یاسر محمد خان

گھر کی گواہی
تحریر یاسر محمد خان

افغانستان کی صورت حال پر حال ہی میں دو نہایت چشم کشا کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ پہلی ایک امریکی نے جبکہ دوسری ایک برطانوی صحافی نے سالوں کی محنت کے بعد شائع کی ہے۔ پہلی کتاب: ’’The Good War why we couldn’t win the war or the Peace in Afghanistan‘‘ (ایک اچھی جنگ: ہم افغانستان میں جنگ جیتنے یا امن پانے میں کیوں ناکام ہوئے؟) دوسری کتاب: ’’Inventment in Blood: The True Cost of Britain’s Afghan War‘‘ (لہو کا خراج: برطانیہ کی افغان وار میں حقیقی لاگت) ہے۔ امریکی کتاب ’’جیک فیرٔویدر‘‘ نے اور برطانوی کتاب ’’فرینک لیڈ ویج‘‘ نے لکھی ہے۔ ان صحافیوں نے امریکی اور برطانوی وزارت دفاع کا تعاقب سالوں تک کیا۔ اُن سے معلومات حاصل کرنے کی کوششیں کیں، پر وہ حقیقت تک نہ پہنچ سکے۔ اُن کے فون ریسیو نہ کیے جاتے۔ انہیں ملاقات کا وقت نہ دی اجاتا۔ انہوں نے امریکی کانگریس اور برطانوی ہائوس آف کامنز کے ممبروں سے رابطہ کیا۔ انہیں اپنے سوالات ایوانوں میں اُٹھانے کے لیے مجبور کیا۔ ان سوالات کے جوابات قابلِ تشفی نہ تھے۔ یہ دونوں افغانستان گئے اور وہاں امریکا اور نیٹو کو پہنچنے والے نقصانات کا مشاہدہ کیا۔ انہوں نے بگرام میں کئی ماہ قیام کیا۔ فوجیوں کے انٹرویو کیے۔ افغانستان کے طول و عرض میں فوج کے ہمراہ پھرے۔افغان حکومت کے عہدے داروں سے ملاقاتیں کیں۔ زخمی فوجیوں کے تاثرات جانے۔ اس جنگ پر آنے والی لاگت کا تخمینہ لگایا۔ مرنے والے فوجیوں کے اہلِ خانہ کے انٹرویوز لیے۔ان دونوں صحافیوں نے تقریباً ایک جیسے نتیجے نکالے اور اس جنگ میں امریکی لشکر کی شکست کا اعلان کیا۔

امریکی صحافی لکھتا ہے کہ امریکی فوج افغانستان کے گنے چنے علاقوں پر مورچہ بند ہوکر بیٹھی ہوئی تھی۔ ملک کا وسیع رقبہ افغان طالبان کے قابو میں تھا۔ افغانوں نے ایسی جنگی حکمت عملی چل رکھی تھی کہ امریکا ناکام ہوگیا۔ 2001ء میں جب جنگی وفور عروج پر تھا تو افغان طالبان ایک حکمت عملی کے تحت کابل سے نکل کر ملک کے طول و عرض میں پھیل گئے۔ انہوں نے اپنی قوت کو ایک جگہ مرتکز نہ کیا۔ وہ چونکہ گوریلا وار لڑتے تھے، چونکہ وہ افغان سرزمین کے چپے چپے سے واقف تھے، اس لیے امریکی اُن کا زیادہ نقصان نہ پہنچا پائے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ طالبان کسی وار کالج سے فارغ التحصیل نہ تھے۔ اُن کے پاس کوئی جدید ٹیکنالوجی نہ تھی۔ پھر بھی فیرٔویدر لکھتا ہے کہ اُن کو جبلی طور پر امریکا کی ایک مشہور اسٹرٹیجی Fabian Tactics پر کامل عبور تھا۔ اس حکمت عملی میں دُشمن کو جُل دے کر اُس انتظار پر مجبور کیا جاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دُشمن کا پہلے جیسا جوش و جذبہ ماند پڑتا جاتا ہے۔ پھر اُس پر وقفے وقفے سے وار کیا جاتا ہے۔ افغان طالبان سالوں تک اِدھر اُدھر بکھرے رہے، مگر اُن کے درمیان رابطے اٹوٹ رہے۔ جہاں ضرورت پڑتی وہ اکھٹے ہوتے۔ امریکا اور نیٹو کا جانی و مالی نقصان کرتے اور دوبارہ اِدھر اُدھر بکھرجاتے۔ امریکی پاگلوں کی طرح اُن کا تعاقب کرتے، پر اُن کے ہاتھوں طالبان کے سائے بھی نہ آتے۔ یوں سال بیتتے چلے گئے۔ کابل شہر سے باہر نہ افغان حکومت کی مکمل عملداری تھی نہ ہی امریکا اور نیٹو کی۔ 2014ء تک جارح کا حوصلہ مکمل طور پر ٹوٹ گیا۔ نیٹو کے ملکوں کے ایرپورٹوں پر تابوتوں کی بھرمار ہوگئی۔ امریکی ہسپتال زخمیوں سے بھرگئے۔ جنگ کے نفسیاتی امراض کی بہتات نے فوجیوں کو بے حال کردیا۔ اعصاب شکن خوف نے انہیں ذہنی طور پر نڈھال کردیا۔ امریکی شہروں میں جلوس نکلے۔ 2010ء کے بعد امریکی معیشت کا جنازہ نکلنا شروع ہوگیا۔ سینیٹ اور کانگریس نے اوباما کے ہاتھ پائوں باندھ دیے۔ اتحادی ایک ایک کرکے اُسے چھوڑنا شروع ہوگئے۔ کرزئی کی منت سماجت بھی امریکیوں کو رام نہ کرسکی۔ میجر جنرل رینک کے افسر طالبان کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ یوں امریکی پرچم لپیٹ لیے گئے اور جہازوں میں سازو سامان اور سپاہ لدکر افغانستان سے ناکامی اور نامرادی کی خاک اپنے چہروں پہ مل کر نکل گئی۔ فیرٔویدر کتاب کے آخر میں امریکا کی ہاری ہوئی جنگوں میں اس جنگ کو ویتنام میں شکست کے ہم پلہ قرار دیتا ہے۔ اُس کا کہنا تھا کہ شاید ہی ماڈرن تاریخ میں کوئی ایسی مثال ہو کہ ہزار توپوں نے گولے اُگلے ہوں اور وہ ایک چڑیا کو مارنے کے علاوہ کوئی دوسرا کارنامہ نہ کرپائے ہوں۔ یوں امریکا نہ جنگ جیت سکا نہ امن کو قائم کرپایا۔ شطرنج کے دونوں کھیلوں میں اُسے مات ہوگئی۔

دوسری کتاب میں لیڈ ویج نے انتہائی ورثت زبان میں ٹونی بلیئر، لیبر پارٹی اور اُس وقت کی ساری برطانویہ انتظامیہ کی خبر لی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ برطانوی ٹیکس دہندگان کا سرمایہ حکومت نے جنگی الائو میں جھونک دیا۔ بلیئر بش کا بالکا بن گیا۔ اُس نے بلاسوچے سمجھے برطانیہ کو جنگ میں شریک کرلیا۔ یوں برطانیہ نے دہائی سے زیادہ عرصہ نہ صرف بھاری مالی نقصان اُٹھایا، بلکہ اُس کا جانی نقصان بھی زیادہ ہوا۔ مکار امریکی برطانوی فوجیوں کو ہراول دستہ بنائے رکھتے اور یوں وہ سب سے پہلے حملوں کی نذر ہوجاتے۔ ستم بالائے ستم کہ امریکا نے مرنے والے فوجیوں کے لواحقین کو چیک دیے جو کسی بینک سے کیش نہ ہوپائے۔ یوں ٹونی بلیئر برطانیہ کے ناکام ترین وزرا اعظم میں شامل ہوگیا۔ لیڈ ویج نے انیسویں صدی کے آخری عشرے میں برطانوی وزیراعظم ڈیزرائیلی کے ساتھ بلیئر کا موازنہ کیا اور اُسے ڈیزرائیلی سے بڑا ڈیزاسٹر (تباہی) قرار دیا۔

یوں برطانیہ نے انیسویں صدی میں افغانستان پر لشکر کشائی کرکے جو خاک چاٹی تھی وہی اکیسویں صدی میں بھی اُس کا مقدر بن گئی۔

آج 2015ء میں افغان طالبان نے پہلی بڑی کامیابی حاصل کی ہے اور قندوز شہر پر قبضہ کرلیا ہے۔ یوں 14 برسوں میں پہلی بار کسی صوبائی دارالحکومت پر قبضہ ہوا ہے۔ 28 ستمبر کی صبح 3 بجے طالبان نے قندوز شہر پر تین اطراف سے حملہ کیا۔ شہر میں داخل ہوکر چاروں اطراف کے رستے بند کردیے گئے۔ صبح 7 بجے ایک بڑی لڑائی کے بعد افغان فوج نے پسپائی اختیار کرلی۔ 8 بجے تک طالبان نے شہر کا کنٹرول سنبھال لیا۔ مرکزی جیل سے 5 سو طالبان قیدیوں کو رہا کروالیا گیا۔ گورنر ہائوس اور صوبائی اسمبلی کی عمارتوں پر افغان طالبان نے اپنے پرچم لہرادیے۔ دوپہر تک افغان حکومت کا سارا عملہ شہر سے نکل گیا۔ افغان طالبان نے اقوام متحدہ کے دفتر کو نذر آتش کردیا۔ افغان انٹیلی جنس کے ہیڈکوارٹرز، پولیس ہیڈکوارٹرز، مرکزی بینک، ہسپتال اور یونیورسٹی پر طالبان کا قبضہ شام کا اندھیرا پھیلنے سے پہلے مکمل ہوچکا تھا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ شہر کے باسیوں نے افغان حکومت نے کرپشن سے تنگ آکر افغان طالبان کا ساتھ دیا اور اُن کا استقبال کیا۔ یوں شمالی افغانستان کا اہم ترین شہر طالبان کے کنٹرول میں آگیا۔ جواب میں امریکیوں نے قندوز ہسپتال پر وحشیانہ بمباری شروع کردی۔ ڈاکٹروں، نرسوں اور مریضوں سمیت 100 افراد ہلاک ہوگئے۔ کئی سو افراد شدید زخمی ہوگئے۔ دوسری طرف طالبان نے شہر کے کنٹرول سنبھالنے کے دوران نادانستہ ایک فرد کی جان لی۔ امریکا، نیٹو اور افغان فوج مسلسل شہر پر بمباری کررہی ہیں۔ عین ممکن ہے ان طاغوتی طاقتوں کی اندھی طاقت کے سامنے طالبان کچھ عرصے کے لیے دوبارہ گوریلا وار کی طرف چلے جائیں۔ پھر بھی یہ ایک بہت بڑی تاریخی کامیابی ہے۔ یہ ثابت کرتی ہے کہ افغانوں کے دل طالبان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ وہ اُن ایام کی کمی شدت سے محسوس کرتے ہیں جب صرف 4 سال کے لیے افغانستان میں مکمل امن ہوگیا تھا۔ جرم کا خاتمہ ہوگیا تھا، کھیت کھلیان بارود کی بجائے اناج اُگلنا شروع ہوگئے تھے، ملک بھر میں خوشحالی آگئی تھی۔ مسجدیں مدرسے آباد ہوگئے تھے۔ سینمائوں کا مکمل خاتمہ ہوگیا تھا۔ لہو و لعب پر کلی پابندی لگ چکی تھی۔ صوبے کے گورنروں کا رہن سہن عام افغانی سے مطلق مختلف نہ تھا۔ ملا محمد عمر تک ہر بے کس کی رسائی تھی۔ جھگڑے، لڑائی، مارکٹائی کا ملک بھر میں صفایا ہوگیا تھا۔ امن و سکون سے ہر افغان کا دل شادماں تھا۔ افغان طالبان کی قیادت انکساری اور خاکساری کو مجسم کیے ہوئے تھے۔ امیرالمؤمنین کی رہائش گاہ نہایت درجہ سادہ تھی۔ وہ بوریے پہ سویا کرتے تھے۔ عام آدمی کی غذا تناول کرتے تھے۔ سارے ملک میں اس قیادت کے لیے دعائیں تھیں۔ 2001ء کے بعد بدبختی نے افغانستان میں دوبارہ شگاف ڈال دیے۔ لاکھوں افراد شہید ہوئے۔ گھر گھروندے بموں نے خاک بنادیے۔ ملک کو بدامنی کی دلدل میں گہرا دھنسادیا گیا۔ 2001ء سے 2015ء تک افغانستان کا انتشار سارے خطے کو اپنی لپیٹ میں لیے رہا۔ پاکستان نے جو پالیسی وار آن ٹیرر کے دوران بنائی، اُس کے ملک کو معاشی، سیاسی، دینی ہر سطح پر نقصان پہنچایا۔ 60 ہزار افراد شہید ہوئے اور کھربوں روپے کا خسارہ ہماری معیشت کی ساری توانائیاں چوس گیا۔ بدامنی کا ٹڈی دل ہر شے کو غتربود کرگیا۔

ہمارے آرمی چیف نے افغانستان میں مفاہمتی عمل بحال کرنے کی اہمیت کو بیرون ملک کئی کانفرنسوں میں اُجاگر کیا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ افغانستان میں تمام دھڑے ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کریں۔ پاکستان میں مستقل امن افغانستان میں امن سے مشروط ہے۔ اس سارے ریجن میں افغانستان کی بدامنی کے بُرے اثرات مرتب ہوں گے۔ پاک چائنا اکنامک کاری ڈور کے ثمرات اُسی وقت سامنے آئیں گے جب خطے سے جنگی کشمکش ختم ہوگئی۔ دوسری طرف اشرف غنی کی حکومت ہندوستان کی گود میں جابیٹھی ہے۔ اقوام متحدہ میں عبداللہ عبداللہ کی تقریر پاکستان کے خلاف نفرت کے زہر سے بھری ہوئی تھی۔ پاکستان اپنے بارڈرز پر امن کے لیے تمام تراقدامات کررہا ہے۔ افغان طالبان کو اُس نے اشرف غنی حکومت سے مذاکرات کے لیے ماحول فراہم کیا۔ افغان طالبان کی بھرپور قوت کو اگر افغان حکومت تسلیم نہیں کرتی، انہیں قومی دھارے میں نہیں لاتی۔ اقتدار میں اُن کے جائز حصے کو رد کرتی ہے تو طالبان شہروں پر شہر فتح کرتے جائیں گے۔ امریکی اور اتحادیوں کی ساری سپاہ اُن کی اور کتنے سالوں تک حفاظت کرے گی۔ اس جنگ میں بھارت اور رُوس درپردہ اشرف غنی کو اسلحہ، بارود، لڑاکا طیارے، جنگی ٹیکنالوجی فراہم کررہے ہیں۔ افغان حکومت کو مائل کیا جارہا ہے کہ پاک چائنا اقتصادی راہداری کی تعمیر میں رکاوٹیں کھڑی کردی جائیں۔ امریکا اور ساری یہودی اور عیسائی دنیا اس بڑے پروجیکٹ کو ناکام بنانے کے لیے درپردہ سازشوں کا ایک لمبا پلان بنارہے ہیں۔ اس سارے گھن چکر میں چین کے علاوہ پاکستان کا کوئی اور دوست نہیں رہا۔ ہمیں چاہیے کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے چین کی مدد سے مذاکرات کا عمل بحال کریں۔ افغان حکومت طالبان کو اپنے ملک کی ایک لازوال حقیقت مان لے۔ اُن کو تسلیم کرے۔ اقتدار میں انہیں شریک کرے۔ پاکستان کی اقتصادی ترقی کا بیشتر انحصار افغانستان میں امن کے ساتھ مشروط ہوکر رہ گیا ہے۔

مسلم دنیا کے لیے روڈ میپ
چھاپیے
تحریر یاسر محمد خان

امامِ کعبہ مسلم دنیا کی چند مرکزی شخصیات میں سے ایک ہیں۔ لاکھوں مسلمان حج کے دوران اُن کا خطبہ سنتے ہیں۔ کروڑوں افراد میڈیا کے ذریعے ہر سال ان کے ارشادات کو ذہن و دل میں بساتے ہیں۔ اُن کی کہی ہر بات پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امام کعبہ ساری اُمت کے لیے نہایت دردمندی سے مشورے دیتے ہیں۔ وہ اسلامی دنیا کے مسائل اور ان کے حل تجویز کرتے ہیں۔ اِس برس بھی انہوں نے ایک تاریخی خطبہ ارشاد کیا۔ یہ مسلمانوں کو درپیش تمام چیلنجوں کا علاج ہے۔ انہوں نے فرمایا اسلام پر چاروں طرف سے حملے ہورہے ہیں۔ کچھ لوگ اُمت کی وحد کو پارہ پارہ کرنے کے درپے ہیں۔ مسلمان تقویٰ اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت اختیار کریں۔ اسلام کی تعلیمات پر پوری دل جمعی سے عمل پیرا ہوں۔ اللہ کا کرم اور رحمت ہے کہ مسلمانوں کا جمِ غفیر آج میدانِ عرفات میں موجود ہے۔ اللہ نے ہمیں پستیوں سے نکال کر ہدایت کی راہ پر گامزن کیا۔ اسلام کے سوا کوئی دینِ حق نہیں، اسلام کو ساری دنیا کے مذاہب پر فوقیت حاصل ہے۔ اسلام کی ہدایات ہی ہم کو سیدھے راستے پر گامزن کرتی ہیں۔ مکہ اور مدینہ دنیا بھر کے سب سے متبرک شہر ہیں۔ دین کی تعلیمات میں حق اور باطل کی واضح نشاندہی کردی گئی ہے۔ مسلمان اللہ کے دین کی طرف نرمی سے لوگوں کو دعوت دیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اس سرزمین سے اُٹھنے والے پیغام کو دنیا بھر کے انسانوں تک پہنچائیں۔ مسلمان خدا سے ڈریں اور ظلم و ناانصافی کے خلاف جہاد کریں۔

مفتی اعظم نے مزید فرمایا آج کے زمانے میں چاروں اطراف فتنہ پھیل چکا ہے۔ اسلام پر چاروں طرف سے حملے ہورہے ہیں۔ اسلام کے دشمن پوری مسلم دنیا میں موجود ہیں اور ہر انداز کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ مسلمان داخلی اور خارجی دشمنوں سے ہوشیار رہیں۔ دشمن آج کل اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ہماری صفوں میں گھس گئے ہیں اور نوجوانوں کو گمراہی اور تشدد کے راستے کی طرف لے گئے ہیں۔ مسلمانوں کو ہر جگہ فتنے اور فساد کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔ تفرقے کی وجہ سے غیرمسلم ہم پر غالب آگئے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی کی جان لینے اور فتنہ پھیلانے سے سختی سے منع فرمایا تھا۔ سارے مسلم نوجوان ہر قسم کے فساد اور برے عقائد سے دوری اختیار کرلیں۔ غیرمسلموں کی ناحق جان لینے سے اسلام کے بارے میں غلط رائے پھیلتی ہے جو اسلام کی نشر و اشاعت کے راستے میں دیوار بن کر کھڑی ہوجاتی ہے۔ اسلامی دنیا کے میڈیا سے وابستہ صحافی وقت کی نزاکت کو سمجھیں اور مثبت رول ادا کریں۔ وہ گمراہ کن خیالات کو عوام تک نہ پہنچائیں۔ دین کی روح عوام تک پہنچائیں تاکہ لوگوں کی زندگیاں منقلب ہوسکیں۔ یہودیوں نے انسانیت کو پامال کر رکھا ہے۔ یہود و نصاریٰ مسجد اقصیٰ کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے ہتھکنڈوں کے خلاف سارا عالم اسلام متحد ہوجائے۔ انہوں نے مسلمان حکمرانوں کو مخاطب کرکے کہا کہ وہ اپنی رعایا کا خلوصِ دل سے خیال رکھیں۔ مسلمانوں کے درمیان بھائی چارے کی فضا کو بہتر سے بہتر تر بنائیں۔ خادم حرمین شریفین پر لازم ہے کہ وہ زائرین حج کا بہت خیال رکھیں۔ یہ خطبہ امام کعبہ کی ساری اُمت کے لیے دعائوں پر ختم ہوا۔

