ترقی کا سفر، مگر کیسے؟
تحریر یاسر محمد خان
’’ابراہم لنکن‘‘ کی زندگی اور کارناموں پر بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں۔ سب سے زیادہ پراَثر کتاب ’’A Lincoln Reader‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ اسے ’’پال ایم اینجل‘‘ نے تصنیف کیا۔ یہ کتاب لنکن کی پیدائش سے لے کر اُس کی آخری سانسوں تک کی جامع رُوداد ہے۔ سوا 6 سو صفحات کی ضخامت کے باوجود اس کا ورق ورق انتہائی دلچسپ معلومات سے بھرا ہوا ہے۔ موت سے چند روز قبل اُس نے خواب دیکھا: ’’اُس پر گولی چلائی گئی۔ اُس کی نعش ایک تابوت میں رکھ دی گئی اور لوگ بین کررہے ہیں۔‘‘ پال اینجل کے مطابق اُس نے نیند سے بیدار ہوکر اپنے سارے بڑے عہدیداروں کا اجلاس بلایا۔ دن رات ایک کرکے آنے والی نسلوں کی پالیسیاں بنائیں۔ اُنہیں سینٹ اور کانگریس سے پاس کروایا اور موت آنے پر خاموشی سے دنیا سے کوچ کرگیا۔ یوں وہ امریکی ہی نہیں دنیا بھر کی تاریخ میں امر ہوگیا۔
اکیسویں صدی کے آغاز میں نائن الیون ہوا۔ امریکیوں نے اس بڑے پیمانے پر ہونے والے نقصان سے نپٹنے کے لیے پالیسیاں بنائیں اور دنوں میں اُن پر کام شروع ہوگیا۔
سب سے پہلے 5 بڑی انٹیلی جنس ایجنسیوں میں وسیع اُکھاڑ پچھاڑ کی گئی۔ عہدیدار یکسر تبدیل کردیے گئے۔ اعلیٰ ترین صلاحیتوں والے افراد کو ذمہ داریاں دی گئیں۔ ایرپورٹوں، بندرگاہوں، بسوں کے اڈّوں پر اُترنے والے ہر مسافر کا پورا بائیوڈیٹا اسکین ہونے لگا۔ ملک بھر میں ہر مشتبہ شخص کی پوری جانچ پڑتال کی گئی۔ ٹیلی فون ٹیپ ہونے لگے۔ ہوٹلوں اور اقامت گاہوں پر مسلسل نظر رکھی جانے لگی۔ عوامی شعور اُبھارنے کے لیے اسپیشل کلاسز منعقد ہوئیں۔ ہر لوکلیٹی کے لوگوں کو قومی دفاع کے لیے تیار کیا جانے لگا۔ بیرون ملک امریکا نے بڑے ظلم ڈھائے۔ پر اندرونِ ملک اُس نے خود کو ہر قسم کے حملوں اور تباہ کاریوں سے بچالیا۔
(1) فوجی افسران کی سربراہی میں اسپیشل کورٹس بنائی جارہی ہیں۔ (2) ان خصوصی عدالتوں کی میعاد دو سال ہوگی۔ (3) ملک میں کسی بھی مسلح دہشت گرد تنظیم کو کام کرنے کی اجازت ہر گز نہ ہوگی۔ (4) دہشت گردی کی روک تھام کے ادارے سے نیکٹا کو مؤثر اور مضبوط بنایا جارہا ہے۔ (5) نفرت انگیز تقریروں، انتہا پسندی اور عدم برداشت کو فروغ دینے والے مواد کے خلاف بھرپور کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ (6) دہشت گردوں اور ان کی تنظیموں کی مالی سپلائی لائن ختم کی جائے گی۔ (7) کالعدم تنظیموں کو نئے ناموں سے بھی کام کرنے سے بزور روکا جائے گا۔ (8) خصوصی انسداد دہشت گردی فورس کا قیام اور تعیناتی عمل میں لائی جائے گی۔ (9) مذہبی منافرت پھیلانے والوں کے خلاف سخت اقدامات اور اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔ (10) دینی مدارس کی رجسٹریشن اور ضابطہ بندی کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ (11) پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر دہشت گرد تنظیموں اور ان کے نظریات کی تشہیر نہیں ہونے دی جائے گی۔ (12) فاٹا میں انتظامی اور ترقیاتی اصلاحات کی جائیں گی۔ آئی ڈی پیز کی واپسی پر توجہ دی جائے گی۔ (13) دہشت گردوں کا مواصلاتی نظام ختم کیا جائے گا۔ (14) انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا دہشت گردوں کے لیے استعمال روکا جائے گا۔ (15) پنجاب کے کسی بھی حصے میں دہشت گردی ناقابل برداشت ہوگی۔ (16) کراچی آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ (17) بلوچستان حکومت کو تمام اسٹیک ہولڈرز سے مفاہمت کا اختیار دیا جائے گا۔ (16) فرقہ وارانہ دہشت گردی کرنے والوں کے ساتھ نہایت سختی سے نپٹا جائے گا۔ (19) افغان پناہ گزینوں کے معاملے کے لیے جامع پالیسی مرتب کی جائے گی۔ (20) صوبائی انٹیلی جنس اداروں کو دہشت گردوں کے مواصلاتی رابطوں تک رسائی دینے اور انسداد دہشت گردی کے اداروں کو مضبوط بنانے کے لیے فوجداری عدالتوں میں اصلاحات کے عمل کو تیز تر کیا جارہا ہے۔
آپ برطانیہ کی مثال لیں۔ یہاں سیون سیون برپا ہوا۔ اس کے فوراً بعد برطانوی حکومت نے اپنی پالیسیاں اس طرح مربوط کیں کہ مزید حملوں کا اندیشہ ختم ہوکر رہ گیا۔ امیگریشن کے قانون میں ترامیم ہوئیں۔ مشکوک سرگرمیاں کرنے والے پکڑے گئے اوربرطانیہ نے دہشت گردی کے محرکات کو اپنے مکمل کنٹرول میں لے لیا۔ اسپین میں دہشت گردی کے بعد ملک کی ایجنسیاں فعال کی گئیں اور اسپین میں پھر کبھی ایسا واقعہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ سعودی عرب کی مثال دیکھیں۔ کئی مطلوب دہشت گردوں کے اس ملک سے تعلق کے باوجود سعودی عرب ہر طرح کی بدامنی سے محفوظ رہا ہے اور ہمیں یہاں امن و امان کا کوئی بگاڑ دکھائی نہیں دیتا۔
پاکستان کرئہ ارض کے اُن ملکوں میں سے ہے جہاں پالیسیوں کی کوئی سمت متعین نہیں ہے۔ ہم پر تیزرو کے ساتھ دوڑتے ہیں۔ کچھ دور تک چل کر مخالف سمت میں دوڑنا شڑوع کردیتے ہیں۔ کوئی واقعہ ہمیں جھنجھوڑتا ہے۔ ہم خوابِ غفلت سے بیدار ہوتے ہیں، خوب ہاتھ پائوں مارتے ہیں اور پھر واپس بے بسی اور لاچارگی کے سمندر میں غوطے کھانا شروع کردیتے ہیں۔ ہم اکتوبر 2001ء کے بعد سے دہشت گردی کے شکار ملکوں میں عرصہ تک پہلے نمبر پر رہے ہیں۔ 50 ہزار افراد ان شعلوں میں راکھ ہوئے۔ ایک کھرب ڈالرز ہماری معیشت کو نقصان ہوا۔ لاکھوں لوگ اپاہجوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمارے اسکول، مدرسے، دفاتر، شاپنگ پلازے اس آگ میں جل گئے۔ ہم نے متعدد بار سوئے ہوئے ایوانوں میں تقریریں کیں۔ کمیٹیاں بنائیں او رپھر اُنہیں داخل دفتر کردیا۔ مدتوں تک ہم کسی دُشمن کا تعین نہ کرسکے۔ کبھی ہم را، سی آئی اے اور موساد کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے۔ کبھی ہم طالبان کے مختلف گروہوں سے اس کے ڈانڈے ملاتے۔ عملی میدان میں ہماری ایجنسیاں صرف اطلاع رساں اداروں کا کام کرتیں کہ جلد دہشت گردی کی کوئی بڑی واردات ہونے جارہی ہے۔ 16 دسمبر کا خونیں دن طلوع ہوا تو ہم نے 145 بچوں کے خون سے اسے غسل کرتے ہوئے دیکھا۔ ملک بھر میں ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔ فوراً پھانسی گھاٹوں پر سرگرمیاں دیکھنے میں آنے لگیں۔ دھڑا دھڑ پھانسیاں شروع ہوگئیں۔ 24 دسمبر کو وزیراعظم کی سربراہی میں 11 گھنٹے کا ایک اجلاس ہوا۔
اُس میں 20 سفارشات کو منظور کرلیا گیا۔ اُسی رات وزیراعظم ٹی وی اسکرین پر نمودار ہوئے اور قوم کے سامنے یہ ساری طے شدہ سفارشات رکھ دیں۔
ہر شے کی الٹ پلٹ کرتے وقت ہمیں خیال رکھنا ہوگا کہ وہ دینی لوگ جو بے موت ہوکر وطن کی خدمت کررہے ہیں، کہیں اُنہیں ہی شکنجے میں نہ کس لیا جائے۔ اونٹ کا تعاقب کرنے والے صرف اُسی کے پیچھے جائیں۔ ہم کہیں انقلاب برپا کرتے ہوئے اپنا دینی محور نہ چھوڑ دیں۔ کہیں ہم معاشرے کو سدھارتے ہوئے لبرل اور سیکولر نظریہ حیات کو اپنا منشور نہ بنالیں۔ حکومت بڑے شوق سے آپریشن کرے، مگر پہلے کارگر پالیسیاں بنائی جائیں۔ معاشرے کو تنگ نظری اور تنگ دستی سے پاک کیا جائے۔ افغانستان کے بارڈر پر امن قائم کیا جائے۔ ہر مسلح گروہ کو حکومتی رٹ کے نیچے لایا جائے۔ افغان مہاجرین کو اُن کے وطن واپس بھیجنے کے لیے حکمت عملی بنائی جائے۔ جو مدارس میانہ روی کو شعار بناکر بچوں کو دین و دنیا کی تعلیم دے رہے ہیں، اُن پر شب خون نہ مارا جائے۔ این جی اوز کو خوش کرنے کے لیے دین کی بیخ کنی نہ کی جائے۔ سزائے موت کو امریکا اور یورپ کی خوشنودی کے ساتھ منسلک نہ کیا جائے۔ دیکھا جائے کہ موت کی سزا پانے والے کو قانون کے سارے مرحلوں سے گزارکر موت کی سرحد تک لے کر جایا گیا ہے۔ (باقی صفحہ5پر) فوجی عدالتوں کا نظام کار کیا ہوگا؟ وہاں منصف کن بنیادوں پر سزائیں دیں گے؟ اس سارے نظام پر ٹھنڈے دل سے غور و غوض ضروری ہے۔ تند و تیز ہوائوں میں اُڑتے پتوں کی طرح ہم اپنی منزل گم نہ کر بیٹھیں۔ معاشرتی بگاڑ کی جڑیں دریافت کیے بغیر ہم کسی بھی محاذ پر کامیاب نہ ہوپائیں گے۔ عقل و فہم کو تج کر ہم کسی بھی بڑی کامیابی سے میلوں دور چلے جائیں گے۔ امریکا اور یورپ کی اندھی تقلید اور ہمارے معاشرتی ڈھانچے سے ناآشنائی مسائل کو اور گھمبیر کردے گی۔ سمجھ بوجھ عقل دانائی کو ایسے ہر عمل کا پشتیبان ہونا ہوگا جسے ہم اختیار کرنے جارہے ہیں۔
ہمیں شمالی وزیرستان آپریشن کو جلد پایۂ تکمیل تک پہنچاکر مہاجرین کو اُن کی بستیوں میں منتقل کرنا ہوگا۔ فاٹا میں امن و امان کے لیے ایک ایسا ریاستی ڈھانچہ بنایا جائے جو وہاں کے تمام مسائل حل کرے اور لوگوں کو امن و امان کے دُشمن عناصر کے ہاتھوں یرغمال بننے سے روکے۔ ہمارے پانچوں صوبوں کو ایسی تعلیم پروان چڑھانی چاہیے جو دین کی روح کے ساتھ بچوں کو فنی تعلیم دے۔ بچوں کو کتابیں اَٹانے کی بجائے ایسے ہنر سکھائے جائیں جو اُن کو رزق کے حصول کے لیے دست نگر نہ بنائیں۔ ہماری تعلیم ڈگریو ںکے حصول کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ یوں ہم بے روزگاری کی طغیانیوں کی زد میں ہیں۔ ہر برس بے روزگاروں کی تعداد بڑھنے سے معاشرے میں خلفشار اور بدامنی بڑھ رہی ہے۔ جرائم میں اضافہ ہورہا ہے۔ بچے نت نئے نشوں کے عادی ہوچکے ہیں۔ سماج دُشمن عناصر نے بے شمار نوجوانوں کو اپنے نرغے میں لے رکھا ہے۔ ہمارے 3 کروڑ بچے مدرسوں اور اسکولوں سے یکسر دور ہیں۔ اُن کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ آنے والے برسوں میں اُن کی تعداد بڑھنے سے معاشرہ مزید ابتری کا شکار ہوجائے گا۔ غربت کو سب بیماریوں کی جڑ کہا جاتا ہے۔ ہمارے 12 کروڑ 70 لاکھ نفوس خط غربت سے نیچے ہیں۔ اُن کی تعداد بے رحم حکومتی پالیسیوں سے مزید بڑھتی جارہی ہے۔ ہمارے ہسپتال مذبح خانے بن چکے ہیں۔ دوائیاں ناپید ہیں، ڈاکٹر، نرسیں فراہم نہیں ہیں۔ علاج معالجے کا سارا نظام مریضوں کی کھال اُتارلینے پر موقوف ہوجاتا ہے۔ ہمیں ہر مریض کو مفت طبی سہولتیں فراہم کرنے کی پالیسی بنانا ہوگی۔ شہروں میں صاف پانی کی عدم دستیابی نے بیماریوں میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے۔
ملک کے اکثر حصوں میں تھر جیسی قحط سالی نے بچوں، بڑوں اور بوڑھوں کو زندہ لاشیں بنادیا ہے، حکومتیں بیانات بازی کی گرد میں حقیقتوں کو چھپائے جارہی ہیں۔ ہمیں ملکی دفاع کے علاوہ عوام کے دفاع کی بھی پالیسیاں بنانی چاہییں۔ ملک صرف سرحدیں نہیں ہوتے، اگر عام عوام کے دل زندگی کی حرارت سے خالی ہوجائیں تو ایسے ملکوں کی حفاظت ایک بے معنی فعل بن کر رہ جاتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ ملک رئوسا، جاگیرداروں، سرمایہ کاروں کے لیے جنت بنا ہوا ہے۔ ہماری اسمبلیوں کو ٹیکس نادہندگان نے لبالب بھر رکھا ہے۔ بیرونی قرضوں کے انباروں میں اضافہ کرکرکے وزیر، سفیر اور ارکان قومی و صوبائی اسمبلی ملکی دولت کو لوٹ رہے ہیں۔ ہمارے اردگرد کھربوں روپوں کی سڑکیں اور جنگل بیس بنے جارہی ہیں۔
اس ساری ترقی کے پڑوس میں زندگی بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی کے باعث سسک سسک کر بسر ہورہی ہے۔ ہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ے باج گزار بن کر رہ گئے ہیں۔ آنے والی نسلوں پر قرضوں کا فی کس بوجھ آئے روز بڑھے جارہا ہے۔ ملک کے خوشحال طبقوں نے انکم ٹیکس کے نظام میں ایسی نقب لگا رکھی ہے کہ حکومتی خزانہ خالی ہی رہتا ہے۔ سیلز ٹیکس کے نام پر حکومت غریبوں کی روٹی کا تین چوتھائی ہتھیالینے کی پالیسی پر کاربند ہے۔ اکیسویں صدی میں ہمارے شہر بجلی گیس کی سہولت سے محروم ہیں۔ بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ نے معاشرتی ترقی پر سخت کاری وار کر رکھا ہے۔ انڈسٹری بند ہوکر رہ گئی ہے۔ گیس کی بندش نے زندگی کو ایک عذاب بنا رکھا ہے۔ ہمارے حکمران سچی انسانی ہمدردی سے یکسر محروم ہیں۔ اُن کا طرز رہائش بارشاہانہ ہے۔ ہمارے حکومتی وسائل اُن کی جنبش ابرو پر حرکت میں آجاتے ہیں۔ ملک ہر سال لاکھوں سیلاب متاثرین کو بھگتتا ہے۔ ہم نے ڈیموں، بندوں اور بیراجوں کی تعمیر روک رکھی ہے۔ بزنس مینوں کے مکمل کنٹرول کی وجہ سے ہر تعمیری منصوبے میں اُن کے پنجے گھسے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ہماری اپوزیشن حرص اقتدار میں بالکل اندھی ہوکر ملک کو کھربوں ڈالرز کا نقصان پہنچادیتی ہے۔ ہمارے لیڈروں کی کورچشم جدید تاریخ میں کہیں بھی مثال سے لگا نہیں کھائی۔ جرائم کی افراط اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کج فہمی نے معاشرے کو خوف و ہراس کی جاگیر بنادیا ہے۔ ہمارا عدالتی نظام میں ایسے ایسے رخنے ہیں کہ طاقتور مجرم بآسانی اُن سے نکل جاتا ہے۔ بے بسوں اور کمزوروں کو پیس کر یہ نظام نرملہ بنادیتا ہے۔ جیلوں کی فضا ایسی ہولناک ہے کہ معمولی جرم میں سزا یافتہ بھی یہاں سے اعلیٰ ڈگری کے ساتھ فارغ تحصیل ہوتا ہے۔ غیرملکی ایجنسیوں کے لیے پاکستان چرنے کا ایک اعلیٰ کھیت بن چکا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق 50 سے زائد یہ ایجنسیاں ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کررہی ہیں۔ ہماری سرحدیں ہر ناپسندیدہ عنصر سے فی الفور خالی کروائی جائیں۔ ڈرون حملوں کی صورت بے گناہوں کا خون کرنے کے عمل کو بھی روکنا ہوگا۔ ہم کبھی نہیں جان پاتے کہ مرنے والوں میں خطاکار کتنے تھے؟ اور معصوم کتنے؟ ملک میں ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان کو ختم کرنے کے لیے بھی عمل کی فوری ضرورت ہے۔ لسانی قبائلی بنیادوں پر تقسیم کو روکنا ہوگا۔ ملکی بیورو کریسی نے رشوت اور کرپشن کو صنعت کا درجہ دے رکھا ہے۔ ہمارا سارے کا سارا نظام ایک آدھ کا ایک فراڈ پر مبنی ہے۔ اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو ان ساری کی ساری بُرائیوں کی جڑ ایک ہے۔ اگر ہم سب پاکستانی دین کے صرف ایک کلیے کو اپنالیں تو ملک بھر سے یہ ساری بُرائیاں ختم ہونا شروع ہوجائیں گی۔
وہ کلیہ یہ ہے کہ ہم ہر قسم کی صورت حال میں سچ بولیں۔ ہمارے لیڈر، ہمارے فوجی حکام، ہمارے اپوزیشن لیڈر، ہماری سارے کی ساری اشرافیہ، ہمارے بیورو کریٹ، ہمارے سیاست دان اگر آج سے سچ اور صرف سچ بولنا شروع کردیں تو یہ دُھند چھٹنا شروع ہوجائے گی۔ راستے سامنے دکھائی دینا شروع ہوجائیں گے۔ ہم پھر کبھی کھائیوں میں نہیں گریں گے۔ آج کی ساری بربادی صرف اس وجہ سے آئی کہ ہم نے جھوٹ کاشت کیا۔ جھوٹ کی آبیاری کی یوں جھوٹ کا یہ زہریلا پھل آج ہمارے کام و دہن کو اپنی کڑواہٹ سے بھررہا ہے۔ ہرحال میں سچ بولنے کی حدیث نبوی میں ہی ہمیں ان خوفناک معاشرتی عذابوں سے بچاسکتی ہے۔ روح کو مشکبار کردینے والا یہی دین کا عطر ہے۔
زہر کی دیگ/ سامراجی طاقتوں کی خونی بساطیں
تحریر یاسر محمد خان
’’اینگس ولسن‘‘ (Angus Wilson) بیسویں صدی کا ایک معروف امریکی ادیب تھا۔ اُس نے اپنی تحریروں میں مغربی کلچر کا پوسٹ مارٹم کیا۔ اُس کو قدرت نے ایک روشن ضمیر عطا کیا تھا۔ وہ مغربی چکاچوند سے ذرا برابر بھی متاثر نہ تھا۔ اُس نے انسانیت کو حیوانیت کی کند چھری سے ذبح ہوتے ہوئے دیکھا۔ اُس نے مجبور مخلوق کو یورپی درندگی کے ہاتھوں پامال ہونے کا گہرا مشاہدہ کیا۔ اُس کا سب سے زردار ناول ’’The Old Man at the Zoo‘‘ ہے۔ یہ 1961ء میں شائع ہوا۔ دنیا بھر کی زبانوں میں اس کا مہینوں میں ترجمہ ہوگیا۔ اس ناول کی کہانی ایک اٹامک وار کے گرد گھومتی ہے۔ یورپی درندے دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجادیتے ہیں۔ شہروں اور قصبوں کو ملبے کا ڈھیروں میں تبدیل کردیتے ہیں۔ عورتوں کو بیوا اور بچوں کو یتیم بنادیتے ہیں۔ بستی بستی، قریے قریے موت رقص کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ہر سمت آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ لاشوں کے ڈھیر اور زخمیوں کی کراہوں کے علاوہ کچھ دکھائی اور سنائی نہیں دیتا۔ لوگ گداگروں کی طرح کوڑے کے ڈھیروں سے رزق تلاش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ زمین مردار خوروں کے لیے جنت بن جاتی ہے۔ قیامت کی سرانڈ کرئہ ارض کو اپنے حصار میں کس لیتی ہے۔ سفید فام وحشی پر سمت موت کے بیوپاری بنے گھومتے ہیں۔ ساری انسانیت اُن کے دیے زخموں سے نڈھال دکھائی دیتی ہے۔
ان سنگین ترین حالات میں امریکا کی انسداد بے رحمی حیوانات کی تنظیم چڑیا گھروں کے جانوروں کی جان بچانے کے لیے اپنے لامحدود وسائل حرکت میں لے آتی ہے۔ اس کے کارکن چڑیا گھروں کے گرد حصار کس لیتے ہیں۔ وہ انہیں بارود کی بو سے بچانے کے لیے سو سو جتن کرتے ہیں۔ اُن کی خوراک کے لیے بہترین گوشت مہیا کیا جاتا ہے۔ اُن کی صحت مندی کے لیے مختلف ٹیسٹ لیے جاتے ہیں۔ بیمار ہونے والے جانوروں کے لیے بہترین ویٹنری ڈاکٹر مہیا کیے جاتے ہیں۔ چڑیا گھروں کو سائونڈ پروف بنادیا جاتا ہے تاکہ جنگی دھمک جانوروں تک نہ پہنچ جائے۔ امریکی اور یورپی ماہرین حیوانات گاہے گاہے وہاں دورے کرتے ہیں۔ جانوروں کو ہر ممکن سہولت پہنچانے کے لیے تگ و دُو کرتے ہیں۔ معاہدے اور ایم او یوز سائن کیے جاتے ہیں کہ جنگ صرف انسانوں کو ضرر پہنچانے کے لیے ہے۔ حیوانات چونکہ بے قصور ہوتے ہیں، اس لیے اُن بے زبانوں کو جنگی شعلوں میں نہیں گھسٹنا چاہیے۔
٭ بلی کتوں کے حقوق کا پرچم بلند کرنے والوں نے حضرت انسان کے ساتھ جو کچھ کیا، یہ حالیہ رپورٹ اُس دیگ کا فقط ایک دانہ ہے۔ ٭ اکیسویں صدی کے ان ابتدائی سالوں میں امریکیوں نے مسلم دنیا میں ہر سمت حدنگاہ بربادی بکھیری ہے۔ گولہ بارود کی تہیں بچھائی ہیں۔ ٭ ہمارے راستوں میں سی آئی اے، موساد اور ’’را‘‘ نے بارودی خندقیں بچھارکھی ہیں۔ ہمیں اپنے اصل دُشمنوں کو پہچاننا ہوگا۔ ٭
