’’مائیکل مونتین‘‘ 1533ء میں پیدا ہوا۔ اُس نے بچپن میں لاطینی زبان سیکھی۔ یونانی و رومن ادب اور فلسفے کا گہرا مطالعہ کیا۔ اُسے شاہی خاندان کی قربت حاصل ہوئی۔ فرانسیسی بادشاہ نے اُسے دنیا کے کئی حصوں میں سفارت اور سیاحت کے لیے بھیجا۔ 38 برس کی عمر میں اُس نے ریٹائرمنٹ اختیار کرلی اور فرانس کے ایک دور افتادہ قصبے میں اپنا گھر بنالیا۔ یہ گھر ایک اونچی پہاڑی پر واقع تھا۔ یہاں اُس نے اپنے لیے ایک دارالمطالعہ بنایا۔ جہاں وہ اپنے شب و روز گزارتا تھا۔ اُسے دوبار قصبے کا میئر بنایا گیا۔ اُس نے بادل نخواستہ یہ ذمہ داری نباہی۔ نئے فرانسیسی بادشاہ نے اُسے دربار میں ایک اعلیٰ پوسٹ دی تو اُس نے خرابی صحت کا بہانہ بنایا اور گوشہ نشین ہوگیا۔ سولہویں صدی کی آخری دہائیوں میں فرانس کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عیسائیوں کے لیے ایک میدان جنگ بن گیا۔ بہت بڑے پیمانے پر کشت و خون ہوا۔ مونتین طبعاً نہایت حساس اور رحم دل واقع ہوا تھا، اُس پر انسانی سربریت اور بے رحمی کا بہت اَثر ہوا۔ اُس کے بے مثال ذہن نے انسانی گراوٹ پر بہت غور و غوض کیا۔ 1580ء میں اُس نے اپنے شہرئہ آفاق ایسے Essays لکھنا شروع کیے اگلے دو سالوں میں اس نادر کتاب کے دو حصے شائع ہوئے۔ 1585ء میں اس کا تیسرا حصہ شائع ہوا۔ 1592 ء تک مونتین برابر ان مضامین کی کانٹ چھانٹ کرتا رہا۔ اُس نے اپنے مطالعے، غور و فکر اور وجدانی بصیرت سے اُن کو شاہکار بنادیا۔
دنیا کی ادبی تاریخ میں ایسا شاید ہی کبھی ہوا ہو کہ ایک رائٹر نے ایک صنف ادب شروع کی اور وہی اُس کا خاتم قرار پاجائے۔ اپنی وفات کے سوا چار سو سال بعد بھی یہ مضامین دنیا بھر میں پڑھے جارہے ہیں۔ ہزاروں لوگوں نے اُس کو کاپی کرنے کی کوشش کی۔ کوئی کامیاب نہ ہوسکا۔ انگریز لکھاریوں کی ساری کدوکاوش اُس حیرت انگیز آدمی سے کوسوں پیچھے رہ گئی۔ مونتین نے انسانی زندگی کے ہر پہلو پر مضامین لکھے۔ اُس کی تحریریں ہر طرح کے تعصب سے آزاد تھیں۔ اُس نے ترک خلافت کے سنہری دور میں استنبول کا دورہ کیا اور ترکوں کی انسانیت، اُن کی اعلیٰ ظرفی اور بے مثال طرزِ معاشرت سے بہت متاثر ہوا۔ وہ لکھتا ہے کہ ترکوں نے اپنی سلطنت میں ہر دس میل کے فاصلے پر ایک ہسپتال بنا رکھا ہے، جو اُس دور میں جدید ترین کہا جاسکتا تھا۔ صاف ستھرے بستر، مہربان اور خلیق طبیب، بہترین یونانی ادویات بغیر کسی خرچ کے دستیاب تھیں۔ اسلامی خلافت کے زیر سایہ قدیم یونان کے حکیموں جالینوس اور بقراط، بہترین عرب طبیبوں ابن سینا اور ابن الہیثم کی تحقیق کو آگے بڑھانے کے لیے طبی ادارے قائم تھے جو اُن پر ریسرچ کررہے تھے۔ یورپی لوگ ناقابلِ علاج بیماریوں کے لیے استنبول کا رُخ کرتے اور اکثر شفا یاب ہوکر لوٹتے۔ مونتین ترکی کے مختلف شہروں میں گھوما پھرا۔اُسے ہنستے مسکراتے، خوش اخلاق مسلمان ملے۔ اپنے ایک مضمون (On Cruelty) ’’ظلم و ستم‘‘ میں وہ لکھتا ہے کہ ترک اس درجہ دردِ دل رکھنے والے لوگ تھے، انہوں نے جانوروں کے لیے بھی شفاخانے بنارکھے تھے۔ ایسے سب جانور جو انسانوں کو سکھ پہنچانے میں کام آتے تھے، اُن کا علاج ویٹنری ڈاکٹرز کرتے تھے۔ مونتین کا قلم اس انسانی ہمدردی پر جذباتی ہوجاتا ہے اور وہ یورپ کے اجڈ، جاہل اور سفاک درندہ نما انسانوں کا تقابل ان لوگوں سے کرتا ہے۔ وہ خلافت عثمانیہ کو تہذیب و تمدن کا بلند مینارہ نور قرار دیتا ہے جس کی روشنیاں دوردراز تک پھیلتی جارہی ہیں اور جنہوں نے اندھیروں میں ڈوبی انسانیت کو اجالوں کے نئے اُفق متعارف کروائے ہیں۔ مونیتن تاسف سے لکھتا ہے کہ یورپ میں انسانوں کے لیے شفاخانے نہیں، مسلمانوں نے انسانوں کے علاوہ اپنے جانوروں کی تکلیفیں دور کرنے کا انتظام کررکھا ہے۔ ہمدردی کا یہ سائبان مخلوقات کے سروں پہ سایہ کیے ہوئے ہے۔
مونتین اگر آج زندہ ہوکر مسلم دنیا کو دیکھے تو یقین نہیں کرے گا۔ صرف شام کی صورت حال ہی اُس کی ساس طبیعت پر اتنی بھاری ہوگی کہ وہ اپنے حواس کھوبیٹھے گا۔ ہم لوگ ہسپتالوں میں کراہتے زخمیوں پر بم پھینک رہے ہیں۔ حلب میں 22 اپریل کی صبح سے گھمسان کی جنگ ہورہی ہے۔
اب تک 400 سے زائد مسلمان شہید ہوچکے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد 3 ہزار سے زائد ہے۔ ان زخمیوں کو علاج فراہم کرنے والے ہسپتال زمیں بوس ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹرز، نرسیں، دوائیاں خاک میں مل چکی ہیں۔ شام تین حصوں میں بٹ چکا ہے۔ دمشق اور قرب و جوار میں بشارالاسد انسانی کھوپڑیوں پر اپنا تخت استوار کیے براجمان ہے۔ ایک تہائی حصہ باغیوں کے کنٹرول میں ہے۔ یہ بشارالاسد کی بے دخلی کے خواہاں ہیں۔ حلب سے متصل ملک کا ایک بڑا حصہ داعش کے کنٹرول میں ہے۔ اس شہر میں داعش اپنے قدم جمارہی تھی۔ بشارالاسد نے رُوس کی مدد سے یہاں اندھادھند بمباری شروع کر رکھی ہے۔ شام جو چند برس پہلے ایک متمول ملک تھا، آج اُس کے مناظر دنیا کی قدیم تہذیبوں کے کھنڈرات سے زیادہ وحشت ناک ہیں۔ ملبے کا ڈھیر بنی بستیاں، اُجڑے برباد بازار، شمشان گھاٹوں جیسے اسکول و ہسپتال، ضروریات زندگی ناپید، مخلوقِ خدا جاں بلب۔ 2011ء سے اب تک 4 لاکھ سے زیادہ شامی ہلاک ہوچکے ہیں۔ اپاہجوں اور زخمیوں کی تعداد 12 لاکھ سے زیادہ ہوچکی ہے۔ فصلیں مدتوں سے بارود نے بھسم کردی ہیں۔ اناج ناپید ہوچکا ہے۔ انسانی المیہ اتنا دہشت ناک ہے کہ اُسے دیکھنا اور بیان کرنا بہت بڑے حوصلے کا طلبگار ہے۔ ہمارے میڈیا اور اخبارات نے شاید اسی لیے اپنا قیمت وقت اور جگہ ان معاملات پر ضائع نہیں کی۔ صرف الجزیرہ، سی
این این اور بی بی سی میں شام کی خبریں سب سے پہلے دکھائی جارہی ہیں۔ ان چینلوں پر دل خراش مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ شامی مسلمان چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں سوار سمندروں میں بھٹکتے پھررہے ہیں۔