اس خطبے کے پانچ حصے ہیں۔ ایک میں ساری مسلمان امت کے لیے عمومی راہنمائی ہے۔ دوسرے حصے میں ممکنہ خطرات کی نشاندہی ہے۔ تیسرے حصے میں اسلامی دنیا میں صحافت اور میڈیا کے لیے راہنمائی ہے۔ چوتھے حصے میں یہود و نصاریٰ کی سازشوں کی نقات کشائی کی گئی ہے۔ پانچویں حصے میں مسلم دنیا کے حکمرانوں کے لیے گائیڈ لائن دے دی گئی ہے۔ یوں یہ خطبہ نہایت مفصل اور جامع ہے۔ اس کے حرف حرف سے دردمندی ٹپکتی ہے۔ (باقی صفحہ5پر) اس پر عمل مسلم اُمہ کو درپیش تمام چیلنجوں کا حل ہے۔

انفرادی سطح پر ہر مسلمان اگر اپنے کردار کو اسلامی اصولوں اور ضابطوں میں ڈھال لے اور دین کی نشر و اشاعت کے لیے کاربند ہوجائے تو مسلم دنیا کے بیشتر مسائل خودبخود دھواں بن کر ہوا میں تحلیل ہوجائیں۔ انفرادی سطح پر ہم خود کو بدلے بغیر عذابوں کی دلدلوں میں مزید دھنستے جائیں گے۔ دوسرے حصے میں سارے عالم اسلام کو درپیش خطرات کی طرف توجہ مبذول کروائی گئی ہے۔ خطبے کے تیسرے حصے میں مسلم ملکوں کے میڈیا اور اخبارات کے لیے ہدایت ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ان سے وابستہ بیشتر صحافی عوام کو گمراہی کے راستوں پر لگارہے ہیں۔ منیٰ کے واقعے پر ہمارا میڈیا الزام تراشی پر اُتر آیا اور سنی سنائی باتوں کو ایسے اچھالنے لگا جیسے وہ ناقابل تردید حقیقت ہوں۔ ہمیں اپنے میڈیا اور اخبارات کو صاف ستھری جرنلزم تک محدود کرنا ہوگا۔ نوجوانوں کے کردار کی تعمیر ہو وہ اسلامی اصولوں کے مطابق ستھری اور پاکیزہ زندگی بسر کریں۔ فحاشی، عریانی، وحشیانہ سنسنی خیزی، بریکنگ نیوز کلچر اور جھوٹ کا پھیلائو مکمل طور پر بند ہونا چاہیے۔ میڈیا اور اخبارات ایسے ہوں کہ اُن کو سچائی کے علاوہ کچھ پروا نہ ہو۔ چھوٹے چھوٹے مفادات کے لیے ان کے مالکان پر ہتھکنڈہ آزماتے ہیں۔ خصوصاً پاکستان جیسے ملکوں میں صحافیوں کا رول زیادہ تر منفی ہے۔ اس میں خاطرخواہ سدھار لانے سے معاشرے کی تربیت میں تیزی آئے گی۔ اچھی قدروں کو نکھار ملے گا۔ خطبے کے چوتھے حصے میں مفتی اعظم صاحب نے بجا طور پر یہود و نصاریٰ کی سازشوں کا ذکر کیا۔ امریکا کی سرکردگی میں عیسائیوں نے ان برسوں میں مسلم دنیا میں اندرون خانہ اور کھلم کھلا جو یلغار کی ہے اُس سے سب واقف ہیں۔ عراق اور افغانستان میں امن کو مستقل طو رپر غارت کردیا گیا۔ مڈل ایسٹ میں عرب بہار کے نام پر اسلامی ملکوں کے وسائل پر قبضے کی گہری سازشیں ہوئیں۔ کئی ملکوں میں امریکی سپاہ اور نیٹو جاگھسے، حکمران قتل ہوئے اور ملک مستقل طور پر خانہ جنگی کے الائو میں جلنے لگے۔ پاکستان سمیت بیشتر اسلامی ملکوں میں امریکا، نیٹو، عیسائی ملکوں، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور این جی اوز وغیرہ نے ایسی نقب لگائی کہ اب ملک مکڑوں کے جال میں لٹکی مکھیوں کی صورت دکھائی دیتے ہیں۔ ان ملکوں کی اکانومی مکمل طور پر امریکا اور اُس کے اتحادیوں کی گرفت میں چلی گئی ہے۔ امریکا کے پٹھو اسرائیل نے سارے مشرق وسطیٰ میں زہر پھیلا رکھا ہے۔ اُس نے فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں سوڈا اسٹریم نامی کمپنیوں کا جال بچھالیا ہے۔ یوں فلسطینیو ںکو اپنے ہی ملک میں اجنبی بنادیا ہے۔

اس کے علاوہ اسرائیل دنیا بھر میں ظالم و جابر حکومتوں کو جاسوسی کی جدید ٹیکنالوجی مہیا کرنے میں پہلے نمبر پر آگیا ہے۔ اسرائیلی کمپنیوں نے پچھلے برس 6 ارب ڈالرز کے ایسے آلات فروخت کیے۔ اسرائیلی بڑی کمپنیاں دوسرے ملکوں کی چھوٹی جاسوس کمپنیوں کو خرید کر اپنا حجم مزید بڑا بنائے جارہی ہیں۔ اس برس مئی میں ایلبت سسٹم نے ناٹس کا سائبر اور انٹیلی جنس کا شعبہ 15 کروڑ 80 لاکھ ڈالرز میں خریدا۔ ویرینٹ نامی یہودی کمپنی سب سے بڑا جاسوس مگرمچھ ہے جس نے لاتعداد چھوٹے چھوٹے شکار کرکے اپنے حجم کو کئی گنا بڑھالیا ہے۔ ان کے چنگل میں اسلامی دنیا کے بیشتر ملک آگئے ہیں۔

امام کعبہ کے خطبے کا پانچوں اور آخری حصہ اسلامی ملکوں کے سربراہوں سے متعلق تھا۔ اُنہوں نے انہیں اپنی عوام کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے درخواست بھی کی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی ملکوں کے اکثر حکمران بڑی طاقتوں کے ایجنٹ ہیں۔ یہ اُن کے مفادات کے لیے برسرپیکار رہتے ہیں۔ مڈل ایسٹ میں یہودیوں کے پھیلائو میں کئی ملکوں نے درپردہ مدد کی۔ کئی حکمران یہودیوں کے ساتھ ہمیشہ شیر و شکر رہے۔ آج کی مسلم دنیا غربت و تنگدستی کی ستائی ہوئی ہے۔ مسلمانوں کی نہایت بڑی اکثریت اپنے بے رحم حکمرانوں کی پالیسیوں کی وجہ سے غریب تر ہوئے جارہی ہے۔ مفتی اعظم کی دردمندانہ اپیل پر یہ سب لوگ اپنے من کی دنیا کو بدل دیں۔ دنیا کے اس عارضی سفر میں اعلیٰ زاد راہ ساتھ لے کر چلیں۔ اگر وہ اپنے بھائیوں کو اسی طرح لوٹتے رہیں گے تو حشر میں خوار و زبوں ہو ںگے۔

اس تاریخی خطبے کی گہرائی اور گیرائی دونوں غور طلب ہیں۔ یہ اُمت کو درپیش سارے بڑے عذابوں کا حل ہے۔ دعا ہے کہ یہ پیغام اپنی تمام تر خوبصورتی گداز اور دردمندی کے ساتھ ہر مسلمان کے دل تک پہنچے اور مسلم دنیا کے حالات و واقعات میں انقلاب آنا شروع ہوجائے، آمین!

نئی نسل کو تباہ کرنے والے
چھاپیے
تحریر یاسر محمد خان

’’فیثا غورث‘‘ یونان کا ایک نامور فلسفی اور ریاضی دان تھا۔ یونانی فلسفہ میں دو مرکزی اسکول آف تھاٹ مشہور ہوئے: ایک مادّیت پسند جبکہ دوسرا مثالیت پسند کہلاتا تھا۔ مادیت پسندوں کا بنیادی نظریہ یہ تھا کہ دنیا کی ہر شے مادہ ہے اور انسانی روح بھی مادے کی ایک صورت ہے۔ دوسری طرف مثالیت پسندوں کا کہنا تھا کہ انسانی روح نے مادّے کی تخلیق کی ہے۔ اگر روح نہ ہو تو مادہ غائب ہوجاتا ہے۔ فیثا غورث کا تعلق دوسرے اسکول سے تھا۔ اُس نے انسانی روح کے ضمن میں ’’آواگون‘‘ (Transmigration) کا آئیڈیا متعارف کروایا۔ وہ کہتا ہے کہ انسانی روح ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ہوجاتی ہے۔ ایک روح جسم کے تحلیل ہونے کے بعد دنیا میں کہیں بھی نئے آنے والے بچے میں حلول کرجاتی ہے۔ فیثا غورث کے اس نظریے کو یونان اور رومن فلسفے میں بہت مشہوری ملی۔ زیادہ تر فلسفیوں نے اُس کے عقیدے کو رد کردیا۔ یونانیوں اور رومیوں کا کوئی مذہب نہیں تھا۔ حیرت اُس وقت ہوتی ہے جب ہم دنیا کے مشہور مذاہب کی تعلیمات کو دیکھتے ہیں سوائے ہندوئوں کے یہ عقیدہ کسی دوسرے مذہب میں نہیں مانا جاتا۔

ہندوئوں کی مقدس کتاب ’’بھگوت گیتا‘‘ اُن کے دو اوتاروں کرشن اور ارجن کے درمیان مکالمے کی صورت تحریر ہے۔ یہ کتاب شاعرانہ زبان میں لکھی گئی۔ مول میں ایک ایک پھیلے ہوئے رزمیہ ’’مہا بھارت‘‘ کا حصہ ہے۔ گیتا میں کرشن کہتا ہے کہ اچھا انسان اگلے جنم میں برہمن بن جاتا ہے۔ جو زیادہ اچھا انسان نہ ہو گھشتری بن جاتا ہے۔ جس کے گناہ اور نیکیاں برابر ہوں وہ دیش کی شکل میں دوبارہ دنیا میں آجاتا ہے۔ بڑے گنہگاروں کے بارے میں کرشن کہتا ہے کہ وہ شودروں اور جانوروں کے قالب اختیار کرلیتے ہیں۔ ہندوئوں کے کل 33 کروڑ دیوی دیوتا ہیں۔ ان کا سردار برہما کہلاتا ہے۔ کرشن انسانی روح کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ ایک پرماتما اور دوسرا جسٹما ہے۔ وہ کہتا ہے موت کے وقت آدمی جو تصور کرتا ہے وہ وہی بن جاتا ہے۔ شیر کا تصور رکھنے والا شیر اور خنزیر کا تصور رکھنے والا خنزیر بن جائے گا۔ گیتا میں روح کی بحث سمٹتے ہوئے کرشن تلقین کرتا ہے کہ بزرگوں کے نام پر نذرانہ دیا کرو ورنہ وہ بھوت پریت کی شکل اختیار کرجائیں گے۔

اگر ہم برصغیر کے مسلمانوں کی زندگیوں کا جائزہ لیں تو احساس ہوگا کہ بعض فرقوں پر ہندومت کا کتنا گہرا اثر ہوا ہے۔ ان لوگوں نے قرآن و سنت سے بالکل الٹ عقیدے اختیار کر رکھے ہیں۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد ہندوستانی فلم انڈسٹری نے بہت ترقی کی اور ہالی ووڈ کو پیچھے چھوڑ دیا۔ یہ فلمیں ہندی میں ہونے کے باوجود ان کی زبان ہندی کی بجائے اردو کے بہت قریب استعمال کی جاتی ہے۔ تقسیم کے بعد کئی برسوں تک انڈین فلمیں ہمارے ہاں سینمائوں میں دکھائی جاتی رہیں۔ کئی ہندو اداکار پاکستان میں بہت مشہور ہوگئے۔ 1965ء کی جنگ کے دوران بھارتی فلمیں مکمل طور پر یہاں بین کردی گئیں۔ یوں ہماری وہ نسل جو 1965ء کے بعد جوان ہوئی وہ ہندوئوں اور اُن کی تعلیمات سے بالکل ناواقف تھی۔ 1980ء کے عشرے میں وی سی آر جیسی تباہ کن ایجاد ہوئی۔ انڈین فلمیں، اُن کا لچر پن اور ہندومت کے عقیدے ہمارے ہاں مشہور ہوگئے۔ ہندی زبان کے کئی الفاظ ہمارے ہاں بھی بولے جانے لگے۔ سب سے بڑا نقصان جو ہمیں ہوا وہ ’’گیتا‘‘ اور ’’رامائن‘‘ کے قیاسی نظریوں کے بارے میں نئی نسل کا گمراہ ہوجانا ہے۔ ہمارے بڑے شہروں حتیٰ کہ چھوٹے قصبوں میں بھی نئی نسل آنکھ کھولتے اور شعور کی منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی ہندوئوں کے زہریلے نظریات کی غلام بن گئی۔ رہے بچے بچیاں سرعام بھگوان، رام، سیتا، کرشن، رادھا کی باتیںکرنے لگے۔ میں نے کئی نوجوانوں کو مذاق میں سہی، لیکن دونوں ہاتھ جوڑ کر نمستے کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ہندو فلسفے کا نظریہ کہ روح جسم بدلتی رہتی ہے، اسلام کی تعلیمات کی مکمل نفی ہے۔ پھر بھی یہ زہریلا آئیڈیا خاصی مشہوری پاگیا ہے۔ آج کل کے بے شمار بچے بچیاں بچپن میں ہی ان زہرآلود نظریات کو اپنارہے ہیں۔

پچھلے دنوں کراچی میں ایک نہایت افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔ دسویں جماعت کے ایک لڑکے اور لڑکی نے خودکشی کرلی۔ یہ دونوں ہم جماعت تھے اور ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار تھے۔ ان کو خدشہ تھا کہ والدین اُن کی شادی نہیں ہونے دیں گے، لڑکی گھر سے اپنے والد کا پستول لائی۔ لڑکے نے پہلے لڑکی کو گولی ماری اور پھر اپنے سر پر فائر کرکے مرگیا۔ موت سے پہلے دونوں نے والدین کے نام جو خط چھوڑا اُس میں لکھا تھا کہ وہ زندگی میں اکٹھے نہیں ہوسکتے تو کیا ہوا، وہ مرکر تو ایک ہوسکتے ہیں؟ یہ واقعہ اخبارات میں رپورٹ ہوا اور چینلز پر بھی اس کہانی کو تفصیلات کے ساتھ دکھایا گیا۔ یوں بعض چینلوں نے والدین کی مزید بدنامی کی۔ انہیں معاشرے میں بری طرح رُسوا کیا۔ یہ ایک کہانی ہے، ہمارے اردگرد ان گنت ایسی کہانیاں بکھری ہوئی ہیں۔ شہروں میں مخلوط تعلیم میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ کچی عمر کے لڑکے لڑکیوں کو اکھٹا کلاسوں میں بٹھانا بھوسے کے ڈھیر میں چنگاری چھوڑنے کے مترادف ہے۔ کلاسوں سے یہ رابطے موبائل فون کے ذریعے گہرے ہوجاتے ہیں۔ جدید موبائل ٹیکنالوجی نے نوعمر لڑکوں اور لڑکیوں کو آمنے سامنے بٹھادیا ہے۔ یوں ان تعلقات کے شاخسانے عبرت ناک کہانیوں میں ڈھل رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں انٹرنیٹ پر ایسی سائٹس وافر ہیں جن پر اخلاق سوز فلمیں ڈائون لوڈ کیں اور دیکھی جارہی ہیں۔ ہماری حکومتوں نے کبھی سعودی عرب کی طرح نہیں سوچا جہاں ایسی کسی بھی اخلاق سوز فلم کو بلاک کرنے کا پورا انتظام ہے۔ ہمارے ہاں انٹرنیٹ کیفے گلی محلے میں کھلے ہوئے ہیں جہاں چند روپوں میں یہ زہریلا مواد خریدا جاسکتا ہے۔ گھروں میں انٹرنیٹ پر یہ مواد نہ دیکھ سکنے والے اب موبائل پر ایسی فلمیں ایک دوسرے کو بھیجتے ہیں۔ یوں نوعمری میں یہ تیزابی مواد نئی نسل کی شریانوں میں داخل ہورہا ہے۔ آپ کیبل پر بے شمار ایسے چینل دیکھ سکتے ہیں جن میں بے حیائی کے نئے نئے کمالات ہر کسی کی رسائی میں ہیں۔ انڈین بے حیا اداکاروں کے اشتہارات ہمارے خبرناموں کے آغاز اور انجام پر دکھائے جارہے ہوتے ہیں۔ ہر دوسرا اشتہار جنسی ترغیبات کو اُبھارتا ہے۔ انڈین ڈرامے ہمارے ان چینلوں پر بھی پورے ذوق و شوق سے دکھائے جارہے ہیں جن کے اخبارات نے اپنے اداریوں میں اس افسوس ناک واقعے سے ’’سبق‘‘ سیکھنے کی ہدایات کی ہیں۔

اخبارات میں ایسے ایسے اخبار موجود ہیں جن میں نیم عریاں تصویریں شائع کی جاتی ہیں۔ دن کو شائع ہونے والے اکثر اخباروں میں پورے پورے صفحے پر بھارتی اداکاروں کی تصاویر اور اُن کے شب و روز کے قصے خوب نمک مرچ لگاکر سنائے جاتے ہیں۔ ایک اخبار میں کچھ عرصہ پہلے ملک میں پھیلتی بے حیائی پر ایک فیچر شائع ہوا جس کے اردگرد بے حیا اداکاروں کی تصویریں شائع کی گئیں۔

ابن انشاء نے اردو کی آخری کتاب میں ایسے اخبارات کا ایک صفحہ دکھایا ہے۔ ایک ہی صفحے پر مسجد کے مینار، حکیموں کے کشتوں کے اشتہار اور ایک عریاں عورت کی تصویر شائع کی گئی تھی۔ ہمارا اردو جرنلزم زیادہ تر منافقت کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ اشاعت بڑھانے کے لیے کئی اخبارات ہر حدود و قیود سے آگے نکل چکے ہیں۔ کئی انگریزی اخباروں میں شرابوں کے گلاس تھامے اور گلے میں بانہیں ڈالے مردوں اور عورتوں کی تصاویر شائع کی جاتی ہیں۔ ہفت روزہ اور ماہنامہ رسالوں میں ایسے صفحات کی کثرت ہوتی ہے جو نوجوانوں کے جذبات کو بری طرح برانگیختہ کرسکتے ہیں۔ ہمارے ہاں انڈین فلمیں اب سینمائوں میں دکھائی جارہی ہیں۔ ان کی سی ڈیز ہر گلی محلے میں بک رہی ہیں۔ کیبل پر کئی مووی چینلز ہیں جہاں شوقین مزاج لوگ فرمائش کرکے ہندو کلچر سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ان فلموں میں ایسے مناظر شامل کیے جاتے ہیں جن میں دو افراد کو اگلے جنم میں ملتا ہوا دکھایا جاتا ہے۔ فلمی گانوں میں ’’جنم جنم کا رشتہ‘‘ جیسے خیالات سموئے جاتے ہیں۔ ان کے اثرات ہماری نوجوان نسل پر پڑرہے ہیں۔ کراچی میں مرنے والے لڑکے اور لڑکی کے ذہنوں میں بھی یہ زہریلا خیال تھا کہ وہ اس حرام موت کے بعد اگلے جنم میں اکٹھے ہوجائیں گے۔ ان بیشتر فلموں میں اخلاق سوز مناظر، گندے بے ہودہ گانوں پر تھرکتے ہوئے عریاں جسم دکھائے جاتے ہیں۔ ان سب کا اثر ہماری نوجوان نسل پر شدید ہے۔ ایک ماہنامے میں ایک نوجوان نے سوال کیا تھا: ’’وہ اپنی بہن سے شادی کیوں نہیں کرسکتا؟ مذہب اس میں رکاوٹ کیوں بن رہا ہے؟‘‘ ہمارے بڑے شہر تہذیب کی علامتیں نہیں بلکہ جنگلوں کے سے جھاڑ جھنکاڑ کا گڑھ بن گئے ہیں۔ اونچی عمارتوں کے بیچ انسان بلند اخلاقی اقدار کو چھوڑ کر پستی کی نچلی سطح پر چلاگیا ہے۔ کالم یہاں تک لکھا تھا کہ ایک دوست ملنے آگئے۔ انہوں نے بتایا: ’’یورپ میں ایسے ٹی وی چینل جن کو بالغ لوگ ہی دیکھ سکتے ہیں، ایک لاک کے ذریعے معطل کیا جاسکتا ہے۔ بچے بچیاں ان چینلوں تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے۔‘‘