ساری دنیا کے چڑیا گھروں کے باہر بچوں کے لاشے بکھرے پڑے ہوتے ہیں۔ خوراک کے لیے بھیک مانگتے گداگر نظر آتے ہیں۔ آخرکار کچھ مجبور مفلس بوڑھے چڑیا گھروں میں داخل ہوکر التجا کرتے ہیں کہ انہیں جانور ہی سمجھ لیا جائے اور یہاں سکونت اختیار کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے وہ جانوروں کا راتب بڑی خوشی سے کھانے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ امریکی ماہرین اُن کی التجائوں کو رَد کردیتے ہیں۔ انہیں چڑیا گھروں سے بے دخل کردیا جاتا ہے۔ انہیں ٹھڈوں اور مکوں سے باہر دھکیل دیا جاتا ہے۔ وہ باہر سڑکوں پر تڑپ تڑپ کر مرجاتے ہیں۔ لاکھوں انسانوں کے مرنے کے باوجود امریکی جشن مناتے ہیں کہ کرئہ ارض کے حیوانات کی تمام نسلیں محفوظ ہیں۔ سیمینار منعقد ہوتے ہیں۔ داد و تحسین کے ڈونگرے برستے ہیں۔ ’’اینگس ولسن‘‘ ناول کے آخر میں بڑی دردمندی کے ساتھ سوال کرتا ہے: ’’آیا مغربی سفید فام لوگوں کے لیے انسان زیادہ قیمتی ہے یا حیوان؟ ایسی تہذیب جو انسانوں کو مارکر جانوروں کو بچائے، اُسے حیوانی تہذیب ہی کیا جاسکتا ہے۔
امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اسی حیوانی تہذیب کی سب سے بڑی یادگار ہے۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے مسمار ہوتے ہی اس نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو اذیتیں دے دے کر مارنا شروع کردیا۔ 8 کروڑ ڈالر صرف کرکے ایذا رسانی کے نت نئے طریقے سیکھے۔ گوانتاناموبے اور دوسری جیلوں میں قیدیوں کو ہفتوں نیند سے محروم رکھا گیا۔ انہیں پانی میں مسلسل غوطے دیے گئے۔ اُن کے زخموں کو نمک سے لبالب بھردیا گیا۔ پشت سے پیٹ میں خوراک ڈالنے کا ظالمانہ طریقہ استعمال کیا گیا۔ اُن کے ناخن اُکھاڑے گئے۔ انہیں چھوٹے چھوٹے پنجروں میں قید رکھا گیا۔ اُن کے کانوں کے پاس قیامت کا شور اُٹھانے والا میوزک بجایا گیا۔ انہیں بجلی کے کرنٹ لگائے گئے۔ اُن کی آنکھوں کے سامنے کلام پاک کی بے حرمتی کی جاتی رہی۔
امریکی سینیٹ کی کمیٹی نے 5 سالہ محنت کے بعد 60 لاکھ خفیہ کاغذات میں سے 485 ورق شائع کیے ہیں۔ ان اوراق میں جابجا کالی سیاہی بکھری ہوئی ہے۔ ظلم کی ناقابلِ بیان داستانیں چھپالی گئی ہیں۔ اوباما شرم کے مارے منہ چھپائے پھررہا ہے۔ سی آئی اے کا چیف ’’برینن ٹارچر‘‘ کے دفاع کے لیے بودی اور بے ہنگم دلیلوں کا پہار کھڑا کرتا رہا۔ سی آئی اے نے سینٹ پر دبائو بڑھائے رکھا کہ رپورٹ شائع نہ ہو۔ اسے مسلم دنیا میں ہلچل مچادینے والی دستاویز قرار دے کر اس کا گلہ گھونٹنے کی کوشش کئی سال ہوتی رہیں۔ ڈیان فائن اسٹائن نامی سینیٹر نے اس کو میڈیا کے حوالے کیا۔ رپورٹ کے شائع ہوتے ہی امریکا سمیت دنیا بھر میں ہلچل مچ گئی۔ امریکی سفارت خانوں کے گرد پہرا بڑھادیا گیا۔ امریکی میڈیا نے اس رپورٹ کو شرمناک قرار دیا۔ سی این این پر کئی دنوں مباحثہ ہوتا رہا۔ کریہہ شکل سی آئی اے ایجنٹ انسانیت سوز اذیت رسانی کے طریقوں کا دفاع کرتے رہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر سے مشتبہ افراد کو امریکی تحویل میں لیا گیا۔ دوران حراست کئی افراد اذیتیں سہہ نہ پائے اور فوت ہوگئے۔
پاکستان نے نائن الیون کے بعد اس قیامت کو جھیلا ہے۔ ہر داڑھی والے کو مشکوک سمجھا جانے لگا۔ پاکستان میں سی آئی اے نے ذیلی دفاتر قائم کرلیے۔ ایذارسانی کے سارے حربے آزمائے جانے لگے۔ قیدی بگرام اور گوانتاناموبے کے عقوبت خانوں کی سمت پرواز کرنے لگے۔ ہمارا قانون، ہماری پولیس، ہمارا سارا عدالتی نظام بے بسی کی تصویر بن گیا۔ ملک کے گلی کوچوں میں امریکی خفیہ ایجنٹ بے مہار بیلوں کی طرح دوڑے پھرنے لگے۔ امریکی پاگل کتوں کے کاٹنے پر ہم بائولہ پن کا شکار ہوگئے۔ ہم پر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف قرضوں کا ہن پھینکنا شروع ہوگیا۔ یورپی جادوگروں کے ہاتھوں میں ہماری دستار گیند کی صورت ہوا میں اُچھلنے لگی۔ بے حمیتی، بے غیرتی، ملت فروشی کو Enlightened Moderationکا نعرہ بنادیا گیا۔ 2001ء سے شروع ہونے والا پاگل پن کا دورہ پوری ایک دہائی پر محیط ہوگیا۔ اس دوران ہزاروں بے گناہ پاکستانی سی آئی اے کی رتھ کے تلے کچلے گئے۔ اُن کا وجود معدوم ہوکر رہ گیا۔ اُن کی لاشوں کا کیا بنا؟ اُن کا مرقد کس گلی کوچے میں ہے؟ اُن کو کفن بھی نصیب ہوا کہ نہیں؟ کسی کے پاس ان سوالوں کا جواب نہیں۔ ہم اسی پالیسی کی فصل آج کاٹ رہے ہیں۔ ہمارا انصاف تو بے اولاد ہی مرگیا، البتہ ظلم نے بچے چن چن کر ہمارے گلی کوچے بھردیے ہیں۔ بدی کا پہیہ گھوم کر ظالموں کے سروں پہ آن بجا ہے۔
آپ نے مغربی ذرائع ابلاغ پر ایک اصطلاح ضرور سنی ہوگی۔ ہر یورپی White Man’s Burden کا ذکر کرتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ طوہاً و کرہاً سفید فاموں کو دنیا کو مہذب بنانے کا بوجھ اُٹھانا ہی پڑے گا۔ کندھے اُچکاکر چہروں پہ بے نیازی طاری کیے یہ بدطینت مخلوق ساری انسانیت کی تہذیب و ترقی کا بوجھ اُٹھائے ہوئے ہے۔ یہ لوگ جو بظاہر سروں پہ دھوپ کی گٹھڑی اُٹھائے پھررہے ہیں، ان کے دلوں میں شمشان کی راتوں جتنا اندھیرا ہے۔ بلی کتوں کے حقوق کا پرچم بلند کرنے والوں نے حضرت انسان کے ساتھ جو کچھ کیا، یہ حالیہ رپورٹ اُس دیگ کا فقط ایک دانہ ہے۔ یہ ساری کی ساری دیگ زہرِ ہلاہل سے بھری ہوئی ہے۔ اس میں جلی ہوئی ہڈیوں کی راکھ ہے۔ زخموں کی رَستی ہوئی پیپ ہے۔ انسانی گودے کا شوربہ ہے۔ لہو کی رنگ سے یہ سارے کی ساری لال ہے۔
امریکی جنگی الائو نے اس دیگ کو پکایا ہے اور اب پھر فرمان یہی ہے کہ اگر تہذیب یافتہ کہلانا ہے، اکیسویں صدی کا باشعور انسان ہونے کا خطاب پانا ہے تو امریکی بائولوں کا تیار کردہ یہ تہذیبی پکوان ضرور چکھا جائے۔ اکیسویں صدی کے ان ابتدائی سالوں میں امریکیوں نے مسلم دنیا میں ہر سمت حدنگاہ بربادی بکھیری ہے۔ گولہ بارود کی تہیں بچھائی ہیں۔ ڈرون حملوں سے پتہ نہیں کتنے بے گناہوں کا خون کیا ہے؟ پاکستانی لیڈر شپ کو وقت کی اس گہری ہوتی ہوئی دھند میں اپنے اصلی دُشمنوں کو پہچاننا ہوگا۔ ہمارے راستوں میں سی آئی اے، موساد اور ’’را‘‘ نے بارودی خندقیں بچھارکھی ہیں۔ ہمیں خود کو جاننے کے علاوہ اپنے اصل دُشمن کو بھی پوری طرح پہچاننا ہوگا۔ اس بھیانک اندھیرے میں عقل و خرد کی شمعیں روشن کرنا ہوں گی۔
ملٹی نیشنل کمپنیوں کا خونی شکنجہ
تحریر یاسر محمد خان
’’ہیپی ازم، ، کی ابتدا 1960ء کی دہائی میں ہوئی۔ یہ امریکا کے مغربی ساحلوں پر پروان چڑھی۔ مہینوں سالوں میں یہ ساری مغربی دنیا میں پھیل گئی۔ نوجوان نسل بڑی ہوئی شیو، پھٹی پتلونوں، جھاڑ جھنکاڑ بالوں اور میل جمی شرٹوں کے ساتھ گلی کوچوں میں گھومتے۔ بیٹل موسیقی اپنے ہیجانی اور تیز سروں کے ساتھ ان کی ’’روحانی غذا‘‘ بن گئی۔ یہ کلبوں میں تھرکتے اور باروں میں تیز نشے کرتے تھے۔ یہ کلچر مغرب سے 1980ء کی دہائی میں مشرق منتقل ہوگیا۔ این جی اوز نے مشرقی روایات کو منقلب کرنا شروع کیا۔ ’’اینگری ینگ مین‘‘ ہمارے ہاں کا مشہور کردار بن گیا۔ نوجوان ڈسکو، موسیقی کے دلدادہ ہوگئے۔ ان کے لباس کی تراش خراش یکسر مغربی ہوگئی۔ عربی اور فارسی کی بجائے انگریزی زبان تہذیب کی واحد علامت قرار دی جانے لگی۔ ساری معاشرتی اقدار کا جنازہ نکلنا شروع ہوگیا۔ این جی اوز نے معاشروں میں اپنے نوکیلے پنجے گاڑدیے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے پہلے پہل ہمیں پیپسی اور میکڈونلڈ کا شائق بنادیا۔ میڈیا ان بھوکے صیلیبوں کی یلغار کی زد میں آگیا۔ زندگی کا قدرتی پن ختم ہوگیا۔ ہم ایک بے روح بھاگ دوڑ کا حصہ بن گئے۔ اشتہار بازی نے ہماری مادّی ہوس کو چار چاند لگادیے۔ کرتے کرتے ہم ملٹی نیشنل کمپنیوں اور این جی اوز کی بچھائی شطرنج کے ادنیٰ مہرے بن گئے۔
دنیا بھر میں پھیلی ہوئی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں 620 ہیں۔ ان کے مجموعی اثاثے 50 ٹریلین ڈالرز سے زائد ہیں۔ ایشیاء کی معیشت پر 40 بڑی کمپنیاں قابض ہوچکی ہیں۔ ان کمپنیوں نے جن ملکوں کو دیوالیہ نکالا ان میں صومالیہ، روانڈا، سوڈان، شمالی کوریا، ایل سلواڈور، زمبابوے، مالڈوا پیرو، یوکرائن، البانیہ، آرمینیا، برکینا فاسو، کیمرون چاڈ، کانگو، ایتھوپیا، گیمبیا، ہیٹی، ملاوی، مالی، سینیگال، ناہجریا اور تنزانیہ شامل ہیں۔ ٹڈی دل کے لشکروں کی طرح یہ چوس چوس کر ملکوں کو ناکارہ بنائے جارہی ہیں۔ صرف نیسلے کمپنی ہر سال لاکھوں ٹن خوراک سمندر میں غرق کردیتی ہے۔ مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا ہوتی ہے اور قیمتیں بڑھتی رہتی ہیں۔ یہ کمپنی دنیا بھر سے زرعی اجناس خریدنے میں اوّل نمبر پر ہے۔ ان سے یہ اپنی غذائی مصنوعات بناتی ہے۔ پھر ترقی پذیر ملکوں میں انہیں من چاہے نرخوں پر فروخت کرتی ہے۔ یہ کمپنی اتنی امیر ہے اگر چاہے تو دنیا بھر کے غریبوں کوکئی سال مفت خوراک مہیا کرسکتی ہے۔
٭ این جی اوز کے جال اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے حصار کو فوراً توڑنا ہو گا۔ آرمی چیف کا یہ بیان ایک ’’ویک اپ کال‘‘ ہے۔ ہر ملک دشمن این جی اوز کے لیے دروازے سختی سے بند کرنا ہوں گے۔ ٭ ملٹی نیشنل کمپنیوں سے ملکی معیشت کو سارے خطرات کے ادراک کی ضرورت ہے۔ یہ ملک ہر گورے کے لیے جنت بنتا جا رہا ہے۔ سرمایہ کاری اور نقب زنی میں تفریق کرنا ہو گی۔ ٭
خوراک سے ہم زراعت کی طرف آتے ہیں۔ ’’بورلاگ‘‘ نامی امریکی سائنسدان نے ایک بیج ایجاد کیا جس نے زمین دوگنی فصل اُگاتی تھی۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ’’بولاگ‘‘ کو بھاری تنخواہ پر ملازم رکھ لیا۔ یہ بیج پاکستان میں 70 کی دہائی میں درآمد ہوا۔ اگلے برس ہمیں بیج کے علاوہ اس کمپنی کی کھاد خریدنا پڑی۔ اس سے اگلے برس ہمیں کیڑے مار دوائیاں اس کمپنی سے بھاری قیمت پر خریدنا پڑیں۔ اس کمپنی نے یہاں فیکٹریاں لگا لیں۔ یہاں کی کھپت بڑھنا شروع ہوگئی۔ زمین کسی بھی دوسرے بیج کو قبول کرنے سے انکاری ہوگئی۔ پانی کو یہ پیاسا بیج کئی گنا زیادہ مانگنا شروع ہوگیا۔ ملک میں ٹیوب ویل اس کمپنی نے لگانا شروع کردیے۔ سارے منسلکہ برقی آلات اسی کمپنی سے آنا شروع ہوگئے۔ بجلی کا سامان، تاریں، کھمبے اور میٹر بھی وہی کمپنی سپلائی کرنا شروع ہوگئی۔ یوں ملکی زراعت پر وہ تنزلی آئی کہ اجناس برآمد کرنے والا ایک بڑا ملک پاکستان اناج کے لیے محتاج ہو گیا۔ یہاں بھی وہی ملٹی نیشنل کمپنی آگے آئی اور دوسرے ملکوں سے ہمیں غذائی اجناس اسی کے توسط سے آنے لگیں۔ یوں ہم زراعت کے شہسوارں سے نکل کر دست نگر ہو گئے۔
ادویات مہیا کرنے والی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے 70کی دہائی میں پاکستان کا اس وقت بائیکاٹ کر دیا جب بھٹو نے ہر دوا ملک میں بنانے کا اعلان کیا۔ حکومت مجبور ہوئی۔ یوں سفید فام بھیڑے مجبور مخلوق کی کھال اتارنے لگے۔ ہندوستان کی نسبت ہم جان بچانے والی ادویات کے 66فیصد زیادہ نرخ دے رہے ہیں۔ بچوں کی ایک بنیادی دوا Gravinateزرداری حکومت میں 18روپے کی ملتی تھی۔ آج اس حکومت کے ڈیڑھ سالہ اقتدار میں اس کی قیمت 80روپے ہو چکی ہے۔ یوں دوا کی قیمت میںچار گنا سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔
ادویات بنانے والی صرف ایک کمپنی چاہے تو دنیا کے ہر شخص کا مفت علاج ہو سکتا ہے۔ دو کمپنیاں ملیں تو دنیا کی کل آبادی کو پوری زندگی کے لیے ہسپتال کا ایک کمرہ فراہم کرسکتی ہیں۔ اگر 3 کمپنیاں مل جائیں تو کرئہ ارض کے سارے مریضوں کے لیے درمیانے درجے کا ایک ایک ہسپتال بنایا جاسکتا ہے۔ ادویات بنانے والی 2 کمپنیاں ایسی ہیں جو دنیا کے ہر مریض کو 12، 12 گھنٹے کے لیے 2 ڈاکٹر اور 4 نرسیں مہیا کرسکتی ہیں۔ اگر ادویات بنانے والی 5 بڑی کمپنیاں زندگی بچانے والی ادویات کو اپنے چنگل سے آزاد کردیں تو مہلک امراض سے مرنے والوں کی تعداد میں 90 فیصد کمی آسکتی ہے۔ یہ کمپنیاں اگر اشتہارات، دوائوں کی پروموشن پر سیمینارز اور ورکشاپس بند کر دیں تو دنیاکی 3 سب سے غریب ملک مہلک امراض سے مرنے والوں کی زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔ سرجری کے آلات بنانے والی 2 کمپنیاں 4 سال تک دنیا کے تمام مریضوں کے مفت آپریشن کراسکتی ہیں۔ طاقت کی دوائیاں بنانے والی کمپنیاں 10 سال تک تمام نومولود بچوں کو ڈبے کادودھ فراہم کرسکتی ہیں۔ صرف 2 کمپنیاں چاہیں تو د نیا سے ٹی بی، کینسر اور ایڈز جیسے مہلک امراض کو کو جڑوں سے اُکھاڑ سکتی ہیں۔
ان سب کارہائے خیر کی بجائے یہ مریضوں کے جسم سے ایک ایک خون کا قطرہ چوسے جا رہی ہیں۔ ان کے اکانٹوں میں ہر دن بلین کے حساب سے روپے آرہے ہیں۔ یہ غریب ملکوں کے کرپٹ حکمرانوں کے ساتھ اتحاد بناکر کر ئہ ارض پر بیماری، جہالت، مفلسی اور لاچاری کے جراثیموں کو پروان چڑھا رہی ہیں۔ شکیل آفریدیوں کے ساتھ مل کر ملکی بنیادوںکو کھوکھلا کر رہی ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح یہ تجارت کی غرض سے آئی تھیں۔ اب پاکستان مکمل طور پر ان کے نرغے میں آیا ہوا ہے۔ ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کا این جی اوز کے ساتھ بہنوں کا رشتہ ہے۔
پاکستان میں 60 ہزار سے زیادہ این جی اوز رجسٹرڈ ہیں۔ یورپی این جی اوز 50 ارب ڈالرز سے زیادہ کے اثاثے رکھتی ہیں۔ ان کے خفیہ فنڈز قطار و شمار سے باہر ہیں۔ انہوں نے لاکھوں ملازمین رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا ایجنڈا ملک کے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب سے اسلام کی روح کو خارج کرنا ہے۔ لوگوں کو اسی دنیا کے کھیل تماشوں میں اُلجھانا ہے۔ یہ این جی اوز حکومت پاکستان کے Curriculum Wing کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ نوجوان نسل کے بے راہروی کا شکار بنانا۔ نت نئے نشوں کا عادی بنانا۔ شعائر اسلام سے مکمل قطع تعلق کرکے زندگی گزارنا۔ مغربی رنگ ڈھنگ کو اسلامی معاشرے میں سمونا۔ اپنے آباء کے کارناموں کا تمسخر اُڑانا۔ داڑھی، نماز، تسبیح، عمامہ، منبر کا مذاق اڑانا یہ سب ان تنظیموں کے خفیہ ایجنڈے ہیں۔ پاکستان میں صلیبی اور صہیونی لابیاں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ ایک ایسی نوجوان نسل کو پروان چڑھا یا جارہا ہے جو دین، غیرت، حمیت سے واقف نہیں۔ بے راہروی پر مبنی لٹریچر اور انٹرنیٹ پر اخلاق سوز مناظر عام کردیے گئے ہیں۔ ایک طوفان ہے تباہی اور بربادی کا جس نے ہماری نوجوان نسل کو غرقاب کر رکھا ہے۔ یہ پھو ل اپنا جوبن دکھانے سے پہلے ہی کملاگئے ہیں۔
یہ وہ پس منظر ہے جس میں ہمارے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے 4 دسمبر کو دفاعی کانفرنس آئیڈیاز 2014ء اور سندھ پولیس کمانڈوز یونٹ سے خطاب کیا۔ انہوں نے ان غیرریاستی عناصر کو پاکستان کی سالمیت کے لیے بہت بڑا خطرہ قرار دیا۔ دشمن ہم میں گھس آیا ہے اور اندر سے وار کرکے ریاست کا سارا ڈھانچہ گرا دینے پر تُلاہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہماری حکومتیں دہائیوں سے ہمیںکھانے والی اس دیمک کو تلف کرنے پر توجہ دیتی۔ ہماری سیاسی حکومتیں اس معاملے میں سنگین غفلت کی مرتکب رہی ہیں۔ کئی اہلکار، بیورو کریٹ اور نام نہاد روشن خیال دانشور مغربی طاقتوں کے ایجنٹ رہے ہیں۔ یہ سراج الدولہ کی بجائے لارڈکلائیو سے ملے ہوئے تھے۔ ان بے رحم لوگوں نے اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے غریبوں کے تن سے کپڑے اتارلیے۔ ان کے ہاتھوں سے روٹی چھین لی۔ دوائوں کو ان کی دسترس سے دور کردیا۔ لوگ تشنہ کام صاف پانی کی تلاش میں بھٹکنے لگے۔ کتابوں سے زندگی کا رَس نچوڑ لیا اور اس کی بجائے انہیں زہر سے بھردیا گیا۔ سیکولر لادین طرزِ زندگی کو قوم کا شعار بنایا جانے لگا۔ ملی حمیت کی رگ جاں دبوچ لی گئی۔ روح کے سوت خشک کرکے حب دنیا کا شورابہ بھردیا گیا۔ ہمارے ہیرو صلاح الدین ایوبی کی بجائے مائیکل جیکسن بنادیے گئے۔ ہماری خاکستر میں فاطمہ بنت عبداللہ جیسی چنگاریاں بجھادی گئیں۔
ان کی بجائے میڈونا اور ڈیانا جیسی بدروحوں اور چڑیلوں کے قصے عام کردیے گئے۔ ملکی معیشت کا لہو چاٹ کر اسے یرقان زدہ بنا دیا گیا۔ رشوت ستانی اور کرپشن کے نامور ملی وجود کی ساری توانائیاں لے گئے۔ بڑھتے ہوئے قرضوں کے بھاری بوجھ کے نیچے انسانیت سسک رہی ہے۔ سودی نظام کی ہیروئن نے معاشرے سے ساری خیرو برکت چھین لی ہے۔
این جی اوز کے جال اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے حصار کو فوراً توڑنا ہو گا۔ آرمی چیف کا یہ بیان ایک ’’ویک اپ کال‘‘ ہے۔ این جی اوز کی آکاس بیل پوری طرح سے الگ ہوگی۔ ان بے مہارآزادی کو قانون کی سخت گرفت میں لانا ہوگا۔ پروٹوکولز اور ایس او پیز بنا کر انہیں رٹ کے نیچے لانا ہوگا۔ ہر ملک دشمن این جی اوز کے لیے دروازے سختی سے بند کرنا ہوں گے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں سے ملکی معیشت کو سارے خطرات کے ادراک کی ضرورت ہے۔ یہ ملک ہر گورے کے لیے جنت بنتا جا رہا ہے۔ سرمایہ کاری اور نقب زنی میں تفریق کرنا ہو گی۔ ہمیں ملٹی نیشنل کمپنیوں اور این جی اوز کے آگے آہنی دیوار کھڑی کرنی ہے۔ اس سیلاب کو مزید تباہی پھیلانے سے روکنے کی اشد ضرورت ہے۔
امریکی غرور کا غبارہ پھٹنے کو ہے
تحریر یاسر محمد خان
