے تعلیمی ادارے اور دیگر ثقافتی ادارے ‘ اس سلسلے میں جو مجرمانہ کردار ادا کر رہے ہیں‘ وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ گزشتہ کئی سالوں سے کرسمس ڈے پر تو بہت کچھ سن ہی رہے تھے ‘ اس سال ہندوئوں کے تہوار دیوالی کو جتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ‘ یہ محض مسلمانوں سے اُن کی شناخت چھیننے اور اُن کو اُن کی پہچان سے محروم کرنے کیلئے ہے ۔
کیا کفار کے کسی ملک میں بھی ‘ وہ لوگ مسلمانوں کے تہوار مناتے ہیں ۔ نہیں‘ ہرگز نہیں ۔ پھر ہمیں ہی روشن خیالی کے نام پر قومی خود کشی کا یہ سبق کیوں پڑھایا جا رہا ہے ؟؟؟
اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے (آمین)
٭…٭…٭
کامیاب طرزِ حکومت کی جھلکیا
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 466)
پاکستان بھر میں موسمِ سرما کی آمد کے ساتھ ہی سیاسی جلسوں کی گرما گرمی بڑھ گئی ہے ۔ پرانے شکاری ‘ نئے نئے جال لے کر میدان میں اتر آئے ہیں اور ہر مداری کی باتیں متاثرکن ہی نہیں مرعوب کن بھی ہیں ۔ روزانہ اخبارات میں ایک سے ایک تقریر پڑھتے ہیں تو زبان پر یہ شعر مچلنے لگتا ہے : ؎
یہ مسائلِ تصوف ‘ یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے ‘ جو نہ بادہ خوار ہوتا
یہ سیاستدان جو عوام کے غم میں گھل گھل کر ہاتھی بن چکے ہیں‘ ایک طرف ان کے دعوے سنیں اور دوسری طرف ان کے شاہانہ انداز دیکھیں تو ’’منافقت ‘‘ کا لفظ ان کیلئے بہت کم محسوس ہوتا ہے ۔ افسوس تو ان کوڑھ مغز دانشوروں پر ہوتا ہے جو اسے ’’جمہوریت کا حسن‘‘ قرار دیتے ہیں ۔
پاکستان اس وقت چاروں طرف سے خطرات میں گھرا ہوا ہے ۔ ایک طرف سے نیٹو افواج ہیں تو دوسری طرف انڈین آرمی ‘ تیسری جانب سے ایرانی سپاہ ‘ یہ سب دشمن باری باری مختلف بہانوں سے سرزمین ِ وطن پر حملے کر رہے ہیں ۔ پاکستان میں اندرونی خلفشار ‘ قوم پرستی اور علاقہ پرستی کی شکل میں اتنا پھیل چکا ہے کہ بلوچستان میں دوسرے صوبوں سے آئے ہوئے غریب مزدور بھی محفوظ نہیں ہیں ۔ انتہائی تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور غربت نے عوام کو بے چین کر رکھا ہے۔
اسی طرح عالمی سطح پر بے شمار سلگتے ہوئے مسائل سے ہم دو چار ہیں ۔ محترمہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ابھی تک امریکی قید میں ہیں اور وہ لوگ جنہوں نے ان کے نام کو اپنے اقتدار کیلئے سیڑھی بنایا تھا ‘ اب چپ سادھے بیٹھے ہیں ۔ دخترِ یورپ ملالہ کو مبارک باد پیش کرنے والی قومی اسمبلی میں دخترِ پاکستان عافیہ صدیقی کے بارے میں کیوں قرار داد پیش نہیں کی جاتی ۔ ہمارا قبلۂ اول ’’ مسجد اقصیٰ ‘‘ ایک مرتبہ پھر یہودی سازشوں کا شکار بنا ہوا ہے ۔ فلسطینی مسلمانوں کو گزشتہ کئی دنوں سے مسجد میں داخلے کی اجازت نہیں ہے اور یہودی دہشت گرد وہاں دندناتے پھر رہے ہیں ۔
بات مایوسی کی نہیں کہ مایوس وہ ہو ‘ جس کا رب نہ ہو ‘ لیکن یہ سیاستدان جو عوام کے نجات دھندہ ہونے کے دعویدار ہیں‘ وہ عوام کو سبز باغ دکھانے اور خواتین کو نچانے کے بجائے اصل مسائل کے حل کیلئے کوئی ٹھوس بات کیوں نہیں کرتے ۔ پھر عجیب بات یہ ہے کہ عوام نے بھی آج کل تمام سیاستدانوں کو خوش رکھا ہوا ہے اور کوئی سیاسی جلسہ اپنی تعداد کے اعتبار سے نا کام نہیں ہو رہا ۔ دھرنے کے شرکاء کو جو ’’پیکج ‘‘ ملا تھا ‘ اُس کی بازگشت تو سنائی دی تھی لیکن معلوم نہیں‘ جلسوں کے شرکاء کو کیا کچھ دیا جا رہا ہے ۔
محرم الحرام سے اسلامی قمری سال شروع ہوتا ہے ۔ یہ بات بھی اب ایک اسلامی ملک میں مسلمانوں کو بتانی پڑتی ہے ۔ اس مہینے کی پہلی تاریخ آتی ہے تو اپنے ساتھ تاریخِ انسانیت کی اُس عظیم انسان کی یادیں لے کر آتی ہے ‘ جس کے عدل و انصاف اور عوام کی خبر گیری کی شاندار روایات کے سامنے ‘ دنیا بھر کے حکمران بونے سے بھی چھوٹے محسوس ہوتے ہیں ۔
کاش! ہمارے سیاستدان اپنی بادشاہت کے شوق میں فرعون اور ہامان بننے کے بجائے اُس بے مثال حکمران کے نقشِ قدم کی پیروی کرتے جو بائیس لاکھ مربع میل کا بلا شرکت ِ غیر حکمران ہونے کے باوجود مسجدِ نبوی شریف کے کچے فرش پر محواستراحت ہو جاتا اور راتوں کو تنِ تنہا مدینہ منورہ کی گلیوں میں نکل جاتا ۔ اپنے ہی ملکوں کو بار بار فتح کرنے والے ‘اگر قیصرو کسریٰ کے تخت الٹنے والے عظیم فاتح کی یادوں کو اپنے دل میں بساتے اور اُس کے نقشِ قدم کی پیروی کرتے تو آج ہماری دشمنوں کے سامنے وہ حالت نہ ہوتی ‘ جسے طارق بن زیادؒ نے اپنے ان لفظوں سے بیان کیا تھا :
انتم اضیع من الایتام علی مأدبۃ اللئام
( تم لوگ ‘ کمینوں کے دسترخوان پر یتیموں کی جو حالت ہوتی ہے ‘ اُس سے بھی کمتر ہو )
امیر المومنین ‘ حلیفۃ المسلمین سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عظمتوں کی لازوال داستان آج چودہ صدیوں بعد بھی تازہ ہے اور اپنے ہی نہیں‘ غیر بھی اُن کے کارناموں کے معترف ہیں ۔ آئیں! حکومت کے دوران آپؓ کے طرزِ زندگی اور طرزِ حکومت کے بارے میں تاریخ کی چند گواہیاں پڑھ کر اپنے دل و دماغ کو منور کریں…
عراق سے ایک وفد سخت گرمی کے زمانہ میں جب عرب کا ریگستان آفتاب کی تمازت سے آتش ِ دوزخ کا منظر پیش کر رہا تھا ، آیا ۔ جس کی قیادت حضرت احنف بن قیس رضی اللہ عنہ کر رہے تھے ۔ وہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ڈھونڈتے ہوئے جب پہنچے تو دیکھا کہ عمامہ اترا ہوا ہے ، کمر پر گون باندھی ہوئی ہے اور زکوٰۃ میں آئے ہوئے اونٹوں کا علاج معالجہ کر رہے ہیں ۔ جب عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی نظر حضرت احنف رضی اللہ عنہ پر پڑی تو فرمایا ، اے احنف رضی اللہ عنہ ! کپڑے تبدیل کرو اور آئو ۔ اس اونٹ کے علاج معالجہ میں امیر المومنین کے ساتھ تعاون کرو ، اس میں یتیموں ، مسکینوں اور بیوائوں کا حق ہے ۔ ان لوگوں میں سے کسی نے کہا کہ اے امیر المومنین ! اللہ تعالیٰ آپ رضی اللہ عنہ کی مغفرت فرمائے ۔ آپ اپنے کسی غلام کو حکم فرما دیتے ، وہ یہ کام انجام دے دیتا ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عاجزانہ انداز میں فرمایا کہ بھلا مجھ سے بڑا غلام بھی کوئی ہو گا ، اور یہ احنف رضی اللہ عنہ کون ہے ؟ جو شخص مسلمانوں کے امور کا ذمہ دار ہو وہ مسلمانوں کا غلام ہے ، جس طرح ایک غلام پر اپنے آقا کی خیر خواہی اور امانت کی ادائیگی ضروری ہے اسی طرح ان پر بھی ان امور کا بجا لانا ضروری ہے ۔
٭…٭…٭
ایک آدمی نے چلاّ کر کہا : اے امیر المومنین ! میرے ساتھ چلیں ! فلاں شخص نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے ، میری مدد کریں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا دُرّہ اٹھایا اور اس کے سر پر مارا اور فرمایا : تم لوگ عمر رضی اللہ عنہ کو پکارتے ہو وہ تمہارے لئے نمائش گاہ ہے ۔ جب وہ (عمر رضی اللہ عنہ ) مسلمان کے کسی کام میں مشغول ہوتا ہے تو تم آجاتے ہو کہ میرے ساتھ چلو ، میرے ساتھ چلو۔ وہ آدمی غصہ سے بھرا ہوا واپس چلا گیا ۔ ( حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا غصہ فروہوا تو ) فرمایا کہ اس آدمی کو بلائو ۔ وہ آیا تو اس کو اپنا درّہ دیا اور فرمایا کہ مجھ سے بدلہ لے لو ۔ اس آدمی نے کہا کہ نہیں ، میں اس معاملہ کو خدا کے لیے اور آپ رضی اللہ عنہ کے لیے چھوڑتا ہوں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ایسا نہیں ہو گا بلکہ یا تو تم اللہ کے لیے چھوڑ دو اور اس کے پاس اجر وثواب کی امید رکھو یا یہ معاملہ میرے لیے چھوڑو ، میں اس کو جان لیتا ہوں ۔ اس آدمی نے کہا میں اس معاملہ کو اللہ کے لیے چھوڑتا ہوں ۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ چلے جائو ! اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ چلتے ہوئے اپنے گھر تشریف لائے اور ہم لوگ بھی آپ کے ساتھ تھے ۔ آپ نے نماز شروع فرمائی ، دو رکعتیں پڑھ کر بیٹھے اور کہنے لگے ۔ اے ابن خطاب ! تو کم حیثیت کا مالک تھا اور اللہ تعالیٰ نے تجھے رفعتیں دیں ، تو بے راہ تھا اللہ نے تجھے راہ دکھائی ، تو ذلیل تھا اللہ نے تجھے عزت دی ، پھر اللہ نے تجھے مسلمانوں کی گردنوں پر سوار کیا ، ایک آدمی آیا اس نے تجھ سے مدد چاہی مگر تونے اس کو مارا ، تو اپنے رب کو کیا جواب دے گا ؟ احنف کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی ذات کو ملامت کرنے لگے ، میں جان گیا کہ آپ رضی اللہ عنہ تمام روئے زمین کے باسیوں سے افضل ہیں ۔
٭…٭…٭
روم کے حکمران قیصر نے اپنا ایک قاصد حضرت عمرِ رضی اللہ عنہ کے حال و احوال معلوم کرنے کے لیے بھیجا ۔ جب وہ قاصد مدینہ آیا تو دیکھا کہ یہاں تو کوئی محل وغیرہ نہیں ہے۔ اور نہ ایسا کوئی گھر ہے جس سے پتہ چلے کہ یہاں کوئی بادشاہ رہتا ہے ۔ مدینہ کے لوگوں سے پوچھا : تمہارا بادشاہ کہاں ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ ہمارا بادشاہ تو کوئی نہیں ہے ، ہاں البتہ ہمارے ایک امیر ہیں جو اس وقت مدینہ سے باہر کہیں گئے ہوئے ہیں ۔ وہ قاصد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تلاش میں نکلا تو ایک جگہ دیکھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ زمین کو فراش بنائے ایک درخت کے سایہ میں سو رہے ہیں ، اپنا سر اپنے درہ پر رکھا ہے اور آس پاس کوئی پہرے دار بھی نہیں ہے ۔ جب اس نے یہ حالت دیکھی تو دل میں ہیبت بیٹھ گئی ، یہ ایسا آدمی ہے کہ بادشاہوں کو اس کی ہیبت اور رعب کی وجہ سے چین نہیں آتا ، اور اس کی ظاہری حالت یہ ہے ! اے عمر رضی اللہ عنہ واقعی تونے لوگوں میں عدل قائم کیا ان کو امن دیا تبھی تو آرام کی نیند سو رہا ہے ۔ اس کے مقابلہ میں ہمارا بادشاہ ظلم کرتا ہے ، ہر وقت خوف اس کے سر پر سوار رہتا ہے ، راتوں کو نیند نہیں آتی ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرا دین ، دین حق ہے ۔ اگر قاصد بن کر نہ آیا ہوتا تو ضرور اسلام لے آتا ، البتہ میں واپس جاکر مسلمان ہو جائوں گا ۔
