صحابہ کی آپس میں محبت

صحابہ کی آپس میں محبت
قرآن حکیم کی آیات ، احادیثِ صحیحہ اور تاریخ میں ۔۔۔
صحابہ کی آپس میں محبت ، الفت اور شفقت کی مثالیں بھری پڑی ہیں۔
فرمانِ الٰہی ہے :
مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاء عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُمْ
کہ جو اس (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ ہیں ، یہ تو کافروں پر سخت اور آپس میں انتہائی مہربان ہیں( الفتح:48 – آيت:29 )

یہ محبت و الفت خاص اللہ کا فضل ہے صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم پر جو خالصتاً ان کو اللہ کے دین کی وجہ سے حاصل ہوا۔ اور اسی سبب وہ سب آپس میں انتہائی محبت کرنے والے اور ایک دوسرے پر اپنی جانیں نچھاور کرنے والے بن گئے۔ اللہ تعالیٰ اپنے اسی احسان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے :

وَاذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا

تم اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں میں محبت پیدا کر دی اور تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔

( آل عمران:3 – آيت:103 )

یقیناً یہ دین ہی کی نعمت تھی کہ جس نے ان کو آپس میں شیر و شکر کر دیا تھا اور آپس میں ایک لڑی کے دانوں کی طرح اکٹھا کر دیا تھا اور ایک دوسرے کا ہمدرد اور مہربان بنا دیا تھا۔

امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ تفسیر ابن کثیر میں لکھتے ہیں :

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نیتیں خالص تھیں اور ان کے اعمال اچھے تھے، اس لیے جو بھی انہیں دیکھتا ان کی شخصیت اور سیرت سے ضرور متاثر ہوتا اور امام مالک رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ : انہیں یہ بات پہنچی ہے کہ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے شام کو فتح کیا تھا انہیں جب نصاریٰ دیکھتے تو ان کی زبان سے بےساختہ یہ الفاظ نکل جاتے کہ ۔۔۔ “اللہ کی قسم ! یہ لوگ ہمارے حواریوں سے بہتر ہیں”۔

اور وہ اپنی اس بات میں سچے تھے کیونکہ اس امت کی عظمت تو پہلی کتابوں میں بیان کی گئی ہے اور اس امت کے سب سے افضل لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی ہیں۔

بحوالہ : تفسیر ابن کثیر : 4 / 261

حدیث و تاریخ میں بیشمار ایسے واقعات درج ہیں جن سے صحابہ کی آپسی محبت ، ہمدردی ، خلوص ، غمخواری ، شفقت و رحمت اور ایک دوسرے کا لحاظ رکھنے والی خوبیوں کا پتا چلتا ہے۔

جیسا کہ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں بچوں کا کھانا جو رکھا تھا تو وہ انہوں نے اپنے مہمان کو کھلا دیا اور خود اہل و عیال سمیت بھوکے رہ گئے اور یوں آیتِ ربانی نازل ہوئی کہ :
وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ
وہ اپنے بجائے دوسروں پر ایثار کرتے ہیں اگرچہ وہ خود ضرورت مند ہوں۔ ( الحشر:59 – آيت:9 )
بحوالہ : صحیح بخاری ، کتاب المناقب الانصار : آن لائن ربط
جیسا کہ ۔۔۔۔
ضرار اسدی کی زبانی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اوصاف سن کر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ رو پڑے اور کہنے لگے :
اللہ ابولحسن پر رحم کرے۔ اللہ کی قسم ! وہ ایسے ہی عظیم انسان تھے۔بحوالہ : روضة النضرة : 2 / 212
جیسا کہ ۔۔۔۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے جسم پر موجود ایک کمبل کو بوسیدہ ہو جانے کے باوجود اتارنے اس لیے راضی نہیں تھے کہ وہ کمبل ، بقول ان کے ، ان کو ان کے خلیل عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) نے پہنایا تھا۔بحوالہ : مصنف ابن ابی شیبہ
جیسا کہ ۔۔۔
جنگ یرموک کا واقعہ ہے کہ ایک زخمی صحابی نے اپنے بجائے دوسرے ساتھی کو پانی پلانے کو کہا اور دوسرے نے تیسرے کو ، مگر جب تک پانی پلایا جاتا وہ صحابی دم توڑ گئے اور جب پلانے والا دیگر دونوں کو پانی پلانے پلٹا تو وہ دونوں بھی فوت ہو چکے تھے۔بحوالہ : حیاتِ صحابہ کے درخشان پہلو

صحابہ کے مراتب و درجات
انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد فضیلت و مراتب کے لحاظ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم ہی کا درجہ و مرتبہ ہے۔
اور تمام اہل السنۃ و الجماعۃ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمام صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) عادل ہیں یعنی”الصحابہ کلھم عدول” !
صفتِ عدالت میں یکساں ہونے کے باوجود صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کے مابین فرقِ مراتب ایک مسلمہ حقیقت ہے۔اس کی پوری تفصیل عقائد اور علم الکلام کی کتابوں میں دلائل کے ساتھ موجود ہے۔
عام مسلمانوں کو مختصراً اتنا ضرور علم ہونا چاہئے کہ ۔۔۔
فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہونے والے فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والوں سے افضل ہیں
فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہونے والوں میں وہ صحابہ افضل ہیں جو صلح حدیبیہ میں شریک ہوئے
صلح حدیبیہ کے شرکاء میں سے وہ صحابہ افضل ہیں جو غزوہ بدر میں شریک ہوئے
غزوہ بدر والوں میں سے افضل حضراتِ عشرہ مبشرہ ہیں
اور عشرہ مبشرہ میں سے خلفائے راشدین افضل ہیں

اور خلفائے راشدین میں سے افضل شخصیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ہے۔

امتِ مسلمہ میں صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کا درجہ و مرتبہ اس قدر اعلیٰ و ارفع ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردار فرمایا ہے کہ تم میں سے کسی اعلیٰ ترین فرد کی بڑی سے بڑی نیکی صحابی کی ادنیٰ ترین نیکی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
صحیح مسلم میں بیان ہوا ہے کہ ۔۔۔
حضرت خالد بن ولید (رضی اللہ عنہ) اور عبدالرحمٰن بن عوف (رضی اللہ عنہ) میں کچھ جھگڑا ہوا تو خالد بن ولید نے عبدالرحمٰن بن عوف کو کچھ برا کہا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تب فرمایا :
لَا تَسُبُّوا أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِي ، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَوْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ
میرے اصحاب میں سے کسی کو برا مت کہو ، اس لیے کہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا صرف کرے تو ان کے (خرچ کردہ) ایک مد یا آدھے مد کے برابر نہیں ہو سکتا۔
صحیح مسلم،
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بھی صحابی ہیں۔ اور ان کا درجہ بھی ایسا اعلیٰ درجہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا تھا :
سَيْفٌ مِنْ سُيُوفِ اللَّهِ
اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہےصحیح بخاری
“اللہ کی تلوار” جیسا عظیم الشان لقب ، سرکار دو عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی زبانِ اقدس سے حضرت خالد (رضی اللہ عنہ) کو ملا ہے۔ اس کے باوجود ۔۔۔ اپنی تمام تر خدمات کے باوصف حضرت خالد بن ولید (رضی اللہ عنہ) ، عشرہ مبشرہ میں شامل صحابی حضرت عبدالرحمٰن بن عوف (رضی اللہ عنہ) کے مقام و مرتبہ کو نہیں پہنچ سکے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حضرت عبدالرحمٰن بن عوف (رضی اللہ عنہ) کو سخت سست کہنے سے خبردار فرمایا۔
تو سوچا جانا چاہئے کہ کسی غیر صحابی کا صحابی کو سب و شتم کرنا یا ان کے بارے میں ناگفتنی باتیں کرنا کیونکر روا ہو سکتا ہے؟ اور نازیبا باتیں کرنے والے کو صحابی کے درجہ و مرتبہ تک کیوں کر رسائی حاصل ہو سکتی ہے؟؟
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔۔۔
لَا تَسُبُّوا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمُقَامُ أَحَدِهِمْ سَاعَةً خَيْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِكُمْ عُمْرَهُ
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو برا نہ کہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی ایک گھڑی تمہاری زندگی بھر کے اعمال سے بہتر ہے۔ابن ماجہ
اسی طرح حضرت سعید بن زید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
لَمَشْهَدُ رَجُلٍ مِنْهُمْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْبَرُّ فِيهِ وَجْهُهُ خَيْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِكُمْ عُمُرَهُ وَلَوْ عُمِّرَ عُمُرَ نُوحٍ.
کسی صحابی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر جہاد کرنا ، جس میں اس کا چہرہ خاک آلود ہو گیا ہو ، تمہاری زندگی بھر کے اعمال سے افضل ہے اگرچہ عمرِ نوح بھی دے دی جائے۔ابوداؤد

صحابہ سے حسنِ ظن
حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف میں ایک کتاب “الفقہ الاکبر” کو بھی شمار کیا جاتا ہے۔
اس کتاب میں آپ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :
نتولاهم جميعا ولا نذكر الصحابة
ملا علی قاری رحمۃ اللہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ ایک نسخہ میں آخری الفاظ یوں ہیں :
ولا نذكر أحداً من اصحاب رسول الله صلي الله عليه وسلم إلالخير
ہم سب صحابہ (رضی اللہ عنہم) سے محبت کرتے ہیں اور کسی بھی صحابی کا ذکر بھلائی کے علاوہ نہیں کرتے۔
ملا علی قاری رحمۃ اللہ اس کی شرح میں مزید لکھتے ہیں :
یعنی گو کہ بعض صحابہ سے صورۃ شر صادر ہوا ہے مگر وہ کسی فساد یا عناد کے نتیجہ میں نہ تھا بلکہ اجتہاد کی بنا پر ایسا ہوا اور ان کا شر سے رجوع بہتر انجام کی طرف تھا ، ان سے حسن ظن کا یہی تقاضا ہے۔بحوالہ : شرح الفقہ الاکبر ، ص:71
الفقہ الاکبر کے ایک اور شارح علامہ ابوالمنتہی احمد بن محمد المغنی ساوی لکھتے ہیں :
اہل السنۃ و الجماعۃ کا عقیدہ یہ ہے کہ تمام صحابہ کرام (رضوان اللہ عنہم اجمعین) کی تعظیم و تکریم کی جائے اور ان کی اسی طرح تعریف کی جائے جیسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے۔
بحوالہ : شرح الفقہ الاکبر ، مطبوعہ مجموعۃ الرسائل السبعۃ حیدرآباد دکن – 1948ء
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے عقیدہ و عمل کے ترجمان امام ابوجعفر احمد بن محمد طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور کتاب “العقیدہ الطحاویۃ” میں لکھا ہے :
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے ہیں، ان میں سے نہ کسی ایک کی محبت میں افراط کا شکار ہیں اور نہ ہی کسی سے براءت کا اظہار کرتے ہیں۔ اور جو ان سے بغض رکھتا ہے اور خیر کے علاوہ ان کا ذکر کرتا ہے ہم اس سے بغض رکھتے ہیں اور ہم ان کا ذکر صرف بھلائی سے کرتے ہیں۔ ان سے محبت دین و ایمان اور احسان ہے اور ان سے بغض کفر و نفاق اور سرکشی ہے۔
بحوالہ : شرح العقیدہ الطحاویۃ ، ص:

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ
عبد الله بن عباس بن عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف
آپ کی کنیت ابن عباس اور آپ کا لقب حبر الامۃ ہے۔ آپ کو “ترجمان القرآن” بھی کہا جاتا ہے۔
آپ کی پیدائش ہجرتِ نبوی سے تین سال قبل کی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت آپ (رضی اللہ عنہ) کی عمر چودہ یا پندرہ برس تھی۔
حضرت عبداللہ بن عباس امت مسلمہ کے بہترین افراد میں سے اور نامور فقیہہ و عالم تھے۔ آپ (رضی اللہ عنہ) کی فقاہت کے لیے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص دعا فرمائی تھی۔
چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ ۔۔۔
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاء گئے تو میں نے آپ کے لیے وضو کا پانی رکھ دیا۔ جب آپ باہر تشریف لائے تو فرمایا : یہ کس نے رکھا ہے ؟
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی :
اللَّهُمَّ فَقِّهْهُ فِي الدِّينِ
اے اللہ ! اسے دین کی سوجھ بوجھ عطا فرما۔
صحیح بخاری ، کتاب الوضوء : آن لائن ربط
ونیز آپ رضی اللہ عنہ مزید فرماتے ہیں ۔۔۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے سینے سے چمٹاتے ہوئے یہ دعا فرمائی :
اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْحِكْمَةَ وَتَأْوِيلَ الْكِتَابِ
یا اللہ ! اسے دین کی حکمت اور کتاب اللہ کا علم عطا فرما۔
سنن ابن ماجہ ، فضائل اصحاب الرسول : آن لائن ربط
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کو علم و حکمت سے منور فرما دیا تھا۔ اسی سبب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان کو بڑے بڑے صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کے ساتھ اپنے قریب بٹھایا کرتے تھے اور مشکل مسائل میں ان سے رائے لیا کرتے تھے اور ان کی رائے کو اہمیت بھی دیا کرتے تھے۔ چنانچہ سورۃ “النصر (110)” کے متعلق ان کی رائے کو قبول کیا گیا اور عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میری بھی یہی رائے ہے۔
کئی برحق وجوہات کی بنا پر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو “امام المفسرین” بھی کہا جاتا ہے۔ تفسیر القرآن کے معاملے میں سب سے زیادہ روایات آپ ہی سے مروی ہیں۔ البتہ ان سے جو روایات مروی ہیں ، ان کا ایک بڑا حصہ ضعیف بھی ہے لہذا اُن کی روایات سے استفادہ کی خاطر انہیں اصولِ حدیث کی شرائط پر جانچنا بہت ضروری ہے۔
زبانِ عربی کی ایک تفسیرِ قرآن ” تنویر المقباس فی تفسير ابن عباس” کو آج کل عموماً “تفسیر ابن عباس” کہا اور سمجھا جاتا ہے ، لیکن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف اس کی نسبت درست نہیں کیونکہ یہ کتاب ۔۔۔
محمد بن مروان السدی عن محمد بن السائب الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباس
کی سند سے مروی ہے جسے محدثین نے “سلسلۃ الکذب (جھوٹ کا سلسلہ)” قرار دیا ہے لہذا اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ اپنی معروف کتاب “الاتقان” ، جلد دوم ، صفحہ نمبر 189 پر لکھتے ہیں‫:
محمد بن مروان اگر اس سند (عن کلبی عن ابی صالح عن ابن عباس) سے روایت کرے تو یہ پوری سند “سلسلۃ الکذب (جھوٹ کا سلسلہ)” کہلاتی ہے۔
اسی طرح ۔۔۔
امام ابو حاتم رحمۃ اللہ اپنی کتاب “الجرح و التعدیل” ، جلد اول ، صفحہ 36 پر لکھتے ہیں‫:
سفیان ثوری رحمۃ اللہ نے کہا کہ محمد بن السائب الکلبی اگر اس سند عن ابی صالح عن ابن عباس سے روایت کرے تو حدیث نہیں لی جائے گی کہ یہ سند جھوٹی ہے۔
آخری عمر میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی بینائی ختم ہو گئی تھی اور آپ 71 سال کی عمر پا کر طائف میں سن 68 ھجری میں فوت ہوئے۔ آپ سے صحابہ اور تابعین کی ایک بڑی جماعت نے حدیث روایت کی ہے۔

صحابۂ کرام کے حقوق
عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال : قال النبي صلى الله عليه وسلم: لا تسبوا أصحابي ، فلو أن أحدكم أنفق مثل أحد ذهبا ما بلغ مد أحدهم ولا نصيفه .
( صحيح البخاري : 3673 ، الفضائل / صحيح مسلم : 2541 ، الفضائل )
حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا : میرے صحابہ کی عیب جوئی نہ کرو ، اسلئے کہ اگر تم میں کا کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا خیرات کرے تو انکے ایک مد یا آدھے مد کے برابر بھی نہیں ہوسکتا ۔
تشریح : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالی نے بندوں کے دلوں کا جائزہ لیا تو اس میں سب سے اچھا دل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو پایا تو انہیں اپنے لئے اور اپنی رسالت کیلئے منتخب کرلیا ، پھر جب [ نبیوں کے دلوں کے بعد اور ] بندوں کے دلوں کا جائزہ لیا تو سب سے بہتر دلحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے دل کو پایا تو اپنے نبی کے وزیر و ساتھی کے طور پر انکا انتخاب کر لیا جو اسکے دین کی بنیاد پر جہاد کئے ہیں تو یہ مسلمان [ یعنی صحابہ ] جس چیز کو اچھا سمجھیں وہ اچھی ہے اور جس چیز کو برا سمجھیں وہ بری ہے ۔{مسند احمد ، ج : 1 ، ص : 379 / شرح السنۃ ، ج : ۱ ص : 214 }
صحابی کہتے ہیں اس شخص کو جس نے حالت ایمان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی ہو اور ایمان ہی پر اسکا انتقال بھی ہوا ہو ، اہل سنت وجماعت کے یہاں صحابہ کرام کی بڑی اہمیت اور انکے کچھ خاص حقوق ہیں جنکا ادا کرنا ایک مسلمان کیلئے ضروری ہے ، کیونکہ
اوّلا : تو وہ لوگ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں
ثانیا :ان کا تعلق دنیا کے سب سے بہتر زمانہ سے ہے ،
ثالثا : وہ لوگ امت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان واسطہ ہیں ،
رابعا : اللہ تبارک و تعالی نے انہیں کے ذریعہ اسلامی فتوحات اور تبلیغ کی ابتدا کی ،
خامسا : وہ لوگ امانت و دیانت اور اچھے خلق کے جس مقام پر فائز تھے کوئی دوسرا وہاں تک نہیں پہنچ سکتا ۔
صحابہء کرام کے حقوق
[ 1]
محبت :
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ(سورة المائدة : 55)
تمہارے دوست تو خدا اور اس کے پیغمبر اور مومن لوگ ہی ہیں جو نماز پڑھتے اور زکوٰة دیتے اور (خدا کے آگے) جھکتے ہیں
اس آیت میں اہل ایمان سے محبت کرنے والے کو اللہ تبارک وتعالی کا ولی قرار دیا گیا ہے اور جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس وقت اہل ایمان صرف صحابہءکرام تھے۔
ارشاد نبوی ہے : آیۃ الایمان حب الانصار و آیۃ النفاق بغض الانصار
صحیح البخاری و صحیح مسلم عن ابن انس ]
انصار سے محبت ایمان کی علامت اور انصار سے بغض و نفرت نفاق کی علامت ہے ۔
[ 2 ]
دعا و استغفار :
وَالَّذِينَ جَاؤُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ( سورة الحشر : 10 )
اور (ان کے لئے بھی) جو ان (مہاجرین) کے بعد آئے (اور) دعا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں گناہ معاف فرما اور مومنوں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (و حسد) نہ پیدا ہونے دے۔ اے ہمارے پروردگار تو بڑا شفقت کرنے والا مہربان ہے