’’شیکسپیئر‘‘ مغربی ادب کا سب سے بڑا نام ہے۔ اس کے ڈرامے 4 سو سالوں سے پڑھے اور دیکھے جا رہے ہیں۔ اس کے ایک تاریخی ڈرامے کا نام ’’ہنری فور‘‘ ہے۔ اس ڈرامے میں اس نے ’’سرجان فالسٹاف‘‘ جیسا زوردار کردار تخلیق کیا۔ یہ مغربی دنیا کا سب سے زیادہ مزاحیہ کردار مانا جاتا ہے۔ ’’فالسٹاف‘‘ بیک وقت راہزن بھی ہے اور راہبر بھی۔ وہ کمزروں کو دیکھ کر فوراً شیر ہوجاتا ہے۔ بہادروں کے سامنے آنے پر دم دبا کر بھاگ نکلتا ہے۔ بے آسروں کا مال ہڑپ کر کے انہیں نیکی کا وعظ کرتا ہے۔ شراب کے نشے میں مدہوش ہو کر اپنی خیال بہادری کے بعید ازقیاس قصے سناتا ہے۔ جب کبھی حقیقت میں دلیری دکھانے کا وقت آئے تو ٹوٹے شہتیر کی طرح ڈھے جاتا ہے۔ فوج جمع کرنے کے لیے اسے سرکار سے پیسہ ملتا ہے۔ وہ سارا روپیہ پیسہ ہڑپ کرجاتا ہے۔ ملک بھر کے لنگڑے، لولے اور اپاہج جمع کرکے ایک لشکر جرار کھڑا کردیتا ہے۔ ڈرتے ڈرتے ہوئے دشمن کے جسم میں تلوار بھونکتا اور اپنی اس ’’بہادری‘‘ کے لیے ہر کسی سے داد کا متلاشی رہتا ہے۔
وہ ’’ہنری فور‘‘ بادشاہ کو ایسا ہی ایک قصہ سناتا ہے۔ آغاز میں اس کا سامنا دو سپاہیوں سے ہوتا ہے۔
اس کا زور بیان، مگر زمان و مکان کی تمام حدود توڑ دیتا ہے۔ ایک منہ زور طوفان کی طرح یہ واقعہ من گھڑت کہانیوں کی سب فہرستوں سے آگے نکل جاتا ہے۔ 2 سپاہی 11 سپاہی بن جاتے ہیں۔ یہ 11 سپاہی ’’جان فالسٹاف‘‘ جیسے گوشت کے پہاڑوں کے آگے آگے بھاگتے ہیں۔ وہ منہ سے آگ اگلنے والی بلا کی طرح تلوار لہراتا ان کا تعاقب کررہا ہوتا ہے۔ اس واقعے کو سنانے کے فوراً بعد لشکر کشی کا حکم آتا ہے۔ فالسٹاف کبھی فوج کے ہمراہ چلتا ہے، کبھی راستے سے ہی فرار ہوجاتا ہے۔ بادشاہ اس کی بزدلی سے تنگ آکر اسے فارغ کردیتا ہے۔ یوں ’’فالسٹاف‘‘ کی مزید بہادری دکھانے کے سارے مواقع ختم ہو کر رہ جاتے ہیں۔
٭ جو کام 13 سالوں میں ایک لشکر جرار نہ کرپایا، اسے چند ہزار خوفزدہ خرگوش انجام نہ دے پائیں گے۔ ٭
امریکی صدر بارک اوبامہ موجودہ دور کا ’’فالسٹاف‘‘ قرار دیا گیا۔ اس نے 20 جنوری 2009ء کو امریکی افواج کے سپریم کمانڈر کا عہدہ سنبھالا۔ اپنی صدارت کے دوران اس نے پہلے عراق سے افواج واپس بلالیں۔ ستمبر 2014ء میں اس کے طیارے دوبارہ عراق میں داعش کے ٹھکانوں پر حملہ کررہے ہیں۔ اوبامہ نے عالمی ایوانوں میں دھواں دھار تقریر یں کیں اور یوں خود کو بری الذمہ قرار دے دیا۔ اس نے ایران کو ’’Nexus of Evil‘‘ ’’برائی کا گھن چکر‘‘ کہا۔ ایران پر پابندیاں لگائیں۔ اسے آنکھیں دکھائیں، مگر ایران کا کچھ بھی نہ بگاڑسکا۔ اس نے لیبیا میں ایک جمی جمائی حکومت کا تختہ الٹا، اسے جمہوریت کی فتح قرار دیا اور یوں ایک پھلتے پھولتے ملک کو سنگین خانہ جنگی کے آتش فشار کے حوالے کردیا۔ اس نے اسرائیل کی بدترین جنگی کارروائیوں کو سیلف ڈیفنس قرار دے کر اپنے شورہ پشت ہونے پر تصدیق کی مہر لگادی۔ اوبامہ نے روس کے یوکرائن پر حملے اور کریمیا کو بزور ہتھیا لینے پر بھی شاہی فرمان جاری رکھے۔ روس مگر مچھوں کی طرح ایک ملک نگلے جا رہا ہے اور اوبامہ ہاتھ ملنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر پایا۔ یوں امریکی خارجہ پالیسی کی کوئی سمت متعین نہیں۔ یہ ہر تیزرو کے ساتھ ساتھ بھاگتی پھررہی ہے۔ دنیا بھر میں خوار زبوں ہوئے جارہی ہے۔
اندرون ملک امریکا کو اس دوران خوفناک معاشی بحران سے گزرنا پڑا۔ پنشن اور صحت پر اوبامہ کی پالیسیاں فیل ہوگئیں۔ تارکینِ وطن کے لیے اس کا پلان سر اٹھاتے ہی پٹ گیا۔ اوبامہ ہیلتھ کیئر کھنڈرات کی صورت اختیار کرلینے والا منصوبہ بن گیا ہے۔ اسے ’’ساورن ڈیفالٹ‘‘ کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ کانگریس اور سینٹ کے حالیہ انتخابات میں اسے شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ریپبلکن پارٹی نے سینیٹ کی 100 میں سے 52 نشستوں پر انتخابات جیت لیے ہیں۔ ڈیموکریٹس کے پاس صرف 43 نشستیں ہیں۔ کانگریس میں اوبامہ مخالفین 246 ہیں۔کل نشستوں کی تعداد 435 ہے۔ ریاستی گورنروں کے الیکشن میں 24 ریاستوں میں ریپبلکن اُمیدوار کا میاب ہوگئے۔ اوبامہ کے گورنر صرف 11 رہ گئے ہیں۔ یوں اوبامہ اگلے 2 سالوں کے لیے کٹھ پتلی صدر ہے جس کا ڈنک نکل گیا ہے۔ وہ زبانی اشتعال انگیزیوں کے علاوہ کوئی قانون سینیٹ یا کانگریس سے پاس نہیں کرواسکتا۔
اوبامہ کے امریکی صدر بننے کے ایک سال کے اندر اندر معاشی زوال کی رفتار نہایت درجہ تیز تر ہوگئی۔ امریکا کا ریاستی قرضہ 2010ء میں 16 ارب ڈالرز سے تجاویز کرگیا۔ قومی خسارہ 1700 ارب ڈالرز تک جاپہنچا۔ ستمبر 2012ء سے امریکی ریاستی خسارے کی رفتار مزید تیز ہوگئی۔ امریکی ریاستی قرضے میں روزانہ 2.65 ارب ڈالرز کی شرح سے بعید ازقیاس اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ امریکا نے ماہانہ 85 ارب ڈالرز کے نوٹ چھاپنا شروع کردیے۔ عام امریکی خاندان کی آمدنی میں 4.2 فیصد کمی واقع ہونا شروع ہوگی۔ لاکھوں سرکاری ملازمین اپنی پنشن سے یکسر ہاتھ دھوبیٹھے۔ یوں ہر دوسرا امریکی پنشن سے محروم ہوکر حکومت کو کوسے جارہا ہے۔ بے روز گاری کی شرح میں اضافہ دوگنا ہو گیا۔ ماہانہ 6 لاکھ افراد بے روزگار ہونا شروع ہوگئے۔ کانگرس اور سینیٹ میں بیرون ملک مقیم فوجیوں کے بے مہابا اخراجات پر ہاہاکار ہونے لگی۔ امریکا نے 31 دسمبر 2014ء تک اپنی افواج کو واپس بلانے کے اعلانات کیے۔ یوں دنیا بھر میں دہشت گردی کرنے والے 87000 امریکی فوجیوں کی مزید پرواز کو روک دیا گیا۔ افغانستان سے سپاہ کوچ کرنا شروع ہوگئی۔ امریکی اپنے بنائے سیٹ اپ کو اکھاڑنا شروع ہوگئے۔ امریکی پرچم سرنگوں ہونا شروع ہوگیا۔ امریکا اور نیٹو نے 5 کھرب ڈالرز پھونک کر افغانستان کے دہشت و صحرا سے سنگریز ے جمع کیے اور انہیں قیمتی پتھر قرار دینے لگے۔ 6929047 مربع میل پر محیط امریکا کو تاریخ کے خوفناک برفانی آور سمندری طوفان کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
قدرت کا انتقام دیکھیے! امریکا میں کالوں اور گوروں کے درمیان فسادات پھوٹ پڑے ہیں۔ 12 سالہ کالے بچے کو گولی مار دینے والے سفید فام باشندے کو رہا کردیا گیا ہے۔ امریکی شہر ’’فرگوسن‘‘ سے شروع ہونے والا فسادات کا ریلا ملک کے طول و عرض پر پھیل گیا ہے۔ نومبر کے آخر میں ’’تھینکس گیونگ ڈے‘‘ اور ’’بلیک ڈے فرائیڈے‘‘ پر ہنگامے کنٹرول سے باہر ہوگئے۔ کالوں نے گوروں کے کلبوں اور ہوٹلوں کو آگ لگادی۔ پیٹرول پمپس اور تھانے جلادیے گئے۔ امریکی حکومت میں اندرونی کشیدگیاں عروج پر ہیں۔ پنٹاگون کے سیکرٹری ہیگل نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اب اوبامہ کی ساری پالیسیاں اضطراری ہیں اور اس کے اضطراب ہر جگہ نظر آرہا ہے۔ اس نے ایک خفیہ معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ افغانستان میں امریکی جنگی مشن کی معیاد ایک سال بڑھادی ہے۔ یوں 31 دسمبر 2014ء کی بجائے امریکی فوج 31 دسمبر 2015ء تک ملک میں مقیم رہے گی۔ اوبامہ نے فوجیوں کو برائے راست جنگی کارروائیوں کا ہدف دے دیا ہے۔ طالبان کی زبردست زور پکڑتی کارروائیوں نے امریکیوں کو حواس باختہ بنادیا ہے۔ یوں 9800 امریکی فوجی ملک میں مقیم رہیں گے۔ 1350 جرمنی اور اٹلی کے فوجی افغان فوج کو تربیت دیں گے جبکہ امریکی فوجی جنگوں میں حصہ لیں گے۔ یوں افغانستان میں امریکا کے علاوہ 850 جرمن اور 500 اٹلی کے فوجی مقیم ہیں۔ امریکی صدر کے اس اقدام کے بعد ریپبلکن سینیٹروں نے ایک پریس کانفرنس کی۔ انہوں نے سینیٹ اور کانگرس میں اوبامہ کی اس ’’Senseless‘‘ پالیسی کے لتے لینے کا عندیہ دیا ہے۔ اوبامہ کی نائو طوفان میں گھر گئی ہے۔ اس کے باقی کے 2 سال شدید تنازعات میں گزریں گے۔ افغانستان اس کے گلے کی ہڈی بن جائے گا۔ پچھلے 13 سالوں میں امریکا افغانستان پر مکمل قابض نہ ہوپایا۔ اس نے کروڑوں ٹن بارود پھینکا۔ اس کی توپیں کبھی خاموش نہیں ہوئیں۔ اس کے جنگی جہاز پر آن پرواز میں بھرتے رہے۔ اس کے خلائی سیارے افغانستان کے چپے چپے کے نقشے فراہم کرتے رہے۔ شورہ پشت شمالی اتحاد نئے ناموں کے ساتھ اس کا ہم رقاب رہا۔ اس کے باوجود اوبامہ اپنے مشن میں کامیاب نہ ہوپایا۔ ایک برس مزید قیام اس کے منصوبوں کو مزید وبال جان بنادے گا۔ وہ طالبان کو کچل نہیں پائے گا۔ سی این این نے درست معنوں میں اس کے اس قدام کو Lackadaisical Action (ٹھنڈا ٹھار قدم) قرار دیا ہے۔ اس عمل کے پیچھے کوئی حکمت عملی، کوئی جنگی پلان، کوئی کیس اسٹڈی، کوئی دور اندیشی پر مبنی سوچ کار فرما نہیں ہے۔ خارجی و داخلی محازوں پر شکست فاش ہونے کے بعد اوبامہ نے اضطراری طور پر اس فعل کا ارتکاب کیا ہے۔
اسے اندرون ملک Lackadaisicalاور کانگریس کو جواب دہ ہونا پڑے گا۔
افغانستان میں طالبان کے حملوں میں اچانک تیزی آجانے سے اسے اس محاذ پر بھی بدترین شکست ہو گئی۔ وہ امریکی تاریخ میں ’’فالسٹاف‘‘ کے خطاب سے نوازا جائے گا۔ ایک ایسا جنگ جو راہبر بھی تھا اور راہزن بھی تھا۔ جس کے دور میں امریکا پستی کی کھائی کی طرف تیز قدموں سے چلا۔ جس کی پالیسیاں ملک کے لیے ذلت و رُسوائی کے تاج لے کر آئیں۔ امریکی غرور اور تکبر کا غبارہ پھٹ گیا اور یہ ہوا بھرنے والوں کے منہ کے ساتھ چپک گیا۔ طالبان کو ختم کر دینے کا ہر حربہ پسپائی پر جا کر ختم ہو گیا۔ جو کام 13 سالوں میں ایک لشکر جرار نہ کر پایا جسے امریکی اور نیٹو جنگی جہاز میزائلوں کے ہمراہ نہ کر پائے، جسے کروڑوں ٹن بارود پورا نہ کرسکا۔ اسے چند ہزار خوفزدہ خرگوش انجام نہ دے پائیں گے۔ اوبامہ کے ان اقدام پر اس کے قدم مزید لڑکھڑا جائیںگے۔ زمین اسے مزید ڈولتی دکھائی دے گی۔ طالبان ڈرائونا خواب بن کر اس کی نیندوں میں زہر انڈیل دیں گے۔ شر خیر کے ہاتھوں ضرور شکست کھا جائے گا۔ اللہ کے شیروں کو روباہی نہیں آتی۔ لومڑیوں کی مکاری امریکا کو مبارک۔ یہی عیاری ان کے گلوں کا پھندا بن جائے گی۔
افغانستان میں امن کی امیدیں
تحریر یاسر محمد خان
4نومبر 2014ء کو امریکی ایوانِ اقتدار کی نصف نشستوں پر انتخابات ہوئے۔ امریکا میں قانون سازی کے لیے سینیٹرز چنے گئے۔ کئی ہفتوں تک انتخابی مہم اپنے زوروں پر رہی۔ ذرائع ابلاغ نے اس پر خصوصی نشریات شروع کیے رکھیں۔ اوبامہ کو Lame Duck (لنگڑی بطخ) کا خطاب دیا گیا۔ اسے اپنی پالیسیوں پر تصدیق کے لیے ڈیموکریٹ ممبران کی بھاری تعداد درکار تھی۔ 4 نومبر کو اسے شکست فاش ہوگئی۔ ریپبلکن ممبروں کی بھاری تعداد سینٹ اور کانگریس میں داخل ہوگئی۔ یوں اوبامہ کے پرکٹ گئے، وہ مخالف پارٹی کی توثیق کے بغیر اب نہ کوئی بل پاس کروا سکتا ہے نہ ہی بیرون ملک اخراجات کے لیے ڈالروں کی کھیپ حاصل کرسکتا ہے۔ میں نے اس الیکشن پر بیسیوں تجزیہ نگاروں کی گفتگو سنی ہے۔ سب نے افغانستان میں شرمناک شکست کو اوبامہ کے لیے کمر توڑ بوجھ قرار دیا۔ ڈیموکریٹس نے اس ذلت آمیز پسپائی پر کافی ملمع سازی کی کوششیں کیں۔ انہوں نے اعداد و شمار کی گرتی دیواروں کی آڑلی۔ انہوں نے مفروضوں کے زمیں بوس ہوتے ہوئے ستونوں کے پیچھے چھپنے کی کوششیں کیں، مگر ان کو کوئی کامیابی نہ مل پائی۔ جب انہیں مذاکروں میں شکست ہونے لگی تو انہوں نے حکمت عملی تبدیل کرلی۔ ہر ڈیموکریٹ ریپبلکن کو افغانستان میں فوج کشی کا ذمہ دار قرار دینے لگا۔ منہ سے کف بہنے لگے۔
تیوریاں چڑھ گئیں۔ آنکھوں سے شرارے پھوٹنا شروع ہوگئے۔ چہرے ٹماٹروں کی طرح سرخ ہوگئے۔ ہاتھوں کی اضطراری حرکتیں کنٹرول سے باہر ہوگئیں۔ باڈی لینگویج سے اضطرار اور اضطراب ٹپکنے لگا۔ ہر ڈیموکریٹ نے ریپبلکن اور ریپبلکن نے ڈیمو کریٹ کے خوب لتے لیئے۔ شیم شیم کی آوازوں میں ٹی وی کے مائیک کانپنے لگے۔ ہر مذاکراہ ہاہا کار پر تمام ہوا۔ دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کو ننگا کرنا شروع کردیا۔ یوں انتخاب کا دن آگیا اور امریکی حکومت کو بدترین شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔
٭ اگر ہم ہندوستان سے امن کی آشا کی پینگیں بڑھا سکتے ہیں تو افغانستان تو ہمارا بھائی ہے۔ آئیے! ایک نیا مستقبل کاشت کریں، سرحدوں پہ چلنے والی ہوائوں میں امن کی خوشبو ہو، یہ بارود کی بو سے پاک ہو جائے۔ ٭ افغانستان سے تعلقات بہتر بنانے کے نتیجے میں منافرتوں کی جلتی بلتی آگ برساتی دو پہروں میں سکون کی چھائوں ہمیں مل جائے گی۔ دونوں ملک امریکی چنگل سے نکل آئیں گے۔ ٭
امریکی انتخابات سے تقریباً ایک ماہ قبل 29 ستمبر 2014ء کو اشرف غنی نے افغانستان کے صدر کا حلف اٹھایا۔ یہ صدارت تاریخ کے ایک عجیب موڑ پر اشرف غنی کے حصے میں آئی۔ امریکی اور برطانوی سپاہ اپنے تارتار جھنڈے تہہ کر کے کوچ کا نقارہ بجا رہے ہیں۔ افغان معیشت اپنی جانکاہی ہی کے تکلیف دہ مراحل سے گزر رہی ہے۔ ملک بھر میں انفرا سٹرکچر مکمل طور پر برباد ہو کر رہ گیا ہے۔ افغانستان بیرونی طاقتوں کے سہارے بمشکل اپنے پائوں پہ کھڑا ہے۔ ملک میں معدنیات کے خزانوں نے اسے حریص نگاہوں کا مرکز بنادیا ہے۔ پولیس کا نظام تلچھٹ ہے اور جرائم کا جھاڑ جھنکاڑ افغان گلی کوچوں میں پھیلا ہوا ہے۔ مرکزی حکومت کی عملداری کابل سے باہر خال خال دیکھنے میں آرہی ہے۔ افغان فوج جنگی پالنے میں ابھی شیر خوارگی کی گھڑیوں سے لطف اندوز ہورہی ہے۔ 13 برس کی بمباری نے عمارتیں گھر، دالان دریچے مسمار کر کے رکھ دیے ہیں۔ افغانستان میں شرح خواندگی میں بتدریج کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ امریکیوں نے چن چن کر ہسپتالوں کو اندھیری گپھائوں میں تبدیل کردیا ہے۔
معاشی بحران نے افراطِ زر کو ایسا فروغ دیا ہے کہ ضرورت زندگی کا شدید کال پڑا ہوا ہے۔ ملک میں صنعت کا پہیہ رک چکا ہے۔ ٹورازم ختم ہو گیا ہے۔ بے روزگاری کا مہیب سائے افغان بستیوں میں دراز سے دراز تر ہوئے جارہے ہیں۔ سڑکوں کے ناپید ہوجانے کی وجہ سے تجارت کے امکانات معدوم ہو کر رہ گئے ہیں۔ سرحدی کشیدگیوں نے ملک میں ٹریڈ کی صورت حال کو سخت غیرمتوازن کیا ہوا ہے۔ ریلوے کے فعال نہ ہونے اور Land Locked ہونے کی بنا پر افغانستان اپنے ہمسائیوں پر اور زیادہ انحصار کرنے پر مجبور ہے۔ دفتری نظام کی بنیادیں ایسی بیٹھی ہیں کہ شہریوں کو قدم قدم پر جکڑ بندیوں کا سامنا ہے۔ ایسے منظر نامے میں افغانستان کا پاکستان کی طرف ملتجی نظروں سے دیکھنا ہمارے دلوں کو موم کی طرح پگھلا گیا۔
پاکستان نے افغان تجارت کے حجم کو 2.5 ارب ڈالرز سے 5 ارب ڈالرز تک لے جانے کی منظوری دے دی ہے۔ 2017ء تک پاکستان 95 فیصد افغان اشیاء کو ایک دن میں اور 5 فیصد اشیاء کو 2 دن میں کلیرنس دے گا۔ پاکستانی پورٹس پر We Boc نظام لگایا جائے گا جس کے ذریعے افغان درآمد کنندگان کو اپنے مال کی آن لائن رجسٹریشن کی سہولت مہیا کی جائے گی۔ افغان تجارت کو مزید دست دینے کے لیے پاکستان غلام خان بارڈر پوسٹ کو کھول دے گا۔ بارڈر پوسٹوںپر سہولتیں، اعلیٰ معیار کے اجزاء اور ان پر عملدرآمد دونوں ملکوں کے کسٹمز حکام کریں گے۔ دونوں ملکوں کے مابین بڑی سرمایہ کاری کے علاوہ چھوٹے سرمایہ کاروں کے درمیان اشتراک کی ایک فضا بنائی جائے گی۔ دوست ملک کے ٹریڈ افسروں کو پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ٹریڈ اینڈ ڈیویلپمنٹ میں تربیت دی جائے گی۔ افغان صوبہ لوگر میں 100 بستروںپر مشتمل نعیب امین اللہ ہسپتال میں طبی آلات کی فراہمی اور کابل میں 200 بستروں کا جناح ہسپتال بنایا جائے گا۔ کاسا 1000 اور تاپی گیس پائپ لائن پروجیکٹ سے تجارتی، توانائی اور موصلات راہداری کو ترقی دی جائے گی۔ پاکستان افغانستان کو بارڈر سیکورٹی اور دفاع میں مہارت دینے پر اپنی توانائیاں مرکوز کرے گا۔ پارلیمانی وفود کا تبادلہ، تعلیمی ثقافتی سرگرمیوں اور کھیلوں میں تعاون، سٹرک اور ریل کے رابطوں کو بڑھانا۔ توانائی کے شعبے میں تعاون کرنے میں اضافہ کیا جائے گا۔ افغانستان کے شمالی علاقوںمیں پاکستانی سرمایہ کاروں کے لیے خصوصی اقتصادی زون بنائے جائیں گے جہاں سستی بجلی اور گیس مہیا کی جائے گی۔ ان علاقوں میں کاروبار پر ٹیکس کی ادائیگی نہیںکرنا پڑے گی۔ افغانستان چین کی مدد سے ریلوے گیس پائپ لائن اور معدنیات کے منصوبوں پر کام کررہا ہے۔ یوں یہ تینوں ملک اگر مل کر چلیں تو خطے میں امن کی برکھا برس سکتی ہے۔ بدامنی کا سوکھا ہمیشہ کے لیے ختم ہوسکتا ہے۔ یہ ملک تیزی سے ترقی کرسکتے ہیں۔
اس ملک نے افغانستان میں بدیسی لڑائیاں لڑکر 50 ہزار پاکستانیوں کی زندگی کے چراغ گل ہوتے دیکھے۔ ملک کو مجموعی طور پر ایک کھرب ڈالرز سے زیادہ کا نقصان اٹھانا پڑا۔ اکتوبر 2001ء میں پرویز مشرف نے افغان پالیسی کی پیٹھ میں وہ چھرا گھونپا کہ نسلوں کو اس بدقماش انسان کے اس فعل کی قیمت چکانا پڑی۔ ملک کے در و دیوار کان پھاڑ خود کش دھماکوں سے لرز اُٹھے۔ اسکولوں، دفتروں، کچہریوں، تھانوں، ہوٹلوں میں بم پھٹنے لگے۔ مارکیٹیں زمیں بوس ہوگئیں۔ اعلیٰ حکام کے علاوہ غریب غربا بھی بدبختی کی اس آندھی میں پتوں کی طرح اڑگئے۔ ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ پاک افغان بارڈر ایک رستا ہوا ناسور بن گیا۔ ہم پر حامد کرزئی الزامات کے تیر مسلسل برساتا رہا۔ ایک بے چہرہ جنگ نے ملک کا چہرہ نوچ لیا۔ ہم اقوام عالم میں تیرہ بختیوں کی بنا پر ممتاز ہونے لگے۔ ملک سے سرمایہ پر لگا کر اُڑنے لگا۔ داخلی شورش نے معاشی ترقی کی ہر پرواز پر ضرب لگائی۔ ہم جس شاخ پر بیٹھے تھے اسی پر پیہم کلہاڑے برسانے لگے۔ ریاست اپنے ہی بچوں کا لہو چاٹنا شروع ہوگئی۔ ہم نے افغانستان کے قابل احترام سفیر کو ملکوں اور ٹھڈوں سے مارا، اسے جی بھر کے گالیاں دیں۔ آنکھ پر پٹی اور ہاتھوں پیروں کو رسیوں سے کس کر اسے امریکا کے حوالے کردیا۔ ان دی لائن آف فائر جیسی بے ہودہ اور شرمناک کتاب میں ہم نے اپنی بردار اور دختر فروشی کی قیمتوں کا تذکرہ کیا۔ ہم کسی گواہی اور ثبوت کے بغیر لوگوںکو غائب کرنا شروع ہوگئے۔ ہم نے اس ناگ کا روپ دھار لیا جو اپنے ہی بچوں کو کھا جاتا ہے۔ انہی کی ہڈیاں چبا جاتا ہے۔ سایۂ عاطفت سایۂ خباست بن گیا۔
