احادیث معتبر ذرائع سے ہی امت مسلمہ کو پہنچی ہیں
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم
اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
احادیث معتبر ذرائع سے ہی امت کو پہونچیں، جن کے بغیر قرآن فہمی ممکن نہیں
بعض لا مذہب (جن کاکوئی مذہب نہیں) کی جانب سے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ احادیث مبارکہ دوسری ہجری میں تحریر کی گئیں، لہٰذا اُن کی صحت پر کیسے اعتماد کیا جاسکتا ہے؟ ہمارے بعض مسلم بھائی بھی کسی حد تک اِن کی تحریروں یا بیانات سے متاثر ہوکر کم علمی کی وجہ سے اس نوعیت کے سوالات کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ میرا ایک تفصیلی مضمون بھی مکمل حوالوں کے ساتھ تین زبانوں میں شائع ہوچکا ہے۔ احباب کی سہولت کے لئے ایک مختصر مضمون پیش خدمت ہے۔حوالوں کے لئے میرے تفصیلی مضمون کا مطالعہ کریں جو میری ویب سائٹ اور ایپ میں موجود ہے۔
۱) تاریخ شاہد ہے کہ بعض صحابۂ کرام نے آپ ﷺ کی اجازت سے آپ ﷺ کی حیات مبارکہ میں بھی احادیث مبارکہ تحریر فرمائی تھیں۔ آپ ﷺ کی وفات کے بعد بھی بعض صحابۂ کرام نے احادیث مبارکہ لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اور تابعین کی ایک جماعت نے احادیث لکھنے کا خاص اہتمام کیا۔ ۲) قرآن کریم کی آیات کے نازل ہونے کے بعد آپﷺ کاتبین وحی کے ذریعہ نازل شدہ آیات تحریر کروادیا کرتے تھے، کاتبین وحی کی تعداد زیادہ سے زیادہ پچاس تھی۔ غرضیکہ آپﷺ کی زندگی میں قرآن کریم کی اصل حفاظت یاد کرکے ہی کی گئی کیونکہ اُس زمانہ میں بہت کم لوگ ہی لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قرآن کریم، جو مختلف جگہوں پر تحریر تھا، کو ایک جگہ جمع تو کردیا گیا تھا، لیکن قرآن کریم کی اصل حفاظت یاد کرکے ہی کی جاتی رہی کیونکہ اُس وقت یہی اہم ذریعہ تھا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب اسلام عرب سے عجم تک پھیل گیا تو قرآن کریم کے نسخے تیار کرکے گورنروں کو ارسال کردئے گئے تاکہ اسی کے مطابق قرآن کریم کے نسخے تیار کئے جائیں۔ غرضیکہ قرآن کریم کی پہلی حفاظت یاد کرکے ہی ہوئی ہے۔ نبی اکرم ﷺ پر وحی نازل ہونے کے بعد آپ ﷺ کو یاد ہوجاتی تھی جیساکہ قرآن کریم میں اس کا ذکر ہے۔ آج بھی پوری دنیا میں لاکھوں حفاظ کرام قرآن کریم کو حفظ کرکے اس کی حفاظت میں اہم رول ادا کررہے ہیں۔ ۳) پہلی صدی ہجری میں دنیا کا کوئی بھی علم تحریری شکل میں نہیں تھا، حتی کہ کسی بھی زبان کی شاعری پہلی ہجری میں باقاعدہ طور پر تحریری شکل میں نہیں تھی۔ تاریخ کی کوئی بھی مستند کتاب کسی بھی زبان میں دنیا میں کسی بھی جگہ پر پہلی ہجری میں تحریر نہیں کی گئی۔ سائنس، جیولوجی اور بایلوجی وغیرہ جیسے علوم بھی دنیا میں پہلی ہجری میں تحریری شکل میں موجود نہیں تھے۔ غرضیکہ یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص کہے کہ آج سے پچاس سال قبل کتابیں کمپیوٹر کے ذریعہ تحریر نہیں کی جاتی تھیں، جب دنیا میں یہ ذریعہ موجود ہی نہیں تھا تو کہاں سے کتابیں کمپیوٹر سے تحریر ہوتیں۔ غرضیکہ پہلی صدی ہجری میں تعلیم وتعلم کا اصل ذریعہ لکھنا نہیں بلکہ سننا، سنانا اور یاد کرنا ہی تھا۔ اسی وجہ سے سیرت نبویﷺپر کوئی باقاعدہ کتاب پہلی ہجری میں منظر عام پر نہیں آئی، حالانکہ بعض صحابہ یا تابعین نے سیرت النبی کے بعض واقعات تحریر کئے تھے۔ پہلی ہجری میں قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے نبی ﷺ کی سیرت ایک دوسرے کو زبانی ہی بیان کی جاتی تھی کیونکہ اُس وقت یہی اہم ذریعہ تھا۔ ۴) حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے اپنے دور خلافت (۹۹ھ۔۱۰۱ھ) میں پہلی ہجری کے اختتام پر محدثین وعلماء کی سرپرستی میں سرکاری طور پر احادیث کی بہت بڑی تعداد کو ایک جگہ جمع کرادیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب صحابۂ کرام سے براہ راست تعلیم وتربیت حاصل کرنے والے بے شمار حضرات موجود تھے۔ جب دوسری ہجری میں لکھنا پڑھنا عام ہوا تو حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے دور خلافت میں جمع شدہ احادیث کو بنیاد بناکر احادیث کی کتابیں تحریر ہوئیں، اور اللہ کے خوف کے ساتھ پوری دیانت داری سے محدثین نے ہزاروں میل کے سفر طے کرکے احادیث کی مکمل تحقیق کرکے ہی احادیث تحریر کیں۔ ۵) قرآن کریم کی سینکڑوں آیات میں اللہ تعالیٰ نے رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے، رسول کی اطاعت احادیث میں ہی تو موجود ہے۔ اگر احادیث کے ذخیرہ پر اعتراض کیا جائے گاتو قرآن کی اُن سینکڑوں آیات کا انکار لازم آئے گا جن میں رسول کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ ۶) احادیث کے ذخیرہ میں بعض موضوعات شامل ہوگئی تھیں لیکن وہ پورے ذخیرہ کے مقابلہ میں ایک فیصد سے بھی کم ہیں، نیز اسی وقت محدثین کرام نے اپنی زندگیاں لگاکر ان موضوع احادیث کو احادیث سے الگ کردیا تھا۔ چند موضوع احادیث کو بنیاد بناکر حدیث کے قابل اعتماد اتنے بڑے ذخیرہ کو شک وشبہ سے دیکھنا نہ صرف غیر منصفانہ بلکہ ظالمانہ فیصلہ ہوگا۔ ۷) قرآن کریم میں صرف اصول بیان کئے گئے ہیں، احکام کی تفصیل مذکور نہیں ہے۔ اگر احادیث کے ذخیرہ پر اعتماد نہیں کیا جائے گا تو کس طرح قرآن کریم پر عمل ہوگا۔ قرآن کریم میں نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج جیسے دین اسلام کے بنیادی ارکان کی ادائیگی کا حکم تو موجود ہے لیکن ادائیگی کا طریقہ اور احکام ومسائل احادیث میں ہی موجود ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے خود بیان کیا کہ ہم نے قرآن آخری نبی پر اتارا ہے تاکہ آپ ﷺ احکام ومسائل کھول کھول کر لوگوں کے سامنے بیان کردیں۔ اگر احادیث کے ذخیرہ پر شک وشبہ کیا جائے گا تو پھر کون سا ذریعہ ہوگا جس سے معلوم ہو کہ قرآن کریم میں اللہ کی مراد کیا ہے۔ صحیح بات یہی ہے کہ قرآن کریم کو حدیث کے بغیر نہیں سمجھا جاسکتا، مثلاً قرآن کریم میں ہے کہ چوری کرنے والے کے ہاتھ کاٹ دئے جائیں، اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کتنے مال کے چرانے پر ہاتھ کاٹے جائیں، پھر ہاتھ کونسا کاٹا جائے اور کہاں سے۔ قرآن کریم میں اس کی کوئی وضاحت نہیں ہے، ظاہر ہے کہ اس کی وضاحت احادیث مبارکہ میں ہی ہے۔ اسی طرح قرآن کریم (سورۃ الجمعہ) میں ارشاد ہے کہ جب جمعہ کی نماز کے لئے پکارا جائے تو اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید وفروخت چھوڑدو۔ سوال یہ ہے کہ جمعہ کا دن کونسا ہے؟ یہ اذان کب دی جائے؟ اس کے الفاظ کیا ہوں؟ جمعہ کی نماز کب ادا کی جائے؟ اس کو کیسے پڑھیں؟ خرید وفروخت کی کیا کیا شرائط ہیں ؟ ان مسائل کی مکمل وضاحت احادیث میں ہی مذکور ہے۔۸) جن ذرائع سے قرآن کریم ہمارے پاس پہنچا ہے، ان ہی ذرائع سے احادیث ہمارے پاس پہنچی ہیں،ہاں قرآن کریم کا ایک ایک لفظ ابتدا سے ہی تواتر کے ساتھ منتقل ہوا ہے، (اگرچہ شروع میں اصل حفاظت یاد کرنے سے ہی ہوئی ہے) لیکن احادیث کا تمام ذخیرہ تواتر کے ساتھ منتقل نہیں ہوا ہے، اسی لئے اس کا مقام قرآن کریم کے بعد ہے۔ ۹) دنیا میں موجود دیگر مذاہب کی مذہبی کتابوں کی حفاظت کے لئے جو کمزور وسائل اختیار کئے گئے ہیں، اُن کا قرآن وحدیث کی حفاظت کے لئے اختیار کئے گئے بہت مضبوط وسائل سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے کیونکہ روایت کا سلسلہ صرف مذہب اسلام میں ہی ملتا ہے، یعنی اگر کوئی شخص قرآن وحدیث کی کوئی بات بیان کرتا ہے تو وہ ساتھ میں یہ بھی ذکر کرتا ہے کہ کن کن واسطوں سے یہ بات اس کو پہنچی ہے۔ احادیث کی مشہور ومعروف کتابوں کی تصنیف کے بعد اب صرف ان کتابوں کا حوالہ تحریر کردیا جاتا ہے کیونکہ حدیث کی کتابوں میں حدیث کی عبارت کے ساتھ سند بھی مذکور ہے یعنی کن کن واسطوں سے یہ حدیث مصنف تک پہنچی ہے۔ ۱۰) جن احادیث کی سند میں کوئی شک وشبہ نظر آیا تو علماء امت نے احتیاط کے طور پر اُن احادیث کو فضائل کے لئے تو قبول کیا مگر اُن سے احکام ومسائل ثابت نہیں کئے۔ ۱۱) قرآن کریم ۲۳ سال میں نازل ہوا ہے۔ آیت کا شان نزول یعنی آیت کب اور کس موقع پر نازل ہوئی ، حدیث میں ہی مذکور ہے۔ نیز بعض مسائل میں حکم بتدریج نازل ہوا، مثلاً شراب کی حرمت ایک ساتھ نازل نہیں ہوئی، چنانچہ فرمان الہٰی ہے: اے ایمان والو! جب تم نشے کی حالت میں ہو تواُس وقت نماز کے قریب بھی نہ جاناجب تک تم جو کچھ کہہ رہے ہواُسے سمجھنے نہ لگو۔ (سورۃ النساء ۴۳) غرضیکہ پہلے نماز کی حالت میں شراب کو منع کیا گیا، پھر مکمل طور پر شراب کی حرمت نازل ہوئی۔ اس طرح کے بتدریج نازل ہونے والے احکام کی تفصیل احادیث مبارکہ میں ہی موجود ہے۔
غرضیکہ جس طرح اللہ اور اس کے رسول کو الگ الگ نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح قرآن وحدیث کو الگ الگ نہیں کیا جاسکتا ، یعنی حدیث کے بغیر ہم قرآن کریم کو سمجھ ہی نہیں سکتے اور کیسے سمجھ سکتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنا کلام حضرت محمد مصطفی ﷺ پر نازل فرمایا تاکہ آپ ﷺاپنے قول وعمل سے اللہ کی مراد بیان کریں۔اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء آیت ۸۰ میں رسول اللہ کی اطاعت کو اطاعت الہی قرار دیتے ہوئے فرمایا: جس شخص نے رسول اللہ کی اطاعت کی اس نے دراصل اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔نیز اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں متعدد جگہوں پر یہ بات واضح طور پر بیان کردی کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ رسول کی اطاعت بھی ضروری ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت رسول اکرم ﷺکی اطاعت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں رسول کی اطاعت کا حکم دیا اور رسول کی اطاعت جن واسطوں سے ہم تک پہونچی ہے یعنی احادیث کا ذخیرہ ، ان پر اگر ہم شک وشبہ کرنے لگیں تو گویا ہم قرآن کریم کی اُن مذکورہ تمام آیات کے منکر ہیں یا زبان حال سے یہ کہہ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایسی چیز کا حکم دیا ہے یعنی اطاعت رسول ،جو ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)
صحیح مسلم وعلماء دیوبند کی خدمات
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
صحیح مسلم وعلماء دیوبند کی خدمات
سب سے قبل صحیح مسلم کے مصنف (امام مسلم بن الحجاج) کا تعارف پیش ہے۔
نام ونسب:
ابو الحسین کنیت، عساکر الدین لقب اور مسلم ان کا اسم گرامی تھا۔ قُشیر عرب کے مشہور قبیلہ کی طرف منسوب تھے۔ آپ کے والد حجاج بن مسلمعلمی حلقوں میں بہت پابندی سے شریک ہوا کرتے تھے۔
ولادت ووفات:
آپ ۲۰۲ یا ۲۰۴ یا ۲۰۶ ہجری میں خراسان کے مشہور شہر نیشاپور میں پیدا ہوئے۔ یہ خوبصورت شہر ایران کے مشرق شمال میں ترکمانستان کے قریب واقع ہے۔ نیشاپور میں پیدائش کی مناسبت سے آپ کو نیشاپوری کہا جاتا ہے۔ آپ کی وفات ۲۵ رجب ۲۶۱ھ کو نیشاپور میں ہوئی اور وہیں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔ غرض امام مسلم کی عمر صرف ۵۵ یا ۵۷ یا ۵۹سال رہی۔۔۔ امام مسلم کی وفات کا سبب بھی عجیب وغریب واقعہ ہے کہ ایک روز مجلس میں آپ سے کوئی حدیث دریافت کی گئی۔ بروقت آپ اس حدیث کو نہیں پہچان سکے، چنانچہ آپ اُس حدیث کو اپنی کتابوں میں تلاش کرنے میں مصروف ہوگئے۔ کھجوروں کا ایک ٹوکرا اُن کے قریب رکھا تھا اور آپ حدیث کی فکروجستجو میں کچھ ایسے مستغرق رہے کہ حدیث کے ملنے تک تمام کھجوروں کو تناول فرماگئے اور کچھ احساس نہیں ہوا، بس یہی زائد کھجوریں کھانا آپ کی موت کا سبب بنا۔
تعلیم وتربیت:
آپ نے والدین کی نگرانی میں بہترین تربیت حاصل کی جس کا اثر یہ ہوا کہ ابتداء عمر سے اخیر سانس تک آپ نے پرہیزگاری اور دینداری کی زندگی بسر کی۔ آپ کی ابتدائی تعلیم نیشاپور میں ہوئی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو غیر معمولی ذکاوت ، ذہانت اور قوت حافظہ عطا کی تھی۔
علم حدیث کی تحصیل:
آپ نے حدیث کی تلاش میں عراق، حجاز، مصر، شام وغیرہ کے متعدد سفر کئے اور وہاں کے محدثین سے بھی احادیث حاصل کیں۔
امام مسلم کی شخصیت:
امام مسلم کوہر زمانہ میں علم حدیث کا امام مانا گیا ہے اور ان کا درجہ محدثین میں اس قدر بلند ہے کہ اس درجہ پر امام بخاری کے علاوہ اور کوئی محدث نہیں پہنچ سکا۔
اساتذۂ امام مسلم :
آپ کے اساتذہ میں امام محمد بن یحیےٰ ذہلی ، امام یحیےٰ بن یحیےٰ نیشاپوری ، امام اسحاق بن راہویہ ، امام عبد اللہ القعنبی، امام سعید بن منصور ، امام احمد بن حنبل اور امام بخاری کے نام قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے صرف ۱۲سال کی عمر میں امام یحیےٰ تمیمی سے حدیث کی سماعت شروع کردی تھی۔
تلامذۂ امام مسلم :
آپ کے تلامذہ میں سے امام ابوعیسیٰ ترمذی ، امام ابوبکر بن خزیمہ اور امام ابو حاتم رازی کے نام قابل ذکر ہیں۔
تالیفات امام مسلم : امام مسلم کی بعض اہم کتابوں کے نام حسب ذیل ہیں:
کتاب المسند الکبیر علی الرجال، جامع کبیر، کتاب الاسماء والکنیٰ، کتاب العلل، کتاب الوُحْدان، کتاب حدیث عمروبن شعیب، کتاب مشایخ مالک، کتاب مشایخ الثوری، کتاب مشایخ شعبۃ، کتاب ذکر اوہام المحدثین، کتاب التمییز، کتاب الافراد، کتاب الاقران، کتاب المخضرمین، کتاب اولاد الصحابۃ، کتاب الانتفاع بجلود السباع، کتاب الطبقات، کتاب افراد الشامیین، کتاب رواۃ الاعتبار اور صحیح مسلم۔