٭…٭…٭
حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ بن عوف فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آدمی بھیج کر بلوایا جب میں ان کے دروازے پر پہنچا تو میں نے ان کے رونے کی آواز سنی۔ میں نے کہا انا للّٰہ واناالیہ راجعون امیر المؤمنین کو ضرور کوئی حادثہ پیش آیا ہے۔ میں اندر داخل ہوا تو میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دونوں شانوں کو پکڑ کر عرض کیا: اے امیر المؤمنین کوئی خطرہ کی بات تو نہیں؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیوںنہیں؟ بڑا سخت خطرہ ہے۔ پھر میرا ہاتھ پکڑ کر ایک کوٹھڑی میں داخل کیا اس میں بڑے بڑے گٹھر ایک دوسرے کے اوپر رکھے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اب آل خطاب اللہ کے نزدیک ذلیل ہوگئی اگر اللہ پاک چاہتا تو یہ مال میرے دونوں صاحب یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دیتا اور وہ میرے لئے اس میں کوئی طریقہ مقرر کر جاتے، میں ان کی پیروی کرتا۔ میں نے عرض کیا ہم بیٹھ کر مشورہ کرلیں گے پھر ہم نے امہات المؤمنین کیلئے چار ہزار مہاجرین کیلئے چار ہزار اورباقی کیلئے دو ہزار مقرر کئے اور سب مال تقسیم کردیا۔
٭…٭…٭
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مشورہ کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے درخواست کی جائے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھوں قیصر و کسریٰ فتح کئے آپ کے پاس عرب وعجم سے وفود آتے ہیں اور آپ نے یہ جبہ جس پر بارہ پیوند لگے ہوئے ہیں پہنتے ہیں اگر اس کی جگہ جبہ بدل لیں تو بہتر ہوگا اور صبح وشام عمدہ کھانا کھائیں تاکہ مہمان بھی کھائیں۔
لیکن کس کی جرأت ہوسکتی ہے کہ عرض کرے؟ سب نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا و حفصہ رضی اللہ عنہا کو وکیل بنایا۔ انہوں نے عرض کیا اے امیر المؤمنین اللہ نے آپ کے ہاتھوں قیصر و کسریٰ فتح کئے اور عرب وعجم کے وفود آتے ہیں اور آپ کے بدن پر یہ بارہ پیوند والا موٹا جبہ ہے، اگر آپ یہ جبہ کسی نرم کپڑے کا بنالیں جس سے آپ بارعب معلوم ہوں اور صبح وشام اچھا کھانا خود بھی کھائیں اور دوسروں کو بھی کھلائیں یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ بہت روئے(یعنی آنسو بہنے لگے) اور پھر فرمایا تم ہی بتائو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی گندم کے آٹے کی روٹی سے پیٹ بھرا یا وہ نرم بستر پر سوئے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھا لباس پہنا؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا نہیں۔ اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بس میں تو اپنے دونوں ساتھیوں کے نقش قدم پر چلوں گا خد اکی قسم اگر مجھے معلوم ہوجاتا تمہیں کس نے بھیجا ہے تو میں اس کے چہرے کو بگاڑ دیتا۔
٭…٭…٭
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت اسلم رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رات کو گشت کیا کرتے تھے۔ ایک رات آپ کا گذر ایک عورت پر ہوا جو اپنے گھر کے اندر تھی اور اس عورت کے اردگرد چھوٹے چھوٹے بچے رو رہے تھے، ایک ہانڈی آگ پر چڑھی ہوئی تھی جس کو اس عورت نے پانی سے بھر دیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ دروازے سے قریب ہوئے اور پوچھا اے اللہ کی بندی! یہ بچے کیوں رو رہے ہیں؟ عورت نے کہا یہ بھوک سے رو رہے ہیں۔ آپ نے پوچھا یہ ہانڈی آگ پر کیسے چڑھی ہوئی ہے؟ اس عورت نے کہا دیکھ لیجئے، اس میں پانی ہے، یہ میں نے ان کی تسلی کیلئے کیا ہے تاکہ یہ سو جائیں اور انہیں وہم دلایا ہے کہ اس میں کچھ ہے، یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ رو دئیے، اور اس کے بعد دار صدقہ میں (جہاں صدقہ کا مال جمع تھا) تشریف لائے اور ایک بوری اٹھائی اور اس میں آٹا اور چربی اور گھی اور کھجور اور کپڑا اور درہم رکھے جب وہ بوری پر ہوگئی تو مجھ سے کہا اے اسلم! مجھ پر یہ بوری لاد دے۔ میں نے عرض کیا اے امیر المؤمنین! میں آپ کی جانب سے اٹھا کر لے چلوں؟ آپ نے مجھ سے کہا اے اسلم! تیری ماں مرے، میں ہی اس کو لاد کر لے چلوں گا، اس لئے کہ آخرت میں مجھ سے ان کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ چنانچہ اس بوری کو لادا اور اس عورت کے گھر لائے، ہانڈی لی اس میں آٹا اور تھوڑی سی چربی اور کھجوریں ڈالیں اور اپنے ہاتھ سے اسے چلاتے رہے اور ہانڈی کے نیچے پھونک لگاتے رہے، میں نے دیکھا کہ دھواں آپ کی ڈاڑھی کے درمیان سے نکل رہا تھا، یہاں تک کہ ان بچوں کیلئے کھانا تیار کیا پھر اپنے ہاتھ سے چمچے سے نکالا۔ اور ان بچوں کو کھلایا حتیٰ کہ ان بچوں کا پیٹ بھر گیا۔ پھر وہاں سے نکلے اور ان کے مکان کے سامنے گھٹنے کے بل بیٹھ گئے جیسا کہ درندہ بیٹھتا ہے۔ اس وقت مجھے آپ سے بات کرتے ہوئے ڈر محسوس ہوا۔ آپ اسی طرح بیٹھے رہے یہاں تک کہ بچے کھیلنے لگے اور ہنسے۔ پھر آپ کھڑے ہوئے اور مجھ سے کہا: اے اسلم! تجھے پتہ ہے کہ میں کس لئے ان کے گھر کے دروازہ پر بیٹھا؟ میں نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا: میں نے ان کو دیکھا تھا کہ وہ رو رہے تھے، میں نے برا سمجھا کہ میں انہیں چھوڑ کر چلا جائوں جب تک کہ میں انہیں ہنستا ہوا نہ دیکھ لوں، جب میں نے انہیں ہنستا ہوا دیکھ لیا تو میری جان میںجان آئی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نام میں بھی بہت برکت رکھی ہے اور اس نام کے حکمران بھی مسلمانوں کیلئے ہمیشہ بابرکت ثابت ہوئے ہیں ۔ اللہ کرے کہ ہمیں بھی یہ برکات نصیب ہوں ( آمین)
٭…٭…٭
نوبل انعام کیوں دیا گیا؟
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 465)
آج کل اخبارات دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت کی بلا اشتعال مسلسل فائرنگ اور بمباری کوئی مسئلہ ہے نہ ہی وزیر ستان پر ہونے والے حالیہ امریکی ڈرون حملے کوئی اہمیت رکھتے ہیں ۔ البتہ ایک خبر ایسی ضرور ہے جو انتہائی اہم ہے اور کوئی بھی اس پر اظہار خیال کیے بغیر نہیں رہ سکا ۔ وہ خیر جیسا کہ آپ پڑھ ہی چکے ہوں گے ایک لڑکی ملالہ نامی کو امن کا نوبل انعام ملنا ہے ۔
بھارتی در اندازی اور امریکی بمباری کیوں اہم خبر نہیں بن سکیں تو اس کی وجہ بڑی آسان ہے ۔ ہم نے صحافت کے پہلے سبق میں ہی یہی پڑھا تھا کہ اخبارات کی نظر میں خبر معمول کی بات کو نہیں کہتے ۔ خبر تو وہ ہوتی ہے جو پڑھنے والوں کو چونکا دے اور ان کو اپنی طرف کھینچ لے ۔ پڑھنے والے اُس میں کوئی نیا پن ‘ نئی سوچ اور نیا خیال محسوس کریں ۔ پھر اس بات کو مثال سے سمجھاتے ہوئے استاذ کہتے ہیں: دیکھو ! اگر کتّا ‘ انسان کو کاٹ لے تو یہ کوئی خبر نہیں ۔ یہ تو روز ہی دنیا میں ہوا کرتا ہے ۔ البتہ اگر انسان کتے کو کاٹ لے تو یہ واقعی خبر ہے ۔
پھر آج کل تو اتنی کثرت سے کتے ‘ انسانوں کو کاٹ رہے ہیں کہ اب تو یہ بالکل خبر ہی نہیں بنتی ۔ خاص طور پر جب کہ بہت سے انسانوں نے بھی کتوں سے سیکھ کر ‘ انسانوں کو ہی کاٹنا شروع کر دیا ہو ۔
بہر حال اصل حقیقت کچھ بھی ہو ۔ اہلیان وطن کیلئے آج سب سے بڑی خبر یہی ہے کہ ملالہ کو ملا ہے امن نوبل انعام ۔ کس کارنامے پر ؟ کس چوٹی کو سر کرنے یا کس معرکے میں فتح یاب ہونے پر ؟ یہ سب سوالات آج بالکل غیر متعلق اور غیر اہم ہیں ۔ کیوں؟ صرف اس لیے کہ ’’ مستند ہے اُن کا فرمایا ہوا ‘‘ ۔ جن کا انعام ہے‘ وہ جانیں اور ان کا کام ۔ وہ جس کو اپنا بہترین ملازم اور فرض شناس غلام سمجھیں گے ‘ اُسی کو انعام بھی دیں گے ۔
ہمارے کئی محب ِ وطن کالم نگار بھی عجیب لوگ ہیں ۔ لگتا ہے یہ تو نائن الیون سے پہلے کی دنیا میں رہتے ہیں ۔ یہ پوچھتے ہیں کہ گجرات کی ایک خاتون ٹیچر سمیعہ ‘ جس نے جلتی ہوئی گاڑی سے تمام معصوم بچوں کو پہلے نکالا اور پھر خود جان کی بازی ہاردی ‘ اُس کو یہ انعام کیوں نہیں دیا گیا ؟ عزت مآب اور عظیم بہن محترمہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی غیر انسانی اور غیر اخلاقی قید پر ہمارے سیاستدان اور فوجی ترجمان کیوں خاموش ہیں ؟ فلسطین کی سرزمین پر اسرائیلی حملوں میں جو سینکڑوں نہیں ‘ ہزاروں مسلمان بچیاں شہید اور معذور ہوئیں ‘ وہ اس انعام کی مستحق کیوں نہیں بن سکیں ۔
سچ پوچھیں تو ہمیں ایسے سوالات سن کر اور پڑھ کر ہنسی آنے لگتی ہے کیوں ؟ اس لیے کہ آپ سوال کرنے سے پہلے یہ تو دیکھ لیں کہ آپ بات کس سے کر رہے ہیں ؟ یہ انعام دینے والے کوئی اکابرینِ ملت یا زعمائے ملت نہیں ہیں‘ نہ ہی یہ کوئی عادل اسلامی حکمران ہیں بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں یہ تو کوئی ’’ بندے دے پُتر ‘‘ ہی نہیں ہیں ۔ پھر ان سے کسی خیر کی توقع کرنا اور یہ سوچنا کہ یہ کسی واقعی مستحق کو انعام دیں گے بالکل ایسا ہی ہے‘ جیسے گدھے پالنے والے سے دودھ کی توقع رکھنا ۔
یہ نوبل انعام کسی جامعہ کی سند ِ فراغت یا کسی سلسلۂ عالیہ کی سندِ خلافت نہیں کہ یہ کسی وطن دشمن‘ اسلام دشمن اور اپنی تہذیب کے باغی کو نہ مل سکے ۔ نوبل انعام کا بانی الفریڈنوبل تھا ۔ الفریڈ نامی یہ شخص یورپ کے مشہور ملک سویڈن میں پیدا ہوا لیکن اس کی اکثر زندگی روس میں گزری ۔ کہتے ہیں کہ ڈائنا مائٹ سمیت کئی ایجادات کا سہرا اس کے سر ہے ۔
اپنی زندگی میں اس نے اتنی دولت کمائی کہ ۱۸۹۶ء میں انتقال کے وقت ‘ اس کے اکائونٹ میں نوے لاکھ ڈالر تھے ۔ مرنے سے پہلے اس نے اپنی وصیت میں لکھا کہ اس کی یہ دولت ہر سال ایسے افراد یا اداروں کو انعام کے طور پر دی جائے ‘ جنہوں نے گزشتہ سال زندگی کے مختلف میدانوں میں کوئی بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہو ۔