اس لئے اہل سنت و جماعت کے نزدیک ” رضی اللہ عنہ ” صحابہء کرام کیلئے شعار ہے ۔
[ 3 ]
صحیح دلیل سے ثابت انکے فضائل کا اقرار :
جیسے عشرہ و مبشرہ ، حضرت عائشہ ، حضرت فاطمہ ، حضرت عمرو بن عاص وغیرہ کے فضائل میں وارد حدیثیں ۔
[ 4 ]
انکی عدالت کا اعتراف :
یعنی وہ ہر قسم کے گناہ سے پرہیز کرتے تھے تقوی کا التزام کرتے تھے ، ہر معاملہ پر حق و صواب کو حرز جان بناتے تھے ، اگر ان میں کسی سے کوئی غیطو ہوئی ہے تو وہ اجتہادی غلطی ہے یا پھر بتقاضائے بشریت ہے جس پر وہ اصرار نہیں کرتے تھے:
وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللَّهِ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِّنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُوْلَئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ( سورة الحجرات : 7 )
اور جان رکھو کہ تم میں اللہ کے رسول موجود ہیں ، اگر وہ تمہارا کہا کرتے رہے بہت امور میں ، تو تم مشکل میں پڑ جاو لیکن اللہ تعالی نے ایمان کو تمہارے لئے محبوب بنادیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں زینت دے رکھی ہے اور کفر کو اور گناہ کو اور نافرمانی کو تمہاری نگاہوں میں ناپسندیدہ بنادیا ہے ، یہی لوگ راہ یافتہ ہیں ۔
[ 5 ] انکی تعظیم و توقیر کی جائے :
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
اکرموا اصحابی فانہم خیارکم{النسائی الکبری ، مصنف عبد الرزاق عن عمر }
میرے صحابہ کا احترام کرو کیونکہ وہ تم میں سب سے افضل ہیں ۔
[ 6 ] انکی عیب جوئی نہ کی جائے اورانہیں برا بھلا نہ کہا جائے :
ارشاد نبوی ہے :
لا تسبوا اصحابی ، لعن اللہ من سب اصحابی ۔{ الطبرانی الاوسط عن عائشۃ }
میرے صحابہ کو بر بھلا نہ کہو ، اس شخص پر اللہ تعالی کی لعنت ہو جو میرے صحابہ کو برا کہے ۔
[ 7 ]
انکی غلطیوں کو اچھالا نہ جائے اور انکے اختلافات کو حدیث مجالس نہ بنایا جائے :
ارشاد نبوی ہے :
اذا ذکر اصحابی فامسکو{ الطبرانی الکبیر ، عن ابن مسعود }
جب میرے صحابہ { کے آپسی اختلاف} کا ذکر ہو تو خاموشی اختیار کرو ۔
[ 8 ] انکی علمیت اور دینی خدمات کا اعتراف کیا جائے :
کیونکہ انہی لوگوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بلا واسطہ دین کو اخذ کیا ہے ۔
بشکریہ : شیخ ابو کلیم فیضی (مرکز دعوت و ارشاد ، الغاط ، سعودی عرب

حضرت علی رضی اللہ عنہ
علی بن ابی طالب بن ہاشم بن عبدمناف
آپ کی کنیت ابوالحسن اور ابوتراب ہے۔ اور آپ کا لقب حیدر ہے۔
آپ کی پیدائش بعثتِ نبوی سے دس سال قبل کی ہے۔
اہل سنت و الجماعت اس بات پر متفق ہیں کہ ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے بعد صحابہ کرام میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سب سے افضل صحابی ہیں۔ آپ خلفائے راشدین میں سے چوتھے خلیفہ ہیں۔ آپ (رضی اللہ عنہ) کی خلافت کی مدت چار سال نو ماہ اور کچھ دن ہے۔ آپ نے بچوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ آپ نبی کریم صلی اللہ عیہ) وسلم کے حقیقی چچازاد بھائی اور داماد تھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے اپنی لاڈلی دختر کا نکاح علی بن طالب (رضی اللہ عنہ) سے کرنا ہی اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ بلند ترین اوصاف حمیدہ سے متصف تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک علی بن طالب رضی اللہ عنہ اس قدر اہم شخص تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ایک دفعہ فرمایا :
لِعَلِيٍّ أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي
تم میرے نزدیک وہی مقام رکھتے ہو جو مقام موسیٰ (علیہ السلام) کے نزدیک ہارون (علیہ السلام) کا تھا۔ مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ
مومنین کے لیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے محبت دین و ایمان کا تقاضا ہے۔ کیونکہ اُن سے محبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی دلیل ہے۔ کوئی شخص مومن کہلانے کا اُس وقت تک حقدار نہیں ہے جب تک کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے محبت نہ رکھے۔
خود حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرمانِ پاک یوں پیش فرماتے ہیں :
وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ ، إِنَّهُ لَعَهْدُ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، إِلَيَّ أَنْ ” لَا يُحِبَّنِي إِلَّا مُؤْمِنٌ ، وَلَا يُبْغِضَنِي إِلَّا مُنَافِق ” .
اس ذات کی قسم ! جس نے دانے کے پھاڑا اور ہر جاندار چیز کو پیدا فرمایا کہ نبی اُمی نے مجھ سے تاکیداً کہا تھا کہ مجھ سے صرف مومن ہی محبت کرے گا اور منافق کے سوا اور کوئی مجھ سے بغض نہیں رکھے گا۔صحیح مسلم ، کتاب الایمان
سیدنا علی بن ابی طالب کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک عظیم مقام ہے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نہایت بااعتماد رفیق ہیں۔ اسی لیے فرامینِ نبوی میں درج ہے :
إِنَّ عَلِيًّا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ , وَهُوَ وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِي
علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اور وہ میرے بعد ہر مومن کا دوست ہے۔ترمذی ، کتاب المناقب
مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ
جس شخص کے ساتھ میں دوستی رکھتا ہوں ، اس سے علی بھی دوستی رکھتا ہے۔ترمذی ، کتاب المناقب
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کشادہ دل اور کشادہ ذہن تھے۔ آپ نے کھلے دل سے اپنے ساتھیوں کی فضیلت بیان کی ہے۔ جب آپ کو پتا چلا کہ کچھ لوگ سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہم کے متعلق نازیبا الفاظ استعمال کر رہے ہیں تو آپ منبر پر چڑھے اور فرمایا:
والذي فلق الحبة وبرأ النسمة‏!‏ لا يحبهما إلا مؤمن فاضل، ولا يبغضهما ولا يخالفهما إلا شقي مارق، فحبهما قربة وبغضهما مروق، ما بال أقوام يذكرون أخوي رسول الله صلى الله عليه وسلم ووزيريه وصاحبيه وسيدي قريش وأبوي المسلمين‏؟‏ فأنا بريء ممن يذكرهما بسوء وعليه معاقب‏.‏
اس ذات کی قسم جس نے دانے اور گٹھلی کو پھاڑا اور روح کو پیدا کیا ! ان دونوں سے وہی محبت کرے گا جو فاضل مومن ہوگا ، اور ان دونوں سے وہی بغض و عداوت رکھے گا جو بدبخت اور مارق (بدمذہب) ہوگا ، کیونکہ ان دونوں کی محبت تقرب الٰہی کا سبب ہے اور ان سے بغض و نفرت رکھنا دین سے خارج ہونے کی علامت ہے۔ ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بھائیوں ، اور دو وزیروں ، اور دو ساتھیوں اور قریش کے دو سرداروں اور مسلمانوں کے دو باپوں کو نازیبا الفاظ سے یاد کرتے ہیں؟ میں ان لوگوں سے لاتعلق ہوں جو ان دونوں کو برے الفاظ سے یاد کرتے ہیں ، اور اس پر انہیں سزا دوں گا۔کنزالعمال
ونیز ۔۔۔
حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے عراق والوں سے کہا تھا :
اقْضُوا كَمَا كُنْتُمْ تَقْضُونَ فَإِنِّي أَكْرَهُ الِاخْتِلَافَ حَتَّى يَكُونَ لِلنَّاسِ جَمَاعَةٌ أَوْ أَمُوتَ كَمَا مَاتَ أَصْحَابِي
جس طرح تم پہلے فیصلہ کیا کرتے تھے ، اب بھی کیا کرو ، کیونکہ میں اختلاف کو برا جانتا ہوں۔ اسی وقت تک کہ سب لوگ جمع ہو جائیں یا میں بھی اپنے ساتھیوں (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم) کی طرح دنیا سے چلا جاؤں۔
ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ کہا کرتے تھے کہ :
يَرَى أَنَّ عَامَّةَ مَا يُرْوَى عَنْ عَلِيٍّ الْكَذِبُ
عام لوگ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایات (شیخین کی مخالفت میں) بیان کرتے ہیں وہ قطعاً جھوٹی ہیں۔
صحیح بخاری ، فضائل اصحاب النبی
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ذات اوصافِ حمیدہ کا مجموعہ تھی۔ آپ کے اندر ساری اچھی خوبیاں مثلاً امانت و دیانت ، زہد و تقویٰ وغیرہ موجود تھیں۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو لسانِ نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے شہید کا درجہ بھی عطا کیا گیا ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علی ، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم کے ساتھ حراء کی ایک چٹان پر تھے کہ چٹان نے حرکت کی ، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اسْكُنْ حِرَاءُ ، فَمَا عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ ، أَوْ صِدِّيقٌ ، أَوْ شَهِيدٌ
آرام سے رہو ، کیونکہ تم پر نبی ، صدیق اور شہید کے علاوہ کوئی نہیں۔صحيح مسلم ، كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ
سیدنا علی المرتضیٰ 17 رمضان المبارک سن 40 ھجری کو صبح کے اوقات میں بدبخت ابن ملجم کے ہاتھوں شہید ہوئے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ
عثمان بن عفان بن ابی العاص ابن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف
ابو عبداللہ اور ابوعمر کنیت
والد ماجد کا نام عفان اور والدہ ماجدہ کا نام ارویٰ
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا سلسلہ پانچویں پشت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی نانی بیضاء ام الحکیم عبداللہ بن عبدالمطلب کی سگی بہن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں۔ اس لیے حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) ماں کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انتہائی قریبی رشتہ دار ہیں۔بحوالہ : فتح الباری ، کتاب المناقب :
امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ امت نے حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کو متفق علیہ طور پر اپنا امام اور پیشوا بنایا تھا۔ آپ خلافتِ راشدہ کے تیسرے خلیفہ ہیں۔ آپ (رضی اللہ عنہ) کی خلافت کی مدت 12 سال ہے۔ مستند تاریخی واقعات سے ثابت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ممالک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں فتح کئے گئے۔ دنیائے اسلام میں سیدنا عثمان (رضی اللہ عنہ) سے بڑا حکمران پیدا ہی نہیں ہوا۔
یہ ایک عظیم شخصیت ہیں کہ جن کی بعض امتیازی فضیلتوں اور حیثیتوں میں کائینات کا کوئی دوسرا فرد شریک نہیں ہے !
اور وہ امتیازی خصوصیت اور فضیلت یہ ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یکے بعد دیگرے اپنی دو بیٹیاں ان کے نکاح میں دی ہیں۔ یہ اتنا بڑا شرف ہے کہ اس شرف میں کائینات کا کوئی دوسرا فرد و بشر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا ہمسر نہیں ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں ان سے عظیم کوئی نہ تھا اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیٹی کے فوت ہو جانے کے بعد دوسری بیٹی کا رشتہ بھی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو ہی دیا ہے جو ان کے عظیم سے عظیم تر ہونے کی دلیل ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کے سبب ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کوذو النورین (دو نوروں والا) کا لقب حاصل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جنتی ہونے کی بشارت دی گئی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ایک باغ میں تھے اور باغ کے دروازے پر حضرت ابوموسیٰ موجود تھے تب وہاں ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم آئے جنہیں نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جنتی ہونے کی بشارت دی۔
پھر راوی ابوموسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں کہ ۔۔۔
پھر دروازے پر ایک اور شخص آیا اور اس نے بھی اندر داخل ہونے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
افْتَحْ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى تَكُونُ
اجازت دے دو اور اسے جنت کی بشارت بھی سنا دو ، اور اسے آگاہ کرو کہ اس پر ایک مصیبت نازل ہوگی۔
راوی ابوموسیٰ اشعری آگے کہتے ہیں کہ ۔۔۔ میں نے دیکھا تو وہ عثمان تھے ! صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ :
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے آپ رضی اللہ عنہ کو “شہید” قرار دیا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ احد پہاڑ پر چڑھے تو وہ کانپنے لگا، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنا پاؤں اس پر مارتے ہوئے فرمایا :
اثْبُتْ أُحُدُ فَمَا عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيقٌ أَوْ شَهِيدَانِ
احد ٹھہر جاؤ ! کیونکہ تجھ پر ایک پیغمبر ، ایک صدیق اور دو شہید ہیں !! صحيح البخاري ، كِتَاب الْمَنَاقِبِ :
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خصوصیات میں ایک یہ بھی تھی کہ وہ اس قدر باحیا تھے کہ فرشتے بھی ان سے حیا کرتے تھے۔
نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے آپ (رضی اللہ عنہ) ہی کے متعلق ارشاد فرمایا تھا :
أَلَا أَسْتَحِي مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحِي مِنْهُ الْمَلَائِكَةُ
کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں ؟صحيح مسلم ، كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ :
مشرکینِ مکہ کے غیض و غضب سے لاچار ہو کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اشارہ پر اور حق و صداقت کی محبت میں وطن اور اہلِ وطن کو چھوڑ کر حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) اپنی اہلیہ محترمہ سیدہ رقیہ (رضی اللہ عنہا) کے ساتھ جلا وطن ہوئے۔ اس جلاوطنی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا :
میری امت میں عثمان پہلا شخص ہے جو اپنے اہل و عیال کو لے کر جلا وطن ہوا۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق مشہور ہے کہ آپ احد اور بدر کی جنگوں میں اور بیعتِ رضوان میں بھی حاضر نہیں تھے۔ اہلِ حق جب اس کی وجوہات جاننے کی جستجو کرتے ہیں تو صحیح بخاری میں درج حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی وضاحت سامنے نظر آتی ہے۔
ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔۔۔
قریب آؤ ، اب میں تمہیں ان واقعات کی تفصیل سمجھاؤں گا۔
احد کی لڑائی والی لغزش کے متعلق میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا ہے (بحوالہ : سورہ آل عمران ، آیت:155)
بدر کی لڑائی میں غیر حاضری کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صاحبزادی رقیہ (رضی اللہ عنہا) ان کے نکاح میں تھیں اور وہ سخت بیمار تھیں۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان (رضی اللہ عنہ) سے فرمایا تھا:
ان لک اجر
تمہیں جنگِ بدر میں ایک شریک کے برابر ثواب اور مالِ غنیمت سے حصہ ملے گا۔
اور جہاں تک بیعتِ رضوان سے ان کے غیر حاضر ہونے کا تعلق ہے تو اگر مکہ میں عثمان (رضی اللہ عنہ) سے زیادہ کوئی اثر و رسوخ والا ہوتا تو (قریش سے گفتگو کے لیے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی کو بھیجتے۔ پس رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے عثمان (رضی اللہ عنہ) کو بھجاب۔ اور بیعتِ رضوان ان کے مکہ جانے کے بعد ہوئی۔ اس موقع پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے داہنے ہاتھ کو اٹھا کر فرمایا تھا :
هَذِهِ يَدُ عُثْمَانَ(یہ عثمان کا ہاتھ ہے)
اور پھر اسے اپنے دوسرے ہاتھ پر رکھ کر فرمایا :
هَذِهِ لِعُثْمَانَ (یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے !)
صحيح البخاري ، كِتَاب الْمَنَاقِبِ :
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنوں کا ذکر کیا۔ اس دوران ایک آدمی سر پر کپڑا ڈالے ہوئے گزرا تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا :
ھذا
یہ شخص فتنہ کے دنوں میں ہدایت پر ہوگا۔
حدیث کے راوی نے جب اس شخص کو سامنے سے دیکھا تو وہ عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔ راوی نے حضرت عثمان کا چہرہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جانب پھیرتے ہوئے پوچھا :
ان کے بارے میں ہی آپ یہ فرما رہے ہیں؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً کہا : ہاں ! مسند احمد :
تقریباً یہی روایت طبرانی اوسط میں بھی ان زائد الفاظ کے ساتھ موجود ہے ۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اتبعوا
اس شخص اور اس کے ساتھیوں کا ساتھ دینا۔
راوی حضرت مرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : میں اس شخص کی طرف ہو لیا۔ وہ عثمان (رضی اللہ عنہ) تھے۔ میں نے انہیں پکڑا اور ان کا چہرہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف کرتے ہوئے عرض کیا :
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اسی شخص کے بارے میں آپ نے فرمایا ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : ہاں ! طبرانی
گویا فتنہ کے دَور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حق بجانب قرار دیا بلکہ ان کا ہمنوا بننے اور ان کی تابعداری کا بھی حکم دیا تھا !!
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ماہ ذی الحجہ سن 35 ھجری میں جمعہ کے دن شہید کیا گیا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
تُقْتَلُ وَأَنْتَ مَظْلُومٌ ، وَتَقْطُرُ قَطْرَةٌ مِنْ دَمِكَ عَلَى فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ سورة البقرة آية 137
سیدنا عثمان مظلوم قتل ہوئے ، تلاوت کے دوران جب انہیں شہید کیا گیا تو آپ کے خون کے قطرے اس آیت مبارکہ پر ٹپکے :

فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُاسد الغابہ
سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ
عمر بن الخطاب بن نفیل بن عبدالعزیٰ بن رباح بن عبداللہ بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لوئی
عمر نام ، ابوحفص کنیت ، فاروق لقب
والد ماجد کا نام خطاب اور والدہ ماجدہ کا نام ختمہ
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا سلسلہ آٹھویں پشت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔
تمام اہل سنت و الجماعت اس بات پر متفق ہیں کہ ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کے بعد عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) سب سے افضل صحابی ہیں اور وہی ان کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ تھے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ، ہجرتِ نبوی سے 40 برس پہلے پیدا ہوئے۔ زمانۂ جاہلیت میں جو لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے ، ان میں سے ایک سیدنا عمر (رضی اللہ عنہ) بھی تھے۔
بحوالہ : الاستيعاب في معرفة الأصحاب ، تذکرہ عمر رضی اللہ عنہ
کتبِ سیرت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک مشہور واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی ہمشیرہ پر ظلم کیا اور پھر انہی کی طرف سے قرآن سننے کے بعد اسلام لے آئے۔ اس ضمن میں ایک روایت خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بھی زبانی ہے کہ ۔۔۔
انہوں نے مسجد حرام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے دوران سورۃ الحاقہ کی تلاوت کرتے ہوئے سنا اور وہ قرآن کریم کے نظم و اسلوب سے حیرت زدہ ہو گئے۔ مکمل سورت کی تلاوت سن کر بالآخر انہیں محسوس ہوا کہ اسلام ان کے دل میں پوری طرح گھر کر گیا ہے۔
بحوالہ : الوسيط في تفسير القرآن المجيد ، سُورَةِ الْفَاتِحَةِ
مورخین اسلام کی رائے کے مطابق سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبوت کے ساتویں سال میں ایمان لے آئے۔
بی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی تھی کہ
اللَّهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأَحَبِّ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ إِلَيْكَ : بِأَبِي جَهْلٍ , أَوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ
اے اللہ ! ابوجہل اور عمر بن خطاب میں سے جو آپ کو زیادہ محبوب ہو اس کے ذریعے اسلام کو غلبہ عطا فرما۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ یہ روایت بیان کر کے آگے کہتے ہیں کہ :
وَكَانَ أَحَبَّهُمَا إِلَيْهِ عُمَرُ .
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دونوں میں سے عمر (رضی اللہ عنہ) زیادہ محبوب تھے۔
سنن ترمذی ، کتاب الدعوات ، باب المناقب :
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ۔۔۔
مَا زِلْنَا أَعِزَّةً مُنْذُ أَسْلَمَ عُمَرُ
عمر (رضی اللہ عنہ) نے جب سے اسلام قبول کیا تب سے ہماری طاقت و قوت میں اضافہ ہوتا گیا۔
صحیح بخاری ، کتاب المناقب :
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دین میں اس قدر پختہ تھے کہ انسان کا سب سے بڑا دشمن شیطان بھی ان کے مقابلے میں آنے سے کتراتا تھا۔
اسی حقیقت کے متعلق نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی ہے کہ ۔۔۔
إِيهًا يَا ابْنَ الْخَطَّابِ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا لَقِيَكَ الشَّيْطَانُ سَالِكًا فَجًّا قَطُّ إِلَّا سَلَكَ فَجًّا غَيْرَ فَجِّكَ
اے ابن خطاب ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! جب کبھی شیطان کا سرِ راہ تم سے سامنا ہوتا ہے تو وہ تمہارا راستہ چھوڑ کر دوسرے راستے پر چل دیتا ہے۔
صحیح بخاری ، کتاب فضائل الصحاب النبی :
یہ بات بھی بہت مشہور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو موقف اختیار کرتے تھے تو اس کی تائید میں قرآن مجید نازل ہو جاتا تھا۔
جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ ۔۔۔
مقام ابراہیم کو مستقل جائے نماز بنانے کی رائے
امہات المومنین کو حجاب کا حکم دینے کی رائے
بدر کے قیدیوں سے متعلق رائے
کے ذریعے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے رب سے موافقت کی تھی۔
صحيح مسلم ، كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ : آن لائن ربط
اسی موضوع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گواہی دیتے ہوئے فرماتے ہیں ۔۔۔
إِنَّ اللَّهَ جَعَلَ الْحَقَّ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِهِ
بےشک اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان اور ان کے دل پر حق رکھ دیا ہے۔
جامع الترمذي ، كِتَاب الدَّعَوَاتِ ، أبوابُ الْمَنَاقِبِ :
لَقَدْ كَانَ فِيمَا قَبْلَكُمْ مِنَ الْأُمَمِ مُحَدَّثُونَ فَإِنْ يَكُ فِي أُمَّتِي أَحَدٌ فَإِنَّهُ عُمَرُ
تم لوگوں سے پہلی امتوں میں محدثون (الہامی) لوگ ہوا کرتے تھے۔ اگر میری امت میں کوئی ایسا ہے تو وہ عمر ہے۔
صحيح البخاري ، كِتَاب الْمَنَاقِبِ : آن لائن ربط
اسی طرح ۔۔۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرزند ارجمند ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی کچھ ایسی ہی گواہی دیتے ہوئے کہتے ہیں ۔۔۔
جب بھی لوگوں کو کوئی مسئلہ پیش آتا جس میں آراء مختلف ہوتیں اور عمر (رضی اللہ عنہ) کوئی اور رائے پیش کرتے تو قرآن کریم انہیکی رائے کی تائید میں نازل ہو جاتا۔مسند احمد
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صاف اشارہ ایک حدیث سے یوں ملتا ہے ۔۔۔
دوران خواب میں نے اپنے آپ کو ایسے کنویں پر پایا جس کی منڈیر نہیں تھی ، اس میں ایک ڈول تھا۔ میں نے اس کنویں سے جتنے اللہ تعالیٰ نے چاہے ڈول کھینچے پھر اس ڈول کو ابن قحافہ (ابوبکر) نے تھام لیا۔ انہوں نے اس کنویں سے ایک یا دو ڈول کھینچے ، ان کے کھینچنے کی کمزوری کو اللہ معاف فرمائے ، اس کے بعد ڈول بڑے ڈول میں تبدیل ہو گیا اور اس کو ابن الخطاب نے پکڑ لیا۔ میں نے انسانوں میں کوئی مضبوط طاقتور شخص نہیں دیکھا جو عمر کی طرح ڈول کھینچتا ہو۔ اس نے اتنے ڈول کھینچے کہ سب لوگ جانوروں اور زمین سمیت سیراب ہو گئے۔صحيح البخاري ، كِتَاب الْمَنَاقِبِ
یہ حدیث سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت کی واضح دلیل ہے کہ ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کے بعد وہی خلیفہ راشد قرار پائیں گے۔
سیدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ خود بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مداح تھے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں کھڑا تھا جو عمر (رضی اللہ عنہ) کیلئے اُس وقت دعا کر رہے تھے جب آپ کو چارپائی پر لٹایا گیا تھا۔ اچانک میرے پیچھے سے ایک شخص نے اپنی کہنی میرے کندھوں پر رکھی اور یوں دعا کی :
{اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے ، مجھے اللہ تعالیٰ سے امید تھی کہ وہ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ہی جمع کر دے گا، کیونکہ میں اکثر و بیشتر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ الفاظ سنا کرتا تھا کہ ۔۔۔۔ “میں ، ابوبکر اور عمر تھے، میں ابوبکر اور عمر نے یوں کیا، میں ابوبکر اور عمر گئے” ۔۔۔ تو اسی لیے مجھے (پہلے سے) امید تھی کہ آپ کو اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھیوں کے ساتھ ہی اکٹھا کر دے گا۔}
ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ علی (رضی اللہ عنہ) تھے جو یہ دعا کر رہے تھے۔
صحيح البخاري ، كِتَاب الْمَنَاقِبِ
دس سالہ خلافت کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ایک بدبخت فیروز ابولولو کے ہاتھوں شہید ہوئے اور یکم محرم سن 24ھ کو اپنا رخت سفر باندھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں ہمیشہ کی نیند سو گئے۔

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ
عبداللہ بن عثمان بن عامر وبن کعب بن سعد
عبداللہ نام ، ابوبکر کنیت ، صدیق اور عتقہ لقب
والد ماجد کا نام عثمان ابوقحافہ اور والدہ ماجدہ کا نام سلمٰی ام الخیر
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا سلسلہ چھٹی پشت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔
امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی وہ شخصیت ہںو جنہوں نے اسلام کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں اور جان و مال سے شجرِ اسلام کی حفاظت کی ہے۔ بالغ مَردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی شخصیت آپ ہی کی تھی۔ ہجرت کے سفر میں بھی آپ اکیلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی تھے۔
ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بچپن ہی سے خاص انس اور خلوص تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقۂ احباب میں داخل تھے۔ تجارت کے اکثر سفروں میں بھی انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمراہی کا شرف حاصل ہوتا تھا۔بحوالہ : کنز العمال
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی لسانِ مبارک سے سیدنا ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کے احسانات کا اعتراف فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں :
” أَبْرَأُ إِلَى كُلِّ خَلِيلٍ مِنْ خِلِّهِ وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ ابْنَ أَبِي قُحَافَةَ خَلِيلًا ، وَإِنَّ صَاحِبَكُمْ خَلِيلُ اللَّهِ ”
اللہ تعالیٰ نے تمہارے رفیق کو (اپنا) خلیل بنایا ہے۔ جتنا فائدہ مجھے ابوبکر کے مال نے پہنچایا ہے اتنا فائدہ کبھی کسی کے مال نے نہیں پہنچایا اور اگر میں کسی کو خلیل بنانا چاہتا تو ابوبکر کو بناتا۔ خبردار تمہارا صاحب اللہ کا خلیل ہے۔
ترمذی ، کتاب المناقب : آن لائن ربط
ابوسعید خدری (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
” إِنَّ مِنْ أَمَنِّ النَّاسِ عَلَيَّ فِي صُحْبَتِهِ وَمَالِهِ أَبَا بَكْرٍ وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا غَيْرَ رَبِّي لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ وَلَكِنْ أُخُوَّةُ الْإِسْلَامِ وَمَوَدَّتُهُ لَا يَبْقَيَنَّ فِي الْمَسْجِدِ بَابٌ إِلَّا سُدَّ إِلَّا بَابَ أَبِي بَكْرٍ ” .
میرا ساتھ نبھانے اور مال خرچ کرنے میں مجھ پر سب سے زیادہ احسان ابوبکر کا ہے ، اور اگر میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو خلیل بنانے والا ہوتا تو ابوبکر کو بناتا ، لیکن اسلامی بھائی چارہ اور اس کی محبت ہی کافی ہے۔ مسجد کے تمام دروازوں کو بند رکھا جائے سوائے بابِ ابوبکر کے۔
صحیح بخاری ، کتاب فضائل الصحابہ :آن لائن ربط
تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا اس بات پر اتفاق تھا کہ سیدنا ابوبکر (رضی اللہ عنہ) ان سب سے افضل ہیں۔
ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔۔۔
” كُنَّا نُخَيِّرُ بَيْنَ النَّاسِ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَنُخَيِّرُ أَبَا بَكْرٍ ، ثُمَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، ثُمَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے سب سے بہترین انسان سیدنا ابوبکر ، پھر عمر اور پھر عثمان رضی اللہ عنہم ہیں۔
صحیح بخاری ، کتاب فضائل اصحاب النبی : آن لائن ربط
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی متواتر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا ۔۔۔
أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ أَبُو بَكْرٍ : قُلْتُ : ثُمَّ مَنْ ، قَالَ : ثُمَّ عُمَرُ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے سب سے بہترین شخص ابوبکر اور پھر ان کے بعد عمر ہیں۔
صحیح بخاری ، کتاب فضائل اصحاب النبی : آن لائن ربط
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو بشارت دی تھی کہ :
وَقَالَ : هَلْ يُدْعَى مِنْهَا كُلِّهَا أَحَدٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَالَ : ” نَعَمْ وَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مِنْهُمْ يَا أَبَا بَكْرٍ ” .
آپ کو جنت کے ہر دروازے سے پکارا جائے گا کہ آپ جنت میں آ جائیں۔
صحیح بخاری ، کتاب فضائل اصحاب النبی :آن لائن ربط
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ۔۔۔
ادْعِي لِي أَبَا بَكْرٍ أَبَاكِ ، وَأَخَاكِ ، حَتَّى أَكْتُبَ كِتَابًا ، فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَتَمَنَّى مُتَمَنٍّ ، وَيَقُولُ قَائِلٌ أَنَا أَوْلَى ، وَيَأْبَى اللَّهُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَّا أَبَا بَكْرٍ
مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرضِ وفات میں فرمایا کہ اپنے باپ ابوبکر اور اپنے بھائی عبدالرحمٰن کو میرے پاس بلاؤ ، تاکہ میں انہیں تحریر لکھوا دوں ، کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ (خلافت کی) تمنا کرنے والے تمنا کریں گے اور کہنے والا کہے گا کہ میرے سوا اور کوئی نہیں۔ جبکہ اللہ اور تمام مومنین ابوبکر کے علاوہ سب کاانکار کرتے ہیں۔
صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ :
علم و یقین اور ایمان و تقویٰ کی یہ عظیم شخصیت خلافتِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے عظیم منصب پر سوا دو سال تک براجمان رہی اور اسلام کے لیے آپ رضی اللہ عنہ نے وہ کارہائے نمایاں سرانجام دئے کہ جو کبھی فراموش نہ کئے جا سکیں گے۔
63 برس کی عمر میں جمادی الاول سن 13 ھجری کے اواخر میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے وفات پائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں مدفون ہو کر دائمی رفاقت کے لیے جنت میں پہنچ گئے۔

ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور والدہ کا نام ام رومان بنت عامر بن عویمر ہے۔
آپ رضی اللہ عنہا کی کنیت ام عبداللہ تھی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیقۂ کائینات سے ہجرت سے تین سال قبل ماہِ شوال میں نکاح کیا اور رخصتی ہجرت کے دوسرے سال شوال میں ہوئی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر سیدہ عائشہ کا انتخاب کیا تھا۔ سیدہ عائشہ فرماتی ہیں ۔۔۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بتایا کہ :
تین راتوں تک تم مجھے خواب میں دکھائی گئیں ، فرشتہ ریشم کے کپڑے میں لپیٹ کر تمہاری تصویر لاتا رہا اور اس نے مجھے بتایا کہ یہ آپ کی بیوی ہے۔ پھر جب میں نے تمہارے چہرے سے نقاب اٹھایا تو وہ تم تھیں۔ پس میں نے سوچا اگر یہ خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو وہ تمہیں مجھ سے ملا دے گا۔صحیح بخاری ، کتاب المناقب
یہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا خاص فضل ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں آپ (رضی اللہ عنہا) کی بہت زیادہ فضیلت بیان ہوئی ہے۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اس زوجۂ محترمہ سے بےپناہ محبت تھی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپ کو سب سے زیادہ محبت کس سے ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عائشہ سے
صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ۔۔۔
لَا تُؤْذِينِي فِي عَائِشَةَ فَإِنَّهُ وَاللَّهِ مَا نَزَلَ عَلَيَّ الْوَحْيُ وَأَنَا فِي لِحَافِ امْرَأَةٍ مِنْكُنَّ غَيْرِهَا
مجھے عائشہ کے بارے میں تکلیف مت پہنچاؤ۔ اللہ کی قسم ! عائشہ کے سوا کسی اور بیوی کے بستر پر مجھ پر وحی نازل نہیں ہوتی۔صحیح بخاری ، کتاب المناقب
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا دنیا کے ساتھ آخرت میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہیں۔
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا :
کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ تم دنیا اور آخرت میں میری بیوی رہو؟
میں نے جواب دیا کہ : اللہ کی قسم ، کیوں نہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
دنیا اور آخرت میں تم میری بیوی ہو۔
ونیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے :
عائشہ جنت میں میری بیوی ہے۔صحیح الجامع الصغیر
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا وہ عظیم المرتبت عابد و زاہد شخصیت ہیں کہ اللہ کے فرشتے بھی انہیں انتہائی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ ۔۔۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اے عائشہ ! یہ جبریل علیہ السلام ہیں ، وہ تمہیں سلام پیش کر رہے ہیں۔
سیدہ عائشہ نے جواب دیا :
وعلیہ
جبرائیل پر بھی سلام ہو اور اللہ کی رحمت ہو۔
صحیح بخاری ، کتاب فضائل اصحاب النبی
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ۔۔۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی دن وفات پائی جو میری باری کا دن تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم) کی روح جس وقت قبض کی آپ کا سر مبارک میری گود میں تھا اور آخری لمحات میں آپ کا لعاب دہن میرے لعاب سے مل گیا۔

صحیح بخاری ، کتاب المغازی

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا علم میں بھی اپنی مثال آپ تھیں۔ سیدنا ابوموسیٰ اشعری فرماتے ہیں ۔۔۔
ما اشکل
جب ہم اصحابِ رسول پر کسی حدیث میں کبھی کوئی اشکال پیش آیا تو ہم نے سیدہ عائشہ سے پوچھا اور ہم نے اس حدیث کے بارے میں معلومات پائیں۔سنن ترمذی ، کتاب المناقب
اور موسیٰ بن طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔۔۔
ما رایت
میں نے سیدہ عائشہ سے بڑھ کر کوئی فصیح و بلیغ نہیں دیکھا۔
سنن ترمذی ، کتاب المناقب :
ام المومنین حضرت عائشہ کی دیگر اہل بیت سے ہرگز کوئی کشیدگی نہیں تھی بلکہ ایک دوسرے سے گہری محبت تھی اور وہ آپس میں ایک دوسرے کے مقام و مرتبہ کو خوب پہچانتے تھے۔
اس محبت کا سب سے بڑا ثبوت تو وہ روایات ہیں جو فضائل اہل بیت اور فضائل سیدۃ النساء فاطمہ کے ذیل میں آپ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں
مثلاً :حدیث الکساء صحیح مسلم
سیدۃ النساء فاطمہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت : ابوداؤد
امام جعفر صدیق کا شمار کبار فقہائے امت میں ہوتا ہے۔ ان کے دو نانا ، محمد بن ابی بکر اور عبدالرحمٰن بن ابی بکر ، حضرت عائشہ کے سگے بھائی تھے۔ اس لحاظ سے حضرات اہل بیت اور آل صدیق مین خونی رشتہ تھا۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کی ایک بڑی جماعت نے حدیث روایت کی ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ جنتی زوجہ ام المومنین سیدہ عائشہ (رضی اللہ عنہا) سن 57ھ کو مدینہ میں فوت ہوئیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کی وصیت کے مطابق انہیں رات میں دفن کیا گیا۔ ان کی نماز جنازہ سیدنا ابوھریرہ (رضی اللہ عنہ) نے پڑھائی۔