ہم کیا لوگ ہیں کہ قوم کے نونہالوں کی نسوں میں زہر اُتارے جارہے ہیں۔ حکومت اور معاشرہ دونوں بیدار ہوں۔ انڈین فلموں پر مکمل پابندی عائد ہو۔ ٹی وی پر انڈین اشتہارات اور ڈراموں کو بند کیا جائے۔ ہر گلی محلے کی نکڑ پر بھارتی فلموں کی دستیابی معطل کی جائے۔ انٹرنیٹ پر اخلاق سوز ویب سائٹس بلاک کرنے کا پورا انتظام ہو۔ نوعمر بچے اور بچیوں کو موبائل فون نہ لے کر دیے جائیں۔ اخبارات خدا کا خوف کریں اور صاف ستھری تعمیری صحافت کو اپنائیں۔ سب سے بڑھ کر ہمیں معاشرے کو پوری طرح اسلامی اقدار کی چھائوں میں لانا ہوگا۔ والدین بچوں کے لیے رول ماڈل بنیں۔ ہر بچے کو دین کی تعلیم دی جائے۔ اُسے پکا مسلمان بنایا جائے۔ مذہب ہی وہ لنگر ہے جو اس معاشرے کے ڈوبتے جہاز کو بچاسکتا ہے۔ ہم طوفانوں میں گھرگئے ہیں۔ ہمیں ہوش مندی اور گہری مذہبی بصیرت سے ان سے نکلنا ہوگا۔ صرف معاشی عروج پر نظر رکھنے والے حکمرانوں کو قوم کے اخلاقی زوال پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ جسمانی آسائشات روح کے خلا کو نہیں بھرسکتیں۔
بچوں کا استحصال، ایک عالمگیر مسئلہ
تحریر یاسر محمد خان

یہ دسمبر 1999ء کی بات ہے۔ ایک صبح جاوید اقبال نامی ایک شخص لاہور کے رادی روڈ کے تھانے میں آیا۔ اُس نے اقبالِ جرم کیا۔ وہ 100 سے زیادہ بچوں کو قتل کرچکا ہے۔ تھانے کے عملے نے اُسے کوئی پاگل قرار دے کر تھانے سے باہر نکال دیا۔ چند گھنٹوں بعد وہ آیا تو اُس کے ہاتھوں میں انسانی ہڈیاں تھیں۔ پولیس نے فوری طور پر اُس کا بیان قلم بند کرنا شروع کردیا۔ اُس نے بتایا کہ وہ مینارِ پاکستان کے اردگرد گھومتا رہتا تھا۔ وہاں مختلف شہروں سے فرار ہونے والے بچے اُترتے ہیں اور وہ اُن کو تاڑتا رہتا تھا۔ وہ انہیں اپنا دوست بناتا، اُن سے ان کی کہانیاں سنتا جو زیادہ تر غربت، گھریلو گھٹن، مارپیٹ کے گردگھومتی تھیں۔ بچے فرار ہوکر لاہور آتے اور اُس کے ہاتھ لگ جاتے۔ وہ انہیں خوب کھلاتا پلاتا، انہیں سیریں کراتا اور پھر جنسی تشدد کا نشانہ بنادیتا تھا۔ اُس نے گھر میں تیزاب سے بھرے ہوئے ڈرم رکھے ہوئے تھے۔ جو بچے شور مچاتے، احتجاج کرتے وہ اُن کا گلا گھونٹ کر انہیں تیزاب کے ڈرموں میں پھینک دیتا۔ ایسے بچے جو اُس کے دوست بن جاتے، انہیں وہ چند روز تک برداشت کرتا، پھر مار کر نئے شکار کی تلاش میں نکل پڑتا۔ لاہور جو انسانوں کا جنگل ہے، وہاں اُسے نت نیا شکار دستیاب ہوجاتا۔ کم عمر بچے جن کو اس معاشرے کے گھنائونے چہرے سے آشنائی نہ تھی، اُس کی چکنی چپڑی باتوں میں آجاتے۔ یوں وہ کئی سالوں تک انسانی شکار کھیلتا رہا۔ جب اُس سے اس خوفناک ترین عمل کی وجوہات پوچھی گئیں تو معلوم ہوا اُسے بچپن میں جنسی تشدد کا سامنا کرناپڑا تھا۔ ایک بار پولیس نے اسے بے گناہ کسی میں پکڑ کر بہت مارا تھا۔ نوجوانی میں ہی وہ نیم دیوانہ ہوگیا اور اُس نے معاشرتی جبر کا انتقام معصوم بچوں سے لینا شروع کردیا۔ جاوید اقبال کے اقرارِ جرم کے بعد اُس کے گھر کی تلاشی لی گئی تو ڈرموں سے انسانی کھوپڑیاں کثرت سے ملیں۔ گھر میں مارے جانے والے بچوں کے کپڑے اور کھلونے ملے۔

یہ واقعہ جب پریس میں آیا تو ملک میں ایک بھونچال آگیا۔ مغرب میں جیک دی ریپر اور اس طرح کے سیریل کلرز تو کثرت سے ملتے ہیں، پر پاکستان میں اس بڑے پیمانے پر یہ اپنی طرز کا ایک دہشت ناک واقعہ تھا۔ جاوید اقبال پر مقدمہ چلا اور اُسے سزائے موت ہوئی۔ کچھ عرصہ بعد وہ جیل میں پراسرار طور پر مردہ پایا گیا۔ چند دنوں بعد اس واقعے پر وقت کی گرد پھیل گئی۔ یہ فراموش کردیا گیا۔

بدقسمتی سے پاکستان میں بچوں پر جنسی تشدد اور قتل کے واقعات آئے دن بڑھنا شروع ہوگئے۔ قصور میں پہلی بار ایک پورا گینگ پکڑا گیا ہے جس نے انسانیت سوز ظلم کا ایک نیا رُخ دے رکھا تھا۔ یہ پچھلے سات آٹھ سالوں سے یہ بھیانک کھیل کھیلے جارہا تھا۔ اس جرم کی تفصیلات اس درجہ اعصاب شکن ہیں کہ ان پر یقین کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ قلعہ گنڈا سنگھ نے ایک گائوں حسین والا میں بااثر لوگوں کا ایک گروپ ہے۔ یہ وہاں کے ممبر اسمبلی کے قریبی ساتھی ہیں۔ انہیں پولیس اور عدالتی عملے تک رسائی حاصل تھی۔ انہوں نے سینکڑوں بچوں سے زیادتی کے بعد اُن کی ویڈیو فلمیں بنالیں۔ اہل خانہ کو بلیک میل کرنا شروع کردیا۔ اُن کی جمع پونجی زیور و زمینیں ہتھیانی شروع کردیں۔ احتجاج کرنے والوں کو نشان عبرت بنانا شروع کردیا۔ جو لوگ پولیس تک پہنچے انہیں ہاتھ پائوں توڑ کر نشانِ عبرت بنادیا گیا۔ جس بھی شخص پر شبہ ہوا کہ وہ ان کے مذموم عزائم میں رکاوٹ بن سکتا ہے، اُس کو ہولناک انجام تک پہنچادیا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ بدی کا دائرہ پھیلتا چلاگیا۔ پوری ایک نسل ان درندوں کا شکار بن گئی۔ ان کی منقولہ اور غیرمنقولہ دونوں جائیدادیں ان ہتھیاروں نے ہتھیالیں۔ انہیں دانے دانے کا محتاج کردیا۔ جب مفلسوں اور قلاشوں کے پاس دینے کو کچھ نہیں بچا تو ان ہوس پرستوں نے بیرون ملک ان 4 سو ویڈیوز کو فروخت کرنا شروع کردیا۔ یورپی ممالک میں ایسے حیوانوں کی کمی نہیں جو ان اخلاق سوز فلموں سے ڈالرز اور پونڈز کماتے ہیں۔ یوں عالمی سطح پر پاکستان کی ان فلموں کی مانگ بڑھ گئی۔ دی نیشن کے رپورٹر اشرف جاوید نے ان حیوانیت کا شکار ہونے والوں کی روئیداد سب سے پہلے چھاپی۔

یہ خبر فرنٹ پیج پر چھپنے کے بعد پولیس نے گائوں کے لوگوں کو ہراساں کیا۔ پنجاب حکومت کے سرکردہ وزیروں نے اسے زمین کے جھگڑے کا رنگ دے کر کسی قسم کی سنجیدگی نہ دکھانے کا مظاہرہ کیا۔ مرکزی حکومت کے وزیر اطلاعات نے بھی اسے ایک عام سی خبر سے زیادہ اہمیت نہ دی۔ گائوں کے سارے متاثرین سڑکوں پہ نکل آئے۔ پولیس نے پرامن لوگوں پر لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کے شیل پھینکے۔ یوں یہ خبر سارے میڈیا اور اخبارات میں نمایاں ترین جگہ پاگئی۔ بادل نخواستہ پولیس نے مجرموں کو گرفتار کرلیا۔ پنجاب اور مرکزی حکومت بھی سرگرم ہوگئی۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں قرارداد مذمت منظور کی گئی۔ صوبوں میں بھی اس شرمناک فعل پر قراردادیں پیش ہوئیں۔ جوڈیشل کمیشن بنانے کا ڈول ڈالا گیا۔ اس طرح اس خوفناک دہشت گردی نے پورے پاکستان کا سر شرم سے جھکا ڈالا ہے۔ انسان کا اس حد تک گرنا اور کسی گروہ کا ایسے شرمناک فعل کا ارتکاب ہمیں قومی طور پر کسی تازیانے کی طرح لگا ہے۔

افسوس یہ ہے کہ پورے پاکستان میں معصوم بچوں کے ساتھ بدفعلی کے ارتکاب کی وارداتیں ہر گزرتے سال کے ساتھ بڑھتی جارہی ہیں۔ 2014ء سے اب تک 5073 ایسے واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں۔ راولپنڈی، لاہور، کوئٹہ، اوکاڑہ، خیرپور، فیصل آباد، قصور، سیالکوٹ اور شیخوپورہ میں سب سے زیادہ اس شرمناک فعل کا ارتکاب ہوا۔ 2015ء میں اب تک پنجاب میں 1021، سندھ میں 97، اسلام آباد میں 87 اور کے پی کے میں 53 ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ اوسطاً 10 بچوں کے ساتھ روزانہ جنسی تشدد کے واقعات ریکارڈ ہوئے۔ یوں اس سال کے پہلے 6 ماہ میں 1565 ایسے واقعات ہوئے جو تھانے کے ریکارڈ حصہ بنے۔ 2014ء میں پنجاب میں 2054، سندھ میں 857، بلوچستان میں 297، خیبرپختونخوا میں 152، آزاد کشمیر میں 38 واقعات رونما ہوئے۔ 2013ء میں پنجاب میں 1839، سندھ میں 224، کے پی کے میں 94، بلوچستان میں 78 بدفعلیاں ہوئیں۔ 2012ء میں پنجاب میں 1723، سندھ میں 358، کے پی کے میں 59 اور بلوچستان میں 26 واقعات ہوئے۔ 2011ء میں پنجاب میں 1256، سندھ میں561، کے پی کے میں 29 اور بلوچستان میں 17 واقعات رونما ہوئے۔

2010ء میں پنجاب میں 1254، سندھ میں 453، کے پی کے میں 35 اور بلوچستان میں 10 ایسے واقعات تھانے کے ریکارڈ کا حصہ بنے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ معصوم بچوں سے بدفعلی کے بے شمار واقعات منظرعام پر نہیں آئے۔ پاکستان میں ہولناک معاشرتی زوال کی وجہ سے کم عمر بچوں میں جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہوئے جارہا ہے۔ اس برس 1383 ایسے بچوں پر کیس دائر ہوئے۔ 1246 ابھی زیر سماعت ہیں، 137 کو سزا ہوچکی ہے۔ پنجاب میں 783، سندھ میں 276، کے پی کے میں 217 اور بلوچستان میں 107 ایسے مقدمے چل رہے ہیں جن پر کم سن بچے ملزم ہیں۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن اور یونیسیف کے مطابق ہمارے ایک کروڑ 20 لاکھ بچے کم سنی میں محنت مشقت کررہے ہیں۔ 2 لاکھ 64 ہزار گھروں میں ملازم ہیں۔ 20 لاکھ بانڈز لیبرز ہیں۔ ہر ہزار میں سے 72 بچے زچگی کے دوران فوت ہوجاتے ہیں۔ 92,000 سے زائد بچے 5 سال سے کم عمر میں چل بستے ہیں۔ 53,000 بچے سالانہ اسہال و پیچش کے ہاتھوں موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں اسکول سے باہر بچوں کی تعداد لگ بھگ 3 کروڑ ہے۔ یوں ہم نائیجیریا کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں۔ حتیٰ کہ ایتھوپیا، برکنیا فاسو، کینیا اور یمن میں صورت حال ہم سے بہتر ہے۔ پنجاب میں 42.1، سندھ میں 32.1، کے پی کے میں 38.1، بلوچستان میں 31.1 فیصد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ ہمارے لیڈر ہمہ وقت ہمیں آئین و قانون کی برکات بتاتے رہتے ہیں۔ ہماری اسمبلیوں میں ہر تان آئین پر جاکر ٹوٹتی ہے۔ پاکستان کا آئین حکومت کو اس بات کا پابند بناتا ہے کہ وہ ہر بچے کو تعلیم تک رسائی فراہم کرے گی۔ تعلیم تو دور کی بات ہمارا قانون معصوموں کی عزت کو محفوظ رکھنے کے لیے کسی بھی قسم کی تکلیف اُٹھانے کی زحمت گوارا نہیں کرتا۔ پاکستان میں حالات اس نہج پر آگئے ہیں کہ قوم کے نونہال جو اس ملک کا مستقبل ہیں پوری طرح ریاست کے سایہ عاطفت سے نکل کر اس معاشرتی جنگل میں بھیڑیوں کا شکار بن گئے ہیں۔

حکومت پر فرض ہے کہ پاکستانی معاشرے کو مضبوط دینی اقدار پر استوار کرے۔ مذہب اگر لوگوں کے اندر رچ بس جائے گا تو معاشرتے کی ان برائیوں کا تدارک ہوجائے گا۔ ظلم سہنا اور سالوں تک ظالموں کے آگے سر جھکائے رکھنا ثابت کرتا ہے کہ قصور میں لوگوں نے خود اپنے ساتھ کتنی ناانصافی کی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر فرد ظلم و زیادتی کے خلاف آواز اُٹھائے۔ اسے میڈیا تک لے کر آگئے۔ پولیس کے ناروا جبر کو ختم کیا جائے۔ اسے فرعونوں کے ہاتھ میں کھیلنے سے روکا جائے۔ حکومت بچوں کو تعلیم کی سہولیات مفت کردے۔ بے شمار بچے اس قدر غریب خاندانوں سے ہیں کہ ان کے والدین انہیں تعلیم نہیں دلواسکتے۔ معاشرے میں پھیلتی غربت کو کم کیا جائے۔ بچوں کے اخلاق میں سدھار لایا جائے۔ انہیں مسجد اور مدرسے تک رسائی دی جائے تاکہ وہ دین کو سمجھ سکیں۔ ان کم سنی میں جرائم میں ملوث ہونا ثابت کرتا ہے کہ معاشرتی زوال کی رفتار کس درجہ تیز ہے۔ ریاست معصوم بچوں کو اپنا ورثہ سمجھے، اُن کی تعلیم و تربیت ہی پاکستان کا مستقبل ہے۔ بچوں کو ہنر سکھانے سے وہ اپنے پائوں پر کھڑے ہوسکیں گے اور کل کو معاشرے پر بوجھ نہیں بنیں گے۔ زچہ و بچہ کی صحت و تندرستی پر بجٹ میں زیادہ سے زیادہ رقم مختص کی جائے۔ حکومت اس بات کا پوری طرح ادراک کرے کہ محض سڑکیں بنادینے سے ملک ترقی نہیں کرتے۔ ہر فرد کو مالی طور پر خوشحال بنانا، اُسے قانون انصاف کی مسلسل فراہمی، بچوں کے مستقبل کو اجالنا، ملک میں غربت اور بے روزگاری کو کم سے کم کرنا، اعلیٰ دینی اقدار کو دلوں میں جاگزین کرنا ہمارے بے شمار معاشرتی عذابوں کا حل ہے۔ آج ہم افریقہ کے پسماندہ ملکوں کی صف میں کھڑے ہوگئے ہیں۔ مالی طور پر تنگدست اور اخلاقی لحاظ سے ایک دیوالیہ قوم بن گئے ہیں۔ قصور کا عبرت ناک واقعہ ہماری حکومت کی آنکھیں کھول دے تو ہم درست سمت میں روانہ ہوجائیں گے۔ اگر ہماری ساری توجہ صرف قصور کے مجرموں پر ہی مرکوز رہے گی تو ہم خدانخواستہ مستقبل میں ایسے واقعات دیکھتے رہیں گے۔ خدارا! قوم کے بچوں کو اپنا بچہ سمجھیے۔

کیا یہ وہی پاکستان ہے
تحریر یاسر محمد خان

14؍ اگست 2015ء کو پاکستان بنے 68 سال پورے ہوجائیں گے۔ 1947ء میں یہ ملک جب دنیا کے نقشے پر اُبھرا تو پسِ منظر میں خون کے دریا بہہ رہے تھے۔ بچوں، عورتوں، مردوں کی بے گور و کفن لاشوں کے انبار لگے ہوئے تھے۔ لاکھوں معصوم لڑکیوں کی عصمت و عفت داغدار ہوچکی تھی۔ ہندوستان سے پاکستان کی طرف چلنے والوں میں سے بیشتر اپنی جانیں گنواچکے تھے۔ سکھوں اور ہندوئوں نے مسلمانوں کی بستیوں کا گھیرائو کرلیا تھا۔ اُن کو تلواروں، بلوں، بھالوں، نیزوں سے قتل کرنا شروع کردیا تھا۔ اُن جائیدادیں، دکانیں لوٹی جارہی تھیں۔ مسلم آبادیوں کو ایسا نذر آتش کیا گیا کہ ہفتوں اُن میں سے دھواں نکلتا رہا۔ انگریز سرکار اور ہندو پولیس نے بدترین انسانیت سوز مظالم سے لاتعلقی اختیار کرلی۔ کئی شہروں اور قصبوں میں مہاسبھائی بھیڑیوں کی ڈھال بن گئی۔ اُن کے ایما پر قتل و غارت گری مسلسل ہوتی رہی۔ ہندوستان کے طول و عرض میں بلوائیوں کے لشکر اپنے دانت تیز کیے شکار کی تلاش میں گھومتے پھرتے تھے۔ اُن کے پاس نقشے، ووٹر لسٹیں اور مسلمانوں کی املاک کی پوری جانکاری تھی۔ انہوں نے بجلی، پانی کی فراہمی بند کردی۔ راشن کا حصول ناممکن بنادیا۔ بھوکے پیاسے مسلمان ناچار باہر نکلتے تو تاک میں بیٹھے شکاریوں کا شکار بن جاتے۔ شہروں اور قصبوں میں جو مسلمان مسجدوں اور مدرسوں میں پناہ گزین ہوئے وہ زندہ جلادیے گئے۔ مہاجر کیمپوں میں قیامت کے مناظر تھے۔ ان کی حفاظت سے سرکار نے ہاتھ اُٹھالیے تھے۔ رمضان کے مہینے میں کلمہ طیبہ کا ورد کرتے یہ فرزندانِ توحید منزل کی طرف گامزن ہوئے تو فسادیوں کے حملوں کا نشانہ بن گئے۔