اس کی وصیت کے مطابق ایک فنڈ قائم کیا گیا اور اس کی رقم کے منافع ‘ جو ممکنہ طور پر سود بھی ہو سکتا ہے ‘ سے ہر سال انعامات دئیے جانے لگے ۔ نوبل انعام کا فیصلہ ‘ نوبل فنڈ کے ڈائریکٹر کرتے ہیں‘ جن کی تعداد چھ ہوتی ہے اور ان کا انتخاب صرف دو سال کیلئے ہوتا ہے ۔ ان کیلئے یہ لازمی قرار دیا گیا ہے کہ ان کا تعلق سویڈن یا ناروے سے ہو ۔ کسی اور ملک کا شہری اس بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل نہیں ہو سکتا ۔
لوگ سوچتے ہیں کہ یہ نوبل انعام ہوتا کیا ہے ؟ یہ ایک تمغہ‘ شیلڈ اور نقد ڈالر پر مشتمل ہوتا ہے ۔ نقد رقم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلسل بڑھ رہی ہے ۔ ۱۹۴۸ء میں انعام حاصل کرنے والوں کو فی کس ۳۳ہزار ڈالر ملے تھے ‘ جب کہ ۱۹۹۷ء میں یہ رقم بڑھ کر دس لاکھ ڈالر تک جا پہنچی تھی ۔ نوبل انعام کی پہلی تقریب الفریڈ کی پانچویں برسی کے دن ۱۰؍دسمبر ۱۹۰۱ کو منعقد ہوئی اور اب ہر سال اسی تاریخ کو یہ تقریب ہوتی ہے ۔
کہا یہ جا رہا ہے کہ اس لڑکی کو تعلیم کے میدان میں نمایاں کارکردگی دکھانے پر یہ انعام دیا جا رہا ہے ‘ حالانکہ تعلیم کا نوبل انعام ہے ہی نہیں ۔ چھ نوبل انعام بالترتیب ان میدانوں میں کام کرنے والوں کیلئے ہوتے ہیں : طبیعیات ، کیمیا ، طب ، ادب ، امن اور اقتصادیات ۔ بات وہ ہی ہے کہ جن کی چیز ہے ‘ وہ جس کو چاہیں دیں ۔
اسی لیے جب اس انعام کا اعلان ہوا تو یورپ کے ذہنی اور فکری غلاموں نے خوشی اور مسرت کا اظہار کیا ۔ محب وطن حلقوں نے حزن و ملال ظاہر کیا ‘ اور سخت حیرت و استعجاب کا اظہار کیا ۔ ہمارے نزدیک یہ سب وقت کا ضیاع ہے کیونکہ مثل مشہور ہے کہ ’’ اندھا بانٹے ریوڑیاں‘ مڑ مڑ اپنوں کو ہی دے ‘‘ ۔ جو اُن کے اپنے ہیں‘ انہی کے نزدیک اس انعام کی کوئی حیثیت اور مقام ہو گا ۔ ایمان والوں کے نزدیک تو اس کی حیثیت مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ جب یہ بات اتنی ہی بے حیثیت اور بے وقعت ہے تو ہم اپنا اور آپ کا قیمتی وقت کیوں اس پر ضائع کر رہے ہیں؟ آپ کا خیال بالکل درست ہے ۔ ابھی تک جو کچھ عرض کیا گیا ‘ وہ صرف تمہیدی باتیں تھیں‘ اصل سوچنے کی بات یہ ہے کہ نوبل انعام اور دیگر اعزازات ملالہ نامی لڑکی کو کیوں دئیے جا رہے ہیں ؟
یہی وہ بات ہے جو آج کا میڈیا آپ کو قطعاً نہیں بتائے گا ۔ کہنے کو تو آج کا دور آزادیٔ اظہار رائے کا ہے لیکن حقیقت میں ہم وہ ہی کچھ سوچتے اور سمجھتے ہیں ‘ جو یہودیوں کا پروردہ میڈیا ہمیں بتاتا اور سمجھاتا ہے ۔ اسی لیے جو لوگ مسلسل میڈیا سے وابستہ رہتے ہیں ‘ اُن کے خیالات اور افکار اُسی کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں ۔ پھر آپ ان کے سامنے قرآن و سنت کی بات کریں یا اسلامی تہذیب و ثقافت کا حوالہ دیں‘ آپ انہیں زمینی حقائق سمجھائیں یا آسمانی حقائق بتائیں ‘ وہ کسی صورت بھی یورپ سے درآمد شدہ سوچ اور فکر کے خول سے باہر نکلنا گوارا نہیں کریں گے ۔
ملالہ کو ملنے والا انعام ‘واضح طور پر یورپ کے دو مقاصد پر مبنی ہے ۔ یورپ سے درآمد ہو کر آنے والے لیڈروں اور دیگر شخصیات کی ہمارے ہاں کبھی بھی کمی نہیں رہی ۔ ہماری تاریخ میں برانڈ ڈ وزیر اعظم سے لے کر میڈاِن یورپ ہیرو تک ہر شخصیت مل جاتی ہے ۔ جس ملک میں ایٹمی پروگرام کے بانی‘ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر جیسی شخصیت کو پا بجولاں کر دیا جاتا ہو اور معین قریشی اور شوکت عزیز جیسے لوگوں کو کرسیٔ وزارت سے نوازا جاتا ہے ‘ وہاں اگر کل کو ملالہ جیسی ہستی کو قوم کا نجات دہندہ اور عظیم ہیرو بنا کر پیش کر دیا جائے تو اس پر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے ۔ یہ ایک تلخ لیکن سچی حقیقت ہے کہ اہلِ مشرق ‘ اپنے اصل محسنوں اور ہیروں سے نا آشنا ہوتے ہیں اور صرف اسی کو اپنا ہیرو مانتے ہیں ‘ جس پر مغربی مقبولیت کی مہر لگی ہوئی ہو ۔
ملالہ جیسی ہزاروں مسلمان بچیوں کے قاتل ‘ ایک ملالہ کو انعام سے نواز کر جو دوسرا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ پہلے سے بھی زیادہ خوفناک ہے ۔ ملالہ کو ملنے والا انعام ‘ حقیقت میں یورپ نے اپنی تہذیب‘ اپنی ثقافت اور اپنی فکر کو دیا ہے ۔ خواتین کے بارے میں اسلام اور یورپ کے خیالات میں جو فرق بلکہ تضاد ہے ‘ اُس سے کوئی شخص لا علم نہیں ہو سکتا ۔
اسلام نے عورت کو ماں ‘ بہن ‘ بیوی اور بیٹی ہر روپ میں عزت سے سرفراز کیا ہے ۔ جب کہ یورپ نے آزادی کے نام پر اس کو اتنا رسوا کیا کہ اب ایک روپے کی چیز بھی بغیر بنت ِ حوا کی تذلیل کے فروخت نہیں ہوتی ۔ پھر ہوشیاری یہ کہ اسی کا نام تشہیر اور ایڈورٹائزنگ رکھ دیا ہے ۔
ہم اگر یورپ میں عورت کے تصور کے بارے میں مزید وضاحت کریں تو شاید بہت سے قارئین پر گراں گزرے گا لیکن یورپی طرزِ فکر کی بدبو اور سڑان کا کچھ اندازہ مشہور فلسفی خلیل جبران کے ان الفاظ سے لگایا جا سکتا ہے ‘ جو اس نے ’’ماڈرن عورت‘‘ کے عنوان سے لکھے ہیں:
’’ ماڈرن تہذیب نے عورت ذات کو کچھ چالاک تو بنا دیا ہے لیکن مرد کی ہوس نے عورت کی الجھنوں میں اضافہ ہی کیا ہے ۔ ماضی کی عورت ایک خوشحال بیوی تھی لیکن آج کی ماڈرن عورت ‘ تکلیفوں میں گھری ’’ ناجائز جنسی پارٹنر‘‘ بن چکی ہے ۔ ماضی میں عورت آنکھیں بند کر کے بھی اجالوں میں چلی لیکن آج عورت آنکھیں کھول کر بھی تاریکیوں میں چلتی ہے ۔ ماضی کی عورت بے خبری میں بھی حسین ‘ سادگی میں بھی پاکدامن اور کمزوری میں بھی مضبوط تھی لیکن آج کی ماڈرن عورت ذہین ہوتے ہوئے بھی بھدی ‘ سمجھدار ہوتے ہوئے بھی سطحی اور بے رحم بن چکی ہے ‘‘۔
یورپ و امریکہ کا نام نہاد مہذب معاشرہ جس نے انسانی تہذیب کو کب کا خیر باد کہہ دیا اب ایک حیوانی معاشرہ بن چکا ہے ۔ ابلیس کی جاہلی تہذیب نے انکو انسانیت کے مقام سے گرا کر پستیوں کی کھائیوں میں دکھیلا ہے اور پھر حیرت یہ ہے کہ وہ اس تہذیب کو جدید تہذیب کہتے ہیں ۔ حالانکہ یہ کوئی جد ید تہذیب نہیں بلکہ اس تہذیب کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ ابلیس کی ابلیسیت اور شیطانیت کی تاریخ پرانی ہے ۔ موجودہ مغربی تہذیب ہزاروں سال پرانی ، متعفن اور سڑی ہوئی ، ابلیس کے بطن سے جنم لینے والی تہذیب ہے جسکا انسانی تہذیب سے کوئی تعلق نہیں ۔
آپ تاریخ انسانیت اٹھائیے … قوم ِ لوط کی تاریخ پڑھئیے … یہی جاہلی تہذیب تھی جس نے مردوں کو عورتوں سے غافل کیا اور مردوں سے خواہش پوری کرنے کو فیشن قرار دیا … عورتوں کو مردوں کی ضرورت سے بے نیاز کر کے اس گندگی میں ڈبو دیا جس میں یورپ و امریکہ کی عورتیں آج سر سے پیر تک لت پت ہیں … اور مسلم ممالک میں جس گندگی کو پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ قومِ لوط اسکا تجربہ ہزاروں سال پہلے کر چکی اور بحرِ مردار یعنی انکی بستی کی جگہ آج بھی اللہ کے قانون سے بغاوت کرنے والوں کو سنبھل جانے کا درس دے رہی ہے کہ اسکا انجام برا ہوتا ہے ۔
موجودہ مغربی تہذیب وہی جاہلی تہذیب ہے جس نے کبھی یونانی تہذیب کے نام سے ابلیس کے بطن سے جنم لیا تو عبادات اور مذہب کے نام پر عورت ذات کو بر ہنہ کر ڈالا … کبھی رومی تہذیب کا لباس اوڑھ کر روم کے اسٹیڈیم میں حوا کی بیٹیوں کو برہنہ نچا کر فکر کا تاج سر پر رکھ لیا تو کبھی تہذیب فارس کی شکل میں آکر بہن کو بھائی کے لئے حلال کر بیٹھی ۔ کبھی اس جاہلی تہذیب کے رکھوالوں کی غیرت بچانے کے لئے معصوم بچیوں کو عرب کی سر زمین میں زندہ دفن کر نا فیشن اور رسم قرار دیدیا تو کبھی عورت کو نا پاک و منحوس قرار دیکر اس سے دور رہنے کو عبادت بنا یا گیا … یہی وہ جاہلی تہذیب ہے جس نے ہندوستان میں عورت کو تمام مصیبتوں اور پریشانیوں کی جڑ بتا کر اپنے مرے ہوئے شوہروں کے ساتھ زندہ جل جانے کو باعث ثواب بتایا ۔
یہ جدید تہذیب نہیں اور نہ ہی کسی مہذب معاشرے کی تہذیب ہے ۔ بلکہ دورِ جاہلیت کی جاہلی تہذیب ہے ‘اس جاہلی تہذیب کا کردار بھی عورت ذات کے بارے میں اس بھیڑ یے ہی کے مانند ہے ۔ اور اس جاہلی تہذیب کے نئے رکھوالے آج بھی عورت کے بارے میں وہی خواہش رکھتے ہیں جو قومِ لوط سے لے کر بھارت کے ہندوئوں اور مغرب کے ’’ روشن خیال ‘‘ معاشرے کے مرد رکھتے تھے ، کہ اپنی حیوانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے ہر قسم کی رکاوٹ کو ختم کر دیا جائے ۔ مغرب کی اس بھوکی ننگی تہذیب کو جدید تہذیب کہنے والے یا تو تاریخ سے بالکل نا واقف ہیں یا پھر طوطے ہیں کہ جو کچھ انکے آقا انکو دیں اسی کو پڑھنا شروع کر دیتے ہیں ۔ اس لیے ہمیں آج ہرگز یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ملالہ کو نوبل انعام دینے والے اسی تہذیب کے نمائندے اور پیروکار ہیں۔ یہ اس طرح کے ہتھکنڈوں کے ذریعے یہی تہذیب ‘اہل پاکستان پر بھی مسلط کرنا چاہتے ہیں ۔
مسلم خواتین کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ عورتوں کی آزادی ، ترقی ، خوشحالی اور برابری کے نعرے لگانے والے ان کے ہمدرد نہیں بلکہ یہ اسی جاہلی تہذیب کے رکھوالے ہیں جس تہذیب نے ہر دور میں عورت ذات کو رسوا کیا ہے ۔ خواتین کی عزت اور تحفظ صرف اسلامی نظام ہی میں ہے جس کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا :
’’ قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ‘ اللہ اس دین کو ضرور پورا کر کے رہے گا یہاں تک کہ ایک محمل نشین عورت ( عراق کے شہر ) حیرہ سے چل کر آئے گی اور کسی انسان کی پناہ کے بغیر ( مکہ مکرمہ میں) بیت اللہ کا طواف کرے گی ‘‘۔
کاش کہ آج یہ نظام عملی طور پر دنیا میں کہیں نافذ ہوتا تو ہم اُس کو مثال کے طور پر پیش کر سکتے ‘ لیکن پھر بھی آج اسلامی ممالک میں خواتین کی عزت و احترام اور اُن کے حقوق ‘ یورپ کی نسبت کہیں زیادہ محفوظ ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر قسم کے شرور اور فتنوں سے محفوظ فرمائے ۔(آمین)
٭…٭…٭
’’الرحمت ‘‘ اسوئہ ابراہیمی کے پیرو کار