ترکی کے علاوہ کسی اسلامی ملک نے ان کے لیے اپنے بند دروازے نہیں کھولے۔ ان کی بھاری تعداد یونان کے ساحلوں پر بے یارودمددگار پڑی ہے۔ خاردار تاروں کے پیچھے سے یونانی فوج ان کو دھمکاتی ہے۔ آگے آنے اور خوراک مانگنے پر ان کو ڈنڈے مارے جاتے ہیں۔ ان پر آنسو گیس کے گولے پھینکے جاتے ہیں۔ فرانس اور بلجیم میں حملوں کا خمیازہ یہ معصوم لوگ بھگت رہے ہیں۔ متعدد یورپی ملکوں نے شامی مہاجرین کو پناہ دینے سے انکار کردیا ہے۔ متعدد شامی مسلمان دریائے ڈینوب کے راستے ہنگری اور رومانیہ کے ساحلوں کے آس پاس بھٹک رہے ہیں۔ ہنگری اور رومانیہ کبھی ترک خلافت کے زیرنگیں تھے، آج وہ ان مہاجرین کو دھتکار رہے تھے۔ بلغاریہ جسے تاریخ میں ڈاکوئوں کی سرزمین کہا جاتا ہے، ان ڈاکوئوں نے اعلان کیا ہے کہ ہم کسی بھی شامی مہاجر کو زندہ واپس نہیں جانے دیں گے۔ میصیدونیہ نے یونان پر زور دیا ہے کہ لوگوں کو اُس کے ساحلوں کی طرف مت دھکیلیں۔ جرمنی جس نے فرانس اور بلجیم حملوں سے پہلے ان لوگو ںکو پناہ دینے کا فیصلہ کیا تھا، اب اپنا فیصلہ واپس لے چکا ہے۔ او آئی سی اور عرب لیگ وہ بھوسا بھرے شیر ہیں جو دور سے زندہ دکھائی دیتے ہیں، قریب جائو تو یہ زندگی کی حرارت سے خالی ہیں۔ ان تنظیموں نے اُمت کے دُکھوں کے لیے کبھی کوئی نمایاں کارنامہ انجام نہیں دیا۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ان مہاجرین کے لیے پالیسیاں بنارہے ہیں اور ان کے لیے فنڈز یورپ کے بعض ملک ادا کریں گے۔ افسوس کا مقام ہے کہ یورپی یونین اور جی ایٹ ممالک کی خیرات سے ان بے آسروں کو خوراک، لباس اور سائبان ملے گا۔ یہ اُس اُمت سے تعلق رکھتے ہیں جس کے بعض سربراہوں کی دولت یورپ اور امریکا میں بکھری پڑی ہے۔ اُس کی کل مالیت کھرب ہا ڈالرز ہے۔ جاں بلب پیاسوں کو ان سمندروں سے شبنم بھی میسر نہیں۔ اگر عالمی طاقتیں بشارالاسد کو اسلحہ اور جنگی سازو سامان فراہم نہ کرتیں تو وہ 2011ء ہی میں رخصت ہوجاتا۔ او آئی سی اور عرب لیگ کو خوابِ گراں سے بیدار ہونا چاہیے۔ متمول مسلمان ملک اپنا ایک فنڈ قائم کریں جن سے دنیا بھر میں بھٹکتے مسلمانوں کو سہارا مل سکے۔ مسلم قیادت مشرقِ وسطیٰ میں قیام امن کے لیے مسلک سے بالاتر ہوکر کوششیں کرے۔
بشارالاسد کو قائل کیا جائے کہ تمہاری وجہ سے ملک تباہ ہوگیا ہے۔ اگر ملک باشندوں سے خالی ہوگیا، ساری مخلوقِ خدا ہلاک ہوگئی یا مہاجر بن کر دنیا کے طول و عرض میں پناہ گزین ہوگئی تو وہ کن پر حکمرانی کرے گا؟ اُس کا انجام انگریزی ادب کے ایک کردار ’’رابنسن کروسو‘‘ جیسا ہوگا جو دعا کرتا تھا کہ حدنگاہ تک پھیلی زمینیں اُسے مل جائیں۔ اُس کا جہاز ڈوبا تو وہ تیر کر ایک ساحل پر جاپہنچا۔ حدنگاہ تک ساری زمینیں اُس کی تھی، کیونکہ کوئی انسان وہاں آباد نہ تھا۔ کروسو 26 سال وہاں حکمران رہا اور پھر گھر لوٹ آیا۔ بشارالاسد شاید کسی ایسی ہی جاگیر کا خواہاں ہے۔ وہ قبرستانوں کا جاگیردار بننا چاہتا ہے۔