بیچ راہ میں لاکھوں شہید ہوئے۔ جو ٹرینوں تک پہنچ پائے اُن کو مشرقی پنجاب سے گزرتے ہوئے سکھوں نے ذبح کردیا۔ ’’ست سری اکال‘‘ اور ’’سرہرمہادیو‘‘ کے نعرے لگاتے سکھ اور ہندو اُن پر پل پڑے۔ کچھ ٹرینیں لاہور پہنچیں تو اُن میں خون سے لتھڑی لاشوں کے سوا کچھ بھی برآمد نہ ہوا۔

لاہور میں والٹن کے مقام پر سب سے بڑا مہاجر کیمپ لگایا گیا۔ اردو کے کئی نامور ادیبوں نے جو منظر نگاری اس کیمپ کی کی ہے اُس کو پڑھ کر آج بھی آنکھوں سے آنسو نہیں تھمتے۔ مائیں زار و قطار روتی اپنے بچوں کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ بوڑھے اپنے جوان بیٹوں کی شبیہ ہر چہرے میں تلاش کرتے پھررہے تھے۔ معصوم بچے، بچیاں پاگلوں کی طرح اپنے ماں باپ کو پکارتے پھررہے تھے۔ عورتوں کے سہاگ لٹ چکے تھے۔ لاتعداد لوگ اپنے پیاروں کو ہمیشہ کے لیے کھوچکے تھے۔ ہر چہرے پر دکھوں کی پرچھائیاں اور ہر آنکھ سے یادیں سیلاب کی طرح بہے جارہی تھیں۔ ان لوگوں کے لباس پھٹے پرانے، میل اور کیچڑ میں لت پت تھے۔ بے شمار افراد کے پائوں میں جوتے تک نہ تھے۔ اُن کے پاس زادِ راہ کچھ نہ تھی۔ نہایت متمول مسلمان اپنی ساری جمع پونجی لٹابیٹھے تھے۔ مقامی مسلمانوں نے ایثار و محبت کی وہ مثالیں قائم کیں کہ ان کی نظیر نہیں ملے گی۔ مہاجرین کے لیے کپڑوں، راشن، جوتوں، خیموں کو وافر مہیا کیا گیا۔ بچھڑے ہوئے کو تلاش کرکے پیاروں سے ملوایا گیا۔ کیمپوں میں زخمیوں کو علاج معالجے کے لیے ڈاکٹر بکثرت مہیا ہوگئے۔ دکھی دلوں کی تسلی کے لیے ہر زبان پر اثر آفریں کلمات تھے۔ لوگ مہر و محبت کی شیرنیاں بانٹتے پھرتے تھے۔ یتیموں کی دستگیری کے لیے اہلِ ایمان دوڑے پھرتے تھے۔ بے سہاروں کے لیے سہارے بے قرار تھے۔

اشفاق احمد نے کہیں لکھا ہے کہ جو نمازیں انہوں نے اس مہاجر کیمپ میں ادا کیں اُن کا سوز و جذب وہ تمام تر عمر کہیں اور نہ پاسکے۔ ممتاز مفتی نے لکھا کہ وہ مدرس کی حیثیت سے دہائیوں تک علم بانٹتے رہے، پر اس مہاجر کیمپ میں بچوں کو پڑھانے کے دوران وہ جس گہری اور روحانیت تمانیت سے سرشار ہوئے وہ انہیں عمر بھر نہیں بھولی۔ ۔ مہاجرین کے کیمپوں میں ہمدردی اور ایثار کی حددرجہ فراوانی نے انہیں انسانی فطرت میں نیکی کے خیرہ کن جوہر سے متعارف کروایا۔ احمد ندیم قاسمی نے لکھا ہے کہ انہیں مہاجر کیمپوں میں ہر بوڑھی عورت اپنی ماں نظر آئی۔ کئی بار انہیں یہ واہمہ ہوا کہ انگہ ضلع خوشاب میں رہائش پذیر اُن کی ماں یہاں آگئی ہے۔ اُن کے بقول اس روح پرور تجربے نے انہیں اردو کا ایک مشہور و معروف ادیب بنادیا۔

1947ء کے دل خراش سانحوں نے اہلِ پاکستان کو درد کی وہ دولت عطا کی جو انسانیت کی معراج ہوتی ہے۔ یہ وہی گراں مایہ دولت تھی جو ایک یتیم کو دیکھ کر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے بہہ نکلی تھی۔ یہ وہی دولت تھی جس کی تہہ میں اسلام کی روح اپنی پوری چکاچوند کے ساتھ نمایاں ہے۔ یہ وہی دولت ہے جو ’’اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضطَرَّ ‘‘ … ’’کون ہے جو مضطرب دلوں کی فریاد سنتا ہے۔‘‘ کی صورت قرآن کے بیسیویں پارے میں اپنی تابانی بکھیر رہی ہے۔ اگر یہ دولت پاکستانیوں کے ہمراہ زادِ راہ کی طرح رہتی آج 2015ء کا پاکستان کچھ اور ہوتا۔ ہم دنیا میں ایک سرفراز قوم ہوتے۔ افسوس صدر افسوس کہ یہ دول تجو ہمارے من کا موتی تھا، ہم نے کنکر پتھر سمجھ کر پھینک دیا۔ یہ دل بہار شبنم اگلے سالوں کے سورج میں تحلیل ہوگئی۔ ہم من کی دولت گنوابیٹھے اور ’’سود و سودا مکر دفن‘‘ کو اپنا راہبر بنالیا۔

پچھلے 68 برسوں کی ہماری قومی تاریخ کسی منزل کی طرف سفر نہیں، بلکہ دائروں میں مسلسل گردش سے عبارت ہے۔ محمد علی جناح پاکستان بنتے ہی علیل ہوگئے اور انہوں نے جلد آنکھیں موند لیں۔ لیاقت علی خان 1951ء میں شہید کردیے گئے۔ اُس کے بعد چند سالوں میں ملک مکمل طور پر بدنظمی کا شکار ہوگیا۔ ہم نے 10 برسوں میں 7 وزیراعظم فارغ کیے۔ ایوب خان کے 10 سالہ دورِ اقتدار میں ملک کو داخلی امن نصیب ہوا۔ دوسری طرف مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک زور پکڑگئی۔ 1969ء میں یحییٰ خان ملک پر قہر بن کر ٹوٹا۔ 1970ء میں ہماری قومی تاریخ میں پہلی بار عام انتخابات ہوئے۔ مشترقی پاکستان نے 162 جبکہ مغربی پاکستان نے 138 نشستیں جیتیں۔ عوامی لیگ ہر لحاظ سے اقتدار سنبھالنے کے لیے آگے تھی۔ مغربی پاکستان کے عاقبت نااندیش لیڈروں نے یحییٰ خان کی چنگیز خانیوں کو مزید تیر کردیا۔ مشرقی پاکستان کا الائو بھڑک اُٹھا۔ ہماری 92 ہزار فوج اُس کی نذر ہوگئی۔ محمودالرحمن کمیشن کے مطابق 62 ہزار بنگالی سول وار میں جان سے گئے۔ ہم نے بھارت سے جو فتح 1965ء میں چھینی تھی وہ 1971ء میں گنوادی۔ پاکستان نصف ہوگیا۔ ذوالفقار علی بھٹو 1972ء سے 1977ء تک ملک کا وزیراعظم بنا۔ ضیاء الحق کے 11 برسوں میں پاکستان میں جو ٹھہرائو آیا وہ 1988ء سے 1999ء کے درمیان جاتا رہا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے درمیان سانپ اور سیڑھی کا کھیل جاری رہا۔ مشرف حکومت کے 9 سالوں میں یہ ملک ’’روشن خیال‘‘ بنتے بنتے رہ گیا۔ زرداری حکومت کے 5 سال ایک ڈرائونا خواب بن کر اُترے۔ 2013ء سے اب تک سوا دو سال سے مسلم لیگ نون پاکستان کی عنان اقتدار سنبھالے ہوئے ہے۔ آج کا پاکستان 1947ء کی تمنائوں اور خوابوں کا عکس معکوس ہے۔

ہم نے 68 برس پہلے خدا کی کرم نوازی سے آزادی کا جو پیڑ پایا تھا لیڈروں نے جانکاہی سے اُس کی نگہداشت نہیں کی۔

اس کو سیدھا پروان نہیں چڑھایا۔ ہم نے اس میں آنے والے ٹیڑھے پن کو وقت پر دور نہیں کیا۔ ہم نے اسے آکاس بیلوں سے محفوظ نہیں رکھا۔ ہم نے نہیں جان پائے کہ یہی شجر سایہ دار ہمیں زمانے بھر کی کڑکتی دھوپوں سے بچائے گا۔ ہمارے سروں پہ اپنی ٹھنڈی چھائوں کی چھتری تانے گا۔ زور آوروں نے وقت کے ساتھ ساتھ اس پر اپنی مچانیں بنالیں۔ مجبور مخلوق کو بلبلانے کے لیے چھوڑ دیا۔ سمندروں کی طغیانیوں کو ہڑپ کر جانے والوں نے عام پاکستانی کے مقدر میں ساحلوں کی تشنگی لکھ دی۔ ہماری آزادی کی نائو میں وقت کے ساتھ ساتھ چھید بڑھتے گئے۔ یہ منجدہاروں میں ڈولتی رہی۔ ہم کسی معجزے کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے۔ یوں سالوں سے گزرنے کے ساتھ ساتھ ملکی مسائل کے انباروں میں اضافہ ہوتا گیا۔ ہماری جمہوری چند خاندانوں کی آمریت بن گئی۔ ہمارے حاکم خزانے خالی کرکے اور اپنی جیبیں بھرتے رہے۔ اقربا پروری اور رشوت ستانی نے ملک کی بنیادیں کھولی کردیں۔ اسمبلیاں رعونت اور بے رحمی کو مجسم کردینے والے اشخاص کی رہائش گاہیں بن گئیں۔ سرمایہ دار، جاگیردار اور بیورو کریٹ اکٹھ جوڑ کرکے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے لگے۔ پولیس ظالموں کے ہاتھ کی چھڑی بن گئی جس سے مخلوقِ خدا کو ہنکایا جانے لگا۔ پٹواری سے لے کر تحصیل دار، مجسٹریٹ سے لے کر کمشنر تک عہدوں کے بیچوں سے فراواں فصلیں کاٹتے رہے۔ کچہری، عدالتیں، وکیل، جج انصاف کے بیوپاری بن گئے۔ بدمعاشی اور غنڈہ گردی گلی کوچوں میں وبائوں کی صورت پھیل گئی۔ شرافت اور دیانت داری معاشرے میں سکڑتی اور سمٹتی رہی۔ نیک شریف اور دین دار لوگوں کا مذاق اُڑایا جانے لگا۔ انہیں اگلے وقت کی یادگار قرار دیا جانے لگا۔ اسلامی اقدار کو سربازار پائوں تلے روندنے والوں کو ’’کلچرڈ‘‘ کہا جانے لگا۔ معاشرہ کسی پاگل کسی مجنون کی طرح مغربی پاتالوں کی طرف بھاگنے لگا۔ آہ سحرگاہی اور نالہ نیم شبی چند نیک انفاس کی میراث بن کر رہ گئے۔ شہر جتنے روشن ہوتے گئے دلوں میں اندھیرا اتنا ہی بڑھنے لگا۔ انفرادی سطح پر ہر فرد دوسرے سے کٹ کر سمندروں میں اکیلے جزیروں کا روپ دھار گیا۔

قوی سطح پر ہماری آزادی انگریز کے بعد امریکی لنگوروں کی غلامی میں تبدیل ہوگئی۔ امریکی صدر پاکستان کا وائسرائے بن بیٹھا۔ امریکی امداد نے ملی غیرت کے لبادے میں بڑے بڑے شگاف ڈال دیے۔ ہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے زر خرید غلام بن گئے۔ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی بجائے ہم نے غیروں کی بیساکھیوں کا سہارا ڈھونڈ لیا۔ انجام کار قوم کا بچہ بچہ مقروض ہوگیا۔ ملکی پالیسیاں بیرون ملک یہودی اور عیسائی ایوانوں میں تشکیل پانے لگیں۔ دوستوں کو دشمن اور دشمنوں کو دوست قرار دینا ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی پتھر بن گیا۔ ہم یہود و نصاریٰ کے مدار میں گھومنے والا سیارہ بن گئے۔ ہم منزلوں کی سمت چلنے والے مسافروں کی بجائے آوارہ گردوں کا ایک غول بن گئے۔ آج ہمارا شمار دنیا کی پسماندہ ترین قوموں میں کیا جاتا ہے۔ یونائیٹڈ نیشنز ڈیویلپمنٹ پروگرام کی رپورٹ کے مطابق ترقی کی رفتار کے لحاظ سے ہم 187 ملکوں میں 146 ویں پوزیشن پر ہیں۔ آج کے پاکستان میں غربت کی شرح کم ہونے کی بجائے ہر ماہ و سال کے ساتھ بڑھے جارہی ہے۔ بے روزگاری کا گراف تیزی سے اونچائی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہماری حکومتیں تعلیم و صحت پر پیسہ لگانے کو ضیاع سمجھتی ہیں۔ میگا پراجیکٹس کی دوڑ میں چند لاکھ لوگوں کے فائدے کے لیے کروڑوں کا نقصان کیا جارہا ہے۔ ہم نے ڈیم نہ بناکر ملک کو ہر گزرتے سال کے ساتھ اور زیادہ نقصان پہنچائے جارہے ہیں۔ ماحولیاتی تغیر سے پاکستان کو جو مہیب خطرات عالمی ماہرین بتارہے ہیں ہم نے اُن کی طرف سے مکمل طور پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ ہمارے لیڈروں نے مفلس قوم کے کھربوں اُڑا کر بیرون ملک تجوریوں میں رکھ چھوڑے ہیں۔ ہماری اشرافیہ کا بڑا حصہ پاکستان کے علاوہ ہر ملک میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہے۔ یہ شاید کرئہ ارض کا واحد ملک ہے جہاں جمہوری نائو کے ملاح کھرب پتی ہیں۔ ہماری قوم و صوبائی اسمبلیاں ٹیکس چوروں سے بھری ہوئی ہیں۔ غریب پر ہر طرح کا ٹیکس لگانے کے بعد کم تنخواہ دار ملازمین کی تنخواہوں کے بینک میں ٹرانسفر پر بھی ٹیکس لگادیا گیا ہے۔ یوں ہ اپنی دال روٹی پر جی ایس ٹی کہانی پر انکم ٹیکس اور تنخواہ بینک میں آنے کی پاداش میں بھی ٹیکس کا حقدار قرار دے دیا گیا ہے۔ چور بازاری، ملاوٹ، ذخیرہ اندروزی، گراں فروشی نے ہر سو اپنا حصار قائم کر رکھا ہے۔ عام آدمی کی زندگی سے ریاست سب کچھ نچوڑ کر اُسے بدلے میں کچھ دینے کو تیا رنہیں۔ ہمارے لیڈروں کی زندگی محلوں، فائیو اسٹار ہوٹلوں، بنگلوں، کوٹھیوں، پریس کانفرنسوں، جلسوں اور تقریروں میں بسر ہوتی ہے۔ یہ شاید واحد جمہوری ملک ہے جہاں بڑے لیڈروں کی اولاد پیدائش کے بعد آنکھیں کھولنے سے پہلے قوم کے لیے ایک عدد تقریر نشر فرمادیتی ہے۔ ان پیدائشی لیڈروں کے ہاتھ اُس قوم کی نکیل تمادی جاتی ہے جس نے 10 لاکھ مسلمانوں کے خون سے یہ ملک حاصل کیا تھا۔

14؍ اگست خوشیاں منانے کے ساتھ ساتھ قوم کے لیے گہری سوچ بچار کا بھی تقاضا کرتا ہے۔ گھروں میں چراغیاں، جھنڈیو ںکی بہار، جھنڈوں کی قطاریں، ملی نغموں کی تانیں، مبارکبادوں کے سندیسے سب ٹھیک ہے۔ پر کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کی آرزو لے کر قافلہ چلا تھا۔ متاع کاررواں کے لٹ جانے سے بھی نقصان احساس زیاں کے جانے کا ہے۔

ایک دیرینہ خواب کی تکمیل
تحریر یاسر محمد خان

اُترپردیش بھارت کا سب سے زیادہ مسلم اکثریت کا صوبہ ہے۔ ہندوستان آزاد ہوا تو یہاں کی سرکاری زبان ہندی قرار دے دی گئی۔ 1951ء میں ایک قانون پاس ہوا جس میں انگریزی کے ساتھ ہندی کو صوبے بھر میں نافذ کردیا گیا۔ صدیوں سے مسلمان اردو بولتے اور لکھتے آرہے تھے۔ انہوں نے فارسی اور اُردو کی روایات کی نسلوں تک آبیاری کی تھی۔ لکھنو میں اردو زبان نے وہ لوچ اور شیرینی حاصل کی جو ضرب المثل بن گئی۔ اس زبان میں گالی تو درکنار ناشائستہ الفاظ بھی ڈھونڈے سے نہیں ملتے تھے۔ ہندی جو دیوناگری رسم الخط میں لکھی جاتی ہے، اُن کے لیے ایک بالکل نئی چیز تھی۔ یہی رسم الخط اسکولوں میں نافذ کیا گیا اور سارا نصاب ہندی میں پڑھایا جانے لگا۔ اردو زبان سے محبت کرنے والوں نے دہائیوں تک ایک مہم چلائی۔ گلی محلے کی سطح پر لوگوں کو اس زبان کے تحفظ کے لیے تیار کیا گیا۔ آخر 1989ء میں یوپی کی اسمبلی نے انگریزی اور ہندی کے ساتھ ساتھ اردو کو بھی صوبے کی سرکاری زبان کا درجہ دے دیا۔ یوں سارے قوانین کی نشر و اشاعت ساری خط و کتابت ان تین زبانوں میں ہونے لگی۔ اسکولوں میں بھی اردو کو اس کے رسم الخط میں پڑھایا جانے لگا۔ یہ تاریخ ساز قدم ہندوئوں کے لیے سوہان روح بن گیا۔ انہوں نے یوپی کی اسمبلی پر دبائو ڈالا۔ مرکزی حکومت کو سرگرم کیا، مگر اُن کو کوئی کامیابی نہ مل پائی۔ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔ یوں یہ کیس نچلی عدالتوں سے سفر کرتا ہوا سپریم کورٹ میں جاپہنچا۔ ستمبر 2014ء میں بھارتی سپریم کورٹ کے ایک بنچ نے متفقہ فیصلہ دیا کہ اردو ہند اسلامی تمدن کی یادگار ہے۔ یہ مسلمانوں کی ایک پہچان کا درجہ رکھتی ہے۔

مسلمان اس زبان سے نہایت دلی لگائو رکھتے ہیں۔ اُن کا شعر و ادب اور تہذیب و ثقافت کی بنیاد یہ زبان ہے۔ اگر مسلمان اپنی اکثریت کے صوبے میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینا چاہتے ہیں تو انہیں اس جائز کام سے نہیں روکا جاسکتا۔ یوں اس تاریخی فیصلے کے بعد اترپردیش میں اردو کا مستقبل روشن ہوگیا ہے۔ بادمخالف اس چراغ کو اب بجھا نہیں پائے گی۔ ہند اسلامی تمدن کی یہ یادگار باقی رہے گی۔ اگلی نسلوں تک مسلمانوں کا ورثہ منتقل ہوگا۔