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 464)
عید الاضحی آتی ہے تو اپنے جلو میں بہت سی یادیں لے کر آتی ہے ۔ یہ دن صرف جانوروں کی قربانی کیلئے ہی نہیں ‘ ان دنوں کے ساتھ تو تاریخ ِ انسانیت کے وہ عظیم واقعات منسوب ہیں‘ جو ہر دور میں اہلِ ایمان کو عشق و وفا کا درس دیتے رہے ہیں ۔
سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے خانوادے کی وہ لا زوال قربانیاں ‘ جنہیں پڑھ کر اور سن کر آج بھی انسان کا ایمان تازہ ہو جاتا ہے اور سوئے ہوئے جذبات دلوں میں انگڑائی لینے لگتے ہیں ۔
یہ قربانی ہی وہ عظیم صفت ہے جو انسان کو رب کریم جل شانہ کا قرب عطا کرتی ہے اور پھر ساری دنیا مٹانا چاہے ‘ اللہ تعالیٰ اُس شخص کو چمکا کر دکھا دیتے ہیں ۔ جب انسان حکمِ الٰہی پر اپنے آپ کو فنا ء کر نے اور اپنی خواہشات کو چھوڑنے پر تیار ہو جاتا ہے تو پھر خالقِ کائنات جل شانہ کی طرف سے اُس کے بقاء کے فیصلے ہوتے ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ قیامت تک کیلئے قدرت کی طرف سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام بھی باقی رہا اور کام بھی ‘ نام تو اس طرح کہ رب کریم کی کتاب لاریب‘ قرآن مجید کی ۲۵ سورتوں میں ۶۹ مرتبہ آپ کا نام نامی اسمِ گرامی آیا ہے ۔ جب تک ان آیات کریمہ کی تلاوت ہوتی رہے گی ‘ آپ کے نام کا ڈنکا بجتا رہے گا ۔ اسی طرح سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضراتِ صحابہ کرامؓ کے پوچھنے پر جو ’’درودِ ابراہیمی‘‘ تعلیم فرمایا تھا ‘ اس میں آپ کا نام چار مرتبہ آتا ہے ۔ باقی جہاں تک آپ کے کام کا تعلق ہے تو بیت اللہ کے گرد چکر لگاتے لاکھوں مشتاقانِ دید کو دیکھ لیں اور پورے عالم اسلام میں قربانی کی ’’سنۃ ابیکم ابراہیم‘‘ ادا کرنے والوں کو شمار کر لیں‘ تب بہت کچھ سمجھ میں آجائے گا ۔
٭…٭…٭
یہ ذی الحجہ کا مہینہ ہے ۔ اسلامی سال کا بارہواں یعنی آخری مہینہ ۔ یہ مہینہ آتا ہے تو اپنے ساتھ اسلام کی دو عظیم عبادات لے کر آتا ہے ۔ ایک وہ عبادت ‘ جس کا تصور بھی بہت مسحور کن ہے ۔
دو چادروں میں لپٹے ہوئے انسانوں کا تاحدِ نگاہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر سب کی زبان پر رب کریم کی کبریائی اور عظمت کا عالمگیر ترانہ ’’تلبیہ‘‘ …
لبیک اللھم لبیک لبیک لا شریک لبیک
ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک
جو ابھی اُس در پر نہیں گئے ‘ وہ تو اس کے فراق میں تڑپتے ہی ہیں مگر جو گئے ہیں‘ اُن کی چاہت اور جدائی کا صدمہ کچھ سوا ہی ہوتا ہے ۔ خوش قسمت ہیں وہ جو سوئے حرم جانے والے قافلوں کا حصہ بن گئے اور انہیں اس در پر سر جھکانے کا موقع مل گیا ‘ جس کے بارے میں استاذِ محترم حضرت شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی زید مجدھم نے کہا تھا :
مقفّل ہیں دَر ‘ لٹ رہے ہیں خزانے
عطا کی ان نرالی ادائوں میں گم ہوں
ہاں! بلاشبہ وہ مقدر کے سکندر ہیں‘ جنہیں اپنے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے ساتھ اُن کے روضہ مبارکہ کی حاضری بھی نصیب ہو گئی۔ یہ وہ عظیم جگہ ہے کہ جس کے بارے میں عظیم مؤرخ اور ادیب حضرت سید سلیمان ندوی ؒ نے کہا تھا :
آہستہ قدم ‘ نیچی نگاہ‘ پست صدا ہو
خوابیدہ یہاں روح رسولِ عربی ؐ ہے
بد قسمت اور محروم نصیب ہے وہ شخص کہ جو لاکھوں اپنے غیر ملکی دوروں پر اڑادیتا ہے اور سیرو تفریح کیلئے پیرس اور لندن پہنچ جاتا ہے لیکن اُسے نصیب نہیں تو وہاں کی حاضری نصیب نہیں‘ جہاں صرف نصیب والے ہی جاتے ہیں ۔
ذی الحجہ کی دوسری عبادت قربانی کی ہے ۔ دنیا بھر کے سارے ہی مسلمان اپنے اپنے ملکوں ‘ شہروں ‘علاقوں اور گھروں میں یہ عبادت ادا کرتے ہیں۔عید سے کئی دن پہلے ہی منڈیاں سج جاتی ہیں‘ گلیوں میں بہاریں آجاتی ہیں اور چھوٹے بڑے سب ہی ذوق و شوق سے قربانی کی تیاری اور انتظار کرتے ہیں ۔
آپ کو تو معلوم ہی ہو گا کہ یہ دونوں عبادتیں دراصل یاد گار ہیں‘ سیدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ اسلام اور اُن کے خانوادے کی لازوال قربانیوں کی ۔ یہ نقوش قدم ہیں اُس باوفا گھرانے کے جنہوں نے رب کریم کی رضا مندی کیلئے سب کچھ لٹا دیا ۔
ہاں ! واقعی سب کچھ ۔ گھر بار ‘ وطن و قوم‘ عزیز و اقارب ‘ اولاد و والدین ‘ کسی کو بھی انہوں نے اپنے خالق و مالک اور اس کے عطا کیے ہوئے نظریے کے سامنے کچھ حیثیت نہیں دی ۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے تو جس طرح اعلان توحید کی خاطراپنے والد‘ اپنی قوم اور آخرکار وقت کے بادشاہ نمرود سے ٹکر لی اور جلتی ہوئی آگ میں زندہ چھلانگ لگا دی ‘ وہ قیامت تک عشق و محبت کا استعارہ بن گیا ۔ علامہ اقبال مرحوم نے اسی بات کو کہا ہے:
کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشہ لب بام ابھی
یہ تو سب آپ نے پڑھا اور سنا ہو گا لیکن ایک خاص بات حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اہلیہ محترمہ سیدہ ہاجرہ علیہما السلام کی وہ عظیم قربانی ہے جس نے اُن کو ہمیشہ کیلئے زندہ و جاوید بنا دیا ۔
رب کریم پر اعتماد و توکل نے اُنہیں یہ مرتبہ اور مقام بخشا کہ آج جو بھی مسلمان مرد یا عورت ‘ عمرہ یا حج کیلئے جاتا ہے تو اس کی یہ عبادتیں ‘ تب تک مکمل اور مقبول نہیں ہو سکتیں ‘ جب تک وہ حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی نقل کرتے ہوئے صفا اورمروہ کے درمیان چکر نہیں لگالیتا ۔
مکہ مکرمہ جو آج ظاہری ترقی کے اعتبار سے دنیا کے بڑے شہروں میں شمار ہو تا ہے اور اس کی سہولیات ‘ کسی بھی ترقی یافتہ شہر کا مقابلہ کرتی ہیں ۔ یہ شہر صدیوں پہلے ایسا نہ تھا ۔
ہاں ! جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنی اہلیہ محترمہ حضرت ہاجرہ اور ننھے اسماعیل علیہما السلام کو اس وادی میں چھوڑ کر گئے تھے ‘ تو یہاں دور دور تک کسی انسان یا آبادی کا نام و نشان تک نہ تھا ۔ زندگی کی آسائشیں تو دور کی بات ‘ یہاں تو بنیادی ضروریات بھی ناپید تھیں ۔ جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام وہاں سے تن ِ تنہا واپس پلٹنے لگے تو اماں ہاجرہ علیہا السلام نے پوچھا:
اے ابراہیم! آپ اس بے آب و گیاہ سر زمین میں۔ اس ویران اور بیابان علاقے میں ‘ اس صحرا اور ریگستان میں ۔ ہمیں کس کے پاس چھوڑ کر جا رہے ہیں؟آپ ہمیں کسی کے حوالے کر کے جا رہے ہیں؟تب سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایمان کی قوت سے جواب دیا : ’’اللہ ! ‘‘
قربان جائیے ! حضرت ہاجرہ علیہا السلام کے ایمان اور یقین پر ‘ اُن کی جاں نثاری اور اطاعت گزاری پر ‘ انہوں نے کوئی واویلا نہیں کیا ‘کوئی شور نہیں مچایا ۔ انہوں نے صرف ایک جملہ کہا :
’’اذًالا یضیعنا ‘‘
’’ تب وہ اللہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا ‘‘ ۔
یہ دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی آواز تھی ۔ یہ ایمان و ایقان سے بھر پور صدا تھی ۔ یہ رب کریم پر توکل اور اعتماد کا زبردست اظہار تھا ۔
تب اللہ کریم نے اس کو کیسے پورا کر دکھایا ۔ صدیاں بیت گئیں‘ آج بھی اُن کی بے چینی اور اضطراب کے نتیجے میں جاری ہونے والا زمزم کا چشمہ انسانیت کو سیراب ہی نہیں کررہا ‘ روحانیت اور کمالات سے سر فراز بھی کر رہا ہے ۔
سوچیں ! کیا ہمارے دل بھی حکمِ الٰہی کی اطاعت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں ایسے ہی مبارک اور مضبوط ایمانی جذبات سے سر شار ہیں ؟؟؟
اگر ہیں تو حالات جیسے بھی ہوں بے فکر رہیں … وہ اللہ ہمیں کبھی ضائع نہیں کرے گا ۔
٭…٭…٭
الحمد للہ تعالیٰ! آج حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے والے خوش قسمت مسلمانوں کی کوئی کمی نہیں ۔ ہر سال حجاج کرام کی تعداد میں اضافہ ہی ہو رہا ہے ۔ حکومتوں کو تعداد کنٹرول کرنے کیلئے طرح طرح کی پابندیاں عائد کرنی پڑ رہی ہیں ۔ اسی طرح عید الاضحی کے موقع پر جانور کی قربانی پیش کرنے والے مسلمانوں کی تعداد بھی لاکھوں ‘کروڑوں میں ہو گی ۔ پورے عالم اسلام میں ہر قابلِ ذکر شہر اور قریہ ‘ دس ذی الحجہ سے بارہ ذی الحجہ تک قربانی کی بہاروںسے آباد ہوتا ہے ۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم حج اور قربانی کی ظاہری شکل تک ہی محدود رہتے ہیں ‘ یا ہمارے دلوں میں سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ‘حق کی خاطر اپنا تن من دھن قربان کرنے اور ہر باطل سے ٹکرانے کا بھی کوئی جذبہ‘ کوئی امنگ ‘ کوئی ولولہ اور کوئی عزم پیدا ہوتا ہے ؟
اگر ہم میں سے ہر ایک خود اپنے گریبان میں جھانک کر اپنے حالات کا جائزہ لے تو ساری صورت حال سامنے آجاتی ہے ۔ آج زخموں سے چور چور عالم اسلام‘ اہلِ ایمان کی بے حسی ‘ غفلت اور سستی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ ہم لوگ راہِ الٰہی میں اپنے جذبات تک کی قربانی دینے کیلئے تیار نہیں لیکن تمام انعامات ِ الٰہی کا مستحق بننے کیلئے بالکل تیار ہیں ۔
امت مسلمہ کی مجموعی حالت ِ زار اپنی زبانِ حال سے ‘ اپنے رہبروں اورراہنمائوں سے یہی سوال کر رہی ہے کہ آج فریضۂ حج ادا کرنے والے مسلمانوں کی تو کوئی کمی نہیں ۔ قربانیاں ذبح کرنے والے بھی بے شمار ہیں لیکن کوئی یہ تو بتائے کہ اسوئہ ابراہیمی کے پیروکار کہاں ہیں؟
رہ گئی رسمِ اذاں ‘ روحِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا ‘ تلقینِ غزالی نہ رہی
مسجدیں ہیں نوحہ کناں کہ نمازی نہ رہے
یعنی کہ وہ صاحبِ اوصافِ حجازی نہ رہے
یہ نہیں کہ دنیا سے قربانی دینے والے ختم ہو گئے ‘اگر ایسا ہوتا تو یہ دنیا بھی شاید ختم ہو جاتی ‘لیکن ایسے لوگ آج آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت ‘قربانی کے جذبات سے محروم ‘ کفار کی نقالی اور غلامی میں مصروف اور ان کی ظاہری چمک دمک سے مرعوب ہے۔