حضرت سیدنا امیر معاويہ بن ابی سفیان رضی اﷲ عنہ
فضائل و مناقب
کاتب وحی، صحابی رسول،خلیفة المسلمین جرنیل اسلام، فاتح عرب وعجم، امام تدبیر وسیاست، محسن اسلام
حضرت سیدنا امیر معاويہ بن ابی سفیان رضی اﷲ عنہ
قرآن: فی صحف مکرمة مرفوعة مطہرة بایدی سفرة کرام بررة قتل الانسان ما اکفرہ
حدیث: میریامت کا پہلا لشکر جو بحری لڑائی کا آغاز کرےگا اس پر جنت واجب ہے۔(بخاری)
ابو بکر ، عمر ،عثمان و علی کو ہم اپنی جان کا سلام لکھیں گے
کتاب دل کے ہر ورق پرہماپنے حسن حسینکیشان لکھیں گے
اگر ہمیں آسمان کی حکومت مل جائےتو
ہر ستارےپرکاتبوحی امیر معاویہ کانام لکھیںگے
حضرت سیدنا امیر معاويہ بن ابی سفیان رضی اﷲ عنہ
احادیث کی روشنی میں:
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:
اے اﷲ! معاويہ ؓ کو ہدایت دينے والا اورہدایت یافتہ بنا ديجئے اوراس کے ذریعہ سے لوگوں کو ہدایت ديجئے۔
(جامع ترمذی جلد2ص247)
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:
اے اﷲ! معاويہ ؓ کو حساب کتاب سکھا اور اس کو عذاب جہنم سے بچا۔ ( کنز العمال)
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:
معاويہؓ میرا رازداں ہے، جو اس سے محبت کرے گا وہ نجات پائے گا، جو بغض رکھے گا وہ ہلاک ہو گا۔
(تطہیرالجنان ص19 بحوالہ محب طبری)
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:
اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن معاويہ ؓ کو اٹھائیں گے ، تو ان پر نور ایمان کے چادر ہوگی۔ (تاریخ الاسلام حافظ ذہبی ؒ)
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:
میری امت میں معاويہ ؓ سب سے زیادہ بردباد ہیں
حضرت سیدنا امیر معاويہ بن ابی سفیان رضی اﷲ عنہ
صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی نظر میں
سیدنا عمر فاروق بن الخطاب رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:
جب امت میں تفرقہ اورفتنہ برپا ہو، تو تم لوگ معاويہ رضی اﷲ عنہ کی اتباع کرنا اور ان کے پاس شام چلے جانا۔ (تطہیر الجنان ص37)
حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:
اے لوگو! تم معاويہ رضی اﷲ عنہ کی گورنری اور امارت کو نا پسند مت کرو، کیونکہ اگر تم نے انہیں (معاويہ رضی اﷲعنہ) گم کر دیا تو ديکھو گے کہ سر اپنے شانوں سے اس طرح کٹ کٹ کر گریں گے، جس طرح ہنظل کا پھل اپنے درخت سے ٹو ٹ کر گر تا ہے۔(البدايہ والنہايہ حافظ ابن کثیر ص130)
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:
میں نے سيدنا معاويہ رضی اﷲ عنہ سے بڑھ کر کسی کو سردار نہیں پایا۔
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ نے فرمایا:
میں نے معاويہ رضی اﷲ عنہ سے بہتر حکومت کےلئے موزوں کسی کو نہیں پایا۔ (تاریخ طبری ص215)
حضرت عمیر بن سعد رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:
اے لوگو معاويہ رضی اﷲ عنہ کا ذکر بھلائی کے ساتھ کرو، رسول اﷲ ﷺ نے ان کو ہادی اور مہدی کے لقب سے نوازا (ترمذی باب فضائل معاويہ رضی اﷲ عنہ)
حضرت سیدنا امیر معاويہ بن ابی سفیان رضی اﷲ عنہ
آئمہ کرام کی نظر میں
امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اﷲ عليہ فرما تے ہیں:
سیدنا معاويہ رضی اﷲ عنہ نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے ساتھ جنگ میں ابتداءنہیں کی۔ ( المنتقی ص251)
اماممالک رحمتہ اﷲ عليہ فرماتے ہیں :
جو شخص صحابہ کرام رضی اس عنہم میں سے کو بھی خواہ وہ ابو بکر رضی اﷲ عنہ ، عمر رضی اﷲ عنہ، عثمان رضی اﷲ عنہ، یا معاويہ رضی اﷲ عنہ ، اور عمروبن عاص رضی اﷲ عنہ، انہیں برا کہے، تو اگر يہ کہے کہ وہ گمراہی پر یا کفر پر تھے، و اسے قتل کیا جائےگا اور اگر اس کے علاوہ عام گالیوں میں سے کوئی گالی دے تو اسے سخت سزا دی جائے گی۔ (شفاءقاضی عیاض)
امام میمونی رحمتہ اﷲ عليہ کہتے کہ امام احمد بن حنبل رحمتہ اﷲ عليہ فرماتے ہیں:
لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ سیدنا معاويہ رضی اﷲ عنہ کی برائی کرتے ہیں، ہم اﷲ سے عافیت کے طلب گار ہیں اور پھر مجھ سے فرمایا کہ جب تم ديکھو کہ کوئی شخص صحا بہ رضی اس عنہم کا ذکر برائی کے ساتھ کر دہا ہے،تواس کے اسلام کو مشکوک سمجھو۔
ابراہیم بن سیرہ رحمتہ اﷲ عليہ کہتے ہیں:
میں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اﷲ عليہ کو کبھی نہیں ديکھا کہ کسی کو خود مارا ہو،مگرايک شخص جس نے سیدنا امیرمعاويہ رضی اﷲ عنہ پر سب وشتم کی، اس کو انہوں نے خود کوڑے لگائے۔( رواہ الائی زکریا بن تيمہ فی الصارم المول)
امام ربیع بن نافع رحمتہ اﷲ عليہ فرماتے ہیں:
سیدنا معاويہ رضی اﷲ عنہ اصحاب رسول ﷺ کے درمیان پردہ ہیں، جو يہ پردہ چاک کرے گا، وہ تمام صحابہ رضی اﷲ عنہ پر لعن طعن کی جرات کر سکے گا۔
حضرت مجاہد رحمتہ اﷲ عليہ فرماتے ہیں
تم لوگ سیدنا معاويہ رضی اﷲ عنہ کے کردار و اعمال کو ديکھتے تو بے ساختہ کہہ ديتے يہی مہدی ہیں۔ (حاشیہ العواصم ص205)
حضرت سیدنا امیر معاويہ بن ابی سفیان رضی اﷲ عنہ
اکابر علمائے امت و اولیائے امت کی نظرمیں
پیران پیر شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:
میں سیدنا معاويہ رضی اﷲ عنہ کے راستے میں بیٹھا رہوں (کہ سامنے ان کی سواری آجائے) اور ان کے گھوڑے کے پیر کی دھول اڑ کر مجھ پر پڑ جائے ،تو میں سمجھوں گا کہ يہی میری نجات کا وسیلہ ہے ۔ (خلاصہ غنیة الطالبین ج1ص171)
قاضی عیاض رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:
سیدنا معاويہ رضی اﷲ عنہ حضور انور ﷺ کے صحابی اور برادر نسبیی ہیں، کاتب رسول اور وحی الٰہی کے امین ہیں، جو انہیں برا کہے اس پر خدا،رسول اور فرشتوں کی لعنت۔ (الشفاءص95)
حضرت شاہ ولی اﷲمحدث دہلوی رحمتہ اﷲ عليہ فرماتے ہیں:
تم لوگ معاويہ رضی اﷲ عنہ کی بدگمانی سے بچو کہ وہ ايک جلیل القدر صحابی رضی اﷲ عنہ ہیں او زمرہ صحابیت میں بڑی فضلیت والے ہیں۔
خبردار !!! ان کی بدگمانی میں پڑ کرگناہ کے مرتکب نہ ہونا ۔(ازالة الخلفاءج1ص113)
حضرت سیدنا امیر معاويہ بن ابی سفیان رضی اﷲ عنہ
عہدحاضر کے علمائے کرام کی نظر میں
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمتہ اﷲ عليہ فرماتے ہیں:
سیدنا معاويہ رضی اﷲ عنہ کا شمار ان ظیم المرتبت صحابہ رضی اﷲ عنہم میں ہوتا ہے، جنہوں نے آنحضرت ﷺ کی خدمت سے منفرد حصہ پایا۔
حضرت مولانااشرف علی تھانوی رحمتہ اﷲ عليہ فرماتے ہیں:
بعض لوگ غلط فہمی سے سیدنا معاويہ رضی اﷲ عنہ کو جلیل القدرصحابہ رضی اﷲ عنہم سے الگ کر ديتے ہںا، ان کی يہ تقسیم سراسر نا انصافی پر مبنی ہے ۔
حضرت سید نذیر حسین دہلوی فرماتے ہیں
سیدنا معاويہ رضی اﷲ عنہ نے کفر کی حالت میں بھی کبھی اسلام کے خلاف تلوار نہیں اٹھائی ،قبول اسلام کے بعد آپ رضی اﷲ عنہ نے اسلام کی بے مثال خدمت کی ۔
مولانا احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں:
جو سیدنا معاويہ رضی اﷲ عنہ پر طعن کرے، وہ جہنمی کتوں میں سے ايک کتا ہے، ايسے شخص کے پيچھے نماز حرام ہے ۔ (احکام شریعت ج1ص69,91)
مولانا احمد علی رضوی بدایونی لکھتے ہیں
سیدنا معاويہ رضی اﷲ عنہ اور ان کے والد ماجد حضرت ابو سفیان اور والدہ ماجدہ حضرت ہندہ رضی اﷲ عنہا کی شان میں گستاخی تبرا ہے ، اس کا قائل رافضی ہے (بہار شریعت ج1ص70)

