سب سے بڑا انقلاب!

سب سے بڑا انقلاب!
ہمارے دوست مسٹر کلین پر آج کل ایک بار پھر ’’انقلابی جذبات‘‘ کا غلبہ ہونے لگا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب وہ ’’سوشلسٹ انقلاب ‘‘کے بڑے حامی اور داعی تھے۔ ’’ایشیا سرخ ہے‘‘ کا نعرہ ہمیشہ ان کی زبان پر ہوتا تھا۔ سرمایہ داریت اور عالمی استعمار امریکا کو گالیاں دینا ان کا شعار تھا۔ سرخ ریچھ کے افغانستان میں آنجہانی ہوجانے کے بعد سے وہ نہ صرف یہ کہ ’’ایشیا سرخ ہے‘‘ کا نعرہ بھول گئے ہیں، بلکہ’’ عالمی استعمار‘‘ کی پروردہ این جی اوز کی خدمت گزاری کو بھی اپنا وظیفۂ حیات بناچکے ہیں۔ حالیہ دنوں طاہر القادری اور عمران خان کے انقلابی دھرنوں کے ماحول نے مسٹر کلین کے اندر سوئے ہوئے ’’انقلابی‘‘ کو ایک بار پھر زندہ کردیا۔ اب موصوف حسبِ عادت ہر جگہ اور ہر وقت انقلاب پر لیکچر دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ پرسوں ہم پرچون کی دکان پر سودا سلف لینے گئے تو دیکھا مسٹر کلین وہاں محلے کے دو بزرگوں کو گھیرے ’’درس انقلاب‘‘ دے رہے تھے۔ دراصل ہوا یہ تھا کہ ایک بزرگ ایک پاؤ مونگ کی دال لینے آئے تو دکاندار نے انہیں بتایا کہ دال کی قیمت میں 2 روپے پاؤ اضافہ ہوگیا ہے۔ اس پر وہ بزرگ دکاندار کے ساتھ بگڑ گئے اور اسے لعن طعن کرنے لگے۔ قریب میں کھڑے ایک اور بزرگ نے یہ منظر دیکھا تو وہ بھی اپنی بھڑاس نکالنے کے لیے اس ’’توتو میں میں‘‘ میں شامل ہوگئے۔ دکاندار کی

جان پر آگئی تو اس نے روڈ پر سے گزرتے مسٹر کلین کو مدد کے لیے بلالیا اور بزرگوں کو سمجھانے کی درخواست کی۔
اس پر مسٹر کلین نے تقریر شروع کردی: ’’دیکھیں! اس بچارے دکاندار کا کوئی قصور نہیں ہے۔ مارکیٹ میں ہر چیز کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ اصل میں تو ملک کا پورا سسٹم خراب ہے۔ جب تک اس ملک میں انقلاب نہیں آجاتا، حالات ایسے ہی رہیں گے۔‘‘ مسٹر کلین کی بات سن کر اس بزرگ نے اپنی ڈاڑھی کی طرف اشارہ کرکے کہا: ’’دیکھیں! یہ سفید ہوگئی انقلاب کی باتیں سن سن کے، یہاں کوئی انقلاب نہیں آنے والا۔ ہم اسی طرح گھٹ گھٹ کے مر کھپ جائیں گے، ہمارے اعمال ہی ایسے ہیں۔‘‘ مسٹر کلین نے کہا: ’’انکل! اس قوم کی یہی بد قسمتی ہے کہ یہ انقلاب کی خواہش تو رکھتی ہے، مگر اس کے لیے میدان میں نہیں نکلتی، حالانکہ اس قوم کے پسندیدہ
شاعر علامہ اقبال نے تو کہا تھا؎
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلادو
پھر نہایت افسوس کے لہجے میں کہا: ’’دیکھیں! عمران خان اور طاہر القادری نے انقلاب اور تبدیلی کا علم بلند کیا، سڑکوں پر نکل آئے۔ اگر لوگ ان کا ساتھ دیتے، لاکھ دو لاکھ افراد ہی اسلام آباد میں جمع ہوجاتے تو آج انقلاب آچکا ہوتا۔