امام مسلم کی اہم تالیف صحیح مسلم:
مختلف ممالک کے اسفار کے بعد امام مسلم نے چار لاکھ احادیث جمع کیں اور ان میں سے ایک لاکھ مکرر احادیث کو ترک کرکے تین لاکھ احادیث کو پرکھنا شروع فرمایا۔ جو احادیث ہر اعتبار سے مستند ثابت ہوئیں ان کا انتخاب کرکے صحیح مسلم میں جمع کیا۔ پندرہ سال کی جدوجہد اور کاوشوں کے بعد یہ اہم کتاب مکمل ہوئی، اس میں تقریباً سات ہزار احادیث ہیں، جن میں سے معتدد احادیث ایک سے زیادہ مرتبہ ذکر کی گئی ہیں۔ غیر مکرراحادیث کی تعداد تقریباً چار ہزار ہے۔
صحیح مسلم کا مکمل نام:
امام مسلم کی اِس اہم کتاب کا نام بہت زیادہ مشہور نہ ہوسکا، پھربھی محدثین وعلماء نے اس مقبول کتاب کے نام اس طرح تحریر فرمائے ہیں : الصحیح، المسند الصحیح، الجامع۔ البتہ یہ کتاب صحیح مسلم کے نام سے عرب وعجم میں زیادہ پہچانی جاتی ہے۔
رباعیات صحیح مسلم:
اعلیٰ سے اعلیٰ صحیح مسلم میں وہ سند ہے جس میں رسول اللہ ﷺ تک چار واسطے ہیں، صحیح مسلم میں اس قسم کی احادیث ۸۰ سے کچھ زیادہ ہیں۔ ثلاثیات جس میں رسول اللہ ﷺتک تین واسطے ہیں صحیح مسلم میں کوئی حدیث نہیں ہے، البتہ صحیح بخاری میں تقریباً (۲۲) احادیث ثلاثیات ہیں جس میں سے امام بخاریؒ نے (۲۰) احادیث ثلاثیات امام ابوحنیفہ کے شاگردوں سے روایت کی ہیں۔
حدیث متفق علیہ: جو حدیث صحیح بخاری وصحیح مسلم دونوں کتابوں میں مذکور ہو تو اس حدیث کو متفق علیہ کہا جاتا ہے۔
صحیح مسلم کی شروح:
صحیح مسلم کی بکثرت شروح تحریر کی گئی ہیں، جن میں شیخ ابوزکریا یحیےٰ بن شرف الشافعی الدمشقی (۶۳۱ھ ۶۷۶ھ)یعنی امام نووی کی شرح (المنہاج فی شرح صحیح مسلم بن الحجاج) علماء امت میں سب سے زیادہ مقبول ہے۔ اس شرح کی ۱۰ جلدیں ہیں۔
صحیح مسلم وعلماء دیوبند کی خدمات:
بر صغیر میں مدارس اسلامیہ کے ذریعہ احادیث کی ایسی عظیم خدمات پیش کی گئی ہیں کہ دنیا کے چپہ چپہ میں ان خدمات کا اعتراف کیا گیا۔ اور صرف ۱۵۰ سال کی تاریخ میں ان مدارس اسلامیہ سے لاکھوں فضلاء احادیث کی مشہور ومعروف کتابیں پڑھ کر عرب وعجم میں پھیل گئے۔
دارالعلوم دیوبند اور اس طرز پر برصغیر میں قائم ہزارہا مدارس اسلامیہ سے لاکھوں علماء کرام قرآنی تعلیمات سے واقف ہوکر ہر سال صحیح مسلم اور حدیث کی دیگر کتابیں پڑھ کر علوم نبوت کو امت مسلمہ تک پہنچانے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
علماء دیوبند کی تحریر کردہ صحیح مسلم کی بعض شروح :
برصغیر کے علماء خاص طور پر علماء دیوبند نے صحیح مسلم کی متعدد شروح تحریر فرمائی ہیں، جن میں سے شیخ شبیر احمد عثمانی اور مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کی شرح مسلم کو عرب وعجم میں بڑی شہرت حاصل ہوئی ہے۔
موسوعۃ فتح الملہم بشرح صحیح امام مسلم: یہ صحیح مسلم کی اہم ومقبول شرح ہے جو عربی زبان میں شیخ شبیر احمد عثمانی نے تحریر کی ہے، لیکن شرح مکمل ہونے سے قبل ہی آپ کا انتقال ہوگیا۔ اسکی ۶ جلدیں ہیں جو کتاب النکاح تک ہے۔
تکملۃ فتح الملہم : والد محترم مفتی محمد شفیع کے فرمان پر مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہ نے کتاب الرضاعہ سے آخیر تک ۶ جلدوں میں اس شرح کو عربی زبان میں مکمل کیا۔ شیخ محمد تقی عثمانی دامت برکاتہ نے ابتدائی ۶ جلدوں پر تعلیقات بھی تحریر فرمائیں، اس طرح مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی کاوشوں سے یہ شرح منظر عام پر آئی۔ امت مسلمہ خاصکر عرب علماء میں اس شرح کو خاص مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ لبنان کے متعدد ناشرین اس شرح کے بے شمار نسخے شائع کرچکے ہیں۔ عصر حاضر کے مشہور ومعروف عرب عالم دین ڈاکٹر یوسف قرضاوی صاحب اور شیخ عبد الفتاح ابو غدہ الحلبی نے اس شرح کی تقریظ تحریر کی ہے۔ اس شرح کی تمام ۱۲ جلدیں انٹرنیٹ کے ان لنک سے download کی جاسکتی ہیں:
http://www.waqfeya.com/book.php?bid=3939
http://www.almeshkat.net/books/open.php?cat=22&book=5268
الحل المفہم لصحیح مسلم: یہ شیخ رشید احمد گنگوہی کا درس مسلم ہے جو شیخ محمد یحیےٰ کاندھلوی نے قلمبند کیا تھا اور شیخ محمد زکریا کاندھلوی نے اپنی تعلیقات کے ساتھ اس کو شائع کرایا۔ اس کی دو جلدیں ہیں۔
نعمۃ المنعم فی شرح المجلد الثانی لمسلم: شیخ نعمت اللہ اعظمی دامت برکاتہم کی تالیف ہے جو کتاب البیوع سے لے کر باب استحباب المواساۃ بفضول الماء تک ہے جسکی ۳۸۳ صفحات پر مشتمل ایک جلد شائع ہوچکی ہے۔
صحیح مسلم شریف مترجم عربی اردو: شیخ عابد الرحمن کاندھلوی نے اردو زبان میں صحیح مسلم کا سلیس ترجمہ کیاہے۔ شیح محمد عبداللہ فاضل تخصص فی الافتاء دارالعلوم کراچی نے مختصر مفید حواشی تحریر کئے ہیں، جسکی تین جلدیں ہیں۔ امام مسلم کی مختصر سوانح حیات لکھنے میں راقم الحروف نے اس کتاب سے خاص استفادہ کیا ہے۔
مقدمۃ صحیح مسلم:
صحیح مسلم کا مقدمہ بعض وجوہ سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس مقدمہ میں وجہ تالیف کے علاوہ فن روایت کے بہت سے فوائد جمع کئے گئے ہیں۔ امام مسلم نے یہ مقدمہ تحریر کرکے فن اصول حدیث کی بنیاد قائم کردی ہے۔ اس مقدمہ کی خصوصی اہمیت کی وجہ سے اس کی مستقل شروح بھی تحریر کی گئی ہیں، علماء دیوبند کی مندرجہ ذیل صحیح مسلم کے مقدمہ کی شروح طلبہ میں کافی مقبول ہیں:
عمدۃ المفہم فی حل مقدمۃ مسلم: شیخ عبد القادر محمد طاہر رحیمی ۔
فیض المنعم شرح مقدمۃ مسلم: شیخ سعید احمد پالنپوری دامت برکاتہم۔
نعمۃ المنعم شرح مقدمۃ مسلم: شیخ نعمت اللہ اعظمی دامت برکاتہم۔
ایضاح المسلم شرح مقدمۃ مسلم: شیخ محمد غانم دیوبندی دامت برکاتہم۔
فیض الملہم شرح مقدمۃ مسلم: شیخ اسلام الحق کوپاگنجی ۔
نصرۃ المنعم شرح مقدمۃ مسلم: شیخ عثمان غنی ۔
صحیح بخاری وصحیح مسلم کا موازنہ:
حدیث کی متعدد کتابیں تحریر کی گئیں مگر علماء کرام نے چھ کتابوں کو زیادہ مستند ومعتبر قرار دے کر صحاح ستہ (چھ صحیح کتابوں) کا خطاب دیا ہے، یعنی صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن نسائی، سنن ابودؤد سنن ترمذی، اور سنن ابن ماجہ ۔ ان کتابوں میں سے صحیح بخاری وصحیح مسلم کو سب سے زیادہ مستند قرار دیا ہے۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم میں کون سی کتاب زیادہ معتبر اور کس کتاب کا مقام بلند ہے۔ اکثر علماء ومحدثین نے صحیح بخاری کو صحیح مسلم پر فوقیت وفضیلت دی ہے، البتہ بعض محدثین وعلماء نے صحیح مسلم کو صحیح بخاری پر فوقیت دی ہے۔
حافظ عبد الرحمن بن علی الربیع یمنی شافعی نے تحریر کیا ہے کہ ایک جماعت نے میرے سامنے بخاری ومسلم میں ترجیح وفضیلت کے بارے میں گفتگو کی، جواباً کہہ دیا کہ صحت میں بخاری اور حسن ترتیب میں مسلم قابل ترجیح ہے۔
شیخ ابو عمر بن احمد بن حمدان بیان کرتے ہیں کہ میں شیخ ابوالعباس بن عقدہ سے دریافت کیا کہ بخاری ومسلم میں سے کسے فوقیت حاصل ہے؟ فرمایا دونوں محدث ہیں۔ میں نے پھر دوبارہ دریافت کیا تو فرمایا امام بخاریؒ اکثر اسماء وکنیٰ کے مغالطہ میں آجاتے ہیں مگر امام مسلم اس مغالطہ سے بری ہیں۔ غرضیکہ مسلم کا متون کا حسن سیاق تلخیص طرق اور ضبط انتشار صحیح بخاری پر بھی فائق ہے۔ متون احادیث کو موتیوں کی طرح اس طرح روایت کیا ہے کہ احادیث کے معانی چمکتے چلے جاتے ہیں۔
شاہ عبد العزیزؒ تحریر فرماتے ہیں کہ صحیح مسلم میں خصوصیت کے ساتھ فن حدیث کے عجائبات بیان کئے گئے ہیں اور ان میں اخص الخصوص متون کا حسن سیاق ہے اور روایت میں تو آپ کا درع تام اور احتیاط اس قدر ہے کہ جس میں کلام کرنے کی گنجائش نہیں۔ اختصار کے ساتھ طرق اسانید کی تلخیص اور ضبط انتشار میں یہ کتاب (صحیح مسلم) بے نظیر واقع ہوئی ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح میں یہ شرط لگائی ہے کہ وہ اپنی کتاب (صحیح مسلم) میں صرف وہ احادیث بیان کریں گے جسے کم از کم دو ثقہ تابعین نے دو ثقہ راویوں سے نقل کیا ہو اور یہی شرط تمام طبقات تابعین اور تبع تابعین میں ملحوظ رکھی ہے یہاں تک کہ سلسلہ روایت امام مسلم پر آکر ختم ہوجائے۔
امام مسلم راویوں کے اوصاف میں صرف عدالت کو ملحوظ نہیں رکھتے بلکہ شرائط شہادت کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں۔ امام بخاری کے نزدیک اس قدر پابندی نہیں ہے۔
امام مسلم نے ہر حدیث کو جواس کے لئے مناسب مقام تھا وہیں ذکر کیا ہے اور اس کے تمام طریقوں کو اسی مقام پر بیان کردیا ہے اور اس کے مختلف الفاظ کو ایک ہی مقام پر بیان کردیا ہے تاکہ طالب علم کو آسانی ہو، البتہ یہ بات صحیح بخاری میں نہیں ہے۔
صحیح مسلم کی ایک امتیازی صفت یہ ہے کہ امام مسلم نے اپنی کتاب میں تعلیقات بہت کم ذکر کی ہیں برخلاف امام بخاری کے کہ ان کی کتاب میں تعلیقات بکثرت ہیں۔
محمد نجیب سنبھلی قاسمی، ریاض
(najeebqasmi@yahoo.com)
ادیب عرب محمد ﷺ کے اقوال کے الفاظ بعینہ مروی ہیں
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
ادیب عرب محمد ﷺ کے اقوال کے الفاظ بعینہ مروی ہیں
اسلام ہی دنیا میں ایسا مذہب ہے جس میں تعلیم کے ساتھ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ علم مستند واسطوں سے کس طرح ہمارے پاس پہنچا ہے۔ شریعت اسلامیہ کے دونوں اہم وبنیادی ذرائع (قرآن وحدیث) کا ایک ایک لفظ کن کن واسطوں سے ہمارے پاس پہنچا ہے، راویوں کے احوال وکوائف کے ساتھ علماء کرام کی بے لوث خدمات سے آج تک محفوظ ہے۔ مدارس میں پڑھائی جانے والی کتب حدیث کی سند کا سلسلہ حضور اکرم ﷺ تک پہنچتا ہے، یعنی حدیث کی تشریح وتوضیح کے ساتھ طلبہ کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ فلاں حدیث حضور اکرم ﷺ، صحابی، تابعی اور کن کن واسطوں کے ذریعہ استاذ اور پھر طالب علم کے پاس پہنچی ہے۔قرآن کریم کا ایک ایک لفظ تواتر کے ساتھ یعنی مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد کے ذریعہ امت مسلمہ کے پاس پہنچا ہے۔حدیث نبوی کا ایک حصہ تواتر کے ساتھ یعنی ہر زمانہ میں اتنی بڑی تعداد نے اس کو روایت کیا ہے کہ ان کا جھوٹ پر متفق ہونا ناممکن ہے۔ احادیث نبویہ کا قابل قدر حصہ مشہور ہے یعنی روایت کرنے والوں کی ایک بڑی جماعت ہے، جبکہ احادیث نبویہ کا ایک حصہ اخبار آحاد سے بھی مروی ہے۔ احادیث نبویہ کی یہ مذکورہ اقسام مشہور ومعروف کتب حدیث تحریر کرنے تک ہے، لیکن دوسری اورتیسری صدی ہجری میں مشہور ومعروف کتب حدیث کے امت مسلمہ میں مقبول ہوجانے کے بعد سے تمام ہی احادیث درجات کے اعتبار سے قابل عمل ہیں، الّا یہ کہ ان میں سے کسی کے موضوع ہونے کا فیصلہ کیا گیا ہو۔ محدثین وعلماء نے ہزاروں صفحات پر مشتمل اسماء الرجال کی بحث کے ذریعہ موضوعات کو احادیث سے الگ کردیا ہے جن کی تعداد حدیث کے ذخیرہ میں بہت زیادہ نہیں ہے۔ عقائد واحکام میں ان ہی احادیث کو تسلیم کیا گیا ہے جن کی سند میں کسی طرح کا کوئی شک وشبہ نہ ہو، جبکہ احادیث ضعیفہ کو قرآن کریم واحادیث صحیحہ سے ثابت شدہ عمل کی صرف فضیلت کے لئے تسلیم کیا گیا ہے۔
احادیث کو عمومی طور پر لفظ بلفظ ہی نقل کیا گیا ہے، البتہ مستشرقین کا خیال ہے کہ حدیث کے الفاظ کے بجائے حدیث کے مفہوم کو روایت کیا گیا ہے۔ بعض مسلمان بھائی جھوٹ کے پلندوں پر مشتمل مستشرقین کے نام نہاد ریسرچ سے متاثر ہوکر ان کے قول کی کسی حد تک تایید کردیتے ہیں، حالانکہ مستشرقین کا یہ قول حقائق پر نہیں بلکہ صرف اور صرف اسلام دشمنی پر مبنی ہے۔ مستشرقین توریت اور انجیل کی تدوین وحفاظت کے طریقوں پر چشم پوشی کرکے قرآن وحدیث کی جمع وتدوین وحفاظت پر انگلیاں اٹھاتے ہیں۔ مشہور ومعروف محدث ہند نزاد سعودی ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی قاسمی (جنہوں نے مستشرقین کے اعتراضات کے مدلل جوابات دئے ہیں) کی تحقیق کے مطابق مستشرقین سب کچھ جانتے ہوئے بھی صرف قرآن وحدیث کو مشکوک ثابت کرنے کی ناپاک کوشش کرتے ہیں۔ دنیا کے مختلف مذاہب کی کتابوں کا مقارنہ اگر قرآن وحدیث کی جمع وتدوین وحفاظت سے کیا جائے تو انسان اگر وہ واقعی عقل وشعور رکھتا ہے یہی کہے گا کہ قرآن وحدیث کی جمع وتدوین وحفاظت کے لئے جو اقدامات کئے گئے ہیں وہ کسی بھی دوسرے مذہب کی کتاب کی حفاظت کے لئے دور دور تک موجود نہیں ہیں بلکہ قرآن وحدیث کی جمع وتدوین وحفاظت کے اقدامات وتدابیر کا دیگر مذاہب کی کتابوں سے کوئی مقابلہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔ حق بات تو یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی مذہب میں روایت والا نظام موجود ہی نہیں ہے بلکہ انہوں نے چوں چرا کئے بغیر صرف مان لیا ہے، جب کہ علماء ومحدثین نے احادیث کے راویوں پر مکمل بحث کرنے کے بعد ہی ان کے علم وتقویٰ کی بنیاد پر ہی ان سے مروی احادیث کو تسلیم کیا ہے۔
مستند دلائل کے ساتھ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ احادیث کے الفاظ کو روایت کیا گیا ہے یعنی جو الفاظ حضور اکرم ﷺ سے سنے گئے ہیں ان کو کسی تبدیلی کے بغیر بعینہ نقل کیا گیا ہے۔ ہاں اگر کسی راوی نے مثلاً سو احادیث ( تقریباً ہزار الفاظ) مکمل اہتمام کے ساتھ دوسرے لوگوں کو روایت کیں، اگر چند مترادف الفاظ استعمال کئے گئے ہیں تو اسے روایت الحدیث بالمعنی نہیں بلکہ روایت الحدیث باللفظ ہی کہا جائے گا اور وہ راوی عربی زبان سے معرفت کے ساتھ علوم قرآن وحدیث سے بھی اچھی طرح واقف ہے اور اللہ تعالیٰ کے خوف کے ساتھ شریعت اسلامیہ کا منشا بھی سمجھتا ہے۔