پاکستان بنا تو قائداعظم نے اردو کو اس کی سرکاری زبان قرار دیا۔ بیورو کریسی اس راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی۔ انڈین سول سروس کے یہ ملازمین جب نئے ملک پہنچے تو انہوں نے کار سرکار پر قبضہ جمالیا۔ یہ وہ طبقہ تھا جن کی صرف کھال ایشیائی تھی۔ ان کی بول چال، ان کا اوڑھنا بچھونا سب فرنگی تھا۔ یہ ڈپٹی نذیر احمد کے ناول ’’ابن الوقت‘‘ کے وہ مرکزی کردار تھے جن کو عوام سے کوئی لینا دینا نہ تھا۔ قائداعظم کی وفات کے بعد یہ کھل کر کھیلے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے دن رات کوششیں کیں، وہ بری طرح ناکام رہے۔ برسوں بعد 1973ء کے آئین میں آرٹیکل 251 کے مطابق اردو کو پاکستان کی سرکاری زبان کا درجہ دے دیا گیا۔ 15 سالوں کے اندر اندر اس زبان کو زندگی کے ہر شعبے میں پوری طرح نافذ ہونا تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے اس سمت ایک بڑا قدم اُٹھایا اور 1979ء میں اس کے نفاذ کے لیے ایک آرڈیننس جاری کیا۔ دو اڑھائی برس بیوروکریسی بادل نخواستہ اردو کو برداشت کرتی رہی۔ جنرل ضیاء الحق کی توجہ مسئلہ افغانستان کی طرف ہوتے ہی بیورو کریٹوں نے اردو کو اپنے دفتروں سے باہر نکال کر دروازے بند کرلیے۔ اب 2015ء میں حکومت نے6 جولائی کو ایک سرکاری حکم نامہ جاری کیا ہے۔ اس کا محرک وہ دبائو ہے جو عدالتی کارروائی کے نتیجے میں حکومت پر پڑرہا ہے۔ اس حکم نامے میں یہ آرڈر دیا گیا ہے کہ آیندہ صدر، وزیراعظم، وفاقی و صوبائی وزراء اور تمام سرکاری نمایندے اندرون و بیرون ملک اردو میں تقریریں کریں گے۔ وفاق کے زیرانتظام تمام سرکاری و نیم سرکاری ادارے 3 ماہ کے اندر اپنی پالیسیوں اور قوانین کا اردو ترجمہ شائع کریں گے۔ ہر طرح کے فارم انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں شائع کیے جائیں گے۔ عدالتوں، تھانوں، ہسپتالوں، تعلیمی اداروں اور بینکوں وغیرہ میں راہنمائی کے لیے نصب تمام بورڈز انگریزی کے علاوہ اردو میں بھی لکھے جائیں گے۔ پاسپورٹ آفس، محکمہ انکم ٹیکس، اے جی پی آر، آرڈیٹر جنرل آف پاکستان، واپڈا، سوئی گیس، الیکشن کمیشن، ڈرائیونگ لائسننگ اتھارٹی کے فارم اور یوٹیلیٹی بلوں سمیت ساری سرکاری و قانونی دستاویزات 3 ماہ کے اندر صارفین کو اردو میں فراہم کی جائیں گی۔ پاسپورٹ شناختی کارڈ کے سارے مندرجات انگریزی کے علاوہ اردو میں بھی درج ہو ںگے۔ تمام سرکاری ادارے اپنی ویب سائیٹس بھی تین ماہ میں اردو میں مہیا کریں گے۔ سارے ملک میں شاہراہوں پر راہنمائی کے سائن بورڈز بھی اردو میں منتقل ہوجائیں گے۔ دفتروں میں تمام فائلوں پر کارروائی اردو میں کی جائے گی۔ سرکاری خط و کتابت بھی اس زبان میں ہوگی۔ اس حکم نامے سے امید پیدا ہوئی ہے کہ قومی زبان کو اس کا نہایت جائز مقام مل جائے گا۔

وہ زبان جسے پاکستان اور ہندوستان کے علاوہ ساری دنیا میں کروڑوں افراد بولتے سمجھتے ہیں جس کے دامن میں ہمارا سارا دینی ورثہ ترجمے کی صورت ہمہ وقت مہیا ہے۔ جس میں عربی کا شکوہ اور فارسی کی نزاکت پائی جاتی ہے۔ جسے میر، غالب اور اقبال جیسے قدآور شاعروں نے اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ جس نے نذیر احمد، عبدالحلیم شرر، ممتاز مفتی، عبداللہ حسین اور نسیم حجازی جیسے بڑے ناول نگار پیدا کیے۔ جس نے سجاد حیدر، یلدرم، انتظار حسین اور سید رفیق حسین جیسے افسانہ نگار پروان چڑھائے۔ وہ زبان جس میں ہر روز سینکڑوں اخبارات شائع ہوتے ہیں۔ ہر ماہ ہزاروں جریدے منظرعام پر آتے ہیں۔ جس زبان میں بیسیوں کالم نگار لکھ کر عوام کو دینی، ملی، قومی، اخلاقی راہنمائی دے رہے ہیں۔ ان گنت چینلز اس زبان کے ذریعے کروڑوں لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑے ہوئے ہیں۔ یہی زبان دینی اجتماعات میں لوگوں کی زندگیوں میں بڑی تبدیلی لانے کے لیے اسلامی تعلیمات پہنچانے کا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔ اس کے مقابلے میں انگریزی اخبارات کو ملک کا ایک فیصد سے بھی کم طبقہ پڑھتا ہے۔ انگریزی کے کالم نگار اردو ترجمے کے ذریعے عوام میں ناموری کمارہے ہیں۔ بڑی ستم ظریفی ہے کہ اتنی شاندار زبان کے ساتھ ہمارے بیوروکریٹوں نے ہمیشہ لاتعلقی برتی ہے۔ اب بھی انہوں نے نیم دلی کے ساتھ کے اسے گوارا کیا ہے۔ مقابلے کے اتحانات کی زبان بدستور انگریزی ہی رہے گی۔ یوں اردو میڈیم طبقے کا انگریزی میں کم مہارت رکھنا اُس کے لیے معذوری بنارہے گا۔ قومی لباس والوں کو فرنگی سوٹ والے حقیر سمجھتے رہیں گے۔ کلین شیو لوگوں کو کلچرڈ اور اسلامی وضع قطع والوں کو پسماندہ سمجھنے والوں میں کمی نہ ہوپائے گی۔ گہرائی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ انگریزی محض ایک زبان نہیں یہ پورے کا پورا ایک کلچر ہے جو پوری طرح انگریزوں کا ہوجاتا ہے،

اُس کی سوچ کے سارے زاویے مغربی ہوجاتے ہیں۔ ہمیں صبح و شام بتایا گیا کہ انگریزی سائنس و ٹیکنالوجی کی زبان ہے۔ یہ بین الاقوامی فورم پر ڈپلومیسی کا کامیاب اوزار ہے۔ یہ دنیا کی طرف کھلنے والی واحد کھڑکی ہے۔

یہ واحد لنگوا فرانکا ہے جس سے ہم ترقی کرسکتے ہیں۔ اس کی مدد سے ہم جدید فنون سیکھ سکتے ہیں۔ ہم اس کے بغیر کمپیوٹر میں کورے رہ جائیں گے۔ ہم انگریزی اور مغربی ادب کے بڑے لکھاریوں کے نادر خیالات نہیں پڑھ پائیں گے۔ یہ کامرس اور انڈسٹری کا ایک بڑا ذریعہ اظہار ہے۔ ہم میڈیکل سائنس میں ہونے والی عہد ساز ادویات کی معلومات سے کورے رہ جائیں گے۔ طب کی ساری کتابیں مغربی ہیں، اگر ہم نے انہیں نہ پڑھا تو ہم تاریک راہوں کے مسافر بن جائیں گے۔ تعلیم کے میدان میں ہونے والی نئی سے نئی تحقیق کو انگریزی نہ جاننے کی بنا پر ہم نہیں جان پائیں گے۔ ہمارا دنیا بھر میں بکھرا سفارتی طبقہ انگریزی نہ سمجھنے کی وجہ سے دوستی کے گہرے تعلقات نہ بنا پائے گا۔ ہم گلوبل ولیج میں سمٹی دنیا میں اجنبی بن جائیں گے۔ یوں انگریزی کے وکیلوں نے دہائیوں تک ہمیں اس زبان کے ایسے ایسے ثمرات گنوائے کہ بہت سے لوگ اس جھانسے میں آگئے۔

آپ دنیا بھر میں تیزی سے ترقی کرنے والی قوموں پر ایک نظر دوڑائیے۔ یہ سارے نظریات، یہ سارے عقیدے باطل ہوجائیں گے۔ چین اور جاپان سارے ایشیا کو لیڈ کررہے ہیں۔ یہ انگریزی زبان سے نابلد قومیں ہیں۔ یورپ میں برطانیہ کو چھوڑ کر سارے ملک اپنی زبانوں کے ذریعے ترقی کے بام عروج پر پہنچ چکے ہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی امریکا و برطانیہ کی جاگیر نہیں، بہت سے ملک اس میدان میں شہسوار بن چکے ہیں۔ وہ اپنے آئیڈیاز کا وسیلہ اپنی زبانوں کو بناتے ہیں۔ یوں یہ انگریزی میں ترجمہ ہوکر ہم تک پہنچتے ہیں۔ دنیا بھر میں ڈپلومیسی میں کامیاب قومیں اپنی زبانیں بولتی ہیں۔ مترجم ہمراہ ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں بولی جانے والی زبانوں میں انگریزی کا درجہ کمتر ہے۔ کمپیوٹر کے ڈیٹا بیس ہر ترقی یافتہ ملک کی زبانوں میں مہیا ہیں۔ دنیا کا ہر اعلیٰ ادب غیرملکی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ کامرس اور انڈسٹری میں بڑی قومیں مترجم کے ذریعے اربوں روپو ں کی ڈیل کررہی ہیں۔ میڈیکل سائنس کی ایجادات اور کتب چینی اور جاپانی زبانوں میں ہر خاص و عام کو مہیا ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں ہر نیا خیال منٹوں میں دنیا بھر میں پھیل جاتا ہے۔ اگر انگریزی سے ہی سفارت کاری ہوتی تو چین اور جاپان تو ہم سے بھی کم اہمیت کے مالک ہوتے۔ ہم نے جو کاٹھے انگریز پیدا کیے ہیں وہ چبا چباکر جبڑے گھما گھماکر انگریزی بول سکتے ہیں۔ اس کے باوجود ہم کبھی نہ بھرنے والے کشکول کے حامل ملک ہیں جس کو کوئی خاص اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ اس زبان کو سیکھنے کے لیے اس مفلس قوم کے بچے دن رات محنت کرتے ہیں۔ مسلسل عرق ریزی کرتے ہیں۔ اس کے باوجود بہت کم تعداد اس زبان میں لکھے خیالات کو پڑھ اور سمجھ سکتی ہے۔ پوش تعلیمی اداروں میں بڑے لوگوں کے بچے یورپی ماحول مہیا ہونے کی بنا پر یہ زبان سیکھ کر بیوروکریٹ بن جاتے ہیں۔ پھر ساری زندگی انگریزی زبان اور کلچر کے حامی بن کر شاہانہ زندگی گزارتے ہیں۔ حتمی بات یہی ہے کہ اس زبان سے بالا دست طبقے کے سارے مقاصد پورے ہوجاتے ہیں۔ یوں دھوئیں کی ایک دیوار بناکر اس کی اوٹ میں مغربی ڈرامے کا ہر پارٹ ادا کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں اردو کو فی الفور سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے۔ ہمیں انگریزی کو مکمل طور پر ختم نہیں کرنا۔ ہمیں یہ زبان بہترین مترجم پیدا کرنے کے لیے چاہیے۔ ہمیں ہر ترقی یافتہ ملک میں بولی جانے والی زبان کا ترجمہ کرنے والا ایک طبقہ پیدا کرنا چاہیے تاکہ دنیا بھر میں ہونے والی ترقی فی الفور ہماری اردو میں منتقل ہوجائے۔ یہ دلیل کہ اردو میں آسان ترجمہ مشکل ہے نہایت بودی ہے۔ پاکستان کے قیام سے قبل حیدرآباد دکن میں عثمانیہ یونیورسٹی میں بابائے اردو مولوی عبدالحق نے ترجمے کا ایک بڑا شعبہ بنایا اور جدید سائنسی کتب اردو میں منتقل ہونا شروع ہوگئیں۔ ہم جب اس زبان کو نئے سے نئے خیالات آئیڈیاز کے لیے استعمال کریں گے تو یہ روانی پکڑتی جائے گی۔ انگریزی کے بے شمار الفاظ اردو کا حصہ بن چکے ہیں۔ ہمیں ان الفاظ کو جنہیں عام اردو جاننے والا بھی سمجھتا ہے قبول کرنا ہوگا۔ زبانیں کسی احاطہ کسی بائونڈری میں قید نہیں ہوتیں، ان میں نئے سے نئے الفاظ آتے رہتے ہیں۔ اردو کا دامن جتنا بھرے گا اتنا ہی کشادہ ہوگا۔ امید ہے کہ 6 جولائی کو اُٹھایا جانے والا قدم پہلا ہوگا آخری نہ ہوگا۔ خدا اس قوم کو انگریز کلچر کے قصدیے پڑھنے والوں اور اس کو حرف آخر ماننے والوں سے بچائے۔

جان ماسٹرز ایک انگریز تھا جو ہندوستان میں بس گیا۔ ناول نگار کی حیثیت سے اُس نے شہرت کمائی۔ اُس کا ایک ناول ’’بھوانی جنکشن‘‘ مشہور ہوا۔ مولانا عبدالماجد دریا آبادیؒ نے برصغیر کے ہر قاری کو یہ ناول پڑھنے کا مشورہ دیا تھا۔ یہ ان اینگلو انڈین لوگوں کے بارے میں ہے جنہوں نے انگریزی راج میں عیسائیت قبول کی۔ ان کی بود و باش اختیار کی۔ اُن کی طرح سگار پینے اور چھری کانٹے سے کھانا کھانے کی عادات اپنائیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو مغربی رنگ میں یوں رنگا کہ انگریزی کے علاوہ ہر زبان بولنے کو تذلیل سمجھتے تھے۔ یہ لوگ جب انگریزوں سے ملتے تھے تو انگریز ان پر دل کھول کر ہنستے۔ ان کا مذاق اُڑاتے، کبھی بھی انہیں اپنا ہم پلہ نہ سمجھتے۔ یوں یہ نہ تو انگریز بن پائے نہ ہی ہندوستانی۔ ہمارا انگریزی خداں طبقہ انہی اینگلو انڈین لوگوں کی طرح خلا میں معلق ہے۔ اس کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ملک اُس دن سے ترقی کی رفتار پکڑے گا جب ہمارا حکمراں طبقہ عوام کی بولی بولے گا، اُن کا سا لباس پہنے گا، انہی زمینوں کا اناج کھائے گا، پاکستانی پانی پیئے گا۔ اُس دن اردو نافذ کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی، یہ خودبخود نافذ ہوجائے گی۔

انسانی المیے پر عالمی طاقتوں کی پراسرار خاموشی
تحریر یاسر محمد خان
مشاہدات: 568

’’Glass Palace Chronicle‘‘ (شیشے کے محل کی روائیداد) برما کی صدیوں پرانی تاریخ پر سب سے اہم کتاب مانی جاتی ہے۔ انگریز راج میں شائع ہونے والی اس کتاب کا برمائی تمام زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ بدھ مت پر ایمان رکھنے والوں نے اس کتاب کے ورق ورق کی سچائی کا اعتراف کیا۔ یہ تاریخ بتاتی ہے کہ آٹھویں صدی عیسوی میں روہنگیا مسلمان برما میں سکونت اختیار کرچکے تھے۔ 1799ء میں چھپنے والی ’’سرچارلز بوچانن‘‘ کی تاریخ میں بھی برما کے صوبے اراکان میں مسلم اکثریت کی نشان دہی کی گئی تھی۔ سترہویں صدی میں ہندوستان، چین، بنگال اور عرب سے مزید مسلمان اس سرزمین پہ آکر آباد ہوگئے۔ جب اورنگ زیب عالمگیر کے بھائی شاہ شجاع کو شکست ہوئی تو وہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ برما میں آبسا۔ انگریزوں نے 1823ء میں برما کو زیرنگیں کیا اور حکومت کا کلی کنٹرول سنبھال لیا۔ ملک کو چلانے کے لیے افرادی قوت کی سخت ضرورت درکار ہوئی۔ وجہ یہ تھی کہ عام بودھ دنیاداری سے دور اپنے مراقبوں میں غرق زندگی بسر کرتا تھا۔ مہاتما بدھ اور تائو ازم کے زیراثر وہ دنیاوی جھمیلوں سے دور رہتا تھا۔ انگریز نے آکر ریلوے کا نظام بنانا شروع کیا۔ نہریں کھودی جانے لگیں۔ سرکار کے لیے شاہانہ عمارتیں استوار ہونے لگیں۔ برما کی مصنوعات کو یورپ لے جانے کے لیے خاص افرادی قوت درکار ہوئی۔ یوں مزید مسلمان برما آنے لگے۔ انہوں نے ہر شعبہ زندگی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کیا۔ تجارت میں ترقی سے مسلمان آسودہ حال ہوگئے۔ انگریز راج کے آخری سالوں میں مسلمان ملک کا امیر ترین طبقہ بن چکا تھا۔

٭ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس وارچ جو اقلیتوں پر ہونے والی چھوٹی چھوٹی زیادتیوں پر بین الاقوامی پریس اور میڈیا پر طوفان برپا کردیتے ہیں۔ ان خوفناک مظالم پر چپ سادھے ہوئے ہیں۔ ٭ عالم اسلام میں طیب اردگان نے اس مرتبہ بھی سب سے بڑھ کر خدمات پیش کردی ہیں۔ سمندروں میں بھٹکے مسلمانوں کے لیے امدادی سامان سے لدھے جہاز بحیرئہ ہند میں موجزن ہیں۔ ٭

1921ء کی مردم شماری کے مطابق ملک میں 5 لاکھ مسلمان رہائش پذیر تھے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران تساہل پسند بودھوں کے مقابلے میں مسلمانوں نے جو کارنامے انجام دیے انہوں نے انہیں انگریزوں کے اور قریب کردیا۔ مسلم بہادری اور فرض شناسی میں معتبر ہوگئے۔ 1930ء میں پہلی بار بودھوں اور مسلمانوں کے درمیان سخت کشمکش کا آغاز ہوا۔ کازکان کے ساحلوں پر مسلمان مزدوروں کو بودھوں کے مقابلے میں ترجیح دی گئی۔ یوں فسادات پھوٹ پڑے جو سارے برما میں پھیل گئے۔ انگریزوں نے اس ہنگامے پر ایک کمیشن بھٹایا جسے مانٹیگو کمیشن کہا جاتا ہے۔ اس نے اپنی سفارشات میں مسلم اکثریت کے علاقوں میں انہیں بعض مزید مراعات دینے کا اعلان کیا۔ یوں اس واقعے کے بعد بودھوں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج اور بڑھ گئی۔ اراکان کے صوبے میں مسلم اکثریت کی وجہ سے شورش زدہ علاقوں سے مسلمان یہاں آکر بسنے لگے۔ یہ صوبہ بہتر آب و ہوا، معدنیات، زرخیز زمینوں اور وافر پانی کی وجہ سے سرسبز و شاداب ہے۔ 1939ء میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی۔ جاپانی فوجوں نے اراکان پر قبضہ کرلیا، چونکہ جاپانی بودھ تھے، اس لیے انہوں نے مسلمانوں پر سخت ظلم ڈھانے شروع کردیے۔ اُن کے مکانات جلائے گئے۔ جائیدادیں لوٹی گئیں۔ عبادت گاہوں کو مسمار کردیا گیا۔ اُن کے کاروبار پر بودھ قابض ہوگئے۔ انگریز سرکار بے بس ہوکر تماشہ دیکھتی رہی۔ جاپانی فوج کو ایٹمی دھماکوں نے جڑوں سے اکھاڑ دیا۔ ان کے رخصت ہونے کے بعد بھی مسلمان اپنی روایتی خوش حالی سے ہمیشہ کے لیے ہاتھو دھوبیٹھے۔ 1947ء میں برما (میانمار) آزاد ہوا تو مسلمان مستقل طور پر اس ملک میں غلام ہوگئے۔ نئی حکومت نے اذان پر پابندی لگادی۔