ستم ظریفی تو دیکھیں کہ وہ ہی ممالک جو اسرائیل کی ننگی جارحیت کے خلاف چپ سادھے بیٹھے تھے اور اُنہیں عرب بچوں اور مائوں ‘بہنوں کا بہتا لہو بھی ٹس سے مس نہیں کر سکا تھا ‘ آج ’’ داعش‘‘ کے خلاف امریکی اتحاد کا حصہ بننے کیلئے بے چین ہیں ۔ ہائے وہ مسلمان جو اللہ کی راہ میں قربانی نہیں دیتے ‘ اُن کی پستی اور زوال دیکھ کر تو کفار بھی شرماتے ہوں گی ۔
خواجہ مجذوب ؒ نے کیا خوب فرمایا تھا : ؎
طلب کرتے ہو تم دادِ حسن ‘ وہ بھی غیروں سے
مجھے تو یہ سوچ کر بھی اک عار سی محسوس ہوتی ہے
اللہ کریم ہم سب کو صراطِ مستقیم عطا فرمائے (آمین)
٭…٭…٭
اپنی قربانی قیمتی بنائیں
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 463)
’’الرحمت ‘‘ کی طرف سے سیلاب زدگان کیلئے امدادی سرگرمیوں کا سلسلہ ابھی جاری تھا کہ قربانیوں کا موسم آپہنچا ۔ اس موسم میں ’’ الرحمت ‘‘ کی طرف سے اہل ایمان کیلئے خیر اور نیکی کی ایک ایسی دعوت پیش کی جاتی ہے ‘ جس کے ذریعے وہ اپنی قربانیوں کو کئی گنا زیادہ قیمتی بنا سکتے ہیں ۔
قربانی بذاتِ خود ایک بہت اہم عبادت ہے ۔ اللہ کریم نے قرآن مجید میں اور پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث طیبہ میں جیسے پر اثر انداز سے قربانی کی ترغیب دی ہے ‘ اُس کو پڑھنے اور سمجھنے کے بعد تو وہ مسلمان بھی قربانی سے محروم نہیں رہ سکتے ‘ جن پر قربانی واجب نہ ہو ۔ پھر وہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے مالی وسعت دی ہوتی ہے‘ وہ تو خوب بڑھ چڑھ کر قربانی کرتے ہیں ۔
اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی طرف سے قربانی کے ساتھ ساتھ اپنے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بھی قربانی کریں ۔ اپنے مرحوم والدین اور دیگر اہل ِ محبت کے ایصالِ ثواب کیلئے بھی وہ قربانی کرتے ہیں ۔
قربانی ‘ قرآن مجید کی روشنی میں:
’’آپ کہہ دیجئے بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت صرف اﷲ تعالیٰ کیلئے ہی ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔‘‘ (سورۃ الانعام)
اس آیت مبارکہ نے واضح طور پر بتادیا کہ ایک مسلمان کی پوری زندگی صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کیلئے ہی ہوتی ہے۔ مسلمانوں کی ہر عبادت صرف اسی ذات کیلئے ہوتی ہے جو اس کا خالق ومالک ہے۔ قربانی بھی جو ایک اہم ترین عبادت ہے اور جس کے ذریعے انسان اپنے رب کا تقرب حاصل کرتا ہے وہ بھی محض رضائے مولیٰ کیلئے کرنی چاہئے۔ اس کے علاوہ نہ تو یہ قربانی کسی بت یا بزرگ کے نام پر ہو، نہ ہی اس کا مقصد لوگوں کو دکھلاوا اور شہرت ہو ورنہ قربانی کا ثواب اور مقصد دونوں برباد ہوجائیں گے۔ آج کل رواج ہے کہ بعض مالدار لوگ قیمتی جانور خریدتے ہیں اور پھر اخبارات میں بڑے اہتمام سے یہ خبر اور تصویر شائع کرواتے ہیں۔ ایسے لوگ قابل رحم ہیں کہ قربانی پر اتنی رقم خرچ کرنے کے باوجود اس ریاکاری کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ کے ہاں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ رہی دنیا کی یہ واہ واہ تو یہ اتنی ناپائیدار اور بے کار چیز ہے کہ اس کی خاطر اپنے نیک اعمال ضائع کردینا سوائے حماقت کے کچھ نہیں۔
٭…٭…٭
’’اﷲ تعالیٰ کو ان (قربانیوں کا) گوشت اور خون نہیں پہنچتا لیکن اس کو تو تمہارے دل کا تقویٰ پہنچتاہے۔‘‘ (سورۃ الحج)
اس آیت میں قربانی کا اصل فلسفہ بیان فرمایا یعنی جانور کو ذبح کرکے محض گوشت کھانے، کھلانے یا اس کا خون گرانے سے تم اﷲ کی رضاء کبھی حاصل نہیں کرسکتے، نہ یہ گوشت اور خون اٹھ کر اس کی بارگاہ تک پہنچتا ہے۔ اس کے ہاں تو تمہارے دل کا تقویٰ اور ادب پہنچتا ہے کہ کیسی خوش دلی اور جوش محبت کے ساتھ ایک قیمتی اور نفیس چیز اس کی اجازت سے اس کے نام پر قربان کردی۔ گویا اس قربانی سے ظاہر کردیا کہ ہم خود بھی تیری راہ میں اسی طرح قربان ہونے کیلئے تیار ہیں۔(ماخوذ از فوائد عثمانی ؒ)
٭…٭…٭
’’بے شک ہم نے آپ کو کوثر عطا کی، پس آپ اپنے رب کے سامنے نماز پڑھیں اور قربانی کریں، بلاشبہ آپ کا دشمن ہی بے نشان ہونے والاہے‘‘ (سورۃ الکوثر)
دین اسلام میں نماز کو جو کچھ مقام اور مرتبہ ہے اس سے ہر مسلمان بخوبی واقف ہے۔ یہی دین کا ستون اور مؤمن کی معراج ہے۔ یہی کافر اور مؤمن کے درمیان فرق کرنے والی چیز ہے۔ اسی طرح مالی عبادات میں قربانی کا ایک خاص مقام ہے۔ کیونکہ اصل تو یہ تھا کہ اپنے جان اور مال کی قربانی دی جاتی اور بوقت ضرورت ہر مسلمان دین اسلام کیلئے یہ سب کچھ قربان کردیتا لیکن عام حالات میں ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو حضرت ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کی یادگار میں جانور کے ذبح کرنے کو ہی کافی قرار دے دیا۔ اس آیت مبارکہ میں دونوں کا حکم ایک ساتھ دیا جارہا ہے جس سے قربانی کی عظمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
قربانی ‘ احادیث رسول ﷺ کی روشنی میں :
حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے فاطمہ! جاؤ اپنی قربانی پر حاضری دو، کیونکہ اس کے خون سے جونہی پہلا قطرہ گرے گا تمہارے سارے گناہ معاف ہوجائیں گے نیز وہ جانور (قیامت کے دن) اپنے خون اور گوشت کے ساتھ لایا جائے گا اور پھر اسے ستر گنا (بھاری کرکے) تمہارے میزان میں رکھا جائے گا۔ حضرت ابوسعید رضی اﷲ عنہ نے (یہ عظیم الشان فضیلت سن کر بے ساختہ) عرض کیا یا رسول اﷲ! کیا یہ (فضیلت عظیمہ صرف) آل محمد کے ساتھ خاص ہے کیونکہ وہ (واقعۃً) اس کار خیر کے زیادہ مستحق ہیں یا آل محمد اور تمام مسلمانوں کے لئے عام ہے؟ آپﷺنے ارشاد فرمایا (یہ عظیم الشان فضیلت) آل محمد کے لئے تو بطور خاص ہے اور تمام مسلمانوں کے لئے بھی عام ہے (یعنی ہر مسلمان کو بھی قربانی کرنے کے بعد یہ فضیلت حاصل ہوگی)۔(الترغیب والترہیب)
٭…٭…٭
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ سرکار دوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’عید کے دن قربانی کا جانور (خریدنے) کیلئے پیسہ خرچ کرنا اﷲ تعالیٰ کے یہاں اور چیزوں میں خرچ کرنے سے زیادہ افضل ہے۔ (طبرانی)
٭…٭…٭
حضرت زید بن ارقم رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یارسول اﷲ! یہ قربانی کیا ہے؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے انہوں نے عرض کیا:
یا رسول اﷲ! اس میں ہمارا کیا فائدہ ہے؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: (تمہارا فائدہ یہ ہے کہ تمہیں قربانی کے جانور کے) ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی۔ انہوں نے پھر عرض کیا: یارسول اﷲ! (جن جانوروں کے بدن پر اون ہے اس) اون کا کیا حکم ہے؟ (کیا اس پر بھی کچھ ملے گا؟) آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اون کے ہر بال کے عوض بھی ایک نیکی ملے گی۔(الترغیب و الترہیب)
٭…٭…٭
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ محسنِ اعظم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو پھر بھی وہ قربانی نہ کرے تو (ایسا آدمی) ہماری عید گاہ میں حاضر نہ ہو۔ (الترغیب والترہیب)
ان آیات ِ مبارکہ اور احادیث ِ طیبہ کے پڑھنے کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ انسان ‘ قربانی کو بوجھ یا پریشانی سمجھ کر نہیں ‘ زندگی کا ایک پُر لطیف کام سمجھ کر انتہائی ذوق و شوق سے ادا کرے اور اپنی قربانی کے ذریعے زیادہ سے زیادہ نیکیاں سمیٹنے کی کوشش کرے ۔ جو لوگ دنیا کے لالچ میں مبتلا ہوتے ہیں ‘ وہ کیسے ایک ایک روپے کا حساب رکھتے ہیں اور پورا پورا نفع کمانے کے چکر میں رہتے ہیں ۔
ہمارے ایک بزرگ سنایا کرتے تھے کہ میرے پاس ایک تاجر آتے تھے ۔ ایک دفعہ وہ کہنے لگے کہ حضرت ! میرے لیے دعا فرما دیں کہ کاروبار میں دو کروڑ کا نقصان ہو گیا ہے ۔ میں بھی اُن کی پریشانی کی وجہ سے پریشان ہو گیا کہ یہ تو واقعی بڑا نقصان ہے ۔ چند ماہ بعد وہ پھر ایک مرتبہ پریشانی کی حالت میں کہنے لگے کہ حضرت ! دعا فرما دیں اتنے کروڑ کا نقصان ہو گیا ہے ۔ کہتے ہیں اب میں نے اُن سے پوچھ ہی لیا کہ آپ کے کاروبار میں جب ہر تھوڑے عرصے بعد اتنے کروڑوں کے حساب سے نقصان ہو رہا ہے تو باقی بچا ہی کیا ہو گا ؟
اس پر وہ ہنس دئیے اور کہنے لگے کہ حضرت ! ہم تاجر لوگ اس کو نقصان نہیں کہتے کہ اصل سرمایہ ڈوب جائے بلکہ ہم تو اس کو بھی نقصان شمار کرتے ہیں کہ ہمارے خیال میں جتنا نفع ہونا چاہیے تھا ‘ وہ نہ ہو تو یہ بھی نقصان ہے ۔ مثلاً ہم نے ایک پروجیکٹ شروع کیا یا باہر سے کسی سامان کی لاٹ منگوائی ‘ ہمارا گمان یہ تھا کہ اس میں تین کروڑ نفع ہو گا لیکن جب حساب کیا تو صرف ڈیڑھ کروڑ نفع ملا ۔ اب یہ ڈیڑھ کروڑ جس کی ہمیں امید تھی ‘ نہیں ملا تو یہ بھی نقصان ہوا ۔
اس مکالمہ میں اصل سیکھنے کی بات یہی ہے کہ دین کے معاملے میں بھی ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم جو نیکی کما سکتے ہیں یا جو خیر کا کام کر سکتے اور جتنا اجرو ثواب سمیٹ سکتے ہیں ۔ اگر ہم اپنی سستی اور غفلت سے اُس سے محروم رہتے ہیں تویہ بھی ہمارا نقصان ہی ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ دنیا کے نقصان کا احساس تو یہیں ہو جاتا ہے اور اس نقصان کا صحیح اندازہ آنکھیں بند ہونے کے بعد ہی ہو گا ‘ جب اس کی تلافی کی بھی کوئی صورت ممکن نہیں ہو گی ۔
’’الرحمت ‘‘ کی اجتماعی قربانی میں حصہ لے کر آپ ایک تیر سے دو نہیں ‘ کئی شکار کر سکتے ہیں ۔ یہ ایک قربانی آپ کو جہاد فی سبیل اللہ ‘ دعوت دین‘ شہداء کرام کے اہلِ خانہ کی خدمت ‘ علم ِ دین کی اشاعت ‘ خدمت ِ خلق اور دیگر کئی نیکی کے کاموں میں شرکت کا موقع فراہم کرتی ہے ۔
اللہ کریم تمام مسلمانوں کی تمام قربانیوں کو قبول فرمائے اور جذبۂ قربانی سے ہمیں سر شار فرمائے ۔ (آمین ثم آمین)
٭…٭…٭
رحمت کے سلسلے
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 461)
الحمد للہ تعالیٰ!