ادیب عرب محمد ﷺنے صحابۂ کرام اور امت مسلمہ کو خصوصی تعلیمات بھی دیں کہ احادیث کے الفاظ کو کسی تبدیلی کے بغیر بعینہ روایت کیا جائے، نہ صرف آپ ﷺنے ترغیب دی بلکہ الفاظ کی معمولی تبدیلی کی صورت میں اصلاح بھی فرمائی، حالانکہ معنی ومفہوم کے اعتبار سے کوئی فرق بھی نہیں پڑ رہا تھا۔ صحابۂ کرام نے بھی حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات کی اتباع کی اور انہوں نے قیامت تک آنے والے انس وجن کے پیغمبر کے اقوال کو پوری احتیاط کے ساتھ کسی تبدیلی کے بغیر امت مسلمہ تک پہنچایا۔
محدثین وعلماء کرام کی ایک جماعت کا موقف ہے کہ روایت الحدیث بالمعنی جائز ہی نہیں ہے اور جن علماء ومحدثین نے روایت الحدیث بالمعنی کے جواز کا فتویٰ دیا ہے اس کے لئے متعدد شرائط ضروری قرار دئے ہیں، ان میں سے اہم شرط یہ ہے کہ راوی اللہ تعالیٰ کے خوف کے ساتھ عربی زبان پر عبور رکھتا ہو یعنی حدیث کے الفاظ ومعانی سے بخوبی واقف ہو۔ غرضیکہ باتفاق محدثین روایت الحدیث باللفظ ہی اصل ہے کیونکہ ادیب عرب محمد ﷺ نے امت مسلمہ کو اسی کی تعلیمات دی ہیں، چند دلائل پیش خدمت ہے:
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: نَضَّرَ اللّٰہُ امْرَءً سَمِعَ مِنَّا حَدِےْثاً فَحَفِظَہُ حَتَّی ےُبَلِّغَہُ غَےْرَہُ فَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ اِلَی مَنْ ہُوَ اَفْقَہُ مِنْہُ وَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ لَےْسَ بِفَقِیہٍ (ترمذی ۔ کتاب العلم ۔ باب ما جاء فی الحثِّ علی تبلیغ السماع) اللہ اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے ہم سے کوئی حدیث سنی، پھر اسے یاد رکھا یہاں تک کہ اس کو دوسروں تک پہنچایا کیونکہ کبھی کبھار فقہ لئے پھرنے والے ایسے شخص تک لے جاتے ہیں (یعنی پڑھاتے، سناتے اور پہنچاتے ہیں) جو اس اٹھانے والے سے زیادہ سمجھ دار ہوتا ہے اور بعض فقہ (کے مسائل والفاظ) کے یاد کرنے والے فقیہ نہیں ہوتے ہیں۔
ترمذی ہی کی دوسری حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں: نَضَّرَ اللّٰہُ امْرَءً سَمِعَ مِنَّا شَےْئاً فَبَلَّغَہُ کَمَا سَمِعَہُ فَرُبَّ مُبَلِّغٍ اَوْعَیٰ مِنْ سَامِعٍ اللہ تروتازہ رکھے اس کو جو ہم سے کوئی چیز سنے، پھر اسے اسی طرح آگے پہنچائے (دوسروں تک) جیسی اس نے سنی ہو کہ بعض پہنچائے ہوئے سننے والے سے زیادہ یاد کرنے والے ہوتے ہیں (یعنی مطلب کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں) ۔
(فَبَلَّغَہُ کَمَا سَمِعَہُ) سے محدثین کی ایک جماعت نے روایت الحدیث بالمعنی کی ممانعت پر استدلال کیا ہے، جس پر کلام کیا جاسکتا ہے مگر حضور اکرم ﷺکے اس فرمان سے اتنا ضرور معلوم ہوا کہ حدیث کے صرف مفہوم کو روایت کرنے سے بچنا چاہئے بلکہ حدیث کے الفاظ کو بعینہ نقل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے ۔
اسی طرح حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّداً فَلْےَتَبَوَّا مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ (صحیح بخاری ۔ کتاب العلم ۔ باب اثم من کذب علی النبی ) حضور اکرم ﷺ نے اس شخص کے لئے سخت وعید سنائی ہے جو حضور اکرم ﷺ کی طرف اس بات کو منسوب کرے جو آپ ﷺ نے نہیں فرمائی۔ اگر کوئی راوی جانتا ہے کہ یہ الفاظ نبی اکرم ﷺ نے اپنے کلام میں استعمال نہیں کئے، پھر بھی جان بوجھ کر اس کو حضور اکرم ﷺ کی طرف منسوب کرے تو وہ بھی کسی حد تک اس وعید کے ضمن میں آئے گا۔ حضور اکرم ﷺ کا یہ فرمان تواتر کے ساتھ متعدد راویوں سے مروی ہے اور حدیث کی تقریباً ہر کتاب میں موجود ہے۔ اس سخت وعید کی موجودگی میں صحابۂ کرام یا تابعین عظام کیسے روایت الحدیث بالمعنی کو اصل بنا سکتے ہیں۔
روایت الحدیث باللفظ کے اصل ہونے کے لئے قوی دلیل حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جو حضرت امام بخاری ؒ نے اپنی کتاب (صحیح بخاری ۔ کتاب الوضو۔ باب فضل من بات علی الوضوء) میں ذکر فرمائی ہے، حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: جب تم اپنے بستر پر لیٹنے آؤ، اسی طرح وضو کرو جیسے نماز کے لئے کرتے ہو، پھر دائیں کروٹ پر لیٹ جاؤ اور یوں کہو : (اَللّٰہُمَّ اَسْلَمْتُ وَجْہِیْٓ اِلَےْکَ وَفَوَّضْتُ اَمْرِیْٓ اِلَےْکَ وَاَلْجَاْتُ ظَہْرِیْٓ اِلَےْکَ رَغْبَۃً وَّرَہْبَۃً اِلَےْکَ لَا مَلْجَاَ وَلَا مَنْجَآ مِنْکَ اِلَّآ اِلَےْکَ، اَللّٰہُمَّ آمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِیْ ٓ اَنْزَلْتَ وَبِنَبِیِّکَ الَّذِیْٓ اَرْسَلْتَ)۔ اگر کوئی شخص یہ دعا پڑھنے کے بعد اسی رات انتقال کرجائے تو فطرت (یعنی دین) پر انتقال کرے گا اور اس دعا کو سب سے آخر میں پڑھو۔۔۔ حضرت براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم ﷺ کے سامنے اس دعا کو دوبارہ پڑھا۔ جب میں اَللّٰہُمَّ آمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِیْٓ اَنْزَلْتَ پر پہنچا، تو میں نے وَبِرَسُوْلِکَ کا لفظ کہا۔ آپ ﷺ نے فرمایا، نہیں بلکہ یوں کہو وَبِنَبِیِّکَغرضیکہ حضور اکرم ﷺ نے نبی کی جگہ رسول کے لفظ کی تبدیلی کی اجازت نہیں دی۔
اس حدیث میں حضور اکرم ﷺ نے روایت الحدیث باللفظ کو مضبوطی کے ساتھ پکڑنے کی تعلیمات دی ہیں یعنی ایک ہی مفہوم کے لفظ کو تبدیل کرنے کی آپ ﷺ نے اجازت نہیں دی۔ چنانچہ صحابۂ کرام نے حضور اکرم ﷺکے اس اہتمام کا پوری توجہ وعنایت کے ساتھ خیال رکھا۔ صحابۂ کرام نے حضور اکرم ﷺ کے اقوال کو محفوظ کرکے اس بات کا اہتمام کیا کہ کوئی راوی حضور اکرم ﷺکے قول کا کوئی لفظ بھی نہ بدل دے خواہ مترادف لفظ ہی کیوں نہ ہو۔ صحابۂ کرام کے بعد تابعین نے بھی اسی منہج کو اختیار کرکے آئندہ نسلوں کے لئے اسوہ بنایا۔ غرضیکہ صحابۂ کرام نے پوری کوشش کی کہ حضور اکرم ﷺ کے قول کو اسی طرح نقل کیا جائے جس طرح حضور اکرم ﷺ سے سماعت فرمایا گیا حتی کہ بعض صحابۂ کرام ایک لفظ کو دوسرے لفظ کی جگہ یا ایک لفظ کو دوسرے لفظ سے مقدم یا مؤخر کرنا تو درکنار ایک حرف بدلنے کے لئے بھی تیار نہیں تھے جیسا کہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: مَنْ سَمِعَ حَدِےْثاً فَحَدَّثَ بِہِ کَمَا سَمِعَ فَقَدْ سَلِمَجس شخص نے حدیث سن کر بعینہ نقل کردی تو وہ سالم ہوگیا۔ (المحدث الفاضل بین الراوی والواعی للرامہزمی)
صحابۂ کرام میں سے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خود بھی روایت الحدیث باللفظ کا اہتمام فرماتے تھے اور دوسروں سے بھی اس کا اہتمام کرواتے تھے کہ کسی حذف واضافہ یا تقدیم وتاخیر کے بغیر لفظ بلفظ حدیث نقل کی جائے۔ مشہور ومعروف حدیث (بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلَی خَمْسٍ) جب روایت کی گئی تو ایک راوی نے وہ حدیث سن کر بیان کی اور حج کو رمضان کے روزے سے پہلے ذکر کردیا تو حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فوراً اس کی اصلاح فرمائی کہ اس طرح کہو کہ رمضان کا روزہ اور حج کیونکہ میں نے حضور اکرم ﷺ سے ایسے ہی سنا ہے۔ (صحیح مسلم ۔ کتاب الایمان ۔ باب قول النبی ﷺ) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے لفظ کی تقدیم وتاخیر کی بھی اجازت نہیں دی اور وجہ بیان کی کہ میں نے حضور اکرم ﷺ سے اسی طرح سنا ہے۔
مشہور تابعی حضرت عروۃ بن زبیر ؒ (۲۳ھ ۔ ۹۴ھ) نے اپنی خالہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حکم پر حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے دو مرتبہ ایک سال کے فرق پر علم کی اہمیت پر ایک حدیث سماعت فرمائی اور دونوں مرتبہ ایک ہی الفاظ سے روایت کرنے پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق فرمایا: میں ان کو سچا جانتی ہوں اور انہوں نے اس میں کسی لفظ کی کمی بیشی نہیں کی۔ (صحیح مسلم ۔ کتاب العلم ۔ باب رفع العلم وقبضہ وظہور الجہل والفتن فی آخر الزمان) غرضیکہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے روایت الحدیث باللفظ کا اہتمام فرمایا۔
بعض مرتبہ حضور اکرم ﷺ مخاطبین سے انہیں کے لب ولہجہ میں گفتگو فرماتے تھے، چنانچہ ایک مرتبہ یمن کے افراد سے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا: لَےْسَ مِنْ امْبِرِّ امْصِےَامُ فِی امْسَفَرِ (طبرانی وبیہقی) حضور اکرم ﷺکا اصل ارشاد یہ تھا: لَےْسَ مِنَ الْبِرِّ الصِّےَامُ فِی السَّفَرِلیکن یمنی لوگ لام کو میم سے بدل دیتے ہیں جیسے (مَرَرْنَا بِامْقَوْمِ ای بِالْقَوْمِ)۔ غرضیکہ صحابہ وتابعین نے حضور اکرم ﷺ کے اقوال کے الفاظ کو بعینہ نقل کرنے کا اہتمام کیا جو اس بات کی واضح علامت ہے کہ روایت الحدیث باللفظ ہی اصل ہے۔
بعض مرتبہ راوی کو جب کسی لفظ پر شک ہوجاتا یا دو الفاظ کی ترتیب کو بھول جاتا یعنی حدیث میں تو کسی طرح کا کوئی شک وشبہ نہیں ہے مگر کسی معین لفظ کے متعلق یا دوا لفاظ کی تقدیم وتاخیر کو بھول گیا تو راوی حدیث ذکر کرتے وقت کہتا: (کذا وکذا)۔ اگر روایت الحدیث بالمعنی اصل ہوتی تو پھر راوی کو اس طرح کہنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔
صحابۂ کرام نے حضور اکرم ﷺ کے اقوال کو امت مسلمہ تک پہنچانے کے لئے حضور اکرم ﷺ کے الفاظ یاد کرنے کو اپنا معمول بھی بنایا جیساکہ صحابی رسول حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رات کو تین حصوں میں تقسیم کرتا تھا، ایک تہائی رات نماز پڑھنے میں، ایک تہائی رات سونے میں اور ایک تہائی رات حضور اکرم ﷺ کی احادیث کو یاد کرنے میں۔ (الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع ۔ علامہ خطیب بغدادیؒ ) حضور اکرم ﷺ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اشتیاق یا حرصِ حدیث سے پوری طرح آگاہ تھے ، چنانچہ جب ایک موقع پر انہوں نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! قیامت کے دن آپ کی شفاعت سے کون کون خوش بخت سعادت اندوز ہوں گے، تو آپ ﷺ نے فرمایااے ابوہریرہ! جب سے میں نے تمہاری حرصِ حدیث کا اندازہ کیا ہے تو مجھے یقین ہوا کہ تمہارے سوا کوئی دوسرا شخص اس بارے میں مجھ سے سوال نہیں کرے گا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے دل وجان سے صرف اللہ کی رضا کے لئے اللہ کی وحدانیت کا اقرار کیا وہ قیامت کے دن میری شفاعت سے سعادت اندوز ہوگا۔ (صحیح بخاری۔ کتاب العلم۔ باب الحرص علی الحدیث)
صحابۂ کرام صرف انفرادی طور پر ہی نہیں بلکہ آپس میں احادیث کو یاد کرنے کے لئے مذاکرہ بھی فرمایا کرتے تھے جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : تذاکروا الحدیث، فانکم الا تفعلوا یندرس (مستدرک علی صحیحین ۔ کتاب العلم ۔ فضیلۃ مذاکرۃ الحدیث)
معلوم ہواکہ صحابۂ کرام نے حضور اکرم ﷺ کے اقوال کو اپنے سینے میں محفوظ فرماکر کل قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے اللہ تبارک وتعالیٰ کی کتاب قرآن کریم کی پہلی اور بنیادی تفسیر کو انتہائی مستند وقابل اعتماد وسائل سے امت مسلمہ کو پہنچادیا۔ اگر حضور اکرم ﷺ کے اقوال محفوظ نہ رہتے تو قرآن کریم کا سمجھنا ناممکن تھا کیونکہ قرآن فہمی حدیث نبوی کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی بعثت کا ایک اہم مقصد قرآن کریم کے احکام ومسائل کو بیان کرنا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَاَنْزَلْنَا اِلَےْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَےْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ ےَتَفَکَّرُوْنَ (سورۂ النحل ۴۴) یہ کتاب ہم نے آپ ﷺ کی طرف اتاری ہے کہ لوگوں کی جانب جو حکم نازل فرمایا گیا ہے، آپ اسے کھول کھول کر بیان کردیں، شاید کہ وہ غوروفکر کریں۔حضور اکرم ﷺ نے اپنے اقوال وافعال یعنی احادیث نبویہ سے قرآن کریم کی تفسیر بیان کی ہے۔قرآن کریم کی سینکڑوں آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت کے ساتھ رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ رسول کی اطاعت احادیث نبویہ پر عمل کرنا ہی تو ہے۔
ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ احادیث نبویہ کو یاد کرکے محفوظ کرنے میں اس ذاکرہ کو بھی کافی دخل ہے جو اللہ تعالیٰ نے شریعت اسلامیہ کی حفاظت کے لئے صحابۂ کرام اور تابعین کو عطا فرمائی تھی چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اپنے حافظہ کے لئے مشہور تھے کہ وہ ایک مرتبہ میں حدیث یاد کرلیتے تھے، ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ۸۰ اشعار پر مشتمل عمر بن ابی ربیعہ کا قصیدہ ایک مرتبہ سن کر یاد کرلیا تھا۔ صحابی رسول حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کا نازل شدہ مکمل حصہ بلوغ سے قبل ہی حفظ کرلیا تھا اور یہودی کی زبان صرف ۱۷ دن میں سیکھ لی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ذکاوت کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ تابعین میں سے حضرت نافع ؒ ایک بار کسی بات کو یاد کرلیتے توکبھی نہ بھولتے۔ حضرت امام بخاریؒ اور حضرت امام مسلم ؒ کی ذہانت کو رہتی دنیا تک یاد کیا جائے گا۔