ملک اپنے ہمسائے تبدیل نہیں کرسکتے۔ ہمیں خود کو بدلتے وقت کے سانچوں میں ڈھالنا ہوگا۔ خود کو تبدیل کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنی پالیسیوں کو درست سمت موڑنا ہوگا۔ ہمیں آیندہ نسلوں کے لیے ایک ایسا پاکستان بنانا ہوگا جس میں خوشحالیاں لہلائیں، جس میں امن کی راگنی گونجے۔ افغانستان کی بربادی میں ہم نے جو رول پلے کیا، اس کے لیے ہمیں خدا سے معافی کا خواستگار ہونا چاہیے۔ خدا نے امریکی اور دوسری ابلیسی طاقتوں کو افغانستان سے نامراد اور ناکام لوٹایا ہے۔ امریکی حکومتیں اسی دلدل میں مزید گہر ی دھنستی جارہی ہے۔ امریکیوں نے بھائیوں کو بھائیوں سے لڑایا ہے۔ انہوں نے طالبان کی سربراہی میں ترقی کرتے ملک کی بنیادیں کھود ڈالیں۔ ہم انجانے میں اس کے مددگار بن گئے۔ امریکا ہمارے بغیر افغانستان کا کچھ نہ بگاڑ سکتا تھا۔
2014ء گل ہونے کو ہے۔ 31 دسمبر تک منظر نامہ نکھر کر سامنے آجائے گا۔ ہمیں افغانستان کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار نمایاں طور انجام دینا ہوگا، تاکہ ہم بدنامی کی کالک کو اپنے ماتھے سے صاف کرسکیں۔ ہم تاریخ سے سیکھ سکتے ہیں۔ چین اور جاپان دہائیوں تک آپ میں دست و گریبان رہے۔ پھر انہوں نے صلح کی اور دونوں ملک ترقی کے روشن افق تک جاپہنچے۔ برطانیہ اور فرانس کے درمیان صدیوں تک جنگ و جدل رہا۔ جب دونوں نے صلح کی تو دونوں سپر پاورز کی صف میں آگئے۔ اگر ہم ہندوستان سے امن کی آشا کی پینگیں بڑھا سکتے ہیں تو افغانستان تو ہمارا بھائی ہے۔ آئیے! ایک نیا مستقبل کاشت کریں، سرحدوں پہ چلنے والی ہوائوں میں امن کی خوشبو ہو یہ بارود کی بو سے پاک ہو جائے۔ منافرتوں کی جلتی بلتی آگ برساتی دو پہروں میں سکون کی چھائوں ہمیں مل جائے گی۔ دونوں ملک امریکی چنگل سے نکل آئیں گے۔
قرض یا تجارت
تحریر یاسر محمد خان
’’لین یوتانگ‘‘ کا تعلق چین سے تھا۔ اس نے امریکا میں پرورش پائی۔ ہزاروں سالہ چینی دانشمندی کا باریک بینی سے مطالعہ کیا۔ اپنے مشاہدات پر مبنی ایک کتاب ’’The importance of living‘‘ (جینے کی اہمیت) لکھی۔ اس نے انگریزی، فرانسیسی، امریکی، جرمن، روسی، جاپانی اور چینی باشندوں کا آپس میں موازنہ اور مقابلہ کیا۔ اس نے ایک ’’سوشو میٹرک سسٹم‘‘ وضع کیا۔ ان ساری قوموںکو اس نے چار خانوں میں بانٹا۔ حقیقت پسند کو ’’ح‘‘، خیالی منصوبے باندھنے کو ’’خ‘‘، ظرافت کو ’’ظ‘‘ اور احساس کو ’’ا‘‘ کے گروپوں میں تقسیم کرلیا۔ مثلاً: اگر کسی قوم میں حقیقت پسندی کی بہت ہی زیادہ مقدار ہے تو وہ 4 تولے، خیالی منصوبے باندھنا کی کافی مقدار ہو تو وہ 3 تولے، ظرافت خاصی ہو تو 2 تولے اور اگر احساس کم ہو تو وہ ایک تولے کی مقدار قرار پائے گی۔ یوں ’’لین یو تانگ‘‘ کے خیال میں انگریزوں میں حقیقت پسندی 3 تولے، خیالی پلائو پکانے کی صلاحیت 2 تولے، ظرافت کی شرح 2 تولے اور احساس کی مقدار ایک تولہ ہے۔ فرانسیسیوں میں حقیقت پسندی 2 تولے، خیالی منصوبے بنانے کی صلاحیت 3 تولے، ظرافت 3 تولے اور احساس 3 تولے ہوگا۔ امریکیوں میں حقیقت پسندی 3 تولے، خیالی پلائو 3 تولے، ظرافت 2 تولے اور احساس 2 تولے ہوگا۔
جرمن باشندوں میں حقیقت پسندی 3 تولے، خیالی پلائو 4 تولے، ظرافت ایک تولہ اور احساس 2 تولے ہو گا۔ روسیوں میں حقیقت پسندی 2 تولے، خیالی پلائو 4 تولے، ظرافت ایک تولہ اور احساس ایک تولہ ہو گا۔ جاپانیوں میں حقیقت پسندی 2 تولے، خیالی پلائو 3 تولے، ظرافت ایک تولہ اور احساس ایک تولہ ہوگا۔ چینی لوگوں میں حقیقت پسندی 4 تولے، خیالی پلائو پکانے کی صلاحیت ایک تولہ، ظرافت 3 تولے اور احساس 3 تولے ہو گا۔ ’’لین یو تانگ‘‘ کے بنائے ان فارمولوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ اس میں اس کے ذاتی پسند و ناپسند کئی جگہوں پر واضح نظر آرہی ہے۔ اس کے علاوہ وہ دنیا کی دوسری قوموں کے بارے میں خاموش ہے۔ شاید اس کا ان لوگوں سے واسطہ نہیں پڑا، اس لیے اس نے چپ سادھ لی۔ مجھے کامل یقین ہے ’’لین یوتانگ‘‘ اگر ہمارے حکمرانوں سے واقف ہوتا تو وہ ہمارے کردار کی شرح کچھ یوں نکالتا۔ حقیقت پسندی صفر، خیالی منصوبے بنانے کی صلاحیت 4 تولے، ظرافت 4 تولے اور احساس کی مقدار صفر۔
٭ آئی ایم ایف کے در پر گداگری کرنا، قرضے اُٹھانا اور خیالی پلائو پکانا، لیڈری نہیں کفن فروشی ہے۔ ٭ جمہوریت کے ڈھول دور سے سہانے لگتے ہیں، قریب آنے پر یہ کان کے پردے پھاڑنے لگتے ہیں۔ ٭ سود در سود قوم کے بچے بچے کا بال بال قرض کے پھندوں میں جکڑا گیا ہے۔ ٭
ہمارے وزیر خزانہ نے دبئی میں آئی ایم ایف کے سربراہ جیفری فرینکس کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس برپا کی ہے۔ قوم کو نوید سنائی گئی کہ ہم ایک کھرب 10 ارب روپے مزید قرض لینے والے ہیں۔ آئی ایم ایف نے حکومتی پالیسیوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ کہا کہ پاکستان درست سمت میں جارہا ہے۔ فلش کرتے کیمروں کے سامنے پر جوش مصافحے کیے گئے۔ ہمارے وفد کی باچھیں کھلی ہوئی تھیں۔ یوں اس حکومت نے صرف سوا سال کے عرصے میں ہمارے قرضوں کے انبار میں کھربوں روپے کا اضافہ کردیا ہے۔ ہم حقیقت پسندی کی تج دینے والی قوم بن کر رہ گئے ہیں۔ اب تک بجٹ کا دو تہائی ہم قرضوں کی قسطوں کی مد میں ادا کیے جارہے ہیں۔ اب قرض میں اضافے کے ساتھ ہمارے ملکی بجٹ کی قبا مزید سکڑ جائے گی۔ قومی ریوینیو مقروض قوم کے سیلابی شگافوں کو پر کرنے کے لیے مزید استعمال ہوگا۔ محسوس یہ ہورہا ہے کہ ہماری لیڈر شپ کسی بڑے وژن سے مکمل طور پر کنارہ کشی کرچکی ہے۔ سود در سود قوم کے بچے بچے کا بال بال قرض کے پھندوں میں جکڑا گیا ہے۔ ہماری وزارتِ خزانہ ان لوگوں کے ہاتھوں میںچلی گئی ہے جو مالیاتی امور کی سوجھ بوجھ نہیں رکھتے۔ جن کو قوم کے مستقبل کی صورت گری نہیں آتی جو اپنے عرصہ حکمرانی کا ہر لمحہ عیش و عشرت میں گزارنا چاہتے ہیں۔ ان کی وزارت کے بعد پاکستان کا حشر کیا ہوگا؟ انہیں اس کی کوئی فکر نہیں۔ ہمارے وزیر اعظم ایک درد مند انسان ہیں، انہیں روپوں کے جہازبنا کر اُڑانے والوں کو نکیل ڈالنی چاہیے۔
دوسری طرف وزیر اعظم نے چین روانہ ہونے سے قبل اس دورے کا مقصد پاکستان میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ قرار دیا۔ پاکستان اور چین میں 45 ارب ڈالرز کے 25 معاہدے ہوئے۔ 34 ارب ڈالرز توانائی اور 11 ارب ڈالرز سڑکوں کی تعمیر پرصرف ہوں گے۔ ان میں سے 18 معاہدے صرف توانائی بحران سے متعلق ہیں۔ معاہدوں کی تفصیلات یہ ہیں: 1320 میگاواٹ کا سینو ہائیڈرو ریسورس پاور پراجیکٹ، 2660 میگاواٹ کا ساہیوال کول فائر پراجیکٹ، 2330 میگاواٹ کا اینگروتھر کول فائر پراجیکٹ، مظفر آباد رحیم یار خان میں ایس ایس آر ایل کے 1320 میگاواٹ کے کول پاور پراجیکٹ، تھرمائن مائوتھ اور یکل پراجیکٹ 1000 میگاواٹ کا ایس ایس آر ایل تھرکول پراجیکٹ، 2460 میگاواٹ کا گڈانی پاور پارک پراجیکٹ، 300 میگاواٹ کا گو ادر کول، 100 میگاواٹ کا قائد اعظم سولر پارک، 50 میگاواٹ کا داود ونڈ فارم، 100 میگاواٹ کا یو ای پی ونڈ فارم، 50 میگاواٹ کا سچل ونڈ فارم، 50 میگاواٹ کا سونیک ونڈ فارم، 870 میگاواٹ کا سوکی کناری ہائیڈرو پاور اسٹیشن اور 720 میگاواٹ کا کروٹ ہائیڈرو پاور اسٹیشن شامل ہیں۔ توانائی کے ان منصوبوں میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے علاو ہ چین پاکستان میںرائے کوٹ سے اسلام آباد تک 440 کلو میٹر طویل شاہراہ قراقرم دوم، کراچی لاہور موٹر وے، حویلیاں ڈرانی پورٹ کراس بارڈر آپٹیکل فائبر کیبل جیسے پراجیکٹس میں مدد فراہم کرے گا۔ یوں پاکستان 16 ہزار 520 میگاواٹ بجلی پیدا کرلے گا۔ 10 لاکھ سے زیادہ نوجوانوں کو روز گار میسر آئے گا۔ توانائی بحران نے ہماری صنعتی زرعی اور معاشی شعبوں کو دیمک کی طرح چاٹنا شروع کر رکھا ہے۔ دیواریں اور بنیادیں مسمار ہو ئے جارہی ہیں۔ حکومت کوان منصوبوں کی تکمیل کے لیے داخلی امن و امان، سیاسی استحکام، بہترین انفراسٹرکچر فراہم کرنا ہوگا۔ بظاہر وزیراعظم کا دورہ بہت کامیاب رہا۔ ایک اخبار نویس نے 60 گھنٹوں میں 60 سال کا سفر طے کرنے کی نوید سنائی ہے۔
میں ذاتی طور پر خوب جشن منانا چاہتا ہوں، مگر مجھے ماضی کے تجربات روک لیتے ہیں۔ یہ سارے کے سارے منصوبے چند بڑی چینی کمپنیاں پاکستان میں شروع کریں گی۔ ان کمپنیوں کو چین میں خود انحصاریت حاصل ہے۔ ہم نے ان منصوبوں کے لیے دنیا بھر میں نہ تو بولی لگوائی نہ ان کے لیے ٹینڈر داخل ہوئے۔ ہم نے کوئی فیزیبلیٹی رپورٹیں نہیں بنائیں۔ ہمیں خود نہیں معلوم کہ ان منصوبوں کی تکمیل کے بعد بجلی کے نرخ ملک میں کیا ہوں گے؟ آیا چینی کمپنیاں ہمیں سستی بجلی فراہم کرنے کی پوزیشن میں ہوں گی؟ یا پھر یہ بجلی اتنی مہنگی ہو گی کہ ہمیں مجبوراً اسے عوام پر گرا کر انہیں مزید خاکستر کرنا ہوگا؟ ہم نے بہت تحقیق کی ہے کہ ہماری حکومت نے ان منصوبوں کا کتنا فائل ورک کر رکھا ہے؟ مجھے ملک کے انگریزی پریس میں بھی کچھ نہیں مل پایا۔ یوں پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے ہماری لیڈر شپ نے آئی ایم ایف سے ایک کھرب 10 ارب روپے پکڑا ہے۔ اسے جناتی منصوبوں کی جیبوں میں ڈالا ہے۔ فلک شگاف نعرے بلند ہوئے ہیں۔ عام عوام کو سہانے سپنے دکھا دیے گئے ہیں۔ ان منصوبوں کے لیے چینی کمپنیوں کے ساتھ 42 ارب ڈالرز کے معاہدے کرلیے گئے ہیں۔ ایک طرف حکومت چین، جرمنی اور برطانیہ کو پاکستان میںسرمایہ کاری کے لیے مائل کررہی ہے۔ دوسری طرف ساری حکومتی پالیسیاں اس کے الٹ چل رہی ہیں۔
سینٹ کی ایک اسٹینڈنگ کمیٹی کو بتایا گیا ہے کہ حکومت نے 17 ایس آر اوز (Statutory Protective Ordinances ) پر دستخط کیے ہیں۔ ان قوانین کی روسے بڑے پاکستانی بزنس مینوں کو ساڑھے 3 سو ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ دے دی گئی ہے۔ حکومتی اہلکاروں نے خوب جیبیں گرم کرلی ہیں۔ یہ سب کچھ اس ملک میں ہو رہا ہے جس کی اکانومی آخری سانسوں پر ہے۔ جس میں پیٹرول کے سستے ہونے سے عوام کی زندگیوں میں سکھ کی کوئی چھائوں نہیں آئی۔ جس میں ٹیکس کا سارا بوجھ غریب طبقے پر ڈال دیا گیا ہے۔ جس میں امیر طبقے کے ٹیکس معافی کی دستاویزات کو قانونی شکل دی جارہی ہے۔ جس میں کھربوں روپے جنگلا بسوں کے نام پر لوٹے جارہے ہیں۔ جس میں بڑے سرکاری ہسپتالوں میں ڈسپرین کی گولی تک ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔ جس میں حکومتی اہلکاروں نے بھارت سے تجارت کے نام پر کھربوں روپے کمالیے ہیں۔ جس میں زندگی دن بدن مہنگی اور موت سستی ہوئے جارہی ہے۔ جس میں سانس کی ڈوری کو برقرار رکھنے کے لیے سو سو جتن کرنے پڑتے ہیں۔ ملک بھر میں فربہ توندوں والے بڑے سیٹھوں کو مکمل چھوٹ دے دی گئی ہے۔ اسے سرمائے کی گردش اور ملکی ترقی کا زینہ کہا جا رہا ہے۔ معیشت کی تھوڑی بہت سوجھ بوجھ رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ ترقی اسی کوکہتے ہیں جو یرقان زدہ عوام کے رخساروں پہ لہو کی لالی لے آئے۔ آج تک کسی بھی ملک نے اس وقت تک بلندی کا سفر شروع نہیں کیا جس میں عوام کا لہو چاٹا جاتا ہو اور اربوں کھربوں پتی اشرافیہ کا چہرہ مزید گلگوں ہوتا جارہا ہو۔
کچھ عرصہ پہلے ہمارے اقتدار کے ایوانوں میں یہ سوال پوچھا گیا: ’’آٹے کے نرخ کیا ہیں؟‘‘ سارے ہائوس میں کوئی بھی رکن آٹے کی قیمت نہیں بتا پایا۔ ان بڑے بڑے، مگرمچھوں کو کبھی بازار سے آٹا خریدنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ یہ پپڑی زدہ لبوں کے ساتھ پیاس بجھانے نہیں نکلے۔ نہ ہی انہوں نے آنتوں کو کاٹ دینے والی بھوک دیکھی ہے۔ جمہوریت کے ڈھول دور سے کتنے سہانے لگتے ہیں، قریب آنے پر یہ کانوں کے پردے پھاڑنے لگتے ہیں۔ بجلی بلوں میں من چاہا اضافہ کر کے 70 ارب روپے ہتھیا لینے والوں نے ہمارے جشن کا یہ سماں پیدا کیا ہے۔ ہمیں اس چین کی مثال دی جاتی ہے جس نے ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے چین میں مفت بجلی دینے کا اعلان کردیا ہے۔ یہ ہوتے ہیں ملک اور ان کی لیڈر شپ۔ آئی ایم ایف کے در پر گداگری کرنا، قرضے اُٹھانا اور خیالی پلائو پکانا، لیڈری نہیں کفن فروشی ہے۔
امن کی تلاش
تحریر یاسر محمد خان
’’نوم چومسکی‘‘ (Noam Chomsky) امریکا کے ایک بہت بڑے دانشور ہیں۔ وہ ہارورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر کے عہدے پر فائز رہے۔ Psycho Linguistics پر انہوں نے بہت سی کتابیں مرتب کیں۔ ان کی عالمی شہرت کی ایک بہت بڑی وجہ امریکی استعمار پر ان کی بے لاگ تنقید رہی ہے۔ امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو انہوں نے ڈٹ کر اس کی مخالفت کی۔ ان کے مضامین اخباروں میں چھپتے ہی عالمی سطح پر سرا ہے جانے لگے۔ ان کا سب سے زودار آرٹیکل ’’امریکی سامراج‘‘ تھا۔ اس کا ترجمہ دنیا کی ہر زبان میں ہوا اور یہ مظلوموں کے دلوں کی آواز بن گیا۔ انہوں نے امریکی سامراجیت کا پوسٹ مارٹم کردیا۔ اس مضمون کے آغاز میں انہوں نے امریکیوں کو مخاطب کر کے کہا: ’’ہماری آج کی دنیا بظاہر علم کی ہے۔ پر اس میں دانش مفقود ہے۔ یہ زندہ ضمیر سے محروم طاقت کی اندھی دنیا بن کر رہ گئی ہے۔ ہم امریکی زندہ رکھنے کے علم سے کہیں زیادہ ہلاک کردینے کے علم پر دسترس رکھتے ہیں۔ ہم امریکی امن سے زیادہ جنگی جنون پر مہارت کے حامل ہیں۔ ہم جوہری ہتھیاروں کے اعتبار سے تو جن بن گئے، لیکن اخلاقی اعتبار سے بونوں کے درجے پر فائز ہوگئے۔‘‘
اسی مضمون میں چومسکی کچھ آگے جا کر لکھتے ہیں: ’’11 ستمبر کا واقعہ محض اس لیے تاریخی اہمیت نہیں رکھتا کہ اس میں تباہ کاری کا حجم زیادہ تھا۔
یہ اس لیے اہم ہے کہ اس کا نشانہ امریکا بنا۔ 1814ء میں واشنگٹن پر برطانوی بمباری کے بعد امریکا پر پہلی بار حملہ ہوا۔ دو صدیوں تک امریکا دنیا بھر میں حملے کرتا رہا۔ وہ مظلوموں کو روندتا رہا، کچلتا رہا، وہ مقامی آبادیوں کی ہولناک ہلاکت میں ملوث رہا۔ 11 ستمبر کو پہلی بار توپوں کا رُخ اس کی طرف مڑا۔ دنیا بھر میں دہشت گردی کرنے والا امریکا خود اس کا نشانہ بن گیا۔ بارود کی بو جب امریکی نتھنوں میں گھسی تو وہ اس سے پاگل ہوگیا۔ ہوش و ہواس مکمل طور پر کھو بیٹھا ۔ دوسروں کو پاگل قرار دے کر واویلا کرنے والا امریکا خود خوفناک پاگل بن کر شکار ہوگیا۔‘‘
’’ نوم چومسکی‘‘ کے اس مضمون کے شائع ہوتے ہی امریکا میں غیض و غضب کا طوفان آگیا۔ جنونی امریکی اس کے بدترین دشمن بن گئے۔ امریکی حکومت نے چومسکی کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے دیا۔ ان کی آزاد دانہ نقل و حرکت کو نہایت درجہ محدود کر دیا گیا۔ اخبارات کو ان کے آرٹیکل شائع نہ کرنے ہدایات جاری کردی گئیں۔ تقریبات میں ان کے خطاب پر پابندی لگا دی گئی۔ چومسکی کی آواز کو، مگر دبایا نہ جا سکا۔ انہوں نے اپنے بلاگ کے ذریعے کروڑوں لوگوں کو امریکی سنگدلی اور حیوانیت سے آگاہ رکھا۔ لوگ ایک دہائی تک اس عظیم دانشور کے تبصروں سے روشنی اور حرارت لیتے رہے۔
امریکی اور برطانوی فوجوںکا آخری دستہ افغانستان سے کو چ کرگیا۔ سامان سمیٹ کر جہازوں میں بیٹھے اور پرواز کرگئے۔
اس دوران امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ جارج بش جیسے بھیریے نے فوجوں کو آرڈ دیا: ’’Round the clock bombing is needed intense bombing carpet bombing‘‘ (24 گھنٹے مسلسل بمباری چاہیے، شدید بمباری، زمین پر قالین کی طرح بارود بچھا دینے والی بمباری) یوں اس سپر پاور نے زمین میں بارود کا بیج بویا۔ آسمانوں سے قہر کی بارشیں برسائیں۔ انسانی سروں کی بے محابا فصل کاٹی جانے لگی۔ انسانی لہو سے پیاسی زمینیں سیراب کی جانے لگیں۔ دریائوں کا اُجلا شفاف پانی لہو رنگ بنادیا گیا۔ مہر و محبت کا ہر پھول بھاری بوٹوں تلے روند دیا گیا۔
بچوں کے مسکراتے چہرے تہہ خاک چھپا دیے گئے۔ عورتوں کے سہاگ چھین لیے گئے۔ نگر نگر سے آہیں اور سسکیاں طوفان کی طرح اُٹھنا شروع ہوگئیں۔ کبھی مندمل نہ ہونے والے انسانی زخموں کو تقسیم کیا جانے لگا۔ چھائوں بھرے ہر نخلستان کو مسموم ہوائوں سے بھردیا گیا۔ انسانی مقدر کو بے نشاں رہگذاروں کی دھول بنادیا گیا۔ امریکی استعمار کی چڑیل نے بستی بستی اپنے پنجے گاڑ دیے۔ لوگوں کی شہ رگ کو اپنے دانتوں سے جھنجھوڑا۔ افغانستان کے روشن مستقبل کی قندیل بجھادی گئی۔ طالبان بوریا نشینوں کا بوریا چھین لیا گیا۔ مضبوط ہوتے ہوئے نظام کی بنیادیں بٹھادی گئیں۔ افغانستان کے اُفق پر اُمنڈتے سویرے کو رات کی چادر پہنادی گئی۔ شب پرستوں نے روشنی کی داستان لکھنے والوں کے ہاتھ ہی قلم کردیے۔
1988ء سے 1996ء تک افغانستان میں سخت داخلی شورش رہی ۔ 60 ہزار افغان شمالی اتحاد کے ہاتھوں قتل ہوگئے۔ وار لارڈز نے ملک کے حصے بخرے کرلیے۔ ملک تباہ حال اور عوام مفلوک الحال ہو چکے تھے۔ ایسی صورت حال میں طالبان کی آمد سے منظر نامہ یکسر بدل کر رہ گیا۔ انہوں نے امن کے لیے ترسے ملک کو امن کے بے بہا دولت دی۔ عدالتی نظام کو ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنا شروع کردیا۔ پولیس کو نہایت درجہ منظم بناکر جرائم کا خاتمہ کردیا۔ لوگوں کے لیے نت نئے روزگار میسر آگئے۔ ملک سے افلاس کی بدلیاں چھٹنے لگیں۔ کھنڈروں میں زندگی کی نئی نئی کونپلیں نکلنا شروع ہوگئیں۔ وہ خاک نشین کسی وار لارڈ شاہی خانوادے یا ڈرگ مافیا سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ وہ درویشی اور قلندری حرزجاں بنائے ہوئے تھے۔ وہ رسمی حاکم کبھی نہ تھے۔ وہ حقیقتاً عوام کے سچے اور پکے خادم تھے۔ انہوں نے مساوات کا ایسا نظام وضع کیا جو آج کی دنیا میں خواب و خیال کی بات تھی۔ حکومت کسی پروٹوکول، کسی قدغن، کسی بھی رکاوٹ سے مبرا تھی۔ عام لوگ امیرالمؤمینن سے آزاد انہ نہ مل سکتے تھے۔ وہ لوگ خدمت خلق کے لیے بے تاب اور پرسوز تھے۔ ملک میں جرائم کی کھیتیاں ویران ہو گئی تھیں۔ جرم بے اولاد اور بانجھ ہوگیا تھا۔ معاشی ترقی کی رفتار تیز تر ہوئی۔ ہر چہرے پہ سکھ کی آسودگی چمکنے لگی۔ لہو و لعب ترک کیا جانے لگا اور خدا سے لو گائی جانے لگی۔ سینمائوں کو مسمار کردیا گیا۔ کلبوں کو گر ا دیا گیا۔