’’الرحمت ٹرسٹ‘‘ کے زیر اہتمام جہاں دیگر کئی انتہائی قابلِ قدر اور وقیع دینی خدمات کا سلسلہ جاری ہے ‘ وہیں گزشتہ کئی سال سے حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے والوں کیلئے بہاولپور اور کراچی میں تربیتِ حج کورس کروائے جاتے ہیں اور عوام کی ایک بہت بڑی تعداد ان تربیتی حلقوں سے مستفید ہوتی ہے ۔ کراچی میں حج تربیت کا یہ اجتماع پرسوں منعقد ہوا ‘اور کل ہی رحمت کے ایک اور سلسلے کا آغاز ہو گیا ۔
اس وقت وطن عزیز پاکستان اور سر زمینِ شہداء مقبوضہ کشمیر سیلاب کی زد میں ہیں۔ ہنستی بستی آبادیاں اجڑ گئی ہیں ۔ لاکھوں انسان متاثر ہیں ۔ متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض پھوٹ رہے ہیں جن سے اَموات میں مزید اضافہ ہو رہا ہے ۔ انسانی جانوں اور قیمتی اَملاک کی ایسی تباہی و بربادی ہوئی ہے کہ الا مان والحفیظ ۔ ایسے لوگ بھی ہیں جن کے پاس اپنے فوت شدگان کیلئے کفن بھی نہیں ، صاف پانی ، خشک راشن اور دیگر ضروریات زندگی کا تو کئی علاقوں میں نام و نشان بھی نہیں ۔ اخبارات میں روز شائع ہونے والی المناک تصاویر انسانیت کے ضمیر پر دستک دے رہی ہیں۔
اہل ِ وطن میں سے وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے وسعت کے ساتھ عافیت کی دولت سے بھی نوازا ہے ‘ یہ سیلاب اُن کیلئے بھی بہت بڑی آزمائش بن کر آیا ہے ۔ اُن کا فرض بنتا ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اپنے مسلمان بھائیوں کا سہارا بنیں ‘ اُن کے دکھ درد بانٹیں ، انہیں ضروریات ِ زندگی فراہم کرنے کے ساتھ اُن کا حوصلہ بڑھائیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں جن نعمتوں اور آسائشوں سے نوازا ہے ‘ اس میں سے کچھ کی قربانی دے کر وہ خلق ِ خدا پر احسان کریں ۔
پورے ملک میں اس وقت ضرورت ، اس بات کی ہے کہ مسلمان اپنے اس فرض کو پہچانیں ، اپنی تاریخ کو دھرائیں ، اپنی عظیم روایات کو زندہ کریں اور ہر خاندان اپنے ساتھ کم از کم ایک متاثرہ خاندان کو ضرور سہارا دے۔ہم نے اہل ِ ایمان کو اُن کا بھولا ہوا سبق یاد دلانے کیلئے یہ ’’ دس موتی ‘‘ ان کی خدمت میں پیش کر دیئے ہیں تاکہ ہم سب ایک بھرپور ‘ نئے اور توانا جذبے کے ساتھ اپنا فریضہ ادا کر سکیں ۔
(۱) مسلمان کی مصیبت میں کام آنے کا اجر:
’’ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص دنیا میں کسی مسلمان کی تکلیف دور کرے گا ۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی تکلیفیں دور فرمائے گا ۔ جو شخص( کسی کو مشکل میں دیکھے اورمحنت اور محبت سے) اس کی مشکل حل کر دے اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میںاس کی مشکلات حل فرمائے گا۔ جس شخص نے کسی مسلمان کی کمزوریوں پر پردہ ڈالا (اوراس کے عیب بیان کرکے اسے رسوانہ کیا) تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو( اپنی رحمت کے ساتھ ڈھانپ کر اس کو دنیا اورآخرت کی) رسوائی سے بچائے گا ۔ اللہ تعالیٰ اس بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جو مسلمانوں کی امداد کرنے کے لیے ہر وقت اپنے آپ کو تیار رکھتا ہے ۔‘‘ (ابو دائود ‘ مسلم )
(۲) خدمت خلق اور سیرت رسول اکرم ﷺ :
’’حضر ت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پہلی وحی کے بعد جب غار حرا سے واپس تشریف لائے تو حضرت خدیجہ طاہرہ رضی اللہ عنہا نے کہا‘ اللہ تعالیٰ کی قسم خدا تعالیٰ آپ کو ہرگز ضائع نہیں کریں گے ۔ اس لئے کہ آپ ہمیشہ رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتے رہتے ہیں ۔ آپ ہمیشہ ہمدردی کے ساتھ لوگوں کے بوجھ اٹھاتے رہتے ہیں۔ آپ ہمیشہ جن کے پاس کچھ نہ ہو انہیں دیتے رہتے ہیں ۔ آپ ہمیشہ نہایت اعلیٰ درجہ کے مہمان نواز رہے ہیں ۔ آپ ہمیشہ مظلوموں کی حمایت اور دکھ درد والوں کی اعانت فرماتے رہتے ہیں ۔‘‘ (بخاری)
(۳) خدمت خلق اور سیرت سیدنا حضرت صدیق اکبر ؓ :
’’ جب شہر مکہ میں مخلص مسلمانوں پر کفار نے ظلم و ستم انتہا درجہ تک پہنچا دیا ۔ حتیٰ کہ بلند آواز سے قرآن کریم پڑھنے پر بھی ناقابل برداشت مار پٹائی کی جاتی تھی ۔ تو حضرت ابو بکر صدیق ؓ اہل و عیال اور ماں باپ کو چھوڑ کر ہجرت کے ارادہ سے حبشہ کی طرف روانہ ہوئے جب مکہ سے پانچ میل کے فاصلہ پر برک الغماد کے مقام پر پہنچے تو وہاں انہیں قبیلہ بنو قارہ کا رئیس اعظم ابن دغنہ ملا ۔ ابن دغنہ نے دریافت کیا کہ اے ابو بکر کہاں جانے کا ارادہ ہے ؟ حضرت ابو بکر ؓ نے فرمایا کہ میری قوم نے مجھے نکلنے پر مجبور کر دیا ۔ اب کہیں ایسی جگہ جا کر ٹھہروں گا جہاں کامل اطمینان اور کامل آزادی کے ساتھ بے خوف و خطر اللہ تعالیٰ کی بندگی کر سکوں ۔ ابن دغنہ نے کہا اے ابو بکر آپ جیسے بلند اخلاق انسان کو نہیں نکلنا چاہیے اور شہر والوں کو بھی ہر گز مناسب نہیں کہ وہ آپ کو نکالیں ۔ اس لئے کہ آپ عاجز اور درماندہ کی امداد کرتے ہیں اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتے ہیں اور ہمیشہ عاجزوں بے کسوں اور محتاجوں کے کام کاج اور دوسری ضرورتوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور ہر وقت مہمان نوازی کے لیے آپ کا دستر خوان بچھا رہتا ہے اور آپ ہمیشہ مظلوموں کمزوروں بے کسوں کی اعانت فرمایا کرتے ہیں ۔ اس لئے میں ضامن ہوں آپ اپنے شہر میں واپس چل کر رہیں اور اپنے رب کی بندگی کیا کریں ۔ ‘‘
پس حضرت ابو بکر صدیق مکہ میں واپس آئے اور ابن دغنہ نے قریش کے امراء اور رئوسا سے مل کر اور حضرت ابو بکر صدیق کے اوصاف خمسہ بیان کرکے کہنے لگا کہ تم ایسے آدمی کو نکالتے ہو جس کے اندر یہ اعلیٰ ترین پانچ صفتیں بدرجہ کمال موجود ہیں ۔ شرفاء مکہ نے ان تمام صفات کو تسلیم کرتے ہوئے ان شرائط پر امان دینے کا وعدہ کیا کہ :
۱… صرف گھر کی چار دیواری کے اندر اللہ تعالیٰ کی بندگی کریں ۔
۲… گھر کے اندر ہی قرآن مجید آہستہ آواز کے ساتھ تلاوت کریں ۔
اس لیے کہ جب وہ درد ناک آواز کے ساتھ قرآن مجید پڑھتے اور پڑھتے ہوئے روتے تو ان کے درد و سوز والے کلام کا عورتوں مردوں بچوں پر اثر پڑتا ہے ۔ لہٰذا وہ بالکل آہستہ اپنے گھر کے اندر ہی پڑھا کریں ۔ (بخاری و مسلم)
خدمت خلق میں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت صدیق اکبر ؓ دونوں کی سیرت ایک جیسی ہے جو پانچ صفات نبی کی سیرت میں ہیں وہی پانچ صفات حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی سیرت میں موجو دہیں۔
(۴) خدمت خلق سے جنت میں داخلہ :
’’ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک شخص کا کسی ایسے راستہ سے گزر ہوا جس پر درخت کی ایک شاخ پڑی تھی ( اس نے دل میں کہا ) کہ میں اس شاخ کو مسلمانوں کے راستہ سے ہٹا دوں تاکہ ان کو تکلیف نہ دے ۔ پس اتنی سی محنت کی بدولت وہ جنت میں داخل کر دیا گیا۔‘‘(بخاری ، مسلم )
(۵) تکلیف دہ درخت کاٹنے پر جنت میں داخلہ :
’’ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ جنت میں صرف ایک درخت کی بدولت ٹہلتا ہوا پھر رہا ہے جو راستہ میں لوگوں کی تکلیف کا باعث بن رہا تھا اور اس نے اس کو کاٹ دیا تھا ۔ ‘‘ (مسلم )
(۶) صدقہ کے بہترین طریقے :
’’ ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اپنے بھائی کی خوشی کی خاطر ذرا سا مسکرا دینا بھی صدقہ ہے ۔ کوئی نیک بات کہہ دینا بھی صدقہ ہے ۔ تمہارا کسی کو بری بات سے روک دینا بھی صدقہ ہے ۔ کسی بھٹکے ہوئے کو راستہ بتا دینا بھی تمہارے لیے صدقہ ہے ۔ جس شخص کی نظر کمزور ہو اس کی مدد کرنا بھی صدقہ ہے ۔ راستہ سے پتھر کانٹا اور ہڈی کا ہٹا دینا بھی تمہارے لیے ایک صدقہ ہے ۔ ‘‘ (ترمذی)
(۷) دو محبوب اور دو نا پسندیدہ خصلتیں :
’’حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اقدس ﷺنے فرمایا کہ دو خصلتیں اللہ تعالیٰ کو بہت ہی پسند ہیں اور دو عادتیں اللہ کی انتہائی نا پسند ہیں جو عادتیں اللہ کو پسند ہیں (ان کے ذریعہ سے انسان اللہ کا پسندیدہ بن جاتا ہے (۱) خوش مزاج خوش اخلاق ہونا (۲) خدمت خلق یعنی سخاوت اور جو عادتیں اللہ کو ناپسند ہیں وہ یہ ہیں : (۱) بد اخلاق (۲) بخل یعنی دینی کاموں میں دل تنگ رکھ کر بخل سے کام لینا اور جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو اپنے احسانات اور انعامات سے سرفراز کرنا چاہتا ہے تو اس کو لوگوں کے کام کاج اور ضروریات کے پورا کرنے یعنی خدمت خلق میں لگا دیتا ہے ۔ ‘‘
(۸) خدمت خلق کے متعلق حضرت خضر علیہ السلام کی نصیحت :
’’حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام سے فرمایا کہ مجھے کچھ وصیت کیجئے ۔ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ اے موسیٰ ! ہمیشہ تبسم اور مسکراہٹ سے ملتے رہا کرو ۔ نفع رساں بنو ، نقصان پہنچانے والے نہ بنو ۔ کسی خطا کار اور گناہ گار کو اس کے عیب اور خطا پر طعنہ نہ دیا کرو ۔ اپنے گناہوں کو یاد کرکے اپنے اللہ کے سامنے رویا کرو ۔ ‘‘
(۹) حضرت مجدد ؒ کا ایک عظیم خط :
یہ مکتوب شریف حضرت مجدد الف ثانی ؒ نے حضرت خواجہ ابو المکا رم کی طرف تحریر فرمایا تھا۔ اس میں خلق اللہ کی خدمت کی طرف ترغیب دلائی گئی ہے اور خدمت خلق کی عظمت و فضلیت بیان فرمائی گئی ہے ۔
حق سبحانہ و تعالیٰ افراط اور تفریط سے بچا کر عدل اور اعتدال کی حد پر ہمیشہ استقامت مرحمت فرمائے ۔ اللہ تعالیٰ کی یہ کتنی بڑی بخشش ہے کہ اس نے محض اپنے لطف و کرم سے بعض اپنے مقرب بندوں کو بہت بڑی فضیلتوں اورعظیم الشان انعامات سے سرفراز کرکے بعض لوگوں کی ضرورتوں کو ان کے ساتھ وابستہ کرکے ان جماعتوں کے کام کاج ان کے سپرد کر دئیے ہیں اوران جماعتوں کے لیے ان مقربین کو ملجا و ماوی بنا دیا ہے ۔ یہ کتنی بڑی عظمت اور سعادت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی انتہائی شفقت اور کمال درجہ کے کرم سے مخلوق کو اپنا اہل و عیال فرمایا ہے پھر اس مخلوق میں سے جماعتوں کی تربیت اپنے مقرب بندوں کے سپرد کی ہے ۔ خدمت خلق بہت بڑی اعلیٰ ترین سعادت مندی ہے اس بہت بڑی نعمت کو انتہائی ہمت سے ادا کرکے اللہ کی حمد بجا لانا چاہیے ۔ سب سے بڑی عقل مندی یہی ہے کہ خلق خدا کی خدمت بجا لائے اور خدمت کرکے اللہ کا شکر ادا کیا جائے ۔ اپنے لیے اپنے رب کے عیال کی خدمت کو سعادت عظمیٰ سمجھے اور اپنے مالک کے غلاموں اور لونڈیوں کی خدمت کو اپنے لیے عزت و شرف اور سعادت عظمیٰ تصور کرے ۔
(۱۰) متاثرین سے اچھا برتاؤ :
حضرت شیخ رکن الدین علائو الدولہ سمنانی رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت خواجہ عزیز ان علی رامیتنی کے ہم عصر تھے ۔ دونوں کی آپس میں خط و کتابت بھی رہتی تھی ۔ ایک دفعہ حضرت شیخ سمنانی نے حضرت خواجہ رامیتنی سے دریافت کیا کہ ہم دونوں آنے جانے والے مسافروں کی خدمت کرتے رہتے ہیں ۔ آپ کے دسترخوان پر تکلف نہیں ہوتا لیکن ہم تو تکلف کرتے ہیں ۔ اس کے باوجود لوگ آپ سے تو خوش رہتے ہیں اور ہمارا گلہ کرتے ہیں ۔ اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی ۔
حضرت خواجہ عزیزان علی رامیتنی نے فرمایا کہ خدمت کرکے احسان رکھنے والے بہت ہوتے ہیں اور خدمت کرکے ممنون و مشکور ہونے والے تھوڑے ہوتے ہیں۔ خوب کوشش کرو کہ خدمت کرکے ممنونِ احسان و شکر گزار بن جائو اور احسان کرکے کبھی نہ جتلائو ۔ تب کوئی تمہارا گلہ نہیں کرے گا ۔