احادیث نبویہ کی حفاظت کے لئے تقریباً وہی طریقے اختیار کئے گئے ہیں جو قرآن کریم کی حفاظت کے لئے یعنی حفظ، کتابت اور عمل، اور ان ہی واسطوں کے ذریعہ احادیث نبویہ کی حفاطت ہوئی ہے جن واسطوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت کی ہے۔ ہاں قرآن کریم کی حفاظت کے انتظامات احادیث نبویہ کی حفاظت کے مقابلہ میں زیادہ قوی ومستند ہیں کیونکہ قرآن کریم کی ایک ایک آیت تواتر کے ساتھ یعنی امت مسلمہ کی بہت بڑی تعداد نے نقل کی ہے اور قرآن کریم کی کتابت آپ ﷺ اپنی نگرانی میں خود کرواتے تھے، اگرچہ حضوراکرم ﷺکی وفات تک مکمل قرآن کریم ایک مصحف یا ایک جگہ میں لکھا ہوا موجود نہیں تھا بلکہ مختلف چیزوں پر لکھا ہوا قرآن کریم صحابۂ کرام کے پاس موجود تھا۔ غرضیکہ قرآن کریم کی سب سے پہلی اور اہم حفاظت اس طرح ہوئی کہ صحابۂ کرام نے اس کو حفظ کرکے اپنے دلوں میں محفوظ کرلیا تھا۔
حضور اکرم ﷺ کی خوبی بھی تھی کہ آپ ﷺ بہت ہی اچھے انداز میں مخاطب سے گفتگو فرماتے تھے کہ مخاطب کے دل میں بات بہت جلد پیوست ہوجاتی تھی۔ حضوراکرم ﷺ کے کلام کا ایک ایک لفظ موتی کی طرح واضح ہوتا تھا۔ آپ ﷺ اطمینان سے ٹھہر ٹھہر کر گفتگو فرماتے تھے کہ مخاطب اس کو کبھی بھول ہی نہیں سکتا تھا۔ نیز آپ ﷺ اپنی بات کو بعض مرتبہ تین تین دفعہ دہراتے تاکہ صحابۂ کرام کو اچھی طرح یاد بھی ہوجائے۔
صحابۂ کرام نے صرف یاد کرکے ہی حضور اکرم ﷺ کے ارشادات کو محفوظ نہیں کیا بلکہ صحابۂ کرام کی ایک جماعت نے احادیث نبویہ کے لکھنے کا بھی اہتمام فرمایا۔ متعدد واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی حیات مبارک ہی میں احادیث نبویہ لکھی جانے لگی تھیں، چند واقعات پیش ہیں:
ایک انصاری صحابی نے حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا : یا رسول اللہ! میں آپ سے حدیث سنتا ہوں، وہ مجھے اچھی معلوم ہوتی ہے لیکن بھول جاتا ہوں ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنے دائیں ہاتھ سے مدد لو یعنی لکھ لیا کرو، اور اپنے ہاتھ سے لکھنے کا اشارہ فرمایا۔ (ترمذی) اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : علم کو لکھ کر محفوظ کرو۔ (دار قطنی) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺکے صحابہ میں آپ ﷺ کی حدیثیں مجھ سے زیادہ کسی کے پاس نہیں سوائے حضرت عبد اللہ بن عمرو کے کہ وہ لکھ لیا کرتے تھے اور میں (اُس وقت) نہیں لکھتا تھا۔ (صحیح بخاری ۔ کتاب العلم ۔ باب کتابۃ العلم) حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: یارسول اللہ! میں آپ کی احادیث روایت کرنا چاہتا ہوں، لہٰذا میں نے ارادہ کیا ہے کہ اگر آپ مناسب سمجھیں تو میں اپنے قلب کے علاوہ اپنے ہاتھ کی کتابت سے مدد لوں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر میری حدیث ہو ، پھر اپنے قلب کے ساتھ اپنے ہاتھ سے مدد لو۔ (سنن دارمی)
غرضیکہ حضور اکرم ﷺ اور صحابۂ کرام کے زمانہ میں صرف یاد کرکے ہی احادیث نبویہ کو محفوظ نہیں کیا گیا بلکہ لکھ کر بھی احادیث نبویہ کو محفوظ کیا گیا اور ظاہر ہے کہ حضور اکرم ﷺ کی حیات میں صحابۂ کرام اور صحابۂ کرام کی حیات میں تابعین عظام جب ا حادیث لکھنے کا اہتمام کررہے تھے تو وہ حضور اکرم ﷺکے اقوال کے الفاظ ہی لکھ رہے تھے نہ کہ حضور اکرم ﷺکے اقوال کے مفہوم کو۔ صبح اٹھنے سے لے کر رات کے سونے تک کی بے شمار چھوٹی بڑی دعاؤں کے الفاظ، حضور اکرم ﷺ کے خطبوں کے الفاظ، حضوراکرم ﷺ کے دیگر حکمرانوں کو ارسال کئے گئے خطوط، معاہدے اورصلح نامے صحابہ اور تابعین کے لکھنے اور یاد کرنے سے ہی تو آج تک محفوظ ہیں۔
حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ (۶۱ھ۔۱۰۱ھ) کے عہد خلافت (۹۹ھ۔۱۰۱ھ) میں محدثین وعلماء کی ایک جماعت کی سرپرستی میں تدوین حدیث کا ایک اہم مرحلہ مکمل ہوگیا تھا۔ آخری صحابی رسول حضرت ابوالطفیل عامر بن واثلہ الکنانی ؒ کا انتقال ۱۱۰ھ میں ہوا ہے، غرضیکہ تدوین حدیث کا ایک اہم مرحلہ بعض صحابۂ کرام کے بقید حیات رہتے ہوئے انجام پایا۔ آخری صحابی رسول کی وفات کے وقت ۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کی عمر ۳۰ سال تھی۔
غرضیکہ مستند دلائل کے ساتھ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ روایت الحدیث باللفظ ہی اصل ہے یعنی احادیث قولیہ میں الفاظ صرف اور صرف حضوراکرم ﷺ کے ہیں جن کو صحابۂ کرام نے یاد کرکے یا ان کو لکھ کر کل قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے محفوظ کردیا ہے۔ روایت الحدیث بالمعنی کے متعلق علماء ومحدثین کی آراء مختلف ہیں۔
۱) روایت الحدیث بالمعنی جائز ہی نہیں ہے یعنی راوی کے لئے ضروری ہے کہ وہ لفظ بلفظ حدیث نقل کرے۔
۲) روایت الحدیث بالمعنی چند شرائط کے ساتھ جائز ہے :
ا) راوی اسلامی تعلیمات کا پابند ہو، جھوٹ کبھی نہیں بولتا ہو اور بات کو اچھی طرح سمجھتا ہو۔
ب) راوی عربی زبان کے قواعد سے اچھی طرح واقف ہونے کے ساتھ، عربی زبان کے گفتگو کے انداز بیان سے واقف ہو۔
ج) الفاظ کے معانی کو مکمل طور پر سمجھتا ہو کہ کس جگہ پر لفظ کے کیا معنی ہوں گے۔
د) دعا اور نماز وغیرہ میں جو پڑھا جاتا ہے وہ اس میں بیان نہ کیا گیاہو، کیونکہ دعا اور نماز وغیرہ میں جو کچھ پڑھا جاتا ہے اس میں روایت الحدیث بالمعنی باتفاق محدثین جائز ہی نہیں ہے۔
خلاصۂ کلام: روایت الحدیث باللفظ ہی اصل ہے۔ ان احادیث قولیہ میں روایت الحدیث بالمعنی جمہور محدثین وعلماء کے نزدیک جائز ہی نہیں ہے جن میں حضور اکرم ﷺکے مختصر وجامع اقوال کو بیان کیا گیا ہے۔ ان احادیث قولیہ کے متعلق جس میں حضور اکرم ﷺ کے طویل اقوال کو بیان کیا گیا ہے، صحابۂ کرام اور تابعین نے اس بات کا اہتمام رکھا ہے کہ حضور اکرم ﷺ کے الفاظ کسی تبدیلی کے بغیر نقل کئے جائیں، ہاں اللہ تعالیٰ کے خوف اور عربی زبان سے معرفت کے ساتھ چند الفاظ کے مترادفات کے استعمال سے روایت الحدیث باللفظ ہی کہی جائے گی۔ رہی بات احادیث فعلیہ کی جن میں صحابۂ کرام اور تابعین نے حضور اکرم ﷺ کے عمل کو ذکر فرمایا ہے یا وہ احادیث جن میں حضور اکرم ﷺ کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں، تو ظاہر ہے ان میں روایت الحدیث بالمعنی کی مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ گنجائش ہے کیونکہ ان میں صحابی اپنے الفاظ کے ذریعہ حضور اکرم ﷺکے عمل یا اوصاف بیان کرتا ہے۔
لاکھوں صفحات پر مشتمل ذخیرۂ حدیث میں ہزاروں احادیث قولیہ ہیں جو مختلف صحابۂ کرام اور تابعین سے مروی ہیں لیکن ان کے الفاظ بالکل یکساں ہیں یعنی ایک لفظ بھی مختلف نہیں ہے۔ مختلف ملکوں اور شہروں میں رہنے والے علماء کرام اور محدثین عظام نے حضور اکرم ﷺ کے ہزاروں اقوال کو ایک لفظ کی تبدیلی کے بغیر امت مسلمہ تک پہنچایا، ظاہر ہے یہ اس بات کی واضح علامت ہے کہ روایت الحدیث باللفظ ہی اصل ہے۔ اختصار کے مدنظر صرف تین احادیث کی مختصر عبارت ذکر کررہا ہوں جو متعدد واسطوں سے امت مسلمہ کے پاس پہنچی ہیں اور الفاظ میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ صحابۂ کرام اور تابعین نے حضورا کرم ﷺ کے الفاظ کو بعینہ نقل کرنے کا اہتمام کیا، اگر روایت الحدیث بالمعنی اصل ہوتی تو تمام راوی ایک ہی الفاظ نقل نہ کرتے، بلکہ ہر راوی اپنی صلاحیت کے اعتبار سے الفاظ کا استعمال کرتا۔
اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَےْسَ عَلَےْہ اَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ، اَلْمُسْلِمْ مَنْ سَلِمَ مِنْ لِسَانِہِ وَےَدِہ
اللہ تبارک وتعالیٰ تمام مسلمانوں کو قرآن وحدیث پر عمل کرنے والا بنائے، آمین۔
محمد نجیب سنبھلی قاسمی، ریاض (www.najeebqasmi.com)
شریعت اسلامیہ میں حدیث کا مقام
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
شریعت اسلامیہ میں حدیث کا مقام
حدیث وہ کلام ہے جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلمکے قول یا عمل یا کسی صحابی کے عمل پر آپصلی اللہ علیہ وسلم کے سکوت یا آپ صلی اللہ علیہ وسلمکی صفات میں سے کسی صفت کا ذکر کیا گیا ہو ۔صحابۂ کرام و تابعین و تبع تابعین و محدثین ومفسرین وفقہاء وعلماء ومؤرخین غرضیکہ ابتداء اسلام سے عصر حاضر تک‘ امت مسلمہ کے تمام مکاتب فکرنے تسلیم کیا ہے کہ قرآن کے بعد حدیث‘ اسلامی قانون کا دوسرا اہم وبنیادی ماخذ ہے اور حدیث نبوی بھی قرآن کریم کی طرح شریعت اسلامیہ میں قطعی دلیل اور حجت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں متعدد مرتبہ ذکر فرمایا ہے مثلاً وَاَنْزَلْنَا اِلَےْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَےْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ ےَتَفَکَّرُوْنَ (سورۂ النحل ۴۴) اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سینکڑوں آیات میں اپنی اطاعت کے ساتھ رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور رسول کی اطاعت احادیث پر عمل کرنا ہی تو ہے۔ غرضیکہ احکام قرآن پر عمل کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال یعنی حدیث نبوی کے مطابق زندگی گزارنا ضروری ہے۔ حق تو یہ ہے کہ قرآن فہمی حدیث نبوی کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ اللہ کی جانب سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ آپ امت مسلمہ کے سامنے قرآن کریم کے احکام ومسائل کھول کھول کر بیان کریں۔ نبی ورسول کی بعثت کا بنیادی مقصد احکام الہی کو اپنے قول وعمل کے ذریعہ انسانوں کی رہنمائی کے لئے لوگوں کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے۔
جس طرح ایمان کے معاملہ میں اللہ اور اس کے رسول کے درمیان تفریق نہیں کی جاسکتی ہے کہ ایک کو مانا جائے اور دوسرے کو نہ مانا جائے۔ ٹھیک اسی طرح کلام اللہ اور کلام رسول کے درمیان بھی کسی تفریق کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ ایک کو واجب الاطاعت مانا جائے اور دوسرے کو نہ مانا جائے کیونکہ ان دونوں میں سے کسی ایک کے انکار پر دوسرے کا انکار خود بخود لازم آئے گا۔
حدیث‘ مذکورہ مقاصد میں سے کسی ایک مقصد کے لئے ہوتی ہے:
۱) قرآن کریم میں وارد عقائد واحکام ومسائل کی تاکید ۔ ۲) قرآن کریم میں وارد عقائد واحکام ومسائل کے اجمال کی تفصیل۔
۳) قرآن کریم کے ابہام کی وضاحت۔ ۴) قرآن کریم کے عموم کی تخصیص۔
۵) بعض دیگر عقائد واحکام ومسائل کا ذکر، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ الحشر آیت نمبر ۷ میں ارشاد فرمادیا (وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَانَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا) جس کا حکم نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم دیں اس کو بجالاؤ اور جس کام سے منع کریں اس سے رک جاؤ۔
حدیث کی قسمیں: سند حدیث (جن واسطوں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول یا عمل یا تقریر یا آپ صلی اللہ علیہ وسلمکی کوئی صفت امت تک پہونچی ہے ) کے اعتبار سے حدیث کی مختلف قسمیں بیان کی گئی ہیں،جن میں سے تین اہم اقسام حسب ذیل ہیں:
صحیح: وہ حدیث مرفوع جس کی سند میں ہر راوی علم وتقویٰ دونوں میں کمال کو پہونچا ہوا ہو، اور ہر راوی نے اپنے شیخ سے حدیث سنی ہو۔ نیز حدیث کے متن میں کسی دوسرے مضبوط راوی کی روایت سے کوئی تعارض بھی نہ ہو، اور کوئی دوسری علت (نقص) بھی نہ ہو۔
صحیح کا حکم: جمہور محدثین ومفسرین وفقہاء وعلماء کا ان احادیث سے عقائد واحکام ثابت کرنے میں اتفاق ہے۔
حسن: وہ حدیث مرفوع جس کی سند میں ہر راوی تقویٰ میں تو کمال کو پہونچا ہوا ہو، اور ہر راوی نے اپنے شیخ سے حدیث بھی سنی ہو، نیز حدیث کے متن میں کسی دوسرے مضبوط راوی کی روایت سے کوئی تعارض بھی نہ ہو۔ لیکن کوئی ایک راوی علم میں اعلیٰ پیمانہ کا نہ ہو۔
حسن کا حکم: جمہور محدثین ومفسرین وعلماء کا ان احادیث سے عقائد واحکام ثابت کرنے میں اتفاق ہے، البتہ اس کا درجہ صحیح سے کم ہے۔
ضعیف: حدیث حسن کی شرائط میں سے کوئی ایک شرط مفقود ہو۔
ضعیف کا حکم: احادیث ضعیفہ سے احکام وفضائل میں استدلال کے لئے فقہاء وعلماء ومحدثین کی تین رائے ہیں:
۱) احادیث ضعیفہ سے احکام وفضائل دونوں میں استدلال کیا جاسکتا ہے۔
۲) احادیث ضعیفہ سے احکام وفضائل دونوں میں استدلال نہیں کیا جاسکتا ہے۔
۳) عقائد یا احکام تو ثابت نہیں ہوتے، البتہ قرآن یا احادیث صحیحہ سے ثابت شدہ اعمال کی فضیلت کے لئے احادیث ضعیفہ قبول کی جاتی ہیں۔ جمہور محدثین ومفسرین وفقہاء وعلماء کی یہی رائے ہے، مشہور محدث امام نووی ؒ نے علماء امت کا اس پر اجماع ہونے کا ذکر کیا ہے۔
(نوٹ) حدیث کی اصطلاح میں صحیح‘ غلط یا باطل کے مقابلہ میں استعمال نہیں ہوتا ہے بلکہ صحیح کا مطلب‘ ایسی حدیث جس کی سند میں ذرہ برابر کسی بھی نوعیت کی کوئی کمی نہ ہو اور تمام راوی علم وتقوی میں کمال کو پہنچے ہوئے ہوں، جبکہ حدیث حسن کا مطلب ہے کہ جو صحیح کے مقابلہ میں درجہ میں کچھ کم ہو، ضعیف کا مطلب یہ ہے کہ اس کی سند کے کسی راوی میں کچھ ضعف ہو جیساکہ اوپر بیان کیا گیا۔ غرضیکہ ضعیف حدیث بھی صحیح حدیث کی ایک قسم ہے۔ ضعیف حدیث میں ضعف عموماً معمولی درجہ کا ہی ہوتا ہے۔ ذخیرہ حدیث میں اگرچہ کچھ موضوعات بھی شامل ہوگئی ہیں لیکن وہ تعداد میں بہت زیادہ نہیں ہیں،نیز محدثین وعلماء نے دن رات کی جدوجہد سے ان کی نشاندھی بھی کردی ہے۔