اشرافیہ کے ہر اشتہار کو نابود کردیا گیا۔ دینی علوم کی پھوار سے ہر روح مشکبار ہونے لگی۔ ملک سے ہر قسم کا غیرقانونی اسلحہ اکھٹا کرلیا گیا۔ بندوق کی بجائے ہل اور بارود کی بجائے علم کاشت ہونا شروع ہوگیا۔ بیرونی دنیا میں مقیم افغان مہاجرین جوق در جوق وطن واپس لوٹنے لگے۔ امن کی بانسری کی لے سے ان کے قدم اپنی منزل کی سمت بڑھنے لگے۔ طالبان نے بیرونی دنیا سے برابری سطح پر تعلقات کا ڈول ڈالا۔ وہ خوشامد کا سہ لیسی اور مکروفریب سے واقف تک نہ تھے۔ ملا محمد عمر کے ایک حکم پر افغانستان میں دنیا کی 75 فیصد افیون کی کاشت یکسر بند ہوگئی۔ اقوام متحدہ کے United Nation Drug Control Programe کے سربراہ برنارڈ ایف نے دنیا کو بتایا کہ اربوں ڈالرز مالیت کی افیون افغانستان میں تلف کردی گئی ہے۔ ترقی اور خوشحالی کی طرف قدم اٹھائے ۔افغانستان پر اکتوبر 2001ء میں امریکا نے شب خون مارا۔ پر سکون پانیوں، بدامنی اور انتشار کا مہیب پتھر لڑھکا دیا۔
2001ء میں اقتدار طالبان سے چھین لیا گیا۔ اسے شمالی اتحاد اور ستم کے بھیڑیوں کے حوالے کردیا گیا۔ اس ننگ دین مخلوق نے قلعہ جنگی اور دہشت لیلیٰ برپا کیے۔ افغانستان کا صحت افزا امن غارت کردیا گیا۔ طالبان کا بنا بنایا سسٹم جڑوں سے اکھاڑ پھینکا گیا۔ شورش ہر قریے ہر بستی سے سر اٹھانا شروع ہوگئی۔ سڑکیں تباہ، ادارے بربار اور نظامِ زندگی درہم برہم کردیا گیا۔ ترقی کے زینے چڑھتا افغانستان دوبارہ پاتال کی پستیوں کی طرف گامزن ہوگیا۔ افغانستان کو پتھر کے دور میں دوبارہ دھکیل دیا گیا۔ روز گار ٹھپ ہوگئے۔ بھوک ننگ کا دور دورہ ہوگیا۔ تعلیم کے لیے طالبان کا قائم کر دہ ساز گار ماحول سبو تاژکردیا گیا۔ اسپتالوں میں چمگادڑوں نے اپنے مسکن بنالیے۔ دوا اور مرہم پٹی ندارد ہوگئی۔ ضروریاتِ زندگی کا حصول فرہاد کی نہر کھودنے جتنا دشوار ہوگیا۔ زندگی مہنگی اور موت سستے داموں قابل حصول ہوگئی۔ معاشرتی قدریں مستقل الام نے کھرچ کے رکھ دیں۔ جرائم ملک کے طول و عرض میں دوبارہ وبائوں کی طرح پھیل گئے۔ چوری چکاری، ڈاکہ زنی اور لوٹ مار دن رات کی عام کہانیاں بننا شروع ہوگئیں۔ عام افغان کے لباس پر اتنے پیوند لگے کہ وہ خود ان کا شمار بھول گیا۔ پڑوسی ملکوں میں دوبارہ افغان مہاجرین کے کیمپ بھرے جانے لگے۔ ان کیمپوںمیں انسانوں کی سمائی مشکل ہوگئی۔ عصمت و عفت جنس بازار بننا شروع ہوگئی۔ معصوم انسان بچے کو ڑے کے دھیروں سے رزق حاصل کرنے کے لیے سرگرداں ہوگئے۔ دنیا کی سپر پاوروںنے مجبوروں اور لاچاروں پر دل کھول کر اپنی قوتوں کی آزمایا۔ ان سب شپ و ستم کے باوجود امریکا کو طالبان کی طرف سے آ ہنی مزحمت کا سامنا کرنا پڑا ۔ وہ جو ’’واک اوور‘‘ کے نشے میں دھت بدمستوں کی طرح آئے تھے۔ آج ان کی رخصتی دیکھنے کے قابل ہے۔ فتوحات کے سکے امریکا کی کشکول میں ندارد ہیں۔ اسے دبے پائوں افغانستان سے نکلنا پڑا ہے۔ امریکا آج رسوا اور زلیل ہو کر افغانستان سے نکلا ہے۔
سوموار 27 اکتوبر کو امریکی اور برطانوی فوجوںکا آخری دستہ افغانستان سے کو چ کرگیا۔ ہلمند پر آفتاب غروب ہونے کو تھا کہ یہ سامان سمیٹ کر جہازوں میں بیٹھے اور پرواز کرگئے۔ یہ افغانستان میں امریکا کا سب سے بڑا فوجی اڈّا تھا۔ اس کا رقبہ 6500 ایکٹر ہے۔ افغانستان فوجی کی 215 ویں کورنے اس کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ امریکا اور برطانیہ کے پرچم اتار کر تہہ کیے گئے۔ ان کا گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ یوں چوری چھپے بغیر پیشگی اطلاع کے یہ لوگ ملک سے فرار ہوگئے۔ طالبان نے امریکی فوجوں کے انخلاکو اپنی فتح قرار دیا ہے۔ انہوں نے 29 ستمبر کو حلف اٹھانے والی نئی افغان حکومت کو مغرب کا ٹٹو کہا ہے۔ طالبان نے افغانوں کو اس حکومت کا ساتھ نہ دینے پر زور دیا ہے۔ طالبان نئے افغانستان کے لیے سفر تیز تر کرنے والے ہیں۔ امریکا برطانیہ اور دیگر نیٹو ملکوں نے افغانستان میں بھاری جانی و مالی نقصان اٹھایا ہے۔ طالبان نے ان لوگوں کا بھرکس نکال دیاہے۔ 2001ء میں امریکا کے 12فوجی ہلاک ہوئے۔ 2002میں امریکا کے 49برطانیہ کے 3اور دوسرے ملکوں کے 18فوجی جنم رسید ہوئے۔ 2003ء میں 48 امریکی اور 10 نیٹو فوجی طالبان کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اترے۔ 2004ء میں 52 امریکی اور 8 نیٹو فوجی ہلاک ہوئے۔ 2005ء میں امریکا نے 99 تابوت اٹھائے، جبکہ نیٹو کے 32 فوجی قتل ہوئے۔ 2006ء میں 98 امریکی، 39 برطانوی اور 54 دوسرے ملکوں کے فوجی طالبان کے ہاتھوں جان سے گئے۔ 2007ء میں یہ تعداد مزید بڑھی۔ امریکا کے 117، برطانیہ کے 42 اور دوسرے ملکوں کے 73 فوجی ہلاک ہوگئے۔ 2008ء میں امریکا کے 155، برطانیہ کے 51 اور دوسرے ملکوں کے 89 فوجی مرے۔ 2009ء میں امریکا کے 317، برطانیہ کے 108 اور دوسرے ملکوں نے 96 لاشیں اٹھائیں۔ 2010ء میں امریکا کے 499، برطانیہ کے 103 اور دوسرے ملکوں کے 109 فوجی جاں بحق ہوئے۔ 2011ء میں 418 امریکی، 46 برطانوی اور نیٹو ملکوں کے 102 فوجیوں کو تابوت میں اپنے اپنے ملکوں کو بھیجے دیے گئے۔ 2012ء میں 310 امریکی، 44 برطانوی اور 48 نیٹو ملکوں کے فوجی جنم رسید ہوگئے۔ 2013ء میں 315 امریکی، 42 برطانوی اور 51 نیٹو ملکوں کے فوجی اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ ان افواج کے بیسویں جہاز تباہ ہوئے۔ اربوں ڈالرز کا اسلحہ و بارود جنگ میں کام آیاہزاروں امریکی اور نیٹو فوجی مستقل ذہنی مریض بن گئے۔ امریکا برطانیہ اور دوسرے بڑے ملکوںکے اسپتالوں میں ان کا ہجوم ہے۔ نصف سے زیادہ افغانستان ان 13 برسوں میں امریکیوں کے ہاتھ نہ آسکا ۔ درحقیقت مفتوح رقبہ مستقل سکٹرتا رہا۔ انجام کار ہتھیارو ں کے زور پر افغانستان کو فتح کرنے کا امریکی خواب ٹوٹ گیا۔ روسیوں اور انگریزوں کی طرح امریکی بھی نیل مرام واپس لوٹ گئے۔
آج نومبر 2014ء میں کابل میں اشرف غنی صدر ہے۔ عبداللہ عبداللہ سی ای او ہے۔ افغان فوج طالبان کے ممکنہ حملوں سے لرزہ براندام ہے۔ افغانستان پوست کی کاشت میںنئے ریکارڈ بنا رہا ہے۔ عام افغان روٹی کپڑے اور چھت سے محروم ہے۔ ایسے حالات میں افغانستان کو داخلی امن کی اشد ضرورت ہے۔ اس امن کے لیے سب افغانوں کو آگے آنا ہو گا اور 1996ء سے2001ء تک کا امن واپس لانا ہو گا۔ امید ہے ک سب متحارب گروہ آپس میں صلح کریں گے۔ ملک کی تعمیر و ترقی اپنا رول ادا کریں گے۔ افغان نہایت سخت جان قوم ہیں ۔ اعلیٰ لیڈر شپ کے ملتے ہی وہ سوئے منزل گامزن ہو جائیں گے۔ ملک میں طالبان ایک بہت بڑی قوت ہیں۔ ان کے پاس جذبہ ایمانی ہے۔ کردار کی تلوار اور اخلاص کی ڈھال ہے۔ ان کو اقتدار میں شریک کرنا ہو گا تا کہ وہ اپنے ملک کی تعمیر میں پازیٹو رول پلے کر سکیں۔ انہیں ان کے جائز حق سے محروم کرنے کا نتیجہ مزید انتشار کی صورت نکلے گا، جس کا متحمل افغانستان نہیں ہو سکتا۔ یہ بدامنی کی بہت بڑی قیمت پہلے ہی ادا کر چکا ہے۔
عالمی مالیاتی اداروں کو جھٹکا
تحریر یاسر محمد خان
دوسری جنگ عظیم کے شعلے سرد ہوئے تو عالمی سود خور مہاجن ایک چھت تلے اکٹھے ہوگئے۔ انہوں نے امریکا اور یورپ کے روشن مستقبل کے لیے باقی دنیا کی قربانی دینے کی ٹھان لی۔ امریکی شہر ’’نیوہیمپ شائر‘‘ دنیا کا معاشی سینٹر بن گیا۔ یہاں دسمبر 1945ء میں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی داغ بیل ڈالی گئی۔ ابتداء میں 24 ملکوں نے معاہدے پر دستخط کیے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد 183ہوگئی۔ ان بینکوں کے ذیلی اداروں میں بینک فار انٹرنیشنل اسٹیل منٹس(BIS)، آرگنائزیشن فار اکنامک کو آپریشن ڈیویلپمنٹ (OECD)، ایشین ڈیویلپمنٹ بینک (ADB)، افریقن ڈیویلپمنٹ بینک(ADB) اور انٹر امریکن ڈیویلپمنٹ بینک(IADB) شامل ہو گئے۔ یہ سارے بینک ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے بالکے بنادیے گئے۔ آئی ایم ایف نے دنیا کے 112 ملکوں کو قرض دیا۔ 10 غریب ملکوں نے 719 بلین ڈالرز قرض لیا۔ 749 بلین ڈالرز لوٹا دیے گئے۔ پھر بھی 1285 بلین ڈالرز سود در سود ان ملکوں کی معیشت کی جڑیں اکھاڑ گئے۔ ان بینکوں نے دنیا بھر میں اپنے پنجے گاڑ دیے۔ ان کے ایما پر ملٹی نیشنل کمپنیاں مجبور ملکوں کی ریڑھ کی ہڈیوں کا گودا چوسنا شروع ہوگئیں۔ فعال سفارت کاری پرجابر انہ قبضہ کر لیا گیا۔ معیشت اور بجٹ ان کی زر خرید لونڈیاں بن گئیں۔ سیاست و ثقافت مکڑی کے جالوں میں لٹکی مکھیاں بن کر رہ گئیں۔ بیورو کریسی ضمیر کی ہر عدالت میں ننگا کرکے کھڑی کر دی گئی۔ صنعت اور تجارت کا پہیہ مہاجنوں کے حکم پر الٹا چلنا شروع ہو گیا۔
عوام پر ٹیکسوں کا ناقابل برداشت بوجھ لادا جانے لگا۔ ضروریات زندگی مہنگے سے مہنگی ہونا شروع ہوگئیں۔ بجلی، گیس اور پیٹرول کی من چاہی قیمتیں وصول کی جانے لگیں۔ 183 ملکوں میں مالیاتی ذخائر اسٹاک مارکٹیں اور سارابینکاری نظام سود کا کلمہ پڑھتے ہوئے فنا کے گھاٹ اترنا شروع ہو گیا۔
٭ چین کی راہبری میں اگر یہ معاشی نظام رواں چل پڑتا ہے تو واقعی یہ صدی ایشیا کی صدی بن جائے گی۔ ٭ قرض کی مے پینے اور فاقہ مستی کے رنگ لانے کے انتظار نے پاکستان کی اقتصادی غارت گری کے نت نئے ابواب لکھے ہیں۔ ٭ چین ایشیا کا وہ دانا اور بوڑھا کبوتر ہے۔ اس کے پاس زندگی کے ہر میدان کا بے مثال تجربہ ہے۔ ٭
ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نے ’’ایس ڈی آر‘‘ کاغذی سونے کا نظام متعارف کروایا۔ یہ ڈالر ، یورو، پائونڈ اور ین کا ہم پلہ قرار دیا گیا۔ باقی دنیا کی کرنسیاں ان کی زیر نگیں بن گئیں۔ ان اداروں کے چارٹر میں 3 مقاصد درج ہیں۔ اول: یہ عالمی تجارت میں توازن پیدا کریں گے۔ دوم: رکن ملکوں کی کرنسیوں کی شرح تبادلہ طے کریں گے۔ سوم: کرنسیوں کی قیمت گرنے پر مسلسل نظر رکھیں گے۔ ان بظاہر معصوم سی پالیسیوں میں کوبرا سانپوں کا زہر چھپا ہوا تھا۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک اب تعین کریں گے کہ کن ملکوں کو کب کون کون سی تجارت کرنا ہوگی؟ یوں ملکوں کی ساری اکانومی ان بینکوں کی رکھیل بن گئی۔ کرنسیوں کی شرح تبادلہ میں بڑے ملکوں کو سبقت دے کر غریب ملکوں کا دیوالیہ نکالا جانے لگا۔ کمزور کرنسیوں کے حامل ملکوں پر ننگی تلواریں لٹکا دی گئیں۔ ایس ڈی آر یعنی کاغذی سونے میں امریکہ کا شیئر 17.6 فیصد ، جاپان کا 6.5 فیصد، جرمنی کا 6.2 فیصد، فرانس کا 5.1 فیصد، انگلینڈ کا 5.1 فیصد، اٹلی کا 3.3 فیصد، سعودی عرب کا 3.3 فیصد، کینیڈا کا 3.2 فیصد، چین کا 3.2 فیصد اور روس کا شیئر 2.8 فیصد قرار پایا۔ یوں دنیا کے 10 ملکوں کے ذخائر 56 فیصد اور باقی 173 ملکوں کے ذخائر 44 فیصد تسلیم کیے گئے۔ 10 ملکوں کی رائے تمام دنیا پر بھاری اکثریت سے مان لی جانے لگی۔
ان مالیاتی اداروں میں اہم مسئلوں پر ووٹنگ ہوتی ہے۔ یوں امریکا کے پاس 3 لاکھ 71 ہزار 7 سو ووٹ ہیں۔ جاپان کے پاس ایک لاکھ 33 ہزار 3 سو 78، جرمنی کے پاس ایک لاکھ 30 ہزار 3 سو 32، فرانس کے پاس ایک لاکھ 7 ہزار 6 سو 35 اور برطانیہ کے پاس ایک لاکھ 7 ہزار 6 سو ووٹ ہیں۔ ان 5 ملکوں کے کل ووٹ 8 لاکھ 50 ہزار 7 سو 23 بنتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے کل ووٹر 21 لاکھ 66 ہزار7 سو 49 ہیں۔ ایس آر ڈی کی تعداد 2 لاکھ 12 ہزار 4 سو 15 اشاریہ 9 ملین ڈالرز بنتی ہے۔
ان سود خور مہاجنوں نے ملکوں کو کنگال کیا۔ خانہ جنگیاں کروائیں۔ بدترین قحط پروان چڑھائے۔ ملکوں کی معیشت کی بنیادیں اڑ دیں۔ دنیا بھر میں بدامنی کی ہوائوں کو پھیلا یا گیا۔ محلوں اور جھونپڑیوں کی خلیج کو بڑھایا گیا۔ بادشاہت کو مضبوط کیا اور غریب عوام کو مجبور تر بنایا۔ ان بینکوں نے چند ملکوں میں دولت کا بھرپور ارتکاز کیااور باقی دنیا کو غربت اور جہالت کے اندھیرے بخشے۔ 21 ویں صدی کے دوسرے عشرے میں بھی ان کی ہوس ناکیاں دنیا پر حکمرانی کر رہی ہیں۔ ان کا پیٹ دولت کے انباروں سے بھی نہیں بھر رہا۔ یہ تمام بینک اور ان کی تمام تر بینکاری کے پیچھے امریکی درندوں اور یہودی حیوانوں کے پنجے صاف دکھائی دیتے ہیں۔ اس خوفناک اور زہریلے منظر نامے میں چین نے نیا ایشین بینک بنا کر عالمی مالیاتی اداروں کی اجارہ داری ختم کرنے کے لیے مثبت قدم اٹھایا ہے۔ چین نے 50 ارب ڈالرز سے اس کی شروعات کی ہے۔ یہ بینک ایشیاء میں سڑکوں، ریلوے، پاورپلانٹس اور ٹیلی کمیونیکشن نیٹ ورکس میں سرمایہ فراہم کرے گا۔ اس ایم او یو پر 21 ممالک نے دستخط کردیے ہیں۔ چین کے علاوہ پاکستان، بھارت، سنگاپور، ملائشیا، عمان، قطر، تھائی لینڈ، ازبکستان، قازقستان، ویتنام، فلپائن، برونائی، منگولیا، کویت، کمبوڈیا، لائوس، میانمار، نیپال، سری لنکااوربنگلہ دیش شامل ہوگئے ہیں۔ یوں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے چنگل سے درجنوں ملکوں کے نکل آنے کی امید پیدا ہو گئی ہے۔ امریکا نے حسب توقع اس منصوبے کی شدید مخالفت کی ہے۔
بیجنگ کے گریٹ ہال آف دی پیپل میں 24 اکتوبر کو ایک شاندار تقریب ہوئی۔ ایشین انفراسٹرکچر انوسٹمنٹ بینک (AIIB) کی صفہاستی یاداشت پر دستخط ثبت کیے گئے۔ مزید 50 ارب ڈالرز نجی کمپنیوں سے حاصل کرنے کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔ اس عظیم منصوبے پر امریکی سیکرٹری خزانہ ’’جیکب لیو‘‘ نے شدید اعتراضات کیے ہیں۔ اس کا بیان دنیا کا آٹھواں عجوبہ قرار پانے کا مستحق ہے۔ وہ کہتا ہے اس بینک کے قیام سے انسانی حقوق، مزدور کے تحفظ اور قرضوں کی لازمی شرائط کی پابندی پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ جلے انسانی اعضا کی کالک سے لتھڑے چہرے کے ساتھ انسانی حقوق اور مزدرو ں کے حقوق کی خیر خواہی ایک امریکی ہی کر سکتا تھا۔ یوں یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہو گئی کہ امریکی سے زیادہ بدکردار ایک دوسرا امریکی ہی ہو سکتا ہے۔
چین کی راہبری میں اگر یہ معاشی نظام رواں چل پڑتا ہے تو واقعی یہ صدی ایشیا کی صدی بن جائے گی۔ چین نے اپنے ملک میں 500 بین الاقوامی ہوائی اڈے تعمیر کر رکھے ہیں۔ ان میں سے 100 ایرپورٹس پر ہر منٹ میں ایک پرواز یا تو اترتی ہے یا جہاز سوئے منزل روانہ ہوتا ہے۔ شنگھائی اس وقت دنیا کی سب سے بڑی کارگو پورٹ بنا دی گئی ہے۔ اس پورٹ سے سالانہ 500 ملین ٹن چینی مصنوعات بیرونی دنیا کو بھیجی جارہی ہیں۔ 230 بلین ڈالر کی مصنوعات صرف یورپ ارسال کی جارہی ہیں۔ یورپ چائنا کی سب سے بڑی منڈی بنتا جارہا ہے۔ امریکا ہر سال چین سے 220 بلین ڈالرز کی اشیاء منگوا رہا ہے۔ جاپان 189 بلین ڈالرز کی چینی پراڈکٹس کا گاہک ہے۔ چین امریکا کو قرض دینے والے ملکوں میںایک سرکردہ اقتصادی طاقت ہے۔ چائنا میں 50 کروڑ افراد اعلیٰ ترین ہنر مند کہلانے کے بجا طور پر مستحق ہیں۔ سب سے بڑے دریا ’’پچانگا‘‘ پر درجنوں نئے چھوٹے بڑے ڈیمز زیر تعمیرہیں۔ یہ چین کو 18 ہزار 2 سو میگاواٹ بجلی فراہم کریں گے۔ ان میں دنیا کا سب سے بڑا ہائیڈرل پاور پلانٹ بھی شامل ہوگا۔ دوسری طرف چین 1300 کلومیٹر لمبی نہریں کھود رہا ہے جو دور افتادہ علاقوں کو سیراب کریں گی۔ چین 18 بلین ڈالرز کی لاگت سے 4 ہزار کلو میٹر لمبی گیس پائپ لائن کی تعمیر کے آخری مراحل میں داخل ہو گیا ہے۔
اس پائپ لائن سے 5700 چھوٹے بڑے کارخانوں کو گیس مہیا کی جائے گی۔ عالمی معیار کی سڑکوں کا ایک جال ہے جو ملک کے طول و عرض میں بُن دیا گیا ہے۔ چینی صنعت کاری اپنے زیریں دور سے گزر رہی ہے۔ ایسے ملک کا بنایا گیا بینک اپنے ساتھ روشن ترین ساکھ لائے گا۔ رکن ملکوں کو نہایت آسان شرائط پر قرضہ مہیا کیا جائے گا۔ یہ ملک سڑکوں، ریلوے، پاور پلانٹس اور ٹیلی کمیونیکشن کے نیٹ ورکس بنا پائیں گے۔ آنے والی آمدنی سے اقساط ادا کر دی جائیں گی۔ بینک ان ملکوں کے نظام میں کوئی عمل دخل نہ رکھے گا۔ یوں یہ ملک آزاد ہوں گے۔ ان کو معاشی زنجیروں میں باندھ لینے کی ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسی روشوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ روشنیوں کا کارواں گلی، کوچوں، قصبوں اور شہروں میں رواں دواں ہو جائے گا۔ ترقی کا عمل حیرت انگیز طور پر تیز ہو جائے گا۔
ہمارے ملک کی طرف آئیے تو پاکستان کی اقتصادی تاریخ دراصل تیزی سے زمین بوس ہوتی ہوئی اکانومی کی روداد ہے۔ اس میں عالمی بینکوں نے نہایت گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ موجودہ حکومت کے ان 16 ماہ میں ہمارا قرضہ 140 ارب ڈالرز سے بڑھ کر 149 ارب ڈالرز ہوگیا ہے۔ بیرونی قرضہ 65 ارب ڈالرز اور اندورنی قرضہ 84 ارب ڈالرز کے گراف عبورکر گیا ہے۔ جون 2013ء میں ہمارے وزیر خزانہ نے بڑے وثوق سے کہا تھا کہ جی ڈی پی کے مقابلے میں ہمارے ملکی قرضوں کی شرح ایک سال میں 63.5 سے کم کر کے 62 فیصد اور اگلے 3 سالوں میں 58 فیصد تک لے آئی جائے گی، جبکہ آج ایک برس بعد یہ 63.5 سے بڑھ کر 64.27 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ ہر پاکستانی 85 ہزار کا مقروض ہو کر رہ گیا ہے۔