صحابہؓ معیارِ حق ہیں اور اُنکے مدرسہ کی اتباع لازم
امام ابن قیمؒ کے ذکر کردہ چند دلائل کی روشنی میں
”صحابہؓ“ اسلام کی محض ایک نسل نہیں، ”صحابہؓ“ دین کا ایک باقاعدہ ”مدرسہ“ ہے۔ ”صحابہؓ“ تاریخ کے اُس ”علمی واقعہ“ کا نام ہے جو رسول اللہ ﷺ _ معلم اعظم ومربی اعظم _ کے اپنے زیر نگاہ بلکہ آپﷺ کے اپنے ہاتھوں پروان چڑھا اور اس کی ایک ایک اینٹ آپ کے اپنے دست مبارک سے لگی۔ نہ اِس مدرسہ کے استاد جیسا کوئی استاد اور نہ اِس میں پڑھنے والوں جیسا کوئی طالب علم۔ ہو بھی کس طرح، اسلام کی اگر کوئی ایک نسل ایسی ہے کہ جس کے بارے میں کہا جا سکے کہ اُس کے فہمِ دین کو نبی ﷺنے اپنے ہاتھوں بنایا اور خود تراشا اور جیسی چاہی اُس کو صورت دی اور اپنے جیتے جی یہ تسلی کی کہ اللہ کے دین کو جس طرح سمجھا جا رہا ہے وہ بالکل صحیح سمجھا جا رہا ہے، تو صرف اور صرف وہ صحابہؓ کی نسل ہے
پس دین کے اصول و فروع کی بابت صحابہ کا فہم حجت نہ ہو تو کس کا فہم حجت ہو؟ یا پھر، دین کے اساسی ترین مسائل تک کی بابت (جن کی چند مثالیں آگے آ رہی ہیں) ہمیں تا قیامت ایک ایک تحقیق اور ایک ایک محقق کو پکڑتے اور چھوڑتے چلے جانا ہے ؟!! نہ کسی ”اعتقادی“ مسئلہ کو ”طے شدہ“ ماننا ہے اور نہ کسی عملی مسئلہ کو؛ یعنی ہر مسئلہ کو ہر وقت کسی بھی نئی سمجھ آنے والی ’دلیل‘ کی بنیاد پر چیلنج کیا اور زیر بحث لایا جا سکتا ہے؟! صحابہؓ کے فہمِ کتاب و سنت کو چیلنج کرنا ہمارے نزدیک ہر قسم کی گمراہی کا پیش خیمہ ہے۔
اسلام کی کوئی ایک نسل جس کی بابت یہ کہا جا سکے کہ دین اتارنے والے نے صرف یہی تسلی نہیں کی کہ اُس نسل کو جو دین پہنچا وہ بالکل صحیح پہنچا بلکہ اپنے رسول کے ان کے مابین ہونے کے ناطے اِس بات کو بھی یقینی بنایا کہ وہ جو کچھ اتار رہا ہے وہ زمین پر صحیح طرح سمجھا بھی جا رہا ہے، تو وہ صحابہؓ کی نسل ہے۔
”آسمانی تصحیح“ کی یہ ضمانت اصحابِ رسول اللہ کے سوا اِس امت کی کس نسل کو حاصل ہے؟ اُن کو ٹوکنے کو اور اُن کی تصحیح کرنے کو تو آسمان سے آیات اتر آیا کرتی تھںی!
تو پھر اہلسنت یہ اعتقاد کیوں نہ رکھیں کہ صحابہ معیارِ حق ہیں؟ صحابہ کے فہم دین کو اور آج کے کچھ محققین کے فہم دین کو ایک ہی سطح پر رکھنا آخر کیونکر روا ہونے لگا؟ ما لکم کیف تحکمون؟
تورات کے برعکس، قرآن کو تھوڑا تھوڑا کر کے تیئیس برس کے عرصے میں اتارا گاو….تو یہ اِسی لئے تو ہوا کہ وہ باہمت نفوس جن کو اصحابِ رسول اللہ کہا جاتا ہے، اِس کی ہر ہر وحی کو ساتھ ساتھ اُس معلم اعظم سے پڑھتے اور سمجھتے جائیں اور اس کے ایک ایک اشارہ کو پا لینے میں کوئی ایک بھی دِقت نہ پائیں؟ جبکہ وہ معلم اعظمﷺ ان کے مابین ہو ہی اِس لئے کہ وہ انہیں قرآن کے معانی اور مفاہیم پڑھائے اور اپنے اوپر اترنے والی حکمت کو ان کی گھٹی میں اتارے؟!جس کا منصب ہی یوں بیان کیا گیا ہوکہ:یعلمہم الکتاب والحکمة۔ جبکہ اُن برگزیدہ نفوس کی سب سے بڑی ترجیح ہو ہی یہ کہ وہ علم کے اِس پاکیزہ ترین اور خالص ترین سرچشمہﷺ سے خدا کا دین سمجھ لیں؟!
یہ حیثیت تاریخ میں کیا کسی اور نسل کو بھی حاصل ہو سکتی ہے؟ صحابہ کے فہم دین کے مقابلے میں کیا ہم کسی اور کے فہم دین کو بھی قابل اعتناءسمجھیں؟؟؟
یعنی تاریخ کے ذہین ترین اور دیانت مند ترین نفوس کی ایک عظیم جماعت جو پورے تیئس سال تک حلقہ باندھ کر محمد رسول اللہﷺ سے براہِ راست قرآن پڑھتی رہی اُس کا فہم قرآن وسنت اور مابعد کے لوگوں کا فہمِ قرآن و سنت ایک برابر کر دیا جائے؟؟؟ وہ مدرسہ جس میں اصحاب رسول اللہ پڑھے اور پھر پڑھاتے رہے، اُس کے نامور ائمہ و اساتذہ کو ”فہمِ دین کا معیار“ ماننے سے ہی انکار کر دیا جائے؟
پس صحابہؓ اسلام کی وہ پہلی نسل ہیں جو ما بعد نسلوں کیلئے اُس اساس کی حیثیت رکھتی ہے جس پر اسلام کی عمارت اوپر سے اوپر اٹھائی جانا ہے نہ کہ ہر بار یہ اساس نیچے تک سے ہلائی اور لرزائی جانا ہے۔ وہ مدرسہ جس میں صحابہؓ نے دین خداوندی پڑھا اور پھر پڑھایا، فہم دین کی وہ عین صحیح سمت ہے جو اِس امت کی بالکل ابتدا میں رکھ دی گئی (اور ابتدا میں ہی رکھی جانی چاہیے تھی)، اور جس کو اب آگے سے آگے ہی چلنا ہے۔ فہم دین کی یہ سمت جس کا نام ”مدرسۂ صحابہؓ“ ہے، شریعت نازل کرنے والے کی باقاعدہ نگرانی میں رکھی گئی؛ اِس میں کوئی غلطی اور کجی ہوتی تو وحی اِس کو خود ہی سیدھا کر دیتی۔ آخر کتنے ہی مواقع ایسے ہوئے جہاں صحابہؓ کی تصحیح کرنے کو قرآن کی آیت اترتی یا پھر رسول اللہ ﷺ بنفس نفیس وضاحت فرماتے۔ غرض وحی کے دونوں مصدر صحابہؓ کو صرف دین پہنچاتے نہیں رہے، بلکہ جہاں ضرورت ہوئی ان کے فہم و عمل کو درست بھی کرتے رہے۔ چنانچہ ایک طرف صحابہ کی رغبت کہ وہ دین خداوندی کو اُس کی صحیح ترین روح کے ساتھ اس کے مصدر رسالت مآب ﷺ سے سمجھ لیں اور دوسری طرف رسالت مآب ﷺ کی رغبت اور حرص کہ وہ ان کو دین کی ایک ایک بات صحیح طرح سمجھا دیں اور ان کی ایک ایک غلطی درست کر دیں.. کیا اِن ہردو پہلو سے ”مدرسۂ صحابہؓ“ تاریخ کے ہر ’دبستان‘ سے منفرد نہیں ہو جاتا؟
صحابہؓ کے ایمان اور صحابہؓ کی اتباع کو بعد والوں کیلئے ایک معیار بنا دیا جانا اللہ کے فضل سے دین کے اندر اظہر من الشمس ہے اور اِس بات کو وہی شخص ’متنازعہ‘ جانے گا جس کو اللہ نے بصیرت سے آخری حد تک محروم کر رکھا ہو۔
وہ شخص جو رسول اللہﷺ کے پیچھے صف بنا کر نماز پڑھتا رہا ہو اور رسول اللہ ﷺ کی نگاہوں کے سامنے نمازیں پڑھ چکا ہو، جبکہ رسول اللہ ﷺ اپنے زیر تربیت اصحابؓ کی تصحیح اور تصویب کے معاملہ میں آخری درجہ کے حریص ہوں، وہ خوش نصیب اُس شخص کی طرح کیونکر ہو سکتا ہے جو نماز کو کچھ نصوصِ شریعت سے از راہِ استدلال و استنباط سمجھ رہا ہو؟! یہی مثال دین کے دیگر امہات المسائل کی ہے۔ مثلاً رسول اللہ ﷺ کے زیر تعلیم وزیر تربیت پروان چڑھنے والے مبارک نفوس، جوکہ لسانِ عرب کے ماہر، ذہانت وفطانت میں یکتا، تقویٰ میں بے مثال اور علم کے پہاڑ ہیں، ”سنت“ کا ایک مفہوم رکھتے ہوں اور آج کا کوئی شخص اپنی ’تحقیق‘ کی بنیاد پر ہمیں ’سنت‘ کا ایک مفہوم تجویز کر کے دے؟! ”ایمان“ کی تعریف ایک وہ ہو جو ہمیں اُس مدرسہ سے ملے جس نے ”ایمان“ کو براہِ راست نبی ﷺ سے لیا، جبکہ ’ایمان‘ کی ایک تعریف وہ ہو جو کوئی صاحب ہمیں آج کر کے دیں؟! مسئلۂ ”تقدیر“ پر نصوص کا اقتضاءاور نصوص کے مابین توفیق اور تطبیق ایک وہ ہو جو ہمیں مدرسۂ اصحابِ رسول اللہ سے ملے اور مسئلۂ تقدیر کی ایک وضاحت وہ ہو جو ہمیں آج لاہور یا کراچی کا کوئی شخص کر کے دے! ”اللہ کی صفات“ ایسے نازک ترین مسئلہ پر ایک وضاحت اور تفہیم ہمیں مدرسۂ اصحابِ رسول اللہ سے میسر ہو اور ایک تفہیم ہمیں آج کا کوئی ’genius‘ کر کے دے اگرچہ وہ اپنے فہم پر اپنے تئیں ’شرعی دلائل‘ کا انبار کیوں نہ رکھتا ہو (قدریہ، جہمیہ اور معتزلہ بھی اپنے تئیں ’دلائلِ شریعت‘ کا ایسا ہی ایک انبار رکھتے تھے جن کو کہ صحابہ و سلف کے مدرسہ سے بربادی کی وعیدیں سنائی گئیں، صحابہ کی راہ سے ہٹے ہوئے ہر شخص ہی کو اپنی بات شریعت سے ’نہایت واضح انداز‘ میں ثابت ہوتی نظر آتی ہے)۔
نصوصِ دین سے استنباط و استدلال کے ایک وہ پیمانے ہیں جو اصحابِ رسول اللہ نے اپنے استاد ﷺ سے سیکھے اور پھر کمال دیانت کے ساتھ آگے اپنے شاگردوں کو سکھائے اور یوں نہایت کامیابی کے ساتھ وہ امت کی آئندہ نسلوں کو منتقل کر کے دیے البتہ ایک وہ پام نے ہیں جو آج کے کچھ لوگوں کی تحقیق ہو سکتی ہے۔ کیا ان دونوں کے مابین ہرگز کوئی فرق نہ رکھا جائے اور اصولاً سب کا ایک ہی اسٹیٹس رکھا جائے؟؟؟ صحابہ کے مواقف سے ہٹ کر اگر آج کوئی صاحب ہمیں اپنی محنتوں کے کمالات دکھانا چاہتے ہیں تو کیا سرے سے ہم ان کی بات سننے کے پابند ہیں؟ کا۔ ہم شرعاً اِس بات کے پابند ہیں کہ ہم ایسے کسی شخص کے خلاصۂ استدلال و اسنباط پر ’سیرحاصل بحث‘ کریں؟ صحابہ کے مناہج اور مواقف سے ہٹ کر امت میں کتنا کچھ ہے جو لکھا اور عام کیا گیا اور شاید کیا جاتا رہے گا۔ کیا امت پر فرض ہے کہ یہ سب کے سب طومار پڑھے اور اس پر باقاعدہ بحث کرے؟ ہر نیا شخص اٹھ کر جو کچھ پیش کرے، یہ اُس کو پڑھنے اور سننے اور اُس کی دلیلوں کی تحقیق کرنے کی مکلف کر رکھی جائے؟
حق یہ ہے کہ اِس امت کو صحابہؓ کے فہم کا ہی ایک تسلسل بننا ہے۔ اُنہی کے مدرسہ سے دین پڑھنا ہے اور فہم دین کے معاملہ میں انہی کے جاری کردہ معیارات کو آگے سے آگے چلانا ہے۔ وحی تو یقینا کتاب و سنت ہی ہے مگر وحی کے فہم کی بابت وہی معیارات اور نظائر برحق ہو سکتے ہیں جو ایک بار مدرسۂ رسالت میں پڑھنے والے صحابہ نے اپنے مابعد کی نسلوں کیلئے جاری کروا دیے۔ یہ مدرسہ جس میں صحابہؓ پڑھاتے رہے اور مابعد کی نسلوں کو اِس دین کی عملی امانت پوری محنت اور عرق ریزی کے ساتھ سونپتے رہے، یہ مدرسہ جس میں پڑھنے والوں کی فکری و علمی وعملی تربیت کی بابت صحابہؓ باقاعدہ تسلی کرتے رہے کہ ان کے شاگرد اُن سے دین کی یہ امانت صحیح صحیح وصول کر چکے ہیں(کہ صحابہؓ انسانیت پر رسول اللہ ﷺ کی شہادت قائم کر کے گئے ہیں) …. اصحابِ رسول اللہ کے تلامذہ کا یہ مدرسہ ”سلف“ کے نام سے منسوب ہے۔ اِس کے ہاں چلنے والے علمی معیارات اور فہم قرآن وسنت کے نظائرprecedents بعد والوں کیلئے حجر اساس کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کا التزام امت کی آئندہ نسلوں کیلئے ایک لازمی مضمون کی حیثیت رکھتا ہے۔
اِس مدرسہ کے حق ہونے کی اساس: چونکہ صحابہؓ کی امامت اور ان کے فہم کی حجیت ہے، لہٰذا دین کو سمجھنے کے معاملہ میں صحابہؓ کی اتباع ایک نہایت اہم مبحث ہے۔ جہاں متبوع (جس کی پیروی ہو) کے طور پر معیار رسول اللہﷺ ہیں وہاں تابع (پیروی کرنے والے) کے طور پر معیار اصحابِ رسول اللہ ہیں۔ ایک سلیم الفطرت شخص کیلئے یہ بات ہر شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ دین کو سمجھنے اور اِس پر عمل پیرا ہونے کے معاملہ میں صحابہؓ کو معیار جاننے کے موضوع پر یہاں ہم امام ابن قیمؒ کی شہرہ آفاق تصنیف اعلام الموقعین کی جلد چہارم میں دیے گئے چند مباحث سے استفادہ کریں گے۔ آئندہ کسی وقت ان شاءاللہ ہم اِس موضوع پر امام ابن تیمیہؒ کے بیان کردہ کچھ مباحث سے بھی علمی استفادہ کریں گے اور ائمۂ سلف و مابعد کے ائمۂ علم کے بھی کچھ اقوال اور نصوص لے کر آئیں گے۔
اس بات کے دلائل کہ صحابہ کی اتباع لازم ہے
وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (التوبة: 100)
“سابقون اولون از مہاجرین و انصار، اور وہ لوگ جنہوں نے ان کی اتباع کی بھلائی کے ساتھ، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، اور اُس نے تیار کر رکھی ہیں ان کیلئے جنتیں جن کے تلے نہریں بہتی ہوں گی، ہمیشہ رہیں وہ ان میں تاابد۔ یہ ہے عظیم کامیابی۔”
وجہ دلالت: آیت کے اندر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو قابل ستائش ٹھہرایا ہے جو مہاجرین و انصار کے سابقین اولین کی اتباع اختیار کرتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا: والذین اتبعوہم باِحسان۔
چنانچہ صحابہ (السابقون الاولون من المہاجرین والأنصار) اگر کوئی قول کہیں، تو اُس قول کی صحت (دلیل) جاننے سے پہلے اس میں ان کی اتباع کرنے والا شخص ہی السابقون الاولون من المہاجرین والأنصار کا متبع کہلائے گا اور وہ لازماً اِس پر قابل ستائش ہوگا اور اللہ کی خوشنودی کا مستحق ٹھہرے گا (کیونکہ فرمایا: رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ)۔
صحابہ کے قول کی صحت (دلیل) جاننے سے پہلے اس قول میں ان کی اتباع کا اوپر ہم نے جو ذکر کیا، اب ہم اس کی وجہ بیان کرتے ہیں:
آیت میں والذین اتبعوہم باِحسان کے جو الفاظ آئے ہیں اِس میں ”اتباع“ سے مراد اگر ’تقیدس محض‘ ہوتی، جیسا کہ ایک عامی کسی مفتی یا عالم کی تقلید کر لیتا ہے، تو لازم آتا کہ صحابہؓ کی اتباع پر خوشنودیِ خداوندی (رضی اللہ عنہم) کے مستحق تب صرف اِس امت کے عامی ہوتے!!! رہ گئے علمائے مجتہدین تو ان کیلئے تو اس صورت میں صحابہ کی ”اتباع“ جائز ہی نہ ہوتی! پس واضح ہوا کہ آیت میں مذکور ”صحابہ کی اتباع“ سے مراد کوئی ایسی چیز ہے جو عامی پر بھی لازم ہے اور عالمِ مجتہد پر بھی۔
اشکالات: اور اگر یہ کہا جائے کہ:آیت میں والذین اتبعوہم سے مراد ہے ”دلیل“ میں صحابہ کی پیروی کرنا۔ یعنی جو قول صحابہ نے اختیار کیا وہی قول اختیار کرنا، مگر (کتاب و سنت) سے کوئی دلیل ہونے کی بنیاد پر۔ یعنی ایک مسئلہ میں صحابہ کے اجتہاد اور استدلال کی صحت جان لینے کے بعد ہی اُن کے قول کو لینا۔ کیونکہ صحابہ نے وہ قول کسی اجتہاد کی بنیاد پر ہی اختیار کیا ہو گا۔ اِس اشکال کو پیش کرنے والے حضرات کا کہنا ہے کہ آیت میں مذکور لفظ ”باِحسان“ (والذین اتبعوہم باِحسان) اِسی بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کی اتباع ”دلیل“ کی بنیاد پر کی جائے نہ کہ بغیر دلیل۔ کیونکہ جو شخص صحابہ کی محض تقلید کرے گا (بغیر دلیل صحابہ کی پیروی کرے گا) وہ ”متبع باِحسان“ (والذین اتبعوہم باِحسان) کے زمرے میں نہیں آئے گا۔
کیونکہ اگر صحابہ کی مطلق اتباع ہی قابل ستائش ہوتی تو ”اتباع باِحسان“ اور ”اتباع بغیر احسان“ کا فرق نہ کیا جاتا (جبکہ قرآن میں ”باِحسان“ کی شرط ذکر کر دی گئی)۔ نیز ممکن ہے آیت میں صحابہ کی اتباع سے مراد اصولِ دین کی حد تک ہی صحابہ کی اتباع ہو۔ ایک اشکال یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ آیت میں ”باِحسان“ سے مراد ہے فرائض کا التزام اور محرمات سے اجتناب۔ یعنی جہاں تک تو سابقین اولین کا تعلق ہے تو ان کیلئے مطلق خوشنودیِ خداوندی ہے اگرچہ ان سے برائی کیوں نہ سرزد ہوئی ہو (”احسان“ یعنی نیکوکاری سے چاہے کسی وقت ہاتھ پیچھے کیوں نہ ہٹ گیا ہو) کیونکہ ان سابقین اولین کی بابت رسول اللہ ﷺ نے فرما دیا تھا:وما یدریک أن اللہ اطلع علی أہل بدر فقال اعملوا ما شئتم فقد غفرت لکم۔ ”تم کیا جانو کہ اللہ نے اہل بدر کے قلوب کو جھانک لیا اور ان کو فرما دیا کہ جو مرضی عمل کرو میں نے تمہیں بخش دیا“۔ جبکہ بعد والوں کے معاملہ میں ”باِحسان“ (یعنی پابندیِ واجبات اور اجتنابِ محرمات) کے ساتھ ہی اپنی خوشنودی کے معاملہ کو معلق ٹھہرا دیا۔ ایک اشکال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ آیت میں جو ستائش مذکور ہے وہ اُن سب کی اتباع پر ہے، جس کی صورت یہ ہے کہ جس چیز پر اُنہوں نے اجماع کیا ہو بس اُسی میں ان کی اتباع کی جائے۔ ایک اشکال یہ ہے کہ آیت میں (والذین اتبعوہم باِحسان) کو جو قابل ستائش ٹھہرایا گیا ہے وہ اس کے واجب ہونے کی دلیل نہیں بلکہ وہ اس بات کی دلیل ہے کہ اُن کی تقلید کر لینا جائز ہے، جوکہ دلیل ہے اِس بات پر کہ ایک علم رکھنے والے شخص کی تقلید کر لینا جائز ہے جیسا کہ ایک فریق کا قول ہے، یا اس بات کی دلیل ہے کہ آدمی اپنے سے اَعلم (زیادہ علم والے) کی تقلید کر لے جیسا کہ ایک دوسرے فریق کا قول ہے۔ البتہ ان حضرات کا کہنا ہے کہ آیت میں صحابہ کی اتباع کے وجوب پر تو کوئی دلیل ہی نہیں۔
یہ سب اشکالات ذکر کر دینے کے بعد امام ابن قیمؒ ان میں سے ایک ایک اشکال کا جواب دیتے ہیں۔ ہم بھی یہاں ان میں سے ایک ایک اشکال اور ابن قیمؒ کا اُس پر جواب نقل کریں گے۔
اشکال: آیت میں والذین اتبعوہم سے مراد ہے ”دلیل“ میں صحابہ کی پیروی کرنا۔ یعنی جو قول صحابہ نے اختیار کیا وہی قول اختیار کرنا، مگر (کتاب و سنت) سے کوئی دلیل ہونے کی بنیاد پر۔ یعنی اجتہاد اور استدلال کے طریقے پر۔
ابن قیمؒ کا جواب: ”اتباع“ کے معنیٰ میں اِس بات کو لازم اور شرط ٹھہرانا درست نہیں کہ صحابہ نے جو ’اجتہاد‘ یا ’استدلال‘ کیا ہے پہلے اُس کی صحت معلوم کی جائے۔ یعنی صحابہ نے جو قول اختیار کیا ہے پہلے اُس کی دلیل کے صحیح ہونے کی تسلی کی جائے۔ اور یہ بات اللہ کے فضل سے متعدد پہلوؤں سے واضح ہے:
الف: ”اتباع“ کا ذکر جہاں کہیں قرآن میں آیا ہے، جیسے فاتبعونی یحببکم اللہ ”تو پھر میری اتباع کرو“ اور واتبعوہ لعلکم تہتدون ”اور اِس کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پا جاؤ“ نیز ویتبع غیر سبیل المؤمنین ”اور وہ اتباع کرے مومنوں کے راستے کے ماسوا کی“.. وہاں ”اتباع“ اِس بات پر متوقف نہیں ہوتی کہ جس قول کی اتباع کرنا ہو اُس کے قائل کی حیثیت کو نظر انداز کرتے ہوئے خود اُس قول ہی کی صحت کی دلیل ڈھونڈی جائے۔
ب: آیت میں مذکور ”صحابہ کی اتباع“ سے مراد اگر یہ ہوتی کہ ان کے قول کی صحت پر دلیل ڈھونڈی جائے، یعنی صحابہ کی ”اتباع“ کسی مسئلہ میں اُن کے استدلال و اجتہاد کی چھان بین کر لینے کے بعد ہی کی جائے .. تو پھر آیت میں مذکور ”سابقین اولین از انصار و مہاجرین“ کے مابین اور ان کے مابعد آنے والی جملہ مخلوقات کے مابین کوئی فرق ہی نہیں رہ جاتا۔ بھئی جب دلیل پوچھ کر ہی صحابہ کی بات تسلیم کی جائے گی تو دلیل پوچھ کر تو ہر کسی کی بات ہی تیمم کر لی جائے گی! پھر صحابہ کی خصوصیت کیسی؟ تب تو آیت میں مذکور صحابہ اور دیگر سب لوگ ایک برابر ہوگئے اور آیت میں خاص ان کی اتباع کا ذکر بے معنیٰ ہو گیا! ”دلیل“ تو بذاتِ خود واجب الاتباع ہے اور اُس کو تو جس کے بھی ہاں وہ پائی جائے اُسی سے لے لینا ضروری ہوگا۔ ظاہر سی بات ہے جو شخص بھی صحیح دلیل دے دے اُس کی بات تسلیم کرلینا واجب ہے۔ ”اتباع“ سے مراد اگر یہی ہے پھر تو کائنات میں ہر شخص ’واجب الاتباع‘ ہے!!! آیت میں مذکور صحابہ کا پھر کیا اختصاص باقی رہ جاتا ہے؟!
ج: اگر یہ ضروری ہے کہ پہلے صحابہ کا استدلال ہی دیکھا جائے، تو فرض کیجئے آپ نے صحابہ کا استدلال معلوم کر لیا۔ اب یا اُس قول کے معاملہ میں صحابہ کی مخالفت جائز ہوگی یا ناجائز ہوگی۔ اگر آپ کہیں کہ ناجائز ہے تو یہی ہمارا بھی کہنا ہے کہ صحابہ کے قول کی مخالفت جائز نہیں۔ اور اگر آپ کہیں کہ صحابہ کے قول کی مخالفت جائز ہے تو آپ نے خاص اُس حکم میں صحابہ کے قول کی مخالفت کی اور ’درست استدلال‘ پائے جانے کی صورت میں ہی اُن کی اتباع کے روادار ہوئے۔ اب جس شخص کی شرط یہ ہے کہ اُس کا اپنا استدلال صحابہ کے استدلال کے موافق نکل آئے تو تب جا کر ہی وہ صحابہ کے قول کو اختیار کرے گا اُس کو صحابہ کا متبع کیونکر کہا جائے جبکہ خاص اُس حکم میں اُس نے صحابہ کے قول کے مخالف قول اختیار کر رکھا ہے؟
د: جس شخص نے صحابہ کے اختیار کردہ حکم کے معاملہ میں صحابہ کے خلاف جانا اپنے لئے روا ٹھہرا لیا ہے اُس کو صحابہ کا متبع کہا ہی نہیں جا سکتا۔ جو شخص کسی مسئلہ میں ایک مجتہد کے اختیار کردہ قول کو رد کر دے اور اس کے خلاف جانا روا کر لے اُس کے بارے میں یہ کیونکر کہا جاسکتا ہے کہ اُس شخص نے اُس مجتہد کی پیروی کی ہے؟ اور اگر کسی وقت یہ کہا بھی جائے تو اُس کو مقید کرتے ہوئے یہ کہنا ضروری ہو گا کہ وہ شخص بشرطِ صحت استدلال و اجتہاد اُس مجتہد کی پیروی کرتا ہے نہ کہ ایک مطلق معنیٰ میں۔ ( یعنی اُس کی دلیل صحیح نظر آئی تو اُس کی بات قبول ورنہ رد!)
ھ: ”اتباع“ باب ”افتعال“ سے ہے۔ ”اتباع“ میں کسی کے پیچھے چلنے اور اُس کا ضرورت مند ہونے کا ایک معنیٰ پایا جاتا ہے۔ جبکہ دو مجتہد اگر ایک سا استدلال کر رہے ہوں تو محض یہ دیکھ کر کہ اُن دونوں کا استدلال ایک سا ہے اُن میں سے کسی ایک کو دوسرے کا ”متبع“ نہیں کہا جاتا، جب تک کہ ان میں سے ایک مجتہد دوسرے کے پیچھے چلنے اور اُس کی بات کی پابندی اختیار کرنے کا باقاعدہ ایک اعتقاد نہ رکھتا ہو۔ اگر اتفاقاً آپ کا بھی وہی اجتہاد نکل آتا ہے جو ایک دوسرے شخص کا ہے یا آپ کا بھی وہی فتویٰ ہے جو ایک دوسرے شخص کا ہے، تو یہاں آپ کو اُس کا متبع نہیں کہا جائے گا۔
و: آیت کا مقصود سابقون الاولون کی ثنا کرنا ہے اور ان کی اِس سابقیت کے باعث ان کا یہ استحقاق بیان کرنا کہ بعد والوں کیلئے اب وہ ائمہ متبوعین (متبوع یعنی جس کی پیروی کی جائے) قرار پائیں۔ البتہ اگر یہ معنیٰ لیا جائے کہ نہ تو ان کے اختیار کردہ قول کی موافقت ضروری ہے اور نہ اس کی مخالفت میں ہی کوئی شرعی مانع ہے بلکہ اتباع تو ہوگی دلیل اور قیاس واجتہاد وغیرہ ہی کی، تو ان کا یہ منصب نہ رہا کہ وہ ائمہ متبوعین ہیں۔ تب وہ اِس مدح اور ثناءکے مستحق نہیں رہتے کہ بعد والے ان کی اتباع کریں۔
ذ: جہاں تک آیت میں آنے والے لفظ ”باِحسان“ کا تعلق ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی اپنا ایک اجتہاد کرے، خواہ وہ اجتہاد صحابہ کے قول کے موافق پڑے یا مخالف۔ کیونکہ اگر اس کا اجتہاد صحابہ کے قول کے مخالف نکلتا ہے اور وہ اپنے اجتہاد ہی کو اختیار کرتا ہے تو وہ آیت میں مذکور لفظ ”والذین اتبعوہم“ ہی کے زمرے میں نہیں آتا، ”والذین اتبعوہم باِحسان“ کے زمرے میں آنا تو خیر بہت دور کی بات ہے۔ اپنا استدلال یا اجتہاد کر کے ایک قول کو اختیار کرنا اُس قول میں صحابہ کی اتباع کرنا کیسے ہو گیا؟ ”متبع صحابہ“ کا لفظ تو اسی شخص پر صادق آئے گا جو اعتقاد اور قول میں صحابہ ہی کی موافقت اختیار کرے۔ ہاں اِس کے ساتھ ساتھ، خدا کی خوشنودی (رضی اللہ عنہم کا استحقاق پانے کیلئے) یہ بھی ضروری ہے کہ وہ محسن (بھلائی کرنے والا) ہو یعنی فرائض کا ادا کرنے والا اور محرمات سے اجتناب کرنے والا ہو تاکہ وہ محض اِس فریب میں نہ رہے کہ وہ قول کی حد تک عین اُسی راستے پر ہے جس پر صحابہ تھے (بلکہ عمل میں بھی وہ احسان کی راہ پر ہو)۔ نیز یہ بھی ضروری ہے کہ صحابہ کی پیروی کرنے والا صحابہ کے بارے میں جو الفاظ بولے ان میں وہ محسن (بھلائی کرنے والا) ہو (یعنی صحابہ کیلئے خوب الفاظ استعمال کرے) اور ان کی عیب جوئی نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو ضروری ٹھہرایا، اس لئے کہ اُس کو علم تھا کہ بعد ازاں ایسے لوگ آئیں گے جو صحابہ پر (معاذ اللہ) لعن طعن کریں گے۔ صحابہ کے ساتھ احسان کا یہ مفہوم سورۂ حشر میں مذکور اُس ذکرِ خیر کے ساتھ جڑ جاتا ہے جو صحابہ کیلئے بعد والوں پر لازم قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ سورۂ حشر میں مہاجرین اور انصار کا ذکر کر دینے کے بعد ”والذین جاؤوا من بعدہم“ کا ذکر آیا اور ان کا وہ اخص الخاص وصف بیان ہوا کہ وہ کہتے ہیں: ”اے ہمارے پروردگار! بخش دے ہم کو اور ہمارے اُن بھائیوں کو جو ایمان میں ہم سے پہلے ہوئے (سبقونا بالایمان: یہاں بھی اولین صحابہ کی سابقیت ہی کا ذکر ہوا ہے) اور نہ رہنے دے ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے خلاف کوئی کدورت“۔
ح: رہ گیا یہ کہ صحابہ کی اتباع دین کے اصول میں مخصوص سمجھی جائے اور فروع کو ان کی اتباع سے مستثنیٰ رکھا جائے، تو یہ بھی درست نہیں۔ کیونکہ آیت میں صحابہ کی مطلق اتباع کا ذکر ہوا ہے۔ نیز وہ شخص جو اصولِ دین ہی میں صحابہ کا متبع ہے اس کو اگر مطلق طور پر صحابہ کا متبع مان لیا جائے تو ہم پچھلی امتوں کے اہل ایمان کے بھی متبع قرار پائیں گے (کیونکہ اصولِ دین سب آسمانی امتوں میں ایک ہی رہے ہیں)۔ تب اِس امت کے سابقین اور دیگر اہل ایمان کے مابین کوئی فرق نہ رہ جائے گا۔ جبکہ آیت میں صحابہ کی مطلق اتباع کا ذکر ہے۔ لہذا اِس اتباع کو مطلق ہی رکھا جائے گا جو اصول دین کو بھی شامل ہو گی اور فروعِ دین کو بھی۔ اگر صرف اصول میں صحابہ کی اتباع کی جائے گی تو گویا صحابہ کی مطلق امامت ہم نے تسلیم نہیں کی۔ حالانکہ صحابہ ہر معنیٰ میں ائمہ ہیں۔ اصول میں بھی وہی امام ہیں اور فروع میں بھی۔
اشکال:جہاں تک ان کا یہ کہنا ہے کہ آیت میں جو چیز قابل ستائش ٹھہرائی گئی ہے وہ ہے اُن سب کی اتباع کرنا۔
ابن قیمؒ کا جواب:ہم کہتے ہیں آیت کا اقتضاءیہ ہے کہ وہ شخص قابل ستائش ٹھہرایا جائے جو اُن میں سے ایک ایک کی اتباع کرتا ہے، اُسی طرح جس طرح آیت میں مذکور الفاظ (والسابقون الأولون اور والذین اتبعوہم) السابقوناوروالذین اتبعوہم میں سے ایک ایک کیلئے خوشنودیِ خداوندی کی خوشخبری دیتے ہیں (ایک ایک کو رضی اللہ عنہم ورضواعنہ وأعدلہم جنات تجری تحتہا الأنہار کا مصداق ٹھہراتے ہیں)۔ پس جس طرح ”السابقون“ میں سے ایک ایک متبوع ٹھہرتا ہے ویسے ہی والذین اتبعوہم میں سے ایک ایک تابع ٹھہرتا ہے۔ آیت کے الفاظ اُن پر مجتمع طور پر بھی لاگو ہوتے ہیں اور ان میں سے ایک ایک پر بھی۔ قاعدہ یہ ہے کہ جو احکام اسمائے عامہ کے ساتھ معلق ٹھہرائے جائیں وہ اُن اسماءکے تحت آنے والے ہر ہر فرد کے حق میں ثابت ہوتے ہیں۔ أقیموا الصلوۃکہیں گے تو اُس میں ایک ایک نماز آئے گی۔ لقد رضی اللہ عن المؤمنین کہیں گے تو شجرۂ رضوان کے نیچے بیعت کرنے والا ایک ایک مومن اِس کا مصداق ہوگا۔ کونوا مع الصادقین سے مراد یہ نہیں ہوگی کہ جب تک تم ان سب صادقین کو اکٹھا ایک جگہ نہ دیکھو تب تک ان کی معیت اختیار کرنا تم پر لازم نہ ہوگا! ہاں البتہ وہ احکام جو ایک مجموع کے ساتھ معلق ٹھہرائے جاتے ہیں اُن کیلئے وہ الفاظ لائے جاتے ہیں جو اُس کو ایک مجموع کے طور پر ہی لیں؛ وہاں ایک ایک فرد کا وہ حکم نہ ہوگا جوکہ اُس مجموعہ کا بطورِ مجموعہ۔ مثلاً وکذلک جعلناکم امة وسطا ۔ اسی طرح کنتم خیرامة أخرجت للناس۔ اسی طرح ویتبع غیر سبیل المؤمنین۔ ہاں یہاں البتہ لفظ ” أمۃ“ اور لفظ ”سبیل المؤمنین“ کو ان میں شامل افراد پر تقسیم نہیں کیا جاسکتا یعنی وکذلک جعلناکم امۃ وسطا اور کنتم خیرامۃ أخرجت للناس میں جو حکم ”امت“ کا ہے وہی حکم امت کے ایک ایک فرد کا نہ ہو گا۔ اسی طرح یہ بھی درست نہ ہوگا کہ ”ویتبع غیر سبلن المؤمنین“ میں جو حکم مومنین کا (بطورِ مجموع) ہو وہی حکم ایک مومن کا ہو۔ بر خلاف لفظ ”السابقون“ کے، جو کہ ”السابقون“ میں آنے والے ایک ایک فرد پر صادق آئے گا۔ نیز آیت سب ”سابقون“ کیلئے عام ہے؛ جہاں یہ سب اکٹھے ہوں وہاں ان کے اکٹھوں کی پیروی ہو گی جہاں ان کا ایک ایک فرد پایا جائے بشرطِ امکان وہاں ان کے ایک ایک فرد کی پیروی ہو گی۔ پس یہ مجتمع ہوں تو ان کی پیروی ہو گی، افراد ہوں تو ان کی پیروی ہو گی بشرطیکہ ان کے اپنے میں سے ہی کسی دوسرے نے اس کی مخالفت نہ کی ہو۔ نیز سابقون میں سے کئی ایک نبیﷺ کی زندگی میں ہی فوت ہو گئے تھے۔ لہٰذا اگر شرط یہ ہے کہ وہ سب کے سب اکٹھے ہوں تو آیت کی رو سے ان کی پیروی درست ہوگی تو یہ شرط پوری ہونا تو ویسے ہی محال ہے۔
اشکال: ان کا یہ کہنا کہ آیت میں السابقون الاولون کی اتباع کا ذکر ہے مگر آیت میں ان کی اتباع واجب ہونے کا تو ذکر نہیں
ابن قیمؒ کا جواب: ہم کہتے ہیں آیت کا مقتضا یہ ہے کہ صحابہ کی اتباع کرنے پر آدمی اللہ کی رضا (رضی اللہ عنہم) کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ جبکہ دین میں علم کے بغیر کوئی بات کر دینا حرام ہے۔ پس ثابت ہوا صحابہ کی اتباع قولِ بلا علم میں نہیں آتی۔ نیز اللہ کی رضا ایسی چزر ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی غایت ہو ہی نہیں سکتی۔ صحابہ کی اتباع پر اگر خدا کے راضی ہو جانے کی ضمانت ملتی ہے تو پھر مزید کچھ کہہ دینے کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی۔
نہایت واضح ہو، صحابہ کی اتباع اُس زمرے میں نہیں آتی جو علماءو مجتہدین کی تقلید کی حیثیت ہے۔ ایک مجتہد کی تقلید چھوڑ کر کسی دوسرے کی تقلید اختیار کر لینے کی ہمیشہ ہی گنجائش رہتی ہے۔ صحابہ کی اتباع بھی اگر اسی تقلید سے ملتی جلتی کوئی چیز ہوتی تو صحابہ کی اتباع کا حظ سب سے بڑھ کر امت کا عامی طبقہ پاتا اور امت کے علماءکا تو اتباعِ صحابہ میں کوئی حظ ہی نہ ہوتا! ظاہر ہے کہ یہ ایک غلط بات ہے۔ صحابہ کی اتباع سے خدا کا راضی ہونا اِس آیت سے نہایت واضح ہے۔ نیز اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ صحابہ کی اتباع خدا کو راضی کرنے کا موجب ہے تو یہ خود بخود واضح ہوجاتا ہے کہ صحابہ کی اتباع نہ کرنا خدا کو راضی کرنے کا موجب نہیں ہے۔ پس آپ کے سامنے دو چیزیں ہیں: ایک چیز خدا کو راضی کرنے کا موجب ہے اور دوسری چیز خدا کو راضی کرنے کا موجب نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ خدا کو راضی کرنا اگر واجب نہیں ہے تو پھر کیا چیز واجب ہے؟ تین ہی صورتیں ہیں: یا خدا کی رضا ہے۔ یا خدا کی ناراضی ہے۔ یا خدا کی بخشش ہے۔ خدا کی رضا آیت کے اندر بیان ہو چکی۔ رہ گئی خدا کی بخشش اور معافی تو اس کیلئے ضروری ہے کہ پہلے اُس قصور کا تعین ہو جس پر بخشش اور معافی ہو، جوکہ کسی نص سے ہی متعین ہو سکتا ہے۔ تیسری چیز خدا کی ناراضی رہ جاتی ہے جس سے بچنا واجب ہے۔
ابن قیمؒ کے مزید دلائل
اِس کے بعد امام ابن قیمؒ صحابہ کی اتباع پر کچھ مزید دلائل اختصار کے ساتھ لاتے ہیں۔ ہم ان کو اور بھی اختصار کے ساتھ بیان کریں گے:
1) اتَّبِعُوا مَن لاَّ يَسْأَلُكُمْ أَجْرًا وَهُم مُّهْتَدُونَ
”پیروی کرو ان کی جو تم سے صلہ نہ مانگیں اور جو ہوں بھی راہِ راست پر“
آیت کی رو سے واجب ہے کہ ہم ان لوگوں کی پیروی کریں جو اجر خدواندی کے سوا دنیا کے کسی صلہ کے خواستگار نہیں بشرطیکہ وہ ہدایت یافتہ ہوں۔ دنیا کے کسی شخص یا کسی گروہ کے بارے میں دعوی کے ساتھ یہ کہا ہی نہیں جا سکتا کہ وہ ہدایت پا چکے سوائے صحابہ کے جن کے ایمان اور جن کے راہِ راست پر ہونے کی شہادت قرآن نے بھی دی ہے اور نبیﷺ نے بھی۔

