عمرؓ ، عمرؓ ہے

عمرؓ ، عمرؓ ہے
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 610)
اسلامی سال کا بارہواں اور آخری مہینہ ذوالحجہ اختتام پذیر ہے اور جلد ہی ماہِ محرم سے ۱۴۳۹ھ کا آغاز ہونے والا ہے۔جب بھی اسلامی قمری سال کا اختتام ہوتا ہے اور نئے اسلامی قمری سال کا آغاز ہوتا ہے تو ایک ہستی کی یاد بڑی شدت سے آتی ہے کہ اُن کی تاریخ شہادت بھی انہی دنوں میں ہے اور یہ اسلامی کیلنڈر بھی انہی کا جاری کردہ ہے ۔ یہ ہستی کون ہیں ؟ وہ جنہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے رب جلّ شانہ سے مانگ کر لیا تھا ۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ سب صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین تو ’’مرید ‘‘ ہیں اور یہ’’ مرادِ نبی ‘‘ ہیں ۔
’’ البدایۃ والنہایۃ ‘‘ میں ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرنے سے پہلے ‘ ایک دن ( نعوذ باللہ ) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور چند صحابہ کرامؓ کو شہید کرنے کی نیت سے چلے ، راستے میں حضرت نعیم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ مل گئے ۔ اُن سے پتہ چلا کہ خود حضرت عمرؓ کی بہن حضرت فاطمہؓ اور بہنوئی حضرت سعید بن زید ؓ بھی تو مسلمان ہو چکے ہیں ۔ حضرت عمرؓ غصے میں روانہ ہوئے بہن کے گھر پہنچ کر انہیں خوب مارا پیٹا ۔
جب حضرت فاطمہؓ نے استقامت کے ساتھ اس تشدد کو برداشت کیا اور صاف کہہ دیا کہ :
’’ عمرؓ ! ہم مسلمان ہو چکے ہیں ‘ اب تم جو کر سکتے ہو کر لو‘‘۔
بہن کی یہ بات دل پر لگی اور ندامت سے کہنے لگے :
’’ وہ کاغذات مجھے دو جو تم پڑھ رہے تھے ‘ میں بھی دیکھوں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کیا لائے ہیں؟
اُن کاغذات پر سورۃ طٰہٰ کی ابتدائی آیات لکھی ہوئی تھیں ۔ پڑھ کر بلا اختیار کہہ اٹھے:
’’ یہ کلام تو کتنا عمدہ اور بہترین ہے‘‘۔
بہن اور بہنوئی کے استاذ حضرت خباب ؓ ، جو ابھی تک چھپے ہوئے تھے ، باہر نکلے اور فرمانے لگے :
’’ اے عمر! اللہ کی قسم مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے نبی( صلی اللہ علیہ وسلم) کی دعا کی وجہ سے منتخب فرما لیا ہے ۔ میں نے کل ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دعا سنی تھی :
اللھم اید الاسلام بابی الحکم بن ہشام او بعمر بن الخطاب
( اے اللہ ! دین اسلام کو ابو حکم بن ہشام یا عمر بن خطاب کے ذریعے قوت اور مضبوطی عطا فرما)
ابو حکم بن ہشام یعنی ابوجہل کی قسمت میں تو ہدایت نہ تھی اور بالآخر بدر کے میدان میں ذلت و رسوائی کے ساتھ وہ اپنے انجامِ بد کو پہنچا لیکن عمر ؓ بن خطاب اس دعا کی بدولت ، دینِ اسلام کیلئے ایسی مضبوطی اور تائید کا ذریعہ بن گئے کہ آج بھی کفر ، عمرؓ کے نام سے لرزتا ہے ۔
سیدنا حضرت عمرؓ کی زندگی کے بہت سے پہلو ہیں اور ہر پہلو دوسرے سے زیادہ اہم ، روشن اور قابل رشک ہے ۔ خوفِ خدا اور فکرِ آخرت ، محبت ِ رسول اور اتباع سنت ، جرأت اور بہادری ، حمیت دینی اور غیرت اسلامی ، غریب پروری اور انسانیت نوازی ، قوت ِ فیصلہ اور نظم و ضبط‘ اجتہاد اوراستنباط مسائل جیسے سینکڑوں عنوانات ہیں جو سیرت فاروقی ؓکے صفحات پر جگمگا رہے ہیںاور تاریخ کا دامن حضرت عمرؓ جیسی جامع الصفات ہستی کی مثال پیش کرنے سے یقینا خالی ہے ۔