دوسری طرف دعوئوں کے بر خلاف بیرونی دنیا سے پاکستان میں سرمایہ کاری کی شرح خوفناک حد تک کم ہوکر رہ گئی ہے۔ جولائی تا ستمبر 3 ماہ میں صرف 16 کروڑ 90 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری ہو پائی ہے۔ یوں سرمایہ کاری میں 26.6 فیصد کمی ہوئی۔ چین کی طرف سے ایک کروڑ 45 لاکھ ڈالرز اور سعودی عرب کی طرف سے 39 لاکھ ڈالرز کی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا گیا ہے۔ برآمدات میں کمی 6.2 فیصد ہوئی۔یہ صورت حال اس درجہ گھمبیر ہے کہ معیشت کا ہولناکی زوال سامنے دیوار پہ لکھا نظر آرہا ہے۔ قرض کی مے پینے اور فاقہ مستی کے رنگ لانے کے انتظار نے پاکستان کی اقتصادی غارت گری کے نت نئے ابواب لکھے ہیں۔ ہمارے فیڈرل بورڈ آف ریوینیو نے ملک بھر میں اکھٹے کیے گئے ٹیکسوں کا گوشوارہ شائع کیا ہے۔ یہ اپنے ہدف سے 70 ارب روپے کم ٹیکس کلیکشن کر پایا۔ یوں ہمارے ٹوٹل ٹیکس کا لگ بھگ 2 تہائی یعنی 65 فیصدآئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو سود اور قرضہ لوٹانے پر خرچ ہو رہا ہے۔ صرف 35 فیصد سے ملک چلایا جا رہا ہے۔ ملک میں ایک ’’کالی معیشت ‘‘ کی آندھی بھی چل رہی ہے۔ یہ وہ کالا دھن ہے جو اکانومی کو بڑھانے کے بجائے اس کا لہوچو سے جارہا ہے۔ یہ ہماری مجموعی معیشت کے 70 فیصد سے بھی بڑھ گیا ہے۔ یوں تصویر یہ بنی کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی ریشہ دوانیوں اور ہمارے لیڈروں کی عاقبت نا اندیشوں سے ہم ایک بند گلی میں مقید ہوکر رہ گئے ہیں۔ آگے راستہ بند ہے پیچھے عالمی سود خور مہاجنوں کی پورے کی پوری فوج ہمارے تعاقب میں ہے۔
ہمارے لیڈروں کو فی الفور چائنا کے کھولے گئے نئے دروازے میں داخل ہو جانا چاہیے۔ اس بینک کو کامیاب کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ اس دھارے کو لبیک کہنا چاہیے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے چنگل سے نکل آئیں گے۔ ہمیں ان یہودی اداروں پر اپنا انحصارتو کم سے کم کرنا ہو گا۔ یہ یاجوج ماجوج ہماری معاشی دیوار کو چاٹ گئے ہیں۔ یہ سب دیواریں اب زمیں بوس ہونے کو ہیں۔ چین کی ورطۂ حیرت میں ڈالنے والی ترقی سے ہمیں اسباق بھی سیکھنے ہوں گے۔ مثل مشہور ہے کہ کسی سے مچھلی لینے کے بجائے مچھلی پکڑنے کا ہنر سیکھ لینا بدرجہا بہتر ہے۔ اس طرح آپ رزق کے معاملے میں خود کفیل ہو جاتے ہیں۔ ہمیں اس خول کو بدلنا ہو گا۔ شکست خوردہ زہنیت کو دیس سے نکالنا ہو گا۔ پورے قد کے ساتھ دنیا میں کھڑا ہونا ہو گا۔ قدرت نے اس ارض پاک کو مادی اور انسانی خزانوں سے لبالب بھرا ہوا ہے۔ ان سے بروقت فائدہ اٹھانے ہی سے ہماری قومی اور ملی خوشحالی کی منزل قریب تر آجائے گی۔
یہاں مجھے ایک حکایت یاد آتی ہے۔ کچھ کبوتر کسی شکاری کے جال میں پھنس گئے۔ ہر ایک نے آزاد ہونے کی اپنی اپنی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ ایک دانا بوڑھے کبوتر نے سب سے کہا: ’’تم الگ الگ رہائی کی کوششیں کر رہے ہو، اس لیے ناکام ہو رہے ہو، اگر سب مل کر ایک ساتھ اڑنے کی تگ و دو کر وتو جال کو ہی اڑا کر لے جائو گے۔‘‘ سب کبوتروں نے بیک وقت پرواز بھری اور جال سمیت اڑگئے۔ شکاری ہاتھ ملتا رہ گیا۔ چین ایشیا کا وہ دانا اور بوڑھا کبوتر ہے۔ اس کے پاس زندگی کے ہر میدان کا بے مثال تجربہ ہے۔ ہمیں اس کی دانائی اور فہم و فراست پر انحصار کرنا چاہیے۔ اگر سارے کا سارا ایشیا جال سمیت آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے شکاریوں کو جُل دے گیا تو یہ مکروہ مخلوق اپنے ناپاک ارادوںمیں ناکام ہو جائے گی۔ پاکستان کو اس زریں موقعے سے بھر پور فائدہ اٹھانا ہے۔ یوں جی ڈی پی کا 65 فیصد قرضوں اور سود پر خرچ کرنے والے ملک کے دن پھر سکتے ہیں۔ پاکستان روشنیوں اورجاں افزا رنگوں کانگربن سکتا ہے۔
بھارت کا جنگی جنون
تحریر یاسر محمد خان
یہ 13 دسمبر 2001ء کی سہ پہر کا ذکر ہے۔ بھارتی راجیہ سبھا اور لوک سبھا کا اجلاس ہو رہا تھا۔ ممبران دھواں دار تقریریں کررہے تھے۔ اچانک سائرن بجنے لگے۔ گولیوں اور بموں کے دھماکوں سے ایوانوں کے در و دیوار تھرتھرانے لگے۔ حملہ آور 5 افراد تھے۔ انہوں نے 6 پولیس اہلکاروں اور سیکورٹی گارڈوں کو نشانہ بنایا۔ وہ اسمبلیوں میں گھسنے ہی والے تھے کہ خفیہ پولیس نے ان کا راستہ روک لیا۔ بھارتی حکومت نے کسی بھی تحقیق کے بغیر الزام پاکستان کے سر دھر دیا۔ ’’آپریشن پر اکرام‘‘ شروع کردیا گیا۔ دو ر دراز علاقوں سے بھارتی افواج مشرقی سرحدوں پر گِدھوں کی طرح منڈلانا شروع ہوگئیں۔ پاکستان کی ساری مشرقی سرحد پر ہندو سپاہ نے ڈیرے ڈال دیے۔ بھارتی فضائیہ نے پاکستانی حدود میں پروازیں شروع کردیں۔ پاکستانی فوج حرکت میں آئی۔ دونوں افواج سرحدوں پر جنگ کے لیے تیار ہوگئیں۔ 2003ء تک صورت حال بدستور کشیدہ رہی۔ اس سال ایل او سیز معاہدہ عمل میں آیا۔ دونوں ملکوں نے امن کے اس معاہدے پر دستخط کیے۔ 2006ء تک بھارتی خباثت سوئی رہی۔اس برس یہ بیدار ہوئی اور 3 بار لائن آف کنٹرول کی دھجیاں بکھیری گئیں۔
2007ء میں 21 ایسے واقعات ہوئے جب بھارت نے پاکستانی علاقوں پر بلا اشتعال فائرنگ کی۔ انسانی بستیوں پر مہلک گولے برسائے۔ 2008ء میں بھارتی جارحیت کا یہ ننگا ناچ 77 بار ہوا۔ پاکستانی فوج کی جوابی کاروائی سے سرحدوں پر وقتی خاموشی ہوگئی۔ 2009ء میں 28 بار بھارت نے اس طرح اپنی اَزلی پاکستان دشمنی کے ثبوت دیے۔ 2010ء میں 44 بار پھر ایسا کیا گیا۔ 2011ء میں 51 مرتبہ رقص ابلیس کا مظاہرہ ہوا۔ 2012ء میں 71 بار چانکیہ کے چیلوں نے چھپ کر وار کیے۔ اگست 2013ء میں بھارت نے اپنے 5 فوجیوں کے مارے جانے کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیا۔ دوبارہ سرحدوں پر جنگ کے بادل منڈلانا شروع ہوگئے۔ 4 اگست سے 16 اگست 2013ء کو بھارتی فوج نے 34 بار لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی۔ اگست اور ستمبر 2013ء کے دو ماہ میں سامبا سیکٹر، پائونڈ سیکٹر، سیالکوٹ سیکٹر، نکیال سیکٹر، کوٹلی آزاد کشمیر بٹل سیکٹر، چڑی کوٹ سیکٹر، شکرگڑھ سیکٹر، لنجوٹ سیکٹر، شکما سیکٹر، راولا کوٹ سیکٹر اور دیوارناڑی سیکٹر میںہمارے ازلی دشمن نے پاکستانی علاقوں میںفائرنگ کی۔ فوجیوں اور عام شہریوں کو نشانہ بنایا۔ 9 اگست 2013ء کو عید الفطر کے دن بھارتی حملوں میں تیزی آگئی۔ 12 اگست 2013ء کو بھارت نے بغیر اطلاع دیے دریائے ستلج میں آبی جارحیت کرتے ہوئے 87 ہزار کیوسک سیلابی پانی کا ریلا چھوڑ دیا جس نے پاکستان میں سیلابوں کے نقصانات کو کئی گنا بڑھا دیا۔ اس برس اگست میں دھرنوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارتی سپاہ نے سیالکوٹ ورکنگ بائونڈری پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی تھی۔ مودی کی تاج پوشی کی تقریب میں ہمارے وزیراعظم کی شرکت کا یہ صلہ دیا گیا۔
٭ اگر بھارت اپنے دفاعی اخراجات میں 20 فیصد کمی کر دے تو پاکستان بھی سکون کی سانس لے گا۔ وہ بھی اس پوزیشن میں آجائے تو ہمارے ملک میں سالانہ 7065 اسکول یا 8400 ہسپتال کھولے جا سکتے ہیں۔ ٭
26ستمبر 2014ء کو وزیراعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کے مسئلے کو دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنادیا۔ ہندوستان اپنی ہزیمت کو ہضم نہ کر پایا۔ اس نے یکم اکتوبر کو پاکستانی علاقوں میں جارحیت کا نیا سلسلہ شروع کردیا۔ 6، 7 اور 8 اکتوبر کو عید کے تینوں دن میں مسلسل فائرنگ کی جاتی رہی۔ ورکنگ بائونڈری کے چارو اسجیت ہر پال، بجوات چپٹر اڑ سیکٹروں میں عام شہری بھارتی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ 12 افراد شہید ہو گئے، 42زخمی ہوئے اور 70 ہزار افرادشدید طورپر متاثر ہوئے۔ 20 ہزار کو نقل مکانی کرنی پڑی۔ 9 اکتوبر کو گولہ باری سے مزید 5 افراد کو شہید کردیا گیا۔ 50 سے زائد زخمی ہوگئے۔ 120 تعلیمی ادارے بند ہوگئے۔ دہشت گردی کا دائرہ ناروال، ظفر وال، شکرگڑھ تک پھیل گیا۔ 64 دیہات کو آبادی سے خالی کروانا پڑگیا۔ یوں بھارت نے 2013ء اور 2014ء میں 245 بار سیز فائر کی خلاف ورزی کی۔ 31 ہزار مارٹر گولے فائر کیے۔ وزیراعظم نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا۔ انہوں نے آرمی اور نیول چیف سے علیحدہ ملاقاتیں بھی کیں۔ بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کا تہیہ کیا گیا۔ بان کیمون کو خط لکھ کر حالات کی سنگینی کے بارے میںمطلع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اب ہمارے شہر شہر مظاہرے جاری ہیں۔ ہر پاکستانی لیڈر بھارتی ظلم کے خلاف بیانات دے رہا ہے۔ ظلم و بربریت پر آواز اٹھا رہا ہے۔
اکنامک سروے آف انڈیا دیکھیں تو ملک کی آبادی 220 بلین افراد پر مشتمل ہے۔ 2 ڈالر سے کم آمدنی والی آبادی 860 ملین افراد پر مشتمل ہے۔ 500 ملین افراد خوراک کی شدید کمی میں مبتلاہیں۔ ہر ہزار بچوں میں سے 132 شیر خوارگی میں کمی خوراک کے ہاتھوں جاں بحق ہو رہے ہیں۔ ہندوستان کا بجٹ خسارہ 100 بلین ڈالرز ہے۔ تجارتی خسارہ 190 بلین ڈالر، جبکہ عوامی قرضہ جی ڈی پی کا 27 فیصد ہے۔ انڈیا اپنے دفاع پر 42 بلین ڈالرز سالانہ لگا رہا ہے۔ 1984ء سے سیاچن میں بھارت نے 150 چھائونیاں قائم کی ہوئی ہیں۔ یہاں 30 ہزار بھارتی فوجی مقیم ہیں۔ سالانہ لاگت 200 سے 300 بلین ہے۔ ہندوستان اس مد میں اربوں ڈالرز لگا چکا ہے۔ ہزاروں بھارتی فوجی اس جنگ میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ بھارتی جنگی جنون ایک خطرناک نفسیاتی عارضہ بن گیا ہے۔
وہ معیشت میں چین اور جاپان سے کسی بھی طور پر مسابقت نہیں کرسکا۔ اس نے اپنی کمزوریوں کو جنگی ماسک پہنادیا ہے۔ اپنے قیام سے اب تک بھات کو جنگ کا خمار رہا ہے۔ اس نے روس اور اسرائیل سے جنگی مقاصد کے لیے ٹھوس تعلقات بنائے۔ اس نے ملک میں بخار اور سر درد کی گولیوں کی بجائے بارود کے ڈھیر لگائے۔ ایٹم بم بنائے اور جنوبی ایشیا میں ہتھیاروں کی نہ ختم ہونے والی دوڑ شروع کی۔ ماہرین معاشیات کے مطابق اگر بھارت اپنے دفاعی اخراجات میں 20 فیصد کمی کر دے تو پاکستان بھی سکون کی سانس لے گا۔ وہ بھی اس پوزیشن میں آجائے تو ہمارے ملک میں سالانہ 7065 اسکول یا 8400 ہسپتال کھولے جا سکتے ہیں۔ اس کی بجائے بھارت نے وہ راستہ اختیار کیا ہے جس پر اس کے 50فیصد فوجی سیاچن میں ڈیوٹی دینے کے بعد مستقل ذہنی عارضوں میں مبتلا ہو کر اسپتالوں میں بستر جمائے بیٹھے ہیں۔ نئے اسپتال کھولنے کے لیے جو وژن چاہیے اسے ہلاکت خیز جنون نے ختم کر کے رکھ دیا ہے۔
بھارت پاکستانی مذاکرات کی تاریخ دراصل ہندو ذہنیت کی نقاب کشائی کا عمل رہا ہے۔ 1947ء میںجناح مائونٹ بیٹن ملاقات، 1949ء میں کراچی میں سمجھوتہ، 1950ء میں لیاقت نہرو معاہدہ، 1953ء میں بوگرہ نہرو ملاقاتیں، 1960ء میںسندھ طاس معاہدہ، 1965ء میں معاہدہ تاشقند، 1972ء میں شملہ معاہدہ، 1973ء میں دہلی سمجھوتہ، 1988ء میں معاہدہ اسلام آباد، 1999ء میں اعلامیہ لاہور، 2001ء میں آگرہ مذاکرات، 2009ء میں گیلانی من موہن ملاقاتیں، 2012ء میں زرداری من موہن ملاقات اور 2014ء میں نواز شریف مودی ملاقات ہوئی۔ 1990ء کو خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ بیک ڈور ڈپلومیسی کے ہتھیار کو بھی کئی بار آزمایا گیا۔ دونوں ملکوں کے ڈائریکٹر ز جنرل ملٹری آپریشنز کے درمیان ہاٹ لائن پر گفت و شنید اور سیکٹر کمانڈروں کی ملاقاتوں کا ڈول بھی ڈالا گیا۔ ہر بار ہندوستان نے امن کی فاختہ کا گلا گھونٹ دیا۔ اس کے پر نوچ کر ہوائوں کے حوالے کردیے۔ پاکستان جب بھی داخلی طور پر کمزور ہوا ہندو عصبیت حملہ آور ہو گئی۔ 1948ء میں نوازئیدہ مملکت کے سر سے کشمیر کا تاج نوچ لیا گیا۔ 1965ء میں پاکستان پر چوروں کی طرح حملہ کردیا گیا۔ 1971ء میں داخلی بدامنی کے شعلوں کو ہوا دے کر مشرقی پاکستان کو کاٹ کر پھینک دیا گیا۔ 1988ء میںراجیو گاندھی نے پاکستان پر حملے کی تیاریاں مکمل کر لی تھیں۔ جنرل ضیا الحق کی بصیرت نے خطے کو جنگی الائو سے بچا لیا۔ 1999ء میں کار گل جنگ میںبھارتی پاگل پن دنیا پر عیاں ہو گیا۔ 21ویں صدی کے ان برسوں میں کانگرس اور جنتا پارٹی کے ہر الیکشن میںپاکستان دشمنی نعروں تقریروں فرمانوں میں سب سے آگے رہی۔ مودی نے اس برس الیکشن میں اپنے ہر خطاب میں پاکستان کو مشق ستم بنائے رکھا، اس کی دیکھا دیکھی انتہا پسند ہندووں نے اقتدار میں آتے ہی اپنے دانت تیز کرنا شروع کردیے۔ اپریل 2014ء کو وزیر اعظم نواز شریف کو دہلی میں خفت کا شکار ہونا پڑا۔ وہ جو انکساری سے حلف برداری کی تقریب کے لیے گئے تھے، لمبے ڈیمانڈ نوٹس کو تھامے واپس آئے۔
اس وقت جب افواج پاکستان کی تمام تر توجہ آپریشن ضرب عضب پر مرکوز ہے، ملک 10 لاکھ آئی ڈی پیز کی عارضی رہائش و خوراک کے بندوبست کے لیے کوشاں ہے۔ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں نے 3 ماہ سے کاروبار مملکت تلپٹ کرکے رکھ دیا ہے۔ چین اور سری لنکا کے صدور کے دورے ملتوی ہوچکے ہیں۔ ملک میں ترقیاتی کاموں کو بریک لگی ہوئی ہے۔ پاکستان کا بیشتر رقبہ بدترین سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہو کر رہ گیا ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہو کر حکومتی مدد کے سہارے شب روز گزار رہے ہیں۔ ایسے کڑے حالات میں بھارت نے پاکستان کی اندرونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا ہے اور حملہ آور ہو گیا ہے۔
اگر ہم پاکستان اور بھارت کے مابین صرف تجارت کی فیگرز کو دیکھیں تو ہمیں کمزور صورت حال کی سنگینی کا بخوبی اندازہ ہوجائے گا۔ ہم پچھلے 22، 23 سالوں میں اکانومی کے بیٹھ جانے کی وجہ سے ہندوستان پر زیادہ سے زیادہ تکیہ کر کے بیٹھ گئے ہیں۔ 1951-60ء کی دہائی میں پاکستان نے ہندوستان کو 364.31 ملین ڈالرز کا سامان بیچا اور اس سے صرف 97.95 ملین ڈالرز کا مال خریدا۔ 1961-70ء کی دہائی میں ہم نے 168.36 ملین ڈالرز کا مال بیچا اور 119.46ملین ڈالرز کا سامان خریدا۔ 1971-80ء کی دہائی میں ہم نے 221.79 ملین ڈالرز کا سامان بیچا اور 106.98 ملین ڈالرز کا مال خریدا۔ اس کے بعد توازن بگڑا۔ 1991-2000ء کی دہائی میں ہم نے 717.66 ملین کا سامان بیچ کر 1023.6 ملین ڈالرز کا سامان خریدا۔ 2001-11کی دہائی میں ہماری پسپائی سب سے زیادہ رہی۔ ہم نے 2300.6 ملین ڈالرز کا مال بیچ کر ہندوستان سے 9420.9 ملین ڈالرز کا مال خریدا۔ افیون پر ایسا لگایا گیا ہے کہ ملک بھارتی منڈیوں کی کموڈیٹی بن کر رہ گیا ہے۔ جیسے ہی ہم شکستگی کا شکار ہوتے ہیں، وہ ہم پر گولیاں اور بم برسانے شروع کر دیتا ہے۔ ہم ہیں کہ مذاکرات مذاکرات پکارتے ہی رہ جاتے ہیں۔ ’’انڈین ایکسپریس‘‘ بھارت کا مشہور اخبار ہے۔ اس میں ایک سابق سفارت کار ایس کے بھاٹیہ کا ایک مضمون شائع ہوا۔ اس نے ان پندرہ بیس سالوں میں بھارتی سفارت کاری کا جائزہ لیا ہے۔ وہ اسے ڈپلومیسی کا سنہری دور قرار دیتا ہے۔ دنیا بھر میں بھارتی ہائی کمیشنوں اور سفارت خانوں میں نہایت زیرک افراد کو بھرتی کیا گیا۔ انہیںملکوں کے مابین بہترین تعلقات قائم کرنے کے گر سکھائے گئے۔ اعلیٰ ڈپلومیٹس بہت تجربہ کار افراد کو لیا گیا۔ یوں بھارت نے امریکا، روس، اسرائیل، برطانیہ، جرمنی، فرانس وغیرہ سے شالی مراسم استوار کرلیے۔ بنگلور کے قریب ’’بھارتی سیلی کان ویلی‘‘ بنائی گی۔ ان ملکوں کے سرمایہ کا ر ارزاں افرادی قوت اور پرکشش بھارتی پیش کشوں پر کھنچے چلے آئے۔ یوں دنیا کے طاقتور ملکوں کے ہندوستان سے تعلقات مضبوط تر ہوتے چلے گئے۔ بھارتیوں نے اسٹیٹ آف دی آرٹ اسلحہ و بارود خریدنا شروع کردیا۔ اس کا تکبر و غرورو پھولتے غبارے کی طرح پھیلنا شروع ہوگیا۔
دوسری طرف پاکستان نے سفارت کاری کے بہترین فن کو لطیفہ گوئی کا درجہ دے دیا۔ ایک سے ایک گھامڑ سرکاری خرچوں پر سہولتیں انجوائے کرنے لگا۔ ان مفاد پرستوں نے بدلتی دنیا کی نزاکتوں کو سمجھنے سے سرد مہری اور بیگانگی برتی۔ قوموں کے درمیان سر اٹھاکے جینے کا کیا مطلب ہوتا ہے یہ نادان کبھی نہ جان پائے۔ یہ کج فہم بھارت سے پاکستانی تجارت کو اوج ثریا قرار دے رہے ہیں۔ بھارتی بمباری پر ان کی دلیلیں اپنے منہ پہ چپت کی آوازیں دے رہی ہیں۔ یہ نہیں جانتے کہ آج کی دنیا میں طاقتور اور کمزور کے درمیان مذاکرات کا نتیجہ ’’بھیڑیے اور میمنے کی کہانی‘‘ کے سبق سے مختلف نہیں ہوا کرتا۔ داخلی امن و خوشحالی اعلیٰ ترین معیشت کے شجر سے آنے والے ثمر ہیں۔ آج قومیں بہترین لیڈر شپ سے اوپر اٹھ رہی ہیں۔ آج طاقتور ملکوں پر جبر اور زور سے من چاہے مطالبات نہیں ٹھونسے جاسکتے۔ وہ ملک جہاں بیرونی قیادت بلوائیوں کے خوف سے دورے ملتوی کر دے ایک بیمار جسم کی مانند ہے جس پر طاقت ور جراثیم حملہ آور ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی داخلی قسمت مندی ہی وہ ڈھال ہے جس سے ٹکرا کر ہر منڈتا بھارتی تیر اُچٹ جائے گا، ناکارہ اور ناکام ہو کر رہے گا۔
افغانستان میں مہروں کی تبدیلی
تحریر یاسر محمد خان
طالبان کی حکومت ختم ہوئی تو عالمی دہشت گردوں نے 22 دسمبر 2001ء کو افغان صدر کے لیے ایک کانفرنس منعقد کی۔ یہ جرمنی کے شہریوں میں ’’انٹرنیشنل کانفرنس آن افغانستان‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ حامد کرزئی کو 6 ماہ کے لیے افغانستان کا چیئرمین منتخب کرلیا گیا۔ 10 جون 2002ء کو لویہ جرگہ نے اسے 2 سا ل کے لیے صدر مان لیا۔ 15 اکتوبر 2004ء کو صدارتی انتخابات میں اسے مکمل امریکی آشیرباد حاصل رہی۔ وہ 34 میں سے 21 صوبوں میں کامیاب قرار پایا۔ اس نے اپنے 22 حریفوں کو شکست دی۔ 54.4 فیصد ووٹ اس کے حق میں تسلیم کیے گئے۔ یوں 8.1 ملین ووٹوں میں سے اسے 4.3 ملین ووٹ ملے۔ 2006ء میں اس کی بدترین بدعنوانیوں کے خلاف تحریک چلی۔ کرزئی کے 6 بھائیوں اور بہنوئی نے دنیا بھر میں 95 فیصد پوست کی کاشت سے ریکارڈ بنائے اور کروڑوں ڈالروں کی فصل کاٹی۔ 2009ء کو اس کے سر پر صدارت کا ہما دوبارہ بٹھانے کی تیاریاں کی گئیں۔ 20 اگست کو ملکی تاریخ کی بدترین دھاندلی کے بعد اسے 50 فیصد ووٹوں کے ساتھ دوبارہ صدر چن لیا گیا۔ اس نے 24 وزیروں کی ایک لسٹ افغان پارلیمنٹ کو بھجوائی۔ ان میں سے 17 وزیروں کو پارلیمان نے مسترد کردیا۔ یہ وہ بدترین چور تھے جن کے کارناموں سے افغان بچہ بچہ واقف تھا۔