حضر ت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ
حضر ت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ وہ خوش نصیب انسان ہیں جن کو جلیل القدر صحابی ہونے کے ساتھ کاتب وحی اور پہلے اسلامی بحری بیڑے کے امیر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے کئی دفعہ دعائیں اور بشارتیں نکلیں ، آپ رضی تعالی عنہ کی بہن حضرت سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ اور ام المومنین ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔
آ پ نے 19 سال تک 64 لاکھ مربع میل یعنی آدھی دنیا پر حکومت کی، تاریخ اسلام کے روشن اوراق آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے کردار و کارناموں اور فضائل ومناقب سے بھرے پڑے ہیں۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مل جاتا ہے۔
حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی قیامت کے دن معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو اس طرح اٹھائیں گے کہ ان پر نور ایمان کی چادر ہو گی”کنزالاعمال” ایک موقعہ پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں حضور صلی اللہ عیہم وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو ہدایت دینے والا، ہدایت پر قا ئم رہنے والا اور لوگوں کیلئے ذریعہ ہدایت بنا۔( جا مع ترمذی)
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا کہ معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالی عنہ میری امت میں سب سے زیادہ بردبار اور سخی ہیں۔(تطہیرالجنان)۔ حضرت امیر معاویہ رضی تعالی عنہ سروقد ، لحیم وشحیم، رنگ گورا، چہرہ کتابی ،آنکھیں موٹی گھنی داڑھی، وضع قطع، چال ڈھال میں بظاہر شا ن وشوکت اورتمکنت مگر مزاج اور طبیعت میں زہد و تواضع، فرونتی، حلم برد باری اور چہرہ سے ذہانت اور فطانت مترشح تھی۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جب اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تو حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں مبارکبا د دی اور ”مرحبا۔۔۔۔۔۔” فرمایا ”(البدایہ والنہایہ ص ٧١١ج٨)” حضور صی۔ اللہ علیہ وآلہ وسلم چونکہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے سابقہ حالات زندگی اور ان کی صلاحیت و قابلیت سے آگاہ تھے اس لئے انہیں خا ص قرب سے نوازا ۔ فتح مکہ کے بعد آپ رضی اللہ تعالی عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہی رہے اور تمام غزوات میں حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت و معیت میں بھرپور حصہ لیا۔
قرآن مجید کی حفاظت میں ایک اہم سبب ”کتابت وحی” ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جلیل القدر صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین پر مشتمل ایک جماعت مقرر کر رکھی تھی جو کہ ” کاتب وحی ” تھے ان میں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا چھٹا نمبر تھا۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو کا تب وحی بنایا تھا۔۔۔ اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی کو کاتب وحی بناتے تھے جو ذی عدالت اور امانت دار ہوتا تھا (ازالتہ الخفا ازشاہ ولی اللہ)
حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالی عنہ وہ خوش قسمت انسان ہیں جن کو کتابت وحی کے ساتھ ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطوط تحر یر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ حضورصلی اللہ علہی وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہتے یہاں تک کہ سفرو خضر میں بھی خدمت کا موقع تلاش کرتے۔
چنانچہ ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہیں تشریف لے گئے تو سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پیچھے پیچھے گئے۔ راستہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وضو کی حاجت ہوئی پیچھے مڑ ے تو دیکھا، معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پانی لئے کھڑے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑے متاثر ہوئے چنانچہ وضو کیلئے بیٹھے تو فرمانے لگے ” معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ تم حکمران بنو تو نیک لوگوں کے ساتھ نیکی کرنا اور برے لوگوں کے ساتھ درگزر کرنا ”۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اسی وقت مجھے امید ہو گئی تھی کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشن گوئی صادق آئے گی۔
حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی خدمت اور بے لوث محبت سے اتنا خوش تھے کہ بعض اہم خدمات آپ کے سپرد فرمادی تھیں ۔ علامہ اکبر نجیب آبادی” تاریخ اسلام” میں رقمطراز ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے باہر سے آئے ہوئے مہمانوں کی خاطر مدرات اور ان کے قیام وطعام کا انتظام واہتمام بھی حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد کر دیا تھا۔ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد خلیفہ اوّل سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں آپ نے مانعین زکوة، منکرین ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، جھوٹے مدعیان نبوت اور مرتدین کے فتنوں کے خلاف بھرپور حصہ لیا اور کئی کارنامے سر انجام دیئے ۔
عرب نقاد رضوی لکھتا ہے کہ حضرت امیر معاویہ کسی کا خون بہانا پسند نہیں کرتے تھے مگر آپ اسلامی ہدایات کے مطابق مرتدین کے قتل و قتال میں کسی کے پیچھے نہ ہوتے ایک روایت کے مطابق مسلیمہ کذّاب حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وار سے جہنم رسید ہوا۔
خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں جو فتوحات ہوئیں اس میں حضرت امیر معاویہ کا نمایاں حصہ اور کردار ہے جنگ یرموک میں آپ بڑی بہادری اور دلیری کے ساتھ لڑے اس جنگ میں غرضیکہ آپ کا پورا خاندان جنگ میں حصہ لے رہا تھا۔
خلیفہ سوم سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جہاد وفتوحات میں مصروف رہے اور آپ نے رومیوں کو شکست فاش دیتے ہوئے طرابلس ، الشام، عموریہ، شمشاط، ملطیہ، انطاکیہ، طرطوس، ارواڑ ، روڑس اور صقلیہ کو حدود نصرانیت سے نکال کر اسلامی سلطنت میں داخل کردئیے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان علاقوں کی فتوحات کے بعد اب یہ چاہتے تھے کہ اسلام ایک آفاقی اور عالمگیر مذہب ہے اس کو اب سمندر پار یورپ میں داخل ہونا چاہئے ”فتح قبرص” کی خواہش آپ کے دل میں مچل رہی تھی یورپ وافریقہ پر حملہ اور فتح کیلئے بحری بیڑے کی اشد ضرورت تھی۔
بحرروم میں رومی حکومت کا ایک بہت بڑا بحری مرکز تھا جو کہ شام کے ساحل کے قریب ہونے کے باعث شام کے مسلمانوں کیلئے بہت بڑا خطرہ تھا اسے فتح کیے بغیر شام ومصر کی حفاظت ممکن نہ تھی اس کے علاوہ سرحدی رومی اکثر مسلمانوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے مسلمانوں کو تنگ کرتے رہتے تھے۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے بحری بیڑے کو تیار کرنے کی اجازت ملنے کے بعد حضرت امیر معاویہ نے بڑے جوش خروش کے ساتھ بحری بیڑے کی تیاری شروع کردی اور اپنی اس بحری مہم کا اعلان کردیا جس کے جواب میں جزبہ جہاد سے سرشار مجاہدین اسلام شام کا رخ کرنے لگے۔
28ہجری میں آپ پوری شان وشوکت تیاری وطاقت اور اسلامی تاریخ کے پہلے بحری بیڑے کے ساتھ بحر روم میں اترے لیکن وہاں کے باشندوں نے مسلمانوں کے ساتھ صلح کرلی لیکن بعد میں مسلمانوں کو تنگ کرنے اور بدعہدی کرنے پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پوری بحری طاقت اور عظیم الشان بحری بیڑے کے ساتھ جس میں تقریباً پانچ سو کے قریب بحری جہاز شامل تھے قبرص کی طرف روانہ ہوئے اور بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے قبرص کو فتح کرلیا۔
اس لشکر کے امیروقائد خود امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے آپ کی قیادت میں اس پہلی بحری لڑائی اور فتح قبرص کیلئے بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیم اجمعین جن میں حضرت ابو ایوب انصاری ، حضرت ابوذرغفاری، حضرت ابودردا، حضرت عبادہ بن صامت اور حضرت شداد بن اوس، سمیت دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین شریک ہوئے۔

اس لڑائی میں رومیوں نے بڑے جوش وخروش سے حصہ لیا، تجربہ کار رومی فوجوں اور بحری لڑائی کے ماہر ہونے کے باوجود اس لڑائی میں رومیوں کو بد ترین شکست ہوئی اور مسلمانوں کو تاریخی فتح حاصل ہوئی۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث میں دو اسلامی لشکروں کے بارے میں مغفرت اور جنت کی بشارت وخوشخبری فرمائی ان میں سے ایک وہ لشکر جو سب سے پہلے اسلامی بحری جنگ لڑے گا اور دوسرا وہ لشکر جو قیصر کے شہر میں جنگ کریگا۔

پہلی بشارت سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں پوری ہوئی جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب سے پہلی بحری لڑائی لڑتے ہوئے قبرص کو فتح کر کے رومیوں کو زبردست شکست دی تھی اور دوسری بشارت سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور حکومت میں اس وقت پوری ہوئی جب لشکر اسلام نے قیصر کے شہر قسطنطیہن پر حملہ کرکے اس کو فتح کیا۔

اس جنگ میں حصہ لینے کیلئے شوق شہادت اور جذبہ جہاد سے سرشار صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین وتابعین دنیا کے گوشہ سے دمشق پہنچے، ان میں حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت بن عمر، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت سیدنا حسین بن علی، اور میزبان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا حضرت ابو ایوب انصاری رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین، اور دیگر مدینہ منورہ سے تشریف لاکر اس لشکر میں شریک ہوئے جس کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت کی بشارت وخوشخبری فرمائی تھی۔

سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دور حکومت فتوحات اور غلبہ اسلام کے حوالہ سے شاندار دور حکومت ہے ایک طرف بحر اوقیانوس اور اور دوسری طرف سندھ اور افغانستان تک میں اسلام کی فتح کے جھنڈے گاڑ دیئے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلفائے راشد ین کے تر قیاتی کاموں کو جاری رکھتے ہوئے اس مندرجہ ذیل نئے امور کی داغ بیل ڈال کر اس کو فروغ دیا۔

1 ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب سے پہلا قامتی ہسپتال دمشق میں قائم کیا۔

2 ۔سب سے پہلے اسلامی بحریہ قائم کیا، جہاز سازی کے کارخانے بنائے اور دنیا کی زبردست رومن بحریہ کو شکست دی۔

3 ۔آبپاشی اور آبنوشی کیلئے دور اسلامی میں پہلی نہر کھدوائی۔

4 ۔ ڈاکخانہ کی تنظیم نو کی اور ڈاک کا جدید اور مضبوط نظام قائم کیا۔

5۔ احکام پر مہر لگانے اور حکم کی نقل دفتر میں محفوظ رکھنے کا طریقہ ایجاد کیا۔

6۔ آپ سے پہلے خانہ کعبہ پر غلافوں کے اوپر ہی غلاف چڑھائے جاتے تھے آپ نے پرانے غلافوں کو اتار کر نیا غلاف چڑھانے کا حکم دیا۔

7 ۔ خط دیوانی ایجاد کیا اور قوم کو الفاظ کی صورت میں لکھنے کا طریقہ پیدا کیا۔

8 ۔ انتظامیہ کو بلند تر بنایا اور انتظامیہ کو عدلیہ میں مداخلت سے روک دیا۔

9۔ آپ نے دین اخلاق اور قانون کی طرح طب اور علم الجراحت کی تعلیم کا انتظام بھی کیا۔

10 ۔ آپ نے بیت المال سے تجارتی قرضے بغیر اشتراک نفع یا سود کے جاری کرکے تجارت وصنعت کو فروغ دیا اور بین الاقوامی معاہدے کئے۔

11 ۔ سرحدوں کی حفاظت کلئے قدیم قلعوں کی مرمت کر کے اور چند نئے قلعے تعمیر کرا کر اس میں مستقل فوجیں متعین کیں۔

12 ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں ہی سب سے پہلے منجنیق کا استعمال کیا گیا۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی 163احادیث مروی ہیں۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آئینہ اخلا ق میں اخلاص ، علم وفضل، فقہ واجتہاد، تقریر وخطابت، غریب پروری، خدمت خلق، مہمان نوازی، مخالفین کے ساتھ حسن سلوک، فایضی وسخاوت، اور خوف الہٰی کا عکس نمایاں نظر آتا ہے۔