اللہ کریم تمام متاثرین کی مدد فرمائے اور ان کی خدمت میں حصہ لینے والوں کو اپنے شایانِ شان اجرِ عظیم عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین ۔
٭…٭…٭
کرنے کے 2کام
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 462)
وطن عزیز میں ہر دن گزرنے کے ساتھ سیلاب کی تباہیوں میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ کئی بڑے بڑے علاقے مکمل طور پر زیر آب ہیں اور ابھی بھی یہ منہ زور پانی تیزی سے مختلف آبادیوں کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ سچی بات یہ ہے کہ اس تباہی کے درد اور اَلم کا اندازہ پڑھ کر اور سن کر نہیں ہو سکتا ۔ دیکھنے کے بعد ہی انسان کو کچھ احساس ہوتا ہے کہ وہ ہنستے بستے گھرانے جو چند دن پہلے تک ہی اپنے گھروں میں خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے اور اور اپنے معمولات میں مست و مگن تھے ‘ اُن کا اپنی اولادوں ‘ جانوروں اور ضروری سازو سامان کے ساتھ راستوں کے کناروں پر بھکاریوں کی طرح آبیٹھنے کا غم کیا ہوتا ہے ۔
اب تو ہر لمحہ بدلتی ہوئی ’’ بریکنگ نیوز ‘‘ نے ہمیں اتنا سنگدل بنا دیا ہے کہ دوسرے انسانوں کا خیال ‘ انسانیت کا پاس اور دوسروں کے حال سے عبرت حاصل کرنا ہمارے ذہنوں سے ہی نکل گیا ہے ۔ کوئی واقعہ کتنا ہی افسوسناک اور کربناک کیوں نہ ہو ‘ اب اُس سے صرف گرمیٔ محفل ‘ وقت گزاری اور ’’برائے تبصرہ‘‘ کا کام لیا جاتا ہے ۔
ایسے پریشان کن حالات اور المناک حادثات کے وقت تو دوکاموں کی طرف توجہ دینی چاہیے ۔
(۱)… اجتماعی طور پر توبہ و استغفار ‘ درود شریف اور گناہوں کے چھوڑنے کا اہتمام کرنا چاہیے کہ یہ بات قرآن مجید اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ انسان جیسے اعمال آسمانوں کی طرف بھیجتے ہیں‘ وہاں سے ویسے ہی احوال انسانوں کیلئے اترتے ہیں ۔ اس سلسلے کی ایک مشہور حدیث پاک یہ ہے :
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب میری امت پندرہ (۱۵) قسم کی برائیوں کا ارتکاب کرے گی تو امت پر بلائیں اور مصیبتیں آپڑیں گی ، کسی نے پوچھا : یا رسول اللہ ! وہ کیا کیا برائیاں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
٭… جب مال غنیمت کو شخصی دولت بنا لیا جائے گا ۔ ٭… امانت کو غنیمت سمجھ لیا جائے گا ۔ ٭… زکوٰۃ کو تاوان سمجھ لیا جائے گا ۔ ٭… علم دین ‘ دنیا طلبی کے لیے سیکھا جائے گا ۔ ٭… مرد اپنی بیوی کی اطاعت کرنے لگے گا اور اپنی ماں کی نافرمانی کرنے لگے گا ۔ ٭… آدمی اپنے دوست کے ساتھ نیک سلوک کرے گا اور اپنے باپ کے ساتھ سختی اور بد اخلاقی سے پیش آئے گا ۔ ٭… مسجد میں شوروغل ہونے لگے گا ۔ ٭… جب قبیلہ کا سردار ان کا بد ترین شخص بن جائے گا اور قوم کا سربراہ ذلیل ترین شخص ہو گا ۔ ٭… آدمی کا اعزازو اکرام اس کے شر سے بچنے کے لیے کیا جائے گا ۔ ٭لوگ کثرت سے شراب پینے لگیں گے ۔ ٭… مرد بھی ریشم کے کپڑے پہننے لگیں گے ۔ ٭… ناچنے گانے والی عورتوں اور گانے بجانے کی چیزوں کو اپنا لیا جائے گا ۔ ٭… اس امت کے پچھلے لوگ اگلوں پر لعنت بھیجیں گے ۔
تو اس وقت سرخ آندھی ، زلزلہ ، زمین میں دھنس جانے ، شکل بگڑ جانے اور پتھروں کے برسنے کا انتظار کرو ، اور ان نشانیوں کا انتظار کرو جو یکے بعد دیگرے اس طرح آئیں گی ، جیسے کسی ہار کی لڑی ٹوٹ جانے سے اس کے دانے یکے بعد دیگرے بکھرتے چلے جاتے ہیں ‘‘۔ (جامع الترمذی )
(۲)… دوسرا اور انتہائی ضروری کام یہ ہے کہ پریشان حال اور غم زدہ مسلمانوںکے ساتھ خوب تعاون کیا جائے ‘ اُن کے دکھ درد کو بانٹا جائے اور جس طرح بھی ہو سکے اُن کے مصائب کو کم کرنے کی کوشش کی جائے ۔ ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عجیب انداز سے اس بات کی ترغیب دی ہے ۔ ایک حدیث پاک میں ارشاد ہے :
الخلق عیال اللہ فاحب الخلق الی اللہ من احسن الی عیالہٖ
’’ مخلوق اللہ کا کنبہ ہے ۔ اللہ کو اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ محبت اُس شخص سے ہو گی ‘ جو اُس کے کنبے کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آئے ‘‘ ۔ ( مشکوٰۃ المصابیح )
ایک اور حدیث پاک میں فرمایا گیا :
الراحمون یرحمہم الرحمن ارحموامن فی الارض یرحمکم من فی السماء
’’ جو لوگوں پر رحم کرتے ہیں‘ رحمن جل شانہ اُن پر رحم کرتے ہیں ۔ تم زمین پر رہنے والوں پر رحم کرو ‘ آسمان والا رب تم پر رحم کرے گا ‘‘ ۔ (ابو دائود شریف)
خدمت ِ خلق کی فضیلت اور اہمیت سمجھنے کے لیے یہ واقعہ پڑھیں جو ایک حدیث شریف پر ہی مبنی ہے:
’’ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ایک مرتبہ مسجد نبوی ( علی صاحبہ الصلوٰۃ والسلام) میں معتکف تھے ، آپ کے پاس ایک شخص آیا اور سلام کر کے (چپ چاپ )بیٹھ گیا ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اس سے فرمایا کہ میں تمہیں غمزدہ اور پریشان دیکھ رہا ہوں کیا بات ہے ؟ اُس نے کہا اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے میں بے شک پریشان ہوں کہ فلاں کا مجھ پر حق ہے ( اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی طرف اشارہ کر کے) کہا اس قبر والے کی عزت کی قسم میں اس حق کے ادا کرنے پر قادر نہیں ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایاکہ اچھا کیا میں اس سے تیری سفارش کروں اُس نے عرض کیا کہ جیسے آپ مناسب سمجھیں ‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ سن کر جوتہ پہن کر مسجد سے باہر تشریف لائے اس شخص نے عرض کیا کہ آپ اپنا اعتکاف بھول گئے ؟ فرمایا بھولا نہیں ہوں بلکہ میں نے اس قبر والے (صلی اللہ علیہ وسلم ) سے سنا ہے اور ابھی زمانہ کچھ زیادہ نہیں گزرا ( یہ لفظ کہتے ہوئے) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ :
( جو شخص اپنے بھائی کے کسی کام میں چلے پھرے اور کوشش کرے اس کے لیے دس برس کے اعتکاف سے افضل ہے اور جو شخص ایک دن کا اعتکاف بھی اللہ کی رضا کے واسطے کرتا ہے تو حق تعالیٰ شانہ اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقیں آڑ فرما دیتے ہیں جن کی مسافت آسمان و زمین سے بھی زیادہ چوڑی ہے)(فضائل رمضان)
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین خدمت خلق کس جذبے اور لگن سے کرتے تھے ‘ اس کااندازہ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس واقعے سے لگایا جا سکتا ہے :
علامہ شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں ۔
’’ اسلم ( حضرت عمرؓ کا غلام تھا ) کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر ؓ رات کو گشت کے لیے نکلے ۔ مدینہ سے تین میل پر صرار ایک مقام ہے ۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ایک عورت کچھ پکا رہی ہے اور دو تین بچے رو رہے ہیں ۔ پاس جا کر حقیقت حال دریافت کی ، اس نے کہا کہ کئی وقتوں سے بچوں کو کھانا نہیں ملا ہے ان کے بہلانے کے لیے خالی ہانڈی میں پانی ڈال کر چڑھا دی ہے‘ حضرت عمر ؓ اسی وقت اٹھے ، مدینہ میں آکر بیت المال سے آٹا ، گوشت ، گھی اور کھجوریں لیں اور اسلم سے کہا کہ میری پیٹھ پر رکھ دو ، اسلم نے کہا میں لیے چلتا ہوں ۔ فرمایا ہاں : لیکن قیامت میں میرا بار تم نہیں اٹھائو گے ، غرض سب چیزیں خود لاد کر لائے اور عورت کے آگے رکھ دیں اس نے آٹا گوندھا ، ہانڈی چڑھائی ، حضرت عمر ؓ خود چولہا پھونکتے جاتے تھے ۔ کھانا تیار ہوا تو بچوں نے خوب سیر ہو کر کھایا اور اچھلنے کودنے لگے ۔ حضرت عمر ؓ دیکھتے تھے اور خوش ہوتے تھے ۔ عورت نے کہا خدا تم کو جزائے خیر دے سچ یہ ہے کہ امیر المومنین ہونے کے قابل تم ہو نہ کہ عمرؓ ‘‘ ۔( الفاروق )
ایک دن ایک غریب کسان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا :
’’ حاکم نے میرے کھیتوں کی پیداوار روک لی ہے ، کہتا ہے جب تک شاہی فرمان نہ لائو گے پیداوار میں سے دانہ نہ ملے گا ، حضرت میری زندگی کا ذریعہ یہی پیداوار ہے ، پیداوار رک گئی تو میرے بچے بھوکے مر جائیں گے ‘‘ ۔ حضرت نے فرمایا فرمان مل جانے پر تو پیداوار نہ رکے گی ، کسان نے عرض کیا شاہی فرمان کے بعد کیا مجال ہے کہ کوئی چوں بھی کر سکے ، حضرت نے فرمایا ایسا فرمان کیوں نہ لے لیا جائے کہ جب تک زمین رہے حاکم پیداوار نہ روکے کسان نے خوش ہو کر کہا پھر تو کیا کہنا‘ حضرت اپنے مرید خواجہ قطب الدین کو سفارش نامہ لکھ دیں بادشاہ اُن کا مرید ہے بس ساری مشکل آسان ہو جائے گی ، حضرت نے فرمایا ـمیں تیرے ساتھ چلوں گا اور تجھے فرمان مل جائے گا ۔ دلی میںکسی کو اطلاع بھی نہ تھی کہ حضرت تشریف لا رہے ہیں ۔ اتفاق سے کسی نے راستے میں دیکھ لیا اور خواجہ قطب الدین ؒ کو خبر پہنچا دی ۔ خواجہ قطب نے بادشاہ سے ذکر کر دیا ۔ بادشاہ نے فوجوں سمیت حضرت کو خوش آمدید کہا ، خواجہ قطب نے پوچھا کہ حضور اچانک کیوں تشریف لا ئے ہیں ؟ کوئی کام تھا تو مجھ نا چیز کو تحریر فرما دیتے ، حضرت نے فرمایا :
’’ قطب الدین جب یہ کسان میرے پاس آیا تو اپنی بیکسی کے سبب خدا سے اتنا قریب تھا کہ اس کام میں شریک ہونا خدا کی عین بندگی تھی میں حق تعالیٰ کی بندگی حاصل کرنے آیا ہوں ‘‘ ۔ غریب کسان کا کام ہو گیا اور حضرت خوش ہو گئے ۔ ( جواہر پارے)
متاثرینِ سیلاب کی مدد کرتے وقت اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں ہم استعمال کر رہے ہیں اُن کا شکر ادا کرنا بھی ضروری ہے اور ساتھ ساتھ زوال ِ نعمت سے اللہ تعالیٰ کی پناہ بھی مانگتے رہنا چاہیے کہ بڑے بزرگ فرما یا کرتے تھے ’’ وقت سدا ایک سا نہیں رہتا ‘‘ ۔ تاریخ کی کتابوں میں ایسے بے شمار واقعات ملتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ وزارت سے اسارت ‘ تخت سے تختہ اور امارت سے غربت تک کے سفر میں بسا اوقات چند دن بھی نہیں لگتے ۔ اسی طرح کا ایک عبرت ناک واقعہ یہ ہے جو شہاب الدین محمد بن احمد الابشیہی نے نقل کیا ہے :
’’ ایک مرتبہ ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا رہا تھا ‘ سامنے بھنی ہوئی مرغی بھی رکھی تھی ، اچانک ایک فقیر نے دروازے پر آکر صدا لگائی ‘ وہ شخص دروازے کی طرف گیا اور اس فقیر کو خوب جھڑکا فقیر یونہی واپس چلا گیا ، خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ کچھ عرصے بعد یہ شخص خود فقیر ہو گیا ، سب نعمتیں ختم ہو گئیں ، بیوی کو بھی طلاق دے دی ۔ اس نے کسی اور سے نکاح کر لیا ، پھر ایک دن ایسا ہوا کہ یہ میاں بیوی اکٹھے بیٹھے کھانا کھا رہے تھے اور بھنی ہوئی مرغی سامنے تھی کہ کسی فقیر نے دروازہ کھٹکھٹایا میاں نے بیوی سے کہا کہ یہ مرغی اس فقیر کو دے آئو چنانچہ وہ مرغی لے کر دروازے کی طرف گئی تو کیا دیکھتی ہے کہ فقیر اُس کا پہلا شوہر ہے ۔ خیر مرغی اُسے دے کر واپس لوٹی تو رو رہی تھی ۔ میاں نے پوچھا کہ کیوں رو رہی ہو بولی کہ فقیر تو میرا پہلا میاں تھا ، غرض پھر سارا قصہ اُسے سنایا جو ایک فقیر کو جھڑکنے سے پیش آیا تھا اس کا میاں بولا خدا کی قسم وہ فقیر میں ہی تھا۔‘‘( المستطرف فی کل فن مستظرف)
اللہ کریم تمام متاثرین کی مدد فرمائے اور ان کی خدمت میں حصہ لینے والوں کو اپنے شایانِ شان اجرِ عظیم عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین ۔
٭…٭…٭
نامِ محمد کے کرشمے