کرزئی نے دوبارہ نئے 17 لوگوں کی لسٹ منظوری کے لیے بھیجی۔ 10 کو پارلیمنٹ نے مسترد کردیا۔ کرزئی نے ایک اسپیشل کورٹ بناکر انہیں وزارت پر ممکن کردیا۔
کرزئی افغانستان کا بدترین آمر بن گیا۔ اس کے اعمال کی سیاہی طالبان کے اجالوں سے ٹکرا کر مزید نمایاں ہوگئی۔ اس نے اربوں ڈالرز کی کرپشن کی۔ 2014ء ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کرپشن میں صومالیہ اور شمالی کوریا کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑا ہے۔ تاریخ نے کرزئی کو ایک پرلے درجے کے نااہل اور بے ضمیر حکمران کے نام سے یاد کیا۔ وہ جس نے سامراج کے ساتھ مل کر مظلوم افغانوں کا لہو بہایا۔ جس کی حکومت کے پر کابل سے چلتے تھے۔ جسے نیو یارک ٹائمز نے سب سے پہلے کابل کے میئر کا خطاب دیا۔ جو اس کو امریکی یونیورسٹیوں سے ملنے والی ساری اعزازی ڈگریوں سے بڑا اعزاز بن گیا۔ جو اس کے نام کا انمٹ حصہ بن کررہ گیا۔
٭ 2014ء ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کرپشن میں صومالیہ اور شمالی کوریا کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑا ہے۔ ٭ طالبان جانتے تھے امریکی ایما پر ہر تبدیلی دراصل ملک کو بے یقینی کی دلدل میں مزید گہرا دھنسادے گی۔ ٭ 2014ء کے پہلے 6 ماہ میں امریکا اور اتحادیوں کو حملوں اور تباہی میں 2001ء سے لے کر اب تک سب سے زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ٭ ملک میں وہی حکومت چلے گی جس کے لیے لبیک افغانوں کے دلوں سے نکلے گی۔ ٭٭٭
5اپریل 2014ء کو نئے افغان صدرکے لیے پولنگ ہوئی۔ ستمبر 2013ء میں اس پرایسس کا آغاز ہوا۔ اکتوبر میں 26 امیدواروں نے اس کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروائے۔ الیکشن کمیشن نے 16 امیدواروں کو مسترد کردیا۔ باقی 10 میں سے 3 دستبردار ہوگئے۔ فروری اور مارچ میں انتخابی مہم زوروں پر رہی۔ طالبان نے اس ڈر امے کو سختی سے رَد کردیا۔ وہ جانتے تھے امریکی ایما پر ہر تبدیلی دراصل ملک کو بے یقینی کی دلدل میں مزید گہرا دھنسادے گی۔ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ باقی امیدواروں کی نسبت زیادہ شہرت حاصل کرگئے۔ افغانستان میں 65000 پولنگ اسٹیشنوں کو قائم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ کل ووٹر ایک کروڑ 35 لاکھ تھے۔ ان میں سے 70 لاکھ نے ووٹ کاسٹ کیا۔ یوں ٹرن آئوٹ 58 فیصد رہا۔ 2009ء کی نسبت 45 لاکھ زیادہ ووٹ پڑے۔ 65 فیصد مردوں اور 35 فیصد عورتوں نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ 211 پولنگ اسٹیشنوں کو راکٹ حملوں کی بنا پر بند کرنا پڑا۔ 478 پولنگ اسٹیشنوں پر سیکورٹی کے شدید خدشات کی وجہ سے پولنگ نہ ہو پائی۔ ملک بھر میں 4 لاکھ پولیس، آرمی اور خفیہ اداروں کے اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔ امریکی اور نیٹو اہلکار دم سادھے ہر انتخابی سرگرمی دیکھ رہے تھے۔ ان کے 31 دسمبر 2014ء تک افغانستان سے انخلاء کے لیے ایک اہم مرحلہ طے ہونے جارہا تھا۔ نتائج کا اعلان ہوا۔ دونوں اُمیدواروں میں کوئی بھی مطلوبہ اکثریت حاصل نہ کرسکا۔ 14 جون کو دوبارہ پولنگ ہوئی۔ افغانوں کی اکثریت نے اس میں سرد مہری دکھائی۔ اشرف غنی کی اکثریت کی خبریں آنے کے ساتھ ہی تند خو عبداللہ عبداللہ نے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ 80 لاکھ ووٹوں میں سے اشرف غنی کو 3935,567 ووٹ اور عبداللہ کو 31,85,018 ووٹ ملے۔
یعنی اشرف غنی 55.27 فیصد اور عبداللہ 44.73 فیصد ووٹ لے پایا۔ دونوں امیدواروں کے درمیان عداوتوں کے شعلے بلند ہونا شروع ہوگئے۔ جان کیری دوبارہ افغانستان میں قیام کے لیے آیا۔ وہ مسلسل نئے منظرنامے کی تخلیق کے لیے دایہ گیری کا کام کرتا رہا۔
21ستمبر کی شام صدارتی محل میں ایک تقریب منعقد ہوئی۔ 4 صفحات پر مشتمل ایک ایگریمنٹ کا اعلان ہوا۔ اشرف غنی کو 5 سال کے لیے صدر اور عبداللہ عبداللہ کو چیف ایگزیٹو یعنی وزیراعظم کے برابر درجہ دے دیا گیا۔ افغانستان میں اقوام متحدہ کے ڈائریکٹر جنرل جان کیو بس نے اس پیش رفت کو خوش آیند قرار دیا ہے۔ 1949ء میں پیدا ہونے والے پشتوں اشرف غنی کی ساری زندگی امریکا میں امریکی مشینری کے کل پرزے کی حیثیت سے گزری ہے۔ وہ سیاست دان، معیشت دان اور ماہر تعلیم کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔ اس نے کولمبیا یونیورسٹی سے ثقافتی بشریات میں پی ایچ ڈی کی۔ 1983ء میں بارکلے یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کیا۔ 8 سال تک وہ جان ہاپکنز یونیورسٹی میں پروفیسر رہا۔ اس کا تعلق بی بی سی کی پشتو فارسی سروس سے بھی کئی سال رہا۔ اس نے ہارورڈ اور ورلڈبینک گریجویٹ اسکول آف لیڈر شپ ٹریننگ پروگرام میں بھی سالہاں سال شرکت کی۔ اس کے بعد وہ کابل یونیورسٹی، کیلیفورنیا یونیورسٹی اور ڈنمارک یونیورسٹی میں ٹیچر رہا۔ ورلڈ بینک میں بھارت، روس اور چین کی اکانومی کے ماہر کے طور پر کام کیا۔ اس نے اقوام متحدہ میں مشیر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ سیکریٹری جنرل کا دست راست بن جانے پر اسے عالمگیر شہرت ملی۔ وہ ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں بھی شامل رہا۔ وہ معاہدہ بون میں سرگرم رہا۔ افغانستان کا وزیر خزانہ بنا۔ 2007ء میں ’’ایمرجنگ مارکیٹس‘‘ نامی جریدے نے اسے ایشیا کا بہترین وزیر خزانہ قرار دیا۔ 2013ء میں ’’پراسپیکٹ میگزین‘‘ نے اسے عالمی دانشوروں میں دوسری پوزیشن دی۔ افغان ریاست کو چلانے کے لیے اس نے 10 نکات پیش کیے۔
دوسری طرف عبداللہ عبداللہ کا پڑھائی لکھائی سے کوئی خاص تعلق نہیں رہا۔ وہ مدتوں احمد شاہ مسعود کا دست راست رہا۔ اس تاجک کا تعلق وادی پنج شیر سے ہے۔ وہ کرزئی کا وزیر خارجہ رہا۔ 2009ء میں کرزئی کے خلاف الیکشن سے دست بردار ہوگیا۔ وہ بعد میںکرزئی پر سخت تنقید کرتا رہا۔ اس نے حالیہ انتخابات میں کرزئی کی جانب سے اشرف غنی کی حمایت کرنے پر اسے ہدف تنقید بنائے رکھا۔ عبداللہ پاکستان مخالفت اور ہندوستان دوستی کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ اسے ہندوستان میں اسٹیٹ گیسٹ کے طور پر ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔دی اکانومسٹ نے اپنے تازہ شمارے میں لکھا ہے۔دوران حلف دونوں امیدواروں کے درمیان کسی قسم کی کوئی گفتگو نہ ہوئی۔ نہ ہی وہ پُرسکون دکھائی دیتے تھے۔ کسی پرائمری سکول میں کھیلوں کے مقابلے جیسے اس معاہدے کے مطابق سب جیت گئے۔ یہ سب کچھ شدید انتخابی معرکے کے بعد دو متوازی حکومتوں کے قیام کی دھمکیوں اور خانہ جنگی کے اُمنڈتے طوفانوں کے خوف سے کروایا گیا۔ ان دونوں سربراہان کا ملاپ آگ اور پانی کا اشتراک ثابت ہوگاجو زیادہ دیر تک کے لیے نہ ہوپائے گا۔ دونوں کی باہمی منافرت پر امریکیوں نے وقتی سکوت کی خاک ڈال دی ہے۔ جو الہ مکھی کے منہ سے لاوا نکلے گا تو افغانستان دوبارہ تاج و تخت کی جنگوں کا ایک تازہ ترین باب لکھے گا۔
افغانستان میں کرپشن نئی حکومت کے لیے چیلنج نمبرون ہوگی۔ کرزئی نے سارے کی ساری بیور کریسی کو اس غلیظ تالاب میں اشنان کی عادت ڈال دی ہے۔ ملک متصادم قبائلی مفادات کی ڈھلوان پر پھیلے جارہا ہے۔ افغان فوج نے اپنی ناقابل اعتباری کو کئی بار انتہائی شوخ رنگ دیے ہیں۔ امریکا اور اتحادیوں کے لٹے پٹے لشکر کئی صوبوں میں گند بلا کی طرح بکھرے ہوئے ہیں۔ ملک کی معیشت دراصل پوست کی کاشت کا دوسرا نام بن کر رہ گئی ہے۔ افغانستان میں گندم کی کاشت اس کے مقابلے میں شکست فاش کھا گئی ہے۔ جا بجا چوروں، ڈاکوں کے جھتے علاقوں میں حکومتی رٹ کی دھجیاں بکھیرے ہوئے ہیں۔ ملک میںتعلیم خوار و زبوں ہو کر منہ چھپاتی پھرتی ہے۔ اسپتال بموں نے پرخچے بناکر اڑا دیے ہیں۔ ملک کو مغربی رنگ دینے کے لیے کابل میں ڈسکو کلب بنائے گئے ہیں۔ سینما ہالوں میں فرنگیوں کے برہنہ رقص دکھائے جارہے ہیں۔ اقتصادی اپاہج ملک میں روٹی کے بدلے فحاشی کے گل چھرے بکھیرے جارہے ہیں۔ امریکا اور نیٹو کوچ کا نقارہ بجانے کو ہے۔ اس کی شکست فاش کے بدنما چہرے پر نئے نئے معاہدوں کا غازہ اور سرخی ملی جارہی ہے۔ 13 برس بعد بھی عیسائیوں کا غول بیابانی افغانستان کے بیابانوں میں تہی دست کھڑا ہے۔ اس کی کشکول میں کارناموں کے سکے ندار ہیں۔ 2014ء کے پہلے 6 ماہ میں امریکا اور اتحادیوں کو حملوں اور تباہی میں 2001ء سے لے کر اب تک سب سے زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ افغان سپاہ کا تار و پود بکھر کر طالبان میں شامل ہوئے جارہا ہے۔
وہ جنہیں امریکیوں نے دائو پیچ سکھائے اب اپنی مہارت اور فرنگی اسلحے سمیت طالبان میں دھڑا دھڑ شامل ہوئے جارہے ہیں۔ امریکی ادارے (SIGAR) Special Inspector General for Afghanistan Reconstruction کے مطابق 83362 کلاشنکوفوں میں سے 178 باقی بچی ہیں۔ RPK مشین گنوں میں سے 24471 دی گئیں تھیں، اب صرف 9345 باقی رہ گئی ہیں۔ Gp 25/30 گرنیڈ لانچروں جن کی تعداد 18322 تھی، اب 4838 رہ گئے ہیں۔ رشین PKM مشین گنیں 18020 تھیں، اب15302 رہ گئی ہیں۔ Gauge 12 شارٹ گنیں 11710 تھیں، اب 9846 بچی ہیں۔ RPG-7 اینٹی ٹینک گنیں 8442 تھیں، اب 5019 رہ گئیں ہیں۔ M4 کا لائن رائفلیں جو 1161 کی تعداد میں بانٹی گئیں، ان میں سے 621 موجود ہیں۔ باقی تمام اسلحہ اور فوج بھگوڑا ہوگئی ہے۔ امریکا اور نیٹو کا انتہائی مہلک اسلحہ اب طالبان کے ہاتھوں میں چلاگیا ہے۔ جب ہی ان کے حملوں میں مرنے والوں میں امریکی میجر جنرل رینک تک کے افسر شامل ہونے لگے ہیں۔ سو امریکا کے لیے اپنی خوابوں میں تعبیروں کا رنگ بھرتا تو درکنار ان کو ہولناکیوں سے دامن چھڑانا مشکل ہوگیا ہے۔ وقت نے ثابت کر دیا ہے افغانستان میں باہر سے درآمد ہونے والے لشکرئیوں اور ان کے اتحادیوں کے لیے چھپنے کی کوئی جگہ نہیں۔ اس زمین نے انگریزوں، روسیوں اور امریکیوں کو جائے پناہ نہیں دی۔ ہر ایک کو ذلت و رُسوائی کے بدنما داغوں کے ساتھ پسپا ہونا پڑا۔ اس ملک میں وہی حکومت چلے گی جس کے لیے لبیک افغانوں کے دلوں سے نکلے گی۔ افغانستان میں داخلی امن کے بعد ہی ایشیا پرامن ہو گا۔ علامہ اقبال نے مدتوں پہلے اس سچائی کا پورے طور پر ادراک کر لیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا: ’’ایشیا پانی اور مٹی کے جسم کی مانند ہے اور افغان اس جسم کا دل ہیں۔ اگر دل میں اضطراب رہے گا تو پورا جسم بے سکون ہو جائے گا۔ اگر دل چین سے آشنا ہو جائے تو سارے جسم یعنی ایشیا پر سکون چھا جائے گا۔‘‘ خدا کرے کہ یہ دل فرنگی اضطرابوں سے مستقل نجات پاجائے۔
– See more at: http://www.zarbemomin.com.pk/index.php/yasir-muhammad-khan/280-affhanistan-me-muhron-ki-tabdeli#sthash.CUZXxX4l.dpuf
بے یقینی کے سائے
’’چی ناکین‘‘ (Chie Nakane) ٹوکیو یونیورسٹی کی ایک بین الاقوامی شہرت کی حامل ٹیچرہیں۔ وہ وہاں سماجی نشریات کے شعبے میں پڑھاتی ہیں۔ انہوں نے جاپانی قوم پر ایک مشہور و معروف کتاب لکھی ہے۔’’ Japan Society‘‘ (جاپانی معاشرہ) کے نام سے یہ انگریزی زبان میں ترجمہ ہوچکی ہیں۔ ’’ناکین‘‘ نے کتاب کے مواد کے لیے سارے جاپان میں تحقیق کی۔ وہ ملک کے کونے کونے میں گئیں۔ ان کی اس کتاب کا آغاز ایک چونکا دینے والے فقرے سے ہوتا ہے۔ ’’ناکین‘‘ نے اسے اپنی ساری زندگی کی ریاضتوں کا ثمر کہا ہے۔ یہ فقرہ ہے’’The Constant Desire of Japanese Mind is to Rise a Little Higher Than the Average ‘‘(جاپانی زمین کی مسلسل خواہش ہے کہ وہ ایک اوسط انسانی ذہن سے کچھ اوپر چلا جائے) یہی تڑپ تھی جس نے 1945ء کے بعد جاپان معاشی ،معاشرتی اور عسکری طور پر امریکا کا غلام بن کر رہ گیا۔ جاپان وقت کے ساتھ ساتھ ہیرو شیما اور ناگا ساکی کی راکھ سے باہر نکل آیا۔ ان گنت زلزلوں اور سیلابوں کے باوجود جاپانی قوم نے دنیا کی مضبوط ترین معیشتوں میں جگہ بنالی۔ امریکی میگزین ٹائم کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکا جاپان کو 26 بلین ڈالر کا سامان برآمد کرتا ہے، جبکہ امریکا کو جاپان سے 85 بلین ڈالرز کی مصنوعات خریدنا پڑتی ہیں۔
امریکا جاپان سے قرض میں اب تک 3 ٹریلین لے چکا ہے۔ امریکی اکانومی گردشوں کے چکر میں آکر ہچکولے کھا رہی ہے ۔جاپان آج کی دنیا کا سب سے بڑا مہاجن اور امریکا سب سے مقروض ملک ہے۔
جاپان حجم کے اعتبار سے ایک نسبتاً چھوٹا ملک ہے۔ آپ دنیا کے نقشے میں اسے ڈھونڈیں تو مشکل پیش آجاتی ہے۔ یہ ایشیا کی انتہائی مشرقی سمت میں چھوٹے چھوٹے جزیروں میں بٹا ہوا ہے۔ سمندر نے ہزاروں سال میں اسے اپنی جگہ سے ہٹا کر معلق کردیا ہے۔ اس ملک کی زمین معدنیات سے خالی ہے۔ یہ اپنا سارے کا سارا خام مال بیرونی دنیا سے منگواتا ہے۔ موسمی اعتبار سے بھی یہ ایک نہایت درجہ ناہموار ملک ہے۔ اس کے پاس قابل کاشت اراضی کی شدید کمی ہے۔ خورد نی اجناس کے لیے اس کے درآمدات ہمہ وقت جاری رہتی ہیں۔ اس بے اعتبار سرزمین کا سب سے بڑا اعتبار اس کے باسی ہیں۔ درحقیقت جاپان کے مقدر کے ستارے ہیں، جو دنیا بھر میں چمک بکھیر رہے ہیں۔ عام جاپانی ورکر جنوں اور دیووں جیسی توانائی کا مالک ہے ۔یہ فرانس اور جرمنی کے ورکروں سے 2 ہزار گھنٹے سالانہ زیادہ کام کرتا ہے۔ امریکا اور برطانیہ میں کام کرنے والوں کی نسبت یہ 15 سو گھنٹے سالانہ زیادہ اپنے کاموں میں مشغول رہتا ہے۔ جاپانی ڈاکٹروں کی کونسل نے سالانہ بنیادوں پر ان کو کام کم کرنے کی تجاویز دی ہیں۔ جاپانی حکومتوں نے ان تمام سفارشات کو ہو بہو لاگو بھی کر دیا ہے۔ اس کے باوجود ایک عام جاپانی کارکن ان ساری کی ساری حدود قیود سے اوپر اٹھ جاتا ہے۔ وہ اپنے کام میں غیر معمولی یکسوئی اور محنت دکھاتا ہے۔ یوں ان جاپانیوں نے اپنے ملک کو دنیا کی تین سب سے بڑی معیشتوں میں شامل کروا لیا ہے۔ جاپانی لیڈر شپ نے معجزے کر دکھائے ہیں۔
’’چی ناکین‘‘ نے اپنی کتاب میں ’’کیروشی‘‘ (Karoshi) نامی ایک اصطلاح متعارف کروائی ہے۔ یہ زیادہ کام کرنے سے واقع ہونے والی موت کی علامت ہے۔ جاپانی لیبر منسٹری ہر ٹرم کے خاتمے پر ہر کارکن کو ایک مہینے کی چھٹی بمعہ تنخواہ دیتی ہے۔ 89 فیصد جاپانی اس دل کش پیش کش سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ وہ اپنی قوم کی دنیا کی سب سے زیادہ محنتی اور جفاکش قوم بنانے کے لیے مسلسل معروف رہتے ہیں۔ کیروشی ہونے والے ورکروں کے لواحقین کو جاپانی حکومت خاصا معاوضہ دیتی ہے۔ 61 فیصد جاپانی یہ کلیم سرے سے داخل ہی نہیں کرواتے۔ 42 فیصد جاپانی بیماری کی حالت میں بھی اپنے کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔جاپان میں سالانہ اوسطاً 98 زلزلے آتے ہیں۔ عموماً ان کی رینج کم ہوتی ہے۔ سارا ملک پیہم لرزتا رہتا ہے۔دن میں ایک دوبارہ جاپان جھٹکے کھاتاہے۔ اس کے باوجود جاپانی اپنے کام کاج میں معروف رہتے ہیں۔ ان کے پاس ہمہ وقت چند دنوں کی خوراک ،پانی ،ایک ٹارچ ،ریڈیو، موبائل اور فرسٹ ایڈ کا بکس رہتا ہے۔ وہ کسی بھی ناگہانی صورت حال کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ جاپان ہر عشرے میں دو تین بار سمندر میں شدید زلزلے آنے کے بعد سیلابوں کی زد میں آجاتا ہے۔ جاپانی ایسے نازک وقت میں بھی امداد کے لیے دنیا میں ہاتھ نہیںپھیلاتے۔ وہ اپنے کام کا دورانیہ بڑھا دیتے ہیں۔ ہفتوں میں ملک اپنے پیروں پر کھڑا ہو جاتا ہے۔
جاپان نے 1945ء کے بعد کے ان ستر برسوں میں 15 ایسے خوفناک سیلابوں کا سامنا کیا ہے۔ 27 بار بھاری زلزلوں نے ملک کو تلچھٹ کردیا ہے۔ اگر ہم صرف 21 ویں صدی کے زلزلوں اور سیلابوں کی فیگرزدیکھیں تو 21 جون 2003ء کو جاپان میں زلزلے اور سیلاب میں 12,000 افراد جاں بحق ہوئے۔ 16 اگست 2005ء کو 7331 افراد، 20 مارچ2006ء کو 6551، 15 نومبر2006ء کو 2221، 25 مارچ2007ء کو 3742، 14 جون2008ء کو 1843ئ، 9 اگست 2009ء کو 873 افراد ہلاک ہوگئے۔ کھربوں ین کا نقصان ہوا۔ شہروں کے شہر جڑوں سے اُکھڑ گئے۔ 11 مارچ 2011ء یہاں سمندری زلزلے کے بعد خوفناک سونامی آیا۔ 128 فٹ تک بلند لہریں اُٹھیں، انہوں نے تمام ساحلی شہروں کو غرق کر کے رکھ دیا۔ 3 لاکھ افراد ان سے شدید طور پر متاثر ہوئے۔ شہروں اور دیہات میں عارضی پناہ گاہیں بنائی گئیں۔ ان پچھلے ساڑھے 3 سالوں میں جاپان میں ایک ہزار سے زائد چھوٹے چھوٹے زلزلے آچکے ہیں۔ جاپانی اسی ارضی آفت سے مغلوب نہیں ہوئے۔ وہ ان عذابوں سے جلد از جلد نکل کر کامیابی کی شاہراہ پر دوبارہ منزلیں مارنے لگے۔ جاپان میں وزیراعظم آئے دن بدلتے رہتے ہیں۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ پالیسیاں اسی طرح جاری و ساری رہتی ہیں۔ نہ سیلاب قوم کو زیادہ دیر ڈبوے رکھتے ہیں۔ نہ زلزلے جاپانیوں کو دہشت کا اسیر بنائے رکھتے ہیں۔ نہ کیروشی کی وجہ سے کام میں کمی آتی ہے۔ نہ محنت وہمت کا کارواں کہیں زیادہ دیر پڑائو ڈالے رکھتا ہے۔ آج کی دنیا میں جاپان امریکا ،برطانیہ ،فرانس اور جرمنی سے زیادہ مضبوط اکانومی ہے۔ جاپانیوں نے ناممکن کا لفظ اپنی قومی ڈکشنری سے کھرچ کر مٹا دیا ہے۔اس کی جگہ انہوں نے کیروشی جیسا بامعنی اور پرتفسیر لفظ شامل کر دیا ہے۔ ایسی قوم کی ترقی میں نہ امریکا کوئی رکاوٹ ڈال سکتا ہے نہ ارضی و سماوی آفات ان کو پابند سلال کر سکتی ہیں۔ مسلسل کام اور غیر متزلوں عزم جاپانیوں کے شعور کی سب سے بڑی توانیاں ہیں۔ ان کا ایمان ہے کہ ان کی غریب لیڈر شپ انہیںکبھی دھوکہ نہیں دے سکتی۔ 1945ء سے اب تک وژن سے بھرپور لیڈروں کی ایک نہ ختم ہونے والی قطار ہے جو قانون کی پابند رہی ہے۔ جن کا معیار زندگی عام جاپانی کا معیار زندگی ہے۔ جو ٹیکس دینے میں اولیت دکھاتے ہیں۔ جو ہمہ وقت وطن اور قوم دوست ہیں۔ جو ابھرتے ہوئے سورج کے دیس کو واقعی جگمگاتا اور روشن ملک بناچکے ہیں۔