نوکریوں کے دروازے مسلمانوں پر بند کردیے۔ انہیں شادی کے لیے حکومت سے پرمٹ کا خواستگار بنادیا گیا۔ دو سے زیادہ بچے والوں کو قید و بند کی سزائیں تجویز ہوئیں۔ سارے ملک میں عید قربان منانے اور قربانی کرنے پر سخت پابند عائد کردی گئی۔ برما پر آزادی کے بعد سے فوجی جرنیلوں کا قبضہ رہا۔ ان آمروں نے مسلمانوں کو اذیت دینے کا ہر حربہ استعمال کیا۔

1947ء کے بعد اراکان کے مسلمانوں نے بنگال میں بسنے کے لیے کوششیں شروع کردیں۔ بنگایوں نے ان کی کوئی حوصلہ افزائی نہ کی۔ جنرل یونو نے 1962ء میں اقتدار پر قبضہ کیا تو مسجد کے اماموں کو بطور سزا سور کا گوشت کھانے پر مجبور کیا گیا۔ انکار پر کئی امام شہید کردیے گئے۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان قیام میں آیا تو روہنگیا مسلمانوں نے شیخ مجیب الرحمن کی منت سماجت کی۔ وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ چوری چھپے بنگال میں پناہ لینے والے مسلمانوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ کراچی کے برما ٹائون میں ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کو خوش آمدد کہا گیا۔ برما میں ہر گزری دھائی کے ساتھ مسلمانوں پر زندگی عذاب سے عذاب تر بنائی جانے لگی۔ 1982ء میں نئے قوانین کے مطابق 13 لاکھ مسلمانوں کو برمی ماننے سے صاف انکار کردیا گیا۔ اُن کے پاسپورٹ کینسل کردیے گئے۔ قومی شناختی کارڈ واپس لے لیے گئے۔ وہ کسی بھی جگہ کوئی ملازمت یا کاروبار نہیں کرسکتے تھے۔ 1990ء میں مسلمانوں کی تنظیم مسلم کانگریس نے بیرونی دنیا میں ان مظالم پر آواز اُٹھائی۔ چند مسلمان اقوام متحدہ تک جاپہنچے، مگر وہاں اُن کی کرب ناک صدا کسی نے نہیں سنی۔ 2001ء میں طالبان نے افغانستان میں بامیان کے مقام پر مہاتما بدھ کے مجسمے مسمار کردیے۔ ان کے ردّعمل میں برما میں مسلمانوں کو شہید کرنا شروع کردیا گیا۔ یہ فسادات مئی 2001ء میں شروع ہوئے اور اگست تک 3 ہزار مسلمان قتل ہوگئے۔

روہنگیا مسلمانوں کا المیہ بین الاقوامی منظرنامے پر 2012ء کے بعد اجاگر ہونا شروع ہوا۔ اس سال ایک بودھ عورت سے زیادتی کے الزام پر سارے ملک میں مسلمانوں کو زندہ جلایا جانے لگا۔ عورتوں کی عصمت دری کی جانے لگی۔ شیرخوار بچوں کے گلے کاٹے جانے لگے۔ رنگون میں بہادر شاہ ظفر کا مزار ڈھادیا گیا۔ درگاہوں اور قبرستانوں پر بلڈوزر پھیرے جانے لگے۔ مسلمانوں کو اُن کے گھر جائیداد سے کلی طور پر محروم کرکے پناہ گزین کیمپوں کی طرف دھکیلا جانے لگا۔ سارے برما سے مسلمان لٹے پٹے ساحلی علاقوں پر جمع ہونے لگے۔ انسانی اسمگلروں نے اُن کی جمع پونجی ہتھیاکر انہیں سمندر میں غرق ہونے کے لیے چھوڑ دیا۔ 11 ہزار افراد تھائی لینڈ کے 9 کیمپوں میں پناہ گزین ہیں۔ تھائی لینڈ دنیا بھر میں اپنے قحبہ خانوں کے لیے بدنام ہے۔ دلالوں نے مسلمان عورتوں کو انسانی سوداگروں کے ہاتھوں بیچنا شروع کردیا ہے۔ مسلمان ملائیشیا، انڈونیشیا، بنگلہ دیش کے ساحلی علاقوں پر گردابوں کی صورت گھوم رہے ہیں۔ اقوام متحدہ نے ان کو دنیا کی سب سے زیادہ قہرزدہ قومیت قرار دے دیا ہے۔ برما میں اُٹھنے والی 969 نامی تنظیم نے بچے کھچے مسلمانوں کو بھی ملک بدر کرنے کے لیے کارروائیاں تیز تر کردی ہیں۔

اس تنظیم کے روح رواں برما کے بدترین جرائم پیشہ بودھ ہیں۔ ان لوگوں کے کالے کرتوتوں پر ٹائم رسالے نے ایک ٹائٹل اسٹوری شائع کی۔ اس میں انہیں جدید برما کا کریہہ منظر چہرہ قرار دیا۔ 969 دراصل مسلمانوں کے 786 کے ہندسے کا بودھ ردّعمل ہے۔ برما کی پولیس، فوج، ایجنسیاں، مذہبی راہنما سب مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کرکے انہیں اراکان کے ساحلوں کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ یوں اس صوبے کی 98 فیصد مسلم اکثریت صدیوں تک ایک ملک کا مکین رہنے کے بعد جڑوں سے کاٹی جارہی ہے۔ ہندوستان اپنی شمال مشرقی ریاستوں سے اراکان کے راستے مشرق بعید میں ڈائریکٹ تجارت کرنا چاہ رہا ہے۔ 2011ء میں برما کی موجودہ حکومت کے آنے کے بعد سے بھارت برما تعلقات میں گہری گرمجوشی دیکھنے میں آرہی ہے۔ ہندوستان ان مسلمانوں کو راستے کی دیوار سمجھتا ہے اور اسے ہٹانے کے لیے بودھوں کو اسلحہ، کرنسی اور انٹیلی جنس کی تمام خدمات فراہم کررہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ برما کی خاتون سیاسی لیڈر آنگ سان سوچی جو 25 برس فوجی آمروں کی قید میں رہی اور جسے انسانی حقوق کا نوبل پرائز بھی ملا۔ اُس نے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر کوئی ردّعمل ظاہر نہیں کیا۔ اُس کے تازہ بیانات میں بودھوں کی جس طرح حمایت کی گئی ہے وہ اُس کے ذہنی دیوالیہ پن کی عکاس ہے۔ پچھلے ہفتے تھائی لینڈ میں برما کے 15 پڑوسی ملکوں کی ایک کانفرنس ہوئی۔ برما نے اس کا بائیکاٹ کیا۔ ان ملکوں نے اس المناک انسانی المیے پر برما پر بہت تنقید کی۔ اس کانفرنس کے اعلامیے سے دن بدن گھمبیر ہونے والی صورت حال کی عکاسی ہوتی ہے۔

مسلمان ساحلوں کی تپتی ریت پر پڑے ہوئے ہیں۔ انہیں خیمے اور راشن میسر نہیں، پینے کے صاف پانی کا کال ہے۔ گدلے پانی سے امراض پھیل رہے ہیں۔ گندگی کی وجہ سے ہولناک دبائوں کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ دست قے کی ادویات بہم نہیں ہیں۔ ملائیشیا پہنچ جانے والے ذرا بہتر حالات میں ہیں۔ انہیں وہاں مزدور مل جاتی ہے جس سے گزر اوقات ہوجاتی ہے۔ تھائی لینڈ کے جنگلوں میں انسانی اسمگلروں نے ان مسلمانوں کو اغوا برائے تاوان کے شکنجوں میں کس رکھا ہے۔ بنگلہ دیش کی حکومت نے روہنگیا مسلمانوں (جن کی اکثریت میں بنگالی خون ہے) کو جس بے دردی سے نظرانداز کر رکھا ہے وہ سخت تکلیف دہ ہے۔ مودی کے ساتھ مسکراہٹوں کا تبادلہ کرنے والی حسینہ واجد کے پاس ان مسلمانوں کے دکھوں کے لیے کوئی مرہم نہیں۔ عالم اسلام میں طیب اردگان نے اس مرتبہ بھی سب سے بڑھ کر خدمات پیش کردی ہیں۔ سمندروں میں بھٹکے مسلمانوں کے لیے امدادی سامان سے لدھے جہاز بحیرئہ ہند میں موجزن ہیں۔ پناہ گزینوں کی پہلی جماعت ترکی پہنچ گئی ہے۔ وہاں ان لوگوں کو ایسے ایثار کی مثالیں دیکھنے کو ملی ہیں کہ ان کے آنسو نہیں تھم رہے۔ پاکستان نے 50 لاکھ ڈالرز کی امداد کا اعلان کیا ہے۔ ہماری حکومت، دفتر خارجہ اور داخلہ، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ان مجبوروں کی امداد کے لیے کئی پالیسیاں مرتب کی جارہی ہیں۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کو خط ارسال کیے جارہے ہیں۔ پاکستان سفارتی میدان میں سرگرم ہوگیا ہے۔ سلامتی کونسل کے جلد اجلاس کے لیے کوششیں زوروں پر ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس وارچ جو اقلیتوں پر ہونے والی چھوٹی چھوٹی زیادتیوں پر بین الاقوامی پریس اور میڈیا پر طوفان برپا کردیتے ہیں۔ ان خوفناک مظالم پر چپ سادھے ہوئے ہیں۔ او آئی سی اور عرب لیگ کی طرف سے بھی خاموشی ہے۔

اگر مشرقی تیمور، جنوبی سوڈان، بوسنیا اور کوسوو میں عیسائیوں کے لیے علیحدہ حکومتیں بننے کی منظوری مل سکتی ہے تو ان 30 لاکھ مسلمانوں کو دنیا بھر میں بھٹکنے کے لیے کیوں چھوڑ دیا گیا ہے۔ مسلم دنیا کو ہر فورم پر ان مظلوموں کے لیے آواز بلند کرنا ہوگی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اراکان پہلے مسلم اکثریت کی بنا پر اپنی حکومت رکھتا تھا جس کی اپنی کرنسی بھی ہوا کرتی تھی۔ یہاں مدرسے اور یونیورسٹیاں ہوا کرتی تھیں۔ مسلم فن تعمیر کا شاہکار مسجدیں آباد تھیں۔ اگر اراکان کی مسلم اکثریت کو آزادی مل جاتی ہے تو یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ دوسری صورت میں انہیں برما کی شہریت ملنی چاہیے۔ انہیں وہ تمام حقوق ملنے چاہییں جو کہ بودھوں کو ملے ہوئے ہیں۔ انہیں ملازمت اور کاروبار کا حق ملے، وہ زمین جائیداد اور گھر لے سکیں۔ انہیں شادی اور دوسری تمام مذہبی رسومات ادا کرنے کی اجازت ہو۔ وہ اپنی مسجدوں اور مدرسوں کو آباد کرنے کا حق رکھتے ہوں۔ اگر تمام تر کوششوں کے باوجود یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا تو دنیا کے 57 مسلمان ملکوں کو ان بدنصیبوں کو اپنے ہاں بسانے کی اجازت ملنی چاہیے۔ اگر ترکی کے طیب اردگان اپنی وسعت قلب کا روح پرور مظاہرہ کرسکتے ہیں تو اس مثال کو ساری مسلم دنیا اپنالے۔ ایٹمی قوت کا مالک پاکستان ایٹمی جذبہ ایمانی بھی دکھائے، پاکستان کو اس مسئلے کے پائیدار حل کے لیے سب سے آگے آنا ہوگا۔ روہنگیا مسلمانوں کی دل کھول کر مدد کرنا ہوگی۔

خوشیوں کے سفیر
تحریر یاسر محمد خان
مشاہدات: 551

’’دیوان سنگھ مفتون‘‘ تقسیم ہند کے وقت بہت معروف صحافی تھا۔ اُس نے ’’ریاست‘‘ جیسا اخبار نکالا جو ہندوستان کے کثیرالاشاعت اخباروں میں شامل ہو گیا۔ وہ کالم نگار کی حیثیت سے بھی نامور ہوا۔ اُس کے کالموں کے دو مجموعے ’’ناقابلِ فراموش‘‘ اور ’’سیف و قلم‘‘ کے نام سے چھپے اور برصغیر میں بہت پڑھے گئے۔ مفتون نے ان سینکڑوں کالموں میں نامور لوگوں کے کارنامے لکھے۔ اُس کے حلقہ احباب میں مسلمانوں کی کثرت تھی۔ وہ ان ہستیوں کے کارناموں سے ذاتی طور پر واقف تھا۔ اُس نے بیسیوں ایسے مسلمانوں کا ذکر کیا جو مالی طور پر نہایت آسودہ اور درمندی کے جذبے سے سرشار تھے۔ ان مسلمانوں نے سارے برصغیر میں فلاحی کاموں میں تن من دھن قربان کیا۔ یہ بڑے دیندار اور سخی لوگ تھے۔ ان لوگوں نے یتیموں کے سروں پہ ہاتھ رکھا۔ بیوائوں کی دل کھول کر مدد کی۔ بے سہاروں کا سہارا بنے۔ عذاب کا شکار لوگوں کی اشک شوئی کی۔ انہوں نے یتیم خانوں کا جال ملک بھر میں پھیلادیا۔ عورتوں کی دستکاری کے فلاحی ادارے بنائے۔ ہسپتالوں کے سنگ بنیاد رکھے۔ انہیں جدید سہولیات سے آراستہ کیا۔ اسکولوں کالجوں کی تعمیر کی جہاں سے قوم کے بچے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوئے۔ زکوٰۃ خیرات کے علاوہ بھی ان کے دروازے بے کسوں کے لیے ہر وقت کھلے رہتے۔ ایک نہایت متمول مسلمان رفیع احمد قدوائی نے اپنی زندگی میں لاکھوں بے آسرا افراد کو آسرا دیا۔ اُن کی وفات کے بعد ایک بار مفتون اُن کے آبائی گائوں سے گزرے۔ قدوائی صاحب صاحب کا گھر بے حد بوسیدہ کھنڈر کا نقشہ پیش کررہا تھا۔ یہ اُس شخص کی رہائش گاہ تھی جس کی دردمندی کے گن متعصب ہندو اور سکھ بھی گاتے تھے۔

٭ عالم اسلام میں رمضان اور عیدالفطر روحانی خوشیوں کے سفیر بن کر آتے ہیں۔ ٭ ہمارے دولت مند طبقے شہزادہ طلال کی راہ کو اپنائیں۔ اسلامی دنیا کی سرکردہ متمول ہستیاں ایک فورم بنائیں اور اپنی دولت اس نیک مقصد کے لیے وقف کریں گے تو امید ہے کہ ان کے ملکوں کی عوام ان کو اپنا راہبر چن لیں گے۔ ٭

یہ اُس عظیم انسان کا گھر تھا جس نے ملک کے طول و عرض میں ہزاروں سزائیں بنائیں۔ لنگر خانے قائم کیے۔ جو مستقل اس جستجو میں رہا کہ کن علاقوں میں مسجدیں نہیں ہیں۔ وہ اُن کے لیے زمینیں، اینٹیں، سیمنٹ، بجری، ریت، سریا مہیا کیا کرتا تھا۔ مفتون ایک جگہ لکھتا ہے کہ اُس نے ہندوستان کی سب قوموں کے ساتھ تعلقات نبھائے ہیں، وہ جتنا دولت مند دین دار مسلمانوں سے متاثر ہوا اُتنا کوئی بھی دوسری قوم اُسے متاثر نہ کرسکی۔ جب اُس نے ان عظیم لوگوں سے اتنے وسیع پیمانے پر خیر بانٹنے کی وجہ دریافت کی تو اسے جواب ملا کہ ہمارے پیغمبر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خدا سے یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ انہیں قیامت کے دن غریبوں اور مسکینوں میں سے اُٹھایا جائے۔ یوں یہ لوگ مال و دولت کے ڈھیر اکھٹے کرنے کی بجائے آخرت کے لیے ہر دم تیار رہے۔ اُن بڑی ہستیوں میں سے بہت سوں کو آج ہم نہیں جانتے۔ اُن کے کارناموں پر بھی وقت کی گہری گرد جم چکی ہے۔ اس کے باوجود اُن کی نیکی، کسی مسجد، کسی مدرسے، کسی اسکول، کسی یتیم خانے، کسی ہسپتال یا پھر پیاس بجھانے والے کسی کنویں کی صورت زندہ ہے۔ یہ نیکی حشر تک اپنی چکاچوند پھیلاتی رہے گی۔ اس پر کبھی گرہن نہیں لگے گا۔ اس پر کوئی زوال نہیں آئے گا۔ یہ صدقہ جاریہ جاری و ساری رہے گا۔

پچھلی صدی کے وسط سے دنیا کے نقشے پر کئی ملک اُبھرے۔ کئی مسلمان ملکوں نے آزادی کی گراں مایہ دولت پائی۔ کئی ملکوں کو خدا نے معدنیات کے خزانوں سے نوازا۔ آج یہ ملک نہایت خوشحال ہیں۔ کسی مسلمان ملکوں میں ہزاروں افراد ارب پتی بنے۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اُن کے نام آئے۔ دوسری طرف بیشتر مسلمان ملکوں میں امت نہایت کسمپرسی کی حالت میں زندہ ہے۔ کئی ملک وسائل کے لحاظ سے اعلیٰ ہیں تو اُن پر نہایت حریص اور بدقماش لوگ حکمران بن گئے۔ انہوں نے اپنے عوام کی زندگیاں جہنم بنادی ہیں۔ کئی ملک یہودیوں اور عیسائیوں کی سازشوں کا چارا بن گئے ہیں۔ دنیا بھر میں بکھری مسلمان اقلیتیں تلخ شب و روز گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہم آئے روز امریکا اور یورپ میں ایسی مثالیں دیکھتے ہیں کہ کھرب پتی لوگوں نے اپنی دولت معاشرے کی فلاح کے لیے وقف کردی۔ مسلم دنیا میں متمول لوگوں میں ایسی مثالیں ڈھونڈے سے بھی کم دستیاب ہوتی ہیں۔ ایسے منظرنامے میں سعودی عرب کے شہزادے ولید بن طلال نے اپنی ساری دولت جو 32 ارب ڈالرز سے زیادہ ہے، دُکھی انسانی تکے لیے وقف کردی ہے۔ یہ واقعہ دنیا بھر میں مشہور ہوا۔ ساری مسلم امت میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ رمضان المبارک میں یہ خوشخبری مسلم دنیا کے طول و عرض میں موضوع بحث آئی۔ مغرب میں ایک نہیں سینکڑوں بل گیٹس اپنی دولت سے معاشروں میں سدھار لارہے ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ سعودی عرب میں آل سعود نے مسلم امت کے لیے ہمیشہ بڑھ چڑھ کر مدد کی ہے۔ خود شہزادہ طلال اپنی دردمندی اور وسیع النظری کے لیے مشہور ہیں۔ انہوں نے اسلامی دنیا میں ہر بُرے وقت میں سب سے بڑھ چڑھ کر خدمات انجام دی ہیں۔ مسلمانوں پر جب کہیں بُرا وقت آیا وہ سب سے پہلے پہنچنے والوں میں شامل رہے۔ اس بار انہوں نے اپنی ساری دولت سسکتی ہوئی انسانیت کے لیے وقف کردی۔ ایک بڑا ٹرسٹ بنایا جائے گا جو دنیا بھر میں مدد کے مستحق افراد کی اشک شوئی کرے گا۔ یوں سعودی عرب کی زمین سے ایک اور خوشبودار ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اُٹھا اور سب کو مشکبار کرگیا۔