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 460)
آپ کو شاید یاد ہو کہ چند سال پہلے امریکی محکمۂ خارجہ نے یہ اعلان کیا تھا کہ جن افراد کے نام میں ’’محمد‘‘ آئے گا ‘ اُن کو ویزا کارروائی میں خصوصی تفتیش کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ اس رپورٹ کے منظر عام پر آتے ہی اہل ایمان کی غیرت نے انگڑائی لی اور بے شمار بچوں کا نام ’’محمد ‘‘رکھا گیا ۔ یورپ سے آئی ہوئی ایک تازہ خبر نے ثابت کر دیا ہے کہ مسلمان ‘ اُس کا تعلق خواہ کسی رنگ ‘ نسل ‘ قوم ‘ زبان یا علاقے سے کیوں نہ ہو ‘ اُس کیلئے سب سے بڑی نسبت اور سب سے اہم شناخت پیارے آقا رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی اسمِ گرامی ہے ۔
پریشانی اور اضطراب کے حالات میں اس خبر پر نظر پڑی تو دل خوشی اور تشکر کے جذبات سے بھر گیا ۔ آئیں! آپ بھی بی بی سی سمیت عالمی ذرائع ابلاغ میں آنے والی یہ خبر میرے ساتھ پڑھ لیں :
’’ محمد نام انگلینڈ ‘ ویلز کے بعد اب ناروے کے دارالحکومت ا وسلو میں بھی سب سے مقبول نام ہے ‘‘ ۔
ماہر القادری مرحوم نے کیا خوب کہا تھا :
اے نام محمد صل علی
ماہرؔ کے لیے تو سب کچھ ہے
ہونٹوں پہ تبسم بھی آیا
آنکھوں میں بھی آنسو بھر آئے
حضرت جبیر بن مطعم رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرمارہے تھے: ’’میرے (بہت سے) نام ہیں۔ میں محمد ہوں۔ میں احمد ہوں۔ میں ماحی (مٹانے والا) ہوں کہ اﷲ تعالیٰ میرے ذریعے سے کفر کو مٹائے گا۔ میں حاشر (جمع کرنے والا) ہوں کہ سب لوگ (روز قیامت) میرے بعد اٹھائے جائیں گے۔ میں عاقب (پیچھے آنے والا) ہوں کہ جس کے بعد کوئی اور نبی نہیں آئے گا۔‘‘ (بخاری ، مسلم)
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اسمائے گرامی میں سے ہر ایک اسم کے اندر معانی ومفاہیم کا ایک جہان آباد ہے۔ صرف نام نامی اسم گرامی ’’محمد‘‘ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کا ایک اعجاز ملاحظہ فرمائیں:
’’محمد‘‘ کا معنی ہے جس ذات کی بے حد تعریف کی گئی ہو۔ مشرکین مکہ جو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے خون کے پیاسے بنے ہوئے تھے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو جب پکارتے تو انہیں مجبوراً ’’محمد‘‘ کہنا پڑتا۔ ایک مرتبہ انہوں نے مشورہ کیا کہ یہ تو بڑی عجیب بات ہے کہ ہم تو اپنے بتوں کے دشمن کو برا بھلاکہنا چاہتے ہیں لیکن جب بلاتے ہیں تو خود بخود ان کی تعریف ہوجاتی ہے۔ کچھ بدبختوں کے مشورے سے طے پایا کہ آئندہ ہم محمد کے بجائے (نعوذباﷲ) ’’مذمم‘‘ (جس کی مذمت کی گئی ہو) کہا کریں گے۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے یہ سنا تو ان کو بہت صدمہ پہنچا۔ مکہ میں مشکلات اور آزمائشوں کا دور تھا۔ صحابہ رحمتِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوری بات بتائی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کیا تم حیران نہیں ہوتے کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے قریش کے سبّ وشتم سے کیسے محفوظ رکھا ہے؟ وہ لوگ تو مذمم کو برا بھلا کہتے ہیں جب کہ میرا نام تو محمد ہے۔‘‘(بخاری)
اس نام مبارک کا کمال دیکھیں کہ کائنات میں جس ہستی کی خدا تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ تعریف ومنقبت بیان کی گئی، وہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ہی کی ذات ہے۔
قرآن مجید میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعریف وتحسین ہے جو ڈیڑھ ہزار برس سے مسلسل پڑھا جارہا ہے اور قیامت تک اس کی تلاوت ہوتی رہے گی۔
ہر دور میں ہر طرح کے انسانوں نے ہر طرح آپ کی تعریف کی۔ نثر ہو یا نظم، زبان ہو یا قلم، ہر زمانے کے خوش بخت لوگ آپ کی مدح وستائش میں مصروف رہے۔
آج بھی جزائر شرق الہند سے لے کر بر اعظم امریکہ تک اس تسلسل سے اذان میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار واعلان ہوتا ہے کہ چوبیس گھنٹے کا کوئی لمحہ ایسا نہیں جاتا جس میں مشرق ومغرب شمال وجنوب کہیں نہ کہیں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عظمت کا ترانہ، نہ گونج رہا ہو۔
علامہ شرف الدین بوصیریؒ صاحب ’’قصیدہ بردہ‘‘ کیا خوب فرماتے ہیں:
منزہ عن شریک فی محاسنہٖ
فجوہر الحسن فیہ غیر منقسمٖ
فان فضل رسول اﷲ لیس لہٗ
حدٌّ فیعرب عنہ ناطق بفمٖ
فمبلغ العلم فیہ انہ بشرٌ
وانہ خیر خلق اﷲ کلہمٖ
(آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی خوبیوں اور کمالات میں یکتا ہیں اور ان میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا کوئی شریک نہیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا حسن وکمال صرف آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ہی میں ہے جسے تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعریف کی کوئی حد نہیں کہ کوئی انسان اپنے منہ سے اس کا مکمل اظہار کرسکے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں ہم یہی جانتے ہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم بشر ہیں اور اﷲ کی مخلوق میں سب سے بہتر اور افضل )
حلقہ بگوشان اسلام کیلئے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعریف ہمیشہ ہی باعث سکون وقرار رہی ہے‘ لیکن نام ’’محمد‘‘ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنا اعجاز غیروں سے بھی ایسا منوایا کہ عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے۔
ابوطالب کہتے ہیں:
دعوتنی وزعمت انک ناصحی
ولقد صدقت وکنت ثم امیناً
وعرضت دیناً لا محالۃ انہ
من خیر ادیان البریۃ دیناً
(تم نے مجھے اسلام کی طرف بلایا ہے اور تم سمجھتے ہو کہ تم میرے خیر خواہ ہو، بے شک تم نے سچ کہا اور تم تو امین بھی ہو۔ تم نے ایک ایسا دین پیش کیا ہے جو بلاشک وشبہ ساری کائنات کے مذاہب سے بہتر اور افضل ہے)
ایک رسالے میں نظر سے گزرا تھا کہ ایک مرتبہ شیخ المشائخ حضرت خواجہ خان محمد صاحبؒ نے جناب نبی کریم ﷺ کاذکرِ خیرکیا اور فرمایا کہ آپ رحمۃ للعالمین تھے ۔ صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ تمام مخلوقات اور تمام غیر مسلموں کے لئے بھی رحمت ہیں ۔ ایک ہندو شاعر ( شاید بھیم داس نرائن) حج کے موسم میں ایک حاجی کے پاس کسی کی مدد سے پہنچا کیونکہ وہ نابینا ہو چکا تھا ، حاجی کو بتایا کہ میں ہندوہوں لیکن نبی کریم ﷺ رحمۃ للعالمین ہیں ، مجھے امید ہے اللہ تعالیٰ مجھے اس رحمت سے محروم نہیں رکھیں گے ۔ لہٰذا میں ایک نعت لکھ کر لایا ہوں یہ حضور اقدس ﷺ کے روضۂ اطہر پر پڑھنا ، میں آپ کا ممنون ہوں گا ۔ کافی دنوں بعد یہ ہندو اپنی محفل میں بیٹھا تھا کہ اچانک کہنے لگا کہ آج میر ی نعت روضۂ اطہر پر پڑھی جا رہی ہے ۔ لوگوں نے پوچھا : کیسے محسوس ہوا ؟ ہندو نے جواب دیا کہ میری نظر واپس آرہی ہے ، جب نعت پوری ہوئی تو نظر بھی پوری واپس آگئی ۔ اس نعت کا ایک شعر یہ ہے ـ:
تجھ کو ناز ہے جنت پہ اے رضوان !
کیا چیز ہے وہ روضۂ اطہر کے سامنے
بندہ نے اس ہندو شاعر کی مکمل نعت شریف کی جستجو کی ‘ جو مل گئی ۔شاعر کا اصل نام اثیم داس ہے اورمکمل اشعار یہ ہیں: ؎
پھیکا ہے نورِ خُر ‘رخِ انور کے سامنے
ہے ہیچ مشک‘ زلفِ معطر کے سامنے
خجلت سے آب آب ہیں نسرین و یاسمین
کیا منہ دکھائیں جا کے گلِ تر کے سامنے
ہے زنگِ معصیت سے سیاہ دل کا آئینہ
کیا اس کو لے کے جائوں سکندر کے سامنے
قسمت کا لکھا مٹ نہیں سکتا کسی طرح
تدبیر کیا کرے گی مقدر کے سامنے
نظرِ کرم ہو آنکھ میں آجائے روشنی
کہنا صبا یہ جا کے پیمبر کے سامنے
شیشہ نہ ہو نہ سنگ ہو‘ چشمہ ہو نور کا
اس کو لگا کے جائوں میں سرور کے سامنے
جس در سے آج تک کوئی لوٹا نہ خالی ہاتھ
دستِ طلب دراز ہے اس در کے سامنے
رضواں تجھے جو ناز ہے جنت پہ اس قدر
کیا چیز ہے وہ روضۂ اطہر کے سامنے
سر پہ ہو ان کا دستِ شفاعت اثیمؔ کے
جس دم کھڑا ہو داورِ محشر کے سامنے
پھر ایک اور زاویۂ نگاہ سے دیکھیں کہ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کا معنی ہے ’’جس ذات کی سب سے زیادہ تعریف کی گئی ہو‘‘ جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم قابل تعریف ہیں تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہر حرکت وادا، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا قول وعمل، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی شکل وشباہت، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا لباس اور سامان زینت، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی معیشت، ومعاشرت، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی صلح وجنگ اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف صحیح طور پر منسوب ہر بات قابل تعریف ٹھہرے گی۔
ظاہر سی بات ہے کہ جو ذات قابل تعریف ہوگی اس کا ہر وصف باعث حسن وجمال اور وجہ خیر وکمال ہوگا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ کی ذات تو حمد وستائش کی مستحق ہو اور آپ کی سنتوں اور طریقوں پر حرف اعتراض اٹھایا جاسکے۔
اسی لیے جب بھی کسی سنت مبارکہ کے بارے میں سوال ہوگا کہ یہ کیوں اور کیسے ہے؟ تو اس کا ایک ہی پہلا اور آخری جواب ہوگا کہ یہ سرکار دوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم کا طریقہ ہے اور بس! اس کے علاوہ ہر مصلحت وحکمت محض عارضی اور ناقص قرار پائے گی۔ گویا آپ کی ذات ہر خوبی کا مبداء اور منبع ہے تو آپ کی سنت مطہرہ ہر کمال کی انتہاء اور معراج۔
بہت سے والدین کے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ جب ہم اپنے بیٹے کا نام’’ محمد‘‘ رکھیں گے اور پھر کسی موقع پر ڈانٹ ڈپٹ سے کام لینا پڑے تو ہم اس نام کو لے کر کیسے برا بھلا کہہ سکتے ہیں ؟ بلاشبہ یہ شبہ بھی اہل ایمان کی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی ہی نشانی ہے لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ محمد نام رکھنے کی اجازت خود پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح احادیث میں ثابت ہے ۔ صحیح بخاری میں کئی مرتبہ یہ حدیث پاک آتی ہے :
سموا باسمی ولا تکنوا بکنیتی
( لوگو ! میرے نام پر نام رکھو لیکن میری کنیت ’’ابو القاسم‘‘ ساتھ اختیار نہ کرو )
پھر اس امت میں تو ایسے اہل ِ علم بھی گزرے ہیں ‘ جن کی تین تین پشتوں کا نام ’’محمد‘‘ تھا ۔ بیٹا ‘ باپ ‘ دادا تینوں ہی محمد ‘ فرق تخلص ‘ القاب اور کنیتوں سے ہوتا تھا ۔ آپ نے دعائوں کی مشہور کتاب ’’حصن ِ حصین ‘‘ کا نام تو سنا ہو گا ‘ اسی طرح فن تجوید کا رسالہ ’’ المقدمۃ الجزریۃ‘‘ بھی بہت مقبول ہے ۔ ان دونوں کے مصنف امام جزریؒ بھی ایسے ہی خوش قسمت افراد میں سے تھے ۔
اصل نام’’ محمد ‘‘ رکھنے کے ساتھ ‘ اگر کوئی لقب وغیرہ بھی رکھ لیا جائے تو امید ہے کہ پھر بھی اس پاک نام کی وہ برکات جو علماء نے لکھی ہیں ‘ نصیب ہوتی رہیں گی ۔
اللہ کریم ہم سب کو پیارے آقا حضرت محمد مصطفی ‘ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا گہرا اور والہانہ تعلق نصیب فرمائے کہ زندگی بھر اطاعت ِ رسول کرتے رہیں اور مرنے کے بعد شفاعت ِ رسولﷺ کے مستحق بن جائیں ۔ (آمین ثم آمین)
و صلی اللّٰہ علی النبی الکریم محمد و علی آلہٖ و صحبہ اجمعین
٭…٭…٭