ان وصیتوں کے بعد 22رجب المرجب 60ھ میں کاتب وحی، جلیل القدر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، فاتح شام و قبرص اور 19سال تک 64 لاکھ مربع میل پر حکمرانی کرنے والے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ 78 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ حضرت ضحاک بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور دمشق کے باب الصغیر میں دفن کئے گئے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح۔۔۔۔۔۔۔تحقیق و تجزیہ

| Print | Email
Details
Hits: 325

از: مفتی شکیل منصور القاسمی

مجمع عین المعارف للدراسات الاسلامیہ، کنور۔ کیرالہ

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا نکاح نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کے ساتھ کم سنی میں ہوا یعنی ۶/ سال کی عمر میں نکاح اور ۹/سال کی عمر میں رخصتی ہوئی، اس سلسلہ میں معاندینِ اسلام کی طرف سے یہ شکوک و شبہات قائم کئے جاتے ہیں کہ اس کم سنی کی شادی پیغمبرِ اسلام صلى الله عليه وسلم کے لئے موزوں اور مناسب نہیں تھی، چنانچہ ایک یہودی عالم نے انٹرنیٹ پر یہی اعتراض پیش کیا ہے زیر نظر مضمون میں اسی کا مفصل ومدلل جواب دیاگیا ہے۔

سوال:حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا نکاح نبی اکرم -صلى الله عليه وسلم- کے ساتھ کم سنی میں ہوا، بیان کیا جاتاہے کہ ۶/ سال کی عمر میں نکاح اور ۹/سال کی عمر میں رخصتی ہوئی۔ اس سلسلہ میں معاندین اسلام کی طرف سے یہ شکوک و شبہات قائم کئے جاتے ہیں کہ

اس کم سنی کی شادی پیغمبر اسلام -صلى الله عليه وسلم- کے لئے موزوں اور مناسب نہیں تھی۔ چنانچہ ایک یہودی عالم نے انٹرنیٹ پر یہی اعتراض پیش کیا ہے۔ آپ اس کا تحقیقی و تفصیلی جواب عنایت فرمائیں تو شکرگذار ہوں گا۔

(فاروق عبدالعزیز قریشی رنگ روڈ مہدی پٹنم، حیدرآباد)

جواب:حضرت عائشہ صدیقہ-رضي الله عنها- سے جو حضوراکرم -صلى الله عليه وسلم- نے اُن کی کم سنی میں نکاح فرمایا اور پھر ان کی والدہ حضرت ام رومان-رضي الله عنها- (زینب-رضي الله عنها-) نے تین سال بعد ۹/ سال کی عمر میں رخصتی کردی، اس پر بعض گوشوں سے اعتراضات اور شکوک و شبہات نئے نہیں ہیں؛ بلکہ پرانے ہیں، علماء اور محققین نے جوابات بھی دئیے ہیں، تاہم ذیل کی سطروں میں ایک ترتیب کے ساتھ جواب دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ امید کہ جواب میں تحقیق و تجزیہ کے جو پہلو سامنے آئیں گے، اُن سے ذہنی غبار دھل جائے گا اور ذہن کا مطلع بالکل صاف اور واضح ہوجائے گا۔ اس لیے مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر تفصیلی جواب لکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اس میں کوئی شک نہںی کہ کارگاہِ عالم کا سارا نظام قانونِ زوجی (Law of Sex) پر مبنی ہے اور کائنات میں جتنی چیزیں نظر آرہی ہیں سب اسی قانون کا کرشمہ اور مظہر ہیں۔ (الذاریات:۴۹) یہ اور بات ہے کہ مخلوقات کا ہر طبقہ اپنی نوعیت، کیفیت اور فطری مقاصد کے لحاظ سے مختلف ہیں لیکن اصل زوجیت ان سب میں وہی ایک ہے۔ البتہ انواعِ حیوانات میں انسان کو خاص کرکے یہ ظاہر کیاگیا ہے کہ اس کے زوجین کا تعلق محض شہوانی نہ ہو بلکہ محبت اور انس کا تعلق ہو دل کے لگاؤ اور روحوں کے اتصال کا تعلق ہو۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے راز دار اور شریک رنج و راحت ہوں، ان کے درمیان ایسی معیت اور دائمی وابستگی ہو جیسی لباس اور جسم میں ہوتی ہے۔ دونوں صنفوں کا یہی تعلق دراصل انسانی تمدن کی عمارت کا سنگِ بنیاد ہے اس ربط و تعلق کے بغیر نہ انسانی تمدن کی تعمیر ممکن ہے اور نہ ہی کسی انسانی خاندان کی تنظیم۔ جب یہ قانونِ زوجی خالقِ کائنات کی طرف سے ہے تو یہ کبھی صنفی میلان کو کچلنے اور فنا کرنے والا نہیں ہوسکتا۔ اس سے نفرت اور کلی اجتناب کی تعلیم دینے والا بھی نہیں ہوسکتا؛ بلکہ اس میں لازماً ایسی گنجائش رکھی گئی ہے کہ انسان اپنی فطرت کے اس اقتضاء کو پورا کرسکے حیوانی سرشت کے اقتضاء اور کار خانہٴ قدرت کے مقرر کردہ اصول و طریقہ کو جاری رکھنے کے لیے قدرت نے صنفی انتشار کے تمام دروازے مسدود کردئیے،اور ”نکاح“ کی صورت میں صرف ایک دروازہ کھولا۔ کسی بھی آسمانی مذہب و شریعت نے اس کے بغیر مرد و عورت کے باہمی اجتماع کو جائز قرار نہیں دیا۔ پھر اسلامی شریعت میں یہاں تک حکم دیاگیا ہے کہ اس فطری ضرورت کو تم پورا کرو، مگر منتشر اور بے ضابطہ تعلقات میں نہیں، چوری چھپے بھی نہیں، کھلے بندوں بے حیائی کے طریقے پر بھی نہیں؛ بلکہ باقاعدہ اعلان و اظہار کے ساتھ، تاکہ تمہاری سوسائٹی میں یہ بات معلوم اور مسلم ہوجائے کہ فلاں مرد اور عورت ایک دوسرے کے ہوچکے ہیں۔

نبی کریم -صلى الله عليه وسلم- ایک ایسی قوم میں مبعوث ہوئے تھے، جو تہذیب و تمدن کے ابتدائی درجہ میں تھی آپ -صلى الله عليه وسلم- کے سپرد اللہ نے صرف یہی کام نہیں کیا تھا کہ اُن کے عقائد وخیالات درست کریں؛ بلکہ یہ خدمت بھی آپ -صلى الله عليه وسلم- کے سپرد تھی کہ ان کا طرزِ زندگی، بود وباش اور رہن سہن بھی ٹھیک اور درست کریں۔ ان کو انسان بنائیں، انہیں شائستہ اخلاق، پاکیزہ معاشرت، مہذّب تمدن، نیک معاملات اور عمدہ آداب کی تعلیم دیں، یہ مقصد محض وعظ و تلقین اور قیل و قال سے پورا نہیں ہوسکتا تھا، تیس سال کی مختصر مدتِ حیات میں ایک پوری قوم کو وحشیت کے بہت نیچے مقام سے اٹھاکر تہذیب کے بلند ترین مرتبہ تک پہنچادینا اس طرح ممکن نہ تھاکہ محض مخصوص اوقات میں ان کو بلاکر کچھ زبانی ہدایات دیدی جائیں۔ اس کے لیے ضرورت تھی کہ آپ -صلى الله عليه وسلم- خود اپنی زندگی میں ان کے سامنے انسانیت کا ایک مکمل ترین نمونہ پیش کرتے اور ان کو پورا موقع دیتے کہ اس نمونہ کو دیکھیں اور اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق بنائیں۔ چنانچہ آپ -صلى الله عليه وسلم- نے ایسا ہی کیا۔ یہ آپ -صلى الله عليه وسلم- کا انتہائی ایثار تھا کہ آپ -صلى الله عليه وسلم- نے زندگی کے ہر شعبہ کو قوم کی تعلیم کے لیے عام کردیا۔ اپنی کسی چیز کو بھی پرائیویٹ اور مخصوص نہ رکھا۔ حتی کہ ان معاملات کو بھی نہ چھپایا جنھیں دنیا میں کوئی شخص عوام کے لئے کھولنے پر آمادہ نہیں ہوسکتا۔ آپ -صلى الله عليه وسلم- نے اتنا غیر معمولی ایثار اس لئے کیا تاکہ رہتی دنیا تک کے لئے لوگوں کو بہترین نمونہ اور عمدہ نظیر مل سکے۔ اسی اندرونی اور خانگی حالات دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے آپ -صلى الله عليه وسلم- نے متعدد نکاح فرمایا۔ تاکہ آپ -صلى الله عليه وسلم- کی نجی زندگی کے تمام حالات نہایت وثوق اور اعتماد کے ساتھ دنیا کے سامنے آجائیں اور ایک کثیر جماعت کی روایت کے بعد کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہ رہے اور شریعت کے وہ احکام ومسائل جو خاص عورتوں سے متعلق ہیں اور مردوں سے بیان کرنے میں حیاء اور حجاب مانع ہوتا ہے ایسے احکام شرعیہ کی تبلیغ ازواجِ مطہرات-رضي الله عنهن- کے ذریعہ سے ہوجائے۔

تنہائی کے اضطراب میں، مصیبتوں کے ہجوم میں اور ستمگاریوں کے تلاطم میں ساتھ دینے والی آپ -صلى الله عليه وسلم- کی غمگسار بیوی ام الموٴمنین حضرت خدیجہ-رضي الله عنها- کا رمضان ۱۰ ء نبوت میں جب انتقال ہوگیا تو آپ -صلى الله عليه وسلم- نے چار سال بعد یہ ضروری سمجھا کہ آپ -صلى الله عليه وسلم- کے حرم میں کوئی ایسی چھوٹی عمر کی خاتون داخل ہوں جھنوں نے اپنی آنکھ اسلامی ماحول میں ہی میں کھولی ہو اور جو نبی -صلى الله عليه وسلم- کے گھرانے میںآ کر پروان چڑھیں، تاکہ ان کی تعلیم و تربیت ہر لحاظ سے مکمل اور مثالی طریقہ پر ہو اور وہ مسلمان عورتوں اور مردوں میں اسلامی تعلیمات پھیلانے کا موٴثر ترین ذریعہ بن سکیں۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے مشیت الٰہی نے حضرت عائشہ-رضي الله عنها- کو منتخب فرمایا اور شوال ۳ ء قبل الہجرہ مطابق ۶۲۰/ مئی میں حضرت عائشہ-رضي الله عنها- سے آپ -صلى الله عليه وسلم- کا نکاح ہوا، اس وقت حضرت عائشہ کی عمر جمہور علماء کے یہاں چھ سال تھی اور تین سال بعد جب وہ ۹ سال کی ہوچکی تھیں اور اُن کی والدئہ محترمہ حضرت ام رومان-رضي الله عنها- نے آثار و قرائن سے یہ اطمینان حاصل کرلیا تھا کہ وہ اب اس عمر کو پہنچ چکی ہیں کہ رخصتی کی جاسکتی ہے تو نبی اکرم -صلى الله عليه وسلم- کے پاس روانہ فرمایا اور اس طرح رخصتی کا عمل انجام پایا۔ (مسلم جلد۲، صفحہ ۴۵۶، اعلام النساء صفحہ ۱۱، جلد ۳، مطبوعہ بیروت)۔

حضرت عائشہ-رضي الله عنها- کے والدین کا گھر تو پہلے ہی نوراسلام سے منور تھا، عالمِ طفولیت ہی میں انہیں کا شانہٴ نبوت تک پہنچادیا گیاتاکہ ان کی سادہ لوح دل پر اسلامی تعلیم کا گہرا نقش مرتسم ہوجائے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عائشہ-رضي الله عنها- نے اپنی اس نوعمری میں کتاب وسنت کے علوم میں گہری بصیرت حاصل کی۔ اسوئہ حسنہ اور آنحضور -صلى الله عليه وسلم- کے اعمال و ارشادات کا بہت بڑا ذخیرہ اپنے ذہن میں محفوظ رکھا اور درس و تدریس اور نقل و روایت کے ذریعہ سے اُسے پوری امت کے حوالہ کردیا۔ حضرت عائشہ-رضي الله عنها- کے اپنے اقوال و آثار کے علاوہ اُن سے دوہزار دو سو دس (۲۲۱۰) مرفوع احادیث صحیحہ مروی ہیں۔ اور حضرت ابوہریرہ-رضي الله عنه- کو چھوڑ کر صحابہ وصحابیات میں سے کسی کی بھی تعدادِ حدیث اس سے زائد نہیں۔

بعض مریضانہ ذہن و فکر رکھنے والے افراد کے ذہن میں یہ خلش اور الجھن پائی جاتی ہے کہ آپ -صلى الله عليه وسلم- کی حضرت عائشہ-رضي الله عنها- سے اس کم سنی میں نکاح کرنے کی کیا ضرورت تھی؟اور یہ کہ اس چھوٹی سی عمر میں حضرت عائشہ-رضي الله عنها- سے نکاح کرنا آپ -صلى الله عليه وسلم- کے لئے موزوں اور مناسب نہیں تھا؟ چنانچہ ایک یہودی مستشرق نے انٹرنیٹ پر اس قسم کا اعتراض بھی اٹھایا ہے اور اس طرح اس نے بعض حقائق و واقعات، سماجی روایات، موسمی حالات اور طبی تحقیقات سے اعراض اور چشم پوشی کا اظہار بھی کیا ہے کہ حضرت عائشہ-رضي الله عنها- سے نکاح اور رخصتی اس کم سنی میں کیوں کر ہوئی؟

یہ اعتراض درحیقتب اس مفروضہ پر مبنی ہے کہ حضرت عائشہ-رضي الله عنها- میں وہ اہلیت وصلاحیت پیدا نہیں ہوئی تھی جو ایک خاتون کو اپنے شوہر کے پاس جانے کے لئے درکار ہوتی ہے، حالانکہ اگر عرب کے اس وقت کے جغرافیائی ماحول اور آب و ہوا کا تاریخی مطالعہ کریں تو یہ واقعات اس مفروضہ کی بنیاد کو کھوکھلی کردیں گے، جس کی بناء پر حضرت عائشہ-رضي الله عنها- کے نکاح کے سلسلہ میں ناروا اور بیجاطریقہ پر لب کو حرکت اور قلم کوجنبش دی گئی ہے۔ سب سے پہلے یہ ذہن میں رہے کہ اسلامی شریعت میں صحت نکاح کے لیے بلوغ شرط نہیں ہے سورہ ”الطلاق“ میں نابالغہ کی عدت تین ماہ بتائی گئی ہے، واللّائی لم یحضن (المائدہ:۴) اور ظاہر ہے کہ عدت کا سوال اسی عورت کے معاملہ میں پیدا ہوتا ہے جس سے شوہر خلوت کرچکا ہو؛ کیوں کہ خلوت سے پہلے طلاق کی صورت میں سرے سے کوئی عدت ہی نہیں ہے۔ (الاحزاب:۴۹) اس لیے ”واللائی لم یحضن“ سے ایسی عورت کی عدت بیان کرنا جنھیں ماہواری آنا شروع نہ ہوا ہو صراحت کے ساتھ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس عمر میں نہ صرف لڑکی کا نکاح کردینا جائز ہے بلکہ شوہر کا اس کے ساتھ خلوت کرنا بھی جائز ہے۔ ( احکام القرآن للجصاص جلد۲، صفحہ ۶۲۔ الفقہ الاسلامی وادلتہ جلد ۷ صفحہ ۱۸)۔

حضرت عائشہ-رضي الله عنها- کی نسبت قابل وثوق ذرائع سے معلوم ہے کہ ان کے جسمانی قوی بہت بہتر تھے اور ان میں قوت نشو و نما بہت زیادہ تھی۔ ایک تو خود عرب کی گرم آب و ہوا میں عورتوں کے غیرمعمولی نشوونماکی صلاحیت ہے۔ دوسرے عام طورپر یہ بھی دیکھا گاو ہے کہ جس طرح ممتاز اشخاص کے دماغی اور ذہنی قویٰ میں ترقی کی غیرمعمولی استعداد ہوتی ہے، اسی طرح قدوقامت میں بھی بالیدگی کی خاص صلاحیت ہوتی ہے۔ اس لیے بہت تھوڑی عمر میں وہ قوت حضرت عائشہ-رضي الله عنها- میں پیدا ہوگئی تھی جو شوہر کے پاس جانے کے لیے ایک عورت میں ضروری ہوتی ہے۔ داؤدی نے لکھا ہے کہ وکانت عائشة شبت شبابا حسنا یعنی حضرت عائشہ-رضي الله عنها- نے بہت عمدگی کے ساتھ سن شباب تک ترقی کی تھی (نووی ۴۵۶/۳) حضرت عائشہ کے طبعی حالات تو ایسے تھے ہی، ان کی والدہ محترمہ نے ان کے لیے ایسی باتوں کا بھی خاص اہتمام کیا تھاجو ان کے لیے جسمانی نشوونما پانے میں ممدومعاون ثابت ہوئی۔ چنانچہ ابوداؤد جلد دوم صفحہ ۹۸ اور ابن ماجہ صفحہ ۲۴۶ میں خود حضرت عائشہ-رضي الله عنها- کا بیان مذکور ہے کہ ”میری والدہ نے میری جسمانی ترقی کے لیے بہترے تدبیریں کیں۔ آخر ایک تدبیر سے خاطر خواہ فائدہ ہوا، اور میرے جسمانی حالات میں بہترین انقلاب پیدا ہوگیا“ اس کے ساتھ اس نکتہ کو بھی فراموش نہ کرنا چاہئے کہ حضرت عائشہ-رضي الله عنها- کو خود ان کی والدہ نے بدون اس کے کہ آنحضرت -صلى الله عليه وسلم- کی طرف سے رخصتی کا تقاضا کیاگیاہو، خدمتِ نبوی میں بیجا تھا اور دنیا جانتی ہے کہ کوئی ماں اپنی بیٹی کی دشمن نہیں ہوتی؛ بلکہ لڑکی سب سے زیادہ اپنی ماں ہی کی عزیز اور محبوب ہوتی ہے۔ اس لیے ناممکن اور محال ہے کہ انھوں نے ازدواجی تعلقات قائم کرنے کی صلاحیت واہلیت سے پہلے ان کی رخصتی کردیا ہو اور اگر تھوڑی دیر کے لیے مان لیا جائے کہ عرب میں عموماً لڑکیاں ۹/برس میں بالغ نہ ہوتی ہوں تواس میں حیرت اور تعجب کی کیا بات ہے کہ استثنائی شکل میں طبی اعتبار سے اپنی ٹھوس صحت کے پس منظر میں کوئی لڑکی خلافِ عادت ۹/برس ہی میں بالغ ہوجائے، جو ذہن و دماغ منفی سوچ کا عادی بن گئے ہوں اور وہ صرف شکوک و شبہات کے جال بننے کے خوگر ہوں انھیں تویہ واقعہ جہالت یا تجاہل عارفانہ کے طور پر حیرت انگیز بناکر پیش کرے گا؛ لیکن جو ہرطرح کی ذہنی عصبیت و جانبداری کے خول سے باہر نکل کر عدل و انصاف کے تناظر میں تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہتے ہوں وہ جان لیں کہ نہایت مستند طریقہ سے ثابت ہے کہ عرب میں بعض لڑکیاں ۹/برس میں ماں اور اٹھارہ برس کی عمر میں نانی بن گئی ہیں۔ سنن دار قطنی میں ہے حدثنی عباد بن عباد المہلبی قال ادرکت فینا یعنی المہالبة امرأة صارت جدة وہی بنت ثمان عشرة سنة، ولدت تسع سنین ابنة، فولدت ابنتہا لتسع سننت فصارت ہی جدة وہی بنت ثمان عشرة سنة (دارقطنی، جلد۳، صفحہ ۳۲۳، مطبوعہ: لاہور پاکستان) خودہمارے ملک ہندوستان میں یہ خبر کافی تحقیق کے بعد شائع ہوئی ہے کہ وکٹوریہ ہسپتال دہلی میں ایک سات سال سے کم عمر کی لڑکی نے ایک بچہ جنا ہے۔ (دیکھئے اخبار ”مدینہ“ بجنور، مجریہ یکم جولائی ۱۹۳۴/ بحوالہ نصرت الحدیث صفحہ ۱۷۱)۔

