دنیا میں ترقی و خوشحالی کا پہلا اور بنیادی نکتہ امن ہے۔ دنیا کی تاریخ کامطالعہ کر لیجیے۔ تمام ترقی یافتہ قوموں کا ماضی کھنگال لیجیے اور دنیا کی تمام پسماندہ، مفلوک الحال اور مسائل زدہ سلطنتوں، مملکتوں اور خطوں کی روداد ملاحظہ کرلیجیے۔ یہ جان کر حیرت ہوگی دنیا کے جس جس خطے میں امن رہا، جہاں دنگافساد، لڑائی جھگڑے، قتل وغارت گری اور جنگیں نہیں ہوئی، وہ تمام علاقے آج ترقی کی معراج پر ہیں اور جن جن علاقوں میں جنگجوئوں کے تربیتی کیمپ رہے، پناہ گاہیں رہیں، پشت پناہی جاری رہی، انتشار و افتراق اور نفرتوں کے سرکنڈے سر اٹھاتے رہے وہ قومیں تب بھی زوال پذیر تھی اور وہ عوام آج بھی پستی کا شکار ہیں۔
مثال کے طور پر اس سلسلے میں دبئی کو ہی لے لیجیے۔ یہ دوبئی آج سے تیس چالیس سال پہلے کیا تھا ایک صحرا، ایک ریگستان، مگر یہ آج کیا ہے؟ یہ آج سونے کی چڑیا ہے۔ دنیا میں بننے والی کوئی پروڈکٹ مارکیٹ میں بعد میں آتی ہے، یہ دبئی پہلے پہنچ جاتی ہے۔ دنیا کے تمام بڑے بڑے امرائ، تمام بڑے بڑے تاجروں، تمام بڑے بڑے صنعت کاروں، تمام بڑے بڑے سیاستدانوں کا قبلہ و کعبہ اب دبئی بن چکا ہے، کیوں؟ اس لیے کہ وہاں دنیا جہاں کی تمام آسائشیں میسر ہیں۔
قوم و مذہب اور رنگ و نسل سے بالاتر ہو کر دبئی میں ہر شخص کو تحفظ، انصاف اور حقوق حاصل ہیں اور یہ سب امن کی بدولت ہے۔ جہاں سالہا سال کوئی بڑا واقعہ رونما نہیں ہوتا۔ اگر ہو بھی جائے تو ہفتہ دس دن میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا ہے۔
انسان نے ہمیشہ اس اس جگہ میں رہائش کا انتخاب کیا جہاں پانی وافر مقدار میں تھا۔ انسان اور پانی کا یہ تعلق ایسے ہی نہیں، پانی بہتا ہے تو اپنی روانی برقرار رکھتا ہے۔ اپنی سطح ہموار رکھتا ہے، مدوجزر میں طوفان بن جاتا ہے اور طوفان سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے۔ یعنی پانی اگر پرامن ہو تو زرخیزی، شادابی لاتا ہے اور اگر فسادی ہوائوں کا شکار ہو جائے تو بڑے بڑے سونامی اور قطرینہ تباہی و بربادی کی ہولناک داستانیں رقم کر جاتے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ انسان کو پانی کی طرح ہموار اور رواں رہنا چاہئے۔ جب انسان پرامن رہتا ہے تو خوشحالی بذات خود اس کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے وگرنہ لڑائی جھگڑے اور فسادی گھر میں کون داخل ہوتا ہے۔
تازہ ترین حقائق ملاحظہ کرلیجیے۔ ملک شام ہی کی مثال لے لیجیے۔ شام میں اس وقت افراتفری، انتشار اور جنگ ہو رہی ہے۔ شام کے اپنے ہی عوام دو بڑے گروہوں میں بٹے ہیں۔ ایک وہ جو شامی حکومت کے ساتھ ہیں۔ دوسرے وہ جو حکومت مخالفت میں پیش پیش ہیں۔ ان دونوں کے اپنے جھگڑے نے دوسری قوتوں کو بھی مداخلت کا موقع فراہم کردیا۔ اب ایک جانب داعش کے جنگجو شامی حکومت کے خلاف کارروائیوں میں مصروف عمل ہیں تو دوسری جانب روس طرز کے دوست ان داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کررہے ہیں۔ یعنی گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔اپنے ہی فساد نے اسے ملکوں کی جنگ میں دھکیل دیا۔ اب حالات کیا ہیں؟ ایک جانب روسی اور شامی طیارے جنگجوئوں پر بمباری کر رہے ہیں۔ دوسری جانب داعش اور ان کے حامی برسرپیکار ہیں تو ان دونوں کی لڑائی میں مارے بیچارے عوام جا رہے ہیں۔
دیکھ لیں چند دن پہلے جنگی طیاروں نے کمونہ کیمپ پر حملہ کیا اور اس حملے میں 30 سے زائد شامی شہری جاں بحق ہو گئے۔ یہ مہاجروں کا کیمپ تھا جس میں شامی شہری پناہ لیے ہوئے تھے اور یہ کیمپ ترکی کی سرحد سے صرف 10 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ یہ معصوم لوگ نفرتوں کی اس آگ کا نشانہ بن گئے۔ آگے بڑھیں اسی بمباری میں ایم ایس ایف کے ایک ہسپتال کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ ایم ایس ایف شام میں ڈیڑھ سو سے زائد ہسپتالوں کی معاونت کرتی ہے۔ اس کے ایک ہسپتال پر راکٹ داغے گئے۔ یہاں 30 بیڈ، آپریشن تھیڑ، ایک او پی ڈی اور ایک ایمرجنسی روم تباہ ہوگئے اور اس حملے میں بھی درجنوں مریض بارود کا دھواں بن کر تحلیل ہو گئے۔ دنیاکے تمام جنگی اصولوں میں یہ طے ہے کہ حالات چاہے کیسے بھی ہوں، پناہ گزین کیمپوں، ہسپتالوں، جیلوں، مذہبی عبادت گاہوں اور کمیونٹی سنٹروںپر حملہ نہیں کیا جائے گا، لیکن شام میں یہ سب ہورہا ہے۔