پاکستان رقبے اور آبادی کے لحاظ سے جاپان بڑا ملک ہے۔ اسے ہیروشیما اور ناگا ساکی جیسے سانحوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ہمارے ملک کو خدا نے معدنیات کے خزانوں سے نوازا ہواہے۔ ہم بے شمار شعبوں میں مکمل خودکفیل ہیں۔ ہمارے موسم سازگار اور زمینیں نہایت درجہ زرخیز ہیں۔ ہمارے ہاں قحط ہے تو قحط الرجال کا، ہمیں بدقسمتی سے سو زر ساز رکھنے والے لیڈر نہیں مل پائے۔ ایسے لیڈر جو بکھری ہوئی قوم کی شیرازہ بندی کر سکتے۔ حالیہ بارشوں اور سیلابوں نے اس بڑی کمی کی شدت کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق پنجاب کے 38 اضلاع ان سے شدید طور پرمتاثر ہوئے۔ 2 کروڑ 40 لاکھ افراد ان کی زد میں آگئے۔ 22 لاکھ ایکٹر پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں۔ اب تک 34 ہزار گھر کلی طور پر اور 80 ہزار جزوی طور پر تباہ ہوچکے ہیں۔ 500 سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ 5 ہزار 260 سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔ کرنٹ لگنے سے 140 اموات ہو چکی ہیں۔ 600 دیہات زیر اب آچکے ہیں۔ سندھ میں کچے کا علاقہ ریلوں میں بہہ گیاہے۔سندھ میں 26 لاکھ افراد کے متاثر ہونے کا خدشہ کیا جارہا ہے۔ ہمارے 43 ڈیم پانی سے لبالب بھرگئے ہیں۔ ہم اسے شعبے میں دنیا بھر میں ہزاروں میل پیچھے ہیں۔ چین میں 9752 ڈیم، امریکا 6531، فرانس میں 4859 اور انڈیا میں 4710 ڈیم ہیں۔ ہمارے لیڈروں نے اپنی بے حسی اور کوتاہ نظری سے اس قوم کو بار بار ڈبویا ہے۔
آپ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، تحریک انصاف کی بڑی لیڈر شپ پر ایک نظر ڈالیں تو آپ جان جائیں گے کہ یہ اربوں کھربوں پتی لوگ ہیں۔ ان کے لیے اقتدار سرمائے کو کئی گنا بڑھانے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ مسلم لیگ ن کو سب بزنس مینوں کی پارٹی کہتے ہیں۔ کوئی بھی ذی ہوش اسے غریبوں ،مسکینوں اور ناداروں کی پارٹی نہیں کہتا۔ کون نہیں جانتا کہ بھارت سے نہایت سستی سبزیاں درآمدات کرنے اور ان کو 5 گنا مہنگا کر کے بیچنے میں اس پارٹی کی لیڈر شپ کا کتنا مرکزی ہاتھ ہے؟ ملک کی پولٹر ی کی صنعت کا سب سے بڑ ا ٹائی کون انہی لیڈروں کی اولاد میں سے ہے۔ ہماری جمہوریت دراصل لکڑی کے خوشنما پھلوں کی مانند ہے۔ غریب عوام بھوک سے بے حال ہو کر جب انہیں چباتے ہیں تو ان کے دانت ٹوٹ جاتے ہیں۔ ہماری قومی اور صوبائی اسمبلیوں، سینٹ کے 90 فیصد سے زائد اراکین چند ہزار روپے ٹیکس بھی ادا نہیں کرتے۔ ہمارے وزیراعظم، وزرائ، وزائے اعلیٰ اربوں روپے کے مقناطیس ہاتھوں میں لیے گھومتے ہیں۔ یہ مقناطیس ہر کونے کدرے سے سرمائے کو کھینچ کر باہر نکال لیتے ہیں۔ یہاں اقتدار کے کنویں میں جس نے بھی ڈول ڈالا ہے اس نے اپنی نسلوں کی پیاس بجھا لی ہے۔ یہ ظالم حرص ہے کہ ختم ہونے پر ہی نہیں آرہی۔ ملک وی آئی پی کلچر کی مکمل زد میں آیا ہوا ہے۔ عام پاکستانیوں کے ٹیلنٹ اور صلاحیتوں کا لوہا سب دنیا مانتی ہے۔
ملک میں مہنگائی، بے روزگاری اور غربت سے نیچے بہت نیچے سرک چکی ہے۔ ہم ہیں کہ عقل و فہم سے عاری تقریروں اور خطابوں کے سیلابوں میں بہے جارہے ہیں۔ اسلام آباد کو مسٹر اور حضرت کے دھرنوں نے ڈبویا ہوا ہے۔ حکومتی لیڈر شپ کسی بلند وژن اور شعور کو تج چکی ہے۔ آج کی اس دنیا میں جہاں ناساز گار حالات میں قومیں مسائل کے گرداب سے نکل کر بلندی کی طرف محو پرواز ہیں۔ ہم بے یقینی کے پانیوں میں ڈولی نائو بنتے جارہے ہیں۔ حکمرانوں کو اس سے کچھ غرض نہیں۔ ان کی فیکٹریوں، دفتروں اور ملوں میں پہیہ پوری شان سے گھولے جارہا ہے۔ اس ٹکسال سے ہمہ وقت موتی بیلنس میں ہرروز اضافہ ہوئے جارہا ہے۔ اولاد سونے اور ہیرے کے چمچے منہ میں لے پیدا ہوئے جارہی ہے۔ علاج بیرون ملک اور پروٹوکول اندرون ملک انجوائے کیا جارہا ہے۔ کاش! ہم جاپان سے سبق سیکھ لیتے۔ کاش! ہم چین سے کوئی جارہا ہے۔ کاش! ہم امداد کی بجائے حریص لیڈروں کے خالی سروں کے لیے تھوڑا سا بھیجہ مانگ لیتے۔
تحریر یاسر محمد خان
’’ول ڈیورنٹ‘‘ کو موجودہ دور کے بلند پایہ تاریخ دانو ں میں شامل کیا جاتا ہے۔ وہ بنیادی طور پر ایک شاندار فلاسفر تھا۔ اس کی فہم و فراست پڑھے لکھے حلقوں میں ایک استعارہ بن گئی ہے۔ گوروں کا تعصب اس کے خمیر میں شامل نہ تھا۔ اس نے 11 جلدوں پر ’’اسٹوری آف سولائزیشن‘‘ لکھی۔ کتاب کی جلد اسلامی تہذیب و تمدن سے متعلق ہے۔ اس نے مسلمانوں کے دور عروج کا معاشی جائزہ بھی پیش کیا ہے۔ اسلام کے سنہری دور میں دنیا بھر کے مسلمان نہایت درجہ خوشحال تھے۔ خلافت نے ان کو ایک لڑی میں پرو رکھا تھا۔ گتے اور کھانڈ کی تیاری کے طریقے یورپ نے عربوں سے سیکھے۔ سفید فاموں نے سب سے پہلے کپاس کی کاشت مسلمانوں سے جانی۔ عربوں نے آبپاشی کا نظام متعارف کروایا۔ دلدلی زمینیں صاف کروائی گئیں ۔ چار اراضی بہشتوں کو متعارف کرایا گیا۔ یہ جنوبی فارس، جنوبی عراق، دمشق سمرقند اور بخارا کا درمیانی علاقہ تھا۔ زمین سے سونا، چاندی، فولا د، سیسہ، پارہ، اینٹی منی، سلفر، ایسٹس، سنگ مرمر اور دوسرے قیمتی پتھرنکالے گئے۔
غواصوں نے خلیج فارس میں موتی تلاش کرنے کے لیے غوطے لگائے۔
گھروں، دست کاروں کی دکانوں اور تجارتی انجمنوں کے درمیان ایک مربوط نیٹ ورک بنایا گیا۔
ہوائی چکیاں تعمیر کی گئیں۔ یورپ نے 12 ویں صدی میں انہیں عربوں سے نقل کیا۔ مکینکل قابلیت مسلم زمینوں میں اپنے بلند نقطے کو چھو گئی۔ آبی گھڑی بنائی گئی جو چمڑے اور مرصع کاری شدہ تانبے سے بنی ہوئی تھی۔ ہر گھنٹہ مکمل ہونے پر دھاتی چوبدار ایک دروازہ کھولتا تھا۔ فارسی، شامی اور مصری ٹیکسٹائل نے بلندی کی طرف سفر طے کیا۔ موصل اپنے سوتی ململ کے لیے مشہور ہوا۔ دمشق کی لینن دنیا بھر میں معروف ہوئی۔ اسی شہر کی تلواروں نے بھی سب کو مات دے دی۔ بغداد میں شیشے اور ظروف سازی کی صنعتوں نے نام بنایا۔ اسے برتنوں، سوئیوں اور کنگھوں میں سب سے آگے نکل گیا۔ رقہ زیتون کے تیل اور صابن سازی میں نام کما گیا۔ فارس عطر اور چٹائیوں میں سب کو پیچھے چھوڑ گیا۔ مسلمانوں نے مشرق و مغرب میں تجارت کو بڑے پیمانے پر فروغ دیا۔ حضرت زبیرؓ پر خدا کی کرم نوازی ہوئی۔ ان کے کئی شہروں میں محلات تھے۔ ان کے پاس ایک ہزار گھوڑے اور 10 ہزار غلام تھے۔ حضرت عبدالرحمنؓ کے پاس ایک ہزار اونٹ، 10 ہزار بھیڑیں اور نقد میں 40 ہزار دینار تھے۔ یہ اہل ثروت کثرت سے صدقہ اور خیرات کرتے تھے۔ جی بھرکے زکوۃ ادا کرتے تھے۔
وقت کے ساتھ ساتھ خلافت دنیا بھر میں پھیلتی گئی۔ مسلمانوں کے سنہری عہد نے اوج ثریا کو چھونا شروع کردیا، ملکہ آئرینے نے خلفا ء کو سالانہ 70 ہزار دینار ادا کر کے صلح کرلی۔ خلافت کی سالانہ آمدنی خلیفہ ہارون الرشید کے عہد میں 90 کروڑ درہم سے بڑھ گئی تھی۔ ہارون الرشید نے خزانے میں 4 کروڑ 80 لاکھ دینار چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوا۔ ہارون کے وزیر یحییٰ برمکی نے ایک قیمتی ڈبیا کے بدلے 2 کروڑ درہم دینے کی پیش کش کی، سودا طے نہ پا سکا۔ خلیفہ ممصلی المکتفی 2 کروڑ دینار کے زیور اور قیمتی خوشبوئیں چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوا۔ بغداد کے شاہی محل میں 22 ہزار قالین بچھے ہوئے تھے۔ دیواروں پر گل بافت کے 38 ہزار نمونے تھے، جن میں سے 12 ہزار 5 سو ریشم کے بنے ہوئے تھے۔ المقتدر نے اپنا پلیا دیس کا محل تعمیر کروایا، جس پر 4 لاکھ دینار خرچ ہوئے۔ اس محل کے طول وعرض کا اندازہ اس کے اصطبل سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس میں 9 ہزار گھوڑے، اونٹ اور خچر تھے۔ خلیفہ المکتفی کے محل کے باغات 9 مربع میل پر پھیلے ہوئے تھے۔
خلیفہ المقتدرکے باغ والے تالاب میں سونے اور چاندی کا ایک پورا درخت تھا۔ چاندی کے پتوں پر نقرئی پرندے اور سونے کے پتوں پر طلائی پرندے سے بیٹھے ہوئے تھے۔ اس خلیفہ نے یونانی سفیروں کو اپنے 22 محلات دکھائے۔ جن میں سنگ مر مر کے دالان، آرائشی قالینوں پر جادو کر دینے والے مناظر، گھوڑوں کی طلائی اور نقرئی کاٹھیاں، کشادہ ترین باغوں میں قسم قسم کے سدھائے ہوئے پرندے اور جانور تھے۔ فاطمی خلیفہ مصر کی دو بہنیں فوت ہوئیں تو مال متروکہ میں 27 لاکھ دیناراور 12 ہزار عبائیں تھیں۔ 3 ہزار چاندی کی صراحیاں، 400 مرصع تلواریں، قصیلہ کی ٹیکسٹائل کے 30 ہزار پارچے اور بے شمار زیورات بھی ملے۔ ابن ا طولون کی مسجد میں 18 ہزار چراغ روشن کیے جاتے تھے۔ ہر چراغ پر چاندی کا قیمتی کام کیا گیاتھا۔ المتوکل نے 7 لاکھ دینار سے ایک انتہائی دیدہ زیب مسجد تعمیر کروائی تھی۔ بغداد کی مسجدیں اپنی وسعت، فن تعمیر اور نقش کاری میں مشہور تھیں۔
عرب تاجروں کی تجارت دنیا کے طول و عرض میں پھیل گئی۔ ان کی دولت شمار میں نہ آتی تھی۔ خلیفہ المتقدر نے مشہورسنار ابن االجنساس کے ایک کروڑ 60 لاکھ دینار ضبط کرلیے، مگر وہ بدستور امیر کبیر رہا۔ بہت سے مسلمان تاجر سمندر پار 40 لاکھ دیناروں تک کے مالک تھے۔ اسلامی دور کے فقط عروج پر ہزاروں تاجر 10 ہزار سے لے کر 30 ہزار دیناروں سے تعمیر شدہ گھروں میںرہائش پذیر تھے۔ ان کی تجارت کے قافلے عموماً 4 ہزار 700 اونٹوںپرمشتمل ساری دنیا میں محو گامزن رہتے۔ روپیہ پیسہ ہن کی طرح برستا تھا۔ سوہر سو خوشحالی کے شادیانے بجتے تھے۔ بہت سی تجارت دریائوں اور نہروں کے ذریعے تکمیل کو پہنچتی تھی۔ بغداد میں 750 فٹ چوڑے کشتیوں کے 3 پل بنائے گئے۔ ان سے دریائے دجلہ کو پار کیا جاتا تھا۔ 4357 کارواں سرائیں، شفاخانے اور عارضی آرام گھر بنائے گئے۔ جانوروں کے سستانے کے لیے 10 ہزار سے زائد اصطبل بنائے گئے۔ کوئی بے گھر فرد ڈھونڈنے سے بھی نہ ملتا تھا۔ اگر ملتا تو وہ شہر کی سب سے خوبصورت مسجد میں رات گزار سکتا تھا۔
ڈیورنٹ کے مطابق عربوں کے غلاموں کی حالت انیسویں صدی کے یورپ کے فیکٹری مزدورں سے بدر جہ ابہتر تھی۔ مسلمانوں کی معاشی ساکھ اس طور پر مضبوط تھی کہ ’’پرامیسری نوٹوں‘‘ (Promissory Notes)کا اجراح ان کے دور میں ہوا۔ ابن حوقل نے مراکش کے ایک تاجر کے 4 لاکھ 29 ہزار دیناروںکے پرامیسری نوٹ کا ذکر کیا۔ عربی زبان کا لفظ ’’سک‘‘ (Sakh) سے انگریزی کا لفظ چیک بنا۔ یورپی زبانوں نے ٹیرف، ٹریفک، میگزین، کارواں، بازار وغیرہ کے سارے Conceptsاور الفاظ عربی سے لیے۔ (باقی صفحہ5پر) مسلم تہذیب کے بلند ترین دور میں شہروں اور ملکوں میں میلے ٹھیلے ہنڈیاں اور بازار فروخت کا ری سے ہمہ وقت ہمہماتے تھے۔
دسویں صدی عیسوی میں تجارتی سرگرمیاں اپنے عروج پر پہنچ گئیں۔ یہ وہ وقت تھا جب سارے کا سارا یورپ جہل کی پستی میں دھنسا ہوا تھا۔ مسلم تجارت تیونس، قصیلہ، مراکش، سپین، یونان، گال، اٹلی، منگولیا، فن لینڈ، ناروے، جرمنی، ڈنمارک اور سویڈن تک پھیلی ہوئی تھی۔ یورپی باشندے دم بخود اور چندھیائی آنکھوں سے دنیا کی عظیم ترین تہذیب کی چمک دیکھ رہے تھے۔ ڈیورنٹ کے الفاظ میں اسلامی دنیا کی روشنیاں مل کر ایک کہکشاں بناتی تھیں جن سے آسمان عالم جگمگا رہا تھا۔ صنعتی اور تجارتی اعتبار سے خلافت اس بلندی تک پہنچی کہ سارے کے سارے مسلمان اس کے خوشہ چین بن گئے۔ معیشت کی مضبوطی سے عام مسلمان بھی فراواں اور خوشحال زندگی بسر کر رہے تھے۔ بڑی شاہرایں بغداد سے نکل کر نیشاپور، مرو، بخارا، سمر قند اور کاشغر تک کوفہ سے لے کر مدینہ، مکہ، عدن، موصل اور دمشق تک پھیلی ہوئی تھیں۔ سبسڈی (Subsidy) کا جدید نظام خلافت نے متعارف کروایا۔ کسی بھی ضروری شے کی کمی پر حکومت حرکت میں آتی ۔ شاہی خزانے سے اس کے نرخ ادا کرکے اس کی فراوانی کو لازمی بناتی تھی۔ مسلم تہواروں اور عیدوں پر اسلامی دنیا کی خوشحالی نکھر کر سامنے آجاتی۔ خصوصاً عیدقرباں پر غربا اور مسکینوں کو ڈھونڈا جاتا تو اسلامی دنیا میں وہ خال خال ملتے تھے۔ یورپ تک سے قربانی کے جانور لائے جاتے۔ خلافت نے ہر مسلمان کو ثواب میں شریک کرنے کے لیے ایک مربوط پالیسی بنا رکھی تھی۔ عید قربان سے چند ماہ پہلے ہی قربانی کے جانوروں کے جھتے جمع کیے جاتے اور سلطنت کے طول و عرض میں بہم کر دیئے جاتے۔ کبھی بھی نہ مویشیوں کا کال پڑتا، نہ ان کے نرخ بلند ہوتے۔ سارا عالم اسلام خشوح وخضوع کے ساتھ سنت ابراہیمی ادا کرتا۔ خلافت کے خوشحالی کارواں میں سب چھوٹے بڑے شریک تھے۔
جب خلافت کا شیرازہ بکھرا تو مسلم دنیا 56 چھوٹے بڑے ملکوں میں بٹ گئی۔ وہ سارے ثمرات جو ایک بہت بڑی سلطنت کے شجر سے آتے تھے معدوم ہو کر رہ گئے۔ مسلمان کی اخوت ایک خواب بن کر رہ گئی۔ مسلم دنیا کی اکثریت میں ایسے حکمران آئے جنوں نے ناک کی نوک سے آگے دیکھنا جرم قرار دے دیا۔ آج کہنے کو دنیا میں 58مسلم ملک ہیں۔ ان کی قوت کو یورپیوں نے سلب کر رکھا ہے۔ حاکم گوری چمڑی والوں کے زرخرید غلام بن کر رہ گئے ہیں۔ ان میں بیشتر کھربوں پتی اور عوام نہایت درجہ مفلوک الحال ہے۔ تہواروں پر یہ فلاکت کھل کر اپنا تماشا دکھاتی ہے۔ ملک کیا ہیں 56کنویں ہیں جن میں اقتدار کے مینڈک ٹراتے رہتے ہیں۔ ساری دنیا میں مسلمان زبوں حال ہیں۔ فلسطین، لبنان، شام، عراق، افغانستان، لیبیا اور مصر میں ان پرسخت کڑا وقت آیا ہوا ہے۔ ان کے ہونٹوں پر یاس کی بیڑیاں جمعی ہوئی ہیں۔ ان کے پیروں کو دکھوں کے کانٹوں نے لہولہان کیا ہوا ہے۔ ان کی سہمی نظروں میںتباہی اور بربادی کی راکھ دکھائی دیتی ہے۔ ان کی آہ و فغان اجڑی ہوئی دنیا کے سنسان کناروں میں گونجتی پھرتی ہے۔ نوحے مسلم بستیوں میں سر پٹکتے پھرتے ہیں۔ دکھ درد ہیں کہ سینوں پر پہاڑوں کی طرح کھڑے ہو گئے ہیں۔ آنسوئوں کے سیلاب سمندروں کو شرمندہ کیے دے رہے ہیں۔ مسلم دنیا کی اکثریت ظلم سہتے ہوئے حبشی کی طرح ریت پر رینگ رہی ہے۔ ان کے گلو ں میں غلامی کے طوق اپنوں ہی نے کس رکھے ہیں۔ ان کے جسموں پر دروں اور کوڑوں کے زخم غیروں نے اتنے نہیں لگائے جتنے کہ اپنے بھائی بندوں کی مہربانی سے لگے ہیں۔ نیل سے کاشغر تک ہر مسلم تہوار پر امت کی تنگی داماں پوری طرح آشکار ہو جاتی ہے۔ مسلم ملک چڑھے ہوئے پانیوں کے جزیرے ہیں جن پر عذاب ناک موجیں پہم سر مارتی رہتی ہیں۔
ہم جب سے مغربی نظریات کے بوجھ تلے آئے ہیں ہماری عقل و خرد مکمل طور پر گم ہو رہ گئی ہے۔ ہم بے روح جمہوریت کے پجاری بن گئے ہیں۔ ہم نے اپنی میراث کھوئی ہے تو غیر بھی ہمیں گلے لگانے کو نفر ت کے قابل سمجھنے لگے ہیں۔ ہم نے خلافت کا آب حیات رد کیا تو ساحلوں کی تشنگی ہمارا مقدر بن گئی۔ آج ہم اپنے ماضی کی حقیقتوںکو خواب و خیال کے قصوں کی طرح سنتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ جب ہم خلافت کی مالا کے موتی تھے تو اس کا نور آنکھوں کو خیرہ کرتا تھا۔ جب مالا ٹوٹی تو ہر موتی ریت میںگم ہو کر اپنا وجود کھو بیٹھا۔ آج ہم 58اکائیاں ہیں ایک امت نہیں ہیں۔
آپ صرف پاکستان کو دیکھئے۔ اس میں آج 10 لاکھ مسلمان اپنے گھربار چھوڑ چھاڑ کر مہاجر ہو گئے ہیںاور خواروزبوں پھر رہے ہیں۔ 2 کروڑ لوگ سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ حکومت کی رٹ شاہراہ دستور اسلام پر قائم نہیں ہے۔ ہماری سیاسی قیادت اقتدار کی کڑاہی میں پانچوں انگلیاں اور سر دیے بیٹھی ہے۔ ملک پر قرضوں کا اربوں ڈالرز بوجھ لاد دیا گیا ہے۔ اسمبلیاں مجسم رعونت لوگوں سے لبالب بھر ہوئی ہیں۔ عام پاکستانی کو مہنگائی کے عفریت کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ وہ تہواروں پر خوشیاں منانے کے حس ہی کھو بیٹھا ہے۔ اس کے دامن میںسو سو چھید ہیں۔ بجلی کے بلو ں نے اسے ایسے ایسے کرنٹ لگائے ہیںکہ اس کے بدن میں لہو باقی نہیں رہا۔ زندگی کی سچی تڑپ ناپید ہو کر رہ گئی ہے۔ خوشیوں کے پتے خشک ہو کر رہ گئے ہیں۔
کاش! یہ اُمت دوبارہ خلافت کے زیر سایہ آجائے، یا سب مسلمان ملکوں کا یورپی یونین جیسا ایک بلاک بن جائے۔ سب کی کرنسی ایک ہو۔ مسلمان آزادانہ ان میں سفر کر سکیں۔ معاش کی بے رحم زنجیروں سے اتنی آزادی تو ہو کہ یہ سانس لینے کے قابل ہو سکیں۔ ایسا بلاک اس ہلاکت خیز وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ ان ملکوں کے درمیان تجارت اس بڑے پیمانے پر ہو کہ ہر شے از اں نرخوں پر دستیاب ہو جائے۔ اگر صدیوں ملک ایک دوسرے کا لہو بہانے والا یورپ شیر و شکر ہو سکتا ہے۔ اگر دنیا بھر کے عیسائی اکٹھ کر سکتے ہیں۔ تو ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے۔ ایسا ہونے سے مسلمان ایک دوسرے کے نزدیک آئیں گے۔ خوشحالی اور فراوانی کی نئی صبحیں طلوع ہوں گی۔ ہمارے تہواروں کی بے رنگی اور بے نوری دور ہو جائے گی۔ ہم عید الفطر اور عید قربان کو صحیح معنوں میں تہواروں کی طرح منا پائیں گے۔ مسلم دنیا کا قرب ہمارے بے شمار زخموں کا مرہم ہے۔ مسلم بلاک وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ ہمیں دورانگی چھوڑ کر یک رنگ ہونا ہی پڑے گا۔ یہی دنیاوی اور دینوی نجات کا واحد راستہ ہے۔