ضعیف حدیث بھی صحیح حدیث کی ایک قسم ہے:
خیر القرون سے آج تک اصطلاح حدیث میں صحیح کے مقابلہ میں موضوع استعمال ہوتا ہے یعنی وہ من گھڑت بات جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط منسوب کردی گئی ہو، محدثین وعلماء نے دن رات کی جدوجہد سے ان کی نشاندھی بھی کردی ہے اور ذخیرہ حدیث میں ان کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے۔ جبکہ ضعیف حدیث صحیح حدیث کی ہی ایک قسم ہے لیکن اس کی سند میں کچھ کمزوری کی وجہ سے جمہور علماء اس کو فضائل کے باب میں قبول کرتے ہیں۔ مثلاً سند میں اگر کوئی راوی غیر معروف ثابت ہوا یعنی یہ معلوم نہیں کہ وہ کون ہے یا اس نے کسی ایک موقع پر جھوٹ بولا ہے یا سند میں انقطاع ہے (یعنی دو راویوں کے درمیان کسی راوی کا ذکر نہ کیا جائے مثلاً زید نے کہا کہ عمر نے روایت کی حالانکہ زید نے عمر کا زمانہ نہیں پایا، معلوم ہوا کہ یقیناً ان دونوں کے درمیان کوئی واسطہ چھوٹا ہوا ہے) تو اس نوعیت کے شک وشبہ کی وجہ سے محدثین وفقہاء وعلماء احتیاط کے طور پر اس راوی کی حدیث کو عقائد اور احکام میں قبول نہیں کرتے ہیں بلکہ جو عقائدیا احکام قرآن کریم یا صحیح احادیث سے ثابت ہوئے ہیں ان کے فضائل کے لئے قبول کرتے ہیں۔ چنانچہ بخاری ومسلم کے علاوہ حدیث کی مشہور ومعروف تمام ہی کتابوں میں ضعیف احادیث کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے اور امت مسلمہ ان کتابوں کوزمانۂ قدیم سے قبولیت کا شرف دئے ہوئے ہے، حتی کہ بعض علماء کی تحقیق کے مطابق بخاری کی تعالیق اور مسلم کی شواہد میں بھی چند ضعیف احادیث موجود ہیں۔ امام بخاری ؒ نے حدیث کی متعدد کتابیں تحریر فرمائیں، بخاری شریف کے علاوہ ان کی بھی تمام کتابوں میں ضعیف احادیث کثرت سے موجود ہیں۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم سے قبل اور بعد میں احادیث پر مشتمل کتابیں تحریر کی گئیں مگر ہر محدث نے اپنی کتاب میں ضعیف حدثیں ذکر فرمائی ہیں۔ اسی طرح بعض محدثین نے صرف صحیح احادیث کو ذکر کرنے کااپنے اوپر التزام کیا مثلاً صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان وغیرہ، مگر اس کے باوجود انہوں نے اپنی کتاب میں احادیث ضعیفہ بھی ذکر فرمائیں جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ خیر القرون سے آج تک تمام محدثین نے احادیث ضعیفہ کو قبول کیا ہے۔ سب سے مشہور ومعروف تفسیر قرآن (تفسیر ابن کثیر) میں اچھی خاصی تعداد میں ضعیف احادیث ہیں لیکن اس کے باوجود تقریباً ۷۰۰ سال سے پوری امت مسلمہ نے اس کو قبول کیا ہے اور وہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی تفسیر ہے اور اس کے بعد میں لکھی جانے والی تفسیروں کے لئے منبع وماخذ ہے۔
اگر ضعیف حدیث قابل اعتبار نہیں ہے تو سوال یہ ہے کہ محدثین نے اپنی کتابوں میں انہیں کیوں جمع کیا ؟ اور ان کے لئے طویل سفر کیوں کئے؟ نیز یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ اگر ضعیف حدیث کو قابل اعتبار نہیں سمجھا جائے گا تو سیرت نبوی اور تاریخ اسلام کا ایک بڑا حصہ دفن کرنا پڑے گا کیونکہ سیرت اور تاریخ اسلام کا وافر حصہ ایسی روایات پر مبنی ہے جس کی سند میں ضعف ہو۔ زمان�ۂ قدیم سے جمہور محدثین کا اصول یہی ہے کہ ضعیف حدیث فضائل میں معتبر ہے اور انہوں نے ضعیف حدیث کو صحیح حدیث کی اقسام کے ضمن میں ہی شمار کیا ہے۔مسلم شریف کی سب سے زیادہ مقبول شرح لکھنے والے امام نووی ؒ (مؤلف ریاض الصالحین ) فرماتے ہیں: محدثین، فقہاء اور جمہور علماء نے فرمایا ہے کہ ضعیف حدیث پر عمل کرنا فضائل اور ترغیب وترہیب میں جائز اور مستحب ہے ۔ (الاذکار، ص ۷۔۸) اسی اصول کودیگر علماء ومحدثین نے تحریر فرمایا ہے جن میں سے بعض کے نام یہ ہیں: شیخ ملا علی قاری ؒ (موضوعات کبیرہ ص ۵ ، شرح العقاریہ ج ۱ ص ۹، فتح باب العنایہ ۱/۴۹)، شیخ امام حاکم ابو عبداللہ نیشاپوریؒ (مستدرک حاکم ج ۱ ، ص ۴۹۰)، شیخ ابن حجر الہیثمی ؒ (فتح المبین، ص ۳۲)، شیخ ابو محمد بن قدامہ ؒ (المغنی ۱ / ۱۰۴۴)، شیخ علامہ الشوکانی ؒ (نیل الاوطار ۳ / ۶۸)، شیخ حافظ ابن رجب حنبلی ؒ (شرح علل الترمذی ۱/۷۲ ۔ ۷۴)، شیخ علامہ ابن تیمیہ حنبلی ؒ (فتاویٰ ج ۱ ص ۳۹)، شیخ نواب صدیق حسن خان ؒ (دلیل الطالب علی المطالب ص ۸۸۹)۔
عصر حاضر میں بعض حضرات جو مسلمانوں کی آبادی کا ایک فیصد بھی نہیں ہیں، اپنے رائے کو امت مسلمہ کے سامنے اس طرح پیش کرتے ہیں کہ جو وہ کہتے ہیں وہی صرف احادیث صحیحہ پر مبنی ہے اور پوری امت مسلمہ کے اقوال احادیث ضعیفہ پر مبنی ہیں۔ ان کے نقطۂ نظر میں حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے کامعیار صرف یہ ہے کہ جو وہ کہیں وہی صرف صحیح ہے۔ حالانکہ احادیث کی کتابیں تحریر ہونے کے بعد حدیث بیان کرنے والے راویوں پر باقاعدہ بحث ہوئی، جس کو اسماء الرجال کی بحث کہا جاتا ہے۔ احکام شرعیہ میں علماء وفقہاء کے اختلاف کی طرح بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ شدید اختلاف محدثین کا راویوں کو ضعیف اور ثقہ قرار دینے میں ہے۔ یعنی ایک حدیث ایک محدث کے نقطہ نظر میں ضعیف اور دیگر محدثین کی رائے میں صحیح ہوسکتی ہے۔ لہٰذا اگر کوئی حدیث پیش کی جائے تو فوراً عام لوگوں کو بغیر تحقیق کئے ہوئے یہ تبصرہ نہیں کرنا چاہئے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ اس لئے کہ بہت زیادہ ممکن ہے کہ وہ حدیث صحیح ہو، جس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کا انکار لازم آئے ۔ اور اگر کوئی عالم کسی حدیث کو قابل عمل نہیں سمجھتا ہے تو وہ اس پر عمل نہ کرے لیکن اگر کوئی دوسرا مکتب فکر اس حدیث کو قابل عمل سمجھتا ہے اور اس حدیث پر عمل کرنا قرآن وحدیث کے کسی حکم کے مخالف بھی نہیں ہے، تو ہمیں چاہئے کہ ہم تمام مکاتب فکر کی رائے کا احترام کریں، مثلاً ماہ رجب کی ابتداء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبٍ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَان) پڑھنا ثابت ہے اور یہ حدیث مسند احمد، بزار، طبرانی، بیہقی جیسی کتابوں میں موجود ہے جن کو پوری امت مسلمہ نے قبول کیا ہے۔ تو جو علماء اس حدیث کی سند پر اعتراض کرتے ہیں وہ یہ دعا نہ پڑھیں، لیکن اگر علماء کرام کی ایک جماعت اس حدیث کو قابل عمل سمجھ کر یہ دعا مانگتی ہے تو ان کے بدعتی ہونے کا فتوی صادر کرنا کونسی عقلمندی ہے۔ اسی طرح علماء ، فقہاء اور محدثین کی ایک بڑی جماعت کی رائے ہے کہ ۱۵ ویں شعبان سے متعلق احادیث کے قابل قبول اور امت مسلمہ کا عمل ابتداء سے اس پر ہونے کی وجہ سے ۱۵ ویں شعبان کی رات میں انفرادی طور پر نفل نمازوں کی ادائیگی، قرآن کریم کی تلاوت، ذکر اور دعاؤں کا کسی حد تک اہتمام کرنا چاہئے۔ لہٰذا اس نوعیت سے ۱۵ ویں شعبان کی رات میں عبادت کرنا بدعت نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔ غرضیکہ ضعیف حدیث بھی صحیح حدیث کی ایک قسم ہے اور امت مسلمہ نے فضائل اعمال کے لئے ہمیشہ ان کو قبول کیا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلمکے زمانے میں حدیث لکھنے کی عام اجازت نہیں تھی تاکہ قرآن وحدیث میں اختلاط نہ پیدا ہوجائے، البتہ انفرادی طور پر صحابہ کرام کی ایک جماعت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے احادیث کے صحیفہ تیار کررکھے تھے۔خلفاء راشدین کے زمانہ میں بھی حدیث لکھنے کا نظم انفرادی طور پر جاری رہا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ علیہ ( ۶۱ھ۔۱۰۱ھ)نے اپنی خلافت کے زمانہ (۹۹ھ۔ ۱۰۱ھ) میں احادیث کو جمع کرانے کا خاص اہتمام کیا۔ اس طرح حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ علیہ کی خصوصی توجہ کی وجہ سے پہلی صدی ہجری کے اختتام پر احادیث کا ایک بڑا ذخیرہ جمع کرلیا گیا تھا جو بعد میں تحریر کی گئیں کتابوں کے لئے اہم مصدر بنا۔
۲۰۰ہجری سے ۳۰۰ ہجری کے درمیان احادیث لکھنے کا خاص اہتمام ہوا، چنانچہ حدیث کی مشہور ومعروف کتابیں: بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداود، ابن ماجہ، نسائی وغیرہ( جن کو صحاح ستہ کہا جاتا ہے) اسی دور میں تحریر کی گئی ہیں، جبکہ موطا امام مالک ۱۶۰ ہجری کے قریب تحریر ہوئی۔ ان احادیث کی کتابوں کی تحریر سے قبل ہی ۱۵۰ ہجری میں حضرت امام ابوحنیفہ ؒ (شیخ نعمان بن ثابت) کی وفات ہوچکی تھی۔ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کی روایت سے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی حدیث کی کتاب (کتاب الآثار) ان احادیث کی کتابوں کی تحریر سے قبل مرتب ہوگئی تھی۔ یہ بات اچھی طرح ذہن میں رکھیں کہ پوری دنیا میں باقاعدہ لکھنے کے عام معمول ۲۰۰ ہجری کے بعد ہی شروع ہوا ہے یعنی حدیث کی طرح تفسیر، سیرت اور اسلامی تاریخ جیسے دینی علوم کی باقاعدہ کتابت ۲۰۰ ہجری کے بعد ہی شروع ہوئی ہے۔ اسی طرح عصری علوم اور شعر وشاعری بھی ۲۰۰ ہجری سے پہلے دنیامیں عمومی طور پر تحریری شکل میں موجود نہیں تھی کیونکہ کم تعداد ہی پڑھنا لکھنا جانتی تھی۔ ۲۰۰ ہجری تک تمام علوم ہی حتی کے شاعروں کے بڑے بڑے دیوا ن بھی صرف زبانی طور پر ایک دوسرے سے منتقل ہوتے چلے آرہے تھے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ حدیث کی باقاعدہ کتابیں ۲۰۰ ہجری کے بعد سامنے آئی ہیں تو اس نوعیت کا اعتراض تفسیر قرآن ، سیرت کی کتابوں اور اسلامی تاریخ اور شاعروں کے دیوانوں بلکہ یہ اعتراض دیگر عصری علوم پر بھی کیا جاسکتا ہے کیونکہ باقاعدہ ان کی کتابت ۲۰۰ ہجری کے بعد ہی شروع ہوئی ہے۔ ۲۰۰ ہجری تک اگرچہ متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی تھیں مگر عام طور پر تمام علوم صرف زبانی ہی پڑھے اور پڑھائے جاتے تھے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن کے بعد حدیث‘ اسلامی قانون کا دوسرا اہم وبنیادی ماخذ ہے اور حدیث نبوی بھی قرآن کریم کی طرح شریعت اسلامیہ میں قطعی دلیل اور حجت ہے ۔ حدیث کے بغیر ہم قرآن کو سمجھنا تو درکنار اسلام کے پانچ بنیادی اہم رکن کو بھی نہیں سمجھ سکتے ہیں۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)
صحیح بخاری وعلماء دیوبند کی خدمات
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
صحیح بخاری وعلماء دیوبند کی خدمات
سب سے قبل صحیح بخاری کے مصنف امام بخاری ؒ کی مختصر سوانح حیات پیش ہے۔
نام ونسب:
نام محمد بن اسماعیل اور کنیت ابو عبداللہ ہے۔ ازبکستان کے شہر بخاریٰ میں پیدائش کی وجہ سے بخارِی کہلائے گئے۔
ولادت اور وفات:
آپ ۱۳ شوال ۱۹۴ھ بروز جمعہ پیدا ہوئے اور تقریباً ۶۲ سال کی عمر میں عید الفطر کی چاند رات کو مغرب وعشاء کے درمیان ۲۵۶ھ میں آپ کی وفات ہوئی اور عید الفطر کے دن بعد نمازِ ظہر سمرقند کے قریب خرتنگ نامی جگہ میں دفن کئے گئے۔
تعلیم وتربیت:
آپ کے بچپن میں ہی والد محترم (اسماعیل) کا سایہ سر سے اٹھ گیا، آپ کی تعلیم وتربیت ماں کی گود میں ہوئی۔ صرف ۱۶ سال کی عمر میں احادیث کی بیشتر کتابیں پڑھ کر آپ نے تقریباً ستر ہزار حدیثیں زبانی یاد کرلی تھیں۔
آپ کی بینائی بچپن میں ہی چلی گئی تھی، ایک مرتبہ آپ کی والدہ نے خواب میں دیکھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام فرمارہے ہیں کہ اے عورت! اللہ تعالیٰ نے تیری دعا کی برکت سے تیرے بیٹے کی بینائی واپس کردی ہے، چنانچہ صبح ہوئی تو امام بخاریؒ بالکل بینا تھے۔
آپ کے والد محترم نے وفات کے وقت فرمایا تھا کہ میرے تمام مال میں نہ کوئی درہم حرام کا ہے اور نہ مشتبہ کمائی کا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی پرورش بالکل حلال رزق سے ہوئی تھی اور آخری عمر تک امام بخاریبھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلے، غرض آپ نے کبھی لقمہ حرام نہیں کھایا۔
علم حدیث کی تحصیل:
ابتدا میں اپنے ہی علاقے کے بیشتر شیوخ سے احادیث پڑھیں۔ والدہ اور بھائی کے ساتھ حج کی ادائیگی کے لئے مکہ مکرمہ گئے،والدہ اور بھائی تو اپنے وطن واپس آگئے مگر آپ حج سے فراغت کے بعد مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے شیوخ سے احادیث سنتے رہے۔ اس کے بعد حدیث کے حصول کے لئے متعدد سفر کرکے مصر ، شام، عراق ودیگر ممالک کے شیوخ سے آپ نے احادیث پڑھیں۔ اس طرح آپ کم عمری ہی میں حدیث کے امام بن کر سامنے آئے۔
قوت حافظہ:
اللہ تعالیٰ نے امام بخاریکو خصوصی قوت حافظہ عطا فرمائی تھی چنانچہ وہ ایک بات سننے کے بعد ہمیشہ یاد رکھتے تھے۔ آپ کے استاذ امام محمد بن بشارفرماتے تھے کہ اس وقت دنیا میں خصوصی حافظہ رکھنے والے چار شخص ہیں: امام بخاری، امام مسلم، امام ابوزرعہ رازی اور امام عبداللہ بن عبدالرحمن سمرقندی۔ شارح صحیح بخاری علامہ ابن حجرکہتے ہیں کہ ان چاروں میں امام بخاریکو خاص فضیلت اور ترجیح حاصل تھی۔
آپ کے اساتذۂ کرام:
علامہ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ امام بخاری کے اساتذہ کی تعداد کا کوئی اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ خود امام بخاری کا اپنا بیان ہے کہ “میں نے اسی ہزار حضرات سے روایت کی ہے جو سب بلند پایہ اصحاب حدیث میں شمار ہوتے تھے”۔
آپ کے تلامذۂ :