اب تک شام کے اڑھائی لاکھ لوگ گھر بار چھوڑ کر کیمپوں میں پناہ گزین ہیں یا کھلے آسمان تلے زندگی بسر کر رہے ہیں، حالانکہ شام کے ساتھ ترکی، لبنان، عراق اور اسرائیل کی سرحدیں ملتی ہیں، مگر کوئی ملک ان پناہ گزینوں کو پناہ دینے کے لیے تیار نہیں۔
شہروں میں خانہ جنگی کا عالم ہے۔ خوف کے سائے ہیں۔ زندگی کی تمام رونقیں ماند پڑی ہیں اور ہر طرح کا کاروبار مندی کا شکار ہے۔پڑھے لکھے لوگ، آفیسر طبقہ اور ملازمت پیشہ لوگ نوکریوں کو دائو پر لگاکر زندگی کی پناہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ اندازہ لگائیں پچھلے چار پانچ برسوں کی اس جنگ، اس افراتفری اور انتشار سے شام میں غربت کے پچھلے 20 سالوں کی نسبت بڑھ کر 80 فیصد تک دراز ہو چکے ہیں۔ مطلب یہ کہ شام کے 80 فیصد لوگ غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ 2010ء سے 2015ء تک شام کی معیشت کو اندازاً 250 بلین ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچا۔ 30 لاکھ لوگ ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 2011ء میں بے روزگاری کی جو شرح 14.9 فیصد تھی، وہ اب بڑھ کر 61.7 فیصد تک پہنچ گئی۔30 فیصد آبادی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہوگئی۔ 40 لاکھ نفوس نے بھاگ کر دوسرے ممالک میں جائے پناہ لے لی۔ قریباً 15 لاکھ کاروباری حضرات اپنا کاروبار بند کر کے دوسرے ممالک چلے گئے اور مہاجری
ن کی تعداد 70لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جو فلسطین کے بعد دنیا کے سب سے زیادہ مہاجرین کی تعداد ہے۔ ان پانچ سالوں میں 50.8فیصد بچے اسکول جانے سے قاصر رہے اور اس دنگے فساد اور جنگ میں اب تک جان کی بازی ہارنے والوں کی تعداد 3 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ قریباً 8 لاکھ 40 شامی شہری زخمی ہوئے اور یہ سلسلہ رکا نہیں ابھی جاری ہے۔ شام تیزی سے زوال کا شکار ہے۔ جہاں زندگی مہنگی اور موت سستی ہو چکی ہے۔
عام تاثر یہی پھیل رہا ہے اگر یہ جنگ رکی نہیں تو شام کے 3کروڑ باسی دنیا کی بے حسی کی نذر ہو جائیں گے، مگر اس بڑے المیہ اور انسانوں کے قتل عام کے باوجود دنیا میں انسانی حقوق کے دعویدار، دنیا بھر کی محافظ سمجھے جانے والی اقوام متحدہ اور بڑے بڑے ممالک خاموش ہیں یا پھراس فساد میں حصہ دار۔ امریکا، سعودی عرب، ایران اور روس اپنے اپنے مفادات کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں اور عراقی ہوں، افغانی ہوں، لبنانی ہوں، فلسطینی ہوں، کشمیری ہوں یا شامی شہری یہ سب ان ممالک کے مفادات کا ایندھن ثابت ہو رہے ہیں۔ کاش! انسانیت کے تحفظ کے نام نہاد ادارے اور ممالک اپنے مفادات سے ذرا اوپر اٹھ کر انسانوں کے اس قتل عام پر توجہ دے دیں اور دنیا کو تباہی کی طرف لے جانے کی بجائے امن کا علم بلند کریں۔ دنیا کے ٹھیکیدار ممالک جس آگ کو شام، عراق، افغانستان، لبنان، فلسطین اور کشمیر میں ہوا دے رہے ہیں۔ یہ آگ جس طرح ان ممالک کو راکھ کر رہی ہے، ان کی معیشت کو تباہ کر رہی ہے، ان کی خوشحالی اور ترقی کو نگل رہی ہے، اگر یہ سلسلہ رُکا نہیں تو وہ دن زیادہ دور نہیں جب دنیا کے یہ بڑے بڑے ممالک بھی اس آگ میں بھسم ہو جائیں گے۔ قدرت کا یہ اصول طے ہے جو بویا جائے گا وہی کاٹا بھی جائے گا۔ نفرتوں کے بیج بو کر محبتوں کی فصل نہیں کاٹی جا سکتی۔ دہشت، خوف، افراتفری، فساد اور جنگ کاشت کر کے امن کی فصل کاٹنا ناممکن ہے۔