سیدنا حضرت عمرؓ کی زندگی کا ایک اہم ترین باب ، آپ کا اندازِ حکمرانی ہے ۔ آج کا مسلمان جب اپنے اردگرد کے مسلمان حکمرانوں کو دیکھتا ہے کہ آمریت ہے تو عیش پرستی کی حد تک پہنچی ہوئی اور جمہوریت ہے تو طرح طرح کی غلاظتوں میں لپٹی ہوئی تو اُس کی نظر چرچل ، نپولین بونا پارٹ اور دیگر کافر حکمرانوں کی طرف اٹھتی ہے اور وہ جب بھی مثالی حکمرانی کو سمجھنا چاہتا ہے یا اُس کی مثال دینا چاہتا ہے تو وہ مغربی جمہوریت کو ہی اپنا آئیڈیل اور نجات دھندہ سمجھتا ہے ۔
تب ایک مسلمان بھول جاتا ہے کہ خود اُس کی تاریخ میں عمر فاروق ؓ جیسا ایک حکمران ہے ‘ جو بلا مبالغہ تاریخ کے تمام کامیاب حکمرانوں اور فاتحینِ زمانہ پر بھاری ہے ۔ دنیا نے ایسے کامیاب حکمران دیکھے ہیں جو عدل و انصاف میں بے پناہ شہرت رکھتے تھے لیکن اُن کی زندگیاں فتوحات سے خالی ہیں ۔ تاریخ نے وہ فاتحین بھی دیکھے ہیں جنہو ں نے انسانی کھوپڑیوں سے مینار تعمیر کیے اور کئی ممالک پر اپنی حکومت کے پرچم لہرائے لیکن یہی لوگ جب عوام اور رعایا کے ساتھ عدل و انصاف اور انسانیت نوازی کے ترازو میں تو لے گئے تو اُن کا وزن مچھر کے پَر کے برابر بھی نہ تھا ۔
لیکن یہ عمرؓ تھے ، جنہوں نے قیصرروم کی صدیوں سے قائم سلطنت پر اسلام کاپرچم لہرایا اور دنیا کی سپر پاور سمجھی جانے والی فارس (ایران) کی ساسانی حکومت کے دو تہائی سے زائد حصہ پر صرف دو سال ( ۶۴۴ء ۔ ۶۴۲ء) سے بھی کم عرصے میں خلافت راشدہ کا نظام قائم کیا ۔ پھر جنگوں کے میدان کے اس بے مثال فاتح کو جب تاریخ ،زندگی کے عام میدانوں میں دیکھتی ہے تو حیران اور ششدر رہ جاتی ہے ۔ اپنوں کو تو چھوڑئیے ، یہودیوں کی مذہبی روایات کے مطابق یہ حضرت عمرؓ ہی تھے جنہوں نے انہیں عیسائیوں کے بے جا ظلم اور پابندیوں سے نجات دلائی اور انہیں یروشلم (بیت المقدس) میں عبادت کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی ۔
مشہور مفسر اور مستند مؤرخ حافظ ابن کثیرؓ نے اپنی مایہ ناز کتاب ’’ البدایۃ والنہایۃ‘‘ میں حضرت عمرؓ کے اندازِ حکمرانی کو جو تصویر کھینچی ہے ‘ اس کے چند حصے اردو ترجمہ کی شکل میں قارئین کے سامنے پیش ہیں ۔ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں :
حضرت عمرؓ فرماتے تھے : میرے لئے اللہ کے مال میں سے صرف دو جوڑے لینا حلال ہیں ، ایک موسم سرما کیلئے اور دوسرا موسم گرما کے لئے اور میرے گھر والوں کی خوراک ایسے قریشی آدمی کی سی ہونی چاہیئے جو ان میں زیادہ مالدار نہ ہو ، پھر میں بھی مسلمانوں میں سے ایک آدمی ہوں … آپ جب کسی کو گورنر مقرر فرماتے تو اس کے لئے ایک عہد نامہ لکھتے اور اس پر مہاجرین کی شہادتیںنوٹ کرواتے ، اور اس پر یہ شرط عائد کرتے کہ ترکی گھوڑے پر سوار نہ ہوگا ، عمدہ اور لذیذ کھانا نہیں کھائے گا ، باریک لباس نہیں پہنے گا ، اپنا دروازہ حاجت مندوں کے لیے بند نہیں کرے گا ، اگر کوئی اس کے خلاف کرتا تو اس پر سزا جاری کی جاتی … کہا جاتا ہے کہ جب کوئی آدمی آپ سے بات چیت کرتا اور ایک دو کلمے جھوٹ بول لیتا تو آپؓ فرماتے : اس کو روکو ، اس کو روکو ، پس وہ آدمی کہتا : اللہ کی قسم ! جب تک میں ان سے حق اور سچ بولتا رہا تو انہوں نے مجھے روکنے کا حکم نہیں دیا … حضرت عمر ؓ خلیفہ ہونے کے باوجود ایسا اونی جبہ استعمال فرماتے جس میں جگہ جگہ پیوند لگے ہوتے ، اور کسی جگہ چمڑے کا پیوند بھی لگا ہوتا تھا …