جب ہندوستان جیسے معتدل اور متوسط ماحول وآب و ہوا والے ملک میں سات برس کی لڑکی میں یہ استعداد پیدا ہوسکتی ہے تو عرب کے گرم آب و ہوا والے ملک میں ۹/ سال کی لڑکی میں اس صلاحیت کا پیدا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علی-رضي الله عنه- نے اپنی لڑکی ام کلثوم کا نکاح عروة بن الزبیر سے اور عروة بن الزبیر نے اپنی بھتیجی کا نکاح اپنے بھتیجے سے اور عبداللہ بن مسعود-رضي الله عنه- کی بیوی نے اپنی لڑکی کا نکاح ابن المسیب بن نخبة سے کم سنی میں کیا۔ (الفقہ الاسلامی وادلتہ جلد۷، صفحہ ۱۸۰)۔

ان حضرات کا کم سنی میں اپنی لڑکیوں کا نکاح کردینا بھی اس بات کی کھلی ہوئی دلیل ہے کہ اس وقت بہت معمولی عمر میں ہی بعض لڑکیوں میں شادی وخلوت کی صلاحیت پیدا ہوجاتی تھی، تو اگر حضرت عائشہ-رضي الله عنها- کا نکاح ۶/برس کی عمر میں ہوا تو اس میں کیا استبعاد ہے کہ ان میں جنسی صلاحیتیں پیدا نہ ہوئی ہوں۔ جیساکہ ابھی ثابت ہوچکا ہے کہ ان کی والدہ نے خصوصیت کے ساتھ اس کا اہتمام کیا تھا الغرض شوہر سے ملنے کے لیے ایک عورت میں جو صلاحیتیں ضروری ہوتی ہیں وہ سب حضرت عائشہ-رضي الله عنها- میں موجود تھیں۔ لہٰذا اب یہ خیال انتہائی فاسد ذہن کا غماز ہوگا اور موسمی، ملکی، خاندانی اور طبی حالات سے اعراض اور چشم پوشی کا مترادف ہوگا کہ حضرت عائشہ-رضي الله عنها- سے کم سنی میں شادی کرنے کی آپ -صلى الله عليه وسلم- کو کیا ضرورت تھی؟ علاوہ ازیں حضرت عائشہ کے ماسواء جملہ ازواج مطہرات-رضي الله عنهن- بیوہ، مطلقہ یا شوہر دیدہ تھیں، حضرت عائشہ-رضي الله عنها- سے کم سنی میں ہی اس لئے نکاح کرلیا گیا تاکہ وہ آپ -صلى الله عليه وسلم- سے زیادہ عرصہ تک اکتسابِ علوم کرسکیں۔ اور حضرت عائشہ-رضي الله عنها- کے توسط سے لوگوں کو دین و شریعت کے زیادہ سے زیادہ علوم حاصل ہوسکیں۔ چنانچہ آنحضرت -صلى الله عليه وسلم- کی وفات کے بعد حضرت عائشہ رضي الله عنها-(۔48)اڑتالیس سال زندہ رہیں، زرقانی کی روایت کے مطابق ۶۶ھ میں حضرت عائشہ-رضي الله عنها- کا انتقال ہوا۔ ۹/برس میں رخصتی ہوئی آپ کے ساتھ ۹/ سال رہیں اور آپ کی وفات کے وقت ان کی عمر ۱۸ برس تھی۔ (زرقانی، الاستیعاب) اور صحابہ و تابعین ان کی خداداد ذہانت و فراست، ذکاوت وبصیرت اور علم و عرفان سے فیض حاصل کرتے رہے،اور اس طرح ان کے علمی و عرفانی فیوض و برکات ایک لمبے عرصہ تک جاری رہے۔ (زرقانی جلد ۳، صفحہ ۲۲۹-۲۳۶)۔

حقیقت یہ ہے کہ آپ -صلى الله عليه وسلم- کے سوا کوئی ایسا آدمی دنیا میں نہیں گزرا جو کامل ۲۳ برس تک ہر وقت، ہر حال میں منظر عام پر زندگی بسر کرلے، سینکڑوں ہزاروں آدمی اس کی ایک ایک حرکت کے تجسس میں لگے ہوئے ہوں۔ اپنے گھر میں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد کے ساتھ برتاؤ کرتے ہوئے بھی اس کی جانچ پڑتال ہورہی ہو اور اتنی گہری تلاش کے بعد نہ صرف یہ کہ اس کے کیریکٹر پر ایک سیاہ چھینٹ تک نظر نہ آئے؛ بلکہ یہ ثابت ہو کہ جو کچھ وہ دوسروں کو تعلیم دیتا تھا، خود اس کی اپنی زندگی اس تعلیم کا مکمل نمونہ تھی؛ بلکہ یہ ثابت ہوکہ اس طویل زندگی میں وہ کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی عدل وتقویٰ اور سچائی و پاکیزگی کے معیاری مقام سے نہیں ہٹا؛ بلکہ یہ ثابت ہوکہ جن لوگوں نے سب سے زیادہ قریب سے اس کو دیکھا وہی سب سے زیادہ اس کے گرویدہ اور معتقد ہوئے۔ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم۔

یہی وجہ ہے کہ انسان کی پوری آبادی میں ”انسانِ کامل“ کہلائے جانے کے آپ -صلى الله عليه وسلم- ہی مستحق ہیں اور عیسائی سائنسداں نے جب تاریخ عالم میں ایسے شخص کو جو اپنی شخصیت کے جگمگاتے اور گہرے نقوش چھوڑے ہیں سب سے پہلے نمبر پر رکھ کر اپنی کتاب کاآغاز کرنا چاہا تو اس نے دیانت کا ثبوت دیتے ہوئے حضرت عیسیٰ علیہ الصلاة والسلام اوراپنے من پسند کسی سائنسداں کا تذکرہ نہیں کیا بلکہ اس کی نظر انتخاب اسی پر پڑی اور اسی سے اپنی کتاب کاآغاز کیا جسے دنیا حضرت محمد -صلى الله عليه وسلم- کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔ اس لئے آپ -صلى الله عليه وسلم- کی زندگی جلوت کی ہو یا خلوت کی ایک کامل نمونہ ہے اور اس میں ایسا اعتدال و توازن پایا جاتا ہے کہ کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی۔ اور جب کوئی ”یرقانی“ نظر والے آپ -صلى الله عليه وسلم- کی زندگی میں کسی کمی کو تلاش کریں تو حقیقت پسند شاعر یہ کہہ کر اس کی طرف متوجہ ہوگا۔

فرق آنکھوں میں نہیں، فرق ہے بینائی میں

عیب میں عـیب، ہنرمند ہنر دیکھتے ہیں

انٹرنیٹ کی دنیا سے قریبی تعلق رکھنے والے جانتے ہیں کہ اسلام کے خلاف مختلف شکوک و شبہات اور فتنے پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس قسم کے شکوک وشبہات کاازالہ اور فتنوں کا سدِّباب وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، جو لوگ انٹرنیٹ کے ذریعہ فتنے کے شوشے چھوڑ دیتے ہیں ان کا منظم و منصوبہ بند طریقہ پرجواب دیا جائے کسی وجہ سے اگر علماء براہِ راست انگریزی میں جواب نہیں دے سکتے تو ان کا علمی تعاون حاصل کرکے جواب کی اشاعت عمل میں لائی جاسکتی ہے، زندگی کا کارواں جب چلتا ہے تو گرد و غبار کا اٹھنا لازمی ہے؛ لیکن منزل کی طرف رواں دواں رہنے ہی میں منزل پر پہنچا جاسکتا ہے؛ لیکن اس کے لئے قدم میں طاقت اور دست و بازو میں قوت چاہئے۔ ع

اس بحرِ حوادث میں قائم پہنچے گا وہی اب ساحل تک

جو موجِ بلاء کا خوگر ہو رخ پھیرسکے طوفانوں کا
صاحب صدق ووفا……..سيدنا ومولانا صديق الأكبر رضي الله تعالى عنه

| Print | Email
Details
Hits: 135
صاحب صدق ووفا……..سيدنا ومولانا صديق الأكبر رضي الله تعالى عنه
آپ كا نام عبد الله كنية ابو بكر اور لقب صديق وعتيق ہے. چھٹي پشت ميں سلسله نسب رسول الله صلى الله عليه وسلم سے جا ملتا ہے. آپ كي پيدائش سركارِ دو عالم صلى الله عليه وسلم سے دو سال بعد هوئي يعني عمر ميں آپ رضي الله تعالى عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم سے دو سال چھوٹے ہيں. بچپن ہي سے شرافة آپ كي طبيعة كا حصه بن چكي تھي. آيام الجاهلية ميں بھي جب عرب معاشره ميں گناهوں كے تمام اسباب موجود تھے، آپ رضي الله تعالى عنه كسي گناه كے قريب نہيں گئے، انتهائي مالدار اور مكه كے بڑے تاجروں ميں شمار هوتا تھا مگر آپ نے

كبھي شراب پي نہ ہي بدكاري كے قريب گئے. سب سے پہلے اسلام قبول كر كے مؤمن اول كہلائے. سب سے پہلے معراج كي تصديق كي تو صديق الاكبر رضي الله عنه كہلائے. مسلم غلاموں كو ان كے ظالم آقاؤں سے نجاة دلائي تو زبان نبوة سے عتيق من النار كا پروانہ ملا. آپ كي ساري زندگي كمالات سے تعبير ہے. انہي خصوصيات كے باعث آپ باقي ساري امة سے ممتاز ٹہرے اور أفضل الخلائق بعد الأنبياء كے مقام پر فائز هوئے. آپ رضي الله عنه بچپن سے رسول الله صلى الله عليه وسلم كے دوست تھے، ايك سفر سے واپسي پر جب آپ رضي الله عنه نے سنا كہ محمد صلى الله عليه وسلم نے نبوة كا دعوٰی كيا ہے تو بغير كسي دليل طلب كئے فوراً ايمان لے آئے. اس طرح مردوں ميں اسلام قبول كرنے والے پہلے صحابي ٹہرے . اسلام قبول كرنے كے بعد آپ رضي الله تعالى عنه نے پہلا اعلانيه خطبه اس وقت ارشاد فرمايا جب دشمنان اسلام رحمة دو عالم صلى الهت عليه وسلم كو دعوة حق كي پاداش ميں جور وستم كا نشانہ بنا رہے تھے آپ رضي الله عنه ايك بلند مقام پر كھڑے هو گئے اور دشمنان دين كو مخاطب كر كے ارشاد فرمايا:
“اتقتلون رجلا ان يقول ربي الله وقد جاءكم بالبينت من ربكم”

لوگوں تم ايك ايسے شخص كو مارنا چاہتے هو جو كہتا ہے كہ الله ميرا رب ہے (اور اپنے دعوى كي تصديق كيلئے) اپنے رب كي طرف سے تمھارے پاس واضح دلائل لے كر آيا ہے.

يہ پہلا اسلامي اعلانيه خطبه تھا جس كے ردعمل ميں منكرين اسلام نے آپ رضي الله عنه كو مار مار كر بے هوش كر ديا. اسلام قبول كرنے كے بعد آپ لمحه بھر توقف كئے بغير دين كي دعوة ميں لگ گئے. آپ كي دعوة پر بڑے بڑے صحابه كرام رضي الله عنهم نے اسلام قبول كيا جن ميں حضرة ذو النورين عثمان بن عفان رضي الله عنه، حضرة عبد الرحمن بن عوف، حضرة زبير، حضرة طلحه، حضرة سعد بن ابي وقاص اور حضرة عثمان بن مظعون رضي الله تعالى عنهم جيسے اكابر صحابه شامل ہيں. آپ نے اسلام قبول كرنے والے بے شمار غلاموں كو ان كے ظالم آقاؤں سے خريد كر آزاد كيا ان ميں بلال حبشي رضي الله عنه اور حضرة عامر ابن فهيره رضي الله عنه مشهور صحابي ہيں.

آپ كي خصوصيات ميں آپ كا ايك بڑا اعزاز خليفة الرسول الله هونا ہے يہ اعزاز نہ تو كسي اور كو ملا ہے نہ ہي مل سكتا ہے. آپ رضي الله عنه ہي وہ عظيم صحابي ہيں كہ هجرة كے سفر كيلئے رسول الله صلى الله عليه وسلم نے آپ رضي الله عنه كي معية كا انتخاب فرمايا. پھر سفر هجرة ميں رسول الله صلى الله عليه وسلم كے ساتھ رہے. غار ثور ميں تين راتوں كے قيام ميں آپ رضي الله تعالى عنه كي گود ميں سرور كونين صلى الله عليه وسلم كا سر مبارك ركھا هوا تھا. رخ محبوب كا جي بھر كر ديدار كيا. ديدار كے مزے لوٹ رہے تھے كہ آپ كے پاؤں كو ايك سانپ نے ڈس ليا. صديق الاكبر رضي الله تعالٰی عنه كي آنكھوں سے درد كے اثر سے جاري هونے والے آنسو رسول الله صلى الله عليه وسلم كے مبارك رخساروں پر گرے. بيدار هو كر آپ صلى الله عليه وسلم نے لعاب دہن ابو بكر صديق رضي الله عنه كي ايڑي پر لگايا جس سے آپ رضي الله تعالى عنه كي تكليف رفع هو گئي. الغرض هجرة كے سفر ميں جو اعزازات حضرة ابو بكر صديق رضي الله تعالى عنه كو حاصل هوئے وہ آپ ہي كا حصه ہيں، خود الله سبحانه وتعالى نے سفر هجرة سے متعلق آپ كا ذكر قرآن پاك ميں فرمايا:

ثاني اثنين اذ هما في الغار، اذ يقول لصاحبه لا تحزن ان الله معنا

كہ وہ دوسرا تھا دو ميں كا جب وہ دونوں تھے غار ميں، جب وہ كہہ رہا تھا اپنے رفيق سے تو غم نہ كھا بيشك الله ہمارے ساتھ ہے
(سورة التوبة آية 40 – ترجمه حضرة شيخ الهند رحمه الله)

يہي وجه ہے كہ سيدنا فاروق الأعظم رضي الله تعالى عنه كبھي كبھي آپ رضي الله عنه سے فرمايا كرتے تھے كہ ميري زندگي كي ساري نيكياں لے لو، صرف غار كي تين راتيں مجھے دے دو. مگر يہ خدائي تقسيم، نسبة اور قسمة كي باتيں جس كے حصے ميں تھيں اس كا مقدر ٹہريں. ايك مرتبہ كا ذكر ہے فجر كي نماز كے بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم صحابه كرام رضي الله تعالى عنهم سے مخاطب هوئے اور ارشاد فرمايا: “تم ميں سے كس شخص نے آج روزہ ركھا ہے؟” تمام لوگ خاموش رہے، صديق اكبر رضي الله عنه كھڑے هوئے اور عرض كي كہ آقا ميں روزے سے هوں. پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: “تم ميں سے كس شخص نے آج نماز سے پہلے صدقه كيا ہے”؟ پھر تمام لوگ خاموش رہے حضرة صديق اكبر رضي الله عنه كھڑے هوئے اور عرض كي: “نماز كيلئے آرہا تھا راستے ميں ايك سائل نے سوال كيا جيب ميں جو كچھ تھا اس كو دے ديا ہے تاكہ ميرا رب مجھ سے راضي هو جائے”. آپ صلى الله عليه وسلم نے پھر ارشاد فرمايا: “تم ميں سے كوئي ايسا شخص ہے جس نے نماز سے قبل كسي كي خدمة كي ہے؟” اس سوال پر بھي سب خاموش رہے. حضرة ابو بكر الصديق رضي الله تعالى عنه پھر كھڑے هوئے اور عرض كي كہ آقا صلى الله عليه وسلم تهجد كي نماز كے بعد فلاں بڑھيا كے گھر كا كام كاج كر كے آيا هوں. اس پر رسول الله صلى الله عليه وسلم نے انتهائي خوشي كا اظهار كرتے هوئے ارشاد فرمايا: “ابو بكر تمھيں مبارك هو الله نے جبرائيل (عليه السلام) كے ذريعه تمھيں سلام بھيجا ہے”. كتنے بڑے اعزاز كي بات ہے كہ خود خالق كائنات آپ رضي الله عنه كو سلام بھيجيں. آپ كي اس عظمة، بلند مقام، عظيم رتبه اور دين كيلئے دي جانے والي قربانيوں كے پيش نظر رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمايا: “اقتدوا بالذين من بعدي ابي بكر وعمر” كہ ميرے بعد ابو بكر اور عمر كي اتباع كرنا. آپ ہي وہ واحد صحابي ہيں جنھوں نے نبي كريم صلى الله عليه وسلم كے مصلى پر 17 نمازيں پڑھائيں. آپ ہي كو اپني زندگي ميں حج كا امير بنا كر آقائے دو عالم صلى الله عليه وسلم نے خلافة كي طرف اشاره فرما ديا. آپ رضي الله عنه نے رسول الله صلى الله عليه وسلم كي رحلة كے بعد سوا دو سال تك خلافة كے منصب كو سنبھالے ركھا. دين كے خلاف اٹھنے والے فتن مدعيان نبوة, منكرين زكوة اور ارتداد كے فتنے كي سركوبي نهاية جرأة اور دليري سے كي. تمام مصلحتوں كو بالائے طاق ركھتے هوئے اندروني اور بيروني سازشوں كا مقابله قوة ايماني سے كيا

اپنے دور خلافة ميں خليفة المسلمين هوتے هوئے بھي نهاية تنگ دستي ميں وقت گزارا. آپ رضي الله تعالى عنه نے اپنے مرض وفاة ميں ام المؤمنين سيّده عائشه صديقه رضي الله تعالى عنها سے فرمايا كہ ديكھو ميرے مرنے كے بعد ايك اونٹني، ايك برتن كھانے كا، ايك چادر (سونے كيلئے) جو ميرے پاس بيت المال كي امانة ہيں مجھے يہ سامان بيت المال سے ديا گيا تھا، بيت المال ميں جمع كروادينا. آپ رضي الله تعالى عنه كي وفاة كے بعد اُم المؤمنين سيده عائشه صديقه رضي الله تعالى عنها جب يہ مال لے كر حضرة عمر رضي الله تعالى عنه كے پاس پہنچيں تو حضرة عمر رضي الله عنه كي آنكھوں ميں آنسو آگئے اور ارشاد فرمايا: “ابو بكر تم پر الله رحم كرے ہميں سخت مشكل ميں ڈال ديا (كے خليفه اول كے معار پر بعد والے كيسے اتريں)”

يہ تھے خلفاء الراشدين المهديين، اور يہ تھيں ان كي زندگياں، وہ عيش وعشرة كے قريب بھي نہ گئے تھے، ان كي زندگياں مشعل راه، معار هداية اور قابل تقليد ہيں. آج كے بگڑے دور ميں بے سكوني، اضطراب، معاشي واقتصادي مسائل كا واحد حل خلفاء الراشدين كي تقليد اور ان كے نظام حكومة كو اپنانے ميں مضمر ہے. اے الله ہميں كوئي نيك دل حكمران عطا كردے جو خلفاء الراشدين كے طرز عمل كو نافذ كر كے دنيا كو راحة وسكون كا پيغام دے.

حضرة صديق الأكبر رضي الله عنه دو سال چار ماہ تك منصب خلافة پر جلوه افروز رہنے كے بعد پير كے دن 63 سال كي عمر ميں 22 جمادي الثانيه كو دنيا سے رخصة هوئے. (رضي الله عنه وارضاه)