طاؤس ورباب’’اوّل‘‘!

طاؤس ورباب’’اوّل‘‘!
جس طرح اونٹ کی کوئی کل سیدھی نہیں ہوتی، اسی طرح ہمارے دوست مسٹر کلین کے سیاسی خیالات ونظریات کا بھی کوئی رخ سیدھا نہیں ہے۔ سیاسی لیڈروں اور جماعتوں کے بارے میں ان کے خیالات جس قدر بدلتے ہیں، اتنے تو گرگٹ بھی رنگ نہیں بدلتا ہوگا۔ ماضی میں ہم نے دیکھا، کبھی وہ بھٹو صاحب کے شیدائی بن جاتے اور ان کے سوشلسٹ انقلاب کے نعرے کے پرچارک ہوا کرتے اور کبھی ان پر ’’رجعت پسندی‘‘ کا الزام دھر کر ان سے برأت کا اظہار کرتے۔ موصوف آج کل ہر محفل میں عمران خان کی تعریفیں کرتے پائے جاتے ہیں حالانکہ ابھی ایک دو سال قبل ہی وہ امریکا کی مخالفت اور ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کرنے پر عمران خان کو ’’طالبان خان‘‘ کے لقب سے پکاراکرتے تھے، انہی دنوں کوئٹہ ہوٹل پر عمران خان کے حامی نوجوانوں کی مجلس میں عمران خان کو ’’پاگل خان‘‘ کہنے پر ان کی اچھی خاصی ’’خدمت‘‘ بھی ہوئی تھی اور موصوف نے ہم سے باقاعدہ گلہ کیا تھا کہ تحریک انصاف کے کارکن انہیں موبائل اور سوشل میڈیا پر ننگی گالیاں بھی دیتے ہیں۔
مسٹر کلین نے یہ گلہ ہم سے اس لیے کیا تھا کہ شاید ان کے خیال میں ہم بھی امریکا کے خلاف عمران خان کے بیانات کی وجہ سے ان کی ’’جرأت ایمانی‘‘ سے متاثر ہوںگے۔ ہم نے اس وقت ان سے گزارش کی تھی کہ ہم کسی خوش فہمی

میں مبتلا نہیں ہیں۔ امریکا کی مخالفت اور ڈرون حملوں کی مزاحمت کی باتیں خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں میں سیاسی مقبولیت حاصل کرنے اور ملاوں کو وہاں کی سیاست سے آوٹ کرنے کے لیے کی جاتی ہیں۔
ورنہ عمران خان اپنی جس ٹیم کو لے کر سیاست کے میدان میں آئے ہیں، اس میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں ہے جس کے خمیر میں عالمی استعمار کی مخالفت ومزاحمت کا کوئی عنصر پایا جاتا ہو۔ شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، سردار احمد علی، خورشید قصوری جیسے جدی پشتی’’وفادار‘‘ لوگوں سے امریکی استعمار کی مخالفت کی امید رکھنا ہی عبث ہے۔ عمران خان ناچ گانے،ڈھول تماشے اور مخلوط جلسوں جلوسوں کا جو کلچر یہاں رائج کر رہے ہیں،یہ تو امریکا اور عالمی طاقتوں کا عین مقصود ہے۔ مسٹر کلین کہا کرتے تھے کہ عمران خان جذباتی سیاست کرکے پاکستان کو مروا دے گا۔ جبکہ ہمارا خیال اس کے برعکس تھا۔
ہم کہا کرتے تھے کہ عمران خان کو کچھ مقبول نعرے دے کر خطے میں مخصوص ثقافت کی ترویج کے کام پر لگایا گیا ہے۔
حالیہ دنوں عمران خان کی جانب سے ’’آزادی مارچ‘‘ کے آغاز کے بعد مسٹر کلین اچانک عمران خان کے زبردست حامی اور شیدائی بن گئے ہیں۔پرسوںہم نے انہیں کوئٹہ ہوٹل کے سامنے تحریک انصاف کے کارکنوں کے جھرمٹ میں ہنستے مسکراتے اور نعرے لگاتے دیکھا تو ہمیں حیرت سی ہوئی۔ ہمارے پاس اس وقت موقع نہیں تھا کہ موصوف کے پاس رک کر ان سے اس ’’قلب ماہیت‘‘ کی ’’علت‘ معلوم کرلیتے، البتہ ہم نے گھر جاکر اخبارات کی ورق گردانی شروع کردی تاکہ کچھ حالات کی ’’قیافہ شناسی‘‘ کی کوشش کر سکیں۔ ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ مسٹر کلین بعض کالم نگاروں کی آراء سے خاص طور پر استفادہ کرتے ہیں، بہت دفعہ وہ انہی باتوں کو مارکیٹ میں پھیلارہے ہوتے ہیں جو مخصوص قماش کے بعض دانشوروں کے کالموں میں درج ہوتی ہیں۔ ان میں ایازمیر سرفہرست ہیں۔ ہم نے مسٹر کلین کی جانب سے عمران خان کی حمایت کا راز جاننے کے لیے ایازمیر کے حالیہ کالم تلاش کیے، ایک کالم ہماری نظر سے گزرا جس میں موصوف نے لکھا ہے کہ اسلام آباد میں عمران خان کے ’’آزادی مارچ‘‘ میں لڑکوں اور لڑکیوں کے ناچ گانے کے مناظر دیکھ کر ان کا ’’ایمان‘‘ تازہ ہوجاتا ہے۔ ہمیں سمجھ آگئی کہ ہمارے دوست مسٹر کلین کی ’’تجدیدایمان‘‘ کی وجہ بھی یہی ہوگی۔ واضح رہے کہ ماضی میں یہی ایاز میر عمران خان کو احمق ترین سیاست دان قرار دیتے رہے ہیں۔ ہم نے سوچا، عمران خان جو تبدیلی کی بات کرتے ہیں، واقعی درست کرتے ہیں۔ ہم نے توتاریخ میں یہ پڑھا ہے کہ قوموں کی زندگی میں تبدیلی اور انقلاب کا آغاز شمشیر وسنان سے ہوتا ہے اور قوموں کا زوال طاؤوس ورباب اور شراب وشباب پر ہوتا ہے۔ جیساکہ شاعر مشرق علامہ اقبال نے بھی کہا ہے؎
آتجھ کو بتاؤں میں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر وسنان اول طاوس و رباب آخر
مگر عمران خان انقلاب کا آغاز ہی’’ طاؤس ورباب‘‘ سے کرنا چاہتے ہیں۔ ہے نا تبدیلی!! سوشل میڈیا میں ایک فقرہ چل رہا ہے کہ پرانا پاکستان بنانے والے آج اپنی نسلوں کو بتاتے ہیں کہ انہوں نے،یا ان کے ماں باپ نے پاکستان بنانے کی خاطر کس طرح قربانیاں دی تھیں، ’’ناط پاکستان‘‘ بنانے والے کل شاید اپنی اولادکو فخر سے بتائیں گے کہ ان کی ماوں اور بہنوں نے نئے پاکستان بنانے کی جدوجہد میں کیسا ڈانس کیا تھا!