آپ کے تلامذہ کی کثرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ علامہ فربری فرماتے ہیں کہ جب میں امام بخاری کی شہرت سن کر آپ کی شاگردی کا شرف حاصل کرنے آپ کی خدمت میں پہنچا تو اس وقت تک تقریباً نوے ہزار آدمی آپ کے شاگرد ہوچکے تھے۔ نامور شاگردوں میں امام ترمذی اور علامہ دارمی بھی شامل ہیں۔
تالیفات امام بخاری :
امام بخاری کی تصانیف میں آٹھ کتابیں زیادہ مشہور ہیں:
الادب المفرد، التاریخ الصغیر۔ الاوسط، التاریخ الکبیر، الضعفاء الصغیر، قرۃ العینین برفع الیدین فی الصلاۃ،
خلق افعال العباد، القراء ۃ خلف الامام، اور سب سے ماےۂ ناز کتاب صحیح بخاری۔
صحیح بخاری کا مکمل نام: صحیح بخاری کا مکمل نام یہ ہے:
اَلْجَامِعُ الْمُسْنَدُ الصَّحِےْحُ الْمُخْتَصَرُ مِنْ اُمُورِ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ وَسُنَنِہِ وَاَیَّامِہِ۔
بعض حضرات نے الفاظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ اِس کا نام اس طرح تحریر کیا ہے۔
اَلْجَامِعُ الصَّحِےْحُ الْمُسْنَدُ مِنْ حَدِےْثِ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ وَسَلَّم وَسُنَنِہِ وَاَیَّامِہِ۔
صحیح بخاری کے لکھنے کی وجہ:
امام بخاری نے حجاز کے تیسرے سفر میں مسجد نبوی سے متصل ایک رات خواب میں دیکھا کہ میرے ہاتھ میں ایک بہت ہی خوبصورت پنکھا ہے اور میں اس کو نہایت اطمینان سے جھل رہا ہوں۔ صبح کو نماز سے فارغ ہوکر امام بخاری نے علماء کرام سے اپنے خواب کی تعبیر دریافت فرمائی۔ انہوں نے جواب دیا کہ آپ صحیح حدیثوں کو ضعیف وموضوع حدیثوں سے علیحدہ کریں گے۔ اس تعبیر نے امام بخاری کے دل میں صحیح احادیث پر مشتمل ایک کتاب کی تالیف کا احساس پیدا کیا۔ اس کے علاوہ اس ارادہ کو مزید تقویت اس بات سے پہونچی کہ آپ کے استاذ شیخ اسحاق بن راہویہ نے ایک مرتبہ آپ سے فرمایا: کیا ہی اچھا ہوتا کہ تم ایسی کتاب تالیف فرماتے جو صحیح احادیث کی جامع ہوتی۔ خواب کی تعبیر اور استاذ کے ارشاد کے بعد امام بخاری صحیح بخاری لکھنے میں ہمہ تن مشغول ہوگئے۔ صحیح بخاری تحریر کئے جانے تک حدیث کی تقریباً تمام ہی کتابوں میں صحیح ، حسن اور ضعیف تمام قسم کی احادیث جمع کی جاتی تھیں۔ نیز صحیح بخاری تحریر کئے جانے تک علم حدیث کی بظاہر تدوین بھی نہیں ہوئی تھی جس کی وجہ سے اصول بھی عام طور پر سامنے نہیں آئے تھے جو صحیح اور غیر صحیح میں امتیاز پیدا کرتے۔ صحیح بخاری کی تصنیف کے بعد بھی حدیث کی اکثر کتابیں صحیح، حسن اور ضعیف پر مشتمل ہیں۔
صحیح بخاری کے لکھنے میں وقت:
امام بخاری نے سب سے پہلے تقریباً ۶ لاکھ احادیث کے مسودات ترتیب دئے۔ اس میں کئی سال لگ گئے۔ اس سے فارغ ہوکر آپ نے احادیث کی جانچ شروع کی اور اس اہم ذخیرے سے ایک ایک گوہر چن کر صحیح بخاری میں جمع کرنا شروع کردیا۔ آپ خود فرماتے ہیں کہ ہر حدیث کو صحیح بخاری میں لکھنے سے قبل غسل فرماکر دو رکعت نفل ادا کرتا ہوں۔ آپ کو جب کسی حدیث کی سند میں اطمینان نہیں ہوتا تو آپ مسجد حرام یا مسجد نبوی میں بہ نیت استخارہ دو رکعت نماز پڑھتے اور پھر قلبی اطمینان کے بعد ہی اس حدیث کو اپنی کتاب میں تحریر فرماتے۔ غرض انہوں نے ۱۶ سال دن ورات جدوجہد کرکے یہ کتاب تحریر فرمائی۔
صحیح بخاری میں احادیث کی تعداد :
صحیح بخاری میں سات ہزار سے کچھ زیادہ احادیث ہیں جو سب کی سب صحیح ہیں، البتہ بعض محدثین نے ۷ یا ۸ احادیث کی سند پر کلام کیا ہے مگر صحیح بات یہ ہے کہ تمام احادیث صحیح ہیں۔ متعدد احادیث مختلف ابواب میں بار بار مذکور ہوئی ہیں، مثلاً حدیث (اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیِّاتِ) مختلف ابواب کے تحت متعدد مرتبہ مذکور ہوئی ہے۔ تقریباً تین ہزار احادیث اس کتاب میں غیر مکررہ ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام ہی صحیح احادیث اس کتاب میں جمع ہوگئی ہیں بلکہ صحیح احادیث کی ایک اچھی خاصی تعداد ایسی ہے جو امام بخاری ؒ کے علاوہ دیگر محدثین نے اپنی کتابوں میں ذکر کی ہے جیساکہ امام بخاری ؒ نے خود اس کا اعتراف کیا ہے۔
معلقات صحیح بخاری:
امام بخاری نے اپنی کتاب میں بعض احادیث سند کے بغیر یا ابتدائی سند میں سے کسی ایک یا چند راوی کو ذکر کئے بغیر تحریر فرمائی ہیں ان کو معلقات بخاری کہا جاتا ہے۔ سب سے پہلے امام ابو الحسن دار قطنیؒ (متوفی ۳۸۵ھ) نے معلقات کی اصطلاح امت کے سامنے پیش کی۔
امام بخاری نے بعض معلقات کوصیغہ الجزم (یقین کے صیغہ)کے ساتھ ذکر کیا ہے جن کے صحیح ہونے پر امت مسلمہ متفق ہے، جبکہ بعض معلقات صیغہ التمریض (شک کے صیغہ ) کے ساتھ ذکر کی ہیں جن پر بعض محدثین نے کلام کیا ہے۔
امام بخاری نے یہ معلقات عموماً ۲ وجہوں میں کسی ایک وجہ سے اپنی کتاب میں ذکر فرمائی ہیں:
۱) وہ حدیث اُن شرائط پر نہ اترتی ہو جو امام بخاریؒ نے اپنی کتاب کے لئے طے کی تھیں مگر کسی خاص فائدہ کے مد نظر وہ حدیث معلق ذکر کردی۔
۲) صرف اختصار کی وجہ سے سند کے بغیر یا ابتدائی سند میں سے کسی ایک یا چند راوی کو ذکر کئے بغیر تحریر فرمادی۔
معلقات صحیح بخاری کی تعداد:
علامہ ابن حجر نے فتح الباری میں تحریر کیا ہے کہ بخاری میں معلقات کی تعداد ۱۳۴۱ ہے جن میں سے اکثر متعدد مرتبہ ذکر کی گئی ہیں،بعض محدثین نے اس سے بھی زیادہ تعداد ذکر کی ہے۔ البتہ صحیح مسلم میں معلقات بہت کم ہیں۔ اسی وجہ سے بعض محدثین نے مسلم کو بخاری پر فوقیت دی ہے۔
ترجمۃ الابواب:
امام بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری کو مختلف ابواب (Chapters) میں مرتب کیا ہے اور ہر باب کے تحت متعدد احادیث ذکر کی ہیں۔ صحیح بخاری میں ہر باب کے تحت مذکورہ احادیث کی باب سے مناسبت عموماً مشکل سے سمجھ میں آتی ہے جس پر محدثین وعلماء بحث کرتے ہیں جو ایک مستقل علم کی حیثیت اختیار کرگئی ہے جس کو ترجمۃ الابواب کہا جاتا ہے۔
کتاب کی علمی حیثیت:
امام بخاری پہلے شخص ہیں جنہوں نے صرف احادیث صحیحہ پر اکتفا فرماکر صحیح بخاری تحریر فرمائی۔ اس سے قبل جو کتابیں تحریر کی گئیں وہ صحیح ، حسن اور ضعیف وغیرہ جملہ احادیث پر مشمل ہوا کرتی تھیں۔ امام بخاری کے بعد بعض محدثین مثلاً امام مسلم نے اس سلسلہ کو جاری رکھا مگر جمہور علماء امت نے صحیح بخاری کو دیگر تمام احادیث کی کتابوں پر فوقیت دی ہے۔ صحیح بخاری کے بعد بھی تحریر کردہ زیادہ تر احادیث کی مشہور ومعروف کتابیں (ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، ابوداؤد وغیرہ) حدیث کی تمام ہی اقسام (صحیح، حسن،ضعیف وغیرہ) پر مشتمل ہیں۔
ثلاثیاتِ امام بخاری :
صحیح بخاری میں ۲۲ حدیثیں ثلاثیات ہیں۔ثلاثیات کے معنی صرف تین واسطوں (مثلاً صحابی، تابعی اور تبع تابعی)سے محدث حدیث ذکر کرے۔ “ثلاثی” حدیث کی سند میں راویوں کی تعداد کے اعتبار سے اعلیٰ سند ہوتی ہے، یعنی تین واسطوں سے کم کوئی بھی حدیث کتب حدیث میں موجود نہیں ہے۔ ان ۲۲ احادیثِ ثلاثیات میں سے ۲۰ حدیثیں امام بخاری نے امام ابو حنیفہ کے شاگردوں سے روایت کی ہیں۔ امام ابوحنیفہ کے شاگرد شیخ المکی بن ابراہیم سے ۱۱، امام ابو عاصم سے ۶ اور امام ابوحنیفہ کے شاگرد امام زفر کے شاگرد امام محمد بن عبداللہ انصاری سے ۳ روایات اپنی کتاب میں ذکر کی ہیں۔ معلوم ہوا کہ امام بخاری(۱۵۴ھ۔۲۵۶ھ) امام ابوحنیفہ (۸۰ھ۔۱۵۰ھ) کے شاگردوں کے شاگرد ہیں۔
صحیح بخاری کی شروح:
محدثین وعلماء نے صحیح بخاری کی متعدد شروح تحریر فرمائی ہیں، جن میں احادیث کی وضاحت کے ساتھ ترجمۃ الابواب اور راویوں پر تفصیلی بحث فرمائی ہیں نیز احکام مستنبط کئے ہیں لیکن ان تمام شروح میں علامۃ ابن حجر العسقلانی الشافعی (متوفی ۸۵۲ھ) کی فتح الباری بشرح صحیح البخاری سب سے زیادہ مشہور ہے جسکی ۱۴ جلدیں ہیں۔
صحیح بخاری وعلماء دیوبند کی خدمات:
درس حدیث کو غور وفکر اور تدبر ومعانی سے پڑھنے پڑھانے کا جو پودا بر صغیر میں شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے لگایا تھا، علماء دیوبند نے اس کی بھرپور آبیاری کرکے اسے تناور درخت بنادیا۔ چنانچہ برصغیر کے چپہ چپہ سے طالبان علوم حدیث کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر امڈ پڑا اور صرف ۱۵۰ سال کی تاریخ میں دارالعلوم دیوبند اور اس طرز پر قائم ہزاروں مدارس کے لاکھوں فضلاء علوم حدیث پڑھ کر دنیا کے چپہ چپہ میں علوم نبوت کی اشاعت میں مشغول ہوگئے۔ علماء دیوبند کی حدیث کی نمایاں خدمات کا اعتراف عرب علماء نے بھی کیا ہے چنانچہ کویت کے ایک وزیر “یوسف سید ہاشم الرفاعی” نے تحریر کیا ہے کہ حافظ ذہبی اور حافظ ابن حجر جیسے معیار کے علماء دارالعلوم دیوبند میں موجود ہیں۔
برصغیر کے علماء خاص طور پر علماء دیوبند نے صحیح بخاری کی متعدد شروح تحریر فرمائی ہیں، جن میں سے علامہ محمد انور شاہ کشمیری ؒ کی شرح فیض الباری علی صحیح البخاری کوبڑی شہرت حاصل ہوئی ہے۔
علماء دیوبند کی تحریر کردہ صحیح بخاری کی بعض اہم شروح:
فیض الباری علی صحیح البخاری : یہ محدث کبیر شیخ محمد انور شاہ کشمیری کا درس بخاری ہے جس کو ان کے شاگرد رشید شیخ بدر عالم میرٹھی مہاجر مدنی نے عربی زبان میں مرتب کیا ہے۔ سب سے پہلے یہ شرح مصر سے شائع ہوئی، اس کے بعد سے دنیا کے بے شمار ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوچکی ہے، چنانچہ آج عرب وعجم میں اس شرح کو صحیح بخاری کی اہم شروح میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کی چار ضخیم جلدیں ہیں، بعض ناشرین نے چھ جلدوں میں شائع کیا ہے۔ عرب وعجم میں علامہ محمد انور شاہ کشمیری کا شمار مستند ومعتبر محدثین میں کیا جاتا ہے۔ مشرق ومغرب کے تمام علمی حلقوں نے علامہ محمد انور شاہ کشمیری کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا ہے۔
تعلیقات جامعۃ علی صحیح البخاری (عربی): شیخ الحدیث احمد علی سہارن پوری نے بخاری کے ۲۵ اجزاء پر تعلیقات کی، باقی پانچ حصوں پر ان کے شاگرد شیخ محمد قاسم نانوتوی ؒ نے تعلیق کی۔
الابواب والتراجم للبخاری : اس کتاب میں بخاری شریف کے ابواب کی وضاحت کی گئی ہے۔ صحیح بخاری میں احادیث کے مجموعہ کے عنوان پر بحث ایک مستقل علم کی حیثیت رکھتی ہے جسے ترجمۃ الابواب کہتے ہیں۔ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا نے اس کتاب میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور علامہ ابن حجر العسقلانی جیسے علماء کے ذریعہ بخاری کے ابواب کے بارے میں کی گئی وضاحتیں ذکر کرنے کے بعد اپنی تحقیقی رائے پیش کی ہے۔ یہ کتاب عربی زبان میں ہے اور اس کی ۶ جلدیں ہیں۔
لامع الدراری علی جامع صحیح البخاری : یہ مجموعہ دراصل شیخ رشید احمد گنگوہیکا درسِ بخاری ہے جو شیخ محمد زکریا کاندھلوی کے والد شیخ محمد یحیی نے اردو زبان میں قلم بند کیا تھا۔ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا نے اس کا عربی زبان میں ترجمہ کیا اور کچھ حذف واضافات کرکے کتاب کی تعلیق اور حواشی خود تحریر فرمائے۔ اس طرح شیخ الحدیث کی ۱۲ سال کی انتہائی کوشش اور محنت کی وجہ سے یہ عظیم کتاب منظر عام پر آئی۔ اس کتاب پر شیخ الحدیث کا مقدمہ بے شمار خوبیوں کا حامل ہے۔ یہ کتاب عربی زبان میں ہے اور اس کی ۱۰ جلدیں ہیں۔
انوار الباری فی شرح صحیح البخاری: یہ محدث کبیر شیخ محمد انور شاہ کشمیری کا درس بخاری ہے جس کو شیخ احمد رضا بجنوری نے اردو زبان میں مرتب کیا ہے۔
ایضاح البخاری: یہ شیخ فخر الدین احمد مرادآبادی کا درس بخاری ہے جو شیخ ریاست علی بجنوری صاحب نے اردو زبان میں مرتب کیا ہے، اس کی چار صخیم جلدیں ہیں۔
شرح تراجم البخاری: شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی۔ شرح تراجم البخاری: شیخ مولانا محمد ادریس کاندھلوی ۔
التقریر علی صحیح البخاری: شیخ محمد زکریاکاندھلوی، شیخ محمد یونس۔
ارشاد القاری الی صحیح البخاری: شیخ مفتی رشید احمد لدھیانوی۔
تلخیص البخاری شرح صحیح البخاری: شیخ شمس الضحیٰ مظاہری ۔
تحفۃ القاری فی حل مشکلات البخاری: شیخ محمد ادریس کاندھلوی ۔
امداد الباری فی شرح البخاری: شیخ عبد الجبار اعظمی۔جامع الدراری فی شرح البخاری: شیخ عبد الجبار اعظمی۔
التصویبات لما فی حواشی البخاری من التصحیفات: شیخ عبد الجبار اعظمی۔
الخیر الجاری علی صحیح البخاری: شیخ خیر محمد مظفر گڑھی۔ النور الساری علی صحیح البخاری: شیخ خیر محمد مظفر گڑھی۔
احسان الباری لفہم البخاری: شیخ محمد سرفراز خان صفدر۔ جواہر البخاری علی اطراف البخاری: شیخ قاضی زاہد حسینی ۔
انعام البخاری فی شرح اشعار البخاری: شیخ عاشق الہی بلندشہری ومہاجر مدنی۔
دروس بخاری: شیخ حسین احمد مدنی کا درس بخاری ہے جس کو شیخ نعمت اللہ اعظمی صاحب مرتب کررہے ہیں بعض جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔
ترجمۃ صحیح بخاری: شیخ شبیر احمد عثمانی ۔ فضل الباری شرح صحیح بخاری : شیخ شبیر احمد عثمانی ۔
النبراس الساری فی اطراف البخاری: یہ شیخ عبد العزیز گوجرانوالا کی عربی زبان میں بخاری کی شرح ہے جو ۲جلدوں پر مشتمل ہے۔ ان کا حاشیہ “مقیاس الواری علی النبراس الساری” بھی کافی اہمیت کا حامل ہے۔
تحقیق وتعلیق لامع الدراری علی جامع البخاری: شیخ محمد زکریا کاندھلوی۔انعام الباری شرح بخاری: شیخ محمد امین چاٹگامی۔
نصر الباری شرح البخاری: یہ صحیح بخاری کی شرح ہے جو شیخ عثمان غنی نے تالیف کی ہے جس کی ۱۴ جلدیں ہیں۔
تفہیم البخاری: یہ صحیح بخاری کا اردو ترجمہ ہے جو شیخ ظہور الباری اعظمی قاسمی نے کیا ہے، جسکی عربی متن کے ساتھ ۳جلدیں ہیں۔