عالم اسلام میں رمضان اور عیدالفطر روحانی خوشیوں کے سفیر بن کر آتے ہیں۔ بدقسمتی سے مسلم امت کی بھاری اکثریت کے لیے یہ تکلیف کا باعث بن جاتے ہیں۔ رمضان میں مہنگائی اس کثرت سے وارد ہوتی ہے کہ جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ بے کس طبقے کے لیے اس مہینے کی آمد کے ساتھ عید کے اخراجات مسلسل تشویش کی وجہ بن جاتے ہیں۔ لوگ خود پر جبر کرلیتے ہیں، لیکن بچوں کی خوشیوں کو قتل ہوتا ہوا دیکھنا ایک جاں گسل سانحہ بن جاتا ہے۔ امیری اور غریبی کی تعلیم ان ایام میں اتنی وسیع ہوجاتی ہے کہ اسے پاٹنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ پاکستان جیسا ملک جس کی دو تہائی آبادی شدید غربت کا شکار ہے، اُس کے لیے ان خوشیوں کا حصول ستاروں کو چھونے کے مترادف ہوجاتا ہے۔ عید سے قبل ہمارے بازار جتنے روشن ہوتے جاتے ہیں دلوں میں اندھیرا اتن اہی بڑھتا جاتا ہے۔ اسی ملک میں ہزاروں افراد ایسے ہیں جن کی دولت شمار سے باہر ہے۔ وہ لوگ دلوں کے ان اندھیروں کو منٹوں میں دور کرسکتے ہیں۔ وہ اس ناقابل عبور خلیج کو پاٹ سکتے ہیں۔ دل کا سکون دوسروں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنے میں ہے۔ مال و دولت کو خدا کی راہ میں خرچ کرنا خوشی کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ جس نے دوسرو ںکے دُکھ درد دور کرنے میں خود بھلادیا ہے، وہ دولت کے سراب سے نکل آیا۔ جس نے اس سراب کو آبِ حیات سمجھ لیا وہ پیاسا ہی دنیا سے کوچ کرگیا۔ پیغمبروں، ولیوں، عالموں کی ساری تعلیمات اُسے نقطے پر جاکر تمام ہوئیں۔ دینی کتابو ںکا نچوڑ یہی نسخہ ہے۔ دنیا بھر میں ارسطو سے لے کر آج تک کے سارے فلاسفروں، دانائوں کی کتابوں میں بات یہیں جاکر ختم ہوئی۔ سب نے شفتہ طور پر کہا کہ دوسروں کے دکھ درد کو بانٹنا ہوگا، ایثار، ہمدردی کو ہر لحظہ دل میں جاگزیں رکھنا ہوگا۔ دوسروں کی زندگیوں میں خوشیاں لانے والا وہ عظیم روحانی مسرت پائے گا جس کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ مسلم امت کے دردناک شب و روز کے پیچھے اس بڑی سچائی کا فقدان بڑے بھیانک انداز میں دکھائی دیتا ہے۔

اسلام کی گہرائی میں جائیں تو احساس ہوتا ہے کہ خدا کے دین نے ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے ساتھ مہر و محبت کے رشتے میں باندھ رکھا ہے۔ باجماعت نماز میں یہی تعلق نظر آتا ہے۔ روزے کی بھوک و پیاس میں یہی سوز نہاں چھپا ہوا ہے۔ زکوٰۃ کے نظام میں یہی روح کارفرما نظر آتی ہے۔ کلام پاک کی سطر سطر اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے پیچھے محبت کا یہی سمندر موجزن ہے۔ اسلام کے شہری دور میں ساری امت اسی ڈوری میں بندھی ہوئی تھی۔ خلافت کا عروج ہر مسلمان کو ملکوں کی سرحدوں سے بالا اسی تعلق سے منسلک رکھتا تھا۔ مسلم دنیا کی تقسیم نے اخوت کی بنیادیں بٹھادیں۔ سرحدوں کی آہنی دیواروں نے ہمیں پہلے ہم اور تم میں بانٹا۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ ہم میں میں تبدیل ہوگیا۔ ہم سمندروں کے وہ جزیرے بن گئے جن کا ایک دوسرے کے ساتھ کوئی تعلق نہ رہا۔ آج بھی اگر ہم مل جائیں، ایک اکائی بن جائیں تو عیدالفطر جیسے تہواروں کی خوشیاں سب کو حاصل ہوجائیں گی۔ یہ ثمردار درختوں کی طرح ہرکس و ناکس کی جھولیاں بھردیں گی۔ انفرادی سطح پر ہم اپنے قرب و جوار میں مفلس و قلاش کی جتنی مدد کرسکتے ہوں کریں۔ ہمارے دولت مند طبقے شہزادہ طلال کی راہ کو اپنائیں۔ گلی، محلے، گائوں، قصبوں اور شہروں میں خیر بانٹنا شروع کردیں۔ اسلامی دنیا کی سرکردہ متمول ہستیاں ایک فورم بنائیں اور ساری محبت کے لیے خوشیوں کے راستے سجائیں۔ یہ نیک لوگ جب بین الاقوامی سطح پر خیر کو اپنائیں گے اور اپنی دولت اس نیک مقصد کے لیے وقف کریں گے تو امید ہے کہ ان کے ملکوں کی عوام ان کو اپنا راہبر چن لیں گے۔ یوں اس اندھیری بند گلی میں سے کوئی روشن شاہراہ نکل آئے گی۔ اُمت کو لالچی، حریص، بے رحم لیڈر شپ سے نجات مل جائے گی۔ امید ہے کہ اہلِ ثروت کا یہ فورم اُن ملکوں کی طرف بھی توجہ دے گا جہاں مسلمان اقلیت میں ہونے کی وجہ سے سفاک قوانین کے شکنجے میں کسے ہوئے ہیں۔ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ چین میں کروڑوں مسلمانوں کو روزہ نہ رکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ وہ اذانیں نہیں دے سکتے۔ مسجدیں آباد نہیں کرسکتے۔ ڈاڑھی رکھنے اور پردہ کرنے پر پابندی ہے۔ کروڑوں کی آبادی میں سے ایک دو ہزار افراد کو حج کی اجازت ملتی ہے۔ شہزادہ طلال جیسے اہلِ درد و دولت وہ قافلہ بنائیں جن سے دنیا بھر کے مجبور و مقہور مسلمانوں کی بھاری پلکوں پہ شب و روز ہلکے ہوجائیں۔ خوشی کو ترسی اُمت جھوم اُٹھے۔ گھر گھر چراغاں ہو اور بستی بستی خوشیاں منائی جائیں۔ عید کا دن ساری امت کے لیے ہو بہو ایک جیسی خوشیاں لے کر آئے۔

امن کا خواب
تحریر یاسر محمد خان

’’جولین اسانج‘‘ وکی لیکس کا بانی ہے۔ اُس کے مسلسل انکشافات نے دنیا بھر میں تہلکہ مچادیا۔ عالمی طاقتوں کے گھنائونے کردار سے پردہ نوچ لیا۔ وہ سب سازشیں بے نقاب ہوگئیں جنہیں بڑی طاقتوں نے پروان چڑھایا تھا۔ ناقابلِ تردید ثبوت فراہم ہوگئے کہ کس طرح عالمی امن کو تاراج کرنے کے شیطانی منصوبے بنائے گئے؟ اُن کی فنڈنگ کس طرح ہوئی؟ ایجنٹ کس طرح ہائر ہوئے؟ اور یوں ملکوں میں تباہی اور بربادی پھیلادی گئی۔ وکی لیکس کا یہ انکشاف سب سے ہولناک تھا کہ امریکا اور اُس کے اتحادی مشرق وسطیٰ میں امن کو کس طرح تاراج کرتے ہیں؟ اسرائیل کو مالی اور فوجی مدد کس طرح دی جاتی ہے؟ طاقتور عیسائی ملکوں کی ایجنسیاں کس طرح موساد کی پشت بان بنی ہوئی ہیں؟ نائن الیون کے ڈرامے پر مسلم دنیا کو کس طرح شکار کیا گیا؟ بش اور بلیئر نے یہودیوں کو ملاکر عراق کو بربادی کی طرف کیسے دھکیلا؟ افغانستان کا آگے بڑھتا سفر روک کر اُسے واپس بدامنی کی کھائی میں کیسے دھکیل دیا گیا؟

٭ شاہ سلیمان اور طیب اردگان جیسی شخصیات ملکوں میں پھیلنے والے بگاڑ کو سدھار میں بدل سکتی ہیں۔ یہ انتہائی قابل احترام ہستیاں بے پناہ اثر و رسوخ کی حامل ہیں۔ ٭

جولین اسانج نے پاکستان کی نام نہاد ’’وار آن ٹیرر‘‘ سے بھی پردہ اُٹھایا اور اس بے چہرہ جنگ سے ملک کے زوال کی پوری طرح نقشہ گری کی۔ وہ بتاتا ہے ’’عرب بہار‘‘ کی صورت گری کس طرح وئی؟ تیونس، مصر، شام، لیبیا، یمن میں عالمی طاقتوں نے کس طرح بساط پر مہرے چلے؟ تیونس میں پائیدار امن ایک خواب بن کر رہ گیا۔ مصر میں ڈاکٹر مرسی کے اقتدار میں آنے سے امریکا کی پلاننگ فیل ہوگئی۔ کس طرح جمہوری حکومت کو جبری رخصت کیا گیا۔ شام میں ہولناک قتل و غارت کس طرح سے عالمی طاقتوں کے ایما پر پروان چڑھی؟ ان سب انکشافات میں سے اہم ترین یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں صدیوں سے خوابیدہ فرقہ بندی کو کس طرح بیدار کیا جائے کہ اُس کے دیوقامت قدموں تلے سارے خطے کا امن مستقل طور پر پامال ہوجائے۔ آج دہائیوں تک پرسکون رہنے والے ملکوں میں حالات کو سازشی انداز میں کنٹرول سے باہر کیا جارہا ہے۔ یہودی میڈیا پہلے ایک عفریت بناتا ہے۔ پھر اپنا ہر جرم اُس کے سرتھوپ دیتا ہے۔ سارے کا سارا مشرق وسطیٰ ہولناک کرب سے گزر رہا ہے۔ فلسطین سے لبنان تک، لیبیا سے تیونس اور مصر تک، شام سے یمن تک ایک مسلسل عذاب اور آشوب دیکھنے میں آرہا ہے۔ افریقہ میں بھی جہاں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں، انہیں قدم قدم پر انہی ریشہ دوانیوں کا سامنا ہے۔ نائیجیریا جیسے ملک میں عیسائیوں نے انہیں اپنے ہی ملک میں اچھوت بنارکھا ہے۔ ایشیا میں فلپائن کے مسلمان اپنے تشخص کی جنگ لڑرہے ہیں۔ برما میں لاکھوں مسلمانوں کے لیے اُن کی سرزمین پر کوئی جائے امان نہیں رہی۔ افغانستان میں طالبان کی بڑی طاقت کو اقتدار کے دروازے سے باہر دھکیل کر خانہ جنگی کی فضا بنادی گئی ہے۔ افغان پارلیمنٹ پر حملے کے بعد سینکڑوں طالبان کو قتل کیا جاچکا ہے۔ یوں اس ملک میں آنے والے دنوں مزید کشت و خون ہونے کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ پاکستان کے تین صوبوں میں جنگ کی سی صورتحال درپیش ہے۔ کے پی کے میں اب نسبتاً امن ہوچکا ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کو بھارتی اسلحہ اور امداد کے ذریعے مضبوط کیا جارہا ہے۔ سندھ میں را نے نقدی اور اسلحہ کے ذریعے جو سازشیں کیں وہ بے نقاب ہوئے جارہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ترکی اور ملائیشیا جیسے ملکوں کو چھوڑ کے باقی مسلم دنیا میں امن ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔

سعودی عرب جیسے پرامن ملک میں مئی کے مہینے میں دو بڑے دہشت گردی کے واقعات ہوچکے ہیں۔بحرین میں بم بنانے کے مواد کا ایک بڑا ذخیرہ پکڑا گیا ہے۔ یہاں سے بم سعودی عرب پہنچائے جانے تھے اور وہاں بڑے پیمانے پر دہشت گردی کا ایک منصوبہ تکمیل کے مراحل میں تھا۔ یمن سے متصل سعودی عرب کی سرحد پر آرام و چین مکمل طور پر غارت ہوچکا ہے۔ دہشت گردی کی حالیہ لہر کویت سے تیونس تک پھیل گئی ہے۔26 جون کو کویت میں نماز جمعہ کے دوران خودکش دھماکہ ہوا۔ کویت جیسے پرامن ملک میں اتنے بڑے پیمانے پر دہشت گردی نے اس کی ہولناکیوں میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ دوسرے واقعے میں 26 جون کو ہی تیونس کے سیاحتی مقام سوستہ میں مسلح افراد کے ایک جھتے نے ساحل سمندر پر واقع ہوٹلوں پر حملہ کردیا۔ چن چن کر سیاحوں کو نشانہ بنایا۔ اس دہشت گردی کے بعد ہزاروں غیرملکی سیاح تیونس سے نکل گئے ہیں۔ یوں ملک کو سیاحت سے ہونے والی آمدنی پر بھاری زد لگی ہے دہشت گردی کی اس لہر کے بعد مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں حالات پہلے سے زیادہ خراب ہوگئے ہیں۔ تیونس 2010ء کے بعد سے کبھی نارمل ملک نہیں بن پایا۔ یہاں عوامی لیڈر شپ کے نہ ابھرنے سے ایک خلا پیدا ہوا جسے موقع شناسوں نے بھرنے کی کوشش کی۔ یوں داخلی بے چینی اور بدامنی نے تیونس کو مستقل طور پر ایک انتشار کا شکار ملک بنادیا۔

مصر نے حسنی مبارک کی رخصتی کے بعد ڈاکٹر مرسی کی صورت سکون و قرار کے چند ماہ دیکھے۔ ملک کی ترقی کا سفر شروع ہوگیا۔ امید کی جارہی تھی کہ مصر تمام مسلم دنیا کے سرکردہ ملکوں میں شامل ہونے جارہا ہے۔ اخوان المسلمون نے عوامی فلاح کی پالیسیاں بنائیں اور بیرون ملک بھی مصر کے امیج کو بہت بہتر بنایا۔ جنرل سیسی نے امریکی آشیرباد پر سارا دفتر لپیٹ دیا۔ مصر میں بدترین ہنگامے پھوٹ پڑے۔ ٹینکوں اور بکتربند گاڑیوں سے ڈاکٹر مرسی کے نام لیوائوں کو مارا گیا۔ مظاہروں پر اندھی فائرنگ کی گئی۔ ایک مضحکہ خیز مقدمے کے بعد مصر کے منتخب لیڈر کو پھانس کی سزا سنادی گئی ہے۔ اگر اس سزا پر عملدرآمد ہوتا ہے تو مصر میں دہائیوں تک امن ہونے کا خواب پورا نہ ہوپائے گا۔ لیبیا میں معمر قذافی کی جبری رخصتی پر استعمار کی طاقتوں نے بڑا جشن منایا۔ ملک میں داخلی انتشار اس درجہ پھیلا کہ امریکی سفارتخانہ نذر آتش اور سفیر زندہ جل گیا۔ تب سے یہ سفید فام گیدڑ سب کچھ چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ملک گروہوں میں بٹ کر سول وار لڑے جارہا ہے۔ ایک ہفتے کے امن کے بعد چار ہفتے لڑائی مار کٹائی میں گزرتے ہیں۔ لیبیا کی اکانومی جو کبھی خاصی مضبوط تھی، سخت عدم استحکام کا شکار ہوگئی ہے۔ سارا کارسرکار غارت ہوگیا ہے۔ شام میں بشار الاسد نے اپنے عوام کے خلاف خطرناک کیمیائی ہتھیار استعمال کیے۔ ملک پچھلے 3 سالوں سے جنگ کی بھٹی بنا ہوا ہے۔

اکانومی مکمل طور پر بیٹھ گئی ہے۔ عراق صدام حسین کے بعد کبھی امن نہ پاسکا۔ امریکیوں نے یہاں تفرقہ بازی کا وہ دائو چلا کہ اب عراق 3 مختلف گروہوں میں بٹ کر جنگ و جدل کا استعارہ بن گیا ہے۔ صدام کے حمایت، اُس کے مخالف اور کرد آپس میں لڑ لڑ کر ختم ہوئے جارہے ہیں۔ یمن جو علاقے کے غریب ملکوں میں شمار ہوتا تھا، غریب تر ہوچکا ہے۔ حوثی باغیوں نے یمن کی منتخب حکومت کا دفتر لپیٹ کر اسے خانہ جنگی کی طرف دھکیل دیا۔ کویت اور قطر جیسے متمول ملکوں پر بھی سارے مڈل ایسٹ میں پھیلے تاریکی کے سائے پھیلنا شروع ہوگئے ہیں۔ سعودی عرب جو سب اسلامی ملکوں کے سر کا تاج ہے، اس پر بھی دہشت گردی کا عفریت حملہ آور ہوگیا ہے۔ یوں ہم دیکھتے ہیں کہ آج کا مشرق وسطیٰ شدید ترین بدامنی کا شکار ہے۔

ایسی صورتحال میں ساری اسلامی دنیا کو اپنا سرگرم رول ادا کرنا چاہیے۔ سعودی عرب کے شہادے ولید بن طلال نے اپنی ساری دولت جو 32 ارب ڈالرز بنتے ہیں، انسانی فلاح کے لیے مختص کردی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایک ایسی دنیا تخلیق کی جائے جس کی بنیاد رواداری ہو، باہمی مناشقت نہ ہو۔ اسلامی دنیا میں ایسے افراد کی کوئی کمی نہیں جن کو خدا نے بے انتہا نواز رکھا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے بیشتر ملکوں کے حکمران اور سرکردہ لیڈر نہایت متمول لوگ ہیں۔ کئی شخصیات کے پاس اس قدر مال و دولت ہے کہ قارون کے خزانوں کی یادتازہ ہوجاتی ہے یا الف لیلوی کہانیوں کے امیر ترین کردار ذہن میں گھومنے لگتے ہیں۔ ان سب کو گہری دردمندی سے مسلم امت کے زخموں پر مرہم لگانا چاہیے۔ جہاں جہاں مسلمان بدحال ہیں ان کی مدد کو پہنچنا چاہیے۔ بے روزگار، غریب اور قلاش مسلمان دہشت گردوں کے گروہوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ اُن کو واپس لانے کے لیے منصوبہ بندی کی جاسکتی ہے۔ اسلامی دنیا کی ایک بڑی انٹیلی جنس ایجنسی بنائی جاسکتی ہے جو امریکا، اسرائیل اور بھارت کے واروں کا توڑ کرسکے۔ شاہ سلیمان اور طیب اردگان جیسی شخصیات ملکوں میں پھیلنے والے بگاڑ کو سدھار میں بدل سکتی ہیں۔ یہ انتہائی قابل احترام ہستیاں بے پناہ اثر و رسوخ کی حامل ہیں۔ یہ سب سے پہلے مشرق وسطیٰ میں خلفشار کا شکار ملکوں میں عوامی تائید کی حامل لیڈر شپ لائیں۔ فرقہ پرستی کو پروان چڑھانے والی طاقتوں کو ایکسپوز کریں۔ عیسائیوں اور یہودیوں کا اثرو رسوخ ان ملکوں میں کم کیا جائے۔ ان ملکوں میں امن و قرار کی فضا قائم ہو۔ بندوق پستول کی جگہ ہل اور بیج لے لیں۔ تعلیم و روزگار کا جام پہیہ آگے کی طرف رواں دواں ہو۔ عبادت گاہیں صحیح معنوں میں نور بانٹنے کے مراکز ہوں۔ سعودی عرب اور ترکی کی عالمی طاقتوں کو دو ٹوک الفاظ میں بتادیں کہ جب تک وہ مسلمانوں پر ظلم کرتے رہیں گے، اسرائیل کی پیٹھ تھپکتے رہیں گے، دہشت گردی کبھی ختم نہیں ہوپائے گی۔ فلسطین کا مسئلہ مشرق وسطیٰ کے سارے مسائل کی ماں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جن مسلمان ملکوں میں بھلا جمہوریت نہیں ہے، معاشی رفتار تیز ہے۔ لوگوں کا معیار زندگی بلند ہے۔ غربت اور بے روزگاری نہیں ہے۔ اُن ملکوں میں امن و امان بہت بہتر ہے۔ بعض جمہوری مسلمان ملکوں میں غربت و افلاس کی چڑیل نے بے انتہا بچے جن رکھے ہیں۔ جن معاشروں میں بے انصافی ہے، حکومتیں امریکی آشیربادوں پر قائم ہیں۔ ملک کی باری اکثریت کی نمایندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہاں مصر اور افغانستان کی طرح قیام امن ناممکن ہوگیا ہے۔