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں : حضرت عمر بن الخطابؓکے دو کندھوں کے درمیان چار پیوند لگے ہوئے تھے اور ان کے تہہ بند پر چمڑے کا پیوند تھا ، آپ ایک مرتبہ منبر پر خطبہ دے رہے تھے اور آپ کی چادر میں بارہ پیوند لگے ہوئے تھے … آپ ؓ نے اپنے حج میں سولہ دینار خرچ کئے اور پھر اپنے بیٹے سے فرمایا : ہم نے فضول خرچی کی ہے … آپ کسی چیز کا سایہ نہیں لیتے تھے سوائے اس کے کہ اپنی چادر کو درخت پر ڈال دیتے اور اس کے نیچے بیٹھ جایا کرتے ، آپ کے لئے نہ خیمہ لگایا جاتا اور نہ قبہ بنایا جاتا تھا … جب بیت المقدس کی فتح کے لئے شام آئے تو ایک خاکستری اونٹ پر سوار تھے ، آپ نے اپنی دونوں ٹانگوں کو پالان کے دونوں طرف رکاب نہ ہونے کی وجہ سے چپکا رکھا تھا ، آپ کے نیچے مینڈھے کی اون کا کپڑا بچھا ہوا تھا ، جب اترتے تو وہی آپ کا بچھونا بن جاتا ، آپ کے تھیلے میں چھال بھری ہوئی تھی جب سوتے تو وہی آپ کا تکیہ بن جاتا ، آپ کی قمیض کھردرے کپڑے کی تھی جو بوسیدہ ہو چکی تھی ، اور اس کا گریبان پھٹ چکا تھا ، جب کسی جگہ پڑائو کرتے تو فرماتے : بستی کے سردار کو میرے پاس بلائو ۔ لوگ بلا کر لاتے ۔ آپؓ اس سے فرماتے : میری قمیص لے جائو ، اسے دھو دو اور سلادو ، اور ایک قمیص مجھے عاریۃً استعمال کے لیے دے دو …
٭…حضرت عمر ؓ نے ایک مرتبہ مشکیزہ اپنے کندھے پر اٹھایا ہوا تھا ، جب اس کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا : میرا نفس خود پسندی کا شکار ہو گیا تھا ، میں نے چاہا کہ اسے ذلیل کروں … آپ لوگوں کو عشاء کی نماز پڑھاتے تھے اور پھر گھر میں داخل ہوجاتے تھے ، پھر صبح تک نماز میں مشغول رہتے ، وفات تک آپ مسلسل پے در پے روزے رکھتے رہے … قحط اور خشک سالی کے زمانے میں صرف روٹی اور زیتون کا تیل استعمال فرماتے یہاں تک کہ آپ کی جلد سیاہ پڑ گئی تھی ، فرماتے تھے : میں بہت ہی برا حکمران ہوں گا اگر خود تو پیٹ بھر کر کھانا کھائوں اور لوگ بھوکے رہیں ، آپ کے چہرہ مبارک پر بکثرت رونے کی وجہ سے دو سیاہ لکیریں پڑ گئی تھیں … قرآن کریم کی آیت سنتے اور غش کھا کر گر پڑتے ، پھر آپ کو اٹھا کر گھر لے جایا جاتا ، کئی کئی دن تک عیادت کی جاتی لیکن خوف الٰہی کے سوا کوئی مرض نہ ہوتا تھا ۔
امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اپنی کتاب ’’ ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء ‘‘ میں اس سلسلے کے جو واقعات نقل کیے ہیں ‘ انہیں پڑھ کر آنکھیں پرنم ہو جاتی ہیں اور دل پکار اٹھتا ہے کہ واقعی عمر ؓ ، عمرؓ ہے ۔ اس سلسلے کا ایک سبق آمو زواقعہ یہ ہے:
’’ آپ ؓکے خادم اسلم کہتے ہیں : عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک رات گشت کیا۔ دیکھتے ہیں کہ ایک عورت اپنے گھر میں ہے اور اس کے گرد بچے رو رہے ہیں اور ایک ہنڈیا ہے آگ پر جس میں اس نے پانی بھر رکھا ہے، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے دروازے کے قریب پہنچ کر کہا کہ اے اللہ کی بندی! یہ بچے کیوں رو رہے ہیں؟ اس نے کہا کہ ان کا رونا بھوک کی وجہ سے ہے۔
عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ ہنڈیا کیسی ہے جوآگ پر رکھی ہے؟ اس نے کہا کہ میں نے اس میں پانی ڈال رکھا ہے جس سے ان کو بہلا رہی ہوں تاکہ یہ سو جائیں اور میں ان کو اس وہم میں ڈال رہی ہوں کہ اس میں کوئی چیز (پک رہی) ہے ۔ عمر رضی اللہ عنہ بیٹھ کر رونے لگے۔ پھر دارالصدقہ کی طرف آئے اور ایک بڑا تھیلا لیا اور اس میں کچھ آٹا اور گھی اور چربی اور کھجوریں اور کپڑے اور دراہم رکھے یہاں تک کہ اس تھیلے کو بھر دیا۔ پھر کہا اے اسلم !اس تھیلے کو میرے اوپر رکھ دو۔ میں نے کہا: اے امیر المؤمنین! میںاس کو آپ کی طرف سے اٹھا کر لے جائوں گا۔انہوں نے مجھ سے کہا :اے اسلم !میں ہی اس کو اٹھا کر چلوں گا کیونکہ آخرت میں جس سے اس کی پوچھ ہوگی وہ میںہوں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو اپنے کندھے پر اٹھایا اور اس کو لئے ہوئے اس عورت کے گھر پہنچے اور ہنڈیا لے کر اس میں آٹا اور کچھ چربی اور کھجوریں ڈالیںاور (چولہے پر چڑھا کر) اپنے ہاتھ سے حرکت دیتے رہے اور ہنڈیا کے نیچے پھونکیں مارتے رہے ۔ عمر رضی اللہ عنہ کی ڈاڑھی بہت بڑی تھی ‘ میںنے ان کی ڈاڑھی کے درمیان سے دھواں نکلتے ہوئے دیکھا، یہاں تک کہ ان کیلئے کھانا پکا دیا پھر اپنے ہاتھ سے ان کیلئے چمچہ سے باہر نکالا اور ان کو کھلاتے رہے یہاں تک کہ ان کا پیٹ بھر گیا ‘‘۔
مرادِ نبی ، داماد علیؓ سیدنا حضرت عمرؓ کے حوالے سے یہ بات کتنی دلچسپ اور عبرت انگیز ہے کہ کچھ لوگ جو اپنے آ پ کو (نام نہاد) مسلمان بھی کہتے ہیں ‘ وہ نہ صرف اسلامی تاریخ سے حضرت عمرؓ کے حوالے کو نکال دینا چاہتے ہیں بلکہ آپ ؓ کے حوالے سے اپنے خبث ِ باطن کا اظہار بھی وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں ‘ ایسے لوگوں کی بد بختی اور کم فہمی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ غیر مسلم مؤرخین بھی نہ صرف یہ حضرت عمرؓ کے تذکرے کے بغیر اسلامی تاریخ کو نامکمل سمجھتے ہیں بلکہ ان میں سے کئی انصاف پسند مؤرخین نے تو بلا جھجھک آپ ؓ کی صفات اور خصوصیات کا تذکرہ بڑے ذوق و شوق سے کیا ہے ۔ مشہور عیسائی مصنف ’’ مائیکل ہارٹ ‘‘ نے اپنی کتاب ’’ The 100‘‘ میں اپنے خیال کے مطابق دنیا کی سو عظیم شخصیات کا ذکر کیا ہے ۔ اس نے اپنی کتاب میں سب سے پہلے نمبر پر ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کیا ہے اور ۵۲ویں نمبر سیدنا حضرت عمرؓ کا ، ان دو ناموں کے علاوہ باقی ساری کتاب دیگر غیر مسلموں کے تذکرے سے بھری ہوئی ہے ۔ گویا ایک عیسائی مصنف کے نزدیک بھی سیدنا عمرؓ کے نام کو نکال دینے کے بعد تاریخ اسلام کے دامن میں کچھ نہیں بچتا ۔
اخبارات کے صفحات پر جب میری نظر کسی ایسی خبر پر پڑتی ہے جس میں کفار کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے بارے میں بتایا گیا ہو تا ہے یا کسی مسلمان مرد و عورت کی غربت اور فاقہ کشی کی وجہ سے مرنے کی خبر ہوتی ہے تو بلا اختیار دل میں حضرت عمرؓ کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں اور دل پکار اٹھتا ہے کہ واقعی عمر ؓ، عمرؓ ہے ۔
اللہ کریم سیدنا حضرت عمرؓ کے درجات کو بلند فرمائے ، ہمیں بھی ان جیسی سوچ اور ان جیسا عمل نصیب فرمائے اور امت مسلمہ کو پھر کوئی عمرؓ نصیب ہو ۔ (آمین ثم آمین)
٭…٭…٭