حمد المتعالی علی تراجم صحیح البخاری: یہ شیخ سید بادشاہ گل کی کتاب ہے جو شیخ حسین احمد مدنی کے شاگرد ہیں۔
فضل البخاری فی فقہ البخاری: یہ شیخ عبدالرؤوف ہزراوی کی کتاب ہے جو شیخ محمد انور شاہ کشمیریکے شاگرد ہیں۔
تسہیل الباری فی حل صحیح البخاری: شیخ صدیق احمد باندوی –
کشف الباری فی شرح البخاری: شیخ سلیم اللہ خان صاحب۔
شرح البخاری، تجرید البخاری: شیخ محمد حیات سنبھلی۔ یہ شیخ مفتی عاشق الہی کے استاذ ہیں۔
انعام الباری، دروس بخاری شریف: یہ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ تعالیٰ کا درس بخاری ہے جو مولانا مفتی محمد انور حسین صاحب نے اردو زبان میں مرتب کیا ہے، اس کی ۱۶ جلدیں ہیں ،جن میں سے سات صخیم جلدیں شائع ہوچکی ہیں، دیگر جلدیں زیر طبع ہیں۔
تحفۃ القاری، دروس بخاری شریف: یہ مولانا مفتی سعید احمد پالنپوری حفظہ اللہ تعالیٰ کا درس بخاری ہے، جس کی کچھ جلدیں شائع ہوچکی ہیں جبکہ باقی جلدوں پر کام جاری ہے۔
مدرسہ شاہی مرادآباد کے استاذ حدیث مولانا مفتی شبیر احمد حفظہ اللہ نے بھی صحیح بخاری میں حدیث نمبر وغیرہ لگاکر اہم خدمات پیش فرمائی ہیں۔
علماء دیوبند کے بعض محدثین کرام کے نام:
۱۸۶۶میں دارالعلوم دیوبند اور مظاہر العلوم سہارن پور کے قیام کے بعد بر صغیر میں مدارس اسلامیہ کا ایسا عظیم جال پھیلادیا گیا کہ اس سے برصغیر میں رہنے والے کروڑوں مسلمانوں کی دینی تعلیم وتربیت کا نہ صرف معقول انتظام ہوا بلکہ مدارس اسلامیہ کے طلبہ واساتذہ نے قرآن وحدیث کی ایسی خدمات پیش کیں کہ عرب وعجم میں ان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا۔چنانچہ مصر سے شائع ہونے والے مشہور علمی رسالہ کے ایڈیٹر ومعروف عالم دین” شیخ سید رشید رضا” لکھتے ہیں : “ہندوستانی علماء کی توجہ اِس زمانہ میں علم الحدیث کی طرف متوجہ نہ ہوتی تو مشرقی ممالک سے یہ علم ختم ہوچکا ہوتا کیونکہ مصر، عراق اور حجاز میں یہ علم ضعف کی آخری منزل تک پہنچ گیا تھا”۔
ان مدارس اسلامیہ کے ذریعہ برصغیر میں ایسے باصلاحیت محدثین پیدا ہوئے جنہوں نے زندگی کا وافر حصہ حدیث خاص کر صحیح بخاری وصحیح مسلم کو پڑھنے پڑھانے یا اس کی شرح لکھنے میں صرف کیا۔ ان محدثین میں سے چند نمایاں نام حسب ذیل ہیں:
مولانا محمد قاسم نانوتوی ، شیخ الہند مولانا محمود الحسن ، مولانا محمد انور شاہ کشمیری ، مولانا رشید احمد گنگوہی ،مولانا حسین احمد مدنی ، مولانا خلیل احمد سہارن پوری، مولانا شبیر احمد عثمانی ، مولانا فخر الدین احمد مرادآبادی، مولانا محمد ادریس کاندھلوی، مولانامحمد زکریا کاندھلوی ، مولانا حبیب الرحمن اعظمی، مولانا محمد اسماعیل سنبھلی(جو راقم الحروف کے حقیقی دادا ہیں)، مولانا عبد الجبار اعظمی، مولانا نصیر احمد خان ، مولانا عثمان غنی، مولانا خورشید عالم، مولانا سید انظر شاہ کشمیری، مولانا محمد یونس اعظمی ، مولانا محمد تقی عثمانی، مولانا نعمت اللہ اعظمی، مولانا ریاست علی بجنوری اور مولانا سعید احمد پالنپوری دامت برکاتہم ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مدارس اسلامیہ کی حفاظت فرمائے اور ہمیں قرآن وحدیث سمجھ کر پڑھنے والا بنائے، اس پر عمل کرنے والا بنائے اور اس کو دوسروں تک پہنچانے والا بنائے۔ آمین، ثم آمین۔
محمد نجیب سنبھلی قاسمی، ریاض (www.najeebqasmi.com)
حجیتِ حدیث
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
حجیتِ حدیث
اُس کلام کو حدیث کہا جاتا ہے جس میں نبی اکرم ﷺ کے قول یا عمل یا کسی صحابی کے عمل پر آپ ﷺکے سکوت، یا آپ ﷺکی صفات میں سے کسی صفت کا ذکر کیا گیا ہو۔ حجیت کے معنی استدلال(کسی حکم کو ثابت کرنا )کرنے کے ہیں، یعنی قرآن کریم کی طرح حدیث نبوی سے بھی عقائد واحکام وفضائل اعمال ثابت ہوتے ہیں، البتہ اس کا درجہ قرآن کریم کے بعد ہے۔ جس طرح ایمان کے معاملہ میں اللہ اور اس کے رسول کے درمیان تفریق نہیں کی جاسکتی ہے کہ ایک کو مانا جائے اور دوسرے کو نہ مانا جائے۔ ٹھیک اسی طرح کلام اللہ اور کلام رسول کے درمیان بھی کسی تفریق کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ ایک کو واجب الاطاعت مانا جائے اور دوسرے کو نہ مانا جائے کیونکہ ان دونوں میں سے کسی ایک کے انکار پر دوسرے کا انکار خود بخود لازم آئے گا۔ خدائی غیرت گوارا نہیں کرتی کہ اس کے کلام کو تسلیم کرنے کا دعویٰ کیا جائے مگر اس کے نبی کے کلام کو تسلیم نہ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں صاف صاف بیان فرمادیا: فَاِنَّہُمْ لَا ےُکَذِّبُوْنَکَ وَلٰکِنَّ الظَّالِمِےْنَ بِآےَاتِ اللّٰہِ ےَجْحَدُوْنَ (سورۃ الانعام ۳۳) پس اے نبی! یہ لوگ آپ کے کلام کو نہیں ٹھکراتے بلکہ یہ ظالم اللہ کی آیتوں کے منکر ہیں۔ غرضیکہ قرآن کریم پر ایمان اور اس کے مطابق عمل کرنے کی طرح احادیث نبویہ پر ایمان لانا اور ان کے مطابق زندگی گزارنا ایمان کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ عہدہ دیا کہ آپ کی زبان مبارک سے جس چیز کی حلت کا اعلان ہوگیا وہ حلال ہے اور جس کو آپ ﷺ نے حرام فرمادیا وہ حرام ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر اپنے پاک کلام میں بیان فرمادیا کہ قرآن کریم کے پہلے مفسر حضور اکرم ﷺ ہیں، جن کی اطاعت قیامت تک آنے والے ہر انسان کے لئے لازم اور ضروری ہے اور حضور اکرم ﷺ کی اطاعت آپ ﷺ کے اقوال وافعال کے مطابق زندگی گزارنا ہی تو ہے اور آپ ﷺ اقوال وافعال ہمیں ذخیرۂ حدیث میں ہی تو ملتے ہیں۔
حجیت حدیث قرآن کریم سے:
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے پاک کلام قرآن کریم میں متعدد مرتبہ حدیث رسول ﷺکے قطعی دلیل ہونے کو بیان فرمایا ہے، جن میں سے چند آیات مندرجہ ذیل ہیں:
* وَاَنْزَلْنَا اِلَےْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَےْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ ےَتَفَکَّرُوْنَ (سورۂ النحل ۴۴) یہ کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے کہ لوگوں کی جانب جو حکم نازل فرمایا گیا ہے، آپ اسے کھول کھول کر بیان کردیں، شاید کہ وہ غوروفکر کریں۔
* وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلَےْکَ الْکِتَابَ اِلَّا لِتُبَیِّنَ لَہُمُ الَّذِیْ اخْتَلَفُوا فِےْہِ(سورۂ النحل ۶۴) یہ کتاب ہم نے آپ پر اس لئے اتاری ہے کہ آپ ان کے لئے ہر چیز کو واضح کردیں جس میں وہ اختلاف کررہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ان دونوں آیات میں واضح طور پر بیان فرمادیا کہ قرآن کریم کے مفسر اول حضور اکرم ﷺہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی اکرم ﷺ پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ آپ امت مسلمہ کے سامنے قرآن کریم کے احکام ومسائل کھول کھول کر بیان کریں۔ان دونوں مذکورہ آیات کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سینکڑوں آیات میں اپنی اطاعت کے ساتھ رسول کی اطاعت کا بھی حکم دیا ہے۔ کہیں فرمایا: (اَطِےْعُوا اللّٰہَ وَاَطِےْعُوا الرَّسُوْلَ)، کہیں فرمایا: (اَطِےْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ)، کسی جگہ ارشاد ہے: (اَطِےْعُوا اللّٰہَ والرَّسُوْلَ) اور کسی آیت میں ارشاد ہے: (اَطِےْعُوا الرَّسُوْلَ)۔ ان سب جگہوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ فرمانِ الہی کی تعمیل کرو اور ارشاد نبوی ﷺکی اطاعت کرو۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد جگہوں پر یہ بات واضح طور پر بیان کردی کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت بھی ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت رسول اکرم ﷺ کی اطاعت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں رسول کی اطاعت کا حکم دیا اور رسول کی اطاعت جن واسطوں سے ہم تک پہونچی ہے یعنی احادیث کا ذخیرہ ، اگر ان پر ہم شک وشبہ کریں تو گویا ہم قرآن کریم کی سینکڑوں آیات کے منکر ہیں یا زبان حال سے یہ کہہ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایسی چیز کا حکم دیا ہے یعنی اطاعت رسول ،جو ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
* مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ، وَمَنْ تَوَلّٰی فَمَآ اَرْسَلْنَاکَ عَلَےْہِمْ حَفِےْظًا (سورۂ النساء ۸۰) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کو اطاعت الہی قرار دیتے ہوئے فرمایا: جس شخص نے رسول اللہ کی اطاعت کی ، اس نے دراصل اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔
* قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِی ےُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَےَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ (سورۂ آل عمران ۳۱)اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اطاعتِ رسول کو حب الہی کا معیار قرار دیا یعنی اللہ تعالیٰ سے محبت رسول اکرم ﷺکی اطاعت میں ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے نبی! لوگوں سے کہہ دیں کہ اگر تم حقیقت میں اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف فرمائے گا۔
* وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ ےُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہَارُ خَالِدِےْنَ فِےْہَا، وَذٰلِکَ الْفُوْزُ الْعَظِےْمُ۔ وَمَنْ ےَعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ وَےَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ ےُدْخِلْہُ نَاراً خَالِدًا فِےْہَا وَلَہُ عَذَابٌ مُّہِےْنٌ (سورۂ النساء ۱۳۔۱۴) جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اسے اللہ تعالیٰ ایسی جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ اور جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا، اور اس کی مقررہ حدوں سے آگے نکلے گا ، اسے وہ جہنم میں ڈال دے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، ایسوں ہی کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔ غرضیکہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت نہ کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے۔
* وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ ےُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہَارُ، وَمَنْ یَّتَوَلَّ ےُعَذِّبْہُ عَذَاباً اَلِےْماً (سورۂ الفتح ۱۷)جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اسے اللہ تعالیٰ ایسی جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ اور جو منہ پھیرے گا ، اسے وہ دردناک عذاب دے گا۔ان دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت پر ہمیشہ ہمیشہ کی جنت اور اللہ اور اس کے رسول ﷺکی نافرمانی پر ہمیشہ ہمیشہ کے عذاب کا فیصلہ فرمایا۔
* وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰءِکَ مَعَ الَّذِےْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَےْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّےْقِےْنَ وَالشُّہَدَاءِ وَالصَّالِحِےْنَ وَحَسُنَ اُولٰءِکَ رَفِےْقًا (سورۂ النساء ۶۹) جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام نازل فرمایا ہے، یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین۔ کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرنے والوں کا حشر انبیاء، صدیقین، شہداء اور نیک لوگوں کے ساتھ ہوگا۔
* وَمَا کَانَ لِمُوْمِنٍ وَّلَا مُوْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ اَمْراً اَن یَّکُوْنَ لَہُمُ الْخِےَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ۔ وَمَنْ ےَعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً مُّبِےْناً (سورۂ الاحزاب ۳۶)کسی مومن مرد ومومنہ عورت کویہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردیں تو پھر اسے اس معاملہ میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ اور جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکی نافرمانی کرے گا، وہ صریح گمراہی میں پڑے گا۔
* فَلا وََرَبِّکَ لَا ےُوْمِنُوْنَ حتَیّٰ ےُحَکِّمُوَکَ فِےْمَا شَجَرَ بَےْنَہُمْ ثُمَّ لَا ےَجِدُوْا فِی اَنْفُسِہِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَےْتَ وَےُسَلِّمُوا تَسْلِےْماً (سورۂ النساء ۶۵)(اے میرے نبی!) تیرے رب کی قسم ! یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو، اس پر اپنے دلوں میں تنگی بھی محسوس نہ کریں بلکہ سر تسلیم خم کرلیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کے فیصلوں کی نافرمانی کو عدم ایمان کی نشانی اور آپ ﷺ کی اطاعت کو ایمان کی علامت قرار دیا۔
* لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤمِنِےْنَ اِذْ بَعَثَ فِےْہِمْ رَسُوْلاً مِنْ اَنْفُسِہِمْ ےَتْلُوْ عَلَےْہِمْ آےَاتِہِ وَےُزَکِّےْہِمْ وَےُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ (سورۂ آل عمران ۱۶۴) حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مؤمنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرے، انہیں پاک صاف بنائے اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دے۔ اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ رسول کا کام صرف کتاب پہنچانا نہیں تھا، بلکہ اللہ کی کتاب سناکر اس کے احکام کو سیکھانا بھی تھا۔ نیز لوگوں کا تزکیہ کرنا بھی آپ کی بعثت کے مقاصد میں تھا۔ تزکیہ صرف کتاب ہاتھ میں دینے سے نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے قول وعمل سے رہنمائی ضروری ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ وہ نبی لوگوں کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، کتاب سے مراد قرآن کریم اور حکمت سے مراد قول وعمل سے لوگوں کی رہنمائی یعنی حدیث نبوی۔
* ےَا اَیُّہَا الَّذِےْنَ آمَنُوٓا اسْتَجِےْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا ےُحْےِےْکُمْ (سورۂ الانفال ۲۴)اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جبکہ رسول تمہیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے۔
* ےَاْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَےَنْہٰہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَےُحِلُّ لَہُمُ الطِّیِّبَاتِ وَےُحَرِّمُ عَلَےْہِمُ الْْخَبَاءِثَ (سورۂ الاعراف ۱۵۷) رسول امی ان کو نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں اور پاکیزہ چیزوں کو ان کے لئے حلال قرار دیتے ہیں اور گندی چیزوں کو ان پر حرام قرار دیتے ہیں۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کو حلال قرار دینے والا اور حرام قرار دینے والا بتایا ہے۔غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ عہدہ دیا کہ آپ کی زبان مبارک سے جس چیز کی حلت کا اعلان ہوگیا وہ حلال ہے اور جس کو آپ ﷺ نے حرام فرمادیا وہ حرام ہے۔
* لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لَِّمَنْ کَانَ ےَرْجُو اللّٰہَ وَالْےَوْمَ الْآخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِےْراً (سورۂ الاحزاب ۲۱)یقیناًتمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ موجود ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے۔ یعنی نبی اکرم ﷺکی زندگی جو احادیث کے ذخیرہ کی شکل میں ہمارے پاس محفوظ ہے کل قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے بہترین نمونہ ہے کہ ہم اپنی زندگیاں اسی نمونہ کے مطابق گزاریں۔
* وَمَن یُّشاقِقِ الرَّسُوْلَ مِن بَّعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰی وَےَتَّبِعْ غَےْرَ سَبِےْلِ الْمُوْمِنِےْنَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہِ جَہَنَّمَ وَسَاءَ تْ مَصِےْراً (سورۂ النساء ۱۱۵) اس آیت میں اللہ حکم رسول ﷺاور سنت نبوی ﷺکی مخالفت کرنے والوں کو جہنم کی سزا سناتے ہوئے فرماتا ہے : جو شخص رسول کی مخالفت کرے اور اہل ایمان کی روش کے سوا کسی اور کے راستے پر چلے جبکہ ہدایت اس پر واضح ہوچکی ہے تو اس کو ہم اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے، جو بدترین ٹھکانا ہے۔
غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد جگہوں پر یہ بات واضح طور پر بیان کردی کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ رسول ﷺ کی اطاعت بھی ضروری ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت رسول اکرم ﷺ کی اطاعت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں رسول کی اطاعت کا حکم دیا اور رسول کی اطاعت جن واسطوں سے ہم تک پہونچی ہے یعنی احادیث کا ذخیرہ ، ان پر اگر ہم شک وشبہ کرنے لگیں تو گویا یا تو ہم قرآن کریم کی اِن مذکورہ تمام آیات کے منکر ہیں یا زبان حال سے یہ کہہ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایسی چیز کا حکم دیا ہے یعنی اطاعت رسول ،جو ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔
حجیت حدیث نبی اکرم ﷺ کے اقوال سے:
سارے انبیاء کے سردار و آخری نبی حضور اکرم ﷺنے بھی قرآن کریم کے ساتھ سنت رسول ﷺکی اتباع کو ضروری قرار دیا ہے، حدیث کی تقریباً ہر کتاب میں نبی اکرم ﷺکے ارشادات تواتر کے ساتھ موجود ہیں، ان میں سے صرف تین احادیث پیش خدمت ہیں:
* رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ (بخاری ومسلم) * رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: جب میں تمہیں کسی چیز سے روکوں تو اس سے باز آجاؤ اور جب میں تمہیں کسی کام کا حکم دوں تو حسب استطاعت اس کی تعمیل کرو۔ (بخاری ومسلم)
* رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: میری امت کے تمام افراد جنت میں جائیں گے، سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے انکار کیا۔ آپ ﷺسے کہا گیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ! دخولِ جنت سے کون انکار کرسکتا ہے؟ تو آپ ﷺنے فرمایا : جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگیا، اور جس نے میری نافرمانی کی، اس نے (دخول جنت سے) انکار کیا۔ (بخاری ومسلم)
حجیت حدیث اجماع سے:
نبی اکرم ﷺکی زندگی میں اور انتقال کے بعد صحابۂ کرام کے عمل سے امت مسلمہ نے سنت رسول ﷺکے حجت ہونے پر اجماع کیاہے، کیونکہ صحابۂ کرام کسی بھی مسئلہ کا حل پہلے قرآن کریم میں تلاش کیا کرتے تھے، پھر نبی اکرم ﷺکی سنت میں ۔ اسی وجہ سے جمہور علماء کرام نے وحی کی دو قسمیں کی ہیں، جیساکہ سورۂ النجم کی ابتدائی آیات (وَمَا ےَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی) (اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں ۔ وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے) سے معلوم ہوتا ہے:
(۱) وحی متلو: وہ وحی جس کی تلاوت کی جاتی ہے، یعنی قرآن کریم، جس کا ایک ایک حرف کلام الٰہی ہے۔
(۲) وحی غیر متلو: وہ وحی جس کی تلاوت نہیں کی جاتی ہے، یعنی سنت رسول ﷺ،جس کے الفاظ نبی اکرم ﷺکے ہیں ، البتہ بات اللہ تعالیٰ کی ہے۔
بعض حضرات قرآن کریم کی چند آیات مثلاً (تِبْےَاناً لِکُلِّ شَیْءٍ) (سورۂ النحل ۸۹) اور (تَفْصِےْلاً لِکُلِّ شَیْء) (سورۂ الانعام ۱۵۴) سے غلط مفہوم لے کر یہ بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں ہر مسئلہ کا حل ہے اور قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے حدیث کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔ حالانکہ حدیث رسول ﷺ بھی قرآن کریم کی طرح شریعتِ اسلامیہ میں قطعی دلیل اور حجت ہے، جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں متعدد مقامات پر مکمل وضاحت کے ساتھ ذکر کیا ہے، یعنی نبی اکرم ﷺکے قول وعمل سے بھی احکام شرعیہ ثابت ہوتے ہیں۔
قرآن کریم میں عموماً احکام کی تفصیل مذکور نہیں ہے، نبی اکرم ﷺنے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنے اقوال واعمال سے ان مجمل احکام کی تفصیل بیان کی ہے۔ اسی لئے تو اللہ تعالیٰ نبی ورسول کو بھیجتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام اپنے اقوال واعمال سے امتیوں کے لئے بیان کرے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بے شمار مقامات پر نماز پڑھنے، رکوع کرنے اور سجدہ کرنے کا حکم دیا ہے، لیکن نماز کی تفصیل قرآن کریم میں مذکور نہیں ہے کہ ایک دن میں کتنی نمازیں ادا کرنی ہیں؟ قیام یا رکوع یا سجدہ کیسے کیا جائے گا اورکب کیا جائے گا ؟اور اس میں کیا پڑھا جائے گا؟ ایک وقت میں کتنی رکعت ادا کرنی ہیں؟
اسی طرح قرآن کریم میں زکاۃ کی ادائیگی کا تو حکم ہے لیکن تفصیلات مذکور نہیں ہیں کہ زکاۃ کی ادائیگی روزانہ کرنی ہے یا سال بھر میں یاپانچ سال میں یا زندگی میں ایک مرتبہ؟ پھر یہ زکاۃ کس حساب سے دی جائے گی؟ کس مال پر زکاۃ واجب ہے اور اس کے لئے کیا کیا شرائط ہیں؟
غرضیکہ اگرحدیث کی حجیت پر شک کریں تو قرآن کریم کی وہ سینکڑوں آیات جن میں نماز پڑھنے ، رکوع کرنے یا سجدہ کرنے کا حکم ہے یا زکاۃ کی ادائیگی کا حکم ہے، وہ سب نعوذ باللہ بے معنی ہوجائیں گی۔
اسی طرح قرآن کریم (سورۂ المائدہ ۳۸) میں حکم ہے کہ چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھوں کو کاٹ دیا جائے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ دونوں ہاتھ کاٹیں یا ایک ہاتھ؟ اور اگر ایک ہاتھ کاٹیں تو داہنا کاٹیں یا بایاں؟ پھر اسے کاٹیں تو کہا ں سے؟ بغل سے؟ یا کہنی سے؟ یا کلائی سے؟ یا ان کے بیچ میں کسی جگہ سے؟ پھر کتنے مال کی قیمت کی چوری پر ہاتھ کاٹیں؟ اس مسئلہ کی وضاحت حدیث میں ہی ملتی ہے، معلوم ہوا کہ قرآن کریم حدیث کے بغیر نہیں سمجھا جاسکتا ہے۔
اسی طرح قرآن کریم (سورۂ الجمعہ) میں یہ ارشاد ہے کہ جب جمعہ کی نماز کے لئے پکارا جائے تو اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید وفروخت چھوڑدو۔ سوال یہ ہے کہ جمعہ کا دن کونسا ہے؟ یہ اذان کب دی جائے؟ اس کے الفاظ کیا ہوں؟ جمعہ کی نماز کب ادا کی جائے؟ اس کو کیسے پڑھیں؟ خریدو فروخت کی کیا کیا شرائط ہیں ؟ اس مسئلہ کی مکمل وضاحت احادیث میں ہی مذکور ہے۔
بعض حضرات سند حدیث کی بنیاد پر ہوئی احادیث کی اقسام یا راویوں کو ثقہ قرار دینے میں محدثین وفقہاء کے اختلاف کی وجہ سے حدیث رسول ﷺ کو ہی شک وشبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، حالانکہ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم قیامت تک آنے والے تمام عرب وعجم کی رہنمائی کے لئے نبی اکرم ﷺپر نازل فرمایا ہے اور قیامت تک اس کی حفاظت کا وعدہ کیاہے۔ اور اسی قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے متعدد جگہوں (مثلاً سورۂ النحل ۴۴، ۶۴)پر ارشاد فرمایا ہے کہ اے نبی! یہ کتاب ہم نے آپ پر نازل فرمائی ہے تاکہ آپ ﷺ اس کلام کو کھول کھول کر لوگوں کے لئے بیان کردیں۔ تو جس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے الفاظ کی حفاظت کی ہے، اس کے معانی ومفاہیم جو نبی اکرم ﷺنے بیان فرمائے ہیں وہ بھی کل قیامت تک محفوظ رہیں گے، ان شاء اللہ۔ قرآن کریم کے الفاظ کے ساتھ ساتھ اس کے معنی ومفہوم کی حفاظت بھی مطلوب ہے ورنہ نزول قرآن کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ احادیث کے ذخیرہ میں بعض باتیں غلط طریقہ سے نبی اکرم ﷺکی طرف منسوب کردی گئی ہیں۔ لیکن محدثین وعلماء کی بے لوث قربانیوں سے تقریباً تمام ایسے غلط اقوال کی تحدید ہوگئی ہے جو حدیث کے کامل ذخیرہ کا ادنی سا حصہ ہے۔ جہاں تک راویوں کے سلسلہ میں محدثین وعلماء کے اختلافات کا تعلق ہے تو اس اختلاف کی بنیاد پر حدیث کی حجیت پر شک وشبہ نہیں کیا جاسکتا ہے، کیونکہ اختلاف کا اصل مقصد خلوص کے ساتھ احادیث کے ذخیرہ میں موضوعات کو الگ کرنا اور احکام شرعیہ میں ان ہی احادیث کو قابل عمل بنانا ہے جس پر کسی طرح کا کوئی شک وشبہ نہ رہے۔ جہاں کوئی شک وشبہ ہوا تو ان احادیث کو احکام کے بجائے صرف اعمال کی فضیلت کی حد تک محدود رکھا جائے۔
مثلاً مریض کے علاج میں ڈاکٹروں کا اختلاف ہونے کی صورت میں ڈاکٹری پیشہ کو ہی رد نہیں کیا جاتاہے۔ اسی طرح مکان کا نقشہ تیار کرنے میں انجینئروں کے اختلاف کی وجہ سے انجینئروں کے بجائے مزدوروں سے نقشہ نہیں بنوایا جاتا ہے۔ موجودہ ترقی یافتہ دور میں بھی تعلیم وتعلم کے لئے ایک ہی کورس کے مختلف طریقے رائج ہیں۔ ہر علاقہ میں زندگی گزانے کے طریقے مختلف ہیں، غرضیکہ زندگی کے تقریباً ہر شعبہ میں اختلاف موجود ہے، ان اختلافات کے باوجود ہم زندگی کے ہی منکر نہیں بن جاتے، تو احادیث کی تقسیم اور راویوں کو ثقہ قرار دینے میں اختلاف کی وجہ سے حدیث کا ہی انکار کیوں؟ بلکہ بسا اوقات یہ اختلافات امت کے لئے رحمت بنتے ہیں کہ زمانے کے خدوخال کے اعتبار سے مسئلہ کا فیصلہ کسی ایک رائے کے مطابق کردیا جاتا ہے۔ نیز ان اختلافات کی وجہ سے تحقیق کا دروازہ بھی کھلا رہتا ہے۔
خلاصۂ کلام:صحابۂ کرام ، تابعین، تبع تابعین، محدثین ومفسرین وفقہاء وعلماء ومؤرخین غرضیکہ ابتداء اسلام سے عصر حاضر تک‘ امت مسلمہ کے تمام مکاتب فکرنے تسلیم کیا ہے کہ قرآن کے بعد حدیث اسلامی قانون کا دوسرا اہم وبنیادی ماخذ ہے اور حدیث نبوی بھی قرآن کریم کی طرح شریعت اسلامیہ میں قطعی دلیل اور حجت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں متعدد مرتبہ ذکر فرمایا ہے۔ نیز قرآن کریم میں ایک جگہ بھی یہ مذکورہ نہیں ہے کہ صرف اور صرف قرآن کریم پر عمل کرو۔ غرضیکہ احکام قرآن پر عمل کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کے اقوال وافعال یعنی حدیث نبوی کے مطابق زندگی گزارنا ضروری ہے۔ حق تو یہ ہے کہ قرآن فہمی حدیث نبوی کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ اللہ کی جانب سے حضور اکرم ﷺ پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ آپ امت مسلمہ کے سامنے قرآن کریم کے احکام ومسائل کھول کھول کر بیان کریں۔ اور ہمارا یہ ایمان ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی ذمہ داری بحسن خوبی انجام دی ہے۔ مگر عصر حاضر میں مستشرقین نے توریت وانجیل کی حفاظت وتدوین کے طریقوں پر چشم پوشی کرکے حدیث نبوی کی حفاظت وتدوین پر اعتراضات کئے ہیں، مگر وہ حقائق کے بجائے صرف اور صرف اسلام دشمنی پر مبنی ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن وسنت کے مطابق زندگی گزارنے والا بنائے، آمین۔
محمد نجیب سنبھلی قاسمی، ریاض (www.najeebqasmi.com)