ایٹمی پاکستان بھی مشرق وسطیٰ میں امن کے خواب میں حقیقت کا رنگ بھرسکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاسی لیڈر وہ ہیں جو ترکی کی خاتون اول کا ہار چرالیتے ہیں۔ سیلاب زدگان کی مدد کے لیے آنے والا یہ تحفہ بھی اچک کر لے جاتے ہیں۔ ایسے بے مہر لیڈروں سے ساری مسلم امت کی خیرخواہی کی امید کیسے رکھی جائے؟ جنہوں نے اہل پاکستان کے کاندھوں پر دکھوں اور تکلیفوں کا بھاری پشتارہ لاد دیا ہے۔ ہمارے آرمی چیف نے کے پی کے میں امن قائم کیا ہے۔ دہشت گردی میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ کراچی کے معاملات سدھار کی طرف رواں دواں ہیں۔ بلوچستان میں را کی کارروائیوں کے آگے فولادی رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں۔ آرمی چیف کو مشرق وسطیٰ میں بہتے خون مسلم کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ جوہری ہتھیاروں کی وجہ سے پاکستان ساری اسلامی دنیا میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کی فوج ساری مسلم دنیا میں سب سے زیادہ تربیت یافتہ ہے۔ یہ دشمنوں کی سازشوں کا توڑ کرنا جانتی ہے۔ اگر ہمارے بہترین فوجی دماغ اپنی توانائیوں کا تھوڑا سا ذخیرہ مشرق وسطیٰ کے لیے وقف کردیں تو وہاں سے ساری طاغوتی سازشوں کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ ورق ورق بکھری ہوئی امت کی مضبوط شیرازہ بندی ہوسکتی ہے۔ صحرائوں کی ریت سے دوبارہ لالۂ صحرا پیدا ہوسکتے ہیں۔

کراچی پر قیامت کے سائے
تحریر یاسر محمد خان

’’ڈس کام‘‘ (DISCOM) دہلی شہر کو بجلی سپلائی کرنے والی ایک بین الاقوامی کمپنی ہے۔ اسے کانگریس دور میں ٹھیکہ دیا گیا۔ بی جے پی نے آکر معاہدے کی توثیق کردی۔ یہ کمپنی پچھلے 3 سالوں میں شہر کی صنعتوں، دفتروں، دکانوں اور گھروں کو بجلی فراہم کررہی ہے۔ کمپنی کی بدانتظامی کے باعث شہر میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھنے لگا۔ موسم گرما میں عوام بجلی کی بندش سے بے حال ہونے لگے۔ قیامت کی گرمی میں یہ عذاب ناقابل برداشت حد تک بڑھ گیا اور بالا دست طبقہ جنریٹروں سے اس مسئلے کا حل نکال لیتا تھا۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے ممبروں کے گھروں کو بجلی کی فراہمی منقطع نہ ہوتی تھی۔ اسمبلیاں اس انتہائی سنجیدہ مسئلے کو چٹکلوں اور لطیفوں میں اُڑا دیتی تھیں۔ ڈس کام کے خلاف احتجاج 2013ء میں سنگین نوعیت اختیار کرگیا۔ اُس برس دہلی شہر میں درجہ حرارت جون کے مہینے میں مستقل 47، 48 رہا۔ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے سرکاری طور پر پانی کی ترسیل میں فراہمی سخت متاثر ہوئی۔ گرمی، حبس، پسینہ، مچھر کے ستائے لوگ سڑکوں پہ نکل آئے۔ انہوں نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا۔ ڈس کام کے دفتر میں گھس کر انہیں تباہ کردیا۔ لوک سبھا کے سامنے پہنچنے سے پہلے پولیس نے سخت لاٹھی چارج کیا۔ ربڑ کی گولیاں برسائیں۔ ہجوم تتربتر ہوگیا۔ حکومت نے ڈس کام کو مسئلہ حل کرنے کی تاکید کی۔ چند روز کے لیے بجلی کی فراہمی میں کوئی تعطل نہ ہوا۔ پھر معاملات واپس اپنی ڈگر پہ آگئے اور عوام کی زندگیاں دوبارہ جہنم بنادی گئیں۔ ڈس کام دوبارہ ڈس کمفرٹ بن گئی۔

2014ء کے اپریل میں بھارتی جنتا پارٹی نے مرکز اور متعدد صوبوں میں الیکشن جیت لیا۔ اُس کے بعد صوبہ دہلی کے لیے انتخابات ہوئے۔ بی جے پی کو واثق امید تھی کہ وہ دہلی میں کلین سوئپ کرجائے گی۔ عام آدمی پارٹی نے اُس کے ہاتھوں سے فتح کا پرچم چھین لیا اور صوبہ دہلی کے تمام انتظامی امور اپنے ہاتھوں میں لے لی۔ ماہرین کے لیے یہ نتیجہ حیرت انگیز تھا۔ جب حقائق کی چھان بین کی گئی تو معلوم ہوا کہ دونوں پارٹیوں میں بجلی کا فرق تھا۔ بی جے پی نے بجلی کی مسلسل سپلائی کو اپنی کیمپین میں کوئی خاص جگہ نہ دی۔ عآپ نے سارے الیکشن میں بجلی کی لوڈشیدنگ کے مکمل خاتمے کو سب سے زیادہ اہمیت دی۔ عام آدمی پارٹی نے پاور میں آنے کے بعد ڈس کام کی اعلیٰ انتظامیہ کو اپنے مرکزی دفتر میں بلایا۔ معاہدے کی ہر شق کی مکمل جانچ پڑتال ہوئی۔ لوڈشیڈنگ پر بازپرس ہوئی۔ ڈس کام نے دوبارہ یقین دلایا کہ بجلی کی ترسیل میں کوئی وقفہ نہیں ہوگا۔ عام آدمی پارٹی نے معاہدے میں ایک نئی شق ڈلوائی جس کی رو سے جس بھی صارف کو ایک گھنٹے کی لوڈشیڈنگ سہنا پڑے گی، ڈس کام اسے 70 روپے فی گھنٹہ ہرجانہ دے گی۔ یہ رقم بجلی کے بلوں سے کاٹ لی جائے گی۔ ڈس کام نے بہت ہاتھ پائوں مارے، کانگریس اور بی جے پی میں اپنے خیرخواہوں کو پکارا۔ بیوروکریسی کے بابوئوں پر زور دیا کہ وہ عآپ کو اس قانون کے نفاذ سے روکیں۔ سب کوششیں بے ثم ہوگئیں۔ نیا قانون منظور ہوگیا اور ڈس کام کے سر پہ تلوار لٹکادی گئی۔ انجام کار اس کمپنی کے بیرون ملک دفتروں سے بہترین عملہ دہلی ٹرانفسر ہونے لگا۔ ساری انتظامیہ نہایت فعال اور منجھے ہوئے کارکنوں کے ہاتھ آگئی۔ یوں دہلی شہر میں اعلانیہ اور غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ ختم ہوگئی۔ اس سال کے موسم گرما میں جس بھی علاقے میں بجلی کی سپلائی ایک گھنٹے یا اُس سے زائد وقت کے لیے معطل ہوئی، اُس ساری آبادی کے مکینوں کو ڈس کام نے جرمانہ ادا کیا۔ اُن کے بلوں سے جرمانہ کاٹ کر بل جاری کیے گئے۔ عاپ نے دہلی کی ہر آبادی میں ایک دفتر بجلی کے معاملات کے لیے قائم کیا ہے، چونکہ سرکاری پانی کی فراہمی بجلی سے وابستہ ہے، اس لیے پانی کی کمی کا مسئلہ بھی حل کرلیا گیا ہے۔ عآپ محکمہ موسمیات، ڈس کام اور دوسرے اداروں سے مسلسل رابطے میں رہتی ہے۔ کسی بھی ناگہانی آف کی پیش بندی کے لیے ایک جاندار میکنزم بنادیا گیا ہے۔ یوں چند مہینوں میں دہلی شہر میں وافر بجلی مہیا ہے۔ پانی ہر خاص و عام کو مل رہا ہے۔ صفائی ستھرائی کا انتظام نہایت اعلیٰ بنادیا گیا ہے۔ محکمہ موسمیات کی پیشین گوئیوں کی روشنی میں مربوط پالیسی کے تحت چلاجارہا ہے۔ بجلی کی سپلائی دیکھ کر نئے میٹر ایشو کیے جارہے ہیں۔ ڈس کام سخت تادیبی کارروائی کے ڈر سے اعلیٰ معیار کے مطابق اپنے معاملات چلارہی ہے۔ یوں سیاسی دیانت داری اور فعال پیشہ وارانہ ذمہ داری نے بھارت کے کثیر آبادی والے شہر کی تقدیر بدل دی ہے۔ لیڈر شپ، وژن، محنت اور دیانت کے اشتراک نے ایک کرشمے کو جنم دے دیا ہے۔

20 جون کراچی کی تاریخ کے گرم ترین دنوں میں سے ایک تھا۔ گرمی کی یہ خوفناک لہر اگلے کئی دنوں پر محیط ہوگئی۔ درجہ حرات جو سائے میں لیا جاتا ہے، 45 سے اوپر چلاگیا۔ ڈھائی کروڑ آبادی والے شہر میں شدید حبس نے درجہ حرارت کو 50 تک جاپہنچایا۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ نے بھی تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ متعدد علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا جن بوتل میں واپس نہ جاپایا۔ بجلی کی معطلی نے شہر میں پانی کا شدید بحران پیدا کردیا۔ رمضان کے ابتدائی دنوں میں ہی اس قلت نے قیامت برپا کردی۔ آسمانوں سے آگ برستی رہی۔ گلی کوچوں میں لو چلتی رہی۔ پنکھے بند ہوگئے۔ سحر و افطار میں پانی نایاب ہوگیا۔ صوبائی حکومت نااہلی کے بدترین ریکارڈ بنانے لگی۔ کے الیکٹرک کا نظام دھڑام سے نیچے آگر اور دھڑا دھڑ اموات ہونا شروع ہوگئیں۔ جناح ہسپتال، عباسی شہید، سول، لیاری اور کے پی ٹی ہسپتال میں بجلی کے تعطل کے سبب بے ہوش افراد کو ابتدائی طبی امداد بھی نہ دی جاسکیں۔ کئی ہسپتالوں میں جنریٹر نہ ہونے کے سبب بے بس عوام نے شدید عذاب سہا۔ سنسنا سڑکوں پہ ایمبولینسوں کے ہوٹر بجتے رہے۔ لوگ سوزکی گاڑیوں میں بے ہوش افراد کو ہسپتالوں میں لاتے رہے۔ سرد خانوں میں لاشیں رکھنے کی استطاعت ختم ہوگئی۔ برف کے بلاک میسر نہ آسکے۔ غیرمعمولی تعداد میں تدفین نے ایک نئے بحران کو جنم دے دیا۔ قبر کی قیمت 50 ہزار روپے تک پہنچ گئی۔ گورکن کئی شفٹوں میں کام کرنا شروع ہوگئے۔ شہر بھر میں جگہ جگہ مظاہرے اور توڑ پھوڑ شروع ہوگئی۔ روزہ داری افطاری کے لیے بوند بوند پانی کو ترسنے لگے۔ ہسپتالوں اور قبرستانوں کے درمیانی فاصلے سمٹ گئے۔ کراچی شہر میں حکومت نام کی چیز ڈھونڈنے پر بھی دستیاب نہ ہوئی۔ 3 روز میں کراچی شہر میں ایک ہزار سے زیادہ افراد کی اموات ہوئیں۔ اندرون سندھ حالات مزید ابتر رہے۔ وہاں بھی کثیر تعداد میں ہلاکتیں ریکارڈ کی گئیں۔ کراچی میں غیرمعمولی حالات کی وجہ سے فوج کو طلب کرنا پڑا۔ فوج نے 22 ریسکیو مراکز قائم کیے اور جان بچانے والی کم یاب ادویات کو فراہم کیا۔ ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ کی سب سے سفاک منظر کشی ان ایام میں کراچی کی عوام نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لی۔

اس المناک انسانی المیہ کو شروع ہوئے کئی روز ہوچکے ہیں۔ ملک کا سب سے بڑا شہر خون کے آنسو رو رہا ہے۔ کسی ترقی یافتہ ملک میں یہ ایک ہولناک واقعہ قرار پاتا تو حکومتیں ایمرجنسی لگاتیں اور جنگی بنیادوں پر بگاڑ کو ٹھیک کیا جاتا۔ سات آٹھ روز بعد بھی یہ سطریں لکھتے وقت شہر میں بجلی کے بحران پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ کے الیکٹرک کے سارے دعوے آتشیں سورج کے سامنے موم کی طرح پگھل گئے ہیں۔ اگر شہر کے 1400 فیڈرز میں سے 1380 فعال ہیں تو شہر تاریکیوں کی جاگیر کیوں بنا ہوا ہے؟ دن کے اوقات میں پنکھے کیوں ٹھنڈے پڑے ہوئے ہیں؟ اگر واٹر بورڈ کی تنصیبات لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ ہیں تو شہری پانی کے لیے کیوں جان بلب ہورہے ہیں؟ اگر سندھ حکومت نے 3 ہزار ٹینکرز پانی روزانہ مفت فراہم کرنے کا قدم اُٹھایا ہوا ہے تو شہر میں 1200 سے زیادہ ٹینکرز نظر کیوں نہیں آرہے؟ دعویٰ یہ کیا گیا تھا کہ شہر کے ہر چوک پر پانی کا ایک ٹینکر کھڑا نظر آئے گا۔ پانی تو میسر نہ آسکا البتہ ہر گلی محلے نکڑ میں سراب ضرور دکھائی دے رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ کا یہ کہنا: ’’ہر کسی کے دور میں ایسے سانحے ہوتے رہے ہیں، یہ کوئی نئی بات نہیں‘‘ زخموں پر نمک پاشی کے علاوہ کچھ نہیں۔ وفاق جس کے پاس کے الیکٹرک کے 26 فیصد حصص ہیں، تمام ذمہ داری صوبائی حکومت پر ڈال کر ایک طرف ہوگئی ہے۔ وفاقی وزیر اور وزیر مملکت کے بیانات میں 180 درجے کا فاصلہ ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نام کا ایک ادارہ ہم نے اربوں روپے صرف کرکے بنا رکھا ہے۔ اُس کی طرف سے اس دردناک انسانی المیے کو کم کرنے کے لیے کوئی بھی کارروائی دیکھنے میں نہ آئی۔ محلوں میں رہنے والے اور ایرکنڈیشنوں کے مزے لوٹنے والوں کے لیے یہ سانحہ بیانات دینے کا ایک موقع لے آیا۔ محکمہ موسمیات والے خطرے کی وارننگ دے چکے تھے۔ کراچی اور سندھ میں موسم کی شدت کے بارے میں پیشینگوئیاں کی جاچکی تھیں۔ پھر بھی اس بدنصیب شہر کی گلیوں، بازاروں، سڑکوں، چوکوں، ہسپتالوں اور قبرستانوں میں ہماری طرف حکمرانی کے پھریرے اُڑ رہے ہیں۔ رمضان کے مہینے میں بھی پتھر دل حکمرانوں کے دل نہیں پگھلے۔ تھرپارکر اور کراچی دونوں جگہ سندھ حکومت نے مساوات کا بول بالا کردیا۔ اب کوئی نہیں کہہ سکتا کہ تھر کے باسیوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہورہا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں لو لگنے، تیز بخار، قے، ڈایریا، گیسٹرو اور ڈی ہائیڈریشن کے مریضوں کے لیے علاج اور ادویات کا کال پڑا ہوا ہے۔

غریب لوگوں کی بنیادی خوراک پر جی ایس ٹی لگاکر ٹیکس اکھٹا کرنے والی حکومت خدارا ان کے کڑے وقتوں میں اُن کی بھرپور مدد کو آئے۔

کے الیکٹرک کے سارے نظام کو مانیٹر کیا جائے۔ اگر یہ ڈھائی کروڑ آبادی والے شہر کو بلاتعطل بجلی فراہم نہیں کرسکتی۔ ایمرجنسی صورتحال سے نپٹنے کا کوئی میکنزم اس کے پاس نہیں ہے تو اس کا معاہدہ منسوخ کرکے کڑی جانچ پڑتال کے بعد کسی بے داغ بین الاقوامی کمپنی کو ٹھیکہ دیا جاسکتا ہے۔ واٹر بورڈ سے کالی بھیڑوں کو گوشمالی ہو اور سارے شہر کو پینے کا صاف پانی میسر کیا جائے۔ عوام کا پانی بلیک میں فروکت کرنے والوں کی کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ عالمی ماہرین موسمیات وارننگ دے رہے ہیں کہ گلوبل وارمنگ بڑھے گی اور ہر سال جون کا مہینہ سخت سے سخت تر ہوتا جائے گا، اس لیے ایک ایسا مربوط نظام بنایا جائے کہ سخت گرمی کے ایام میں بجلی اور پانی وافر میسر رہے۔ ہسپتالوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ مریضوں کو علاج اور ادویات فراہم کرسکیں۔ کراچی میں آبادی کی اتنی کثرت سے بڑھنا الارمنگ سچویشن ہے۔ حکومتیں چھوٹے شہروں کو معاش، روزگار، علاج، تعلیم کی سہولتیں دے تاکہ دیہات اور چھوٹے شہروں اور قصبوں سے لوگوں کا بڑے شہروں کا رُخ کرنے کا راستہ روکا جاسکے۔ مکانوں کے طرزِ تعمیر میں انہیں ہوادار بنانے اور ناگہانی سے نپٹنے کے لیے پیش بندیاں کی جائیں۔

درست ہے کہ دنیا بھر میں بڑے شہر ہیں، لیکن وہاں ہمیں پلاننگ نظر آتی ہے۔ آبادی کی تمام ضروریات پورا کرنے کے لیے ایک جامع پالیسی دکھائی دیتی ہے۔ کراچی نہایت ہی غریب پرور شہر ہے۔ اس کی اہمیت ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی سی ہے۔ اس بحران سے ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اس شہر کے لیے بجلی، پانی، خوراک، ادویات کس درجہ ضروری ہیں۔ ہم بدقسمتی سے بحرانوں سے سبق سیکھنے والی قوم نہیں بن پائے۔ ہماری لیڈر شپ دیہاڑی دار مفاد پرستوں کے ہاتھ ہے جو ایک بحران سے دوسرے بحران کے درمیان بدمستی کے نئے ریکارڈ بناتی ہے۔ قوم کی آیندہ نسلوں کی بجائے یہ اپنی نسلوں کے مستقبل سے سروکار رکھتی ہے۔