یہ سننا تھا کہ سفید ریش بزرگ گویا پھٹ پڑے۔ مسٹر کلین کو مخاطب کرکے کہا: ’’عمران خان اور طاہر القادری کون سا انقلاب اور کہاں کا انقلاب لانا چاہتے ہیں؟ کیا ڈی چوک میں لڑکوں اور لڑکیوں کو نچانے اور اپنے ملازمین اور ان کے بچوں کو سامنے بٹھاکر گلے پھاڑ پھاڑ کر تقریریں کرنے سے انقلاب آیاکرتے ہیں؟ عمران خان تو ایک کھلنڈرا ہے، وہ کھیل کے شوقین منچلے لڑکوں کو لے کر کیا انقلاب لائے گا۔ اس کی تو بات ہی چھوڑ دیں، طاہر القادری اپنے آپ کو علامہ کہتا ہے، مگر کیا کسی نے سنا کہ اس نے اپنی لمبی لمبی تقریروں میں کبھی ایک دفعہ بھی ’’اسلامی انقلاب‘‘ لانے کی بات کی ہو۔ اس کوخود بھی شاید معلوم نہیں کہ وہ جس انقلاب کی بات کر رہا ہے وہ ہے کیا؟ ہمارے آباو اجداد نے یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا، یہاں صرف اسلامی انقلاب ہی آسکتا ہے اور آنا چاہیے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی انقلاب یہاں نہ آسکتا ہے نہ چل سکتا ہے۔‘‘
مسٹر کلین نے کہا: ’’دیکھیں! انقلاب انقلاب ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ’’اسلامی‘‘ لگانے یا نہ لگانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘ بزرگ نے کہا: ’’بر خوردار! کیا بات کردی آپ نے! اسی سے تو فرق پڑتا ہے۔ آپ سوچیں اگر عمران خان اور طاہر القادری کی جگہ کوئی اور دینی سیاسی جماعت ’’اسلامی انقلاب‘‘ کا نعرہ بلند کرکے اس طرح دس پندرہ ہزار کا مجمع لے کر اسلام آباد روانہ ہوجاتی تو کیا ہوتا؟ کیا اسے اسلام آباد میں داخل ہونے دیا جاتا؟ کیا اسے ڈی چوک اور ریڈ زون تک پہنچنے کی اجازت ملتی؟ کیا اس پر لندن سے واشنگٹن تک کہرام نہ مچ چکا ہوتا؟ کیا آپ لال مسجد کے واقعے کو بھول گئے؟ لال مسجد کے سینکڑوں طلبہ و طالبات کو کس لیے فاسفورس بموں سے بھون دیا گیا؟ صرف اس لیے نا کہ وہ شریعت کی بات کرتے تھے؟ اور کہاں ہیں وہ لوگ جو اس وقت کہتے تھے، ہمیں ڈنڈا بردار شریعت قبول نہیں ہے، آج وہ کس بنیاد ہر ’’کیل بردار انقلاب‘‘ انقلاب کی حمایت کرتے ہیں۔ جامعہ حفصہ کی لڑکیوں نے سرکاری لائبریری پر قبضہ کیا تھا تو گردن زندنی قرار دی گئیں۔ یہاں سرکاری ٹی وی پر قبضہ کرنے والوں کو پھول پیش کیے جارہے ہیں۔ لال مسجد والوں نے چاینہ مساج سینٹر کے خلاف کارروائی کی تھی تو پاک چین تعلقات خطرے میں پڑ گئے تھے۔ یہاں انقلابیوں کے بلوے کے نتیجے میں چین کے صدر کا دورہ ہی منسوخ ہوگیا، تو اس پر کوئی واویلا نہیں۔ لال مسجد میں غیر ملکیوں کے موجود ہونے کا جھوٹا پروپیگنڈا کیا گیا۔ یہاں ایک غیر ملکی شخص اپنے ہزاروں غیرملکی کارندوں کے ساتھ منتخب پارلیمنٹ کو للکار رہا ہے تو اس پر سب خاموش ہیں۔ آخر کیوں؟‘‘
یہ کہہ کر بزرگ نے مسٹر کلین سے کہا: ’’بر خوردار! انقلاب لانا تو بہت دُور کی بات ہے۔ ہمارے حکمران، سیکولر لابی اور میڈیا اگر اپنی منافقت ہی تر ک کردے تو یہی سب سے بڑا انقلاب ہوگا۔‘‘ یہ کہہ کر بزرگ نے دکاندار کو ایک پاؤ دال کے پیسے ادا کر دیے۔ مسٹر کلین کی جوابی تقریر شروع ہونے سے پہلے ہی دُکان سے نکل کر روانہ ہوگئے۔